غیب و شہادت
اسلامی اور توحیدی تصور کائنات میں دنیا غیب و شہود کا مجموعہ ہے یعنی الٰہی و اسلامی تصور کائنات دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ عالم غیب اور عالم شہود یا عالم شہادت‘ خود قرآن میں بارہا غیب شہادت خاص کر غیب پر گفتگو ہوئی ہے۔ غیب پر ایمان‘ اسلامی ایمان کا رکن ہے۔
(
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ
)
(سورئہ بقرہ‘ آیت ۲)
وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
(
وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَۭ
)
(سورئہ انعام‘ آیت ۵۹)
”اس کے پاس خزانہ غیب کی کنجیاں ہیں‘ جنہیں خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “
غیب یعنی پوشیدہ چیزیں‘ غیب کی دو قسمیں ہیں‘ ایک نسبی اور دوسری مطلق نسبی۔ غیب یعنی وہ چیز جو دور ہونے یا اس جیسی کسی اور علت کی بناء پر کسی شخص کے حواس سے پوشیدہ ہو‘ مثلاً جو شخص تہران میں ہے اس کے لئے تہران شہادت ہے اور اصفہان غیب لیکن اصفہان میں رہنے والے کے لئے اصفہان شہادت ہے اور تہران غیب قرآن مجید میں بعض مقامات پر لفظ غیب اسی نسبی مفہوم میں آیا ہے جیسے:
(
تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَۚ
(
)
سورئہ ھود‘ آیت ۴۹)
”یہ غیب سے متعلق خبریں ہیں جنہیں ہم تم پر وحی کرتے ہیں۔“
واضح سی بات ہے کہ گذشتہ قصے موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے غیب ہیں لیکن خود ان کے لئے شہادت۔
لیکن دوسرے موارد میں قرآن کریم لفظ غیب کو ان حقائق پر اطلاق کرتا ہے جو نظر آنے والے نہیں ہیں۔ دوری یا دیگر موانع کی وجہ سے قابل حسن اور لمس حقیقت کے نظر نہ آنے جیسا کہ تہران میں رہنے والوں کے لئے اصفہان‘ اور ایسی حقیقت کے نظر نہ آنے کے درمیان فرق ہے کہ جسے محدود اور غیر مادی ہونے کی بناء پر ظاہری حواس کے ذریعے سے محسوس نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس اعتبار سے پوشیدہ رہتی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جہاں قرآن موضوع کی اس لحاظ سے توصیف کرتا ہے کہ ان کا غیب پر ایمان ہے اس سے مراد نسبی غیب نہیں ہے۔ نسبی غیب پر تو کافر اور مومن سبھی کا اعتبار ہے۔ اسی طرح جہاں ارشاد ہوتا ہے:
(
وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ
)
۰
غیب پر اطلاع کو ذات حق پر منحصر سمجھا گیا ہے اور مراد غیب مطلق ہے کیوں کہ یہ عبادت غیب نسبی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے جس جگہ پر غیب و شہادت کا ایک ساتھ تذکرہ ہوا ہے‘ مثلاً:
(
عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ
۰ۚ
هُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ
)
( سورئہ حشر‘ آیت ۲۲)
وہ ہر غیب اور ہر شہود سے باخبر نہایت بخشنے والا اور بے حد مہربان ہے یعنی کوئی محسوس اور نامحسوس شے اس سے اوجھل نہیں ہے‘ یہاں پر بھی نہ دیکھے جانے والے غیب پر دلالت ہے نہ کہ غیب نسبی پر۔
دونوں عوامل یعنی غیب اور شہادت کے رابطے کی کیفیت کیا ہے؟ کیا عالم محسوس کی کوئی حد ہے اور اس حد کے پیچھے عالم غیب واقع ہے؟ مثلاً یہاں سے نیلگوں آسمان کی چھت تک عالم شہادت ہے اور اس کے بعد عالم غیب شروع ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے تصورات عامیانہ ہیں‘ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوئی جسمانی حد ان دونوں جہانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے تو دونوں جگہ شہادت اور دونوں عالم جسمانی اور مادی ہوں گے۔ غیب و شہادت کے رابطے کی کسی مادی اور جسمانی تعبیر سے توضیح نہیں ہو سکتی۔ زیادہ سے زیادہ جو تعبیر مطلب کو ذہن سے قریب کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسے اصل اور فرع یا پھر شخص اور اس کے سائے کے رابطے کی شبیہ قرار دیں یعنی یہ جہان اُس جہان کا ایک انعکاس اور پر تو ہے۔
قرآن سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اس دنیا کی ”تنزل یافتہ صورت“ ہے۔ جس چیز کو گذشتہ آیت میں ”مفاتح“ سے تعبیر کیا گیا ہے وہی چیز دوسری آیت میں ”خزائن“ سے موسوم ہوئی ہے۔
(
وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُه
۰ۡ
وَمَا نُنَزِّلُهٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
)
”کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کا خزانہ اور اس کی حقیقت ہمارے پاس ہے اور ہم اس سے نازل نہیں کرتے مگر ایک معین اندازے کے ساتھ۔“ (سورئہ حجر‘ آیت ۲۱)
اور اسی لئے قرآن نے تمام چیزوں حتیٰ پتھر اور فولاد کو بھی ”نازل شدہ“ گرداناہے۔
(
وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ
)
(سورہ حدید‘ آیت ۲۵)
”ہم نے فولاد کو اتارا یا نازل کیا۔“
ظاہر سی بات ہے یہاں پر یہ مراد ہے کہ ہم نے من جملہ دوسری چیزوں کے فولاد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ جی ہاں! جو کچھ اس دنیا میں ہے‘ اس کی ”حقیقت“، ”اصل“ اور ”کنہ“ دوسری دنیا میں ہے جو عالب غیب ہے۔ وہ چیزیں جو اس عالم میں ہیں ان کی ”رقیق صورت“‘ ان کا ”پر تو“ اور ان کی ”تنزل یافتہ صورت“ اس دنیا میں ہے۔(دیکھئے تفسیرالمیزان (عربی متن)‘ جلد ۷‘ سورئہ انعام کی آیت ۵۹ کے ذیل میں)
چرخ با این اختران نغز و خوش و زیباستی
صورتی در زیر دارد‘ آنچہ در بالاستی
بررود بالا ہمی با اصل خود یکتاست ی
صورت عقلی کہ بی پایان و جاویدان بود
باہمہ و بی ہمہ مجموعہ و یکتا ستی
این سخن را در نیابد ہیچ فہم ظاہری
گر ابو نصرستی و گر بوعلی سینا ستی
قرآن جس طرح ”غیب“ کے عنوان سے ہستی کے بارے میں ایک طرح کے ایمان اور ایک طرح کی بصیرت کو پیش کرتا ہے اور لازم قرار دیتا ہے‘ بعض مقامات پر دیگر عناوین کے تحت ملائکہ اور رسول پر ایمان (وحی پر ایمان) کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔
(
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّه وَالْمُؤْمِنُوْنَۭكُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِه وَكُتُبِه وَرُسُلِه
۰ۣ
)
(سورئہ بقرہ‘ آیت ۲۸۵)
”رسول اور صاحبان ایمان اس پر ایمان لاتے ہیں جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان (پیغمبروں) پر نازل کیا گیا ہے سب خدا اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔“
(
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِه وَكُتُبِه وَرُسُلِه وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا
)
”اور جس نے خدا کا‘ اس کے فرشتوں کا‘ اس کی کتابوں کا اور قیامت کے دن کا انکار کر دیا‘ وہ سخت گمراہی میں پڑ گیا۔“(سورئہ نساء‘ آیت ۱۳۶)
ان دونوں آیتوں میں اللہ کی کتابوں پر ایمان کا جداگانہ تذکرہ کیا گیا ہے اگر ان کتابوں سے آسمانی کتابیں ہی مراد ہیں جو انبیاء پر نازل ہوئی ہیں تو اس کے لئے وہی ایمان بالرسل کافی تھا۔ گفتگو کا یہ انداز بتاتا ہے کہ ان کتابوں سے مراد کچھ اور حقیقتیں ہیں کہ جو کتاب اور ورق کی نوعیت سے جدا ہیں۔ خود قرآن میں بار بار پوشیدہ اور غیبی حقائق کو کہیں ”کتاب مبین“، کہیں ”لوح محفوظ“، کہیں ”ام الکتاب“، کہیں ”کتاب مرقوم“ اور کہیں ”کتاب مکنون“ جیسے ناموں سے یاد کیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں ”تفسیرالمیزان“، مذکورہ الفاظ سے متعلق آیات) اسی ماورائی کتب پر ایمان‘ ایمان اسلامی کا حصہ ہے۔
انبیاء بنیادی طور پر اسی لئے آئے ہیں کہ وہ لوگوں کو ایک ایسا تصور کائنات اور انداز فکر عطا کریں جس کی رو سے وہ نظام ہستی کے بارے میں ہرچند مجمل سہی بقدر صلاحیت کوئی تصور ضرور پیدا کر لیں۔ خلقت کائنات صرف احساس و ادراک کی دنیا نہیں ہے کہ جس میں سائنسی اصولوں کے مطابق تمام امور قابل حس اور قابل تجربہ ہوں۔ انبیاء کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ انسان کی نگاہ کو محسوس سے معقول‘ آشکار سے پنہاں اور محسوس سے لامحدود تک لے جائیں اور اسے بلندی عطا کریں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرزمین مغرب سے اٹھنے والی مادی افکار کی لہریں اس قدر قوی ہو گئی ہیں کہ اب ایک گروہ کا یہ اصرار ہے کہ وہ اسلامی تصور کائنات کے تمام وسیع اور بلند و بالا مقام مفاہیم کو محسوس اور مادیات کی سطح تک گرا دیں۔