مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43384
ڈاؤنلوڈ: 4106

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43384 / ڈاؤنلوڈ: 4106
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

آئن سٹائن کا نظریہ نسبیت

آئن سٹائن کے حامی کہتے ہیں کہ کائنات کے بارے میں آئن سٹائن کا نظریہ نسبیت ریاضی کے اوزان کی بنیاد پر ہے لیکن ریاضی کا ایک ورق ایک ترازو کی مانند ہے اور جب ترازو کی درمیانی ڈنڈیایک افقی خط پر رک جاتی ہے تو ہم تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں پلڑوں میں وزن برابر ہے لیکن ترازو کی درمیانی ڈنڈے کا افقی خط پر ٹھہرنا اور ترازو کے دو پلڑوں کا برابر ہونا دو پلڑوں میں رکھی گئی چیزوں کا تعین نہیں کر سکتا اگر ہمیں یہ علم نہ ہو کہ ترازو کے دو پلڑوں میں گندم ہے یا پتھر کا کوئلہ تو ہم ترازو کی درمیانی ڈنڈی کے افقی خط کو دیکھ کر ہرگز اندازہ نہیں لگا سکتے کہ پلڑوں میں کیاہے ؟ ریاضی کے اوزان جیسا کہ کہاگیا ہے کہ صحیح ہیں اور ریاضی بشری علوم میں سے ہے وہ واحد علم ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن ریاضی کے اوزان سے صرف اس بات کا علم ہو سکت اہے کہ فلاں چیز جو ہم نے پلڑے میں رکھی ہے وہ اس قدر ہے البتہ اس کا علم نہیں ہو سکت کہ جو چیز پلڑوں میں موجود ہے وہ کیسی ہے لہذا اس کے باوجود کہ ریاضی کے اوزان کے درست ہونے میں کوی شک و شبہ نہیں پھر بھی یہ بات قابل قبول نہیں کہ آئن سٹائن نے اپنے پلڑوں میں جو کچھ رکھا وہ حقیقت ہے ۔

دوسرا یہ کہ آین سٹائن نے اپنے نیست کی تھیوری میں کائنات کے قطر کو تین زہار ملیکن نوری سال لکھا ہے جب کہ آج کل کی ریڈیو ٹیلی اسکوپس کی اطلاع کے مطابق اجرام فلکی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کا زمینس ے فاصلہ نو ہزار ملین نوری سال ہے ۔

سائنس دانوں نے ستایس اینٹینوں (ریڈیو ‘ ٹیلی سکوپ کے انیٹینوں) پر مشتمل ‘ ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن سکوپ بنائیہے جو تین شاخوں والے انگریزی کے حرف وائی یا فرانسیسی کے ایگرگ پر رکھی گئی ہے ان تین شاخون کا درمیانی فاصلہ اکیس کلو میٹرہو گا ۔

اس ریڈیو ٹیلی سکوپ کے مجموعہ کی کل طاقت ریڈیوٹیلی سکوپ کے دور بین کے یونٹ کے برابر ہے جس کا قطر تیس کلو میٹر ہے جب ریڈیو ٹیلی سکوپ کے مجموعے نے کام شروع کیا تو ممکن ہے ثابت ہو کہ کائنات کی وسعت جو نو ہزار ملین نوری سال نظر آتی ہے اس سے زیادہ ہو ۔

جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ آئن سٹائن کی نیست کی تھیوری کا وہ حصہ جس میں اس نے کہا ہے کہ کائنات کا قطر تین ہزار ملین نوری سال ہے صحیح نہیں ہے ۔

۱۸۱۴ عیسوی میں جب انگریزوں نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن پر حملہ کرکے تباہی پھیلائی اس زمانے میں واشنگتن یونیورسٹی کے طبیعات کے استاد نے ایک نظریہ پیش کیا جو یہ ہے جب سے ریڈیو ٹیلی ویژن سکوپس نے انسانی بینائی کے میدان میں وسعت پیدا کی ہے اور انسان ان کی مدد سے دور دراز کے اجرام کو دیکھنے لگا ہے فلکیات کے ماہرین پر ایک نئی بات آشکار ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کہکشاں کی مانند بعض بڑے اجرام آسمانی تیزی سے حیرت انگیز حرکت کر رہے ہیں اور ایک نقطے کی سمت جا رہے ہیں اور ان کی تیز رفتاری کا حساب لگانے کے بعد پتہ چلا ہے کہ بعض کہکشائیں اس قدر تیزی سے حرکت کر رہی ہیں کہ ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے ۹۵ فی صد ہے ۔

یہ اجرام فلکی جو خلا میں جہاں کہیں حرکت کر رہے ہیں ان کی حرکت کا رخ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں اور چونکہ ایسا ہے لہذا ضرور اس مرکز تک پہنچتے ہوں گے اور ان کے درمیان ٹکراؤ بھی وقوع پذیر ہوتا ہو گا۔

اس بات کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کہ ان بڑے اجرام کے تصادم سے جو ایک مرکز میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوں گے کس قدر توانائی وجود میں آتی ہے اور دنیا میں اس توانائی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں کیا کچھ دوسرے قوانین کے ساتھ کوئی اور جہان وجود میں آتا ہے یا یہ کہ شعاعوں کا ایک گرداب پیدا ہوتا ہے اور دنیا کے آخر تک ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔

پروفیسر ڈاش ‘ جس نے اس نظریئے کا ذکر کیاہے یہ بات نہیں بتا سکا کہ اجرام فلکی جو دنیا کے ارد گرد نہایت تیزی سے ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں وہ اس مرکز تک کب پہنچیں گے ۔

اجرام فلکی کی گردش کرنے کے راستے کی قوسیں اس قدر وسیع ہیں کہ پروفیسر ڈاش ابھی تک کمپیوٹر کی مدد سے قوسوں کے راستے کو نہیں سمجھ سکا کہ وہا س بات کا تعین کر سکے کہ قوسیں آپس میں کہاں ملتی ہیں اور وہ مرکز ‘ جہاں اجرام فلکی آپس میں ملتے ہیں کس جگہ واقع ہے ؟

کہا جاتا ہے کہ اس نظریئے سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اجرام فلکی کی گردش کا خط اس لئے محننی ہے کہ اجرام فلکی کی روشنی طاقتور قوت تجاذب کے مراکز میں جذب ہو جاتی ہے اگر اس طرح ہے تو اجرام فلکی جو حیرت انگیز رفتار سے حرکت کر رہے ہیں ان کے قریب طاقتور قوت تجاذب کے مراکز واقع ہونے چاہیں جو ان کی روشنی کو ٹیڑھا کریں اس صورت میں وہ مادہ مراکز ہیں ورنہ اس قدر طاقتور قوت تجاذب نہ رکھتے ۔

اس تھیوری پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ کہکشائیں جومادہ ہیں اس قدر تیز رفتاری سے حرکت نہیں کر سکتیں ۔

ڈاش کہتا ہے اجرام فلکی جو اس قدر تیزی سے حرکت کر رہے ہیں ان کا تعلق چوتھی "پلازما " سے ہے ایک زمانے سے علم نے مادے کی چوتھی قسم ( جو ٹھوس مائع اور گیس کے علاوہ ہے ) کو تسلیم کر لیا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ ممکن ہے مادہ ایک ایسی صورت اختیار کرے جو نہ ٹھوس ہو نہ مائع اور نہ گیس ۔

بہر کیف طبیعات دانوں کے بقول پلازما بھی روشنی کے ۹۵ فی صد کے برابر حرکت نہیں کر سکتا وگرنہ وہ اپنی ماہیت کھو بیٹھے گا اور شعاع میں تبدیل ہو جائے گا لیکن پروفیسر ڈاش اس بات پر ہے کہکشاؤں کے اجرام جو اس قدر تیز سے ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں وہ پلازما ہیں اور اس کے بقول اگر کہکشاؤں میں پلازما کیوجود کو تسلیم نہ کریں تو بھی ان کیتیز رفتاری میں کوئی شک نہیں چونکہ کہکشاؤں کے اجرام کے متعلق نظریہ اگر ایک فرضی نظریہ ہو تو بھی ان کی تیز رفتاری کے بارے میں نظریہ فرضی نہیں بلکہ کمپیوٹر کے ذریعے اسکی پیمائش کی گئی ہے جس کے مطابق ان اجرام کی رفتار ۲۸۵ ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ ہے بہر حال اس کے نظریئے کے مطابق دور دراز کے واقع تمام اجرام فلکی نہایت تیزی سے ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں اور اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جس کہکشاں میں ہمارا سورج واقع ہے وہ اور دوسری کہکشائیں بھی نہایت سست رفتاری سے اسی مرکز کی طرف رواں دواں ہیں اگر اس نظریئے کی تائید کی جائے تو علمی نظریئے اورجعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے میں سواے الفاظ کے ہیر پھر کے کوئی فرق نہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا تمام چیزیں خدا کی طرف ہی پلٹی ہیں اور ڈاش کے بقول تمام چیزیں ایک مرکز کی طرف پلٹی ہیں واشنگٹن یونیورسٹی کے فزکس کا استاد جس کے بارے میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ ماہر فلکیات بھی ہے اس کا نظریہ یورپ کے لوودن یونیورسٹی کے استاد ایسے لمڑ کے نظریئے کے بالکل الٹ ہے جس کا نظریہ دنیا کی وسعت کے بارے میں گذشتہ صفحات میں قارئین کی نظر سے گزر چکا ہے اس کا عقیدہ ہے کہ دنیا وسیع ہو رہی ہے اور کہکشائیں کناروں کی جانب بڑھ رہی ہیں لیکن ایبے لمڑ کے زمانے میں کہکشاؤں کو ریڈیو ٹیلیسکوپ کے ذریعے مشاہدہ نہیں کر سکا تھا اور جو حساب کتاب آج کمپیوٹرکی مدد سے ہو رہا ہے اس زمانے میں اس کی کوی مثال نہ تھی صرف یہ ہوتا تھا کہ ریاضی دانوں کے ایک بڑی گروہ کو ستاروں کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے کام پر لگا دیا جاتا تھا تاکہ آج کل خلائی جہازوں کی دوسرے سیاروں کی طرفپرواز میں پیش آنے والے مسائل کا حل نکالیں دوسرا یہ کہ تھوڑے تھوڑے فاصلوں سے ایک کہکشاں کی حرکت کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ وہ مرکز سے پرے ہٹ رہی ہے یا مرکز کی طرف بڑ رہی ہے اور شاید ریکھنے والے کو یہ دکھائی دے کہ کہکشاں مرکز سے فرار کر رہی ہے حالانکہ کہکشاں مرکز کی جانب گامزن ہے اس کے باوجود کہ آج فلکیات کا حساب و کتاب در حقیقت ایبے لمڑ کے زمانے کی نسبت زیادہ صحیح اور ترقی یافتہ ہے پھر بھی ہم پروفیسر ڈاش کے نظریئے کو مد نظر رکھنے کے بعد ابھی ایبے لمڑ کے نظریئے کو مسترد نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ابھی تک اس حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکے کہ یہ کہیں کہ ایبے لمڑ کی رائے اور جو کچھ پروفیسر ڈاش کہتا ہے وہ محض تھیوری ہے اور اس کے دو پوانٹس کمزور ہیں پہلا یہ کہ مادہ روشنی کی حرکت کی رفتار کے ۹۵ فی صد کے برابر حرکت نہیں کر سکتا لہذا ماہرین طبیعات کے بقول پلازمابھی نہیں ہیں دوسرا یہ کہ پروفیسر یہ نہیں بتا سکا کہ وہ مرکز جس کی جانب تمام کہکشائیں جارہی ہیں وہ کونسا ہے ؟ اور کہاں واقع ہے ؟ اگر قوت جاذب کا قانون جو ہمارے نظام شمسی میں حکم فرما ہے نظام شمسی سے باہر بھی لاگو ہو تو ظاہر ہے کہ جس مرکز کے گرد کائنات کی تمام کہکشائیں گھوم رہی ہیں وہ ایک مادی مرکز ہے جس کی قوت تجاذب تمام کہکشاؤں کو انہی طرف کھینچ رہی ہے اور ابھی تک ایسا مادی جسم جس کی قوت تجاذبت اس قدر زیادہ ہو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا جس کی جانب تمام کہکشائیں رواں دوں ہوں اور اس نظرہ کا حامل بھی ایسے مرکز کی ہی با حوصلہاستادوں میں سے ایک تھے آپ درس کے پڑھانے کے بعد اپنے علمی مخالفین کیا عترضات کا جواب بھی دیتے تھے کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آپ علمی مخالفین کے جواب دینے میں اس قدر مشغول ہو جاتے کہ کھانا کھانے کیلئے گھر بھی نہ جا سکتے تھے اور ایک آدمی کو بازار بھیجتے تاکہ وہ بازار سے ایک روٹے لے ائے اور یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ چھوٹی سی روٹی کو آپ نے مکمل طور پر کھایا ہو چند لقمے کھانے کے بعد باقی روٹی بچ جاتی تھی ا ور جن دنوں میں کھانے کیلئے گھر نہیں جاتے تھے تو اس سوکھی روٹے پر گزارا کر لیتے تھے آپ نے علمی مخالفین سے درخواست کر رکھی تھی کہ جب تک درس ختم نہ کر لیں اس وقت تک کوئی اعتراض نہ کریں اور جب درس ختم ہو جائے تو جو جی میں آئے پوچھیں جعفر صادق (علیہ السلام ) درس ختم کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کو چھٹی دے دیتے تھے معمول کے مطابق ایسا ہوتا تھا کہ آپ درس ختم کرنے کے بعد نماز ظہر پڑھتے تھے اور گھر چلے جاتے تھے آپ کے بعض شاگردوں کو جنہیں یہ علم ہوتا کہ ہمارے استاد آج اپنے علمی مخالفین کے سوالوں کے جوابات مرحمت فرمائیں گے وہ اس دن کھانا کھانے کے بعد گھر سے واپس آ جاتے تاکہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اپنے علمی مخالفن کی بحث مباحثے کے موقع پر موجود رہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) کے علمی مخالفین میں سے ایک ابو شاکر نامی بھی تھا وہ شخص ایک دن جب جعفر صادق (علیہ السلام ) نماز سے فارغ ہو چکے تو آپ کے پا س آیا اور بیٹھ کر کہنے لگا کیا مجھے اجازت ہے کہ جو کچھ میں چاہوں اس کے بارے میں اظہار خیال کروں جعفر صادق (علیہ السلام )نے جواب دیا جو چاہتے ہو کہو ابو شاکر نے کہا اپنے شاگردوں اور سامعین کو افسانے کے ذریعے کیوں فریب دیتے ہیں ؟ آپ جو کچھ خدا کے بارے میں کہتے ہیں وہ افسانے سے زیادہ کچھ نہیں اور آپ لوگوں کو اضافہ سرائی کے ذریعے ایسی چیز کو قبول کرنے پر مائل کرتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں اور خدا کی عدم موجودگی کی دلیل یہ ہے کہ ہم اپنے حواس خمسہ کے ذریعے اسے درک نہیں کر سکتے جیسے آپ کہتے ہیں کہ انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے خدا کو درک نہیں کر سکتا لیکن ممکن ہے کہ انسان اپنے باطنی حواس کے ذریعے خداوند تعالی کی معرفت حاصل کر سکے مگر باطنی حواس سے کام لینے کیلئے ظاہری حواس سے استفادہ کیا جاتا ہے اگر آپ اپنے ذہن میں کسی چیز کا تصور لاتے ہیں تو موجودگی میں اسے اپنے ذہن میں مجسم کرتے ہیں تو اگر آپ کی بینائی کی حس نہ ہو اس کو آپ کا دیکھنا محال ہے اور اگر آپ کی ننے کی حس نہ ہو تو باطن میں آپ اس کی آواز بھی نہیں سن سکتے اور جب آپ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو اپنی لمس کرنے کی حسن کو کام میں التے ہیں ورنہ آپ ہر گز باطن میں اس کے ہاتھ کو مس نہیں کر سکتے پس آپ کے تمام باطنی ‘ احساسات آپ کے پانچ ظاہری حواس سے وابستہ ہیں اور اگر آپ کے ظاہری حواس مفتو د ہوں تو آپ ہر گز اپنی کسی باطنی حس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے لہذا اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ اپنے باطنی احساسات کے ذریعے خدا کو درک کرتے ہیں تو میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ممکن ہے آپ کہیں کہ نہ تو آپ خدا کو اپنے باطنی حواس کے ذریعے درک کرتے ہیں اور نہ ہی عقل بھی کسی ظاہری حس کے بغیر کسی چیز کو سمجھنے پر قادر نہیں ہے اور جس چیز کو سمجھنا چاہیے وہ پانچ ظاہری حواس کے ذریعے سمجھی جاتی ہے اگر آپ عقل کی مدد سے ظاہری حواس کو کام میں لائے بغیر کوئی دلیل لائیں اور نتیجہ نکالیں کہ حواس خمسہ میں سے کسی ایک حسن نے بھیا س دلیل یا نتیجے میں مدد نہ کی ہو تو میں تسلیم کر لوں گا کہ پ عقل کے ذریعے خداوند تعالی کے وجود تک پہنچ سکتے ہیں جس خدا کی عبادت کیلئے اپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ آپ کے اپنے تخیل کی اختراع ہی آپ نے اپنے تخیل میں ایسے ایسے وجود کو تصور کر لیا ہے اور متشکل کیا ہے اور جس طرح آپ بات کرتے ہیں غذا کھاتے ہیں اور سوتے ہیں اس طرح آپ کا خیال ہے کہ وہ بھی بات کرتا ہے غزا کھاتا اور سوتا ہے آپ اپنے اثر و رسوخ کو لوگوں میں قائم رکھنے کیلئے اسے کسی کو نہیں دکھاتے اور کہتے ہیں کہ وہ دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی دیکھا جا سکے گا اور نہ ہی اس نے کبھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے آپ کا خدا ہندؤں کے اس پردہ نشین بت کی مانند ہے جس پر ہندوؤں نے پردہ ڈالا ہو اہے اور کسی نے اس بت کو نہیں دیکھا ۔

مندر کے متولیوں کا کہنا ہے کہ یہ بت اپنے آپ کو ہر گز انسانوں کو نہیں دکھاتا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ وہ اسے دیکھیں گے تو مر جائیں گے اور متولیوں کے بقول یہ بت از راہ مہربانی اپنے آپ کو کسی کو نہیں دکھاتا اس طرح آپ کا خدا بھی لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتا ہو گا کہ لوگ اس کے دیکھنے سے مر نہ جائیں اور آپ کہتے ہیں کہ اس کائنات کو خدا نے خلق کیا ہے وہ بھی ایسا خدا جس کی نہ تو آواز سنی جا سکتی ہے نہ اہی اسے دیکھا جا سکتا ہے اور صرف ایک آدمی اس کی آواز کو سنتا ہے وہ پیغمبر ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ کائناتکو کسی نے خلق نہیں کیا اور یہ خود بخود وجود میں آئی ہے کیا صحرا کی گھاس کو کوئی پیدا کرتا ہے یا یہ کہ گھاس صحرا میں خود بخود اگتی ہے کیا چیونٹی اور پسو کو کوی خلق کرتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ مخلوقات خود بخود وجود میں آتی ہیں اے وہ شخص جو عالم ہونے کا دعوی کر رہاہے اور کہت اہے کہ تو مسلمانوں کے پیغمبر کا جانشین ہے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ جتنے افسانے لوگوں کے من گھڑت ہیں ان میں سے سب سے گھسا پٹا اور خیالی افسانہ ایک ان دیکھے خدا کی موجودگی کا ہے اگر دوسرے افسانے من گھڑت ہیں تو ان افسانوں میں انسانی زندگی کی شبیہہ ہوتی ہے اور جو کردار ان انسانوں میں ہوتے ہیں اگرچہ ان کا وجود نہیں ہوتا لیکن ان کے اعمال انسانوں کے اعمال کی مانند ہوتے ہیں انسان جو دکھائی دیتے باتیں کرتے ‘ غذا کھاتے ‘ عشق لڑاتے اور سوتے ہیں انسان جس وقت ایک خیالی افسانے کو سنتا ہے تو اگرچہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ افسانہ بے بنیاد ہے لین اسے سنتے ہوئے لذت اٹھاتا ہے کیونکہ وہ افسانے میں اپنے آپ یا اپنی طرح کے مردوں اور عورتوں کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اگرچہ وہ مرد اور عورتیں موجود نہیں لیکن ان کی طرح کے لوگ موجود ہیں جو کوئی کسی افسنے کو سنتا ہے اس پر اسے یقین نہیں آتا لیکن اس کی عقل اسے کہتی ہے کہ ان عورتوں اور مردوں کا وجود جن کا نما افسانے میں لیا گیا ہے ممکن ہے وہ موجود ہوں لیکن انسانی عقل جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ پانچ ظاہری حواس سے وابستہ ہے وہ ایسے خدا کو جس کے بارے میں آپ بات کرتے ہیں تسلیم نہیں کرتی چونکہ عقل کسی ایسے وجود کو تسلیم نہیں کر سکتی جو نہ تو دیکھا جا سکے اور نہ اس کی آواز سنائی دے نہ اسے سونگھا جا سکے اور نہ اسے لمس کیا جا سکے اور نہ اسے چکھا جا سکے پیغمبر جو آپ سے پہلے گذر چکے ہیں اور ان کے بعد آپ نے لوگوں کو ایک لا موجود خدا کے بارے میں فریب دیا ہے جس کا وجود اپ کی ذہنی اختراع ہے اور آپ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے لیکن کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا آخر ایک ایسا خدا جس کا جسم نہیں ہے کہ اس کی آں کھیں ہوں تاکہ لوگوں کو دیکھے اس کی زبان ہوتا کہ وہ کلام کرے اور وہ جو جسمانی وجود نہیں رکھتا کیسے کسی چیز کو تخلیق کر سکتا ہے ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ سے فریب کھاتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ خدا موجود ہے جو دیکھ نہیں جا سکتا ہیلیکن میں آپ کے فریب میں نہیں آتا اور ایسے افسانے کو جو ایسے خدا کے بارے میں جو دکھائی نہیں دیتا اسے قبول نہیں کرتا میں ایک ایسے خدا کی عبدات کروں گاجس میں اپنی دو آنکھوں سے دیکھ سکوں اور دو کانوں سے سن سکوں اور اگر اس کی آواز نہ ہو تو اسے اپنے دو ہاتھوں سے چھو سکوں ۔

میں ایک ایسے خدا کی جو لکڑی یا پتھر کا بنا ہوا ہو اس کی عبادت کروں گا کیونکہ اس کو میں دیکھ سکتا ہوں اور اپنے دونوں ہاتھوں میں لمس کر سکتا ہوں آپ کہتے ہیں کہ چونکہ خود میں نے لکڑی سے خدا کو تراشا ہے اور اسے وجود میں لانے والا میں ہوں لہذا زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی پوجا کروں کیا یہ نہ دکھائی دینے والے خدا آپ جس کی عبادت کیلئے لوگوں کو وصیت کرتے ہیں آپ کی اپنی طرف سے اور اپ کے تخیل کی پیدوار کی بدولت وجود میں نہیں آیا ہے میں اور آپ دونوں اپنے خداؤں کو وجود مین لائے ہوئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ میرا خدا دیکھا ئی دیت اہے اور اسے لمس کیا جا سکتا ہے جب کہ آپ کا خدا نہ تو دکھای دیتا ہیا ور نہ ہی اسکو لمس کیا جا سکتا ہے چونکہ میں افسانے کی پیروی نہیں کرتا لہذا جب سے میں نے اپنے خدا تیار کیا ہے اس وقت سے میں نے اس کی پوجا شروع کر دی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے اس کائنات کو اور مجھے بنایا ہے لیکن آپ چونکہ ایک موہوم خدا کو وجود میں لائے ہیں اور اس کائنات اور بنی نوع انسان وجود میں نہ آتے جو کچھ ہے وہ خدا کی طرف سے وجودمیں آیا ہے میں چونکہ افسانے کا قائل نہیں ہوں لہذا میں نہیں کہت اکہ جس خدا کو میں نے خود بنایا ہے اس نے کائنات اور بنی نوع انسان کو تخلیق کیا ہے لیکن چونکہ آپ افسانے کے معتقد ہیں لہذا آپ نے اپنے خدا کو بنانے کے بعد یہ کہہ دیا ہے کہ اس نے کئانات اور بنی نوعی انسان کو تخلیق کیا ہے آپ اس افسانے کے ذریعے کیوں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں لوگوں کو حقیقت نہیں پوچھنے دیتے اس بات ک کی کوئی ضرورت نہیں کہ کئانات اور بنی نوعی انسان خدا کے تخلیق کیئے ہوئے ہیں کائنات اور بنی نوعی انسان خود بخود وجود میں آئے ہیں اور یہ ہم ہیں جو اپنے خد کو وجود میں التے ہیں خالق ہم ہیں نہ خدا میں اپنے خدا کو اپنے ہاتھوں سے تراشتا ہوں اور وجود میں لاتا ہوں جبکہ آپ اپنے خدا کو اپنے وہم و گمان کے ذریعے وجود میں لاتے ہیں اس دوران جبکہ ابو شاکر یہ گفتگو کر رہا تھا ایک بار بھی جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اس کی قطع کلامی نہیں کی جو شاگرد اس مجلس میں بیٹھے تھے انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اشارے سے انہیں منع کر دیا جب ابو شاکر کی بات ختم ہو چکی تو اس کے بعد جعفر صادق (علیہ السلام ) نے بات کرنے کیلئے چند سیکنڈوں تک ہونٹ نہیں ہلائے وہ اس بات کے منتظر تھے کہ ابو شاکر بات کرے اس کے بعد آپ نے ابو شاکر سے پوچھا کہ کیا اس کی گفتگو ختم ہو چکی ہے اور تو کچھ نہیں کہنا چاہتا ابو شاکر نے کہا کہ میری آخری بات یہ ہے کہ آ پ نے ان دیکھے خدا کو لوگوں سے اس لیے متعارف کرایا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے اثرو رسوخ پیدا کریں اور دولت مند بنیں اور آپ کی زندگی خوشحال گذرے بس یہ میری آخری بات تھی اس کے بعد میں کچھ نہیں کہتا جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تمہاری گفتگو ختم ہو چکی ہے لہذا میں تمہیں جواب دیتا ہوں اور اس جواب کو تمہاری گفتگو کے آخری حصے سے شروع کرتا ہوں تم نے کہا ہے کہ میں اس لئے لوگوں کو خدا پرستی کی طرف دعوت کرتا ہوں تاکہ انہیں فریب دے کر اثرو رسوخ پیدا کروں اور زندگی کو آرام سے گزاروں اگر میری حالت خلیفہ جیسی ہوتی تو تیری یہ تہمت شاید مناسب نظر آتی۔ لیکن تم نے آج یہاں پر میری روزمرہ کی غذا دیکھی ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ میں کتنے لقمے سوکھی روٹی کھاتا ہوں اور تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ آج رات میرے گھر آؤ اور مشاہدہ کرو کہ میری شام کی غذا کیا ہے اور میرے گھر میں کس قدر سامان ہے ؟ اے ابو شاکر اگر میں دولت جمع کرنے والا ہوتا اور تمہارے بقول زندگی کو آرام سے گزارتا تو ضروری نہ تھا کہ میں خدا پرستی کی تبلیغ کے ذریعے دولت کے حصول کی تگ و دو کرتا اور آرام سے زندگی گزارتا میں کیمیا دانی کے ذریعے دولت مند بن سکتا تھا اور اگر اس ذری ۳ عے دولت حاصل نہ کرنا چاہتو تجارت کیذریعے دولت حاصل کر سکتا تھا کیونکہ دوسرے ممالک کے بارے میں میری معلومات تاجروں سے زیادہ ہیں اور میں جانتا ہوں کہ کون سے ملک میں کس قسم کا سامان تیار ہوتا ہے اور کون سی اقسام کا سامنا دوسرے ممالک لے کے جانا فائدہ مند ہے اس شہر کے تاجروں سے پوچھو کہ اصفہان ترکی اور کیلیکی میں کون سا سامان تیار ہوتا ہے جس کا خریدنا انکے لئے سود مند ہے میرا خیال ہے وہ تمہیں جواب نہیں دے سکتے کیونکہ یہاں کے تاجر صرف شام ‘ مصر ‘ الجزائر اور بین النہرین میں تیار کئے جانے والے سامان سے واقف ہیں اور دوسرے ممالک کے سامان ‘ جسے جزیرہ العرب میں لانا فائدہ مند ہے اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے لیکن میں جانتا ہوں کہ غیر ممالک میں کون سا سامان موجود ہے جسے لاکر فروخت کیا جائے تو خاطرہ خواہ منافع ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس سامان کو کس راستے سے لایا جائے کہ سامان لانے کا خرچہ کم سے کم آئے ۔

اے ابو شاکر تو نے کہا ہے کہ میں خدا پرستی کی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو فریب دیکر مال و دولت حاصل کرنا چاہتا ہوں تیرے جواب میں میں کہتا ہوں کہ جب سے میں نے لوگوں کو خدا پرستی کی تبلیغ شروع کی ہے اس دن سے لے کر آج تک میں نے کسی سے چھوٹے چھوٹے تحفوں کے سوا وہ بھی پھل وغیرہ کے علاوہ کوئی چیز حاصل نہیں کی ۔ جیسا خزاں کے موسم میں کھجوریں پکتی ہیں تو میرا ایک دوست اپنے باغ سے کھجوریں چن کر اور ایک کریٹ میں ڈال کر اپنے نو کر کے ذریعے مجھے بھیجتا ہے اور میں یہ تحفہ اس لئے قبول کرتا ہوں کہ میرا دوست خفا نہ ہو ۔ میرا ایک اور دوست جس کا طائف میں اناروں کا باغ ہے جس موسوم خزاں میں انار پکتے ہیں تو ان میں سیکچھ وہ کریٹ میں ڈال کر مدینے آنے والے کارواں کے ذریعے میرے لیے بھیجتا ہے اور میں ان اناروں کو صرف اس لئے قبول کرتا ہوں کہ میرا دوست مجھ سے خفا نہ ہو اور اے ابو شاکر تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ کوئی شخص ایک عرصے تک اس لیے لوگوں کو تبلیغ نہیں کرتا کہ اس کے بدلے میں اسے سال میں ایک دفعہ انار کے چند دانے اور کچھ کھجوریں حاصل ہوں ۔ اے ابو شاکر میں نے سنا ہے تیرا باپ موتیوں کو پہچانتا تھا ۔ اگر تو موتی شناس ہے تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں ہر قسم کے ہیرے اور جواہر کی شناخت رکھتا ہوں کوی ایسا موتی نہیں ہے جسے میں نہیں پہچانتا اوراس کی قیمت نہیں لگا سکتا اگر میں مال و دولت جمع کرنے کا خواہش مند ہوتا تو ضروری نہیں تھا کہ لوگوں کو خدا پرست کے راستے کی طرف دعوت دینے کے ذریعے ہی مال و دولت اکھٹی کرتا ۔ بلکہ میں جواہر کا کاروبار کرکیبھی امیر بن سکتا تھا ۔ اس بات کے پیش نظر کہ تمہارا باپ موتیوں کا تاجر تھا کیا تم جانتے ہو کہ یاقوت کتنی قسم کے ہیں ؟ ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا ۔ حضرت جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ الماس کتنی قسم کے ہیں ؟ اور کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ الماس کے کتنے رنگ ہوتے ہیں ؟ ابو شاکر نے جواب دیا کہ مجھے الماس کی قسموں کیبارے میں کوئی علم نہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا میں الماس کی انواع و اقسام سے واقف ہو اور ہر قسم کی قیمت بھی مجھے معلوم ہے حالانکہ میں نے جواہر کی تجارت نہیں کی اور جواہر کی اقسام کے بارے میں میری معلومات میرے علم کی رو سے ہیں اور موت بیچنے والے مختلف اقسام کے موتی بیچتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ موتی کہاں سیآئے ہیں ؟ کیا تو جانتا ہے کہ الماس کی چمک کس وجہ سے ہے ؟ ابو شاکر بولا نہ میں الماس کا تاجر تھا اور نہ میرا باپ کہ مجھے الماس کی چمک کے باریمیں علم ہو ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا ہیرے کی چمک اس کی تراش خراش کی وجہ سے ہے اور تجھے معلوم ہے کہ ہیرا کیسے حاصل کیا جاتا ہے ؟ ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کاہ ہیرا دریاؤں اور ندیوں کی تہوں سے حاصل ہوتا ہے اور جب اسے حاصل کرتے ہیں توتراشنے کیلئے ماہرین کے حوالے کر دیتے ہیں جب وہ تراشنیکے بعد تیار ہو جاتا ہے تو اس میں چمک پیدا ہو جاتی ہے اور ہیرا تراشنے والے ماہرین بچپن سیباپ یا بھائی یا اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کے زیر سایہ تربیت حاصل کرتے ہیں اور ہیرا تراشنے کے رازوں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں ہیرے کا تراشنا ایک دقت طلب اور دشوار کام ہے اور اسے ہیریکے علاوہ کسی دوسری چیز سے نہیں تراشا جا سکتا یہ باتیں میں نے تمہیں اس لیے بتائی ہیں کہ اگر میں دولت مند بننا چاہتا تو جواہر کا تاجر بن جاتا اور چونکہ مجھے علم کے ذریعے جواہر کی شناخت ہے لہذا نہایت ہی قلیل عرصے میں جواہر فروشی کے ذریعے دولت مند بن جاتا اب میں تمہارے اعتراض کے دوسرے حصے کیطرف آتا ہوں جو تمہارا اصلی اعتراض ہے تو نے کہا ہے کہ میں افسانے سرائی کرتا ہوں اور لوگوں کو ایسے خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہوں جو دکھائی نہیں دیتا ۔ اے ابو شاکر تو جو ان دیکھے خدا کا منکر ہے کیا اپنے اندر دیکھ سکتا ہے ؟ ابو شاکر نے کہا نہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا کہ جب تو اپنے اندر نہیں دیکھ سکتا تو تجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ ان دیکھے خدا کی موجودگی ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں البتہ اگر تو اپنے اندر دیکھ سکتا تو پھر تو ان دیکھے خدا کے وجود کو ایک افسانہ قرار دے سکتا تھا ابو شاکر بولا اپنے اندر دیکھنے کا ایک ایسے غیر موجود خدا کی عبادت سے کیا تعلق ہے ؟جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کاہ تو کہتا ہے جو چیز دکھائی نہ دے اور اس کی آوز سنی نہ جا سکے اور اسے چھوا نہ جا سکے یا اسے سونگھا یا چکھا نہ جا سکے تو ایسا وجود عبادت کے لائق نہیں ۔ ابو شاکر نے کہا اسی طرح ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا کیا تو اپنے جس میں کون کی حرکت کی آواز سنتا ہے ؟ ابو شاکر بولا میں اس کی آواز نہیں سنتا کیا جس میں خون حرکت کر رہا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہاں اور کای تو اپنے جس میں کون کی بو سونگھ سکتا ہے ؟

ابو شاکر نے کہا نہیں ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا اے ابو شاکر خون تمہارے سارے جسم میں چند منٹوں میں ایک مرتبہ گردش مکمل کر لیتا ہے اور اگر خون کی یہ حرکت جسم میں چند منٹوں کیلئے رک جائے تو تو مر جائے گا اور کیا آج تک تم نے اپنے جسم میں خون کی گردش دیکھی ہے ؟ ابو شاکر نے کہا نہیں اور میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا کہ خون جسم میں متحرک ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جو چیز تجھے اس بات کو قبول کرنے میں مانع ہے کہ خون انسانی نسوں میں حرکت کر رہا ہے وہ تمہاری جہالت ہے اور یہی جہالت ان دیکھے واحد خدا کو تسلیم میں بھی مانع ہے کیا تو اس مخلوقات سے مطلع ہیجو خدا وند تعالی نے تمہارے جسم میں تخلیق کرکے کام پر لگا دی ہے جس کی وجہ سے تم زندہ ہو؟

ابو شاکر بولا نہیں ‘جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا چونکہ تم اپنے مشاہدات پر تکیہ کرتے ہو اور جو کچھ تمہیں نظر نہیں آتا اسکے بارے میں کہتے ہو کہ اس کا وجود نہیں ہے حالانکہ تم اسے دیکھ نہیں پائے اگر تم اپنے جہالت کو کم کرنے کیلئے علم کی جستجو کرتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ تمہارے جسم میں اس قدر زندہ مخلوقات ہیں جن کی تعداد بیابان کی ریت کے ذرات جتنیہے اور وہ تمہارے جسمانی ڈھانچے کے اندر وجود میں آتے اور بڑھتے رہتے ہیں اور ان سے مزید تولید ہوئی ہے اور ایک عرصے کے بعد وہ ختم ہو جاتے ہیں لیکن تم نہ ان کو دیکھ سکتے ہو اور نہ ان کی آواز سن سکتے ہو اور نہ ہی انہیں چھو سکتے ہو اور نہ ان کی بو سونگھ سکتے ہو اور نہ ہی تمہیں اس بات کا علم ہے کہ ان کا ذائقہ کیسا ہے اے ابو شاکر جان لو تمہارے اندر موجود جاندار جو تمہارے ڈھانچے کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں ان کی تعداد اس دنیا کے تمام انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے بلکہ بیابان کی ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ہے یہ وجود میں آتے ‘ پھلتے پھولتے اور مر جاتے ہیں تاکہ تم زندہ رہو اور اگر یہ جاندار مخلوق جسے خدا نے تمہارے اندر کام پر لگا رکھا ہے اپنا کام چھوڑ دیں تو تم مر جاؤ گے ۔ لیکن چونکہ تم جاہل ہو لہذا ان کے وجود کا انکار کرتے ہو اور کہتے ہو چونکہ میں انہیں نہیں دیکھتا اور ان کی آواز نہیں سن سکتا لہذا میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ موجود ہیں تمہارا خیال ہے کہ جو چیز تمہیں اپنے ڈھانچے کے اندر موجود اس جاندار مخلوق کا انکار کرنے پر اکساتی ہے وہ تمہاری عقل و فہم و فراست کی قوت ہے جبکہ در حقیقت وہ بے عقلی اور نا سمجھی ہے یہ تمہاری جہالت اور نا فہمی ہے جو تمہیں اپنے جسم میں خون کی حرکت اور تمہارے ڈھانچے کے اندر موجود جانداروں کے انکار پر مائل کرتی ہے اور افسوس کیبات ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جنکی آں کھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں اور جنکے کان تو ہیں لیکن سنتے نہیں اور اپنی جہالت کو علم اور بے عقلی کو عقل خیال کرتے ہیں ۔

یہ کیوں کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ پو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔

اے ابو شاکر اگر تو اپنی آپ کو پہچان لیتا اور جان جاتا کہ تمہارے جسم کے اندر کیا وقوع پذیر ہو رہا ہے اور تمہارے وجود کے اندر کس قدر جاندار مخلوق پیدا ہوتی ‘ بڑھتی اور مر جاتی ہیں تاکہ تم زندہ رہو ‘ تم ہر گز یہ نہ کہتے کہ چونکہ میں خدا کو نہیں دیکھ رہا اسکی آواز نہیں سن رہا اور نہ ہی اسے لمس کر رہا ہوں لہذا میں اسکے وجود کو قبول نہیں کرتا اور خدائے واحد اور ان دیکھے کو افسانہ سمجھتا ہوں ۔

اے ابو شاکر تو اس پتھر کو دیکھ رہا ہے جو اس ایوان کے ستون میں جڑا ہوا ہے تمہارا خیال ہے کہ یہ پتھر ساکن ہے چونکہ تمہاری آنکھ اسکی حرکت کو نہیں دیکھ رہی ‘ اور اگر تمہیں کوئی کہے کہ اپنے اندر سے اس قدر متحرک ہے کہ ہم جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ہم اسکی نسبت ساکن ہیں تو تو اسکے کہے کو تسلیم نہیں کرو گے اور کہو گے کہ وہ افسانہ سرائی کر رہا ہے اور اس طرح تم اپنے آپ کو عقل مند شمار کرتے ہو کیونکہ افسایکو تسلیم نہیں کرتے اور اس بات سے غافل ہو کہ تم اپنی نادانی کی وجہ سے اس پتھر کی اندرون حرکت کو نہیں سمجھ سکتے اور شاید وہ دن آیے جب لوگ اپنی عقلمندی کی وجہ سے پتھر کے اندر موجود حرکت کو دیکھ سکیں ۔

ابو شاکر تم نے کہا ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں وجود میں آتا ہے خودبخود وجود میں آتا ہی اور اس کا خالق کوئی نہیں تمہارا کہنا ہے کہ گھاس صحرا میں خود بخود سبز ہوتی ہے اور کوئی اسے نہیں اگاتا ۔ لیکن تم نے یہ خیال نہیں کیا کہ جب تک صحرا میں گھاس کا بیج نہ ہو گھاس نہیں اگتی اور جب گھاس کا بیج زمین پر گرے تو جب تک بار ش زمین کو نم نہ کردے وہ نہیں اگے گی اور بارش خود بخود نہیں برستی بلکہ زمین سے اٹھنے والے بخارات جو بادل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور برستے ہیں وہ بھی ہر وقت نہیں بلکہ خاص خاص موسموں میں برستے اور زمین کو نم کرتے ہیں تاکہ گھاس کا بیج نم مٹی میں اگ آئے اور سبز ہو جائے اور پھر اس کی جڑیں نکل آییں جبکہ اسکے برعکس دوسری صورت میں صحرا میں کسی قسم کی گھاس نہیں اگ سکتی تم دس اقسام کے گھاس کا بیج ایک بند برتن میں رکھ دو اور اس برتن میں پانی بھی ڈال دو اور پھر مشاہدہ کرو کہ اسکی جڑیں نکلتی ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ صحرا یا دوسری جگہ پر گھاس کو سبزی ہونے کیلئے صرف نمی کافی نہیں ہے بلکہ ہوا کی بھی ضرورت ہے اور ہوا میں ایسا اثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے درخت اگتا اور پھلتا پھولتا ہے ۔

اے ابو شاکر سرد علاقوں میں سردیوں کے موسم کی شدید سردی میں گھاس کو گرم خانوں میں اگایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہوا موجود ہو اور سرد علاقوں میں مختلف اقسام کے پھل پیدا کئے جاتے ہیں لیکن یہ پھل گرم خانوں میں ہوا کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتے اور اگر ہوا نہ ہو تو نہ صحرا میں گھاس اگتی ہے اور نہ گرم خانے میں پھل اور نہ ہی انسان اور جانور باقی رہ سکتے ہیں ۔ اے ابو شاکر اس کے باوجود کہ ہوا تمہاری اور انسانوں کی زندگی کا ذریعہ ہے ‘ تم اسے نہیں دیکھ پاتے اور صرف اس وقت جب ہوا چلتی ہے تو تمہیں اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے کیا تم ہوا کے وجود کا انکار کر سکتے ہو ؟ کیا تم اس بات کا انکار کر سکتے ہو ؟ کہ صحرا میں گھاس کے اگنے کیلئے خاک ‘ ہوا ‘ بارش اور متعلقہ موسم کا ہونا ضروریہے تاکہ گھاس اگے اور ایک ایس قوت کا ہونا بھی ضروری ہے جو ان تمام عوامل کو باہم یکجا کرے اور وہ قوت خداوند تعالی کی ہے اگر تم اہل علم ہوتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ حکمت کسی ایسی چیز کے خود بخود وجود میں آنے کو تسلیم نہیں کرتی اور ہر چیز کے وجود میں آنے کیلئے اس کے خالق کا ہونا ضروری ہے خواہ و جمادات ہوں یا نباتات یا جانور ہوں کہ انسان بھی جانوروں کے زمرے میں شامل ہے اگر تم عالم ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ متعدد مکاتب کے حکما میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں گزرا جو خالق کا معتقد نہ ہو ۔

بعض اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض حکماء خالق کے معتقد بنے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالق کو اللہ کے نام سے علاوہ کسی اور نام سے پکارتے تھے ورنہ حتیکہ وہ لوگ جو مطلقا خدا کی نفی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ خالق کا وجود نہیں ہے پھربھی وہ اپنی حکمت میں کسی مبداء کے معتقد تھے اور وہ اپنے اس مبدا کے عقیدے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے اے ابو شاکر خالق کا انکار کرنا جہالت ہے نہ کہ دانش مندی ایک عقل مند انسان اگر صرف چند منٹوں کیلئے جسم کے نظام پر غور کرے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس متوازن اور دائمی نظام کا کوئی ناظم بھی ہے اور جس نے اس دنیا کو خلق کیا ہے وہی اس کا ناظم بھی ہے اور کوئی چیز دنیا کے نظام کو درھم برھم نہیں کر سکتی سوائے دنیا کے ناظم کے اے ابو شاکر تو نے مجھ سے کہا ہے کہ تم اور میں دونوں اپنے خدا کو بناتے ہیں اور تیرے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خدا خود ہمارے ہاتھوں وجود میں آتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ تو اپنے خدا کو ترکھان کے اوزار یا لکڑی یا پتھر توڑنے والے آلے کی مد د سے پتھر تراش کر اور میں اپنے خدا کو اپنے تخیل سے وجودمیں لاتا ہوں ۔ تمہارے خدا اور میرے خدا میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جب تو ترکھان کے اوزار یا سنگ تراشی کے آلات ہاتھ میں لیتا ہے اور کام شروع کرتا ہے تو اس وقت تمہارا خدا موجود نہیں ہوتا لیکن میرا خدا میرے سوچنے سے بھی موجود ہوتا ہے میں نے اپنے خدا کو خود تیار نہیں کیا اور نہ ہی اسے اپنی سوچ کے کے نتیجے میں وجود میں لایا ہوں تمہارا خدا تمہارے بقول تمہارے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے اور اس کو بنانے کے لئے لکڑی یا پتھر کی ضرورت ہے میرا خدا میرے تخیل کی پیدوار نہیں ہے کیونکہ وہ میرے سوچنے سے پہلے ہی سے موجود تھا جو کچھ میں نے کہا اور کرتا ہوں وہ اپنی سوچ کے ذریعے خدا کی بہتر معرفت حاصل کرنا اور اسکی عظمت پر غور و فکر کرنا ہے۔

(علیہ السلام ) جس وقت تم جنگ کی طرف جاتے ہو اور ایک پہاڑ کو دیکھتے ہو اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہو تو کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ تم نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے یا اپنے غور و فکر سے ایجاد کیا ہے ۔

پہاڑ تم سے پہلے بھی تھا اور تمہارے بعد بھی رہے گا جو کچھ تمہیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس کو اچھی طرح پہچانو اور یہ پہچان بھی معرفت کی حد تک محدود ہے تم پہاڑ کو اچھی طرح نہیں پہچان سکتے کیونکہ تمہاری دانائی اتنی نہیں ہے کہ تم پہاڑ کے مبداء کی شناخت کر سکو اور یہ جان سکو کہ پہاڑ کی انتہا کس وقت ہو گی اور یہ کس چیز سے بنا ہے اس کے جوف میں یا س کی گہرائی میں کون کون سی دھاتیں موجود ہیں اور وہ دھاتیں زمین سے نکالی جائیں تو انسان کو کیا کیا فائدے پہنچا سکتی ہیں ۔

تمہیں معلوم نہیں کہ پہاڑ میں موجود پتھر کس وقت اور کیسے وجود میں آئے اگر تم دانا ہوتے تو ہرگز نہ کہتیکہ بت جو تمہارا خدا ہے اسے تم وجود میں لاتے ہو ۔ چونکہوہلکڑی یا پتھر جس سے تم بت بنا رہے ہو یا تراش رہے ہو اسے تم وجود میں نہیں لائے ۔

کیا تم جانتے ہو کہ جس پتھر کو تم تراشے اور بت کی شکل دیتے ہو وہ ہزاروں سال پہلے سے موجود ہے اور تمہارے بعد بھی موجود رہے گا ‘ اور کیا تجھے معلوم ہے کہ جس پتھر سے تم بت تراشتے ہو وہ بہت دور دراز کی دنیا سے آیا ہے کیونکہ زمین کے مختلف حصے مسلسل حرکت کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کی حرکت سست ہے ہم اسے دیکھ نہیں سکتے اور اگر تم ایک عقلمند انسان ہوتے اور خدا کے معتقد ہوتے تو تمہیں پتہ چل جاتا کہ اس دنیا میں کوئی بھی ایسا چیز نہیں جو متحرک نہ ہو یعنی دنیا میں جمودبے معنی ہے اور ہماری زندگی میں بھی جمود بے معنی ہے کیونکہ ہم کسیحال میں بھی ساکن نہیں حتی کہ سوتے ہوئے بھی سوتے میں ہم زمین کی حرکت کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور یہ حرکت ہمارے اندر موجود حرکات کے علاوہ ہے ۔ اے ابو شاکر میں اس سے کہیں چھوٹا ہوں کہ اپنے خدا کو اپنے تخیل میں لا سکوں یہ وہ ہے جو میرے شعور کو وجود میں لایا ہے تاکہ میں اس کی مدد سے اسے اچھی طرح پہچان سکوں ور میرا یہ شعور میرے مرنے کے بعد ختم ہو جائے گا لیکن اس کی ذات باقی رہے گی ۔ اے ابو شاکر جان لو ختم ہونے سے رہے گا کیونکہ صرف خدا کے علاوہ اس دنیا میں موجود تمام چیزوں میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے اے ابو شاکر اگر تو اس پتھر کے ٹکڑے کو جس سے تو بت تراشتا ہے پہچان لے تو اتنی آسانی سے خدا کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا اور ہر گز یہ نہ کہتا کہ میرا خدا میرے تخیل کی پیدوار ہے تم چونکہ پتھر کو نہیں پہچانتے لہذا خیال کرتے ہو کہ پتھر تمہارے ہاتھوں کامطلع ہے اورتم اسے جس شکل میں چاہو تراش سکتے ہو ایسا اس لئے ہے کہ جب اس کے مبداء کی شناخت نہ ہو سکتی تھی اس وقت خداوند تعالی پتھر کو ایک مائع سے وجد میں لایا تاکہ تم اسے تراش سکو وگرنہ تمہارے ہاتھوں میں شیشے کی مانند چکنا چور ہو جاتا ۔

ابو شاکر نے پوچھا کیا پتھر کو مائع سے بنایا گیاہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہاں ابو شاکر وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا اس پر جعفر صادق (علیہ السلام ) کا ایک شاگرد طیش میں آ گیا لیکن جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اسے کوئی قدم اٹھانے سے منع کر دیا اور کہا اسے ہنسنے دو ۔

ابو شاکر نے کہا میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ تمہارے بقول اتنا سخت پتھر پانی سے بنایا گیا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا میں نے یہ نہیں کہا کہ پانی سے بنایا گیا ہے بلکہ میں نے کہا ہے کہ یہ شروع میں مائع حالت میں تھا ابو شاکر بولا ‘ مائع اور پانی ایک ہی تو ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے نہایت بردباری سے جواب دیا کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو مائع ہیں لیکن پانی نہیں ہیں یا خالص پانی نہیں ہیں دودھ مائع ہے لیکن پانی نہیں ہے اور سرکہ مائع ہے لیکن کوئی اسے پانی نہیں سمجھتا لیکن ان دونوں میں پانی کی مقدار موجود ہے ۔

پتھر بھی شروع میں مائع تھا لیکن پانی نہیں بلکہ رطوبت کی شکل میں تھا اور سیال تھا اس سے کافی مقدار میں حرارت نکل رہی تھی اور خدا کی قدرت سے اس مائع سے آہستہ آہستہ کافی تعداد میں حرارت خارج ہونے لگی اور اس قدر ٹھنڈا پڑ گیا کہ اس کی شکل جامد بن گئی اور تم آج اس سے بت تراش سکتے ہو لیکن یہی پتھر جو جامد حالت میں ہے اگر اسے زیادہ حرارت پہچائی جائے تو مائع صورت اختیار کر لے گا ۔ابو شاکر بولا میں جونہی گھر جاؤں گا پتھر کو آگ میں ڈال کر دیکھوں گا کہ آپ کا فرمان صحیح ہے اور پتھر مائع شکل اختیار کر لیتا ہے یا نہیں ؟

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا؟ تمہاری انگیٹھی کی حرارت پتھر کو نہیں پگھلا سکتی کیا تم اپنی انگیھٹی کی حرارت سے لوہے کے ایک ٹکڑیکو پگھلا سکتے ہو ۔ ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا پتھر کو پگھلانے کیلئے ایک بھٹی درکار ہے اور اس بھٹی میں کافی مقدار میں ایندھن ایک لمبی مدت تک جلایا جائے تاکہ بھٹی خوب گرم ہو جائے تو اس وقت پتھر مائع حالت میں تبدیل ہو جائے گا میں تم سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم جب ایک بت کو تراشتے ہو تو خیال کرتے ہو کہ تم نے اسے تراشا ہے حالانکہ خداوند تعالی کا پیدا کیا ہوا ہے یہ اس کی ذات ہے جس نے پتھر کو مائع حالت سے جامد حالت میں تبدیل کر دیاہے کہ تیری تراش سے وہ ریزہ ریزہ نہیں ہوتا اور اگر شیشے کی مانند ہوتا تو ہر گز اس کو تراش کو بت نہ بنا سکتا ۔

یہ خداوند تعالی ہے جس نے تجھے پیدا کیا ور تجھے ہاتھ دیئیاور تمہاری انگلیاں اس طرح بنائیں کہ تم اوزاروں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ سکتے ہو اور پھر تمہیں شعور عطا کیا تاکہ تم پتھر سے انسانوں یا جانوروں یا دوسری چیزوں کے مجسمے تراش سکو ۔

میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ پتھر کو تراشنے کے مرحلے میں یہ تم ہو جو اپنے خدا کا وجود میں لاتے ہو ۔ لیکن تم اپنے خدا کو وجود میں لانے کیلئے جتنے وسائل استعمال کرتے ہو وہ سب ان دیکھے اور واحد خدا کی طرف سے وجود میں لائے ہوتے ہیں یہاں تک کہپتھر کو تراشنے کیلئے تمجس شعور سے کام لیتے ہو وہ بھی خداوند تعالی کا عطا کیا ہو اہے ۔

اے ابو شاکر یہ شعور خداوند تعالی نے تمہیں عطا کیا ہے اور تم اس شعور کی مدد سے بت تراشتے ہو تاکہ اس کی پوجا کرو ۔ اگر خداوند تعالی تمہیں یہ شعور عطا نہ کرتا تو تم ہر گز ایک بت تراشنے پر توجہ نہ دے سکتے اور اسے اپنا خدا نہ جان سکتے ۔

اے ابو شاکر میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں اور تمہارے جواب کا منتظر ہوں کیا تم جب ایک بت تراشتے ہو اور اسے اپنا خدا سمجھتے ہو تو کیا تمہارا عقیدہ ہے کہ پتھر کا وہ ٹکڑا تمہاری حاجات بر لانے کیلئے توانا ہو جائے گا ؟ اور کیا تمہارا خیال ہے کہ جب تم بیمار ہوتے ہو تو پتھر کا وہ ٹکڑا تمہارا علاج کر سکتا ہے ؟ اور اگر متعدی بیماریکی صورت میں کوئی وبا پھوٹ پڑے گی وہ تمہیں اس سے نجات دلا سکے گا ؟ اور اگر بارش نہ ہو تو پتھر کا وہ ٹکڑا خشکی کو دور کرکے بارش برسا کر خشکی کو دور کر سکے گا اور اگر تم کسی کے قصدار بن جاؤ تو وہ تمہاا قرض اتار دے گا ؟ ابو شاکر بولا میں پتھر سے اس قسم کی امید نہیں رکھتا ۔

جعفر صادق (علیہ السلام )نے کہا‘ تو پھر کس سے اس طرح کی امید رکھتے ہو ؟ ابو شاکر نے کہا ‘ میں صحیح طرح سے نہیں بتا سکتا کہ میری یہ امیدیں کس سے وابستہ ہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ پتھر کے اندر کوئی ایسی چیز ہے جو سب کام کر سکتی ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا کیا پتھر کے اندر پتھر کی جنس سے کوئی چیز ہے ؟ ابو شاکر نے کہا ۔ اگر پتھر کی جنس سے کوی چیز ہو تو وہ کام نہیں اور تمام کام انجام دے سکتا ہے وہ وہی ان دیکھا اور واحد خدا ہے ۔

ابو شاکر سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں کو کے بعد پوچھنے لگا کیا دکھائی نہ دینے والا واحد خدا پتھر کے اندر موجود ہے ؟

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہر چیز کے اندر اور ہر جگہ موجود ہے ابو شاکر نے کہا ‘ میری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایک چیز ہر جگہ موجود ہو لیکن دکھائی نہ دے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا کیا تمہاری عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ ہوا جو دکھائی نہیں دیتی لیکن پھر ہر جگہ موجود ہے ۔

ابو شاکر نے جواب دیا اگرچہ ہوا دکھائی نہیں دیتی لیکن خود آپ کے بقول جب وہ چلتی ہے تو محسوس کی جا سکتی ہے لیکن آپ کا خدا جو دکھائی نہیں دیتا اسے محسوس نہیں کیا جا سکتا ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جب ہوا نہیں چلتی تو کیا تم ہوا کو محسوس کر سکتے ہو ؟ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا کیا تو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جو کچھ تو نہیں دیکھ پاتا اور محسوس نہیں کرتا ہر جگہ موجودہے ؟ابو شاکر نے اثبات میں جواب دیا ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا خدا بھی دکھائی نہ دینے کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے مثلا جس طرح ہوا موجود ہے لیکن ہوا چونکہ عنصر اور مخلوق ہے لہذا مخلوق اور خالق کے درمیان ماہیت کے لحاظ سے کوئی شباہت نہیں پائی جاتی ۔

اے ابو شاکر وہ شعور جو تجھے ایک پتھر سے بت تراشنے اور اس کی پرستش کیلئے کہتا ہے تو وہ تیرے اپنے بقول تجھے کہتا ہے کہ اس بت سے تجھے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ کسی کام کے کرنے کیصلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے اندر ایسی چیز ہے جو تمہاری حاجات بر لا سکتی ہے یہ شعور جو تجھے بت بنانے پر لگاتا ہے گویا اپنی زبان سے تجھے کہتا ہے کہ تو خداوند تعالی کی پرستش کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا اور خدا کی پرستش تمہارے لئے ناگزیر ہے ابو شاکر نے کہا میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں بت کی پوجا کے بغیر اپنی زندگی جاری نہیں رکھ سکتا ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا یہ نہ کہو کہ بت کی پوجا کے بغیر بلکہ یہ کہو کہ اس کی پوجا کیلئے جس کی پوجا کیلئے تم بت تراشتے ہو کیا اگر آج تم کسی وجہ سے اس کی پرستش سے باز آ جاؤ تو کیا تم زندگی جاری رکھ سکتے ہو ؟ ابو شاکر بولا نہ ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہر انسان کیلئے ناگزیر ہے کہ خدا کی پوجا کرے اور اگر خدا کی پوجا نہیں کرے گا تو نہ تو زندگی میں اسے کوئی راہنما ملیگا اور نہ وہ کسی چیز پر تکیہ کر سکے گا اب اگر کوئی خدا کو نہیں پوجتا اس کی مثال ایسی ہے کہ اس نے ایک لمحی میں حواس خمسہ کو ضائع کر دیا ہے وہ نہیں جانتا کہ کہاں جائے ‘ کیا کرے اور کس کا سہا را لے ۔

خداوند تعالی کی پوجا کا موضوع زندگی میں اس قدر ضروری ہے کہ جانوروں کی زندگی میں بھی موجود ہی اور وہ بھی خداوند تعالی کی پرستش سے بے نیاز نہیں ہیں اور اگر ہم ان کی زبان سے واقف ہوتے اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے سن سکتے تو ہمیں پتہ چلتا کہ وہ بھی خدا کی پوجا کر رہے ہیں ۔

ہم جانوروں سے گفتگو نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ خداوند کے معتقد ہیں یا نہیں ؟ البتہ عقل کی رو سے ہم خود یہ بات آسانی سے سمجھ کستے ہیں کہ جانور بھی خدا کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی زندگی میں پایا جانے والا ڈسپلن اسی باتکی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ خدا کی پرستش کرتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ جانور پرستش کے لحاظ سے ہماری طرح عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس میں مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ ایک مبدا کے قواعد کے مطبع ہیں اور ان قواعد کے سختی سے پابند ہیں کیونکہ اگر اس مبدا کے قواعد کے سختی سے پابند نہ ہوتے تو جو نظر اور ترتیب ان کی زندگی میں نظر آ رہی ہے وہ ہر گز نظر نہ آتی ۔

تجھے معلوم ہے کہ بہار آنے پر (پرندہ) مقررہ ہفتے میں آتا ہے اور گاتا ہے اور ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بہار کے آنے کی خوشخبری سنا رہا ہے ۔

اس مہاجر پرندے کا آنا اس قدر منظم ہے کہا گر سردیوں کے آخری دنوں کی ہوا ٹھنڈی ہو تو وہ ایک ہفتے سے لے کر دس روز آنے میں لگاتا ہے۔

اور اس سے زیادہ دیر نہیں لگاتا اس کے بعد ابابیل آتا ہے اور شاید وہ ہزاروں میل کا راستہ طے کرتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اسی جگہ گھونسلہ بناتا ہے جہاں اس نے گذشتہ بہار میں بنایا تھا ۔ کیا ایک مبدا کی اطاعت اور اس پر عقیدے کے بغیر یہ چھوٹا سا پرندہ اس قدر منظم زندگی گزار سکتا ہے اور جو کام اس نے انجام دینا ہوتا ہے وہ کسی سستی اور دیر کے بغیر مقررہ تاریخ کو انجام دے دیتا ہے اے ابو شاکر حتی کہ درختوں کا بھی خدا پر ایمان ہے اور اپنے شعور سے خداوند تعالی کی پیروی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی زندگی ہر گز اس قدر منظم نہ ہوتی ۔ خداوند تعالی نے درختوں کے جو ایک سو پچاس طبقات بنائے ہین اور ان میں سے ہر طبقے کی کئی کئی اقسام ہیں تم ان میں سے کوئی ایک درخت بھی ایسا نہیں پاؤ گے جس کی زندگی غیر منظم ہو ۔

اے ابو شاکر ‘ درخت بھی میری اور تمہاری طرح اپنے خدا کو نہیں دیکھتے لیکن اپنے شعور کی وجہ سے اس کی پرستش کرتے ہیں اور درخت کی خدا پرستی کی دلیل یہ ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر اور سستی کے خداوند تعالی کے مقرر کردہ قوانین کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر درخت کا خدا نہ ہوتا اور وہ اس کی پرستش نہ کرتا تو اس کی زندگی میں یہ منظم روش نہ دیکھی جاتی مجھے معلوم ہے کہ تو اس چیز کو تسلیم نہیں کرتا جو میں کہتا ہوں اور شاید اسے سمجھ بھی نہیں پاتا کیونکہ بعض مسائل کو سمجھنے کیلئے کم از کم علم کے مقدمات کو طے کرنا ضروری ہے تاکہ آدمی کسی حد تک کچھ سیکھ کر اپنی جہالت دور کرکے بعض مسائل کو سمجھنے کیلئے تیار ہو سکے میں کہتا ہوں کہ نہ صرف جانور اور درخت اپنے حیوانی اور شجری شعور کی مدد سے خداوند تعالی کی پرستش کرتے ہیں بلکہ جمادات بھی اپنے جمادی شعور سے خدا کی پرستش کرتے ہیں اور اگر وہ خدا کی پرستش نہ کرتے تو ان کی جمادی زندگی درہم برہم ہو جاتی اور ان کے ذرات پاش پاش ہو جاتے ۔

اے ابو شاکر تو اس روشنی کو دیکھ رہا ہے جو یہاں چمک رہی ہے ‘ جس کی وجہ سے میں اور تو ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں ۔ یہ روشنی جس کا منبع سورج ہے ‘ یہ بھی خدا کی پرستش کر رہی ہے چونکہ یہ ان قواعد کی پیروی کر رہی ہے جو خداوند تعالی نے اس کیلئے مقرر کر دیئے ہیں اور اس کی اطاعت اس قدر منظم اور صحیح ہے کہ یہ دو متضاد عوامل سے وجود میں آتی ہے اور ان دو عوامل میں سے کسی ایک میں بھی روشنی نہیں ہوتی لیکن جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تو روشنی پیدا ہو جاتی ہے وہ دو متضاد عوامل ہیں ان کی اطاعت کرتے ہیں تب ہی روشنی وجود میں آتی ہے ۔

اے ابو شاکر ‘ اگر خداوند تالی موجود نہ ہوتا تو یہ جہاں بھی موجود نہ آتا اور میں اور تو بھی یہ کلام کہ اگر خداوند تعالی موجود نہ ہوتا ‘ صرف بے معنی لفظ ہے کیونکہ یہ محال تھا اور ہے کہ خداوند تعالی موجود نہ ہوتا ۔ دوسرے معنوں میں ‘ خدا واجب الوجود ہے ۔

اگر خداوند تعالی نہ ہوتا اور مجھیا ور تمہیں پیدا نہ کرتا تو یہ بے معنی الفاظ " اگر خداوند تعالی نہ ہوتا " ہرگز ہمارے تخیل میں نہ آتے اور اگر ایک لمحے کیلئے خداوند تعالی کی توجہ اس کائنات کے انتظام سے ہٹ کر کسی اور طرف مائل ہو جائے تو یہ کئانت اور جو کچھ اس میں موجود ہے فنا ہو جائے گا یعنی دوسری جیزوں میں تبدیل ہو جائے گا کیونکہ کوئی چیز ختم ہونے والی نہیں ہے لیکن خدا کی توجہ دنیا کے امور کے انتظام سے ہر گز نہیں ہٹتی کیونکہ دنیا کے امور کا انتظام مستقل اور ہمیشہ کیلئے طے شدہ قواعد کے تحت چل رہا ہے جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی کیونکہ خداوند تعالی دانا ہے اور اس کی مطلق دانائی اس بات کا باعث ہے کہ جو قاعدہ اس نے کائنات کے امور کو منظم کرنے کیلئے وضع کیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے ہے اس نے تمام چیزوں کی ابد تک کیلئے پیشگوئی کر دی ہے اور اس نے جو تمام قواعد دنیا کیلئے مقرر کر دیئے ہیں ان میں اس کی مصلحت ہے اور کوئی ایسا قاعدہ نہیں جو مصلحت سے خالی ہو ۔

موت ؟

امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ احمق لوگوں کی نظر میں ایک قاعدہ جو مصلحت کے بغیر ادھورا بلکہ مضر ہے وہ موت ہے اور احمق لوگ انسان کی موت کو ایک بڑا ظلم خیال کرتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف سے انسان پر کیا جاتا ہے ۔

لیکن انسان کی موت میں ایک مصلحت ہے اگر یہ موت نہ ہوتی تو بنی نوع انسان ختم ہو گیا ہوتا اور قدیم زمانے کے سائند دان جنہوں نے موت کو ختم کرنے کی کوشش کی وہ سنگین غلطی پر تھے اور میں آئندہ آنے والے سائنس دان کو وصیت کرتا ہوں کہ موت کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ اگر موت ختم ہو گئی تو نسل انسانی تباہ ہو جائے گی ۔

اے ابو شاکر چند لمحوں کیلئے غور کرو کہ اگر موت نہ ہو اور آدمی یہ جان ے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے گا ‘ جونہی یہ پتہ چلا کہ آدمی نہیں مرے گا تو ظالم لوگ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ لا محدود زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دولت کے مالک بنے رہیں اور چونکہ کمزور لوگ اپنے اموال کے بچاؤ کی خاطر ظالموں کے خلاف متحد ہونگے اور مقابلہ کریں گے ۔ تو توانا غاصب دوسروں کو ختم کر دیں گے کیونکہ فطری موت تو نہیں لیکن قتل کے ذریعے موت موجود ہے لہذا طاقتور غاصب کمزور لوگوں کو قتل کر دیں گے آج جب کہ ہر طاقتور غاصب آدمی کو علم ہے کہ وہ ایک دن مر جائے گا اور اس کی موت زیادہ دور نہیں ہے پھر بھی اس کے باوجود وہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص کرتا ہے اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے تو ان کی حرص آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی پھر طاقتور لوگوں کی آپس میں بھی جنگ و جدل ہوتی اور آخری کار سب سے طاقتور شخص باقی رہ جاتا جس کا مطلہ یہ ہوا کہ نسل انسانی ختم ہو جاتی ۔

اگر موت نہ ہو تو زندگی میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جس طرح کام نہ کرنا ہو تو آرام میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جو چزی لوگوں کی زندگی میں کش کا باعث ہے وہ موت کا خوف ہے اے ابو شاکر آج اگر والدین اپنے بیٹے پر مہربان ہیں تو اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ وہ مر جائیں گے اور ان کا بیٹا زندہ رہے گا اور ان کے بعد ان کا بیٹا اس دنیا میں ان کی یادگار ہو گا ۔

اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے نام کو بھی اس دنیا میں روشن کرے گا ۔ اے ابو شاکر اگر موت نہ ہوتی تو خدا پرست لوگ خدا سے نہ ڈرتے ۔

آج جبکہ ہر موحد خدا سے ڈرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے تو اس لئے اسے معلوم ہے اگر خدا کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کے احکام بجا نہیں لائے گا تو موت کے بعد قیامت کے دن سز ا کا مستوجب ہو گا ۔ لیکن اگر موت نہ ہوتی تو چونکہ کوئی نہ مرتا ۔ تو لا محالہ قیامت کا دن بھی نہ ہوتا ‘ کیونکہ قیامت کے دن کیلئے ضروری ہے کہ انسان مرنے کے بعد زندہ ہو اور خداوند تعالی اس دنیا میں کیے گئے اعمال کی اسے جزا یا سزا دے ۔

موت سے خوف توحید پرست لوگوں کو خدا کے احکامات کی بجا آوری کی طرف مائل کرتا اور ظلم سے روکتا ہے‘ ہم یہ نہیں کہتے کہ ظَم وجود میں نہیں آتا کیونکہ موت سے خوف کے باوجود ظلم ختم نہیں ہوا اور وہ لوگ جو خدا کے معتقد نہیں ہیں دوسروں پر ظلم و ستم کرتے ہیں ۔

چونکہ وہ شخص جس کا خدا پر ایمان ہو اور اس کے احکامات کی پیروی کرتی ہو وہ دوسروں پر ستم نہیں کرتا اگر موت موجود نہ ہوتی اور فرض کریں بنی نوع انسان باقی رہتی تو زندگی کی جو حالت ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ بد تر ہوتی ۔

ایسی صورت میں کوئی بھی اپنے آپ کو گرم صحراؤں یا ٹھنڈے علاقوں میں زندگی بسر کرنے کی زحمت نہ دیتا ۔ اور جو علاقے آب و ہوا کے لحاظ سے معتدل ہیں وہ وہاں چلا جاتا اور وہاں کے ساکنوں کو قتل کرکے ان کی اراضی پر قبضہ کرنے کے بعد آرام سے وہاں زندگی گزارنے لگتا اور انسان صرف ایسی صورت میں نقل مکانی کرتا جب وہ مقامی آبادی کو ختم کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ نہ جما سکتا ۔

اگر فرض کریں ‘ موت نہ ہونے کی صورت میں بنی نوع انسان ختم نہ ہوتا تو چند صدیوں کے دوران ہی انسانی آبادی اس قدر بڑھ جاتی کہ انسان نہ صرف تمام جانوروں بلکہ بھوک مٹنے کیلئے اپنے ہم جنسوں کو بھی کھا جاتا کیونکہ آ ۶ ادی اس قدر بڑھ جاتی کہ زمین پر کھیتی باڑی کیلئیجگہ نہ ملتی کہ لوگ اس میں ہل چلا کر بیج بوئیں ۔ کھیتی باڑی ختم ہو اجتی اور انسان آہستہ آہستہ پہلے جانوروں کو کھانا شروع کرتے اور جب تمام جانور ختم ہو جاتے تو بھوک مٹانے کیلئے ان کے پاس انسانوں کو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ اور یہ موت ہے جس کی وجہ سے انسانی آبادی اس قدر نہیں بڑھتی کہ زمین میں کھیتی باڑی کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ موت ہے جو انسان کو خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی پر لگاتی ہے یہ موت ہیجو انسان کے دل میں اپنوں اور غیروں کیلئے رحم کا مادہ پیدا کرتی ہے یہ موت ہے جو غاصبوں کو دوسروں کا مال ظلم سے ہڑپ کر جانے کے راستے میں حائل ہوتی ہے یہ موت ہی ہے جو زندگی انسانوں کیلئے شیرین بناتی ہے خداوند تعالی نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں اگرچہ وہ ہماری نظر میں بے سود یا مضر ہی کیوں نہ ہوں ۔

اے ابو شاکر ‘ تم پتھروں سے بھرے ہوئے پہاڑوں کو بے فائدہ خیال کرتے ہو اور اپنے آپ سے پوچھتے ہو کہ پہاڑ کس لئے پیدا ہوئے ہیں ؟

جبکہ خداوند تعالی نے مصلحت کے تحت پہاڑوں کو پیدا کیا ہے ‘ جہاں جہاں پہاڑ ہے ‘ جاری پانی بھی موجود ہے کیونکہ پہاڑ کی بلدیوں پر بارش اور برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے چشمے وجود میں آتے اور نہروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پہاڑ سے جاری ہونے ولی نہر زرعی زمین کو سیراب کرتی ہے اس لئے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کرتے ہیں تاکہ زراعت کریں کیونکہ پانی میسر ہوتا ہے وہاں گرمیوں میں آب و ہوا ٹھنڈی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں اکی کوشش ہوتی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں جائیں تاکہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔

پہاڑ کے دامن میں واقع شہر ‘ قصبے اور دیہات ‘ پہاڑ کی پیٹھ کی طرف سے آنے والے طوفانوں کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ پہاڑ اس طوفان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔

سر سبز پہاڑ ‘ جانوروں کے چرانے کیلئے مفید ہوتے ہیں اور گرمیوں میں جب دوسری جگہوں پر گھاس نہیں ہوتی تو گڈریئے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ کی طرف لے آتے ہیں اور جاڑے کے آنے تک وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ پر چرا سکتے ہیں ۔

ان سر سبزی پہاڑوں میں ایسے چرند و پرند ملتے ہیں جو حلال گوشت ہیں اور وہ دامن کوہ میں سکونت پذیر افراد کیلئے غذا کا سامان بھی ہیں حتی کہ جن پہاڑوں پر سبزہ اور پانی نہیں ‘ وہ بھی مکمل طور پر بے سود نہیں ہیں اور اگر ان میں معدنیات تلاش کی جائیں تو ممکن ہے وہاں معدنیات ملیں جو انسانی زندگی کیلئے مفید ہوں ۔

جب جعفر صادق (علیہ السلام ) کی گفتگو ختم ہوئی تو ابو شاکر سوچ میں پڑ گیا یہ نظر آ رہا تھا کہ آپ کی باتوں کا اس پر گہرا اثر ہوا ہے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اس سے پوچھا کیا تو اس بات کا قائل ہو اہے کہ ان دیکھا خدا موجود ہے اور کیا اس بات کا قائل ہوا ہے کہ جس چیز کی تم اپنے بت میں پوجا کرتے ہو وہ بت نہیں بلکہ نہ دکھائی دینے والا خدا ہے ۔

ابو شاکر نے جواب دیا ‘ ابھی تک میں قائل نہیں ہوا لیکن شک میں ضرور پڑ گیا ہوں ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا بت پرستی کے بارے میں شک ان دیکھے اور واحد خدا کی پرستش کا آغاز ہے ابو شاکر نے کہا ‘ خصوصا موت کے بارے میں آپ کی گفتگو نے مجھ حیران کر دیا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا ‘ اس کی کونسی چیز تمہاری حیرانی کا باعث بنی ہے ؟

ابو شاکر بولا ‘ آپ کی گفتگو سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ہم انسانوں کو جتنا ہو سکے اپنے آپ کو قتل کر دینا چاہیے ‘ کیونکہ آپ کے بقول خدا کی مصلحت اسی میں ہے کہ آدمی مرے ‘ اور چونکہ خدا کی مصلحت اس طرح ہے لہذا جتنا جلدی ہم مر جائیں ‘ بہتر ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا اے ابو شاکر جو کوئی اپنے آپ کو قتل کرے وہ خداوند تعالی کے قانون سے منہ موڑتا ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کے بندوں کو اپنی جان کی حفاظت کرنا چاہیے اور جان کی حفاظت کا ایک راستہ یہ ہے کہ کھانے پینے میں افراط سے کام نہ لیں ۔

کیونکہ کھانے پینے میں افراط سے آدمی طبعی موت سے پہلے ہی مر جاتا ہے ۔ جان کی حفاظت کیلئے میرے جد نے فرمایا ہے کہ اپنے پیٹ کو جاروں کا قبرستان نہ بناؤ ۔ ابو شاکر بولا اس بات کے کیا معنی ہیں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا یعنی گوشت زیادہ کھانے سے پرہیز کریں ۔ ابو شاکر بولا لیکن میں تو گوشت گھانے میں مذت محسوس کرتا ہوں اور گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کر سکتا ۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا زیادہ گوشت کھانے سے پرہیز کرو ۔ ابو شاکر نے پوچھا کیوں پرہیز کروں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا کیونکہ زیادہ گوشت کھانے سے بعض لوگوں پر بیماری کا اچانک حملہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسانی نا گہانی موت کا شکار ہو کر چل بستا ہے ابو شاکر بولا ‘ میں تو پہلی مرتبہ سن رہا ہوں کہ زیادہ گوشت کھانے سے انسان نا گہانی موت سے دو چار ہو جاتا ہے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا ‘ میں نے یہ نہیں کہا کہ گوشت کھانا نا گہانی موت کا سبب بنتا ہے بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے بعض لوگ اچانک بیمار پڑ جاتے ہیں اور زیادہ گوشت کھانا ‘ اچانک بیماری کا سبب بنتا ہے وہ بھی سب لوگوں میں نہیں بلکہ بعض لوگ ایسے ہیں جو گوشت کھاتے ہیں لیکن نا گہانی موت کا شکار نہیں ہوتے ۔

ابو شاکر نے پوچھا ‘ ناگہانی موت کیا ہے ؟

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا یہ غیر متوقع موت ہے اس میں انسان بظاہر تندرت و توانا نظر آتا ہے لیکن اندر سے بیمار ہوتا ہے اور اچانک بے ہوش ہو کر مر جاتا ہے ۔

ابو شاکر نے پوچھا کیا باطنی بیماری بھی ہوتی ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا ‘ ہاں اے ابو شاکر بعض لوگ اندرونی طور پر بیمار ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بیماری کا احساس نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو گوشت اور دوسری مرغن غذائیں کھانے میں اسراف سے کام لیتے ہیں ممکن ہے کہ باطن میں بیمار ہوں اور ان کی بھوک میں کوئیکمی نہ آیے اور وہ درد کا احساس کئے بغیر بے خوابی کا شکار ہو جائیں ۔

ابو شاکر نے کہا ‘ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ آدمی بیمار ہوئے بغیر مر سکتا ہے ۔ آدمی کسی جنگ یا جھگڑے میں تو مر سکتا ہے لیکن بیمار ہوئے بغیر نہیں مر سکتا جعفر صادق (علیہ السلام )نے فرمایا تم ایسے انسان ہو کہ جب تک کسی چیز کو دیکھ نہ لو اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور چونکہ تم نے آج تک کسی کو نا گہانی موت مرتے نہیں دیکھا لہذا تم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ آدمی ممکن ہے بیماری کے بغیر اچانک اس دنیا سے کوچ کر رجائے ۔ لیکن جان لو کہ نا گہانی اموات کی اقسام ہیں ایک دماغ کو دوسری دل کو اور تیسری خون کو لاحق ہوتی ہے ۔

ابو شاکر بولا ‘ دماغ ‘ دل اور خون ہمیں کیسے اچانک ہلاک کر دیتے ہیں ؟

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہر قسم کی نا گہانی بیماری کا آخری مرحلہ خون کی خرابی ہے اور کون کی خرابی بھی زیادہ گوشت اور تمام مرغن غذاؤں کو افراط سے کھانے سے لاحق ہوتی ہے اور جب خون میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اچانک حملہ کرنے والی بیماری دل ‘ دماغ یا خون پر حملہ کرکے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے ۔ عرب قبائل جو صحرانشین ہیں ان میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کوئی نگ گہانی موت سے مرا ہو ۔ کیونکہ عرب قبائل کے صحرا نشین لوگ گوشت اور تمام مرغن غذائیں کم مقدار میں کھاتے ہیں لیکن سال میں ایک مرتبہ دو گوشت کھانے کیلئے مکہ جاتے ہیں تاکہ حج کے دوران جو جانور وہاں ذبح ہوتے ہیں ان کا گوشت کھائیں ‘ یہ لوگ جب تک کچھ دنوں کیلئے مکہ میں ہوتے ہیں کثرت سے گوشت کھاتے ہیں لیکن چونکہ سال میں صرف وہی چند دن گوشت کھاتے ہیں اور جب گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو ان کی غذا ‘ پہلے کی مانند دودھ ہوتی ہے اور اگر ان کے پاس کھجوریں ہوں تو وہ بھی ہوتی ہیں لیکن اس سے ان کا خون خراب نہیں ہوتا جس سے وہ نا گہانی بیماری کے حملے کا شکار ہوں اور دوسرا یہ بھی کہ عرب صحرا نشینوں کی زندگی مشکل ہے اور وہ کھانے پینے میں افراط نہیں برتتے لہذا وہ کافی لمبی عمریں پاتے ہیں ۔

اے ابو شاکر ‘ تو مدینے میں چند ایسے اشخاص کو پہچانتا ہے جن کی عمر سو سال ہو ؟

ابو شاکر بولا ‘ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو سو سالہ ہو ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ اس شہر میں جب لوگ گوشت اور دوسری مرغن غذائیں کھانے میں افراط سے کام نہیں لیتے تھے سو سال کی مرد اور عورتیں پائی جاتی تھیں اور جس چیز نے اس شہر کے مکینوں کی عمر گھٹا دی ہے وہ مرغن غذاؤں کے کھانے میں افراط ہے لیکن جب کہ اب مدینے میں سو سال کی عورت یا مرد نہیں ہیں اب بھی اگر تم مدینے کی نواحی بستیوں کے صحراؤں کی طرف جاؤ جہاں قبائل سکونت پزیر ہیں تو تم مشاہدہ کرو گے کہ ان کے درمیان سو سال کے مرد اور عورتیں پائی جاتی ہیں اور اس کے باوجود کہ صحرا میں زندگی دشوار ہے ان میں سے بعض بوڑھے افراد اپنے کچھ دانتوں کو سو سال کی عمر تک محفوظ رکھتے ہیں چونکہ زیادہ گوشت اور دوسری مرغن غذاؤں کے کھانے سے ان کے خون میں خرابی بھی پیدا ہوی کہ وہ قبل ازوقت بوڑھے ہو جائیں اور خون کی خرابی جو بعض اشخاص میں نا گہانی بیماری کا باعث بنتی ہے اور پھر اسی کے زیر اثر اکثر اشخاص جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہان کی طبعی عمر پوری ہو وہ مر جاتے ہیں ابو شاکر نے کہا ‘ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ موت کیا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا موت بدن کے افعال کا رک جانا ہے ۔ خصوصا دل کی دھڑکنوں اور سانس کا رک جانا ابو شاکر نے پوچھا ‘ انسان کیوں مر جاتا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا ‘ انسان دو چیزوں سے مرتا ہے ایک بیماری سے اور جیسا کہ میں نے کہا بعض لوگ نا گہانی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہصحتمند ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ بیمار ہوتے ہیں یہ لوگ بھی بیماری سے مرتے ہیں ۔

موت کا دوسرا سبب انسان کا بڑھاپا ہے اور آدمی اگر صحت مند ہی کیوں نہ ہو آخر اکر بڑھاپے کی وجہ سے مر جائیگا ‘ اور قدیم یونان کے ایک حکیم بقراط نے کہا تھا کہ بڑھاپا بھی بیماری کی ایک قسم ہے اور جن دن اس بیماری کا علاج تلاش کر لیا جائیگا انسان نہیں مرے گا۔

ابو شاکر نے اظہار ‘ خیال کرتے ہوئیکہا لیکن ہمارے ڈاکٹر تو اس بیماری کا علاج نہیں کر سکتے جعفر صادق (علیہ السلام ) بولے ‘ ابو شاکر ‘ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ہر گز اس بیماری کا علاج نہیں کر سکیں گے ۔

ابو شاکر بولا ‘ آپ کو کیسے علم ہے کہ ہمارے ڈاکٹر اس بڑھاپے کی بیماری کا علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تاکہ انسان کو موت سے بچا سکیں ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا اس لئے کہ موت مشیت الہی ہے اور چونکہ خدا کی قدرت اور مصلحت موت کو وجود میں لاتی ہے ڈاکٹر بڑھاپے کی بیماری کا علاج نہیں کر سکتے (اگر بقول بقراط بڑھاپا بیماری ہو ) کیونکہ جو کچھ خداوند تعالی نے مقرر کر دی اہے نا قابل تغیر ہے مخلوقات میں تبدیلی کا نام ہییہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی ہے اور کوئی چیز ایک حالت پر باقی نہیں رہتی ۔

حتی کہ اگر خداوند تعالی انسان کیلئے موت مقرر نہ کرتا تو بھی جیسا کہ میں نے کہا اور تم نے سنا کہ بنی نوع انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ موت موجود ہو ۔

بنی نوعی انسان کی زندگی کے جریان کیلئے موت اس قدر ضروری ہے کہ اگر موت نہ ہوتی اور انسان باقی رہنا چاہتا تو اسے موت کو وجود میں لانا پڑتا تاکہ انسان مریں اور موت کے نتیجے میں انسان نسل باقی رہے اور برباد نہ ہو ۔

ابو شاکر بولا ‘ بس یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض گذشتہ پیغمبر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے اور آج بھی زندہ ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) بولے ‘ اس پر یقین نہ کرو کیونکہ ابھی تک اس دنیا میں کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو مرا نہ ہو ‘ یا اگر اب زندہ ہے تو نہیں مرے گا ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض گزشتہ انبیاء زندہ جاوید ہو گئے اور نہیں مرے اور ہر گز نہیں مریں گے ‘ افسانے سے زیادہ کچھ نہیں پیغمبروں میں سب سے افضل پیغمبر ہمارے ہیں اور وہ خاتم النبین ہیں جن پر تو ایمان نہیں لایا ‘ وہ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ ابو شاکر بولا ‘ میرا خیال ہے جب میں ان دیکھے خدا پر ایمان لے آؤں گا تو تمہارے پیغمبر کی نبوت کو بھی تسلیم کر لوں گا لیکن اسکے باوجود کہ میں تمہاری پیغمبر پر ایمان نہیں لایا میں نے قرآن کے کچھ حصے سنے ہیں جنہیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں جو کچھ آپ نے گو شت اور مرغن غذائیں کھانے اور خون میں خرابی کے بار ے میں کہا ہے وہ قرآن کے سر ا سر خلاف ہے ‘ اور ظاہر ہے جب آپ مسلمان ہیں تو آپ قران کو مانتے ہیں ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا قرآن پر عقیدہ ہے کہ وہ کلام خدا ہے ابو شاکر بولا ‘ جب آپ کا عقیدہ ہے کہ قرآن آپ کے خدا کا کلام ہے تو پھر آپ نے اسکے خلاف بات کیوں کی ؟

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وہ کونسی بات ہے جو میں نے خدا کے کلام کے خلاف کہی ہے ؟ ابو شاکر نے کہا میں نے سنا ہے خدا نے فرمایا ہے ہر شخص اپنے مقررہ وقت پر مرے گا اس کی موت نہ ایک گھنٹہ اس وقت سے پہلے واقع ہو گی اور نہ ایک گھنٹہ بعد ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہاں یہ کلام خدا ہے اور قرآن میں ہے ۔

ابو شاکر نے اظہار خیال کیا ‘ کیا آپ نے نہیں کہا کہ جو شخص زیادہ گوشت اور مرغن غذائیں کھائے گا وہ قبل از وقت نا گہانی بیماری کے نتیجے میں مر جائیگا ؟

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہاں یہ بات میں نے کہی ہے ابو شاکر بولا ‘ آپ کے خدا کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی موت کا وقت معین ہے اور وہ اس سے نہ ایک گھنٹہ پہلے اور نہ ایک گھنٹہ بعد میں مرے گا لیکن آپ کہتے ہیں کہ جو کوئی گوشت کھائے ‘ جلدی مر جائیگا اور اسطرح آپ نے کلام خدا کی نفی کی ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا پہلی بات یہ کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ جو کوئی گوشت اور مرغن غذائیں کھائے ناگہانی بیماری کا شکار ہو جائے گا ‘ بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ ممکن ہے بعض لوگ گوشت اور مرغن غذائیں کھانے کے نتیجے میں نا گہانی بیماری کا شکار ہو جائیں ۔ دوسری بات یہ کہ طبعی عمر اور وہ عمر جسے انسان خود کم کرتا ہے ‘ دونوں میں فرق ہے طبعی عمر وہ ہے جو ایک عام انسان گزارتا ہے اور اس عمر کی ایک مدت معین ہے جیسا کہ خداوند تعالی نے فرمایا ہے جس وقت وہ مدت پوری ہو جاتی ہے آدمی مر جاتا ہے اس وقت میں نہ ایک گھنٹہ کی کمی ہوتی ہے اور نہ بیشی ۔

لیکن موت کی دوسری قسم وہ ہے جسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے وجود میں لاتا ہے یہ موت طبعی موت سے مختلف ہے اس کا نام خود کشی ہونا چاہیے جو کوئی شخص خنجر سے اپنی گردن اور شاہ رگ کو کاٹتا اور اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے وہ خدا کے مقررہ وقت پر نہیں مرتا ۔

خداوند تعالی نے اس کے شاید اسی یا نوے یا سو سال کی عمر کا تعین کیاہو جبکہ وہ جوانی میں ہی ایک ہی وار سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔

جو لوگ گوشت اور دوسری مرغن غذائیں زیادہ کھانے سے اپنے خون کو غلیظ کرتے ہیں وہ اپنی خود کشی کا سامان کرتے ہیں چونکہ خون کی خرابی ناگہانی بیماری کا سبب بنتی ہے اور اگر اس بیماری کا سبب نہ بھی بنے توکسی دوسری بیماری کا سبب بن جاتی ہے ۔

لہذا پیٹ بھر کر کھانا اور خصوصا گوشت و مرغن غذائیں زیادہ کھانا ‘ خود کشی کے مترادف ہے ۔ پس جو کوئی بسیار خوری کے نتیجے میں اپنی طبعی عمر کے تقاضے سے پہلے اس دنیا سے کوچ کر جائے وہ خداوند تعالی کے فرمان میں شامل نہیں ہے اور تو اے ابو شاکر جان لے کہ میں قرآن کو تجھ سے بہتر جانتا ہوں اور اس بات سے اگاہ ہوں کہ خداوند تعالی نے قرآن میں موت کے بارے میں کیا کہا ہے اور کسی نے کبھی بھی میرے منہ سے ایسی بات نہیں سنی ہو گی جو خدا کے فرمان کے خلاف ہو اور نہ ہی اس کے بعد سنے گا ۔