اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 75322
ڈاؤنلوڈ: 3561

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75322 / ڈاؤنلوڈ: 3561
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "ج"

جادو لگانا، جادو چلانا، ڈالنا، کرنا، مارنا، جادو کا پتلا

جادو سحر کو کہتے ہیں اور سحر کے معنی ہیں ایسی بھیدوں بھری رات جس کے ذریعہ عقل کو حیرت میں ڈالنے والے کام کئے جاتے ہیں ہندوستان میں جادو ٹونے کا رواج بہت رہا ہے اسی لئے ہم یہاں منتر کے ایک معنی جادو بھرے الفاظ لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس نے کیا منتر پڑھ پھونک دیا ہے یہ تصور دوسری قوموں میں بھی ہے اور خود عرب بھی جادو کے قائل تھے کافر قرآن کی آیت کو نعوذ باللہ سحرِ عظیم کہتے ہیں ہمارے ہاں جادو ڈالنا، جادو چلانا، جادو کرنا، عام طور پر بولا جاتا ہے جیسے اس کا جادو چل گیا اس نے جادو چلا دیا جادو تو وہ ہوتا ہے جو سرپر چڑھ کے بولتا ہے اردو کا مشہور شعر ہے۔

کیا لطف جو غیر پردہ کھولے

جادُو وہ جو سر چڑھ کے بولے

اس معنی میں جادُو ہماری سماجیاتی سوچ کا حصّہ کیا ہے اور ہم ماورائے جن چیزوں کے قائل ہیں۔ اور انہیں مافوق العادت کہتے ہیں یہ انہی کا ایک حصّہ ہے ایسے ہماری کہانی حقوق داستان اور شاعری کے نمونوں میں دیکھا پرکھا اور سمجھا ہندوستان میں خاص خاص موقعوں پر جادُو کیا جاتا ہے۔

جاگرن کرنا

جاگرن کرنا ہندو کلچر کا ایک اہم رسمی اور مذہبی پہلو ہے کچھ خاص منتر پڑھ کر چراغ روشن کر کے اور دھیان گیان کے سلسلہ کو اپنا کر عقیدتوں کو دل میں جگایا اور من میں بسایا جاتا ہے اُسے بھگوتی جاگرن کہتے ہیں مغربی یوپی میں جا گئے کو یا جاگ اُٹھنے کو جاگر کہا جاتا ہے جاگر میں صرف آنکھیں کھلتی ہیں نیند کا سلسلہ ٹوٹتا ہے"جاگرن" میں دل کی غفلت دُور ہوتی ہے اور عقیدتیں جاگ اٹھتی ہیں اس معنی میں جاگرن کلچر، تہذیب، اور مذہب سے وابستہ ایک عمل ہے۔

جال بچھانا، پھیلانا، یا ڈالنا، جال میں پھنسنا، یا پھنسانا

جال ایک طرح کا وسیلہ شکار ہے شیر سے لیکر مچھلی تک اور مچھلی سے لیکر پرندوں تک جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ جال پانی میں پھینکا جاتا ہے اونچی چھتری پر لگایا جاتا ہے جہاں کبوتر آ کر بیٹھتے ہیں اور اُس جال میں پھنس جاتے ہیں یہی صورت مچھلیوں کی ہوتی ہے اور یہی شکل اُن پرندوں کی ہوتی ہے جو زمین میں دانہ چُگنے کے لئے اترتے ہیں اور اُس جال میں پھنس جاتے ہیں جس پر دانہ بکھیرا ہوتا ہے۔

انسان بھی فریب جھوٹ دغا اور فکر کا شکار ہوتا ہے اور ان زبانی وسائل کو بھی جال ہی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی فریب دہی کا عمل ہے جس کا سلسلہ کون جانے کب سے رائج ہے مگر یہ بات برابر ہو رہی ہے اِس کا پیمانہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اِس دام فریب کے حلقوں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور سماج اس سے باہر نہیں نکل پایا غالب کا شعر یاد آ گیا۔

دامِ ہر مو ج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک

جامے سے باہر ہو جانا یا جامے میں پھُولا نہیں سمانا، جامہ زیب ہونا

جامہ دراصل لباس کو کہتے ہیں ہم زیر جامہ اور چار جامہ بھی بولتے ہیں زیر جامہ انڈوریر کو بھی کہتے ہیں چار جامہ چار طرح کے کپڑے جن سے تن پوشی یا جسم کی زیب و زینت کا کام لیا جاتا ہے۔ گھوڑے کے ساتھ اور زین و لگام وغیرہ کے لئے بھی چار جامہ"تسمہ" کا محاورہ آتا ہے۔

جامہ میں پھُولا نہ سمانا انتہائی خوشی کے اظہار کو کہتے ہیں جو دوسرے بھی دیکھ لیں سمجھ لیں اور محسوس کر لیں کپڑے سب لوگ پہنتے ہیں اور معاشرہ میں اسی پوزیشن کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اس میں مذہب سے اپنے تعلق و وفاداری کو بھی شامل رکھنا چاہتے ہیں اور ایک طبقہ تو اُس پر زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر لباس ہر رنگ ہر وضع قطع ہر آدمی کے لئے وجہ زینت نہیں بنتی بعض بدن جامہ زیب ہوتے ہیں۔ بعض لباس کچھ اِس طرح کے ہوتے ہیں کہ ہر آدمی کے اچھے لگتے ہیں لباس کا اچھا لگنا ہی جامہ زیبی کا سبب ہوتا ہے لباس کا رشتہ ہمیشہ ذاتی پسند سے زیادہ سب کی پسند کا مسئلہ رہا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کھاؤ من بھاتا اور پہنے جگ بھاتا ہے۔

جان پر کھیلنا، جان دینا، جان پڑنا، جان جانا، جان جھوکنا، جان چرانا، جان چھُڑانا، جان چھوڑنا، جان سُکوھنا، جان سے جانا، جان سے زیادہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا، جان جوکھوں میں ڈالنا، جان ہوا ہونا وغیرہ

جان آدمی کو بہت ہی عزیز ہے وہ اس کی روحِ رواں ہے سر چشمۂ حیات ہے اُس کے وجود کا باعث ہے اور اپنے وسیع مفہوم اور معنی کے ساتھ اس کی زندگی میں شریک ہے اسی لئے ہم طرح طرح سے جان کے لفظ اور معنی کو اپنی زبان میں استعمال کرتے ہیں اور جان کے ساتھ جو محاورے بنتے ہیں وہ ہماری سماجی فکر اور سائل کو ظاہر کرتے ہیں جیسے جان دینا، جان چھڑکنا، جان نہ ہونا، جان و ایمان کے برابر ہونا وغیرہ۔

جانے کے لچھن ہیں

جانے کے معنی بھاگ جانے کے بھی ہیں نکل جانے اور چھوڑ جانے کے بھی ہیں جان نکلنا تو محاورہ ہے جانے کے لچھن ہیں کہ معنی ہیں کہ اس کے روپ اور روش سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ رہنے والا نہیں ہے چھوڑ کر جانے والا ہے یہ گویا ان لوگوں کا رد عمل ہوتا ہے جو کسی نہ کسی سطح پر کچھ توقعات رکھتے ہیں غالب کا شعر اس موقع پر یاد آ گیا۔

جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

جُگ جیئے، یا جیؤ، جگت لڑنا

جُگ جُگ جینا ہمارے ہاں کی دعا ہے ہم ایک خاص دور کو جُگ کہتے ہیں جو یگ کا ہندی تلفظ ہے جُگ جینے کے معنی ہوئے کہ تم دور بہ دور جیؤ اسی لئے ہندی میں چل جیو ہونا بھی کہتے ہیں جُگ جینے یا جُگ بیتا ایک دوسرا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں بہت لمبی مدّت بیتنا۔ اردو کا شعر ہے۔

جُدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے

کہ اِس ظالم کی ہم پر جو گھڑی بیتی سو جگ بیتا

جلتی آگ میں تیل ڈالنا، جلتی پر تیل چھڑکنا، جلتے کو جلانا، جی جلنا، جی جلانا

جلنا شدید گرمی کا عمل ہے جس سے رُوکھ (درخت) جل جاتے ہیں بدن جل جاتا ہے آگ میں ہر چیز جل جاتی ہے آگ کے قریب آ کر ہر شے جل اٹھتی ہے اُس سے جلنا ایک استعارہ بن گیا ہے۔ جی جلنا، جی جلانا یعنی تکلیف دہ باتیں کرنا یا اچانک جل اٹھنا بھڑک اٹھنا غصہ میں بھر جانے کو کہتے ہیں جی کا جلاوا وہ شخص چنریا بات جو مسلسل ذہنی تکلیف کا سبب ہو ان سب باتوں کا رشتہ ہماری سماجی فکر اور معاشرتی زندگی سے ہے اوپر لکھے ہوئے محاورے اسی سلسلۂ فکر یا خیال یا دائرہ قول و عمل میں آتے ہیں۔

جلے پر ون یا نمک چھِڑکنا یا لگانا، جلے پھپولے پھوڑنا، دل کے پھپولے پھوڑنا جلی کٹی سنانا جل اٹھنا اسی سلسلہ کے محاورے ہیں

ہماری عام روش ہے کہ جب ہم کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو خواہ مخواہ بھی اُس سے اختلاف کرتے ہیں اسی کو جلے نال کے پھپولے پھوڑنا کہتے ہیں پھپھولوں کا جلنا محاورہ کی ایک اور صورت ہے جس کا اظہار اس شعر سے ہوتا ہے۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینہ کے داغ سے

اِس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے

جنگل میں منگل ہونا، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا

جنگل ہماری تہذیبی زندگی کا ایک حوالہ ہے ہندوستان اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جنگلوں سے بھرا پڑا تھا یہ جنگل طرح طرح کے تھے پہاڑی جنگل بھی اور میدانی جنگل بھی جنگل پر محاورے موجود ہیں جنگل آباد ہونا ایسے علاقہ کو جس میں کھیتی ممکن ہے کام میں لانے کے لئے کہتے ہیں کہ تمہارا جنگل آباد ہو جائے گا۔ جنگل کا تصوّر ویرانی کا تصور بھی ہے اس لئے جب میلے ٹھیلے لگتے تھے اور طرح طرح کی دوکانیں اور کھیل تماشہ جنگل میں ہوتے تھے تو اس کو جنگل میں منگل ہونا کہتے تھے اِس کا ہماری معاشرتی زندگی سے بھی ایک رشتہ ہے خانہ بدوش قبائل جنگلوں میں کچھ دنوں کے لئے آباد ہو جاتے تھے تو بھی جنگل میں منگل ہو جاتا تھا۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوئی آدمی ترقی کرے بڑے عہدے پر پہنچے اور اُس کے ہاتھ میں یہ ہوا کہ وہ بھلائی کر سکے تو اُس کو اپنے وطن کو بھولنا نہیں چاہے وطن والوں کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے، نہ ہوا تو وہ مثل ہو گئی کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا خوش ہونے والے تو وطن کے لوگ ہوتے ہیں انہی کے سامنے ترقیوں کا مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔

جنم سُدھر جانا، جنم جنم کی دوستی، جنم جنم کا بیر، جنم جنم کا ساتھ، جنم میں تھوکنا

ہندوستان کے لوگ پنر جنم میں یقین رکھتے ہیں اسی لئے یہاں محاورے میں جنم جنم کا ذکر بہت آتا ہے کہ ایک ہی زندگی میں لگاتار جتنی زندگیاں ہوں گی اُس میں یہ دوستی یہ محبت پایہ پیتر قائم رہے گا اس لئے کہ ہندو عقیدہ کے مطابق ایک جنم کے سنسکار دوسرے جنم میں بھی انسان کے ساتھ رہتے ہیں اسی لئے جنم جنم کی بات سامنے آتی ہے جنم سُدھر نا زندگی بہتر ہو جانے کے معنی میں آتا ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیدائش تو ایک بُرے ماحول میں ہوئی تھی لیکن حالات بدل گئے اور جنم سدھر گیا ایک اور محاورہ اسی سلسلہ کا ہے اور معاشرہ کے اچھے بُرے رو یہ کی طرف عجیب انداز سے اشارہ کرتا ہے جنم میں تھوکنا مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر تمہارے اخلاقی رو یہ اتنے ہی بُرے ہیں تو کوئی کیا تمہارے جنم میں تھوکے گا کیا کہے گا کہ تم کیا ہو تمہارے ماں باپ کیا تھے۔

جوبن اُمنڈنا، یا اُبھرنا

جوبن سنسکرت لفظ یوون کا بدلا ہوا تلفظ ہے جوانی کے زمانہ کو"یوون" کہتے ہیں اور اُس کا اظہار انسان کے چہرے مہرے اور اعضائے بدن کے تناؤ سے ہوتا ہے بعض لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے زمانہ میں اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُن پر جوانی پھٹتی پڑی ہے جوبن چھایا ہوا ہے یا پھر جوبن طوفان کی طرح اُمنڈ رہا ہے یہ ایک احساسِ مسرّت کی بات بھی ہوتی ہے اور اِس پر رشک بھی کیا جاتا ہے جوانی کا ڈھل جانا بھی ایک ایسی ہی کیفیت ہے جو ڈھلتے ہوئے دن یا ڈھلتی ہوئی رات کی مدھم کیفیت کی طرح ہوتی ہے جیسے کسی پودے درخت یا باغ کی بہار گزر گئی ہو۔ اور خزاں کے آثار اس پر غلبہ پا رہے ہوں۔

جوڑ توڑ، جوڑ توڑ کرنا، جوڑ جوڑیا جوڑ جوڑ کر مر جانا، جوڑ جوڑ کے دھرنا، جوڑ جوڑنا، جوڑ چلنا، جوڑ لگانا، جوڑیا سنجوگ

جوڑنا ایک دوسرے سے بلانا یا جوڑی لانا ایک دوسرے سے شادی کر دینا جیسے اللہ ملائی جوڑی کہتے ہیں مگر جوڑ کے ساتھ ہماری سماجی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں جُڑی ہوئی ہیں اُن میں جوڑ جوڑ دُکھنا بھی ہے جو تکلیف کی ایک صورت ہے لیکن جوڑ توڑ ایک طرح کا سماجی عمل ہے آدمی اپنی غرض پوری کرنے کے لئے طرح طرح کے جوڑ توڑ کرتا ہے جھُوٹ سچ بولتا ہے زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے یہی سب باتیں جوڑ توڑ کے زمرے میں آتی ہیں تعلقات کی اچھائی برائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مگر اس کا استعمال ذہنی طور پر اچھے معنی میں نہیں آتا۔ ہاں ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ بہت جوڑ توڑ کا آدمی ہے اور اپنا کام نکالنا اُسے خوب آتا ہے۔

جوڑ جوڑ کر مر جانا ایک دوسرا عمل ہے جس کا تعلق پیسے کے خط اور گھٹا کرنے سے ہے جو لوگ کنجوس ہوتے ہیں پیسہ اکھٹا تو کرتے ہیں خرچ نہیں کرتے اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ میاں جوڑ جوڑ کر مر جاؤ گے یعنی سب رکھا رہ جائے گا تمہارے کام نہ آئے گا جوڑ جوڑنا جوڑ لگانے کے معنی میں آتا ہے اور اُس سے سنجوگ پیدا کرنا بھی مراد لیا جاتا ہے۔ جبکہ جوڑے بننا شادی کے جوڑوں کو ایک خاص انداز سے طے کر کے رکھتے۔ اور ان میں سجاوٹ پیدا کرنے کو کہتے ہیں جوڑی دار برابر کے ساتھی کو کہا جاتا ہے جوڑے تقسیم ہونا بھی شادی بیاہ یا خوشی کے موقع کی ایک رسم ہے۔ جس میں جوڑے دیئے جاتے ہیں اور ان کا اپنا ایک سماجی اور رسمی انداز ہوتا ہے۔

جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں

اگرچہ یہ بادلوں سے متعلق ایک بات ہے کہ میں بادلوں کا کڑک گرج زیادہ ہوتی ہے وہ اکثر بوندا باندی بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں اس سے ایک معاشرتی یا سماجی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جو لوگ زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے ہیں وہ کام کم سے کم کرتے ہیں اس لئے کہ کام کرنے والے کو زیادہ باتیں بنانے کی ضرور ت اور فرصت نہیں ہوتی یہ تو ہمارے سماج کا نسبتاً ایک نکما اور ناکارہ حصہ ہوتا ہے جس سے تعلق رکھنے والے لوگ باتیں زیادہ بناتے ہیں دیکھا جائے تو باتیں بنانا اور کام کرنا ہماری سوسائٹی کے نہایت اہم مسائل ہیں اور انہی سے متعلق یہ گفتگو ہے جو محاورے کی شکل میں یا بطور Comment کے سامنے آتی ہے۔

جونک پتھروں میں نہیں لگی

جونک لگنا خود ایک محاورہ ہے۔ جونک پانی کا ایک کیڑا ہوتا ہے جو کھال سے چمٹ جاتا ہے اور خون چوستا رہتا ہے اسی لئے محاورہ ہے کہ وہ تو جونک کی طرح لگ جاتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ تو جو نہایت سخت دل سخت طبیعت اور سخت مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح لگ کر بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اس لئے کہ پتھر میں جونک لگتی ہی نہیں جہاں خون ہو گا وہیں تو جونک چُوسے گی پتھر میں اُسے کیا ملے گا۔

جی ہے تو جہان ہے (جان ہے تو جہان ہے)

اِس محاورے کو جان ہے تو جہان ہے کی صورت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے یہ فرد کی اپنی اہمیت اور اس کی اپنی جائز فلاح و بہبود سے متعلق ایک سوچ ہے۔ اس کا استعمال دو موقعوں پر ہوتا ہے ایک کہ آدمی کی اگر صحت ہے وہ زندہ ہے اور بقول غالب۔

تنگ دستی اگر نہ ہو غالب

تندرستی ہزار نعمت ہے

یہی تندرستی جی ہے جہان ہے جہان ہے اور یہی ہزار نعمت دنیا جہان کی خوشیاں ہیں اسی طرح ہم یہ بھی سوچتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ہی نہ ہوں گے تو دنیا کا ہونا نہ ہونا ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا جی ہے گویا جہان ہے۔