امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم0%

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 13906
ڈاؤنلوڈ: 4249


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13906 / ڈاؤنلوڈ: 4249
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

تیرہواں سبق

حضرت عیسیٰ علیہ السلام

دنیا میں کوئی امانہ ایسا نہیں آتا جب سبھی لوگ اچھے اور پارسا بن جائیں ہر زمانے میں کچھ لوگ اللّٰہ والے، نیک، متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کافر، بتدین، بدکار اور بےعمل ہوتے ہیں۔ عام طور پر انسانوں کی گمراہی کا یہ سبب ہوتا ہے کہ سماج میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جو اپنے اچر و روخ کی وجہ سے نمایاں جگہ حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں پر ان کا رعب جم جاتا ہے اور وہ اپنے غرور کی بنا پر نئی نئی باتیں نکال کر لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ جب تک لوگ اللّٰہ کو مانتے رہیں گے۔ ہماری اطاعت و عبادت نہ کریں گے ۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ انہیں خدا کے راستے ہے ہٹا دیا جائے۔ تاکہ یہ ہماری پوجا کرنے لگیں۔ اور ہماری باتوں پر عمل کریں۔ پروردگار نے اس کا یہ انتظام کیا کہ زمانے میں ایسا نبی بھیج دیا جو اس قوت کے تمام کمالات کو توڑ پیش کر سکے اور لوگوں کو یہ سمجھا سکے کہ سرکشی اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتی جہاں تک ایک خدا کا بندہ پہونچ سکتا ہے۔

جناب موسیٰ کے زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا۔ روردگار نے انہیں یہ معجزہ دی دیا کہ وہ ہر جادو کو بیکار کر دیں۔ چناچہ جب فروعن کے دربار میں جادو گروں نے اپنی رسّیوں ک جادو کے زور سے سانپ بنا دیا۔ تو حضرت موسیٰ نے بھی اپنا عصا پھینک دیا اور وہ اثردہا بن کر تمام سانپوں کو نگل گیا۔ حضرت موسیٰ کے بعد طب اور حکمت کا دور دورہ ہوا۔ ایسے ایسے حکیم اور اتنے تجربہ کار طبیب پیدا ہو گئے کہ جن کے علاج کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے اور اسی کمال کی بنا پر ان لوگوں نے خدائی احکام کو ماننا چھوڑ دیا تھا۔ خدا وند عالم نے ان کے جواب میں جناب عیسیٰ کو بھیج دیا جو مردہ کو زندہ کر دیتے تھے۔ جناب عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم اپنے قوت کی انتہائی پارسا اور پاک دامن خاتون تھیں۔ ہمیشہ اللّٰہ کے گھر کی خدمت اور اللّٰہ کی عبادت کیا کرتی تھیں۔ اسی لئے آپ نے شادی بھی نہیں کی تھی لیکن اللّٰہ نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ایک فرزند عطا کر دیا۔ جن کا نام جناب عیسیٰ تھا۔ حضرت عیسیٰ کا پیدا ہونا تھا کہ چاروں چعف ہل چل مچ گئی ہر شخص نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مریم کے یہاں بغیر شادی کے بچہ کیوں نکر پیدا ہوا ہے اور آخر میں کچھ لوگ جناب مریم ہی کے پاس آ گئے اور ان سے بھی یہی سوال کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ مجھ سے مت پوچھو یہ تو خود بچہ بتائےگا۔ لوگوں نے کہا کہ بچے سے کیوں نکر بات پوچھی جائے گی ؟ یہ سننا تھا کہ حضرت عیسیٰ گہوارے ہی سے بول پڑے۔ میں اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ مجھے اللّٰہ نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ جناب عیسیٰ کا بولنا تھا کہ ساری قوم چپ ہو گئی اور آپ نے واضح کر دیا کہ جو گہوارے میں بات کر سکتا ہے وہ بغیر باپ کے پیدا بھی ہو سکتا ہے۔ اللّٰہ کے دشمن نہیں کر سکتے۔

جناب عیسیٰ کو اللّٰہ نے بہت سے معجزے عطا کئے تھے۔ آپ مردہ کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔ مٹی کا پتلہ بنا کر حکم اسے اسے پرندہ بنا کرتے تھے۔ ایسے بیماروں کو اچھا کر دیتے تھے جن کے علاج سے سب مایوس ہو گئے ہوں لوگوں کو غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے۔ اور ہمیشہ دین خدا کی تبلیغ میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ کی کتاب کا نام انجیل تیا جس میں ہدایت کی تمام باتیں درج تھیں۔ لیکن بعد میں امت نے سب کو بدل ڈالا اور کتاب کی اصل صورت بگار دی ۔

آپ کی تبلیغ کی وجہ سے یہودی کے اس قدر دشمن ہو گئے کہ ایک مرتبہ آپ کے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ ایک شخص نے جاسوسی کا کام شروع کر دیا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی جاسوس جب جناب عیسیٰ کے پاس سے نکلا تو پروردگار نے اسے عیسیٰ کی شکل کا بنا دیا اور لوگ یہ سمجھے کہ عیسیٰ ہم سے بچ کر نکل جانا چاہتے ہیں۔ چناچہ لوگوں نے اسے گرفتار کر کے عیسیٰ کے خیال میں سولی دے دی اور خدا نے عیسیٰ کو وہی سے آسمان پر اٹھا لیا۔ جہاں وہ آج تک موجود اور زندہ ہیں۔ جب ہمارے بارھویں امام حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو جناب عیسیٰ بھی آسمان سے اتریں گے اور امام کے پیچھے جماعت پڑھیںگے۔ اور پھر دونوں مل کر دین خدا کی تبلیغ کریں گے۔

جناب عیسیٰ کی زندگی سے چند سبق ملتے ہیں :

۱۔ خدا ہر چیز پر قادر و مختار ہے وہ بغیر باپ کے بیٹا اسی طرح پ یدا کر سکتا ہے جس طرح بغیر ماں باپ کے آدم و حوّا کو پیدا کیا ہے۔

۲۔ اگر گواہی کی ضرورت پڑ جائے تو بچہ گہوارے میں کلام کر سکتا ہے جس طرح میرے مولا نے رسول اللّٰہ کے ہاتھوں پر قرآن کی تلاوت کر کے آپ کی رسالت کی گواہی دی تھی۔

۳۔ خدا جسے بچانا چاہتا ہے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔ حضرت عیسیٰ کو سولی دینے والا سولی پر چڑھ گیا اور حضرت عیسیٰ محفوظ رہ گئے۔

۴۔ ہمارے اماموں کا مرتبہ رسول خدا کے علاوہ ہر نبی سے بلند ہے۔ اسی لئے حضرت عیسیٰ بارھویں امام کے پیچھے نمازیں پڑھیں گے۔

۵۔ ایک آدمی حکم خدا سے ہزاروں سال زندہ رہ سکتا ہے جیسے آسمان پر حصرت عیسیٰ زندہ ہیں اور زمین پر ہمارے امام زمانہ ۔

سوالات

۱۔جناب عیسیٰ نے ماں کی پاکیزگی کی گواہی کس طرح دی ؟

۲۔ جناب عیسیٰ کے کچھ معجزات بتاؤ ؟

۳۔ سولی کس کو دی گئی ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

پارسا ۔ متقی ۔ پرہیزگار ۔ اثرو رسوخ ۔ غرور ۔ کمالات ۔ سرکشی ۔ معجزہ ۔ حکمت ۔ طبیب ۔ مریم ۔ پاکدامن ۔ فرزند ۔ واضہ ۔ مایوس ۔ منصوبہ ۔ سولی ۔ ظہور ۔ مختار ۔ قادر ۔ محفوظ۔

چودہواں سبق

حضرت محمد مصطفےٰ

حضرت عیسیٰ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد گمراہہوں کے لیے میدان بالکل صاف ہہو گیا۔ آپ لے اوصیاء ہدایت کرتے رہے۔ لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا کہ تقریباً پانچ برس کے بعد ایک دفعھ مکہ کی سر زمین سے ایک نور چمکا جس کی روشنی ساری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ نور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ کا تھا جو حضرت آدم کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے پیدا ہو چکے تھے۔ ۱۷ / ربیع الاول ۱ ؁ عام الفیل کو یہ نور مکہ کی سر زمین پر چمکا، یعنی ہمارے رسولؐ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کی ولادت کا اثر تھا کہ ایواں کسری کے چودہ کنگرہ ٹوٹ کر گر گئے۔فارس کا آتشکدہ جو ہزاروں سال سے روشن تھا گل ہو گیا۔ دریائے ساوہ خشک ہو گیا اور نہ جانے رحمت کے کتنے اثرات ظاہر ہوئے۔ حد ہے کہ شیطان کی آسمان تک آمد بند ہو گئ۔

آپ کی ولادت کے سال کو عام الفیل اس لئے کہتے ہیں کہ اسی سال ابرہم بادصاہ نے خانہ کعبہ کو دھا نے کے لئے پاتھی سوا ر فوج سے حملہ کیا تھا اور پروردگار عالم نے ابابیل کے بچّوں سے کنکریاں گرا کر پورے لشکر کو تباہ کر دیا تھا جس کا ذکر قرآن مجید کے سورہ فیل میں موجود ہے۔

آپ کے والد جناب عبد اللہ کا انتقال آپ کی پیدائش سے دو مہینے پیلے ہی ہو چکا تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ماں کا بھی انتقال ہو گیا۔ آٹھ سال کے تھے کہ دادا جناب عبد المطلبؐ کا انتقال ہو گیا۔ اب آپ کی پرورش اور حفاظت کا پورا بار آپ کے چچا جناب ابو طالبؐ کے کاندھوں پر پڑا۔ جو ہمارے مولا حضرت علیٰؐ کے والد ماجد تھے۔ جناب ابو طالب نے آپ کو بڑی محبت سے پالا اور تمام کفار سے بچا کر رکھا۔ یہاں تک کہ جب آپ جوان ہوئے تو عرب کی انےتہائی دولت مند شہزادی جناب خدیجہ نے اپنے مال سے تجارت کرنے کی درضواست کی۔ آپ نے ایسی عمدھ تجارت کی کہ جناب خدیجہ کو آپ کی امانت داری کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے آپ سے شادی کر لی۔ شادی کے وقت آپ کی عمر ۲۵ سال تھی۔ جناب خدیجہ آپ کی بیویوں میں سے سب سے زیادہ متقی، پرہیزگار، پاک باطن بیوی تھیں۔ انھیں کے ذریعہ سے آپ کی نسل چلی ہے۔ پروردگار نے آپ کو کئی اولاد دیں۔ لیکن ان میں سے صرف جناب فاطمہؐ باقی رہیں جو رسولؐ اکرم کی ایک اکیلی بیٹی تھیں اور جن کے علاوہ آپ کے کوئی اور بیٹی نہ تھی۔ جب آپ کی عمر ۴۰ سال کی ہوئی تو آپ نے حکم خدا سے اپنے خاندان کے تمام لوگوں کی دعوت کر کے انھیں اپنی رسالت کا پیغام سنایا اور ان سے مدد کا تقاضا کیا۔ سارے مجمع میں سناٹا چھا گیا۔ صرف ایک حضرت علیٰؐ کی ذات تھی جنھوں نے ۱۰ ۔ ۱۱ برس کی عمر میں آپ کی تصدیق کی اور نصرت کا وعدہ کیا۔

تیرہ سال تک آپ مکّہ میں دین کی تبلیغ کرتے رہے۔ اس دوران میں کفار کی اذیت سے عاجز آ کر جناب ابو طالبؐ سب کو لر کر ایک غار میں چلے گئے اور تین سال تک وہاں فاقوں کی زندگی بسر کرتے رہے۔ جناب ابو طالبؐ کا دستور تھا کہ آپ ایک بستر پر رسولؐ اکرم کو لٹاتے تھے اور ایک پر حضرت علیٰ کو۔ تھوڑی رات گزرنے کے بعد دونوں کی جگہ بدل دیتے تھے۔ تاکہ اگر دشمن حملہ کر دی تو بیٹا قتل ہو جائے اور بہتیجا یعنی رسول بچ جائے۔ بارہ سال کے بعد جناب ابو طالبؐ کا انتقال ہو گیا اور اسی کے فوراً بعد جناب خدیجہ کا انتقال ہو گیا۔ جس کی وجہ سے اس سال کا نام عَامُ الحُذُن پڑ گیا۔ اب مکہ میں آپ کا کوئی ایسا مددگار نہیں رہ گیا تھا۔ دشمنوں نے قتل کے ارادہ سے آپ کا مکان گھیر لیا تھا۔اس لئے حکم خدا ہوا کہ اپنے بستر پر علیٰؐ کو لٹا کر ہجرت کر جائو۔ یعنی مکہ سے مدینہ چلے جائو۔ آپ نے حضرت علیؐ کو لٹا دیا اور راتوں رات نکل گئے۔ چلتے چلتے یہ تاکید کر گئے کہ میرے پاس کفار کی امانتیں ہیں۔ انھیں واپس کر کے تم بھی چلے آنا۔ حضرت علیٰؐ نے ساری امانتیں واپس کیں اور پھی خود بھی مدینہ چلے گئے۔

مدینہ میں بھی آپ کو چین نہ مل سکا اور آئے دن کفار کے حملے ہوتے رھے۔ مدینہ کی دس سال کی زندگی میں تقریباً اسی لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تو کہئے کہ آپ کے ساتھ حضرت علیؐ جیسا شجاع و بہادر وفادر موجود تھا۔ جس نے بدر، احد، ضیبر، خندق، حنین تمام لڑائیوں میں اسلام کو فاتح بنایا۔ ۲ ؁ میں حدیبیہ کے مقام پر کفار سے صلح ہوئی تو اس کا صلح نامہ بھی آپ ہی نے لکھا۔ ۸ ؁ میں عیسائیوں سے مباہلہ ہوا تو اس میں بھی اہلبیتؐ ہی میدان میں گئے۔ ۸ ؁ھ میں رسول اکرم نے مکہ کو فتح کیا اس میں بھی حضرت علیؐ آپ کے ساتھ تھے اور انھوں نے ہی خانہ کعبہ کو بتوں سے خالی کرایا تھا۔ ۱۰ ؁ھ میں حضرت نے آخری حج کیا جس کی واپسی پر غدیر خم کے مقام پر حضرت علیؐ کی ولایت و خلافت کا اعلان ان لفظوں میں کیا۔ '' جس کا میں مولا ہوں اس کا علیٰؐ بھی مولا ہے ''۔ جس کے بعد ایکلاکھ بیس پزار کے مجمع نے مبارک باد پیش کی جس میں سب سے آگے آگے ابن الخطاب تھے۔

حج کی واپسی پر آپ تقریباً دو مہینے دنیا میں رہے اور ۲۸/ صفر ۱۱ ؁ھ کو اس دارفانی سے رحلت فرما گئے۔ آپ کو اپنی امت سے اس قدر محبت تھی کہ مرض الموت میں بھی اس بات کی فکر لاحق تھی کہ کس طرح امت کو اپنے اصحاب کے مجمع سے خطاب کر کے فرمایا کہ مجھے قلم و دوات دے دو۔ تاکہ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں جو تمہارٰ نجات کی ذمہدار ہو، اور جس کے بعد تم بہک نہ سکو۔ لیکن آپ کی اس طلب پر لوگوں نے کان نہ دھرا اور کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ قلم و دوات ہر گز نہ دینا ان پر بخار کا غلبھ ہے۔ یہ خدا جانے کیا آمءیں باءیں کہہ رہے ہیں جس پر آپ کو بے حد غصہ ٓایا اور آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس سے دور ہو جائو تمہیں شرم نہیں آتی کہ نبیؐ کے پاس بیٹھ کر جھگڑا کر رہے ہو۔ ظاہر ہے کہ نبی کا غصہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اسی غصہ کا اثر تھا کہ امت ہمیشہ کے لئے اس رہنمائی سے محروم ہو گئی اور آج ذلت کے غاروں میں دھنسی جا رہی ہے۔

آپ کے انتقال کے بعد فوراً ہی کچھ لوگ سفیفہ نبی ساعدپ کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں غدیو کے اعلان کو بھلا کر حضرت علیؐ کے خلاف ایک جلسہ کر ڈالا اور اس میں صرف چند کی روئے کے مطابق ایک نئے شخص کو رسول کا خلیفہ بنا دیا۔ ادھر سفیفہ میں خلافت و حکومت کی کاروائی ہو رہی تھی۔ اُدھر نبی کے گھر میں شور گریہ و ماتم بلند تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان حکومت ہی بناتے رہ گئے اور سوا لاکھ اصحاب کو چھوڑ کر جانے والے نبی کو صرف ان کے گھر والوں نے دفن کیا اور اسلام میں ایک عظیم جھگڑے کی بنیاد پڑ گئی دین پیغمبر کو اہمیت دینے والے اہلبیت کے ساتھ ہو گئے اور حکومت و اقتدار کا ساتھ دینے والے سفیفہ کے اصحاب کے پیر وبن گئے۔

ان واقعات سے ہمیں چند سبق ملتے ہیں :

۱ ۔ رسول عام انسان جیسا نہیں ہوتا۔ بلکہ وقت ولادت ہی سے ایسے آثار رکھتا ہے جو اسے عام انسانوں کے درجہ سے بلند کر دیں۔ جیسا کہ رسول اکرم کی ولادت کے وقت ظاہر ہونے والے آثار ست ثابت ہے۔

۲ ۔ پروردگار اگر کسی کو بچانا چاہے تو ابابیل کے بچوں کی کنکریوں سے ہاتھی سوار لشکر تہس نہس کر سکتا ہے۔

۳ ۔ حق کے سامنے نہ مال عزیز ہوتا ہے اور نہ اولاد۔ اسی لئے جناب خدیجپ نے اسلام پر اپنا سارا مال قربان کر دیا اور حضرت ابو طالب نے اولاد۔

۴ ۔ دین حق کی حمایت کرنے والوں کی موت سے ایک عشرہ ہی نہیں بلکہ پورا سال حُزن و غم کا سال بن جاتا ہے۔

۵ ۔ اسلام کی صلح ہو یا جنگ، سب میں کامیابی کا سہرا حضرت علیٰؐ ہی کے سر رہا ہے۔

۶ ۔ کسی نبی یا ولی کے دربار میں جانے کے بعد وہاں کے آداب کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ نبی کو اٹھ جانے کا حکم دینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور امت کو ذلت و ضلالت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

سوالات

۱ ۔ حضرت عیسیٰؐ کے آسمان پر چلے جانے کے کتنے سال بعد پیغمبر اسلام کی ولادت ہوئی ؟

۲ ۔ رسولؐ اللہ نے ہجرت کیوں کی َ

۳ ۔ مدینہ میں آکر کتنی لڑائیاں ہوئیں ؟

۴ ۔ سفیفہ نبی ساعدہ میں کیا ہوا ؟

ان الفاظ کے معنی بتائو :

اوصیاء ۔ پیدائش ۔ عام الفیل ۔ کسری ۔ آتش کدہ ۔ فیل ۔ اذیت ۔ غار ۔ عام الحزن ۔ امانتیں ۔ شجاع ۔ وفادار ۔ بدر ۔ خیبر ۔ خندق ۔ حنین۔ فاتح ۔ حدیبیہ ۔ صلحنامہ ۔ ولایت ۔ مبارباد ۔ دارفانی ۔ رحلت ۔ مرض الموت ۔ محروم ۔ سفیفہ نبی سادہ ۔ بنیاد ۔ پیرو ۔ آثار ۔ ثابت ۔ ابابیل ۔ تہس نہس ۔ سہرا ۔ ذلت ۔ ضلالت۔

پندرہواں سبق

ہماری زبان

ہمارے ملک میں بہت سبی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اردو ، ہندی ، انگریزی ، سنکرت ، بنگالی ۔ تامل ، رلگو ، پنجابی ، کشمیری ، مراٹھی۔ اردو ان سب میں زیادہ خوبصورت اور میٹھی زبان ہے۔ اس کے قواعد سہل اور آسان ہیں اردو کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پر زبانکے اچھے الفاظ کو اپنے اندر صحولینے کی صلاحیت رکھتی ہے، اسی لئے اس نے کئی زبانوں کی خوبیاں اٹھا کر لی ہیں۔

اردو عربی ، سنکرت جیسی قدیم زبان نہ سہی لیکن اپنے اندر تمام زبانوں کے مزے ضرور رکھتی ہے۔ اس میں فارسی نزاکت بھی ہے اور عربی کا جلال بھی سنکرت کی عنائیت بھی ہے اور قدیم ہندستانی زبانوں کا رس بھی۔ اور چونکہ اس زبان نے اپنی واعت کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ اس لئے آئے دن اس کےذخیرے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی انگریزی کی خوبیوں سے اپنا دامن بھر لیتی ہے اور کبھی بندی کے الفاظ سے غرض جو چیز جہاں اچھی نظر آتی ہے، اردو فوراً اپنے دامن میں سمو لیتی ہے۔

اردو زبان والوں نے عربی ، فارسی وغیرہ کی طرح اپنے دل کی آواز سنانے کے لئے دو طریقے اختیار کئے ہیں۔ ایک نظم اوت ایک نثر، نثر سادہ کلام کو کہتے ہیں اور نظم کسی کلام میں وزن ، ردیف ، قافیہ وغیرہ کی پابندی کا نام ہے۔ اردو میں نظم و نثر کا ایک ذخیرہ موجود ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے شمع راہ ہے۔

اردو کی ایک خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ اس نے زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ حالات زمانہ کی اصلاح ضرور کرتی ہے۔ لیکن زمانے کے تقضوں سے غافل نہیں رہتی ور نہ ان تقاضوں کے مطابق اپنے کو بدل لینے میں کوئی عیب سمجھتی ہے۔ اس نے جب ہندسان میں قدیم تہذیب اور فارغ البالی لے اثرات دیکھے تو نثر مقفیٰ کا روپ دھار کے دنیا لو فسانہ ، عجائب سنایا ، طلسم ہوشربا دکھایا ، دربارِ اکبری میں باریاب بنایا۔ خیال کی نیزنیگوں سے آشنا کیا حیات کا پانی لایا۔

قاور جب حالات کو بگڑتا ہوا دیکھا تو رویف ، قافئے کے زیورات پھینک کر میدان میں آ گئی۔ غالب نے اس کے خطوط لکھے ۔ سدید نے اس کے اخلاق کی تہذیب کی۔ حالی نے اسے تنقید کا سلیقہ سکھایا۔ اور شبلی نے عجم کے شعرائ سے روشناس کرایا۔

یہی حال اس کی نظم کا رہا ہے۔ سکون و اطمینان کے دور میں وہ لفظوں کی سجاوٹ کو پسند کرتی تھی ، صنعتوں کی فراوانی سے خوش ہوتی تھی گل بکاؤلی اور بدرِ منبر کے قصے اسے بھاتے تھے۔ لیکن حالات کے بگڑ جانے پر اس کے نتیجے میں ان الفاظ کو پھر سے اپنا لیا جن کو نثہ دولت میں دور پھینک دیا تھا۔

قسمت بھی کیا عجیب چیز ہے کہ جس طرح اسلامی علوم میں شیعوں کی خدمات پیش رہی ہیں اس طرح اردو ادب میں بھی نمایاں شخصیتیں شیعہ ہی تھیں۔ غزل میں میر و غالب ، مرثیہ میں انیس و دبیر ، قصیدہ میں عزیز و سودا ، نظم میں جوش و صفی ، مسدس میں آلِ رضا و جمیل منطہری ، تنقید میں آزاد و اختشام ، سلام میں مونس و وحید ، نوحوں میں متین و نجم وغیرہ کے نام سر فہرست دکھائی دیتے ہیں۔

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

سنکرت ۔ بنگالی ۔ پنجابی ۔ کشمیری ۔ مراٹھی ۔ سہل غنایئت ۔ اضافہ ۔ نظم ۔ رویف ۔ قافیہ ۔ ذخیرہ سمع راہ ۔ خوش قسمتی ۔ عزم ۔ اصلاح ۔ تقاضا ۔ غافل ۔ فارغ البالی ۔ نیزنکیاں ۔ آشنا ۔ غالب ۔ تنقید ۔ سلیقہ ۔ روشناس ۔ نظم سجاوٹ ۔ گلبکاؤلی ۔ بدر منبر ۔ ترجمانی ۔ نشہ ۔ شیعہ ۔ میر ۔ مرثیہ ۔ انیس ۔ دبیر ۔ جوش ۔ صفی ۔ مسدس آل رضا ۔ جمیل مظہری ۔ اختشام ۔ وحید ۔ مونس ۔ متین۔

سولہواں سبق

اسلامی علوم

دنیا میں ہزاروں قسم کے علوم پائے جاتے ہیں۔ بعض کا تولق مذہب سے بہت دور کا ہے اور بعض کا تعلق بہت قریب کا بعض علوم ایسے بھی ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ مذہب نے ان کے خطرات کے پیش نظر انھیں حرام قرار دے دیا ہے۔ جن علوم کا تعلق مذہب سے دور کا ہے انھیں میں سے فلسفہ ، منطق ، طب ، کیمیا ، فلکیات سانئنس وغیرہ ہیں۔

فلسفہ اس علم کا نام ہے جس میں چیزوں کی حقیقت دریافت کی جاتی ہے۔

منطق وہ علم ہے جس میں کسی بات کو ثابت کرنے کا طریقہ بتلایا جاتا ہے۔

طب وہ علم ہے جس کے ذریعہ انسان کے جسم کی صحت کا انتظام کیا جاتا ہے۔

کیمیا وہ علم ہے جس میں چیزوں کے اجزائ اور ان کی مقدار دریافت کی جاتی ہے۔

فلکیات ان معلومات کا نام ہے جن کا تعلق آسمانوں ستاروں اور گردش و کشش سے ہے۔

سائنس اس علم کا نام ہے جس میں کائنات کی نئ نئ معلومات حاصل کر کے اس سے تازہ ایجادات کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ان علوم کا مذہب سے صرف اتنا ہی تعلق ہو سکتا ہے کہ ان سے جب کائنات کی وسعت ، عظمت ، ترتیب تنظیم کا علم ہوگا تو انسان یہ سوچے گا کہ جب صنعت اتنی مستحکم و مضبوط ہے تو صانع کیسا ہوگا جب مخلوق کا یہ علم ہے تو خالق کا کیا مرتبہ ہوگا اور یہ بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب اسے مخلوق کی اہمیت کا انداز ہو جائے گا ورنہ معمولی صنعت سے صانع کی معمولی لیاقت ہی کا اندازہ ہو سکتا ہے اور بس !۔

وہ علوم جن کو مذہب نے حرام و ناجائز قرار دے دیا ہے ان میں سے علم نجوم ، سحر ، قیافہ ، کہانت وغیرہ ہیں۔

علم نجوم وہ علم ہے جس میں ستاروں کی گردش اور ان کی کیفیت کے ذریعہ سے مستقبل کے حالات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

علم سحر وہ علم ہے جس میں دوسروں کے ذہن پر قابو پا لر طرح طرح کی حیرت انگیز باتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

علم قیافہ و کہانت وہ علم ہے جس میں جسم کی ساخت یا دوسرے آثار کو دیکھ کر کسی کے کردار ، نسب یا مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ان علوم میں کوئی استحکام یا مضبوطی نہیں ہے ایک کی بنیاد صرف ایک تخمینہ پر ہے جس پر کوئی دلیل بھی قائم نہیں ہوتی۔ اس لئے اسلام ایسے علوم پر وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اسلام کا منشا یہ ہے کہ انسان ان علوم کے حاصل کرنے میں وقت صرف کرے جن کے طالبیں قوت و استحکام ہو یا وہ انسانی معاژرے کے لئے مفید و منفت بخش ہوں۔

اسلام سے براہ راست تعلق واکے علوم میں علم وقف ، تفسیر ، حدیث ، اصول فقہ ، کلام ، رجال ، جال ، درایت وغیرہ ہیں۔ ان علوم کا مذہب سے قریبی تعلق اس لئے ہے کہ مذہب کا مقصد انسانی زندگی کو منظم اور انسانی قلب و دماغ کو مطمعئن بنانا ہے۔ چاہے علوم تنظیم زندگی اور تسکین قلب سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ ان میں انسان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس کے احکامات و تعلیمات کیا ہیں ؟ نجات کا ذریعہ کیا ہے ؟ اصول و قوانین کے پرکھنے کا وسیلہ کیا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ ان باتوں کے معلوم ہونے کے بعد دل میں جذبہ سکون پیدا نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ان علوم تعریف اور ان کے مقصد سے واضح ہوتا ہے۔

علوم فقہ ۔ وہ علم ہے جس میں شریعت کے عملی احکام کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ دریافت کیا جاتا ہے۔

علم تفسیر ۔ وہ علم ہے جس میں قرآن کے مشکل پیچیدہ اور پوشیدہ مطالب کے رخ سے نقاب اٹھائی جاتی ہے۔

علم حدیث ۔ وہ علم ہے جس میں کسی معصوم کے بیان کی نوعیت پر گفتگو کی جاتی ہے۔

اصول فقہ ۔ وہ علم ہے جس میں قرآن و حدیث و عقل وغیرہ سے احکام اخذ کرنے کے قوانین ق قواعد بتائے جاتے ہیں۔

کلام ۔ وہ علم ہے جس میں باطل خیالات کو روک کے صحیح عقائد کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔

رجال ۔ وہ علم ہے جس میں حدیث بیان کرنے والے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

درایت ۔ وہ علم ہے جس میں حدیث کی عقل حشیت پر گفتگو کر کے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اسلامی علوم کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی سرپرستی ہمیشہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر علم میں پہلی کا شرف صرف ان کی چاہنے والے شیعوں کو حاصل ہے۔ خود ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی ان علوم میں بے مشل و نظیر کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ علم فقہ میں امام رضاؐ ۔ علم تفسیر میں تفسیر امام عسکریؐ ۔ علم حدیث میں مجموعہ امیر المومنینؐ ۔ علم اصول فقہ میں مباحش الفاظ امام جعفر صادق ۔ علم کلام میں نہجح البلاغہ اور احتجاجات ائمہؐ ۔ علم و روایت کے لئے تعارض احادیث کے فیصلے آج بھی شمع راہ بنے ہوئے ہیں۔

چاہنے والوں کی علمی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ امام جعفر صادق کے نوشا گرد مسجد کوفہ میں ایک ایک جماعت کو درس دیا کرتے تھے اور آپ کے اصحاب نے چار سو کتابیں مخلتف علوم میں تالیف کی ہیں۔

دینی علوم کے علاوہ دیگر علوم میں بھی ائمہؐ معصومین کے خدمات شہرا آفاق ہیں۔ چنانچہ علم طب میں طب الرضاؐ ۔ طب الائمہ قغیرہ ۔ علم نجوم میں ارشادات امیر المومنینؐ ۔ فلسفہ امام جعفر صادقؐ کے منظر ے ، ادب میں نہجح البلاغہ وغیرہ جیسے مجموعے یاد گار کی حیشیت رکھتے ہیں۔ حدیہ ہے کہ علم کیمیا (کیمسٹری) جس پر آج کی ترقیوں کا دارومدار ہے اس کے موجد بھی جابر بن حیان ہیں جو امام جعفر صادقؐ کے مخصوص شاگرد تھے اور جنھوں نے اپنی کتابیں اس بات کا اعتراف قرار بھی کیا ہے۔

اسلامی علوم کی تاریخ سے شیعوں کے کارنامے نکال لینے کے بعد تاریخ اتنی ہی بھونڈی اور بھدی شکل اختیار کر لیتی ہے جتنی غزوات رسولؐ اکرم سے حضرت علیؐ کا نام الگ کر دینے کے بعد۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کو زندہ رکھیں، ان کی یادگاروں کی بقا کا انتظام کریں۔ ان کی محنتوں کو ضائع اور برباد نہ ہونے دیں اور یاسا طرز عمل اختیار کریں جسے دیکھنے کے بعد دنیا کو یہ کہنا پڑے کہ یہ انھیں بزرگوں کے خلف ہیں جنھوں نے علوم دین کی اشاعت میں دن رات ایک کر دئے تھے۔

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

قسم ۔ علوم ۔ تعلق ۔ خطرات ۔ فلسفہ ۔ منطق ۔ طب ۔ کیمیا ۔ فلکیات ۔ سائنس ۔ گردش ۔ کشش ۔ سلیقہ ۔ وسعت ۔ ترتیب ۔ ،سکحم ۔ ،خلوق ۔ صانع ۔ اہمیت ۔ صنعت ۔ علم نجوم ۔ سحر ۔