تصور کائنات

تصور کائنات0%

تصور کائنات مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

تصور کائنات

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 11850
ڈاؤنلوڈ: 2920

تبصرے:

تصور کائنات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11850 / ڈاؤنلوڈ: 2920
سائز سائز سائز
تصور کائنات

تصور کائنات

مؤلف:
اردو

غیب و شہادت

اسلامی اور توحیدی تصور کائنات میں دنیا غیب و شہود کا مجموعہ ہے یعنی الٰہی و اسلامی تصور کائنات دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ عالم غیب اور عالم شہود یا عالم شہادت‘ خود قرآن میں بارہا غیب شہادت خاص کر غیب پر گفتگو ہوئی ہے۔ غیب پر ایمان‘ اسلامی ایمان کا رکن ہے۔

( الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ ) (سورئہ بقرہ‘ آیت ۲)

وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

( وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَۭ ) (سورئہ انعام‘ آیت ۵۹)

”اس کے پاس خزانہ غیب کی کنجیاں ہیں‘ جنہیں خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “

غیب یعنی پوشیدہ چیزیں‘ غیب کی دو قسمیں ہیں‘ ایک نسبی اور دوسری مطلق نسبی۔ غیب یعنی وہ چیز جو دور ہونے یا اس جیسی کسی اور علت کی بناء پر کسی شخص کے حواس سے پوشیدہ ہو‘ مثلاً جو شخص تہران میں ہے اس کے لئے تہران شہادت ہے اور اصفہان غیب لیکن اصفہان میں رہنے والے کے لئے اصفہان شہادت ہے اور تہران غیب قرآن مجید میں بعض مقامات پر لفظ غیب اسی نسبی مفہوم میں آیا ہے جیسے:

( تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَۚ ( ) سورئہ ھود‘ آیت ۴۹)

”یہ غیب سے متعلق خبریں ہیں جنہیں ہم تم پر وحی کرتے ہیں۔“

واضح سی بات ہے کہ گذشتہ قصے موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے غیب ہیں لیکن خود ان کے لئے شہادت۔

لیکن دوسرے موارد میں قرآن کریم لفظ غیب کو ان حقائق پر اطلاق کرتا ہے جو نظر آنے والے نہیں ہیں۔ دوری یا دیگر موانع کی وجہ سے قابل حسن اور لمس حقیقت کے نظر نہ آنے جیسا کہ تہران میں رہنے والوں کے لئے اصفہان‘ اور ایسی حقیقت کے نظر نہ آنے کے درمیان فرق ہے کہ جسے محدود اور غیر مادی ہونے کی بناء پر ظاہری حواس کے ذریعے سے محسوس نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس اعتبار سے پوشیدہ رہتی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جہاں قرآن موضوع کی اس لحاظ سے توصیف کرتا ہے کہ ان کا غیب پر ایمان ہے اس سے مراد نسبی غیب نہیں ہے۔ نسبی غیب پر تو کافر اور مومن سبھی کا اعتبار ہے۔ اسی طرح جہاں ارشاد ہوتا ہے:

( وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ) ۰

غیب پر اطلاع کو ذات حق پر منحصر سمجھا گیا ہے اور مراد غیب مطلق ہے کیوں کہ یہ عبادت غیب نسبی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے جس جگہ پر غیب و شہادت کا ایک ساتھ تذکرہ ہوا ہے‘ مثلاً:

( عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۰ۚ هُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ) ( سورئہ حشر‘ آیت ۲۲)

وہ ہر غیب اور ہر شہود سے باخبر نہایت بخشنے والا اور بے حد مہربان ہے یعنی کوئی محسوس اور نامحسوس شے اس سے اوجھل نہیں ہے‘ یہاں پر بھی نہ دیکھے جانے والے غیب پر دلالت ہے نہ کہ غیب نسبی پر۔

دونوں عوامل یعنی غیب اور شہادت کے رابطے کی کیفیت کیا ہے؟ کیا عالم محسوس کی کوئی حد ہے اور اس حد کے پیچھے عالم غیب واقع ہے؟ مثلاً یہاں سے نیلگوں آسمان کی چھت تک عالم شہادت ہے اور اس کے بعد عالم غیب شروع ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے تصورات عامیانہ ہیں‘ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوئی جسمانی حد ان دونوں جہانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے تو دونوں جگہ شہادت اور دونوں عالم جسمانی اور مادی ہوں گے۔ غیب و شہادت کے رابطے کی کسی مادی اور جسمانی تعبیر سے توضیح نہیں ہو سکتی۔ زیادہ سے زیادہ جو تعبیر مطلب کو ذہن سے قریب کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسے اصل اور فرع یا پھر شخص اور اس کے سائے کے رابطے کی شبیہ قرار دیں یعنی یہ جہان اُس جہان کا ایک انعکاس اور پر تو ہے۔

قرآن سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اس دنیا کی ”تنزل یافتہ صورت“ ہے۔ جس چیز کو گذشتہ آیت میں ”مفاتح“ سے تعبیر کیا گیا ہے وہی چیز دوسری آیت میں ”خزائن“ سے موسوم ہوئی ہے۔

( وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُه ۰ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ )

”کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کا خزانہ اور اس کی حقیقت ہمارے پاس ہے اور ہم اس سے نازل نہیں کرتے مگر ایک معین اندازے کے ساتھ۔“ (سورئہ حجر‘ آیت ۲۱)

اور اسی لئے قرآن نے تمام چیزوں حتیٰ پتھر اور فولاد کو بھی ”نازل شدہ“ گرداناہے۔

( وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ ) (سورہ حدید‘ آیت ۲۵)

”ہم نے فولاد کو اتارا یا نازل کیا۔“

ظاہر سی بات ہے یہاں پر یہ مراد ہے کہ ہم نے من جملہ دوسری چیزوں کے فولاد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ جی ہاں! جو کچھ اس دنیا میں ہے‘ اس کی ”حقیقت“، ”اصل“ اور ”کنہ“ دوسری دنیا میں ہے جو عالب غیب ہے۔ وہ چیزیں جو اس عالم میں ہیں ان کی ”رقیق صورت“‘ ان کا ”پر تو“ اور ان کی ”تنزل یافتہ صورت“ اس دنیا میں ہے۔(دیکھئے تفسیرالمیزان (عربی متن)‘ جلد ۷‘ سورئہ انعام کی آیت ۵۹ کے ذیل میں)

چرخ با این اختران نغز و خوش و زیباستی

صورتی در زیر دارد‘ آنچہ در بالاستی

بررود بالا ہمی با اصل خود یکتاست ی

صورت عقلی کہ بی پایان و جاویدان بود

باہمہ و بی ہمہ مجموعہ و یکتا ستی

این سخن را در نیابد ہیچ فہم ظاہری

گر ابو نصرستی و گر بوعلی سینا ستی

قرآن جس طرح ”غیب“ کے عنوان سے ہستی کے بارے میں ایک طرح کے ایمان اور ایک طرح کی بصیرت کو پیش کرتا ہے اور لازم قرار دیتا ہے‘ بعض مقامات پر دیگر عناوین کے تحت ملائکہ اور رسول پر ایمان (وحی پر ایمان) کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔

( اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّه وَالْمُؤْمِنُوْنَۭكُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِه وَكُتُبِه وَرُسُلِه ۰ۣ ) (سورئہ بقرہ‘ آیت ۲۸۵)

”رسول اور صاحبان ایمان اس پر ایمان لاتے ہیں جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان (پیغمبروں) پر نازل کیا گیا ہے سب خدا اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔“

( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِه وَكُتُبِه وَرُسُلِه وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا )

”اور جس نے خدا کا‘ اس کے فرشتوں کا‘ اس کی کتابوں کا اور قیامت کے دن کا انکار کر دیا‘ وہ سخت گمراہی میں پڑ گیا۔“(سورئہ نساء‘ آیت ۱۳۶)

ان دونوں آیتوں میں اللہ کی کتابوں پر ایمان کا جداگانہ تذکرہ کیا گیا ہے اگر ان کتابوں سے آسمانی کتابیں ہی مراد ہیں جو انبیاء پر نازل ہوئی ہیں تو اس کے لئے وہی ایمان بالرسل کافی تھا۔ گفتگو کا یہ انداز بتاتا ہے کہ ان کتابوں سے مراد کچھ اور حقیقتیں ہیں کہ جو کتاب اور ورق کی نوعیت سے جدا ہیں۔ خود قرآن میں بار بار پوشیدہ اور غیبی حقائق کو کہیں ”کتاب مبین“، کہیں ”لوح محفوظ“، کہیں ”ام الکتاب“، کہیں ”کتاب مرقوم“ اور کہیں ”کتاب مکنون“ جیسے ناموں سے یاد کیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں ”تفسیرالمیزان“، مذکورہ الفاظ سے متعلق آیات) اسی ماورائی کتب پر ایمان‘ ایمان اسلامی کا حصہ ہے۔

انبیاء بنیادی طور پر اسی لئے آئے ہیں کہ وہ لوگوں کو ایک ایسا تصور کائنات اور انداز فکر عطا کریں جس کی رو سے وہ نظام ہستی کے بارے میں ہرچند مجمل سہی بقدر صلاحیت کوئی تصور ضرور پیدا کر لیں۔ خلقت کائنات صرف احساس و ادراک کی دنیا نہیں ہے کہ جس میں سائنسی اصولوں کے مطابق تمام امور قابل حس اور قابل تجربہ ہوں۔ انبیاء کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ انسان کی نگاہ کو محسوس سے معقول‘ آشکار سے پنہاں اور محسوس سے لامحدود تک لے جائیں اور اسے بلندی عطا کریں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرزمین مغرب سے اٹھنے والی مادی افکار کی لہریں اس قدر قوی ہو گئی ہیں کہ اب ایک گروہ کا یہ اصرار ہے کہ وہ اسلامی تصور کائنات کے تمام وسیع اور بلند و بالا مقام مفاہیم کو محسوس اور مادیات کی سطح تک گرا دیں۔

دنیا اور آخرت

دنیا اور آخرت کے اعتبار سے کائنات کی تقسیم اسلامی تصور کائنات کا ایک اور موضوع ہے۔ غیب و شہادت کے عنوان سے پہلے ہم جو کچھ عرض کر چکے ہیں اس کا تعلق ایسی دنیا سے تھا جو ہماری اس دنیا پر محیط ہے اور ہماری اس دنیا کو سنوارتا ہے۔ اگرچہ ایک اعتبار سے عالم آخرت عالم غیب ہے اور یہ دنیا عالم شہادت لیکن یہ وہ دنیا ہے جس میں ہمیں اس موجودہ دنیا کے بعد قدم رکھنا ہے لہٰذا اس کی وضاحت ایک علیحدہ عنوان کے تحت ضروری ہے۔ عالم غیب وہ دنیا ہے جہاں سے ہم آئے ہیں اور عالم آخرت وہ منزل ہے جہاں ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ حضرت علیؑ کے اس جملے کا بھی یہی معنی ہے:

رحم اللّٰه امرءً اعلم من این و فی این والی این

”اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے یہ جان لیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کس منزل پر ہے؟ اور اسے کہاں جانا ہے؟“

حضرت علیؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کی رحمت ہو‘ اس شخص پر جو یہ جان لے کہ کس چیز سے اس کی خلقت ہوئی ہے‘ کس چیز میں اسے جانا ہے‘ اور جس چیز سے وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اگر آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہوتا تو ہم یہ کہتے کہ مٹی سے ہماری خلقت ہوئی ہے‘ اسی میں ہمیں لوٹ کر جانا ہے‘ اور اسی سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اگر آپ کا یہ ارشاد ہوتا ہے تو قرآن کی اس آیت کی طرف آپ کا اشارہ ہوتا:

( مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى )

”ہم نے تمہیں زمین سے تخلیق کیا ہے‘ اسی میں تمہیں لوٹایا جائے گا‘ اور پھر اسی سے دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔“(سورئہ طہٰ‘ آیت ۵۵)

لیکن حضرت علیؑ کی نگاہ قرآن کی دوسری آیات کی جانب تھی کہ جو بلند تر مفاہیم کی حامل ہیں۔ آپ نے فرمایا ہم کس دنیا سے یہاں آئے ہیں؟ کس دنیا میں ہیں اور کس دنیا کی طرف ہمیں جانا ہے؟

دنیا و آخرت بھی غیب و شہادت کی مانند اسلامی تصور کائنات کے اعتبار سے دو مطلق مفاہیم کی حامل ہے نہ کہ نسبی اور قرآن کی رو سے ان میں سے ہر ایک جدا عالم ہے جو چیز نسبی ہے‘ وہ کار دنیا اور کار آخرت ہے‘ یعنی اگر کوئی کام نفس پرستی کے تحت انجام دیا جائے تو وہ دنیوی کام ہو گا اور اگر یہی کام خدا اور رضائے الٰہی کی خاطر ہو تو کار آخرت ہو گا‘ بعد میں ہم ”زندگی جاوید یا حیات اخروی“ کے عنوان سے دنیا و آخرت کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔

حکمت بالغہ اور عدل الٰہی

الٰہی تصور کائنات میں چند ایسے مسائل زیربحث آتے ہیں جو کائنات کے ساتھ اللہ کے رابطے سے متعلق ہیں‘ مثلاً حدوث و قدم عالم‘ نظام و ترتیب خلقت موجودات یا وہ دیگر مسائل جن کا الہیات میں تفصیل سے تذکرہ ہے۔ اس مقام پر جس چیز کا تذکرہ مناسب حال ہے وہ حکمت بالغہ الٰہی اور عدل الٰہی سے متعلق مسائل ہیں اور یہ دونوں مسائل ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ حکمت بالغہ الٰہی کا مسئلہ اس حوالے سے زیربحث آتا ہے کہ یہ نظام ہستی ایک حکیمانہ نظام ہے یعنی امور دنیا میں صرف علم و شعور اور ارادہ و مشیت ہی کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ موجودہ نظام ایک احسن اور اصلح نظام ہے اور اس سے زیادہ بہتر اور مفید نظام ناممکن اور محال ہے جہان موجود کامل ترین جہان ممکن ہے۔

اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے سوالات اور اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایسے حوادث و واقعات مشاہدہ میں آتے ہیں جن پر اس کے نقص‘ شر‘ قبیح یا عبث ہونے کا عنوان آتا ہے۔ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ شر کی جگہ خیر‘ بدصورتی کی جگہ خوبصورتی‘ عبث اور باطن کی جگہ مفید ہو۔ ناقص الخلقت لوگ‘ مختلف بلائیں‘ مصیبتیں‘ قبیح مناظر اور انسان و حیوان کے بدن میں زائد اعضاء و اجزاء خلاف حکمت کو ثابت کرتے ہیں۔ عادلانہ نظام تو یہ ہے کہ ظلم اور امتیازی سلوک کا کہیں وجود نہ ہو‘ آفت و بلا نام کی کوئی چیز نہ ہو بلکہ اس نظام میں عدم اور فنا بے معنی ہوں اس لئے کہ کسی ہستی کو وجود میں لانا‘ اسے لذت ہستی سے آشنا کرنا اور پھر دیار عدم میں بھیج دینا ظلم ہے۔ عادلانہ نظام سے مراد یہ ہے کہ اس نظام کے تمام موجودات میں جہل‘ عجز‘ ضعف و فقر جیسے نقائص موجود نہ ہوں‘ اس لئے کہ کسی موجود کو وجود کا لباس پہنانے کے بعد اسے ہستی و وجود کے شرائط کمالات سے محروم رکھنا ظلم ہے۔ اگر موجودہ نظام ایک عادلانہ نظام ہے تو پھر یہ تفاوت و تبعیض کیوں؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ کوئی گورا ہے کوئی کالا‘ کوئی خوبصورت ہے تو کوئی بدصورت‘ کوئی تندرست ہے تو کوئی بیمار؟ کیوں ایک وجود کو انسان بنایا اور دوسرے کو بھیڑ‘ بکری یا بچھو یا زمین پر رینگنے والا کیڑا؟

ایک شیطان خلق ہوا‘ اور دوسرا فرشتہ سب ایک جیسے کیوں نہیں بنائے گئے؟ یا پھر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ وہ جو گورا‘ خوبصورت اور تندرست ہے‘ کالا‘ بھدا اور بیمار ہو جائے۔ آخر کیوں؟

یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات کائنات کے بارے میں اٹھائے گئے ہیں اور اب الٰہی تصور کائنات کہ جو اس دنیا کو فعل خدائے حکیم اور خدائے عادل علی الاطلاق جانتا ہے‘ کا یہ فرض ہے کہ ان سوالات کا جواب دے۔

چونکہ ان سوالات کا اگر تفصیلی جواب دیا جائے تو ایک ضخیم اور مستقل کتاب بن جائے گی۔ اس کے علاوہ ہم نے خود بھی اپنی کتاب عدل الٰہی میں انہی موضوعات پر گفتگو کی ہے جو کئی بار شائع ہو چکی ہے اور بازار میں دستیاب ہے اور ہم نے ان سوالات کا حل بھی کتاب میں پیش کر دیا ہے لہٰذا یہاں پر تفصیل میں جانے کی بجائے حقیقت کے متلاشی افراد کو اس کتاب کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں پر ہم صرف ان اصولوں کے تذکرہ پر اکتفا کر رہے ہیں جن سے آگاہی حاصل ہو جانے کے بعد ان اشکالات و سوالات کے حل کی راہ ہموار ہو جائے گی اور نتیجہ اخذ کرنے کی ذمہ داری خود محترم قاری پر چھوڑ رہے ہیں۔

۱ ۔ اصول غنا اور اصول کمال ذات حق:

اللہ تعالیٰ اس عنوان سے کہ واجب الوجود علی الاطلاق ہے اور کوئی ایسا کمال اور کوئی ایسی فضیلت نہیں جو اس میں نہ ہو‘ کسی کام کو اپنے کسی مقصد یا کمال تک پہنچنے یا اپنے اندر کسی کمی کو پورا کرنے کے لئے انجام نہیں دیتا‘ اس کا کام نقص سے کمال کی طرف حرکت کے مفہوم میں نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اس کے بارے میں مفہوم حکمت یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے کاموں میں بہترین مقاصد کو اپنے لئے اور بہترین وسائل کو اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے انتخاب کرتا ہے۔ حکمت اپنے اس مفہوم میں انسان کے بارے میں صادق آتی ہے۔ خدا کے بارے میں نہیں‘ حکمت الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کام موجودات کو ان کے وجودی کمالات اور غایت وجود تک پہنچانا ہے‘ اس کا کام ایجاد کرنا ہے کہ جو خود (عدم سے) کمال وجود تک پہنچانا ہے یا ان کی تدبیر و تکمیل ہے اور اشیاء کو ان کے کمالات اور ان کی جہات خیر تک پہنچانا ہے‘ خود ایک طرح سے افاضہ و تکمیل ہے۔

سوالات‘ اشکالات کا ایک حصہ خدا کو انسان پر قیاس کرنے کی وجہ سے عمل میں آتا ہے‘ اکثر جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ”فلاں مخلوق کی حکمت اور فائدہ کیا“ تو سوال کرنے والا خدا کو اس مخلوق کی مانند سمجھتا ہے کہ جو اپنے کاموں میں دوسری مخلوقات اور موجودات سے اپنے مقصد تک پہنچنے کی خاطر فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اگر پوچھنے والا پہلے سے اس چیز کو اپنی نظر میں رکھے کہ حکمت الٰہی کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا فعل غایت رکھتا ہے نہ کہ خود اور ہر مخلوق کی غایت خود اس کے وجود میں پنہاں ہے اور خداوند عالم اس کو خود اپنی ذاتی غایت کی سمت بڑھاتا ہے تو بہت سے سوالات کا خود بخود جواب مل جائے گا۔

۲ ۔ اصول ترتیب:

فیض الٰہی یعنی فیض ہستی جس نے پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے‘ ایک مخصوص نظام ہے۔ موجودات و مخلوقات میں ایسی خاص قسم کا تقدم و تاخر‘ ایک ایسی علیت و معلولیت اور سببیت و مسببیت موجود ہے جو ناقابل تبدیل ہے یعنی کوئی موجود اپنے خاص مرتبے سے تجاوز کر سکتا ہے نہ اسے چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور موجود کے مرتبے پر اپنا قبضہ جما سکتا ہے۔ پس مراتب ہستی اور درجات ہستی کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے درمیان نقص و کمال اور شدت ضعف کے اعتبار سے ایک طرح کا اختلاف موجود ہو‘ اختلاف و تفاوت اس معنی میں کہ وہ لازمہ مراتب ہستی ہے‘ امتیاز اور زیادتی نہیں کہ جسے خلاف حکمت اور خلاف عدل سمجھا جائے‘ زیادتی اس وقت ہو گی جب دو موجود‘ کمال کے ایک ہی معین درجے کی قابلیت رکھتے ہوں لیکن ایک کو کمال عطا کر دیا جائے جب کہ دوسرے کو محروم رکھا جائے لیکن جہاں اختلاف و تفاوت کا تعلق ذات میں موجود نقص اور کمی سے ہو تو اسے امتیاز نہیں کہا جا سکتا۔

۳ ۔اصول کلیت

خدا کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے کے نتیجے میں انسان کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ انسان ایک معین جگہ اور معین وقت میں (البتہ معینہ رائج شرائط کے تحت) گھر بنانے کی سوچتا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے‘ کچھ اینٹیں‘ کچھ لوہا‘ کچھ سیمنٹ کہ جن میں ذاتی اعتبار سے کوئی جوڑ نہیں انہیں آپس میں مصنوعی اتصال کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے اور گھر کے نام سے ایک معین عمارت کھڑی ہو جاتی ہے۔

کیا خدا کا کام بھی اسی نوعیت کا ہے؟ کیا خداوند عالم کی مضبوط و مستحکم صنعتیں بھی اسی طرح چند لاتعلق چیزوں کے درمیان مصنوعی اور عارضی رابطے سے وجود میں آئی ہیں؟ اس طرح کا مصنوعی اور عارضی جوڑ انسان جیسی مخلوق کا کام ہے کہ جو اس نظام کا ایک حصہ ہے اور ایک معین مقدار میں خلق شدہ موجود اشیاء کے خواص اور طاقتوں سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ یہ کام اس مخلوق کا ہے کہ جس کی فاعلیت اور خالقیت‘ فاعلیت حرکت کی حد میں ہے‘ فاعلیت ایجادی کی حد میں نہیں یعنی وہ کسی موجود شے میں حرکت وجود میں لاتا ہے اور وہ بھی ”طبیعی“ نہیں ہوتی بلکہ ”قسری“ نوعیت کی ہوتی ہے۔ لیکن خداوند عالم فاعل ایجادی ہے‘ وہ اشیاء کو تمام طاقتوں‘ تمام خصلتوں اور تمام خاصیتوں کے ساتھ خلق کرتا ہے۔

مثلاً انسان آگ اور بجلی کے وجود سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے اس جزوی کام کو اس طرح مرتب کرتا ہے کہ جب چاہتا ہے اس کے اثرات کو ظاہر کر کے اس سے استفادہ کرتا ہے اور جب نہیں چاہتا یا ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے تو فوراً ایک لمحے میں اس کے اثر کو توڑ کر اس کی خاصیت منجمد کر دیتا ہے۔ لیکن خداوند عالم تمام خاصیتوں کے ساتھ آگ اور بجلی کا خالق ہے۔ بجلی اور آگ کا لازمہ ہے کہ وہ گرمی دے یا حرکت پیدا کرے یا جلائے۔ خداوند عالم نے ان دونوں چیزوں کو خاص شخص یا خاص شے کے لئے خلق نہیں کیا مثلاً وہ فقیر کی کٹھیا کو گرم کرے لیکن جب اس کا لباس آگ میں گرے تو اسے نہ جلائے۔ خدا نے آگ کو جلانے کی خاصیت کے ساتھ خلق کیا ہے۔ پس نظام عالم میں آگ کو اس کی کلیت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں اس کا وجود لازم‘ مفید اور حکمت کے موافق ہو‘ نہ یہ کہ اس کی جزوی حیثیت کو سامنے رکھ کر یہ کہا جائے کہ فلاں جزوی شے میں فلاں ذاتی غرض کے پیش نظر‘ کیا اس کا وجود فائدہ مند‘ خیر اور حکمت ہے یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں جہاں حکمت الٰہی میں غایت کو غایت فعل سمجھنا چاہیے۔ غایت فاعل نہیں اور خدا کے حکیم ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس نے موجودات کو ان کی غایات تک پہنچانے کے لئے بہترین نظام ایجاد کیا ہے۔ اپنے نقص کو کمال اور قوت کو فعل سے بدلنے اور اہداف کمالیہ حاصل کرنے کے لئے بہترین وسیلے کی فراہمی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ افعال الٰہی کی غایات کلی ہیں‘ جزوی غایات نہیں۔ آگ کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ کلی پر جلائے نہ کہ فلاں مورد میں جلانے کے لئے کہ جو ممکن ہے ایک شخص کے لئے مفید ہو اور دوسرے کے لئے مضر۔

۴ ۔ صلاحیت اور قابلیت

کسی حقیقت اور کسی واقعیت کو پانے کے لئے صرف فاعل کی فیاضت اور اس کا تام الفاعلیہ ہونا کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے صلاحیت اور قابلیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صلاحیت اور قابلیت کا فقدان بعض موجودات کو بہت سے موارد میں بعض کمالات اور نیکیوں سے محروم رکھتا ہے اور نظام کلی نیز واجب الوجود کے ساتھ ارتباط کے حوالے سے جہل و عجز جیسے بعض نقائص پیدا ہو جانے کا راز بھی یہی ہے۔

۵ ۔ واجب بالذات

خداوندتعالیٰ جس طرح واجب بالذات ہے واجب من جمیع الجہات بھی ہے اور اسی لئے محال ہے کہ کوئی موجود قابلیت وجود رکھتا ہو اور اس کی جانب سے اس کے لئے افاضہ وجود نہ ہو اور اسے وجود سے محروم رکھے۔

۶ ۔ حقیقی وجود

شرور اور برائیاں یا تو خود ہستی و عدم کی صنف سے ہیں۔ جیسے جہل‘ عجز و ناتوانی اور غربت و افلاس یا پھر ہستی کی صنف سے ہیں لیکن ان کا شر ہونا اس اعتبار سے ہے کہ یہ فقدان کا باعث بنتے ہیں جیسے زلزلے‘ جراثیم‘ سیلاب اور ژالہ باری وغیرہ۔ وہ ہستیاں جو نیستی اور عدم کا باعث بنتی ہیں ان کی شریت دوسری اشیاء کی نسبت سے ہوتی ہے نہ کہ اپنی ذاتی حیثیت میں شر ہوتی ہیں۔ ہر شے کا حقیقی وجود فی نفسہ اس کا وجود ہے اس کا اضافی اور نسبی وجود ایک اعتباری اور انتزاعی امر اور اس کے حقیقی وجود کا جزولاینفک ہے۔

۷ ۔ نیکیاں اور شرور

نیکیاں اور شرور دو علیحدہ اور مختلف چیزیں نہیں ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے الگ اور مستقل ہیں بلکہ شرور نیکیوں کی ناقابل جدا صفت اور ان کا لازم ہیں۔ وہ شرور جو خود نیستی و عدم کی قسم سے ہیں ان میں صلاحیت اور قابلیت کا فقدان ہے لیکن قابلیت پیدا ہوتے ہی ذات واجب الوجود کی طرف سے افاضہ وجود حتمی اور لازم ہو جاتا ہے۔ اب رہے وہ شرور جو عدم کی قسم سے نہیں ہیں انہیں کبھی اچھائی سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

۸ ۔ عدم اور نابود

کوئی شر شر محض نہیں ہوتا‘ عدم اور نابود اپنی اپنی جگہ خود مقدمہ ہستی اور مقدمہ کمالات و خیرات ہیں۔ شرور اپنے مقام پر تکامل کا زینہ ہیں اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی چھپی ہوتی ہے اور ہر عدم میں ایک وجود پوشیدہ ہوتا ہے۔

۹ ۔ قانون و سنت

عالم ہستی اس جہت سے کہ علت و معلول کے نظام کے مطابق جاری و ساری ہے اور وہ نظام جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کلی ہے لہٰذا قوانین و سنن الٰہی کی بنیاد پر قائم ہے اور قرآن مجید بڑی صراحت کے ساتھ اس کی تائید کرتا ہے۔

۱۰ ۔ ناقابل تجزیہ و تقسیم اکائی

دنیا جس طرح ایک ناقابل تخلف اور کلی نظام کی حامل ہے اسی طرح اپنی ذات میں بھی ایک ناقابل تجزیہ و تقسیم اکائی ہے یعنی اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم کی مانند اکائی پر مشتمل ہے پس نہ صرف شرور اور نیستی و نابودی‘ خیر و ہستی سے جدا نہیں ہو سکتی بلکہ اجزائے کائنات کا مجموعہ بھی ایک اکائی اور ایک جلوہ ہونے سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔

مذکورہ دس اصولوں کی بنیاد پر جو چیز وجود کا امکان رکھتی ہے وہ معین کلی اور غیر متغیر نظام ہے پس امر دنیا اس بات پر منحصر ہے کہ یا تو معین نظام کے ساتھ موجود ہو یا اصلاً موجود نہ ہو لیکن یہ بات کہ خود تو موجود ہو لیکن نظام نہ رکھتا ہو یا نظام تو رکھتا ہو مگر اس نظام کی کوئی دوسری شکل ہو مثلاً علتیں معلولات کی جگہ اور معلولات علتوں کی جگہ ہوں تو یہ محال ہے۔ پس جو بات حکمت بالغہ کے حوالے سے قابل بحث ہے‘ وہ یہ ہے کہ دنیا یا تو ایک منظم نظام کے تحت موجود ہو یا کچھ بھی موجود نہ ہو۔ واضح سی بات ہے کہ حکمت افضل کا تقاضا کرتی ہے یعنی ہستی کا تقاضا کرتی ہے‘ عدم کا نہیں۔ اسی طرح وہ چیز جس کا وجود ممکن ہے وہ اشیاء کا اپنے سے جدا ہونے والے لوازم اوصاف کے ساتھ وجود رکھنا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نیکیاں اور ہستیاں شر اور نیستی سے جدا ہو جائیں‘ خیال محض اور توہم محال ہے۔ پس اس اعتبار سے بھی جو چیز حکمت بالغہ کے حوالے سے زیربحث ہے وہ یہ کہ خیر و شر کا بیک وقت نہ ہونا ہے نہ کہ خیر تو موجود ہو لیکن شر موجود نہ ہو۔

اسی طرح جو چیز امکان وجود رکھتی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل اکائی کی صورت میں کل کائنات کا موجود ہونا ہے نہ کہ ایک جزو کا موجود ہونا اور دوسرے کا معدوم پس حکمت بالغہ کی نظر سے جو چیز قابل بحث ہے وہ کل کا ہونا یا نہ ہونا ہے کسی جزو کا ہونا اور دوسرے جزو کا نہ ہونا نہیں ہے۔

مذکورہ اصول اگر اچھی طرح سمجھ میں آ جائے تو یہ حکمت بالغہ اور عدل کامل الٰہی سے متعلق تمام شبہات اور تمام اشکالات کو ختم کر دینے کے لئے کافی ہے۔ میں ایک بار پھر اپنے پڑھنے والوں کو اپنی کتاب ”عدل الٰہی“ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کے لئے معذرت چاہوں گا کہ میں نے ضرورت کے تحت ان مسائل کو پیش کیا جو اس کتاب کی سطح سے بالاتر ہیں۔

آخر میں اس عنوان سے کہ ”عدل“ کی بحث مسلمانوں کے درمیان خاص تاریخ کی حامل ہے یہاں تک کہ اسے شیعہ مذہب کے اصول میں داخل کر دیا گیا ہے یعنی شیعہ نقطہ نظر سے عدل اصول اسلام کا حصہ ہے لہٰذا اس کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ بے سود نہیں ہو گا۔

اسلامی ثقافت میں اصول عدل کی مختصر تاریخ

مذہب شیعہ میں ”عدل“ اصول دین میں شامل ہے۔ ہم اپنی کتاب عدل الٰہی میں عرض کر چکے ہیں کہ اسلامی ثقافت میں عدل‘ عدل الٰہی اور عدل انسانی میں تقسیم ہوا ہے اور عدل الٰہی عدل تکوینی اور عدل تشریعی میں تقسیم ہوا ہے۔ عدل انسانی بھی اپنے مقام پر عدل انفرادی اور عدل اجتماعی میں تقسیم ہوا ہے اور جس عدل کو شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ہے‘ عدل الٰہی ہے اور عدل کی یہی قسم اسلامی تصور کائنات کا محور ہے۔

عدل الٰہی اس بات پر اعتقاد کا نام ہے کہ خداوند عالم‘ نظام تکوین میں ہو یا نظام تشریع میں‘ حق و عدل کے مطابق عمل کرتا ہے اور ظلم نہیں کرتا۔ عدل کو مذہب شیعہ کا ایک اصول قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس نے انسان کی آزادی و اختیار سے انکار کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے قضا و قدر الٰہی کے بارے میں ایک ایسے عقیدے کی بنیاد رکھی جو انسان کی آزادی کے بالکل منافی تھا۔ انہوں نے کائنات کے کلی نظام اور انسان کے نظام عمل میں علت و معلول اور سبب و مسبب کا انکار کر دیا اور یہ عقیدہ قائم کر لیا کہ قضائے الٰہی براہ راست اور بلاواسطہ عمل کرتی ہے اس بناء پر آگ نہیں جلاتی بلکہ خدا جلاتا ہے۔ مقناطیس کے لوہے کا اپنی طرف کھینچنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ خدا ہے کہ جو براہ راست لوہے کو مقناطیس کی طرف جذب کرتا ہے انسان اچھا یا برا کام انجام نہیں دیتا بلکہ خداوند تعالیٰ پیکر انسانی میں اچھا یا برا کام انجام دیتا ہے۔

اور یہیں سے ایک اہم مسئلہ زیربحث آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر نظام علت و معلول بے حقیقت ہے اور اگر انسان کا اپنے کاموں کے انتخاب میں کوئی حقیقی کردار نہیں ہوتا‘ تو پھر انفرادی جزا و سزا کے مسئلے کی توجیہ کیا ہو گی؟ خدا کیوں بعض افراد کو جزا دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا اور بعض دوسرے افراد کو سزا دے گا اور دوزخ میں ڈال دے گا‘ جب کہ وہ نیک کام بھی خود انجام دیتا ہے اور برا کام بھی؟ ایسے انسانوں کو جزا و سزا دینا جو ازخود ذرہ برابر بھی آزادی و اختیار نہیں رکھتے‘ ظلم ہے اور عدل خداوندی کے قطعی اصول کے برخلاف بھی۔ شیعوں نے عمومی طور پر اہل سنت کے ایک گروہ جسے معتزلہ کہا جاتا ہے‘ کی قطعی اور عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر انسان کے مجبور ہونے اور الٰہی قضا و قدر کے بلاواسطہ عالم میں مداخلت کی نفی کی ہے اور اسے اصول عدل کا منافی گردانا ہے اسی لئے یہ عدلیہ کے نام سے معروف ہوئے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول عدل ہرچند ایک الٰہی اصول ہے یعنی صفات خدا میں سے ایک صفت کے ساتھ مربوط ہے لیکن ایک انسانی اصول بھی ہے کیوں کہ یہ انسان کی آزادی و اختیار سے مربوط ہے۔ پس شیعہ اور معتزلہ کے درمیان عدل سے مراد انسان کی آزادی و اختیار کے اصول‘ انسان کی ذمہ داری اور اس کی اصلاح و تعمیر پر اعتقاد ہے۔

عدل الٰہی سے متعلق زیادہ تر جس سوال نے بالخصوص اس موجودہ دور میں اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے وہ بعض معاشرتی ناہمواریوں سے متعلق ہے۔ عام طور سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ بدصورت ہیں اور بعض خوبصورت‘ بعض صحت مند ہیں‘ بعض بیمار‘ بعض خوشحال ہیں اور بعض محتاج اور نیازمند‘ کیا یہ ناہمواریاں عدل الٰہی کے خلاف نہیں؟ کیا عدل الٰہی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ سب لوگ مال و دولت میں‘ عمر میں‘ اولاد میں‘ معاشرتی مراتب میں اور شہرت و محبوبیت میں برابر ہوں؟ اور اختلاف و تفاوت نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو۔ کیا ان اختلافات کی ذمہ دار قضا و قدر الٰہی کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے؟

اس سوال اور ابہام کی بنیاد دو چیزیں ہیں:

ایک قضا و قدر الٰہی کی کیفیت سے عدم توجہ‘ اس مقام پر سوال کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ قضا قدر الٰہی کا براہ راست عمل دخل ہے (ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”انسان اور تقدیر“ اس کتاب میں قضائے قدر الٰہی کے مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے)۔ مثلاً دولت و ثروت بلاواسطہ اور بغیر کسی سبب اور عامل کے غیب الٰہی کے خزانے سے لوگوں کے گھروں میں منتقل ہوتی ہے۔ اسی طرح صحت و سلامتی‘ خوبصورتی‘ قوت و طاقت‘ مقام و منصب“ مقبولیت‘ اولاد اور دیگر بخششوں کا بھی یہی حال ہے۔ جب کہ اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی گئی کہ رزق چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو‘ چاہے مادی ہو یا معنوی‘ براہ راست خزانہ غیب سے تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قضائے الٰہی نے ایک نظام کو خلق کیا ہے کہ جو قوانین و سنن کے ایک سلسلے کا حامل ہے۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس چیز کا بھی خواہشمند ہے اسے اسی نظام اور انہی سنن و قوانین کے تحت مانگے۔

اس انتباہ اور غلطی کی دوسری بنیاد انسان کی اس مقام و منزلت سے عدم توجہ ہے کہ جس میں وہ ایک طرف تو ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے بہترین زندگی کے لئے تگ و دو کرتا ہے اور عوامل طبیعت سے برسرپیکار رہتا ہے اور دوسری طرف معاشرتی برائیوں کے عوامل اور انسانوں کے مظالم اور برے کردار کا مقابلہ کرتا ہے۔

اگر معاشرے میں بعض ناہمواریاں ہیں‘ اگر بعض لوگ نعمتوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے پاس نعمتوں کی فراوانی ہے جب کہ بعض لوگ غریب و مفلس ہیں اور سخت محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں تو اس کی ذمہ دار قضائے الٰہی نہیں ہے بلکہ اس نامساوی اور ناہموار صورت حال کی ذمہ داری آزادی و خود مختاری انسان پر عائد ہوتی ہے۔

فہرست

عالم محسوس اور معرفت کائنات ۴

مختلف تصور ہائے کائنات ۶

سائنسی تصور کائنات ۶

فلسفی تصور کائنات ۱۱

مذہبی تصور کائنات ۱۲

ایک اچھے تصور کائنات کا معیار ۱۳

اسلامی تصور کائنات ۱۳

حقیقت بین تصور کائنات ۱۵

خدا واقعیت مطلق اور مبدائے ہستی ۱۷

۱ ۔ محدودیت ۱۷

۲ ۔ تغیر و تبدل ۱۷

۳ ۔ وابستگی ۱۸

۴ ۔ محتاجی ۱۸

۵ ۔ نسبیت ۱۸

صفات خدا ۲۰

وحدانیت خدا ۲۱

عبادت و پرستش ۲۳

عبادت کی تعریف ۲۳

۱ ۔ عبادت کا تعلق یا قول سے ہوتا ہے یا عمل سے: ۲۳