تصور کائنات

تصور کائنات0%

تصور کائنات مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

تصور کائنات

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 10888
ڈاؤنلوڈ: 2353

تبصرے:

تصور کائنات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10888 / ڈاؤنلوڈ: 2353
سائز سائز سائز
تصور کائنات

تصور کائنات

مؤلف:
اردو

توحید اور شرک کی حدود

توحید اور شرک نظری ہو یا عملی اس کی ٹھیک حد کیا ہے؟ کون سی فکر توحیدی ہے اور کون سی مشرکانہ؟ کس طرح کا عمل توحیدی ہے اور کس طرح کا مشرکانہ؟ کیا اللہ کے سوا کسی اور ہستی پر ایمان رکھنا شرک ہے؟ (شرک ذاتی) اور کیا توحید ذاتی کا لازم یہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی چیز کی موجودیت (چاہے وہ مخلوق کی حیثیت ہی سے کیوں نہ ہو) پہ ایمان نہیں رکھنا چاہیے (ایک طرح کا عقیدہ وحدت وجود)؟

مخلوق خدا کا فعل خدا ہونا ایک واضح سی بات ہے۔ فعل خدا خود اس کی شانوں میں سے ایک شان ہے‘ کوئی اس کا ثانی نہیں اور کوئی اس کے مدمقابل نہیں۔ اللہ کی مخلوقات اس کی فیاضیت کی تجلیاں ہیں۔ مخلوق ہونے کی حیثیت میں وجود مخلوق پر اعتقاد توحید کی ضد نہیں ہے‘ بلکہ اسے تمام اور مکمل کرنے والی ہے۔ پس توحید و شرک کی حد کسی دوسری چیز کا وجود رکھنا یا نہ رکھنا چاہے وہ اسی مخلوق سے کیوں نہ ہو‘ نہیں ہے۔

کیا سببیت و مسببیت اور تاثیر و تاثر پر اعتقاد رکھنا شرک ہے؟ (خالقیت اور فاعلیت میں شرک) اور کیا توحید افعالی کا لازم یہ ہے کہ ہم دنیا کے سبب و مسبب کے نظام کا انکار کریں اور ہر سبب اور ہر اثر کو براہ راست اور بلاواسطہ خدا سے نسبت دیں اور اسباب کے لئے کسی کردار کے قائل نہ ہوں؟ مثلاً ہم یہ کہیں کہ آگ کا جلنے میں‘ پانی کا سیراب کرنے میں‘ بارش کا نشوونما میں اور دوا کا صحت دینے میں کوئی کردار نہیں‘ اورخدا ہی ہے جو بطور مستقیم صحت دیتا ہے‘ بطور مستقیم سیراب کرتا ہے‘ بطور مستقیم نشوونما کرتا ہے اور بطور مستقیم ہی صحت بخشتا ہے اور ان عوامل کا ہونا نہ ہونا یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے کاموں کو ان امور کے ذریعے انجام دے مثلاً اگر انسان کی عادت یہ ہو کہ ہمیشہ لکھتے وقت اپنی ٹوپی سر پر رکھتا ہو تو اگر ٹوپی کے ہونے یا نہ ہونے کی لکھنے میں کوئی تاثیر نہیں ہے‘ لیکن لکھنے والا یہ نہیں چاہتا کہ ٹوپی کے بغیر لکھے۔ اشیاء کا ہونا یا نہ ہونا کہ جنہیں ہم عوامل و اسباب کہتے ہیں اسی مثال کی مانند ہیں اور اگر ہم اس کے سوا کسی اور چیز کے قائل ہوتے ہیں تو گویا ہم خدا کی فاعلیت میں نہ صرف ایک بلکہ کئی شریک قرار دیتے ہیں۔ (اشارہ اور جبری مکتب فکر)

یہ نظریہ بھی درست نہیں ہے جس طرح مخلوق پر ایمان شرک ذاتی اور خدا کے مقابل ایک دوسرے خدا اور محور پراعتقاد کے مساوی نہیں بلکہ اس سے خدائے واحد کے وجود پر اعتقاد مکمل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس امر پر توجہ کرتے ہوئے کہ مخلوقات جس طرح اپنی ذات میں مستقل نہیں تاثیر میں بھی استقلال سے عاری ہیں اور اسی کے وجود سے موجود اور اسی تاثیر سے موثر ہیں۔ تو نظام کائنات میں مخلوقات کے کردار اور تاثیر و تاثر پر اعتماد بھی شرک در خالصیت نہیں ہے بلکہ یہ اعتقاد خداوند عالم کی خالصیت کو مکمل کرتا ہے‘ ہاں! اگر ہم مخلوقات کے لئے تاثیر‘ استقلال اور تفویض کے قائل ہو جائیں اور یہ سوچنے لگیں کہ کائنات سے خدا کی نسبت ایسے ہی ہے جیسے صنعت گر کی صنعت کے ساتھ (مثلاً گاڑی بنانے والی کی گاڑی کے ساتھ نسبت) اس طرح کہ صنعت اپنے وجود میں آنے کے لئے صنعت گر کی محتاج ہوتی ہے لیکن جب یہ وجود میں آ جاتی ہے تو ایک خاص طریقے پر اپنا کام جاری رکھتا ہے‘ صنعت گر کا صنعت کے بنانے میں تو ہاتھ ہوتا ہے‘ لیکن چیز کے بن جانے کے بعد اس کے کام کرنے میں نہیں۔ اگر گاڑی بنانے والا مر بھی جائے تب بھی گاڑی اپنا کام انجام دے گی۔ اگر ہم اس انداز میں سوچنا شروع کر دیں کہ اللہ کے ساتھ کائنات کے عوامل جیسے پانی‘ بارش‘ بجلی‘ حرارت‘ مٹی‘ گھاس‘ حیوان اور انسان وغیرہ کی نسبت بھی ایسے ہی ہے (جیسا کہ معتزلہ اتفاق سے اسی چیز کے قائل ہیں) تو یہ قطعی طور پر شرک ہے۔ مخلوق اپنے وجود میں آنے اور بقا کے لئے خالق کی محتاج ہے۔ اپنی بقا اور تاثیر کے لئے اتنی ہی محتاج ہے جتنی اپنے وجود میں آنے کے لئے‘ یہ کائنات عین فیض‘ عین تعلق‘ عین ارتباط‘ عین وابستگی اور عین ”اسی سے“ ہے۔ لہٰذا اشیاء کی تاثیر اور ان کی سببیت عین تاثیر اور سببیت خدا ہے۔ انسان ہو یا غیر انسان کائنات کی توانائیوں اور قوتوں کی خلاقیت عین خلاقیت خدا اور اس کی فاعلیت کا پھیلاؤ ہے‘ بلکہ کارخانہ عالم میں اشیاء کے عمل دخل کی سوچ شرک ہے اور یہ فکر ہمارے ذہنوں میں اس امر کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اپنی نادانی کی بناء پر ذات حق کے مقابل موجودات کو مستقل گردانا ہے اور اسی سبب اگر موجودات کا اثرانداز ہونے میں کوئی کردار ہو تو ہم ان تاثیرات کو دوسرے محوروں کی طرف موڑ دیتے ہیں‘ پس توحید و شرک کی حد یہ نہیں ہے کہ ہم تاثیرات اور اسباب میں غیر خدا کے لئے کسی کردار کے قائل ہوں یا نہ ہوں۔

کیا مافوق الفطرت طاقت و تاثیر پر ایمان توحید و شرک کی حد ہے؟ یعنی فطرت کے عام قوانین سے ماوراء طاقت کی حامل ہستی پر ایمان خواہ وہ فرشتہ ہو یا انسان (مثلاً پیغمبر یا امام) شرک ہے لیکن متعارف اور معمولی حد میں کسی قوت و تاثیر پر اعتقاد شرک نہیں ہے اسی طرح کیا دنیا سے چلے جانے والے انسان کی طاقت و تاثیر پر اعتقاد شرک ہے کیوں کہ مردہ انسان تو جماد ہے اور طبیعی قوانین کی رو سے جماد نہ شعور رکھتا ہے نہ طاقت اور نہ ار ادہ‘ پس مرنے والے کی قوت ادراک پر ایمان‘ اسے سلام کرنا‘ اس کی تعظیم بجا لانا‘ اسے احترام کی نظر سے دیکھنا‘ اسے اپنی حاجتوں کے لئے بلانا اور اس سے کچھ چاہنا شرک ہے؟ کیوں کہ اس سے غیر خدا کے ماورائے طبیعی طاقت پر اعتقاد لازم آتا ہے‘ اسی طرح کیا اشیاء کے لئے پراسرار اور ناقابل شناخت تاثیرات کا عقیدہ شرک ہے اور کسی شے کے لئے شفا دینے کی تاثیر یا استجابت کے لئے کسی خاص مکان کی خصوصیت پر عقیدہ گمراہی ہے؟ کیوں کہ یہ امر کسی شے کے بارے میں مافوق الفطرت طاقت پر ایمان کا لازم ہے کیوں کہ کائنات کی ہر قدرتی و فطری چیز قابل شناخت‘ قابل تجربہ‘ قابل حس اور قابل لمس ہے لہٰذا اشیاء کے لئے مطلق تاثیر کا عقیدہ شرک نہیں ہے (جیسا کہ اشاعرہ کا خیال ہے) بلکہ اشیاء کے لئے ماورائے طبیعت تاثیر کا عقیدہ شرک ہے‘ پس ہستی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ ایک طبیعت دوسرا ماورائے طبیعت‘ ماورائے طبیعت اللہ تعالیٰ کا خاص دائرئہ کار ہے اور عالم طبیعت مخلوق کا خاص دائرئہ کار ہے یا پھر یہ خدا اور مخلوق دونوں کی مشترک قلم رو ہے۔

بعض کاموں کا تعلق ماورائے طبیعی پہلوؤں سے ہے مثلاً احیاء (زندہ کرنا) و اماتہ (مارنا)‘ روزی دینا اور ایسے دیگر کام اور باقی معمول اور غیر معمول کے کام اللہ کے افکار سے مختص ہیں اور باقی کام مخلوقات کے دائرئہ کار میں آتے ہیں۔ یہ بات توحید نظری کے پہلو سے ہے۔

لیکن توحید عملی کے پہلو سے غیر اللہ کی طرف ہر قسم کی معنوی توجہ یعنی توجہ کرنے والے کا چہرہ و زبان دوسرے شخص کے چہرے اور کان کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ توجہ کرنے والا اپنے اور مدمقابل شخص کے درمیان ایک طرح کا قلبی و معنوی رابطہ برقرار کرنا چاہتا ہو‘ اور اسی رابطے کے ساتھ اسے بلائے‘ اپنی طرف متوجہ کرے‘ اس سے متوسل ہو جائے اور اجابت کی تمنا کرے‘ یہ سب کچھ شرک اور غیر اللہ کی پرستش میں آتا ہے۔ اس لئے کہ عبادت الٰہی انہی چیزوں کا نام ہے اور غیر اللہ کی عبادت بحکم عقل اور بضرورت شرع جائز نہیں اور اس سے انسان لازمی طور پر اسلام سے نکل جاتا ہے‘ علاوہ ازیں اس طرح کے اعمال کی بجا آوری اس چیز سے قطع نظر کہ یہ غیر اللہ کے لئے عبادت کا عملی نمونہ ہے اور بالکل وہی طریقہ ہے جو مشرک اپنے بتوں کے لئے انجام دیتے تھے اور یہ چیز مدنظر شخصیت (پیغمبر یا امام) کے لئے ماورائے طبیعی طاقت پر اعتقاد کو بھی ظاہر کرتی ہے (عصر حاضر میں وہابیوں اور وہابی نماؤں کا نظریہ یہی ہے)۔

اس نظریے کو ہمارے زمانے میں کسی حد تک فروغ حاصل ہوا ہے اور ایک خاص طبقے میں روشن فکری کی علامت بن گیا ہے۔ لیکن مختلف توحیدی معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظریہ توحید ذاتی کے لحاظ سے اشاعرہ کے نظریے کی حد تک شرک سے آلودہ ہے اور خالصیت اور فاعلیت میں توحید کی رو سے اسے شرک آمیز ترین نظریات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

پہلے اشاعرہ کے نظریہ کی رو میں عرض کر چکے ہیں کہ اشاعرہ نے اشیاء سے اس لئے تاثیر اور سببیت کی نفی کی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ اشیاء کی تاثیر اور سببیت پر اعتقاد اللہ کے مقابل دوسرے محوروں اور دوسری حقیقتوں پر ایمان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اشیاء اس صورت میں اللہ کے مقابل محور و منبع بنتی ہیں جب وہ اپنی ذات میں مستقل ہوں‘ یہاں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اشاعرہ غیر شعوری طور پر اشیاء کے لئے ایک طرح کے استقلال ذاتی کے قائل ہیں جس کا لازمہ شرک ذاتی ہے۔ لیکن یہ لوگ غفلت کا شکار تھے اور چاہتے تھے کہ اشیاء کی تاثیر کا انکار کر کے توحید در خالصیت کو استحکام بخشیں لہٰذا انہوں نے شرک در خالصیت کو رد کرنے کے خیال سے لاشعوری طور پر شرک در ذات کی تائید کر دی ہے۔

بعینہ یہی اعتراض وہابی قسم کے افراد کے نظریے پر ہوتا ہے‘ یہ لوگ بھی غیر شعوری طور پر اشیاء کے لئے ایک طرح کے استقلال ذاتی کے قائل ہیں اور اسی لئے معمولی عوامل کے ماورائے طبیعی کردار پر اعتقاد کو اللہ کے مقابل ایک محور اور ایک طاقت پہ اعتقاد کا باعث بنتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ وہ ہستی یا وہ وجود جو اسی تمام تر ہویت کے ساتھ ارادہ حق سے وابستہ ہے اور اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا اس کی مافوق الطبیعی تاثیر خود اپنے ساتھ منسوب ہونے سے پہلے حق کی طرف ہوتی ہے اور اس کا وجود اشیاء تک فیض حق کے گزرنے کے لئے ایک وسیلے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ جبرائیل کا فیض وحی و علم‘ میکائیل کا رزق کے لئے‘ اسرافیل کا احیاء کے لئے اور عزرائیل (ملک الموت) کا قبض ارواح کے لئے وسیلہ ہونا شرک ہے؟

توحید در خالصیت کے اعتبار سے یہ نظریہ شرک کی بدترین انواع میں سے ہے‘ اس لئے کہ اس میں خالق و مخلوق کے درمیان ایک طرح سے کام کی تقسیم عمل میں آئی ہے اور ماورائے طبیعی یا مافوق الفطرت امور کو خاص اللہ کی حدود اور طبیعی امور کو خاص اللہ کی مخلوقات یا بطور اشتراک خدا یا مخلوق کی حدود میں شمار کیا گیا ہے۔ مخلوق کے لئے مخصوص قلم رو اور دائرئہ کار کا عقیدہ شرک در فاعلیت ہے‘ یہی حال اشتراکی حدود کا بھی ہے اور یہ بھی شرک در فاعلیت کی ایک دوسری قسم ہے۔

رائج تصور کے برخلاف‘ وہابیت صرف امامت کے خلاف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ امامت کا مخالف ہونے سے پہلے توحید اور انسان کا بھی مخالف ہے۔ توحید کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ اس نے خالق و مخلوق کے درمیان کام کی تقسیم کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک طرح کے خفی شرک ذاتی کا قائل ہے‘ جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور انسان کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کی انسانی صلاحیت کو درک نہیں کرتا جس کی رو سے ملائکہ اس کے سجدے پر مامور ہوئے ہیں اور اس نے انسان کو ایک فطری حیوان کی حد میں لاکھڑا کیا ہے۔

اس کے علاوہ مردہ اور زندہ کے درمیان اس شکل میں جدائی کہ مردہ دوسری دنیا میں بھی زندہ نہیں ہے اور اس کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے کہ جو جماد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک مادی اور غیر الٰہی سوچ ہے اور ہم آئندہ معاد کی بحث میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے‘ نامعلوم مرموز و مجہول اثرات اورمعلوم آثار کے درمیان تفکیک اور پہلے کو دوسرے کے برخلاف ماورائے طبیعی جاننا شرک کی ایک دوسری قسم ہے۔

رائج تصور کے برخلاف‘ وہابیت صرف امامت کے خلاف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ امامت کا مخالف ہونے سے پہلے توحید اور انسان کا بھی مخالف ہے۔ توحید کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ اس نے خالق و مخلوق کے درمیان کام کی تقسیم کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک طرح کے خفی شرک ذاتی کا قائل ہے‘ جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور انسان کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کی انسانی صلاحیت کو درک نہیں کرتا جس کی رو سے ملائکہ اس کے سجدے پر مامور ہوئے ہیں اور اس نے انسان کو ایک فطری حیوان کی حد میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے علاوہ مردہ اور زندہ کے درمیان اس شکل میں جدائی کہ مردہ دوسری دنیا میں بھی زندہ نہیں ہے اور اس کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے کہ جو جماد کی صورت اختیار کر لیتا ہے‘ ایک مادی اور غیر الٰہی سوچ ہے اور ہم آئندہ معاد کی بحث میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے‘ نامعلوم مرموز و مجہول اثرات اور معلوم آثار کے درمیان تفکیک اور پہلے کو دوسرے کے برخلاف ماورائے طبیعی جاننا شرک کی ایک دوسری قسم ہے۔

یہی وہ مام ہے جہاں رسول اکرم کی اس بات کا مفہوم ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ سیاہ رات میں سخت پتھر پر سیاہ چیونٹی کی مدھم اور غیر محسوس چال کی طرح شرک انسان کے عقائد و افکار میں نہایت آہستگی سے قدم آگے بڑھاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا نے انسان اور کائنات کے بارے میں توحید اور شرک کی حد ”اسی سے ہونا“ اور ”اسی کی طرف لوٹنا“ ہے۔ توحید نظری میں توحید و شرک کی حد ”اسی سے وابستگی“ (اناللہ) ہے۔ جس حقیقت اور جس وجود کو ہم ذات و صفات و افعال میں ”اسی سے وابستگی“ کی ھویت و خصلت کے ساتھ جانیں گے تو ہماری یہی شناخت درست حقیقت کے مطابق اور توحیدی نگاہ ہو گی خواہ وہ شے ایک یا کئی اثرات کی حامل ہو یا نہ ہو اور خواہ ماورائے طبیعی پہلو رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو‘ اس لئے کہ خدا صرف آسمان‘ ماورائے طبیعت اور ملکوت و جبروت کا خدا نہیں ہے بلکہ پوری کائنات کا خدا ہے۔ وہ عالم طبیعت کے اتنا ہی زیادہ نزدیک ہے اور معیت و قیومیت رکھتا ہے جتنی ماورائے طبیعت کے ساتھ اور کسی موجود کا ماورائے طبیعی پہلو رکھنا اسے خدائی پہلو عطا نہیں کرتا۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ کائنات اسلامی تصور کائنات کی رو سے ”اسی سے ہونے“ کی ماہیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم اپنی متعدد آیات میں مردہ کو زندہ کرنے اور پیدائشی اندھے کو شفا دینے جیسے معجزانہ کاموں کو بعض انبیاءسے نسبت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ باذنہ کے لفظ کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ لفظ جملہ امور میں ”اسی سے ہونے“ کی ماہیت کو ظاہر کرتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انبیاءاپنی ذات میں مستقل ہیں۔ پس توحید نظری اور شرک نظری کی حد ”اس سے ہونا“ ہے ایسے وجود کی موجودیت پر اعتقاد جو ”اس سے“ نہ ہو شرک ہے اور اس موجود کی تاثیر پر اعتقاد کہ جس کا موثر ہونا ”اس سے“ نہ ہو یہ بھی شرک ہے خواہ زمین و آسمان کی خلقت جیسا مافوق الطبیعی اثر ہو یا پتے کے ہلنے کی طرح معمولی اور نہایت چھوٹا اثر توحید عملی میں توحید و شرک کی حد ”اسی کی سمت“ ہے (انا الیہ راجعون) ہر موجود پر توجہ خواہ وہ ظاہری توجہ ہو یا باطنی اگر حق کی سمت آگے بڑھنے کے لئے توجہ بطور ایک راہ ہو‘ اور اسے مقصد نہ بنایا جائے تو یہ خدا کی طرف توجہ ہو گی ہر حکومت اور ہر راستے پر اس عنوان سے توجہ کہ یہ راستہ ہے اور راستے کی علامتوں اور نشانیوں پر‘ علامتوں اور نشانیوں ہی کے عنوان سے توجہ صرف اس لئے کہ راستہ کھو نہ جائے یا مقصد سے دوری پیدا نہ ہو ”مقصد کی سمت ہونا“ اور ”مقصد کی سمت بڑھنا“ ہے۔

انبیاءاور اولیاء کے راستے ہیں:

انتم السبیل الاعظم والصراط الاقوم (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)

یہ ہستیاں میرے اللہ کے راستے کی طرف جانے کی علامات اور نشانیاں ہیں۔

و اعلاما لعباده و منارا فی بلاده و ادلاء علی صراطه (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)

یہ لوگ ہادی اور حق کی جانب رہنمائی کرنے والے ہیں۔

الدعاة الی اللّٰه والا دلاء علی مرضاة اللّٰه (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)

پس مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اولیاءکو پکارنا‘ ان کی زیارت کرنا‘ ان سے توسل رکھنا اور ان سے مافوق طبیعی امر کی توقع رکھنا شرک ہے بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا اولیاءنے مراتب قرب الٰہی میں اتنی بلندی حاصل کی ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے اس حد تک مستحق عنایت الٰہی ہوں؟ قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بعض بندوں کو ایسے مقامات اور درجات عنایت فرمائے ہیں۔(دیکھئے مولف محترم کی کتاب ولائھا و ولایتھا)

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ وسیلہ پیدا کرتے ہیں زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اپنی حاجت طلب کرتے ہیں ایک توحیدی اعتبار سے صحیح ادراک کے حامل ہیں یا نہیں؟ کیا واقعی یہ لوگ ”اسی کی سمت“ کے مقصد سے زیارت کو جاتے ہیں یا ”اس کو“ فراموش کر کے صاحب زیارت کو مقصد قرار دیتے ہیں بلاشک لوگوں کی اکثریت اسی جبلی توجہ کے ساتھ زیارت کو جاتی ہے۔ ممکن ہے بہت کم لوگ ایسے بھی ہوں جو اگرچہ جبلی حد تک ہی سہی توحیدی فکر کے حامل نہ ہوں تو ایسے لوگوں کو توحید کا درس دینے کی ضرورت ہے نہ کہ زیارت کو شرک قرار دیا جائے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقوال و افعال جو تسبیح و تکبیر و تحمید پر دلالت کرتے ہیں غیر اللہ کے لئے شرک ہیں کیوں کہ یہ براہ راست ذات کامل علی الطلاق اور غنی علی الاطلاق کی ستائش ہیں اور سبوح مطلق و منزہ مطلق ہر نقص و عیب سے مبرا ہے۔ وہی بزرگ مطلق ہے اور صرف اسی کی طرف تمام تعریفیں لوٹتی ہیں۔ تمام ”حول“ اور تمام ”قوتیں“ اسی کی ذات سے قائم ہیں۔ اس طرح کی تعریفیں چاہے قولی صورت میں ہوں یا فعلی غیر اللہ کے لئے شرک ہیں اور ہم پہلے اس موضوع پر بحث کر چکے ہیں کہ کس طرح کے امور عبادت میں شامل ہیں۔

صدق و اخلاص

خدا شناسی خود بخود انسان کی تمام شخصیت‘ اس کی روح‘ اس کے اخلاق اور اس کے اعمال پر اپنا اثر قائم کرتی ہے۔ اس تاثیر کی مقدار کا دار و مدار انسان کے اپنے ایمان پر ہے جتنا ایمان قوی تر اور شدید تر ہو گا اتنا ہی وجود انسانی میں خدا شناسی کا نفوذ بیشتر ہو گا اور وہ انسان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑے گا۔

انسان میں خدا شناسی کی تاثیر مراتب و درجات کی حامل ہے۔ کمال انسانی اور تقرب الٰہی کے اعتبار سے انسان الٰہی درجات سے وابستہ ہے اور ان سب کو ”صدق“ و ”اخلاص“ کہا جاتا ہے یعنی یہ سب درجات‘ صدق و اخلاص کے درجات ہیں۔

اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ پہلے ہم عرض کر چکے ہیں جب ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں تو یوں اظہار کرتے ہیں کہ صرف تو ہی مستحق اطاعت و بندگی ہے اور میں تیرے مقابل تسلیم محض ہوں۔ اس طرح کھڑا ہونا اور یہ الفاظ ادا کرنا عبادت ہے اور الہہ کے سوا اور کسی کے لئے جائز نہیں لیکن ہمارا یہ اظہار و اقرار کس حد تک ”صدق“ کا حامل ہے یعنی ہم نے منزل عمل میں کس حد تک غیر خدا کے مقابل قید تسلیم سے رہائی حاصل کی ہے اور کہاں تک ذات احدیت کے مقابل تسلیم محض میں ہیں؟ اس کا انحصار ہمارے درجہ ایمان پر ہے۔

یقینا تمام لوگ اپنے صدق اخلاص کے اعتبار سے ایک منزل پر نہیں ہیں بعض لوگ اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ امر الٰہی کے سوا ان کے وجود پر کچھ اور حاکم نہیں ہوتا۔ ان کا ظاہر و باطن اللہ کی فرماں برداری پر مامور ہے‘ نہ تو ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات انہیں ادھر سے ادھر سرکا سکتی ہیں اور نہ کوئی شخص انہیں اپنے احکامات کے تابع کر سکتا ہے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو صرف اس حد تک عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں جو رضائے الٰہی کے موافق ہو (البتہ رضائے الٰہی وہ راستہ ہے‘ جو انسان کو اپنے حقیقی کمال تک پہنچاتا ہے) اور اس میں وہ ماں‘ باپ اور معلم جیسے دیگر افراد کی اطاعت اسی حد تک کرتا ہے جس حد تک اللہ نے اس کی اجازت دی ہے جب کہ بعض لوگ اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کا کوئی محبوب و مطلوب نہیں ہوتا۔ خدا ہی ان کا اصل محبوب و معشوق ہوتا ہے۔ یہ لوگ عقل خدا کو اس اصول کی بنیاد پر چاہتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں کہ جو کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے آثار‘ اس کی چیزیں اور اس کی نشانیاں اس کے لئے عزیز ہوتی ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اس بناء پر وہ اس لئے دوست رکھتا ہے کہ آثار‘ مخلوقات‘ الٰہی آیات‘ نشانیاں سب اللہ کی یاد دلاتی ہیں‘ کچھ لوگ اس سے بھی زیادہ آگے بڑھتے ہیں اور انہیں اللہ اور اس کے جلوؤں کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا یعنی وہ اللہ کو ہر چیز میں دیکھتے ہیں ہر چیز ان کے لئے آئینے کی مانند ہوتی ہے اور ان کے لئے یہ دنیا گویا ایک آئینہ گھر ہے کہ جس طرف نگاہ اٹھائیں اسی کو اسی کے جلوؤں کو دیکھتے ہیں‘ گویا ان کی زبان حال کچھ یوں کہتی ہے:

صحرا کو دیکھوں تو صحرا میں تو ہے

دریا میں دیکھوں تو دریا میں تو ہے

پہاڑوں میں دشتوں میں دیکھو ں تجھے میں

ہر اک سو تجلی زیبا میں تو ہے

(قزلباش)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”میں کسی چیز کو نہیں دیکھتا مگر یہ کہ اس سے پہلے یا اس کے ساتھ خدا کو نہ دیکھ لوں۔“

ایک عابد‘ عبادت کی حالت میں جو کچھ اپنے پروردگار سے کہتا ہے اسے اپنی اصل زندگی میں بروئے کار لا کر ”صدق“ کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔

عبادت ایک حقیقی عابد کے لئے ایک ”عہد“ ہے اور سفر زندگی اس عہد کی وفا ہے یہ عہد دو بنیادی شرائط پر مشتمل ہے: ایک غیر اللہ کی اطاعت و حکومت سے رہائی و آزادی‘ چاہے وہ ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات ہوں یا موجودات‘ اشیاء اور اشخاص اور دوسری ان اوامر کے سامنے تسلیم محض جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان پر راضی اور انہیں دوست رکھنا۔

عابد کے لئے حقیقی عبادت‘ اس کی روحانی تربیت اور پرورش کے باب میں سب سے بڑا عامل ہے۔ عبادت‘ عابد کے لئے وابستگی‘ حریت‘ فداکاری‘ اللہ سے محبت‘ اس کی مخلوق سے محبت‘ اس کے اوامر سے محبت‘ اہل حق سے دوستی‘ احسان اور بندگان الٰہی کی خدمت کا درس ہے۔

ان معروضات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی توحید اللہ کے سوا کسی محرک کو تسلیم نہیں کرتی۔ انسان اور کائنات کے تکامل کی حقیقت‘ الٰہی حقیقتیں ہیں‘ جن کی واپسی اسی (خدا) کی طرف ہے۔ اسلام کے نقطہ نظر سے جس طرح اپنے کام کو خدا کی راہ میں کرنا ضروری ہے اسی طرح مخلوق خدا کے کام کو بھی خدا کے لئے انجام دینا ضروری ہے۔ اللہ کے لئے کام کا مطلب مخلوق کے لئے کام ہے۔ راہ خدا اور راہ خلق خدا ایک ہے۔ خدا کے لئے کام کا مطلب خلق خدا کے لئے کام ہے‘ وگرنہ خلق کو چھوڑ کر خدا کے لئے کام ملائیت اور صوفیت ہے جو ہرگز درست نہیں ہے۔ اسلام کی رو سے راہ اللہ کی راہ ہے اور بس۔ مقصد اللہ کی ذات ہے اور کوئی دوسری شے نہیں لیکن راہ خدا خلق کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اپنے لئے کام کرنا نفس پرستی ہے اور خلق کے لئے کام کرنا بت پرستی ہے۔ اسی لئے خلق اور خالق دونوں کے لئے کام کرنا شرک اور دوگانہ پرستی ہے۔

لیکن اپنے اور مخلوقات کے کام کو اللہ کے لئے کرنا توحید اور خدا پرستی ہے۔ اسلامی توحیدی روش میں تمام امور کا آغاز اللہ کے نام سے ہوتا ہے۔ خلق کے نام سے آغاز بت پرستی ہے اور خالق و مخلوق کے مشترکہ نام سے شرک اور بت پرستی‘ صرف اللہ کے نام سے آغاز توحید پرستی اور یگانہ پرستی ہے۔ قرآن مجید میں ”اخلاص“ کے بارے میں ایک دلچسپ نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مخلص ہونا مخلص کرنے سے مختلف ہے۔ مخلص ہونے کا مطلب عمل میں اخلاص سے کام لینا ہے۔ عمل کو اللہ کے لئے پاک و خالص کرنا ہے لیکن فتح لام کے ساتھ مخلص ہونا‘ اللہ کے لئے پورے وجود کا پاک و خالص ہونا ہے اور واضح سی بات ہے کہ عمل کا پاک و خالص ہونا اور چیز ہے پورے وجود کا پاکیزہ ہونا اور چیز۔

وحدت عالم

کیا یہ کائنات (طبیعت: خدا کی زمانی و مکانی مخلوقات) مجموعی طور پر ایک حقیقی ”اکائی“ ہے کیا توحید کا لازمہ یہ ہے کہ ہم ذات و صفات و فاعلیت میں اللہ کی وحدانیت کا یہ مفہوم لیں کہ خلقت اپنی مجموعی صورت میں ایک طرح کی وحدت کی حامل ہے۔

اگر یہ پورا عالم ایک مربوط اکائی کے حکم میں ہے تو اس ارتباط کی صورت کیا ہے؟ کیا یہ کسی مشین کے اجزاء کی طرح مصنوعی پیوند کے ذریعے مربوط ہے یا اس کا ارتباط بدن کے اعضاء کی صورت میں ہے؟ یعنی عالم کا اجزائے عالم سے ارتباط میکانیاتی ہے یا عضویاتی؟

ہم اصول فلسفہ کی پانچویں جلد میں وحدت عالم کی نوعیت کے بارے میں گفتگو کر چکے ہیں۔ اسی طرح اپنی کتاب عدل الٰہی میں بھی عرض کر چکے ہیں کہ عالم طبیعت ایک ”ناقابل تقسیم کل“ ہے۔ اس میں ایک جزو کا نہ ہونا کل کے نہ ہونے کے مترادف ہے اور اس بارے میں گفتگو کر چکے ہیں کہ طبیعت سے اس اٹھانے کو شرور کا نام دیا جاتا ہے‘ جو تمام طبیعت کی نابودی کے مترادف ہے۔ جدید فلاسفہ خاص کر جرمنی کے عظیم فلسفی ”ہیگل“ نے بدن سے اعضاء کے رابطے کی مثال میں کل سے اجزائے طبیعت کے رابطے کو صحیح گردانا ہے‘ اس جرمن فلسفی نے اس نظریے کو جن اصولوں کی بنیاد پر ثابت کیا ہے انہیں قبول کرنا اس کے تمام فلسفی اصولوں کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔

ہیگل کے مادی پیروکاروں یعنی مادہ پرستانہ جدلیات کے حامیوں نے بھی یہ اصول ہیگل سے لیا ہے اور تاثیر متقابل یا ارتباط عمومی اشیاء یا اتحاد تضادات کے اصول کے عنوان سے بڑی شدت کے ساتھ اس کی حمایت کی ہے اور مدعی ہیں کہ عالم طبیعت میں کل کے ساتھ جزو کا رابطہ عضویاتی ہے۔ میکانیاتی نہیں لیکن جب وہ اثبات کی منزل میں آتے ہیں تو میکانیاتی رابطے کے علاوہ ان سے بن نہیں پڑتا۔

حقیقت یہ ہے کہ مادی فلسفے کے اصول اس بات کے اثبات سے قاصر ہیں کہ یہ دنیا کل میں انسان کے اعضائے بدن کی مانند ہے اور کل کے ساتھ اجزاء کے رابطے کی مانند ہے وہ الٰہی فلاسفہ جو قدیم زمانے سے کہتے آئے ہیں کہ عالم ”انسان کبیر“ ہے اور انسان عالم صغیر‘ ان کی نظر اسی قسم کے رابطے کی طرف تھی۔

مسلمان فلاسفہ ”اخوان الصفا“ نے سب سے زیادہ اس موضوع پر زور دیا ہے‘ یہی دنیا اور ہستی کو وحدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عرفا کے نزدیک یہ تمام خلقت اور یہ پوری کائنات شاہد ازلی کا جلوہ واحد ہے۔

عکس روی تو چو در آئینہ جام افتاد

عارف از پرتو می در طمع خام افتاد

حسن روی تو بہ یک جلوہ کہ در آئینہ کرد

این ہمہ نقش در آئینہ اوھام افتاد

عرفاء ماسوا کو ”فیض مقدس“ کا نام دیتے ہیں اور تمثیلاً کہتے ہیں کہ فیض مقدس ایک مخروط کی طرح ہے کہ جو ”راس“ اور ابتدائی نقطے کے اعتبار سے یعنی ذات حق کے ساتھ ارتباط کی منزل میں بسیط محض اور بااعتبار قاعدہ ممتد و منبسط ہے۔

ہم یہاں فلاسفہ یا عرفا کے بیانات کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتے بلکہ صرف ان مطالب کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘ جو ہماری گذشتہ مباحث سے مربوط ہیں۔ پہلے ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ دنیا ”اس سے“ اور ”اسی کی سمت“ سے وابستہ حقیقت پر مبنی ہے۔ پھر اپنے مقام پر یہ ثابت ہے کہ دنیا ایک متحرک و سیال حقیقت نہیں بلکہ عین حرکت اور عین روانی ہے۔ دوسری طرف مباحث حرکت میں یہ نکتہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وحدت مبداء‘ وحدت منتہا‘ وحدت خط سیر‘ حرکات کو طرح وحدت و یگانگت عطا کرتا ہے۔ پس اس اعتبار سے کہ کل عالم ایک مبداء سے ایک مقصد کی سمت اور ایک تکاملی خط سیر میں رواں دواں ہے۔ بہرحال کائنات ایک طرح کی وحدت و یگانگت کی بھی حامل ہے۔