امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم0%

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 13903
ڈاؤنلوڈ: 4249


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13903 / ڈاؤنلوڈ: 4249
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

ساتواں سبق

چاند کا سفر

" دُور کے ڈھول سہانے " بڑا مشہور مقولہ ہے۔ چاند جب تک ہماری دنیا سے بالکل الگ تھا ہم اُسے بڑا خوبصورت سمجھتے تھے۔ اس کے شہن جمال کا کلمہ پڑھا کرتے تھے، ہر خوبصورت چیز کی مشال اُسی سے دیا کرتے تھے لیکن ایک زمانہ آیا کہ یہ ڈھائی لاکھ میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہونے لگا اور ۲۱ / جولائی ۱۹۶۹ ٩ کو انسان کے قدم چاند پر پہونچ گئے۔ امریکہ کا راکٹ جب چاند کی طرف چلا تھا تو ساری دنیا حیرت میں پڑی ہوئی تھی کچھ لوگ دورِ حاضر کی ترقیات سے بے خبر ہونے کی وجہ سے اس کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ پنڈت لوگ اسے مذہب کے لئے ایک خطرہ سمجھ رہے تھے لیکن سائنس کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا ہوا تھا وہاں راتقں کی نیند اڑی ہوئی تھی اور ہر آخص اُس لمحہ کا منتظر تھا۔ جب انسانی قدم چاند کے سینے پر پہونچ جائیں۔ اسلام بھی اس ترقی کی اس دوڑ پو زیرلب مسکرا رہا تھا۔ آج وہ ساعت آ رہی ہے جب چودہ صدیوں سے انکار کرنے والے انسان کو اس بات کا یقین آ جائے گا کہ انسانی قدم ستاروں تک پہونچ سکتے ہیں۔ آج کی رات معراج کی رات کی گواہ بن کر آ رہی ہے۔ آج یونان کے پرانے فلسفہ کا جنازہ نکل رہا ہے۔ آج وہ چھوٹی حدیشیں روی کی ٹوکری میں جا رہی ہیں جن میں حضور سرکار دو کائنات کی جسمانی معراج کا انکار کیا گیا تھا۔ جیسے جیسے راکٹ چاند کے قریب ہوتا جاتا تھا۔ زین والوں کے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جاتی تھیں۔ کہیں جواری بازی لگا رہے تھے تو کہیں مذہب کے پجاری اپنے مذہب کی خیر منا رہے تھے۔ سائنس داں اپنی فتح مبین کے منتظر تھے۔ اور عہد نو اپنا کمال دکھانے کے لئے بیتاب تھا۔ خدا خدا کر کے ریڈیو نے اعلان کیا۔ " آدمی کے قدم چاند پر پہونچ گئے ۔" اس ایک آواز نے کتنے دلوں کو سکون بخشا۔ اور کتنوں کی دھڑکنیں تیز کر دی۔ خوشی کے چراغ جل رہے تھے محفل سجائی جا رہی تھیں عھد کا سامان ہو رہا تھا اور انسان اپنی اس فتح پر رقص کر رہا تھا۔

چاند پر پہونچنے والوں کے بیانات سے انداز ہوتا ہے کہ چاند کی دنیا سے ہماری زمین کہکں زکادہ خوبصورت ہے اب ہم چاند کو اتنا خوبصورت نہیں سمجھتے جیتنی خوبصورت ہماری زمکن ہے۔

چاند ہماری دنیا سے چھوٹا بھی ہے۔ ہم جس دنیا میں آباد ہیں وہ کئی ہزار میل میں پھیلی ہوئی ہے۔ چاند کی دنیا بھی کچھ چھوٹی نہیں ہے۔ لیکن ہماری اس دنیا سے چھوٹی ہے۔

چاند پر آدمیوں کی آبادی نہیں ہے۔ ہمارے دادا حضرت آدم جن کی اولاد کو آدمی کہا جاتا ہے اسی دنیا میں تشریف لائے تھے۔ اس لئے چاند پر کسی آدمی کا وجود نہیں ہے۔

چاند کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہواں تک پہونچتے پہونتے ہر چیز کا وزن گھٹ جاتا ہے یہوں تک کہ ٢ کیلوں وزنی چیز کو اگر چاند تک پہونچا دیا جائے تو صرف ایک کیلو وزن کی رہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جو آدمی چاند پر گئے تھے وہ اس قدر ہلکے ہو گئے تھے کہ چاند پر چلنے کے بجائے اچک رہے تھے اور ان کو اپنے جسم پر قابو نہیں تھا۔

آدمی کے چاند تک پہونچ جانے کے بہت سے فائدے ہیں انہیں فائدوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے مولا حضرت علی نے مسجد کوفہ میں اعلان کیا تھا کہ میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کے راستوں کو جانتا ہوں جس سے یہ انداز ہوا تھا کہ آسمان پر جانے کے راستے ہیں لیکن زمانے نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی، چاند پر پہونچنے کے بعد مولا کے اس کلام کی تصدیق ہو گئی اور یہ راز بھی کھل گیا کہ ابھی اور آگے جانے کے راستے بھی پائے جاتے ہیں، چناچہ آدمی برابر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

آٹھواں سبق

اللّٰہ والوں کی داستان

یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ پروردگار عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے جو سب معصوم بے گناہ پاک دامن، عالم، اطاعت گزار اور پابند حکم الٰہی تھے لیکن ھہ بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم کہ ان حضرات نے کیوں نکر انسانوں کی ہدایت کی اور کسی طرح انہیں سیدھے راستے پر لے آئے۔ اس سلسلہ میں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور کتنے بڑے بڑے امتحانات دینا پڑے۔ آج ہم آپ کو انہیں زحمتوں کی داستان سنانے بیٹھے ہیں۔

یاد رکھئے اس دنیا میں کچھ نہ تھا ہوا کا عالم تھا ایک سناٹا تھا یا ہوا تھا۔ انسانوں لا دور دور پتہ نہ تھا پروردگار عالم نے اپنے فرشتوں کو یہ حکم سنایا کہ میں ایک انسان بنانے والا ہوں جب اس کا پتلہ تیار ہو جائے اور اس میں روح داخل کر دی جائے تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔

سب نے حکم کو سنا اور سجدہ کرنے کے لئے تیار ہو گئیے لیکن انہیں فرشتوں کے بیچ ایک ابلیس بھی بیٹھا تھا جو خود فرشتہ نہ تھا لیکن اپنی صورت ویسی ہی بنا لی تھی اس نے دل میں سوچا کہ ہم اتنے دنوں سے اس دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارا قبضہ پرانا ہے۔ ہم کسی نئے آنے والے کو اپنے سے بہتر نہ مانیں گے ںرض کہ پروردگار نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک انسان بنایا جس کا نام آدم تھا۔ یہ ہم سب کے دادا تھے۔ سارے انسان انہیں کی اولاد میں ہیں۔ اسی لئے آدمی کہے جاتے ہیں۔ آدم کا پیدا ہونا تھا کہ سارے ملائکہ سجدہ میں گر پڑے اور ابلیس اپنی اکڑ پر باقی رہا۔ پروردگار نے پوچھا کہ تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا اس نے کہا کہ یہ میرے سامنے مٹی سے بنے ہیں اور مجھے تو نے آگ سے بنایا ہے آگ مٹی سے بہتر ہوتی ہے لہذا میں انہیں سجدہ نہیں کروں گا۔ پروردگار کو یہ بات بڑی لگی اور اس نے حکم دے دیا کہ تو میرے یہاں سے نکل جا۔ جناب آدم جنّت میں رہتے تھے وہاں طرح طرح کی نعمتیں موجود تھیں ایک دن پروردگار کا حکم پہونچا کہ دیکھو تم کو ہر طرح آزادی ہے جہاں چاہو رہو جو چاہو کھاؤ لیکن اس ایک خاص درخت کے قریب نہ جانا ورنہ مصیبتوں کا شکار ہو جوؤگے، شیطان وہیں موجود تھا اور یہ حکم سن رہا تھا اس نے سوچا کہ مجھے آدم کو سجدہ نہ کرنے ہی کی وجہ سے پروردگار کی بارگاہ سے نکالا گیا ہے لہذا مجھے ان سے بدلہ لینا چائیے اور جب تک یہ جنّت میں رہیں گے ان سے بدلہ نہیں لیا جا سکےگا اس لئے انہیں ناہر لے چلنا چائیے۔ یہ سوچ کر آدم علیہ اسلسلام کو پاس گیا اور ان سے لہا کہ آپ درخت کے قریب نہ جائیں لیکن اس کے پھل کھانے میں یکیا حرج ہے اس سے تو آپ کو منع نہیں کیا گیا ہے۔ جناب آدم نے پہلے انکار کیا مگر جناب حّوا جو آپ کی بیوی تھیں ان کے اصرار پر چند دانے اس درجت کے پھل کے کھا لئے۔ دانوں کا کھانا تھا کہ حکم خدا ہوا کہ اے آدم و حّوا زمین پر جاؤ چناچہ دونوں زمین پر چلے آئے۔ یہاں ان کی نسل پھیلی۔ آدم علیہ السلام کے لئے حضرت حّوا کو بھی بغیر ماں باپ کے پیدا کیا گیا تھا۔ یہ ہم سب کی دادی تھیں۔ شروع میں دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہابیل تھا اور ایک کا قابیل۔ ہابیل ینیک خصلت اور پاک باطن تھے اور قابیل حسد کرنے والا بد نفس تھا۔ ایک مرتبہ قابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل سے کہا کہ آب ہم دونوں اللّٰہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں جس کی قربانی قبول ہو جائے وہ زیادہ بلند و برتر مانا جائے۔ یہ کہ کر قربانیاں تیار کی گئیں۔ ہابیل کی طرف سے ایک موٹا تازہ دنبہ پیش ہوا، قابیل کی طرف سے بالیاں، خدا نے ہابیل کی قربانی کو قبول کر لیا قابیل یہ دیکھ کر جل گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر دیا۔ جناب آدم نے اس واقعہ کو دیکھا تو بہت روئے اور قابیل کے لئے بد دعا۔

حضرت آدم کے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتے ہیں :

۱ ۔ اللّٰہ کے حکم کے مقابلے میں اپنی رائے چلانے والا ابلیس کی طرح لعنت کے قابل بن جاتا ہے اور اللّٰہ کے دربار سے نکال دیا جاتا ہے

۲ ۔ اللّٰہ کے حکم کے بعد یہ نہیں دیکھنا چائیے کہ پتلہ مٹی کا ہے یا کسی اور چیز کا۔ عزت اللّٰہ کے حکم کی ہے نہ کہ مٹی کی۔ علم، تعزیہ کا ہم لوگ اسی لئے احترام کرتے ہیں کہ وہ حضرت عباس کے علم اور امام حسین کے روضہ کی شبیہ ہے۔ ہم کاغذ اور لکڑی کو نہیں مانتے بلکہ امام حسین کی طرف نسبت کو دیکھتے ہیں۔ جو فرشتوں نے کیا تھا وہ ہم کرتے ہیں اور ابلیس کی اکڑ سے بچتے ہیں۔

۳ ۔ جناب آدم کو ابلیس اپنا بدلہ لینے کے لئے جنّت سے باہر لے آیا تھا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ شیطان کے بہکانے میں نہ آئیں اور اللّٰہ کی اطاعت کرتے رہیں تاکہ شیطان ذلیل ہو اور حضرت آدم کی روح خوش ہو۔

۴ ۔ خدا اعمال قبول کرنے میں آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ جس کی نیت خراب ہوتی ہے اس کا عمل کبھی قبول نہیں ہوتا ۔

۵ ۔ شہید پر رونا نبی خدا کا طریقہ ہے اور نبی کی پیروی باعث ثواب ہے۔

سوالات

۱ ۔ سارے انسان کس کی اولا ہیں اور ان کو آدمی کیوں کہا جاتا ہے ؟

۲ ۔ جناب آدم حّوا کے زمین آنے کا سبب کیا تھا ؟

۳ ۔ جناب ہابیل اور قابیل نے کون سی نظر پیش کی ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

گردوں ۔ مقولہ ۔ فاصلہ ۔ راکٹ ۔ حیرت ۔ ترقیات ۔ تہلکہ ۔ زیرلب ۔ ساعت ۔ صدیوں ۔ انکار ۔ معراج ۔ جنازہ ۔ آدمی ۔ سائنس ۔ فتح مبین / عہدنو ۔ بیتاب ۔ بخشا ۔ دھڑکنیں ۔ رقص ۔ محفلیں ۔ بیانات ۔ خصوصیت ۔ اچک ۔ تصدیق ۔ راز ۔ مشرق ۔ بشیرت ۔ پاک دامن ۔ اطاعت گزار ۔ زحمتوں ۔ داستان ۔ ہوکا عالم ۔ پتلا ۔ ابلیس ۔ قبضہ ۔ قدرت کاملہ ۔ آدم ۔ حّوا ۔ نسل ۔ ہابیل ۔ قابیل ۔ خصلت ۔ پاک باطن ۔ حسد ۔ بد نفس ۔ بارگاہ ۔ قربانی ۔ دنبہ ۔ بالیاں ۔ بد دعا ۔ تعزیہ ۔ روضہ ۔ شبیہ ۔ تحفہ ۔

نواں سبق

حضرت نوح

حضرت آدم و حّوا کی جتنی بھی اولاد لڑکیاں یا لڑکے تھے سب آپس میں بہن بھائی تھے اور بہن بھائی میں شادی ہو نہیں سکتی تھی۔ اس لئے پروردگار عالم نے جنّت سے دو عورتیں بھیجیں جن سے جناب آدم کے دو بیٹوں کا نکاح ہوا۔ ایسا نہ ہوتا تو جناب آدم کی نسل ختم ہو جاتی اور آج دنیا میں کوئی آدمی نہ ہوتا۔ انہیں بیٹوں سے جناب آدم کی نسل بڑھی اور اس قدر بڑھی کہ ایک پوری دنیا آباد ہو گئی۔ لیکن ادھر ابلیس بھی جلا ہوا بیٹھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ آدم سے بدلہ لینا تو ناممکم ہو گیا۔ وہ اللّٰہ کے نبی ہیں اور معصوم ہیں ان سے گناہ ہو نہیں سکتا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ان کی اولاد سے بدلہ لیا جائے۔چناچہ اس نے سب کو بہکایا اور قریب قریب تمام لوگ اس کے کہنے میں آ گئے۔ اللّٰہ نے ان کی ہدایت کے لئے حضرت نوح کو بیجھا۔ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک ہدایت کی لیکن ۔ لوگوں نے ایک نہ سنی۔ آخر جناب نوح نے بد دعا کی پروردگار اب اس قوم پر عذاب نازل کر دے۔ یہ کسی صورت سے سیدھے راستے پر آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حکم ہوا نوح ایک کشتی بناؤ۔ جناب نوح نے کشتی بنانا شروع کی۔ لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کیا کہ یہاں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے اور آپ کشتی بنا رہے ہیں۔ جناب نوح یہ سب سنتے رہے اور اپنے کام میں لگے رہے۔ آخر جب کشتی تیار ہو گئی تو عذاب نازل ہو گیا۔ چاروں طرف زمین سے پانی ابلنے لگا۔ آسمان سے موسلادھار بارش ہونے لگی۔ جناب نوح نے اپنے ایماندار اور سچے ساتھیوں کو لیا اور کشتی پر سوار ہو گئے۔ آپ کا ایک بیٹا تیا کنعان۔ آپ نے اس سے بھی کہا کہ آ کشتی پر سوار ہا جا اس نے کہا کہ میں پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لے لونگا۔ جناب نوح نے کہا کہ آج کوئی بچانے والا نہیں ہے لیکن اس نے ایک نہ سنی اور مع پہاڑ کے ڈوب گیا۔ کشتی موجوں سے کھیلتی ہوئی بڑھتی رہی اور آخر ایک پہاڑ کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔ اس پہاڑ کا نام تھا جودی۔ طوفان ختم ہو گیا۔ پانی خشک ہو گیا اور دنیا پھر سے آباد ہونے لگی۔ جناب نوح کی نسل بھی جناب آدم کی طرح خوب پھیلی۔ اسی لئے آپ کو آدم شانی کہا جاتا ہے۔ طوفان میں ڈوبنے والوں میں جناب نوح کے بیٹے کے ساتھ اپ کی زوجہ بھی تھی۔ جس نے اپ کا حکم نہ مانا اور باآخر طوفان کی نذر ہو گئی۔

اس واقعہ سے ہمیں چند سبق ملتے ہیں :

۱۔ بھائی بہن کی شادی شروع ہی سے ناجائز تھی۔ اس لئے پروردگار نے دو عورتوں کا انتظام کیا تھا۔

۲۔ ابلیس کسی وقت بھی بہکانے سے باز نہیں آتا اس سے ہر وقت ہوشیار ہنے کی ضرورت ہے۔

۳۔ نبی کے حکم کی مخالفت کرنے کے بعد نبی کا بیٹا بھی نجات نہیں پا سکتا۔

۴ ۔ طوفانِ بلا میں نجات صرف کشتی کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہمارے نبی نے فرمایا تھا ہمارے اہلبیت کی مشال کشتی نوح کی ہے جُوانِ کا دامن تھام لے گا نجات پائے گا اور جُوان سے الگ ہو جائے گا وہ ڈوب مرےگا۔

۵ ۔ نبی کی مخالفت کے بعد نہ بیٹے کا بیٹا ہونا کام آ سکتا ہے اور نہ بیوی کا بیوی ہونا۔ اسلام میں اصل آدمی کا عمل ہے رشتہ کوئی چیز نہیں ہے۔

سوالات

۱۔ جناب آدم بیٹوں کا نکاح کس سے ہوا ؟

۲۔ جناب نوح نے کتنے سال تبلیغ کی ؟

۳۔ طوفان کیسے آیا اور جناب نوح نے کس طرح لوگوں کو بچایا ؟

۴۔ طوفان میں ڈوبنے والوں میں خاص لوگ کون تھے ؟

۵۔ جناب نوح کو آدم شانی کیوں کہا جاتا ہے ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

نکاح ۔ نسل ۔ آباد ۔ فریب ۔ مذاق ۔ موسلادھار ۔کنعان ۔ ناجائز ۔ نجارت ۔ کشتی ۔ رشتہ ۔ ادم ثانی ۔

دسواں سبق

جناب ابرائیم

طوفان نوح میں کافروں اور گنہگاروں کے ڈوب جانے کے بعد جناب نوح کے ساتھ وہی لوگ بچے تھے جو اللّٰہ کے ماننے والے، اس کے نبی پر ایمان لانے والے اور اس لی اطاعت کرنے والے تھے۔ لیکن شیطان اس وقت بھی تاک میں لگا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ نوح نے میرے تمام ساتھیوں اور پیروؤں کو ڈبو دیا ہے اور اب صرف اللّٰہ والوں کی بستی بسا رہے ہیں۔ اس لئے اس نے بھی اپنا کام شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں لوگوں کو بتوں اور مورتیوں کی پوجا پر آمادہ کر لیا۔ اسی زمانے میں ایک گمراہ بے ایمان بادشاہ بھی پیدا ہو گیا۔ جس کا نام نمر دو تھا۔ اس نے دیکھا کہ لوگ بتوں اور پتھروں کی پوجا کر رہے ہیں تو میری پوجا کیوں نہ کریں گے ؟

چناچہ اپنے خدا ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنی پوجا کرانے لگا۔ ٹھیک اُسی وقت پروردگار نے اپنا ایک خاص بندہ پیدا کر دیا جس کا نام ابرائیم تھا اور لقب " خلیل اللّٰہ " یعنی اللّٰہ کا دوست۔ جناب ابرائیم کے والد کا نام تاریخ تھا جو اُس وقت بھی صرف خدا کی عبادت کر رہے تھے لیکن آپ کا ایک چچا تھا آزر جس نے آپ کی پرورش کی تھی۔ وہ پکّا بت پرست اور کافر تھا۔ جب جناب ابرائیم کچھ بڑے ہوئے تو اس نے کچھ بت آپ کے حوالے کئے کہ جاؤ انہیں بازار میں بیچ آؤ۔ آپ ان بتوں کو ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتے ہوئے بازار کی طرف لے گئے اور اعلان کیا۔ کون ہے ان خداؤں کا خریدنے والا جنھیں ایک آدمی نے گڑھ کر بنایا ہے۔ یہ نہ بول سکتے ہیں نہ بات کر سکتے ہیں نہ کسی کی سُن سکتے ہیں نہ کسی کو سنا سکتے ہیں، نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی نقصان۔ لوگوں نے جناب ابرائیم کے ہاتھوں اپنے خداؤں کی بےعزتی کو دیکھ کر یہ طے کر لیا کہ ان کو تکلیف پہنچائی جائےگی۔ ایک مرتبہ آپ نے اُن کے عبادت خانے میں جا کر سب بتوں کو توڑ ڈالا۔ ان لوگوں نے بادشاہ کو خبر دی۔ اس نے سب سے صلاح مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ ایک مدت تک لکڑیاں جمع ہوتی رہیں اور آخرکار ان میں آگ لگا دی گئی۔ اب شعلوں کا یہ عالم تھا کہ آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔اگر کوئی پرندہ اُدھر سے اڑ جاتا تو جل کر خاک ہو جاتا۔ ایسی حالت میں جناب ابرائیم کو آگ میں پھینکنے کے لئے بلایا گیا۔ نمردو کا خیال تھا کہ ابرائیم اس آگ کو دیکھ کر ڈر جائیں گے اور ایک خدا کا کلمہ پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ لیکن جناب ابرائیم بالکل نہیں ڈرے۔ آپ کا آگ میں جانا تھا کہ آگ گزار ہو گئی۔ نمرود کا چہرہ اتر گیا اور خلیل خدا سر خرد ہو گئے۔

جب آپ بنّانوے برس کے ہو گئے تو خدا وند عالم نے آپ کو ایک فرزند عطا کیا جن کا نام اسمٰعیل تھا۔ جناب اسمٰعیل تیرہ برس کے ہوئے تو باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی عمارت بنائی وہی کعبہ جو اج تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اور جس کی طعف منھ کر کے تمام لوگ نماز پرھتے ہیں۔

اس کے بعد پروردگار عالم نے آپ کا ایک اور سخت امتحان لیا۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اسمٰعیل کو ذبح کر رہا ہوں۔ خواب سے بیدار ہو کر بیٹے سے ذکر کیا۔ بیٹے نے کہا بابا جان آپ حکم خدا پر عمل کریں میں بھی انشاء اللّٰہ صبر کروں گا۔ جناب ابرائیم بیٹے کو لے کر منیٰ میں ھہنچے اور بیٹے کو منھ کے بل لٹا دیا۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور گلے پر چھری پھیر دی۔ ادھر ابرائیم نے محبت خدا کا اتنا سخت امتحان دی ا ادھر خدا نے اس محبت کا بدلہ دے دیا۔ فوراً جنت سے ایک دنبہ آ گیا۔ اسمٰعیل چھڑی کے نیچے سے ہٹا دئے گئے اور دنبہ ذبح ہو گیا۔ جناب ابرائیم نے پٹی کھولی تو دیکھا کہ اسمٰعیل زندہ ہیں اور دنبہ ذبہ ہو گیا ہے۔ آپ کو بڑا افسوس ہوس کہ میرا امتحان ادھورا رہ گیا اور میں بیٹے کی قربانی پر صبر کا ثواب نہ لے سکا۔ آواز قدرت آئی ابرائیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ تم اپنے امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے اسمٰعیل کو اس لئے بچا لیا کہ ابھی آجری نبی کے بیٹے کی قربانی ہونے والی ہے جو تمہارے لئے اسمٰعیل سے زیادہ عزیز ہے۔ لہذا اگر تم اس کے غم میں آنسو بہاؤگے تو تمہیں اسمٰعیل کے ذبح کر دینے کا ثواب مل ہائےگا۔ جناب اسمٰعیل کی اسی قربانی کی یادگار ہے کہ آج تک بقرعید کے دن تمام حاجی مقام منیٰ میں جانور قربان کرتے ہیں۔ اور خلیل اللّٰہ کے اس جزبہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ بھی جناب اسمٰعیل کی نسل سے تھے۔

جناب ابرائیم کی زندگی سے ہمیں صند سبق ملتے ہیں :

۱۔ شیطان کے بہکانے سے ایک ایسا بھی قوت آ جاتا ہے جب انسان خو خدا ہونے کا دعویٰ کر دیتا ہے اور اس بات اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس نے خود اپنے کو نہیں پیدا کیا بلکہ کسی نےاس کو پیدا کیا ہے۔

۲۔ انسان اگر اللّٰہ کی راہ میں صبع سے کام لیتا ہے اور صحیح راستہ پر قائم رہ جاتا ہے تو پروردگار عالم بھی اس کی غیب سے مدد کرتا ہے اور اس کے لئے آگ کو گزار بنا دیتا ہے۔

۳۔ پروردگار اپنی قدرت کاملہ سے ہر وقت اولاد دے سکتا ہے چاہے انسان کی عمر سو برس کے قریب کیوں نہ ہو جائے۔

۴۔ نبی کا خواب عام آدمیوں کا خواب نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا نبی کا فریضہ ہوتا ہے۔

۵۔ امام حسین کی شہادت پر آنسو بہانے کا بیحد ثواب ہے اور شہادت کی یادگار کو باقی رکھنا اللّٰہ اور اللّٰہ والوں کا طریقہ ہے۔ اسی لئے حضرت اسمٰعیل کی شہادت کی یادگار تقریباً چار ہزار سال سے منائی جا رہی ہے اور اسلام نے اسے ارکان حج میں شامل کر لیا ہے۔

سوالات

۱۔ جناب ابرائیم کا لقب باپ اور چچا کا نام بتاؤ ؟

۲۔ جناب ابرائیم بتوں کو کس طرح بازار میں لے جاتے تھے ؟

۳۔ جناب ابرائیم کے ساتھ نمرود نے کیا سلوک کیا ؟

۴۔ جناب ابرائیم نے اپنا خواب کس طرح سچ کر دکھایا ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

گنہگاروں ۔ پیرؤں ۔ بت ۔ مورتی ۔ گمراہ ۔ نمرود ۔ پوجا ۔ جلیل ۔ والد ۔ عبادت ۔ آزر ۔ حوالہ ۔ صلاح ۔ شعلوں فرزند ۔ عطا ۔ سخت ۔ ذبح ۔ خواب ۔ صبر ۔ بقرعید ۔ غیب ۔ قدرت ۔ آسمان سے باتیں کرنا ۔

گیارہواں سبق

جناب موسیٰ

یوں تو ہر زمانے میں کوئی نبی یا رسول دنیا والوں کی ہدایت کے لئے ضرور رہا ہے اور کوئی زمانہ خدائی رہبر سے خالی نہیں رہا۔ لیکن یہ خدا وند عالم کا خاص انتظام رہا ہے کہ اس نے تھوڑے تھوڑے زمانے کے بعد کسی ایک بڑے رسول کو ضرور بھیج دیا جو اپنے وقت کی برڑی سے بڑی طاقت سے ٹکر لے کر دین کو دوبارہ اندہ کرے اور دنیا والوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے۔ انہيں لوگوں ميں سے ايک جناب موسیٰ بھی تھے۔ آپ کے والد کا نام "ومران" تھا۔ ہمارے مولا و آقا حضرت علیٰ کے والد ماجد کا نام بھی "عمران" تھا۔

افریقہ کے شمالی حصہ میں ایک ملک ہے جس کا نام ہے مصر وہاں ایک دريا بہتا ہے نیل۔ جناب ابرائیم کی دوسری پشت جو بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ مصر میں آباد تھی۔ یہاں ایک بادشاہ تھا۔ انتہائی ظالم، جابر، کافر، بے رحم، جس کا نام فروعن تھا۔ اس نے بنی اسرائیل کو بے حد ستایا تھا۔ ان کے مردوں کو اپنا غلام اور ان کی عورتوں کو اپنی لونڈی بنایا تھا۔ اس کا غرور اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ اس نے اپنے لئے خدائی تک کا دعویٰ کر دیا تھا۔ ایک دن اس کے نجومیوں نے اسے یہ اطلاع دی کہ تیرے ملک ميی ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری سلطنت کا تختہ پلٹ دیگا اور تیری خدائی کو خاک میں ملا دیگا۔ اس نے حکم عام دے دیا کہ اس سال کوئی لڑکا میرے ملک میں پیدا نہ ہونے پائے۔ جاسوس گھر گھر مقرد کر دئے۔ عورتوں کو ستایا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ستر ہزار بچوں کو قتل کرا دیا گیا۔ ادھر جناب موسیٰ کی ولادت کا وقت بھی قریب آ گیا۔ پروردگار نے یہ انتظام کیا کہ حمل کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو۔ چناچہ حکومت کی جاسوس عورتیں آئیں اور مادرِ موسیٰ کو دیکھ کر چلی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جناب موسیٰ کی ولادت ہو گئی۔ بچّہ کو دیک کر ماں بےحد پریشان ہوئی کہ ابھی حکومت کو خبر لگ جائے گی اور میرا بچہ قتل کر دیا جائےگا۔ یکایک ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی سمجھسنے والا سمجھا رہا ہے کہ بچہ کو ایک صندوق میں بند کر کے نیل میں ڈال دو اور پھر قدرت خدا کا تماشا دیکھو۔ جناب موسیٰ کی والدہ نے ایسا ہی کیا ادھر فرعون محل میں بیٹھا ہوا بیوی کے ساتھ نیل کا نظارہ کر رہا تھا۔ ایک دفعہ کیا دیکھا کہ صندوق موجوں سے کھیلتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ فروعن نے لہا اس صندوق کو نکالا جائے۔ صندوق نکالا گیا اور اب جو اسے کھولا گیا تو اس میں ایک ہنستا کھیلتا بچہ نظر آیا۔ فروعن نے چاہا کہ اسے قتل کرا دیں لیکن چونکہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی اس لئے اس کی بیوی مچل گئی اور اس نے کہا کہ اس بچہ کو میں پالوںگی۔ فروعن نے یہ درخواست منظور کر لی۔ اب جناب موسیٰ فروعن کے یہاں پرورش پانے لگے۔ لیکن جب دودھ پینے کا وقت آتا تو کسی عورت کا دودھ نہ پیتے۔ آخرکار زوجہ فرعون جو ایک مومنہ تھی سمجھ گئی اس نے کہا میں انتظام کرتی ہوں۔ مادر موسیٰ کو بلا بھیجا۔ وہ بحیشیت ایک دائی کے آتیں اور بچے کو دودھ پلا جاتیں۔ حضرت موسیٰ یوں ہی فرعون کے محل میں پلتے رہے ۔ آپ کا دستور تھا کہ فرعون کی گود میں بیٹھ کر اس کی ڈاڑھی نوچا کرتے تھے اور اس کے منھ پر طمانچے لگایا کرتے تھے۔ ایک دن فرعون کو یہ شبہ ہو گیا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کی خبر نجومیوں نے دی ہے چناچہ اس نے قتل کا ارادہ کیا۔ بیوی نے سمجھایا اور کہا کہ اس کا امتحان کر لو۔ اور خاص صلایحت والا ہو گا تو یاقوت کی برف ہاتھ بڑھا دیگا۔ دونوں چیزیں منگوائی گئیں۔ فرعون کے سامنے رکھی گئیں۔ فرعون نے بچہ کو چھوڑ دیا۔ حکم قدرت ہوا ۔ موسیٰ مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ آگ کی گرمی برداشت کر لر۔ جناب موسیٰ نے آگ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ ہاتھ میں چھالا پڑ گیا۔ قدرت نے اس چمکدار بنا کر " یدبیضا " کا لقب دیا۔ جب بڑے ہوئے اور فرعون نے انہیں قتل کرنا چاہا تو وہ مدینہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ پھر فرعون کے پاس گئے اور اسے حکم خدا کے مطابق دین اسلام کی دعوت دی۔ اس نے ایک نہ سنی اور کہنے لگا کہ کیا میں نے تم کو اسی دن کے لئے پالا تھا ؟ جناب موسیٰ نے کہا کہ دونوں عالم کا پالنے والا میرا خدا ہے جس نے میری پرورش کا انتظام تیرے گھر میں کر دیا تھا۔ یہ کہ کر آپ دربار سے باہر نکل آئے اور بنی اسرائیل سے کہا۔ فرعون ناقابل ہدایت ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تم لوگ یہاں سے نکل چلو۔ تمام لوگ تیار ہو گئے لیکن اس قدر ضدی تھے کہ نیل کے کنارے پہنچ کر اڑ گئے کہ دریا کے اس پار کس طرح جائیں۔ جناب موسیٰ نے عصا مارا۔ دریا میں راستہ بنایا۔ لوگوں نے کہا ہم سب ایک راستے سے نہ جائیں گے ہمارے بارہ خاندان ہیں۔ آپ نے بارہ راستے بنا دئے۔ لوگوں نے کہا ہم سب ایک دوسرے کو دیکھنا بھی چاتے ہیں۔ آپ نے دریا میں دریچے بھی بنا دئے۔ ادھر فرعون کو جب یہ اطلاع ملی کہ موسیٰ میری رعایا کو لئے جا رہے ہیں تو فوراً لشکر تیار کیا اور حضرت موسیٰ کا پیچھا کیا۔ نیل کے قریب پہنچ کر عجیب منظر دیکھا۔ دریا میں خشک راستے بنے ہوئے ہیں اور بنی اسرائیل نکلے جا رہے ہیں۔ فوراً گھوڑے کو اسی راستے پر ڈال دیا۔ آگے آگے موسیٰ کی قوم پیچھے پیچھے فرعون کا لشکر۔ ادھر موسی٢ کی قوم کا آجری آدمی نیل کے باہر نکلا، ادھر فرعون کے لشکر کا آجری آدمی نیل میں داخل ہوا اور دریا کے دونوں پاٹ مل گئے، جھوٹا خدا مع اپنی خدائی کے ڈوب مرا۔

جناب موسیٰ کے امزنے میں ایک پہاڑ تھا کوہ طور آپ اسی پہاڑ پر خدا سے باتیں کرنے جایا کرتے تھے۔ وہاں ایک درخت تھا جس میں خدا وند عالم حضرت موسیٰ کے ہر سوال کے جواب کے لئے آواز پیدا کر دیتا تھا۔ اور موسیٰ سے سن لیا کرتے تھے۔ آپ کی مشہور کتاب توریت بھی اسی پہاڑ پر اتری ہے۔ توریت اللّٰہ کی اتاری ہوئی کتاب تھی۔ اس میں ہدایت کی باتیں تھیں لیکن حضرت موسیٰ کے بعد ان کی قوم نے اسے بالکل بدل ڈالا اور آج کی توریت کو خدائی کتاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ کے ایک بھائی آپ کے وزیر، جانشین، اور تبلیغ میں آپ کے مکمل ساتھی تھے جن کا نام ہارون تھا۔ اسی لئے ہمارے رسول نے فرمایا تھا کہ میری اور علی کی وہی مشال ہے جو موسیٰ اور ہارون کی تھی۔ میں اپنے دور کا موسیٰ ہوں اور علی ہارون ہیں۔ اور کفار و منافقین فرعون ۔

اس واقعہ سے ہمیں صند سبق ملتے ہیں :

۱۔ اللّٰہ والے تبلیغ کی راہ میں کسی بڑی سے بڑی طاقت سے مر عوب نہیں ہوتے وہ اپنی آواز بہر حال بلند کرتے ہیں۔ چاہے اس راہ میں انہیں در بدری اختیار کرنا پڑے۔

۲۔ اللّٰہ جب کسی کو بچانا چاہتا ہے تو اس طرح بچاتا ہے کہ کسی کو وہم و گمان تک نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ جانی دشمن کے گھر میں بھی پرورش کرا دیتا ہے۔

۳۔ جناب موسیٰ بچے تھے لیکن آپ نے کسی کا فر عورت کا دودھ نہیں پیا کیونکہ نبی بچپن سے نبی اور معصوم ہوتا ہے اور معصوم کبھی کائی حرام چیز نہیں استعمال کر سکتا۔

۴۔ اگر کسی آدمی کی نیت خراب ہے تو وہ نبی کے راستے پر چلنے کے بعد بھی ڈوب جائے گا اور نجات نہ پا سکے گا۔ اس لئے کہ نجات ایک دارومدار زینت اور خلوص پر ہے۔

۵۔ اللّٰہ کے کلام کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کوئی زبان رکھتا ہے اور اسی زبان سے بولتا ہے بلکہ اس کے متکم ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ جس چیز میں چاہتا ہے کلام پیدا کر دیتا ہے۔

سوالات

۱ ۔ جناب موسیٰ کے والدہ کا نام کیا تھا ان کی پرورش کا واقعہ بتاؤ ؟

۲۔ جناب موسیٰ کس طرح تبلیغ اور دریائے نیل کے پاس کیا واقعہ پیش آیا ؟

۳۔ توریت کہاں سے اتری اور امت موسیٰ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

بارہواں سبق

جناب یوسف

حضرت ابرائیم کے دو بیٹے تھے اسمٰعیل اور اسحاق۔ اسمٰعیل سے نسل ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ تھے ااور اسحاق کی نسل یعقوب سے نسل چلی۔اس نسل کو بنی اسرائیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جناب یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ ان میں سے جناب یوسف سب سے زیادہ خوبصورت، حسین، باکمال اور شریف تھے۔ جناب یعقوب انہیں بیحد دوست رکھتے تھے۔ ان کے بھائیوں نے جب یہ دیکھا کہ بابا جان یوسف کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہماری چعف توجہ نہیں فرماتے تو آپس میں یہ طےکر لیا کہ یوسف کو قتل کر دیا جائے۔ ان کے مرنے کے بعد بابا جان ہم سب کو چاہنے لگیں گے۔ ادھر جناب یوسف نے خواب میں دیکھا کہ مجھے گیارہ ستارے سجدہ کر رہے ہیں اور اس خواب کو باپ اے بیان کیا۔ باپ نےیہ تعبیر دی کہ گیارہ ستاروں سے مراد تہارے گیارہ بھائی ہیں جو تم سے فضیلت میں بہت کم ہیں اور تم اس قابل ہو کہ وہ تمہارے سامنے سر جھکائیں۔ لیکن دیکھو اس خواب کو اپنے بھائیوں سے نہ بیان کرنا۔ ورنہ وہ تمہاری جان کے دشمن ہو جائیںگے۔

جناب یوسف نے اپنے خواب کو چھپا لیا لیکن ادھر وہ لوگ پہلے ہی سازش کر چکے تھے۔ چناچہ ایک دن باپ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ ھوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دئجیے۔ ہم لوگ سیر و شکار کے لئے جا رہے ہیں۔ وہاں ان کا بھی دل بہل جائےگا۔ جناب یعقوب ان کی نیت کو پہچان گئے اور بحکم خدا گواہ ہوئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم انہیں کسی جگہ چھوڑ کر چلے جاؤ اور کوئی بھیڑیا ا کر کھا جائے۔ لوگوں نے کہا یہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ یہ ہمارا چھوٹا بھائی ہے ہم بھلا اس کو جنگل میں اکیلا چھوڑ سکتے ہیں۔ جناب یعقوب نے اجازت دی دی وہ لوگ یوسف کو لے کر گئے اور جنگل میں ایک کنویں میں پھنک دیا اور ان کی قمیض کو جانور کے خون میں لت پت کر کے آئے۔ باپ کے سامنے آتے ہی سب نے رونا شروع کر دیا۔ جناب یعقوب نے کہا کہ آخر رونے کا سبب کیا ہے۔ سب نے کہا۔ بابا جاب آپ نے سچ کہا تھا ہم لوگوں نے یوسف کو سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ ادھر سے ایک بھیڑیا آیا اور انہیں کھا گیا۔ یہ ان کی قمیض ہے جس پر ان کے خون کے دبھے موجود ہیں۔ جناب یعقوب نے سر جھکا لیا اور فرمایا خدا ہی مجھے صبر دیگا۔ اور یہ کہ کر رونا شروع کر دیا اور اتنا روئے کہ روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئی۔ آپ کے دوسرے لڑکے کے برابر سمجھاتے رہے بلکہ آپ کے رونے کا مذاق تک اڑاتے رہے لیکن آپ نے رونا موقوف نہیں کیا۔

ادھر جنگل سے ایک قافلہ کا گزر ہوا۔ ان لوگوں نے چاہا کہ کنویں سے پانی نکال لیں۔ اب جو کنویں میں ڈول ڈالا تو ڈول کے ساتھ حضرت یوسف باہر آ گئے۔ قافلے والے یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس لئے کہ اس زمانے میں آدمیوں کے بیچنے کا عام رواج تھا۔ ان لوگوں نے سوچا کہ اس خوبصورت اور باکمال بچۓ کے دام اچھے لگیںگے۔ یہ سوچ کر یوسف کو ساتھ لے چلے۔ مصر کے بازار میں لائے۔ وہاں انہیں فروخت کیا۔ بادشاہ مصر نے خرید لیا اور اب یوسف قصر شاہی میں رہنے لگے۔ وہاں ایک خاتون تھی جس کا نام تھا زلیخا۔ اس نے جب یوسف کے خوبصورت صہرے کو دیکھا تو انہیں چاہنے لگی۔ لیکن حضرت یوسف نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ وہ اس بات سے جل گئی اور اس نے بادشاہ سے شکایت کر دی کہ اس جوان کی نیت خراب ہے۔ اس کا کردار اچھا نہیں ہے۔

بادشاہ نے جناب یوسف سے صفائی چاہی۔ جناب یوسف نے کہا کہ یہ ایک بچہ گہوارے میں پڑا ہے۔ اس سے پوچھو یہ گواہی دیگا۔ لوگوں نے اس بچے سے دریافت کیا۔ اس نے یوسف کے معصوم ہونے کی گواہی دی۔ عرصہ کے بعد جناب یوسف کو بیحد عصت ملی۔ آپ کو شاہیخزانے کا مالک و منتظم بنا دیا گیا۔ آپ کے زمانے میں ایک مرتبہ ملک میں قحط پڑا۔ بادشاہ نے قحط کے مارے ہوئے لوگوں کو شاہی خزانے سے امداد دینے کا اعلان کر دیا۔ چاروں طرف سے لوگ آنے لگے۔ بھوک سے عاجز آکر جناب یوسف کے بھائی بھی آئے۔ آپ نے ان سب کو پہچان لیا۔ لیکن ان لوگوں نے آپ کو نہیں پہچانا اور آخر کار آپ نے یہ ظاہر کر دیا کہ میں وہی یوسف ہوں۔ جسے تم لوگوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا۔ دیکھو پروردگار نے مجھے کیا عزت دی ہے اوت تم لوگوں کو کس طرح میرا محتاج بنا دیا ہے۔ وہ لوگ نے حد شرمندہ ہوئے اور معافی مانگی۔ جناب یوسف نے سب کو معاف کر دیا۔ اور جب جناب یعقوب کو بیٹے کی سلامتی کی خبر دی گئی تو آپ کی گئی ہوئی بینائی پلٹ آئی اور گوا آپ کو دوبارہ زندہگی مل گئی۔

اس واقعہ سے ہمیں چند سبق ملتے ہیں :

۱۔ حسد کا انجام برا ہوتا ہے۔ جناب یوسف کے بھائیوں کو آخرکار ذلت کا منھ دیکھا پڑا۔

اسی لئے ہمارے نبی نے فرمایا ہے کہ حسد ايمان کو اسی طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکری کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

۲۔ کسی ھر جھوٹی تہمت لگانا بہت بری بات ہے۔ آخر جناب یوسف کی گواہی گہوارے کے بچۓنے دے دی اور زلیخا کو شرمندہ ہونا پڑا۔

۳۔ نبی کو آئندہ زمانے کا بھی علم ہوتا ہے۔ اسی لئے جناب یعقوب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے تم لوگوں کے ساتھ بھیجنے میں خطرہ محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود لڑکوں کی آنکھ نہ کھلی، جرم کر بیٹھے۔ یہ نہ سمجھے کہ نبی سب کچھ جانتا ہے۔

۴۔ خبر قتل پر آنسو بہانا سنت پیغمبر ہے۔

۵۔ قتل پر رونے سے وہی لوگ روکتے ہیں جو قتل میں شریک ہوتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ رونے سے ہمارے ظلم کا پردہ چاک ہو جائےگا۔

سوالات

۱ ۔ بنی اسرائیل کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ جناب یوسف نے خواب میں کیا دیکھا اور جناب یعقوب نے اس کے

۳ ۔ بیان کرنے سے کیوں روکا ؟

۴ ٣۔ یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۵ ٤۔ جناب یوسف کی عصمت کی گواہی کس نے دی ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

حسین ۔ باکمال ۔ شریف ۔ سجدہ تعبیر ۔ فضیلت ۔ سازش ۔ قصر ۔ زلیخا دریافت ۔ قحط ۔ بنیائی ۔ محتاج ۔ سرمندہ