اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ7%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84084 / ڈاؤنلوڈ: 4459
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مصنف ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی

پبلشر ہاشمی پبلیکیشنز ، ۱۷۵۴-۵۵ پہاڑی بھوجلہ، دہلی (۱۱۰۰۰۶) انڈیا

محاورے محض کسی زبان کا حصہ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے مختصر وجود میں نہ صرف کسی بھی معاشرہ کی نمائندگی کا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ایک بھر پور تہذیبی عکسبندی کا بار بھی اٹھاتے ہیں۔

انتسا ب

دہلی کی شہر ی تہذیب اور اُس سے وابستہ شعر و ادب کی روایت کے نام

"دہلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب"

دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصّور تھے

جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی

دل کی بربادی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

(میر تقی میر)

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

آب حیات میں مولانا محمد حسن آزاد نے میر سوز کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سودا کے ہاں میر سوز تشریف لائے۔ ان دنوں شیخ حزیں کی غزل کا چرچا تھا جس کا مطلع ہے۔

می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے

اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے

میر سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔

نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے

اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے

مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔

پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔

خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کا کلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔

آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناں، حا تم، سودا، نا سخ، شا ہ نصیر اور ذوق نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا ح زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی۔ اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سر ہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتا ہے۔ نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں۔ ان جزوی اختلافاتِ زبان کے علاوہ انتہا ئی نما یاں خصوصیت مردوں اور عورتوں کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں بیان کر تی ہیں۔ بیگمات کی زبان میں ہر قسم کا جنسی افعال کے لئے پر دہ پوش اصطلاحات و محاورات مو جود ہیں۔ مثلاً میلے سر سے ہو نا، گود میں پھول جھڑنا، دوجیاں ہونا بات کر نا جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لئے بنائے اور اُن کا چلن عام کیا۔

جو ہونی تھی وہ بات ہو ئی کہاروں

چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں

مَردُوا کہتا ہے آؤ چلو آرام کریں

جس کو آرام یہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج۔

عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی اسی لئے مردوں کی بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہو تی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز طرار ہوتی ہیں۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں۔ مردوں کے برعکس انہیں الفاظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں محاورے وضع کر لیتی ہیں، جن میں اکثر خوش آواز مترنم اور پرلطف ہو تے ہیں۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ موجود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لئے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں۔

زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت

انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے

زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پر

یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے

عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالئے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صناعی طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔

بہادر شاہ ظفر کے عہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے لکھا ہے۔

قلعہ معلیٰ کی تہذیب کا ایک اہم جز وہ زبان تھی جس میں شاہ علم ثانی اور اُن کے بعد ظفر نے بھرپور شاعری کی تھی۔ اس زبان کی گونج اور بازار سے گزرتی ہوئی کابلی دروازے کے اس تنگ و تاریک مکان تک سنائی دیتی تھی جہاں ذوق کا مسکن تھا اور پھر یہ گونج سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس گونج میں ذوق بھی کھنچے چلے گئے اور پھر دلّی کا محاورہ اور روزمرہ جس طرح ذوق کی شاعری میں رچ بس گیا، اس کی دوسری اور نسبتاً زیادہ خوبصورت مثال داغ کے یہاں ملتی ہے۔

زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ اور بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ محاورات وہ ننھے مرقع ہیں جو کسی سماج کے تجربات، تصورات اور تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا زبان کے زوال اور عدم مقبولیت کا سبب بنتا ہے۔ بیگمات نے اپنے محاوراتی اسلوب میں مجاز و مبالغہ تشبیہ اور تمثیل، مصوری و محاکات اور رمزیت و اشاریت کے سارے جوہر محفوظ کر لئے تھے۔ اسی لئے جب ہم ان کی صدائے بازگشت سنتے ہیں تو بیقرار ہو جاتے ہیں اظہارِ خیال اور ادائے مطلب میں پیچیدگی سے بچنے کے لئے بول چال کی زبان روزمرہ اور محاورے کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے زبان کا ذوق رکھنے والوں نے ادبی شبہ پاروں میں محاورات پر ضرور نظر کی ہو گی۔ یہاں چند محاورات مثال دینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔

چلوؤں لہو خشک ہونا، اُوڑا پھڑنا، سر بالوں کو آنا، اٹھوائی کھٹوائی لینا، منہ تھوتھائے رہنا، دے دوں کا پانی ڈھلنا، تکلفی کے سے بل نکالنا، آنکھوں پر چربی چھانا، نعمت کی اماں کا کلیجہ ہونا، محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال کا بھی ایک بیش بہا خزانہ ہے جو ہماری زبان میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی، جس کے ہاتھ ہنڈیا ڈوئی اس کا ہر کوئی، انیس و بیس روڑے اُچھلیں، سرخ رو چونڈا ایمان بھونڈا، مائی جی کا تھان کھیلے چوگان، ٹاٹ کی انگیا، مونچھ کا بخیا، جہاں بہو کا پسار وہیں خسر کی کھاٹ، ان محاورات اور ضرب الامثال کی مدد سے کچھ مصنفین نے ابلاغ اور معانی آفرینی کے کمالات دکھائے ہیں اور کچھ مصنفین صناعی کلام کی ان بھول بھلیوں میں گم ہوکے رہ گئے۔

سنا ہے کوئی جاٹ سرپر چارپائی لئے کہیں جا رہا تھا۔ ایک تیلی نے دیکھ لیا اور جھٹ پھبتی کسی۔ ۔ جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ۔ جاٹ اُس وقت تو چُپ ہو گیا مگر دل میں بدلے کی بھاؤنا لئے بیٹھا رہا۔ ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہو لئے جاتا ہے جاٹ نے جواباً کہا تیلی رے تیلی ترے سر پہ کولہو۔ تیلی ہنسا اور کہنے لگا جچی نہیں۔ جاٹ نے جواب دیا جچے نہ جچے تو بھوجھوں تو مرے گا۔ محاوراتی اُسلوب کا راستہ پل صراط سے زیادہ خطرناک ہے غزل کے ہر شعر کی طرح اس کا تعلق آبدار اور برجستگی سے ہے پھر یہ کہ عورتوں سے محاورے زبان کی طراری اور ایک مخصوص معاشرتی تربیت کے بغیر اس پر شکوہ اور پر خطر مہم کا سر کرنا ممکن نہیں ہے۔ نذیر احمد کی زبان ٹکسالی ہے لیکن ان کی تصنیف امہات الامۃ کو لوگ کہتے ہیں اسی لئے نذر آتش کیا گیا تھا کہ اس میں ایک محاورہ یہ بھی تھا کہ جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔

اب نہ اُردوئے معلیٰ رہی اور نہ گلی کوچوں میں بولا جانے والا ریختہ، جمہوری انقلابات نے ماضی کے تمام امتیازات کی جڑیں اکھاڑ پھینکی ہیں عورت مرد سب بچھڑی زبان بول رہے ہیں۔ جو لوگ زبان کا حسن اور محاورے کی وابستگی کا رونا روتے تھے وہ بھی قصہ پارینہ ہوئے۔ جواب دکھائی دیتے ہیں وہ کل ناپید ہو جائیں گے۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔

ایسے میں عشرت ہاشمی کا یہ کارنامہ ایک تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔ عشرت نے بہادر شاہ ظفر کے عہد اور شاعری پر پہلے بھی کام کیا ہے انہیں اس دور سے ربطِ خاص ہے جس میں محاورات اور ضرب الامثال کا چلن نے اُردو زبان کو مقبولیتِ عام اور شہرتِ دوام بخشی تھی۔ محاورے کیسے بنتے ہیں، ان کی ساخت میں معاشرت کا کس کس عمل اور انسانی فکر کے کن کن زاویوں کا دخل ہوتا ہے، یہ سمجھے بغیر محاوراتی اسلوب کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ اور محاوراتی اسلوب کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی، ہماری ہزار آٹھ سو سال کی محنت اور جانفشانی رائیگاں ہو جائے گی۔ محاورات اور ضرب الامثال پر اردو میں متعدد لغتیں اور فرہنگیں موجود ہیں۔ لیکن اُنکی تہذیبی اور کلیدی جہتوں پر اہل زبان کی نظر کم گئی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ ضروری بھی نہیں تھا۔ کیونکہ تہذیب کے سوتے ہمارے وجود میں ضم ہو گئے تھے۔ ملک کی تقسیم نے اُردو کو دو خطوں میں باٹ کر ظلم عظیم کیا ہے۔ وہ خطّہ جو پاکستان کہلاتا ہے، ہمارے تہذیبی شعور سے متعلق ناآشنا ہے۔ اور ہندوستان میں بھی طرح طرح کے سیاسی انقلاب نے تہذیب اور تمدن کو نزاعی مسئلہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اس نازک دور میں ڈاکٹر عشرت ہاشمی کا یہ کام جودقیع اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی مرقعوں کی افہام و تفہیم کا فریضہ انجام دیتا ہے، لایقِ ستائش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اُردو بولنے والوں کے لئے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنے گا مرتب کی ذہانت کاوش دیدہ ریزی اور تاریخِ معاشرت سے دلچسپی کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ اشاعت کے لئے اردو اکادمی بھی شکر یہ اور مبارکباد کی مستحق ہے۔

سید ضمیر حسن دہلوی

۱۲/مارچ ۲۰۰۶ء

پیش حرف (مقدمہ)

محاورہ عربی زبان کا لفظ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں"محور" شامل ہے جس کے معنی ہیں مرکزی نقطہ فکر و عمل۔ جس کے گرد دائرے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ زبان کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے یعنی وہ دائرہ جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے گرد پھیلی ہوئی بہت ساری حقیقتوں کو یہ کہیے کہ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ہمارے محاورات ہمارے مُشاہدوں اور طرح طرح کے تجربوں کو پیش کرتے ہیں اور انہیں کہیں عام معاشرتی انداز فلسفیانہ اور کہیں شاعرانہ انداز سے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں گاہ گاہ پیشہ وارانہ انداز بھی شامل رہتا ہے۔ اور طبقہ وارانہ بھی اس میں ہمارے قدیم الفاظ بھی محفوظ ہیں اور قدیم روز مرّہ بھی یہ عمومی زبان اور عام لب و لہجہ سے قریب ہوتا ہے اور ایک حد تک اِس میں تخیل اور تجربہ کا اور تجزیہ کا آمیزہ بھی پایا جاتا ہے۔

"زبان" کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کو دخل ہوتا ہے۔ ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے، اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے، اور وہیں سے اُس سوچ یا اُس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں۔ اور پھر اُن میں سے کچھ فقرہ اور جملے محاورات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اور ایک طرح سے محاورہ کی اِس حیثیت پر ہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب تک یہ تو ہوتا رہا کہ محاورہ کی صحتِ استعمال پر زور دیا گیا۔ اُس کی نوکِ پلک دُرست رکھی گئی۔ اور اِس طرح کی کتابیں بھی بعد کے زمانے میں تحریر ہوئیں کہ محاورے کے معنی یہ ہیں اور اِس کا استعمال یہ ہے۔ یہ کام تدریسی نقطہ نظر کی سطح پر ہوا۔ یا پھر زبان کے ایک بڑے حصّے کو محفوظ کرنے کی غرض سے اسے انجام دیا گیا۔ چرنجی لال کی لغت مخزالمحاورات اسی کا ایک اہم نمونہ ہے اور قابلِ تعریف کام ہے۔ جس کو اب ایک طویل عرصہ گزرنے پر ایک یادگار عملی کام قرار دیا جا سکتا ہے۔

مگر اِس ضمن میں محاورے پراس پہلو سے غور و فکر نہیں کیا گیا کہ اُس نے ہماری زبان و بیان، تہذیبی رویوں اور معاشرتی تقاضوں سے کس طرح کے رشتہ پیدا کئے۔ اُن کو زبان و ادب اور معاشرت کا آئینہ دار بنایا۔ جب کہ محاورات کے سلسلہ میں راقمہ کی محدود نظر کے مطابق یہی سب سے اہم پہلو تھا اس لئے کہ زبان اور ادب کا ایک"اٹوٹ" اور"گہرا رشتہ" تہذیب سے ہوتا ہے۔ اور تہذیبی رشتہ وہ ہوتا ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ اُن کے لئے روشنی اور رہنمائی کے طور پر کام آتا ہے۔

راقمہ الحروف نے اِس کام کو اسی نقطہ نظر سے کیا ہے اور اس سلسلہ میں بطورِ خاص مخزالمحاورات کو سامنے رکھا ہے تاکہ محاورات کی ایک بڑی تعداد تک رسائی ہو جائے۔ اُن کے معنی اور اُن کی بنیادی معنویت کو سمجھ لیآ جائے۔

تہذیبی مطالعہ ایک الگ سلسلہ فکر و نظر ہے اور اخذِ نتائج کے لئے ایک جُداگانہ زاویہ نگاہ ہے۔ کیونکہ اس پہلو ( Angle ) سے محاورے پر ہنوز کوئی کام نہیں ہوا۔ اس لیے مجھ ایسے اُردو زبان و ادب کی ایک طالبِ علم کے لئے یہ سوچنا مشکل ہے کہ مجھے اس میں کیا کامیابی ہوئی اور کس حد تک اس موضوع پر ادبی مطالعہ کی حدود آگے بڑھی ہیں۔ اس کا فیصلہ تو اصحابِ دید و دریافت اور زبان و محاورات کے ماہرین ہی کچھ زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ اور یہ توقع ہے کہ آیندہ یہ کام آگے بڑھے گا اور اس کے خطوط فِکر اور زیادہ روشن اور واضح ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ الفاظ و صویتات ہوں یا پھر لغت و قواعد کے دائرہ میں آنے والی کچھ خاص اور اہم باتیں ہوں، اُن کو کلیتاً عصری تہذیب اور دواری دائرہ ہائے فکر و عمل سے آزاد نہیں کر سکتے۔ ایک زمانہ میں کچھ الفاظ رائج ہوتے ہیں اور دوسرے زمانہ میں اُن کا استعمال پھر بحیثیت مجموعی اُن پر توجہ وہی کم ہو جاتی ہے۔ اِس کی وجہ بھی بہت کچھ سماجی اور معاشرتی ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہم دہلی اور اُس کے قرب و جوار کی زبان نیز بولی کو سامنے رکھ سکتے ہیں کہ شہری زبان کے ساتھ قصبہ و دیہات کی زبان میں بھی فرق آیا ہے۔ اور ایک زبان نے دوسری زبان کو متاثر بھی کیا ہے اور اِس سے تاثر بھی قبول کیا ہے۔

زبان میں اردو محاورہ کی حیثیت بنیادی کلمہ کی بھی ہے اور زبان کو سجانے اور سنوارنے والے عنصر کی بھی اس لئے کہ عام طور پر اہلِ زبان محاورہ کے معنی یہ لیتے ہیں کہ ان کی زبان کا جو اصل ڈول اور کینڈا ہے یعنی Basic structure جس کے لیے پروفیسر مسعود حسن خاں نے ڈول اور کینڈا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو اہلِ زبان کی لبوں پر آتا رہتا ہے۔ اور جسے نسلوں کے دور بہ دور استعمال نے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسی کو صحیح اور دُرست سمجھا جائے۔ اہلِ دہلی اپنی زبان کے لئے محاورہ"بحث خالص محاورہ استعمال کرتے تھے۔ اور اس محاورہ بحث کو ہم میر کے اس بیان کی روشنی میں زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ میرے کلام کے لئے یا محاورۂ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں یعنی جو زبان صحیح اور فصیح دہلی والے بولتے ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا اُس کے آس پاس اس کو سُنا جا سکتا ہے۔ وہی میرے کلام کی کسوٹی ہے۔

ہم ذوق کی زندگی میں ایک واقع پڑھتے ہیں کہ کوئی شخص لکھنؤ یا کسی دوسرے شہر سے آیا اور پوچھا کہ یہ محاورہ کس طرح استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے بتلایا۔ مگر پوچھنے والے کو ان کے جواب سے اطمینان نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی سند کیا ہے۔ ذوق ان کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر لے گئے۔ انہوں نے جب لوگوں کو وہ محاورہ بولتے دیکھا تو اس بات کو مان گئے اور اس طرح معلوم ہو گیا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں کس معنی میں محاورہ کے لئے سندِ اعتبار تھیں۔ میر انشاء اللہ خاں نے اپنی تصنیف دریائے لطافت میں جو زبان و قواعد کے مسئلہ پر اُن کی مشہور تالیف ہے، اُن محلوں کی نشاندہی کی ہے جہاں کی زبان اُس زمانہ میں زیادہ صحیح اور فصیح خیال کی جاتی تھی شہر دہلی فصیل بند تھا اور شہر سے باہر کی بستیاں اپنے بولنے والوں کے اعتبار سے اگرچہ زبان اور محاورہ میں اس وقت اصلاح و اضافہ کے عمل میں ایک گوناگوں Contribution کرتی تھیں لیکن اُن کی زبان محاورہ اور روزمرّہ پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ اِس کا اظہار دہلی والوں نے اکثر کیا ہے۔

میر امن نے باغ و بہار کے دیباچہ میں اِس کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ اپنی سات پشتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیں قرار پا سکتے کہیں نہ کہیں اُن سے چُوک ہو جائے گا اور وہی صحیح بولے گا جس کی"آنول نال" دہلی میں گڑی ہو گی اِس سے دہلی والوں کی اپنی زبان کے معاملہ میں ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ محاورے سے مراد انگریزی میں Proverb بھی ہے اور زبان و بیان کی اپنی ادائے محاورہ کے دو معنی ہیں ایک محاورہ با معنی Proverb اور دوسرا محاورہ زبان و بیان کا سلیقہ طریقہ اور لفظوں کی Setting بھی۔

اس کے مقابلہ میں لکھنؤ والے اپنی زبان پر اور اپنے شہر کے روزمرہ اور محاورے کو سند سمجھتے تھے رجب علی بیگ سرور نے فسانہ عجائب میں میر امن کے چیلینج یا دعوے کا جواب دیا اور یہ کہا کہ لکھنؤ کی شہریت یہ ہے کہ باہر سے کوئی کیسا ہی گھامڑ اور کندۂ نا تراش آتا ہے بے وقوف جاہل اور نامہذب ہو اور ہفتوں مہینوں میں ڈھل ڈھلا کر اہلِ زبان کی طرح ہو جاتا ہے یہ گویا میرا من کے مقابلہ میں دوسرا معیار پیش کیا جاتا ہے بہرحال گفتگو محاورے اور شہر کے روزمرہ ہی کے بارے میں رہی۔

ہماری زبان میں ایک رجحان تو یہ رہا ہے اور ایک پُر قوت رجحان کے طور پر رہا کہ شہری زبان کو اور شرفاء کے محاورات کو ترجیح دی جائے اور اسی کو سندِ اعتبار خیال کیا جائے اور اِس کی کسوٹی محاورۂ اہلِ دہلی قرار پایا۔

اس سلسلہ میں ایک اور رجحان رہا جو رفتہ رفتہ پُر قوت ہوتا چلا گیا کہ زبان کو پھیلا یا جائے اور دوسری زبانوں اور علوم و فنون کے ذریعہ اس میں اضافہ کیا جاتا ہے کہ زبان سکڑ کر اور ٹھٹھر کر نہ رہ جائے شہری سطح پر امتیاز پسندی آ جاتی ہے تو وہ لوگ اپنی تہذیب کو زیادہ بہتر اور شائستہ سمجھتے ہیں۔ اور اپنے لب و لہجہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور امتیازات کو قائم رکھتے ہیں۔ لکھنؤ اور دہلی نے یہی کیا۔ اس کے مقابلہ میں لاہور کلکتہ اور حیدر آباد کا کردار دوسرا رہا۔ شاید اس لئے کہ وہ اپنی مرکزیت کو زیادہ اہم خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اُس پر زور نہیں دیتے تھے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے انہوں نے اضافہ سنئے اور نئی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ زمانہ بھی بدل گیا تھا نئے حالات نئے خیالات اور نئے سوالات پیدا ہو گئے تھے۔

محاورہ کی ایک جہت ادبی ہے اور ایک معاشرتی۔ یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تو اُن کی مراد صرف Proverb سے نہیں ہوتی، بلکہ اُس روز مرّہ سے ہوتی ہے۔ جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینیس ( Genius ) چھُپا رہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے محاورہ پر بہت زور دیتے تھے۔ اب وہ صُورت تو نہیں رہی مگر محاورے کی ادبی اور تہذیبی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا جائے یہ مسئلہ اب بھی اہم بلکہ یہ کہئے کہ غیر معمولی طور پر اہم ہے اس لئے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور پرداخت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور زبان کے استعمال کی پہلو داریوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو اپنے محاورہ کی کسوٹی قرار دیتے تھے۔ اُس کی اپنی لِسانی ادبی تاریخی اور معاشرتی پہلو داریاں ہیں۔ جن کو اِن خاص علاقوں میں بولے جانے والی زبان اور اندازِ بیان نے اپنے ساتھ خصوصی طور پر رکھا ہے اور اس طرح کئی صدیوں کے چلن نے اسے سندِ اعتبار عطا کی ہے۔ زبان اور بیان کی روایتی صورتوں کو الفاظ کلمات اور جملوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے۔ اس میں روایت بھی شامل ہوتی ہے اور بولنے والوں کا اپنا ترجیحی رو یہ بھی۔ کہ وہ کس بات کو کس طرح کہتے اور سمجھتے ہیں۔ محاورہ میں آنے والے الفاظ تین پانچ کرنا یا نو دو گیارہ ہونا تین تیرہ بارہ باٹ یہ ایک طرح سے محاورے بھی ہیں اور جملے کی وہ لفظی اور ترکیبی ساخت بھی جو اپنا ایک خاص Setting کا اندازہ رکھتی ہے۔

اِن دو جہتوں کے ماسوا محاورہ کے مطالعہ کی ایک اور بڑی جہت ہے جس پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی گئی یہ جہت محاورہ کے تہذیبی مطالعہ کی ہے اور اُس کے ذہنی زمانی انفرادی اور اجتماعی رشتوں کو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اس تعلق کو اُس وقت تک پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اُن تمام نفسیاتی سماجیاتی اور شخصی رشتوں کو ذہن میں نہ رکھا جائے جو محاورہ کو جنم دیتے ہیں۔ اور لفظوں کا رشتہ معنی اور معنی کا رشتہ معنویت یعنی ہمارے سماجیاتی پس منظر اور تاریخی و تہذیبی ماحول سے جوڑتے ہیں یہ مطالعہ بے حد اہمیت رکھتا ہے اور اُس کے ذریعہ ہم زبان اُس کی تہذیبی ساخت اور سماجیاتی پرداخت کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔

عام طور پر ہمارے ادیبوں، نقادوں اور لِسانیاتی ماہروں نے اِس پہلو کو نظرانداز کیا اور اِس کی معنویت پر نظر نہیں گئی۔ اِس کے لئے ہم ایک سے زیادہ محاوراتی صورتوں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔

راقمہ الحروف نے اسی نسبت سے محاورے کے مطالعہ کو اپنا موضوع بنایا اور مختلف محاورے کے سلسلہ میں جو باتیں ذہن کی سطح پر تہذیب و معاشرت کے لحاظ سے اُبھر کر سامنے آئیں۔ اُن کو اپنے معروضات میں پیش کر دیا۔ اسی کے ذیل میں مختلف محاورات اور اُن کے فِکر و فہم سے جو اُمور وابستہ ہیں اُن کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے متعلق کچھ باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

مثلاً پانی آب ہی کو کہتے ہیں۔ روشنی شفافیت اور کشِش کے طور پر پانی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پانی تلوار اور آئینہ کے ساتھ یہی معنی دیتا ہے اور آنکھوں کے ساتھ بھی ہم کچھ اپنی مثالوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ محاورے کی سادہ سی صورت کے پسِ منظر میں تہذیبی معنی اور معنویت کے کیا کیا سلسلے ملتے ہیں مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اُس کی آنکھوں کا پانی ڈھل گیا تو اِس سے مراد آنکھوں کی کشش بھی ہوتی ہے حیاء و شرم اور غیرت کی وہ خوبی و خوبصورتی بھی جو آنکھوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ اور جب وہ نہیں رہتی، تبھی تو یہ کہتے ہیں کہ آنکھوں کا پانی ڈھل گیا۔ ہم استعارہ کی طرح محاورہ میں بھی لفظ سے معنی اور معنی سے در معنی کی طرف آتے ہیں۔ "رنگ" کا لفظ خوبصورتی کشش انداز و ادا سب کو دھنک کی طرح اپنے حلقوں میں لے لیتا ہے اس سے رنگینی بھی مُراد ہوتی ہے۔ اور خوبصورتی بھی اور اہلِ زبان خاص انداز بھی شاعری میں طرزِ فکر اور اندازِ ادا کو"رنگ" سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بے رنگ ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اُس میں کوئی خاص خوبصورتی و کشش نہ ہو۔ اسی لئے بے رنگی اشعار کی اس سادگی کو کہا جاتا ہے۔ جن میں سپاٹ پن ہوتا ہے اور یہ کبھی کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے اشعار تو بالکل بے آب و رنگ ہیں۔ یعنی اُن میں فکر و خیال کے اعتبار سے کوئی حُسن کوئی جاذبیت اور کشش تھی ہی نہیں۔ اِس اعتبار سے اس محاورہ کو ہم اپنی ذہنی زندگی اپنے احساسِ جمال اور سماجی رو یہ کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔

زباندانی کا جو معیار اہلِ شہر اپنی شہریت، اپنی گفتگو اور اپنے لب و لہجہ سے وابستہ کرتے ہیں اُس کا ایک گہرا تعلق محاورہ سے بھی ہے کہ بغیر شہر میں قیام اور اُس کے باشندوں سے تعلقات کے محاورے پر قدر ت ممکن نہیں یہ بات ہم اہلِ شہر کی زبان پر اُس حوالہ یا اس حوالہ سے برابر آتے ہوئے دیکھتے ہیں جن باتوں کا ذکر ہمارے یہاں زیادہ آتا ہے وہ ہمارے معاشرتی رو یہ کی نفسیات یا (سائیکی) کا ایک بڑا حصّہ ہوتی ہے اس اعتبار سے بھی محاوروں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے نفسیاتی ماحول میں داخل ہیں اور جن باتوں سے ہم بہت متاثر ہیں محاورات میں اُن کا ذکر آتا ہے اور اُن کے لئے بار بار کوئی محاورہ ہمارے لبوں یا زبان قلم پر آتا رہتا ہے۔

محاورے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں مگر بیشتر اور اُن کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا اِنفرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ داری ہے اسی طرح ہمارے اعضاء پر ناک، کان اور آنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے۔ مثلاً آنکھ آنا، آنکھیں دیکھنا، آنکھوں میں سمانا، اور آنکھوں میں کھٹکنا آنکھوں کا لڑنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اور کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔

آنکھ سے متعلق کچھ اور محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھانا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھ پھوڑ ٹڈا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھ بدل کر بات کرنا، رخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا۔ استعاراتی اندازِ بیان ہے۔ جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اور سماجی شعور سے بھی یہ بے حد اہم اور دلچسپ بات ہے آنکھ بدل کر بات کرنا۔ ناگواری نا خوشی اور غصّہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جو آدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے۔ آنکھیں اگر تکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں۔ اور اُن میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو اُسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی یہ صورت تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرتی ہے نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں۔ آنکھیں پتھرانا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اور شام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ ہے جو گویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ آنکھ لگنا سو جانا اور کسی سے محبت ہو جانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یار دوستوں نے اُس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آگیا ہے۔ اور کسی سے اس کی آنکھ لگی ہے۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں اور ذہنی حالتوں کو صبح و شام کی وارداتوں اور زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصراً محاورہ میں سمیٹا ہے اور جب محاورہ شعر میں بندھ گیا تو وہ ہمارے شعور اور ذہنی تجربوں کا ایک حصّہ بن گیا۔

راقمہ نے جن محاورات پر کام کیا ہے اور جن کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا گیا ہے وہ Proverb کے معنی میں آئے ہیں۔ صرف Setting کے معنی میں نہیں Proverb (محاورے) سے لفظوں کی ایک ترکیبی یونٹ واحدہ ہوتا ہے جو ایک خاص انداز سے ترکیب پاتا ہے اپنے معنی کا تعین کرتا ہے اور اپنی ہیئت اور صُورت شکل پر قائم رہتا ہے محاورہ کی زبان بدلتی نہیں ہے جس کا تعین ایک مرتبہ ہو گیا اُس کو ایک مستقل صورت مل جاتی ہے۔

راقمہ نے محاورات کے لفظ و معنی کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اِس کے مقابلہ میں محاورات کے لفظ و معنی میں تہذیب و تاریخ کے جو محرکات اور موثرات ملتے ہیں اُن کو اُردو کی اپنی معاشرت کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اُس کے وسیلے سے بہت سے نئے معنی کا محاورات میں موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے اِس طرح کا کوئی کام اُردو میں اب تک نہیں ہوا۔ جس سے محاورات کی تہذیبی اور تاریخی اہمیت کا حال معلوم ہو سکے۔

مختلف لغات میں جو محاورات دوسرے الفاظ کے ساتھ شریک ہیں اُن کے معنی بھی لفظوں ہی کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ اِن سے اخذِ نتائج کا کوئی عمل وابستہ نہیں کیا گیا۔ شہر دہلی لال قلعہ نیز دہلی اور لکھنؤ کے محاورے میں جو فرق کیا گیا ہے۔ وہ اپنی جگہ ایک اہم کام ضرور ہے مگر تہذیبی اور معاشرتی نقطہ نظر سے ہنوز کوئی کام راقمہ کی محدود معلومات کے مطابق ابھی تک نہیں ہوا۔ دو شہروں کی زبان کا الگ الگ انداز اُس میں ضرور زیر بحث آیا ہے۔ لیکن ہمارے سماج ہماری معاشرت اور ہمارے تہذیبی رویوں سے محاورہ کا جو خاص اور معنی خیز رشتہ رہا ہے اُس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی اِس پر بھی صاحبانِ قلم نے کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ ہمارے یہاں جو محاورات موجود ہیں اور ہماری زبان کا حصہ ہیں اُن میں سے بعض پر دوسری زبانوں کے کیا اثرات ہیں عربی فارسی ہندی اور دیہاتی کا اُن پر کیا اثر ہے اور اُن کی لفظیات کو کس طرح دوسری زبانوں نے متاثر کیا ہے۔ یہ اہم مسئلہ بھی محاورات پر علمی اور ادبی کام کرنے والوں کے سامنے نہیں آیا۔ اُن کی توجہ زیادہ تر لُغت پر رہی ہے اور اُسی دائرہ میں رہ کر انہوں نے سوچا اور اپنے طور پر پُر وقار کام کیا ہے۔

ایسے لغت بھی تیار ہوئے جس میں محاورات کو لفظی وحدتوں کے طور پر جمع کیا گیا اور اُن کے معنی بتلائے گئے۔ ہماری درسیات میں یہ شامل رہا ہے کہ محاورات پر اُن کے معنی سمجھانے کے لئے ضرور روشنی ڈالی جائے اور معنوی سطح پر لغوی نقطہ نظر سے اُن کے معنی لکھ دیئے جائیں۔ لیکن محاورے وہ شہروں میں رائج ہوں یا قصبہ میں ادبی زبان میں یا عام بول چال میں اُن کا ہماری تہذیبی ماحول سے کیا رشتہ ہے اِس طرف ہنوز کسی کی توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ محاورات پر دوسرے اہلِ قلم نے جو کام کیا ہے اُس کی نوعیت بہرحال جُدا گانہ ہے وہ کام اُس نقطہ نظر سے نہیں ہوا جو راقمہ کے سامنے رہا ہے۔ آج تو اِس کی بھی بہت ضرورت ہے کہ اُردو میں محاوروں کو جمع کیا جائے اور لُغت المحاورات مُرتب کی جائے۔ پہلے ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال چرنجی لال کی معروف تصنیف مخزن المحاورات معروف کتاب سے بہت پہلے شائع ہو چکی ہے مولانا سید احمد دہلوی کی معروف لغت آصف الغات اور نورالغات مصنفہ مولانا نورالحسن علوی کاکوروی بھی اپنے دامن میں بہت سے محاورات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔

راقمہ کے اس کام کو نوعیت اِس سے مختلف ہے اور وہ محاورات کی صرف جمع اور ی یا اُن کی (لغوی) سطح پر معنی نگاری نہیں ہے بلکہ اُن کی تہذیبی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ہے کہ ہمارے محاورے اپنے لفظ و معنی میں کس حد تک تہذیبی تصورات یا تصویروں کو جمع کئے ہوئے ہیں کہ یہ ایک جُدا گانہ کام ہے بلکہ محاورات کا"ایک تہذیبی مطالعہ" ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری معاشرتی فکر اور تہذیبی تقاضوں کی طرح عکاسی کرتے ہیں۔

راقمہ سُطور نے اِسی نقطہ نظر سے محاورے کے مطالعہ اور اُن کے پیش کش کا یہ منصوبہ اپنے سامنے رکھا ہے اور اس پر اپنی محدود نظر کے مطابق محاورات کو جمع کرنے کے علاوہ اُن پر تنقیدی اور تہذیبی گفتگو کی ہے محاورات کو حروفِ تہجی کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور اِس ضمن میں نسبتاً اہم محاورات ہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور اِس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس محاورہ سے ہمارے ذہن زندگی اور زمانہ کا کیا رشتہ ہے۔

ہم اپنے معاشرتی رویوں کو اس لئے بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ جن جن مرحلوں سے گزری ہے اور جن معاشرتی آداب و رسوم نے ہمارے طبقاتی معاشرے علاقائی سطح پر بننے بگڑنے والے سماج کو متاثر کیا ہے۔ اُن کی ایک متحرک تصویر سامنے آتی ہے۔

راقمہ الحروف کے سامنے اُردو کا وہ لغت خاص طور پر رہا ہے جو محاورات پر مشتمل ہے۔ اور جسے چرنجی لال نے ترتیب دیا ہے اِس کام نام مخزن المحاورات ہے۔ چرنجی لال نے۲۵ مئی ۱۸۸۶ء میں منشی بُلاتی داس دہلوی کے مطبع سے شائع کیا۔ اِس کے کاتب کا نام سید عبد اللطیف اور اُس کے ساتھ ساکن سبز منڈی بیرونِ شہر لکھا ہوا ہے۔

اِس کے بعد غلط نامہ کے صفحات آئے ہیں جن کا سلسلۂ تحریر و نگارش سات سوا کسٹھ صفحہ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد تمام شد تحریر ہے۔ اِس کے ذیل میں قطعہ تاریخ بابو ٹھاکر گلاب سنگھ صاحب متخلص بہ مشتاق سب در سیر ہنر جمن غربی ڈویزن دہلی ساکِن شہر میرٹھ لکھا ہوا ہے۔

قطعہ

لکھتے ہیں اِس کتاب میں مُشتاق

خوب اُردو مُحاوروں کے حال

میں نے بھی اس کا بے سرا عدا

نسخۂ بے نظیر لکھّا سال

۱۸۸۶

نسخۂ بے نظیر مادہ تاریخ ہے پہلے مصرعہ میں بے سراعدا لکھ کر تخرجہ کے اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ عدد خارج ہونا۔ اتنے عدد مادہ تاریخ سے نکالے جائیں گے تب جا کے سالِ تاریخ کے اعداد آئیں گے۔

یہ کتاب اب نایاب ہو چکی ہے اِس کا ایک ہی نسخہ اب دہلی جیسے شہر میں موجود ہے۔ اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے ذاتی کتب خانہ کی زینت ہے۔ موصوف ہی نے مجھے مشورہ بھی دیا کہ میں محاورات کے تہذیبی مطالعہ پر کام کروں یہ کام اب تک راقمہ کی محدُود معلومات کے مطابق کسی دوسرے شخص یا ادارے نے نہیں کیا۔

میرے بعض ساتھیوں اور احباب نے مجھے اس نئی تنقیدی اور تہذیبی مطالعہ کے کام میں مشورہ دیا۔ اور اپنی رائے اور اظہارِ خیال سے میری راہِ فکر و عمل کو روشن کیا۔ میں اپنی اس ناچیز کو شش کے سلسلہ میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی (دہلی یونیورسٹی) ڈاکٹر شریف احمد (دہلی یونیورسٹی ) اور سید ضمیر حسن دہلوی (ذاکر حسین کالج) نیز اپنے علمی احباب اور ساتھیوں کا شکر یہ ادا کرنا اپنا ادبی فریضہ خیال کرتی ہوں۔ علاوہ بریں میں دہلی اُردو اکادمی کی اشاعتی کمیٹی کے اراکین نیز اِدارے کے دوسرے معزز کار کُنان اور اکادمی کی ایکزیکٹیو کمیٹی کے وائس چیئرمین جناب م۔ افضل صاحب اور مرغوب حیدر عابدی (سکریٹری دہلی اردو اکادمی) کی ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے اِس کام کی انجام دہی میں خاص طور پر تعاون کیا اور اس کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی۔

ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی، دہلی

ردیف "ا"

اُبلا سُبلا، اُبالا سُبالا

اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے"الاَبُلَّا"، "اٹکل پچو"، "اَبے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ کچُور"وغیرہ۔

"اُبلا سُبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے"اُبلا سُبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ اس سے ہم اس گھریلو ماحول کا پتہ چلا سکتے ہیں جس میں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت کا گھر کے حالات کا ایک عکس موجود ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تو۔ "اُبالا سُبالا"پکتا ہے۔

آبخورے بھرنا

"آب خورہ" ایک طرح کی مٹی کے"فنجان نما" برتن کو کہتے ہیں جو کمہار کے چاک پر بنتا ہے اور پھر اُسے مٹی کے دوسرے برتنوں کی طرح پکایا جاتا ہے۔ یہ گویا غریب آدمی کا پانی پینے کا پیالہ اور ایسا برتن ہوتا ہے جسے پانی، دُودھ یا شربت پی کر پھینک بھی دیتے ہیں۔ عام طور سے ہندوؤں میں اس کا استعمال اس لیے بھی رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے استعمال کردہ برتن میں کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آبخورے میں دُودھ پیا اور پھر اُسے پھینک دیا اور پھر یہی صورت شربت کے ساتھ ہوتی ہے مگر آبخورے بھرنا عورتوں کے نذر و نیاز کے سلسلہ کا ایک اہم رسمی آداب کا حصّہ ہے۔ عورتیں منّتیں مانتی ہیں اپنے بچّوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے اور ایسی ہی دوسری کچھ باتوں کے لیے، اور کہتی ہیں کہ اے خدا، اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی اور میری منّت پوری ہوئی تو میں تیری اور تیرے نیک بندوں کی نیاز کروں گی۔ دُودھ یا شربت سے آبخورے بھر کر، انہیں دعا درود کے ساتھ تین بّچوں، فقیروں، درویشوں یا مسافروں کو پلاؤں گی۔ نیاز کی چیزیں عام طور پر غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں مگر اس میں اپنے بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

آبرو ریزی کرنا

"آبرو" چہرے کی آب و تاب کو کہتے ہیں، اس لیے کہ آب کے معنی چمک دمک کے بھی ہیں، پانی کے بھی۔ لیکن محاورہ کی سطح پر آبرو کے معنی ہیں عزت، سماجی احترام اور اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے دوسرے کو معاشرتی سطح پر بے عزت یا Dishonour کرتا ہے تو وہ گویا اس کی "آبرو ریزی" کرتا ہے، اِسے مٹی میں مِلاتا ہے۔ فارسی میں"ریختن، ریزیدن"کے معنی ہیں"گرانا، گرنا"۔ اسی لیے موسمِ خزاں میں جو پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے، اُسے برگ ریز یعنی پتّے گرانے والا موسم کہتے ہیں۔

اِس سے ہم "آبرو ریزی" کے لفظی مفہوم اور معاشرتی معنی تک پہنچ سکتے ہیں جو ایک تہذیبی اندازِ نظر ہے۔ آبرو کے ساتھ کئی محاورے آتے ہیں اور سب کے مفہوم میں چہرہ کی آب و تاب اور عزت شامل ہے۔ مثلاً "آبرو بگاڑنا" آبرو ریزی ہی کے معنی میں آتا ہے۔ "آبرو رکھنا" عزت رکھنے ہی کا مفہوم بناتا ہے۔ "آبرودار"عزت دار آدمی کو کہتے ہیں۔ "رو دار" بھی آبرو دار ہی کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے ہم آبرو کے معاشرتی تعلق کو سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ بے عزتی بہت بڑی سماجی سزا ہے۔

اَبلا پری، اَبلاّ رانی ہونا

بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور راجہ کا لفظ مرد اور عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میں بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور ایک رات کی رانی۔ اس سے بھی پھولوں میں اُن کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔ "ابلا" لڑکی کو کہتے ہیں اور جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، اِسے"اَبلا پری" کہا جاتا ہے۔

قدیم ہندوستان میں پریوں کا تصوّر نہیں تھا۔ اسی لیے"ابلاّ رانی" کہا جاتا تھا۔ جب فارسی کے ذریعہ"پری" کا تصوّر آیا تو"ابلاّ پری" کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابلاّ پری" ہو یا "ابلاّ رانی"، حُسن کا ایک آئیڈیل تصوّر ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔ حسین عورت کو ہم "پری چہرہ" بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔

حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے

پری پیکر، نگارِ سرو قدے، لالہ رُخسارے

سراپہ آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم

یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور خوب صورت ہے، سرو قد ہے، لالہ رُخسار ہے اور سر تا پا آفتِ دل ہے اور میں نے رات اسے اس کی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں"ابلاّ رانی" یا "ابلاّ پری" کی وہ خو بیاں نظر آتی ہیں جو ایرانی تصوّرِ حسن کو پیش کرتی ہیں اور ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں جھلکتی ہیں۔ "اَبلا رانی" سے "اَبلاّ پرَی" تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوں کی ایک متحرک صورت ہے۔

آبِ حیات ہونا

آبِ حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آدمی زندہ رہتا ہے۔ اُردو اور فارسی ادب میں حضرتِ خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشمہّ آبِ حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حضرتِ خضر کا لباس "سبز" ہے اور وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح گویا دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔ یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔

علم کو پانی سے مُشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیں جسے ہندی میں"ودیا ساگر"کہا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے، پانی زندگی ہے اور پانی نہ ہو تو پھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اِن باتوں کو آبِ حیات کی صُورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضرتِ خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبال نے کہا ہے:

علمِ موسیٰ بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش

قرآن میں بھی حضرتِخضر اور حضرتِ موسیٰ سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔ اردو ادب میں اور مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے اُس کو بھی آبِ حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر جب اردو میں بطورِ محاورہ آبِ حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور عوام تک پہنچایا ہے۔

آبنوس کا کُندا ہونا

یہ ایک عجیب محاورہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، مثلاً تُون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل (چندن) کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور آبنوس کا سیاہ۔ سیاہ ہمارے ہاں خوبصورت اور پُر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دیووں اور بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور سیاہ کہہ کر بھی جِن بھوت مُراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہوتا ہے۔ بھَوں کا بھی اور آنکھوں کی پُتلیوں کا اور تِل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ سب حسن و کشش کی علامت ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہ کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مقدّس رنگ ہوتا ہے اور عبّاسیوں کی سلطنت (خلفائے بنو عبّاس) میں سیاہ رنگ اُن کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔

اُن حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل آریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ دراوِڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کی تہذیب اور علمی کار گزاریوں کو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور دوسرے پیشوں سے وابستہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کر دی۔ اور اُس کا اثر یہ ہے کہ آبنوس کا کُندا کالا کلوٹا کلموہا ہمارے ہاں بُرے الفاظ ہو گئے۔ آبنوس وہ لکڑی ہے جو صرف دراوِڑوں کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں اُس میں ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر اور اُن فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔

اَبجد خواں ہونا

حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حروفِ تہجّی کی ترکیب کہتے ہیں یا اُردو والے"الف"، "ب"، "ت" کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروفِ "اَبجد" سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ابجد، ھوز، حُطّی، کلمن، سعُفص، قرشت، ثخذ ضظغ، ۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں اِن حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔

ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے:

ا(۱) ب(۲) ج(۳) د(۴) ہ(۵) و(۶) ز(۷) ح(۸) ط(۹) ی(۱۰) ک(۲۰) ل(۳۰) م(۴۰) ن(۵۰) س(۶۰) ع(۷۰) ف(۸۰) ص(۹۰) ق(۱۰۰) ر(۲۰۰) ش(۳۰۰) ت(۴۰۰) ث(۵۰۰) خ(۶۰۰) ذ(۷۰۰) ض(۸۰۰) ظ(۹۰۰) غ(۱۰۰۰)

نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُس نام یا اُس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور اُن کو جمع کرتے ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔

غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ا، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ "ہجا" کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں "ابجد خواں" کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا، ب، ت، ث لی گئی ہے۔ حروفِ"اَبجد" نہیں۔ یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی"حد"سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور از راہِ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا آدمی بھی خود کو "ابجد خواں" کہتا تھا اور دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔

آب و دانہ اُٹھ جانا

آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔

یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "آب و دانہ"، "آب و خور" اور"آب و خورش" بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خُورش، خُور اور خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آب و رنگ

آب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور رعنائی۔ آب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آب داری کے معنی روشن اور چمک دار ہونے کی صِفت تھی اور بے آب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا ہے اور اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آتے ہیں۔ لڑکی بے آب ہو گئی، یعنی بے عزت ہو گئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ "موتی کی سی آب" محاورہ ہے اور چمک دار موتی کو"درِ خوش آب" کہتے ہیں۔ اس معنی میں"آب" بمعنی عزت، توقیر، آن بان وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آب و رنگ اسی معنوں میں آیا ہے۔ رنگ خوب صورتی پیدا کرتا ہے اور"آب" تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آپ بیتی۔ اَپ بیتی

انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، اُس کی اپنی نسلوں کی تاریخ اور خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے اِس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان، اپنے حالات کے تحت، یہ بھی ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی تاریخ کو آپ بیتی کہتے ہیں اور دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو اُسے وہ آپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔ گفتگو میں جب آدمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور اگر اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ اُس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں آپ بیتی کہہ رہا ہوں۔ ہم نے خود نوشت سوانح کو آپ بیتی کہا ہے اور جب کسی کی خود نوشت سوانح کو اُردو یا ہندی میں ترجمہ کرتے ہیں تو اسے آپ بیتی کہتے ہیں، جیسے میر کی آپ بیتی، غالب کی آپ بیتی، خسرو کی آپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، افسانہ، قصہّ، داستانیں بھی آپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح "آپ بیتی" اور جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔

اپنے تئیں شاخِ زعفران سمجھنا

آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہو جاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکر و کردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمود و نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدر و قیمت رکھنے والا شخص ہے۔

محاورے ہمارے معاشرتی رویوں پر جو روشنی ڈالتے ہیں اور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اپنا اُلّو سیدھا کرنا

عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں اُلّو کے حوالہ سے بات کی گئی اور معاشرے کے ایک تکلیف دہ رویّہ کو سامنے لایا گیا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے اور مطلب برآری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو" الّو بنانا" یعنی بیوقوف بنانا۔

اَپرادھ ہرنا (ہڑنا)

"ہڑنا" دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔ اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خدا کا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔ انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رو یہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔ مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آ گئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور آخر کار اس پر مطمئن ہو گئے۔

آپ سُوار تھی

"سوار" ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُرا ہی سوچتا ہے۔ اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خود غرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کھُلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔ اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رو یہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کر لیں لیکن اپنے اوپر خود تنقید کرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔

آپ رُوپ

اپنے آپ ہی سب کچھ ہونا۔ رُوپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو فلسفہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔ اِس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مزاح کے طور پر، جس آدمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔

آپ سے باہر ہونا یا آپے سے باہر ہونا

آپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ "آپے سے باہر ہونا" ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ اُسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو آپے سے باہر ہو گیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غصّہ سے ہے کہ وہ اپنے غصّہ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔

آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصہّ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پیشِ نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہارِ نا خوشی نہ کیا جائے، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو

نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر مصدر ہندوی ہیں اور اُن سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ذہنی رو یہ کیا رہا ہے۔

"اور" کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آدمی کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا بُرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو روا روی کا رو یہ موجود رہتا ہے کہ آدمی خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی بُرائی اس کو نظر نہیں آتی، دوسروں کی کمزوری کی طرف خواہ مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروں کا رو یہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و آبرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔

اپنی ایڑی دیکھو

ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا حصّہ ہوتا ہے۔ اُس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو آدمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ اُس کے اپنے عیب بھی ہو سکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا رُو نما ہوتی ہیں، اُن پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر آدمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔

اپنی رادھا کو یاد کرو

سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق "رادھا" سری کرشن کی محبوبہ تھی۔ اُس کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ "سری کرشن" کی مزاج آشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔

عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔ "کرشن اور رادھا" کے رشتے میں یہی خلوصِ خاطر اور دلی تعلق موجود تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔

اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور اپنی لگی سگی "رادھا" کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں، مثلاً "اپنی صلیب آپ اُٹھانا۔" ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ "پھانسی چڑھنا" بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ "اپنی قبر آپ کھودنا" بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔ "اپنے قول کا پکا ہونا" بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔

اپنی کھال میں مست ہونا

معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں خود پسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں "اپنی کھال میں مست ہو جانا۔" یعنی ایک آدمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے معاملات سے بے پروا اور بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اپنی پروا بھی نہیں۔ وہ تو بس اپنی کھال میں مست ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب قریب"آپا بسرانا"، "آپا تجنا"، "آپا تج دینا" محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔

اپنی گُڑیا آپ سنوارنا

"گڑیاں" ہندوستانی تہذیب کی ایک علامت ہے۔ اب تو پلاسٹک کی گڑیاں بننے لگی ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کپڑے اور روئی سے تیار ہوتی تھیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں بچیوں کے لیے کھیل کی غرض سے بناتی تھیں۔ گھر میں جو گھریلو سامان ہوتا ہے، اسی کی نقل گڑیوں کے برتنوں میں تیار کی جاتی تھی۔ چھوٹا سا پلنگ، تکیہ، لحاف اور پتیلی، چمچہ، کٹوری وغیرہ، وغیرہ۔

گڑیوں کی شادی رچائی جاتی تھی۔ مایوں کی رسم الگ ہوتی تھی۔ اِس کے علاوہ پیر مکوڑا الگ بنتا تھا۔ یہ کسی بزرگ کی چھوٹی سی قبر ہوتی تھی اور اُس کے چاروں طرف احاطہ اور جھنڈیاں نیز چھوٹی چھوٹی شمعیں جو اسی مقصد کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ اور اس طرح گویا ایک عُرس کا سماں باندھا جاتا تھا۔

گڑیوں کے ذریعہ بچیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام آ جاتے تھے اور باتیں معلوم ہو جاتی تھیں۔ اپنی گڑیاں سنوارنا، اپنی گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اُن کو سلیقہ سکھلانا۔ پڑھانے لکھانے کا پہلے رواج نہیں تھا۔ اِس سے ہم گھریلو معاشرت اور وہاں کی تہذیبی فضا کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔

اپنی گوں کا یار

معاشرے میں جو بھی عیب ہوتے ہیں اُن کو ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور محاورے زیادہ تر انہیں پر بنے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات محاورے میں کہہ دی گئی، وہ بات واضح ہو گئی لیکن محاورے کی وجہ سے وہ پھر رواج عام کا حصّہ بن گئی اور اُس کی معاشرتی حیثیت پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ اِس محاورے میں گوں کے معنی ہیں خود غرض، مطلبی۔ ہم اسے اس طرح بھی کہتے ہیں کہ وہ ہماری "گوں کا آدمی" نہیں ہے۔

یعنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ "گوں گیرا" بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا ہے۔ "اپنی گوں کا یار" بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور مطلبی ہے۔ "آپ سوارتھی" کے معنی بھی یہی ہیں جس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔

اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے

یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔ "چھا" بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی

"چھا" مزے دار نہیں ہوتی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیں ہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں "چھا" پینے کا رواج عام تھا۔ کچھ لوگ "چھا" بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری "چھا" میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میں آیا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔ اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں۔

اپنی بات کا پچ کرنا

اپنی بات پر جمنا اور اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی ہے۔ "عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ۔" اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر"اڑنے" کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔

اپنے نصیبوں کو رونا

مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جھُوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا

ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں، اور نہ جانے کب سے رہے ہیں، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اُن پر تنقید کرتے ہیں، طعن و تعریض کرتے ہیں ؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان، اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خو بیاں کیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور آپسی رویّوں پر ایک تبصرہ ہے۔

اپنی اپنی پڑنا

آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور آپسی معاملات کے تلخ تجربے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا، اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہو جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔

اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا

آدمی اپنے ہوش و حواس اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہو جاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں"آٹا ماٹی ہونا" بھی کہتے ہیں۔

اٹھکھیلیاں کرنا

آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ مثلاً، آٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔ "آٹھوں گانٹھ کمینت" ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہو جاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی"آٹھ کھیل" جو باتوں سے متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ"بارہ سولہ سنگھار" یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔

اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت

اُس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً، "اُجلی" کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ اُس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن کہنا بُرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو"اُجلی" کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں شامل ہے اور اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔

"اُجلی سمجھ" اور "اُجلی طبیعت" دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی سُوجھ بُوجھ اور عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا آ جالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور یہیں سے انسان کا فطرت اور تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ"اُجلی گزران" بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال اور خوش باش زندگی۔

"اُجلا منھ ہونا" بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و آبرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں"منھ کالا کرنا" بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔

اچھا نِکا

مغربی یو۔ پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ "نِکا" در اصل"نِکو" ہے جو فارسی میں نیک کے معنی میں آتا ہے اور مُراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔

محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں آتے۔ اُن کے کچھ مُرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ استعارہ اور تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر، فن اور طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور اُس کی علامتیں بھی۔

اُچاپت اُٹھانا

یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کسان، مزدُور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ اُس کی قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل آنے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر فصل آنے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے اُچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق اُس کا اُدھار لینے سے ہی ہے لیکن ایک خاص سسِٹم کے ساتھ یہی بات آگے بڑھ کر دیوانی اور ساہوکاری میں بدلی ہے۔

آدھا تیتر آدھا بٹیر

جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور اُس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں بھانپ لی جاتی ہے تو اُسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے کا بھی رواج تھا اور لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔ اِس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا اور رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص رجحانات کا ترجمان بن گیا۔ اُن میں موزونیت اور ہم آہنگی بطورِ خاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطورِ خاص اشارہ کرتا ہے۔

آدمیوں کا بَن یا جنگل

جنگل آدمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔ دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، "برگے" ہوں، شہتیر ہوں یا چھپّر ہو، اُسارہ ہو، جس کے سہارے چھپّر کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر آباد ہو گئے۔ گاؤں اور ضلعے بس گئے تو آدمی کا اور جنگل کا ساتھ چھُوٹ گیا۔ آدمی نے جنگل کاٹ بھی دیے اور اپنے شہری تصوّرات کے تحت غیر مہذب آبادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان کے نزدیک آدمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت آئی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر گھنی آبادی ہو گئی، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔

اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔

میر انیس کا مصرعہ ہے:

صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور

جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہا ہے اور صحرا کو تصورِ عشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل کیا گیا ہے۔ فراق کا مصرعہ ہے:

صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتا

آدمیت پکڑنا

انسان آدم زاد ہے اور اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔ انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔

آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر

رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوں کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی رات، اندھیری رات، اندھیرا گھُپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب ہاتھ کو ہاتھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے، چاند رات بھی ہوتی ہے اور چاندنی رات بھی۔ اسی کے ساتھ "چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے"، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔

"آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر" نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آ جاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے حِساب سے راتیں دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں داستانوں اور کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ "الف لیلیٰ" کا نام ہی"الف لیلیٰ و لیلیٰ" ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ اردو کی مشہور معشوقہ لیلیٰ بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔

آدھوں آدھ کرنا

آدھا ایک کا نصف ہے اور تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی آدھے کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے۔ اَدّھی، اَدَھنّا، اَدھ پکا، اَدھ رانا، اَدھ بانکا، اَدھ مرا، اَدھ موا، ادھ کچرا، ادھ بُنا، اُن سب میں"آدھ" شامل ہے اور ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے"آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، آدھی رہے نہ ساری پاوے"۔ یعنی آدمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ آدھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی اِس کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی سماج کے رو یہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور خود غرضی اختیار نہ کرو۔

اُردوئے معلّیٰ

اُردو کا لفظ ہم زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں تو ہماری مُراد اعلیٰ درجہ کی ادبی زبان ہوتی ہے یا پھر درباری زبان اور دہلی کی خاص زبان جس میں شرفاء کی زبان بطورِ خاص پیشِ نظر ہوتی ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے لال قلعہ کے سامنے اور چاندنی چوک کے قریب جو میدان ہے، یہاں قلعہ کی حفاظت کرنے والی خاص فوج رہتی تھی جس کا افسر راجپوت ہوتا تھا۔ اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے تھے۔ اسی نسبت سے جینیوں کے لال مندر کو بھی پُرانے زمانے میں اُردو مندر کہا جاتا تھا۔ اب اِس کا مفہوم بدل گیا ہے اور اُردو کو عرفِ عام میں لشکری زبان یا پھر عام زبان کہا جانے لگا ہے۔ جب کسی زبان کو بہت اچھا اور اعلیٰ زبان کہنا مقصود ہوتا ہے تو اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں اور یہ بولتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ تو مغل اُردو بولتے ہیں۔

اَردلی ّمیں رہنا۔ اَردلی کرنا۔ اَردلی میں چلنا

"اردلی" کا لفظ بتلا رہا ہے کہ یہٍ انگریزوں کے آنے کے بعد اُن کے دفتری طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد رائج ہوا ہے۔ وہ اپنے پیش خدمت کو"آرڈرلی" ( Orderly ) کہتے تھے، یعنی آرڈر کو لانے لے جانے والا۔ اِس طرح یہ لفظ انگریزوں کے دفتری نظام سے متعلق ہو گیا اور انگریزی سے بنائے جانے والے الفاظ میں اِس کا استعمال عام ہونے لگا۔ لفظوں کے ساتھ محاورہ بنتا ہے تو ایک تاریخ اُس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ زبان اور الفاظ معاشرے میں لفظ محاورے کیا کردار ادا کرتے ہیں، اِس کا اندازہ محاورات پر سنجیدگی سے غور و فکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لفظوں کا پھیر بدل اور معنوی سطح پر تبدیلی زمانہ، زندگی اور ذہن کے تغیرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ "اردلی" کا لفظ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ"افسر" بھی ہے جس کے معنی فارسی میں"تاج" کے ہیں لیکن اُردو میں افسر کے معنی ہیں"آفیسر" ( Officer ) اور آفیسر ہی سے لفظ افسر بنا بھی ہے۔

ارَنڈ کی جڑ

"ارنڈ" ایک خاص طرح کا درخت ہوتا ہے جس میں شاخیں نہیں ہوتیں اور جس درخت میں شاخیں ہوتی ہیں اُس کا تنا بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس درخت کا تنا بھی مضبوط نہیں ہوتا اور جڑ اور بھی کمزور ہوتی ہے۔ "جڑ" کا لفظ ہمارے ہاں بہت با معنی لفظ ہے۔ اس کے معنی بنیاد کے ہیں۔ بنیاد جتنی مضبوط ہو گی، اتنی ہی عمارت مضبوط ہو گی۔ ہمارے ہاں بنیاد کے ساتھ بہت لفظ آتے ہیں۔ اور محاورے کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے، بے بنیاد بات ہے، اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ "بنیاد" کے ساتھ" جڑ" کا لفظ بھی آتا ہے اور"جڑ بنیاد" کہتے ہیں۔ اُن دونوں لفظوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا- جڑ کا پہلے اور بنیاد کا بعد میں - ایسی لفظی ترکیب ہے جو روزمرّہ کے دائرے میں آتی ہے۔ ہم جڑ بنیاد ہی کہہ سکتے ہیں، بنیاد جڑ نہیں۔ جیسے، تین پانچ ہی کہتے ہیں، پانچ تین نہیں کہتے اور اس سے تیا پانچہ کر دیا۔ جڑ کے ساتھ جڑ جمنا، جڑ جمانا، جڑ اکھڑنا، جڑوں کا کھوکھلا ہونا، جڑوں سے وابستہ رہنا- -غرض بہت سے محاورے ہیں جن کا تعلق درخت یا شجر سے اتنا نہیں ہے جتنا ہماری سماجی زندگی سے ہے۔ "اَرنڈ کی جڑ" کمزور ہوتی ہے؛ بالکل کھوکھلی۔ اسی لیے ارنڈ کی جڑ کے معنی ہیں ناپائدار ہونا۔ اپنی جڑ کی ناپائداری اس کے لیے کم قدری کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے"اَرنڈ باغاتی" دہلی میں محاورہ ہے جو میر اور سودا کے زمانے تک بولا جاتا تھا اور مطلب ہوتا تھا"بے تکی چیز"۔ اس کو" باغاتی" بھی کہا جاتا رہا ہے۔

اَرواح بھٹکنا

دہلی والے رُوح کو اَرواح کہتے ہیں، یعنی رُوح کی جمع بولتے ہیں اور اس سے صرف رُوح مراد لیتے ہیں۔ روح بھٹکنے کے معنی یہ بھی ہیں کہ انسان چلا جاتا ہے اور اس کی روح دنیا میں باقی رہ جاتی ہے اور اِدھر اُدھر اس کو یا اپنی کسی پسندیدہ چیز کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ قدیم زمانے سے یہ تصور موجود ہے۔ کہ رُوح اپنے بدن یا مادّی وجود کی طرف واپس آتی ہے۔ قدیم زمانے کی قبروں میں اس طرح کے نشانات رکھے جاتے تھے جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ فلاں شخص کی قبر ہے۔ اب تو یہ بات دنیاوی طور پر شناخت کے لیے ہوتی ہے اور کتبے لگائے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ رُوح کی شناخت کے لیے ہوتا تھا کہ وہ پہچان جائے۔ اب یہ گویا محاورہ بن گیا ہے کہ رُوح بھٹکتی پھرے گی۔ خاص طور پر محبت کرنے والے کی روح کے لیے ایسا سوچا جاتا ہے۔ میر نے اپنی مثنوی"دریائے عشق" اور"شعلۂ عشق" میں اسی کا ذکر کیا ہے۔ بعد کے شعراء کے ہاں بھی اس کا بیان ملتا ہے اور اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندگی ہی میں نہیں، مرنے کے بعد بھی میرا شوق، میرا تعلقِ خاطر قائم رہے گا اور میری رُوح تیرے یا اپنے محبوب کی فراق میں بھٹکتی رہے گی۔

اَرے ترے کرنا (ابے تبے کرنا)

اَرے ترے کرنا یا ابے تبے کرنا کے معنی ہیں بد تہذیبی سے پیش آنا۔ یا بہت بے تکلًفی سے بات کرنا۔ تہذیب و شائستگی کے آداب میں گفتگو کا طریقہ سلیقہ بہت کام کرتا ہے اور ہمیشہ اس کا ایک اہم رول ہوتا ہے کہ کس سے گفتگو کی جائے تو کس طرح کی جائے۔ لب و لہجے کا اُتار چڑھاؤ کیا ہو، موقع اور محل کے لحاظ سے الفاظ و فقرے کس اسلوب اور کس انداز میں پیش کیے جائیں۔ بات صرف لفظوں کے معنی کی نہیں ہوتی، کہنے کے انداز کی بھی ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والا کون ہے اور سننے والا اس کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتا ہے؛ برابر کا ہے، چھوٹا ہے، بڑا ہے۔ اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے اس کے ساتھ سوال و جواب کا یا تبصرے اور تجزیے کا کیا انداز اختیار کیا جائے۔ یہ سب باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور گفتگو کے وقت اپنا خاص کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھا جائے کہ بات کرنے والا نہ زبان جانتا ہے، نہ آداب اور شائستگی سے واقف ہے۔ بے تکلفی اپنی جگہ پر، لیکن لفظوں کے استعمال میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ ہم دوسروں سے برداشت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ توقع اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ گفتگو کرنے والا لب و لہجے اور الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتے۔ ہمارے محاورات میں ایسے بہت سے محاورے ہیں جو گفتگو کے آداب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بیہودہ گفتگو کو اُول فول بکنا کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گڑ نہ دے، گڑ جیسی بات کہہ دے، یعنی میٹھا انداز اختیار کر لے۔ اسی لیے زبانِ شیریں کی بات کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تیرے منھ میں گھی شکّر۔

اُڑا لینا، یا اُڑا دینا، اُڑنا

اُڑنا پرندوں کا عمل ہے۔ اِدھر سے اُدھر آنا جانا، ایک شاخ سے اُچھل کر دوسری شاخ پر بیٹھ جانا، دانا چُگنے کے لیے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنا، پروں ہی کی مدد سے ہی تو ہوتا ہے۔ یہ عملِ محال کرشمہ اور کرامت کے طور پر پیروں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ ہوا میں اُڑتے ہیں اور خوشبو کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھیلتے رہتے ہیں، آتے جاتے ہیں۔ آج کل تو تقریریں، تحریریں اور تصویریں بھی ہوا پر اُڑتی ہیں اور ٹیلی ویژن میں ہم دنیا بھر کے شہروں، بیابانوں، جانوروں، انسانوں، سمندروں اور ہواؤں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ اُڑنے کے معنی میں یہ سب آتا ہے۔ اُڑان بھرنا بھی ایک محاورہ ہے اور اُڑانے کے معنی میں خلیل خاں کا فاختہ اُڑانا اور مریدوں کا پیروں کو اُڑانا بھی شامل ہے، کہ پِیر نہیں اُڑتے، مرید اُڑاتے ہیں۔ خبر اُڑانے کو بھی ہمارے ہاں بطورِ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

بات اڑا دینا بھی یا"باتوں باتوں میں اڑا دینا"، "چٹکیوں میں اُڑا دینا" بھی ہمارے محاورات کا حصّہ ہے۔ "بے پر کی اُڑانا"، "گُل چھرّے اُڑانا"، "طوطا مینا اُڑانا"۔ اس سے اُڑنے اور اُڑانے کے عمل سے ہماری زبان اور ہمارے ذہن کی وابستگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ "اُڑا دینا"، خاک دھُول کی طرح اُڑا دینا ہے۔ اور کسی چیز کا اُڑا لینا بھی جیسے، "اس نے یہ بات اڑا لی"، "اس نے ساری کتاب ہی اڑا لی"۔ اس معنی میں"اُڑنا" یا"اُڑا دینا" یا"اُڑا لینا" بہت سے محاورات کی بنیاد ہے۔ جن محاوروں کو ہم کسی ایک تصور، ایک تصویر، ایک خیال یا ایک عمل سے نسبت دے کر مختلف صورتوں یا سمتوں میں پھیلا سکتے ہیں، اُن میں"اُڑنا" اور"اُڑا دینا" بھی ہے۔ "اُڑتی چڑیا کو پہچاننا"، یا"اُڑتی چڑیا کے پر گننا"بھی اور"اُڑن چھُو ہونا" (غائب ہو جانا، بھاگ جانا) یا"اُڑن کھٹولا ہونا" بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ۔ "اُڑن کھٹولا" ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں"اُڑان جھَلّا" یعنی اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔ "قسم ہے اُڑان جھلے کی"۔ "اڑن سانپ" یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ "اڑتی بیماری" بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔ معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کو اڑتی بیماری کہتے ہیں۔

اَڑنا، رکاوٹ بننا

اپنی جگہ پر اس طرح ٹھہر جانا کہ پھر ٹس سے مس نہ ہو۔ اقبال کا شعر ہے۔

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اُڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

"طرز کہن پہ اڑنا" وہی پرانی روایت پر قائم رہنا ہے، بلکہ اس پر اصرار کرنا ہے۔ معاشرے میں یہ روش ایک خاص کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معقول سطح پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور احساس و ادراک کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔ جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

اَڑنگ بَڑنگ

اصل میں جو چیزیں، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں، یعنی بے تکی، بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں۔ اُن کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم انہیں محاورات میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ "اڑنگا لگانا" ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رو یہ سامنے آتا ہے، جو ایک طرح کا بُرا اور بُرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رو یہ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ"اڑنگا لگا دیا" رکاوٹ پیدا کر دی، الجھنیں کھڑی کر دیں۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ کے بعض پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، اُس کے بے ہنگم پن پر تبصرہ بھی اَڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔

اُڑی اُڑی طاق پر بیٹھی

ویسے تو ایک چڑیا کا اُڑنا اور اِدھر سے اُدھر بیٹھنا اِس میں شامل ہے، لیکن محاورے کے سماجی استعمال اور معاشرتی رویوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور ذہنی رویّے اس میں شامل ہیں۔ اُڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور خود وہ طرح طرح سے اُڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی لیے اُڑنے کے عمل پر بہت سے محاورے موجود ہیں۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات سے، خواہشات سے اور تمنّاؤں سے طرح طرح سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس میں ہمارے خواب بھی آ جاتے ہیں، خیال بھی اور تمنائیں بھی۔ کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اس میں اُس کی ناکامیاں آتی ہیں، دوسری طرف کامیابیاں اور تیسری طرف تمنائیں اور ضرورتیں، مجبوریاں۔ ایک محاورہ ہے"اَڑی بھِیڑی میں کام آنا"، یعنی جب کوئی صورت نہ ہو اور ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں، اس وقت کوئی کام آ جائے تو کتنی بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک کہاوت ہے، "بیوی بھلی پاس کی، یار دوست بھلا ٹوٹے کا"۔ جب کوئی کام نہ آتا ہو تو آدمی کتنا مجبور ہوتا ہے۔ اسی لیے اَڑی بھیڑ میں کام آنا یا اَڑے وقت میں کام آنا ہماری سماجیات کا اہم پہلو ہے کہ جب آدمی خود کچھ نہ کر سکے تو کوئی دوسرا کام آئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو مصیبت میں کام آ جائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جا تا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک محاورہ"اڑے کام سنوارنا" بھی ہے۔

آڑے ہاتھوں لینا

عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف رُوپ پیش کرتے ہیں اور اُن سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ "آڑے ہاتھوں لینا" فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے"آڑے ہاتھوں لینا" گفتگو کا عمل بھی ہے اور تعلقات کے اچھے بُرے ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں الفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور ری ایکشن( reaction ) بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال، عمل، خوشی اور نا خوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا ہے، استعارہ بھی، تصوّر بھی اور تصویر بھی۔

"آڑے آنا" بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔ "اڑم ڈھم ہونا" بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑکّا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور نہ بیٹھنے کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ، ایسے وقت میں اَڑم ڈَھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طرزِ اظہار بھی ہوتا ہے اور بعض محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صورتِ اظہار ہے۔ خواص سخت الفاظ اور کرخت آوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے آیا ہو۔ اُردو کے ابتدائی مراحل میں ان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور بعد میں فارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری سطح پر کچھ اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔

آزاد کا سونٹا (فقیر)

فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبال کا یہ مشہور شعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند

فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میں ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کو جو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، "آزاد کا سونٹا" یا"فقیر کا سونٹا" کہتے ہیں۔

اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ

اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ "اِزار کا کچّا"، "اِزار کا ڈھِیلا" یا"اِزار کی ڈھیلی"، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے ہیں۔ اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔ ان کا استعمال بہت کم ہو تا چلا گیا ہے۔ لیکن آج بھی اُن سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رویّوں یا معاشرتی سطح پر عمل اور ردِ عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔ "ازار میں پہن لیا" یا"ازار میں ڈال کر پہن لینا" اسی سلسلے کے کچھ محاورے ہیں اور سماجی طور پر اپنے خالص معنی رکھتے ہیں۔ جب کسی بات کی یا کسی شخص کی دوسروں کی نگاہ میں قدر و قیمت نہ رہے، اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پائجامے میں پہن لینا چاہتے ہیں۔ اِزار میں ڈال لینے کے معنی بھی یہی ہیں۔ اِس طرح سے سماج میں جو ایک ذہنی درجہ بندی رہتی ہے، یہ اسی کی طرف ایک اشارہ ہے۔

از غیبی گولا یا از غیبی دھکّا

مشرقی اقوام غیب کی زیادہ قائل رہیں اور ظاہر کے مقابلے میں باطن کو انہوں نے ہمیشہ زیادہ بامعنی اور پُر قوّت تصور کیا۔ اس سے جہان صوفیانہ اور رُوحانی تحریکیں نیز مذہبی فلسفہ ان میں زیادہ رائج رہا۔ وہاں توہّم پرستی اُن میں افکار، خیالات اور عقائد کے اعتبار سے زیادہ رائج رہی کہ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے، کہاں سے کونسی آفت نازل ہو اور کس مصیبت کا سامنا کس وقت کرنا پڑے۔ "از غیبی گولا" یا"از غیبی دھکا" اسی صورتِ حال کو کہتے ہیں جب آدمی اچانک کسی آفت میں مبتلا ہو جائے، کسی مشکل میں پھنس جائے۔ زبان کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ محاورہ عجیب و غریب ہے کہ اس میں"از" کا لفظ شروع میں آیا ہے، جو سر تا سر فارسی لفظ ہے۔ لیکن اُردو والے اِسے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ خطوں میں"از دہلی"، "از لاہور" یا"از حیدرآباد" بے تکلف طور پر لکھا جاتا تھا۔ "از حد" کہہ کر حد سے زیادہ کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ "از حد بد تمیز ہے" یا"از حد خوف ناک ہے" اب بھی کچھ لوگ بولتے ہیں۔ محاورے کی اس صورت نے"از" کے استعمال کو عام زبان کا ایک حصّہ بنا دیا ہے اور حیرت ہے کہ"دھکّا" یا"گولا" جیسا لفظ"از غیبی" کے ساتھ ملا دیا۔ ہماری زبان کی مزاج شناسی کے لیے یہ محاورہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27