ایک اچھے تصور کائنات کا معیار
ایک اچھے تصور کائنات کا معیار یہ ہے کہ اولاً تو وہ قابل اثبات و استدلال ہو۔ دوسرے الفاظ میں اسے عقل و منطق کی حمایت حاصل ہو‘ دوسرا یہ کہ حیات و زندگی کو بامقصد اور بامعنی بناتا ہو‘ اور زندگی کے بے کار‘ بے سود‘ فضول اور بے ہودہ ہونے کے تصور کو اور اس خیال کو کہ تمام راہیں نیستی اور عدم کی طرف جا پہنچتی ہیں‘ ذہنوں سے نکال دیتا ہو‘ تیسرا یہ کہ آرزو پرور‘ ولولہ انگیز اور پرامید بنانے والا ہو‘ چوتھا یہ کہ انسانی اور اجتماعی اہداف کو تقدس عطا کرنے کی قوت رکھتا ہو‘ پانچواں یہ کہ ذمہ دار اور جواب دہ بناتا ہو‘ کسی تصور کائنات کا منطقی ہونا‘ جہاں اس کے لئے عقلی حوالوں سے اور اذہان کے لئے قابل قبول بنانے کی راہ ہموار کرتا ہے‘ وہاں ان ابہامات اور تاریکیوں کو بھی برطرف کر دیتا ہے جو عمل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
کسی مکتب کے تصور کائنات میں پرامید بنانے کا پہلو اسے تجاذب اور قوت کشش عطا کرتا ہے اور اسے طاقت و حرارت بھی بخشتا ہے۔
تصور کائنات کسی مکتب کے اہداف و مقاصد کو تقدس عطا کرتا ہے تو اس کے باعث لوگ باآسانی اس مکتب کے اہداف و مقاصد کی راہ میں اس وقت تک ایثار و قربانی پیش کرنے لگتے ہیں‘ جب تک مکتب کے عملی نفاذ کی ضمانت فراہم نہیں ہو جاتی۔ جب کوئی کسی شخص کے لئے ذمہ دارانہ جواب دہی پیدا کرتا ہے تو اس سے انسان اپنے ضمیر و وجدان کی گہرائیوں میں ذمہ داری کا احساس کرنے لگتا ہے اور معاشرے کے سامنے بھی اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔
اسلامی تصور کائنات
اسلامی تصور کائنات دراصل الٰہی توحیدی تصور کائنات ہی ہے۔ اسلام میں توحید کو اپنی خالص اور پاک ترین شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں خدا کی کوئی مثل و نظیر نہیں ہے:
(
لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ
)
(سورہ شوریٰ‘ آیت ۱۱)
خدا نہ تو کسی چیز سے شباہت رکھتا ہے اور نہ ہی اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے‘ خدا مطلقاً بے نیاز ہے‘ سب اسی کے محتاج ہیں جبکہ وہ سب سے بے نیاز ہے۔
(
اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ
)
( سورہ فاطر‘ آیت ۱۵)
خدا ہر چیز سے آگاہ ہے اور ہر چیز پر قادر ہے:
(
اِنَّه بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ
)
( سورہ شوریٰ‘ آیت ۱۲)
(
وَاَنَّه عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
)
(سورہ حج‘ آیت ۶
اور دیگر بہت سی آیات)
وہ ہر جگہ پر ہے اور کوئی جگہ اس سے خالی نہیں۔ آسمان کے بالائی حصے‘ زمین کی گہرائی کی نسبت اس کے ساتھ ایک ہی ہے۔ ہم جس طرف بھی رخ کر کے کھڑے ہوں گے تو اسی کی جانب کھڑے ہوں گے۔
(
فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ
)
( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۱۵)
وہ سب کے دلوں کے بھید‘ ذہنی خیالات و نیتوں اور ارادوں سے واقف ہے:
(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِه نَفْسُه
)
(سورہ ق‘ آیت ۱۶)
وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے:
(
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ
)
( سورہ ق‘ آیت ۱۶)
وہ تمام کمالات کا حامل ہے اور ہر نقص و عیب سے مبرا اور منزہ ہے:
(
وَلِلهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى
)
( سورہ اعراف‘ آیت ۱۸۰)
وہ جسم نہیں ہے اور نہ ہی اسے آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے:
(
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُوَهُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ
)
(سورہ انعام‘ آیت ۱۰۳)
الٰہی اور اسلامی تصور کائنات کی نظر میں کائنات ایک مخلوق ہے اور اللہ کی مشیت و عنایت ہی کے ذریعے قائم ہے۔ اگر کائنات ایک لمحے کے لئے بھی اللہ کے لطف و کرم سے محروم ہو جائے تو نیست و نابود ہو جائے گی۔ اس کائنات کو عبث و باطل اور لہو و لعب کے لئے نہیں بنایا گیا۔ انسان اور کائنات کی تخلیق میں حکیمانہ مقاصد کارفرما ہیں۔ کوئی بھی چیز بے جا اور فائدہ کے بغیر پیدا نہیں کی گئی۔ موجودہ نظام‘ ایک احسن و اکمل نظام ہے‘ کائنات عدل اور حق پر قائم ہے‘ نظام عالم اسباب و سببات پر استوار ہے اور ہر نتیجے کو اس کے مخصوص مقدمے اور سبب میں تلاش کرنا چاہیے‘ ہر نتیجے اور سبب سے صرف اسی کے مخصوص اثر کی توقع رکھنی چاہیے۔
قضا و قدر الٰہی‘ ہر موجود کو اس کی خاص علت کے راستے سے وجود میں لاتی ہے۔ قضا و تقدیر الٰہی بعینہ سلسلہ عدل و اسباب کی قضا و تقدیر ہے۔
(مزید وضاحت کیلئے استاد مطہری ہی کی کتاب ”انسان اور حیوان“)
اللہ کی مشیت اور ارادہ ”سنت“ کی صورت میں یعنی ایک کلی اصول اور قانون کی صورت میں کائنات میں جاری و ساری ہے۔ الٰہی سنتیں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ جو چیز تبدیل ہوتی ہے وہ الٰہی سنتوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے۔ انسان کے لئے دنیا کی اچھائی اور برائی کائنات میں اس کے طرز سلوک اور طریقہ عمل کے ساتھ مربوط ہے۔ انسان کو اچھے اور برے اعمال پر جہاں آخرت میں جزا یا سزا دی جائے گی‘ وہاں یہ اس دنیا میں بھی تاثیر سے خالی نہیں ہوں گے۔ ترویج و ارتقاء اللہ کی سنت ہے‘ کائنات انسانی ارتقاء کا گہوارہ ہے۔
قضا و قدر الٰہی پوری کائنات پر حاکم ہے اور انسان اسی قضا و قدر کی رو سے آزاد‘ خود مختار‘ ذمہ دار اور اپنی تقدیر پر حاکم ہے۔ انسان ذاتاً شرف و بزرگی کا حامل اور خلاف الٰہیہ کے لائق ہے۔ دنیا اور آخرت کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے دونوں کا رابطہ کاشت کے مرحلے اور فصل کی کٹائی کے مرحلے کے درمیان پائے جانے والے رابطے کی مانند ہے یعنی ہر شخص آخرت میں وہی کاٹے گا جو دنیا میں بوئے گا۔ اس کی مثال بچپن اور بڑھاپے کے مابین رابطے کی ہے کیوں کہ بڑھاپے کی بنیاد بچپن اور جوانی ہی میں پڑتی ہے۔
حقیقت بین تصور کائنات
اسلام ایک حقیقت بین اور واقعیت پرست دین ہے۔ اسلام کا لفظ تسلیم کے معنی میں ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کی پہلی شرط حقائق و واقعات کے سامنے تسلیم ہونا ہے‘ کسی بھی قسم کے عناد‘ ہٹ دھرمی‘ تعصب‘ اندھی تقلید“ جانب داری اور خود خواہی چونکہ حقیقت طلبی اور واقعیت پسندی کی روح کے خلاف ہے لہٰذا اسلام نے اس کی مذمت کی ہے اور اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسلام کی نظر میں اگر انسان حقیقت جو اور حق تک پہنچنے کی راہ میں کوشش کرنے والا ہو اور بالفرض حقیقت تک نہ پہنچے تو مغرور ہے لیکن اگر کسی کی روح میں عناد اور ڈھٹائی کا مادہ پایا جاتا ہو اور بالفرض تقلید‘ وراثت اور ان جیسی دوسری چیزوں کے وسیلے سے حقیقت کو قبول بھی کر لیتا ہے تب بھی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک حقیقی مسلمان چاہے وہ مرد ہو یا عورت‘ اپنی فطرت میں موجود اپنی حقیقت طلب روح کی بناء پر حکمت اور حقیقت کو جہاں سے بھی ملے‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حصول علم کی راہ میں تعصب سے کام نہیں لیتا‘ اگر بالفرض وہ دنیا کے دور ترین خطے میں بھی اسے پاتا ہے تو اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان‘ حقیقت کی جستجو کو نہ تو اپنی عمر کے کسی خاص زمانے میں محدود کرتا ہے اور نہ ہی کسی خاص علاقے سے وابستہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے مخصوص افراد میں منحصر سمجھتا ہے کیوں کہ اسلام کے عظیم پیشوا نے فرمایا ہے کہ حصول علم ہر مسلمان کا فریضہ ہے (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) اسی طرح ان کا ارشاد ہے:
خذوا الحکما ولو من المشرک… الحکما ضالا المومن فلیطلبها ولو فی ید اهل الشرک
(تحف العقول‘ ص ۱۹۸)
”حکمت کو کہیں سے بھی اور چاہے جس کے ہاتھ میں بھی دیکھو اسے حاصل کرو اگرچہ وہ کسی مشرک کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔“
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
اطلبوا العلم ولو بالصین
”علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے۔“
اس طرح سے آپ سے یہ بھی منسوب ہے کہ
اطلبوا العلم من المهد الی اللحد
”گہوارے سے گور تک علم حاصل کرو۔“
مسائل کے سلسلے میں یک طرفہ اور سطحی سوچ‘ ماں باپ کی اندھی تقلید نیز موروثی سنتوں اور روایات کے سامنے جھک جانا اسی لئے قابل مذمت ہے کہ یہ چیز روح تسلیم اور اسلام کی حقیقت طلبی کے خلاف ہے اور حقیقت سے دوری‘ انحراف اور خطا کا باعث بنتی ہے۔