تصور کائنات

تصور کائنات0%

تصور کائنات مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

تصور کائنات

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 10762
ڈاؤنلوڈ: 2314

تبصرے:

تصور کائنات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10762 / ڈاؤنلوڈ: 2314
سائز سائز سائز
تصور کائنات

تصور کائنات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تصور کائنات

مؤلف : شہید مرتضی مطہری

بہرحال ہر فلسفہ حیات اور مسلک و مکتب کائنات کے بارے میں ایک طرح کی تفسیر و تحلیل اور رائے و بصیرت پر استوار ہوتا ہے۔ ایک مکتب‘ کائنات کے بارے میں جس طرح کے طرز فکر اور فہم و شعور سے آگاہ کرتا ہے اسے ہی اس مکتب کی فکری اساس اور بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور اسے ہی فکری اساس و بنیاد کو تصور کائنات یا جہان بینی کہا جاتا ہے۔

ہر دین و مذہب اور اجتماعی فلسفہ ایک طرح کے تصور کائنات پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک مکتب و مذہب جن اہداف و مقاصد کی طرف دعوت دیتا ہے‘ جس راہ و روش کو متعین کرتا ہے‘ جس طرح چاہیے اور نہیں چاہیے‘ کو وجود میں لاتا ہے اور جن ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہے وہ سب اسی تصور کائنات کے لازمی نتیجہ کی مانند ہوتا ہے جو وہ مکتب پیش کرتا ہے۔

حکماء حکمت کو حکمت نظری اور حکمت عملی میں تقسیم کرتے ہیں۔ حکمت نظری عالم ہستی کو اس طرح پہچاننے کا نام ہے کہ جیسے وہ ہے جب کہ حکمت عملی‘ زندگی کی جو راہ متعین ہونی چاہیے اسی کے فہم و شعور کا نام ہے۔ لہٰذا جو کچھ کسی کا تصور ہو گا‘ اسی کے ماتحت وہ چاہے گا حکم لگائے گا‘ خصوصاً وہ ہست و وجود کہ جس کا بیان فلسفہ اولیٰ اور حکمت مابعدالطبیعات کے ذمہ ہے۔

عالم محسوس اور معرفت کائنات

جہان بینی کے لفظ سے کہ جس میں لفظ ”بینی“ آیا ہے جو دیکھنے کے معنی میں آیا ہے‘ غلط معنی مراد لیتے ہوئے‘ جہان بینی کو معرفت کائنات کے معنی میں نہیں لینا چاہیے‘ معرفت کائنات کے معنی میں جہان بینی یا تصور کائنات معرفت کے موضوع سے مربوط ہے جو انسان کے امتیازات میں سے ہے جب کہ اس کے برخلاف احساس انسان اور دیگر حیوانات کے درمیان مشترک ہے۔ اس بناء پر معرفت کائنات انسان کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کا تعلق اس کی فکری صلاحیت اور عقلی قوت سے ہے۔

بہت سے حیوانات دنیا کو محسوس کرنے کے اعتبار سے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں یا یہ کہ حیوانات بعض ایسے حواس کے حامل ہوتے ہیں جن سے انسان عاری ہوتا ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے‘ بعض پرندے ریڈار کی مانند ایک طرح کی حس رکھتے ہیں یا انسان کے ساتھ مشترک حواس میں انسان کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عقاب کی بصارت‘ کتے اور چیونٹی میں سونگھنے کی قوت اور چوہے کی قوت سماعت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات پر انسان کی برتری‘ کائنات کی معرفت کے اعتبار سے ہے یعنی انسان کائنات کے بارے میں ایک طرح کے گہرے شعور کا حامل ہوتا ہے۔ حیوان صرف کائنات کو محسوس کرتا ہے لیکن انسان کائنات کو محسوس کرنے کے علاوہ کائنات کی تفسیر بھی کرتا ہے۔

علم و معرفت سے کیا مراد ہے؟ احساس اور معرفت کے درمیان کس قسم کا رابطہ ہے؟ معرفت میں حسی عناصر کے علاوہ اور کون سے عناصر موجود ہوتے ہیں؟ وہ عناصر کہاں سے اور کس طرح ذہن میں داخل ہوتے ہیں؟ علم و معرفت کے عمل کا نظام ( Mechanism ) کیا ہے؟ صحیح اور غلط معرفت میں فرق کا معیار کیا ہے؟ یہ ایسے مسائل ہیں کہ ان کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے‘ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑ سکتے۔ جو چیز مسلم ہے‘ وہ یہ ہے کہ احساس اور معرفت میں فرق ہے۔ ایک چیز کو دیکھتے تو سب ہیں اور دیکھنے میں سب برابر ہیں لیکن گنتی کے چند افراد اس کی تفسیر کرتے ہیں اور کبھی ان کی تفسیر مختلف بھی ہوتی ہے۔

مختلف تصور ہائے کائنات

مجموعی طور پر کائنات کے بارے میں انسان کی تعبیر و تفسیر تین قسم کی ہو سکتی ہے یعنی اس کے تین مآخذ ہو سکتے ہیں: سائنس‘ فلسفہ اور دین۔ پس تصور کائنات بھی تین طرح کا ہے: سائنسی‘ فلسفی اور مذہبی تصور کائنات۔

(اس موضوع پر استاد شہید مطہری کی ایک کتاب ”شناخت در قرآن“ بھی فارسی میں منظرعام پر آ چکی ہے)

سائنسی تصور کائنات

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس ہمیں کس طرح اور کس حد تک بصیرت اور آگاہی عطا کرتی ہے۔ سائنس کی بنیاد دو چیزوں پر استوار ہے: ایک مفروضہ‘ دوسرا تجربہ۔ ایک سائنس دان کے ذہن میں کسی چیز کی تفسیر یا اسے کشف کرنے کے لئے سب سے پہلے مفروضہ قائم ہوتا ہے‘ اس کے بعد مفروضے کا عمل کے میدان یا لیبارٹری میں تجربہ کیا جاتا ہے۔ اگر تجربہ اس کی تائید کر دے تو ایک سائنسی اصول کی حیثیت سے اسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی اس سے بھی زیادہ جامع مفروضہ سامنے آ جائے اور بہتر تجربات اس کی تائید کر دیں‘ وگرنہ اس سائنسی اصول کا اعتبار اپنی جگہ پر باقی رہے گا لیکن جونہی کوئی اس سے بھی زیادہ جامع مفروضہ سامنے آ جائے تو یہ اصول اس کی جگہ خالی کر دے گا۔

یوں سائنس تجربے کے ذریعے عمل و اسباب اور ان کے آثار اور مسببات کو کشف کرتی ہے یا سائنسی تجربہ کسی چیز کی علت یا کسی چیز کے اثر یا معلول کو کشف کرتا ہے اور یہ سلسلہ یہیں پر تمام نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد بھی سائنس یا سائنسی تجربہ اس علت یا معلول کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے اور حتی الامکان اپنے سلسلہ انکشاف کو جاری رکھتا ہے۔

سائنس کی تجربے پر استوار ہونے کے لحاظ سے کچھ خصوصیات بھی ہیں اور کچھ حدود بھی۔ سائنسی انکشافات کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا دقیق‘ سنجیدہ اور مشخص و معین ہونا ہے۔ سائنس ایک جزوی مخلوق کے بارے میں ہزاروں معلومات انسان کے حوالے کرنے پر قادر ہے۔ سائنس درخت کے ایک پتے کے بارے میں علم کا ایک دفتر بنا سکتی ہے۔ سائنس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ چونکہ یہ انسان کو ہر موجود کے خاص قوانین سے آگاہ کرتی ہے لہٰذا اس انسان کو اس پتے یا چیز پر تصرف و تسلط حاصل کرنے کی راہ بھی بتا دیتی ہے اور اسی راستے سے صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔

لیکن سائنس جہاں دقیق‘ مشخص اور سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر جزوی چیز کے بارے میں ہزاروں مسائل لکھانے پر قادر ہے وہاں اس کا دائرہ محدود بھی ہے اور یہ محدودیت تجربے کے اعتبار سے ہے۔ سائنس اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ عملاًچیز کا تجربہ کرنے کی کوشش کرنے لگتی ہے لیکن کیا پوری کائنات اور اس کے تمام پہلوؤں کو تجربے کی قید میں لایا جا سکتا ہے۔ مثلاً سائنس عمل و اسباب یا اثرات و مسببات کی تلاش میں عملاً ایک خاص اور معین حد تک آگے بڑھتی ہے لیکن اس کے بعد ”مجھے علم نہیں“ کی منزل سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ سائنس ایک وسیع عالم ظلمت میں روشنی کے ایک ایسے سرچشمے کی مانند ہے جو ایک محدود حلقے کو منور کرتا ہے۔ اپنی اس حد سے پرے کی وہ کوئی خبر نہیں دے سکتی۔ کیا سائنس کائنات کے آغاز اور انجام کو تجربے کے ذریعے ثابت کر سکتی ہے یا کائنات کا دونوں اطراف سے لامتناہی ہونا قابل تجربہ ہے‘ یا یہ کہ جب ایک سائنس دان اس مقام تک پہنچتا ہے تو شعوری یا لاشعوری طور پر فلسفہ کے پروں پر بیٹھ کر اظہار نظر کرتا ہے؟

سائنس کی نظر میں کائنات ایک ایسی پرانی کتاب کی مانند ہے جس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا ہے‘ نہ اس کا اول معلوم ہے اور نہ ہی آخر۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی تصور کائنات جزئیات کا علم ہے نہ کہ معرفت کل‘ سائنس ہمیں کائنات کے بعض اجزاء سے آشنا کرتی ہے‘ نہ کہ کائنات کی پوری شخصیت اور شکل و صورت سے‘ سائنس دانوں کا سائنسی تصور کائنات ایسا ہے جیسے بعض لوگوں نے ہاتھی کو رات کی تاریکی میں چھو کر اور ٹٹول کر پہچانا ہو‘ جس نے ہاتھی کے کان کو چھوا اس نے ہاتھی کو ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے کی مانند تصور کیا اور جس نے ہاتھی کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اس نے اسے ایک ستون سمجھا اور جس نے اس کی پیٹھ کو چھوا اس نے اسے ایک تختہ سمجھا۔

ایک مکتب فکر یا نظریہ کائنات کے لئے سائنسی تصور کائنات پر انحصار کے حوالے سے اس کی نارسائی کا ایک رخ یہ ہے کہ نظری اعتبار سے سائنس کسی حقیقت کو جیسی کہ وہ ہے اور حقیقت ہستی کی کیفیت پر ایمان لانے پر مائل کرنے کے اعتبار سے ناپائیدار اور غیر مستحکم ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے کائنات کا چہرہ روز بروز تغیر و تبدل سے دوچار ہوتا رہتا ہے‘ کیوں کہ سائنس مفروضے اور تجربے پر استوار ہوتی ہے نہ کہ بدیہی اور ابتدائی عقلی اصولوں پر۔ مفروضے اور تجربے کی قدر و قیمت وقتی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی لئے سائنسی تصور کائنات متزلزل اور بے ثبات ہونے کی بناء پر ایمان و اعتقاد کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

ایمان و اعتقاد ایک ایسے مستحکم اور ناقابل تبدیل سہارے کی ایک ایسی بنیاد کا خواہاں ہوتا ہے جس میں ابدی رنگ پایا جاتا ہو۔

سائنسی تصور کائنات اپنی اس محدودیت کی بناء پر جس سائنسی وسائل (مفروضہ اور تجربہ) سائنس کے لئے جبراً وجود میں لائے ہیں‘ معرفت کائنات سے متعلق بعض بنیادی مسائل کا جواب دینے سے قاصر ہے جب کہ بہرحال ایک نظریہ کائنات یا مکتب فکر کے لئے ان کا قطعی جواب ضروری ہے مثلاً کائنات کہاں سے آئی ہے؟ اور کس طرف جا رہی ہے؟ ہم اس مجموعی کائنات میں کس نقطہ اور مقام پر کھڑے ہیں؟ کیا کائنات زمان کے اعتبار سے اول و آخر رکھتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح مکانی لحاظ سے کائنات کی کیا صورت ہے؟ کیا ہستی اپنی مجموعی حیثیت میں صحیح ہے یا غلط؟ حق ہے یا بے ہودہ اور باطل؟ خوبصورت ہے یا بدصورت؟ کیا کائنات پر ضروری اور ناقابل تبدیل سنتیں حاکم ہیں یا کوئی بھی ناقابل تبدیل سنت حاکم نہیں ہے؟ کیا عالم ہستی اپنی مجموعی حیثیت میں ایک زندہ اور باشعور چیز ہے یا مردہ اور بے شعور ہے اور انسان کا وجود ایک استثنائی اور حادثاتی وجود ہے؟ کیا موجود معدوم ہو جائے گا؟ کیا معدوم وجود میں آ سکتا ہے؟ کیا اعادہ معدوم ممکن ہے یا محال؟ کیا کائنات اور تاریخ ہوبہو اگرچہ کئی ارب سال کے بعد قابل تکرار ہے؟ جیسا کہ ڈورو کور کا کہنا ہے: کیا واقعاً کائنات پر وحدت کا راج ہے یا کثرت حاکم ہے؟ کیا کائنات مادی اور غیر مادی دونوں پہلوؤں کی حامل ہے اور اس کا غیر مادی حصہ پوری کائنات کا ایک چھوٹا سا جزو ہے؟ کیا کائنات ہدایت یافتہ اور بابصیرت ہے یا اندھی اور نابینا؟ کیا کائنات انسان کے ساتھ دست و گریبان ہے؟ کیا کائنات بھی انسان کے نیک اور برے اعمال کے مقابلے میں اچھا یا برا ردعمل دکھاتی ہے؟ کیا اس حیات فانی کے بعد کوئی باقی رہ جانے والی حیات بھی موجود ہے؟ اور اسی طرح کے دوسرے سوالات۔

سائنس ان تمام سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے کیوں کہ انہیں تجربہ گاہ میں نہیں لے جایا جا سکتا۔ سائنس محدود اور جزوی مسائل کا جواب دیتی ہے‘ لیکن کائنات کی مکمل تصویر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ایک مثال کے ذریعے اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے۔

ممکن ہے کسی شخص کے پاس تہران کے بارے میں علاقائی اور مقامی معلومات موجود ہوں۔ مثلاًیہ تہران یا اس کے بعض حصوں سے اچھی طرح واقف ہو‘ یہاں تک کہ وہ اس علاقے کی سڑکوں‘ گلیوں حتیٰ گھروں کو بھی اپنے ذہن میں تصور کر سکتا ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے علاقے کو اسی انداز میں پہچانتا ہو‘ اسی طرح ممکن ہے کوئی تیسرا‘ چوتھا اور پانچواں شخص‘ بعض اور دوسرے علاقوں سے واقف ہو‘ اس طرح سے کہ اگر ان تمام معلومات کو یکجا کیا جائے تو تہران کے مختلف حصوں کے بارے میں بقدر کافی معلومات جمع ہو جائیں گی۔ لیکن اگر تہران کو اس انداز میں پہچان لیا جائے‘ تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے تہران کو ہر پہلو سے پہچان لیا ہے؟ کیا ہم اس ذریعے سے تہران کی مجموعی اور مکمل تصویر پیش کرنے پر قادر ہیں یعنی تہران اپنی مجموعی حیثیت میں کس شکل و صورت کا حامل ہے؟ کیا دائرے کی شکل میں ہے یا مربع کی؟ کیا درخت کے پتے کی مانند ہے؟

اگر برگ و درخت کی مانند ہے تو یہ کونسا درخت ہے؟ علاقوں کا آپس میں ایک دوسرے سے کیا رابطہ ہے؟ بسوں کے راستے جو کئی علاقوں کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں‘ کس نوعیت کے ہیں؟ کیا تہران اپنی مجموعی حیثیت میں خوبصورت شجر ہے یا بدصورت؟ نہیں اس طرح سے ان چیزوں کا جواب نہیں مل سکتا۔ اگر ہم اس سلسلے میں معلومات اکٹھی کرنا چاہتے ہیں مثلاًہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ تہران کی شکل و صورت کیسی ہے؟ کیا تہران خوبصورت ہے؟ تو ہمیں ہوائی جہاز پر سوار ہو کر اور بلندی سے مجموعی لحاظ سے شہر کا جائزہ لینا ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ سائنس ایک تصور کائنات کے لئے ضروری اور نہایت بنیادی مسائل مثلاً کائنات کی مجموعی حیثیت کا جواب دینے سے عاجز ہے۔

ان تمام چیزوں کے علاوہ تصور کائنات کی قدر و قیمت سائنسی اور فنی ہے‘ نظری نہیں۔ جو چیز کسی مکتب فکر کا سہارا بن سکتی ہے اسے نظری قدر و قیمت کا حامل ہونا چاہیے نہ کہ عملی۔ سائنس کی نظری قدر و اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے آئینے میں کائنات کی حقیقت کو جیسی کہ وہ ہے‘ پیش کرے جب کہ اس کی فنی و عملی قدر و قیمت یہ ہے کہ سائنس خواہ حقیقت نما ہو یا نہ ہو‘ عمل کے میدان میں انسان کو توانائی عطا کر دے اور اس کے لئے ثمر بخش ہو‘ آج کی صنعت اور ٹیکنالوجی سائنس کی عملی و فنی قدر و قیمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آج کی دنیا میں سائنس کے بارے میں ایک تعجب انگیز امر یہ ہے کہ جہاں اس کی عملی و فنی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے‘ وہاں اس کی نظری حیثیت کم ہو گئی ہے۔ جو لوگ گہری نگاہ سے جائزہ نہیں لیتے‘ ان کا یہ خیال ہے کہ حقیقت و واقعیت کے سلسلے میں (کہ جو ایسی ہے‘ جیسا کہ سائنس بیان کرتی ہے)۔ اطمینان اور ایمان پیدا کرنے اور انسانی ضمیر کو روشن کرنے کے اعتبار سے بھی سائنسی ترقی و پیشرفت عملی ترقی کے شانہ بشانہ ہے‘ ناقابل انکار ہے‘ جب کہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

یہاں تک جو کچھ بیان کیا جا چکا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مکتب فکر ایک طرح کے ایسے تصور کائنات کا محتاج ہے جو اولاً تو معرفت کائنات سے متعلق ان بنیادی مسائل کا جواب دے جن کا تعلق پوری کائنات سے ہے نہ کہ اس کے کسی خاص جزو سے۔ دوسرا یہ کہ یہ مکتب فکر ایک پائیدار اعتماد اور دائمی معرفت کا باعث بنتا ہو‘ نہ یہ کہ وقتی اور جلد زائل ہو جانے والی معرفت کا موجب ہو‘ تیسرا یہ کہ مکتب فکر جو کچھ پیش کرے اسے نظری حیثیت کا حامل ہونا چاہیے اور حقیقت کو بیان کرنا چاہیے نہ کہ صرف عملی و فنی حیثیت کا حامل ہو‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ سائنسی تصور کائنات دوسری جہات سے اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود مذکورہ بالا تینوں خصوصیات سے عاری ہے۔

فلسفی تصور کائنات

ہرچند فلسفی تصور کائنات اپنے عمیق و معین ہونے کے اعتبار سے سائنسی تصور کائنات کی مانند نہیں ہے لیکن اس کے عوض بعض ایسے اصولوں پر استوار ہے جو اولاً تو بدیہی اور ذہن کے لئے ناقابل انکار ہیں اور برہانی و استدلالی روش کے تحت آگے بڑھتے ہیں اور ثانیاً عام اور ہمہ گیر ہیں (فلسفی اصطلاح میں ان کا تعلق موجود بماھو موجود کے احکام سے ہے) اسی لئے قدرتی طور پر ایک طرح کے یقین کے حامل ہیں اور جو ناپائیداری اور بے ثباتی سائنسی تصور کائنات میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ فلسفی تصور کائنات میں نہیں ہے اسی طرح سائنسی تصور کائنات کی طرح محدودیت بھی نہیں رکھتے۔

فلسفی تصور کائنات انہی مسائل کا جواب دہ ہے جن پر مختلف نظریات کا انحصار ہوتا ہے۔ فلسی تصور کائنات طرز فکر کائنات کے چہرے کو اس کی کلی حیثیت میں مشخص و معین کرتا ہے۔

سائنسی تصور کائنات اور فلسفی تصور کائنات دونوں عمل کے لئے مقدمہ ہیں‘ لیکن دونوں کی صورتیں مختلف ہیں۔ سائنسی تصور کائنات اس اعتبار سے مقدمہ عمل ہے کہ انسان کو کائنات پر تصرف اور اسے تبدیل کرنے کی قوت و توانائی عطا کرتا اور اسے عالم طبیعت پر مسلط کر دیتا ہے تاکہ وہ عالم طبیعت کو اپنے ارادہ و خواہش کے مطابق اپنے کام میں لا سکے‘ لیکن کہیں فلسفی تصور کائنات اس اعتبار سے مقدمہ عمل اور عمل میں موثر ہے کہ وہ انسان کے لئے جہت عمل اور زندگی کے انتخاب کی راہ متعین کرتا ہے۔ فلسفی تصور کائنات‘ عالم طبیعت کے مقابل انسان کے ردعمل اور طرزعمل میں موثر ہوتا ہے اور کائنات کے بارے میں انسان کے طرز فکر کو مشخص کرتا ہے نیز کائنات اور عالم ہستی کے سلسلے میں اس کی نگاہ کو ایک خاص زاویہ عطا کرتا ہے‘ انسان کو ایک نظریہ اپنانے میں مدد دتیا ہے یا کوئی نظریہ اس سے چھین لیتا ہے اس کی حیات کو بامعنی اور بامقصد یا بے ہودہ اور فضول قرار دے دیتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ سائنس انسان کو ایک ایسے تصور کائنات سے آگاہ نہیں کر سکتی جسے کسی مکتب فکر کی بنیاد قرار دیا جا سکے لیکن یہ کام فلسفہ کر سکتا ہے۔

مذہبی تصور کائنات

اگر کائنات اور عالم ہستی کے بارے میں ہر قسم کے کلی اظہار نظر کو فلسفی تصور کائنات سے تعبیر کیا جائے (البتہ اس چیز سے قطع نظر کہ اس کائنات کا مبداء قیاس‘ برہان یا استدلال ہے یا عالم غیب سے وحی کا تھا) تو مذہبی تصور کائنات کو ایک طرح کا فلسفی تصور کائنات سمجھنا چاہیے۔ مذہبی تصور کائنات اور فلسفی تصور کائنات کا دائرئہ کار ایک ہی ہے‘ جب کہ سائنسی تصور کائنات اس کے برخلاف ہے‘ لیکن اگر معرفت و شناخت کے مبداء پر نظر رکھی جائے تو مسلمہ طور پر مذہبی تصور کائنات اور فلسفی تصور کائنات دونوں کو مختلف انواع میں شمار کیا جائے گا۔

بعض مذاہب میں مثلاًمذہب اسلام میں کائنات کے بارے میں مذہبی شعور نے خود مذہب کی گہرائیوں میں فلسفی یعنی استدلالی رنگ اپنا رکھا ہے۔ مذہب کا انحصار عقل‘ استدلال اور برہان قائم کرنے پر ہے‘ اسی لئے اسلامی تصور کائنات اپنے اسلامی اور مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی اور عقلی تصور کائنات بھی ہے۔ مذہبی تصور کائنات کی ممتاز خصوصیات میں سے ایک اور خصوصیت (فلسفی تصور کائنات کی دو خصوصیات کے علاوہ یعنی ثبات و دوام اور عام اور ہمہ گیر) کہ سائنسی تصور کائنات اور خالص فلسفی تصور کائنات جس سے عاری ہے۔ اس کا تصور کائنات کے اصول کو تقدس عطا کرنا ہے۔

ایک مکتب فکر کے لئے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی مکتب پر ایمان تب ہی ہو سکتا ہے کہ جب اس کے اصولوں کے جاویداں اور ناقابل تغیر ہونے پر اعتقاد ہو اور خصوصاً سائنسی تصور کائنات میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ علاوہ ازیں کسی مکتب پر ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا احترام تقدس کی حد تک ہو۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی تصور کائنات اسی صورت میں کسی مکتب فکر اور ایمان کی بنیاد قرار پا سکتا ہے‘ جب اس میں مذہبی رنگ پایا جاتا ہو۔

گذشتہ گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ایک تصور کائنات پر اسی صورت میں کسی مکتب فکر کا انحصار ہو سکتا ہے جب اس میں ایک طرف تو مستحکم اور وسیع سوچ پائی جاتی ہو اور دوسری طرف مذہبی اصول کا تقدس اور حرمت بھی۔

ایک اچھے تصور کائنات کا معیار

ایک اچھے تصور کائنات کا معیار یہ ہے کہ اولاً تو وہ قابل اثبات و استدلال ہو۔ دوسرے الفاظ میں اسے عقل و منطق کی حمایت حاصل ہو‘ دوسرا یہ کہ حیات و زندگی کو بامقصد اور بامعنی بناتا ہو‘ اور زندگی کے بے کار‘ بے سود‘ فضول اور بے ہودہ ہونے کے تصور کو اور اس خیال کو کہ تمام راہیں نیستی اور عدم کی طرف جا پہنچتی ہیں‘ ذہنوں سے نکال دیتا ہو‘ تیسرا یہ کہ آرزو پرور‘ ولولہ انگیز اور پرامید بنانے والا ہو‘ چوتھا یہ کہ انسانی اور اجتماعی اہداف کو تقدس عطا کرنے کی قوت رکھتا ہو‘ پانچواں یہ کہ ذمہ دار اور جواب دہ بناتا ہو‘ کسی تصور کائنات کا منطقی ہونا‘ جہاں اس کے لئے عقلی حوالوں سے اور اذہان کے لئے قابل قبول بنانے کی راہ ہموار کرتا ہے‘ وہاں ان ابہامات اور تاریکیوں کو بھی برطرف کر دیتا ہے جو عمل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔

کسی مکتب کے تصور کائنات میں پرامید بنانے کا پہلو اسے تجاذب اور قوت کشش عطا کرتا ہے اور اسے طاقت و حرارت بھی بخشتا ہے۔

تصور کائنات کسی مکتب کے اہداف و مقاصد کو تقدس عطا کرتا ہے تو اس کے باعث لوگ باآسانی اس مکتب کے اہداف و مقاصد کی راہ میں اس وقت تک ایثار و قربانی پیش کرنے لگتے ہیں‘ جب تک مکتب کے عملی نفاذ کی ضمانت فراہم نہیں ہو جاتی۔ جب کوئی کسی شخص کے لئے ذمہ دارانہ جواب دہی پیدا کرتا ہے تو اس سے انسان اپنے ضمیر و وجدان کی گہرائیوں میں ذمہ داری کا احساس کرنے لگتا ہے اور معاشرے کے سامنے بھی اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔

اسلامی تصور کائنات

اسلامی تصور کائنات دراصل الٰہی توحیدی تصور کائنات ہی ہے۔ اسلام میں توحید کو اپنی خالص اور پاک ترین شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں خدا کی کوئی مثل و نظیر نہیں ہے:

( لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ) (سورہ شوریٰ‘ آیت ۱۱)

خدا نہ تو کسی چیز سے شباہت رکھتا ہے اور نہ ہی اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے‘ خدا مطلقاً بے نیاز ہے‘ سب اسی کے محتاج ہیں جبکہ وہ سب سے بے نیاز ہے۔

( اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ) ( سورہ فاطر‘ آیت ۱۵)

خدا ہر چیز سے آگاہ ہے اور ہر چیز پر قادر ہے:

( اِنَّه بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) ( سورہ شوریٰ‘ آیت ۱۲)

( وَاَنَّه عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) (سورہ حج‘ آیت ۶

اور دیگر بہت سی آیات)

وہ ہر جگہ پر ہے اور کوئی جگہ اس سے خالی نہیں۔ آسمان کے بالائی حصے‘ زمین کی گہرائی کی نسبت اس کے ساتھ ایک ہی ہے۔ ہم جس طرف بھی رخ کر کے کھڑے ہوں گے تو اسی کی جانب کھڑے ہوں گے۔

( فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ ) ( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۱۵)

وہ سب کے دلوں کے بھید‘ ذہنی خیالات و نیتوں اور ارادوں سے واقف ہے:

( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِه نَفْسُه ) (سورہ ق‘ آیت ۱۶)

وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے:

( وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ) ( سورہ ق‘ آیت ۱۶)

وہ تمام کمالات کا حامل ہے اور ہر نقص و عیب سے مبرا اور منزہ ہے:

( وَلِلهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى ) ( سورہ اعراف‘ آیت ۱۸۰)

وہ جسم نہیں ہے اور نہ ہی اسے آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے:

( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُوَهُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ) (سورہ انعام‘ آیت ۱۰۳)

الٰہی اور اسلامی تصور کائنات کی نظر میں کائنات ایک مخلوق ہے اور اللہ کی مشیت و عنایت ہی کے ذریعے قائم ہے۔ اگر کائنات ایک لمحے کے لئے بھی اللہ کے لطف و کرم سے محروم ہو جائے تو نیست و نابود ہو جائے گی۔ اس کائنات کو عبث و باطل اور لہو و لعب کے لئے نہیں بنایا گیا۔ انسان اور کائنات کی تخلیق میں حکیمانہ مقاصد کارفرما ہیں۔ کوئی بھی چیز بے جا اور فائدہ کے بغیر پیدا نہیں کی گئی۔ موجودہ نظام‘ ایک احسن و اکمل نظام ہے‘ کائنات عدل اور حق پر قائم ہے‘ نظام عالم اسباب و سببات پر استوار ہے اور ہر نتیجے کو اس کے مخصوص مقدمے اور سبب میں تلاش کرنا چاہیے‘ ہر نتیجے اور سبب سے صرف اسی کے مخصوص اثر کی توقع رکھنی چاہیے۔

قضا و قدر الٰہی‘ ہر موجود کو اس کی خاص علت کے راستے سے وجود میں لاتی ہے۔ قضا و تقدیر الٰہی بعینہ سلسلہ عدل و اسباب کی قضا و تقدیر ہے۔

(مزید وضاحت کیلئے استاد مطہری ہی کی کتاب ”انسان اور حیوان“)

اللہ کی مشیت اور ارادہ ”سنت“ کی صورت میں یعنی ایک کلی اصول اور قانون کی صورت میں کائنات میں جاری و ساری ہے۔ الٰہی سنتیں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ جو چیز تبدیل ہوتی ہے وہ الٰہی سنتوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے۔ انسان کے لئے دنیا کی اچھائی اور برائی کائنات میں اس کے طرز سلوک اور طریقہ عمل کے ساتھ مربوط ہے۔ انسان کو اچھے اور برے اعمال پر جہاں آخرت میں جزا یا سزا دی جائے گی‘ وہاں یہ اس دنیا میں بھی تاثیر سے خالی نہیں ہوں گے۔ ترویج و ارتقاء اللہ کی سنت ہے‘ کائنات انسانی ارتقاء کا گہوارہ ہے۔

قضا و قدر الٰہی پوری کائنات پر حاکم ہے اور انسان اسی قضا و قدر کی رو سے آزاد‘ خود مختار‘ ذمہ دار اور اپنی تقدیر پر حاکم ہے۔ انسان ذاتاً شرف و بزرگی کا حامل اور خلاف الٰہیہ کے لائق ہے۔ دنیا اور آخرت کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے دونوں کا رابطہ کاشت کے مرحلے اور فصل کی کٹائی کے مرحلے کے درمیان پائے جانے والے رابطے کی مانند ہے یعنی ہر شخص آخرت میں وہی کاٹے گا جو دنیا میں بوئے گا۔ اس کی مثال بچپن اور بڑھاپے کے مابین رابطے کی ہے کیوں کہ بڑھاپے کی بنیاد بچپن اور جوانی ہی میں پڑتی ہے۔

حقیقت بین تصور کائنات

اسلام ایک حقیقت بین اور واقعیت پرست دین ہے۔ اسلام کا لفظ تسلیم کے معنی میں ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کی پہلی شرط حقائق و واقعات کے سامنے تسلیم ہونا ہے‘ کسی بھی قسم کے عناد‘ ہٹ دھرمی‘ تعصب‘ اندھی تقلید“ جانب داری اور خود خواہی چونکہ حقیقت طلبی اور واقعیت پسندی کی روح کے خلاف ہے لہٰذا اسلام نے اس کی مذمت کی ہے اور اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسلام کی نظر میں اگر انسان حقیقت جو اور حق تک پہنچنے کی راہ میں کوشش کرنے والا ہو اور بالفرض حقیقت تک نہ پہنچے تو مغرور ہے لیکن اگر کسی کی روح میں عناد اور ڈھٹائی کا مادہ پایا جاتا ہو اور بالفرض تقلید‘ وراثت اور ان جیسی دوسری چیزوں کے وسیلے سے حقیقت کو قبول بھی کر لیتا ہے تب بھی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک حقیقی مسلمان چاہے وہ مرد ہو یا عورت‘ اپنی فطرت میں موجود اپنی حقیقت طلب روح کی بناء پر حکمت اور حقیقت کو جہاں سے بھی ملے‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حصول علم کی راہ میں تعصب سے کام نہیں لیتا‘ اگر بالفرض وہ دنیا کے دور ترین خطے میں بھی اسے پاتا ہے تو اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان‘ حقیقت کی جستجو کو نہ تو اپنی عمر کے کسی خاص زمانے میں محدود کرتا ہے اور نہ ہی کسی خاص علاقے سے وابستہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے مخصوص افراد میں منحصر سمجھتا ہے کیوں کہ اسلام کے عظیم پیشوا نے فرمایا ہے کہ حصول علم ہر مسلمان کا فریضہ ہے (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) اسی طرح ان کا ارشاد ہے:

خذوا الحکما ولو من المشرک… الحکما ضالا المومن فلیطلبها ولو فی ید اهل الشرک (تحف العقول‘ ص ۱۹۸)

”حکمت کو کہیں سے بھی اور چاہے جس کے ہاتھ میں بھی دیکھو اسے حاصل کرو اگرچہ وہ کسی مشرک کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔“

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

اطلبوا العلم ولو بالصین

”علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے۔“

اس طرح سے آپ سے یہ بھی منسوب ہے کہ

اطلبوا العلم من المهد الی اللحد

”گہوارے سے گور تک علم حاصل کرو۔“

مسائل کے سلسلے میں یک طرفہ اور سطحی سوچ‘ ماں باپ کی اندھی تقلید نیز موروثی سنتوں اور روایات کے سامنے جھک جانا اسی لئے قابل مذمت ہے کہ یہ چیز روح تسلیم اور اسلام کی حقیقت طلبی کے خلاف ہے اور حقیقت سے دوری‘ انحراف اور خطا کا باعث بنتی ہے۔