اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 75333
ڈاؤنلوڈ: 3562

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75333 / ڈاؤنلوڈ: 3562
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "ص"

صاحب سلامت

سلام ہمارے تہذیبی رویوں اور رسموں کا ایک بہت اہم حصّہ ہے ہم بڑوں کو بھی سلام کرتے ہیں برابر والوں کو بھی اور اپنے سے چھوٹوں کو بھی بادشاہوں کو سلام بہت سادہ طریقہ پر نہیں کیا جاتا۔ وہاں سات بار زمین بوس ہو کر کورنش بجا لاتے ہیں جسے درباری سلام کہہ سکتے ہیں۔ مُجرا اربابِ نِشاط کا سلام ہوتا ہے۔

ہم سلام مُجرا ایک ساتھ بھی کہتے ہیں اور اُسے محاورے کے طور پر استعمال کرتے ہیں آداب اُمراء کا سلام ہے اور تسلیمات اُس کے ساتھ جُڑا رہتا ہے السلام علیکم گویا برابری کا سلام ہے چھوٹا طبقہ باقاعدہ سلام نہیں کر سکتا وہ" صاحب" سلامت" کہتا ہے ہمارے معاشرے میں جو اونچ نیچ ہے۔ اُس کا اثر سلام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

"صاحب"کا لفظ مالک کے معنی میں آتا ہے ہم اُس کو احترام کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ سکھّوں میں" صاحب" کے وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں شریف کے ہیں اسی لئے وہ گرودارا صاحب کہتے ہیں عام طور پر صاحب انگریزوں کو صاحب کہتے رہے ہیں اِس سے پہلے بیگمات اور شہزادیوں کے لئے بھی صاحب کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ غالب کے زمانے میں گھرکی خواتین کو بھی"صاحب" لوگ کہا کرتے تھے اب یہ ایک طرح کا محاورہ ہے۔

صاحبِ نسبت ہونا

صوفیانہ اِصطلاح ہے اور اُس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو فلاں صوفی خانوادے سے نسبت ہے اس کو وہاں سے رُوحانی فیض پہنچا ہے اسی لئے فارسی میں یہ مصرعہ کہا گیا جو بہت شہرت رکھتا ہے۔

گرچہ خو ردیم نسبتے است بزرگ

اگرچہ ہم چھوٹے ہیں لیکن ہماری نسبت بڑی ہے اس معنی میں صاحب نسبت ہونا ایک سطح پر محاورہ بھی ہے۔

صاف اُڑانا، صاف انکار کرنا، صاف جواب دینا، صاف نکل جانا

ہماری سماجی عادتوں کمزوریوں یا برائیوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم جس بات کو سننا یا جاننا نہیں چاہتے اُس کی اُن دیکھی کرتے ہیں جیسے ہم نے سنا ہی نہیں یا ہمارے علم میں ہے۔ نہیں اور یہ سب کچھ جان کر ہوتا ہے ہم دانستہ انجان بنتے ہیں اِس سے ہم اپنے سماجی رویوں کے مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں۔

صاف نکل جانا بھی اسی مفہوم سے قریب تر اِس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یعنی ذمہ داریوں سے بچ نکلنا اور یہی ہمارا معاشرتی مزاج بھی ہے۔

صبح خیز، صبح خیزے، صبح خیز ہونا

صبح کو اٹھنے والا صبح خیز کہلاتا ہے یہ عبادت کی غر ض سے ہوتا ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صبح کی عبادت میں زیادہ لطف اور رُوحانی کیف ہوتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو لفظی ترکیب اتنی نیکیوں کی طرف اِشارہ کر رہی تھی اسی سے صبح کے ابتدائی حصّے میں چوری چکاری کرنے والے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو قافلوں کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ قافلے عرب میں رات کے وقت سفر کرتے تھے اور صبح کے قریب یہ سو جاتے تھے اسی وقت اس طرح کے چوری چکاری کرنے والے مصروفِ عمل ہوتے تھے اسے ہمارے ادیبوں نے بھی استعمال کیا ہے۔

فسانہ عجائب میں ایک سے زیادہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں صبح خیز دراصل"صبح خیزے" ہی ہے اور اپنے خاص مفہوم کے ساتھ ہے۔

صبح شام کرنا

اُردُو کے ایسے محاورات ہیں جو بہت سی پریشانیوں ذہنی تکلیفوں اور کرب و اضطراب کے عالم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اُن میں" صبح و شام"ہونا بھی ہے یہ ایسے مریض کے لئے کہا جاتا ہے۔ جس کی زندگی توقعات ختم ہو چکی ہوں اور یہ کہنا مشکل ہو کہ اب یہ صبح سے شام یا شام سے صبح کرے گا یا نہیں ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ اس کی تو"صبح شام"ہو رہی ہے یا بڑھاپے کے بعد جب زندگی کے خاتمہ کا وقت آتا ہے تو میر کے الفاظ میں اِس طرح کہا جاتا ہے۔

صبح پیری شام ہونے آئی میر

تو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا

غالب نے صبح کرنا شام کا اسی اِضطراب اور بے چینی کے عالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔

کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا

صبر پڑنا، صبر لینا، صَبر کا پھل میٹھا، صبر بڑی چیز ہے

"صبر" عربی لفظ ہے مگر ہماری زبان میں کچھ اِس طرح داخل ہے کہ وہ اُس کے بنیادی الفاظ میں شامل کیا جا سکتا ہے اِسے ہم اِس بات سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ صبر کرنا صبر سے کھانا بے صبر ہونا یا صبر و شکر کرنا ہماری اخلاقیاتی فکر کا ا یک جُز بنا ہوا نظر آتا ہے۔

معاشرے میں چاہے وہ گھریلو معاشرہ ہے یا سرکار و دربار بازار سے تعلق رکھتا ہو معاملات کی اونچ نیچ اور دیانت کے ساتھ بددیانتی ہمارے معاشرے کا ایک مزاج اور ہمارے معاملات کا ایک جُز بن گیا ہے اس پر ہم لڑتے جھگڑتے ہیں من مٹُاؤ پیدا ہوتا ہے اگر یہ صورت مستقل طور پر رہے تو زندگی میں ذرا بھی تواضع باقی نہ رہے اسی لئے صبر کرنے کی بات کی جاتی ہے صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صبر بڑی چیز ہے یا صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یا اللہ کو" صبر" بہت پسند ہے یہ سب باتیں ہماری نفسیاتی تسکین کے لئے ہوتی ہیں اور جو آدمی بے صبرے پن کا اظہار کرتا ہے اس پر ہم کسی نہ کسی طرح معترض ہوتے ہیں قرآن نے خود بھی ایک موقع پر کہا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

صحبت اٹھانا، صحبت داری، صحبت گرم ہونا، صحبت نہ رہنا

صحبت اچھے بُرے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے کو کہتے ہیں اُس میں بڑے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور برابر والے بھی پڑھے لکھے بھی اور غیر پڑھے لکھے بھی اپنے بھی بیگانے بھی۔

انسان صرف کتابوں سے نہیں سیکھتا اپنے گھرکے ماحول سے بھی سیکھتا ہے اور اُس سے زیادہ اچھے لوگوں کی صحبت اٹھاتا ہے تب سیکھتا ہے اسی لئے کچھ زمانے پہلے تک ایسے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جو اچھے لوگوں کی صحبت اٹھائے ہوئے ہوتے تھے اور اسی صورت حال کی طرف صحبت کے متعلق ہماری زبان کے محاورے اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اِس معنی میں محاورہ ہماری سوچ اور تہذیبی صورت حال کا ایک Miniature (چھوٹا سا مرقع) ہے جو ایک وسیع تر پس منظر کی طرف ہمارے ذہن کو مائل کرتا ہے۔

صحنک سے اُٹھ جانا، غائب ہو جانا، بے تعلق قرار دیا جانا

ہماری دیہاتی زبان میں صحنک ایک برتن ہے جو عام برتنوں سے بڑا ہوتا ہے ویسے ہماری زبان میں"صحن"آنگن کو کہتے ہیں گھرکے ساتھ وہ انگنائی کے معنی میں آتا ہے اور کسی بڑی عمارت کے ساتھ کھلے ہوئے حصّے کے معنی میں جیسے جامع مسجد کا صحن کہا جائے یعنی صحن Courtyard اُردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

اَری اُٹھ جاؤں گی میں صحنک سے

اس کے معنی ہیں کہ میں تو کہیں کی نہ رہوں گی۔

صلِ علیٰ کہنا

بعض محاورے خاص مسلمان کلچر سے رشتہ رکھتے ہیں، ان میں صلِ علیٰ کہنا بھی ہے یعنی اُن پر ہزار سلام اسی لئے مسلم معاشرے میں صل علیٰ محمدؐ کہا جاتا ہے یعنی ہزار درود و سلام اسی لئے جب کسی کی تہہ دل سے تحسین کی جاتی ہے اور اُسے بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ تو اُسے صلِ اللہ کہا جاتا ہے۔ غالب کا شعر ہے۔

دیکھئے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ

اس کی ہر بات پہ ہم صلِّ اللہ کہتے ہیں

نام خدا کہنے کے معنی بھی یہی ہیں اور ایک خاص کلچر کے اظہار سے تعلق رکھتے ہیں۔

صلُّواتیں سُنانا

صلوات سُنانا برا بھلا کہنے کے معنی میں آتا ہے جب کہ" صلات" کے معنی ہیں نماز اور صلوٰۃ کے معنی ہیں درود لیکن زبان کیا کیا رنگ اختیار کرتی ہے اُس کا اندازہ اِس سے ہوتا ہے کہ صلوٰۃ جو اچھے سے اچھے معنی میں آتا ہے اُس کو بُرے معنی میں اور بے تکلف استعمال کیا جاتا ہے۔ ا س سے ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ کلچر جس میں مذہبی روایت بھی شامل ہے ہماری زبان کو متاثر کرتا ہے اور اِس کا ادبی علمی اور عوامی کردار اس سے متعین ہوتا ہے لیکن زمانہ اور زندگی ذہن اور زبان اسے جگہ جگہ اس طرح بھی متاثر کرتے ہیں کہ ا ُس کا رخ بدل جاتا ہے اور زبان کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔

صندل کے چھاپے منہ پر لگنا، صندل کی سی تختی، صندل گھُنا

صندل دراصل"چندن" ہے جو ایک خوشبودار لکڑی ہوتی ہے اس کے درخت جنوبی ہندوستان میں پیدا ہوتے ہیں اور ہندو کلچر سے اُن کا خاص تعلق ہے جنوبی ہندوستان کے لوگ پنڈت اپنے ماتھوں پر قشقہ لگاتے ہیں یہ صندل گھِس کر لگایا جاتا ہے مہا کوی کالی داس کے زمانے میں عورتیں اپنے بدن کی سجاوٹ کے لئے اور اُس کو خوشبودار بنانے کی غرض سے اُس پر چندن لگاتی تھیں۔ چندن کی لکڑیوں سے بعض خوبصورت آرٹیکل تیار کئے جاتے تھے ا بٹن میں بھی چندن شامل کیا جاتا تھا اس طرح ہمارے کلچر سے"چندن"کا صدیوں سے ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔

"چندن" کے چھاپے منہ پر لگانا اپنے کردار کی خوبیوں کو ظاہر کرنا ہے اور سرخ روئی کا نشان ہے اِس کے علاوہ صندل کی تختی بھی خوبصورتی اور وجود کی پاکیزگی کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورات کو تراشنے میں ہماری زبان کے بولنے والوں نے کس حد تک شاعرانہ طریقہ رسائی کو اپنے سامنے رکھا ہے۔ بعض محاورے انتہائی مبالغہ آمیز صورتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے آگ کھانا اور انگارے"اُگلنا"، بعض محاورے اِس کے مقابلہ میں سماجی تلخیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اسی پس منظر میں اُن کے معنی اور معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے بعض محاوروں سے زندگی کی خوشگواریاں ظاہر ہوتی ہیں جیسے زہر بجھے ہوئے تیروں مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے تیروں کے مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے میٹھے بول کہہ کر خوشی کا اظہار کرنا۔ اسی طرح صندل کی تختی"صندل"کا چھاپہ شاعرانہ تشبیہات اور استعاروں کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارے طریقہ فکر اور طرزِ اظہار کے مختلف سلیقوں کو محاورے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اگرچہ محاوروں پر اس رشتے سے کم نظر ڈالی گئی ہے۔

صُورت حرام

صُورت پر بہت سے محاورے ہیں جیسے یہ صُورت اور"مسور کی دال" یا اُجاڑ صورت یا پھر صورت حرام صورت کے ساتھ اُجاڑ منحوس یا"حرام" کا لفظ استعمال کرنا ذہنی تلخیوں کا اظہار ہے۔ صورت پر پھٹکار برستی ہے اس محاورے سے بھی اسی صورتِ حال کا اظہار ہوتا ہے شیطان کی سی"تھوپڑی" بیل جیسا منہ وغیرہ محاورات اسی جذبہ کا اظہار ہیں کہ کوئی شخص دوسرے سے اُس حد تک ناراض ہو کہ اِس کی شکل سے بیزار ہونا اُس کے رو یہ میں شامل ہو جائے۔

ردیف "ض"

ضِد باندھنا، ضد پوری کرنا، ضد بحث میں پڑنا یا ضدی ہونا، ضد چڑھنا

ہمارے ہاں کے بہت عام لفظوں اور زبان پر آنے والے کلمات میں سے ہیں اور اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ"ضد" ہٹ دھرمی اور بلاوجہ کسی رو یہ کو اپنانا اور اُس پر اڑ جانا ہمارے معاشرے کی عام کمزوری یا عیب داری ہے۔ ہم معاملات کو سمجھنے کے بجائے اور مناسب لفظوں میں اظہار خیال نہ کرتے ہوئے"بد گوئی، بدکلامی" اور بد اندیشی اختیار کرتے ہیں۔ اس سے تلخیاں بڑھتی ہیں اور غلط طور پر غیر دانش مندانہ رو یہ سامنے آتا ہے ہم بچوں کی سی"ضد" کا محاورہ بھی اختیار کرتے ہیں جو ایک صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے پس منظر میں عقل و شعور کی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔

ضِد بحث میں پڑنا بھی خواہ مخواہ کی باتوں پر زور دینے اور غیر ضروری دلائل کو سامنے لانے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور بات سلجھنے کے بجائے اُلجھتی ہی چلی جاتی ہے اور ہماری سماجی گرہیں اور سماجی الجھنیں اِس سے اور بڑھتی ہیں۔

ضرب اُٹھانا، ضرب لگانا، ضرب پہنچانا اور ضرب پہنچنا

یہ محاورے عام طور پر تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کے سلسلے میں کام آتے ہیں کہ عربی زبان میں ضرب کے معنی مارنے کے ہیں لیکن ضرب المثل یا ضرب المثال ایک علمی اِصطلاح ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ فِقرہ اب بار بار استعمال ہوتا ہے اور ایک مثالی صورت بن کر رہ گیا ہے۔

ردیف "ط"

طاق بھرنا، طاق پر رکھا رہنا، طاق پر رکھنا، طاق ہونا

"طاق بھرنا" دراصل کوئی محاورہ نہیں ہے ایک ہندوانہ رسم ہے جو مسلمانوں میں بھی آ گئی ہے۔ اور اُس کا شمار یہ کہیے کہ ہماری ملکی رسموں میں ہوتا ہے مسجد کے طاق بھرے جائیں یا مندر کے مطلب اظہارِ عقیدت ہوتا ہے۔

چیزوں کی بھینٹ دینا قدیم زمانے سے انسانی معاشرے کی ایک رسم رہی ہے۔ اِس میں چوڑیاں چڑھانا چوٹیاں شاخوں میں باندھ دینا بالوں کو بھینٹ دینا زیورات بھینٹ کرنا اور مٹھائیاں چڑھانا یا روپے پیسہ چڑھاوے کے طور پر نظر کرنا ہماری عمومی رسموں میں شامل ہے یہاں تک کہ ہم دریاؤں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں پانی کے تالابوں اور کھیتوں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں اسی طرح مندروں مسجدوں کے طاق بھرے جاتے ہیں۔ چراغ چڑھائے جاتے ہیں تیل دیا جاتا ہے یہ زیادہ تر عورتوں کی رسمیں ہیں"طاق بھرنا" تو یہ کہتے ہیں کہ خالصتاً نسوانی رسم ہے۔

طاق پر رکھنا اس سے بالکل مختلف ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں بھُول جانا دھیان نہ دینا۔ ہمارے یہاں چیزوں کو رکھنے جس میں پیسے بھی شامل ہیں چھوٹے بڑے طاق ہی کام میں آتے تھے اور اُن پر رکھ کر کبھی گھرکے لوگ بھول بھی جاتے تھے یہیں سے طاق پر رکھنے کا محاورہ بھول جانے اور فراموش کر دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ طاق محل کو بھی کہتے ہیں اور ایک ( Single ) عدد کو بھی جیسے ایک تین پانچ سات اور نو یہیں سے"طاق" ہونے کا محاورہ بنا کہ وہ اپنے اپنے کام میں ماہر اور اپنی ہنر مندی میں طاق ہے یعنی بے جوڑ ہے منفرد ہے۔

طالع چمکنا

علمِ نجوم میں ستاروں کا رشتہ انسان کی قسمت سے بھی جُڑا رہتا ہے اور اسی کے مطابق جنم پتری تیار کی جاتی ہے۔ جس میں پیدائش کے وقت جو ستارے مل رہے ہوتے ہیں اُن کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ زندگی پر جُو اس کے اثرات ہونے والے ہیں اُن کی طرف اشارے کئے جاتے ہیں۔

"طالع" کے معنی ہیں طلوع ہونا، نکلنا اب کسی کی پیدائش کے وقت جو ستارے نکل رہے ہوتے ہیں وہی اِس کے طالع کہلاتے ہیں۔ جو قسمت کے ستارے ہوتے ہیں یہ مبارک بھی ہو سکتے ہیں اور نہ مبارک بھی اسی لئے طالع مسعود اور نا مسعود کہلاتے ہیں اُردو میں جو لوگ ادبی زبان بولتے ہیں وہ اِن لفظوں کا استعمال بھی کرتے ہیں اور یہ ہمارے تہذیبی ماحول کا ایک حصّہ ہے۔ اور ہماری سوچ کا ایک انداز ہے۔

طباق سا منہ ہونا

ہم چہرے کو انسان کے حُسن خوبصورتی اور بدصورتی کے سلسلے میں بڑی اہمیت دیتے ہیں کبھی پھول کہتے ہیں کبھی چاند کہتے ہیں کبھی ٹکیاں سا منہ قرار دیتے ہیں کبھی آئینہ رخ کہتے ہیں ایسی لڑکیاں یا عورتیں جن کے چہرے بہت گول ہوتے اور جن کے نقش و نگار نسبتاً بڑے چہرے مقابلہ میں ہلکے ہوتے ہیں اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ طباق سے منہ والی لڑکی یا عورت ہیں۔

جب لڑکیوں کو بہت تھوڑی عمر میں پردہ کروا دیا جاتا تھا اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ طباق سا منہ ہو گیا اب تک اس کو پردہ کیوں نہیں کروایا گیا یہ بھی سماجی رو یہ ہے جو قصبوں چھوٹے شہروں میں اب تک دیکھنے کو ملتا ہے اور ہماری معاشرتی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔

طباقی کتّا

ہمارے ہاں ہندوؤں میں جس تھالی میں کھایا جاتا ہے اُس کو کتّے کے چاٹنے کے لئے رکھ دیا جا تا ہے اب تو ایسا نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک عام دستور ضرور رہا ہے جو کتا یہ کام کرتا تھا اور اُسے طباقو کتا کہتے تھے جو گویا سماج کی طرف سے ایسے کرداروں کا ایک طنز کا درجہ رکھتا تھا ایسی عورتیں بھی" طباقو" کہلاتی تھیں جن کو اِدھر اُدھر کھانے پینے کا لالچ ہوتا تھا۔

طبقہ اُلٹ جانا

ہماری مذہبی فکر ہویا فلسفہ اور سائنس سے متعلق ہو دونوں میں آسمان و زمین کے طبقات داخل ہیں اور اُن کا ذکر موقع بہ موقع آتا رہتا ہے خود قرآن نے آسمان کو سات طبقوں سے وابستہ کیا ہے۔ زمین کے بھی طبقے ہیں اور زمین و آسمان کے طبقے ملا کر چودہ طبق کہا جاتا اور ہمارے ہاں محاورہ بھی ہے چودہ طبق روشن ہو گئے سماجی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی ہم طبقات کی تقسیم کے قائل ہیں مثلاً پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ کاریگروں کا طبقہ جس میں مزدور اور کم درجہ کے دستکار سبھی شریک ہیں۔

امیروں کا طبقہ سیاست پسندوں کا طبقہ ہم نے اہلِ شعر و ادب اور اصحابِ فلسفہ و تصوف کو بھی طبقات میں تقسیم کیا ہے اور طبقاۃ الصوفیہ"طبقاۃ الشعراء""طبقاۃ الملکہ" اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ طبقہ اور طبقات ہماری معاشرتی زندگی میں کس طرح داخل رہے ہیں یہ محاورے بھی اسی کی طرف اشارے کرتے ہیں طبقہ الٹ جانا چودہ طبق روشن ہونا وہاں طبق بھی ہے اور سبق بھی طبقہ الٹ جانا یعنی زمین کا اُلٹ پلٹ ہونا یا طبقاتی تقسیم کا درہم برہم ہو جانا زمین سے آسمان کا روشن ہو جانا اور مراد ہوتی ہے کہ اور کچھ نظر نہیں آیا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

طبیعت آنا، طبیعت الجھنا، طبیعت بگڑنا، طبیعت بھر جانا، طبیعت لگنا

طبیعت عربی لفظ ہے اور اُس سے مراد ہے انسان کی اپنی مزاجی کیفیت"دل" اور"جی" توجہ وغیرہ مثلاً طبیعت لگنے کے وہی معنی ہیں جوجی لگنے کے ہیں اور طبیعت آنا دل آنے یا عشق ہو جانے کو کہتے ہیں طبیعت لہرانا بھی دل کے خوش ہونے اور والہانہ کیفیت پیدا ہو جانے کے لئے کہا جاتا ہے عالمِ فطرت کو بھی طبیعت سے نسبت دی جاتی ہے اور طبیعیات عالمِ فطرت کے عمل کو کہتے ہیں۔ اُس پر اگر نظر رکھی جائے تو لفظوں کے ساتھ کیا گیا مفہوم وابستہ ہوتے ہیں۔ اور خود محاورے میں پہنچ کر اُن کے معنی میں کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس معنی میں اگر دیکھا جائے تو لفظ کے لغوی معنی سے لے کر شعری، شعوری ادبی اور محاوراتی معنی تک بہت بڑا فرق آ جاتا ہے۔

طرارے بھرنا، طرارا آنا

طرارے"ہرن"کی دوڑ کو کہتے ہیں اور ہرنوں ہی کے سلسلے میں یہ محاورہ آتا بھی ہے اور ہم اسے کہانیوں عام گفتگو یا شعر و شاعری میں سنتے اور دیکھتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں"ہرن" طرارے بھرنے لگا اُس کے مقابلے میں طرارا آنا غصّہ آنے کے معنی میں آتا ہے کہ ذرا سی بات پر اُسے تو"طرارا" آ جاتا ہے غصّہ آنا تو ایک بات ہے لیکن طرارا آنا زبان کا حُسن ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ محاورہ تشبیہہ اور استعارہ زبان میں کیا لطف پیدا کرتے ہیں اور اُس کا ہماری سماجیات سے کیا رشتہ ہے۔

طرح دار، طرح ڈالنا، طرح دار ہونا طرح دینا، طرح نکالنا

"طرح" کے معنی ہیں طرزِ انداز اور ادا ہماری ادبی اور سماجی زندگی میں" طرح داری" کے معنی ہوتے ہیں خاص انداز رکھنا معشوق طرح داری ہمارے ادیبوں کے یہاں اب سے پہلے بہت آتا تھا۔ طرح ڈالنا کے معنی ہوتے ہیں کسی اندازِ ادا کو اختیار کرنا اور اُسے رواج دینا۔ شاعری میں جب کوئی مصرعہ غزل لکھنے کے لئے مشاعروں کے سلسلے میں دیا جاتا ہے تو اسے طرح دینا یا طرح ہونا کہتے ہیں طرح دینے کے معنی نظر انداز کر دینے کے بھی ہوتے ہیں طرح نکالنا بھی کسی نئے اسلوب کو رواج دینے کو کہتے ہیں۔

طُرفتہ العین میں

طُرفۃ العین پلک جھپکنے کو کہتے ہیں یہ عربی لفظ ہے اور اِس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کوئی کام آناً فاناً میں بھی ہو جاتا ہے یا جی چاہتا ہے کہ یہ کام گھڑی کی سیت (ساعت میں ) ہو جائے۔ طرفۃالعین عربی کا لفظ اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔

طرفہ معجون

عجیب قسم کی طبیعت یا سوچ کا عجیب و غریب انداز یا پھر ایسی تحریر جس میں فکری الجھاؤ ہوں۔ طرفہ معجون یا طرفہ معجون مرکب کہلاتی ہے معجون جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک طبّی نسخہ کے مطابق تیار کردہ دوا کو کہتے ہیں جس میں شہد اور دوسری بعض جڑی بوٹیاں کوٹ کر ڈالی جاتی ہیں جیسے معجون" سورنجان" یا معجون فلاسفہ یہ محاورے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم علم و فن کی کن کن باتوں سے محاورہ پیدا کرنے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے۔

طشت از بام ہونا، طشت چوکی

ہمارے یہاں محاوروں کی طرف ایک بڑی تعداد تو وہ ہے جو ہماری اپنی بھاشا یا قریبی علاقوں کی بھاشاؤں سے ہماری زبان میں منتقل ہوئے ہیں۔ کچھ محاورے وہ بھی ہیں جو فارسی سے آئے ہیں یہ ایک فطری عمل ہے کہ ہم نے ایک خاص دور میں فارسی ادب اور زبان سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ طشت از بام ہونا۔ انہی میں سے ایک محاورہ ہے جو فارسی کے ادبی اور لسانی اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اُس کے معنی ہیں راز فاش ہونا اور سب کو خبر ہو جانا ہے یہ ہماری سماجی نفسیات کا بھی ایک حصّہ ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ خوامخواہ ہماری برائیوں کا ذکر اور اُن کی شہرت پھیلے یوں بھی معاشرے کا یہ ایک مزاج ہے کہ نیکیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور برائیوں کو بُری طرح پھیلاتے ہیں اُن کو" طشت از بام" کرتے ہیں یہ بات اچھی نہیں غلط ہے مگر ہمارا سماجی رو یہ نہیں کچھ ایسا ہی ہے۔

عام طور پر ہمارے مہذب گھروں میں ایک چوکی رہتی تھی اور اُس پر بیٹھ کر وضو کرنا اور وضو کے پانی کو ایک طشت میں جمع کرنے کی گھریلو روش ایک خوبی تصور کی جاتی تھی اسی لئے طشت چوکی بچھے رہنے کا ذکر آتا تھا۔ مگر اِسے کوئی محاورہ قرار دینا مشکل ہے اگرچہ مخزن المحاورات میں اِسے محاورہ قرار دیا گیا ہے۔

طفلِ مکتب ہونا

طفلِ بچہ کو کہتے ہیں اور مکتب ابتدائی درجہ کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں قرآن کا کوئی سپارہ یا بھر پورا قرآن پاک بچے پڑھتے ہیں بہرحال یہ بہت ابتدائی تعلیم کی منزل ہوتی ہے عمر بھی اس وقت بچپن کی منزل سے گزر رہی ہوتی ہے بڑی عمر کے لڑکے اِس میں داخل نہیں ہوتے اسی لئے جب کسی کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ وہ عقل اور علمِ کے اعتبار سے بہت ہی ابتدائی سطح کا آدمی ہے تو اُسے طفلِ مکتب کہا جاتا ہے اور جس آدمی کو جس عالم یا مولوی کو کچھ نہیں آتا وہ ملائے مکتبی کہلا تا ہے۔

طنطنہ دکھانا

تناؤ کی کیفیت ہوتی ہے اور اِس میں غصہ بہادری اور بڑائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور اِسی لئے اِسے طنطنہ کہتے ہیں اور اُس میں کہنے والے کی طرف سے ایک طنز چھُپا ہوتا ہے کہ وہ بہت طنطنہ دکھلاتے ہیں یہ بھی ایک طرح سے ہمارے سماجی عمل اور رویوں پر ایک تنقید ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ایک اہم بات ہے۔

طور بے طور ہونا

طور طریقہ کو کہا جاتا ہے اسی لئے طور بے طور کہتے ہیں اور اِس سے مُراد سلیقہ ہوتا ہے اچھا ڈھنگ ہوتا ہے اب اگر کسی وجہ سے بے ڈھنگا پن پیدا ہو جاتا ہے اور بات بے تُکی نظر آتی ہے۔ تو اُسے طور بے طور ہونا کہتے ہیں ہم اِس محاورے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ معاشرہ ہمارے انسانی رویوں جو معاشرتی رو یہ بن جاتے ہیں کس طرح نظر رکھتا ہے اور گفتگو کی جاتی ہے۔

طُوطی بولنا

"طوطی" ایران کا ایک پرندہ ہے جس کی آواز بہت خوبصورت ہوتی ہے وہ طوطے کی طرح کہانیوں کا ایک کردار بن جاتا ہے جب موسم بہار آتا ہے تو ایران کے پرندے اور خاص طور پر"طوطی" بہت خوش آوازی سے بولتا ہے اور بہار کے آنے کا اعلان کرتا ہے وقت آتا ہے اور اُس کی شہرت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اُس کا طوطی بول رہا ہے یعنی اُس کی زندگی میں بہار آئی ہوئی ہے۔

طوفان اُٹھانا، طوفان اُٹھنا

غیر صورتِ حال کا پیدا ہو جانا جس میں کسی فرد یا کسی جماعت کا عمل شریک ہو اور وہ دانستہ عمل ہو جھُوٹ بول کر فریب دیکر سازشیں کر کے جو پریشان کُن صورت حال پیدا کی جاتی ہے اُس کو طوفان کھڑا کرنا"طوفان اٹھانا" کہتے ہیں کہ صاحب اُس نے طوفان اُٹھا دیا ہنگامہ برپا کر دیا۔

عام پبلک کے پاس زبان ہوتی ہے ذہن نہیں ہوتا کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے اسی لئے وہ ہنگامہ بڑھتا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ بہت اہم محاورہ ہے اور سماج کی نفسیات اور عمل ورد عمل کی نشاندہی کرتا ہے طوفان آنا غیر معمولی صورتِ حال ہے لیکن اُس کا رشتہ سماجی عمل سے نہیں ہے۔

طومار باندھنا

کسی بات کو کسی خاص غرض کے تحت آگے بڑھانا اور اُس پر زور دیتے رہنا"طومار" باندھنے کے ذیل میں آتا ہے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے تو خواہ مخواہ الزامات یا پھر تعریفوں کا طومار باندھ دیا۔

طویلے کی بلا بند رکے سر پڑنا

کسی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈال دینا اور یہ کام بدنیتی سے یا اِرادے کے طور پر کرنا"طویلہ" ایک خاص اِصطلاحی لفظ ہے اور گھُڑ سال کو"طویلہ" کہتے ہیں امیروں راجاؤں اور بادشاہوں کے ساتھ گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی جہاں وہ باندھے اور رکھے جاتے تھے۔ اُس کو طویلہ کہتے تھے ہندوستان میں"گھڑسال" کہتے ہیں۔

اِس سے متعلق اگر اچھی بُری کوئی بات ہوتی تھی اُس کا بندر سے کوئی رشتہ نہیں لیکن لوگوں کا رو یہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس کا الزام اُس کے سرپر رکھ دیا اسی سے یہ محاورہ بن گیا کہ""طویلے" کی بلا بند کے سرپر یعنی ذمہ دار کوئی اور ہے اور کسی دوسرے کو اُس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں اِس کو بھی سماجی نفسیات اور طریقہ فکر و عمل کا ایک نمونہ کہنا چاہئیے۔

ردیف "ظ"

ظاہرداری کرنا، ظاہر داری برتنا

کسی عمل میں ظاہری اور اُوپری خوبصورتی برتنا جس کا کوئی تعلق دلی خواہش سے نہ ہو اِس طرح کا رو یہ سماج کے بہت سے لوگوں میں ملتا ہے کہ وہ اُوپرے دل سے بہت کچھ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اُن کا دل و دماغ اپنی نیکی اور نیک خواہشوں کے ساتھ اُس میں شریک نہیں ہوتا۔ اس کو ظاہر داری برتنا کہتے ہیں۔

مولوی نذیر احمد نے اپنے ناول میں ظاہردار بیگ کا کردار کچھ اسی انداز سے تراشا ہے کہ وہ بظاہر بہت کچھ ہے اور حقیقت میں کچھ بھی نہیں۔