امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں

امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں0%

امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں

مؤلف: سید بہادر علی قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 10458
ڈاؤنلوڈ: 2172

تبصرے:

امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10458 / ڈاؤنلوڈ: 2172
سائز سائز سائز
امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں

امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں

مؤلف:
اردو

ذبح عظیم

آیت

( وفَدَ ینَاه بِذِبحٍ عظیم )

کی بیان کردہ جملہ تفاسیرمیں سےایک تفسیر یہ بیان کی جاتی ہےکہ یہاں ذبح عظیم سےمرادحضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں۔آیت کےظاہری معنی یہ ہیں کہ ''ہم نے امام حسین علیہ السلام کو اسماعیل پر فدا کردیا ہے'' یہ بات قرین عقل معلوم نہیں ہوتی۔ آپ اس کی کس طرح توضیح پیش کریں گے؟

انگلیوں پرگنےجانےوالےصرف چندمفسرین نےاس تفسیرمذکورہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(تفسیر کنز الدقائق، ج١١، ص ١٧١۔١٧٢)

اس تفسیر کا سرچشمہ وہ روایت ہے جسے شیخ صدوق نے کتاب خصال میں نقل کیا ہے ہم پہلے اس روایت کو بیان کرتے ہیں اور پھر غور کرتے ہیں۔

جب پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم کیلئے حضرت اسماعیل کے بجائے گوسفند بھیجا تو حضرت ابراہیم سے اپنے لال کی قربانی کی درخواست کی تاکہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو قربان کرکے باپ کو بیحد غم و اندوہ برداشت کرنا پڑے اور اس کے ذریعہ بارگاۂ خدا میں ان کامقام و مرتبہ بہت بلند ہوجائے۔ خداوند متعال نے ان سے سوال کیا۔ اے ابراہیم بتاؤ میری مخلوقات میں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ کہا:اےپروردگارتونےمحمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ محبوب کسی کو خلق نہیں کیا: فرمایا: بتاؤ تمہیں وہ زیادہ عزیز ہیں یا تم اپنے کو زیادہ عزیز رکھتے ہو؟ کہا: انہیں، فرمایا: تمہیں ان کا لال زیادہ عزیز ہے یا اپنا بیٹا؟ کہا: ان کا لال، فرمایا: اے ابراہیم دشمن از روئے ظلم و ستم ان کے فرزند کو ذبح کریں تو تمہیں زیادہ رنج و غم ہوگا یا اس وقت جبکہ تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو قربان کردو؟ کہا: پروردگار اس وقت جبکہ دشمن از روئے ظلم و ستم ان کے فرزند کو ذبح کریں گے تو غم و اندوہ کی حد نہ ہوگی۔ فرمایا: اے ابراہیم، امت محمد میں سے ایک شخص ان کے بعد ان کے فرزند حسین کو از روئے ظلم و ستم گوسفند کی طرح ذبح کرے گا اور اس بنا پر وہ میرے غضب سے فرار نہ کرسکے گا۔ ابراہیم یہ سن کر برداشت نہ کرسکے دل غمگین ہوگیا آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے اور لبوں پر نالہ و فریاد بلند ہوگئی۔وحی نازل ہوئی،اے ابراہیم ہم نے تمہارے گریہ و بکا کو قبول کیا اور ہم نے انہیں تمہارے فرزند پر گریہ و زاری کیلئے جائے گزین قرار دیا ہے اور ہم نے تمہارے لئے مصائب پر ثواب پانے والوں کے درجات مقررکردیئے ہیں اور یہ وہ ہی فرمان خداہے:

( وَفَدَیناه بِذِبحٍ عظیم )

(خصال، ج١، ص ٥٨۔٥٩؛ سوره صافات، آيه ( ۳۷) آیت ۱۰۷)

مذکورہ بالا روایت میں ظاہر سند کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں پائی جاتی ہے کیونکہ روایت کے سلسلہ سند میں تمام وہ افراد موجود ہیں جو ائمہ کے معتمد تھے، ان کی تعریف کی گئی ہے یا وہ اصحاب و بزرگان میں سے ہیں۔ اس روایت کے سلسلہ سند میں مندرجہ ذیل حضرات موجود ہیں:

عبدالواحد بن محمد بن عبدوس نیشاپوری العطّار(استاد شیخ صدوق)،علی بن محمد بن قتیبة النیشاپوری وفضل بن شاذان (از اصحاب ائمہ)۔(طبقات اعلام الشیعہ، ج١، ص ٢٠٥؛ رجال نجاشی، ص ٢٥٩)

ظاہراً اس روایت کے مطابق یہ مقام و مرتبہ حضرت سید الشہداءہی سے مخصوص ہے۔ لہٰذا اس صورت میں عبارت ''فَدَیناه' ' کے معنی ”عَوَّضناه “ ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم ترقی درجات کے لئے جس مصیبت عظیمہ کو برداشت کرنے کیلئے تیار تھے پروردگار نے مصیبت شہادت امام حسین علیہ السلام کو اس کے بدلے قرار دیدیا کیونکہ شہادت سید الشہداء کا برداشت کرنا زیادہ مشکل، غم و اندوہ سے بھرپور اور زیادہ کمال صبر و ترقی درجات کا سبب تھا۔ لہٰذا امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری کرکے حضرت ابراہیم اپنے درجات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ پس بنابریں یہ بات کسی بھی طرح نہیں کہی جاسکتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو اسماعیل پر فدا کردیا ہے۔

(خصال شیخ صدوق، ج١، ص ٥٩)

اس کے علاوہ بر فرض کہ اگر امام حسین علیہ السلام کو ذبح عظیم کی جگہ پر قرار دیا جائے تو ''فدیناہ'' کی بنا پر مقصد یہ ہوگا: مقام ذبح عظیم۔ کہ جس پر گریہ کرنے سے انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ صرف امام حسین علیہ السلام کیلئے سزاوار ہے اور ہم نے اس ذبح عظیم کو ذبح ابراہیم کا جانشین قرار دیا ہے۔

امام حسین علیہ السلام ثاراللّٰہ

امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”ثَارَ اللَّه “ مشہور ہے ، اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام پر اس لقب کا اطلاق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب: کلمہ ”ثَارَ“ ، ''ثأر'' و ''ثُؤرہ'' سے ماخوذ ہے جس کے معنی انتقام، خون خواہی اور خون ہیں۔

(مجمع البحرین، ج١، ص٢٣٧؛ فرهنگ فارسی، ج١، ص ١١٨٥؛ مفردات راغب، ص٨١)

”ثَارَ اللَّه“ کےمختلف معنی بیان کئے گئے ہیں اورمجموعی طور پراسکےمعنی یہ ہیں کہ اللہ ان کا ولی ہے اور وہی ان کے دشمنوں سے خون بہا چاہتا ہے اس لئے کہ کربلا میں امام مظلوم کے خون بہانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قاتلوں نے حریم وحرمت الٰہی سےتجاوز کیا ہے اور وہ خالق کائنات کے مدّ مقابل آگئے تھے بنابریں ان کے انتقام کا حق بھی خدا ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام عصمت و طہارت ''آل الله'' ہیں لہٰذا ان کے خون کا بدلہ بھی خدا ہی کے ذمّہ ہے۔

(درسهائی از زیارت عاشورا، ص ١٤؛ شرح زیارت عاشور، ص ٣٥)

پروردگار عالم قرآن پاک میں ارشاد فرمارہا ہے:

( مَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَد جَعَلْنَا لِوَلِیّهِ سُلْطَاناً ) ؛ (سورہ اسراء، آيه٣٣)

جسے مظلومانہ قتل کیا گیا ہے ہم نے اس کے ولی کے لئے حق قصاص قرار دیا ہے۔

اور پھر دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

( اللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِین اٰمَنُوا ) ، (سورہ بقرہ، آيه ٢٥٧)

خدا اہل ایمان کا ولی و سرپرست ہے۔

بلاشک اہل بیت علیہم السلام مؤمنین اول ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کےبلندترین درجہ پرفائزہیں۔لہٰذا خداوندعالم درحقیقت ان مقدس حضرات کا ''ولی'' و سرپرست ہے۔

دنیا میں کوئی بھی اگر مظلومانہ قتل کردیا جائے تو اس کے اولیاء اور متعلقین کوحق قصاص و خون بہا حاصل ہے۔ بنابریں کیونکہ امام حسین علیہ السلام راہ خدا میں مظلومانہ شہید کئے گئے ہیں لہٰذا ان کا ولی و سرپرست ہونے کے ناطے وہ ہی منتقم خون حسین علیہ السلام بھی ہے اگرچہ بظاہر ان کی آل و اولاد کیلئے حق قصاص محفوظ ہے۔(سورہ اسراء، آيه ٣٣)

یہ بات بھی بیان کردینا مناسب ہے کہ کلمہ ”ثَارَ اللَّه “ امام حسین علیہ السلام کی کئی زیارات میں استعمال ہوا ہے جیسے زیارت عاشور وغیرہ یہ مقدس زیارت محدّثین و راویوں کے نقل کے مطابق احادیث قدسی میں سے ہیں یعنی درحقیقت یہ الفاظ معصوم میں کلام خدا ہے۔

(مفاتیح الجنان، ص ٨٣٨؛ مصباح المتهجد، ص ٧٢٠؛ کامل الزیارات، ص٣٢٨؛ اقبال الاعمال، ص ٣٤١)

امام حسین علیہ السلام ثار اللّٰہ وعیسیٰ ابن اللّٰہ میں فرق

جب ہم زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھتے ہیں تو زیارت کے دوران ایک فقرہ زبان پر جاری ہوتا ہے

السلام علیک یا ثارَ الله وابن ثارِه

یعنی سلام ہو آپ پر اے خون خدا اور اے فرزند خون خدا'' یہاں امام حسین علیہ السلام کو خون خدا کہنا کیا اسی طرح نہیں ہے جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ کو ''ابن اللہ'' کہتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کی شدت سے مذّمت کی ہے:

( وقالت الیهودُ عُزیرابنُ اللّٰهِ وقالتِ النصاریٰ المسیحُ ابنُ اللّٰهِ ذالک قَولُهُم بِأَفواهِهِم یُضَاهِئُونَ قولَ الذین کَفَروامِن قبلُ قَاتَلَهُم اللّٰهُ أَنَّی یُؤفَکُونَ ) ؛

اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں۔ ان باتوں میں یہ بالکل ان کی مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے، اللہ ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے جارہے ہیں''۔

(سوره توبه، آيه ٣٠)

بعض لوگ یہ خیال کرتےہیں کہ امام حسین علیہ السلام کےلئےصفت ”ثَارَ اللَّه “ کا استعمال بالکل اسی طرح ہے جیسے عیسائی حضرت عیسیٰ کے لئے صفت ''ابن الله'' استعمال کرتے ہیں اور کیونکہ قرآن کریم اس کی شدت سے مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے لہٰذا قرآن کریم کے نقطہ نظر سے جس طرح حضرت عیسیٰ کو ''ابن الله'' کہنا صحیح نہیں ہے اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کےلیے ”ثَارَ اللَّه “ و''ابن ثاره '' کہنا صحیح نہیں ہے۔

جواب: اعتراض کرنے والوں کے اعتراض سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ یہ لوگ ”ثَارَ“ کے معانی اور کلمۂ ”ثَارَ اللَّه “ کے امام حسین علیہ السلام پر اطلاق سے نا آشنا ہیں۔ کیونکہ:

اولاً: عربی زبان میں کلمہ ”ثَارَ“ خون کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ”ثَارَ“ بمعنائے خون بہا و طالب خون آتا ہے

(لسان العرب، کلمه “ثَارَ”) بنابریں کلمہ ”ثَارَ اللَّه “ ''خون خدا''کےمعنی میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا خون بہا خداوند عالم سے متعلق ہے اور وہ ہی اس خون بہا کا حق رکھتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کےلئے اس کلمہ کا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ امام مظلوم کا پروردگار عالم سے کتنا گہرا تعلق ہے کہ وہ ہی ان کے خون کا انتقام لینے والا ہے۔

(فرهنگ عاشورا، کلمه “ثَارَ”۔)

ثانیاً: بر فرض اگر ”ثَارَ“ کے معنا خون اور ”ثَارَ اللَّه “ کے معنی ''خون خدا'' ہیں تو یقینا یہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک طرح کی تشبیہ، کنایہ اور مجاز ہے۔ اس لئے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ خدا مادّہ نہیں ہے جو جسم و بدن سے مرکب ہو اورر اس میں خون گردش کرتا ہو۔

پس یہ محسوس کے ذریعہ معقول کی تشبیہ دی گئی ہے یعنی موضوع کی اہمیت کو اجاگر اور عام ذہنوں میں معنی کے منتقل کرنے کے لیے مجازاً استعمال ہوا ہے۔ یعنی جس طرح انسان کے بدن میں خون کی جو اہمیت اورقدروقیمت ہےکہ اگرانسان کےبدن سےخون ختم ہوجائےتو انسانی بدن فاسدہوکررہ جائےگا، انسان کی زندگی کادارومدارخون کی بقاء ونابودی پرہےبالکل اسی طرح بارگاہ خداوندی میں دین کی بقاء و نابودی کا دارو مدار امام حسین علیہ السلام کے مقدس وجود پر ہے۔

جبکہ عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ خدا کے حقیقی فرزند ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ کے علاوہ وہ کسی اور کیلئے اس کلمہ کا استعمال جائز بھی نہیں سمجھتے ہیں جیسا کہ کتاب قاموس مقدس کے مصنف نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے۔

علاوہ بر ایں قرآن کریم نے متعدد مقامات پر عیسائیوں کے خرافی و بدعتی عقیدہ کو نقل کیا ہے مثلاً:

( و قالتِ النصاریٰ المسیح ابنُ اللّٰهِ ) (سورہ توبہ، آيه٣٠)

عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح ابن اللہ (اللہ کے بیٹے) ہیں۔

قرآن کریم شدت سے ان کے اس بدعتی عقیدے کی مذمت کرتا ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک دوسرے مقام پر ان کے اس عقیدے کی اس انداز میں شدید مذمت کرتا ہوا نظر آرہا ہے:

( یا أهل الکتاب لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُم وَلَا تقولوا علٰی اللّٰهِ اِلَّا الْحقَّ اِنَّما المَسِیح ابنُ مَرْیَمَ رَسُول اللّٰهِ ) (نساء، آيه :١٧١ )

اےاہل کتاب اپنےعقیدہ میں حدسےتجاوزنہ کرواورخداکےبارےمیں حق کےعلاوہ کچھ نہ کہو۔مسیح عیسیٰ ابن مریم صرف اللہ کےرسول ہیں۔

اگر عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا کا حقیقی فرزند نہ مانتے تو قرآن کریم ان کے اس عقیدہ کو ردّ نہ کرتا!

(تفسیر نمونه، ج٤، ص ٢٢٩، ج٧، ص٣٦٣)

دوسری فصل

حضرت امام حسین علیہ السلام سنت کےآئینےمیں

۱۔ جوانان جنت کے سردار

احمد بن حنبل نےمسندمیں، بیہقی نےسنن میں،طبرانی نےمعجمِ اوسط اورمعجم کبیر میں، ابن ماجہ نےسنن میں،سیوطی نے جامع الصغیروالحاوی اورالخصائص الکبریٰ میں،سنن ترمذی میں، مستدرک حاکم میں، علامہ ابن حجرعسقلانی نےصواعق محرقہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن حجرعسقلانی نےالاصابہ میں، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں، بُغوی نے مصابیح السنة میں، ابن اثیر نے اُسد الغابة میں، حموینی شافعی نے فرائد السمطین میں، ابوسعید نے شرف النبوّة میں، محب طبری نے ذخائر العقبی میں، ابن السمان نے اپنی کتاب الموافقہ میں، نسائی نے خصائص امیر المومنین میں، ابونعیم نے معروف کتاب ''الحلیة'' میں خوارزمی نے مقتل میں، ابن عدی نے کامل میں، مِنادی نے کنوز الحقائق وغیرہ میں متعدد اسناد کے ساتھ صحابہ و اہل بیت مثلاً حضرت علی ، ابن مسعود، حذیفہ، جابر، حضرت ابوبکر و عمر، عبداللہ بن عمر، قرة، مالک ابن الحویرث، بریدہ ابن سعید خدری، ابو ہریرہ، اسامہ براء اور اَنس وغیرہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ حضؐور سرور کائنات نے امام حسن و حسین علیہماالسلام کایہ کہہ کر تعارف کروایا:

”الحسن والحسین سَیِّدا شَبَابِ أَ هَلِ الجَنَّةِ“

حسن وحسین علیہماالسلام جوانان جنت کے سردار ہیں۔

اس سلسلےمیں کثرت سےان تمام حضرات سےواردہونےوالی روایات واحادیث سےمعلوم ہوتاہےکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےبارہاامام حسن وامام حسین علیہماالسلام کا تعارف اس عظیم صفت کےساتھ کرایاہے۔

لہٰذایادرہےکہ امام حسن وامام حسین علیہما السلام جنت کےسردارہیں اورکوئی بھی انکی مخالفت کرکےان سےجنگ کرکےیا ان سےبغض وعداوت اوردشمنی کرکے جنت میں جانے کی توقع نہ رکھے۔

اس حدیث کےراوی

الف: اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اس حدیث شریف کو اہل بیت علیہم السلام اوربہت سےمشہور اصحاب نےنقل کیاہےمنجملہ:

١۔ امام علی علیہ السلام

٢۔ امام حسین علیہ السلام

٣۔ عبداللہ ابن عباسؓ

٤۔ حضرت ابوبکر

٥۔ حضرت عمر

٦۔ عبداللہ بن عمر

٧۔ جابر بن عبداللہ انصاریؓ

٨۔ عبداللہ بن مسعودؓ

٩۔ حذیفہ بن یمانؓ

١٠۔ جم

١١۔ مالک بن حویرث لیثی

١٢۔ قرّة ابن أیاس

١٣۔ اسامہ بن زید

١٤۔ انس ابن مالک

١٥۔ ابوہریرہ دوسی

١٦۔ ابو سعید خدری

١٧۔ براء بن عازب

١٨۔ علی ھلالی

١٩۔ ابو رمثہ

٢٠۔ بریدہ