خورشیدفقاہت

خورشیدفقاہت0%

خورشیدفقاہت مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خورشیدفقاہت

مؤلف: آیت اللہ سید عادل علوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8199
ڈاؤنلوڈ: 1508

تبصرے:

خورشیدفقاہت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8199 / ڈاؤنلوڈ: 1508
سائز سائز سائز
خورشیدفقاہت

خورشیدفقاہت

مؤلف:
اردو

آپ کی سیاسی زندگی

لوگوں کے امورکی نگرانی ان کیلئے سعادت وخوشگوارزندگی کی فراہم کرنا ۔ان سے شروفساد کودروکرنااسلامی سیاست ہے دوسرے لفظوں میں اس کےمعنی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے ہیں ۔حدیث مین آیاہے (امرت بمداراۃ الناس)مجھے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیاہے۔

نیک اورصالح علماء ہی انبیاء اوصیاء کےبعدقائداوررہبرہیں یہی حضرات تمام طبقے کے لوگوں کے ساتھ سلامتی وسعادت اورعلم وبرتری کی طرف سفرکرتے ہیں جب شہنشاہوں اوربادشاہوں کوعلماء کی دہلیزپردیکھوتویقین کرلوکہ یہ علماء اوربادشاہ دونوں بہتر ہیں یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بادشاہ سے لیکررعایاتک اگرتمام لوگ علماء کےدروازوں پرعلم وعمل صالح کے کسب واکتساب اوردینی وانسانی وظائف سیکھنے کیلئے آئیں تویہی بہترین اورنیک زندگی ہے۔

اورجب علماء کوبادشاہوں کے دروازوں پردیکھوتویہ علماء اوربادشاہ دونوں برے ہیں۔اورظالمین کے ساتھ وابستہ زندگی بھی بری ہے کیونکہ علماء اوربادشاہ دونوں نے اپنے نفس پرظلم کیا۔صراط مستقیم سے منحرف ہوگئے ۔اپنے آپ کوصحیح منزل تک نہیں پہنچایااوراب یہی لوگ اللہ کے راستے میں کجی ہی تلاش کرتے ہیں ۔

لہذالوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا،کلمہ حق کابلندکرنا،ظلم وجورسے نبردآزماہونااورانسانی معاشرے میں عدل قائم کرناہی ہماری سیاست ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ سیدمحسن الحکیم طاب ثراہ نے کیاجاودانی کلمہ ارشادفرمایاہے۔"اگرسیاست کےمعنی بندگان خداکےامورکی اصلاح اوران کے حالات کی ترقی کیلئے کام کرناہے توہرعالم پر اس کیلئے اپنی پوری قوت وتوانائی کے ساتھ قیام کرناواجب ہے"

ہرفقیہ اورعالم کے وجودمیں صحیح رحمانی سیاست جلوہ گرہے اوراس کےرفتاروکردارمیں دینی واسلامی سیاست روشن ہے۔اس پراستعماری سیاستوں اوراستکباری گروہوں سے مقابلہ کرنااورہرزمانہ میں ہرملک میں کلمہ حق کے بلند کرنے کیلئے برسرپیکارہوناضروری اسے ظلم وجورکے خاتمے ، عدل وانصاف کی حکومت قائم کرنے نیزطاغوتوں اورظالموں سے جنگ کرنے کیلئے اپنے نفس کی قربانی پیش کردیناچاہیے۔

علماء دین ایسی ہی شان کے ہوتے ہیں یہی لوگ بہترین قائداورنمونہ عمل ہیں جوظلم وعناومنکرات حتیٰ درباری ملاؤں اورواعظوں تک سے بھی جنگ کرتے ہیں۔

ایسے ہی نیک افراد میں استاد علام بھی تھے آپ نے ایران کے اسلامی انقلاب کی قیادت میں شرکت فرمائی اورامام راحل اسلامی انقلاب کے عظیم قائدورہبرحضرت امام خمینی ؒ کے ساتھ ایک ہی مورچے پرتھے یہاں تک کہ اس انقلاب کوکامیاب کیااسلامی حکومت کی بنیاد رکھی نبی اکرم ؐ اوراہل بیت اطہارؑ کے دین کومظبوط ومحکم فرمایاحتیٰ اپنی زندگی کے آخری سال تک یہ فریضہ انجام دیاجس کی گواہی وہ اعلانات وبیانات دے دہے ہیں جسے آپ نے اسلامی انقلاب کے دوران ارشادفرمایاتھا۔

آپ نے اس انقلاب کے پس منظرمیں دین محمدی کی ترویج ،قرآن کریم اوراہلبیتؑ کے معارف ومسالک کی نشرواشاعت فرمائی۔

میں نے ایک دن آپ سے ان سیاسی معرکوں ،پارٹیوں کے طنطنوں اورسیاسی شخصیتوں کے ہمہموں کے بارے میں اپنے شرعی فرائض دریافت کئے توآپ نے جواب دیاہمیں مذہب اہل بیتؑ کی رعایت اوراسکی حفاظت کرناچاہیے اوراسے سالم حالت میں اپنی اولادکے سپردکردیناچاہیے جیسے ہمارے آباؤاجداد نے ہمارےسپردکیاتھا۔

انھیں بنیادوں پراستاد علام سیاست کے بارے میں ایک مستقل کتاب لکھی جانی چاہیے اورچونکہ کتاب کی اس فصل میں اتنی گنجائش نہیں ہے لہذامیں نے یہاں اتنے ہی پراختصارکیاہے۔

آپ کی سماجی زندگی

اہم دینی شخصیتوں اورامت کے مصلح قائد نیزدینی مراجع کی اہم ذمہ داریاں سماج میں اصلاح سے ترقی کی راہ پرگامزن کرنااورسماج میں علم وثقافت کوفروغ دینارہی ہیں جواس عالم میں صبح کرے اورمسلمانوں کے اموراوران کے حالات کے بارےمیں غوروفکر نہ کریں وہ مسلمان نہیں ہےاسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے اوربلاشبہ میری امت کی رہبانیت جہاداورتمام لوگوں کے ساتھ باہم سلوک کرناہے مجھے لوگوں کےساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیاجیساکہ احادیث شریف میں واردہواہے۔

اسی طرح استاد علام نے بھی امت کےدرمیان ایک نیک فرزند،شفیق بھائی مہربان باپ ،رحیم استاد،اورہمدردقائدکےعنوان سے زندگی بسرکی ،کبھی آپ سے کوئی ایساکلام صادرنہیں ہواجوخوشگواراورپاکیزہ سماج کے عادات واخلاق سے منافاۃ رکھتاہوآپ انتہائی اخلاص سے لوگوں کی مدارات کرتے تھے اوراگربعض اوقات سخت کلامی اورتندروئی سے کام لیتے توان کےاحساسات وجذبات کی رعایت کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے جب صدام لعین شہرمقدس قم اورایران کےبیشتر شہروں کومیزائلوں اوربموں کانشانہ بنائے ہوئے تھا۔ عوام خوف ودہشت سے اپنی جان بچانے کیلئے قم سے باہر بھاگ رہے تھے لیکن استادعلام اپنی جگہ پرموجودرہے آپ اس سے پہلے حرم مطہرمیں نمازجماعت پڑھانے کیلئے ٹیکسی سے جایاکرتے تھے۔ لیکن ان مصیبت زدہ دنوں میں اپنی کبرسنی اورضعیفی کے باوجودنمازپڑھانے کیلئےپیدل تشریف لیجاتےتھےجب آپ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوفرمایامیں چاہتاہوں کہ لوگ مجھے دیکھیں تاکہ ان کےدلوں کواطمینان ہوجائے ۔

ایک دفعہ میں آپ کے پاس آپ کے حجرہ میں بیٹھاہواتھاکہ ایک ضعیف آدمی آیااورسلام کے بعدفرمایااے سیدمیں آپ کوذاتی طورپرجانتاہوں میں ایک دلاک ہوں آپ کوآپ کی زندگی کاایک واقعہ یاددلاناچاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ میں عمومی حمام میں دلاک تھاآپ جوانی کےایام میں اپنے چھوٹے بچوں کےساتھ اس حمام میں تشریف لائے اوروہاں کچھ بچوں کودیکھ کرمجھ سے ان کےبارے میں پوچھاتومیں نے کہایہ یتیم بچے ہیں اس وقت آپ اپنے بچوں سے سے مخاطب ہوکرفرمانے لگے ان یتیم بچوں کے سامنے ان کے احساسات کی رعایت کرتے ہوئے تم مجھے باباکہہ کرنہ پکارناپھرآپ نے مجھے کچھ روپئے دئیے تاکہ میں ان بچوں کےپڑھنے لکھنے کی ضروری چیزیں خریدوں۔

جب میں نے یہ واقعہ سنامیرے حواس دنگ رہ گئے میں نے اپنے دل میں کہااللہ اکبریہی لطیف احساسات اورظریف ودقیق سماجی نکات کی رعایتیں ہیں۔

آپ کےاورعوام کےدرمیان کوئی پردہ نہیں تھاآپ کادروازہ آنے والے مردوں اورعورتوں کے لئے ہمیشہ کھلارہتاتھا۔

میں وہ ساعت کبھی نہیں بھول سکتاجب میں آپ کی وفات کے دودن پہلے آپ کے پاس موجودتھااورایک ضعیفہ اپنے خمس کی ادائیگی کیلئے آپ کے پاس آئی اس نے آپ سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کی درخواست کی آپ نے جواب دیااگرشفاعت کی اہل ہوگی تومیں یقیناًتیری شفاعت کروں گا۔

وہ اپنے دشمنوں پربھی مہربان تھے پھربھلااپنے دوستوں اورچاہنے والوں کے ساتھ کیوں نہ حسن سلوک کرتے۔

ایک دن آپ نے مجھ سے اپنے دشمنوں اورحاسدوں کی طرف سے اپنے اوپرہونے والے واقعات کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ صحن مطہرمیں وہ دسیوں صفوں کی جماعت کی امامت فرمایاکرتے تھے لیکن دشمنوں کی افواہوں اورحاسدوں کی چغلیوں کی وجہ سے نوبت یہاں تک آگئی کہ تھوڑے سے مومنین کی امامت فرمانےلگے۔

استادعلام نے فرمایا۔

میں ان دنوں سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہاکی ضریح کے قریب آیااپنی عبااپنے سرپررکھی عمامے کے تحت الحنک کاایک سراضریح اقدس سے باندھ دیااوراس طرح شہزادی کی خدمت میں حاضر ہواجیسے عوام آتے ہیں۔پھرمیں شدت سے رویااوراپنے مصائب وآلام نیزبعض لوگوں کی ایذاء رسانی کاان سے شکوہ کیااسی اثناء میں مجھ پرغنودگی طاری ہوگئی تومیں نے عالم مکاشفہ میں دیکھاکہ میں ایک وسیع وعریض میدان میں دوڑرہاہوں میرے دشمن مجھےہر طرف سے پتھروں سے ماررہے ہیں اورمیں چیخ رہاہوں اے میرے جدامیرالمومنینؑ مجھے اس مصیبت سے رہائی دیجئے خوف زدہ بھاگتے ہوئے میں نے محسوس کیاکہ کسی نے پیچھے سے مجھ پرہاتھ رکھ دیاہے یقین ہوگیا یہ امیرالمومنین ؑ کاہاتھ ہے انھوں نے مجھے زمین سے اوپر اٹھایااورکہاصبرکروآپ کے جدامیرالمومنین ؑ کے ساتھ بھی ایساہی کیاگیاہے ۔میں بیدارہوگیااوراپنے دل میں انتہائی سکون وقرارمحسوس کیا۔

استادنے فرمایا۔

انھیں مصیبت زدہ دنوں میں ایک دن میں کسی مجلس میں گیا وہاں ایک عمامہ پوش شخص بھی تھامیں اس کےپہلومیں بیٹھ گیا اس نے مجھ سے شدت عداوت کی بناء پرلوگوں سامنے میری طرف پیٹھ کرلی میں نے اپنے دل میں اسے محفوظ کرلیااوراس کاحساب خداکےحوالے کردیاجب میں وہاں سےجانے لگاتواس کے دامن میں کچھ پیسے ڈال دئیے اوراسے احساس تک نہ ہوا۔اس کےبعدوہ لوگوں سے بیان کرتاتھا اس رات میرے پاس کچھ بھی پیسہ نہیں تھا۔

وہ اپنی گودمیں کچھ مال پاکرانتہائی حیرت میں تھااسے یہ احسا سہی نہین ہواکہ میں نے اس کی گودمیں پیسہ ڈال دیاتھا۔

اس عظیم اخلاق کودیکھواورسوچولوگوں کے ساتھ کس اعتبارسے رہناچاہیے۔

آپ حرم معصومہ میں تینوں وقت نمازپنجگانہ پڑھانے تشریف لےجاتے تھے آپ نےفرمایاجب میں نے قم مقدسہ کواپناوطن بنایاتھاحرم مطہرمعصومہ میں نمازصبح کی جماعت نہیں ہوتی تھی آپ نے اس خدمت کو۶۰ سال تک انجام دیا۔آپ ہی وہ فردفریدہیں جوطلوع فجرسے ایک گھنٹہ پہلےحرم شریف میں بلاناغہ پہنچ جایاکرتے تھے حتی سردی اوربرف باری کے زمانے میں بھی اپنے اس عمل کوجاری رکھاجبکہ گلیوں میں برف جمی رہتی تھی آپ بڑی مشکل سے گلی میں راستہ بناکرحرم پہنچتے اوربند دروازے کی پشت پربیٹھے دروازہ کھلنے کاانتظارکرتے تھے۔

آپ نے فرمایامیں پہلے تنہائی نمازاداکرتاتھااس کےبعدایک شخص میرے ساتھ نمازپڑھنے لگارفتہ رفتہ جماعت میں اضافہ ہوتاگیا۔استادعلام کی مرجعیت کازمانہ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے اورفقہ کےدرس خارج سے شروع ہوا۔آپ فقہ کادرس خارج حرم سیدہ معصومہ میں مسجدبالاسر۱۰بجے دن اوراصول کادرس خارج شام کےوقت اپنے گھرمیں دیاکرتے تھے لیکن جب اپنی آخری عمرمیں مختلف قسم کے امراض میں مبتلاہوگئے تویہ سلسلہ بندہوگیا۔

آپ روزانہ سیکڑوں خطوط کےجواب دیاکرتے تھےجوایران اوربیرون ملک سے ان کےمقلدین اوردوسرے افرادکی طرف سے آتےتھے۔

مجھے یادہے آپ کے آخری دورحیات میں افریقہ کے کسی شہرسے ایک تفصیلی خط آیاجس میں ۱۷۰ سوال پوچھے گئےتھے میں نے تین روزتک اسے آپ کےسامنے پڑھااورآپ روزانہ مجھےایک گھنٹہ اس کاجواب لکھایاکرتےتھے۔

آپ حسب استطاعت لوگوں کی ضروتیں پوری کرتےتھے کبرسنی مختلف بیماریاں رنج وغم کاہجوم اورلوگوں کی قیل وقال اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے بلکہ پوری صلاحیت اورقوت کےساتھ خداکی نصرت سے ہرمشکلوں اورسختیوں کامقابلہ کرتے تھے۔

آپ سماجی زندگی کی بہترین مثال تھے۔

"( ثم کان من الذین آمنوا وتواصوابالمرحمة ) "(البلد:۱۷)پھرتوان لوگوں میں (شامل)ہوجاناجوایمان لائے اورخیرکی نصیحت اورترس کھانےکی وصیت کرتے ہیں۔

سچ ہےجوانسان ایسے معاشرے اورسماج میں زندگی بسرکرے جہاں مادے کااقتدارہووہ شیطان اورنفس امارہ کی پیروی کرتاہے یقیناً ایسے انسان گھاٹےمیں ہیں۔

مگراستادعلام جیسے بہت سے افراد ایمان لائے اورعمل صالح انجام دئیے۔

( "وتواصوابالحق وتواصوابالصبر ) "(العصر:۳)تم اپنے پروردگارکی تعریف کے ساتھ تسبیح کرنااوراسی سے مغفرت کی دعامانگنا۔وہ بے شک بڑامعاف کرنے والاہے۔

آپ کوحرم ائمہ اطہارؑ اورانکی اولادکے حرم مثلاًحضرت امام رضاعلیہ السلام حرم حضرت امام کی نقابت اوردیگرپرافتخارمناصب حاصل تھے۔

نیزحرم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام شیراز میں احمدبن موسیٰ بن جعفر قم میں سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا،ری میں حرم حضرت شاہ عبدالعظیم اورامام موسیٰ ؑ کی اولادسیدجلال الدین اشرف کےروضہ نیزکاشان میں حرم علی بن محمدباقرمیں منصب تدریس ،نقابت اورخدمت کاافتخارحاصل تھا۔

آپ کی اولاد

استادعلام جواپنی زندگی میں ضرب المثل تھے خداوندعالم نے آپ کو۸ اولادعطاکیں جن میں ۴بیٹے اور۴بیٹیاں ہیں آپ کے تین فرزندعالم دین ہیں۔

۱۔ حجۃ الاسلام والمسلمین سیدمحمودمرعشی صاحب قبلہ مدظلہ جنھوں نے دوکتابیں حیات ابن سینااورحیات ابوحامدغزالی کے نام سے تالیف کی آپ نے ایک کتاب مسلسلات دوجلدوں میں تحریرکی جو۱۳۴۱ہجری شمسی میں قم سے شائع ہوئیں آپ اپنے والدماجدکےوصی اورقم میں مکتبہ عامہ کےامین بھی ہیں۔

۲۔حجۃ الاسلام سیدمحمدجوادمرعشی مدظلہ۔ جنھوں نے البیان فی اخبارصاحب الزمان،مناقب ابن ابی طالب از ابن مغازلی،الزام الناصب فی اثبات الحجۃ الغائب،مع الحسین فی نہضبۃ،السیدۃ زینب سلام اللہ علیہاازمحمدقاسم مصری،نیزاخبارالزینبیات ازیحیی عبیدلی کے فارسی زبان میں ترجمہ کئے۔

۳۔ثقۃ الاسلام السیدامیرحسین مرعشی مدظلہ۔

۴۔السیدمحمدکاظم مرعشی جوطہران میں زندگی بسرکرتے ہیں۔

۵۔زوجہ الحاج علی برادرآیۃ اللہ العظمیٰ حضرت شیخ فاضل لنکرانی۔

۶۔ زوجہ مرحوم الحاج حجۃ الاسلام سیدعباس موسوی۔

۷۔زوجہ مرحوم الحاج سیدخلیل میری طہرانی۔

۸۔ زوجہ حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج شیخ عباس علی عمیدزنجانی جوطہرانی کے جیدعلماء میں سے ہیں نیزدانشگاہ طہران کے پروفیسربھی ہیں۔

آپ کےاخلاق کی خوشبو

خداوندتبارک وتعالیٰ قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے۔"وانک لعلیٰ خلق عظیم"اے رسول بے شک آپ خلق عظیم پرفائزہیں۔

نبی اعظم خاتم المرسلین حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کواس لئے مبعوث برسالت کیاگیاتاکہ وہ اپنے اقوال واعمال اوررفتاروکردارکےذریعے مکارم اخلاق کی تکیمیل کریں اوریہی انبیاء واوصیاء کی سیرت رہی ہے علماء لوگوں کے درمیان عوام کی سرپرستی اورقیادت نیزفضائل ومحامدکوعام کرنے میں انبیاء کےوارث ہیں یہی علماء انبیاء اوراوصیاء کےبعدانسانی سماج اورمعاشرے کیلئے صالح قائداوربہترین نمونہ عمل ہیں انھیں اخلاق حسنہ،صفات حمیدہ اوربہترین سیرت نیزتقوی وپرہیزگاری میں ضرب المثل ماناجاتاہے ایسے ہی صالح اورمتقی علماء میں استادعلام کابھی شمارتھاجواپنے زھدوورع تقویٰ اورپرہیزگاری وانکساری میں اپنی مثال آپ تھے آپ عالم باعمل تھے لوگوں کوایسی چیزکاحکم دیتے تھے جس پرخودعمل پیراتھے اوراسی چیزسے روکتے تھے جس سے خودپرہیزکرتے تھے۔

میں نے انھیں ضعیفی کے زمانے میں اکثردیکھاہے کہ جب وہ حرم حضرت معصومہ قم میں نمازیادرس کیلئے جاتے تھے تودورہی سے عورتوں کودیکھ کراپنے چہرے پرعباڈال لیاکرتے تھے تاکہ پہلی نظرکسی اجنبی اورنامحرم عورت سے نہ ٹکرائے آپ کواپنے اس مستحسن عمل پرملکہ حاصل تھاآپ صرف خداکی رضاہی کےمطابق باتیں کرتے تھے ایک دن میں نے انھیں تنہائی میں اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے دیکھاایسالگتاتھاجیسے وہ اپنے خداکواپنے بالکل قریب دیکھ رہے ہین ۔یہ وہ کیفیت تھی جسے لفظوں میں نہیں بیان کیاجاسکتا۔

یہ چیزان کےزھدوورع اورتقویٰ وپرہیزگاری کے اوپربہترین گواہ ہے کہ انھوں نے پہلی وصیت میں اپنے فرزندکوخطاب کرتے ہوئے فرمایا۔

میں اسے (اپنے فرزندکو)صلہ رحم کی وصیت کرتاہوں خاص طورسے ان کے بھائیوں اوربہنوں کے سلسلے میں اوریہ وصیت کرتاہوں کہ ان کے ساتھ نیکی کاسلوک کرے اس لئے کہ میں نے اپنے بعددنیاکے ٹھیکروں (مال ودولت کی طرف اشارہ)کی شکل میں کچھ نہیں چھوڑاہےمجھےجوکچھ بھی حاصل ہوااسے حتیٰ وہ رقم بھی جوخاص طورسے مجھے دی جاتی تھی محتاجوں خصوصاً اہل علم پرصرف کردیاہے۔عنقریب میں دنیاسے سفرکرنے والاہوں لیکن اپنے ورثاء کیلئے دنیاکے مال واسباب اورزروجواہرمیں سے کچھ بھی نہیں چھوڑاہے انھیں اپنے رب کریم کے حوالے کردیاہے اوران کیلئے بہترین یادیں اوراچھی باتیں چھوڑی ہیں اوراگرمیں اپنی اولادکیلئے مال واسباب سمیٹنے کی کوشش کرتالوگ میرے اوپراس قدراعتبارکرتے تھے اپنے وارثوں کیلئے لاکھوں اورکڑوروں کی جائداد اورمال واسباب چھوڑسکتاتھا۔(( فاعتبروایااولی الابصار ) )

وہ اپنی وصیت میں فرماتے ہیں میرے ساتھ میری وہ جانماز بھی دفن کردی جائے جس پر میں نے ستر(۷۰)سال تک نمازشب اداکی ہے وہ تیرہ سال ہی کی عمرسے نمازشب کے پابندتھے پروردگارانھیں مقام محمودپرمبعوث کرے۔

اوردوسرے مقام پر فرماتے ہیں میں اسے وصیت کرتاہوں میرے ساتھ میری وہ تسبیح بھی دفن کی جائے جس کے دانوں پر میں نے ہر صبح خداوندکریم سے مغفرت طلب کی ہے۔

مجھے یادآتاہےکہ ایک دن انھوں نے اخلاق اورعرفان پرگفتگوکرتے ہوئے حسدکے سلسلے میں فرمایاحسدشروع میں حاسدکے دل میں سیاہ نقطے کےمانندہوتاہےاگرحسدکرنے والاعلمائے اخلاق کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اپنے نفس کاعلاج نہ کرے تویہ خودخداوندعالم سے دعاکرتے تھے کہ وہ اس سے اس مرض کوزائل کردے اوراس بات میں غوروفکرکرتے تھے کیوں اس نے اپنے بھائی سے نعمت چھیننے کاقصدکررکھاہےجب کہ خداہی عطاکرنے والااورنعمت روک لینے والاہے وہی نافع بھی ہے اور ضاربھی اسےچاہیے کہ وہ اپنے پروردگارسے ایسی ہی نعمت کی درخواست کرے جیسی خدانے اس کےمحسودکوعطاکی ہے۔

اس طرح وہ اپناعلاج کرلے گااوراگرحسدکے اس بیج کاعلاج نہ کیاجائے اوراس نقطے کومٹایانہ جائے تووہ پھلنے پھولنے لگتاہے اورایک دن ظلم کادرخت ہوجاتاہے جوانسان کے وجودکوکھاجاتاہے۔

اس کےبعدفرمایامیں اپنے والدعلام کے ہمراہ کفایۃ الاصول کے مصنف محقق آخوندکے درس میں جایاکرتاتھاایک دن انھوں نے ایسے آدمی کودیکھاجوعلماء کالباس پہنے ہوئے تھااسے دیکھتے ہی ولادعلام نے ان الفاظ میں بددعاکرناشروع کردی "اللهم اخذ له فی الدنیاوالآخره "(باالہیٰ اسے دنیاوآخت میں ذلیل وخوار کردے)میں نے بارہا ان کی زبان سے بددعاکے یہ کلمات سنے ایک روزمیں نے اس کاسبب پوچھ ہی لیاتوانھوں نے فرمایایہ وہ شخص ہے جومحقق آخوندکے درس میں اپنے دوست کے ساتھ حاضرہواکرتاتھااورمحقق اس کےدوست کی ذکاوت وذہانت کی تعریف کیاکرتے تھےجس کی بناپراس کے وجودمیں حسدکی آگ بھڑک اٹھی ایک دن اس کادوست زکام میں گرفتارتھامیں اس کے پاس عیادت اورتیمارداری کیلئے گیاہواتھاکہ وہ شخص آیااوراس سے کہالویہ میرے پاس تمھارے لئے دواموجودہے اس نے کوئی چیزظرف میں ڈال کراسے پلادی تھوڑی دیرکے بعداس کے بیماردوست کارنگ اڑگیااوروہ چندہی گھنٹوں میں انتقال کرگیاہم سمجھ گئے کہ اس نے اپنے دوست کوشددحسدکی بناپرزہر دے دیااوراس کے چاربچوں کوباپ کی شفقت سے محروم کردیاحسدکے یہی اثرات ہوتے ہیں ۔وہ ایمان کواس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ لکڑی کوکھاجاتی ہے۔

اس کےبعدفرمایایہ شیخ ہادی نجف کے علماء میں سے تھااس پرلعنت ملامت کی گئی اس کی تکفیرکی گئی اوراسےڈنڈوں سے ماراگیایہ عالم فاضل تھااس نے صحیح اورمسلم الثبوت کتابیں تالیف کی ہیں اس کی تحریروں میں کوئی ایسی چیزنہ مل سکی جواس کے کفراوردہریت پردلالت کرتی۔

اورجوچیزاس کے کفرکاسبب بنی وہ یہ تھی کہ شیخ ہادی نے مرزاحبیب سے ان کی زندگی کے آخری ایام میں ملاقات کی اس وقت دوشخص دروازے پرکھڑے تھےشیخ ہادی کے لئے چائے لائی گئی اس نے چائے پی خادم جب استکان لیکرواپس ہواتودروازے پرکھڑے ان دوشخصیتوں نے (حسدکی بناءپر)خادم سے کہامرزاحبیب کہتے ہیں استکان پاک کرلواس میں ایک کافرنے چائے پی ہے یہ خبرتیزی کے ساتھ پھیل گئی اوراسی درمیان تین دن کے بعدمرزاحبیب کاانتقال ہوگیااورکسی کوان سے حقیقت حال پوچھنے کاموقع نہیں ملا۔البتہ یہ بات ثابت ہے کہ ان دونوں حاسدوں نے شیخ ہادی سے حسدکی بناء پریہ بات اپنی طرف سے کہی تھی لیکن شیخ کی تکفیرعوام کی زبانوں پرباقی رہ گئی ہاں ایک صحن مطہرحضرت امیرالمومنین علیہ السلام میں ایک مجلس تشکیل دی گئی جس میں نجف کےبزرگ علماء حاضرہوئے مشہورخطیب منبرپرگیااورشیخ ہادی کےفضائل ومحامدبیان کئےاوران پرلگائی گئی تہمت کاازالہ کرنے کے بعدایک ظرف میں شیخ کوتھوڑاساپانی پلایاجس سے نجف کے ان بزرگ علماء نے باری باری پیاتاکہ لوگوں پرشیخ کاایمان اوران کی طہارت ثابت ہوجائے لیکن عوام اسے کافرہی گردانتے رہے اوروہ دونوں حاسدوظالم جنھوں نےشیخ ہادی سے حسدکیاتھازندگی کے منحوس ایام بسرکرنے کے بعدفقروفلاکت میں اس دنیاسےگئے اورجہنم ان کاٹھکانابنا۔

استادعلام کے چندکرامات

خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے۔"( وجعلنی من المکرمین ) "(یٰسین:۲۷)رسول خداؐ نے فرمایامجھے بزرگ لوگوں میں شامل کرلیاہے ۔

بےشک اولیاء خدااوراس کےصالح ومقرب بندوں میں ایسی کرامتیں پائی جاتی ہیں جوان کی زندگی میں بھی اورموت کے بعدبھی ظاہرہوتی ہیں خداکی سرزمین پریہ ایک سنت الہیہ رہی ہے تاکہ اولیاء خداایسے چمکے ہوئے ستارے بن جائیں جن کے ذریعے لوگ دنیاکے اندھیروں اورتاریکیوں میں ہدایت پائیں وہی خیروسعادت اوراحسان کی طرف راہنمائی کرتاہے اوروہی راہ انبیاء اوران کی رسالت کی حفاظت کرتاہے۔

بےشک علماء انبیاء علیہم السلام کے علوم وفنون اورفضائل کمالات کے وارث نیزروئے زمین پران کےامین ہیں ۔اورجب کہ شہیدانسانی معاشرے کے عقائدواعمال کاشاہدہوتاہے جن کی حفاظت کیلئے وہ جام شہادت نوشکرتاہے اورجب کہ شہداء کاخون انسانی معاشرے کی حیات کےدوام کاسبب بنتاہے اورجبکہ شہیدامت کیلئے شمع اوراس کادھڑکتا ہوادل ہے توعلماء کےقلم کی روشنائی شہداء کے خون سے بھی افضل ہے اوریہ خداوندقادروعلیم کی سنت ہے کہ اس نے پیغمبراسلام کے امین ان علماء کی ذات میں بھی کرامت وفضلیت اورامانت ووثاقت جیسے کمالات کوجلوہ گرکیاہے جن کے ذریعہ ہدایت کےخواہاں ہدایت پاتے ہیں۔

انھیں صالح اورمکرم علماء میں سے استاذعلام بھی تھے انھوں اپنی بعض کرامتیں "امابنعمۃ ربک فحدث"کے عنوان سے مجھ سے بیان کی ہیں اوربندے پرخداکے خاص لطف وکرم کامجھ سے تذکرہ کیاہے جب بندہ اہنے خداکی طرف حقیقی طورپرمتوجہ ہوجاتاہے اپنی نیت اوراپنے عمل کوخالص کرلیتاہے توخدااس کے اوپرکس طرح لطف واحسان فرماتاہے۔

میں نے ان کی بعض کرامتیں ان کی حیات میں ہی لکھ کرانھیں سنادی تھیں یہاں ہم اشارے کے طورپر ان کی کچھ کرامتوں کاذکرکرتے ہیں۔

پہلی کرامت

دست غیب

استادعلام نے مجھ سے بیان کیاہے کہ رضاخان علیہ اللعنہ والعذاب نے اپنے زمانے میں استعماری آقاؤں کے حکم سے ایران کے شہروں میں آزادی نسواں کے عنوان سے فحشاء وفسادرائج کرنے کیلئے عریانیت اوربے پردگی کاحکم دے دیاتھاجس کی بناپرامت اسلامیہ کاوقاراوراس کی اخلاقی قدریں متزلزل ہوگئیں تھیں اورمومن معاشرہ میں ان کے غلبہ اوررعب ووحشت کی بناپر دین کی روح مردہ ہوتی جارہی تھی۔

اس تاریک زمانے میں قم کاشہرکوتوال بدمعاشوں کاسرغنہ تھاوہ لمباچوڑالحیم اورشحیم تھامیں نے ایک دن حرم سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہامیں نمازجماعت کے بعدعورتوں کی گریہ وزاری اورچیخ پکارکی آوازیں سنی استفسارکرنے کے بعدمعلوم ہواکہ شہرکوتوال عورتوں کےمجمع میں ان کی چادریں چھینے کیلئے گیاہے میں تیزی سے اس کی طرف گیااوردیکھاکہ وہ عورتوں کے سروں سے چادریں چھین رہاہے اورسب خوف وہراس سے گریہ وزاری کررہی ہیں میں غصے سے سرخ ہوگیااورغیرارادی طورپراس کےمنھ پرایک زبردست طمانچہ رسیداوربولابدبخت خداتجھ سے سمجھےتوحرم حضرت معصومہ ؑ میں یہ جسارت کررہاہے اس نے مجھے غضبناک نگاہوں سے دیکھااورکہااے سیدمیں تیرے لئے کافی ہوں میں سمجھ گیااس نے میرے قتل کااردہ کرلیاہے خداکے لطف وکرم سے دوسرے ہی دن یہ خبرنشرہوئی کہ وہ بازارمیں گیااس پرایک چھت گرپڑی وہ اسی وقت مرگیااورواصل جہنم ہوامیں نے اپنے اس اقدام میں خداوندکریم کالطف وکرم حضرت معصومہ ؑکی عنایت اورخداکاغیبی ہاتھ دیکھاجب کہ میں خودضعیف الجثہ تھااوراس لمبے چوڑے شخص سے مقابلہ کی قوت نہیں رکھتاتھالیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیسے یہ زبردست طمانچہ میں نے اس کے چہرے پہ ماراجس سے اس کی آنکھیں حلقہ چشم سے باہرآگئیں۔

اورخبرپھیل گئی کہ شہرکوتوال سید(آیۃ اللہ مرعشی)کی کرامت سے ہلاک ہوگیا۔

دوسری کرامت

"ایک سچاخواب"

استادعلام نے مجھےسے بیان کیاکہ انھوں نے عالم شباب میں جبکہ ابھی ان کی عمرکل تیس(۳۰)سال تھی ایک خواب دیکھاکہ قیامت آگئی ہے اورخوفناک اندازمیں صورپھونکاجاچکاہے جیساکہ اس کے بارے میں احادیث شریف اورقرآن مجیدمیں واردہواہے انگلیاں زردہوگئیں ہیں دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کودودھ پلانابھول گئیں ہیں چہرے غبارآلودہوگئے ہیں اورلوگ جوق درجوق حیرت وپریشانی میں کھڑے ہیں جیسے ان کےسروں پرپرندے بیٹھے ہوں۔

مجھے حساب وکتاب کیلئے ایک مقام پرلیجایاگیایہ جگہ اس سے الگ تھی جہاں تمام لوگوں کاحساب وکتاب لیاجارہاتھامجھے بتایاگیایہ اہل علم کی تعظیم وتکریم ہے کہ ان کاحساب لوگوں کےسامنے نہیں لیاجاتامیں ایک خیمے میں داخل ہواوہاں میں نے رسول خداﷺ کوحساب وکتاب کرتے ہوئے دیکھاجومنبرپرتشریف فرماتھے اوران کے داہنے بائیں دوشیخ بیٹھے ہوئے تھےجن کے چہرے سے صالحین کی ہیبت اوراہل تقویٰ کی جلالت ظاہرہورہی تھی ان دونوں بزرگوں کے سامنے کتابیں رکھی ہوئی تھیں لیکن ایک کی کتابیں دوسرے کی کتابوں سے زیادہ تھیں اہل علم صف بستہ کھڑے ہوئے تھے لوگوں نے مجھ سے کہاہرصف ایک ایک صدی کے علماء کی صف ہے مجھے چودہویں صف میں کھڑاکیاگیااورمیں اپنے حساب وکتاب کاانتظارکرنے لگامیرادل مضطرب تھامیں نے رسول ؐ کودیکھاکہ آپ حساب وکتاب میں بڑی باریک بینی سے کام لے رہے ہیں جب کوئی عالم حضرت رسول خداﷺ کے حضورشفاعت کامحتاج ہوتاتھاتویہ دونوں شیخ اس کی شفاعت کردیتے تھے میں نے اپنےبغل کھڑے ہوئے شخص سے پوچھایہ دونوں بزگواران کون ہیں میں دل ہی دل میں سوچ رہاتھاکاش میں انھیں پہچانتاہوتاتاکہ اگرمجھے بھی شفاعت کی ضرورت ہوتی تو انھیں ان کے مبارک ناموں سے پکارتااس نے جواب دیایہ شیخ مفید اورعلامہ مجلسی ہیں میں نے پوچھاان دونوں کے سامنے یہ کتابیں کیسی رکھی ہوئی ہیں اس نے جواب دیایہ ان کی تالیفات ہیں اوریہی ذریعہ شفاعت ہیں میں نے علامہ مجلسی کے سامنے زیادہ کتابیں دیکھیں وہ زیادہ شفاعت کرتت نظرآئے اچانک میری آنکھ کھل گئی اورمیں نے اپنے خداکاشکراداکیا۔

تیسری کرامت

ایک سچاخواب جس میں حضرت معصومہؑ قم کی توصیف بیان کی گئی ہے۔

استادعلام نے مجھ سےبیان کیاکہ وہ اپنے والد علام حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السیدمحمودمرعشی سے سیدۃ النساء عالمین حضرت فاطمۃ زھراء سلام اللہ علیہاکی قبرمطہرکے متعلق بحث کررہے تھے کہ تم پرکریمہ اہلبیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکااحترام واجب ہے والدعلام نے فرمایامیں نے خیال کیاامام علیہ السلام اس سے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکومرادلے رہے ہیں تو امام علیہ السلام نے میرے اس خیال کودفع کرنے کی غرض سے فرمایامیری مرادحضرت فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفرعلیہم السلام ہیں جوسرزمین قم میں مدفون ہیں۔

پھرآپ نے فرمایاجب عالم شباب میں پریشانیوں اورسختیوں میں کھراتھااوراپنی بیٹی کی شادی کرناچاہتاتھااورمیرے پاس مال دنیامیں سے کچھ بھی نہیں تھامیں خداکے علاوہ کسی اورکے سامنے ہاتھ پھیلانامعیوب سمجھتاتھاپس میں کریمہ اہلبیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکے حرم میں اس حالت میں گیاکہ میری آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے اوردل مجروح تھامیں نے معصومہ سلام اللہ علیہاسے مخاطب کرتے ہوئے کہااے میری شہزادی ایسالگتاہے آپ میرے حالات نہیں دیکھ رہی ہیں اورمیری مشکلوں کوحل نہیں کررہی ہیں میں اپنی بیٹی کی شادی کیسے کروں جبکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اسی غم زدہ کیفیت میں گھرآیااور سوگیااتنے میں خواب دیکھاکہ کوئی دروازہ کھٹکھٹارہاہے جب میں نے دورازہ کھولاتوایک شخص کودیکھاجومجھے کہہ رہاتھاحضرت معصومہ سلام اللہ علیہاآپ کوبلارہی ہیں میں تیزی کے ساتھ ان کی خدمت میں گیاجب صحن مبارک میں داخل ہواتووہاں تین کنیزوں کودیکھاجوطلائی رواق میں جھاڑودے رہی تھیں میں نے ان سے اس کاسبب پوچھاتوانھوں نے جواب دیاابھی حضرت سیدہ معصومہ تشریف لارہی ہیں تھوڑی ہی دیربعدمیں نے حضرت سیدہ معصومہ کودیکھاجو بہت کی نحیف وناتوان تھیں ان کاجسم زرد تھاان کی رفتا حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکی رفتار سےمشابہ تھی (جیسے میں نے اس سے پہلے بھی تین دفعہ دیکھا تھا )میں آگے بڑھااوران کے ہاتھوں کوچومنے لگاکیونکہ یہ نسبت میں میری پھوپھی ہوتی ہیں سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہانے فرمایااے شہاب ہم تمھارے امورسے کب غافل ہیں کہ تم ہم سے شکوہ کررہے ہو جس دن سے تم قم آئے ہوہماری حفظ ونگہداشت میں ہومیں سمجھ گیاکہ میں نے شہزادی کی شان میں بے ادبی کی ہے لہذامعذرت طلب کی جب میں خواب سے بیدارہواتوزیارت اورمعذرت طلب کرنے کیلئے حرم شریف آیاجلدہی میری حاجت پوری ہوگئی اورخداوندکریم نے میرے امورکوآسان کردیا۔( ۱ )

اس کےبعد استاد علام نے اہلبیت علیہم السلام کے نزدیک حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی عظمت ومنزلت کے متعلق امام جوادعلیہ السلام کے حوالےسے ایک حدیث بیان فرمائی ،من زارهاعارفابحقهاوجبت له الجنه (جوان کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے)

اس کےبعدفرمایاجب میں آشیانہ آل محمدقم مقدسہ میں آیاتھامیرے پاس مال دنیاسے ایک قبااورایک رداکے علاوہ کچھ بھی نہیں تھااورآج جوکچھ بھی میرے پاس موجودہے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکےجودوکرم کی برکتیں ہیں۔

چوتھی کرامت

جسے میرے والدعلام قدس سرہ نے اپنی کتاب الرافدمیں نقل کیاہے جواستادعلام کی زندگی میں زیورطبع سے آراستہ ہوچکی ہے۔

استادعلام نے مجھ سے ۱۵ شوال المکرم ۱۳۸۹ہجری دوشنبہ کےدن ۹ بجکر۲۰ منٹ پربیان فرمایاتھا۔

۱۳۳۹ ہجری میں جب میں نجف اشرف کے مدرسہ قوام کاایک طالب علم تھااورمجھے یہ بات بھولی نہیں ہے کہ اس وقت میں مولاعبداللہ یزدی کی کتاب حاشیہ پڑھ رہاتھاان دنوں میں ہمیشہ پریشان رہتاتھااوراس پریشانی سے نجات کی مجھے کوئی صورت نظرنہ آتی تھی میری زندگی سخت الجھنوں کاشکارتھی یہاں تک کہ میں نے امیدکےتمام دروازے اپنے اوپربندپائے جس سے میرے دل پرغم والم کاایک ہجوم رہتاتھاپس میں ہمیشہ مایوسیوں کاشکاراورطرح طرح کے خیالات میں کھویارہتاتھااورمیری مستقل یہی کیفیت تھی جبکہ میں گہوارہ علم وادب اورتقویٰ وپرہیزگاری کےمرکزمیں زندگی بسرکررہاتھا۔

۱۔ میں بعض عمامہ پوش حضرات کےاخلاق سے تنگ دل تھاجس کی بناء پرمجھے ان سے اورتمام لوگوں سے سوء ظن پیداہوگیاتھااورخاص پیداہوگیاتھااورخاص اورعام افرادمیں امتیاز پیداکرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی یہاں تک کہ میں نے عدول علماء کے پیچھے بھی نمازجماعت پڑھناترک کردیاتھااورکسی کوسچاہی نہیں سمجھتاتھا۔

۲۔ میرے رشتہ داروں میں سے ایک شخص مجھے بڑی شدت سے درس سے روکناچاہتاتھایہاں تک کہ یہ نوبت آگئی کہ وہ میرے استادکےپاس گیااورانھیں میری تعلیم وتدریس سے روک دیاجس کے نتیجے میں مجھے اپنے استاتذہ کی خدمت میں پڑھنے لکھنے کی قدرت نہ رہ گئی اوریہ سلسلہ یوں ہی رہا۔

۳۔ میں خارش کےمرض میں مبتلاء تھااوراچھاہونے کےبعدمجھ پرذہنی طورسے سستی طاری ہوگئی کہ میں ہرچیزبھولنے لگااورہرگزکوئی چیزیادنہ کرپاتاتھا۔

۴۔ میری دونوں آنکھیں انتہائی کمزروہوگئی تھیں جس کی بناپرمیں پڑھنے لکھنے پرقادرنہیں رہ گیاتھا۔

۵۔ میں تیزنہیں لکھ پاتاتھا۔

۶۔انتہائی فقروتنگدستی مجھ پرطاری ہوگئی تھی جس کی بناء پربعض راتوں میں بھوکاہی سوناپڑتاتھامیرے کمرے میں حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج مرزاحسن شیرازی اورحجۃ الاسلام مرزاحسین جومرزاشیرازی کےپوتے تھے رہتےتھےیہ لوگ میرے فقروفاقہ سے بے خبرتھے اورکمزوری سے میرے چہرے پرجوزردی طاری ہوگئی تھی اس کے بارے میں پوچھاکرتے تھے لیکن میں ان سے کچھ نہیں کہتاتھا۔

۷۔ میں قلبی طورپردائمی مریض رہنے لگاتھاایک لحظہ بھی مجھے سکون وقرارنہ تھا۔

۸۔بعض معنوی اورروحانی مسائل سے متعلق رفتہ رفتہ میراعقیدہ متزلزل ہوتاجارہاتھا۔

۹۔ میری بات پرکسی کوتوجہ نہیں ہوتی تھی خاص طورسے درس میں ۔

۱۰۔ میری خواہش تھی کہ دنیا اوراسکے تمام علائق خاص طورسے درہم ودینارکی محبت میرے دل سے نکل جائے۔

۱۱۔ مجھے حج بیت اللہ الحرام کی تمناتھی لیکن اس شرط کےساتھ کہ حج کے دوران یامدینہ منورہ میں موت آجائے اوردونوں پاک وپاکیزہ شہروں میں کسی ایک جگہ دفن کیاجاؤں ۔

۱۲۔ میں جب تک زندہ رہوں خداوندعالم مجھے علم وعمل صالح اورتمام نیک اعمال وآثارکی توفیق کرامت فرمائے۔

ان تمام باتوں نے مجھے یہ سوچنے پرآمادہ کردیاکہ میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے توسل اختیاکروں۔

لہذامیں نے عزم سفرکرلیااورمدرسہ سے نکل کر کربلائے معلی کی طرف روانہ ہوگیااس وقت میرے پاس صرف ایک روپیہ تھاجس سے میں نے دو روٹی اورایک کاسہ آب خریدا(اس وقت درسی ایام کے درمیان کازمانہ تھا مجھے یادآتاہے وہ شوال کامہینہ تھا)میں خان حماد کے راستے سے مشہد حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف روتاہواپاپیادہ رواں دواں تھااس راہ میں مجھے اپنی کمزوری کااحساس تک نہیں ہوا۔

میں کربلامعلی میں داخل ہوااور نہرحسینی میں غسل زیارت بجالانے کے بعد حرم مطہرمیں آیا اورادعیہ ونوافل میں مصروف ہوگیا مغرب کےدعاوزیارت کے بعدمیں حجۃ الاسلام والمسلین مرحوم سیدعبدالحسین (مولف کتاب بغیۃ النبلاء فی تاریخ کربلاء )کے اطاق کی طرف گیایہ میرے والد علام کےدوستوں میں تھے میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے مولاکی ضریح کےپاس رات بھررہنے کی اجازت دیدیجئے جب وہاں بیتوتہ (رات بسرکرنا)ممنوع تھالیکن انھوں نے میرے والدعلام قدس سرہ کی دوستی کاپاس ولحاظ کرتے ہوئے مجھے اپنے سیدوآقاحضرت امام حسین علیہ السلام کی قبرمطہر کے نزدیک بیتوتہ کرنے کی اجازت دیدی میں نے دوبارہ وضوکیااورجب لوگ حرم کے تمام دروازے بندکرنے لگے تومیں حرم میں داخل ہوگیااورضریح کےپاس گیامیں سوچنے لگاکس جگہ بیٹھوں معمول یہ تھاکہ لوگ سراقدس کی طرف بیٹھاکرتے تھے۔لیکن میں سوچ رہاتھاامام روحی لہ الفداء اپنی ظاہری زندگی میں اپنے فرزندحضرت علی اکبر علیہ السلام کی طرف ہمیشہ متوجہ رہتے تھےوہ اپنی ظاہری حیات کےبعدبھی انھیں کی طرف متوجہ ہونگے اسی لئے میں امام کےپائینی حضرت علی اکبرعلیہ السلام کی قبرکےنزدیک بیٹھاابھی مجھے بیٹھے ہوئے ایک لحظہ بھی نہ گزراتھاکہ میں نے قرآن کریم کی تلاوت کی آوازسنی جس نے میرادھیان اپنی طرف متوجہ کرلیاتھایہ صداضریح مقدس کےپیچھے سے آرہی تھی میں نے مڑکےدیکھاتومجھے اپنے پدربزرگوارنظرآئے جوبیٹھے ہوئے قرآن کی تلاوت کررہے تھے ان کےپہلومیں قرآن کی ۱۳رحلیں رکھیں ہوئی تھیں ایک رحل ان کے سامنے بھی تھی جس پہ قرآن رکھاہواتھااوروہ اس کی تلاوت فرمارہے تھے میں آگے بڑھااوران کےہاتھوں کابوسہ لینے کےبعد ان کاحال دریافت کیاانھوں نے مجھے اس بات کی بشارت دی کہ تم انتہائی راحت وسکون میں ہو۔

میں نے اپنے والدعلام سے پوچھاآپ یہاں کیاکررہے ہیں ،انھوں نے جواب دیاہم چودہ آدمی ہیں جوہمیشہ حرم شریف میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں میں نے پوچھااورلوگ کہاں ہیں ۔

انھوں نے جواب دیاوہ اپنی بعض ضروتوں کی وجہ سے حرم سے باہرگئے ہوئے اوریہ رحل جومیرے پہلومیں رکھیں ہوئی ہے علامہ شیخ مرزامحمدتقی شیرازی کی ہے جوعلماء شیعہ اورانقلاب عراق کے رہبروں میں سے تھے اورجورحل اس کے بعدرکھی ہے علامہ شیخ زین العابدین مرندی کی ہے جونجف کے جیدعلماء میں سے تھے اورجورحل اس کےپہلو میں ہے علامہ شیخ زین العابدین مازندرانی (مولف کتاب ذخیرۃ العباد)کی ہے اسی طرح یکے بعددیگرے تمام علماء کرام کانام شمارکیالیکن افسوس مجھے بقیہ حضرات کے نام یاد نہیں ہیں۔

پھرمیرے والدعلام نے مجھ سے پوچھاتم یہاں کیسے آئے ہو جبکہ آج کل درس وتحصیل کازمانہ ہے میں نے انکی خدمت میں امام حسین علیہ السلام سے توسل کرتے ہوئے اپنی تمام حاجتیں جسے اوپربیان کیاہے پیش کردیاانھوں مجھے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں جانے اوران سے اپنی حاجت بیان کرنے حکم دے دیا۔

میں نےپوچھاامام علیہ السلام کہاں ہیں ؟

انھوں نے اشارے سے کہا وہ ضریح کے اوپرہیں تم جلدی کرو کیونکہ امام علیہ السلام ایک مریض زائر کی عیادت کیلئے جاناچاہتے ہیں ۔

میں اپنی جگہ سے اٹھااورضریح اقدس کےپاس گیا ان کے چہرے پرایسانوربرس رہاتھاجس سے میری آنکھیں بندہوئی جارہی تھیں اورمیں اس نورکےدرمیان بہت ہی مشکلوں سے دیکھ رپارہا تھاابھی وہ ضریح کے اوپرہی تھے کہ میں نے انھیں سلام کیاانھوں نے جواب سلام دیتے ہوئے فرمایا۔

اوپرآجاؤ

میں نے کہامیں اس لائق نہیں ہوں دوبارہ بھی آپ نے یہی فرمایا

میں شرم وحیاء سے خودداری اختیارکی پھرانھوں نے مجھے ضریح کےہی کےپاس رہنے کی اجازت دےدی میں نے آنکھوں کی پوری توانائی کے ساتھ انھیں دیکھاکہ وہ بڑی ملاحت کے ساتھ مسکرارہے ہیں۔

پھرامام نے مجھ سے پوچھا "ماذاترید"تم کیاچاہتے ہو

میں نے فارسی کایہ شعرسنادیا۔

آنجاکہ عیان است ۔۔۔۔ چہ حاجت بہ بیان است

آپ میرے پوشیدہ امورسےواقف ہیں پھرامام علیہ السلام نے مجھے مصری کی ڈلی دیتے ہوئے کہاتم ہمارے مہمان ہواسے اپنے منھ میں رکھ لو۔

اس کے بعدامام علیہ السلام نے مجھ سے پوچھناشروع کیا۔

(اب یہاں سے ترتیب واراستاد علام کی ان خواہشوں کی تکمیل کاذکر ہے جسے پہلے بیان کیاجاچکاہے۔مترجم )

۱۔کس چیزنے تمہیں خداکے بندوں کی طرف سے سوء ظن پرمجبورکیا؟

میں نے اپنے نفس میں تغیر محسوس کیابے شک یہ امام کامجھ ولایتی تصرف تھااس کے بعد مجھے کسی کی طرف سے اپنے دل میں بدظنی کااحساس نہ ہوااورمیں نے یہ بھی محسوس کیاکہ اب ہرخاص وعام سے گھلتاملتاہوں اس حدتک کہ ہرایک سے سلام کرتاہوں مصافحہ ومعانقہ کرتاہوں ۔وہاں میں نے ظاہرالصلاح شخص کودیکھاجس کی امامت میں اذان صبح کے بعد فریضہ سحری اداکیاحالانکہ مجھے گمان تک بھی نہ تھاکہ کبھی ایسے شخص کی امامت میں نماز اداکروں گا۔

۲۔امام علیہ السلام نے مجھ سے کہااپنے درس وتدریس کی طرف متوجہ ہوجاؤ زمانہ کی مشکلات تمہیں ایذانہیں پہنچاسکتی اورتمہارے دروس کونہیں روک سکتیں۔

جب میں نجف اشرف واپس آیاتومیراوہ رشتہ دارجس نے میرے تحصیل علم میں رکاوٹ ڈالی تھی میرے پاس آکرکہنے لگامیں سمجھتاہوں تمہیں فقط پڑھنے ہی سے محبت ہے پڑھولیکن شرط یہ ہیکہ مجھ سے روپیئے وپیسے کاسوال نہ کرنا۔

۳۔ امام علیہ السلام نے فرمایا۔ہم نے خداسے تمہاری شفاء طلب کی ہے میں نے اسی لمحہ محسوس کیاکہ میں کسی مرض میں گرفتار ہی نہ تھا۔اوروہ ذہنی سستی جومجھ پر طاری ہوئی تھی دور ہوگئی اس وقت سے آج تک الحمدللہ میں عجیب وغریب قوت حافظہ کامالک ہوگیاہوں۔

۴۔ امام علیہ السلام نے فرمایا۔ ہم نے پروردگار عالم سے تمہارے لئے آنکھ کی تیزروشنی طلب کرلی ہے۔

اس وقت سے ہرطرح کی تحریرپڑھ لیتاہوں اوریہ نعمت میرے پاس اب بھی ہے جبکہ میں ۹۰ سال کاہوچکاتھا۔

۵۔ امام علیہ السلام نے مجھے قلم عطاکیااورفرمایاتیزی سے لکھو اس وقت سے میراقلم تیز روانی کے ساتھ چلنے لگا۔

۶۔ ا مام علیہ السلام نےفقروفاقہ سے متعلق مجھ سے کچھ فرمایا جوالفاظ مجھے یادنہیں رہ گئے ہیں۔

۷۔ ہم نے خداوندعالم سے تمہارے لئے اطمینان قلب طلب کیاہے پس میں نے اپنے دل میں مکمل آرام محسوس کیا۔

۸۔بعض روحانی اورمعنوی مسائل سے متعلق امام علیہ السلام نے عقیدے کے ثبات واستحکام کی دعافرمائی۔

۹۔ ہم نے خداوندعالم سے اہل علم کے ساتھ خاص طورسے درس وتدریس میں تحمیل طلب کیاہے اورلوگ تمہاری باتیں دل سے سنیں گے۔

۱۰۔ امام علیہ السلام نے دنیااوردرہم کی محبت میرے دل سے نکل جانے کیلئے دعافرمائی۔

۱۱۔ اس سوال کے جواب میں امام علیہ السلام خاموش رہے(مترجم)

۱۲۔ ہم نے خداوندعالم سے تمہارے دینی خدمات میں موفق اوراعمال قبول ہونے کی دعافرمائی۔

خلاصہ

حضرت امام علیہ السلام نےحج کے علاوہ میرے تمام سوالوں کاجواب دیاوہ اس کی طرف متعرض نہ ہوئے اورمیں نے بھی امام سے اس کاسوال نہیں کیا مجھے تھاکہ میرے حج کے بارے میں امام کاجواب نہ دینااس شرط کی بناپرتھاجو میں نے اس کے لئے لگارکھی تھی۔

میں نے امام علیہ السلام سے وداع لی اوراپنے والد قدس سرہ کے پاس آکر پوچھاآپ مجھ سے کچھ کہناچاہتے ہیں۔

انھوں نے کہااپنے آباؤ اجداد کے علوم حاصل کرنے میں محنت کرو اوراپنے بھائی بہنوں کے ساتھ محبت ومہربانی سے پیش آؤ۔

میں نے دوبارہ پوچھاکیاآپ کامجھ سے کوئی خاص کام نہیں ہےجسے میں انجام دوں ۔انھوں نے مجھے فرمایامیں انتہائی راحت وآرام سے ہوں مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے صرف ایک چیز مجھے کھٹک رہی ہے اوروہ یہ کہ عبدالرضابقال بہبہانی کامختصر ساقرض میرےاوپر رہ گیاہے میں ان سے رخصت ہوااسی دوران حرم شریف کے دروازے کھلنے لگے یہ اذان صبح کاوقت تھامیں نے تجدیدوضوکےبعداسی شخص کی امامت میں نمازاداکی جس کاذکرپہلے کرچکاہوں اورمجھے اس کایقین ہوگیامیری تمام ضروتیں اورحاجتیں پوری ہوگئی ہیں۔

اس کےبعد میں نجف اشرف کی طرف پاپیادہ روانہ ہوا اوراس شہرمقدس کے مدرسہ قوام میں پہنچ گیا میں نے طلباء کودیکھ کر انھیں سلام کیا گویاوہ لوگ اس سے پہلے بھی میرے بھائی تھے(یہ کیفیت ان سے سوء ظن کے بعدکی ہے)میں بطریق احسن ان سے معانقہ ومصافحہ کرتاتھااورہمیشہ نمازجماعت میں شریک ہوتاتھا۔

ایک دن عبدالرضاکے پاس اپنے والد علام قدس سرہ کاقرض معلوم کرنے گیااس نام کے تین افراد پائے جاتے تھے میں سب کے پاس گیا تومعلوم ہواکہ تیسرے آدمی کا قرض میرے والد کے اوپر ہے میں نے اس اپنے والد کے قرض کے سلسلے میں پوچھاتواس نے کہایہ حساب وکتاب کے دفتر ہیں ان میں دیکھ لووہ مرتب تھے میں نے اس میں صفحہ صفحہ دیکھایہاں تک کہ اپنے والد کانام نظرآیاجس میں ایک روز کے دودھ کی قیمت بطورقرض درج تھی میں نے اس میں اوراضافہ کرکے قرض دیاتاکہ عبدالرضا بقال بہبہانی راضی ہوجائے ۔

استادعلام پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی یہ کرامت تھی جس کی بدولت وہ عصر حاضر میں ایک بے مثال شخصیت بن کرابھرے۔

پانچواں کرامت

استادعلام کی حضرت امام زمان علیہ السلام سےملاقات کی تین حکایتیں ہیں جسے انھوں نے خودقلم بندفرمایاتھا۔

پہلاواقعہ

نجف اشرف میں علوم دین کی تحصیل اورفقہ اہل بیت کی تعلیم کےزمانے میں مجھے حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ (عج )کی زیارت کابےحداشتیاق تھااسی غرض سےمیں نے ہرشب چہارشنبہ پاپیادہ مسجدسہلہ میں ۴۰ مرتبہ جانے کاعہدکرلیاتھاکہ امام علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوسکوں ۔میں نے اپنے اس عمل کو۳۵ یا۳۶ شب چہارشنبہ تک جاری رکھا۔

ایک مرتبہ اتفاق سے مجھے نجف اشرف سے نکلے میں تاخیر ہوگئی ہواابرآلودگی تھی اوربارش بھی ہورہی تھی مسجدسہلہ کےقریب ایک خندق تھی جب میں اندھیری رات میں رہزنوں اورڈاکوں سے خوف زدہ وہاں تک پہنچاتومیں نے اپنے پس پشت سے قدموں کی آہٹ محسوس کی جس نے میرے وحشت میں اوراضافہ کردیامیں نے اپنے پیچھے مڑکردیکھاتوایک سیدعربی بادیہ نشینوں کے لباس میں نظرآیاوہ مجھ سے قریب ہوااورمیرے نزدیک آکر فصیح زبان میں بولایاسیدسلام علیکم میں نے اپنے آپ میں خوف ووحشت کااحساس ختم ہوتے پایااورمجھے سکون اطمینان حاصل ہوگیالیکن مجھے اس بات پرتعجب ہواکہ کیسے اس نے اندھیری رات میں مجھے پہچان لیااورمیں اس سے بے خبرہی رہا۔

بہرحال ہم دونوں گفتگوکرتے ہوئے چلتے رہے اس نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں جاناچاہتے ہیں۔

میں نے جواب دیامسجدسہلہ

اس نے پوچھاکس ارادے سے

میں نے جواب دیاحضرت بقیۃ اللہ الاعظم کی زیارت کے قصد سےتھوڑی ہی دیربعد ہم مسجدیزن بن صومان کے پاس پہنچے جومسجدسہلہ سےقریب ایک چھوٹی مسجد ہے سید عربی نے کہااچھاہوتااگرہم اس مسجد میں نمازاداکرتے ہم مسجد میں داخل ہوئے اورنماز اداکی نمازکےبعد سیدعربی نے دعائیں پڑھیں مجھے ایسامحسوس ہوا جیسے مسجد کے دردیواراس کے ساتھ دعائیں پڑھ رہے تھے اس کےبعدہی میں نے اپنے آپ میں ایک عجیب انقلاب محسوس کیاجسے بیان نہیں کرسکتادعائیں پڑھنے کےبعدسیدعربی نے مجھ سے کہا اے سید تم بھوکے ہوکیا اچھاہوتا تم ہمارے ساتھ کھاناکھاتے اس نے اپنی عباکے نیچے سے ایک دسترخوان نکالاجس میں تین روٹیاں اوردویاتین تروتازہ خیاررکھے ہوئے تھے جیسے اسے ابھی ابھی باغ سے توڑاگیاہواگرچہ یہ سردی کازمانہ تھالیکن میرادھیان اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا کہ یہ تروتازہ خیار اس موسم میں کہاں سےآئے پھرمیں نے سیدکےحکم سے کھاناکھایا اس کے بعد سید عربی نے کہا اٹھواورمسجد سہلہ چلیں ہم مسجد میں داخل ہوئے سیدعربی ان اعمال کےبجالانے میں مصروف ہوگیاجواس مسجدسے متعلق روایات میں واردہوئے ہیںمیں انکی اتباع کرتارہاانھوں نے مغرب وعشاء کی نماز پڑھی میں نے بھی بےاختیاران کی اقتداء کی اوراس طرف متوجہ نہیں ہواکہ یہ کون ہے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد سیدعربی نے مجھ سے فرمایاکیا تم بھی دوسرے افرادکی طرح اعمال اداکرنے کےبعد مسجدکوفہ جاؤگے یامسجدسہلہ ہی میں ٹھہروگے میں نے کہامسجدسہلہ ہی میں رات بسرکروں گاپھرہم مسجدکے وسط جہاں حضرت امام صادقؑ کامقام ہے بیٹھے میں نے سیدعربی سے کہا

اگرتمہیں چائے قہوہ یادخانیات کی حاجت ہوتواسے فراہم کروں اس نے ایک جامع کلمہ میں جواب دیا"ھذہ الامورمن فضول المعاش ونحن نجتنب عن فضول المعاش"یہ امورفضولیات میں سے ہیں اورہم فضولیات سے پرہیزکرتے ہیں۔

یہ کلمات میرے وجودکی گہرائی میں اترگئے اورجب بھی میں چائے پیتاہوں یہ کلمات یادآجاتے ہیں جس سے میرے شانے لرزنے لگتے ہیں ۔

بہرکیف یہ نشست تقریبادوگھنٹے تک جاری رہی اس دوران کچھ موضوعات پربحث ہوئی جن میں ہم بعض موضوعات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ استخارہ کے سلسلے میں گفتگو ہوئی تو سیدعربی نے کہاتسبیح سے کس طرح استخارہ کرتے ہومیں نے کہاپہلے تین مرتبہ دروداس کےبعد تین مرتبہ۔ استخیراللہ برحمتہ خیرۃ فی عافیۃ۔پڑھتے ہیں پھرتسبیح کے دانوں کودودو کرکے شمارکرتے ہیں اگرآخرمیں دوباقی رہے توبداورایک باقی رہے تونیک ہے سیدعربی نے کہااس استخارے کاایک تتمہ بھی ہے جوتمہیں نہیں معلام ہے اوروہ یہ ہے کہ جب ایک باقی رہے توفوراً استخارہ کے نیک ہونے کاحکم مت دو بلکہ تھوڑی دیرٹھہرواوردوبارہ ترک عمل پراستخارہ کرواگرآخر میں دوباقی رہے توپہلااستخارہ نیک اورایک باقی رہے توپہلااستخارہ میانہ ہے۔

میں نے اپنے دل میں کہاعلمی علمی قواعدکے مطابق اس سے دلیل مانگناچاہیے انھوں نے جواب دیاہم نے بلندمقام سے تعلق اختیارکیاہے مجھے اسی قول سے اطمینان ہوگیااس کے باوجودمیں اب تک متوجہ نہیں ہواکہ یہ سیدکون ہے۔

۲۔ دوسری گفتگوجوہمارے درمیان اس نشست میں ہوئی وہ یہ کہ سیدعربی نے نمازیومیہ کے بعدکچھ مخصوص سورے پڑھنے کی تاکید کی اورکہانمازصبح کے بعدسورہ یاسین نمازظہرین کے بعدسورہ عم نمازعصر کےبعدسورہ نوح نمازمغرب کے بعدسورہ واقعہ اورنمازعشاء کےبعدسورہ ملک پڑھاکرو۔

۳۔ انھوں نے نمازمغربین کی پہلی دورکعتوں کےبارےمیں فرمایاکہ پہلی رکعت میں سورہ حمدکےبعدجوسورہ چاہوپڑھولیکن دوسری رکعت میں سورہ حمدکے بعدسورہ واقعہ پڑھاکرو۔

انھوں نے فرمایامگرب کی دوسری رکعت ہی میں سورہ واقعہ کی تلاوت تمہارے لئے مغرب کےبعدتلاوت کرنے سے کافی ہے۔

۴۔ انھوں نے نمازیومیہ کےبعدیہ دعاپڑھنے کی تاکیدکی۔"اللهم سرحنی من الهموم والغموم ووحشة الصدرووسوسة الشیطان برحمتک یاارحم الراحمین"

۵۔نمازیومیہ میں آخری رکعت کے ذکررکوع کےبعد اس دعاکی تاکیدکی۔ "اللهم صل علیٰ محمدوآل محمدوترحم علی عجزناواغثنابحقهم "

۶۔ انھوں نے محقق حلی کی شرائع الاسلام کی تعریف کی اورکہا چندمسائل کے علاوہ اس کے تمام مسائل واقع کے مطابق ہیں۔

۷۔ انھوں نے قرآن پڑھنے کی تاکیداورکہااس کاثواب ان شیعوں کوبخش دوجن کاکوئی وارث نہ ہو یاوارث توہوں لیکن وہ اپنے مردوں کویادنہ کرتے ہوں۔

۸۔ نمازیومیہ میں تحت الحنک باندھنے کی تاکید کی جیساعلماء عرب انجام دیتے ہیں۔ پھرانھوں نے تحت الحنک کوگلے کے نیچے سے نکال کراس کاسرعمامہ میں رکھااورکہاکہ اسی طریقے سے شرع مقدس میں واردہواہے۔

۹۔ انھوں نے مجھے زیارت حضرت ابوعبداللہ الحسین علیہ السلام کی تاکیدکی۔

۱۰۔ انھوں نے میرے حق میں ان الفاظ کے ذریعے دعاکی ۔"جعلک اللہ من خدمۃ الشرح "خداوندعالم تمہیں دین کے خدمت گزاروں میں قراردے۔

۱۱۔ میں نے ان سے کہامجھے نہیں معلوم کیامیری عاقبت بخیرہے کیامیں رسول خداؐ کے نزدیک سرخروہوں۔

انھوں نے جواب دیا تمہاری عاقبت بخیرہے اورکوششیں لائق شکریہ ہیں تم رسول خداؐ کے نزدیک سرخروہو۔

میں نے کہا۔میں نہیں جانتاکیامیرے والدین اساتذہ اورصاحبان حقوق مجھ سے راضی ہیں۔

انھوں نے جواب دیاسب تم سے راضی ہیں اورتمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں میں کہاآپ میرے حق میں دعاکیجئے کہ تصنیف وتالیف کے سلسلے میں موفق ہوسکوں۔

انھوں نے میرے حق میں دعافرمائی اس کے علاوہ اوربھی دوسرے موضوعات پرگفتگوہوئی جس کی تفصیل کی گنجائش نہیں اسی دوران میں نے ایک ضرورت سے مسجدسے خارج ہونے کاارادہ کیااوراس حوض کے پاس آیاجومسجدکے اندردرمیان راہ واقع تھامیرے ذھہن میں اس رات کے واقعات آئے اوراس باعظمت سیدکابھی خیال آیاہو نہ ہو وہی میرامقصود ہوں جیسے ہی میرے دل میں یہ خیال آیامیں بے چینی کے ساتھ واپس ہوالیکن وہاں اس جلیل القدرسید(امام زمانہ عج)کانشان تک نہ پایااورکوئی دوسراشخص بھی مسجدمیں نہیں تھا۔

مجھے یقین ہوگیاجس کی مجھے تلاش تھی وہ حاصل ہوگیااورمیں غفلت کاشکارہی رہامیں اپنی غفلت پرپھوٹ پھوٹ کررویااوردیوانوں کی طرح صبح تک مسجدکے اطراف میں اس عاشق مجنون کے مانندپھرتارہاجووصال کے بعددوبارہ ہجرمیں مبتلاہوگیا۔

دوسراواقعہ

جب میں حضرت امام حسن العسکری ؑ اورحضرت امام علی نقی ؑ کی زیارت کے لئے جارہاتھاحرم سیدمحمد( ۲ ) کے راستے میں بھٹک گیا مجھ پربھوک وپیاس شدیدغلبہ طاری تھااورتیزگرم ہوائیں بھی چل رہی تھیں میں اپنی زندگی سے مایوس ہوگیااورغش کھاکرزمین پرگرگیا جب میری آنکھ کھلی تواپناسرایک جلیل القدرشخص کی گودمیں پایااس نے شریں پانی پلایاجس کی ٹھندک اورحلاوت کامزہ مجھے پوری عمرمیں نصیب نہیں ہواتھاپانی پلانے کے بعد اس نے دسترخوان کھولاجس میں دویاتین روٹیاں تھی میں نے اس سےکھایااس کےاس عرب نےکہا اے سیداس نہرمیں غسل کرلو میں نے کہااے بھائی یہاں توکوئی نہرنہیں ہے میں پیاس سے ہلاک ہورہاتھاتونے ہی مجھے نجات دی ہے اس جلیل القدرنے کہا یہ شیریں پانی ہے ابھی اس نے یہ کہاتھا کہ میں نے ایک صفاف وشفاف نہردیکھی اورحیرت کی حالت میں اپنے آپ سے کہنے لگانہرتومیرے پاس ہی تھی اورمیں ہلاک ہورہاتھا۔

بہرکیف اس عرب نے پوچھااے سیدکہاں جارہے ہو

میں نے جواب دیاحرم سیدمحمد یہی سامنے حرم سیدمحمدہے میں نے خودکوحرم سیدمحمدکے قبے کےسائے میں پایاجبکہ میں قادسیہ میں گم ہواتھااوروہاں سے حرم سیدکی مسافت بہت ہے جب تک مین ان کی خدمت میں رہا انھوں نے مجھے چندباتوں کی تاکید کی ۔

۱۔ قرآن شریف کی زیادہ سےزیادہ تلاوت کرو۔

۲۔ جوتحریف قرآن کے قائل ہیں ان کاشدت سے انکار کرو۔حتیٰ جس نے تحریف کی حدیثیں گڑھی ہیں اس کیلئے بددعاکی۔

۳۔ میت کی زبان کے نیچے عقیق کی انگوٹھی رکھو جس پر چہاردہ معصومین ؑ کے اسماء کندہ ہوں۔

۴۔ والدین کے ساتھ نیکی کروخواہ زندہ ہوں یامرگئے ہوں۔

۵۔ ائمہ معصومین ؑ ان کی اولاد کے مقبروں کی زیارت اوران کی تعظیم کرو۔

۶۔سادات کرام کااحترام کرو۔

اس کے بعدفرمایااے سید اہل بیت ؑ سے اپنی نسبت کی قدرومنزلت کوپہچانواوراس نعمت کاشکریہ اداکرو جوتمہارے لئے بڑی سعادت اورافتخار کاباعث ہے۔

۷۔ تلاوت قرآن اورنمازشب کی تاکید کرتے ہوئے فرمایااے سیدہمیں اہل علم پرافسوس ہے جوہماری طرف اپنی نسبت دیتے ہیں اوران اعمال کوانجام نہیں دیتے۔

۸۔ تسبیح فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاپڑھنے کی تاکیدکی۔

۹۔نزدیک وبعیدسے حضرت سیدالشہداء علیہ السلام اولاد ائمہ اورعلماء صالحین کی زیارت کی تاکید کی۔

۱۰۔مسجدنبویہ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے دئیے ہوئے خطبے کے حفظ کی تاکید کی۔

۱۱۔حضرت علی علیہ السلام کے خطبہ شقشقیہ کے حفظ کی تاکیدکی۔

۱۲۔ثانی زہراء حضرت زینب سلام اللہ علیہاکےمجلس یزیدمیں دئیے ہوئے خطبہ کے یادکرنے پرتاکیدکی۔

اس علاوہ اوربھی دوسرے فوائد پرگفتگوہوئی ابھی میرے دل میں یہ خیال بھی نہ آیاتھاکہ یہ عرب کون ہے وہ نگاہوں سے غائب ہوگئے۔

تیسرا واقعہ

اپنے سامرہ کے قیام کے دوران میں نے سردی کے موسم میں ایک رات اس مقدس سرداب میں بسر کی جہاں سے امام زمانہ (عج)غائب ہوئے تھے شب کے پچھلے پہرمیں نے اچانک قدموں کی آہٹ محسوس کی جبکہ سرداب کادروازہ بندتھا میں بے چین ہواکہ کہیں دشمنا ن اہل بیت ؑ میں سے کوئی قتل کے ارادے سے آیاہومیرے قریب جوشمع جل رہی تھی بجھ گئی دفعتاً ایک دلکش آواز نے میرانام لیکرمجھے سلام کیامیں نے جواب سلام دیتے ہوئے پوچھاآپ کون ہیں ؟

انھوں نے جواب دیاآپ کے چچازادبھائیوں میں سے ہوں

میں نے کہاسرداب کے دروازے توبندتھے آپ یہاں تک کیسے آئے

انھوں نے جواب دیاخداوندعالم ہرشی پرقدرت رکھتاہے

میں نے کہاآپ کہاں کے باشندے ہیں

انھوں نے جواب دیاحجازکارہنے والاہوں

اس کے بعدسیدحجازی نے پوچھاتم اس وقت کس مقصدکے تحت یہاں آئے ہو

میں نے جواب دیااپنی ضروتوں کے تحت

سیدحجازی نے کہاتمہاری ضرورتیں یقیناً برآئیں گے پھرانھوں نے مجھے نمازجماعت ،صلہ رحم ،اساتذہ ومعلمین کے حقوق کی رعایت ،فقہ وتفسیروحدیث کے مطالعے نیزنہج البلاغہ اورصحیفہ سجادیہ کی دعاؤں کے یاد کرنے کی تاکیدکی۔

میں نے ان سے درخواست کی کہ بارگاہ ایزدی میں آپ میرے لئے دعافرمادیں انھوں نےاپنے ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکیااوران الفاظ کے ذریعہ میرے حق میں دعافرمائی۔"الهی بحق النبی وآله وفق هذاالسیدلخدمة الشرع واذقه حلاوة مناجاتک واجعل حبه فی قلوب الناس واحفظه من شروکیدالشیاطین سیماالحسد " بارالہی محمدآل محمدکے صدقے میں اس سید کوخدمت شرع متین کی توفیق دے اپنی مناجات کی شیرینی کاذائقہ اسے چکھادے لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت جاگزین کردے اورشیاطین کے مکروفریب خصوصاًحسد سے اس کی حفاظت فرما۔

یہاں تک کہ اس سید حجازی سے باتیں ہونے لگیں گفتگوکے دوران سیدحجازی نے مجھ سے فرمایامیرے پاس تربت سیدالشہداء کی خالص خاک ہے جس میں کسی خاک کی آمیزش نہیں ہے انھوں نے چندمثقال خاک شفاء مجھے عنایت کی جومیرے پاس ہمیشہ تھی جس طرح پہلے مجھے عقیق کی انگوٹھی بھی دے چکے تھے اوروہ بھی میرے ساتھ تھی میں نے اس خاک شفاء کے عظیم اورحیرت انگیزآثارکامشاہدہ کیااوروہ سید حجازی میری نظروں سے غائب ہوگئے۔

قابل ذکرہے استاد علام نے یہ تینوں واقعات فارسی زبان میں دورسالوں میں تحریرکرکے اسے استادحسین عمادزادہ کے پاس بھیج دیاتاکہ وہ اسے اپنی کتاب المنتقم الحقیقی کے ساتھ شائع کردیں جس میں غاصبین حقوق آل محمدؐ کے حقیقی منتقم حضرت صاحب امر(عج)کےبارے میں بحث کی گئی ہے۔

استادعلام نے بیان ہے کہ سیدجلیل صاحبان علم میں سے ہیں اورخانوادہ رسالت کےایک فرد ہیں۔جن کے زہدوورع صدق بیانی اورراست گفتاری پرقطع ویقین حاصل ہے جب میں نجف اشرف میں دینی علوم کی تحصیل اورفقہ اہل بیت ؑ کی تعلیم میں منہمک تھاسیدجلیل نے یہ تینوں واقعات ابتداء سے انتہاتک نقل کیا ۔میں (مولف)نے یہ تینوں واقعات خوداستادعلام سے دریافت کئے تاکہ مجھے ان کے صاحب تشرف ہونے کایقین ہوجائے۔

آپ کے عروج ملکوتی سے چندمہینہ پہلے اصفہان کے ایک عالم فاضل نے مجھے اپ کے صاحب تشرف ہونے کی خبر دی لہذاجب آپ حرم معصومہ سلام اللہ علیہاکے صحن اقدس میں جانماز پرتشریف فرماتھے میں آپ کے پاس مزیدتاکید اوریقین کامل کیلئے آیا اورآپ سے ان تینوں واقعات میں صاحب تشرف ہونے کے بارے میں سوال کیاجسے منتقم حقیقی نامی کتاب میں بیان کیاگیاہے۔

استاد علام نے فرمایایہ واقعات نوجوانوں سے بیان نہ کرناوہ اس کاتحمل نہیں کرسکتے۔،میں نے کہا۔اے میرے سید وسردارمیں اسے اپنے خاص بھائیوں اورشاگردوں سے بیان کروں گاآپ خاموش رہے جس سے میں نے کشف کیاکہ آپ کی خاموشی رضایت کی آئینہ بردارہے جیساکہ آپ کومعلوم ہواکہ استاد علام نے اپنے بعض خاص افرادسے فرمایاتھایہ واقعات میری موت کے بعد ہی بیان کئے جائیں۔

ان واقعات کااسنادسیدجلیل کی طرف دیاگیاہے کیونکہ کتاب منتقم حقیقی سنہ ۱۳۷۴ہجری میں شائع ہوئی تھی اورآج سنہ ۱۴۱۱ ہجری ہے اس حساب سے یہ واقعات ۳۷ سال پہلے تحریرکئے گئے ہیں اس وقت استاد علام ۵۹ سال کےتھے۔اوریہی آپ کی زعامت ومرجعیت نیز آپ کے دشمنوں اورحاسدوں کی ارتقاء کاابتدائی زمانہ تھااوردشمنوں کے خوف سے آپ پران واقعات کااپنی طرف نسبت دیتے ہوئے بیان کرنابہت دشواراورسخت تھا۔

اس کے علاوہ اوربھی دوسرے قرائن ہیں جوآپ کے صاحب تشرف ہونے پرصراحتاً دلالت کرتے ہیں جیسےکہ آپ نے اپنی وصیت میں فرمایاہے میرے سینے پر ضریح حسین کی خاک رکھی جائے جس سے میراکفن محفوظ رہے اورمیں مصروف عزارہاہوں۔اسی طرح میرے دہن میں دوعقیق کی انگشتری رکھی جائے ایک پراصحاب کساء کے مقدس اسماء اوردوسرے پرچہاردہ معصومین ؑ کے مبارک نام کندہ ہوں ۔آپ کوحضرت بقیۃ اللہ الاعظم نے ایک انگشتری اورخالص خاک شفاعنایت فرمائی تھی جس کاذکرپہلے ہوچکاہے۔

اسی طرح اپنی پہلے وصیت میں فرماتے ہیں ۔ میں اسے تہذیب نفس اورمجاہدات شرعیہ کی وصیت کرتاہوں کیونکہ جوکچھ بھی مجھے حاصل ہواہے اسی کے ذریعہ حاصل ہواہے اوررب کریم نے مجھے وہ کچھ عطاکیاہے جسے کان سننے سے عاجز اورزمانے کی آنکھیں دیکھنے سے قاصرہیں پرودگار کی اس عظیم عطااوربے پایاں فضل پراس کاشکرگزارہوں۔

اے میرے فرزندمیں نے اس کے بعض اسرار ورموزاپنی مخصوص کتاب سلوۃ الحزین میں بیان کردئیے ہیں ۔

ہم اللہ سے دست بہ دعاہیں کہ وہ استادعلام کی اولاد شاگردوں کوآپ عظیم مولفات اورخاص طورسے اس کتاب کے نشرکی توفیق دے جس کاذکر آپ نے اپنی وصیت میں کیاہے۔

____________________

(۱) ۔ یہ واقعہ استادعلام نے مجھ سے بیان فرمایاہے اوراس سے پہلے میرے والدبھی کچھ اضافہ کےساتھ بیان فرماچکےتھے کہ وہ حرم معصومہ سلام اللہ علیہا انکا شکراداکرنے اوران سےمعذرت طلب کرنے کیلئے داخل ہوئے تورواق سے باہرنکلنے کے بعدایک شخص سامنے آیا جس نے انکی دست بوسی کی اوران کےپاؤں کے نیچے نقودسے بھراہواایک ظرف رکھتے ہوئے بیان فرمایاکہ یہ آپ کامخصوص ہدیہ ہے یہ کہہ کروہ شخص چلاگیاپھرآپ کی زوجہ آئی آپ نے اس سے فرمایااپنی بیٹی کے جہیزکیلئے مطلوبہ چیزیں خریدلواورتمام نقودکواپنی جیب میں بغیرشمارکئے ہوئے رکھ لیاپھرمطلوبہ چیزوں کی خریداری کی گئی اورانھوں نے والدعلام سے فرمایاہم نے مطلوبہ چیزیں خریدلی ہیں اس کے بعداپنی جیب سے ظرف کونکالاتواس میں کچھ بھی نہیں تھاایساہی مجھ سے نقل کیاہے۔

(۲) امام حسن العسکری کے بھائی