سولہواں سبق
اسلامی علوم
دنیا میں ہزاروں قسم کے علوم پائے جاتے ہیں۔ بعض کا تولق مذہب سے بہت دور کا ہے اور بعض کا تعلق بہت قریب کا بعض علوم ایسے بھی ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ مذہب نے ان کے خطرات کے پیش نظر انھیں حرام قرار دے دیا ہے۔ جن علوم کا تعلق مذہب سے دور کا ہے انھیں میں سے فلسفہ ، منطق ، طب ، کیمیا ، فلکیات سانئنس وغیرہ ہیں۔
فلسفہ اس علم کا نام ہے جس میں چیزوں کی حقیقت دریافت کی جاتی ہے۔
منطق وہ علم ہے جس میں کسی بات کو ثابت کرنے کا طریقہ بتلایا جاتا ہے۔
طب وہ علم ہے جس کے ذریعہ انسان کے جسم کی صحت کا انتظام کیا جاتا ہے۔
کیمیا وہ علم ہے جس میں چیزوں کے اجزائ اور ان کی مقدار دریافت کی جاتی ہے۔
فلکیات ان معلومات کا نام ہے جن کا تعلق آسمانوں ستاروں اور گردش و کشش سے ہے۔
سائنس اس علم کا نام ہے جس میں کائنات کی نئ نئ معلومات حاصل کر کے اس سے تازہ ایجادات کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ان علوم کا مذہب سے صرف اتنا ہی تعلق ہو سکتا ہے کہ ان سے جب کائنات کی وسعت ، عظمت ، ترتیب تنظیم کا علم ہوگا تو انسان یہ سوچے گا کہ جب صنعت اتنی مستحکم و مضبوط ہے تو صانع کیسا ہوگا جب مخلوق کا یہ علم ہے تو خالق کا کیا مرتبہ ہوگا اور یہ بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب اسے مخلوق کی اہمیت کا انداز ہو جائے گا ورنہ معمولی صنعت سے صانع کی معمولی لیاقت ہی کا اندازہ ہو سکتا ہے اور بس !۔
وہ علوم جن کو مذہب نے حرام و ناجائز قرار دے دیا ہے ان میں سے علم نجوم ، سحر ، قیافہ ، کہانت وغیرہ ہیں۔
علم نجوم وہ علم ہے جس میں ستاروں کی گردش اور ان کی کیفیت کے ذریعہ سے مستقبل کے حالات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
علم سحر وہ علم ہے جس میں دوسروں کے ذہن پر قابو پا لر طرح طرح کی حیرت انگیز باتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
علم قیافہ و کہانت وہ علم ہے جس میں جسم کی ساخت یا دوسرے آثار کو دیکھ کر کسی کے کردار ، نسب یا مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ان علوم میں کوئی استحکام یا مضبوطی نہیں ہے ایک کی بنیاد صرف ایک تخمینہ پر ہے جس پر کوئی دلیل بھی قائم نہیں ہوتی۔ اس لئے اسلام ایسے علوم پر وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اسلام کا منشا یہ ہے کہ انسان ان علوم کے حاصل کرنے میں وقت صرف کرے جن کے طالبیں قوت و استحکام ہو یا وہ انسانی معاژرے کے لئے مفید و منفت بخش ہوں۔
اسلام سے براہ راست تعلق واکے علوم میں علم وقف ، تفسیر ، حدیث ، اصول فقہ ، کلام ، رجال ، جال ، درایت وغیرہ ہیں۔ ان علوم کا مذہب سے قریبی تعلق اس لئے ہے کہ مذہب کا مقصد انسانی زندگی کو منظم اور انسانی قلب و دماغ کو مطمعئن بنانا ہے۔ چاہے علوم تنظیم زندگی اور تسکین قلب سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ ان میں انسان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس کے احکامات و تعلیمات کیا ہیں ؟ نجات کا ذریعہ کیا ہے ؟ اصول و قوانین کے پرکھنے کا وسیلہ کیا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ ان باتوں کے معلوم ہونے کے بعد دل میں جذبہ سکون پیدا نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ان علوم تعریف اور ان کے مقصد سے واضح ہوتا ہے۔
علوم فقہ ۔ وہ علم ہے جس میں شریعت کے عملی احکام کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ دریافت کیا جاتا ہے۔
علم تفسیر ۔ وہ علم ہے جس میں قرآن کے مشکل پیچیدہ اور پوشیدہ مطالب کے رخ سے نقاب اٹھائی جاتی ہے۔
علم حدیث ۔ وہ علم ہے جس میں کسی معصوم کے بیان کی نوعیت پر گفتگو کی جاتی ہے۔
اصول فقہ ۔ وہ علم ہے جس میں قرآن و حدیث و عقل وغیرہ سے احکام اخذ کرنے کے قوانین ق قواعد بتائے جاتے ہیں۔
کلام ۔ وہ علم ہے جس میں باطل خیالات کو روک کے صحیح عقائد کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔
رجال ۔ وہ علم ہے جس میں حدیث بیان کرنے والے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
درایت ۔ وہ علم ہے جس میں حدیث کی عقل حشیت پر گفتگو کر کے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اسلامی علوم کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی سرپرستی ہمیشہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر علم میں پہلی کا شرف صرف ان کی چاہنے والے شیعوں کو حاصل ہے۔ خود ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی ان علوم میں بے مشل و نظیر کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ علم فقہ میں امام رضاؐ ۔ علم تفسیر میں تفسیر امام عسکریؐ ۔ علم حدیث میں مجموعہ امیر المومنینؐ ۔ علم اصول فقہ میں مباحش الفاظ امام جعفر صادق ۔ علم کلام میں نہجح البلاغہ اور احتجاجات ائمہؐ ۔ علم و روایت کے لئے تعارض احادیث کے فیصلے آج بھی شمع راہ بنے ہوئے ہیں۔
چاہنے والوں کی علمی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ امام جعفر صادق کے نوشا گرد مسجد کوفہ میں ایک ایک جماعت کو درس دیا کرتے تھے اور آپ کے اصحاب نے چار سو کتابیں مخلتف علوم میں تالیف کی ہیں۔
دینی علوم کے علاوہ دیگر علوم میں بھی ائمہؐ معصومین کے خدمات شہرا آفاق ہیں۔ چنانچہ علم طب میں طب الرضاؐ ۔ طب الائمہ قغیرہ ۔ علم نجوم میں ارشادات امیر المومنینؐ ۔ فلسفہ امام جعفر صادقؐ کے منظر ے ، ادب میں نہجح البلاغہ وغیرہ جیسے مجموعے یاد گار کی حیشیت رکھتے ہیں۔ حدیہ ہے کہ علم کیمیا (کیمسٹری) جس پر آج کی ترقیوں کا دارومدار ہے اس کے موجد بھی جابر بن حیان ہیں جو امام جعفر صادقؐ کے مخصوص شاگرد تھے اور جنھوں نے اپنی کتابیں اس بات کا اعتراف قرار بھی کیا ہے۔
اسلامی علوم کی تاریخ سے شیعوں کے کارنامے نکال لینے کے بعد تاریخ اتنی ہی بھونڈی اور بھدی شکل اختیار کر لیتی ہے جتنی غزوات رسولؐ اکرم سے حضرت علیؐ کا نام الگ کر دینے کے بعد۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کو زندہ رکھیں، ان کی یادگاروں کی بقا کا انتظام کریں۔ ان کی محنتوں کو ضائع اور برباد نہ ہونے دیں اور یاسا طرز عمل اختیار کریں جسے دیکھنے کے بعد دنیا کو یہ کہنا پڑے کہ یہ انھیں بزرگوں کے خلف ہیں جنھوں نے علوم دین کی اشاعت میں دن رات ایک کر دئے تھے۔
ان الفاظ کے معنی بتاؤ :
قسم ۔ علوم ۔ تعلق ۔ خطرات ۔ فلسفہ ۔ منطق ۔ طب ۔ کیمیا ۔ فلکیات ۔ سائنس ۔ گردش ۔ کشش ۔ سلیقہ ۔ وسعت ۔ ترتیب ۔ ،سکحم ۔ ،خلوق ۔ صانع ۔ اہمیت ۔ صنعت ۔ علم نجوم ۔ سحر ۔