امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم0%

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 13901
ڈاؤنلوڈ: 4249


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13901 / ڈاؤنلوڈ: 4249
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم

امامیہ اردو ریڈر درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

بیسواں سبق

اسلامی انقلاب

انقلاب لانے کے لئے قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے شہیدوں کے خون کی دھاروں سے انقلاب کی تاریخ لکھی جاتی ہے اور یہی خون قوم و ملت کی رگوں میں عزم و حوصلہ بن کر دوڑتا رہتا ہے اسلام الہیٰ انقلابی مذہب ہے اس نے دور جاہلیت میں عربوں کے مازج اور سماج میں اس درجہ تبدیلی پیدا کی کہ جانوروں کا مزاج رکھنے والے عزلوں کو انسانی خوبیوں کا خوگر بنایا۔ جنگجو قوموں کو صلح و آشتی کا درس دے کر میدان جنگ کے بجائے امن و امان کی چاردیواری یا قبائلی طاقتوں کی بنیاد پر کمزوروں کو ظلم کا نشانہ بنایا تھا انھیں عزلوں کا دوست بنا دیا مسلمان بھائی بھائی کا نعرہ نہیں لگوایا بلکہ واقعی بھائی بنا دیا۔

ظلم کو اسلام کبھی برداشت نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ اور نظام عدل کے نفاذیں کو شاں کی صدا دنیا کے گوشہ گوشہ میں گونجنے لگے اور دنیا ایک خدا کے فرمان کے سایہ میں آ جائے۔ علمائ اسلام نے اس سلسلہ میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے انھوں نے بتا دیا ہے کہ خدا پر بھروسہ کرنے والا اور خدا کو سب سے بڑی طاقت ماننے والا کسی سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ مومن ہے لہذا سر بلند ہو کر رہےگا۔ لیکن اس اسلامی انقلاب کی راہ میں دو عظیم خطرات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے سب سے بڑا خطرہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسلام کے لباس میں اسلام کے دشمن ہوتے ہیں وہ لوگوں کو اسلام کلی آواز پر کان لگانے سے توکتے ہیں اور حق کی بات ماننے سے باز رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ غیر اسلامی طاقتیں ہوتی ہیں جو مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہیں ایران کے اسلامی انقلاب کی راہ میں یہ دونوں طاقتیں رکاوٹ بنی رہیں لیکن انقلابی مجاہدین نے سردھڑ کی بازی لگا کر اسلامی ماحول و تہذیب کے نفاذ کی کوشش کی اور ۱۱/ فروری ۱۹۷۹ ؁ کو رہبر انقلاب اسلامی آیتہ اللہ العظمی آقائے خمینی مدظلہ کی قیادت میں ایرانی قوم کا ہر پیروں جواب ، خوردوکاں عزم و حوصلہ کی چٹان بن کر میدان میں اتر آیا اور پچاس سالہ پہلوی ظالم دبے دین حکومت کا جو اپنی گردنوں سے اتار پھینکا اس کے لئے جام شہادت پینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ جس نے بالآخر جابرانہ تسلط کو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیا اور اسلامی حکومت قائم ہو گئی اور رہبر انقلاب نے اعلان کر دیا کہ ہم نہ مشرق کے غلام ہو سکتے ہیں اور نہ مغرب کے نہ امریکہ کے حامی ہیں نہ روس کے بلکہ ہم صرف خدا کے بندے ہیں اور وہی ہمارا حاکم و مالک ہے ملک کے اندر رہنے والے اسلام کے دشمنوں نے اور اسلام کا نام مٹانے کی سازش کرنے والی بڑی طاقتوں نے جب اپنا چراغ گل ہوتے ہوئے دیکھا تو تشددر بربریت کے تمام حربے استعمال کئے قید و بند قتل و خون کے ذریعہ لوگوں کے اسلامی جذبات کو مردہ کرنا چاہا لیکن حق کے سپاہیوں نے ہر تکلیف کو برداشت کر کے اسلامی حکومت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ایران میں اسلامی انقلاب کو پنپتا دیکھ کر اسلام دشمن طاقتوں نے عراق کو ایران کے خلاف ابھارا اور عراق کی ظالم جابر نام مسلمان حکومت نے اپنے کو بڑی طاقتوں کے ہاتھوں بیچ دیا اور اس کی خواہش کے مطابق اسلام کو مٹانے کی ٹھان لی شورش اور دہشت گردی کے ذریعہ لوگوں کی زبانوں پر تالے لگانے کی کوشش کی اسلام دشمن بعث پارٹی کا حاکم یہ چاہتا تھا کہ میرے احکام کا نام اسلام رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کو اسلام کا ایک سچا پیروکار کیسے برداشت کر سکتا تھا چنانچہ حق پسند و حق آگاہ مجاہد آیتہ اللہ العظمی شہید اسید باقر ایصدر کی دوربین نگاہوں نے اس کو محسوس کیا اور اسلامی انقلاب کی حمایت اور بعثی حکومت کی مخالفت میں تحریک چلائی حالات نامساعد تھے۔ مگر فریضہ کی ادائگی ان حالات میں ان کے ليے واجب تھی اتحاد بین المسلمین کے ذریعہ عراق میں استحکام کی کوشش کی پہلے جابجا مختلف شہروں میں ان کے حامی شہید ہوتے رہے جن کی تعداد بارہ ہزار تک ہینچی آخر میں خود شہید خامس آقائے باقر الصدر مع اپنی بہن بنت الہدے کے شہید ہوئے رات کے سناٹے میں فوجی پہرہ میں نجف اثرف کے مشہور قبرستانوادی السلام کے کسی غیر معلوم مقام پر دفن کر دئے گئے وقت آئے گا جب عراق میں اسلامی انقلاب آئے گا اور شہید خامس کی قبر کا نسان بھی ظاہر ہوگا۔

عراق کی بعثی حکومت نے ایران پر جازحانہ حملہ کر دیا ایران کے بڑے بڑے علاقہ پر قبضہ کر لیا مگر پاسداران انقلاب کی مسلسل جدوجہد نے ایران کی زمین کو ظالموں سے خالی کرا لیا ہے اور اب اسلامی انقلاب عراق کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اسلامی انقلاب سے وابستہ چند حضرات کا تذکرہ ہم کو ضرور جاننا چاہئے۔

آقائے خمینی رحمتہ اللہ علیہ

آپ کا نام روح اللہ ہے۔ ۲۰ جمادی الشانیہ ۱۳۲۰ ؁ کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ ۵ ماہ کی عمر میں آپ کے واکد سید مصطف؁ٰ شہید ہو گئے تھے۔ آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے بڑے بھائی سید مرتضیٰ نے کی۔ آپ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں ہیں بچپن خمین میں گزارا۔ ۱۲۳۰ ؁ کو ۱۹ سال کی عمر میں شہر اراک کا سفر برائے تحصیل علم کیا۔ ۱۳۴۰ ؁ میں اراک سے قم تشریف لائے۔ آپ اسلامی انقلاب لانے کے لئے ہمیشہ کو شاں رہے اور ایران کی ظالم اسلام کشی حکومت سے نبردآز ما رہے۔ ۱۲ محرم ۱۳۸۳ ؁ کو جب نماز شب پڑھنے جا رہے تھے گرفتار کر لئے گئے۔ آپ کی گفرتاری نے پورے ملک میں زلزلہ پیدا کر دیا۔ لوگ اسلامی انقلاب کی حمایت میں منظم ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کی گرفت ملک پر کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ کمزور حکومت نے ظلم کا سہارا لیا۔ مگر ہر ظلم اسلامی انقلاب کی حمایت اور حکومت کی مخالفت کا سبب بتا گیا۔ ۸ ماہ کی نظر بندی اور دو ماہ کی جیل کے بعد رہا کئے گئے۔ رہائی کے بعد ۲ ذی الحجہ ۱۳۸۳ ؁ مطابق ۲۶ فروری ۱۹۴۳ ؁ کو قم کی مسجد میں آپ کی تاریخی تقریر ہوئی۔ ۱۳ اگست ۱۹۲۳ ؁ کو آپ جلا وطن کئے گئے۔ دو سال ترکی میں مقیم رہے۔ ترکی سےعراق تشریف لائے۔ ۱۲ سال عراق میں قیام فرمایا۔ جب عراقی حکومت نے آپ کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا اور کویت نے اجازت نہیں دی تو آپ فرانس تشریف لے گئے۔ آپ کہیں بھی رہے مگر اسلامی انقلاب کو مہیز کرتے رہےآپ کی تقریروں کے کیسٹ پورے ملک کو جگاتے رہے اور آپ کے شاگرد آپ کے پروگرام کو عملی جامہ پہناتے رہے اسی راہ میں آپ کے فرزند مصطفےٰ خمینی کی جان گئی آخر کار شاہ ایران چھوڑ کر بھاگا اور آپ ۱۴ سال کے بعد ۳/ ربیع الاول ۱۳۹۹ ؁ کو ایران تشریف لائے اور آپ کی بے نظیر قیادت میں اسلامی انقلاب مشکل ترین مرحلوں سے گزر کر روز بروز بحمد اللہ مستحکم ہوتا گیا اور اس کے اثرات دوسرے ملکوں میں بھی نظر آنے لگے۔

بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی انقلاب اور خمینی ایک کردار کے دو نام ہیں۔ آپ سے پہلے آیتہ اللہ میرزا شیرازی اور آیتہ اللہ سید حسن مدرس ، آیتہ اللہ فضل اللہ نوری وغیرہ اسلامی انقلاب کے لئے اپنے اپنے عہد میں کوشاں رہے۔ مگر یہ شرف خدا نے آپ کے مقدر میں لکھا تھا کہ آپ کے شاگرد گاؤں گاؤں جا کر ایک ایک فرد کو بیدار کریں اور آپ علمائ کو منظم کریں، ملک میں پھیلے ہوئے دینی مدرسوں کو تبلیغ کا پلیٹ فارم بنائیں اور مسجد سے اسلامی انقلاب کو سڑکوں اور گلیوں میں پھیلائیں۔ خدا وند عالم نے آپ کو غیر معمولی قوت فکر اور اعتماد و اطمینان عطا کیا تھا۔ جس کے باعث آپ کے سامنے ہی اسلامی انقلاب کا میاب ہوا اور سخت ترین آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزرا۔ افسوس عزم و حوصلہ کا یہ آفتاب ۴/ جون ۱۹۸۹ ؁ کو ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا مگر اس ی روشنی آج بھی عالم اسلام کو منور کئے ہے۔

آقائے خامنہ ای مدظلہ

آپ کا اسم گرامی علی ہے ۱۳۳۹ ؁ میں مشہد مقدس کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آیتہ اللہ سید جواد خامنہ ای اور دادا آیتہ اللہ سید حسین خامنہ ای اپنے زمانہ میں زہدو تقویٰ اور علم و فضیلت میں مشہور تھے چنانچے ایسے علمی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے ذی شرف فرزند نے تحصیل علم دین کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اور ان کی خصوصی توجہ اور اپنی غیر معمولی ذہانیت کی بنا پر جلد ہی حوزہ علمیہ میں رائج سطحو خارج کے نامور اساتذہ کے دروس میں شرکت کرنے لگے ۱۹۵۶ ؁ میں زیارات مشاہدہ مقدسہ غرض سے عراق کا سفر کیا اور باب مدینہ العلم پر حاضری کے ساتھ ساتھ آیات عظام آقائے محسن حکیم ، آقائے خوئی ، آقائے شاہرودی ، آقائے بجنوری وغیرہ کے دروس میں شرکت کی۔ آپ وہاں مستقل قیام کرنا چاہتے تھے لیکن والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوسرے ہی سال واپس آنا پڑا۔

۱۹۵۸ ؁ میں آپ نے حوزہ علمیہ قم کی پاکیزہ فضا میں سکونت اختیار کی ، اور آیات عظام آقائے بروجردی ، رہبر انقلاب امام خمینی اور آیتہ اللہ حائری کے دروس میں حاضری دی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب رہبر انقلاب امام خمینی نے اپنے انقلابی دروس سے حوزہ علمیہ قم کو ایک نئی زندگی عطا کی تھی۔

۱۹۲۳ ؁ میں جس وقت مدرسہ فیضیہ سے اس عظیم اسلامی تحریک کا آغاز ہوا ، آیتہ اللہ خامنہای بھی ان چند خوش نصیب افراد میں شامل تھے جنھوں نے رہبع انقلاب کی درد مندانہ آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے قدم بہ قدم چلنے کا عہد کیا اور اس سلسلہ میں اسیری اور جلا وطن کی شدید مشکلات برداشت کیں۔ امام خمینی نے کئی مقامات پر آپ کو اپنا معتمد خاص قرار دیا اور مختلف مقامات پر ستائشی کلمات سے حوصلہ افزائی فرمائی۔

۱۹۷۷ ؁ کی انقلابی سرگرمیوں میں پیش رہنے کے جرم میں آپ کو قید اور پھر جلا وطن ہونا پڑا لیکن وہاں بھی آپ نے شیعہ سنی انقلابوں کو متحد و ہم آہنگ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

رہبر انقلاب کے حکم سے پیرس میں ایک انقلاب کو نسل تشکیل دی گئی ، جس کا مقصد آیندہ حکومت کا ڈھانچہ تیار کرنا تھا۔ آیتہ اللہ خامنہ ای کو امام خمینی کے خسصوصی حکم سے اس کو نسل کا رکن بنایا گیا۔ ۱۹۷۹ ؁ میں آپ نے اسلامی جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی، جس کو انقلاب کے بعد پہلے عمعمی الکیشن میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ ۱۹۷۹ ؁ میں اسلامی انقلابی فوج کی سرپرستی فرمائی۔ آیتہ اللہ طالقانی کے انتقال کے کچھ دنوں بعد امام خمینی کے خصوصی حکم سے تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی ذمہداری قبول فرمائی۔

۱۹۸۱ ؁ میں تہران کے عوام کی نمایندگی میں اسلامی پارلمینٹ کی رکنیت حاصل کی۔ ۲۷/ جون ۱۹۸۱ ؁ کو مسجد ابوذر میں نماز کے بعد تقریر فرماتے ہوئے منافقین کے حملہ کا نشانہ بنے ، اور اکتوبر ۱۹۸۱ ؁ میں ۹۸ فیصد ووٹوں کی بھاری اکثریت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے تیسرے صدر منتخب ہوئے۔

آپ کی صدارت کا آغاز ایسے ہنگامی حالات میں ہوا کہ اسلامی انقلاب بڑے حساس دور سے گزر رہا تھا۔ ۸ سال کا میاب صدارت کے بعد جس نے اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک باوقار اسلامی حکومت کی شکل عطا کی تھی، ابھی آپ کے دورہ صدارت کی تکمیل میں کچھ عرصہ باقی تھا کہ اسلامی انقلاب کے بانی یعنی امام خمینی کے المناک سانحہ ارتحال کی وجہ سے جو خلا واقع ہوا اس کو پر کرنے کے لئے علمائ اسلام کی مجلس خبرگان نامی کمیٹی نے آپ کا انتخاب کیا اور آپ نے اپنی بے پناہ للھیت خلوص اور بے نظیر صلاحیتوں کی بنیاد پر یہ ذمہداری اس انداز میں سنبھال لی کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران آپ کی عظیم الشان قیادت کے نتیجہ میں پورے عالم اسلام کی زینت بنا ہوا ہے۔

آقائے باقر الصدر

۵/ ذیقعدہ ۱۳۵۳ ؁ مطابق ۲/ مارچ ۱۹۳۵ ؁ کو کاظمین میں پیدا ہوئے " ظالم بعثی " ( کمیونسٹ) حکومت کے ہاتھوں ۴/ اپریل ۱۹۸۰ ؁ کو گرفتار کر کے بغداد لائے گئے اور ۹/ اپریل ۱۹۸۰ ؁ کو اپنی بہن بنت الھدیٰ کے ساتھ عصر حاضر کے یزید صدام کے ہاتھوں اذیت ناک طور پر شہید کئے گئے اور نجف اثرف کے مشہور و معروف قبرستان وادی السلام کے کسی غیر معمولی مقام پر عالم غربت میں دفن کئے گئے۔

آپ آیتہ اللہ العظمیٰ آقائے محسن حکیم کے معتمد اور آیتہ اللہ العظمیٰ آقائے سید ابق القاسم خوئی کے شاگرد شید تھے۔ کم عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور پچیس سال کی عمر میں دوسروں کو درس اجتہاد دینے لگے۔ فقہ و اصول فقہ ، فلسفہ و منطق ، معاشیات ، اسلامیات پر آپ کی فکر انگیز ستائیس تصنیفیں موجود ہیں۔ جنھوں نے بعض علم کے بند دروازوں کو کھولا ہے۔

شاگردوں کی کثرت اور ان سے غیر معمولی محبت آپ کا امتیاز تھی۔

عراق جو صدیوں سے عالم تشیع کا علمی مرکز تھا جب کمیونسٹ حکمومت کے قیام کے بعد الحاد زدہ ہونے لگا تو سب سے پہلے آقائے حکمی نے گاؤں گاؤں دینی تعلیم کا بندوبست کر کے عراق کو الحاد سے بچانا چاہا اور آقائے صدر کو ان امور کا نگراں مقرر کیا۔ بعثی حکومت نے پہلا جوابی وار آقائے حکیم پر کیا۔ اور حوزہ علمیہ اثرف کو ویران کیا۔ آدوسرا وار آقائے صدر پر کیا جو آپ کی شہادت پر ختم ہوا۔ تیسرا وار پورے ملک کے علمائ اور مومنین پر کیا جن کی بڑی تعداد شہید ہو گئی یا آج بھی قیدو بند کی اذیتناک زندگی بسر کر رہی ہے۔ اور ایک بڑی تعداد جلاوطن ہو گئی جو آقائے باقر الحکیم جو آقائے صدر کے شاگرد اور آقائے حکیم کے فرزند میں کی قیادت میں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تعاون کے ذریعہ عراق میں اسلامی انقلاب لانے کی جان توڑ کوشش کر رہے ہیں۔

آج شہید خامس آقائے صدر موجود نہیں ہیں مگر تصانیف کے ذریعہ ان کا علم زندہ ہے۔ شاگردوں کے ذریعہ ان کی فکر اور ان کا کردار زندہ ہے۔ لبنان ، عراق میں جس دن انشائ اللہ انقلاب آئے گا وہ دن شہید صدر کی زندگی جاوید کا ایک ممتاز پرنور دن ہوگا۔

آقائے مرتضیٰ مطہری

۱۹۱۹ ؁ میں صوبہ خوراسان کے فریمان گاؤں میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد نہایت متقی تھے جن کے تقویٰ پر خود آپ فخر کرتے تھے۔ ۱۹۳۱ ؁ میں مشہور مقدس تعلیم کے لئے آئے ۱۹ سال کی عمر میں قم منتقل ہوئے جہاں آقائے منتظری اور شہید مطہی نہ صرف ہم درس تھے بلکہ ایک ہی حجرہ میں ساتھ رہتے بھی تھے۔

اسلامی انقلاب میں ۱۹۲۳ ؁ سے سرگرمی سے حصہ لیا۔ قید وبند اور حکومت کی طرف سے عائد کردہ یا دوسری پابندیوں کا شکار ہوتے رہے اور ۱۹۷۶ ؁ میں اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور روضہ معصومہ قم میں دفن ہوئے۔

آپ کی مشہور زمانہ کتاب عدل الہیٰ ہے جس سے آپ کی علمی صلاحیتوں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ آپ بہترین مقرر بھی تھے اور صاحب تصانیف کثیرہ بھی۔ لیکن ب بلاند پایہ مفکر ہونے کے باوجود تقریر و تحیرر میں ہمیشہ ان چیزوں کو پیش کرتے تھے جن کی ضرورت ہوتی تھی چنانچہ آپ نے بچوں کے لئے اخلاقی کہا نیاں بھی لکھیں اور صاحبان فکر کے لئے گرانقدر تصاینف بھی چھوڑی ہیں۔ آپ نے مکیونزم اور مغربی فلسفہ پر اسلام کی علمی برتری ثابت کرنے میں پوری عمر بسر کی۔ اور ساری زندگی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو نہ صرف اسلام سے روشناس کرایا۔ بلکہ اسلام کا گرویدہ بناتے رہے۔ ۵۷ سال کی عمر میں اگرچہ آپ کا چراغ حیات گل کر دیا گیا۔ لیکن آپ نے جو اسلامی ، اخلاقی چراغ روشن کئے ہیں وہ زمانہ کو عہد ظہور آنے تک پرنور بناتے رہیں گے۔

آقائے بہشتی

محمد حسینی بہشتی ۱۳۴۹ ؁ میں صفہان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پیش نماز تھے آپ کا ضاندان علمی اور مذہبی خاندان تھا۔ چار سال کی عمر میں تعلیم شروع ہوئی ۱۳۶۷ ؁ میں قم کے حوزہ علمیہ میں داخل ہوئے جو آقائے بروجردی کا زمانہ تھا۔ حوزہ علمیہ کی تعلیم کے ساتھ تہران یونیورسٹی میں بھی تعلیم حصل کرتے رہے۔ ۱۳۷۹ ؁ مٰں پی ایچ ڈی کیا۔ ۱۳۸۳ ؁ میں آقائے خمینی کی قیادت میں چلنے والی تحریک (اسلامی انقلاب میں شریک ہو گئے ۱۳۸۵ ؁ میں آقائے بروجردی کی طرف سے جرمنی میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے اور ۱۳۹۱ ؁ میں تہران واپس ہوئے۔ اسلامی انقلاب لانے کے لئے جو پہلی اعلیٰ کمیٹی قائم ہوئی آقائے بہشتی اس کے ممبر تھے۔ جس کے دوسرے ممبر شہید مطہری آقائے رفسنجانی اور شہید باہنر وغیرہ تھے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ دستور ساز امبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور چیف جسٹس بھی مقرر ہوئے۔ آپ مادری زبان کے علاوہ انگریزی جرمنی عربی کے بہترین نمونہ تھے۔ آپ کا محبوب ترین مشغلہ دین سے ناواقف تعلیم یافتہ افراد کو مکمل مذہبی بنانا تھا۔

آپ کی شہادت اس بم کے دھماکے میں ہوئی جس میں ایک ساتھ ایران کے بہتر دماغ شہید ہوئے۔ آقائے بہشتی کردار سازی کے باہر ترین افراد میں سے تھے۔ آپ ہی نے حزب جمہوری اسلامی نامی جماعت قائم کی۔ اور اتنے باصلاحیت افراد پیدا کئے کہ تقریباً سو صاحبان بصیرت افراد کی شہادت کے باوجود آج بھی ایرانی حکومت مستحکم ہے اور اسلامی انقلاب کا سفر اندرون ملک و بیرون ملک جاری ہے۔ غدار بنی صدر نے جب ایران اور اسلامی انقلاب کو بدترین حالات سے دو چار کر دیا تھا تو آقائے بہشتی اور شہید رجائی ہی وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلامی ابقلاب کی حفاظت کی اور اسکو اپنی جان دے کر نئی زندگی بخشی۔

آقائے محمد جواد باہنر

اسلامی جمہوریہ ایران کے محروم وزیر اعظم حجتہ الاسلام ڈاکٹر محمد جواد باہر اسلامی انقلاب کی چند اہم ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے وہ ۱۹۳۳ ؁ میں ایران کے ایک شہر کرمان میں پیدا ہوئے ان کے والد معمولی تجارت کے ذریعہ اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد بیس سال کی عمر میں مدرسہ فیضیہ قم میں داخل ہوئے تھے عسرت ق تنگدستی کے عالم میں علم دین حاصل کی اپنی تقریروں میں ظالم حکومت کی نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔ ۱۹۲۳ ؁ میں آقائے خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کا آغاز ہوا تو تہران چلے آئے اور باقاعدہ اس تحریک سے وابستہ ہو گئے جس کے نتیجہ میں انھیں گرفتار بھی کیا گیا اور تقریروں پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن آقائے خمینی کی مسلسل ہمت افزائی نے ان کو ہمیشہ نئے حوصلے دیئے ۱۹۷۸ ؁ میں وہ حزب جمہوری اسلامی قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے اور آخری ذمہداری جو انھوں نے اپنے ذمہ لی تھی وہ پورے ملک میں ظالم و جابر حکومت کے خلاف ہڑتال کرانے کی تھی اور یہ ہڑتال اس وقت تک جاری رہی جب تک انقلاب کامیاب نہیں ہو گیا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی اسلامی حکومت کے اہم عہدوں کو ان کے حوالہ کیا گیا اور جس دور میں محمد علی رجائی صدارت کے منصب پر فائز ہوئے اس دور میں ڈاکٹر محمد جواد باہنر کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ لیکن آستین کے سانپ نام نہاد مسلمانوں کو بھلا کیسے یہ برداشت ہوتا کہ اسلام کا سچا فدائی اور انقلاب کے صحیح راستہ پر کام کرنے والا ان کے درمیان رہے چنانچہ وزارت عظمیٰ کے کمرہ میں دشمنوں کے رکھے ہوئے بم کے پھٹ جانے سے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے لیکن کے ہمیشہ کے لئے قوم کو درس دے گئے کہ حق کے سپاہی جان کی بازی تو لگا سکتے ہیں لیکن حق کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں مگر حقیقی زندگی پا لیتے ہیں۔

آقائے محمد علی رجائی

۱۹۳۳ ؁ میں دین کے ایک گریب مگر مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ زمانہ تعلیم میں روزی کمانا بھی ان کی ذمہ داری بن گئی۔ ان کو اپنے ہاتھ سے بھرے بازار میں کسی کام کے کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوتی تھی بلکہ انھوں نے فخر کرتے ہوئے علم اور روزی ساتھ ساتھ حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ریاضی کے معلم ہو گئے مگر اصلی مشغلہ حصول معاش نہ تھا بلکہ اسلامی انقلاب لانے کی جدوجہد میں شریک ہو جانا تھا۔

شاہ ایران کی ظالم حکومت نے ان کو متعدد بار گرفتار کیا۔ جیل میں رکھا اور کئی سال تک ساواک کی ایجاد کردہ ناقابل تحمل تکالیف کو برداشت کرنا پڑا۔ لیکن ان کت عزم و ہمت میں اضافہ ہی ہوتا رہا حومت ہار گئی مگر یہ ہمت نہ ہارے۔

محمد علی رجائی کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم دین نہ تھے مگر رہبر انقلاب اسلامی آقائے خمینی کے غیر معمولی اور خصوصی اعتماد کے حامل تھے۔ چنانچہ اسلامی انقلاب کامیاب ہونے کے بعد جمہوری اسلامی ایران کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے اس وقت کے غدار بنی صدر سے جو اسلامی زنقلاب کو تہس نہس کرنا چاہتا تھا۔ برابر کی ٹکر لی اور باوجود اس کے کہ صدر کے اختیارات زیادہ ہوتے ہیں مگر ایک نہ چلنے دی بلکہ اس کو روپوش ہونے اور زمانہ لباس پہن کر فرار ہونے ہر مجبور کر دیا۔

بنی صدر کے فرار کے بعد آپ جمہوری اسلامی ایران کے صدر منتخب ہوئے مگر اسلام دشمن طاقتیں آپ کی کامیابیوں کو دیکھ کر بوکھلا گئیں اور آپ مع اپنے وزیر اعظم کے بم کے ذریعہ قاتلانہ حملہ کے شکار ہو گئے۔ رہبر انقلاب آپ کے خصوصی سوگوار ہوئے رجائی نہ رہے مگر ان کی امیدیں اور آرزو میں آج بھی پروان چڑھتی جاتی ہیں۔

مولانا سید غلام عسکری تنظیم المکاتب

بجنور ضلع لکھنو کے دیندار خانوادہ میں ۱۹۲۸ ؁ میں پیدا ہوئے والد کا نام سید محمد نقی تھا جو انسپکٹر آف اسکول ہونے کے باوجود بیحد دیندار اور مذہبی تھے ، دیندار اور والدین نے مذہبی ماحول میں تربیت کی ، ملک کی مشہور درسگاہ جامعہ ناظمیہ میں تعلیم حاصل کی اسی زمانہ میں طبیہ کالج لکھنؤ سے امتیازی نمبروں اور امتیازی انعام کے ساتھ سند حاصل کی نجم الملتہ اور مفتی اعظم سے علمی فیوض حاصل کئے اس کے بعد مدرستہ الواعظین میں داخلہ لیا جہاں انھیں فیلسوف اسلام علامہ سید عدیل اختر صاحب طاب ثراہ جیسا عظیم و شفیق استاد و مربی ملا جس نے اپنے علم و عمل کے ذریعہ حق گوئی اور حق نقازی کی مکمل تصویر بنا دیا تھا کہ جس کا اثر ان کی زندگی کے ہر موڑ نظر آتا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرستہ الواعظیم کی طرف سے دورہ تبلیغ شروع کیا ان کی دوربین مستقبل شناس اور فکر اسلامی سے بھر پور نگاہوں نے ماحول اور سماج کا صحیح تجزیہ کر کے بے دینی لا مذہبیت اور اخلاقی گراوٹ کا بنیادی سبب تلاش کر لیا اور پھر اسلامی فکر کو ہر ذہن تک پہنچا دینا تھا وہ شہر و ملک پر حکومت نہیں بلکہ قلب و ماغ پر اسلامی حکومت کے لئےکوشاں تھے وہ بے مشال خطیب ، بے نظیر صاحب قلم ، لاجواب مقرر اور عالم باعمل شروع کر دیا۔ مدرستہ الواعظین میں بحیشیت سکریٹری عرصہ تک کام کرتے رہے اور اسی زمانہ میں بےدینی کی تباہ کن بیماری کے علاج کے طور پر پہلا اور آکری جامع نسخہ مکاتب کے قیام کی تجویز کی زکل میں قوم کے حوالہ کرنا چاہا قوم نے خوش آمدید کہا۔ چنانچہ ۱۱/ اگست ۱۹۲۸ ؁ ۱۵۳ جمادی الاول ۱۳۸۸ ؁ کو اپنے رفقائ کی مدد سے تنظیم المکاتب کی بنیاد رکھی بستی بستی مکاتب قائم کرنا شروع کئے اس کے لئے سرمایہ فراہم کیا ان کے اخرجات کے کفیل بنے اور اس طرح قوم کو دینداری اور علم دین کی غذا سے بھر پور کر دیا اور آج بحمد اللہ نو سو سے زیادہ مکاتب ملک کے گوشہ گوشہ میں ان کا پیغام پہنچا کر اسلام کی آواز بلند کر رہے ہیں۔

۱۹۸۱ ؁ میں تنظیم المکاتب کے نام سے ایک خالص دینی اصلاحی اخلاقی اخبار بھی جاری کیا جو اپنی نوعیت کا ملک کا واحد پندرہ روز اخبار ہے جس کے لئے کم سے کم ہر شمارہ میں دو مضمون ضرور تحیرر فرماتے تھے۔

مکاتب لے استحکام کے لئے معملات ، مدرسین و پیشنماز گی تربیت کا مختلف مقامات پر انتظام کیا گیا تاکہ بہتر سے بہتر معلم اور پیشنماز تحریک کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوں۔

۱۲/ اگست ۱۹۸۳ ؁ میں جامعہ المیہ تنظیم المکاتب کے نام سے ایک اعلیٰ دینی درسگاہ قائم کی جو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے ملک کی واحد دینی درسگاہ ہے۔

یو پی ، راجستان کشمیر کا نفرنسوں میں مسلسل تبلیغ پیغام دیتے ہوئے ۹/ مئی ۱۹۸۵ ؁ کو شب جمعہ معین ڈر پونچھ( کشمیر) میں انتقال فرمایا۔ اور اپنے وطن بجنور (لکھنؤ) میں دفن ہوئے۔

سولات

۱ ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کب اور کسی کی قیادت میں آیا ؟

۲ ۔ بعث پارٹی کا حاکم کیا چاہتا تھا ؟

۳ ۔ آقائے خمینی کا نام مقام و تاریخ پیدائش لکھئے ؟

۴ ۔ آقائے خمینی کے اسلامی انقلاب کو کس طرح پھیلایا ، اور وہ کب جلا وطن کئے گئے ؟

۵ ۔ آقائے باقر اصدر کی وفات کب اور کیسے ہوئی ؟

۶ ۔ ادارہ تنظیم المکاتب کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں اس کے بانی کا نام بنایئے ؟

۷ ۔ مولانا سید غلام عسکری کی وفات کب اور کہاں ہوئی ؟

۸ ۔ مندرجہ ذیل کے بارے میں مختصر معلومات لکھئے ؟

آقائے خامنہ ای ، آقائے مرتضیٰ مطہری ، آقائے بہشتی ، آقائے محمد جواد باہنر ، آقائے محمد علمی رجائی ، مولانہ سید غلام عسکری۔

الفاظ کے معنی بتایئے :

خوگر ، آشتی ، جنگجو ، قبائلی ، نفاذ ، مرعوب ، بازی لگانا ، قیادت ، پہلوی ، حامی ، تسدو ، بربریت ، شورش ، دہشتگردی ، بعث ، نامساعد ، اتحادبین المسلمین ، استحکام ، پاسداران ، دستک ، نبردآزما ، مہمیز ، جلیل القدر ، روشناس ، منتصغفین ، معتمد ، الحادزدہ ، جلاوطن ، کمیونزم ، گرویدہ ، دستورساز ، اسمبلی ، چیف جسٹس ، حزب ، جمہوری اسلامی ، ساواک۔

حصہّ نظم

پہلا سبق

بچوں کی دُعا

اے خدا علم کی روشنی دے ہمیں زندگی دے ہمیں زندگی دے ہمیں

علم آل پسیبہ کا پیغام ہے جہل باطل پر ستوں کا انجام ہے

علم کی روشنی حاصل دو جہاں جہل کی تیرگی الاماں الاماں

تیری سرکار میں ہاتھ پھیلائے ہیں علم کی بھیک لینے کو ہم آئے ہیں

پیرو آلؐ و قد آں بنا دے ہمیں میرے مالک مسلماں بنا دے ہمیں

تیری مرضی ہے کیا یہ پتہ چاہئے علم کا در نہ پایا تو مر جائیں کہیں

بے نیاز عمل ہو نہ جائیں کہیں صبح ہونے کو ہے سو نہ جائیں کہیں

دود دل اور سوز جگر بخش دے جوہو سجدوں کے قابل وہ سربخش دے

روشنی مکتبوں سے نکلتی رہے

حشر تک شمع تنظیم جلتی رہے

دوسرا سبق

اللہ

کس کی ہے یہ زمین کس کے یہ آسماں ہے کار ساز کون پش پردہ جہاں

ہے کون ماورائے حدودِ زمانیت کس کی بلندیوں کے ہے شایان لامکاں

کس نے بنائے ارض و سما ، ماہ و آفتاب کس کے کرم کا فیض ہے تخلیق انس و جاں

کس کی عطا سے ظلمت شب پردہ پوش ہے پر تو سے کس کے ہوتا ہ ے خو رشید ضوفشاں

تنویر کس نے نور کی ہ ے محفل نجوم تکتی ہے کس کی راہ عنایت کو کہکشاں

موجوں کی نظر نے خاک کو انساں بنا دیا کس کی عطا نے بھر دیئے دامان دو جہاں

کس نے کیا ہے نسیت کی ظلمت کو چاک چاک کس نے بسائیں ہمت کی ہر سمت بستیاں

کس نے بشر کو ناخن ارو اک دے دیا الجھائیں کس نے فطرتِ عالم کی گتھیاں

تا بندگی جبین ملائکہ کو کس نے دی کس نے لیا ہے کس کا نوع بشر کا مزاج داں

دل میں مشال عرش ولا جلوہ گر ہے کون

کس کو تلاش کرتی ہے دنیا یہاں وہاں

تیسرا سبق

ہمارا ترانہ

چشم جہاں سے گو ہے رہبر نہاں ہمارا پھر بھی ہے جادہ پیمانہ کارواں ہمارا

ہے پرچم حسینی ظل ردائے زہراؐ ظل ردائے زہراؐ ہے سائباں ہمارا

ہم مجلس امم میں امت ہیں پنجتنؐ کی پنجہ اسی لئے ہے قومی نشاں ہمارا

پروان ہم چڑھے ہیں سائے میں اس علم کے بچپن سے ہ ے مجاہد ہر نوجواں ہمارا

ہم حق کے ہیں سپاہی کام اپنا حق پناہی پندار بادشاہی لے امتحاں ہمارا

کھائے ہیں برچھیاں ہم ہنس ہنس کے نام حق پر ہر زخم ایک گل تھا رن گستاں ہمارا

عباسؐ کا علم جو پیغام دے رہا ہ ے ہم اس کے تر جماں ہیں وہ ترجموں ہمارا

تشنہ لبوں کی خدمت قومی روایت اپنی مشکیزہ سکینہؐ قومی نشاں ہمارا

ہر سال ماہ غم میں ملتا ہے جوش ایماں ہر سال وقت لیتا ہے امتحاں ہمارا

ٹھنڈے ہیں جنکے سینے وہ آگ سے مانگیں پر سوز مستقبل ہے سینہ تپاں ہمارا

کرتی نہیں ہے رحمت تخصیص ملک و ملت سارے جہاں پہ پرچم ہے ضوفشاں ہمارا

لب پر حسینؐ کے جب آیا تھا نام اس کا اس روز سے وطن ہے ہندوستان ہمارا

دشت عراق و یثرب کیوں نہ پانی پانی گنگا پہ آکے اترے جب کارواں ہمارا

آیا نہ راس جس کو آب فرات و دجلہ گنگ و جمن نے سینچا وہ گلستاں ہمارا

کیو نکر نہ اپنی کشتی پہنچے گی تابہ کوثر

عباسؐ کا علم ہے جب باوباں ہمارا

چوتھا سبق

حضرت محمد مصطفےٰ

وہ محمدؐ بشریت یہ ہے احساں جس کا دہر پر سائیہ رحمت ہوا داماں جس کا

وقف احساں رہا کل عالم امکاں جس کا مذہب عقل بنا مسلک عرفاں جس کا

عشق نے جس سے مقامِ عرفا کو پایا

جس کی مقبول عبادت نے خدا کو پایا

جس سے پہلے عملاً قید محن تھا مذہب ایک زنبیل روایات کہن تھا مذہب

ذہن افسردہ انساں کی تھکن تھا مذہب زندگی لاش تھی اور اس کا کفن تھا مذہب

ترک دنیا تھا بزرگی کی سند دنیا میں

کھد رہی تھی بشریت کی لحد دنیا میں

اپنے فرسودہ عقائد پہ اڑی تھیں قومیں اپنی تہذیبوؓ کے بلوں میں گڑی تھیں قومیں

پھینک کر بوجھ سر راہ پڑی تھیں قومیں یعنی تشکیک کی منزل میں کھڑی تھیں قومیں

کہ اٹھی قافلہ سالار جہاں کی آواز

گونجی یثرب کے پہاڑوں میں اذاں کی آواز

دیکھتے دیکھتے انساں کی طبیعت بدلی خاک کسیر ہوئی آگ کی فطرت بدلی

دل بدلنا تھے کہ ترکیب حکومت بدلی انقلاب آ گیا تاریخ سیاست بدلی

جذبہ نو جو اٹھا وقت کے دھار کی طرح

تخت سیلاب بہنے لگے تختے کی طرح

پانچواں سبق

علیؐ

وجہ بقائے و سما ہے علی کی ذات اعلان فتح دین خدا ہے علی کی ذات

ہر دردِ لادوا کی دوا ہے علی کی ذات صدیوں جو کی گئی وہ دعا ہے علی کی ذات

ہمسر کہاں ملے گا کوئی بو تراب کا

یہ ذات معجزہ ہے رسالت مآب کا

پیدا ہوئے تو کعبہ کی بنیاد بن گئے پہلے ہی جبرئیل کے استاد بن گئے

نکلے پئے جہاد تو فولاد بن گئے ہو کر جواں رسول کے داماد بن گئے

معنی کہیں بنے کہیں تحریر بن گئے

قرآن بن گئے کہیں تفسیر بن گئے

فاقوں سے جس نے توڑی ہے دولت کی بربری بخشا ہے بے زروں کو دماغ ابوذری

کرتے تھے ان کے درپہ فرشتے گداگری خیرات اس کے پاؤں کی تاج سکندری

پیاسوں کو جس نے موجئہ کوثر عطا کیا

قطرے کا تھا سوال سمندر عطا کیا

اک بتکدے کو خانہ یزداں بنا دیا مٹی پہ کی نگاہ تو ساں بنا دیا

عزم و عمل سے عقل کو حیراں بنا دیا اک بے زباں کتاب کو قرآن بنا دیا

دنیا کو لا جواب بناتا چلا گیا

ذروں کو آفتاب بناتا چلا گیا

چھٹا سبق

علیؐ کا نام لو

کام کے دو ہاتھ پائے ہیں تو ان سے کام لو حق کا دامن اور باطل کا گریباں تھام لو

خوف دنیا ، شکوہٰ تقدیر ، پستی میں قیام ہے یہی جینا تو پھر جینے کا کیوں الزام لو

نام ہے اسلام میں باطل سے لڑنے کا جہاد یہ کہاں لکھا ہے اپنوں کا گریباں تھام لو

زندگی کے ق افلے کہنے سے یہ رکتے نہیں ہم بھی چلتے ہیں ٹھہر جاؤ ذرا آرام لو

جیسی نسبت دے رہے ہو کچھ تو ہو ویسا عمل نام کو بدنام کرنے کے لئے کیوں نام لو

آ رہی ہے صاف یہ بازارِ محشر سے صدا جیسا سودا لے کے آئے ویسے ہم سے دام لو

الفت آلِ نبیؐ کے ساتھ میں اسلام لو جام لینے آئے ہو تو کیاں شکستہ جام لو

اہلبیتؐ مصطفےؐ ک ے در سے کیا ملتا نہیں روشنی لو ، عزم لو، ایمان لو ، اسلام لو

دست اہلبیتؐ سے کردار اہلبیتؐ سے جو رسول پاکؐ لائے تھے وہی اسلام لو

وہ محمدؐ جن پہ سارے گلشن جنت نثار ہو سکے تو کر کے کوثر سے وضو یہ نام لو

منزل حیدرؐ سمجھ لینا کوؐی آساں نہیں عقل سے سجدے کرو دل سے نظر کا نام لو

ہر مصیبت دور ہوگی حکم سے اللہ کے جب کوئی مشکل نظر آئے علیؐ کا نام لو

فیصلہ احمدؐ پہ چھوڑ و منصب حق کے لئے

نام لیں جس کا محمدؐ تم بھی اس کا نام لو