اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ7%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84838 / ڈاؤنلوڈ: 4559
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

ردیف "ز"

زارزار رونا، زار و قطار رونا، زار و نزار

یہ بھی ایک طرح کی شاعری ہے یا شاعرانہ اندازِ نظر ہے کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہیں تو اُسے"زار و قطار" رونا کہا جائے۔ "زارِیدن"کے معنی فارسی میں رونے کے ہیں اُسی سے"زار زار" اور قطار" کو شامل کرتے ہوئے زار و قطار رونا کہا گیا ہے۔ جیسے"گر یہ بے اختیار بھی"کہتے ہیں یعنی جب رونے پر کوئی قابو نہ ہو اور عالم بے اختیاری میں آنسو بہ رہے ہوں اور مسلسل رونے کا عالم ہو۔

"زار و نزار" اس کے مقابلہ میں بہت کمزور آدمی کو کہتے ہیں جب اِس میں تاب و تواں نہ رہے وہ اپنے آپ کو سنبھال بھی نہ سکے کہ اُن کی حالت تو بہت ہی زار ہے وہ زار و نزار ہو رہے ہیں۔ یا"زار و نزار" نظر آتے ہیں۔

زبان بدلنا پلٹنا، زبان بگڑنا، زبان بند کرنا، زبان بند ہونا، زبان بندی کرنا، زبان پر چڑھنا، زبان پکڑنا، زبان تڑاق پڑاق چلنا، زبان چلنا، زبان درازی کرنا، زبان چلائے کی روٹی کھانا، زبان داب کے کچھ کہنا، زبان داں ہونا۔ زبان دینا، زبان روکنا، زبان سمجھنا، زبان نکالنا، زبان دینا، زبان روکنا، زبان سمجھنا، زبان نکالنا، زبان سنبھالنا، زبان کو لے گئی، زبان کا چٹخارے لینا، زبان کے نیچے زبان ہے۔ زبان میں کانٹے پڑنا، زبانی جمع خرچ کرنا، زبانی منہ بات ہونا، زبان گھِسنا، زبان گُدھی سے کھینچ لینا، وغیرہ وغیرہ

زبان قوتِ گویائی کی علامت ہے ہم جو کچھ کہتے ہیں اور جتنا کچھ کہتے ہیں اُس کا ہمارے ذہن ہماری زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دوست و دشمن تو اپنی جگہ پر ہوتے ہیں لیکن تعلقات میں ہمواری اور ناہمواری میں بہت کچھ زبان کے استعمال کو دخل ہوتا ہے کہ کون سا فِقرہ کہا جائے کس طرح کہا جائے اور کس موقع پر کہا جائے۔

لوگ زبان کے استعمال میں عام طور پر پھُوہڑ(بد سلیقہ) ہوتے ہیں اور الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتتے جو منہ میں آ جاتا ہے کہہ جاتے ہیں زبان روکنے اور زبان کے اچھے بُرے استعمال پر نظر داری کا رو یہ اُن کے ہاں ہوتا ہی نہیں یہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے اور اچھے دِل بُرے ہو جاتے ہیں دلوں میں گِرہ پڑ جاتی ہے یہ زبان کے صحیح اور غلط استعمال سے ہوتا ہے۔

زبان کے استعمال میں لب و لہجہ کو بھی دخل ہوتا ہے اور شیریں بیان آدمی محفل میں باتیں کرتا ہوا زیادہ اچھا لگتا ہے اور اپنی میٹھی زبان کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے خوش لہجہ خوش گفتار ہونا خوش سلیقہ ہونا بھی ہے۔

اب یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں کی زبان اور لہجہ میں بے طرح کھُردرا پن ہوتا ہے ایسے لوگ اکھڑ کہلاتے ہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زبان کا اکھڑ پن ذہنی ناگواری دلی طور پر نا خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر اِن محاوروں پر غور کیا جائے جو زبان اور طرزِ بیان سے متعلق ہے تو ہماری سماجی زندگی کی بہت سی نا رسائیوں کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اب یہ جُداگانہ بات ہے کہ ہم غور وفکر کے عادی نہیں ہیں زبان کے استعمال اور اُس کے اچھے بُرے نتائج کی طرف اُن محاوروں میں اشارے موجود ہیں یہ گویا ہمارے اپنے تبصرے ہیں جو ذہنی تجزیوں اور معاشرتی تجربوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ ہم اُن سے بھی کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ یہ بہر حال ہمارے سماجی رو یہ کی بات ہے لیکن ہم نے اس کا احساس کیا اور محاورات میں اپنے محسوسات کو محفوظ کر دیا۔ یہ بڑی بات ہے اور اِس سے زبان کے تہذیبیاتی مطالعہ کے بعض نہایت اہم پہلو میسّر آ گئے۔ لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان ٹوٹی نہیں یعنی یہ دوسری زبان کے الفاظ یا آوازیں صحیح طور پر اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتے بعض لوگ برابر بولے جاتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان تالو سے نہیں لگتی بعض اپنے آس پاس کے لوگوں سے بہت خطرے میں رہتے ہیں ان کو بتیس دانتوں کے بیچ میں رہنے والی زبان سے تشبیہہ دیتے ہیں کچھ لوگ اپنی بات کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مُدعا کیا ہے

(غالب)

بعض لوگوں کو اپنی زبان دانی پر فخر ہوتا ہے اور وہ داغ کی طرح یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھُوم ہماری زباں کی ہے

غرض لوگ اپنے سامنے کسی کو بولنے نہیں دیتے وہ زبان اور کہلاتے ہیں بعض لوگوں کی زبان میں بہت تلخی اور کڑواہٹ ہوتی ہے وہ کڑوی زبان والے کہلاتے ہیں اسی طرح زبان کے بارے میں بہت سے محاورات کا لمبا سلسلہ ہے جس میں کسی نہ کسی لحاظ سے زبان کا اپنا اسلوب اظہار طریقہ گفتگو اور زبان پر قدرت کے پہلو سامنے آتے ہیں اور اُن پر تبصرہ دوسروں کی طرف سے ہوتا ہے اور ایسے ہی فقرہ زبان کے بارے میں ہمارے یہاں بہت ملتے ہیں یہ شاعری میں تو زیادہ کھیل ہی زبان کے حُسنِ استعمال کا ہوتا ہے اور لطف زبان پر زور دیا جاتا ہے اُردو کا شعر ہے۔

بیانِ حُرمتِ صہبا صحیح مگر اے شیخ

تری زبان سے اُس کا مزہ نہیں جاتا

بہت سے شعروں کو ہم زبان کی خوبصورتی کے اعتبار سے زبان کا شعر کہتے ہیں اور اِس طرح بیان کی داد دیتے ہیں زبان و بیان کی بات تو ہماری زبان پر آتی رہتی ہے۔

گفتگو ریختہ میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

(میر)

زبانی جمع خرچ کرنا

ہماری زبان میں جو سماجی حیثیت رکھنے والے محاورے ہیں اُن میں زبانی جمع خرچ اس معنی میں بے حد اہم ہیں کہ جمع اور خرچ صرف"بہی کھاتہ" کی چیز نہیں ہم دلوں میں بھی حساب رکھتے ہیں" حسابِ دوستاں در دل اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ کوئی کہیں سمجھ لے اور کوئی کہیں اور یعنی ایک دوسرے کے عمل کو پیش نظر رکھو اور کسی نے ہمارے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی برتی ہے توہم کو بھی برتنی چاہیئے۔

ہماری ایک سماجی کمزوری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی نیکیوں کا حساب نہیں رکھتے اگر یہ بھی ذہن میں رکھیں اور دل سے بھُلا نہ دیں تو معاشرہ میں نیکیاں بڑھتی رہیں۔ ہم اسی کو بھلا دیتے ہیں نتیجہ میں اچھا سلوک اور اچھا معاملہ کم سے کم ہو جاتا ہے اور بُرائیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ۔ بعض لوگ کچھ کرنے کے عادی نہیں ہوتے بس کہنے سننے کی حد تک ہی ان کا معاملہ رہتا ہے ایسے لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے اور صحیح کہا جاتا ہے کہ اُن کے یہاں تو بس زبانی جمع خرچ ہے، وہ محض کہتے ہیں دعویٰ کرتے ہیں مگر عمل کبھی نہیں کرتے۔

زِچ کرنا، زِچ ہو جانا

یہ ہماری سماجی"برائی ہے جس میں شخصی مزاج بھی حصّہ لیتا ہے کہ ہم کبھی کبھی غیر ضروری طور پر دوسروں کے پیچھے پڑتے ہیں یا پیچھے لگ جاتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ دوسرا ہماری وجہ سے پریشان ہو رہا ہے بلکہ اپنے ارادے اپنی خواہش اور خوشی کے زیر اثر زچ کرنا کہتے ہیں اس رو یہ کو آدمی پہلے ناگواری کے ساتھ لیتا ہے اور پھر ناقابل برداشت قرار دیتا ہے اور ٹھکرا دیتا ہے۔ واقع یہ ہے کہ پریشان کرنے کے علاوہ اُس کا کوئی مقصد ہوتا بھی نہیں۔

زخم لگنا، زخم لگانا، زخم پر نمک چھِڑکنا، زخم ہرا ہونا، زخم تازہ ہونا، زخم کھانا، زخموں کو کُریدنا، زخموں پر خاک ڈالنا، زخم پہنچانا، یا پہنچنا، زخم اُٹھانا وغیرہ

زخم سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جن کا رشتہ ہمارے جسمانی وجود سے بھی ہے اور ذِہنی وجود سے بھی زخم لگتا بھی ہے گہرا بھی ہوتا ہے بھرتا بھی ہے" لہو" رونا اور خشک ہونا بھی زخموں سے وابستہ ہے ان تجربوں کو انسان نے یا ہمارے معاشرے میں اپنی نفسیات اور سماجی عمل سے وابستہ کیا اُس کے معنی اور معنویت میں نئی گہرائی اور گیرائی (وسعت) پیدا ہو گئی۔

دوسروں کا عمل ہمارے لئے اور ہمارا عمل دوسروں کے لئے تکلیفوں کا باعث بنتا ہے ہماری اپنی غلطیاں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں اِس پر ہم غور نہیں کرتے۔ زخم لگنا یا زخم لگانا زخم پہنچانا، زخم اٹھانا زخموں کو پالنا اور زخموں کا ہرا ہونا ہماری نفسیات اور دوسروں کے عمل اور ردِ عمل کا حصّہ بنتا ہے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے اُسے ریکارڈ کیا اُس پر Comment کئے اب یہ سماجی برائی ہے۔ کہ اُس سے بچنے اور بچانے کی کوشش نہیں کی اور اِس کے باوجود نہیں کی کہ قانونِ فلسفَہ اخلاقیات مذہب اور روایت ہمیں روشنی دکھلا رہے تھے اور تجربہ دُور تک اور دیر تک انسان کے معاشرے کو اِن نشیب و فراز یا موڑ در موڑ راستوں سے آگاہ کر رہا تھا نتائج سامنے تھے لیکن اُن سے کوئی سبق لینے کے بجائے اُن کی طرف سے غفلت کو زیادہ پسندیدہ عمل قرار دیا گیا وہی ہوا اور وہی ہو رہا ہے۔

زمین آسمان کے قلابے مِلانا، زمین آسمان کا فرق ہونا، زمین پرپاؤں رکھنا، زمین کو پکڑنا، زمین دیکھنا، زمین سخت آسماں دُور ہے، زمین یا دھرتی پھٹ جائے۔ اور میں سما جاؤں زمین کا پاؤں کے نیچے سے سرک جانا، زمین کا پیوند ہو جانا، زمین میں گڑ جانا، زمین ناپنا

زمین غالباً زندہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے وہ کھیتی کرتا ہے تو زمین چاہیئے راستہ چلتا بھی ہے تو زمین ہی کے ذریعہ ممکن ہے مکان بھی زمین پر بنتے ہیں کارخانے بھی مسافر خانہ بھی غرض کہ انسان کی ہزار ضرورتیں زمین سے ہی وابستہ ہیں مرنے کے بعد بہت سی قومیں زمین ہی میں گاڑتی ہیں۔ زمین سے متعلق بہت سے محاورات ہیں اُن میں زمین آسمان ایک کر دینا بھی ہے یعنی بہت ہنگامہ برپا کرنا یا حد بھر کوشش کرنا۔ زمین آسمان کے قلابے مِلانا، ایسی باتوں کو کہتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور ایسا آدمی جو اِس طرح کی باتیں کرتا ہے و معاشرے میں جھوٹا فریبی اور دغا باز سمجھا جاتا ہے اُس کی بات پر کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

زمین آسمان میں بہت فاصلہ ہیں اسی لئے زمین آسمان کو قلابے ملانا جھوٹی باتیں کرنا ہوتا ہے کہ آدمی اُن فاصلوں کو نظر میں نہیں رکھتا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صحیح بھی ہے یا نہیں زمین پرپاؤں نہ رکھنا یہ تو خیر ممکن ہی نہیں لیکن جو لوگ بڑے ناز نخرے سے بات کرتے ہیں اُن کے لئے طنز کے طور پر کہا جا تا ہے کہ وہ تو زمین پر پاؤں نہیں رکھتے۔ اب اس سے دو باتیں مُراد ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ اُن کے راستہ میں تو فرش فروش بچھے ہوتے ہیں اور اُن کا پاؤں زمین سے نہیں لگتا یا نہیں پڑتا اب بھی شادی بیاہ کے موقع پر سرخ رنگ کا قالین Red Carpet بچھاتے ہیں۔ زیادہ ناز و نزاکت والے انسان کو بھی بطورِ طنز کہتے ہیں کہ ان کے پاؤں تو فرشِ مخمل پربھی چھِل جاتے ہیں یہ فرش زمین پرکیوں پاؤں رکھنے لگے۔

جب انسان کے لئے اُس کا ماحول بہت تکلیف دے اور مایوس کُن ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں زمین اُس کے لئے سخت ہو گئی اور آسمان دُوریعنی نہ اُسے زمین پر جگہ ملتی ہے اور نہ آسمان کے نیچے پناہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زمین آسمان میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ زمین پکڑی نہیں جا سکتی اور زمین دیکھنا کسی آدمی کو نیچا دکھانا ہے اور غالباً یہ پہلوانوں کے فن سے آیا ہے کشتی کے فن میں کسی کو زمین پر گرا دینا یا زمین پکڑوا دینا بھی بڑی کامیابی کی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے زمین پرما تھا ٹیکنا اظہارِ عاجزی ہے اسی سے فرشی سلام کا تصور اُبھرتا ہے اور ماتھا ٹیکنے کا بھی۔

زمین ہمیشہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اور اسی طرح بے حد مصیبت اور پریشانی کے عالم میں یہ کہتے ہیں کہ پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی یعنی اس کا کوئی موقع نہ رہا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا رہے اور اپنی کوشش پراعتماد کر سکے۔ زمین کا پیوند ہو جانا مر جانا اور زمین میں دفن ہو جانا مرنے والوں کے لئے کہا جاتا ہے جو اظہار کا ایک شاعرانہ سلیقہ ہے پیوند یوں بھی ہمارے معاشرے اور سماجی زندگی کا ایک خاص عمل تھا اور اکثر غریبوں کے کپڑوں میں پیوند لگے رہتے تھے اور عورتیں کہا کرتی تھیں بی بی پیوند تو ہماری اوقات ہے۔

زمین ناپنا اِدھر اُدھر پھرنا جس کا کوئی مقصد نہ ہو اسی پر طنز سے کہا جاتا تھا کہ وہ تو زمین ناپتا پھرتا ہے یا جاؤ زمین ناپو یعنی کچھ بھی کرو یہاں سے ہٹ جاؤ زمین میں گڑ جانا حد بھر شرمندہ ہونا اور یہ محسوس کرنا کہ وہ اب منہ دکھلانے کے لائق نہیں ہے اسے تو زمین میں گڑ جانا چاہیئے یا اسی حالت میں آدمی کی یہ خواہش کرنا کہ کسی طرح زمین پھٹ جاتی اور وہ اُس میں سما جا تا۔

ہماری سماجی حسّیات محاوروں میں جو معنی پیدا کرتی ہیں اور اُن کی ہمارے معاشرتی زندگی میں جو معنویت ہوتی ہے محاوروں کے مطالعہ سے اُنہی اُمور کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ اور اِس طرح کے محاورے اِن سماجی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

زنانہ کرنا

مردانہ ہونا، ہماری معاشرتی زندگی کے ایک خاص حصّہ اور کچھ خاص طبقوں کی نمائندگی کرنے والے محاورے ہیں مسلمانوں اور ایک حد تک ہندوؤں سکھوں اور خاص طور پر راجپوتوں عورتوں کا انتظام الگ کیا جاتا تھا جو مردوں سے الگ ہوتا تھا ایسا اب بھی کیا جاتا ہے مگر پابندی کم ہو گئی ہے۔ اسی کو زنانہ کرنا کہتے ہیں۔

"زن" کے معنی فارسی میں عورت کے ہیں اسی سے ہمارے ہاں زنانہ لباس زنانہ محاورہ اور زنانہ زیورات جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اِس کے مقابلہ میں مردانہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور محض مردانہ کہہ کر مکان کا وہ حصہ مراد لیا جاتا ہے جہاں مردوں کا اٹھنا بیٹھنا اور مِلنا جُلنا زیادہ ہوتا اُسی کو مردانہ کہتے ہیں۔

پنجابی زبان میں زنانی عورت کو بھی کہتے ہیں اور زنخہ ہیجڑوں کو کہا جاتا ہے زنخی وہ عورت جس میں" ہجڑہ پن" ہو یہ لفظ دلّی اور لکھنؤ میں رائج رہا ہے۔

زنجیر کرنا یا پکڑنا، زنجیر ہِلانا، زنجیر کھڑکانا

زنجیر سے متعلق بہت سے محاورے ہیں پیروں میں زنجیر ڈال دی یعنی قید کر لیا۔ اِس کو بیڑی ڈالنا بھی کہتے ہیں۔ بیڑی پہنانا بھی۔ "زنجیر کرنا"فارسی محاورے کا ترجمہ ہے۔ جہاں زنجیر کردن کہا جاتا ہے میر کا شعر ہے۔

بہار آئی دیوانے کی خبر لو

اگر زنجیر کرنا ہے تو کر لو۔

زنجیر ہلانا یا زنجیر کھڑکانا دروازے کی کُنڈی بجانا ہے زنجیر ہلانے سے مُراد انصاف کے لئے فریاد کرنا بھی ہے۔

ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

یعنی قید کی حالت میں بھی برابر گھُوما کرتا ہوں یہ جنون کا عالم ہوتا ہے اور شاعروں نے اسی معنی میں اِس کا ذکر کیا ہے جنون شدید جذبہ کے عالم میں ذہن پر طاری ہوتا ہے اور دل و دماغ قابو میں نہیں رہتے جانوروں میں بھی یہ کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔

زندگی سے تنگ آنا یا زندگی تلخ ہونا

ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان پر طاری ہوتی ہے زندگی جو عزیز ہوتی ہے پیاری ہوتی ہے آدمی اُس سے بھی تنگ ہو جاتا ہے اور معاشرے کے رو یہ کو اس میں اکثر دخل ہوتا ہے یا پھر شدید بیماری ہوتی ہے جس میں آدمی کوئی علاج نہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ میری زندگی تو اجیرن ہو گئی ہے۔

زوال کا وقت

سُورج کے ڈوبنے سے پہلے کا وقت زوال کا وقت کہلاتا ہے جب سایہ ٹھہرنے لگتے ہیں دھُندلکا چھا جانے کا ماحول شروع ہو جاتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں جب گِراوٹ کا زمانہ آتا ہے۔ اور وہ اپنے کاموں میں بچھڑ جاتی ہیں تو وہ زوال کا وقت ہوتا ہے اور یہی اِس محاورے کی سماج سے اور قوموں کی تاریخ سے ہم رشتگی ہے۔

زور پڑنا، زور چلنا، زور دینا، زور پکڑنا، زور مارنا، زور بخشنا وغیرہ

"زور" قوت کو کہتے ہیں اِسی سے زوردار لفظ بنا ہے۔ زور داری بھی اردو میں زور کے ساتھ بہت سے محاورے بنتے ہیں اس میں زور و شور ہونا بھی ہے آج کل اِس بات کا بہت زور شور ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام زیادہ تر اُس کی طرف متوجہ ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آج کل کانگریس کا زور ہے یا پھر فلاں پارٹی کا زور ہے زور دینا کسی بات پر اِصرار کرنا زور چلنا قابو پانے کو کہا جاتا ہے جیسا اِس مصرعہ میں کہا گیا ہے۔

ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

زور پکڑنا جیسے بارش نے زور پکڑا اور سماجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ مخالفت نے زور پکڑا دشمنی نے زور پکڑا اُس نے بہت زور مارا یعنی اپنی بات یا اپنے معاملہ پر زور دیا۔ "زور داری" سے کہا یا"زور داری" دکھائی اُس کی بات تو زور دار ہے یہ سب ہمارے سماجی فِقرہ ہیں جو معاشرتی عمل اور ردِ عمل کو پیش کرتے ہیں اُس میں زور بڑھنا اور زور ٹوٹنا بھی شامل ہے۔ زور بخشنا" کسی کو طاقت دینا ہے جیسے نثار نامی شاعر کا یہ مصرعہ ہے۔

حیدرِ کرار نے وہ" زور بخشا"ہے نثار

"زور دکھانا" اپنے زیادہ طاقتور ہونے کو اپنی بات چیت یا عمل کو پیش کرنا وہ خواہ مخواہ اپنا زور دکھاتا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ سب محاورے سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں۔

زہر اُگلنا، زہر کھانا، زہر پینا، زہر پلانا، زہر چڑھنا، زہراب ہونا، زہر کا سا گھونٹ پینا، زہر میں بجھا ہوا

زہر ہلاکت پیدا کرنے والی یا ہلاکت دینے والی شے کو کہتے ہیں اور سماجی زندگی میں تلخیاں پیدا کرنے والی یا نفسیات کو بگاڑنے والی کسی بھی بات کو زہر سے تشبیہہ یا نسبت دیتے ہیں جو بات یا جو شئے آدمی با دلِ نخواستہ کرتا ہے اُس کو زہر مار کرنا کہتے ہیں زبردستی کسی سے کوئی بات منوانا یا کسی بات پر صبر کرنا زہر جیسے گھونٹ پینا کہا جاتا ہے۔ زہر دے کر مار تو سکتے ہی ہیں مگر ناگواری کے عالم میں اگر کوئی چیز کھائی جاتی یا پی جاتی ہے اُسے بھی زہر مارنا کہتے ہیں۔

زہر کا مز ہ چکھنا یا زہر چکھنا بھی اسی طرح کا محاورہ ہے زہر ہونا بھی اور زہر لگنا بھی کہ اس کی بات مجھے زہر لگتی ہے جب کوئی کسی پر بہت رشک یا حسد کرتا ہے تو اُس کو زہر کھانا کہتے ہیں میرے دشمن اس بات پر زہر کھاتے ہیں"زہراب ہونا" پانی میں زہر ملنا ہے یا کسی بھی پینے کی شے کا"زہرناک"یا حد بھر تلخ ہو جانا ہے جیسے چائے کا گھونٹ بھی مجھے زہراب ہو گیا" یا یہ شراب نہ ہوئی زہراب ہوا ایسے شربت کو بھی میں تو زہر اب سمجھتا ہوں۔

"زہر میں بجھا" ہوا ہونا بھی زہر جیسی کیفیت کو اپنے ساتھ رکھنا جیسے زہر میں بجھے ہوئے نشتر زہر میں بجھے ہوئے تیور زہر میں بجھے ہوئے تیر جب کسی ہتھیار کو اس غرض سے زہر میں بجھایا جاتا ہے کہ اس کا زخم پھر اچھا نہ ہو تو وہ جنگ کا نہایت اذیت ناک طریقہ ہوتا ہے انسانی نفسیات کے اعتبار سے بول بات میں بھی زہر مِلا ہوتا ہے اور زہریلے بول کہتے ہیں اِس معنی میں زہر ایک سماجی استعارہ بھی ہے اور ہماری گفتگو کے لئے غیر معمولی طور پر ایک علامتی کردار ادا کرتا ہے۔

زیب تن کرنا۔ زیب دینا اپنے کو

لباس پہننے کا ایک مقصد زیب دینا اور"زیب تن کرنا" بھی ہوتا ہے، ویسے"زیب دینا" ایک محاورہ ہے اور ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے

اور جب بات غیر موزوں اور نامناسب ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بات آپ کو زیب نہیں دیتی اور اچھا لگنے والی شے کو دیدہ زیب کہتے ہیں"تن زیب" ایک کپڑے کا نام بھی ہے اور ایسے لباس کو بھی" تن زیب" کہتے ہیں جو جسم پر اچھا لگتا ہے اور جس آدمی کے بدن پر لباس پھبتا ہے وہ زیب تن کہلاتا ہے۔

"زیبائش" سجاوٹ کے لئے آتا ہے اور ایک ایسے زیور کو جو پیروں میں پہنا جاتا ہے اور پیروں کو سجاوٹ بخشتا ہے اُس کو پازیب کہتے ہیں۔

ردیف "ج"

جادو لگانا، جادو چلانا، ڈالنا، کرنا، مارنا، جادو کا پتلا

جادو سحر کو کہتے ہیں اور سحر کے معنی ہیں ایسی بھیدوں بھری رات جس کے ذریعہ عقل کو حیرت میں ڈالنے والے کام کئے جاتے ہیں ہندوستان میں جادو ٹونے کا رواج بہت رہا ہے اسی لئے ہم یہاں منتر کے ایک معنی جادو بھرے الفاظ لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس نے کیا منتر پڑھ پھونک دیا ہے یہ تصور دوسری قوموں میں بھی ہے اور خود عرب بھی جادو کے قائل تھے کافر قرآن کی آیت کو نعوذ باللہ سحرِ عظیم کہتے ہیں ہمارے ہاں جادو ڈالنا، جادو چلانا، جادو کرنا، عام طور پر بولا جاتا ہے جیسے اس کا جادو چل گیا اس نے جادو چلا دیا جادو تو وہ ہوتا ہے جو سرپر چڑھ کے بولتا ہے اردو کا مشہور شعر ہے۔

کیا لطف جو غیر پردہ کھولے

جادُو وہ جو سر چڑھ کے بولے

اس معنی میں جادُو ہماری سماجیاتی سوچ کا حصّہ کیا ہے اور ہم ماورائے جن چیزوں کے قائل ہیں۔ اور انہیں مافوق العادت کہتے ہیں یہ انہی کا ایک حصّہ ہے ایسے ہماری کہانی حقوق داستان اور شاعری کے نمونوں میں دیکھا پرکھا اور سمجھا ہندوستان میں خاص خاص موقعوں پر جادُو کیا جاتا ہے۔

جاگرن کرنا

جاگرن کرنا ہندو کلچر کا ایک اہم رسمی اور مذہبی پہلو ہے کچھ خاص منتر پڑھ کر چراغ روشن کر کے اور دھیان گیان کے سلسلہ کو اپنا کر عقیدتوں کو دل میں جگایا اور من میں بسایا جاتا ہے اُسے بھگوتی جاگرن کہتے ہیں مغربی یوپی میں جا گئے کو یا جاگ اُٹھنے کو جاگر کہا جاتا ہے جاگر میں صرف آنکھیں کھلتی ہیں نیند کا سلسلہ ٹوٹتا ہے"جاگرن" میں دل کی غفلت دُور ہوتی ہے اور عقیدتیں جاگ اٹھتی ہیں اس معنی میں جاگرن کلچر، تہذیب، اور مذہب سے وابستہ ایک عمل ہے۔

جال بچھانا، پھیلانا، یا ڈالنا، جال میں پھنسنا، یا پھنسانا

جال ایک طرح کا وسیلہ شکار ہے شیر سے لیکر مچھلی تک اور مچھلی سے لیکر پرندوں تک جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ جال پانی میں پھینکا جاتا ہے اونچی چھتری پر لگایا جاتا ہے جہاں کبوتر آ کر بیٹھتے ہیں اور اُس جال میں پھنس جاتے ہیں یہی صورت مچھلیوں کی ہوتی ہے اور یہی شکل اُن پرندوں کی ہوتی ہے جو زمین میں دانہ چُگنے کے لئے اترتے ہیں اور اُس جال میں پھنس جاتے ہیں جس پر دانہ بکھیرا ہوتا ہے۔

انسان بھی فریب جھوٹ دغا اور فکر کا شکار ہوتا ہے اور ان زبانی وسائل کو بھی جال ہی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی فریب دہی کا عمل ہے جس کا سلسلہ کون جانے کب سے رائج ہے مگر یہ بات برابر ہو رہی ہے اِس کا پیمانہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اِس دام فریب کے حلقوں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور سماج اس سے باہر نہیں نکل پایا غالب کا شعر یاد آ گیا۔

دامِ ہر مو ج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک

جامے سے باہر ہو جانا یا جامے میں پھُولا نہیں سمانا، جامہ زیب ہونا

جامہ دراصل لباس کو کہتے ہیں ہم زیر جامہ اور چار جامہ بھی بولتے ہیں زیر جامہ انڈوریر کو بھی کہتے ہیں چار جامہ چار طرح کے کپڑے جن سے تن پوشی یا جسم کی زیب و زینت کا کام لیا جاتا ہے۔ گھوڑے کے ساتھ اور زین و لگام وغیرہ کے لئے بھی چار جامہ"تسمہ" کا محاورہ آتا ہے۔

جامہ میں پھُولا نہ سمانا انتہائی خوشی کے اظہار کو کہتے ہیں جو دوسرے بھی دیکھ لیں سمجھ لیں اور محسوس کر لیں کپڑے سب لوگ پہنتے ہیں اور معاشرہ میں اسی پوزیشن کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اس میں مذہب سے اپنے تعلق و وفاداری کو بھی شامل رکھنا چاہتے ہیں اور ایک طبقہ تو اُس پر زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر لباس ہر رنگ ہر وضع قطع ہر آدمی کے لئے وجہ زینت نہیں بنتی بعض بدن جامہ زیب ہوتے ہیں۔ بعض لباس کچھ اِس طرح کے ہوتے ہیں کہ ہر آدمی کے اچھے لگتے ہیں لباس کا اچھا لگنا ہی جامہ زیبی کا سبب ہوتا ہے لباس کا رشتہ ہمیشہ ذاتی پسند سے زیادہ سب کی پسند کا مسئلہ رہا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کھاؤ من بھاتا اور پہنے جگ بھاتا ہے۔

جان پر کھیلنا، جان دینا، جان پڑنا، جان جانا، جان جھوکنا، جان چرانا، جان چھُڑانا، جان چھوڑنا، جان سُکوھنا، جان سے جانا، جان سے زیادہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا، جان جوکھوں میں ڈالنا، جان ہوا ہونا وغیرہ

جان آدمی کو بہت ہی عزیز ہے وہ اس کی روحِ رواں ہے سر چشمۂ حیات ہے اُس کے وجود کا باعث ہے اور اپنے وسیع مفہوم اور معنی کے ساتھ اس کی زندگی میں شریک ہے اسی لئے ہم طرح طرح سے جان کے لفظ اور معنی کو اپنی زبان میں استعمال کرتے ہیں اور جان کے ساتھ جو محاورے بنتے ہیں وہ ہماری سماجی فکر اور سائل کو ظاہر کرتے ہیں جیسے جان دینا، جان چھڑکنا، جان نہ ہونا، جان و ایمان کے برابر ہونا وغیرہ۔

جانے کے لچھن ہیں

جانے کے معنی بھاگ جانے کے بھی ہیں نکل جانے اور چھوڑ جانے کے بھی ہیں جان نکلنا تو محاورہ ہے جانے کے لچھن ہیں کہ معنی ہیں کہ اس کے روپ اور روش سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ رہنے والا نہیں ہے چھوڑ کر جانے والا ہے یہ گویا ان لوگوں کا رد عمل ہوتا ہے جو کسی نہ کسی سطح پر کچھ توقعات رکھتے ہیں غالب کا شعر اس موقع پر یاد آ گیا۔

جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

جُگ جیئے، یا جیؤ، جگت لڑنا

جُگ جُگ جینا ہمارے ہاں کی دعا ہے ہم ایک خاص دور کو جُگ کہتے ہیں جو یگ کا ہندی تلفظ ہے جُگ جینے کے معنی ہوئے کہ تم دور بہ دور جیؤ اسی لئے ہندی میں چل جیو ہونا بھی کہتے ہیں جُگ جینے یا جُگ بیتا ایک دوسرا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں بہت لمبی مدّت بیتنا۔ اردو کا شعر ہے۔

جُدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے

کہ اِس ظالم کی ہم پر جو گھڑی بیتی سو جگ بیتا

جلتی آگ میں تیل ڈالنا، جلتی پر تیل چھڑکنا، جلتے کو جلانا، جی جلنا، جی جلانا

جلنا شدید گرمی کا عمل ہے جس سے رُوکھ (درخت) جل جاتے ہیں بدن جل جاتا ہے آگ میں ہر چیز جل جاتی ہے آگ کے قریب آ کر ہر شے جل اٹھتی ہے اُس سے جلنا ایک استعارہ بن گیا ہے۔ جی جلنا، جی جلانا یعنی تکلیف دہ باتیں کرنا یا اچانک جل اٹھنا بھڑک اٹھنا غصہ میں بھر جانے کو کہتے ہیں جی کا جلاوا وہ شخص چنریا بات جو مسلسل ذہنی تکلیف کا سبب ہو ان سب باتوں کا رشتہ ہماری سماجی فکر اور معاشرتی زندگی سے ہے اوپر لکھے ہوئے محاورے اسی سلسلۂ فکر یا خیال یا دائرہ قول و عمل میں آتے ہیں۔

جلے پر ون یا نمک چھِڑکنا یا لگانا، جلے پھپولے پھوڑنا، دل کے پھپولے پھوڑنا جلی کٹی سنانا جل اٹھنا اسی سلسلہ کے محاورے ہیں

ہماری عام روش ہے کہ جب ہم کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو خواہ مخواہ بھی اُس سے اختلاف کرتے ہیں اسی کو جلے نال کے پھپولے پھوڑنا کہتے ہیں پھپھولوں کا جلنا محاورہ کی ایک اور صورت ہے جس کا اظہار اس شعر سے ہوتا ہے۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینہ کے داغ سے

اِس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے

جنگل میں منگل ہونا، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا

جنگل ہماری تہذیبی زندگی کا ایک حوالہ ہے ہندوستان اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جنگلوں سے بھرا پڑا تھا یہ جنگل طرح طرح کے تھے پہاڑی جنگل بھی اور میدانی جنگل بھی جنگل پر محاورے موجود ہیں جنگل آباد ہونا ایسے علاقہ کو جس میں کھیتی ممکن ہے کام میں لانے کے لئے کہتے ہیں کہ تمہارا جنگل آباد ہو جائے گا۔ جنگل کا تصوّر ویرانی کا تصور بھی ہے اس لئے جب میلے ٹھیلے لگتے تھے اور طرح طرح کی دوکانیں اور کھیل تماشہ جنگل میں ہوتے تھے تو اس کو جنگل میں منگل ہونا کہتے تھے اِس کا ہماری معاشرتی زندگی سے بھی ایک رشتہ ہے خانہ بدوش قبائل جنگلوں میں کچھ دنوں کے لئے آباد ہو جاتے تھے تو بھی جنگل میں منگل ہو جاتا تھا۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوئی آدمی ترقی کرے بڑے عہدے پر پہنچے اور اُس کے ہاتھ میں یہ ہوا کہ وہ بھلائی کر سکے تو اُس کو اپنے وطن کو بھولنا نہیں چاہے وطن والوں کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے، نہ ہوا تو وہ مثل ہو گئی کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا خوش ہونے والے تو وطن کے لوگ ہوتے ہیں انہی کے سامنے ترقیوں کا مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔

جنم سُدھر جانا، جنم جنم کی دوستی، جنم جنم کا بیر، جنم جنم کا ساتھ، جنم میں تھوکنا

ہندوستان کے لوگ پنر جنم میں یقین رکھتے ہیں اسی لئے یہاں محاورے میں جنم جنم کا ذکر بہت آتا ہے کہ ایک ہی زندگی میں لگاتار جتنی زندگیاں ہوں گی اُس میں یہ دوستی یہ محبت پایہ پیتر قائم رہے گا اس لئے کہ ہندو عقیدہ کے مطابق ایک جنم کے سنسکار دوسرے جنم میں بھی انسان کے ساتھ رہتے ہیں اسی لئے جنم جنم کی بات سامنے آتی ہے جنم سُدھر نا زندگی بہتر ہو جانے کے معنی میں آتا ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیدائش تو ایک بُرے ماحول میں ہوئی تھی لیکن حالات بدل گئے اور جنم سدھر گیا ایک اور محاورہ اسی سلسلہ کا ہے اور معاشرہ کے اچھے بُرے رو یہ کی طرف عجیب انداز سے اشارہ کرتا ہے جنم میں تھوکنا مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر تمہارے اخلاقی رو یہ اتنے ہی بُرے ہیں تو کوئی کیا تمہارے جنم میں تھوکے گا کیا کہے گا کہ تم کیا ہو تمہارے ماں باپ کیا تھے۔

جوبن اُمنڈنا، یا اُبھرنا

جوبن سنسکرت لفظ یوون کا بدلا ہوا تلفظ ہے جوانی کے زمانہ کو"یوون" کہتے ہیں اور اُس کا اظہار انسان کے چہرے مہرے اور اعضائے بدن کے تناؤ سے ہوتا ہے بعض لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے زمانہ میں اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُن پر جوانی پھٹتی پڑی ہے جوبن چھایا ہوا ہے یا پھر جوبن طوفان کی طرح اُمنڈ رہا ہے یہ ایک احساسِ مسرّت کی بات بھی ہوتی ہے اور اِس پر رشک بھی کیا جاتا ہے جوانی کا ڈھل جانا بھی ایک ایسی ہی کیفیت ہے جو ڈھلتے ہوئے دن یا ڈھلتی ہوئی رات کی مدھم کیفیت کی طرح ہوتی ہے جیسے کسی پودے درخت یا باغ کی بہار گزر گئی ہو۔ اور خزاں کے آثار اس پر غلبہ پا رہے ہوں۔

جوڑ توڑ، جوڑ توڑ کرنا، جوڑ جوڑیا جوڑ جوڑ کر مر جانا، جوڑ جوڑ کے دھرنا، جوڑ جوڑنا، جوڑ چلنا، جوڑ لگانا، جوڑیا سنجوگ

جوڑنا ایک دوسرے سے بلانا یا جوڑی لانا ایک دوسرے سے شادی کر دینا جیسے اللہ ملائی جوڑی کہتے ہیں مگر جوڑ کے ساتھ ہماری سماجی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں جُڑی ہوئی ہیں اُن میں جوڑ جوڑ دُکھنا بھی ہے جو تکلیف کی ایک صورت ہے لیکن جوڑ توڑ ایک طرح کا سماجی عمل ہے آدمی اپنی غرض پوری کرنے کے لئے طرح طرح کے جوڑ توڑ کرتا ہے جھُوٹ سچ بولتا ہے زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے یہی سب باتیں جوڑ توڑ کے زمرے میں آتی ہیں تعلقات کی اچھائی برائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مگر اس کا استعمال ذہنی طور پر اچھے معنی میں نہیں آتا۔ ہاں ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ بہت جوڑ توڑ کا آدمی ہے اور اپنا کام نکالنا اُسے خوب آتا ہے۔

جوڑ جوڑ کر مر جانا ایک دوسرا عمل ہے جس کا تعلق پیسے کے خط اور گھٹا کرنے سے ہے جو لوگ کنجوس ہوتے ہیں پیسہ اکھٹا تو کرتے ہیں خرچ نہیں کرتے اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ میاں جوڑ جوڑ کر مر جاؤ گے یعنی سب رکھا رہ جائے گا تمہارے کام نہ آئے گا جوڑ جوڑنا جوڑ لگانے کے معنی میں آتا ہے اور اُس سے سنجوگ پیدا کرنا بھی مراد لیا جاتا ہے۔ جبکہ جوڑے بننا شادی کے جوڑوں کو ایک خاص انداز سے طے کر کے رکھتے۔ اور ان میں سجاوٹ پیدا کرنے کو کہتے ہیں جوڑی دار برابر کے ساتھی کو کہا جاتا ہے جوڑے تقسیم ہونا بھی شادی بیاہ یا خوشی کے موقع کی ایک رسم ہے۔ جس میں جوڑے دیئے جاتے ہیں اور ان کا اپنا ایک سماجی اور رسمی انداز ہوتا ہے۔

جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں

اگرچہ یہ بادلوں سے متعلق ایک بات ہے کہ میں بادلوں کا کڑک گرج زیادہ ہوتی ہے وہ اکثر بوندا باندی بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں اس سے ایک معاشرتی یا سماجی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جو لوگ زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے ہیں وہ کام کم سے کم کرتے ہیں اس لئے کہ کام کرنے والے کو زیادہ باتیں بنانے کی ضرور ت اور فرصت نہیں ہوتی یہ تو ہمارے سماج کا نسبتاً ایک نکما اور ناکارہ حصہ ہوتا ہے جس سے تعلق رکھنے والے لوگ باتیں زیادہ بناتے ہیں دیکھا جائے تو باتیں بنانا اور کام کرنا ہماری سوسائٹی کے نہایت اہم مسائل ہیں اور انہی سے متعلق یہ گفتگو ہے جو محاورے کی شکل میں یا بطور Comment کے سامنے آتی ہے۔

جونک پتھروں میں نہیں لگی

جونک لگنا خود ایک محاورہ ہے۔ جونک پانی کا ایک کیڑا ہوتا ہے جو کھال سے چمٹ جاتا ہے اور خون چوستا رہتا ہے اسی لئے محاورہ ہے کہ وہ تو جونک کی طرح لگ جاتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ تو جو نہایت سخت دل سخت طبیعت اور سخت مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح لگ کر بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اس لئے کہ پتھر میں جونک لگتی ہی نہیں جہاں خون ہو گا وہیں تو جونک چُوسے گی پتھر میں اُسے کیا ملے گا۔

جی ہے تو جہان ہے (جان ہے تو جہان ہے)

اِس محاورے کو جان ہے تو جہان ہے کی صورت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے یہ فرد کی اپنی اہمیت اور اس کی اپنی جائز فلاح و بہبود سے متعلق ایک سوچ ہے۔ اس کا استعمال دو موقعوں پر ہوتا ہے ایک کہ آدمی کی اگر صحت ہے وہ زندہ ہے اور بقول غالب۔

تنگ دستی اگر نہ ہو غالب

تندرستی ہزار نعمت ہے

یہی تندرستی جی ہے جہان ہے جہان ہے اور یہی ہزار نعمت دنیا جہان کی خوشیاں ہیں اسی طرح ہم یہ بھی سوچتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ہی نہ ہوں گے تو دنیا کا ہونا نہ ہونا ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا جی ہے گویا جہان ہے۔


8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27