تصور کائنات

تصور کائنات0%

تصور کائنات مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

تصور کائنات

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 11848
ڈاؤنلوڈ: 2920

تبصرے:

تصور کائنات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11848 / ڈاؤنلوڈ: 2920
سائز سائز سائز
تصور کائنات

تصور کائنات

مؤلف:
اردو

توحید کے درجات اور مراتب

توحید کے کچھ درجات اور مراتب ہیں جیسا کہ توحید کے مقابلے میں شرک کے بھی درجات اور مراتب ہیں۔ جب تک کوئی توحید کے ان مراحل و مراتب کو طے نہیں کر لیتا وہ حقیقی معنوں میں موحد نہیں ہو سکتا۔

۱ ۔ توحید ذاتی

توحید ذاتی سے مراد ذات حق تعالیٰ کی وحدانیت و یگانگت کی معرفت ہے۔ جو کوئی ذات حق تعالیٰ کے بارے میں پہلی معرفت حاصل کرتا ہے وہ اس کی بے نیازی ہے یعنی ایک ایسی ذات جو کسی جہت سے بھی کسی وجود کی محتاج نہیں ہے اور قرآن کی اصطلاح میں ”غنی“ ہے جب کہ ہر چیز اسی کی محتاج ہے اور اسی سے مدد لیتی ہے جب کہ وہ سب سے غنی ہے:

( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللهِۚوَاللهُ هُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ) ( سورۃ فاطر‘ آیت: ۱۵)

اور حکماء کی اصطلاح میں واجب الوجود ہے۔

اسی طرح اس کی ایک اور صفت ا”اولیت“ یعنی مبدایت و مشائیت اور خالقیت ہے وہ دوسرے موجودات کا خالق و مبداء ہے۔ تمام موجودات اسی سے ہیں جب کہ وہ خود کسی چیز سے نہیں ہے اور حکماء کی اصطلاح میں ”علت اولیٰ“ ہے۔

یہی وہ پہلی معرفت اور تصور ہے جو ہر شخص اللہ کے بارے میں رکھتا ہے۔ یعنی جو بھی اللہ کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے اثبات یا نفی اور تصدیق یا انکار کی کوشش کرتا ہے اس کے ذہن میں یہی معنی و مفہوم آتا ہے کہ کیا کوئی ایسی حقیقت موجود ہے جو کسی اور حقیقت سے وابستہ نہ ہو۔ بلکہ تمام حقیقتیں اسی سے وابستہ ہیں‘ اسی کے ارادے سے وجود میں آئی ہوں جبکہ وہ خود کسی اور اصل سے وجود میں نہ آیا ہو؟ توحید ذاتی سے مراد یہ ہے کہ حقیقت دوئی کی حامل اور قابل کثرت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مثل و نظیر ہے:

( لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌۚ ) (شوریٰ‘ آیت ۱۱)

اسی طرح اس کی برابری کا کوئی اور وجود نہیں ہے:

( وَلَمْ يَكُنْ لَّه كُفُوًا اَحَدٌ ) (اخلاص‘ آیت ۴)

کسی موجود کا ایک نوع کا فرد ہونا مثلاً حسن کا نوع انسان کا فرد ہونا (اور لامحالہ ایسی صورت میں انسان کے لئے دوسرے افراد بھی قابل فرض ہیں) مخلوقات و ممکنات کے ساتھ مخصوص ہے جب کہ ذات واجب الوجود اس معنی سے مبرا و منزہ ہے اور چونکہ ذات واجب الوجود واحد و یکتا ہے لہٰذا کائنات بھی مبداء و منشاء اور مرجع و منتہی کے اعتبار سے واحد و یکتا ہے۔

کائنات نہ تو متعدد سرچشموں سے وجود میں آئی ہے اور نہ ہی اسے متعدد سرچشموں کی طرف لوٹ کر جانا ہے بلکہ کائنات ایک ہی سرچشمے اور حقیقت سے وجود میں آئی ہے:

( قُلِ اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ) (رعد‘ آیت ۱۶)

اور اسی سرچشمے اور حقیقت کی طرف لوٹ جائے گی۔

( اَلَآ اِلَى اللهِ تَصِيْرُ الْاُمُوْرُۧ ) (شوریٰ‘ آیت ۵۳)

دوسرے الفاظ میں عالم ہستی ایک ہی قطب اور مرکز و محور کی حامل ہے۔

اللہ اور کائنات کے درمیان رابطہ‘ مخلوق کے ساتھ خالق کے رابطے یعنی معلول کے ساتھ علت (علت ایجادی) کے رابطے کی مانند ہے‘ نہ کہ چراغ کے ساتھ روشنی یا انسان کے ساتھ انسانی شعور کے رابطے کی مانند۔ یہ بات بجائے خود درست ہے کہ خدا کائنات سے جدا نہیں ہے۔ وہ تمام اشیاء کے ساتھ ہے جب کہ اشیاء اس کے ساتھ نہیں ہیں۔

هو معکم اینما کنتم لیس عن الاشیاء ولافیها ‘ (نہج البلاغہ)

لیکن کائنات سے اللہ کے جدا نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پس خدا کائنات کے لئے چراغ کے لئے روشنی اور جسم انسانی کے لئے شعور کی مانند ہے ایسی صورت میں کائنات خدا کے لئے علت ہو گی نہ کہ خدا کائنات کے لئے علت کیوں کہ چراغ روشنی کے لئے علت ہے نہ کہ روشنی چراغ کے لئے علت‘ اسی طرح کائنات اور انسان سے خدا کے جدا نہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خدا‘ کائنات اور انسان سب ایک ہی جہت رکھتے ہیں اور سب ایک ارادے اور روح سے حرکت کرتے اور حیات رکھتے ہیں۔ یہ سب مخلوق و ممکن کی صفات ہیں جبکہ خداوند تعالیٰ مخلوقات کی صفات سے منزہ ہے۔

( سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ ) (سورئہ الضافات‘ آیت۔ ۱۸۰)

۲ ۔ توحید صفاتی

توحید صفاتی سے مراد ذات حق تعالیٰ کی صفات کے ساتھ عینی وحدانیت اور ان صفات کی ایک دوسرے سے یگانگت کی معرفت و ادراک ہے۔ توحید ذاتی‘ ثانی اور مثل و نظیر کی نفی کرنا ہے جبکہ توحید صفاتی خود ذات سے ہر قسم کی ترکیب کی نفی کرنا ہے اگرچہ ذات خداوند تعالیٰ اوصاف کمالیہ جمال و جلال سے متصف ہے لیکن مختلف عینی جہات کی حامل نہیں ہے ذات کا صفات کے ساتھ اختلاف اور صفات کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کسی وجود کے محدود ہونے کا لازمہ ہے‘ لیکن کسی اور لامتناہی وجود کے لئے کوئی دوسرا قابل تصور نہیں ہے۔ اسی طرح ذات و صفات کے اختلاف اور کثرت و ترکیب کا بھی کوئی تصور نہیں‘ توحید ذاتی کی مانند توحید صفاتی بھی اسلامی معارف کے اصولوں اور انسان کے عالی ترین اور بالا ترین افکار میں سے ہے جو خاص کر مکتب تشیع میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ یہاں پر ہم صرف نہج البلاغہ کے پہلے خطبے کو درج کرتے ہیں:

الحمدللّٰه الذی لایبلغ مدحة القائلون ولا یحصی نعماء ه العادون‘ ولا یودی حقه المجتهدون‘ الذی لایدرک بعدالهمم ولا یناله غوص الفطن‘ الذی لیس لصفة حد محدود و لانعت موجود

تعریف اس خدا کی جس تک تعریف کرنے والوں کی تعریف نہیں پہنچ سکتی اور نہ شمار کرنے والے اس کی نعمتوں کو شمار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوشش کرنے والے اس کی بندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی کہنہ ذات تک بلند پرواز ہمتیں پہنچ سکتی ہیں‘ نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کی صفت کی کوئی حد انتہا نہیں نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں۔

ان جملات میں اللہ کی لامحدود صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی جملوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

کمال الاخلاص له نفی الصفات عنه لشهادة کل موصوف انه غیر الصفة و شهادة کل صفة انها غیر الموصوف فمن وصف اللّٰه سبحانه فقد قرنه و من قرنه

کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیوں کہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے لہٰذا جس نے ذات الٰہی کے علاوہ صفات مانیں اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا‘ اس نے ان جملوں میں اللہ کے لئے صفت کو ثابت بھی کیا ہے:

الذی لیس لصفة حد محدود

وہ ہستی جس کی صفات کی کوئی محدود حد نہیں اور صفات کی نفی بھی کی گئی ہے (لشھادة کل صفة انھا) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ سے جو صفت منسوب کی گئی ہے وہ ذات کی طرح لامحدود ہے اور عین ذات ہے اور جس صفت سے اللہ کی ذات مبرا و منزہ ہے‘ وہ محدود ہے اور غیر ذات کے ساتھ ساتھ دوسری صفت کا بھی غیر ہے۔ پس توحید صفاتی سے مراد ذات اور صفات حق کی وحدت و یگانگت کی معرفت ہے۔

۳ ۔ توحید افعالی

توحیدا فعالی سے مراد اس چیز کی معرفت اور ادراک ہے کہ کائنات اپنے تمام تر نظاموں‘ روایات‘ عقل و اسباب اور معلومات و مسببات کے باوجود اسی کا فعل اور اسی کے ارادے کا نتیجہ ہے جس طرح موجودات عالم اپنی ذات میں مستقل نہیں ہیں اور سب اسی کے ذریعے قائم اور اسی سے وابستہ ہیں اور وہ قرآن کی اصطلاح میں پوری کائنات کے لئے ”قیوم“ ہے اسی طرح تاثیر اور علت کے اعتبار سے بھی مستقل نہیں ہے لہٰذا خداوند تعالیٰ کا جس طرح اپنی ذات کے لحاظ سے کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح اپنی فاعلیت کے اعتبار سے بھی شریک نہیں ہے۔ ہر فاعل اور سبب کی حقیقت تاثیر اور فاعلیت نیز اس کا وجود اسی سے ہے اور اسی پر قائم ہے۔ ہر حالت اور قوت اسی پر قائم ہے:

ماشاء اللّٰه ولاقوة الابه‘ لاحول ولاقوة الا باللّٰه

انسان جو موجودات میں سے ایک ہے اور خدا کی مخلوق ہے‘ تمام مخلوقات کی طرح اپنے کام کی علت اور اس میں موثر ہے اور اس سے بالاتر یہ کہ اپنی تقدیر میں بھی موثر ہے لیکن کسی طور پر بھی کوئی موجود بھی مفوض نہیں یعنی کوئی ایسا موجود نہیں‘ جسے سب کچھ تفویض کر دیا گیا ہو۔

بحول اللّٰه وقوته اقوم واقعد

”اللہ کے حول و قوت سے میں کھڑا ہوتا ہوں اور بیٹھتا ہوں۔“

ایک وجود کو تمام اختیارات سونپ دینا (چاہے وہ انسان ہو یا غیر انسان) فاعلیت اور استقلال کے اعتبار سے خدا کے ساتھ اس وجود کو شریک ٹھہرانے کے مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ ذات میں استقلال کو بھی لازم گردانتا ہے جو توحید ذاتی کے بھی منافی ہے‘ چہ جائیکہ توحید افعالی کے منافی ہو‘ ایک دعا کے الفاظ یوں ہیں:

الحمدللّٰه الذی لم یتخذ صاحبا ولا ولد اولم یکن له شریک فی الملک ولم یکن له ولی من الذل و کبره تکبیراً (مفاتیح الجنان‘ دعای افتتاح)

حمد اس خدا کی جس نے ہمسر اور اولاد نہیں اپنائی اور کائنات پر حکومت کرنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح کائنات کا نظام سنبھالنے کے اعتبار سے ناتوانی کی بناء پر کوئی اس کا مددگار بھی نہیں ہے اسے اس طرح بزرگ و برتر جانو جس طرح اس کی ذات پاک کے لائق ہو۔

۴ ۔ توحید در عبادت

مذکورہ بالا تینوں مراتب کا تعلق توحید نظری اور ایک طرح کی معرفت سے ہے‘ لیکن توحید در عبادت‘ توحید عملی اور ”موجود ہونے“ اور ”واقع ہونے“ کی نوع سے ہے۔ توحید کے گذشتہ مراتب حقیقی تفکر و تعقل سے متعلق ہیں جبکہ توحید کا ہر مرحلہ حقیقی معنی میں ”ہونے“ اور ”ہو چکنے“ سے مربوط ہے۔ توحید نظری کمال کے بارے میں بصیرت ہے اور توحید عملی کمال تک پہنچنے کے لئے حرکت کرنے کا نام ہے۔ توحید نظری‘ وحدانیت خدا تک پہنچ جانے کا نام ہے جب کہ توحید عملی انسان کا ممتاز ہو جانا ہے توحید نظری ”دیکھنا“ ہے جب کہ توحید عملی ”راستے پر چلنا“ ہے۔

توحید عملی تشریح کرنے سے پہلے توحید نظری کے بارے میں ایک نقطے کا بیان ضروری ہے‘ کیا توحید نظری یعنی ذات خدا کو اس کی وحدانیت‘ ذات و صفات کی یگانگت اور فاعلیت میں وحدانیت کے اعتبار سے پہچاننا ممکن ہے یا غیر ممکن؟ ممکن ہونے کی صورت میں کیا اس قسم کی معرفتیں بشر کی سعادت میں موثر بھی ہیں یا یہ کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ توحید کے مراتب میں صرف توحید عملی ہی مفید ہے؟

اس قسم کی معرفتوں کے امکان یا عدم امکان کے بارے میں ہم اپنی کتاب ”اصول فلسفہ اور روش ریالیسم“ میں گفتگو کر چکے ہیں لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ باعث سعادت ہے یا فضول‘ اس کا تعلق انسان اور اس کی سعادت کے بارے میں ہماری طرز معرفت سے ہے‘ انسان اور ہستی کے بارے میں مادی افکار اس چیز کا باعث بن چکی ہیں کہ خدا پر اعتقاد رکھنے والے بھی الٰہی معارف کو بے فائدہ اور بے سود سمجھنے لگے ہیں اور انہیں ایک طرح کی تصوریت پسندی ( Idealism ) اور حقیقت پسندی ( Realism ) سے گریز قرار دینے لگے ہیں لیکن ایک ایسا مسلمان جس کی انسان کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ انسان کی حقیقت صرف اس کے مادی بدن میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی اصل حقیقت اور واقعیت اس کی روح ہے (ایسی روح جس کا جو ہر علم و تقدس اور پاکیزگی ہے) وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ توحید نظری جہاں توحید عملی کی اصل بنیاد ہے وہاں اپنی ذات میں کمال نفسانی بھی ہے بلکہ عالی ترین کمال نفسانی ہے کیوں کہ توحید نظری انسان کو حقیقی معنوں میں اللہ کی طرف لے جاتی ہے اور اسے کمال عطا کرتی ہے۔

( اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه ) (سورئہ فاطر‘ آیت ۱۰)

”اسی کی بارگاہ میں اچھی باتیں پہنچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خود بلند فرماتا ہے۔“

انسان کی انسانیت معرفت الٰہی کی مرہون منت ہے کیوں کہ انسان کی معرفت انسان سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا اصلی ترین اور محترم ترین حصہ ہے انسان جتنی زیادہ ہستی‘ نظام اور مبدائے ہستی کی معرفت پیدا کرے گا انسانیت (کہ جس کا نصف جوہر علم و معرفت ہے) اس میں پیدا ہوتی جائے گی۔

اسلام کی نظر میں خاص کر مذہب شیعہ کے معارف کے اعتبار سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ ان معارف پر مرتب سماجی اور عملی آثار سے قطع نظر‘ الٰہی معارف کا ادراک بذات خود انسانیت کا ہدف و مقصد ہے۔ (اس تمہید کے بعد) اب ہم توحید عملی کی طرف آتے ہیں۔

توحید عملی یا توحید در عبادت سے مراد ایک خدا کی پرستش ہے۔ دوسرے الفاظ میں حق تعالیٰ کی پرستش کی راہ میں منفرد اور ممتاز ہونا اور بعد میں ہم اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ اسلام کی نظر میں عبادت کے کئی مراتب اور درجات ہیں اور عبادت کے روشن ترین مراتب تقدس و تنزیہ پر مشتمل ایسے اعمال بجا لانا ہے کہ اگر انہیں غیر خدا کے لئے انجام دیا جائے تو اسے بجا لانے والا مکمل طور پر اہل توحید کی صف اور دائرئہ اسلام سے خارج ہو جائے گا‘ لیکن اسلام کی نظر میں عبادت و پرستش صرف اسی مرتبے پر منحصر نہیں ہے بلکہ کسی بھی قسم کی جہت کے انتخاب آئیڈیل اپنانے اور اپنا روحانی قبلہ قرار دینے سے عبارت ہے۔ جو شخص اپنی حیوانی خواہشات کو اپنی راہ تصور اور روحانی قبلہ قرار دیتا ہے وہ بھی پرستش کرتا ہے۔

( اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَه هَوٰىهُۭ )

”کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی ہوائے نفس کو اپنا خدا اور معبود قرار دے رکھا ہے؟“(سورئہ فرقان‘ آیت ۴۳)

جو شخص کسی ایسے فرد کے امر اور فرمان کی اطاعت کرتا ہے جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم نہیں دیا ہے اور اس کے سامنے تسلیم محض ہو جاتا ہے تو اس نے اس کی عبادت کی ہے۔

( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ ) (سورئہ توبہ‘ آیت ۳۱)

”(وہی لوگ) جنہوں نے اپنے اپنے علمائے دین اور زاہدوں کو اللہ کی بجائے اپنا خدا بنا لیا ہے۔“

( وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِۭ ) (سورئہ آل عمران‘ آیت ۶۴)

”بے شک ہم انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے کو اپنا خدا اور حاکم قرار نہیں دینا چاہتے۔“

اس بناء پر توحید عملی یا توحید در عبادت سے مراد صرف خدا کو قبلہ روح‘ اپنی سمت اور اپنا آئیڈیل قرار دینا اور اسی کی اطاعت کرنا اور اس کے مقابلے میں ہر دوسرے قبلہ‘ آئیڈیل اور جہت کی نفی کرنا اور خدا کے سوا کسی اور کی اطاعت نہ کرنا ہے یعنی اللہ ہی کے لئے خم و راست ہونا‘ اسی کے لئے قیام کرنا‘ اسی کی خدمت کرنا اسی کے لئے جینا اور مرنا‘ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے کہا ہے:

( وجهت وجهی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ) (سورئہ انعام‘ آیت ۷۹)

”اپنے صفحہ دل اور چہرہ قلب کو ایسی حقیقت کی جانب موڑ دیا ہے جس نے اعلیٰ اور پست کائنات کو وجود بخشا اور میں ہرگز مشرکین میں سے نہیں ہوں

( اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙلَا شَرِيْكَ لَهۚوَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ) ( سورئہ انعام‘ آیات ۱۶۲ اور ۱۶۳)

”بے شک میری نماز‘ میری عبادت‘ میرا جینا مرنا خدا ہی کے لئے ہے جو مختلف جہانوں کا رب ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ہی حق کے سامنے تسلیم ہونے والوں میں سے (ایک) ہوں۔“

یہی توحید ابراہیمی ان کی توحید عملی ہے کلمہ طیبہ یعنی لا الٰہ الا اللہ ہر چیز سے زیادہ توحید عملی پر دلالت کرتا ہے یعنی خدا کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے۔