تصور کائنات

تصور کائنات0%

تصور کائنات مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

تصور کائنات

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 11847
ڈاؤنلوڈ: 2920

تبصرے:

تصور کائنات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11847 / ڈاؤنلوڈ: 2920
سائز سائز سائز
تصور کائنات

تصور کائنات

مؤلف:
اردو

انسان اور توحید تک رسائی

ایک روحانی نظام اور ایک ارتقائی اور انسانی جہت میں انسان کو حقیقت وجودی کا وحدانیت تک پہنچنا اسی طرح ارتقاء و تکامل سے ہم آہنگ ایک اجتماعی نظام میں انسانی معاشرہ کا وحدت و یگانگت تک پہنچنا اور اس کے مقابلے میں انسان کی انفرادی شخصیت کا مختلف محوروں میں بٹ جانا اور غیر موزوں شعبوں میں اس کی حقیقت وجودی کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا نیز انسانی معاشرے کا متضاد‘ متناقض اور غیر موزوں اناؤں‘ گروہوں اور طبقوں میں بٹ جانے کا تعلق ایسے مسائل سے ہے جنہوں نے ہمیشہ فکر بشری کو اپنی جانب متوجہ کئے رکھا ہے۔ انسان کی شخصیت کی وحدت و یگانگت یعنی توحید تک رسائی کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ اس مقام پر تین طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ مادہ پرستانہ ( Materialistic Theory )‘ تصوریت ( Idealistic Theory ) کا نظریہ اور حقیقت پسندانہ نظریہ ( Realistic Theory )۔ اب ہم ان کے بارے میں ایک ایک کر کے گفتگو کرتے ہیں:

(الف) مادیت ( Materialism )

اس نظریے کا کہ جو صرف مادے کے بارے میں سوچتا اور روح کے لئے کسی قسم کی بنیادی حیثیت کا قائل نہیں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو چیز ایک انسان کو روحانی اعتبار سے اور انسانی معاشرے کو اجتماعی لحاظ سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے اور غیر موزوں جہات میں تبدیل کر دیتی ہے‘ وہ انسان (مالکیت) کے ساتھ اشیاء کا خاص رشتہ ہے۔ یہ اشیاء ہی ہیں جو انسان کے ساتھ اپنے خاص تعلق کی بناء پر‘ اسے انفرادی و روحانی لحاظ سے اور اجتماعی اعتبار سے منتشر کر دیتی ہیں۔ انسان ایک مدنی الطبع وجود ہے۔ ابتدائے تاریخ سے ہی انسان اجتماعی صورت میں زندگی گزارتا رہا ہے۔ کوئی ذاتی انا موجود نہیں تھی‘ یعنی اسے اپنی انا کا احساس نہیں تھا بلکہ اجتماعی حیثیت کا احساس تھا۔ وہ اپنے انفرادی وجود سے بے خبر تھا لیکن اپنے اجتماعی وجود کی معرفت ضرور رکھتا تھا۔ اس کا درد‘ اجتماع کا درد تھا اور اس کا احساس بھی معاشرے کا احساس تھا‘ وہ معاشرے کے لئے جیتا تھا نہ کہ اپنے لئے۔ اس کا ضمیر اور وجدان بھی اجتماعی اور معاشرتی تھا نہ کہ انفرادی۔ انسان ابتدائے تاریخ سے ہی اشتراکی زندگی کا حامل تھا‘ اسی لئے وہ ایک اجتماعی روح اور احساس کے ساتھ زندگی گزارتا تھا۔ اس کی زندگی شکار کے ساتھ گزرتی۔ ہر شخص سمندر اور جنگل سے اپنی احتیاج اور ضرورت کے مطابق ہی روزی حاصل کرتا تھا۔ اضافی پیداوار کا وجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ انسان نے زراعت کے میدان میں قدم رکھا اور اضافی پیداوار کا امکان فراہم کیا‘ جس کے نتیجے میں ایک گروہ کے لئے کام کرنے کا موقع فراہم ہو گیا‘ جب کہ دوسرے گروہ کے لئے کام نہ کرنے اور مفت خوری کی راہ ہموار ہو گئی اور یہی چیز اصول مالکیت کو جنم دینے کا موجب بن گئی۔ مخصوص مالکیت کے اصول نے یا دوسرے الفاظ میں کسی خاص گروہ کی دولت و ثروت (یعنی پانی اور زمین جیسے پیداواری ذرائع اور گائے اور آہن جیسے پیداواری وسائل) کے ساتھ مخصوص تعلق نے اجتماعی روح کو تباہ کر دیا اور ایک متحد معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک حصہ صاحب مال و ثروت اور منافع خور اور دوسرا محروم‘ نفع دینے والا اور زحمت کش‘ یوں جو معاشرہ اجتماعی حقیقت کا حامل تھا وہ مختلف اناؤں میں تقسیم ہو گیا اور پھر انسان اپنے ہی اندر سے مالکیت کے وجود میں آنے سے اپنی حقیقی خودی کو کہ جو ایک اجتماعی خودی تھی اور اپنے آپ کو بعینہ دوسرے انسانوں کی مانند تصور کرتی تھی‘ کھو بیٹھا اور اپنے آپ کو ”انسان“ سمجھنے کی بجائے ”مالک“ سمجھنے لگا۔ یوں وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا اور زوال پذیر ہونے لگا۔

صرف اسی قید اور رشتے کو ختم کرنے سے انسان ایک بار پھر اخلاقی ہم آہنگی اور روحانی سکون کے ساتھ ساتھ اجتماعی وحدت و سلامتی کی طرف لوٹ سکتا ہے اور تاریخ کی جبری حرکت بھی انہی وحدتوں کی جانب ہے۔

اس نظریے کے مطابق جن مالکیتوں نے انسانی وحدت کو کثرت میں بدلا اور اس کی اجتماعی حیثیت کو پارہ پارہ کر دیا ہے وہ ان کنگروں کی مانند ہیں جنہیں مولانا روم اپنی خوبصورت مثل میں لائے ہیں یعنی جنہوں نے سورج کے واحد و منبسط نور کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور سایوں کی پیدائش کا منشاء بن گئے‘ البتہ مولانا روم کی یہ مثل ایک عرفانی حقیقت پر دلالت کرتی ہے یعنی وحدت سے کثرت کا ظہور اور کثرت کی وحدت کی طرف بازگشت لیکن کچھ تاویل و تحریف کے بعد اسے مارکسیزم کے نظریے کے لئے ایک تمثیل قرار دیا جاتا ہے۔

ذیل کے اشعار میں یہی تمثیل بیان کی گئی ہے:

منبسط بودیم ھمچون آفتاب

بی سر و بی پا بودیم آن سرھمہ

یک گہر بودیم ھمچون آفتاب

بی گرہ بودیم و صفای ھمچو آب

چون بہ صورت آمد آن نور سرہ

شد عدد چون سایہ ھای کنگرہ

کنگرہ ویران کنید از منجنیق

تا رود فرق ازمیان این فریق

(ب) تصوریت ( Idealism )

اس نظریے کا تعلق انسان کی روح و باطن اور نفس کے ساتھ اس کے رابطے سے ہے‘ اور اسی کو بنیاد اور اساس قرار دیتا ہے۔ اس نظریے کے تحت اگرچہ تعلق اور رابطہ وحدت کی راہ میں رکاوٹ کثرت کا موجب اور اجتماع کو نابود کر دیتا ہے۔ انسان کو نفسیاتی و روحانی طور پر تباہ کر دیتا ہے اور معاشرے کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیتا ہے لیکن ہمیشہ جس سے تعلق پیدا کیا جاتا ہے اور رشتہ جوڑا جاتا ہے وہی تعلق پیدا کرنے والے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے نہ کہ تعلق پیدا کرنے والا اپنے متعلق کی وحدت کو منقسم کرتا ہے۔ انسان کے ساتھ اشیاء کا تعلق (مثلاً مال و دولت‘ عورت اور مقام و منصب وغیرہ) روح انسانی اور انسانی معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا موجب نہیں بنتا بلکہ اشیاء کے ساتھ انسان کا اندرونی اور قلبی رابطہ اور تعلق انسان کو اپنے سے بیگانہ بنانے اور اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسان کی ”مالکیت“ نے اسے اپنے معاشرے سے جدا کر دیا ہے۔ جو چیز انسان کی یکتائی کو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے تقسیم کر دیتی ہے‘ وہ ”میرا مال“، ”میری عورت“ اور میرا مقام و منصب“ نہیں ہے بلکہ وہ مال‘ عورت اور مقام و منصب کی جدا جدا حیثیت اور ان چیزوں کی میں ہے۔

”میں“ کے ”ہم“ میں بدلنے کے لئے انسان کے ساتھ اشیاء کا تعلق ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق ٹوٹنا چاہیے۔

انسان کو اشیاء کی قید سے رہا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی انسانی حقیقت کی طرف لوٹ آئے نہ کہ انسان کی قید سے اشیاء کو رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو معنوی و روحانی آزادی دیں‘ اشیاء کو آزاد اور رہا کرنے کا کیا فائدہ؟ انسان کو وحدت و اجتماعیت اور آزادی و نجات کی ضرورت ہے نہ کہ کسی ”چیز“ کی انسان کے لئے اجتماعی و اخلاقی توحید کی عامل تعلیم و تربیت خاص کر روحانی تعلیم و تربیت کے عوامل میں سے ہے نہ کہ اقتصادی عوامل کی مانند۔ انسان کا اندرونی ارتقاء اس کا عامل توحید ہے نہ کہ اس کا خارجی اور بیرونی نقص و عیب نہ یہ کہ اس سے مادیت کو چھین لیا جائے۔ انسان پہلے حیوان ہے پھر انسان۔

انسان بالطبع حیوان ہے اور بالاکتساب انسان۔ انسان‘ ایمان اور صحیح تعلیم و تربیت کے عوامل کے زیراثر اپنی پوشیدہ اور فطری انسانیت کو پا لیتا ہے جب تک انسان موثر روحانی عوامل کے تحت اپنی معنویت کو حاصل نہیں کر لیتا اور انسانی صورت میں نہیں آ جاتا اس وقت تک وہ حیوان بالطبع ہی رہتا ہے۔ یہاں پر روحوں اور جانوں کی وحدت و یگانگت کے امکان کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس بات کو مولانا روم نے یوں نظم بند کیا ہے:

جان حیوانی ندارد اتحاد

تو مجو این اتحاد از جان باد

گر خورد این نان‘ نگردد سیدآن

ورکشد بار این نگردد آن گران

بلکہ این شادی کند از مرگ آن

از حسد میرد چون بیند برگ آن

جان گرگان و سگان ازہم جدا است

متحد جانھای شیران خدا است

مومنان معدود لیک ایمان یکی

جسمشان محدود لیکن جان یکی

غیر فہم و جان کہ در گاو و خر است

آدمی را عقل و جانی دیگر است

وہ چراغ از حاضر آری در مکان

ھریکی باشد بہ صورت غیر آن

فرق نتوان کرد نور ھریکی

چون بہ نورش روی آری بی شکی

اطلب المعنی من القرآن قل

لانفرق بین احد من رسل

گر تو صد سیب و صد آبی بشمری

صد نما یہ یک شور چون بفشری

در معانی قسمت و اعداد نیست

در معانی تجزیہ و افراد نیست

مادے کو انسان کے اختراق و اجتماع کا عامل سمجھنا یعنی مادے کو یکجا کرنے سے انسان کا یکجا ہو جانا اور متفرق اور منقسم ہونے سے انسان کا متفرق اور منقسم ہونا اور مادے کو ایک ہو جانے سے انسان کا ایک ہو جانا اور اس اخلاقی و اجتماعی شخصیت کو پیداواری اور معاشی صورت حال کے تابع سمجھنا دراصل انسان کو نہ پہچاننے اور اصالت انسان اور اس کی قوت عقل اور ارادے پر ایمان نہ لانے کا نتیجہ اور مسلک انسانیت ( Humanism ) کا مخالف نظریہ ہے۔

اس کے علاوہ انسان سے مربوط اور متعلق اشیاء کا اس سے رابطہ ٹوٹنا ایک ناممکن امر ہے کیوں کہ اگر بالفرض مال و دولت کے سلسلے میں ایسا ہو بھی جائے تب بھی بیوی‘ بچوں اور خاندان کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

کیا اس سلسلے میں اشتراکیت کو زیربحث لاتے ہوئے جنسی کمیونزم کا قائل ہوا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو پھر کیوں وہ ممالک مخصوص خاندانی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو دولت و ثروت کے سلسلے میں کئی سال سے شخصی ملکیت کو کالعدم قرار دے چکے ہیں؟ اگر بالفرض خاندان کا مخصوص فطری نظام بھی اشتراکی ہو جائے تو مقام و منصب‘ شہرت اور اعزازات کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے‘ کیا انہیں بھی یکساں طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ لوگوں کی مخصوص بدنی و جسمانی صلاحیتوں نیز ان کی ذہنی و روحانی صلاحیتوں کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

یہ وہ واقعات ہیں جو انسان کے وجود کا حصہ ہیں اور انہیں نہ تو اس سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ برابر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

(ج) عینیت ( Realism )

اس نظریے کے مطابق جو چیز انسان کو انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے تقسیم کرتی ہے اور انسان کو جدا جدا کرنے کا بنیادی عامل ہے وہ اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق ہے۔ انسان کی اسارت و مصیبت اس کے مملوک ہونے کا نتیجہ ہے نہ کہ اس کی ملکیت کا۔ اسی لئے یہ نظریہ‘ فکری انقلاب‘ ایمان‘ نظریہ حیات اور روحانی آزادی کے بنیادی کردار کو تعلیم و تربیت کا عامل قرار دیتا ہے‘ لیکن اس نظریے کی رو سے انسان جس طرح محض مادہ نہیں ہے‘ محض روح بھی نہیں ہے‘ معاش اور معاد ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ جسم و روح دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں- جہاں توحید در عبادت اور حق پرستی کے زیر سایہ روحانی انتشار و افتراق کے عوامل سے مقابلہ کرنا ضروری ہے وہاں امتیازی سلوک‘ ناانصافی اور محرومیوں کے ساتھ بھی شدید جنگ کی ضرورت ہے۔

اسلام کی منطق یہی ہے۔ جونہی اسلام کا ظہور ہوا‘ آن واحد میں دو قسم کی تبدیلیاں اور تحریکیں وجود میں آئیں۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اگر امتیازی سلوک‘ بے انصافی‘ ملکیتوں کو ختم کر دیا جائے تو خود بخود ہر چیز درست ہو جائے گی۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اپنے باطن کی اصلاح کر لو اور ظاہر سے سروکار نہ رکھو‘ اور یہ بھی نہیں کہا کہ اگر اخلاق درست ہو گیا تو معاشرے کی خود بخود اصلاح ہو جائے گی۔ اسلام نے بیک وقت اللہ تعالیٰ پر ایمان اور توحید پرستی کے زیرسایہ روحانی و باطنی توحید کی ندا بھی دی ہے اور اجتماعی و معاشرتی اونچ نیچ کے ساتھ جہاد و مبارزت کے سائے میں اجتماعی توحید کی آواز بھی بلند کی۔ قرآن کریم کی یہ آیت جو توحید انسانی کے آسمان پر ستارہ بن کر چمک رہی ہے‘ وہی آیت ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سربراہان مملکت کے نام اپنے دعوت ناموں پر درج کیا تھا اور جو اسلام کی حقیقت بینی اور ہمہ گیر جہات کو بیان کرتی ہے۔

( قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِه شَئْا ) (سورئہ آل عمران آیت۔ ۶۴)

”ایک ہی بات‘ ایک ہی نظریے اور ایک ہی حقیقت کی طرف آؤ جو ہمارے اور آپ سب کے لئے یکساں ہے اور اس کی نسبت ہم سب کے ساتھ مساوی ہے‘ نہ تو ہمارے لئے کوئی خاص امتیاز ہے اور نہ ہی آپ کے لئے وہ یہ ہے کہ صرف خدائے واحد کی عبادت کریں اور اس کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں۔“

یہاں تک آیت کریمہ میں ایمان واحد‘ جہت واحد‘ قبلہ واحد ایک ہی آئیڈیل اور روحانی و معنوی آزادی تک پہنچنے کے ذرائع انسانوں میں وحدت و یگانگت پیدا کرنے کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

( وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ ) (سورئہ آل عمران)

”ہم میں سے بعض انسانوں کو بعض دوسروں کو اپنا رب نہیں بنانا چاہیے (جب کہ ہم سب کا رب خدا ہے) اور ارباب و بندہ میں تقسیم نہ ہوں۔“

آؤ ہم سب مل کر ان غلط معاشرتی رابطوں کو کاٹ ڈالیں جو انسانوں میں تفاوت کا باعث بنتے ہیں۔

خلافت اسلامی کے دگرگوں ہونے‘ دور جہالت کے طبقاتی نظام کے قیام‘ عوام کے ردعمل‘ لوگوں کی شورش اور حضرت عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد جب عوام بیعت کے لئے حضرت علی علیہ السلام پر ٹوٹ پڑے تو آپ نے مجبوراً خلافت کو قبول کر لیا۔ اگرچہ ذاتی طور پر آپ خلافت قبول نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن شرعی ذمہ داری نے آپ کو خلافت کا بوجھ اٹھانے کے لئے مجبور کر دیا۔ حضرت علیؑ اپنے ذاتی ناپسند اور شرعی ذمہ داری کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

لولا حضور الحاضر و قیام الحجه بوجود الناصر وما اخذ اللّٰه علی العلماء ان لا یقارو اعلی کظة ظالم ولا سغب مظلوم لالقیت حبلها علی غاربها ولسقیت اخرها بکاس اولها (نہج البلاغہ‘ خطبہ شقشقیہ‘ خطبہ ۳)

”اگر لوگ میرے گرد جمع نہ ہوتے‘ اگر لوگوں کی طرف سے میری نصرت کا اعلان کرنے سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوتی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کی شکم پری مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی مہار اسی اونٹنی کے کوہان پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا۔“

ہم سب جانتے ہیں حضرت علی ؑنے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد دو کاموں کو اپنے پروگراموں میں سرفہرست رکھا اور انہی کو اپنی ہمت و کوشش کا مرکز و محور قرار دیا‘ ایک لوگوں کو پند و نصیحت اور ان کی اخلاقی و روحانی اصلاح اور معارف الٰہی کا بیان کہ نہج البلاغہ جس کا نمونہ ہے اور دوسرا معاشرے میں ناجائز امتیازات کے خلاف جہاد۔ حضرت علیؑ نے صرف روحانی آزادی اور باطنی اصلاح پر ہی قناعت نہیں کی۔ اسی طرح صرف معاشرتی اصلاحات کو بھی کافی نہیں سمجھا۔ یوں حضرت علیؑ نے دو محاذوں پر اصلاح کے کام کا آغاز کیا اور اسلام کا پروگرام اور نصب العین بھی یہی ہے۔

یوں اسلام نے ایک طرف تو خدا پرستی کی راہ میں انسانوں میں اجتماعی اور انفرادی وحدت پیدا کرنے کے لئے تعلیم و تربیت کا پروگرام رکھا‘ دو چیزوں کی دعوت دی اور منطقی اوزار اپنایا اور دوسری طرف انسانوں کے درمیان غیر متوازن تعلقات کو منقطع کرنے‘ معاشرے میں طبقاتی نظام کو تہہ و بالا کرنے اور طاغوتی نظاموں کو سرنگوں کرنے کے لئے تلوار اٹھائی۔

ایک ایسا اسلامی معاشرہ جو طبقاتی تفاوت سے پاک ہو یعنی جس میں نہ امتیازی سلوک‘ نہ محرومیت ہو اور نہ ہی وہ معاشرہ اجتماعی امور سے لاتعلق ہو‘ کیوں کہ یہ بھی ایک طرح کا ظلم اور بے انصافی ہے۔ اختلاف و تفاوت اور ترجیحی و امتیازی سلوک کے درمیان فرق ہے جیسا کہ کائنات کے تکوینی نظام میں پایا جانے والا اختلاف اس میں حسن و جمال‘ تنوع‘ پیش رفت اور ارتقاء و کمال کا باعث ہے لیکن اسے ترجیحی یا امتیازی سلوک نہیں کہتے۔

اسلامی نظام مملکت امتیازی سلوک کا مخالف اور دشمن ہے نہ کہ اختلاف اور تفاوت اسلامی معاشرہ‘ مساوات‘ برابری اور بھائی چارہ کا معاشرہ ہے لیکن یہ منفی نہیں بلکہ مثبت مساوات ہے۔ منفی مساوات سے مراد اشخاص کی قدرتی ترجیحات کو حساب میں نہ لانا اور برابری و مساوات کے لئے ان کے اکتسابی امتیازات کو سلب کرنا ہے جب کہ مثبت مساوات سے مراد عوام کے لئے مساوی امکانا ت اور وسائل فراہم کرنا‘ ظالمانہ اور موہوم امتیازات سلب کرنا اور ہر شخص کو اس کی کمائی اور محنت کا مالک بنانا ہے۔

منفی مساوات اس مساوات کی مانند ہے جسے ایک داستان میں بیان کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کوہستانی علاقے میں ایک ظالم شخص رہتا تھا اور وہاں سے گزرنے والوں کو اپنا مہمان بنا کر پذیرائی کرتا تھا۔ سونے کے وقت مہمان کو ایک مخصوص بستر پر سونا ہوتا تھا۔ میزبان کے غلام مہمان کو اس مخصوص بستر پر سلا دیتے تھے۔ اگر اتفاق سے مہمان کا بدن اس بستر سے چھوٹا اور نہ بڑا ہوتا تو اسے سونے کی اجازت دے دی جاتی لیکن افسوس اس بدنصیب مہمان پر کہ جس کا جسم بستر کے مساوی نہ ہوتا۔ اگر اس کا جسم بستر سے بڑا ہوتا تو پاؤں کی طرف سے آری کے ذریعے اسے بستر کے برابر کر دیا جاتا اور اگر چھوٹا ہوتا تو دونوں طرف سے اسے اتنا کھینچا جاتا کہ وہ برابر ہو جاتا‘ بہرحال اس کا انجام واضح ہوتا۔

لیکن مثبت مساوات اس دلسوز اور مہربان استاد کی مانند ہوتی ہے جو تمام شاگردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر سب کے جواب مساوی ہوں تو سب کو ایک جیسے نمبر دیتا ہے اور جوابات میں اختلاف ہو تو ہر ایک کو اس کے ا ستحقاق کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ایک قدرتی معاشرہ ہے نہ کہ امتیازی اور منفی مساوات کا معاشرہ۔ اسلام کی تھیوری‘ صلاحیت کے مطابق کام اور کام کے مطابق استحقاق پر استوار ہے۔

امتیازی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں انسانوں کا باہمی رابطہ دوسرے کے استحصال پر استوار ہوتا ہے یعنی کسی سے جبراً فائدہ اٹھانا اور دوسروں کے کام اور زحمت کے نتیجے میں بعض افراد کا زندگی گزارنا۔ لیکن ایک طبیعی اور قدرتی معاشرے میں کسی بھی قسم کا ناجائز فائدہ اٹھانا اور کسی دوسرے شخص پر اپنی زندگی کا بوجھ ڈالنا پسندیدہ ہے۔ انسانوں کے درمیان رابطہ ”متقابل تسخیر“ کا رابطہ ہے سب پوری آزادی اور اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خدمت میں لگے ہیں اور سب ایک دوسرے کے کام آ رہے ہیں یعنی باہمی خدمت کا نظام حکم فرما ہوتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ جب افراد کے درمیان قدرتی اختلاف اور تفاوت پایا جاتا ہے تو جس میں زیادہ قوت و صلاحیت ہو گی وہی زیادہ قوت و صلاحیت جذب کرنے میں کامیاب ہو گا۔ مثلاً جو شخص زیادہ علمی صلاحیت کا مالک ہو گا‘ وہ زیادہ شیفتگان علم کو اپنی طرف مائل کرے گا اور زیادہ افراد کو مسخر کرے گا‘ اسی طرح جس میں فنی صلاحیت زیادہ ہو گی اتنے ہی دوسرے لوگ اس کے ماتحت رہتے ہوئے اس کی عقل و فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کی راہ میں حرکت کریں گے اور اس کے مطیع و فرماں بردار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جہاں معاشرے میں ”رب و مربوب“ کی نفی کرتا ہے‘ وہاں قدرتی اختلاف اور تفاوت نیز تخلیقی اعتبار سے مختلف صلاحیتوں کے درجات کی حقیقت کا بھی معترف ہے اور ”ایک دوسرے کے کام آنے کی بنیاد پر رابطے“ کی تائید کرتا ہے۔

( اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَۭنَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّاۭوَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ) (سورئہ زخرف‘ آیت ۳۲)

”کیا پروردگار کی رحمت (نبوت) کو انہوں نے تقسیم کیا ہے؟ (کیا یہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ جسے چاہیں خلعت نبوت عطا کر دیں اور جسے نہ چاہیں نہ کریں۔ ایک روز ہم ہی نے معیشت کو ان کے درمیان تقسیم کیا تھا اس طرح سے کہ دوسرے لوگوں کو مسخر کر سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت (نبوت) ان چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔“

اس آیت شریفہ سے ایک نکتہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ مراعات کا اختلاف یک طرفہ نہیں بعض لوگوں کے دو گروہ نہیں ہیں۔ ایک قدرتی مراعات کا حامل گروہ اور دوسرا قدرتی مراعات سے محروم گروہ‘ اگر ایسا ہوتا تو ایک طبقہ مطلق تسخیر کرنے والا اور دوسرا گروہ تسخیر ہونے والا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر قرآن کی تعبیر یوں ہونی چاہیے تھی:

( بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّاۭ )

”ہم نے بعض کو بعض کے مقابلے میں درجات دیئے ہیں تاکہ جنہیں درجات دیئے گئے ہیں وہ ان لوگوں کو مسخر کر سکیں‘ جنہیں درجات نہیں دیئے گئے۔“

جبکہ قرآن کی تعبیر یوں ہے:

( بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّاۭ )

”ہم نے بعض کو بعض کی نسبت درجات سے نوازا تاکہ بعض لوگ بعض کو اپنے لئے مسخر کر سکیں۔“

یعنی سب درجات سے بہرہ مند ہیں اور سب ایک دوسرے کو اپنے لئے مسخر کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چونکہ درجات طرفینی نوعیت کے ہیں لہٰذا تسخیر بھی طرفینی حیثیت کی حامل ہو گی۔

دوسرا نکتہ ”سخریا“ کے لفظ سے مربوط ہے‘ یہاں پر اس لفظ میں سین پر پیش کی حرکت دی گئی ہے جس کا یہی معنی ہے جو بیان کیا گیا‘ لیکن قرآن کی دیگر دو آیات میں سین پر زیر دی گئی ہے۔ ایک سورئہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۹ اور ۱۱۰

میں کہ جہاں اہل دوزخ کو خطاب کیا گیا ہے اور اہل ایمان کے ساتھ ان کے ناروا برتاؤ کی مذمت کی گئی ہے:

( اِنَّه كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ ) __( فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِيًّا ) __( وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ ) ۱۱۰ اور دوسری سورئہ مبارکہ ”ص“ کی آیت ۶۲ اور ۶۳

ہے کہ جس میں خود اہل دوزخ کی زبان سے کہا گیا ہے کہ:

( مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِۭاَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ ) ۶۳

قرآن سے بھی یہ بات ثابت ہے اور خود میں نے بھی جہاں تک تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے (مجمع البیان‘ کشاف‘ تفسیر امام‘ بیضاوی‘ روح البیان‘ صافی‘ المیزان) تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”سخریا“کے عین پر جو کسرہ آئی ہے وہ ”تمسخر اڑانے“ کے معنی میں ہے۔ صرف تفسیر مجمع البیان نے یہ ناقابل اعتنا قول نقل کیا ہے کہ بعض کے مطابق ”سخریا“ کا لفظ ”غلام بنائے جانے“ کے معنی میں ہے اور بعض نے مطلقاً یہ کہا ہے کہ ”سخریا“ سین پر کسرہ کے ساتھ ہمیشہ ”تمسخر اڑانے“ کے معنی میں استعمال ہو گا اور سین پر ضمہ کے ساتھ ”مسخر“ کے معنی میں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ”تسخیر اور مسخر“ کا کیا معنی اور مفہوم ہے۔

یہ دو لفظ قرآن کریم میں کئی مرتبہ آئے ہیں اور رام کرنے اور رام ہونے کے معنی میں ہے۔ قرآن کریم میں (حضرت داؤد علیہ السلام) کے لئے چاند‘ سورج‘ شب و روز‘ سمندر‘ نہریں اور پہاڑ‘ حضرت سلیمان کے لئے ہوا اور انسان کے لئے جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اسے مسخر کرنے کی بات کی گئی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ ان تمام موارد میں مقصد یہ ہے کہ ان امور کو اس انداز میں پیدا کیا گیا ہے کہ انسان کے لئے رام اور زیر استفادہ ہوں۔ ان تمام آیات میں تمام تر گفتگو انسان کے لئے ان اشیاء کے رام ہونے کے بارے میں ہے نہ کہ ان اشیاء کے لئے انسان کے رام ہونے کے بارے میں۔ لیکن زیربحث آیت میں دو طرفہ طور پر انسان کے لئے انسان کے مسخر اور رام ہونے کی بات کی گئی ہے۔

لفظ ”تسخیر“ کے مفہوم میں اکراہ و اجبار کا معنی پوشیدہ نہیں ہے مثلاً عاشق‘ معشوق کے لئے‘ مرید‘ مراد کے لئے‘ شاگرد‘ استاد کے لئے اور عام لوگ اکثر مایہ ناز اور ممتاز شخضیات کے لئے مسخر ہونے کے باوجود مجبور نہیں ہوتے‘ لہٰذا حکمائے اسلام نے بڑی ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ”فاعلیت بالتسخیر“ کی اصطلاح کو ”فاعلیت بالجبر“ سے جدا کیا ہے۔ البتہ ہر اجبار میں اپنا مطیع بنانا موجود ہے لیکن ہر مطیع بنانے میں اجبار کا پہلو نہیں ہے۔

اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس لفظ کے مفہوم میں قرآن کی اصطلاح یہی ہے لیکن مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں کہ یہ اصطلاح خاص قرآن کی اصطلاح ہے اور قرآن نے تخلیق کے عمل میں ایک غیر معمولی طور پر نادر حقیقت کی تفہیم کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کر کے لفظ کے اصل مفہوم کو اجاگر کیا ہے یا قرآن سے پہلے بھی یہ اصطلاح رائج تھی‘ یعنی طبیعی قوتوں کی فعالیت۔ فاعلیت تسخیری کی نوع سے ہے نہ کہ فاعلیت جبری کی نوع سے اور نہ ہی انہیں اپنے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کی بعض کتابوں مثلاً المنجد نے تسخیر کو جو بلا اجرت ذمہ داری سونپنے کے معنوں میں لیا ہے وہ کتنا ادھورا ہے۔ اہل لغت نے پہلے تو اس لفظ میں زبردستی اکراہ و اجبار کا معنی داخل کر دیا ہے جب کہ قرآن نے اس کے مفہوم میں اکراہ و اجبار کو زبردستی داخل کئے بغیر اسے تکوینی رابطے کے سلسلے میں استعمال کیا ہے۔

زیربحث آیت سماجی زندگی میں انسانوں کے اس تکوینی رابطے کو بیان کرتی ہے کہ یہ ”تمام لوگوں کے ساتھ عام لوگوں کا تسخیری“ رابطہ ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اجتماعی فلسفے کو بیان کرنے کے اعتبار سے یہ اہم ترین آیات ہیں۔ بیضاوی نے اپنی معروف تفسیر اور ان کی پیروی میں ”علامہ فیض“ نے تفسیر صافی میں کتنی خوبصورت اور اعلیٰ تفسیر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:لیتخذ بعضھم بععضا سخریا

کا معنی یہ ہے کہ دوسرے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استفادہ کریں تاکہ اس وسیلے سے ایک دوسرے کے درمیان محبت و الفت پیدا ہو‘ اور دنیا میں نظم و ضبط پیدا ہو جائے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سب کو ایک دوسرے کے لئے ضرورت مند پیدا کیا ہے۔

تسخیری رابطے کی صورت یہ ہے کہ جہاں قدرتی ضروریات نے انسانوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا ہے وہاں جبری رابطے کے برخلاف معاشرہ ایک آزادانہ مقابلے سے خارج نہیں ہو گا۔ حیوانات کی اجتماعی زندگی جبری رابطے کی بنیاد پر ہے لہٰذا انسان کا اجتماعی ہونا شہد کی مکھی یا چیونٹی اجتماعی ہونے سے مختلف ہے۔ ان کی زندگی میں جبری قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی مقابلے اور کشمکش کا میدان نہیں ہے اسی طرح اوپر اور نیچے جانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ انسان جہاں اجتماعی ہے وہاں ایک طرح کی حریت و آزادی کا حامل بھی ہے۔

انسانی معاشرہ ترقی و پیش رفت اور کمال و ارتقاء کے حصول کے لئے ایک مقابلے اور رقابت کا میدان ہے‘ جو قیود اور پابندیاں راہ کمال میں انفرادی آزادی کو محدود کر دیتی ہیں وہ انسانی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے سے روک دیتی ہیں۔

نظریہ مادیت کا ماڈل انسان چونکہ روحانی و باطنی آزادی تک نہیں پہنچ سکا بلکہ صرف بیرونی روابط اور تعلقات کے ساتھ اس کا رشتہ جڑا ہے‘ لہٰذا وہ ایسے بے بال و پر پرندے کی مانند ہو گیا ہے جس سے ہر قسم کی پابندی اٹھا دی گئی ہے لیکن وہ اپنے پر نہ ہونے کی بناء پر اڑنے کے قابل نہیں رہا لیکن نظریہ تصوریت کا ماڈل انسان چونکہ اندرونی طور پر آزاد لیکن بیرونی طور پر بندھا ہوا ہے لہٰذا وہ ایسے پرندے کی مانند ہے جس کے پر بھی سالم ہیں اور اس کے پیروں سے سنگین بوجھ بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر ابھی تک جو کچھ کہا گیا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ توحید عملی (چاہے انفرادی توحید عملی ہو یا اجتماعی) سے مراد توحید پرستی کی راہ میں فرد کا وحدت و یگانگت حاصل کرنا‘ ہر قسم کی قلبی پرستش مثلاً ہوا پرستی“ دولت پرستی‘ مقام پرستی وغیرہ کی نفی کرنا اور طاغوتی امتیازی رویوں اور ناانصافیوں کی نفی کے ذریعے توحید پرستی کی راہ میں معاشرے کا وحدت و یگانگت کو پانا ہے۔ جب تک فرد اور معاشرہ وحدت کو حاصل نہیں کر لیتا سعادت تک نہیں پہنچ سکتا اور صرف حق پرستی ہی کے زیرسایہ وحدت و یگانگت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم سورئہ مبارکہ زمر کی انتیسویں آیت میں نظام شرک میں انسانی شخصیت کے افتراق و انتشار‘ اس کی سرگردانی اور بے راہ روی اور اس کے برعکس توحیدی نظام میں اس کے وحدت و یگانگت تک پہنچنے‘ ایک سمت کو انتخاب کرنے اور کمال و ارتقاء کے راستے پر قدم رکھنے کو یوں بیان کرتا ہے:

( ضرب اللّٰه مثلا رجلا فیه شرکاء متشاکسون و رجلا سلما الرجل هل یستویان مثلا )

”خدا مثال لاتا ہے ایک ایسے شخص کی جو کئی بدچلن اور نالائق افراد کا بندہ بنا ہوا ہے (کہ جس میں سے ہر ایک نفرت و غصے اور غلط طریقے سے اسے کسی طرف چلنے کا حکم دیتا ہے) جب کہ دوسرا شخص صرف ایک فرد کے سامنے سر جھکاتا ہے۔ کیا یہ دونوں ایک جیسے ہیں؟“

یہاں علامہ اقبال کا یہ معروف شعر یاد آتا ہے:

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

نظام شرک میں انسان ہر لمحہ کسی ایک طرف کھنچا چلا جاتا ہے گویا سمندر کی لہروں میں ایک تنکے کی مانند جسے موجیں ہر لمحے کبھی ادھر کو لے جاتی ہیں کبھی ادھر کو لیکن نظام توحید ایک ایسے بحری جہاز کی مانند ہے جو رہنمائی کے پورے نظام سے آراستہ ہے اور ایک خیرخواہ کے فرمان پر منظم اور ہم آہنگ انداز میں حرکت کر رہا ہے۔