مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43380
ڈاؤنلوڈ: 4106

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43380 / ڈاؤنلوڈ: 4106
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

"انسان خود اپنی عمر گھٹاتا ہے "

امام جعفرصادق (علیہ السلام ) کے توجہ طلب نظریات میں سے ایک نظریہ انسان عمر کی لمبائی کے متعلق ہے آپ نے فرمایا انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ لمبی عمر گزارے اور وہ خود اپنی عمر کو کم کرتا ہے اگر انسان دین اسلام کے قوانین پر عمل کرے اور ممنوعہ چیزوں سے پرہیز کرے اور کھانے پینے میں قرانی احکامات کے مطابق عمل کرے تو وہ لمبی عمر پائے گا ۔

انسانی عمر کی لمبائی کا مسئلہ دو چیزوں سے وابستہ ہے ایک صحت کا خیال رکھنا اور دوسرا سیر ہو کر کھانے سے پرہیز کرنا ۔

پہلی صدی عیسوی میں رومی شاہنشاہیت کے شہر روم میں لوگوں کیاوسط عمر بائیس سال تھی کیونکہ رومی شہنشاہیت میں صحت کے قوانین کا لحاظ نہیں رکھ اجاتا تھا اور روم کے اشراف اس قدر غذا کھاتے تھے کہ قے کرنے لگتے اور عام لوگ جہاں تک ہو سکتا غذا کھانے میں اشراف کی پیروی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے روم کے اشراف کے محلوں میں ڈایننگ ہال کے ساتھ ایک کمرہ ہوتا تھا جس کا نام ومی ٹوریم یعنی قے کرنے کی جگہ تھا اور اگر غذا کھانے کے بعد قدرتی طور پر قے نہ آئے تو وہ لوگ قے لانے والیدوائی کھاتے تاکہ انہیں قے ائے کیونہ قے نہ آں ے کی وجہ سے ممکن تھا وہ مر جاتے ۔

بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں انگلستانا ور فرانس جیسے ممالک میں جو بچہ پیدا ہوتا توقع ہوتی تھی کہ وہ اوسطا پچاس سال زندگی بسر کرے گا کیونکہ صحت کی حالت قدیم رومی شہنشاہیت سے بہت بہتر تھی اور لوگ رومی باشندوں کی مانند غذا کھانے میں افراط سے کام نہیں لیتے تھے ۔

آج یورپی ممالک میں صحت میں بہتری کی وجہ سے دنیا میں آنے والے ہر بچے کی اوسط عمر ۶۸ سال ہے اور ہر بچی کی اوسط عمر ۷۸ سال ہے اس طرح عورتوں کی اوسط عمر مردوں کی اوسط عمر سے زیادہ ہے ۔

اگر سرطان کی بیماری قابل علاجقرار دیجائے اور دل یا دماغ کے دورے یا خون کی بیماریوں پر قابو پا لیا جائے تو کیا انسان کی اوسط عمر بہت زیادہ ہوجائے گی ؟

ریکارڈ شدہ اعداد و شمار اس سوال کا منفی جواب دیتے ہیں جب سرطان قابل علاج ہو جائے گی اور دل اور دماغ کی مہلک بیماریوں پر قابو پا لیا جائے گا تو بھی انسان کی اوسط عمر میں صرف دو سال کا اضافہ ہو گا چونکہ جو چیز اوسط عمر کی حد کو بڑھاتی ہیوہ ایک با چند بیماریوں کا علاج نہیں بلکہ کھانے اور پینے کی تمام چیزوں سمیت صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہے جس دن بنی نوعی انسان تمام بیماریوں کے علاج پر قادر ہو گا تو بھی بڑھاپے سے مر جائے گا موجودہ دور میں سرطان حرکت قلب یا حرکت دماغ کا رک جانا یا ایڈز جیسی بیماریاں مہلک بیماریا کہلاتی ہیں ان کے علاوہ کسی بیماری کو مہلک نہیں کہا جاتا پھر بھی لوگ متعددی بخار جیسی بیماریوں سے بھی مر جاتی ہیں چونکہ بڑھاپا موت کا سبب بنتا ہی اور جب بڑھاپے کے نتیجے میں انسانی اعضاء فرسودہ ہو جاتے ہیں تو قابل علاج بیماریاں موت کا سبب بن جاتی ہیں مگر یہ کہ بڑھاپا جو چند بیالوجسٹوں کے مطابق ایک بیامری ہے اس کا علاج کیاجائیاس زمانے میں پیش آنے والے مسائل میں سے ایک مسئلہ ماحول کی آلودگیہے جو جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کی تصدیق کرتا ہے یہ آَودگی بعض جگہوں پر کما ور بعض جگہوں پرزیادہ ہوتی ہے اقوام متحدہ کی صحت کی تنظیم نے امریکہ اور میکسیکو کے چند شہروں کی تحقیق کے بعد یہ رپورٹ پیش کیہے کہ امریکہ اور میکسیکو کے بعض شہروں کی آب و ہوا اتنی آلودہ ہے کہ ان شہرون میں زندگی بسر کرنے والے مرد عورتیں اور بیچے اس طرحزندگی گزار رہیہیں کہ ہر چوبیس گھنٹے میں بیس عد د سگریٹ والے دو پیکٹ یعنی چالیس سگریٹ پیتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کی مذکورہ تنظیم کی رپورٹ کے مطبق وہی برے اثرات جو دن اور رات میں چالیس سگریٹ پینے والے کے پھیپھڑوں اور دوسرے اعضاء پر پڑتے ہیں اس شہر کی آب و ہوا کے ذریعے اس کے باشندوں پر بھی ڑتے ہیں ۔

لہذا امریکہ اور میکسیکو کے شہروں کی آب و ہوا اس قدر آَودہ ہے کہ وہاں کے لوگ دوسری بیماریوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے سرطان میں بھی مبتلا ہیں ان کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانت اس قدر زیادہ ہیں جتنے سگریٹ پینے والے شخص کے ہو سکتے ہیں ۔

جو اعداد و شمار کی رو سے ہزار میں سے سڑھے سات سے آٹھ تک ہیں ‘ ماحول کی آلودگی کے علاوہ جو چیز انسانوں کی عمر کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے وہ آواز ہے ۔

اب تک ڈاکٹروں کا یہی خیال تھا کہ صرف زندگی کے ماحول ہی میں آلودگی پیدا ہو سکتی ہے انہیں یہ خیال نہ تھا کہ آواز بھی انسان کی زندگی پر برے اثرات ڈال سکتی ہے ۔

لیکن اب انہوں نے غور کیاہے کہ لگاتار آواز سے انسان کی عمر میں کمی واقعی ہوتی ہے یہ خوش فہمی کہ انسان آواز کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر اس سے اسے تکلیف نہیں پہنچتی صحیح نہیں ہے انسان اپنی عمر کے کسی مرحلے میں آواز کا عادی نہیں ہوتا اور آواز کی لہریں بچپن سے لے کر عمر کے آخری دن تک اس کے اعصاب اور جسم کے خلیات کو تکلیف پہنچاتی ہیں مشہور فرانسیسی انجینئر کامی راجرون جو دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس کی نیوی کی بڑی جنگی کشتیاں جن کا نام ریشلیو اور زان بار تھا بنانے کے کارخانے کا انچارج تھا اس کے عقیدہ کیمطابق لگا تار آواز سے جسم کے خلیات پر وہ اثرات پڑتے ہیں جو اثرات آکسیجن لوہے پر ڈلاتی ہے اور جس طرح آکسیجن آہستہ آہستہ لوہے کو زنگ آلود کرکے ختم کر دیتی ہے اسی طرح لگا تار آواز بھی جسم کے خلیات کو فرسودہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں انسان کی عمر کم ہو جاتی ہے ۔

یہی انجینئر کہتاہے کہ شہر میں ایک اچھا گھر وہ ہے جس کے در و دیوار ایسے بنائے گئیہوں کہ باہر سیآ نے والی کسی قسم کیآواز گھر کے مکینوں کے آرام میں مخل نہ ہوتی ہو ۔

کامی راجرون کہتا ہے کہ چونکہ آج کی زندگی کی حالت ایسی ہے کہ لگا تار آواز سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے لہذا اس کا ایک حل ہے کہ آواز کو روکنے والے مصالح کو درو دیوار میں اتعمال کیا جائیا س طرح کا مصالحہ اب امریکہ کے بازاروں میں دستیاب ہے ۔

اس شخص کے نظریئے کے مطابق اگر سارے مکان میں مذکورہ مصالحہ استعمال نہ کیا جا سکے تو بھی دو تین کمروں میں ایسے مصالحے کا استعمال کیا جائے تاکہ انسان کم ااز کم آرام کے اوقات میں وہاں لگا تا ر اوازوں کے بے ہنگم شور سے محفوظ رہ سکے ۔

اس شخص کے بقول ہمیشہ کیآواز کے اثرات میں سے ایک اثر انسان پر اچانک جنون کی کیفیت ہے ہمیشہ کی آواز سے انسانی اعصاب فرسودہ ہو جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صابر اور نرم دل اشخاص جن کی زندگی کا ایک حصہ صبر اور نرم دلی میں گزارا ہے اچانک جنون کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کے دو ٹوک اثرات میں سے ایک اثر ہمیشہ کی تھکاوٹ ہے اور یہ تھکاوٹ بے حوصلگی اور خواہ مخواہ لڑائی جھگڑے پر اتر آنے کا باعث بنتی ہے ۔

وہ افراد جن پر یہ اثرات پڑتے ہیں وہ اپنی اس بیماری سے آگاہ نہیں ہوتے اور جب وہ ڈاکٹر سے رجوعی کرتے ہیں اور ڈاکٹر ان کا معائنہ کرتاہے تو ان کے جسم کے حقیقی اعضا میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی ۔

کامی راجرون کا کہنا ہے کہ لگا تار آواز آدمی کو تھکا دینے اور بے حوصلہ کرنے کے علاوہ پانچ سے سے دس سال تک (اشخاص میں فرق کے لحاظ سے) انسان کی عمر کو کم کر دیتی ہے اور اگر انسان کے پاس گاڑی ہو تو ان شہروں میں یا وہاں پر جہاں لگا تار آوازیں سنائی دیں رہائش اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔

غیر متوازن خوراک جو آج کے مشینی دور کی پیدوار ہے بھی انسانی عمر میں کمی واقع کرے ولے عوامل میں سے ایک ہے اور یہ بات جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کی تائید بھی کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا انسان کی عمر طویل ہیبشرطیکہ وہ خود اسے کم نہ کرے یورپی ممالک اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور ہرا س ملک میں جہاں مشینی زندگی کا دور دورہ ہے یہ مشینی زندگی اس بات کا باعث بنی ہے کہ لوگ اپنے آپ کو زیادہ تر مصنوعی غذاؤں کے ذریعے سیر کریں ۔

امریکہ میں لوگوں کا ایک طبقہ ہے جو اچھی غذا کھاتے ‘ مویشی وغیرہ چراتے اور ہر جگہ کوبوائے کے نام سے مشہور ہوئے ہیں ۔

یہ لوگ تازہ دودھ پیتے ‘ دودھ کی ملائی اور کھانا کھاتے اور ہمیشہ شہروں سے دور وسیع و عریض صحراؤں میں زندگی بسر کرتے تھے ان کی اوسطا جوانی کی طاقت اسی سال یا پچاسی سال تک باقی رہتی تھی یہی مضبوط کاؤبوائے جو پچاسی سال تک گھوڑے کی پشست پر سوار تھے اور صحرا میں گائے کے ریوڑوں کے ساتھ سفر کرتے تھے آج جونہی پچاسی سال کی عمر کو پہنچتے ہیں خراب غذا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں چونکہ وہ مخصوص غذائیں جو بدن میں یوریا اور یورک ایسڈ جیسی رطوبتوں کی زیادتی کاباعث بنتی ہیں انہوں نے کھانا شروع کر دی ہیں جس کے نتیجے میں وہ پٹھوں کی اور ہڈیوں کے شدید درد میں مبتلا ہوئے اور اس کے علاوہ ان میں ایسی بیماریوں نے جنم لیا ہے جو خون کی بد نظمی کی صورت میں لاحق ہوتی ہیں اور یہ بیماریاں بھی ناقص غذاؤں کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور ان لوگوں کوپچاس ال کی عمر میں ہی کام کے قابل نہیں چھوڑتیں جب کہ اس صدی کے شروع میں ایک کاؤ بوائے پچاس سلا کی عمر میں جوانی کی انتہا کو چھو رہا ہوتا تھا۔

الاسکا جو امریکی ریاستوں میں سیایک ہے وہاں اس صدی کے آغاز میں کوئی بیمار نہ ہوتا تھا وہاں کے باشندوں کی بیماری دانتوں کا درد ہوتا تھا وہ درد بھی عمر کے آخری حصے میں ہوتا تھا کیونکہ مرد عورتیں اپنے دانتوں کو ستر ‘ اسی سال تک محفوظ رکھتے تھے چونکہ وہ عام غذا کھاتے اور ہمیشہ کام میں مشغول رہتے تھے۔

الاسکا کے لوگوں کی خوراک دودھ بارہ سنگے کا گوشت اور سفید مچھلی جو دریائے الاسکا سے کافی مقدار میں شکار کی جاتی تھی وہاں کے گڈریوں کے گلوں میں ہزار بارہ سنگے ہوتے تھے لیکن انہیں ان کو گھاس مہیا کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی حتی کہ الاسکا کی سخت سردی میں بھی جب برف ہر جگہ کو ڈھانپ لیتی تھی انہیں اس سلسلہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی وہ جانور اپنے دو پاؤں جن کے سم تیز ہوتے ہیں کہ ساتھے برف کو ہٹا کر ایک گہرا گڑھابنا لیتے تھے اور اس ٹھنڈے علاقے کی خاص گھاس جو سرد علاقوں میں گرمیوں میں اگتی اور جلدی خشک ہو جاتی ہے کھاتے تھے امریکی مصنف ایلن رولیس اونس جسکی الاسکا کے لوگوں کی زندگی کی حالت اور خاص طور پر قطبی بارہ سنگھے کے متعلق تحقیقات کو مستند سمجھا جاتا ہے اور وہ ۱۹۶۰ عیسوی میں فوت ہوا کہتا ہے کہ وہ ۱۹۳۵ عیسوی میں خزاں کے موسوم میں بارہ سنگوں کی مسومی ہجرت کا شاہد تھا اور پانچ دن تک وحشی بارہ سنگوں کے ٹکرانے سے بجلی کی سی آواز سنائی دیتی اور یہی بارہ سنگے تھے جنہیں الاسکا والوں نے قابو کیا ہوا تھا اور لوگ اب ان کے دودھ اور گوشت کو استعمال کرتے تھے ۔ یہی مصنف بیان کرتا ہے کہ الاسکا میں کوئی ڈاکٹر نہیں کیونکہ ڈاکٹر کو معلوم ہے وہاں جا کر بیکار پڑے رہیں گے کیونکہ وہاں کوئی بیمار نہیں پڑتا اور صرف چند دانتوں کے ڈاکٹر کام کر رہے ہیں الاسکا میں مردوں کی اوسط عمر نوے سال اور عورتوں کی سو سال ہے ۔

یہ تحریر ۱۹۳۵ عیسوی (یعنی تقریبا آج سے ساٹھ ستر سال قبل ) کی ہے اور بہت پہلے کی نہیں ہے یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہیں ہے کہ ڈاکٹر اور ماہرین صحت کے بقول انسان کو لمبی عمر گزارنے اور ہمیشہ صحت مند رہنے کیلئے زیادہ تر نباتاتی غذا کھانا چاہیے اور خصوصا جوانی کے بعد حیوانی چربی اور چربی والے گوشت سے پرہیز کرنا چاہیے اور تیس سال کیعمر کے بعد انسان کیلئے بہترین غذا فروٹ اور سبزی ہے ۔لیکن جیسا کہ ایلن روس نے لکھا ہے الاسکا والے تمام عمر فروٹ اور سبزی کھاتے کیونکہ الاسکا کی ٹھنڈی آب و ہوا میں فروٹ اور سبزی پیدا نہیں ہوتی تھی اور نہیں ہوتی ہے ۔اور سوائے لیشن گھاس کے کسی قسم کی گھاس نہیں اگتی یہ گھاس بیل پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس کا پوداقدرے بڑا ہوتا ہے اور آج تک کوئی بھی الاسکا کی کھلی آب و ہوا میں سبزی کاشت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا چہ جائیکہ فروٹ پیدا ہو صرف حالیہ سالوں کے دوران الاسکا میں گرم خانے بنائے گئے ہیں جن میں سبزی اور پھل پیدا کئے گئے ہیں ۔

الاسکا میں آب و ہوا اس قدر ٹھنڈی ہے کہ گرمیوں کے موسم میں بھی گوشت کو فریج میں رکھنے کی ضرورت نہیں صرف اتنا کافی ہے کہ اسے ایسے کمرے میں رکھ دیا جائے جہاں دھوپ نہ پڑے اور اموات کو دفن کرنے کیلئے قبر کھودنا گرمیوں کے موسم میں بھی مشکل ہے کیونکہ زمین کو جب تھوڑا سا کھودا جاتا ہے تو نیچے برف ملتی ہے اور سردیوں کے مسوم میں توزمین پتھر کی مانند سخت ہو جاتی ہے جسے کھودنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔

مختصر یہ کہ گذشتہ زمانے میں الاسکا کے لوگ ساری عمر نہ پھل کھاتے اور نہ سبزی کھاتے تھے ان کی غذا صرف دودھ بارہ سنگے کا گوشت اور سفید مچھلی ہوتی تھی بہر حال وہ ایک صدی تک زندہ رہتے تھے ۔ اب تک الاسکا کے لوگوں کی طویل عمر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ لوگ جو بارہ سنگے کے گوشت مچھلی اور دود ھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کھاتے ممکن ہے ان کی عمر بھی لمبی ہو اور لمبی عمر کیلئے ضروری نہیں کہ انسان سبزی اور پھل ہی کھائے ۔

لیکن ہمیں آب و ہو کی تاثیر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے شاید الاسکا کے لوگوں کے طویل عمر کا راز ان کی آب و ہوا کی تاثیر ہو ابھی تک کسی نے اس موضوع پر تحقیق نہیں کی کہ علم کی رو سے پتہ چلے کہ الاسکا کے لوگوں کی طویل عمر وہاں کی آب و ہوا کی وجہ سے ہے یا نہیں ؟ لیکن ہمیں اتنا معلوم ہے کہ الاسکا کے لوگ مسلسل ٹھنڈی آب و ہوا میں رہتے تھے اور گزر اوقات کیلئے کافی تگ و دو کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کافی مقدارمیں پروٹین کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ حرارے حاصل کریں ۔

ماؤں کو حکیمانہ نصیحت

جعفر صادق کی علمی فوقیت کے اظہار ات میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے ماؤں کو وصیت کی کہ اپنے شیر خوار بچوں کو اپنے بائیں طرف سلائیں ۔

صدیوں سے اس تاکید کو بے محل اور فضول کیا جاتا رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے تاکید پر غور نہیں کیا تھا اور بعضوں نے اس پر عمل کرنے کو خطرناک سمجھا ان کا خیال تھا کہ ار شیر خوار بچے کو ماں کی بائیں جانب سلاد یا جائے تو ممکنہے کہ ماں سوتے میں کروٹ بدلے اور بیٹے کو اپنے جسم کے نیچے کچل دے ۔

محمد بن ادریس شافعی جو ۱۵۰ ہجری میں جعفر صادق (علیہ السلام ) کی پیدائش کے دو سال بعد غزہ میں پیدا ہوئے اور ۹۹ ہجری میں قاہرہ میں فوت ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ماں کو اپنے بچے کو بائیں طرف سلانا چاہیے یا دائیں طرف ۔

تو انہوں نے جواب دیا دائیں اور بائیں میں کوئی فرق نہیں ماں اپنے بچے کو جس طرف آسان سمجھے اس طرف سلائے بعض لوگوں نے جعفرصادق (علیہ السلام ) کے فرمان کو عقل سلیم کے خلاف قرار دیا چونکہ ان کے خیال میں دایاں بائیں سے زیادہ محترم ہے ان کا خیال تھا کہ مان اپنے بچے کو دائیں جانب سلائے تاکہ بچہ اس کے دائیں جانب کرامت سے بہرہ مند ہو سکے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) کی اس وصیت کو نہ تو مشرق میں کوئی اہمیت دی گئی اور نہ ہی مغرب میں کسی نے اس کی قدرو قیمت کو جانا ۔ حتی کہ علمی احیاء کے دور میں جب کہ دانشور ہر علمی موضوع پر اچھی طرح غور کر رہے تھے کسی نے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے قول کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ آپ کا یہ فرمان علمی نقطہ نظر سے سود مند ہے یا نہیں ؟

سولہویں ‘ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے ادوار جو علمی احیا کے ادوار کہلاتے ہیں گزر چکے تھے اور انیسویں صدی عیسوی پہنچ آئی تھی اور اس صدی کی دوسری دھائی میں امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی قائم ہو کر کام کرنا شروع کر چکی تھی عزراکورنیل جو کورنیل یونیورسٹی کا بانی تھا اور جس نے بچپن میں کافی مشکلات جھیلی تھیں نے فیصلہ کیا کہ اس یونیورسٹی میں شیر خوار اور تازہ پیدا ہونے والے بچوں پر تحقیق کیلئے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے اور اس انسٹیٹیوٹ نے پہلے ہی سال تدریس شروع کر دی اور اسے میڈیکل کالج سے منسلک کر دیا گیا ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ اس یونیورسٹی میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا کام جاریہے بعید ہے کہ نوازائیدہ اور شیر خوار بچوں کے متعلق کوئی موضوع ایسا ہو جس پر اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق نہ ہوئی ہو دنیا میں کوئی ایسا علمی مرکز نہیں ہے جس میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے بارے میں اس مرکز جتنی معلومات کا ذکیرہ ہو یہاں تک کہ تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے اشتہارات اور سائن بورڈ پر تک بھی اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق ہوتی تھی ۔

اس بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس انسٹیٹیوٹ کے محقیقین نے دنیا کے عجائب گھروں میں پائے جانے والے نو مولود بچوں کے متعلق سائن بورڈوں پر نگاہ ڈالی تو انہیں پتہ چلا کہ ۴۶۶ سئن بورڈوں میں سے اکثریت ایسی ہے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیس جانب بغل میں لیا ہوا ہے ان میں سے ۳۷۳ سائن بورڈوں پر ماؤں نے بچے کو بائیں جانب بغل میں لیا ہوا ہے اور صرف ۹۳ سائن بورڈ ایسے ہیں جن میں ماؤں نیبچے کو دائیں طرف بغل میں لیا ہوا ہے ۔

اس بنا پر عجائب گھروں میں پائے جانے والے اسی فیصد سائن بورڈ ایسے تھے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیں بغل میں لیا ہوا تھا نیویارک کی ریاست میں کورنیل یونیورسٹی سے منسلک چند زچہ خانے ایسے ہیں جو حقیقی کے مرکز سے وابستہ ہیں اور وہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان اپنے معائنے اور تحقیق کی رپورٹیں مذکورہ مرکز کو بھجتے رہتے ہیں ان ڈاکٹروں کی طرف سے ۔

ایک طویل مدت تک بھیجی جانے والی مذکورہ رپورٹوں کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے دنوں میں جب نو مولود ماں کی بائیں جانب سوتا ہے تو اسے دائیں جانب سونے کی نسبت زیادہ آرام ملتا ہے اور اگر اسے دائیں طرف سلایا جائے تو جلد ہی جاگ اٹھتا ہے اور رونے لگتا ہے ۔

مذکورہ تحقیقی مرکز کے محقیقین نے اپنی تحقیق کا دائرہ کار صرف سفید فام امریکنوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے سیاہ فام اور ریڈ انڈین بچوں پر بھی تحقیق کی ہے اور طویل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس موضوع کا تعلق رنگ و نسل سے نہیں دنیا کی تمام اقوام کے بچوں میں یہ خاصیت موجود ہے کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز نے اس موضوعپر مسلسل تحقیق کی تھی اس مرکز کے ڈاکٹروں نے نا معلوم شعاعوں کے ذریعے جنین کا حاملہ عورت کے پیٹ میں معائنہ کیا لیکن ان کی معلومات میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا یہاں تک کہ ہو لو گرافی ایجاد ہو گئی ۔

ہو لو گرافی کی ایجاد کے بعد اس تحقیقی مرکز کے ڈاکٹروں نے ہو لو گرافی کے ذریعے ماں کے پیٹ میں جنین کی تصویر لی ‘ انہوں نے دیکھا کہ ماں کے دل کی دھڑکن کی آوازوں کی لہریں جو تمام بدن میں پھیلتی ہیں جنین کے کانوں تک پہنچتی ہیں ۔

اس مرحلے کے بعد ڈاکٹروں نے یہ معلوم کیا کہ کیا ماں کے دل کی دھڑکنوں کا وقفہ بھی جنین میں رد عمل ظاہر کرتا ہے یا نہیں ؟

چونکہ ڈاکٹر صاحبان مان کے دل کی دھڑکن کو ہلاکت کے اندیشے سے نہیں روک سکتے تھے لہذا نہوں نے اس تحقیق کو ممالین یعنی دودھ دینے والے جانوروں پر جاری رکھا انہوں نے جو نہی ماں کے دل کی دھڑکن رو کی انہوں نے دیکھا کہ جنین میں رد عمل پیدا ہوا ۔

جب انہوں نے یہ تجربات بار بار دھرائے تو انہوں نے یقین کر لیا کہ ممالین جانوروں کے دل کی دھڑکن کو روکنے سے ان کے جنین میں رد عمل ظاہر ہوتا ہے اور ماں کی موت کے بعد جنین بھی ہلاک ہو جاتا ہےکیونکہ ماں کے دل سے نکلنے والی ایک بڑی شریان جنین کو خون پہنچاتی ہے جو اس کی غذا بنتا ہے اور جب دل ساکن ہوجائے گا تو جنین کو غذا نہیں پہنچے گی اور وہ ہلاک ہو جائے گی ۔

کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے سائنس دانوں نے متعدد تجربات سے یہ اخذ کیا ہے کہ بچہ نہ صرف یہ کہ ماں کے پیٹ میں اس کے دل کی دھڑکنوں کو سننے کا عادی ہو جاتی ہے بلکہ ان دھڑکنوں کا اس کی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے اگر یہ دھڑکن رک جائے تو بچہ ماں کے پیٹ میں بھوک سے مر جائے ۔

ماں کے دل کی دھڑکن سننے کی جو عادت بچے کو پیدائش سے پہلے ہوتی ہے وہ اس میں اس قدر نفو کر جاتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اگر ان دھڑکنوں کو نہ سنے تو پریشان ہو جاتی ہے بچہ ان دھڑکنوں کی بخوبی پہچان رکھتا ہے جس وقت بچے کو مان کی بائیں جانب سلایا جاتا ہے تو بچہ ان دھڑکنوں کو سن کر پر سکون رہتا ہے لیکن چونکہ دائیں جانب دل کی دھڑکنیں سنائی نہیں دیتیں لہذا بچہ مضطرب ہو جاتا ہے ۔

اگر کورنیل یونیورسٹ کا بانی نو مولود اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا یہ مرکز قائم نہ کرتا تو اس موضوع پر ہر گز تحقیق نہ ہوتی اور یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے یہ کیوں فرمایا کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو بائیں طرف رکھیں اور سلائیں ؟ اور اس میں کیا مصلحت اور فوائد مضمر ہیں ۔

ان میں جس جس کمرے میں نو مولود لیٹیہوتے ہیں وہاں ایک مشین رکھی ہوتی ہے جس سے ماں کے دل کی دھڑکنوں جیسی آواز سنائی دیتی ہے یہ آواز ایک ریسیور کے ذریعے ہر بچے کے کان تک پہنچائی جاتی ہے بالغ انسان چاہے مرد ہو یا عورت عموما اس کا دل ایک منٹ میں ۷۲ بار دھڑکتا ہے کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقی انسٹی ٹیوٹ میں قائم شیر خوار بچوں کی پرورش کے مذکورہ مراکز میں اگر ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ایک سو دس سے بیس ہو جائیں تو ایک کمرے میں موجود تمام بچے رونے لگتے ہیں پس سائنس دانوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ۷۲ دھڑکنیں فی منٹ ہونا چاہیے تاکہ بچے پیرشان نہ ہوں اور رونے نہ لگیں ۔ مذکورہ مراکز میں چند مرتبہ یہ تجربات دھرائے گئے ہیں ۔

کچھ نو مولودوں کو ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں اور کچھ نو مولودوں کو ایک دوسرے کمرے میں رکھا گیا جہاں وہ ماں کے دل دل مصنوعی دھڑکنیں سن سکتے تھے اس دوران یہ معلوم ہو اکہ وہ نو مولود جن کے کانوں تک ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں پہنچ رہی تھیں حالنکہ دونوں کمروں والے بچوں کی غذا ایک جیسی تھی لیکن وہ کمرہ جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں اس کے بچے زیادہ بھوک کا اظہار کرتے ہوئے غذا کھاتے تھے اور جب کہ اس کے برعکس دوسرے کمرے والے کم بھوک والے ہوتےتھے ۔

کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز سے وابستہ شیر خوار بچوں کی پرورش کے مراکز میں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنوں کی شدت کے لحاظ سے بھی تحقیق کی گئی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر یہ دھڑکنیں ماں کے دل کی قدرتی دھڑکنوں کی آواز سے زیادہ شدید ہوں تو بچے مضطرب ہو کر رونے لگتے ہیں ۔

کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے ایک ڈاکٹر نے دنیا کے براعظموں کا سفر کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک میں مائیں اپنے بیٹوں کو اٹھائے ہوئے کسی طرف گود میں لیتی ہیں ؟

یہ ڈاکٹر جس کا نام ڈاکٹر لی سالک بیان کیا جاتا ہے اور ابھی تک کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز میں کام میں مشغول ہے اس کے بقول دنیا کے تمام براعظموں میں مائیں اپنے بیٹوں کو بائیں طرف کی بغل میں لیتی ہیں اور وہ خواتین جو اپنے بیٹوں کو دائیں طرف والی بغل میں لیتی ہیں ان میں سے اکثر بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی ہیں۔

خصوصا جب وہ ٹوکری اٹھاتی ہیں تو اپنے بچوں کو دائیں طرف والی آغوش میں لیتی ہیں تاکہ وہ بائیں ہاتھ سے ٹوکری اٹھا سکیں ۔

ڈاکٹر لی سالک نے تحقیقی مرکز سے منسلک بچوں کی پرورش گاہ میں زچہ خواتین سے جو پیدائش کے بعد وہاں سے چلی جاتی ہے اور نو مولودوں کو بائیں طرف بغل میں لیتی ہیں سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آ اپنے بچے کو بائیں بغل میں کیوں رکھتی ہیں ؟

لیکن ابھی تک کسی خاتون نے ڈاکٹر لی سالک کو جواب نہیں دیا کہ چونکہ دل سینے کے بائیں حصے میں واقع ہے اور بچوں کیلئے اس کی دھڑکنوں کا آواز سننا مفید ہے مائیں اس بات سے آگاہ نہیں کہ وہ بچے کو بائیں طرف رکھنے کو کیوں ترجیح دیتی ہیں پھر بھی وہ بچے کو بائیں طرف بغل میں رکھتی ہیں ۔

یہاں تک کہ افریقہ کے سیاہ فام قبائل کی عورتیں جب بچے کو پیٹھ پر نہیں اٹھاتیں تو اسے بائیں جانب بغل میں رکھتیہیں اور افریقہ کے تمام سیاہ فام قبائل میں خواتین کو علم ہے کہ بچے کو بائیں طرف سینے پر رکھنے سے اس کی بھوک بڑھتی ہے اور وہ خوب دودھ پیتا ہے جب کہ دائیں طرف کے اثرات اس کے برعکس ہیں ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں سے سنا ہے کہ رات کو بچہ جب بھوکا ہوتا ہے تو اندھیرے میں حیران کن تیزی سے مان کے پستان کو تلاش کرکے اس پر منہ رکھ کر دودھ پینا شروع کر دیتا ہے ۔

انہیں تعجب ہے کہ بچہ روشنی کے بغیر ہی ماں کے پستان کو ڈھونڈ کر اس سے دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں کو بتایا کہ رات کی تاریکی میں ماں کے پستان سے دودھ پینے میں ماں کے دل کی دھڑکن بچے کی مدد کرتی ہے اور جب بچہ ماں کے دل کے دھڑکنے کی آواز سنتا ہے تو فورا پستان کو ڈھونڈ کر دودھ پیتا ہے ۔

ہرشے متحرک ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اہم نظریات میں ایک اورنظریہ اشیاء کی حرکت کے متعلق ہے آپ نے فرمایا جو کچھ موجود ہے حرکت کر رہا ہے حتی کہ جمادات بھی متحرک ہیں اگرچہ ہماری آں کھیں ان کی حرکات کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو متحرک نہ ہو ۔

یہ بات جعفر صادق (علیہ السلام ) کے زمانے میں قابل قبول نہیں نہ آیی تھی جب کہ آج نا قابل تردید حقیقت ہے اور کائنات میں کوئی ایسا جسم نہیں جو متحرک نہ ہو علم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا حرکت کے بغیر بھی کسی چیز کا وجود ہو سکتا ہے تصور کی بھی کوئی طاقت کسی سکن جسم کا اتہ پتہ نہیں بتا سکتی جو نہی حرکت رکی تصور کی وہ طاقت جسے حرکت کو فرض کرنا تھا ختم ہو گئی چونکہ جس لمحے حرکت رک جاتی ہے انسان مر جاتا ہے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے اس حقیقت کو بیان کیا اور فرمایا تھا کہ جس لمحے حرکت رک جاتی ہے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔

لیکن موت کے بعد بھی ایک دوسری طرف سے حرکت جاری رہتی ہے ورنہ ادمی کا جسد خراب نہ ہو ہم زمانے میں تبدیلی کو صرف حرکت کے زیر اثر احساس کرتے ہیں اور اگر ہمارے وجود میں دائمی حرکت نہ ہو تو ہم ہرگز لمبائی چوڑائی اور بلندی وغیرہ کو استنباط نہیں کر سکتے تاکہ مکان کا کھوج لگائیں ہر ساکن جسم میں دو قسم کی دائمی حرکت موجود ہوتی ہے پہلی حرکت جو ایٹم کیاندر ہے اور گذشتہ صفحات میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ الیکٹران ایٹم کے مرکز کے ارد گرد ایک سیکنڈ میں تین کیٹریلین مرتبہ چکر لگاتا ہے دوسری حرکت مالیکیولوں کی دائمی ارتعاش ہے اور ہر جسم کے مالیکیول سردی ہوچاہے گرمی ہو صفر سے دس کیٹریلین مرتبہ فی سیکنڈحرکت کرتے ہیں ۔

فرانسیسی ڈرامہ نویس مولیر جو فرانسیسی کامیڈی کا بانی ہے اس نے اپنے ایک ڈرامے کے ہیرو کے متعلق کہا کہ وہ زندہ تھا لیکن حرکت نہیں کر رہا تھا ۔

یہاں تک کہ مولیر خود بھی متعجب تھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک چیز حرکت نہ کرے اور وہ زندہ ہو ۔

آج یہ مذاق قابل قبول نہیں ہے اگر کوئی جسم ساکن ہوتو وہ مردہ ہے اور جعفر صادق (علیہ السلام ) کے بقول موت کے بعد بھی اس کے اندر حرکت جاری رہتی ہے لیکن دوسری شکل میں اور وہ حرکت دنیا کے آخری دن تک باقی رہتی ہے اگرچہ انسانی جسم سے بچنے والے ذات مادہ نہ رہیں اور توانائی میں تبدیل ہو جائیں اس صورت میں وہ توانائی کی شکل میں حرکت جاری رکھیں گے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جو کچھ ہے خالق کا گرویدہ ہے یہ نظریہ آج تک عرفانینظریہ سمجھا جاتا رہا نہ کہ علمی نظریہ ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) جن عرفا میں سے تھے ( لیکن آپ کا مخصوص عرفان دین اسلام پر مبنی تھا ) ان کا کہنا تھا کہ آدمی کی تخلیق کا یہ مقصد ہے کہ وہ آخر کار خداوند تعالی سے مل جائے ۔

وقت کے گزرنے کے ساتھ تصوف و عرفان کے گوناں گوں فرقے وجود میں آئیا ور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نظریہ کے کچھ پیروکاروں نے بے باکی دکھائی اور خدا تک پہنچنے کے نظریئے کو خدا ہونا بنا لیا اور یہ وہی نظریہ ہے جو مشرق و مغرب کے عرفا میں وحدت وجود کے نام سے پھیل چکا ہے اور حتی کہ اپسی نوزا کی مانند ایک فلسفی بھی وحت وجود کے عرفانی مکتب کا پیرو کار بن گیا اور اس نے اپنے فلسفے کو وحدت وجود کی بنیاد پر لکھا اور چھپوا دیا ۔

عرفا کہتے تھے کہ چونکہ خدا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لہذا جو کچھ ہے یعنی جسم اور روح درخت اور حیوانات اور چار عناصر سب خدا ہیں پس انسان بھی خدا ہے لیکن عرفان و تصوف و فلسفے کی تاریخ کے دوران اس نظریہ کا صرف ایک مرتبہ ڈنکا بجا اور وہ بھی ہالینڈ کے اپسی نوزا کی طرف سے سترھویں صدی کے نصف کے دوران میں ۔

اس وقت اپسی نوزا کی کتابوں کو نہیایت تیز ی سے جمع کیا گیا اور کتابیں چھاپنے والوں نے اس کی کتاب چھاپنے سے صاف انکار کر دیا چونکہ انہیں علم تھ اکہ ایسا کرنا ان کیلئے خطرناک ہے ۔

صوفیاء اور عرفان جو وحدت وجود کے قائل تھے نے اس نظریئے کو اصلاحات اور تعبیرات کی گھتی میں اس طرح الجھا دیا کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے کچھ بھینہیں سمجھ سکتا تھا جعفر صادق (علیہ السلام ) کی مذہبی ثقافت میں توسیع کی بعد مشرقی ممالک میں گوناگوں مسائل پر بحث آزاد ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وحدت وجود کے حامیوں کو کھلم کھلا اپنا نظرہ بیان کرنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ ان کے بعض خلفاء اور حکام متعصب تھے اور اس بات کا امکان تھا کہ وہ وحدت وجود کے نظریہ کے حامیوں کو قتل کر دیتے جو کوئی اس نظریئے کا حامی ہوتا اگر وہ قتل نہ بھی کیا جاتا تو مذہبی علما اس پر کفر کا فتوی ضرور لگاتے اورجس پر یہ فتوی لگ جاتا وہ جذام کے مریض سے بھی بد تر سمجھا جاتا اسے آبادی سے باہر نکال کر دور دراز مقام پر پہنچا دیا جاتا ۔

چونکہ جذام کے مریضوں پر رحم کھایا جاتا تھا انہیں زمین اور کھیتی باڑی کا سازو سامان مہیا کیا جاتا تاکہ وہ خود کاشت کریں اور اپنے لئے غلہ پیدا کریں جس پر ایک دفعہ کفر کا فتوی لگ جاتا تو اس پر کسی قسم کا رحمنہ کھایا جاتا اگر وہ کہیں کام کر رہا ہو تا تو اسے وہاں سے نکژال دیا جاتا اور کوئی اس کو کام نہ دیتا اگر وہ سودا گر ہوتا تو نہ اس سے کوئی سودا سلف کریدتا اور نہ اس کو سودا بیچتا اگر وہ صنعتکار ہوتا تو کوئی اس سے کسی چیز کے بنانے کیلئے رجوع نہ کرتا جب وہ اپنے گھر سے باہر آتا تو لوگ اسے تکلیف پہنچاتے اور اس پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا جاتا کہ اس کیلئے گھر سے نکلنا محال ہو جاتا یہاں تک کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر ہجرت بھی نہ کر سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ وحد ت وجود کے نظریے کے پیروکاروں نے اپنے نظریئے کو اصطلاحات اور تعبیرات کے لفافے میں اس طرح بند کیا کہ ان کے سوا کسی دوسرے کوخبر نہ ہوتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور مذہبی علماء ان کے اس کہنے کی بنا پر ان پر کفر کا فتوی نہیں لگا سکتے تھے ۔

صوفیا اور عرفا نے اپنی گفتگو کیلئے میکدہ ‘ ساقی ‘ ‘معشوق ‘ مینا ‘ ساغر اور مئے وغیرہ کی اصطلاحات ایجاد کر لیں اور جب فارسی زبان میں عرفانی شاعری کا رواج ہو ا تو ہ اصطلاحیں جوں کی توں شعر کی زبان میں داخل ہو گئیں اب وہ لوگ جو صوفی اور عارف نہیں تھے جو کچھ عارفوں نے شعروں میں کہا وہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا اس طرح صوفیا اور عرفا کفر کے فتوی سیبچ گئے جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تصوف اور عرفانی سوچ نے تیسری صدی سے زور پکڑا اور اس وقت صوفیا اور عرفا نے یہ خیال کیا کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ عرفان کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹتی ہے وحدت وجود کا عقیدہ ہے اور اپ کا بھی یہی عقیدہ تھا ۔

جب کہ جعفر صاد ق (علیہ السلام ) وحدت وجود کے معتقد نہ تھے اور مخلوق کو خالق سے جداجانتے تھے دین اسلام کے اصول کے مطابق آپ کا عقیدہ تھا کہ کائنات میں جو کچھ ہے خالق کا تخلیق کیا ہوا ہے بعد میں آنے والے زمانوں میں جب علوم کی درجہ بندی اس طرح کی گئی کہ عرفان اور فلسفہ کو علوم سے جدا کیا گیا علماء نے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کو کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹتی ہے کہ عرفانی نظریہ سمجھا ہے نہ کہ علمی لیکن آج علماء پر علوم کے میدان میں یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ جو کچھ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا تھا اس کا تعلق علم سے ہے نہ کہ عرفان سے

ابھی اس بارے میں دو ٹوک الفاظ میں اظہار خیال کرنا قبل از وقت ہے تمام چیزں صرف ایک چیز (جعفر صادق (علیہ السلام ) کے بقول خدا کی طرف پلٹی ہیں ۔

لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہر دفعہ جب الیکٹران سے شعاع نکلتیہے تو وہ شعاع ایک طرف کو جاتی ہے اور جب تک اس کے راستے میں مقناطیسی قوت حائل نہ ہو وہ اطراف میں نہیں پھیلتی البتہ وہ اس صورت میں اطراف میں پھیلتی ہے جب برقی اور مقناطیسی لہر کا جزو شمار ہوں کہ اس صورت میں وہ اطراف میں پھیلتی ہیں یہی لہریں ہیں جن سے ٹیلی فون ‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کام کرتے ہیں ۔

ہم الیکٹرانوں کی ایک ہی سمت میں حرکت کو قطب نما کی سوئی کے ذریعے محسوس کر سکتے ہیں جو ہمیشہ شمال کی جانب رہتی ہے کہا جاتا ہے کہ کرہ زمین میں قطب نما شمالی قطب کے مقناطیسی میدان کی طرف کھنچا رہتا ہے اور اسی بنا پر قطب نما کی سوئی شمال کی جانب رہتی ہے ۔

قطب نما مسلمانوں کی ایجاد ہے اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس ایجاد نے سمندری سفر میں کافی مدد کی ہے اگر قطب نما ایجاد نہ ہوتا تو نہ تو پرتگال کا باشندہ واسکوڈے گاما پندرھویں صدی کی دوسری دھائی میں کشتی کے ذریعے جنوبی افریقہ ‘ ہندوستان پہنچ سکتا تھا اور نہ اٹیلی کا کرسٹوفرکولمبس اپنے زمانے میں کشتی کے ذریعے امریکہ دریافت کر سکتا تھا اور نہ پرتگالی ماجیلان اسپین کے بادشاہ کے خرچ پر کشتی کے ذریعے دنیا کے اطراف میں چکر لگا سکتا تھا اس طرحاس نے نا قابل تردید طور پر ثابت کیا ہے کہ زمین گول ہے جیسا کہ ہم مانتے ہیں کہ آج بھی قطب نما جہازرانی کیلئے انتہائی ضرورت ہے اس کے باوجود کہ ہوائی جہاز کا رابطہ ایئر پورٹ کیساتھ مسلسل قائم رہتا ہے اور کنٹرول ٹاور سے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں کوئی ہوائی جہاز قطب نما سے بے نیا زنہیں ۔

جب خلائی جہاز چاند پر پہنچے تو ان کے قطب نما کی سوئی اس طرح شمال کی جانب مڑی رہی اس پر سائنس دانوں نے گمان کیا کہ قطب نما ابھی تک زمینی مقناطیس کے زیر اثر ہے دوسرے ستاروں کی جانب جانے والے خلائی جہازوں میں قطب نما ابھی تک زمینی مقناطیس کے زیر اثر ہے دوسرے ستاروں کی جانب جانے والے خلائی جاہزوں میں قطب نما کچھ عرصہ کیلئے ناکارہ رہنے کے بعد ستاروں کے شمالی علاقے کی نشاندہی کرتا ہے ( اسے زمین کا شمال نہ سمجھا جائے ) اور اس طرح جیسے ہر جگہ شمال کی جانب رخ کرنے والی ایک مقناطیسی سوئی موجود ہے اور دوسرے سیاروں مثلا مریخ زہرہ اور مشتری کی جانب جانے والے خلافئی جہازوں میں کوئی دوسر چیز سامنے آئے جس سے ابھی تک لوگوں کو اطلاع نہیں ہے ۔ البتہ چونکہ آج اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کی مانند علمی معلومات رکھنے والے ان معلومات کو مفت لوگوں کے حوالے نہیں کرتے اس دور میں بعض علمی معلومات فوجی رازوں کا حصہ ہیں اور جو حکومتیں اپنے خلائی جہازوں یا مصنوعی سیاروں کی مدد سے یہ معلومات حاصل کر لیتی ہیں وہ انہیں ظاہر نہیں کرتیں ۔

ہمیں معلوم ہے کہ دوسرے سیاروں کی جانب سفر کرنے والے خلائی جہاز جن کو سفر میں کئی ماہ لگتے ہیں قطب نما کے بغیر سفر کرتے ہیں ۔

اس کے باوجود کہ چاند زمین سے نزدیک ہے چاند کی طرف سفر کرنے والے اپالو کو قطب نما کی ضرورت پیش نہیں آئی چونکہ قطب نما جب زمین کے مقناطیسی فیلڈ سے دور ہوتا ہے اس میں گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے اور وہ کسی خاص سمت کی نشاندہی نہیں کرتا ۔

بعض اوقات زمین پر بھی برقی فیلڈ کی موجودگی کی وجہ سے قطب نما فضا میں گڑ بڑ کرنے لگتا ہے اور قطب نما کی سوئی ہر لمحے مختلف سمتوں کی نشاندہی کرتی ہے چونکہ آج تمام بہر جہاز فولاد سے بنائے جاتے ہیں لہذا قطب نما کو ان میں اس طرح فٹ کیا جاتا ہے کہ وہ بحری جہاز کی دھات سے کوئی ربطہ نہ رکھتا ہو ورنہ اس میں خلل پڑ سکتا ہے اور یہاں تک کہ بعض اوقات ستر درجے تک غلطی کر جاتا ہے (قطب نما پر لگے ہوئے کل درجے تین سوساٹھ ہیں )۔

اگر کرسٹو فرکولمبس کے امریکہ کی جانب سفر کرنے والے بحری جہاز لکڑی کے بنے ہوئے نہ ہوتے اور لوہے کے بنے ہوتے تو وہ اٹالین کشتی ران ہر گز امریکہ دریافت نہ کر سکتا قطب نما کی غلطی اسے کسی اور سمت میں لے جاتی۔

موجودہ زمانے کے مشہور طبیعات دانوں میں سے ایک پروفیسر ڈاش ہے جو واشنگٹن یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے یہ شخص جو ماہر فلکیات بھی ہے کائنات کے بارے میں ایک ایسا نظریہ رکھتا ہے جس سے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کی تائید ہوتی ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے اس نے خالق کی طرف لوٹنا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ علم نے انیسویں صدی سے لے کرآج تک کائنات کی صورت و حرکت کی وضاحت کرنے پر توجہ دی ہے اور اس ضمن میں تین علماء کی جانب سے متعدد نظریات پیش کئے گئے ہیں لیکن یہ تمام نظریات صرف تھیوری کی حد تک محدود رہے ہیں ۔

علم کائنات میں موجود بعض قوانین مثلا قوت تجاذب کے قانون سورج کے اردگر د سیاروں کے گھومنے کا قانون اور آزاد اجسام کے گرنے کے قانون کی جانب توجہ دی ہے اور یہ تمام قوانین انیسویں صدی عیسوی میں پہلے دریافت ہو چکے تھے ۔

سائنس دانوں نے جو کچھ آج تک کائنات کی شکل و صورت اور حرکات ( محسوس ہونے والی حرکات کے علاوہ ) کے بارے میں کہا ہے اس کا تعلق تھیور ی سے ہے ۔