تصور کائنات

تصور کائنات0%

تصور کائنات مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

تصور کائنات

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 11861
ڈاؤنلوڈ: 2929

تبصرے:

تصور کائنات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11861 / ڈاؤنلوڈ: 2929
سائز سائز سائز
تصور کائنات

تصور کائنات

مؤلف:
اردو

خدا واقعیت مطلق اور مبدائے ہستی

انسان ایک واقعیت پسند مخلوق ہے۔ انسان کا بچہ اپنی زندگی کی ابتداء ہی سے ماں کی چھاتی کو ایک حقیقت کے عنوان سے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر جب آہستہ آہستہ بچے کی جسمانی اورذہنی نشوونما ہونے لگتی ہے تو وہ اپنے اور دیگر اشیاء کے درمیان تمیز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ اشیاء کو اپنے سے باہر اور جدا سمجھتا ہے‘ اگرچہ اشیاء کے ساتھ اس کا رابطہ ذہنی خیالات کے ایک سلسلہ کے ذریعے قائم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ذہن سے ایک وسیلے اور رابطہ عمل کے طور پر استفادہ کرتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اشیاء کی حقیقت اس کے ذہن میں موجود افکار سے جدا ہے۔

جن حقائق اور واقعیات کا انسان اپنے حواس کے ذریعے ادراک کرتا ہے اور جس کے مجموعے کو کائنات سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ وہ ایسے امور سے عبارت ہیں جن سے مندرجہ ذیل خصوصیات جدا نہیں ہو سکتیں:

۱ ۔ محدودیت

چھوٹے ترین ذرے سے لے کر بڑے ترین ستارے تک جن موجودات کو ہم محسوس کرتے ہیں اور اپنے قاعدے میں لاتے ہیں وہ محدود ہیں‘ یعنی وہ ایک خاص زمان و مکان کے حامل ہوتے ہیں اور زمان و مکان کی اس خاص حد سے باہر نہیں ہوتے‘ بعض موجودات زیادہ بڑے مکان اور زیادہ طویل زمانے پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض نہایت چھوٹے زمان و مکان پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن بہرحال سب ہی زمان و مکان کے ایک خاص حلقے میں محدود ہوتے ہیں۔

۲ ۔ تغیر و تبدل

تمام موجودات عالم متغیر اور ناپائیدار ہیں۔ محسوس دنیا میں کوئی بھی موجود ایک حالت میں باقی نہیں رہتا یا تو اس میں رشد و تکامل ہوتا ہے یا اسے فرسودگی و انحطاط کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک محسوس اور مادی وجود اپنی پوری زندگی میں خود حقیقت و واقعیت کے اندر مسلسل تبادلے کے عمل سے گزرتا ہے‘ یا تو وہ کوئی چیز حاصل کرتا ہے یا کسی کو دیتا ہے اور یا پھر حاصل بھی کرتا ہے اور دیتا بھی ہے یعنی یا تو وہ دوسری اشیاء کی حقیقت سے کچھ لے کر اپنی حقیقت کا جزو قرار دے سکتا ہے یا پھر اپنی حقیقت سے کچھ کسی اور کے حوالے کر دتیا ہے یا پھر دونوں کام انجام دیتا ہے۔ بہرحال کوئی بھی مادی مخلوق ثابت اور ایک ہی حالت میں باقی نہیں رہ سکتی اور یہ خاصیت کائنات کے تمام موجودات میں پائی جاتی ہے۔

۳ ۔ وابستگی

موجودات عالم کی ایک اور خصوصیت ان کی وابستگی اور محتاجی ہے۔ وجود کسی ایک یا کئی چیزوں کے ساتھ مشروط اور وابستہ ہوتا ہے اس طرح کہ اگر دوسری موجودات نہ ہوں تو یہ موجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ جب بھی ہم ان موجودات کی اصل حقیقت پر غور کرتے ہیں تو انہیں کسی ایک شرط یا بہت سی شرائط کے ساتھ ملا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ان محسوسات کے درمیان ہمیں ایسا کوئی موجود نظر نہیں آتا جو غیر مشروط اور مطلق (یعنی وہ دوسری موجودات کی قید سے اس طرح آزاد ہو کہ اس کے لئے ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو) طور پر موجود ہو سکتا ہو۔ تمام موجودات مشروط ہیں یعنی ان میں سے ہر ایک کسی دوسرے موجود کے ساتھ مشروط ہے اور دوسرا وجود بھی اپنے مقام پر ایک اور وجود کے ساتھ مشروط ہوتا ہے‘ اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا ہے۔

۴ ۔ محتاجی

جن موجودات کو ہم محسوس کرتے ہیں اور اپنے مشاہدے میں لاتے ہیں‘ وہ اپنی وابستگی اور مشروط ہونے کی بناء پر محتاج ہیں‘ محتاج ہونے سے کیا مراد ہے؟ یعنی یہ موجودات بے شمار شرائط سے وابستہ ہیں نیز ان میں سے ہر شرط اپنے مقام پر شرائط کے ایک سلسلے کے ساتھ وابستہ ہے۔ تمام وہ موجودات جو محسوس کی جاتی ہیں‘ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی ذات میں آزاد نہیں ہے یعنی اپنے غیر کا محتاج ہے‘ اور اپنے غیر کے معدوم ہو جانے کی صورت میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا‘ پس تمام موجودات میں نیاز مندی‘ احتیاج اور فقر کا پہلو پایا جاتا ہے۔

۵ ۔ نسبیت

محسوس اور مشہود موجودات چاہے اپنی اصل ہستی کے اعتبار سے ہوں یا کمالات ہستی کے لحاظ سے‘ نسبی ہیں یعنی اگر مثال کے طور پر انہیں عظمت و بزرگی‘ قوت و توانائی‘ جمال و زیبائی یا قدامت حتیٰ ہستی اور ہونے سے تعبیر کیا جائے تب بھی یہ دوسری اشیاء کے ساتھ موازنہ کے اعتبار سے ہو گا‘ مثلاً اگر ہم کہتے ہیں سورج بڑا ہے‘ اس کی بزرگی تو‘ ہماری زمین اور ہمارے نظام شمسی کے ستاروں کی نسبت سے ہو گی۔ لیکن یہی سورج بعض دوسرے ستاروں کی نسبت چھوٹا ہو گا‘ اگر ہم کہتے ہیں کہ فلاں حیوان بہت طاقت ور ہے تو ایسا انسان کی قوت یا اس سے کمزور تر ہونے کے ساتھ موازنہ کرنے کے اعتبار سے ہو گا۔ اسی طرح کسی چیز کا حسن و جمال‘ علم و دانائی حتیٰ اس کی ہستی اور اس کا ہونا کسی دوسری چیز کی ہستی و ظہور کے اعتبار سے ہے۔ ہر ہستی‘ کمال‘ دانائی‘ حسن و جمال‘ عظمت و طاقت اور جاہ و جلال اپنے سے کم سطح کی نسبت سے ہے لیکن اس سے بالاتر سطح کو بھی فرض کیا جا سکتا ہے اور اس کی نسبت اس سے بھی بالاتر کا فرض ممکن ہے۔ یہ تمام صفات اپنی ضد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہستی‘ ظہور وکمال‘ نقص و دانائی‘ جہل و جمال‘ پستی اور عظمت و جلالت اپنے بالاتر کی نسبت سے کم رنگ اور حقیر ہو جاتی ہے

انسان کی عقلی و فکری قوت حواس کے برخلاف صرف ظواہر پر ہی اکتفا نہیں کرتی‘ یہ ہستی کے باطن تک نفوذ کر جاتی ہے اور یہ فیصلہ سنا دیتی ہے کہ عالم ہستی ان محدود‘ متغیر‘ نسبی‘ مشروط اور محتاج امور تک محدود نہیں رہ سکتا۔

عالم ہستی کے جس ظاہری پہلو کو ہم اپنے ساتھ دیکھتے ہیں‘ اپنی مجموعی حقیقت میں ایستادہ اور ثابت ہے اور اپنی ذات میں مستقل ہے اس بناء پر لامحالہ ایک ایسی لامحدود‘ پائیدار‘ مطلق‘ غیر مشروط اور بے نیاز ذات موجود ہے‘ جو ہر زمانے اور ہر مکان میں موجود ہے اور جس پر تمام مخلوقات اور موجودات کا دار و مدار ہے وگرنہ عالم ہستی کا ظاہر قائم نہیں رہ سکتا تھا یعنی بنیادی طور پر عالم ہستی کا ظاہری پہلو موجود ہی نہ ہوتا بلکہ عدم اور ہستی محض ہوتا۔

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کو ”قیوم“، ”غنی اور صمد“ جیسی صفات سے یاد کیا ہے اور انہی صفات کی بنیاد پر اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ عالم ہستی کا ظاہری رخ ایک ایسی حقیقت کا محتاج ہے جس پر یہ قائم ہے‘ وہ حقیقت تمام محدود‘ نسبی اور مشروط چیزوں کا سہارا اور انہیں باقی رکھنے والی ہے۔ وہ بے نیاز ہے کیوں کہ ہر دوسری چیز نیازمند اور محتاج ہے۔ وہ ”بھرپور“ اور کامل (لامحدود) ہے کیوں کہ اس کے علاوہ ہر دوسری چیز اندر سے خالی اور ایسی حقیقت کی محتاج ہے جو اس کے خلاء کو ہستی سے پر کر دے۔

قرآن محسوس اور مشہود موجودات کو آیات (نشانیوں) سے تعبیر کرتا ہے یعنی ہر وجود اپنے مقام پر لامحدود ہستی اور اللہ کی مشیت‘ حیات اور علم و قدرت کی نشانی ہے۔ قرآن کی نظر میں پورا عالم طبیعت ایسی کتاب کی مانند ہے جسے ایک دانا و حکیم نے تحریر کیا ہے اور اس کی ہر سطر بلکہ اس کا ہر کلمہ اپنے منصنف کی بے انتہا حکمت و دانائی کی علامت ہے۔ قرآن کی نظر میں انسان جس قدر عملی صلاحیت اور اشیاء کی معرفت حاصل کرتا ہے اتنا ہی پہلے سے زیادہ اللہ کی رحمت و عنایت اور حکمت و قدرت کے آثار سے واقف ہوتا ہے۔

علوم طبیعت میں سے ہر علم جہاں ایک اعتبار سے طبیعت کی معرفت ہے وہاں ایک اور اعتبار اور زیادہ گہری نگاہ سے معرفت الٰہی ہے۔

اسی مقام پر اللہ کی معرفت کے حصول کی غرض سے نمونے کے طور پر اس کے حوالے سے قرآن کی بہت سی آیات میں سے ایک آیت پیش کی جا رہی ہے:

( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ) (سورئہ بقرہ‘ آیت ۱۶۴)

”بے شک آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے ادل بدل میں اور کشتیوں (جہازوں) کے لوگوں کو نفع کی چیزیں دریا میں لے چلنے میں اور پانی میں جو خدا نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد جلا دیا اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلا دیئے اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادل کہ جسے آسمان اور زمین کے مابین کام میں لگا رکھا ہے‘ ان سب میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے وجود خدا پر نشانیاں ہیں۔“

اس آیت شریفہ میں عمومی طور پر معرفت کائنات کے حصول مثلاً جہاز رانی کی صنعت‘ دنیا کی سیر و سیاحت اور اس کے معاشی فوائد‘ بادلوں کی حرکت‘ ہوا اور بارش کے بنیادی اسباب‘ علم حیاتیات اور جانداروں کی معرفت حاصل کرنے کی طرف دعوت دی گئی ہے اور ان علوم کے فلسفے پر غور و تدبیر کو معرفت الٰہی کا سبب قرار دیا ہے۔

صفات خدا

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ تمام صفات کمال کے ساتھ متصف ہے:

( لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ) (سورئہ حشر‘ آیت ۲۴)

اس کے لئے بہترین نام اور اعلیٰ ترین اوصاف ہیں۔

( وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (سورئہ روم‘ آیت ۲۷)

پورے عالم ہستی میں اعلیٰ صفات اسی سے مختص ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ حیی اور زندہ‘ قادر‘ علیم‘ مرید‘ رحیم‘ ہادی‘ خالق‘ حکیم‘ غفور اور عادل ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی ایسی صفت کمال نہیں ہے جو اس میں نہ ہو‘ دوسری طرف وہ جسم‘ مرکب‘ مرنے والا‘ عاجز‘ مجبور اور ظالم بھی نہیں ہے۔

پہلی قسم کی صفات جنہیں صفات کمال کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے متصف ہے‘ کو صفات ثبوتیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ دوسری قسم کی صفات جو کمی اور نقص کا نتیجہ ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے منزہ ہے‘ کو صفات سلبیہ کہا جاتا ہے۔

ہم خدا کی ثناء بھی کرتے ہیں اور تسبیح بھی۔ جب ہم اس کی ثناء و تعریف کرتے ہیں تو اسے اسماء حسنی اور صفات کمالیہ سے یاد کرتے ہیں لیکن جب ہم اس کی تسبیح کرتے ہیں تو اسے ان تمام چیزوں سے مبرا اور منزہ گردانتے ہیں جو اس کے لائق نہیں ہیں۔ اس طرح دونوں صورتوں میں اپنے لئے اس کی معرفت ثابت کرتے ہیں اور یوں اپنے آپ کو بلندی کی طرف لے جاتے ہیں۔

وحدانیت خدا

خداوند تعالیٰ کا کوئی مثل و مانند اور شریک نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایسا ہونا محال ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک خدا کی جگہ دو یا دو سے زیادہ خدا ہو جائیں کیوں کہ کسی چیز کا دو‘ تین یا زیادہ ہونا محدود اور نسبی موجودات کے خواص میں سے ہے جب کہ لامحدود اور مطلق وجود کے لئے تعدد و کثرت کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا مثلاًہماری ایک اولاد بھی ہو سکتی ہے اور دو سے زیادہ بھی‘ اسی طرح ہمارا ایک دوست یا دو اور دو سے زیادہ دوست بھی ہو سکتے ہیں‘ کیوں کہ اولاد یا دوست میں سے ہر ایک محدود مخلوق ہے اور ایک محدود مخلوق اپنے مقام پر مثل و نظیر رکھ سکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں وہ تعدد اور کثرت کو قبول کر لیتی ہے لیکن لامحدود وجود قابل کثرت نہیں ہوتا۔ ذیل میں دی جانے والی مثال اگرچہ ایک اعتبار سے کافی نہیں‘ لیکن اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے مفید ہے۔

محسوس اور مادی کائنات کی مختلف جہات کے بارے میں یعنی اجسام کی دنیا کے بارے میں حکماء اور سائنس دانوں نے دو قسم کا نظریہ پیش کیا ہے۔ بعض کا یہ دعویٰ ہے کہ کائنات کی اطراف اور جہات محدود ہیں یعنی یہ محسوس اور مادی دنیا ایک خاص مقام پر جا کر ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض کا یہ دعوٰی ہے کہ مادی کائنات لامحدود ہے اور کسی جہت سے بھی محدود نہیں ہے۔ مادی کائنات کا کوئی اول و آخر اور وسط نہیں ہے۔ اگر ہم مادی و جسمانی کائنات کو محدود سمجھتے ہیں تو ہمیں ایک سوال کا جواب دینا پڑے گا اور وہ یہ کہ آیا مادی و جسمانی کائنات ایک ہے یا ایک سے زیادہ؟ لیکن اگر کائنات لامحدود ہو تو پھر اس کائنات کے علاوہ ایک اور جسمانی کائنات کا فرض کرنا معقول ہو گا کیوں کہ ایسی صورت میں جس کائنات کا بھی تصور کریں گے تو یا وہ بعینہ کائنات ہو گی یا اس کی ایک یہ مثال اجسام کی دنیا اور ایسے جسمانی موجودات سے مربوط ہے جو محدود و مشروط خلق کئے گئے ہیں اور کوئی بھی حقیقت مطلق‘ مستقل اور قائم بالذات نہیں اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے محدود ہیں اور چونکہ اس فرض کی بناء پر کہ کائنات کے اطراف اور جہات لامحدود ہیں لہٰذا اس جیسی کسی دوسری کائنات کا فرض نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالیٰ کا وجود لامحدود اور واقعیت مطلق ہے اور ہر مسئلے پر محیط ہے اور کوئی زمان و مکان اس سے خالی نہیں‘ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے پس اس کے لئے نظیر و مثل کا ہونا محال ہے‘ اس جیسے مثل و نظیر کا فرض بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ ہم اس کی عنایت و تدبیر اور حکمت کے آثار تمام موجودات میں دیکھتے ہیں اور پوری کائنات میں ایک ہی ارادے‘ مشیت اور نظم کا ادراک کرتے ہیں اور یہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری کائنات کا ایک ہی مرکز و محور ہے نہ کہ دو یا کئی مراکز۔

اس کے علاوہ اگر کائنات میں ایک سے زیادہ خدا ہوں تو لازمی طور پر دو یا دو سے زیادہ ارادوں اورمشیتوں کا عمل دخل ہوتا‘ اور تمام مشیتیں ایک ہی نسبت سے چیزوں میں موثر ہوتیں اور جو چیزیں بھی وجود میں آنا چاہتیں‘ انہیں آن واحد میں دو وجود کا حاصل ہونا چاہیے تھا تاکہ ہر ایک اپنے منبع سے منتسب ہو سکے اور نتیجتاً کوئی بھی شے وجود میں نہ آ سکتی اور کائنات معدوم ہی رہتی۔ قرآن کریم نے اسی مطلب کی اشارہ کیا ہے:

( لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَاۚ )

”اگر ذات احدیت کے سوا متعدد خدا ہوتے تو آسمان و زمین تباہ ہو چکے ہوتے۔“(سورئہ انبیاء‘ آیت ۲۲)

عبادت و پرستش

ایک کامل ترین ذات اور صفات نیز ہر قسم کے نقص و عیب سے منزہ ہونے کے عنوان سے خدائے واحد کی معرفت‘ اسی طرح کائنات کے ساتھ اس کے رابطے کی معرفت جو نگہداشت‘ جود و سخا‘ عطوفت اور رحمانیت سے عبارت ہے‘ ہمارے اندر ایسے ردعمل کو جنم دیتی ہے جسے ہم پرستش اور عبادت سے تعبیر کرتے ہیں۔

پرستش ایک طرح کے ایسے خاضعانہ‘ حامدانہ اور شاکرانہ رابطے کا نام ہے جو انسان اپنے خدا سے برقرار کرتا ہے۔ اس قسم کا رابطہ انسان صرف اپنے خدا سے برقرار کر سکتا ہے اور صرف خدا ہی کے بارے میں صادق آتا ہے جب کہ غیر خدا کے بارے میں نہ تو صادق ہے اور نہ ہی جائز۔ ایک تنہا مبدائے ہستی اور ہر چیز کے یکتا و واحد مالک اور خدا کے عنوان سے اللہ کی معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی مخلوق کو بھی مقام عبادت میں اس کی شریک نہ ٹھہرائیں۔ قرآن کریم کا اس چیز پر بہت زیادہ اصرار اور زور ہے کہ عبادت و پرستش کو اللہ ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہیے اور خدا کے شریک ٹھہرانے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو عبادت یا پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے اور انسان کو خدا کے سوا کسی بھی دوسرے وجود سے اس قسم کا رابطہ برقرار نہیں کرنا چاہیے‘ اس سے کیا مراد ہے اور یہ رابطہ کس نوعیت کا ہے؟

عبادت کی تعریف

عبادت کے معنی و مفہوم کو جاننے کے لئے اور اس کی صحیح تعریف تک پہنچنے کے لئے دو مقدموں کا تذکرہ ضروری ہے:

۱۔ عبادت کا تعلق یا قول سے ہوتا ہے یا عمل سے:

قولی پرستش ان جملوں اور افکار سے عبارت ہوتی ہے جنہیں ہم زبان سے ادا کرتے ہیں مثلاً حمد و سورۃکی قرات اور وہ ذکر جو نماز کے دوران تشہد اور رکوع و سجود میں پڑھے جاتے ہیں‘ اسی طرح ذکر لبیک جسے حج میں پڑھا جاتا ہے۔ عملی پرستش جیسے نماز میں رکوع یا سجود یا حج میں وقوف عرفات و مشعر اور طواف۔ عام طور سے عبادات قولی و عملی دونوں اجزا پر مشتمل ہوتی ہیں جیسے نماز اور حج قولی اور عملی دونوں اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔

۲۔ انسانی اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں:

بعض اعمال نہ صرف یہ کہ کسی خاص مقصد کے بغیر اور کسی دوسری چیز کی علامت کے طور پر انجام دیئے جاتے ہیں بلکہ صرف اپنے سکونی اور طبیعی اثر کی خاطر انجام دیئے جاتے ہیں مثلاً ایک کسان صرف اس لئے کھیتی باڑی سے مربوط بعض کام انجام دیتا ہے کہ اس کے ذریعے ان کے طبیعی نتیجے تک پہنچ سکے۔

ایک کسان کھیتی باڑی سے مربوط کاموں کو بعض مقاصد اور جذبات و احساسات کو بیان کرنے کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ اسی طرح ایک درزی بھی سلائی سے مربوط بعض کام انجام دیتا ہے۔ جب ہم اپنے گھر سے سکول کی جانب جاتے ہیں اور ہماری نگاہ میں سکول پہنچنے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا تو ہم اپنے اس فعل کے ذریعے کسی اور مقصد کو بیان کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن ہم کچھ کام بعض مقاصد کی علامت کے عنوان سے اور اپنے خاص احساسات کے اظہار کی خاطر انجام دیتے ہیں مثلاً کسی چیز کی تصدیق کرنے کے لئے اپنا سر جھکا دیتے ہیں یا خضوع و خشوع کے کے اظہار کی خاطر گھر کی دہلیز پر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی دوسرے شخص کی تعظیم و تکریم کی خاطر جھک جاتے ہیں۔

انسان کے زیادہ تر کام پہلی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ بہت کم کام دوسری قسم کے ہوتے ہیں لیکن بہرحال انسان کے بعض کام کسی مقصد یا جذبے کے اظہار کی خاطر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے کام معاشرے میں رائج ان کے کلمات‘ الفاظ اور لغات کی مانند ہوتے ہیں جنہیں کسی خاص مقصد یا نیت کے اظہار کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔

ان دو مقدموں کو جان لینے کے بعد اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ عبادت چاہے قولی ہو یا عملی‘ بامعنی اور بامقصد ہوتی ہے۔ انسان اپنے عابدانہ جملوں کے ساتھ حقیقت بلکہ حقائق کا اظہار کرتا ہے اور اپنے عابدانہ اعمال مثلاً رکوع و سجود‘ وقوف و طواف اور امساک کے ذریعے وہی کچھ کہنا چاہتا ہے جو وہ اپنے افکار کے ذریعے کہنا چاہتا ہے۔

روح عبادت و پرستش

انسان اپنی قولی و عملی عبادت سے جس چیز کا اظہار کرتا ہے اسے ذیل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱ ۔اللہ کے ان اوصاف و صفات سے ثنا و تعریف جو خود اس کے ساتھ مخصوص ہیں‘ یعنی ایسے اوصاف جن کا مفہوم کمال مطلق ہے‘ مثلاً علم مطلق‘ قدرت مطلق‘ ارادہ مطلق اور کمال مطلق‘ علم مطلق اور قدرت و ارادہ مطلق سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی چیز کے ساتھ محدود اور مشروط نہیں ہے اور اسی چیز کا لازمی نتیجہ اللہ کی بے نیازی ہے۔

۲ ۔ہر قسم کے نقص و عیب سے اللہ کی تنزیہ و تسبیح مثلاً فنا‘ محدودیت‘ نادانی‘ ناتوانی‘ بخل‘ ظلم و ستم وغیرہ سے مبرہ و منزہ قرار دینا۔

۳ ۔ہر خیر و نعت کا اصل سرچشمہ ہونے کے عنوان سے اور اس اعتبار سے اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ہمارے پاس موجود تمام نعمتیں اسی کی عطا کردہ ہیں اور اس کے سوا دوسری ہر چیز اسی کی جانب سے وسیلہ ہے۔

۴ ۔اللہ کے سامنے اطاعت محض اور تسلیم محض کا اظہار اور اس چیز کا اقرار کہ وہ غیر مشروط طور پر قابل اطاعت اور مستحق اطاعت و تسلیم ہے اور ہم چونکہ اسی کے بندے ہیں لہٰذا اس کے سامنے جھکنے اور اس کی اطاعت کے اہل ہیں۔

۵ ۔مذکورہ بالا کسی مسئلے میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی کامل مطلق نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی ذات نقص و عیب سے منزہ نہیں ہے اس کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو اصل منعم ہو‘ وہ تمام نعمتوں کا اصل سرچشمہ ہے اور تمام تعریفیں اسی کی طرف لوٹتی ہیں۔ اس کے سوا کوئی بھی ذات نہیں جو اطاعت محض اور تسلیم محض کے لائق ہو۔ اطاعت چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو مثلاً پیغمبر‘ امام‘ اسلامی اور شرعی حاکم کی اطاعت نیز ماں باپ یا استاد کی اطاعت اگر اس کی رضا کی طرف لوٹتی نہ ہو‘ تو وہ جائز نہیں ہو گی۔ یہی وہ ردعمل ہے جس کا خدائے عظیم کے سامنے ایک بندہ مستحق ہے اور خدائے واحد کے سوا کسی بھی دوسرے وجود کے سامنے بندے کے لئے نہ تو اس قسم کا استحقاق صادق ہے اور نہ ہی جائز۔