اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ7%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86062 / ڈاؤنلوڈ: 4661
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "پ"

پابوس ہونا

ہمارے یہاں قدموں کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے اس کا اندازہ اُن محاوروں سے ہوتا ہے جو قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان میں رائج ہیں اور رائج رہے ہیں۔ پیر دھونا پیر دھو دھوکر پینا۔ پیروں کی دھُول ہونا۔ قدموں پر نچھاور ہونا قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدم بوس ہونا قدم چھونا قدم رنجہ فرمانا یا قدومیمنت (مبارک قدم) قدموں کی برکت قدم گاہ وغیرہ اس سے معاشرے میں احترام کے تقاضوں کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک مشترک رو یہ سمجھا جانا چاہیے ہمارے ہاں بزرگانِ دین کے ساتھ اور خاص طور سے صوفیوں کے ساتھ یہ رو یہ آج بھی برتا جاتا ہے کہ ان کے قدموں کو چھوتے ہیں ہندوؤں میں پنڈتوں کے لئے کہتے ہیں"پالا گن مہاراج" یعنی ہم حضور کے قدم چھوتے ہیں اور اُن پر نچھاور ہوتے ہیں جب کسی سے دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو اس کے قدموں کی دھول کے برابر ہے یا میں تو آپ کے قدموں کی خاک ہوں یا خاک کے برابر بھی نہیں ہوں اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سوچتا سمجھتا اور کرتا رہا ہے۔ غالب کاشعر یاد آتا ہے۔

کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لئے

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں

یعنی آسمان کو قدم بوسی کی اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں ہے

پاپ چڑھنا، پاپ ہونا، پاپ کرنا، پاپ سے بچنا، پاپ کاٹنا، پاپ کھانا

اِن جیسے محاورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سماج کچھ باتوں کو گناہ قصور اور بڑی خطاؤں کے دائرے میں رکھتا ہے اور انہیں پاپ کہتا ہے ہندوؤں میں بڑے قصور کے لئے مہا پاپ کہا جاتا ہے اور اسی نسبت سے قصور کرنے والے کو پاپی یا مہا پاپی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے پاپ چڑھنا پاپ کے وارد ہونے کو کہتے ہیں ایسا کرنا تو پاپ کرنا ہے۔ اور اس سے بچنا چاہیے کہ ہم سے کوئی پاپ ہو جائے پاپ کا ٹنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے کہ اپنے دفع کرو پاپ کاٹو۔

پاپڑ بیلنا، پاپڑ پیٹنا

پاپڑ ہندوستان کی کھائی جانے والی اشیاء میں ایک خاص قسم کی غذا ہے جو باریک روٹی کی طرح تیار کیا جاتا ہے پھر تل کر کھایا جاتا ہے چونکہ روٹی پکانے کے مقابلہ میں پاپڑ بیلنا ایک مشکل کام ہے دیر طلب ہے۔ اور بہت سے پاپڑ تیار کرنے میں آدمی تھک جاتا ہے۔ اسی لئے تھکا دینے والے کاموں کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے دنوں پاپڑ بیلتا رہا کہ پاپڑ چکلہ بیلن سے تیار ہوتا ہے۔

پاپوش بھی نہ مارُوں، پاپوش پر مارنا، پاپوش سے یا پاپوش کی نوک سے، پاپوش کی برابر سمجھنا

پاپوش جُوتے کو کہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں جُوتی یا جُوتا صرف ایک ضرورت کی چیز نہیں ہے اس کی ایک غیر معمولی سماجی حیثیت بھی ہے اسی لئے بہت سے محاورے جُوتی اور جُوتے کے نام کے ساتھ ہماری زبان میں داخل ہیں جُوتے مارنا زبان سے ذلیل کرنا جُوتے کھانا دوسروں کے درمیان ذلیل ہونا۔

اصل میں جُوتا ہمارے ہاں ایک سماجی درجہ رکھتا ہے بہت نیچا درجہ اسی لئے جب کسی کو ذلیل کرنا ہوتا ہے تو جوتے کی نوک پر رکھنا کہتے ہیں۔ تو جوتا ایک طرح کی سماجی سزا ہے اور بڑے آدمی کی نسبت سے خدمت کرنا جوتیاں سیدھی کرنا ہیں کہ ہم نے فلاں کی جوتیاں سیدھی کیں یعنی اس کی ادنی سے ادنی خدمت سے کوئی گریز نہیں کیا۔

پاسا پڑنا، پاسا پلٹنا

پاسا چوسر کی ایک خاص طرح کی گوٹ ہوتی ہے پھینکا جاتا ہے تو اُس پر جو نشانات ہوتے ہیں اور سامنے آتے ہیں اُن کے مطابق چال چلی جاتی ہے اور اس معنی میں پانسہ پورے کھیل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اور کھیل کا دارومدار پانسہ پڑنے پر ہوتا ہے اسی کو سماجی طور پر ہم زندگی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پانسہ غلط پڑا ہے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے اور اگر صحیح ہے تو یہ خوشی کی بات ہے اور اچھی قسمت کی علامت ہے۔

پال ڈالنا

آموں کو لحاف اور گدّے کے درمیان رکھنا تاکہ وہ تیا رہو جائیں اس کو ایک سماجی محاورے کے طور پر استعمال کرنا ایک طرح سے طنز کے معنی میں آتا ہے کہ کیا ان کی پال ڈالو گے آم ڈال کا پکا بھی ہوتا ہے اور پال کا پکا اچھے اور تازہ آم کو کہتے ہیں کہ یہ ڈال کا پکا ہے اور ایسے آدمی کے لئے بھی ڈال کا پکا استعمال ہوتا ہے جو عقل مند ہو چاق چوبند ہو اور ہر طرح مُستعد ہو۔ اس سے ہمارے اس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ محاوروں کی صورت میں ہم اپنے عام تجربوں کو خاص معنی دیتے ہیں۔ جس سے ہماری سوچ کے سفر کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے بات کو کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچایا۔

پانی پانی کرنا، پانی پانی ہونا، پانی پڑنا، پانی پھر جانا، (کون کتنے پانی میں ہے) پانی توڑنا پانی ڈالنا، پانی دکھانا، پانی دینا، پانی ڈھلنا (آنکھوں کا پانی ڈھل گیا ہے) پانی رکھنا یا بھرنا، پانی چھونا، پانی پی پی کر کوسنا، پانی پی کر ذات پوچھنا، پانی کا بتاسا یا بلبلا وغیرہ

پانی ہماری ضرورت کی چیز ہے اگر پانی نہ ہو تو زندگی بھی نہ ہو بہت محاورے پانی پر ہیں مثلاً گہرے پانی پیٹھ، گہرے پانی میں اگر اتر کر دیکھو۔ یہیں سے یہ محاورہ آیا ہے اور اس مفہوم کے ایک رخ کو ظاہر کرتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے کون کتنا تجربہ کار ہے کون کتنا بھرم رکھنے والا ہے۔ کون کتنا لائق ہے یا کتنا پیسہ والا ہے پانی پلانا ثواب کا کام ہے اور پیاسے کو پانی پلانا اور بھی زیادہ ثواب کا کام ہے آنحضرتؐ کو اسی لئے ساقی کوثر کہا جاتا ہے۔ کہ وہ میدان حشر میں پیاسوں کو آب کوثر پلائیں گے۔ پانی لگانا جانوروں کی گردن پر چھُری چلانے سے پہلے پانی اس لئے لگایا جاتا ہے کہ چھری آسانی سے چل جائے پانی دکھانا بھی اُس جانور کے لئے ہوتا ہے جس کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے۔ پانی دینا پودوں کو سینچنا پانی پی کر کوسنا طنز کرنا ہے یعنی جس نے پانی پلایا اُسی کو کوسنے بیٹھ گئے۔ پانی پی کر ذات پوچھنا بھی اِسی طرح سے اپنی ایک روشِ فکر کا اظہار ہے کہ جس کے گھر کا پانی پی لیا اب اس کی ذات کیوں پوچھتے ہو۔ یعنی اس سے چھوت چھات برتنے کی بات کیوں کرتے ہو پانی پانی ہونا شرمندہ ہونا یعنی ندامت کے پسینے میں ڈوب جانا ہے اور پانی پانی کرنا شرمندہ کرنا ہے کہ میں نے سارا چٹھا سنا دیا اور اسے پانی پانی کر دیا ہے آنکھوں کا پانی مر جانا یا ڈھل جانا دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی لحاظ یا س نہ رہنا ہے اور کمینہ پن اختیار کرنا۔ پانی چھوڑنا عورتوں کی زبان میں اس لیے آتا ہے کہ پکانے کے عمل میں پانی کی مقدار کا کم اور زیادہ ہونا یا پکتے وقت پانی چھوڑنا پانی کا بتاسا بلبلے کو کہتے ہیں اس طرح سے پانی سے وابستہ تصورات ہماری معاشرتی فکر کا اک اہم حصہ رہے ہیں۔

پاؤں اُکھڑنا، پاؤں اُکھاڑنا، پاؤں جمنا یا جمانا، پاؤں پڑنا، پاؤں باہر نکالنا، پاؤں ملنا، پاؤں ٹپکنا، پاؤں پسارنا، پاؤں پر سر رکھنا پاؤں میں ٹوپی پگڑی یا ڈوپٹہ ڈالنا پاؤں پاؤں چلنا یا پیادہ ہونا

پاؤں کے ساتھ جہاں چلنے کے محاورات آتے ہیں جو انسان کے اہم تجربات میں سے ہیں اس کی اہم ضرورت ہے وہاں نہ چلنے کے ساتھ بھی بہت سے محاورات وابستہ ہیں مثلاً پیڑ توڑ کر بیٹھنا پیر کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں بیٹھنے کے علاوہ پیروں کے جمنے اور ٹھہرے کے بارے میں محاورات انسانی کردار اور سماجی ضرورت کی طرف نئے نئے پہلوؤں سے اشارہ کرتے ہیں مثلاً قدم جمانا، قدم جمنا جیسے ہم دوسرے لفظوں میں پیر جمنا، اور پیر جمانا، کہتے ہیں یہ مستقل مزاجی کی طرف اشارہ کرنے والے محاورے ہیں جن کے مقابلہ میں قدم اکھڑنا اور قدم اکھاڑنا آتے ہیں۔ پامردی اور بہادری کے خلاف ایک صورتِ حال ہے کہ جنت میں اُن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اکھڑتے ہوئے نظر آئے یا اکھاڑ دیئے گئے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ بھاگ کھڑے ہونے کی ایک نئی عجیب اور مبالغہ آمیز صورت ہے ان محاوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیروں کے بارے میں کیا کیا سوچتے ہیں اور کس طرح سوچتے ہیں۔

قدم سے متعلق کچھ دوسرے محاورے بھی ہیں جیسے دو قدم کا فاصلہ یا قدم قدم آگے بڑھنا دو قدم چل کر ٹھہر گئے یا دو دم چل کر تو دیکھو یا پھر ہمارا آج کے دور کا محاورہ کہ انہوں نے اپنے قلم یا اور قلم کی حرکت کو کبھی رکنے نہیں دیا مستقل طور پر کام کرتے رہے جو ایک بڑا سماجی قابلِ تحسین صورت ہے پاؤں میں سر رکھنا ڈوپٹہ رکھنا، انتہائی احترام کا اظہار کرنا مگر مقصد یہ ہوتا ہے کہ قصور معاف کر دیا جائے خطا در گزر کر دی جائے چونکہ دوپٹہ پگڑی، اور ٹوپی کسی بھی شخص کا اظہار عزت ہوتا ہے اور مقصد اس عمل سے یہ ہے کہ آپ ہمیں عزت دیں بخشیں اور ہمارے قصور کو در گزر کریں یہ ایک سماجی طریقہ رسائی ہے۔

پاؤں پاؤں پھونک پھونک کر رکھنا

احتیاط سے قدم اٹھانا اور خطرات کا خیال رکھنا آج اس حد تک سمجھ میں نہیں آتا کہ کل تک جب راستہ پر خطر ے تھے قدم قدم پر خطرہ تھا دھوکہ بازی تھی ٹھگی اور ڈکیتی کا اندیشہ تھا دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے بھی آدمی مشکلات میں گھر جاتا تھا اس وقت قدم پھونک پھونک رکھنا اپنے معنی اور معنویت کے اعتبار سے انسان کے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پاؤں پھیرنے جانا

یہ محاورہ خاص طور پر دہلی کی تہذیبی زندگی سے وابستہ ہے اور یہاں کی بعض رسمیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں مثلاً پاؤں پھیرنے جانا، بچہ پیدا ہونے سے پہلے (نواں مہینہ) شروع ہوتے وقت لڑکی سسرال سے میکے جاتی ہے پھر ایک دو دن بعد اپنی سسرال واپس آ جاتی ہے۔ منشی چرنجی لال نے اسکے مقابلہ میں لکھا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد چلّہ نہا کر لڑکی میکے جاتی ہے کہ یہ بات تو ضرور ہے لیکن اس کو پاؤں پھیرنا نہیں کہتے۔ چلہ نہا کر میکے یا کسی قریبی رشتہ دار کے گھر جانا وہ دہلی میں الگ معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

پاؤں پیٹ پیٹ کر مرنا، پاؤں پیٹا، پاؤں پٹخنا

یہ دوسری طرح کے محاورات ہیں اور فرد کے رو یہ سے تعلق رکھتے ہیں جب آدمی کوئی کام کرنا نہیں چاہتا اور نا خوشی کے اظہار کے لئے قدم اس طرح اٹھاتا ہے جیسے وہ پاؤں پٹخ رہا ہے پاؤں پیٹ رہا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اظہار نا خوشی کر رہا ہے۔

نا خوشی کے ساتھ زندگی گزارنا اور ذہنی تکلیفیں اٹھاتے رہنا پاؤں پیٹ پیٹ کر مرنے یا جینے کو کہتے ہیں بات وہی ناخوشی میں مبتلا رہنے کی ہے۔

پاؤں میں مہندی لگا ہونا یا لگنا

عورتوں کا محاورہ ہے کہ مہندی وہی لگاتی ہیں اور پیروں میں جب مہندی لگائی جاتی ہے تو چلنا پھرنا بندہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مہندی خشک ہو جائے۔

اور اُس کو اتار دی جائے اس کے بعد بھی ہاتھ پیروں کو دھویا نہیں جاتا تاکہ مہندی رچ جائے بہرحال جب مہندی لگی ہوتی ہے تو آنا جانا ممکن نہیں ہوتا اسی لئے طعنہ یا طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایسا بھی کیا ہے کہ آپ نہیں آ سکتے کیا پیروں کو مہندی لگی ہے۔ یعنی آپسی معاملات میں آدمی اپنا حق یہ سمجھتا ہے کہ جب بھی وہ یاد کرے یا موقع ہو تو دوسرے کو آنا چاہیے اور اگر وہ نہیں آتا تو اس سے شکایت ہوتی ہے شکوہ کیا جاتا ہے اور اس کا اظہار مقصود ہوتا ہے کہ تم خوامخواہ کی بہانہ بازی کر رہے ہو یہ کوئی جائز بات نہیں ہے۔

پتھر برسنا، یا پتھراؤ کرنا، پتھر پڑنا

پتھر برسنا گاؤں والوں کی اصطلا ح میں اولے پڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ "اولوں" سے فصل کا ناس ہو جاتا ہے وہ تیار ہو تب اور نہ ہو تیار تب بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اسی لئے جب کوئی کا م خراب ہو جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کیا تمہاری عقل پہ پتھراؤ پڑ گئے تھے یعنی وہ کام نہیں کر رہی تھی تم سوچ نہیں پا رہے تھے پتھر برسانا پتھراؤ کرنا ہے یہ سزا دینے جنگ کرنے اور احتجاج کرنے کی ایک صورت ہے پتھراؤ کرنے کا رواج آج بھی ہے قدیم زمانہ میں اور خاص طور پر یہودیوں کے یہاں پتھر مارکر ہلاک کرنا ایک سخت سزا تھی بعض جرائم کے سلسلے میں دی جاتی تھی اسلام میں وہ منقطع ہو گئی۔

پتھر بے حس و ہلاکت ہونے کی علامت ہے اس لئے کہ بیوقوف آدمی کو بھی پتھر کہتے ہیں بے حس ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کسی کے دکھ درد کو محسوس نہ کرے اس کا دل کسی کے بُرے حالات پر پسیجے بھی نہیں تو اسے بھی پتھر دل کہا جاتا ہے انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھکن کا شکار ہو جاتی ہیں اس عمل کو بھی آنکھیں پتھرانا کہتے ہیں کہ آنکھیں پتھرا گئیں۔

پتھر چھاتی پر دھرنا یا دل پر پتھر رکھنا

بے صبر کرنا اور ایسے معاملات میں جہاں کسی شخص کے لئے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے وہاں یہ کہتے ہیں کہ دل پر پتھر رکھ کر یہ کام کیا یا اس کا فیصلہ کرنے کے لئے دل پر پتھر رکھنا پڑا وغیرہ۔ پیٹ سے پتھر باندھنا انتہائی بھوک کے عالم میں بھی صبر و ضبط سے کام لینا اور کسی سے اظہار نہ کرنا پیٹ سے پتھر باندھنا کہلاتا ہے اور مشکلات برداشت کر کے جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پیٹ سے پتھر باندھ کر یہ کام کیا ہے۔ یہ یا ایسے کاموں کے لئے تو پیٹ سے پتھر باندھنا ہوتا ہے یعنی سختیاں جھیلنا اور مشکلات برداشت کرنا۔

پُرانے مُردے اکھیڑنا

غیر ضروری باتوں کو بار بار دہرانا جن کا وقت بھی گزر چکا اور اُن کا ذکر بار بار زبان پر لانا گڑے مُردے اُکھیڑنا کہلاتا ہے یہ ہماری سماجی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ہم کسی کی نیکی کو یاد نہیں کرتے اس کے احسانات کو بھول جاتے ہیں اور بُرائی کو بار بار دہراتے ہیں۔ بلکہ بھولی بسری باتوں کو بھی ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں اس محاورہ میں ایک طرح کا طنز اور اس سماجی روش کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اچھائیوں کا اعتراف کرنے میں بے حد بخیل ہیں اور کمزوریوں، عیبوں، برائیوں کو طرح طرح سے سامنے لاتے ہیں۔

پرائی آنکھیں کام ہیں آتیں

کام تو خیر پَرائی آنکھیں بھی آ جاتی ہیں اور دوسرے لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے ذہن کی روشنیوں اور اپنے علم کے ذریعہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کرتے بھی ہیں مگر محاورہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں سے ہی کام لینے پر اکثر مجبور رہنا پڑتا ہے اور یہی بہتر بھی ہے کہ اپنی عقل سے کام لے اپنی سُوجھ بُوجھ کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اپنے ارادے کی مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائے ورنہ دوسروں کا مشورہ ان کی رہنمائی اور عقل گاہ گاہ گمراہی کا باعث بھی بن جاتی ہے کہ لوگ ہمیں دوست بن کر بھی تو فریب دیتے ہیں۔

پَرائے شگون کے لئے اپنی ناک کیوں کٹواتا ہے

آدمی کا حال کچھ عجیب ہے بہت سے کام وہ دوسروں سے حِرص کا رشتہ رکھنے کی وجہ سے محض لاگ کے طور پر کرتا ہے کہ تم ایسا کرتے ہو تو ہم ایسا کریں گے اور ایسی صورت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو کچھ میں دوسرے کی مخالفت کے طور پر کر رہا ہوں وہ خود میرے لئے نقصان کی بات ہے۔ بہت بڑے نقصان کی بات ہے اسی کی طرف اِس محاورے کی طرف اشارہ ہے کہ پرائے شگون کی وجہ سے اپنی ناک کیوں کٹواتے ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا دیکھی کام نہیں کرنا چاہیے اپنی عقل سے بھی کام لینا چاہیے اس میں ایک بات اور بھی قابل لحاظ ہے اور وہ شگون لینا ہے جو توہم پرستی کی ایک صور ت ہے اور قابل تعریف نہیں ہے آدمی اس کی وجہ سے بے عقل اور وہمی ہو جاتا ہے اور اپنے بُرے بھلے اور نفع و نقصان کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتا۔

پَرچھاواں پڑنا، پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا

پرچھاواں پڑنا بھی اسی طرح کی ایک نفسیاتی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پرچھاواں پڑنے سے بھی آدمی کی عقل خبط ہو سکتی ہے اس کی جڑ بنیاد تو ہمارے ہاں چھوت چھات کے تصور میں ہے کہ اگر کسی آدمی پر چھائی بھی پڑ گئی تو کھانے پینے کی کوئی شئے یا پھر آدمی کا اپنا وجود ناپاک ہو گیا ہم ایسا سوچتے اور سمجھتے آئے ہیں اور یہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ برے آدمی کی پرچھائیں پڑنے سے آدمی کا ا خلاق تباہ ہو جاتا ہے یعنی برے آدمی کی پرچھائیں بھی بری ہوتی ہے ہمارے معاشرتی رویوں میں موقع بہ موقع اس صورت حال کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے سماجی رویوں میں جائز اور نہ جائز حدود کا خیال نہیں رکھتے یہ آدمی کا عام ذہن ہے اور ہمارے معاشرے کی کمزوری ہے اسی سے پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا بن گیا۔

پردہ ڈالنا یا اٹھا دینا، پردہ پوشی، پردہ داری، پردہ ہونا

پردہ ہمارے معاشرے میں ایک غیر معمولی رجحان ہے مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی عورتوں کو پردہ کرواتا ہے یہاں تک کہ اس میں یہ مبالغہ برتتا ہے کہ عورت کے لئے تو آواز کا بھی پردہ ہے۔

پردہ ایک حد تک ہندوؤں میں بھی رائج رہا ہے اور اب بھی ہے مگر اس شدت کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں میں پردہ داری کی رسم ملتی ہے اب اُس کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن مسئلے مسائل کی صورت میں اب بھی جب گفتگو آتی ہے تو وہی تمام مبالغہ احتیاط اور شدت کی پرچھائیاں اس گفتگو میں ملتی ہیں۔ باتوں کو چھپُانا بھی داخل ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ گھر کی بات باہر نہ نکلے یہ رجحان ہمارے قدیم معاشرے میں اور بھی زیادہ تھا کہ لوگ خواہ مخواہ کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کی کوئی کمزور ی کوئی مجبوری یا کسی شکر رنجی کا حال اُن کو معلوم ہو جاتا ہے تو وہ اس کو بری طرح اڑاتے ہیں مشہور کرتے ہیں اسی لئے وہ محاورہ آتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یا منہ سے نکلی بات پرائی ہو جاتی ہے بعض باتوں کو چھُپانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کی ان باتوں کا پہنچنا اچھا نہیں لگتا ہے کہ راز داری ہماری سماجی ضرورتوں کا تقاضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم کتنی بات ضرورت کے تحت کرتے ہیں اور کتنی بات غیر ضروری طور پر۔

اس طرح پردہ داری ہو پردہ نشینی ہو پردہ گیری ہو یہ سب ہمارے معاشرتی رویوں کا حصّہ ہیں۔ اور اِن سے موقع بہ موقع ہماری سوچ کا اظہار ہوتا ہے راز درون پردہ جیسی ترکیبیں بھی اسی ذہنی رو یہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں پردہ ہے پردہ عام طور پر ہمارے گھروں میں بولا جا تا ہے۔

پلیتھن نکالنا یا نکلنا

گھریلو سطح کی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے لفظوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محاورے چیوں کا محاورہ ہے پیلتھن نکالنا زیادہ سے زیادہ مکے یا مکیاں لگانا ہے جس سے دوسرا ادھ مرا ہو جائے میر تقی میر کا مشہور شعر ہے اور بازاری زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ہاں پلیتھن نکل گیا واں غیر

اپنی مُکیّ لگائے جاتا ہے۔

پھوٹ پڑنا یا ہونا، پھُوٹ ڈالنا

پھُوٹ کے معنی ہیں ٹوٹ پھُوٹ پیدا کرنا اختلاف کو جنم دینا ہندوستان میں ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ذرا سی بات پر خفا ہو جاتے ہیں اور اپنے تعلقات میں تلخی شکر رنجی یا اختلافات کی صورت پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے آپسی میل جول یا اتحاد میں فرق آ جاتا ہے اُسی کو پھُوٹ پڑنا کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سکھا پڑھا کر غلط سلط مشورہ دے اختلافات پیدا کرتے ہیں اور دلوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔ جس سے تعلقات میں اُستواری یا ہمواری باقی نہیں رہتی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔

پھُول کھیلنا، پھُول کی جگہ پنکھڑی، پھُول نہیں پنکھڑی ہی سہی، پھُول کی چھڑی بھی نہیں لگائی۔ پھُولوں کا گہنا۔ پھُولوں کی چھڑی، پھُولوں کی سیج، پھولوں میں ملنا، پھول پانا

پھول ہماری دنیا کا ایک بہت ہی خوبصورت قدرتی تحفہ ہے یہ ہماری سماجی رسموں میں بھی شریک ہے خوشی کے موقع پر خاص طور سے پھولوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پھُولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ہار پہنائے جاتے ہیں پگڑی میں لگائے جاتے ہیں۔ بعض مغل بادشاہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا پھول رکھتے تھے اکبر جہانگیر اور شاہ جہاں کی ایسی تصویریں ملتی ہیں جن میں گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں ہے۔ پھول دواؤں میں بھی کام آتے ہیں۔ اور فنونِ لطیفہ میں بھی اور ہماری سماجی زندگی سے ان کا ایک واسطہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی شاعری کے علاوہ اپنے محاوروں میں پھول کو شامل رکھتے ہیں جس کا اندازہ مندرجہ بالا محاوروں سے بھی ہو سکتا ہے پھول سونگھنا یا پھول سونگھ کر جینا انتہائی کم خوراک ہونا ہے۔ پھول چننا یا موتی چننا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے۔

دلہن کی سیج پر پھول بچھائے جاتے ہیں پنکھڑیوں کی بارش کی جاتی ہے اور خوشی کے موقع پر پھولوں کے گہنے پہنے جاتے ہیں۔ دلی میں تو گرمی کے موسم میں پھولوں کے اس طرح کے ہار بکتے ہیں جو عورتیں اپنے جوڑے میں لگاتی ہیں۔ یا کانوں میں پہنتی ہیں۔ یا ہاتھوں میں پہنتی ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں تو مزدور عورتیں بھی عام طور سے پھول پہنتی ہیں یہیں سے محاورے تشبیہیں استعارے اور تمثیلیں پیدا ہوئی ہیں۔ پھول کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ قابلِ قدر ہوتا ہے اور محاورے میں یہ کہتے ہیں پھول نہیں پنکھڑی صحیح بے حد اچھا سلوک کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پھولوں کی چھڑی بھی نہیں ماری تمام تر ناز بردار یاں کیں وغیرہ پھولوں میں تکنا بے حد ہلکا پھلکا ہونا ہے پھول پان بھی اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

پیر پھیرنے جانا

یہ کسی کی آمد کے سلسلے میں بطورِ تشکر اس کے ہاں جانے کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے غالب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے ان کا ایک آنا دینا تھا۔ ہاں ملاقات کی غرض سے کسی کے آنے کی طرف اشارہ ہے۔ علاوہ بریں دہلی میں یہ ایک خاص رسم ہے جو کسی بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکی سُسرال سے میکے نوے مہینے آتی ہے اسے پاؤں پھیرنا بھی بولتے ہیں اس لحاظ سے خاص طور پر اس کے محاورے کی تہذیبی اہمیت ہو جاتی ہے۔

پیر نابالغ

پیر بوڑھے کو کہتے ہیں اور جب کسی آدمی کو بُڑھاپے تک عقل نہ آئے تو طنز کے طور پر اُسے پیرنا بالغ کہتے ہیں یہ مذاق اڑانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ بوڑھے ضرور ہیں مگر پیر نا بالغ ہیں اس سے ملتا جُلتا ایک اور محاورہ ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتا ہے یہاں اُن کمزوریوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو بڑھاپے میں عود کر آتی ہیں اور آدمی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔

پیندی کا ہلکا ہونا، پیندی کے بل بیٹھ جانا

جو آدمی مستقل طور پر جم کر نہیں بیٹھتا کبھی یہاں کبھی وہاں کبھی اِدھر کبھی اُدھر رہتا ہے۔ اور اس طرح مستقل مزاجی نہیں ہوتی اُس کو پیندی کا ہلکا ہونا کہتے ہیں پیٹ کا ہلکا ہونا ایک دوسری صورت ہے اور اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کسی بات کا ہضم نہیں کر سکتا بلکہ کہہ ڈالتا ہے۔ وہ پیٹ کا ہلکا کہلاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مستقل مزاجی ایک بڑی صفت ہے اور جو آدمی مستقل مزاجی سے کام نہیں لیتا اور کسی بات پر نہیں جمتا اُسے آدمی کا ہلکا پن کہا جاتا ہے یہاں تک کہ جو بات گمبھیر نہیں ہوتی اسے بھی ہلکی بات کہا جاتا ہے۔

پیوند ہماری اوقات ہے

غریبی میں اکثر آدمی پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتا ہے اور کبھی کبھی تو پیوند پر پیوند لگانے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ اس میں کسی آدمی کی مالی حیثیت بھی شریک رہتی ہے۔ اور وہی اُس کا سوشل اسٹیٹس بن جاتا ہے۔ بعض پھل پھول پیوند لگا کر ہی تیار کئے جاتے ہیں۔ وہ اک الگ طریقہ ہے اور اُس کا سماجی رتبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسے پیوندی آم یا پیوندی بیر وغیرہ۔

ردیف "ا"

اُبلا سُبلا، اُبالا سُبالا

اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے"الاَبُلَّا"، "اٹکل پچو"، "اَبے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ کچُور"وغیرہ۔

"اُبلا سُبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے"اُبلا سُبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ اس سے ہم اس گھریلو ماحول کا پتہ چلا سکتے ہیں جس میں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت کا گھر کے حالات کا ایک عکس موجود ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تو۔ "اُبالا سُبالا"پکتا ہے۔

آبخورے بھرنا

"آب خورہ" ایک طرح کی مٹی کے"فنجان نما" برتن کو کہتے ہیں جو کمہار کے چاک پر بنتا ہے اور پھر اُسے مٹی کے دوسرے برتنوں کی طرح پکایا جاتا ہے۔ یہ گویا غریب آدمی کا پانی پینے کا پیالہ اور ایسا برتن ہوتا ہے جسے پانی، دُودھ یا شربت پی کر پھینک بھی دیتے ہیں۔ عام طور سے ہندوؤں میں اس کا استعمال اس لیے بھی رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے استعمال کردہ برتن میں کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آبخورے میں دُودھ پیا اور پھر اُسے پھینک دیا اور پھر یہی صورت شربت کے ساتھ ہوتی ہے مگر آبخورے بھرنا عورتوں کے نذر و نیاز کے سلسلہ کا ایک اہم رسمی آداب کا حصّہ ہے۔ عورتیں منّتیں مانتی ہیں اپنے بچّوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے اور ایسی ہی دوسری کچھ باتوں کے لیے، اور کہتی ہیں کہ اے خدا، اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی اور میری منّت پوری ہوئی تو میں تیری اور تیرے نیک بندوں کی نیاز کروں گی۔ دُودھ یا شربت سے آبخورے بھر کر، انہیں دعا درود کے ساتھ تین بّچوں، فقیروں، درویشوں یا مسافروں کو پلاؤں گی۔ نیاز کی چیزیں عام طور پر غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں مگر اس میں اپنے بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

آبرو ریزی کرنا

"آبرو" چہرے کی آب و تاب کو کہتے ہیں، اس لیے کہ آب کے معنی چمک دمک کے بھی ہیں، پانی کے بھی۔ لیکن محاورہ کی سطح پر آبرو کے معنی ہیں عزت، سماجی احترام اور اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے دوسرے کو معاشرتی سطح پر بے عزت یا Dishonour کرتا ہے تو وہ گویا اس کی "آبرو ریزی" کرتا ہے، اِسے مٹی میں مِلاتا ہے۔ فارسی میں"ریختن، ریزیدن"کے معنی ہیں"گرانا، گرنا"۔ اسی لیے موسمِ خزاں میں جو پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے، اُسے برگ ریز یعنی پتّے گرانے والا موسم کہتے ہیں۔

اِس سے ہم "آبرو ریزی" کے لفظی مفہوم اور معاشرتی معنی تک پہنچ سکتے ہیں جو ایک تہذیبی اندازِ نظر ہے۔ آبرو کے ساتھ کئی محاورے آتے ہیں اور سب کے مفہوم میں چہرہ کی آب و تاب اور عزت شامل ہے۔ مثلاً "آبرو بگاڑنا" آبرو ریزی ہی کے معنی میں آتا ہے۔ "آبرو رکھنا" عزت رکھنے ہی کا مفہوم بناتا ہے۔ "آبرودار"عزت دار آدمی کو کہتے ہیں۔ "رو دار" بھی آبرو دار ہی کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے ہم آبرو کے معاشرتی تعلق کو سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ بے عزتی بہت بڑی سماجی سزا ہے۔

اَبلا پری، اَبلاّ رانی ہونا

بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور راجہ کا لفظ مرد اور عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میں بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور ایک رات کی رانی۔ اس سے بھی پھولوں میں اُن کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔ "ابلا" لڑکی کو کہتے ہیں اور جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، اِسے"اَبلا پری" کہا جاتا ہے۔

قدیم ہندوستان میں پریوں کا تصوّر نہیں تھا۔ اسی لیے"ابلاّ رانی" کہا جاتا تھا۔ جب فارسی کے ذریعہ"پری" کا تصوّر آیا تو"ابلاّ پری" کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابلاّ پری" ہو یا "ابلاّ رانی"، حُسن کا ایک آئیڈیل تصوّر ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔ حسین عورت کو ہم "پری چہرہ" بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔

حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے

پری پیکر، نگارِ سرو قدے، لالہ رُخسارے

سراپہ آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم

یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور خوب صورت ہے، سرو قد ہے، لالہ رُخسار ہے اور سر تا پا آفتِ دل ہے اور میں نے رات اسے اس کی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں"ابلاّ رانی" یا "ابلاّ پری" کی وہ خو بیاں نظر آتی ہیں جو ایرانی تصوّرِ حسن کو پیش کرتی ہیں اور ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں جھلکتی ہیں۔ "اَبلا رانی" سے "اَبلاّ پرَی" تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوں کی ایک متحرک صورت ہے۔

آبِ حیات ہونا

آبِ حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آدمی زندہ رہتا ہے۔ اُردو اور فارسی ادب میں حضرتِ خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشمہّ آبِ حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حضرتِ خضر کا لباس "سبز" ہے اور وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح گویا دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔ یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔

علم کو پانی سے مُشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیں جسے ہندی میں"ودیا ساگر"کہا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے، پانی زندگی ہے اور پانی نہ ہو تو پھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اِن باتوں کو آبِ حیات کی صُورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضرتِ خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبال نے کہا ہے:

علمِ موسیٰ بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش

قرآن میں بھی حضرتِخضر اور حضرتِ موسیٰ سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔ اردو ادب میں اور مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے اُس کو بھی آبِ حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر جب اردو میں بطورِ محاورہ آبِ حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور عوام تک پہنچایا ہے۔

آبنوس کا کُندا ہونا

یہ ایک عجیب محاورہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، مثلاً تُون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل (چندن) کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور آبنوس کا سیاہ۔ سیاہ ہمارے ہاں خوبصورت اور پُر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دیووں اور بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور سیاہ کہہ کر بھی جِن بھوت مُراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہوتا ہے۔ بھَوں کا بھی اور آنکھوں کی پُتلیوں کا اور تِل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ سب حسن و کشش کی علامت ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہ کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مقدّس رنگ ہوتا ہے اور عبّاسیوں کی سلطنت (خلفائے بنو عبّاس) میں سیاہ رنگ اُن کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔

اُن حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل آریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ دراوِڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کی تہذیب اور علمی کار گزاریوں کو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور دوسرے پیشوں سے وابستہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کر دی۔ اور اُس کا اثر یہ ہے کہ آبنوس کا کُندا کالا کلوٹا کلموہا ہمارے ہاں بُرے الفاظ ہو گئے۔ آبنوس وہ لکڑی ہے جو صرف دراوِڑوں کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں اُس میں ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر اور اُن فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔

اَبجد خواں ہونا

حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حروفِ تہجّی کی ترکیب کہتے ہیں یا اُردو والے"الف"، "ب"، "ت" کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروفِ "اَبجد" سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ابجد، ھوز، حُطّی، کلمن، سعُفص، قرشت، ثخذ ضظغ، ۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں اِن حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔

ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے:

ا(۱) ب(۲) ج(۳) د(۴) ہ(۵) و(۶) ز(۷) ح(۸) ط(۹) ی(۱۰) ک(۲۰) ل(۳۰) م(۴۰) ن(۵۰) س(۶۰) ع(۷۰) ف(۸۰) ص(۹۰) ق(۱۰۰) ر(۲۰۰) ش(۳۰۰) ت(۴۰۰) ث(۵۰۰) خ(۶۰۰) ذ(۷۰۰) ض(۸۰۰) ظ(۹۰۰) غ(۱۰۰۰)

نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُس نام یا اُس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور اُن کو جمع کرتے ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔

غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ا، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ "ہجا" کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں "ابجد خواں" کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا، ب، ت، ث لی گئی ہے۔ حروفِ"اَبجد" نہیں۔ یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی"حد"سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور از راہِ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا آدمی بھی خود کو "ابجد خواں" کہتا تھا اور دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔

آب و دانہ اُٹھ جانا

آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔

یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "آب و دانہ"، "آب و خور" اور"آب و خورش" بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خُورش، خُور اور خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آب و رنگ

آب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور رعنائی۔ آب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آب داری کے معنی روشن اور چمک دار ہونے کی صِفت تھی اور بے آب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا ہے اور اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آتے ہیں۔ لڑکی بے آب ہو گئی، یعنی بے عزت ہو گئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ "موتی کی سی آب" محاورہ ہے اور چمک دار موتی کو"درِ خوش آب" کہتے ہیں۔ اس معنی میں"آب" بمعنی عزت، توقیر، آن بان وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آب و رنگ اسی معنوں میں آیا ہے۔ رنگ خوب صورتی پیدا کرتا ہے اور"آب" تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آپ بیتی۔ اَپ بیتی

انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، اُس کی اپنی نسلوں کی تاریخ اور خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے اِس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان، اپنے حالات کے تحت، یہ بھی ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی تاریخ کو آپ بیتی کہتے ہیں اور دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو اُسے وہ آپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔ گفتگو میں جب آدمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور اگر اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ اُس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں آپ بیتی کہہ رہا ہوں۔ ہم نے خود نوشت سوانح کو آپ بیتی کہا ہے اور جب کسی کی خود نوشت سوانح کو اُردو یا ہندی میں ترجمہ کرتے ہیں تو اسے آپ بیتی کہتے ہیں، جیسے میر کی آپ بیتی، غالب کی آپ بیتی، خسرو کی آپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، افسانہ، قصہّ، داستانیں بھی آپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح "آپ بیتی" اور جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔

اپنے تئیں شاخِ زعفران سمجھنا

آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہو جاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکر و کردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمود و نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدر و قیمت رکھنے والا شخص ہے۔

محاورے ہمارے معاشرتی رویوں پر جو روشنی ڈالتے ہیں اور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اپنا اُلّو سیدھا کرنا

عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں اُلّو کے حوالہ سے بات کی گئی اور معاشرے کے ایک تکلیف دہ رویّہ کو سامنے لایا گیا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے اور مطلب برآری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو" الّو بنانا" یعنی بیوقوف بنانا۔

اَپرادھ ہرنا (ہڑنا)

"ہڑنا" دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔ اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خدا کا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔ انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رو یہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔ مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آ گئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور آخر کار اس پر مطمئن ہو گئے۔

آپ سُوار تھی

"سوار" ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُرا ہی سوچتا ہے۔ اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خود غرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کھُلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔ اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رو یہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کر لیں لیکن اپنے اوپر خود تنقید کرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔

آپ رُوپ

اپنے آپ ہی سب کچھ ہونا۔ رُوپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو فلسفہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔ اِس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مزاح کے طور پر، جس آدمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔

آپ سے باہر ہونا یا آپے سے باہر ہونا

آپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ "آپے سے باہر ہونا" ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ اُسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو آپے سے باہر ہو گیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غصّہ سے ہے کہ وہ اپنے غصّہ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔

آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصہّ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پیشِ نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہارِ نا خوشی نہ کیا جائے، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو

نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر مصدر ہندوی ہیں اور اُن سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ذہنی رو یہ کیا رہا ہے۔

"اور" کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آدمی کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا بُرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو روا روی کا رو یہ موجود رہتا ہے کہ آدمی خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی بُرائی اس کو نظر نہیں آتی، دوسروں کی کمزوری کی طرف خواہ مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروں کا رو یہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و آبرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔

اپنی ایڑی دیکھو

ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا حصّہ ہوتا ہے۔ اُس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو آدمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ اُس کے اپنے عیب بھی ہو سکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا رُو نما ہوتی ہیں، اُن پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر آدمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔

اپنی رادھا کو یاد کرو

سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق "رادھا" سری کرشن کی محبوبہ تھی۔ اُس کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ "سری کرشن" کی مزاج آشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔

عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔ "کرشن اور رادھا" کے رشتے میں یہی خلوصِ خاطر اور دلی تعلق موجود تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔

اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور اپنی لگی سگی "رادھا" کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں، مثلاً "اپنی صلیب آپ اُٹھانا۔" ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ "پھانسی چڑھنا" بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ "اپنی قبر آپ کھودنا" بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔ "اپنے قول کا پکا ہونا" بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔

اپنی کھال میں مست ہونا

معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں خود پسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں "اپنی کھال میں مست ہو جانا۔" یعنی ایک آدمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے معاملات سے بے پروا اور بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اپنی پروا بھی نہیں۔ وہ تو بس اپنی کھال میں مست ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب قریب"آپا بسرانا"، "آپا تجنا"، "آپا تج دینا" محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔

اپنی گُڑیا آپ سنوارنا

"گڑیاں" ہندوستانی تہذیب کی ایک علامت ہے۔ اب تو پلاسٹک کی گڑیاں بننے لگی ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کپڑے اور روئی سے تیار ہوتی تھیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں بچیوں کے لیے کھیل کی غرض سے بناتی تھیں۔ گھر میں جو گھریلو سامان ہوتا ہے، اسی کی نقل گڑیوں کے برتنوں میں تیار کی جاتی تھی۔ چھوٹا سا پلنگ، تکیہ، لحاف اور پتیلی، چمچہ، کٹوری وغیرہ، وغیرہ۔

گڑیوں کی شادی رچائی جاتی تھی۔ مایوں کی رسم الگ ہوتی تھی۔ اِس کے علاوہ پیر مکوڑا الگ بنتا تھا۔ یہ کسی بزرگ کی چھوٹی سی قبر ہوتی تھی اور اُس کے چاروں طرف احاطہ اور جھنڈیاں نیز چھوٹی چھوٹی شمعیں جو اسی مقصد کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ اور اس طرح گویا ایک عُرس کا سماں باندھا جاتا تھا۔

گڑیوں کے ذریعہ بچیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام آ جاتے تھے اور باتیں معلوم ہو جاتی تھیں۔ اپنی گڑیاں سنوارنا، اپنی گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اُن کو سلیقہ سکھلانا۔ پڑھانے لکھانے کا پہلے رواج نہیں تھا۔ اِس سے ہم گھریلو معاشرت اور وہاں کی تہذیبی فضا کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔

اپنی گوں کا یار

معاشرے میں جو بھی عیب ہوتے ہیں اُن کو ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور محاورے زیادہ تر انہیں پر بنے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات محاورے میں کہہ دی گئی، وہ بات واضح ہو گئی لیکن محاورے کی وجہ سے وہ پھر رواج عام کا حصّہ بن گئی اور اُس کی معاشرتی حیثیت پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ اِس محاورے میں گوں کے معنی ہیں خود غرض، مطلبی۔ ہم اسے اس طرح بھی کہتے ہیں کہ وہ ہماری "گوں کا آدمی" نہیں ہے۔

یعنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ "گوں گیرا" بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا ہے۔ "اپنی گوں کا یار" بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور مطلبی ہے۔ "آپ سوارتھی" کے معنی بھی یہی ہیں جس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔

اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے

یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔ "چھا" بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی

"چھا" مزے دار نہیں ہوتی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیں ہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں "چھا" پینے کا رواج عام تھا۔ کچھ لوگ "چھا" بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری "چھا" میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میں آیا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔ اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں۔

اپنی بات کا پچ کرنا

اپنی بات پر جمنا اور اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی ہے۔ "عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ۔" اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر"اڑنے" کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔

اپنے نصیبوں کو رونا

مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جھُوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا

ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں، اور نہ جانے کب سے رہے ہیں، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اُن پر تنقید کرتے ہیں، طعن و تعریض کرتے ہیں ؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان، اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خو بیاں کیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور آپسی رویّوں پر ایک تبصرہ ہے۔

اپنی اپنی پڑنا

آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور آپسی معاملات کے تلخ تجربے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا، اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہو جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔

اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا

آدمی اپنے ہوش و حواس اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہو جاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں"آٹا ماٹی ہونا" بھی کہتے ہیں۔

اٹھکھیلیاں کرنا

آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ مثلاً، آٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔ "آٹھوں گانٹھ کمینت" ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہو جاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی"آٹھ کھیل" جو باتوں سے متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ"بارہ سولہ سنگھار" یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔

اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت

اُس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً، "اُجلی" کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ اُس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن کہنا بُرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو"اُجلی" کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں شامل ہے اور اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔

"اُجلی سمجھ" اور "اُجلی طبیعت" دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی سُوجھ بُوجھ اور عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا آ جالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور یہیں سے انسان کا فطرت اور تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ"اُجلی گزران" بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال اور خوش باش زندگی۔

"اُجلا منھ ہونا" بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و آبرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں"منھ کالا کرنا" بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔

اچھا نِکا

مغربی یو۔ پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ "نِکا" در اصل"نِکو" ہے جو فارسی میں نیک کے معنی میں آتا ہے اور مُراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔

محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں آتے۔ اُن کے کچھ مُرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ استعارہ اور تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر، فن اور طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور اُس کی علامتیں بھی۔

اُچاپت اُٹھانا

یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کسان، مزدُور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ اُس کی قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل آنے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر فصل آنے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے اُچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق اُس کا اُدھار لینے سے ہی ہے لیکن ایک خاص سسِٹم کے ساتھ یہی بات آگے بڑھ کر دیوانی اور ساہوکاری میں بدلی ہے۔

آدھا تیتر آدھا بٹیر

جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور اُس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں بھانپ لی جاتی ہے تو اُسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے کا بھی رواج تھا اور لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔ اِس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا اور رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص رجحانات کا ترجمان بن گیا۔ اُن میں موزونیت اور ہم آہنگی بطورِ خاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطورِ خاص اشارہ کرتا ہے۔

آدمیوں کا بَن یا جنگل

جنگل آدمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔ دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، "برگے" ہوں، شہتیر ہوں یا چھپّر ہو، اُسارہ ہو، جس کے سہارے چھپّر کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر آباد ہو گئے۔ گاؤں اور ضلعے بس گئے تو آدمی کا اور جنگل کا ساتھ چھُوٹ گیا۔ آدمی نے جنگل کاٹ بھی دیے اور اپنے شہری تصوّرات کے تحت غیر مہذب آبادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان کے نزدیک آدمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت آئی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر گھنی آبادی ہو گئی، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔

اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔

میر انیس کا مصرعہ ہے:

صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور

جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہا ہے اور صحرا کو تصورِ عشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل کیا گیا ہے۔ فراق کا مصرعہ ہے:

صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتا

آدمیت پکڑنا

انسان آدم زاد ہے اور اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔ انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔

آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر

رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوں کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی رات، اندھیری رات، اندھیرا گھُپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب ہاتھ کو ہاتھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے، چاند رات بھی ہوتی ہے اور چاندنی رات بھی۔ اسی کے ساتھ "چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے"، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔

"آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر" نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آ جاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے حِساب سے راتیں دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں داستانوں اور کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ "الف لیلیٰ" کا نام ہی"الف لیلیٰ و لیلیٰ" ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ اردو کی مشہور معشوقہ لیلیٰ بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔

آدھوں آدھ کرنا

آدھا ایک کا نصف ہے اور تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی آدھے کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے۔ اَدّھی، اَدَھنّا، اَدھ پکا، اَدھ رانا، اَدھ بانکا، اَدھ مرا، اَدھ موا، ادھ کچرا، ادھ بُنا، اُن سب میں"آدھ" شامل ہے اور ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے"آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، آدھی رہے نہ ساری پاوے"۔ یعنی آدمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ آدھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی اِس کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی سماج کے رو یہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور خود غرضی اختیار نہ کرو۔

اُردوئے معلّیٰ

اُردو کا لفظ ہم زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں تو ہماری مُراد اعلیٰ درجہ کی ادبی زبان ہوتی ہے یا پھر درباری زبان اور دہلی کی خاص زبان جس میں شرفاء کی زبان بطورِ خاص پیشِ نظر ہوتی ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے لال قلعہ کے سامنے اور چاندنی چوک کے قریب جو میدان ہے، یہاں قلعہ کی حفاظت کرنے والی خاص فوج رہتی تھی جس کا افسر راجپوت ہوتا تھا۔ اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے تھے۔ اسی نسبت سے جینیوں کے لال مندر کو بھی پُرانے زمانے میں اُردو مندر کہا جاتا تھا۔ اب اِس کا مفہوم بدل گیا ہے اور اُردو کو عرفِ عام میں لشکری زبان یا پھر عام زبان کہا جانے لگا ہے۔ جب کسی زبان کو بہت اچھا اور اعلیٰ زبان کہنا مقصود ہوتا ہے تو اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں اور یہ بولتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ تو مغل اُردو بولتے ہیں۔

اَردلی ّمیں رہنا۔ اَردلی کرنا۔ اَردلی میں چلنا

"اردلی" کا لفظ بتلا رہا ہے کہ یہٍ انگریزوں کے آنے کے بعد اُن کے دفتری طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد رائج ہوا ہے۔ وہ اپنے پیش خدمت کو"آرڈرلی" ( Orderly ) کہتے تھے، یعنی آرڈر کو لانے لے جانے والا۔ اِس طرح یہ لفظ انگریزوں کے دفتری نظام سے متعلق ہو گیا اور انگریزی سے بنائے جانے والے الفاظ میں اِس کا استعمال عام ہونے لگا۔ لفظوں کے ساتھ محاورہ بنتا ہے تو ایک تاریخ اُس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ زبان اور الفاظ معاشرے میں لفظ محاورے کیا کردار ادا کرتے ہیں، اِس کا اندازہ محاورات پر سنجیدگی سے غور و فکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لفظوں کا پھیر بدل اور معنوی سطح پر تبدیلی زمانہ، زندگی اور ذہن کے تغیرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ "اردلی" کا لفظ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ"افسر" بھی ہے جس کے معنی فارسی میں"تاج" کے ہیں لیکن اُردو میں افسر کے معنی ہیں"آفیسر" ( Officer ) اور آفیسر ہی سے لفظ افسر بنا بھی ہے۔

ارَنڈ کی جڑ

"ارنڈ" ایک خاص طرح کا درخت ہوتا ہے جس میں شاخیں نہیں ہوتیں اور جس درخت میں شاخیں ہوتی ہیں اُس کا تنا بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس درخت کا تنا بھی مضبوط نہیں ہوتا اور جڑ اور بھی کمزور ہوتی ہے۔ "جڑ" کا لفظ ہمارے ہاں بہت با معنی لفظ ہے۔ اس کے معنی بنیاد کے ہیں۔ بنیاد جتنی مضبوط ہو گی، اتنی ہی عمارت مضبوط ہو گی۔ ہمارے ہاں بنیاد کے ساتھ بہت لفظ آتے ہیں۔ اور محاورے کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے، بے بنیاد بات ہے، اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ "بنیاد" کے ساتھ" جڑ" کا لفظ بھی آتا ہے اور"جڑ بنیاد" کہتے ہیں۔ اُن دونوں لفظوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا- جڑ کا پہلے اور بنیاد کا بعد میں - ایسی لفظی ترکیب ہے جو روزمرّہ کے دائرے میں آتی ہے۔ ہم جڑ بنیاد ہی کہہ سکتے ہیں، بنیاد جڑ نہیں۔ جیسے، تین پانچ ہی کہتے ہیں، پانچ تین نہیں کہتے اور اس سے تیا پانچہ کر دیا۔ جڑ کے ساتھ جڑ جمنا، جڑ جمانا، جڑ اکھڑنا، جڑوں کا کھوکھلا ہونا، جڑوں سے وابستہ رہنا- -غرض بہت سے محاورے ہیں جن کا تعلق درخت یا شجر سے اتنا نہیں ہے جتنا ہماری سماجی زندگی سے ہے۔ "اَرنڈ کی جڑ" کمزور ہوتی ہے؛ بالکل کھوکھلی۔ اسی لیے ارنڈ کی جڑ کے معنی ہیں ناپائدار ہونا۔ اپنی جڑ کی ناپائداری اس کے لیے کم قدری کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے"اَرنڈ باغاتی" دہلی میں محاورہ ہے جو میر اور سودا کے زمانے تک بولا جاتا تھا اور مطلب ہوتا تھا"بے تکی چیز"۔ اس کو" باغاتی" بھی کہا جاتا رہا ہے۔

اَرواح بھٹکنا

دہلی والے رُوح کو اَرواح کہتے ہیں، یعنی رُوح کی جمع بولتے ہیں اور اس سے صرف رُوح مراد لیتے ہیں۔ روح بھٹکنے کے معنی یہ بھی ہیں کہ انسان چلا جاتا ہے اور اس کی روح دنیا میں باقی رہ جاتی ہے اور اِدھر اُدھر اس کو یا اپنی کسی پسندیدہ چیز کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ قدیم زمانے سے یہ تصور موجود ہے۔ کہ رُوح اپنے بدن یا مادّی وجود کی طرف واپس آتی ہے۔ قدیم زمانے کی قبروں میں اس طرح کے نشانات رکھے جاتے تھے جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ فلاں شخص کی قبر ہے۔ اب تو یہ بات دنیاوی طور پر شناخت کے لیے ہوتی ہے اور کتبے لگائے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ رُوح کی شناخت کے لیے ہوتا تھا کہ وہ پہچان جائے۔ اب یہ گویا محاورہ بن گیا ہے کہ رُوح بھٹکتی پھرے گی۔ خاص طور پر محبت کرنے والے کی روح کے لیے ایسا سوچا جاتا ہے۔ میر نے اپنی مثنوی"دریائے عشق" اور"شعلۂ عشق" میں اسی کا ذکر کیا ہے۔ بعد کے شعراء کے ہاں بھی اس کا بیان ملتا ہے اور اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندگی ہی میں نہیں، مرنے کے بعد بھی میرا شوق، میرا تعلقِ خاطر قائم رہے گا اور میری رُوح تیرے یا اپنے محبوب کی فراق میں بھٹکتی رہے گی۔

اَرے ترے کرنا (ابے تبے کرنا)

اَرے ترے کرنا یا ابے تبے کرنا کے معنی ہیں بد تہذیبی سے پیش آنا۔ یا بہت بے تکلًفی سے بات کرنا۔ تہذیب و شائستگی کے آداب میں گفتگو کا طریقہ سلیقہ بہت کام کرتا ہے اور ہمیشہ اس کا ایک اہم رول ہوتا ہے کہ کس سے گفتگو کی جائے تو کس طرح کی جائے۔ لب و لہجے کا اُتار چڑھاؤ کیا ہو، موقع اور محل کے لحاظ سے الفاظ و فقرے کس اسلوب اور کس انداز میں پیش کیے جائیں۔ بات صرف لفظوں کے معنی کی نہیں ہوتی، کہنے کے انداز کی بھی ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والا کون ہے اور سننے والا اس کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتا ہے؛ برابر کا ہے، چھوٹا ہے، بڑا ہے۔ اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے اس کے ساتھ سوال و جواب کا یا تبصرے اور تجزیے کا کیا انداز اختیار کیا جائے۔ یہ سب باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور گفتگو کے وقت اپنا خاص کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھا جائے کہ بات کرنے والا نہ زبان جانتا ہے، نہ آداب اور شائستگی سے واقف ہے۔ بے تکلفی اپنی جگہ پر، لیکن لفظوں کے استعمال میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ ہم دوسروں سے برداشت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ توقع اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ گفتگو کرنے والا لب و لہجے اور الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتے۔ ہمارے محاورات میں ایسے بہت سے محاورے ہیں جو گفتگو کے آداب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بیہودہ گفتگو کو اُول فول بکنا کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گڑ نہ دے، گڑ جیسی بات کہہ دے، یعنی میٹھا انداز اختیار کر لے۔ اسی لیے زبانِ شیریں کی بات کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تیرے منھ میں گھی شکّر۔

اُڑا لینا، یا اُڑا دینا، اُڑنا

اُڑنا پرندوں کا عمل ہے۔ اِدھر سے اُدھر آنا جانا، ایک شاخ سے اُچھل کر دوسری شاخ پر بیٹھ جانا، دانا چُگنے کے لیے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنا، پروں ہی کی مدد سے ہی تو ہوتا ہے۔ یہ عملِ محال کرشمہ اور کرامت کے طور پر پیروں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ ہوا میں اُڑتے ہیں اور خوشبو کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھیلتے رہتے ہیں، آتے جاتے ہیں۔ آج کل تو تقریریں، تحریریں اور تصویریں بھی ہوا پر اُڑتی ہیں اور ٹیلی ویژن میں ہم دنیا بھر کے شہروں، بیابانوں، جانوروں، انسانوں، سمندروں اور ہواؤں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ اُڑنے کے معنی میں یہ سب آتا ہے۔ اُڑان بھرنا بھی ایک محاورہ ہے اور اُڑانے کے معنی میں خلیل خاں کا فاختہ اُڑانا اور مریدوں کا پیروں کو اُڑانا بھی شامل ہے، کہ پِیر نہیں اُڑتے، مرید اُڑاتے ہیں۔ خبر اُڑانے کو بھی ہمارے ہاں بطورِ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

بات اڑا دینا بھی یا"باتوں باتوں میں اڑا دینا"، "چٹکیوں میں اُڑا دینا" بھی ہمارے محاورات کا حصّہ ہے۔ "بے پر کی اُڑانا"، "گُل چھرّے اُڑانا"، "طوطا مینا اُڑانا"۔ اس سے اُڑنے اور اُڑانے کے عمل سے ہماری زبان اور ہمارے ذہن کی وابستگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ "اُڑا دینا"، خاک دھُول کی طرح اُڑا دینا ہے۔ اور کسی چیز کا اُڑا لینا بھی جیسے، "اس نے یہ بات اڑا لی"، "اس نے ساری کتاب ہی اڑا لی"۔ اس معنی میں"اُڑنا" یا"اُڑا دینا" یا"اُڑا لینا" بہت سے محاورات کی بنیاد ہے۔ جن محاوروں کو ہم کسی ایک تصور، ایک تصویر، ایک خیال یا ایک عمل سے نسبت دے کر مختلف صورتوں یا سمتوں میں پھیلا سکتے ہیں، اُن میں"اُڑنا" اور"اُڑا دینا" بھی ہے۔ "اُڑتی چڑیا کو پہچاننا"، یا"اُڑتی چڑیا کے پر گننا"بھی اور"اُڑن چھُو ہونا" (غائب ہو جانا، بھاگ جانا) یا"اُڑن کھٹولا ہونا" بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ۔ "اُڑن کھٹولا" ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں"اُڑان جھَلّا" یعنی اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔ "قسم ہے اُڑان جھلے کی"۔ "اڑن سانپ" یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ "اڑتی بیماری" بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔ معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کو اڑتی بیماری کہتے ہیں۔

اَڑنا، رکاوٹ بننا

اپنی جگہ پر اس طرح ٹھہر جانا کہ پھر ٹس سے مس نہ ہو۔ اقبال کا شعر ہے۔

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اُڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

"طرز کہن پہ اڑنا" وہی پرانی روایت پر قائم رہنا ہے، بلکہ اس پر اصرار کرنا ہے۔ معاشرے میں یہ روش ایک خاص کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معقول سطح پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور احساس و ادراک کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔ جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

اَڑنگ بَڑنگ

اصل میں جو چیزیں، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں، یعنی بے تکی، بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں۔ اُن کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم انہیں محاورات میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ "اڑنگا لگانا" ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رو یہ سامنے آتا ہے، جو ایک طرح کا بُرا اور بُرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رو یہ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ"اڑنگا لگا دیا" رکاوٹ پیدا کر دی، الجھنیں کھڑی کر دیں۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ کے بعض پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، اُس کے بے ہنگم پن پر تبصرہ بھی اَڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔

اُڑی اُڑی طاق پر بیٹھی

ویسے تو ایک چڑیا کا اُڑنا اور اِدھر سے اُدھر بیٹھنا اِس میں شامل ہے، لیکن محاورے کے سماجی استعمال اور معاشرتی رویوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور ذہنی رویّے اس میں شامل ہیں۔ اُڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور خود وہ طرح طرح سے اُڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی لیے اُڑنے کے عمل پر بہت سے محاورے موجود ہیں۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات سے، خواہشات سے اور تمنّاؤں سے طرح طرح سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس میں ہمارے خواب بھی آ جاتے ہیں، خیال بھی اور تمنائیں بھی۔ کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اس میں اُس کی ناکامیاں آتی ہیں، دوسری طرف کامیابیاں اور تیسری طرف تمنائیں اور ضرورتیں، مجبوریاں۔ ایک محاورہ ہے"اَڑی بھِیڑی میں کام آنا"، یعنی جب کوئی صورت نہ ہو اور ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں، اس وقت کوئی کام آ جائے تو کتنی بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک کہاوت ہے، "بیوی بھلی پاس کی، یار دوست بھلا ٹوٹے کا"۔ جب کوئی کام نہ آتا ہو تو آدمی کتنا مجبور ہوتا ہے۔ اسی لیے اَڑی بھیڑ میں کام آنا یا اَڑے وقت میں کام آنا ہماری سماجیات کا اہم پہلو ہے کہ جب آدمی خود کچھ نہ کر سکے تو کوئی دوسرا کام آئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو مصیبت میں کام آ جائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جا تا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک محاورہ"اڑے کام سنوارنا" بھی ہے۔

آڑے ہاتھوں لینا

عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف رُوپ پیش کرتے ہیں اور اُن سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ "آڑے ہاتھوں لینا" فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے"آڑے ہاتھوں لینا" گفتگو کا عمل بھی ہے اور تعلقات کے اچھے بُرے ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں الفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور ری ایکشن( reaction ) بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال، عمل، خوشی اور نا خوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا ہے، استعارہ بھی، تصوّر بھی اور تصویر بھی۔

"آڑے آنا" بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔ "اڑم ڈھم ہونا" بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑکّا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور نہ بیٹھنے کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ، ایسے وقت میں اَڑم ڈَھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طرزِ اظہار بھی ہوتا ہے اور بعض محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صورتِ اظہار ہے۔ خواص سخت الفاظ اور کرخت آوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے آیا ہو۔ اُردو کے ابتدائی مراحل میں ان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور بعد میں فارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری سطح پر کچھ اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔

آزاد کا سونٹا (فقیر)

فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبال کا یہ مشہور شعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند

فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میں ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کو جو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، "آزاد کا سونٹا" یا"فقیر کا سونٹا" کہتے ہیں۔

اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ

اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ "اِزار کا کچّا"، "اِزار کا ڈھِیلا" یا"اِزار کی ڈھیلی"، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے ہیں۔ اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔ ان کا استعمال بہت کم ہو تا چلا گیا ہے۔ لیکن آج بھی اُن سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رویّوں یا معاشرتی سطح پر عمل اور ردِ عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔ "ازار میں پہن لیا" یا"ازار میں ڈال کر پہن لینا" اسی سلسلے کے کچھ محاورے ہیں اور سماجی طور پر اپنے خالص معنی رکھتے ہیں۔ جب کسی بات کی یا کسی شخص کی دوسروں کی نگاہ میں قدر و قیمت نہ رہے، اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پائجامے میں پہن لینا چاہتے ہیں۔ اِزار میں ڈال لینے کے معنی بھی یہی ہیں۔ اِس طرح سے سماج میں جو ایک ذہنی درجہ بندی رہتی ہے، یہ اسی کی طرف ایک اشارہ ہے۔

از غیبی گولا یا از غیبی دھکّا

مشرقی اقوام غیب کی زیادہ قائل رہیں اور ظاہر کے مقابلے میں باطن کو انہوں نے ہمیشہ زیادہ بامعنی اور پُر قوّت تصور کیا۔ اس سے جہان صوفیانہ اور رُوحانی تحریکیں نیز مذہبی فلسفہ ان میں زیادہ رائج رہا۔ وہاں توہّم پرستی اُن میں افکار، خیالات اور عقائد کے اعتبار سے زیادہ رائج رہی کہ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے، کہاں سے کونسی آفت نازل ہو اور کس مصیبت کا سامنا کس وقت کرنا پڑے۔ "از غیبی گولا" یا"از غیبی دھکا" اسی صورتِ حال کو کہتے ہیں جب آدمی اچانک کسی آفت میں مبتلا ہو جائے، کسی مشکل میں پھنس جائے۔ زبان کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ محاورہ عجیب و غریب ہے کہ اس میں"از" کا لفظ شروع میں آیا ہے، جو سر تا سر فارسی لفظ ہے۔ لیکن اُردو والے اِسے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ خطوں میں"از دہلی"، "از لاہور" یا"از حیدرآباد" بے تکلف طور پر لکھا جاتا تھا۔ "از حد" کہہ کر حد سے زیادہ کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ "از حد بد تمیز ہے" یا"از حد خوف ناک ہے" اب بھی کچھ لوگ بولتے ہیں۔ محاورے کی اس صورت نے"از" کے استعمال کو عام زبان کا ایک حصّہ بنا دیا ہے اور حیرت ہے کہ"دھکّا" یا"گولا" جیسا لفظ"از غیبی" کے ساتھ ملا دیا۔ ہماری زبان کی مزاج شناسی کے لیے یہ محاورہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27