مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43391
ڈاؤنلوڈ: 4107

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43391 / ڈاؤنلوڈ: 4107
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

آلودگی ماحول کی ممانعت

جعفر صادق کے زمانے میں صنعتیں دستی آلات تک محدود تھیں اور آج کے کارخانوں کی مانند ایک کارخانہ بھی موجود نہ تھا دھاتوں کو آگ کی چھوٹی چھوٹی بھٹیوں میں پگھلایا جاتا تھا اور تمام دھاتیں حتی کہ لوہا بھی ‘ لکڑی سے پگھلایا جاتا تھا ‘ لہذا ماحول کی آلودگی وجود میں نہیں آتی تھی ۔ حتی کہ اگر لوہے کو پتھر کے کوئلے کے ساتھ بھی پگھلاتے پھر بھی اتنا کوئلہ نہیں جلایا جاتا تھا کہ ماحول آلودہ ہو جاتا ‘ اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز سے لوہے اور فولاد کی کافی مقدار کو مغربی جرمنی فرانس ‘ انگلستان اور تمام یورپی ممالک میں ماحول کو آلودہ کئے بغیر کام میں لایا جانے لگا اور لوہا پگھلانے والے تمام کارخانے جرمنی فرانس اور انگلستان میں پتھر کا کوئلہ جلاتے تھے اور سال کے آغاز سے اخر تک کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں ایک لمحے کیلئے بھی نہیں رکتا تھا پھر بھی پتھر کے کوئلے کے دھوئیں سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا تھا جبکہ امام جعفر صادق کے زمانے میں تو آج کے کارخانوں کی مانند ایک کارخانہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی پتھر کا کوئلہ جلاتا تھا ۔ پھر جعفر صادق نے اس طرح تاکید کی جس طرح کوئی آج کے ماحول کو دیکھ کر کرے ۔

فرمایا ‘ آدمی کو اس طرح زندگی گزارنا چاہیے کہ اس کا ماحول آَودہ نہ ہو ۔ کیونکہ اگر اس کا ماحول الودہ ہو گیا تو ایک دن آئیگا کہ اس کیلئے زندگی گزارانا مشکل اور شاید نا ممکن ہو جائے گا ماحول کی آلودگی کا موضع تیس سال پہلے بھی موجود نہ تھا یہ مضوع اس وقت سامنے آیا جب پہلا ایٹم بم پھٹا اور اس نے فضا کو آلودہ کیا اگر صرف وہی پہلا دھماکہ ہوتا اور مزید دھماکے نہ کئے جاتے تو ماحول آلودہ نہ ہوتا لیکن ایٹمی طاقتوں نے بعد میں بھی اس اسلحے پر تجربات جاری رکھے اور ان تجربات کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایٹمی بجلی گھر بھی چلانا شروع کر دیئے اور اس طرح فضا کی آلودگی آہستہ آہستہ بڑھ گئی اسی دوران خصوصا امریکہ اور یورپ میں صنعتوں نے ماحول کو آلودہ کیا اور دریائے رائن جو مغربی یورپ میں واقع ہے کی مانند بعض دریاؤں کا پانی اس قدر آلودہ ہو گیا ہے کہ مچھلیوں کی نسل اس میں ختم ہو گئی ہے اور اسی طرح شمالی امریکہ کے بڑے بڑے دریا جن کا پانی میٹھا ہے میں مچھلی کی نسل تقریبا نا پید ہو چکی ہے اور اس سے بھی خطر ناک آلودگی سمندروں کی آلودگی ہے کیونکہ سمندروں کے پانی کی سطح پر پلانکٹن نامی چند خلیات کے حامل جاندار پائے اجتے ہیں اور کرہ ارض کی نوے فیصد آکسیجن وہ تیار کرتے ہیں وہ اب سمندروں کی آلودگی کے نتیجے میں مر رہے ہیں اور ان کے مرنے کے نتیجے میں آج کرہ ارض پر آکسیجن کی مقدار دس فیصد رہ گئی ہے اور اکسیجن کی یہ مقدار نہ ہی جانوروں کے سانس لینے کیلئے ور نہ انسانوں کیلئے سانس لینے کیلئے کافی ہے اور اس طرح درختوں کے سانس لینے کیلئے بھی نا کافی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ درختوں اور جانوروں کی نسلیں کرہ ارض پر سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں اور یہ ایک تھیوری نہیں ہے جس کے جھوٹے اور سچے ہونے کا احتمال برابر ہو بلکہ ایک علمی حقیقت ہے آج اس حالت میں جبکہ سمندر آلودہ ہورہے ہیں پلانکٹن کی مقدار سمندروں کی سطح پر آئندہ پچاس سالوں تک نصف ہو جائے گیا ور اسی نسبت سے آکسیجن کی پیدوار کم ہو جائے گی جو بچہ آج پیدا ہوتا ہے اگر آئندہ پچاس سال تکزندہ رہے تو اس وقت تک اس کے سانس لینے کی کیفیت وہ ہو گی جو ایک کوہ پیما کی کوہ ہمالیہ پر بغیر آکسیجن ماسک کے ہوتی ہے یاد رہے کہ سلسلہ کوہ ہمالیہ دنیا میں سب سے بلند سلسلہ کوہ ہے ۔

ائندہ پچاس سالوں تک سمندروں کے پانی کی آلودگی کی وجہس ے انسانوں اور جانداروں کے سانس لینے کی کیفیت ایسی ہو گی جس طرح ایک مضطرب انسان کی ہوتی ہیں ۔ ئندہ پچاس سال تک اگر کوئی دیا سلائی (ماچس ) جلانا چاہے گا تاکہ سیگریٹ سلگائے یا چولھا جلائے تو دیا سلائی نہیں جلے گی کیونکہ ہوا میں اس قدر اکسیجن نہیں ہو گی کہ وہ دیا سلائی جلا سکے ۔ اور یہ قول کوئی علمی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے ایزاک آسیموف (شاید اسحاق عظیم اوف )امریکی طبعیات دان کا قوال ہے کہ امریکہ میں ۱۹۵۰ ء سے اب تک سانس لینے میں دشواری کی بیماری میں تین سو فیصد کا اضافہ ہو ا ہے اور یہ اضافہ قوی امکان ہے کہ زمینی فضا میں اکسیجن کی کمی واقع ہونے سے ہوا ہے چونکہ پلانکٹن کی موت کے نتیجے میں فضا میں آکسیجن کی مقدار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے یہی سائنس دان کہتا ہے کہ اگر یہی حالت جاری رہی تو ایک صدی بعد درختوں اور جانداروں کی موت یقینی ہے اور نہ صرف خشکی میں درخت اور جاندار نابود ہو جائیں گے بلکہ تمام سمندری جانور بھینابود ہو جائیں گے کیونکہ سمندر میں کوئی ایسا جانور نہیں ہے جسے زندہ رہنے کیلئے اکسیجن کی ضرورت نہ ہو اگرچہ وہ جانور دو تین سو میٹر گہرائی میں ہی کیوں نہ رہ رہا ہو ۔

آج جو جہاز افریقہ کیمغرب سے جنوبی امریکہ کی طرف جاتے ہیں سمندر کے کافی بڑے رقبے (ہزار کلو میٹر) میں ‘ لوگوں کی رہائش گاہوں کے کوڑے کرکٹ کے درمیان رہتے ہیں اس رقبے کا زیادہ حصہ پلاسٹک پر مشتمل ہے جو نہ تو مٹی میں حل ہوتی ہے نہ سمندر میں ‘ یہ سمندری موجیں ہیں جو ارد گرد سے خس و خاشاک بہا کر وہاں لے گئی ہیں سمندری خس و خاشاک صرف اسی جگہ تک محدود نہیں ۔ بلکہ گو آؤ جزیرے اور امریکہ کی بری بحری اور فضائی چھاؤنی کے نزدیک ساکن سمندر میں خس و خاشاک سے بنی ہوئی ‘ ایک اور جگہ جس کا طول اور عرض ہزاروں کلو میٹر ہے بھی وجود میں آئی ہے اور اس علاقے میں جتنے پلامکٹن تھے نابود ہو گئے ہیں کیونکہ سمندری ریلے صرف خس و خاشاک کو مخصوص علاقوں میں جعم نہیں کرتے بلکہ مٹی کے تیل کو بھی جو ان علاقوں میں پانی کے اوپر پایا جاتا ہے ان علاقوں میں جع کرتی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں چند خلے والے حیوانات جو بڑی سمندروں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں بھی معدوم ہو جاتے ہیں بنی نوعی انسان سمندروں کو آلودہ کرکے ایک ایسا خطرہ مول لے رہا ہے جو ایٹمی اسلحے سے بھی زیادہ خطرناک ہیکیونکہ ایٹمی اسلحے کے بارے میں ایک توازن موجود ہے جن لوگوں کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے وہ ایک دوسرے کے خوف سے اس کا استعمال کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔ امر ممکن ہے یہ توازن برقرار رہے اورمزید ایک زمانے تک ایٹمی اسلحے کو کام میں نہ لایا جائے ۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم میں اس کے باوجود کہ مخالف حکومتیں کیمیائی گیس اور گولیاں رکھتی تھیں مگر ایک دوسری کے خوف سے کام میں نہیں لائیں لیکن انسان کی طرف سے سمندروں کی آلودگی مزید ایک صدی تک انسان کی مطلق تباہی کا باعث ہو گی علمی نکتہ نگاہ سے یہ موضوع اس قدر نا قابل تردید ہے کہ اگر یہ حالت جاری رہی اور سمندر اسی طرح آلودہ ہوتے رہے تو انسانوں اور جانوروں کی زندگی آئندہ پچاس سال تک دشوار ہو جائے گی چونکہ آکسیجن کی مقدار خاصیکم ہو جائے گیا ور لوگ اس طرح سانس لیا کریں گے ۔ جس طرح کسی نے ان کے گلے کو دونوں ہاتھوں سے زور سے پکڑا ہوا ہو تاکہ وہ سانس نہ لے سکیں یہ بات واضح ہے کہ جب انسان کے سانس لینے کی یہ حالت ہو تو وہ آج کی مانند کام نہیں کر سکتا اور ہر انسان کی پیدواری صلاحیت چاہے وہ جو کام بھیکرتا ہو کم ہو جائے گی اور انسان کی معلومات کی سطح تیزی سے روبہ زوال ہو گی کیونکہ جب ایک طالب علم کلاس میں بے چینی کی حالت میں ہوتا ہے تو کوئی قابل غور چیز یاد نہیں کر سکتا ۔ اور جب ایک استاد بے چین ہوتا ہے تو وہ بھیکوئی قابل ملاحظہ بات طالب علموں کو نہیں سمجھا سکتا ۔ ایک کسان بھی جو کھیت میں کام کرتا ہے اور مزدور جوکارخانے میں کام کرنے میں مشغول ہے اگر آکسیجن کی کافی مقدار اس کے پھیپھڑوں تک نہیں پہنچتی اور اس کے علاوہ وہ دائمی طور پر بے چینی کا شکار بھی ہے تو اسے یہ محسوس ہو گا کہ اس کے بدن تک نہ پہنچنے کے نتیجے کا امریکہ کی ہارو ڈیونیورسٹی کے بیالوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں خرگوش سمیت بعض جانوروں پر تجربہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ جب دماغ کے خلیات کو کافی مقدار میں آکسیجن نہیں پہنچتی تو وہ تمام احکامات جو دماغ کی طرف سے تمام بدن کے اعضاء کو صادر کئے جاتے ہیں تاخیر سے پہنچتے ہیں ۔

اگر ہم آکسیجن کے دماغ کے خلیات تک پوری طرح نہ پہنچنے کے اثرات کا جائزہ لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ پچاس سال میں موٹر سازی کے کارخانے میں اگر ایک مزدور ایک چابی کا کام کرنے کیلئے اٹھاتا ہے تو اسے چابی کو اٹھانے پر حائل ہونے اور اس لمحے جس لمحے وہ اٹھائیگا کیلئے چند سیکنڈ درکار ہونگے چونکہ دماغ کے خلیات کو کافی مقدار میں آکسیجن فراہم نہیں ہو گی کہ وہ اپنے متعلقہ اعصاب کو چابی کے فورا اٹھانے کا حکم دے تاکہ اسطرح اسکے ہاتھ اسی لمحے چابی کو اٹھا لیں ۔

اس طرح کی تاخیر تمام انسانی کاموں میں ظاہر ہو گیا ور ایک گاڑی کا ڈرائیور جس وقت اپنے سامنے کسی چیز کو دیکھے گا اور بریک لگانا چاہے گا تو جس لمحے وہ بریک لگانے کا ارادہ کرے گا اس سے لیکر اسکے پاؤں کے بریک کے پیڈل پر دباؤ ڈالنے تک چند سیکنڈوں کے بعد حرکت میں لاتا ہی جسکے نتیجے میں جہاز جس نے تمام راستہ طے کیاہوتا ہے اور حرکت کیلئے مزید جگہ نہیں ہوتی چونکہ جہاز ائر پورٹ کے آخری حصے تک پہنچ چکا ہوتا ہے لہا وہ رکاوٹوں سے ٹکرا کر دھماکے سے اڑ جاتا ہے ‘ جسکے نتیجے میں جہا ز کا پائلٹ اور اس میں سفر کرنیوالے مسافر جل جاتے ہیں ۔

جس طرح جب دماغ کے خلیات کو کافی مقدار میں اکسیجن نہیں ملتی تو وہ متعلقہ اعضاء کو تیزی سے کام کرنے پر مائل نہیں کر سکتے اسی طرح نہایت حساس اعضاء بھی تیزی سے کام انجام دینے سے قاصر ہوتے ہیں مثلا کان اور آنکھ فورا سن اور دیکھ نہیں سکتے اور ناک سونگھنے میں دیر لگاتی ہے اسی طرح قوت حافظ بہت کمزورہو جاتی ہے اور تمام لوگ فراموشی کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں ان کی یادداشتیں کھو جاتی ہیں اور اگر وہ چیزوں کو تازہ پڑھ یا سن کر یاد کریں تو انہیں کافی تکلیفمحسوس ہوتی ہے ۔

زندگی کے ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزوں میں سے ایک یورانیم یا پلاٹینم کے ایٹموں کی افزودگی بھی ہے جس سے ایسا مواد خارج ہو تا ہے جو ماحول میں پھیل کر آلودگی کا باعث بنتا ہے اور ایٹمی بجلی گھر مسلسل اس مواد کو باہر پھنکتے ہیں جبکہ ایٹمی بجلی گھر خود بھی احتمالا خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے ۔

ایٹمی بجلی گھر بناتی وقت غیر معمولی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے اور تمام لوازمات کا خیال رکھا جاتا ہے پھر بھی یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ کہیں کسی حادثے کے نتیجے میں سیل دھماکے کا شکار نہ ہو جائے سیل ایک بکس ہے جس میں گریفائیٹ کے ساتھ یورانیم یا پلاٹینیم موجود ہوتا ہے اور حرارت پیدا کرتا ہے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے کیلئے حرارت پیدا کرنے کا مرکز توانائی کا منبع کہلاتا ہے اور ایٹمی بجلی کے کارخانے کے تیل جو جنوبی انگلستان میں موجود ہیں اگر ان میں دھماکہ ہو جائے تو اس کے چاروں طرف ایک سو ساٹھ کلو میٹر تک ہر قسم کے جاندار ختمہو جائیں گے اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حرارت چاروں طرف اسی کلو میٹر تک گھروں کو ویرانوں میں تبدیل کر دے گیا ور جنگلوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے علاوہ دریائے اور سمندروں کو خشک کر دے گی ابھی تک ایسا حادثہ پیش نہیں آیا لیکن ایسے حادثے کیلئے کسیایک سیل میں گریفائیٹ ( جو موجودہ زمانے میں ایٹمی توانائی کو بریک لگانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ) کا کسی وجہ سے ختم ہونا یا نکارہ ہو جانا کافی ہے جس کے نتیجے میں دھماکہ وقوع پذیر ہو جائیگا ۔

ہمیں امید ہے کہ کسی ایٹمی بجلی گھر میں جو مختلف ممالک میں واقع ہیں ایسا واقع رونما نہیں ہو گا لیکن افسوس ہے کہ ان ممالک میں ایٹمی بجلی پیدا کرنے والے کارخانے مسلسل شعاعیں خارج کرنے والا مواد باہر پھینکتے ہیں اور ماہرین کو معلوم نہیں کہ اس مواد کو کہاں رکھیں کہ زندگی کا ماحول آلودہ نہ ہو ۔شعاعیں خارج کرنے والے مواد کو رکھنے کیلئے ماہرین کے ذہن میں جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ اس مواد کو بند صندوقوں میں رکھ کر سمندروں کی گہرائی میں غرقاب کر دیں لیکن انہوں نے سوچا کہ ممکن ہے پانی کے دباؤ سے ان صندوقوں میں شگاف پڑ جائیں ۔ یا پانی کا دباؤ انہیں توڑ پھوڑ دے اور شعاعین خارج کرنے والا مواد پانی سے مخلوط ہو کر پلانکٹن سمیت تمام سمندری جانداروں کی حالت کا باعث بنے ۔ دوسرا یہ کہ اگر پانی کا دباؤ صندوقوں کو نہ توڑے تو بھی وققت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ صندوق کھل جائیں گے اور سمند ر کے پانی کو شاعین خارج کرنے والا مواد زہر آَود کریگا اور سمندر کے تمام جانور ہلاک ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شعاعیں خارج کرنے والے مواد کو سمندر میں ڈالنے سے باز رہے اور جب ماہرین چاند پر گئے تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ شعاعیں خارج کرنے والے اس مواد کو چاند پر بھیج دیں ۔ لیکن تین وجوہات کی بنا پر یہ کام آج تک انجام نہیں پا سکا پہلی یہ کہ ایٹمی بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کا پرائیویٹ محکمہ ہے یعنی وہ حکومتی محکموں کے زمرے میں نہیں اتے صرف روس اور دوسرے تمام سوشلسٹ ممالک کے سوا کارخانے دار اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ شاعیں خارج کرنے والے مواد کو مضبوط صندوقوں میں بند کرنے کے بعد راکٹ کے ذریعے زمین کی قوت تجاذب سے نکال کر چاند کی حدود میں پہنچا دیں کیونکہ صرف امیر حکومتیں ہی شعاعیں خارج کرنے والے مواد کے صندوق کو چاند پر بھیجنے کا خرچ برداشت کر سکتی ہیں اور یہ کام کسی ایسے محکمہ کے بس کا روگ نہیں جس کے پا محدود سرمایا ہو ۔

دوسری چیز جو ایسے صندوق کو چاند پر بھیجنے میں رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اطمینان نہیں کہ جس راکٹ کے ذریعے وہ مذخورہ صندوق کو بھیج رہے ہیں وہ کسی حادثے اک شخار نہ ہو گا اور زمین کے محیط سے خارج ہونے سے پہلے گر نہیں جائے گا یا خلا میں پھٹ نہیں جائے گا ایسی صورت میں شعاعین خارج کرے والا مواد زمین میں بکھر کر جانوروں اور درختوں کو مسموم کر دے گا اس راستے میں تیسری رکاوٹ یہ ہے کہ چاند اس مواد سے آلودہ ہو جائے گا اور ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ چاند اقتصادی لحاظ سے بنی نوعی انسان کیلئے فائدہ مند ہے یا نہیں ؟ اگر چاند بنی نوعی انسان کیلئے اقتصادی لحاظ سے مفید ہو تو شعاعیں خارج کرنے والے مواد کے صندوقوں کا وہاں پر ڈھیر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان آئندہ چاند کے ذرائع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اگرچہ چاند پر ہوا نہیں جو شعاعیں خارج کرنے والے مواد کو منتشر کرے لیکن دن کو چاند پر زمین کی نسبت زیادہ گرمی ہوتی ہے اور چاند کی قوت کشش زمین کی نسبت بہت کم ہے زیادہ گرمی اور کم قوت تجاذب شعاعیں خارج کرنے والے مواد کے پھیلنے کا باعث بنتی ہیں اور اس طرح تمام کرہ چاند آلودہ ہوتا ہے اور پھر انسان وہاں پر کبھیبھی چاند کے معدنی مواد کو نکالنے کیلئے کام نہیں کر سکتا ان تین باتوں کی وجہ سے ابھی تک انسان شعاعیں خارج کرنے والے مواد کو چاند پر بھیجنے سے قاصر رہا ہے ۔

یہ جاننے کیلئے کہ جعفر صادق کی اس وصیت یعنی انسان کو اپنے ماحول کو ودہ نہیں کرنا چاہیے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کس طرح ایک دولتمند قوم مشکلات سے دو چار ہو گئی ہے اس کیلئے ہم جاپان کی مثال دیتے ہیں ‘ جس وقت دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جاپان نے اس میں شکست کھائی اس زمانے میں ایک جاپانی کی متوسط آمدنی تیس ڈالر سالانہ تھی جبکہ آج ایک جاپان کی متوسط آمدنی کی حد پانچ ہزار پانچ سو ڈالر ہے جاپان کی تجارت اس قدر عالمگیر ہے کہ امریکہ جیسے صنعتی ملک میں بھی فروخت ہونے والے بیس ہزار موٹر سائیکلوں میں سے اٹھارہ ہزار جاپانی ہیں جیسا کہ ہمیں معلوم ہے مغربی جرمنی ریڈیو اور ٹیلی ویژن بنانے کی صنعت میں بہت گے ہے اور آ مغربی جرمنی میں فروخت ہونیوالے ایک سو دستی ریڈیو میں سے ۹۹ ریڈیو جاپانی ہیں ۔ آج جاپان آٹو موبائیل اور کمپیوٹر اور ریان یعنی درختوں کے مصنوعی ریشوں سے تیار کردہ کپڑوں کی صنعت میں امریکہ کے بعد پہلا ملک ہے اور ریڈیو ٹیلی ویژن ‘ ٹیپ ۴ ریکارڈر کیمرے اور جموٹر سائیکلوں کی صنعت میں دنیا کا پہلا ملک شمار ہوتا ہے ۔

اگر ہم یہ بیان کرنے لگ جائیں کہ جاپان نے کس طرح نہایت مختصر عرصے میں صنعت اور تجارت میں اس قدر ترقی کر لی تو ہم اپنے اصلی موضوع جو زندگی کے امحول کی آلودگی سے متعلق ہے سے ہٹ جائیں گے مختصرا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جاپان کی اس ترقیمیں دو عوامل کار فرما ہیں ایک با صلاحیت قیادت اور دوسری جاپانی مزدور کی اپنے کام میں لگن ۔

لیکن اس دولتمند اور محنتی قوم نے چونکہ اپنے ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی خاص انتظام نہیں کیا تھا لہذا آج نہ صرف یہ کہ ایک بڑے مسئلے سے دو چار ہے بلکہ اس کے معاشرے کی صحت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے اور ماحول کی آَودگی کی وجہ سے جاپان میں ایسے ایسے امراص نے جنم لیا ہے جن کی علم طب کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مشہوریونانی طیبیب بقراط سے لیکر آج تک ڈاکٹروں نے اپنی تحقیق سے چالیس ہزار مختلف بیماریوں کے نام درج کئے ہیں اور علامتیں لکھی ہیں جن میں انسان مبتلا ہو سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں نے ان بیماریوں کیلئے دوائیں بھی تجویز کی ہیں لیکن جن بیماریوں نے جاپاں میں ماحول کی آلودگی کی وجہ سے جنم لیا ہے ان میں کسی بیماری کا بھی علم طب میں ذکر نہیں ہے ان بے مثال بیماریوں میں سے ایک بیماری کا نام جاپانیوں نے ایتائی ۔ ایتائی رکھا ہے چونکہ مریض درد کی شدت کی وجہ سے اس طرح آہ زاری کرتا ہے یہ بیماری کے عنصر کی انسانی بدن میں زیادتی کی وجہ سے ان مقامات پر جنم لیتی ہے جہاں کارخانے آب و ہوا اور کھتیوں کو آَودہ کرتے ہیں ۔

اس بیماری کی پہلی علامت جسم میں ایک شدید اور نا قابل برداشت درد کا احساس ہے اور تھوڑی مدت کے بعد انسانی جسم کی ہڈیاں شیشے کی مانند ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں اور محض ہاتھ لگانے سی ہی ٹوٹ کر شیشے کی طرح ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں ۔

ہڈیوں کی اس قسم کی بیماری کا تذکرہ علم طب کی کسی بھی کتاب میں نہیں ملتا ‘ ڈاکٹر پرانے زمانوں سے موجودہ زمانے تک کی اقسام (یعنی انسانی جسم کی ہڈیوں کی خرابیوں ) سے آگاہ تھے اور ہیں لیکن اس قسم کی بیماری انہوں نے نہیں دیکھتی تھی جس کے نتجے میں انسان بدن اس قدر کمزور ہو جائے کہ اگر اسے ہاتھ لگایا جائے تو وہ ایک نازک شیشے کی مانند ریزہ ریزہ ہو جائے اسی طرح ایک دوسری بیماری جو جزیرہ کیوشو (جاپان کے چار برے جزیروں میں سے ایک جزیرہ) میں پائی گئی ہے جس سے کچھ انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور کچھ ہلاکت کے دھانے پر ہیں اور جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ان کی بینائی ضائع ہو جاتی ہے اور ان کے عضلات اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کی حرکت کی طاقت سلب ہو جاتی ہے اور اگر چند روز تک ان کا علاج معالجہ نہ کیا جائے تو وہ مر جاتے ہیں ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ بیماری پارے کی وجہ سے جنم لیتی ہے جو بعض کارخانوں سے خارج ہو کر آب و ہوا کو آلودہ کرتی ہے اور آب و ہوا کے ذریعے انسانی بدن میں داخل ہو جاتی ہے ڈاکٹر قدیم زمانے سے جانتے ہیں کہ ممکن ہے پارہ انسا نی آنکھ کی بینائی ضائع کر دے۔

سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپی ڈاکٹر سفلیس آتشک کی بیماری کا علاج پارے سے حاصل ہونے والی دواؤں سے کرتے تھے بعد میں جب انہیں علم ہو اکہ پارہ آنکھ کی بینائی کو اس قدر نقصان پہنچا سکتا ہے کہ ممکن ہے بیماری شخل مکمل طور پر نابینا ہو جائے تو اس کے بعد پارے سے علاج کرنے سے اہتراز کرنے لگے اور انہوں نے اپرے کو صرف جلدی بیماریوں اور جلنے کی صورت میں جسم کی اوپر جلد کے علاج تک محدود رکھا ہے اس کے علاوہ دو اور بیماریاں بھی ہیں جن کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی سانسن لینے میں دشواری کی بیماری جاپان میں بھی کافی پھیل چکی ہے ۔

جیسا کہ ہم نے گذشتہ صفحات میں تذکرہ کیا ہے ‘ ایزاک آسیموف امریکہ کا ایک طبیعات دان امریکہ میں سانس لینے میں دشواری کی بیماری کی وجہ امریکہ کی ہوا سمیں آکسیجن کی کمی کو خیال کرتا ہے لیکن جاپانی ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ جاپان میں سانس لینے میں دشواری کی بیماری میں توسیع کی وجہ وہاں کے کارخانوں کا دھواں ہے جو فضا میں ملتا ہے اور بعض گیسوں کو ہوا میں شامل کر دیتا ہے یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ جاپانی لوگ اپنے ملک کی خوبصورتی پر ناز کرتے تھے اور اپنے ملک کے قدرتی مناظر کو دنیا کے خوبصورت ترین مناظر خیال کرتے تھے لیکن اب وہ خود کہتے ہیں کہ زندگی کے ماحول کی آلودگی نے جاپان کے قدرتی مناظر کی وقعت کم کر دی ہے اور بعض جگہوں پر آب و ہوا ور زمین کی آلودگی نے خوبصورتی کو ختم کرکے رکھدیا ہے بلا شک و شبہ زندگی کے ماحول کی آلودگی کسی حد تک سمندری جانوروں سے ابھثی انسنوں میں داخل ہوئی ہے اور اس ضمن میں ایک نا قابل تردید دلیل موجود ہے اور وہ ایک انگریز ڈگلس رابرٹسن کے سفر کا حال ہے جو اس کی بیوی اس کے بیٹے اور ایک مسافر نے طے کیاہے یہ گروہ بادبانی کشتی کے ذریعے کرہ ارض کے ارد گرد چکر لگانا چاہتا تھا اس گروہ کے سفر کی دستان طویل ہے اور ہماری بحث سے خارج بھی ہے یہلوگ سفر پر روانہ ہونے کے بعد بحر الکاہل کے علاقے میں پہنچے جہاں سے سال کا فاصلہ چھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ تھا وہاں پر ان کی کشتی ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں انہیں اس کشتی کو خیر باد کہہ کر ایک چھو ٹی کشتی میں سوار ہونا پڑا جو اسی کشتی میں موجود تھی ان کے پاس کشتی میں جتنا سامان تھا سب بہہ گیا اور ان کے پاس صرف پلاسٹک کے چند برتن جوپینے کے پانی سے بھرے ہوئے تھے اور وہ انہیں کشتی میں لے آئے تھے تاکہ دوران سفر کام آ سکیں رہ گئے لیکن کھانے پینے کا سامان جو اس زندگی بچانے والی کشتی میں تھا جلدی ختم ہو گیا اور مسافر بھوکے ہو گئے لیکن چونکہ موسم بارانی تھا لہذا جب بارش ہوتی تو وہ اپنے پلاسٹک کے برتنوں میں میٹھا پانی جمع کر لیتے قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ بحرا الکاہل جیسے وسیع سمندر میں تیر رہے تھے اور ان کے ہر طرف پانی تھا لیکن وہ اس پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتے تھے اگرچہ بعض کشتیوں میں سمندریپانی کو صاف کرنے کیلئے ایک چھوٹی سی مشینری ہوتی ہے جس کی مدد سے سمندری پانی کو صاف کرکے استعمال میں لایا جا سکتا ہے اس مشینیری سے صاف کیا ہوا پانی اگرچہ کسی حد تک پھیکا ہوتا ہے لیکن بہر حال پینے کے قابل ہوتا ہے اس پانی میں نمک نہیں ہوتا لیکن ڈگلس رابرٹسن اور اس کے ساتھیوں کی زندگی بچانے والی کشتی میں اس قسم کی مشینیری نہ تھی ۔ بہر کیف چونکہ ہر دو یا تین دنمیں ایک مرتبہ بارش ہوتی تھی لہذا اس زندگی بچانے والی کشتی کے مسافر پیاسے نہیں ہوتے تھے لیکن انہیں بھوک ستاتی تھی انہیں معلوم تھا کہ سمندری مسافر پلانکٹن کھا کر نہ صرف یہ کہ کئی کئی دنوں اور ہفتوں بلکہ مہینوں تک اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتاہے لیکن جس راستے سے وہ گذر رہے تھے وہاں پلانگٹن کا وجود نہ تھا جس کی وجہ سمندر کی آلودگی تھی (جیسا کہ ہم گذشت صفحات میں ذکر کر چکے ہیں کہ پلانگٹن چند خلیات پر مشتمل جانوروں کو کہا جاتا ہے جو سطح سمندر پر رہتے ہیں ) لیکن دو اقسام کے سمندری جانور زیادہ پائے جاتے تھے ایک ڈیوراڈ نامی مچھلی اور دوسرای سمندری کچھوا وہ ڈیوراڈ مچھلی کو کانٹے کے ذریعے شکار کر رہے تھے جب وہ ایک مچلی کا شکار کر چکے اور دوسری مچھلی کیلئے کانٹا سمندر میں ڈالا تو وہ مچھلی ان کا کانٹا لے کر چلی گئی اس سے وہ ڈیوراڈ کے شکار سے محروم ہو گئے لیکن جونہی کوئی کچھوا ان کی کشتی کے نزدک آتا تھا تو ان میں سے ایک پانی میں چھلانگ لگا کر اس کچھوے کو پکڑ لیتا تھا اور پھر دوسروں کی مدد سے اس جانور کو کشتی میں لے آتا اور ساریا س کا تگوشت کھاتی تھے اڑتیس دن تک ڈگلس رابرٹسن اور اس کے ساتھیوں کی خورک کچھوے کا گوشت رہا ۔ یہاں تک کہ ایک جاپانی ماہی گیر کی کشتی نے انہیں دیکھا اور انہیں نجات دلائی پھر انہیں مرکزی امریکہ میں واقع بال بوا کی بندرگاہ تک پہنچایا جونہی یہ لوگ بندرگاہ پہنچے تو بیمار پڑ گئے ان میں پارے سے جنم لینے والی بیماری کی علامتیں دکھائی دینے لگیں ۔ جب انہوں نے اسی علاقے کے کچھوے کا شکار کیا تو معلوم ہوا کہ یہ جانور پارے سے آلودہ ہے اور جو کوئی اس کا گوشتکھائے پارے کی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا اور چونکہ سمندر کے درمیان میں پارے کے وجود میں آنے کی جگہ نہیں ہوتی پس معلوم ہوا کہ یہ جانور کسی دریا کے دو آبے میں انڈے سے باہر اتا ہے جس کے کنارے کافی کارخانے واقع ہیں ۔ اور چونکہ دریا کا پانی پارے سے آلودہ ہوتا ہے لہذا وہ کچھوے میں سرایت کر جاتا ہے اور جب وہ دو آبے سے دور سمندر میں نکل جاتا ہے تو ایک عرصے تک پارہ اس کے بدن میں رہتا ہے اسی لئے اس کا گوشت کھانے سے انسان بیمار پڑ جاتا ہے اور بلا تردید جو مچھلیاں ایسی جگہوں پر رہتی ہیں وہ بھی بیماری کا سبب بنتی ہیں جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ جاپانی لوگوں نے تیس سال سے بھی کم عرصے میں قدرتی وسائل کے بغیر اتنی ترقی کر لی ہے کہ آج امریکہ اور روس کے بعد تیسرا بڑا امیر ملک کہلاتا ہے اس کے باوجود کہ نہ تو ان کے پاس لوہا اور پتھر کا کوئلہ ہے اور نہ ہی مٹی کا تیل وغیرہ پھر بھی اس کی صنعتوں نے دنیا کی مارکیٹوں کو مسخر کر لیا ہے لیکن جاپانیوں نے اپنے ماحول کو آلودہ کرکے اپنے لئے مشکالت پیدا کر لی ہیں اور اب ا کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنا صنعتی نظام مکمل طور پر تبدیل کریں اور صنعتی یونٹوں کوبڑے بڑے شہروں سے نکال چھوٹے شہروں میں لگائیں اس کیلئے انہیں ایک نقشہ تیار کرنا ہو گا ‘ جس پر اگر وہ اج سے عمل کرنا شروع کریں تو ۲۰۰۰ عیسوی تک اسے مکمل کر سکیں گے ۔اس نقشے کی تفصیلات کی تشریح ان صفحات میں محال ہے بہر حال اس نقشے کا ماحصل یہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں مثلا ٹوکیو جو چند سال پہلے تک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر کہلاتا تھا (جبکہ آج کل شنگھائی آبادی کے لحاظ سے دنیا کابڑا شہر کہلاتا ہے ) کی آ ۶ ادی کم کر دی جائے اور ایسے شہروں کی زیادہ سے زیادہ آبادی صرف دو لاکھ تک محدود کر دی جائے ۔

بڑے بڑے شہر اس لئے وجود میں آئے ہیں کہ کھیتی باڑی ‘ صنعت و حرفت ‘ تجارت ‘ تعلیم و تربیت اور انتظامیہ کے ادارے وغیرہ سب شہر میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ایک شہر میں تمام کاموں کا اجتماعی لوگوں کو اپنی طرف زیادہ مائل کرتا ہے اور ان شہروں میں دوسرے علاقوں کی نسبت بے روزگار لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی زیادہ فراہم ہوتے ہیں ۔

لیکن جاپان میں جو نقشہ تیار کیا گیا ہے اس کے مطاقب مختلف محکموں کے مراکز کو صنعتی مراکز سے اور ان مراکز سے تعلیم و تربیت اور کھیتی باڑی کے مراکز کو جدا کیا جائے گا۔ اور تمام صنعتی مراکز جن کے بارے میں خیال ہے کہ ماحول کو آلودہ کرتے ہیں ان میں صفئی کے آلات نصب کئے جائیں گے تاکہ جو چیز بھی کارخانے سے خارج ہو کر فضا یا زمین یا دریا میں شامل ہو پہلے اس کی مکمل طور پر تطہیر ہو جائے ۔ اگر اس طرح کی منصوبہ بندی جاپاں میں کامیاب ہو جائے اور اس کے مثبت نتائج برامد ہوں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اس کی تقلید کریں گے بنی نوعی انسان نے زندگی کے ماحول کو آَودہ کرنے والے خطرات خصوصا زمین دریاؤں اور سمندروں کو آلودگی کا باعث بننے والے اسباب پر حال ہی میں توجہ دی ہے ۔

لیکن جعفر صادق کی مانند گذشتہ دانشوروں نے بارہ سو سال پہلے اس بات کی طرف نشاندہی کر دی تھی کہ بنی نوعی انسان کو ایسی زندگی گزارنی چاہیے جس سے اس کا ماحول آلودہ نہ ہو ۔

قدیم آریا زمین اور پانی کو آلودہ کرنے سے پرہیز کرتے تھے جبکہ اس زمانے میں آج کل کی صنعتیں بھی موجود نہ تھیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ وہ کیسے اس موضوع سے آ گاہ تھے کہ زمین اور پانی کو آلودہ نہیں کرنا چاہیے ۔ کیا جس طرح ہمارے بعض دانشوروں نے کہا ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ سیکھتے ہیں اس کا ایک حصہ اس تمدن پر مشتمل ہوتا ہے جو ہمیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملتا ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کی طرف توجہ نہیں دیتے ‘ پس ہمارے آباؤ اجداد سے ہمیں جو معلومات اور تجربات ورثے میں ملے ہیں ‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنا ماحول آلودہ نہیں کرنا چہایے کیونکہ جب ماحول آَودہ ہو گیا تو زندگی مشکل بلکہ نا ممکن ہو جاتی ہے وہ تمام قوتیں جنہیں یورپی مورخیں نے ہندوستانی اوریورپی قوموں کا نام دیا ہے ( اس نام کے رکھنے پر اعتراض کای گیا ہے ) انہوں نے اپنے ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے بہت محنت کی ہے ان کی یہ کوشش وسوسے کے درجے تک پہنچ گئی تھی ایک فرانسیسی محقق ماریجن موتے جو آج سے چار سال پہلے فوت ہوا اس کے بقول ہندوستان کے شہروں میں گندے پانی کی پہلی نالی اس طرح تعمیر ہوئی کہ ہندوستانی لوگ زمین کو آلودگی سے بچانا چاہتے تھے ۔ لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس قوم نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ آخر کار آَودگی تو پھیلے گی کیونکہ یہ نالی دریا میں جا کر گرتی تھی ۔ لیکن ایک جرمن نولدکے کا خیال ہے کہ ہندوستانی فالتو پانی کی نالی کو دریا میں اس لئی ڈالتے تھے کہ ان کا عقیدہ تھا ہر پاک چیز گندی چیز کو صاف کرتی ہے اس لئے وہ دریائی پانی میں نہاتے تھے تاکہ اپنے آپ کو صاف کر لیں اور آج جب کہ ابتدای ہندوستانی اور یورپی تمدن جو ہزاروں سال پرانا ہو چکا ہے پھر بھی صفائی کیلئے پانی ہی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ صفائی کیلئے مختلف اقسام کے کیمیائی ذرائع اور آکسیجن موجود ہے لیکن صفائی کیلئے لوگ پانی کا استعمال کرتے ہیں ہمیں سابقہ ادوار میں اٹلی کے شاعر اور مصنف داتونزیو جیسا شخص کوئی نہیں ملتا جو اپنی قمیضوں کو آکسیجن سے دھوتا ہو ۔ داتونزیو کا طریقہ کار یہ تھا کہ اپنے لباس کو خالص آکسیجن سے ڈبو دیتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ اکسیجن کے بغیر کوئی چیز بھی لباس کو صاف ستھرا کرنے پر قادر نہیں ۔ اس کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ اس کا لباس اچھی طرح دھلا ہو اہو ۔ عمر کے ایک حصے میں اس نے لباس دھونا ترک کر دیا تھا لیکن جو لباس وہ ایک بار پہنتا تھا اسے اتار کر دور پینک دیتا تھا ۔ ہندوستانی اور یورپی اقوام اس کے باوجود کہ آکسجن کو نہیں پہچانتی تھیں اور نہ ہی اس بات سے آاہ تھیں کہ پانی میں آکسیجن پائی جاتی ہے جو کسی چیز کو صافکرنے کی خاصیت رکھتی ہے لیکن یہ قومیں قدیم زمانوں سے پانی کو پاک کرنے کی خاصیت سیآگاہ تھیں اور نولدکے کے بقول ان کا عقیدہ تھا چونکہ پانی پاکیزہ کرنے کی خاصیت رکھتا ہے لہذا جب گندے پانی دریا میں گر کر جاری پانی میں شامل ہو جاتے ہیں تو پانی آلودہ نہیں ہوتا ۔ اس جرمن نولدکے کا نظریہ کسی حد تک صحیح ہے کیونکہ گندے پانی کی نالی جب دریا میں گرتی ہے تو جاری پانی کو آلودہ نہیں کرتی ۔ اس لئے کہ پانی میں پائے جانے والے جراثیم دریا کے پانی میں بکھر جاتے ہیں لیکن اگر ایک دریا میں گندے پانی کی سینکڑوں نالیاں گریں تو اس کے پانی کو آلودہ کر دیتی ہیں کیونکہ پانی میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹ‘ے جراثیم اچھی طرح منتشر نہیں ہوتے ۔ بہر کیف اس زمانے میں کیمیائی مواد جس قدر دریاؤں کے پانی کو آلودہ کرتا ہے اس قدر گندے پانی کی نالی نہیں کر سکتی ۔ کیونکہ کیمیائی مواد پانی میں پائے جانے والے جراثیموں کی مانند تحلیل نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہ کارخانوں سے نکلنے والا کیمیائی مواد چھوٹے چھوٹے جراثیموں کوختم کر دیتا ہے اور اس طرح پانی جانداروں کی صفائی کے عوامل سے محروم ہو جاتا ہے ہندوستانی اور یورپی اقوام کو اپنے ماحول کو آلودگی سے محفوظ کرنیکا اس قدر اندیشہ تھا کہ وہ اپنی میتوں کو زمین میں دفن نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں یا زندہ جلا دیتے تھے یا شہر سے دور کسی بلند جگہ کسی پتھر پر رکھ دیتے تھے یہاں تک کہ جب اس کی خشک ہڈیوں کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہتا تو وہ پتھر سے ایک قبر بنا کر اسے اس میں رکھ دیتے وہ مردیکو خاک پر اس لئے نہیں پھینکتے تھے کہ ان کا خیال تھا اس طرح زمین آلودہ ہو جائے گی یہاں تک کہ یہ لوگ جنگ کے خاتمے پر مردوں کو دفن نہیں کرتے تھے اور ان کی لاشیں یا تو جلا ڈالتے اور یا پھر کسی بلند جگہ پر گلنے سڑنے کیلئے چھوڑ دیتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ زمین ایک سے دوسرے کے ہاتھوں میں چلی اجتی تو وہ لوگ خشک ہڈیوں کوبھی دفن نہیں کر سکتے تھے اور یہ ہڈیاں اسی بلند جگہ پر پڑی رہ جاتی تھیں ۔

ہندی اور یورپی اقوام کا جب دوسری اقوام سے میل جول پیدا ہوا تو انہوں نے دوسری اقوام سے مردوں کو دفن کرنا سیکھا ۔ بہر کیف پھربھی وہ مضطرب ہو جاتے تو تب ہی اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے ۔ اگر جنگ چھڑ جاتی اور بہت سے مرد اس میں کام ا جاتے تو چونکہ اس صورت میں وہ لاشوں کو کسی اونچے مقام پر لے جا کر نہیں رکھ سکتے تھے لہذا انہیں دفن کر دیتے تھے ۔

جس وقت اسکندر ہندوستان گیا اور وہاں اس نے جنگ کی تو ہند والوں نے اپنے سینئر افسروں کے علاوہ تمام مقتولین کی لاشوں کو جلاد ڈالا ‘ اسکندر کے اسی خط سے پتہ چلا ہے جو اس نے اپنے استاد ارسطو کے نام لکھا ہے ‘ اسکندر نے اپنے اس خط میں لکھا ‘ میں نے ہندیوں سے سوال کیا کہ کیوں ان اجساد کو جلاتے ہو اور دفن نہیں کرتے ؟

انہوں نے جواب دیا اگر ہم ان اجساد کو دفن کر دیں تو زمین آلودہ ہو جائے گی جو ہمارے قانون کے خلاف ہے اگر آپ زمین کو آلودہ نہیں کرنا چاہتے تو آپ نے سپاہیوں کے اجساد کو کیوں دفن کیا ہے ۔

ہندیوں نے جواب دیا سپاہیوں کے اجساد سے زمین زیادہ آَودہ نہیں ہوتی مگر چونکہ یہ افسران بالا ہین لہذا اگر دفن ہوں تو زمین زیادہ الودہ ہو جائے گی بعد میں اسکندر خود کہتا ہے ‘ میرا خیال ہے کہ وہ اس لئے افسران بالا کے اجساد کو دفن نہیں کرتے کہ اس طرح ان افسروں کا احترام مجروح ہو گا اسکندر کے خط نے ارسطو پر کا فی اثر ڈالا اور اس نے اس موضوع کو اپنیکتاب اور گانوں میں جو چھ رسالوں پر مشتمل ہے اور منطق پر لکھی گئی ہے میں رقم کیا ہے اور لکھا ہے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہندیوں کی مانند اجساد کو جلا ڈالیں ؟

ہندی اور یورپی اقوام نے اپنے ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے اس وقت تگ و دو کی جب ماحول کی الودگی بنی نوعی انسان کی زندگی کیلئے مضر نہ تھی کیونکہ اس زمانے میں دنیا کے بڑے سے بڑے شہر کی آبادی شاید ایک لاکھ سے زیادہ نہ ہو گی ۔ ہمیں ہندوستان اور ایرانی شہروں کی قدیم زمانوں میں آبادی کا علم نہیں لیکن قدیم مصر کے دارالحکومت " طبس " کی دو ہزار سال ق م میں آبادی ایک لاکھ بھی نہ تھی جب کہ یہ شہر کم از کم ایک ہزار سال سے دارالحکومت چلا آ رہا تھا ۔

چینیوں کے بقول ‘ دو ہزار سال قبل مسیح میں پیکنگ شہر کی آبادی پانچ لاکھ افراد پر مشتمل تھی ۔لیکن قول محض روایت ہے اور اس کی کوئی تاریخی سند نہیں ملتی ‘ خود چینیوں کی معتبر تاریخ میں اس موضوع کے بارے میں ذکر نہیں ہوا لیکن فرض کریں اگر ایک ہزار سال قبل مسیح میں پیکنگ کی آباد پانچ لاکھ افراد پر مشتمل تھی تو بھی یہ تعداد موجود دور کے بڑے شہروں کی آبادی کے مقابلے میں قابل اعتنا نہیں ہے بہر کیف ہم دیکھتے ہیں کہ کنفیوشس جیسا فلسفی ‘ معلوم اخلاق اور معروف چینی قانون دان بھی لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ماحول کو آلودہ نہ کریں ۔

کنفیوشس ۵۵۱ قبل مسیح میں پیدا ہو اور ۴۷۹ قبل مسیح میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا جس وقت کنفیوشس نے دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت تک ہندی اور یورپی اقوام کو ہندوستان میں رہتے ہوئے صدیاں بلکہ شاید ہزاروں صدیاں بیت گئی ہوں گی ہم نے صدیاں یا ہزاروں صدیاں اس لئے کہا ہے کہ ہمیں آریا قوم کی ہجرت کرنے کی صحیح تاریخ معلوم نہیں حتی کہ ہم اس قوم کی ہجرت کی تاریخ کے بارے میں تخمینہ بھی نہیں لگا سکتے ‘ مورخین کے بقول ‘ آریائی اقوام نے تین ہزار سال یا دو ہزار سال قبل مسیح میں ہجرت کی ۔ اسے ہم تخمینی تاریخ شمار نہیں کر سکتے ۔ چونکہ تخمینی تاریخ وہ ہے جس کی دو رقموں میں پچاس سال یا زیادہ سے زیادہ سو سال کا فرق ہو اور اگر یہ فرق ہزار سال تک ہو تو پھر ہم اس تاریخ کو تخمینی تاریخ نہیں کہہ سکتے ۔

قبل از تاریخ کے زمانوں میں اگر دس ملین سال کا فرق بھی ہو تو بھی اسے قابل اعتنا سمجھا جاتا ہے چونکہ حقیقی تاریخ کو اخذ کرنے کا کوئی ماخذ نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ تاریخ سے قبل بڑے جانوروں کی نسل آج سے ساٹھ ملین سال یا پچاس ملین سال پہلے معدوم ہو گئی اس کے باوجود کہ ان دو رقموں کے درمیان دس ملین سال کا فاصلہ موجود ہے ‘ پھر بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ۔ لیکن آریاؤں کی ہجرت قبل از تاریخ کو ایک صدی کے فرق کے ساتھ متعین کرتے ہیں جسے تخمینی تاریخ نہیں کہا جا سکتا بہر حال کنفیوشس ‘ جو ایک بڑا آدمی تھا ‘ جب اس نے اپنا وعظ و نصیحت شروع کیا تو ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہوئے آریائی قوم کو ایک مدت بیت چکی تھی ۔ لہذا بعید نہیں کہ کنفیوشس جس نے دنیا اور انسانوں کی ایک مدت تک سیر کی تھی ۔ اس نے ماحول کو آلودگی سے بچانے کی ضرورت کو اریاؤں سے سیکھا ہو ۔ کیا آریا جو اپنے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچاتے تھے انہوں نے یہ سبق کسی دوسری قوم سے سیکھا اج زندگے کے ماحول کو آلودگی سے بچانا ہماری نظر میں عام سی بات ہے چونکہ خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے آلودگی کے خطرات کی طرف توجہ مبذول کی ہے ۔

لیکن جس زمانے میں آریاؤں نے ہجرت کی اور ایران و ہندوستان میں سکونت اختیار کر لی ‘ اس زمانے میں دنای کی آبادی اس قدر زیادہ نہ تھی کہ آلودگی کا مسئلہ ایک خطرناک موضوع بن چکا ہوتا دوسری جنگ عظیمس ے پہلے تک کرہ ارض کی آبادی زیادہ تھی اور نیویارک ‘ لندن اور ٹوکیو جیسے شہروں کی آبادی کئی کئی ملین تک پہنچ چکی تھی لیکن بہر کیف آلودگی کا مسئلہ اس وقت تک وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ مسئلہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید صنعتوں کے وجود میں آنے اور ایٹمی توانائی کو استعمال میں لانے کے بعد پیدا ہوا ۔