امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم0%

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 13900
ڈاؤنلوڈ: 4249


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13900 / ڈاؤنلوڈ: 4249
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

اٹھارہواں سبق

مجاہدوں کی زندگی

دنیا میں لڑنے والوں کے قصے بہت ملیں گے۔ دوسرے ملکوں پر چڑھائی کر کے فاتح اعظیم کا لقب لینے والے بہت دکھائی دیں گے۔تیر و تلوار کے بھروسے میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے والے بہت نظر آئیں گے۔ لیکن حق و صداقت کی راہ میں قربانی پیش کرنے والے بہت کم ملیں گے۔ اختیار رکھتے ہوئے صبر کر کے داد شجاعت دینے والے بہت کم دکھائی دیں گے۔ آج آپ کو انھیں مجاہدوں کی زندگی کا حال سنایا جا رہا ہے۔ جو حق و صداقت ، عدل ، و انصاف کی حفاضت میں جان بحق تسلیم ہو گئے۔ جنھوں نے بےپناہ مصائب کا سامنا کیا۔ لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ سولی پر لٹکا دئے گئے ، لیکن کلمہ حق کی بلندی کا اعلان کرتے رہے۔ ایسے مجاہدین اسلام کی توریخ میں بےشمار ہیں ، لیکن افسوس کہ تاریخ کی کتاب لکھنے والوں نے حکومت کے خوف سے ان کی زندگی کو سامنے نہیں آنے دیا اور نہ ان کے کارناموں کو پوری طرح ہم تک پہنچنے دیا۔ جہاں تک حالات سامنے آ سکے ہیں انھیں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

مالک بن نویرہ یہ زمین بطحا کے رہنے والے اور اپنے وقت کے بہت بڑے بہادر تھے۔ شاعری اور شہوراری میں خاص شہرت کے مالک تھے۔ لیکن اس کے باوجود جنگجو ، لڑاکو اور حملہ آور نہیں تھے۔ بلکہ نہایت درجہ دیانت دار ، امین تھے۔ رسول اکرمؐ نے انھیں زکوٰۃ وغیرہ وصول کرنے کے لئے مقرر کر دیا تھا اور انھوں نے کافی مقدار میں مال زکوٰۃ جمع بھی کر لیا تھا کہ اچانک حضور کا انتقال ہو گیا۔ مالک مال زکوٰۃ لے کر مدینے آئے تو معلوم ہوا کہ حضورؐ کی جگہ پر ایک صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ انھوں نے دبار میں برجتہ کر دیا کہ آپ حکوم رسولؐ کے آگے نہ بڑھئے۔ یہ عہدہ غدیر خم میں علیؐ کو مل چکا ہے اور میں اسلام کی امنت آپ کے سپرد نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر واپس چلے گئے۔ حکومت نے انھیں باغی قرار دے کر ایک لشکر بھیج دیا۔ لشکر کی سرداری خالد بن ولید کو دی۔ خالد نے سفا کا نہ انداز سے حملہ کر دیا اور مالک کی قوم کو نماز کی حالت میں یہ تیغ کر دیا۔ آخر میں مالک کو بھی شہید کر دیا۔ اور ان کی زوجہ محترمہ سے ناجائز سلوک کیا۔ مالک کلمہ پڑھتے مر گئے۔ لیکن لشکرنے اس کا کوئی خیال نہیں کیا۔ جس پر خلیفہ دوم کو بھی غصہ آ گیا اور انھوں نے کہا کہ میرا بس چل گیا تو میں خالد کو سنگسار کراؤںگا۔ اس لئے کہ مسلمان کو قتل کر کے اس کی زوجہ سے بدکاری کی ہے۔

تاریخ یہ وہ مجاہد تھا جس نے سر کٹا دیا، آبرو لٹا دی ، قوم کی قربانی دیدی لیکن حق کو ہی کہتا رہا۔ جارح فاتح نہیں ہوتا حق پر مرنے والا فاتح و مجاہد ہوتا ہے۔

سعد بن عبادہ

مدینہ کے سرداروں اور رسول اکرمؐ کے انصار میں سے تھے۔ اہل بیت سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے۔ حضرت علیؐ کو رسول اکرمؐ کا خلیفہ برحق سمجھتے تھے۔ رسول خداؐ کے انتقال کے بعد جب مسلمانوں نے آپ کے جنازہ کو چھوڑ کر حکومت کا فیصلہ کرنا شروع کر دیا تو سعد نے بار بار حضرت علیؐ کی طرفداری کی کوشش کی لیکن بعض لوگوں کی پیش قدمی کی بنا پر ناکام رہے اور حکومت اہلبیتؐ کے گھر سے نکل گئی جس کا سعد کے دل پر بےحد اثر ہوا۔ لیکن مصلحت سے خاموش ہو گئے۔ خلیفہ اول کی وفات کے بعدایک دن خلیفہ دوم سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے کہا سعد ! کیا اب بھی تم انھیں کے ساتھ ہو ؟ سعد نے کہا بیشک اور مجھے تو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ میں تمھارے دور حکومت میں ملک کے اندر ہوں خلیفہ دوم نے غیرت دلائی کہ اگر ایسا ہے تو مدینہ چھوڑ دو۔ سعد کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور انھوں نے چند دنوں کے بعد مدینہ چھوڑ کر شام کو آباد کر لیا۔ لیکن حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی اور ۱۵ ؁ میں خالد بن ولید جیسے خونریز کو بھیج کر سعد کو شہید کرا دیا۔

اتفاق سے ایک دن خالد کی خلیفہ سے ملاقات ہو گئی۔ خلیفہ نے کہا کہ تم سخت نالائق ہو۔ تم نے مالک بن نویرہ کو قتل کیا ہے خالد نے کہا ہاں یہ تو صحیح ہے۔ لیکن میں نے اپنی عداوت کی وجہ سے مالک کو قتل کیا ہے اور آپ کی عداوت کی وجہ سے سعد کو۔ یہ سن کر خلیفہ دوم چپ ہو گئے۔ ان ہی خالد کو سیف اللہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سعد ان مجاہدین میں ہیں جنھوں نے تیروں کا نشانہ بننا گوارا کر لیا ، قسم کی سرداری چھوڑ دی ، وطن کو خیرباد کہہ دیا لیکن کسی طاقت سے مروعب نہیں ہوئے اور نی کسی قیمت پر حق کا دامن چھوڑ نے پر آمادہ ہوئے۔

حجر بن عدی

جنگ صفین میں قبیلہ کندہ کے سرداع اور جنگ نہروان میں لشکر علیؐ کے علمبردار تھے۔ جناب حجر کی شخصیت یہ تھی کہ ان کی شہادت کے بارے میں رسولؐ نے پیشگوئی کی تھی۔ اور یہ فرمایا تھا کہ ایسے شہیدوں کے قتل پر خدا اور ملائکہ غضبناک ہوںگے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ نے معاویہ سے کہا تھا اور امام حسینؐ نے معاویہ کو کہا تھا کہ تم نے حجر جیسے عبادت گزار افراد کو قتل کیا ہے جو بدعتوں کے مخالف اور راہ خدا میں بےخوف جہاد کرنے والے تھے۔ تم نے ان سے عہدوپیمان بھی کیا لیکن اس کے بعد ظلم و ستم کے ساتھ قتل کرا دیا۔

جناب حجر کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ کبھی حکومت وقت سے مرعوب آپ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حاکم کا خصوصی حکم پہنچا کہ حجر اپنے ساتھیوں سمیت نماز جماعت میں شریک ہوا کریں اور حضرت علیؐ پر سب و شتم سنا کریں۔حجر کے لئے یہ بات انتہائی سخت تھی۔ لیکن کچھ سوچ کر انکار نہ کیا۔ ایک دن مغیرہ نماز کا خطبہ پڑھ رہا تھا۔ اس نے جیسے ہی حضرت علیؐ کی مذمت شروع کی حجر نے کھڑے ہو کر ڈانٹ دیا۔ حجر کا بولنا تھا کہ سارے مجمع کی آواز بلند ہو گئی۔ اور مغیرہ خاموش ہو گیا۔ کوفہ کی گورنری کا عہدہ سے دیا۔ زیاد نے بھی یہی حرکت شروع کر دی اور ایک دن خطبہ میں اتنا طول دیا کہ نماز کا وقت جانے لگا۔ حجر نے ایک خطبہ ختم کر کے نماز قائم کر دی۔ لیکن اس واقعہ کی اطلاع معاویہ کو کر دی۔ اس نے زنجیروں میں جکڑ کر بھیج دینے کا حکم جاری کر دیا۔ گورنر نے حجر کو گرفتار کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن قبائل کی حماعت کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔آخر تمام قبائل کو یکجا کر کے کوشش کی اور گرفتار بھی کرا لیا۔

لیکن جناب حجر اپنی شجاعت و مردانگی کی وجہ سے گرفت سے نکل گئے۔ آکر میں حکومت نے محمد بن اشعث کو تین دن کا وقت دے کر اس کام پر مامور کیا اور اس نے خوشامد کر کے حجر کو گرفتار کیا اور طے یہ ہوا کہ زندہ معاویہ کے پاس بھیجے جائیں گے۔ لیکن جب یہ سب مقام عذرا میں جمع کئے گئے تو معاویہ نے چند آدمیوں کو اس حکم کے ساتھ بھیج دیا کہ اگر حجر اور ان کے سارتھی علیؐ سے بےزاری نہ کریں تو انھیں قتل کر دینا وہ لوگ آئے قتل کی تیاریاں ہوئیں۔ لیکن تمام لوگوں نے ایک رات عبادت کی مہلت لی۔ صبح کو سب ایک ایک کر کے شہید کر دئے گئے۔ جناب حجر نے یہ وصیت کر دی کہ میرے جسم سے ہتھکڑی نہ جدا کی جائے اور نہ مجھے غسل دیا جائے بلکہ انھیں کپڑوں میں دفن کر دیا جائے۔

حقیقت میں یہی افراد وہ تھے جنھیں لفظ مجاہد زیب دیتا ہے کہ انھوں نے سر کٹا دئے لیکن نہ عبادت کام ساتھ چھوڑا نہ اہلبیت کا دامن ۔

عمرو بن الحمق خزاعی

یہ رسولؐ اللہ کے مقدس صحابی تھے جن کی سجاوت اور مہمان نوازی کی خبر خود حضورؐ نے دی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا اور اسے یہ خبر دی کہ تم لوگ ایک رات میں راستہ بھول جاؤگے۔ ایسے موقع پر بائیںہاتھ کی طرف سفر کرنا۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک شخص سے ملاقات کروگے وہ تم کو اس شرط سے راستہ بتائے گا کہ پہلے اس کے یہاں کھانا کھا لو۔ تم اس سے میرا سلام کہنا چنانچہ لشکر چلا ، راستہ بھولا ، بائیں طرف چلنے پر ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ اس نے وہی شرط بیان کی۔ ان لوگوں نے کھانا کھایا اور اب جو دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ عمرو بن الحمق ہیں۔ یہ لوگ عمرو سے رسولؐ کا سلام کہنا بھول گئے تھے۔ عمرو نے خود ہی سوال کیا کہ کیا تم لوگ رسولؐ کے بھیجے ہوئے ہو اور کیا آخری نبی کا ظہور ہو گیا ہے ؟ لوگوں نے حضرت کی نبوت کی خبر دی۔ عمرو مدینہ آئے اور وہاں اسلام سے مشرف ہوئے۔ عمرو کی خواہش تھی کہ رسول اکرمؐ کے ساتھ قہیں۔ لیکن آپ نے یہ کہہ کر وپس کر دیا کہ جب میرا بھائی علیؐ کوفہ میں آئے تو تم اس کے پاس حاضر ہو جانا چنانچہ جب جناب امیرؐ کوفہ آئے تو عمرو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں کسی مال و دولت یا شہرت کی لالچ میں آپ کے پاس نہیں آیا۔ میں تو صرف اس لئے آیا ہوں کہ آپ سب سے زیادہ فضل و کمال رکھتے ہیں۔ رسولؐ کے بھائی سیدۃالنسا جناب فاطمہؐ کے شوہر ہیں۔ آپ کے خدمات بےشمار ہیں ۔ میں آپ کے پاس اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ حکم دیں تو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دوں ، سمندروں کا پانی نکالتا رہوں۔ تلوار سے جہاد کرتا رہوں اور دل میں یہی خیال رہے کہ ابھی آپ کا حق ادا نہیں ہو سکا۔ امیر المومنینؐ یہ سن کر بےحد خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا کاش میرے دوستوں میں تم ایسے سو آدمی موجود ہوتے۔

صلح امام حسنؐ کے بعد جب مغیرہ نے کوفہ میں امیرالمومنینؐ پرسب وشتم کرنا شروع کیا تو عمرو جیسے حضرات نے ٹوکا اور باآخر اسے کوفہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس کی جگہ زیاد آیا۔ اس نے کافی ڈرایا دھمکایا۔ لیکن ان حضرات پر کوئیاثر نہ ہوا۔ آپ کوفہ سے موصل چلے گئے۔ معاویہ نے وہاں کے حاکم کو فرمان بھیجا۔ آپ وہاں سے حصراؤں کی طرف نکل گئے اور آخر میں ایک غار میں جا چھپے۔ جہاں سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے انتقال فرما گئے۔ عامل موصل نے آپ کی لاش کا سر غصہ میں کاٹ لیا اور اسے زیاد کے پاس بھیج دیا۔ زیاد نے اس سر کو معاویہ کے پاس بطور تحفہ روانہ کر دیا۔ اسلامی تاریخ میں یہ اپنے انداز کا پہلا واقعہ ہے۔

مالک اشتر

ہمت کا پہاڑ ، ارادوں کی چٹان ، علم کا سمندر ، میدان کا مجاہد ، تلوار کا دھنی ، حق کا محافظ ، منبر کا خطیب ، مالک بن حارث اشتر جس کی تعریف کے لئےحضرت علیؐ کا ایک فقرہ کافی تھا۔ ایک غیر معصوم انسان کی اس سے بڑی تعریف اور کیا ہو سکتی ہے۔کہ اسے معصوم امام اپنا جیسا کہہ دے۔ آپ کی بہادری کا عالم یہ تھا کہ کسی نہتے آدمی پر حملہ نہیں کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ ایسے آدمی کو اپنا مقابل سمجھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ جمل کی مشہور لڑائی میں آپ کا یہ عالم تھا کہ لشکر مخالف کا ہر سپاہی آپ کے نام سے کانپ رہا تھا۔ آپ اونٹ کے قریب پہنچ گئے تھے اور ایک ایک سپاہی کو یہ تیغ کر رہے تھے۔ آخر حضرت علیؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ اونٹ ہی پر قربان ہو رہے ہیں ، اور بلا وجہ اپنی جان دے رہے ہیں لہذا بہتر یہ ہے کہ اس اونٹ کو گرا دیا جائے تاکہ دوسروں کی جان ضائع نہ ہو۔ یہ کہہ کر آپ نے مالک کو بلایا اور اس مشکل کام پر ان کو مامور کیا۔

صفین کی جنگ میں جب معاویہ کے لشکر نے نہر پر قبضہ کر لیا اور حضرت علیؐ کے سپاہیوں کو پانی دینے سے انکار کر دیا تو آپ نے فوج کے آخری دستے میں مالک ہی کو روانہ کیا تھا۔ مالک نے وہاں پہنچتے ہی گھاٹ دشمن سے چھین لیا۔ یہ اور بات ہے کہ علیؐ والے کسی کو پانی سے محروم نہیں کرتے۔

صفین کے میدان میں ان میں معاویہ کی طرف سے ایسے ایسے لمبے تڑنگے آدمی آئے تھے جیسے آدمی کبھی میدان میں نہیں دیکھے گئے تھے۔ لیکن حضرت مالک نے سب کو دو دو ہاتھ میں ان کی اصلی منزل تک پہنچا دیا۔

صفین کی آخری رات جسے لیلتہ الہریر کہا جاتا ہے۔ جس میں ابن عباس مالک اشتر اور جناب امیر تینوں حضرات میدان ان جنگ میں آ گئے تھے، مالک فوج کو اس طرح آگے بڑھا رہے جیسے کوئی پر سکون جگہ پر جا رہا ہو۔ رات اور دن لڑائی ہوتی رہی اور مالک تن تنہا پوری فوج کی سربراہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب فوج تھک گئی تو خود آگے بڑھے اور معاویہ صلح کا شور مچا دیا۔ مجبوراً جناب امیرؐ نے مالک کو واپس بلا لیا۔ ورنہ شامیوں کا نام ونشان تک نہ ملتا۔ حقیقاً مجاہد کی شان بھی یہی ہونی چاہئے کہ جنگ کے ولولوں میں بھی اپنے آقا کا حکم نہ بھول جائے۔

محمد بن ابی بکر مصر کے گورنر تھے۔ مصر والوں نے ان کے خلاف بغاوت شروع کی تو جناب امیرؐ نے اشتر کو روانہ کیا۔ معاویہ کو اس کی اطلاع ہو گئی۔ اس نے ایک شخص کو الغام کی لالچ دے کر اسے قتل مالک پر تیار کیا۔ اس نے راستہ میں اپنے گھر مدعو کر کے فرطِ مسرت سے خطبہ پڑھا۔ اور اعلان کیا کہ علیؐ کے دو ہاتھ تھے۔ ایک اعمار یاسر، کومیں نے صفین میں کاٹ دیا اور ایک مالک اشتر ، آج کٹ گیا۔

محمد بن ابی بکر

جناب اسمائ بنت عمیس ایک بڑی دیندار اور محب ، اہلبیت خاتون تھیں۔ یہ پہلے جناب جعفر طیار کی زوجیت میں رہیں ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آئیں۔ وہیں ایک فرزند کی ولادت ہوئی جس کا نام محمد پڑا۔ فرزند کو ماں کی طرف سے نجابت و شرافت اور محبت اہلبیتؐ جیسی دولتیں ملیں۔ باپ کی وجہ سے حکومت و ریاست کے عہدہ کے ملنے کا امکان تھا لیکن محمد نے ان سب پر ٹھوکر مار دی اور کبھی مسلمانوں کے درمیان یہ نہیں کہا کہ میرا باپ اسلامی حکومت کا بادشاہ تھا۔ بلکہ اس تذکرہ کو اپنے لئے باعث تکلیف سمجھتے تھے۔ البتہ اس پر فخر کرتے رہے کہ میری پرورش مولاؐ کی کود میں ہوئی ہے محمد کے کردار کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ جب مصر کے گورنر نے سخت مظالم شروع کئے اور مصر والوں نے مدینہ آ کر گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تو خلیفہ نے یہی سوال کیا کہ پھر کسی کو گورنر بنایا جائے تو لوگوں نے بالاتفاق ساتھ محمد کے قتل کا فرمان بھی جاری ہو گیا جس کے کھل جانے پر حکومت ہی کا خاتمہ ہو گیا۔ محمد کے کردار کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ انھوں نے نہ اپنے باپ کی پرواہ کی نہ بہن کی۔ ابتدا میں باپ کے مذہب سے الگ رہے اور آکر میں بہن کے مقابلے میں جنگ جمل میں آئے۔ حضرت علیؐ نے اپنے دور حکومت میں انھیں مصر کا گورنر بنا دیا تھا۔ لیکن معاویہ نے ایک فوج بھیج کر محمد کو قتل کرا دیا۔ قتل کے بعد آپ کی لاش گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دی گئی جس کا اثر حضرت عائشہ پر یہ ہوا کہ انھوں نے بھنا ہوا گوشت کھانا چھوڑ دیا اور بھائی کے قاتل کے لئے برابر بد دعا کرتی رہیں۔

رشید ہجری

امیرالمومنینؐ کے خاص با ایمان اصحاب میں تھے۔ حضرت نے انھیں آئندہ آنے والی آفتوں سے باخبر کر دیا تھا صاحب کرامت ایسے تھے کہ ایک مرتبہ حکومت سے خوف سے ابو اراکہ نامی شخص کے یہاں چلے گئے۔ اس نے اندر آکر فریاد کی کہ میرے تمام مصاجوں نے دیکھ لیا ہے۔ اگر وہ شکایت کر دیں گے تو میں بھی قتل ہو جاؤںگا۔ رشید نے فرمایا مجھے کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ ابواراکہ نے اصرار کیا اور پھر باہر نکل کر لوگوں سے دریافت کیا۔ سب نے کسی کے اندر جانے سے انکار کیا۔ گھبرا کر دربار حکومت میں آئے وہاں بادشاہ نے بھی رشید کی کسی خبر سے انکار کیا۔ حیران بیٹھے تھے کہ دیکھا رشید آ رہے ہیں۔ بادشاہ نے ان کا بےحد احترام کیا اور پھر بات کر کے رخصت کر دیا۔ ابواراکہ کو تعجب ہوا پوچھا یہ کون بزرگ تھے ؟ بادشاہ نے کہا ایک شامی بزرگ تھے۔ ایک کام سے آئے تھے۔ ابواراکہ دنگ رہ گیا۔ گھر آ کر دیکھا تو رشید موجود تھے۔ انھوں نے فرمایا ہم دوستداران اہلبیت ہیں ہمارے لئے تعجب نہ کرو۔

امیرالمومنینؐ نے رشید سے کہہ دیا تھا کہ میری محبت میں تمہارے ہاتھ پاؤں اور تمہاری زبان کاٹی جائیگی۔ رشید بہت خوش تھے۔ چنانچہ ان کی بیٹی کا بیان ہے کہ بادشاہ نے انھیں بلاکر حکم دیا کہ علیؐ سے بیزاری کرو۔ رشید نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کر دوںگا۔ رشید نے کہا کہ میرے ہاتھ پاؤں کٹیںگے میری زبان قطع ہوگی۔ بادشاہ نے کہا میں زبان قطع نہ کروںگا تاکہ تمہارے مولا کی بات غلط ہو جائے۔ یہ کہہ کر جلاد کو حکم دیا۔ اس نے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں سر راہ ڈال دیا۔ لوگوں نے اٹھا کر گھر پہنچا دیا۔ بیٹی نے پوچھا کبیا حال ہے ؟ فرمایا مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ذرا جلدی قلم دوات لے آؤ اور لوگوں کو جمع کرو ، مولا کی کچھ حدیثیں لکھوا دوں۔ رشید نے یہ کام شروع کیا اور ابن زیاد کو خبر ہوئی۔ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ زبان بھی کاٹ دے جلاد قریب آیا۔ رشید نے یہ کہہ کر زبان نکال دی کہ میرے مولا کی بات غلط نہیں ہو سکتی۔

یہ ہیں اسلام کے وہ باہمت سپاہی جن پر اسلام کی تاریخ قیامت تک فخر کرتی رہےگی۔

میثم بن ییحیٰ تمار یہ شروع میں ایک عورت کے غلام تھے۔ حضرت علیؐ علیہا السلام نے انھیں خرید کر آزاد کر دیا تھا۔ عرب میں آزاد ہو جانے کے بعد بھی نہ ہوتے تھے لیکن خراب برتاؤ کیا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک غلام آدمی بھی نہ ہوتے تھے لیکن مولاؐ نے میثم کو آزاد کرنے کے بعد اتنا بلند بنا دیا کہ میثن آپ کے رازدار بن گئے۔ بہت سی راز کی باتیں جو دوسروں کو نہیں بتائی جا سکتی تھیں وہ آپ نے میثم کو بتا دی تھیں۔ چنانچہ خود ان کے صاحبزادے صالح کا بیان ہے کہ ایک دن کچھ لوگ کشتی کا سفر کر رہے تھے اچانک ایک تیز آندھی آئی۔ لوگ پریشان ہونے لگے تو میثم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی کچتیوں کو باندھ لو۔ اس لئے کہ ابھی ابھی معاویہ نے انتقال کیا ہے۔ ایک ہفتہ کے بعد جب شام سے قاصد آیا تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی موت ٹھیک اسی وقت ہوئی تھی۔

جناب امیرؐ نے میثم کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ تمہیں فلاں درخت پر سولی دی جائے گی۔ میثم کے شوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ اس خبر کے بعد سے برابر اس درخت کے پاس جایا کرتے تھے ، اس میں پانی ڈالتے تھے ، اس کے نیچے نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص نے پوچھا کہ کیا تم یہاں کوئی مکان خریدنا چاہتے ہو ؟ میثم نے کہا نہیں بلکہ میں تمہارا ہمسایہ بنوںگا۔ ذرا اس دن کا خیال رکھنا زندگی کے آخری زمانے میں میثم حج کے لئے گئے۔ حج سے فارغ ہو کر مدینے گئے۔ جناب ام سلمہ کے دروازے پر پہنچے۔ آپ نے پوچھا تم کون ہو ؟ میثم نے کہا ایک مرد عراقی ہوں۔ پوچھا تمہارا نام کیا ہے ؟ کہا حضرت علیؐ کا غلام میثم جناب ام سلمہ نے کہا سبحان اللا میں نے اکثر رسول اکرمؐ کو تمہارے بارے میں علیؐ سے وصیت کرتے سنا ہے۔ اس کے بعد امام حسینؐ کے بارے میں سوال کیا۔ معلوم ہوا ایک باغ میں تزریف فرما ہیں ۔ میثم نے کہا اب میرے پاس وقت نہیں ہے۔ جب حضرتؐ آئیں تو میرا سلام کہہ دیجئے گا اور کہیئے گا کہ اب خدا کے یہاں ملاقات ہوگی۔ یہ کہہ کر کوفہ واپس آئے تو ابن زیاد نے گرفتار کرا کے طلب کیا۔ پوچھا تمہارا رب کہاں ہے؟ میثم نے کہا ظالموں کی تاک میں ہے اور تو بھی ایک ظالم ہے۔ کہا سنا ہے کہ تم علیؐ کے مخصوص آدمی ہو ؟ میثم نے کہا بےشک۔ کہا تمہارے آقا نے تمہارے بارے میں کیا بیان کیا ہے ؟ میثم نے کہا مولاؐ نے فرمایا ہے کہ تمہیں سولی دی جائے گی۔ ابن زیاد نے کہا میں اس کی مخالفت کروںگا۔ میثم نے کہا یہ باممکن ہے یہ مولاؐ کو رسول اکرمؐ نے بتایا ہے۔ ابن زیاد کو آخر کار میثم کو سولی دینا پری۔ میثم نے تختہ دار سے آواز دی۔ کوفہ والوں آؤ میرے مولاؐ کی حدیث سنو۔ اب اس کے بعد وقت نہ ملےگا۔ ابن زیاد کو یہ سن کر چکر آ گیا۔ اس نے میثم کی زبان پر لجام چڑھوا دی۔ یہ تاریخ اسلام کا پہلا واقعہ تھا۔ میثم شہید ہو گئے۔ لیکن لاش تختہ دار ہی پر رہی۔ رات کے وقت کچھ لوگ انھیں سولی سمیت اٹھانے گئے اور لے جاکر دفن کر دیا۔ صبح کے وقت تلاش کی گئی تو سولی کی لکڑی مل گئی لیکن لاش نہیں مل سکی۔ مجاہد ین راہ حق کے یہی کارنامے ہیں جنھوں نے ان کے ذکر کو آج تک زندہ رکھا ہے۔

مختار وہ حق آگاہ مجاہد جس پر امیرالمومنینؐ کو اعتماد اور امام حسینؐ کو بھروسہ تھا۔ جس کے بارے میں امام زین العابدینؐ ، امام محمد باقرؐ ، امام جعفر صادقؐ نے خیر کی دعائیں کی ہیں جس کے جوش محبت کا یہ عالم تھا کہ جب جناب مسلمؐ امام حسینؐ کے سفیر بن کر کوفہ آئے تو مختار ہی کے یہاں قیام کیا۔ مگر حکومت اسے برداشت نہ کر سکی۔ لہذا مختار کو قید خانے میں بند کر دیا گیا۔ میثم سے قید خانے میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مختار کو تسلی دی کہ میں شہید ہو جاؤں گا لیکن تم زندہ ہو گے۔ تمہارے حوالے قدرت کا ایک بڑا کام ہے۔ مختار قید میں رہے اور جب امام حسینؐ کی شہادت کے بعد اسیروں کو کوفہ میں لایا گیا تو مختار کو بھی دربار ابن زیاد میں پیش کیا گیا۔ لیکن انھوں نے بادشاہ کو سلام کرنے سے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ حسینؐ کے علاوہ میرا کوئی امیر نہیں ہے۔ اسی دربار میں مختار کو امام حسینؐ کی چہادت کی خبر ملی۔ اب مختار کے لئے ایک ایک لحمہ دو بھر ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ انھیں رہائی اور انھوں نے خون امامؐ کے انتقال کی آواز بلند کی۔ دشمنان اہلبیتؐ نے پوری قوت سے اس تحریک کی مخالفت کی۔ مختار کا جوش بڑھتا ہی گہا ادھر سلیمان بن صرد بھی اس تحریک میں آ گئے۔ اور مختار کو مالک اشتر کے فرزند ابراہیم جیسا سپاہی ہاتھ آ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی دنوں کے اندر لاتعداد قاتلان امام حسینؐ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جناب مختار نے سب کو گرفتار کرایا اور جس نے جو ظلم کیا تھا اس کو وسی ہی سزا دی۔ مختار کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ امام زینالعابدینؐ نے انھیں سلام کہلوایا اور جب مختار کی طرف سے بھیجے ہوئے سر حضرتؐ کے پاس پہنچے تو کربلا کے واقعہ کے بعد سے پہلی مرتبہ مسکرائے۔

سچ ہے کہ محبت ہو تو ایسا ہو کہ اپنے عمل سے روتے ہوئے امام کو ہنسا دے تاریخ اسلام ان مجاہدوں پر ناز کرتی رہےگی اور انھیں کے کارناموں کو اسلام کی تاریخ کہا جائے گا۔

(نوٹ :۔ مجاہدین اسلام کی زندگی کے واقعات اس طرح پڑھائے جائیں کہ ذہن نشین ہو جائین۔)

ان لفظ کے معنی بتاؤ :۔

مجاہد ۔ بطحا ۔ شہسواری ۔ جنگجو ۔ دیانتدار ۔ امین ۔ برجستہ ۔ سلوک ۔ سنگسار ۔ جارح ۔ باغی ۔ عداوت ۔ خلیفہ ۔ غضب ۔ عامل ۔ ،موصل ۔ چٹان ۔ دھنی ۔ خطیب ۔ تہ تیغ ۔ صفین ۔ لیلتہ الہریر ۔ کمان ۔ کرامت ۔ سفیر ۔ تسلی ۔ نجابت ۔ تکتہ دار ۔ لاتعداد ۔ محب ۔ حق آگاہ ۔ لجام ۔ لحمہ۔

انیسواں سبق

خطوط نویسی

آدمی کی زندگی کے ليے خط و کتابت بڑی ضروری چیز ہے۔ ایک جگہ کا رہنے والا دوسری جگہ کے آدمی تک اپنی بات پہنچانے اور دوسرے کے حالات معلوم کرنے کے لئے خط ہی کا سہارا لیتا ہے۔ آج کے زمانے میں جب کوئی شہر دوسرے شہر سے یا کوئی ملک دوسرے ملک سے الگ رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ اور دو مقامات کے درمیان آمدورفت کے لئے مالی دشواریوں کے علاوہ بھی دوسری مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے۔ تو خط ہی کو معلومات کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔

خط و کتابت دیکھنے میں تو بڑی معمولی چیز ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی کو خط لکھتا ہی رہتا ہے لیکن صحیح طریقہ پر خط لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہم آپ کے سامنے چند نمونے پیش کرتے ہیں جن سے اس بات کا صحیح زندازہ ہو جائے گا اور خط لکھنے کا ڈھنگ بھی معلوم ہو جائےگا۔

باپ کا خط بیٹے کے نام

نئی دہلی

یکم جنوری ۱۹۸۸ ؁

نور نظر سلمہ ،۔۔۔۔۔۔۔دعائیں

تمہارا خط ملا۔ یہ دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی کہ تم نے اپنے امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔ تمہارا انعام رکھا ہوا ہے۔ جب کوئی جانے والا ملےگا بھیج دیا جائے گا یا میں خود ہی لے کر آؤںگا لیکن یہ یاد رہے کہ آدمی کو انعام کی خاطر محنت نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ لالچی آدمی کا کام ہے اور لالچ بہت بری بلا ہے۔ تم نے سنا ہوگا کہ طمع میں تین حرف ہیں اور تینوں خالی ( بےنقطہ) ہیں۔

اچھے آدمی کی صفت یہ ہے کہ وہ علم کو اللہ کی خوشنودی اور بندوں کی خدمت کے لئے حاصل کرے جس علم میں اللہ کی خوشنودی نہ ہو وہ آخرت کے لئے بیکار اور جس علم سے بندوں کی خدمت نہ کی جا سکے وہ دنیا و آخرت دونوں کیلیےبےسودہر اور ہاں دیکھو آج کل کے لڑکے جب کچھ پڑھ لیتے ہیں تو وہ خدا و رسولؐ کو بھول جاتے ہیں۔ نماز روزے سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تمہیں میری نصیحت یہ ہے کہ خبردار ایسی کوئی بات نہ ہونے پائے انسان کی انسانیت اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ خدا و رسولؐ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس کے بعد تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے۔ نماز ہمیشہ جماعت سے پڑھا کرو۔ مجلسوں میں ضرور شرکت کیا کرو وہاں دین کی اچھی اچھی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ائمہ معصومینؐ کی زندگی معلوم ہوتی ہے۔ ان کے کردار کا تذکرہ ہوتا ہے اور انھیں باتوں سے انسان کا کردار بنتا ہے۔ گھر میں سب کو دعا کہہ دینا۔ اپنے ماسٹر صاحب کو بھی دعا کہہ دینا۔ ان کا احترام تمہارا فرض ہے۔

دعاگو

محسن

بیٹے کا خط باپ کے نام

کانپور

۸/ جنوری ۱۹۸۸ ؁

والد ماجددام ظلکم سلامٌ علیکم

آپ کا گرامی نامہ ملا۔ آپ نے جس قدر مسرت کا اظہار فرمایا ہے وہ قابل فخر ہے اور ظاہر ہے میری کامیابی پر آپ خوش نہ ہوںگے تو کون خوش ہوگا ؟ یہ سن کر تو آپ کو بہرحال خوشی ہوگی کہ میں روز صبح کو ایک چوتھائی پارہ قرآن مع ترجمہ کے پڑھتا ہوں۔ دل یہی چاہتا ہے کہ وقت مل جائے تو زیادہ پڑھوں لیکن اسکول کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں ملتا۔

میں نماز باجماعت ادا کرتا ہوں۔ میرے نزدیک وہ نماز بالکل بےمزہ ہے جس میں اللہ کے گھر کو چھوڑ کر اپنے گھر کی آبادی کی فکر کی جائے۔ مجلسوں میں ضرور جاتا ہوں۔ اس میں کام کی باتیں معلوم ہوتی ہیں میں برابر کوشش کرتا ہوں کہ آپ کی ہر نصیحت پر عمل کرتا رہوں۔

اس سال کا امتحان بہت سخت قسم کا ہے۔ مضامین بھی مشکل ہیں۔ محنت تو کر ہی رہا ہوں لیکن میرا عقیدہ یہ ہے کہ آپ حضرات کی دعا کے بغیر کوئی کام انجام کو نہیں پہنچ سکتا۔ والدہ صاحبہ سے بھی سلام کے بعد دعا کے لئے فرمائش کر دیجئے گا۔ تمام بزرگوں کو سلام اور چھوٹوں کو دعا کہہ دیجئےگا۔ فقط والسلام

آپ کا جاوید

استاد کا خط شاگرد کے نام

الہآباد

۷/ جون ۱۹۸۸؁

عزیزی سلمہ دعائیں

جب سے تم گئے ہو آج تک تم نے کوئی خط نہیں بھیجا یہ آج کل کے لڑکوں کی بہت بڑی عادت ہے کہ اسکول سے نکلنے کے بعد ہی اپنے استاد کو بھول جاتے ہیں۔ انھیں یہ خیال نہیں رہےا ہے کہ وہ جس علم پر ناز کر رہے ہیں وہ اسی استاد کا دیا ہوا صدقہ ہے۔ مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہ تھی ہو سکتا ہے تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہو اس لئے خط نہ لکھا ہو۔ لیکن اس کی بھی اطلاع تو کرنی ہی چاہئے تھی۔ خیر اب فوراً اپنے آنے کی اطلاع کرو۔ جولائی کا مہینا قریب ہے۔ اسکول کھلنے والے ہیں۔ اس سال داخلہ میں بڑی دشواریاں ہوں گی۔ اس لئے کہ اسکول کے منتظمین نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف انھیں لڑکوں کا داخلہ کریں گے جو کم سے کم سکنڈ ڈویژن سے پاس ہوں گے۔ تم تو ماشائ اللہ فرسٹ پاس ہو تمہارا تو داخلہ ہو ہی جائےگا۔ لیکن آیئندہ کافی محنت کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اب آئے دن ملک کا تعلیمی معیار اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ خدا کرے تم ہمیشہ ترقی کرتے ہو۔ اپنے گھر والوں سے سلام و دعا کہہ دینا۔

دعاگو

کاظم

شاگرد کا خط استاد کے نام

فتحپور

۱۵/جون۱۹۸۸؁

بندہ پرور سلام مسنون

آپ کا خط کیا ملا میں شرم سے گڑ گیا۔ میری نالائقی کی کوئی انتہا نہیں ہے کہ میں نے اپنے کاموں میں پھنس کر آپ کو خط نہ لکھا۔ جبکہ تمام کاموں کی انجام دہی اسی علم کے سہارے ہو رہی ہے جو آپ کا صدقہ ہے۔ خدا کی قسم میرا جیسا آدمی انسان کہے جانے کے قابل نہیں ہے انسان وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ اپنے محسن کو یاد رکھے احسان فراموش انسان نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن حضور آپ خود انصاف فرمائیں کہ والد ماجدہ دام ظلمہا کی مسلسل بیماری ، والدہ صاحبہ کی ضعیفی اور کمزوری نے گھر کے سارے کام میرے ذمہ کر دئے تھے۔ کھانا بھی الٹا سیدھا میں ہی پکاتا تھا۔ کپڑے بھی میں ہی دھوتا تھا۔ ایک نوکر تھا وہ بھی چلا گیا آج کل نوکر کھنے کی کسی میں صلاحت ہے۔ پھر آپ کو یہ سن کر خوشی بھی ہو گی کہ میں کسی محنت مزدوری کو عیب نہیں سمجھتا۔ میں ہمت مردانہ رکھتا ہوں جہاں قلم چلا سکتا ہوں وہیں کدال و پھاوڑا بھی چلا سکتا ہوں اور آپ کی دعا شامل حال رہی تو انشائ اللہ آپ مجھے ایک عملی انسان پائیںگے۔ اساتذہ کرام سے سلام عرض کریں ساتھیوں کو بھی سلام۔

آپ کا کمترین خادم

عظیم

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

خطوط نویسی ۔ سلمہ ۔ سروکار ۔ دعاگو ۔ ماجد ۔ دام ظلکم ۔ سلام علیکم ۔ والسلام ۔ عزیزی ۔ بندہ پرور ۔ مسنون ۔ احسان فراموش ۔ دام ظلہ ۔ ہمت مردانہ ۔ انشائ اللہ ۔ اساتذہ ۔ کرام۔