امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم0%

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 13902
ڈاؤنلوڈ: 4249


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13902 / ڈاؤنلوڈ: 4249
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

سترہواں سبق

مسلمان حکومتیں

جب حضورسرؐ دو کائنات کا سن چالیس برس کا ہوا تو آپ نے خدا کا حکم پا کر اپنی رسالت کا علان کیا۔ رسالت کے معنی ہیں پیغمبری۔ یعنی آپ نے قوم کو یہ سمجھایا کہ میں خدا کی طرف سے پیغام پہنچانے آیا ہوں۔ میرا پیغام یہ ہے کہ خدا کو ایک مانو ، میری پیغمبری پر ایمان لے آؤ۔ قیامت پر یقین رکھو اور اپنے پرانے رسم و رواج کو چھوڑ کر خدا وند عالم کے احکام پر عمل کرو۔ اسی میں تمہارے دین و دنیا کی بہتری اور اسی میں تمہاری زندگی کا سدھار ہے۔ آپ کی پوری زندگی اسی پیغام کو پھیلانے میں صرف ہو گئی۔ اس سلسلہ میں آپ پر حملے بھی ہوئے پتھر بھی برسے ، کانٹے بھی بچھائے گئے۔ لیکن آپ نے تمام مصیبتوں کا مقابلہ کر کے لوگوں کو خدائی پیغام سے آشنا بنایا۔ شروع میں نہیں بلکہ اس قوت بھی جب آپ کا پیغام دوسرے ملکوں تک پہونچ چکا تھا اور وہاں کے لوگ داخل اسلام ہو چکے تھے۔ آپ کی زندگی کی سادگی برقرار تھی کیونکہ آپ کا مقصد کوئی حکومت قائم کرنا نہیں تھا بلکہ آپ صرف اس درد دل کا اظہار کرنا چاہتے تھے جو قدرت نے آپ کی فطرت میں رکھ دیا تھا۔ آپ اپنے عمل سے برادری اور برابری کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے عرب کے سب سے بڑے قبیلے کے سب سے بڑے انسان کا عام لوگوں کے مکمع میں بیٹھ جانا اور ان کے ساتھ برابر کا برتاؤ کرنا خود بتا رہا ہے کہ اصلاح کرنے والے کے ذہن میں اصلاح کی تڑپ ہے حکومت کی خواہش نہیں ہے۔

۲۳ برس کی مسلسل تبلیغ کے بعد جب آپ دنیا سے جانے لگے تو ارشاد قدرت ہوا کہ ابھی قوم مزید اصلاح کی محتاج ہے۔ اصلاح کا تعلق صرف عرب کے چند آدمیوں سے نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے پیغام کو عام ہونا چاہئے اور تمہاری اصلاح کے سائے میں تمام آفاق کو سمٹ جانا چاہئے۔ اس لئے اپنی جگہ علیؐ کو مصلح امت کی حیشیت سے متعارف کرا کر آؤ۔ چنانچہ آپ نے اس حکم کے بعد غدیر خم کے میدان میں یہ کجلا علان کیا کہ جس کا میں حاکم ہوں اس کے یہ علیؐ بھی حاکم ہیں۔ اس لئے آپ نے بادشاہ کا لفظ نہیں استعمال کیا بلکہ مقصد کو واضح فرمایا کہ جس پر بھی خدا کی طرف سے میری اطاعت سے فرض ہے ، اس پر علیؐ کی اطاعت بھی فرض ہے۔ اس اعلان میں حضرت علیؐ کی مذہبی حکومت کا علان ہوا تھا ۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علیؐ نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں وہ انداز قطعاً نہیں اختیار کیا جو دنیا کے حاکموں کا ہوا کرتا ہے اور نہ آپ نے حکم خدا کے خلاف کبھی کوئی حکم کسی کو دیا۔

رسولؐ اکرم کی زندگی میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے دنیا کی نظروں میں حضورؐ کا وقار دیکھا تھا ، اسلام کا لہراتا ہوا پرچم دیکھا تھا اور اسی بنیاد پر اسلام سےدلچسپی ظاہر کرنے لگے تھے۔ وہ اس راز کو نہ سمجھ سکتے تھے کہ رسولؐ اکرم اس عظمت کے بعد بھی حکم خدا کے علاوہ ۔۔۔۔اپنا کوئی حکم نافذ نہیں کرتے ان لوگوں کے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ حکومت و اقتدار کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ کہ مسلمانوں کی وہنمائی کا کاروبار سنبھال لیا جائے۔ چنانچہ آپ کی وفات کے فوراً بعد ہی یہ کاروبار شروع ہو گیا اور سادے لباس والی پولیس کی طرح مسلمان حکم تاج رہنمائی سر پر رکھ کر تخت حکومت پر جلوہ گر ہو گئے۔ حالات کے نتیجہ میں کردار میں دورندی پیدا ہو گئی اور حکومت و رہنمائی کو یکجا کرنے کی ناکام کوشش ہونے لگی۔ اب ایک طرف پھٹا ہوا کرتا پہنا جاتا اور دوسری طرف لوگوں سے حکومت کا اقرار لینے لے لئے گھر جلانا ، گرفتار کرنا ، جائداد ضبط کرنا ، اور اس قسم کے دوسرے کام بھی کئے جاتے ۔ حکومت کی اسی دبی ہوئی خواہش اسلام کی تبلیغ کے نام پر چڑھایوں کی دعوت دی اور اب ہر پڑوسی ملک مسلمانوں سے مرعوب رہنے لگا۔ حکومتیں قائم ہونے لگی۔ تخت و تاج کی دوڑ شروع ہو گئی اور حضرت علیؐ کی چند سالہ مختصر حکومت کے خاتمے کے بعد پھٹے ہوئے کرتے اتر گئے اور دربار حکومت کے دروازوں پر ریسمی پردے نظر آنے لگے۔ دبی ہوئی خواہش ابھر کر سامنے آ گئی اور اسلام کی ظاہری سادگی بھی رخصت ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ اگر حضرتؐ علیؐ اور ان کے چند ساتھیوں کی کڑی تنقید کا خطرہ ہوتا تو یہ سادگی روزِ اوّل ہی سے غائب ہو جاتی لیکن اس وقت حکومت کے خواہشمندوں کی جرائت کمزور تھی۔ اور اب اس میں پوری طاقت آ چکی تھی۔

اسلامی مملکت کے ساتھ بنوامیہ کا یہی کھیل تھا جس نے اسلامی حکومت کا نیا تصویر پیدا کر دیا اور آج ہر وہ ملک جس میں ریڈیو سے اذان ہو جاتی ہو یا جس کے جھنڈے پر لا الٰہ اللہ لکھ دیا جاتا ہو اسے اسلامی ملک کہا جاتا ہے۔ چاہے اس کے حکمرانوں کا طرز عمل کیسا ہی کیوں نہ ہو اور اس کے اندر شراب و زنا کی گرم بازاری کتنی شدید کیوں نہ ہو۔ اب اسلامی حکومت سے مراد ایسی ہی حکومتیں ہوتی ہیں جن میں مسلمانوں کو حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ حالانکہ انکو صحیح لفظوں میں مسلمان حکومت کہنا چاہیئے۔ ان حکومتوں کا سلسلہ ایشیا سے افریقہ تک پھیلا ہوا ہے البتہ ایران میں بحمد اللہ اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے خدا کرے دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی اسلامی حکومتیں قائم ہو جایں۔

افریقہ

یہ ایک برا عظم ہے جس میں بہت سے ملک پائے جاتے ہیں۔ لیکن بعض ملک اپنی شہرت کی وجہ سے خود اپنا مستقل ذک رکھتے ہیں۔ افریقہ سے اسلام کا تعلق بہت پرانا ہی جناب اسمٰعیلؐ کی ولدہ جناب ہاجرہ افریقہ کی رہنے والی تھیں۔ جناب فضہ اور جناب قنبرٌ افریقہ کے باشندے تھے۔ رسولؐ خدا کے مُؤذن بلال افریقی تھے۔ مسلمانوں کی پہلی ہجرت افریقہ کی طرف ہوئی تھی جب کہ انھیں بادشاہ جشنجاشی نے پناہ دی تھی۔ رسولؐ اللہ کے ایک فرزند ابراہیم کی والدہ جناب ماریہ قبطیہ افریقہ کی رہنے والی تھیں۔ جناب اُم امین جنھوں نے رسولؐ اکرم کو گودی میں پالا تھا یہ بھی افریقہ کی تھیں۔ ان کے ایک بیٹے ایمن جنگ خیبر میں شہید ہوئے تھے۔ اور ایک اسامہ بن زید تھے جنھیں رسولؐ اکرم نے اپنے آخری وقت میں ایک اسیے لشکر کا سردار بنایا تھا جس میں بنی ہاشم کے علاوہ سب جوان بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ شامل تھے۔ امام محمد تقی علیہ السلام کی والدہ بھی افریقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔

انڈونیشیا

مسلمانوں کی دو بڑی حکومتوں میں سے ایک انڈونیشیا ہے یہاں کسی دور میں شیعہ کا بھی چرچا تھا۔ لیکن اب وہ دور ختم ہو چکا ہے علمائ دین توجہ دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہاں شیعت پھر متعارف ہو جائے گی۔ انڈونیشیا سے ہر سال سب سے زیادہ مسلمان فریضہ حج کی ادائگی کے لئے آتے ہیں اور مشہور ہے کہ وہاں اس وقت تک کسی لڑکے کی شادی نہیں ہوتی جب تک وہ حج کے فریضہ کو ادا نہیں کر لیتا۔

افغانستان

یہ ایک پہاڑی ملک ہے یہاں کے بادشندے پٹھان کہے جاتے ہیں۔ انھیں لوگوں نے ہندوستان پر چڑھائی کر کے ہند و افغانستان کو ایک رشتہ میں جوڑنا چاہا تھا۔ مغل سلطنت کا بانی بابر بھی کابل ہی سے آیا تھا۔ افغانستان میں شیعوں کی کافی آبادی ہے۔ لیکن حکومت کی سختیوں کی بنا پر عموماً عسرت و تنگ دستی اور تقیہ کی زندگی گزاری جاتی ہے۔ مرکز علم قم میں افغانستانی طُلاب کی ایک بڑی تعداد مشغول تحصیل علم ہے۔

ایران

ایران ایک سردو پُر بہار ملک ہے۔ جس کی تہذیب اسلام کے پہلے بھی مشہور تھی۔ یہاں کے لوگ سرخ و سفید اوع خوبصورت ہوتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کے انتقال کے بعد جب مسلمانوں کو دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے کا شوق ہوا تو سب سے پہلے ایران ہی پر چڑھائی ہوئی مسلمانوں کو لوٹ مار سے دلچسپی زیادہ تھی اور اسلام کی تبلیغ سے کم۔ اس لئے ان لوگوں نے وہاں کے مقامی باشندوں کو ذلیل کرنے کی ٹھان لی اور اس طرح ایرانیوں کے دل میں اسلام کی طرف سے نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اور وہ مسلمانوں سے انتقام کی سوچنے لگے۔لیکن اہل بیتؐرسولؐ کے بروقت اقدام سے یہ طوفان رک گیا۔ حضرت علیؐ نے وہاں کی شہزادی شہر بانو کا عقد اپنے فرزند امام حسینؐسے کر کے ایرانیوں کے وقار کو بچا لیا اور اس طرٖ عجم کے دل میں اہلبیتؐ کا اژر و رسوخ قائم ہو گیا جو تمام انقلابات کے بعد آج بھی باقی ہے۔ اور روئے زمین پر یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی اذان میں عَلِیٌّ وَّ لِیُّ اللہ کہا جاتا ہے۔ایران کا دارالحکومت طہران ہے جس سے ٹھوڑے فاصلے پر قم ہے جو امام رضاؐ کی بہن جناب فاطمہؐ کا مزار ہونے کے علاوہ عظیم علمی مرکز ہے۔ قم میں کم از کم ۲۵ ہزار طلاب علم دین حاصل کرتے ہیں۔ طہران میں امام زادہ عبد العظیم کا روضہ ہے اور طہران سے ایک ہزار کیلو میٹر کے فاصلے پر متہد مقدس خراسان میں امام رضاؐ کا مزار مقدس ہے۔

ایران نے علم دین کی بے پناہ خدمت کی ہے۔ اہلبیتؐ اور شیعہ دونوں فرقوں کے بڑے بڑے علمائ و محدثین تقریباً سب ایرانی تھے شیعوں کی حدیث کی چار بنیادی کتابوں کے موئلف سب ایرانی ہی تھے اور کتابوں کے موئلف خراسان کے تھے۔ ایک طہران کے اور ایک قم کے رہبر انقلاب اسلامی آقائے خمینی کی قیادت میں یہاں اسلامی انقلاب آ چکا ہے۔

اردن

شام اور سعودی عرب کے درمیان ایک چھوٹی سی حکومت ہے۔ اس کا خاص شہر اور دارالحکومت عمان ہے۔ یہاں کے لوگ کافی شرخ و سید اور صحت مند ہوتے ہیں۔ زبان عربی ہے یہاں کا بادشاہ اگرچہ ہاشمی خاندان کا ہوتا ہے لیکن شیعیت یہاں بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔

بحرین

کسی زمانے میں شیعیت کا مرکز تھا۔ حاصب کتاب خدائق یہیں کے رہنے والے تھے۔ شیخ بہار الدین علیہ الرحمہ کے والد نے اپنے فرزند کو وصیت کی تھی کہ اگر دنیا درکار ہو تو ہندوستان جاؤ اور اگر دین درکار ہو تو بحرین جاؤ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں سچے اسلام کا اثر تھا۔ مگر اب وہ بات نہیں ہے۔

پاکستان

مسلمانوں کی چند عظیم حکومتوں میں سے ایک ہے یہاں کی آبادی تقریباً ڈھائی کروڑ ہے۔ ۱۹۴۷ ؁ میں ہندوستان سے الگ ہو کر مستقل حکومت کی شکل میں آیا ہے۔۔۔۔۔۔اس کے کچھ مرکز ی علامتے ہیں۔۔۔ پاکستان کے مشہور شہر لاہور کراچی راولپینڈی، پیشاور ، حیدرآباد وغیرہ ہیں۔ لاہور شیعوں کے لئے ایک مرکزی حیشیت رکھتا ہے۔ یہوں سے دس بارہ رسالے ہر مہینے شائع ہوتے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت اور اس کے مطالعہ کا شوق عام ہے۔ کراچی میں بھی عزاخانوں کی کثرت ہے۔ لیکن مجالس کے علاوہ وہ مذہبی شغف نظر نہیں آتا جو لاہور میں دکھائی دیتا ہے۔ اسلامآباد اس کا دارالحکومت ہے۔ پاکستان میں ایک شیعہ علاقہ کورم ایجنسی بھی ہے۔ جہاں کے لوگ انتہائی بہادور ہوتے ہیں۔ ہلتستان کا ولاقہ بھی اچھا علاقہ ہے۔ خوبانی کی پیداوار بکثرت ہے۔ لوگ نیک نفس اور با عمل ہوتے ہیں۔ سندھ کا علاقہ بھی مذہبیات کے لئے اچھا علاقہ ہے۔ اگرچہ علم دین کا ذوق کم ہے۔

ترکی

ایران کے مغرب میں نہایت ہی مشہور و معروف اور قدیم روایات کا حامل ملک ہے۔ ترک ایک زمانے میں مشرقی یورپ پر بھی قابض تھے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد ان کا قبضہ ختم ہو گیا۔ بنی عباس کے خاطمہ کے بعد سے انھوں نے اپنے یہاں خلافت کا رواج باقی رکھا تھا۔ ان کا ہر بادشاہ خلیفتہ المسلمین کہا جاتا تھا۔ لیکن ۱۹۲۳ ؁ میں یہ خواب ٹوٹ گیا اور وہاں جمہوریت قائم ہو گئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی کافی زور مارا تھا۔ لیکن اس خلافت میں باقی رہنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ اس لئے مردے کو کون زندہ کرتا ؟

تیونس

مصر کے مغرب میں یہ چھوٹا سا ملک ہے جو یوں تو کافی زرخیز ہے لیکن ترقی کی رفتار میں بہت پیچھے ہے۔

الجزائر

یہ علاقہ تیونس کے مغرب میں ہے۔ معدنیات میں کافی شہرت رکھتا ہے۔ پیداوار بھی اچھی ہوتی ہے۔ کسی زمانہ میں علمی چرچا بھی تھا۔ لیکن سناٹا ہے۔

دوبئی

ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جو تجارتی عتبار سے شہرت رکھتا ہے۔ مسلم علاقہ ہے اگر چہ مملک آزادی نہیں ہے۔

زنجبار

مشرقی افریقہ کا ایک مسلمان ملک ہے۔ یہاں بھی شیعوں کی آبادی پائی جاتی ہے اور واعظین و مبلغین کا ایک سلسلہ لگا رہتا ہے۔ تجارت پیشہ لوگ آباد ہیں جو خدا کے فضل سے خوش حال بھی ہیں اور یہ مالی خوشحالی ان کے شرعی حقوق کی ادائیگی کا نتیجہ ہے۔

سعودی عرب

عرب ایک ایسا ریگستانی علاقہ ہے جس میں دور دور تک ہر طرف سرخ ذروں کا سمندر موجیں مارتا رہتا ہے۔ آب و گیاہ کا نام و نشان تک مشکل سے ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دنیا کو ہدایت کی شعاعین اسی سر زمین سے ملی ہیں۔ اسلام یہیں سے پھیلا ہے ، رسول اکرمؐ اور ان کے اہلبیت حضرت علیؐ و فاطمہؐ و حسنؐ و حسینؐ یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ عالم قبلہ خانہ کعبہ اسی زمین پر ہے۔ یہاں کے مشہور شہر یہ ہیں۔

مکہ

یہاں اللہ کا گھر کعبہ ہے۔جسے جناب ابراہیمؐ و اسمعٰیلؐ نے تعمیر کیا تھا۔ یہ بظاہر تو ایک چھوٹا سا مکان ہے لیکن اپنی عظمت کے اعتبار سے سارے عالم کے سجدہ کرنے کے قابل ہے۔ کعبہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ عظمت خدا کے حکم سے ملتی ہے۔ حکم خدا کے بعد اینٹ اور گارے کو نہیں دیکھا جاتا۔ کعبہ ہی کا ایک شرف یہ بھی ہے کہ اس میں کائنات کے امیر اور رسول اکرمؐ کے وزیر حضرت علیؐ کی ولادت ہوئی ہے۔ اس کے ایک گوشہ میں ایک پتھر نصب ہے جسے حجر اسود کہا جاتا ہے۔ اس پتھر نے امام زین العابدین کی امامت کی گواہی دی تھی۔ اس کے قریب زمزم کا چشمہ ہے جو جناب اسمعٰیلؐ کے پیاس میں ایڑیاں رگڑنے سے جاری ہوا۔ کعبہ کا غلاف ہمیشہ سیاہ رہتا ہے۔

کعبہ کے گرد مسجد الحرام ہے اور مسجد کے باہر صفا و مروہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان زمانہ حج میں سات مرتبہ سعی کی جاتی ہے۔

مکہ میں جناب خدیجہؐ ، حضرت عبد المطلبؐ ، حضرت ابو طالبؐ اور رسول اکرمؐ کے دوسرے بزرگوں کی قبریں ہیں۔ اس قبرستان کو جنت العلیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مکہ کے باہر عرفات کا میدان ہے۔ جہاں حاجی حضرات ۹/ ذی الحجہ کو ذوال سے غروب تک قیام کرتے ہیں اور عرفات کے قریب مشعر الحرام ہے جہاں نویں ذی الحجہ کا دن گذار کر رات بسر کی جاتی ہے۔ مشعر سے متصل منیٰ کا میدان ہے جہاں جناب ابراہیم نے اپنے فرزند اسمعٰیلؐ کی قربانی پیش کی تھی اور اس کی یاد میں ہر حاجی ایک جانور ذبح کرتا ہے۔ منیٰ کے میدان میں وہ تینوں شیطان بھی ہیں۔ جنھیں جمرات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جن کو پتھر مارنا ہر حاجی کا فض ہے۔

مدینہ

عرب کا دوسرا بڑا اور مقدس شہر ہے۔ یہاں ہجرت کے بعد رسولؐ نے پناہ لی تھی۔ یہیں سے اسلام کو فروع نصیب ہوا تھا۔ اور یہیں حضورؐ سر دو کائنات کا روضہ مبارک ہے۔ یہاں ایک قبرستان بھی ہے جسے جنتالبقیع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قبرستان میں جناب فاطمہ زہراؐ ، امام حسنؐ ، امام زین العابدینؐ ، امام محمد باقرؐ اور امام جعفر صادقؐ کی قبریں ہیں۔ اسی سے ملا ہوا یہودیوں کا قبرستان "حش کو کب" تھا جسے بقیع کے مزارات مقدس کو منہدم کرنے کے بعد اسی قبرستان میں شامل کر لیا گیا ہے۔

مدینہ کے اطراف میں اسلام کی پہلی مسجد " مسجد قبا" ہے اور احد کا میدان بھی ہے۔ جہاں اکثر مسلمان حضرت رسولؐ کو چھوڑ کر پہاڑ پر بھاگ گئے تھے اور آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔ اسی میدان میں جناب حمزہ کی قبر بھی ہے۔

مدینہ سے کچھ دور غدیر خم ہے جہاں رسول اکرمؐ نے آخری حج کی واپسی پر حضرت علیؐ کی خلافت کا اعلان کیا تھا۔ اور یہیں سے چند منزلوں کے فاصلہ پر فدک کا علاقہ ہے جسے حضور نے اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہراؐ کو ہبہ کر دیا تھا جو آپ کے انتقال کے بعد جناب فاطمہؐ سے چھین لیا گیا۔

جدہ اور طائف بھی عرب کے بڑے شہر ہیں۔ جدہ ساحلی کی وجہ سے تجارتی مرکز ہے اور طائف ایک پر پہار علاقہ ہے۔ انگور کی پیداوار بکثرت سے ہے عرب کے کئے طائف شملہ اور نینی تال کا لطف رکھتا ہے اور ریاض وہاں کا دارالسلطنت ہے۔

سوڈان

مصر کے جنوب میں ایک آزاد مسلمان ملک ہے یہاں بھی وہی دریائے نیل بہتا ہے جو مصر میں ہے اور جس کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے۔

شام

اسلامی تاریخ کا بڑا قدیم ملک ہے۔ رسول اکرمؐ کے انتقال کے بعد اس ملک پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ خلیفہ دوم نے اپنے دور حکومت میں معاویہ کو اس کا گورنر بنا دیا تھا۔ خلیفہ سوم کے دور یں گورنری کے حدود میں اور وسعت ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاویہ نے اقدار کے نشہ میں آ کر حضرت علیؐ کی خلافت کو ماننے سے انکار کر دیا اور جب یہ دیکھا کہ حضرت علیؐ کی حکومت مستحکم ہو رہی ہے تو آپ کے خلاف خون عثمان کے بدلے کا ہنگامہ کھڑا کر کے آپ کے اقدار کو کمزور بنانا چاہا حضرت علیؐ کی شہادت بھی معاویہ ہی کی حکومت کا نتیجہ تھی۔ ۴۱ ؁ میں معاویہ سے امام حسنؐ کی صلح ہوئی جس میں یہ طے ہو گیا کہ حضرت علیؐ پر سب و ثتم کا سلسلہ بند کر دیا جائےگا۔لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور معاویہ نے ہر شرط صلح کی خلاف ورزی کر کے آخر وقت میں یزید جیسے شرابی و بدکار کو اپنا جانشین بنا دیا۔ جس کے نتیجہ میں کربلا کا حادثہ مدینہ کی تاراجی اور حرم خدا کی بے حرمتی منظر عام پر آ گئی

معاویہ کی حکومت بنی امیہ کے اقدار کی ابتدا تھی جس کا سلسلہ ۹۲ سال تک جاری رہا۔ بنی امیہ کے سلاطین کے ہاتھوں امام زین العابدینؐ اور امام مسمد باقرؐ کی شہادت ہوئی۔ شام کا دارا الحکومت دمشو ہے۔ جہاں یزید نے امام حسینؐ کے گھر والوں کو گرفتار کرا کے طلب کیا تھا اور ان کی تشبیر کرائی تھی۔ اسی دمشق میں معاویہ یا یزید کی قبروں کا صحیح پتہ تک نہیں ملتا۔ جبکہ مظلوم کا ماتم کرنے والی بہن کا مزار آج بھی موجود ہے

صومالیہ

افریقہ میں زنجبار جیسی ایک چھوٹی سی حکومت ہے جہاں شیعوں کا بھی وجود پایا جاتا ہے۔

عراق

دور حاضر کا ایک اہم اسلامی ملک ہے۔ یہاں دو مشہور دریا دجلہ و فرات بہتے ہیں۔ اس کا بندرگاہ بصرہ اور دارالحکومت بغداد ہے۔ فی الحال یہاں بے دین حکومت ہے۔ مشہور مقامات یہ ہیں

نجف

یہاں امیر المومنین حضرت علیؐ کا روضہ ہے اور وہ عظیم علمی درسگاہ بھی تھی جسے حوزہ علمیہ کہا جاتا تھا اور جس کی بنیاد ایک ہزار سال پہلے شیخ طوسی نے رکھی تھی۔ جب بغداد میں شیعوں کے قتل عام کے بعد آپ کو بغداد چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

حضرت علیؐ کے پہلو میں جناب نوحؐ اور جناب آدم کی بھی قبریں ہیں۔ نجف میں دنیا کا سب سے بڑا قبرستان وادی اسلام ہے۔ جہاں ہر سال تقریباً ۱۵ ہزار معیتین دفن ہوتی ہیں۔ اس قبرستان کی خصوصیت یہ ہے کہ مومنین کی تمام روحیں مرنے کے بعد یہیں جمع ہوتی ہیں۔ یہیں جناب ہودؐ و صالحؐ پیغمبر کی بھی قبریں ہیں۔

کوفہ

وہ قدیم شہر ہے جو اسلام کے ابتدائی دور میں چھاؤنی کی حیشیت رکھتا تھا۔ حضرت علیؐ نے اسے دارالحکومت قرار دے دیا تھا۔ اس لئے یہ عراق و ایران کا درمیانی مرکزی علاقہ بھی تھا اور ساحل پر بھی واقع تھا جہاں دو عظیم مسجدیں ہیں۔ مسجد کوفہ، مسجد سہلہ۔ حضرت علیؐ کیشہادت اسی مسجد کقفہ کی محراب میں ہوئی تھی۔ کوفہ ہی میں جناب یونسؐ جناب مسلمؐ ، جناب ہانیؐ ، جناب مختار ، جناب میثم و جناب کمیلؐ بن زیاد وغیرہ کی قبریں ہیں۔

کربلا

رقبہ کے اعتبار سے بہت چھوٹا اور عظمت کے اعتبار سے کونین سے بالاتر شہر ہے۔ یہیں اسلام کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی جس میں امام حسینؐ اپنے انصار اور اصحاب و اعزا سمیت شہید ہوئے تھے یہاں دو عظیم الشان روضے ہیں۔ کربلا سے تھوڑے فاصلہ پر مسیب میں جناب مسلمؐ کے دونوں فرزندوں کے روضے ہیں۔ جو دنیائے انسانیت میں مظلومیت کے مینارے کی حیشیت رکھتے ہیں۔

بغداد

عراق کا دارا الحکومت ہے۔ اسے منصور دوا نقی نے لاکھوں دینار خرچ کر کے آباد کیا تھا۔ یہاں امام زمانہ کے زمانہ غیبت صغریٰ کے چاروں نائبوں کی قبریں ہیں۔ بعض علمائ اعلام کے قبور بھی اسی بغداد میں ہیں۔ بغداد ہی میں وہ دیوار بھی ہے جس کے لئے سادات کے خون کا گارا بنایا گیا تھا۔ بغداد آج کل عراق کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور دارالخلافہ ہے۔

کاظمین

بغداد ہی کا ایک محلہ ہے جو دریائے دجلہ کی وجہ سے بغداد سے الگ ہوتا ہے۔ یہاں امام موسیٰؐ کاظم ، امام محمد تقیؐ کے روضے ہیں اور اسی مناسبت سے اسے کاظمین کہا جاتا ہے۔ بعض علمائ اعلام کی قبریں بھی روضہ کے اندر باہر موجود ہیں۔

سامرہ

ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ جس کی اکثر آبادی اہل سنت کی ہے یہی لوگ یہاں کے روضے کے مجاور ہیں۔ یہاں امام علیؐ نقیؐ امام حسن عسکریؐ کا روضہ ہے، جس میں جناب حکیمہ خاتون اور امام زمانہؐ کی والدہ جناب نرجس کی بھی قنریں ہیں۔ یہیں وہ سرداب غیبت بھی ہے جس سے امام زمانہؐ کی غیبت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ غیبت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک زمانہ ظلم و جور سے بھر نہ جائے تاکی آپ ظہور فرما کر اسے عدل و انصاف سے بھر دیں۔

مدائن

بغداد سے دس بارہ میل کے فاصلہ پر چھوٹا سا شہر ہے۔ جناب سلمانؐ اسی شہر کے گورنر بنائے گئے تھے۔ یہاں جناب سلمان ، جناب خدیضہ اور جناب جابر کی قبریں ہیں۔ یہیں وہ عظیم الشان طاق کسریٰ بھی ہے جس کے چودہ کنگرے رسول اکرمؐ کی ولادت کے موقع پر خود بخود گر گئے تھے۔

عراق ہی میں جمل ، صفین ، اور نہروان کے میدان ہیں جہاں نفس رسولؐ حضرت علیؐ کے مقابلے میں روضہ رسول عائشہ معاویہ اور خوارج آئے تھے۔

کویت

ڈیڑھ دو لاکھ کی آبادی کا چھوٹا سا ملک ہے۔ تیل کی آمدنی بے حساب اور آبادی کم ہے۔ اس لئے لوگ بےحد مطمئن اور خوشحال ہیں۔ یہاں کی زیادہ آبادی غیر مملکی افراد کی ہے۔ شیعہ بھی بکثرت موجود ہیں اور ہر مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

لیبیا

مصر کے مغرب میں ایک مختصر سی حکومت ہے۔ یہاں کی آبادی بھی نہایت مختصر ہے۔

لبنان

شام سے ملا ہوا ایک چھوٹا سا ملک ہے شیعوں کی آبادی بھی بکثرت ہے۔ یہاں پر مذہب کے آدمی کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ شیعوں کے چند علمی مراکز بھی یہاں رہ چکے ہیں۔ اشاعت کا بھی ایک اہم مرکز ہے۔ نئی تہذیب کا غلبہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود دیانت کافہ مقدار میں ہے۔

ملیشیا

چھوٹا سا مسلمان ملک ہے۔ ربڑ کی پیداوار زیادہ ہے۔ شروع میں کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ لیکن ادھر کچھ عرصہ سے انقلابات کی وجہ سے عالمگیر شہرت کا حامل ہو گیا ہے۔ فی الحال اسلام اور کمیومزن کی کشمکش کا شکار ہے۔

مراقش

الجزائر کے مغرب میں چھوٹا سا مسلمان ملک ہے۔ یہیں سے مسلمانوں بے یورپ پر حملہ کر کے اسپین پر قبضہ کیا تھا۔ اور صدیوں تکوہاں اپنی حکومت جمائے رہے۔ لیکن آخر کار مذہب سے غفلت اور باہمی اختلافات کی بنیاد پر اپنی دیرینہ عظمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مصر

برا عظم افریقہ کے شمالی حصے کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے مصر کا دارالحکومت قاہرہ ہے۔ دور قدیم میں یہاں کے بادشاہوں کو فرعون کہا جاتا تھا۔ انھیں فراعنہ میں سے ایک فرعون وہ بھی تھا جس کے گھر میں جناب موسیٰؐ کی پرورش ہوئی تھی اور جس کی حکومت کا نتیجہ آپ ہی نے بڑے ہو کر پلٹا تھا۔

مصر میں ایک بہت بڑی علمی درسگاہ جامعہ الزہر ہے جسے چند صدی قبل ایک فاطمی بادشاہ المعتز باللہ نے قائم کیا تھا۔ لیکن فاطمی حکومت کے زوال کے ساتھ ہی وہاں سے شیعیت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ ادھر چند برس قبل مرحوم شیخ محمود شلتوت شیخ الازہر نے شیعہ فقہ کو داخل کر کے یہ فتویٰ دیدیا تھا کہ شیعہ مجتہد کی تقلید ہر سنی کے لئے جائز ہے۔ اس لئے کہ شیعہ بھی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے۔