دسواں سبق
جناب ابرائیم
طوفان نوح میں کافروں اور گنہگاروں کے ڈوب جانے کے بعد جناب نوح کے ساتھ وہی لوگ بچے تھے جو اللّٰہ کے ماننے والے، اس کے نبی پر ایمان لانے والے اور اس لی اطاعت کرنے والے تھے۔ لیکن شیطان اس وقت بھی تاک میں لگا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ نوح نے میرے تمام ساتھیوں اور پیروؤں کو ڈبو دیا ہے اور اب صرف اللّٰہ والوں کی بستی بسا رہے ہیں۔ اس لئے اس نے بھی اپنا کام شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں لوگوں کو بتوں اور مورتیوں کی پوجا پر آمادہ کر لیا۔ اسی زمانے میں ایک گمراہ بے ایمان بادشاہ بھی پیدا ہو گیا۔ جس کا نام نمر دو تھا۔ اس نے دیکھا کہ لوگ بتوں اور پتھروں کی پوجا کر رہے ہیں تو میری پوجا کیوں نہ کریں گے ؟
چناچہ اپنے خدا ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنی پوجا کرانے لگا۔ ٹھیک اُسی وقت پروردگار نے اپنا ایک خاص بندہ پیدا کر دیا جس کا نام ابرائیم تھا اور لقب " خلیل اللّٰہ " یعنی اللّٰہ کا دوست۔ جناب ابرائیم کے والد کا نام تاریخ تھا جو اُس وقت بھی صرف خدا کی عبادت کر رہے تھے لیکن آپ کا ایک چچا تھا آزر جس نے آپ کی پرورش کی تھی۔ وہ پکّا بت پرست اور کافر تھا۔ جب جناب ابرائیم کچھ بڑے ہوئے تو اس نے کچھ بت آپ کے حوالے کئے کہ جاؤ انہیں بازار میں بیچ آؤ۔ آپ ان بتوں کو ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتے ہوئے بازار کی طرف لے گئے اور اعلان کیا۔ کون ہے ان خداؤں کا خریدنے والا جنھیں ایک آدمی نے گڑھ کر بنایا ہے۔ یہ نہ بول سکتے ہیں نہ بات کر سکتے ہیں نہ کسی کی سُن سکتے ہیں نہ کسی کو سنا سکتے ہیں، نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی نقصان۔ لوگوں نے جناب ابرائیم کے ہاتھوں اپنے خداؤں کی بےعزتی کو دیکھ کر یہ طے کر لیا کہ ان کو تکلیف پہنچائی جائےگی۔ ایک مرتبہ آپ نے اُن کے عبادت خانے میں جا کر سب بتوں کو توڑ ڈالا۔ ان لوگوں نے بادشاہ کو خبر دی۔ اس نے سب سے صلاح مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ ایک مدت تک لکڑیاں جمع ہوتی رہیں اور آخرکار ان میں آگ لگا دی گئی۔ اب شعلوں کا یہ عالم تھا کہ آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔اگر کوئی پرندہ اُدھر سے اڑ جاتا تو جل کر خاک ہو جاتا۔ ایسی حالت میں جناب ابرائیم کو آگ میں پھینکنے کے لئے بلایا گیا۔ نمردو کا خیال تھا کہ ابرائیم اس آگ کو دیکھ کر ڈر جائیں گے اور ایک خدا کا کلمہ پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ لیکن جناب ابرائیم بالکل نہیں ڈرے۔ آپ کا آگ میں جانا تھا کہ آگ گزار ہو گئی۔ نمرود کا چہرہ اتر گیا اور خلیل خدا سر خرد ہو گئے۔
جب آپ بنّانوے برس کے ہو گئے تو خدا وند عالم نے آپ کو ایک فرزند عطا کیا جن کا نام اسمٰعیل تھا۔ جناب اسمٰعیل تیرہ برس کے ہوئے تو باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی عمارت بنائی وہی کعبہ جو اج تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اور جس کی طعف منھ کر کے تمام لوگ نماز پرھتے ہیں۔
اس کے بعد پروردگار عالم نے آپ کا ایک اور سخت امتحان لیا۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اسمٰعیل کو ذبح کر رہا ہوں۔ خواب سے بیدار ہو کر بیٹے سے ذکر کیا۔ بیٹے نے کہا بابا جان آپ حکم خدا پر عمل کریں میں بھی انشاء اللّٰہ صبر کروں گا۔ جناب ابرائیم بیٹے کو لے کر منیٰ میں ھہنچے اور بیٹے کو منھ کے بل لٹا دیا۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور گلے پر چھری پھیر دی۔ ادھر ابرائیم نے محبت خدا کا اتنا سخت امتحان دی ا ادھر خدا نے اس محبت کا بدلہ دے دیا۔ فوراً جنت سے ایک دنبہ آ گیا۔ اسمٰعیل چھڑی کے نیچے سے ہٹا دئے گئے اور دنبہ ذبح ہو گیا۔ جناب ابرائیم نے پٹی کھولی تو دیکھا کہ اسمٰعیل زندہ ہیں اور دنبہ ذبہ ہو گیا ہے۔ آپ کو بڑا افسوس ہوس کہ میرا امتحان ادھورا رہ گیا اور میں بیٹے کی قربانی پر صبر کا ثواب نہ لے سکا۔ آواز قدرت آئی ابرائیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ تم اپنے امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے اسمٰعیل کو اس لئے بچا لیا کہ ابھی آجری نبی کے بیٹے کی قربانی ہونے والی ہے جو تمہارے لئے اسمٰعیل سے زیادہ عزیز ہے۔ لہذا اگر تم اس کے غم میں آنسو بہاؤگے تو تمہیں اسمٰعیل کے ذبح کر دینے کا ثواب مل ہائےگا۔ جناب اسمٰعیل کی اسی قربانی کی یادگار ہے کہ آج تک بقرعید کے دن تمام حاجی مقام منیٰ میں جانور قربان کرتے ہیں۔ اور خلیل اللّٰہ کے اس جزبہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ بھی جناب اسمٰعیل کی نسل سے تھے۔
جناب ابرائیم کی زندگی سے ہمیں صند سبق ملتے ہیں :
۱۔ شیطان کے بہکانے سے ایک ایسا بھی قوت آ جاتا ہے جب انسان خو خدا ہونے کا دعویٰ کر دیتا ہے اور اس بات اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس نے خود اپنے کو نہیں پیدا کیا بلکہ کسی نےاس کو پیدا کیا ہے۔
۲۔ انسان اگر اللّٰہ کی راہ میں صبع سے کام لیتا ہے اور صحیح راستہ پر قائم رہ جاتا ہے تو پروردگار عالم بھی اس کی غیب سے مدد کرتا ہے اور اس کے لئے آگ کو گزار بنا دیتا ہے۔
۳۔ پروردگار اپنی قدرت کاملہ سے ہر وقت اولاد دے سکتا ہے چاہے انسان کی عمر سو برس کے قریب کیوں نہ ہو جائے۔
۴۔ نبی کا خواب عام آدمیوں کا خواب نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا نبی کا فریضہ ہوتا ہے۔
۵۔ امام حسین کی شہادت پر آنسو بہانے کا بیحد ثواب ہے اور شہادت کی یادگار کو باقی رکھنا اللّٰہ اور اللّٰہ والوں کا طریقہ ہے۔ اسی لئے حضرت اسمٰعیل کی شہادت کی یادگار تقریباً چار ہزار سال سے منائی جا رہی ہے اور اسلام نے اسے ارکان حج میں شامل کر لیا ہے۔
سوالات
۱۔ جناب ابرائیم کا لقب باپ اور چچا کا نام بتاؤ ؟
۲۔ جناب ابرائیم بتوں کو کس طرح بازار میں لے جاتے تھے ؟
۳۔ جناب ابرائیم کے ساتھ نمرود نے کیا سلوک کیا ؟
۴۔ جناب ابرائیم نے اپنا خواب کس طرح سچ کر دکھایا ؟
ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔
گنہگاروں ۔ پیرؤں ۔ بت ۔ مورتی ۔ گمراہ ۔ نمرود ۔ پوجا ۔ جلیل ۔ والد ۔ عبادت ۔ آزر ۔ حوالہ ۔ صلاح ۔ شعلوں فرزند ۔ عطا ۔ سخت ۔ ذبح ۔ خواب ۔ صبر ۔ بقرعید ۔ غیب ۔ قدرت ۔ آسمان سے باتیں کرنا ۔