مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43382
ڈاؤنلوڈ: 4106

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43382 / ڈاؤنلوڈ: 4106
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

آپ کی جابر بن حیان سے گفتگو

ابو شاکر ایک نا سمجھ شخص تھا ۔ لیکن جعفر صادق کے بعض شاگردوں میں جو سائنسدان شمار ہوتیہیں وہ بھی استاد سے مباحثے کرتے تھے ان میں سے ایک جابر بن حیان بھی تھا ۔

امام جعفر صادق تلامذہ سے اس لئے بحث کرتے تھے تاکہ وہ علوم کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور جعفر صادق اسلامی دنیا میں ایسے پہلے استاد ہیں جنہوں نے استاد اور شاگردوں کے درمیان بحث کی بنیاد رکھی اور یہ موضوع بعد میں آنیوالے زمانوں میں اسلامی مدارس اور خصوصا شیعہ مدارس میں رواج پا گیا ہر درس کے بعد شاگرد ایک دوسرے سے بحث مباحثہ کرتے تھے تاکہ استاد کے درس کو اچھی طرح سمجھ سکیں ایک دن جعفر صادق نے فلسفہ پڑھاتے ہوئے کہا ہر چیز حرکت کر رہی ہے اور اگر حرکت نہ ہو تو چیزوں کا وجود نہ ہو ۔ یعنی اگر وہ اس طرح نہ ہوتیں جس طرح کہ موجو شکل میں نظر آ رہی ہیں اور حرکت کی وجہ سے یہ چیزیں باقی ہیں تو ان میں تبدیلی آ چکی ہوتی ۔

جعفر صادق کے ایک شاگرد جابر بن حیان نے سوال کیا ‘ کیا آپ کو یقین ہے کہ کوئی چیز حرکت سے خالی نہیں جعفر صادق نے جواب دیا اس بارے میں کوئی شک نہیں ۔

جابر نے پوچھا کیا آواز حرکت کرتی ہے ؟ جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے جابر اواز متحرک ہے لیکن اسکی رفتار روشنی کی رفتار سے سست ہے اور جب تو دور سے مشاہدہ کرتا ہے کہ لوہار کی دکان میں ایک شخص لوہے کے ہتھوڑے کو اوزار پر مارتا ہے تو اسکی آواز تھوڑی دیر بعد کانو تک پہنچتی ہے جبکہ تم دیکھتے ہو کہ ہتھوڑے سے وار کرنے والے نے جس لمحے میں وار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو روشنی نکلتی ہے وہ اسی لمحے تمہاری آں کھوں تک پہنچتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے سست ہے اور دیر سے سنائی دیتی ہے جابر نے پوچھا کس قدر دیر سے سنائی دیتی ہے جعفر صادق نے جواب دیا یہ اس جگہا ور تمہارے درمیانی فاصلے پر منحصر ہے اور قریبی مقام سے چند لمحوں کے بعد تم آواز کو سن لو گے لیکن دور کی جگہ سے آواز تمہاریکانوں سے دیر سے ٹکراتی ہے جابر نے پوچھا کیا فاصلوں کی لمبائی معلوم ہے ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ ایک یونانی حکیم ارشمیدس نے اس فاصلے کو ماپا ہے اور اسکے بقول اگر انسان کا آواز کے منبع سے چار سو گز فاصلہ ہو تو آواز آٹھ سیکنڈ میں سنی جائیگی اور اسی نسبت سے انسان اور آواز کی منبع کا فاصلہ جتنا زیادہ ہو گا آواز اتنی ہی دیر سے سنی جائیگی ۔

جابر نے کہا جو حساب ارشمیدس نے لگایا ہے اس کے مطابق جب کبھی خداوند تعالی اپنے کسی پیغمبر سے بات کرنا چاہتا تو ہزاروں سل لگتے کیونکہ خدا ساتویں آسمان پر ہے اور اس دنیا سے اس دنیا تک کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے جس کا انسانی عقل حساب لگانے سے عاجز ہے جعفر صادق نے فرمایا یہ جو کہا گیا ہے کہ خداوند تعالی ساتویں آسمان پر ہے اس لئے کہا گیا ہے تاکہ عام لوگ خداوند تعالی کی عظمت کو درک کر سکیں ورنہ خدا تو ہر جگہ موجود ہے کوئی ایس جگہ نہیں جہاں خدا نہ ہو ۔

لہذا ہر زمانے میں جب کبھی خداوند تعالی اپنے کسی پیغمبر سے خطاب کرنا چاہتا تو اس کے اس قدر نزدیک ہوتا کہ جونہی خداوند تعالی کی آواز بلند ہوتی اس کا پیغمبر اسے سن لیتا ۔

لیکن اگر خداوند تعالی ساتویں آسمان پر بھی ہوتا تو بھی اسکی آواز ایک لمحے میں اس کے پیغمبروں تک جا پہنچتی کیونکہ خداوند تعالی کی آواز ‘ انسان اور دوسرے مخلوقات کی مانند نہیں ہے کہ اسے سنائی دینے میں وقت درکار ہوتا ہو اور وہ فاصلے طے کرتی ہو بلکہ ادھر خدا نے کن کہا ادھر یکون ہو گیا اور یہ کائنات اسی طرح وجود میں آئی ہے خداوند تعالی اپنی آواز کو کائنات کے دور ترین مقام سے ایک لمحے میں اپنے پیغمبر تک پہنچا سکتا ہے جابر نے پوچھا اگر دنیا ایک لمحے میں وجود مین آئی ہے تو یہ کیوں کہا گیا ہے کہ خداوند تعالی نے کائنات کو چھ دنوں میں خلق کیا ہے ؟

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ کائنات کی حقیقی بنیاد ایک لمحے میں رکھیگئی اور چھ دن اس میں تبدیلی وقوع پذیر ہونے میں لگے ۔ جس سے کائنات موجودہ شکل میں ظاہر ہوئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خلقت کی ابتدا میں کائنات اس شکل میں نہ تھی اور ایک لمبی مدت کی تبدیلی کے بعد دنیا اس حالت میں تبدیل ہوئی اور خدا کے خلام میں جو چھ دن مذکور ہیں وہ اسلئے ہیں کہ عام لوگ اسے سمجھیں اور تم یہ خیال نہ کرو کہ خداوند تعالی کے چھ دن میرے اور تمہارے چھ دنوں کی مانند ہیں لیکن یہ بات ثابت ہے کہ چھ تبدیلیوں کے مراحل کے بعد یہ کائنات موجودہ شکل اختیار کر گئی ۔

جابر نے پوچھا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خداوند تعالی کا ایک دن کتنا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا اے جابر اگر میں تمہیں ایسا جواب دوں جس کے درست ہونے میں مجھے شک ہو تو میں کس لئے اس جواب کو زبان پر لاؤں ؟

اگر میں خداوند تعالی کی ذات کو سمجھ سکتا تو تمہیں بتا سکتا کہ خداوند تعالی کا ایک دن کتنا ہے ؟میں خداوند تعالی کے دن کی مدت کے بارے میں جو کچھ تمہیں کہوں وہ میرے اپنی اختراع ہو جس کا خداوند تعالی کے دن کی مدت سے کوئی تعلق نہیں اور صرف اتنا تمہیں بتا سکتا ہوں کہ بہت لمبا ہے اور ہم اپنے اندازوں سے خداوند تعالی کے دن کو نہیں سمجھ سکتے ۔

جابر نے اپنے استاد سے پوچھا ‘ آپ کہتے ہیں کہ خداوند تعالی ہرجگہ موجود ہے اور کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں خدا نہ ہو ‘ جعفر صادق نے فرمایا ہاں اے جابر میں نے یہ بات کہی ہے اور یہی میرا عقیدہ ہے جابر نے سوال کیا جب آ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ ہے تو لا محالہ آپ اس بات کی تصدیق کر دیں گے کہ خدا ہر چیز میں بھی ہے جعفر صادق نے مثبت جواب دیا ۔ جابر نے کہا ۔ اس صورت میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خالق اور مخلوق ایک ہیہے ان کا قول صحیح ہونا چاہیے چونکہ جب ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خدا ہر چیز میں ہے تو ہمیں اس کی بھی تصدیق کرنا چاہیے کہ ہر چیز اگرچہ وہ پتھر ‘ پانی اور درخت ہی کیوں نہ ہو خدا ہے ۔

جعفر صادق نے کہا ایسا نہیں ہے ‘ تم غلطی پر ہو ۔ خدا پتھر ‘ پانی اور درخت میں تو ہے لیکن پتھر پانی اور درخت خدا نہیں ہیں جس طرح تیل چراغ میں ہوتا ہے لیکن چراغ تیل نہیں ہوتا خداوند تعالی ہر چیز میں ہے لیکن اسکے لئے پہلے وہ چیز وجود میں آئے اور دوسرا اپنی جمادی ‘شجری اور حیوانی زندگی کو جاری رکھے اور ختم نہ ہو ۔ چراغ کی روشنجی کا مایہ یعنی اسکی بقاتیل اور فتیلہ ہے لیکن چراغ تیل اور فتیلہ نہیں ہے تیل اور فتیلہ چراغ میں شعلہ پیدا کرتے ہیں اور چراغ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ چونکہ تیل اور فتیلہ نہیں ہے تیل اور فتیلہ چراغ میں شعلہ پیدا کرتے ہیں اور چراغ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ چونکہ تیل اور فتیلہ اس میں موجود ہے پس وہ تیل اور فتیلہ ہے اور یہ بات محال ہے کہ مخلوق کی وحدت کا عقیدہ رکھتے تھے وہ اپنے استدلال کی ظاہری شکل سے فریب کھاتے تھے ان کے بقول چونکہ جو کچھ اس کائنات میں موجود ہے اس میں خدا ہے لہذا جو کچھ ہے وہ خدا ہے اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا تو تمام مخلوقات خدائی ظاقت کی حامل ہوتیں کیونکہ وہ خدا ہیں لیکن تمام کائنات میں ایک وجود بھی ایسا نہیں ہے جو خدائی قدرت رکھتا ہو ۔ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد تھے کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایک پتھر ہی وجود میں لا سکا ہے ؟ کیونکہ خالق اور مخلوق کی وحدت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بھی خدا ہے اور انسان کی خدائی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان وہ کام کر سکے جو خدا کرتا ہے ایک لفظ کن سے ساری کائنات کو پیدا کرے اور ایک قطرے سے ایک انسان وجود میں لائے ۔

جو لوگ خالق و مخلوق کیوحدت کے معتقد ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں کیا ان میں سے کسی ایک شخص نے ایسا کام کیا ہے جس سے ظاہر ہو کہ اس میں خدائی صفات ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے چونکہ آپ اپنے آ کو خدا سمجھتے ہیں لہذا خدا کا کوئی کام کرکے دکھائیں تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ آ خدا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہیں لیکن ہمیں خدا ہونے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے اور کیا یہ منطق سے خالی بچوں جیسی بات قابل قبول ہے ؟

کیونکہ اگر کوئی شخص جان لے کہ وہ خدا ہے تو ہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ اسے خدا ہونے کے متعلق کوئی اطلاع نہیں اور اے جابر ‘ تم جان لو کہ اگرچہ خداوند تعالی ہر چیز میں اور ہر جگہ پر ہے لیکن وہ مکان اور اشیا خدا نہیں ہیں اور تمام خدا کی مخلوق ہے ‘ خدا تمام مکانوں اشیاء میں ایک خالق اور محافظ کی مانند ہے اور وہی ہے جس نے حرکات کو پیدا کیا ہے اور انہی حرکات کی وجہ سے جمادات اپنی جمادی زندگی ‘ درخت اپنی شجری زندگی اور جانور اپنی حیوانی زندگی بسر کرتے ہیں اسکے باوجود کہ زندگی حرکت کے بغیر نا ممکن ہے کوئی موحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہی حرکت خدا ہے چونکہ حرکت بھی دوسری اشیاء کی مانند خدا کی مخلوقات میں سے ہے بہر حال ایسی مخلوق ہیجو دوسری مخلوقات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے اور یونانی حکما جو یہ کہتے تھے کہ حرکت خدا ہے وہ سنگین غلطی پر تھے کیونکہ حرکت اس وقت تک وجود میں نہیں آتی جب تک اس کی قوت وجود میں نہ آئے اور جب وہ قوت ہے حرکت جاری ہے اور جب یہ قوت ختم ہو جائیگی تو حرکت بھی رک جائیگی ۔

چونکہ حرکت توانائی سے وجود میں آتی ہے لہذا مخلوق ہے نہ کہ خالق اور وہ توانائی جو حرکت کو وجود میں لائی وہ خدائی قوت ہے لیکن ایک موحد یہ بات تسلیم کر سکتا ہے کہ حرکت دوسری چیزیں بھی کیلئے ابسبا پیدا کئے ہیں ان میں ایک حقیقی سبب حرکت ہے بعض یونانی فلسفیوں کے بقول حرکت مادہ ہے اور مادہ حرکت ‘ اور مادہ اپنے آخری مرحلے میں حرکت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اگر حرکت مادے میں رک جائے تو مادہ ختم ہو جاتا ہے اے جابر ‘ بعض یونانی فلسفیوں نے سوچ اور فکر کو بھی مادے کا جزو شمار کیا ہے اور کہ اہے کہ مادے کے بغیر سوچ اور فکر کا کوئی وجود نہیں جس طرح پھول کے بغیر اسکے عطر کی خوشبو کوئی نہیں سونگھ سکتا اس طرح اگر مادہ ختم ہو جائے تو سوچ اور فکر بھی ختم ہو جاتی ہے ۔

لیکن ان کا مذکورہ نظریہ اسلئے درست نہیں ہے چونکہ فلسفے میں چاہے یونانیوں کا زمانہ ہو یا آج کا دور ‘ حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی بلکہ اپنی حالت تبدیل کرتی ہے پس انسان بھی فنا نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد اپنی حالت تبدیل کرتا ہے اور اسکی طرح اس کی سوچ بھی تبدیل ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کسی دوسری صورت میں باقی رہتا ہے اور انسان کی موت کے بعد اسکے باقی رہنے والے عوامل اور روحانی صفات اس کی روح ہے ۔

اے جابر ‘ جب ایک مومن سمجھتا ہے کہ اسکے اصول دین حقیقت اور برحق ہیں تو وہ لذت اٹھاتا ہے اور یہ لذت انسانی فطرت کا جزو ہے انسان ہر منظم اور کامل چیز کو دیکھنے سے لذت اٹھاتا ہے اے جابر کیا تم اس نقش کو دیوار پر دیکھتے ہو اور مشاہدہ کرتے ہو کہ ایک منظم جیومیٹریکل صورت ہے تو تم اس مشاہدے سے لذت اٹھاتے ہو لیکن نہ صرف اس لئے کہ تم جیومیٹری سے واقف ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ جیومیٹری کی اشکال میں سے کونسی ایک شکل ہے بلکہ اسلئے کہ اسے منظم دیکھتے ہو اور مشاہدہ کرتے ہو کہ ایک مکمل نقش ہے ۔

وہ لوگ بھی جو جیومیٹری سے مطلع نہیں ہیں اس نقش کو دیکھنے کے بعد لذت اٹھاتے ہیں چونکہ اسے مکمل اور منظم دیکھتے ہیں چھوٹے بچے بھی اس نقش کے مشاہدے سے خوشی محسوس کرتے ہیں کیونکہ اسکی مکمل اور منظم شکل ‘ ان کی روح میں ایک طرح کی تسکین وجود میں لاتی ہے ۔

اگر یہ نقش جسے میں اور تم دیکھ رہے ہیں غیر منظم ہوتا اور اسکی لائنیں بے ترتیب اور بکھری ہوئی ہوتیں اس طرح کہ یہ ایک مکمل جیومیٹریکل شکل اختیار نہ کر گیا ہوتا اور نہ ہی کسی ایسی چیز کی شبیہ ہوتا جسے ہم پہچانتے ہیں تو کیا اس صورت میں بھی ہم اس کے مشاہدے سے محظوظ ہوتے ؟ جابر بولا نہیں ‘امام جعفر صادق نے فرمایا ایک غیر منظم بے ترتیب نقش کے مشاہدے سے نہ صرف محظوظ نہیں ہوتے بلکہ اس سے الٹا ہمیں کوفت ہوتی ہے اور اس کا عیب اور نقص ہماری خفگی کا باعث بھی بنتا ہے گویا جس طرح ہم ایک بد مزہ کھانا کھا رہے ہوں ۔

اسی طرح دینی حقائق پر بھی ہم غور کرتے ہیں تو محظوظ ہوتے ہیں چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مکمل اور نقائص سے پاک ہیں اور اگر ایک چیز نقص کے بغیر اور کامل ہو (خواہ مادی یا روحانی ہو ) تو وہ خوبصورت ہوتی ہے اور ہمارے لئے مسرت کا باعث ہوتی ہے اسیطرح دینی حقائق بھی چونکہ نقائص سے پاک ہیں ہوتی ہیں اور ہمارے لئے مسرت کا باعث ہوتی ہے اسیطرح دینی حقائق بھی چونکہ نقائص سے پاک ہیں لہذا وہ بھی ہماری مسرت و شادمانی کا ذریعہ ہیں ۔

جابر بن حیان بولا لیکن یہ دینی حقائق عام لوگوں کو معلوم نہیں لہذا لوگ انہیں سمجھنے سے لطف انداوز نہیں ہو سکتے ۔ جعفر صادق نے فرمایا عام لوگوں کے پاس علم ننیں اسی لئے میں لوگوں کو تاکید کرتا ہوں کہ علم حاصل کریں ۔ جابر بن حیان نے پوچھا دین اسلام کے حقائق اسطرح نازل کیوں نہیں ہوئے کہ تمام لوگ انہیں سمجھ سکتے ؟ جعفر صادق نے اظہار خیال فرمایا ‘ نہ صرف یہ کہ اسلام کے حقائق اس طرح نازل نہیں ہوئے کہ لوگ انہیں سمجھ سکیں بلکہ اسلام سے قبل مذاہب کے حقائق جو خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اسطرح نازل نہیں ہوئے تھے کہ تمام لوگ انہیں سمجھ کر ان سے محفوظ ہوں ۔

اے جابر جان لو ‘ دین فلسفے سے جدا ہے ۔

فلسفے میں یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے اس کیلئے استدلال کی ضرورت ہے تاکہ سامع کی عقل اسے تسلیم کرے اور جب ایک سامع ایک فلسفیانہ مسئلہ سنتا ہے تو جب تک بولنے والا شخص دلیل کے ساتھ اسکی صحت کا ثبوت فراہم نہ کر دے اس وقت تک سامع اس مسئلے کو تسلیم نہیں کرتا ۔ کیونکہ سامع بھی بولنے والے کی مانند فلسفی ہے اور اگر فلسفی نہ ہو تو بھی اسے فلسفہ سے شغف ضرور ہے ورنہ وہ ہر گز فلسفیانہ بحث کو سننے اور سمجھنے کی طرف راغبنہیں ہو سکتا ۔

فلسفے سے متعلق ہر قسم کا مسئلہ چونکہ فلاسفہ یا فلسفے سے ذوق رکھنے والوں کیلئے بیان کیا جاتا ہے اور یہ کہ وہ مدلل ہو اور اسے ثابت کیا گیا ہو تاکہ فلاسفہ اسے قبول کریں ۔ لہذا ہر فلسفیانہ مسئلے میں دلیل یا دلائل کا ہونا ضروری ہے اور ہر فلسفیانہ مسئلہ انسانی عقل سے سروکار رکھتا ہے اور جب تکا سے عقل تسلیم نہ کرے اس مسئلے کی صحت ثابت نہیں ہوتی ۔

جب ایک فلسفی کسی نظریئے کو پیش کرتا ہے تو اسے عام لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگ اس کے فلسفیانہ نظریئے کو سمجھیں یعنی جانتا ہے کہ عام لوگ اسکے فلسفیانہ نظریئے کو سمجھنے پر قادر نہیں ہیں اور جو کچھ کہتا ہے فلسفیوں یا ان لوگوں کیلئے کہتا ہے جو فلسفیانہ ذوق رکھتے ہیں وہ جو کچھ کہتا ہے ان کی عقل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ۔ لیکن دین فلسفیانہ نظریئے سے جدا ہے ہمارے پیغمبر دین اسلام کو خداوند تعالی کی طرف تمام انسانوں کیلئے لیکر ائے نہ کہ صرف ان لوگوں کیلئے جن کی عقل دوسرے لوگوں سے برتر ہے اور وہ ہر چیز کو تسلیم کرنے کیلئے دلیل مانگتے ہیں دوسرے پیغمبر بھی جو ہامرے پیغمبر سے قبل مبعوث ہوئے وہ دین کو تمام لوگوں کیلئے لائے نہ صرف ایک مخصوص گروہ کیلئے جو عقلی لحاظ سے دوسروں سے برتر ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کیلئے دینی حقائق کو سادہ ترین شکل میں لوگوں کیلئے پیش کرنا ناگزیر تھا اور ہر حقیقت کے ثبوت کیلئے دلیل پیش نہیں کی چونکہ عام لوگ ہر دینی حقیقت کی مصلحت کو نہیں سمجھ سکتے تھے اور آج بھی تمام دینی حقائق کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔

حتی کہ اگر ایک شخص نہایت سادہ ترینطریقے سے حقائق دینی کو دلائلکے ساتھ لوگوں کے سامنے ثابت کرے تو بھی بعض لوگ ان میں سی بعض کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ پاتے اسکی وجہ یہ ہے کہ احکام دین لوگوں کے عقیدے کیلئے نازل ہوئے ہیں نہ انکی عقل کیلئے سوائے ان لوگوں کے جو عقلی لحاظ سے دوسروں سے طاقتور ہیں ۔

فلسفے کے مسائل انسانی عقل سے سروکار رکھتے ہیں اور دینی مسائل لوگون کے ایمان سے اور مومنین کے درمیان وہ لوگ جو علم حاصل کرتے ہیں وہ اپنی عقلی ترقی کے نتیجے میں جو علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے دین اسلام کے حقائق کی مصلحت کو سمجھ سکتے ہیں اور وہ لوگ جو علم نہیں حاصل کر سکتے اور اپنی عقل کو قوی نہیں کر سکتے اور دین اسلام کے حقائق کی مصلحت کو نہیں سمجھ سکتی ان کیلئے وہی ایمان کافی ہے ۔

دین اسلام کے حقائق کی مصلحت کے بارے میں جو وضاحت عوام کیلئے پیش کی جائے بے فائدہ ہے کیونکہ ایک عام آدمی کو کسی موضوع کے علمی لحاظ سے سمجھنے کیلئے علم کے مقدمات کا جاننا ضروری ہے وگرنہ وہ کوئی چیز نہیں سمجھ پاتا دین اسلام کے حقائق کو عوام کیلئے دلیل سے بیان کرنے کیلئیان کے ساتھ علمی وضاحت پیش کرنا ضروری ہے اور اس علمی وضاحت کو صرف وہ لوگ درک کر سکتے ہیں جو اگر عالم نہ ہوں تو کم از کم علم کے مقدامت طے کر چکے ہوں ۔

علم حاصل کرنا ‘ ارادے کا محتاج ہے اور علم حاصل کرنے کا ارادہ ایک شخص میں اس قدر ہونا چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے پر آمادہ ہو جائے اور یہ ارادہ عوام میں نہیں ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی جانتا ہے کہا گر علم حاصل کرنا شروع کر دے تو کئی سالوں تک وہ مادی فوائد سے محروم رہے گا لیکن اسکے بجائے اگروہ کھیتی باڑی کرے یا بھیڑ بکریاں یا اونٹ پالے تو اسے خاطر خواہ فائدہ ہو گا البتہ وہ روحانی نتائج جو انسان علم کے ذریعے حاصل کرتا ہے ان کا امکان نہیں ہوتا پس عام لوگوں کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ صرف ایمان رکھتے ہوں اور اصول اور فروع دین اسلام سے وہی کچھ اخذ کریں جو اسکے ظاہر میں ہے ۔

اے جابر ‘ تو ایک عالم شخص ہے تجھے معلوم ہے کہ کلام خدا میں جنت اور دوزخ کا ذکر آیا ہیاس سے کیا مراد ہے ؟

تجھ پر پوشیدہ نہیں ہے کہ جنت اور دوزخ کا اصلی مفہوم کچھ اور ہے لیکن کیا تو اس مفہوم کو ایک عام آدمی کے ذہن میں بٹھا سکتا ہے ؟ صرف ایک صورت میں ایک عام آدمی جنت اور جہنم کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ علم حاصل کرے اور جب عالم ہو جائے تو جنت اور دوزخ کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اگر وہ خود بہشت اور دوزخ کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھ سکے تو چونکہ وہ عالم ہے لہذا اسکے سامنے جب ان دو کی تشریح بیان کی جائے گی تو وہ اس سے سمجھ جائے گا لیکن اگر تو آج جنت کا ایمان متزلزل ہو جائیگا اور وہ شخص جو ایمان تیری وضاحت سے پہلے رکھتا تھا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اسی لئے کہا گیا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو کرو اور ہر ایک سے اس زبان میں بات کی جائے جو اس کی عقل اور فہم کے مطابق ہو چونکہ دین کے مخاطب تمام بنی نوعی انسان ہیں لہذا کلام خدا نہایت سادہ اسلوب میں نازال ہوا ہے اور عام لوگ بھی کلام خدا کے ظاہری معنوں کو سمجھ سکتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کی وضاحت کرنے ضرورت نہیں ۔

صرف ایک صورت میں ممکن تھا کہ لوگ کلام خدا کے مفہوم کو کسی دوسرے معنوں میں لیتے اور وہ یہ کہ کلام خدا کا پڑھنے والا ‘ حروف کے اعراب میں غلطی کو دور کرنے کیلئے علم نحو کو وضع کیا تاکہ لوگ قرآن کو غلط نہ پڑھیں اس طرح یہ خطرہ ٹل گیا کہ لوگ قرآن کو غلط پڑھے جانے کیوجہ سے کسی غلط فہمی کا شکار ہوں ۔

جابر نے کہا ‘ مجھے افسوس ہے کہ لوگ دین مبین سے احکامات کی مصلحت اور کلام خدا کے وسیع مفہوم کو سمجھنے کی جانب توجہ نہیں کرتے۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر لوگ ان نکات کی طرف توجہ دیں تو دین خدا آج سے زیادہ وسیع ہو جائیگا ۔

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ سابقہ تمام ادیان میں لوگوں کی ایک اقلیت ہمیشہ ایسی رہی ہے جو احکام دین کو خوب سمجھتے تھے اور دین کے قوانین سے واقف ہونے کی بنا پر دینی لحاظ سے لوگوں کے مذہبی رہنما ہوتے تھے ۔

دین اسلام میں بھی ایسا ہی ہے اور اسی طرح آج بھی ایک اقلیت دینی لحاظ سے لوگوں کی رہبری کر رہی ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کی ایک اقلیت عالم بن کر لوگوں کی دینی رہبری کا فریضہ انجام دے گی اور مجھے یقین ہے کہ یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہیگی جب تک علم سب کیلئے عام نہیں ہو جاتا ۔

جابر نے پوچھا کیا ممکن ہے ایسا دن آئے کہ علم تمام لوگوں کیلئے عام ہو جائے ۔

جعفر صادق نے فرمایا ایسا دن آئیگا کہ انسان سمجھے گا کہ تمام انسانوں کو عالم بننا چاہیے اور انسان اسکے لئے تمام وسائل بروئے کار لا کر تمام انسانوں کو علم حاصل کرنے کی طرف راغب کرے گا۔

جابر بولا ‘ لامحالہ اس دن تمام انسان عالم بن جائیں گے ۔

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ نہین اے جابر ‘ حتی کہ اس دن بھی تمام بنی نوعانسان عالم نہیں بن جائیں گے کیونکہ لوگوں میں تحصیل علم کیا ستعداد میں فرق ہو گا اگرچہ علم حاصل کرنے کے فوائد سب کیلئے فراہم ہونگے لیکن چونکہ لوگوں میں استعداد یکساں نہیں ہو گی کہ سب عالم بن جائیں لہذا بعض تو عالمبن جائیں گے اور بعض جو علم حاصل کرنیکی طرف راغب نہیں ہونگے تحصیل علم کو ترک کرکے کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں گے لہذا کسی دور میں ایسی حالت پیدا نہیں ہو گی کہ تمام بنی نوعی انسان عالم بن جائیں ۔

لیکن اسکے باوجود کہ اس وقت تمام لوگ عالم نہیں بن سکیں گے ‘ عوام کی موجودہ حالت نہیں ہو گی کیونکہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ علم حاصل کر چکا ہو گا اور کم از کم خواندہ ہو گا لہذا اس دن علماء دین حقائق کو لوگوں کو سمجھا سکیں گے اور اگر کوئی دیوانہ نہ ہو تو چونکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا دینی حقائق کو سمجھ سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ اگر تمام لوگ دینی حقائق سے واقف نہ بھی ہو سکے تو بھی لوگوں کی اکثریت ان حقائق کو درک کر لیگی جابر نے پوچھا ‘ انسان کے تفکرات اور ارادوں میں سے کونسا سب سے زیادہ مضبوط ہے ؟

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ زندگی کی حفاظت اور زندہ رہنے کا ارادہ جابر نے سوال کیا کیا اس مضبوط ارادے کا سرچشمہ علم ہے ؟

جعفر صادق نے فرمایا اس ارادے کو زندگی کے سر چشمے سے تقویت ملتی ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں خود علم نہیں کہ زندہ رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ان میں بھی یہ ارادہ دوسرے لوگوں کی مانند قوی ترین ارادے کی حیثیت سے موجود ہے اور اس دنیا میں بنی نوعی انسان کی زندگی میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو اس ارادے کی حیثیت سے موجود ہے اور دنیا میں بنی نوع انسان کی زندگی میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو اس ارادے سے وجود میں آیا ہے جابر نے پوچھا ‘ کیا انسانی زندگی میں یہ ارادہ زیادہ موثر ہے ‘ یا حرکت ؟ جعفر صادق نے فرمایا ان دونوں کا موازانہ نہیں ہو سکتا کیونکہ حرکت ایک مادی چیزہے اور زندہ رہنے کا ارادہ ایک روحانی شے ہے ۔

زندہ رہنے کا ارادہ انسان میں حرکت سے وجد میں آتا ہے اور یہ ارادہ خود حرکات کا سبب بنتا ہے اے جابر کوئی ایسا زندہ وجود نہیں ہے جو زند رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی زندہ وجود نہیں ہے جو زندہ رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور جیسا کہ جب کوئی اپنے آپ کو موت کے خطرے میں پاتا ہے تو اگر اس سے ہو سکے تو دفاع کرتا ہے اگر دفاع کرنے پر قادر نہ ہو تو جان بچانے کیلئے پیچھے ہٹ جاتا ہے اگر حرکت ختم ہو جائے تو آدمی مر جائے اور اگر زندہ رہنے کا ارادہ ختم ہو جاے تو وقتی طور پر انسان زندہ رہتا ہے ۔

وقتی طور پر ہم اسلئے کہتے ہیں کہ زندہ رہنے کے ارادہ کے ختم ہو جانے کے بعد زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ آدمی مر جائے گا ۔

جو چیز انسان کو غذا کھانے اور پانی پینے پر مائل کرتی ہے وہ انسان کا زندہ رہنے کا ارادہ ہے ممکن ہے ‘ اے جابر تو کہے کہ غذا کھانے اور پانی پینے کی طرف مائل ہونا انسانی ضرورت ہے اور جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو اگر اسکے پاس غذا ہو تو وہ غذا کھاتا ہے اور پیاس کے وقت پانی پیتا ہے اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ پیاس اور بھوک کیطلب انسان میں السئے وجود میں آتی ہے کہ ان دونوں سے زیادہ قوی تر طلب وہی زندہ رہنے کا ارادہ ہے اورجونہی انسان بیمار ہوتا ہے اس میں بھوک یعنیبھوک کا احساس ختم ہو جاتا ہے بہر حال جب انسان میں زندہ رہنے کا ارادہ باقی نہیں رہتا تو آدمی کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور اپنی گزر اوقات کیلئے کام نہیں کرتا اور نہ ہی صفائی کا خیال رکھتا ہے اور نہ اپنے بیوی اور بچوں کے سر چھپانے کیلئے گھر بناتا ہے ۔

لیکن انسان میں زندہ رہنے کا ارادہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ وہ ہر گز ختم نہیں ہوتا سوائے ان لوگوں کے جو خود کشی کا ارادہ کر لیتے ہیں ۔

جابر نے پوچھا ‘ میں نے سنا ہے عبقری اور مجنون کو ایک دوسرے کی شبیہ سمجھا جاتا ہے کیا یہ نظریہ صحیح ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا افلاطون وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظرہ پیش کیا افلاطون نے بھی عبقری اور مجنون کی شباہت کے بارے میں گفتگو نہیں کی ‘ بلکہ کہا کہ جب تک انسان تھوڑا بہت جنون نہ رکھتا ہو شعر نہیں کہتا انسانی زندگی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آتی اور نہ ہی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی خود شاعر کیلئے سود مند ہے لہذا یہ کسی عاقل شخص کا کام نہیں پس افلاطون کے نظریئے کی بنا پر ہر شاعر کم و بیش دیوانہ ہے ۔

لیکن قدیم یونان میں ایسے شاعر تھے جو شعر پڑھنے کے لحاظ سے خاصی استعداد کے مالک تھے اور ان میں سے بعض کی استعداد اس قدر زیادہ تھی کہ یونانی لوگ انہیں عبقری کہا کرتے تھے اور چونکہ افلاطون نے کہا تھا کہ شاعر دیوانہ ہوتا ہے لہذا افلاطون کے بعد بعض صاحب نظر لوگوں نے کہا کہ اگر عبقری دیوانہ نہہو تو عبقری اور مجنوں ہونے کے درمیان کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے عبقری کو دیوانے سے کوئی شباہت نہیں ہے دیوانہ وہ ہے جو اپنے اعمال میں عقل سلیم کا تابع نہ ہو اور ایسے کام کرے جنہیں عقل تسلیم نہ کرے ۔

لیکن دیوانہ اپنے آپ کو عاقتل سمجھتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے عقل کی رو سے کر رہا ہے لیکن ایک عبقری عقل سلیم رکھتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے دوسروں کی عقل اسکی داد دیتی ہے ۔اتفاق سے خود افلاطون جس نے پہلی بار کہا کہ شاعر دیوانہ ہوتا ہے نے اسی موضوع کے بارے میں مثال پیش کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے اگرچہ یہ مثال اس نے کسی دوسرے موقع محل کی نسبت سے کہی ہے لیکن میں تمہارے موضوع کو کھولنے کیلئے اس سے استفادہ کرتا ہوں ۔

افلاطون کہتا ہے فرض کریں کہ ایک گروہ ایک ایسی جگہ رہتا ہے جہاں سورج کی روشنی نہیں پڑتیا ور اس جگہ کو سورج کی منعکس شدہ روشنی روشن کرتی ہے اور فرض کرتے ہیں کہ اس گروہ کی زندگی کے وسائل اس غار میں میسر ہیں اور ان لوگوں کو باہرآنے کی قطعی ضرورت نہیں وہ کبھی باہر نہیں آئے انہوں نے دن کو سورج کی دھوپ دیکھی اور نہ ہی رات چاند اور ستاروں کی روشنی دیکھی۔

ان کی کل کائناتیہی غار اور اس کی چار دیواریں ہیں اب ہم فرض کرتے ہیں کہ عام لوگوں کا ایک گروہ جو باہر رہ رہے تھے اس میں داخل ہوئے وہ سورج کے طلوع و غروب کو دن میں اور چاند ستاروں کو رات کو دیکھتے تھے اور انہیں اس بات کا علم تھا کہ کائنات میں وسیع و عریض صحرا بلند و بالا پہاڑ گہرے سمندر ‘ چرند ‘ پرند ‘ مچھلیاں اور بہت سے دوسرے جانور موجود ہوں گے تو چونکہ وہ پہلی مرتبہ روشنی سے تاریکی میں داخل ہوئے ہیں لہذا انہیں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا ۔ انہیں اپنی آں کھوں کو تاریکی کا عادی بنانے کیلئے ایک عرصہ درکار ہے لیکن تاریکی کے عادی لوگ جو وہاں رہ رہے ہیں ان داخل ہونے والوں کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے اندھے پن سے لطف اٹھاتے اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں ایک عرصہ گزر جانے کے بعد چونکہ یہ نئے داخل ہوے والے تاریکیکے عادی ہو جاتے ہیں اور وہاں رہائش پذیر افراد کو دیکھ سکتی اور ان کیلئے باہر کی حالت بیان کر سکتے ہیں وہ انہیں بتاتے ہیں کہ باہر روشن سورج سر سبز درخت و جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں پرندے پرواز کرتے ہیں اور گھاس کھانے والے جانور گھاس کھاتے ہیں ‘ ہوا چلتی ہے لیکن وہ لوگ جو ہمیشہ سے غار میں رہتے ہیں پھر ان نئے آنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں چونکہ ان کی سوچ اس بات کو نہیں سمجھ سکتی جو کچھ نئے آنے والے کہہ رہے ہیں اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ سورج ‘ جانور ‘ درخت اور ہوا کیا ہے ؟

غار میں ان کی سوچ سب سے پست ترین مرحلے میں ہے یہاں تک کہ ان کی سوچ جانوروں کے اس گروہ سے بھی پست ہے جو دن و رات کی پہچان کر سکتے ہیں ۔اس غار میں قیام پذیر لوگوں کی سوچ محدود اور پست ہونیکی وجہ سے ان کی نظر سے تمام وہ لوگ جو اس غار میں باہر سے داخل ہوتے ہیں ‘ دیوانے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ وہ عاقل ہیں مگر چونکہ اس غار میں قیام پذیر لوگ باہر سے آنے والے لوگوں کی سوچ کا ادراک نہیں کر سکتے لہذا انہیں دیوانے سمجھتے ہیں خاص طور پر یہ کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ نئے آنے والے ان کی عام زندگی کی طرف ذرا بھر توجہ نہیں کرتے اور ان کی مانند لباس پہننا ‘ غذا کھانا ور سونا نہیں چاہتے ۔ یہ بات وہاں مستقل رہائش پذیر لوگوں پر ثابت کرتی ہے کہ وہ دیوانے ہیں چونکہ اگر وہ دیوانے نہ ہوتے تو ان کی روز مرہ کی زندگی کے قوانین کا ضرور خیال رکھتے ۔

عبقری بھی عام لوگوں کی نسبت خصوصا عوام کی نسبت تقریبا ان لوگوں جیسے ہیں جو باہر سے غار میں وار د ہوئے ہیں اور بعض عبقری لوگوں کی عام زندگی کی رسومات اور وظائف سے مبرا ہیں ۔

لا محالہ وہ عام لوگوں اور خصوصا عوام کی نظر میں دیوانے نظر آتے ہیں اور اے جابر تو جان لے کہ عبقری اور مجنوں کے درمیان شباہت موجود ہونے کا نظریہ صحیح نہیں ہے افلاطون کا یہ نظریہ کہ شاعر مجنوں ہوتا ہے ‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ انسان جو سوچ بھی پیش کرے اس کیلئے اسے یا کسی اور کو مادی نتیجہ ملنا چاہے اور اسکے باوجود کہ وہ ایک فلسفی تھا لیکن اس نے اس پر غور نہیں کیا کہ بعض سوچ و ۶ چار ایسی ہوتی ہے جس کی مادی قدرو قیمت نہیں ہوتی لیکن وہ روحانی قدروقیمت کی حامل ضرور ہوتی ہے ۔ ان سوچ وبچار یا تفکرات میں سے بعض ایسے ہیں جو اشعار میں سما جاتے ہیں اور اگر شاعر با کمال اور با ذوق ہو تو شعر پرکھنے والا یا سننے والا وجد میں آ جاتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے روحانی سرور مل رہا ہے ۔

کیا خود افلاطون کی زندگی میں ایسی چیزیں نہیں تھیں جو ذوق سے وجد میں آئی ہوں تو وہ کیوں شعر کو با بھلا کہتا ہے ؟ کیا جو کچھ پڑھاتا تھا اس کا ایک حصہ ذوق کے پہلو کا حامل نہ تھا اور فلسفے کے ذوق کے علاوہ کسیا ور ذوق سے محظوظ نہیں ہوتا تھا کیا وہ چیزیں جو روح کو تازگی بخشتی ہیں ان میں ایک خداوند تعالی کے کائنات میں پیدا کردہ حسن و جمال میں سے کسی حسن کی تعریف کرنا نہیں ہے اور اس حسن و جمال کی تعریف کرنے کیلئے کیا شاعری کی زبان زیادہ برترو موثر ہے یا فلسفے کی ؟

ہر چیز اپنی جگہ خوبصورت لگتی ہے ‘ شعر کی زبان کا استعمال اپنی جگہ پر اور فلسفے کی زبان کا استعمال اپنے مقام پر مناسب لگا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ فلسفیکو شعر کی زبان میں بیاں نہیں کیا جا سکتا اور وہ اشعار جو میرے دادا علی نے پڑھے ہیں ان کا ایک حصہ فلسفے‘ نصیحت اور علم اخلاق پر مشتمل ہے لیکن ایک مقام ایسا ہوتا ہے جہاں شعر کام میں لایا جاتا ہے فلسفہ اس چیز کو بیان نہیں کر سکتا جس چیز کو شعر بیان کر سکتا ہے شعر کی زبان کا ایک موقع و محل رجز ہے اور کیا اے جابر ‘ تو نے سنا ہے کہ کسی نے رجز کو فلسفے کی زبان میں بیان کیا ہو ؟

میری مراد یہ نہیں کہ میں جنگ اور خونریزی کو جائز جانتا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ فلسفے کی زبان جس قدر بھی دلیل و برھان پر تکیہ کرے اس سے رجز نہیں پڑھا جا سکتا اور نہ ہی اس سے شعر کی زبان کی مانند پھولوں کی خوبصورتی کی تعریب بیان کی جا سکتی ہے چونکہ فلسفے کی زبان دلائل کی محتاج ہے اور شعر کی زبان انسانی حواس کی ‘ ان دو زبانوں کے فرق کو ایک مثال سے وضح کیا جا سکتا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسفے کی زبان ایک فولادی شیشے کی مانند ہے جو بڑھئی کے ہاتھوں میں ہو تو وہ لکڑی کو چیر کر اس سے انسانی ضروریات کی اشیا تیار کرتا ہے ۔

لیکن شعر کی زبان پروں سے تیار شدہ پنکھے کی مانند ہے جو جب ہلایا جاتا ہے تو انسان کو ٹھنڈی ہوا دیت اہے جب کبھی اس کے پر جسم سے ٹکرائیں تو تکلیف نہیں پہنچاتے اور میں تعجب کرتا ہوں کہ افلاطون جیسے انسان نے جو فلسفی تھا اور اس کی عاقلانہ باتیں آج بھی مشحور ہیں کیسے کہہ دیا کہ شاعر دیوانہ ہے کیونکہ وہ ایسے خیالات کو زبان پر لاتا اور لکھتا ہے جن سے نہ خود شاعر کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ دوسرے لوگوں کو ۔

جابر بن حیان بولا ‘ جو کچھ افلاطون نے شاعروں کے بارے میں کہا وہ عقل سلیم سے دور ہے ۔

اس کے بعد جابر بن حیان نے پوچھا انسان اور بے جان چیزوں (جمادات) میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ اور انسان اپنے آپ کو جمادات کی نسبت پودوں کے زیادہ قریب کیوں پاتا ہے ؟ جعفر صادق نے جوابا فرمایا ‘ انسان اور جماد کے درمیان فرق اس لئے پایا جاتا ہے کہ جمادات اپنی جمادی زندگی میں مستقل اور نا قابل تغیر قوانین کی پیروی کرتے ہیں جبکہ انسان اپنی زندگی میں مستقل اور نا قابل تغیر قوانین کی پیروی نہیں کرتا ۔

مستقل اور نا قابل تغیر قوانین جو جمادات کی زندگی پر حکومت کرتے ہیں وہ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ جمادات ہر جگہ اور ہر وقت ایک دوسرے کی شبیہ ہوتے ہیں لیکن وہ قواعد جو انسان پر حکومت کرتے ہیں ( میری مراد وہ قواعد ہیں جن کا سر چشمہ فکر ہے )ہر انسان میں دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آرزو ‘ سلیقہ ‘ ذوق اور تمام ان چیزوں کے لحاظ سے جن کا سرچشمہ فکر ہے دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتا ہے اور لوگوں کی زندگی میں جو چیزیں امتیاز پیدا کرتی ہیں ان میں ایک ہوس ہے کوئی مرد اور عورت ایسی نہیں جو ہو س نہ رکھتی ہو اگرچہ وہ کوئی پھل یا غذا کھانے کی حد تک ہی کیوں محدود نہ ہو ۔

چونکہ جمادات اپنی جمادی زندگی میں نا قابل تغیر قوانین کی پیروی کرتے ہیں لہذا جمادات کے مستقبل کے واقعات کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ حتی کہ مثال کے طور پر دو سگے بھائی بھی یہ نہیں بتا سکتے کہ ان میں سے ہر ایک کا آئندہ سال کیا ارادہ ہو گا ؟ لیکن جمادی زندگی میں جامد اجسام ایک جیسے مستل قوانین کی پیروی کرتے ہیں جو کچھ ایک جامد جسم انجام دیتا ہے وہی دوسرا جسم بھی انجام دیتا ہے انسان ‘ پودوں سے اس لئے نزدیک ہے کہ پودے بھی بظاہر مستقل قوانین کی پیروی نہیں کرتے اگرچہ آخری مرحلے میں پودوں کی زندگی کے قواعد مستقل نہیں جس طرح آخری مرحلے میں انسانی زندگی کے قواعد بھی مستقل ہوتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ہماری ابتدا ماں کا شکم اور ہماری انتہا قبر ہے ۔ چونکہ پودوں کی زندگی بھی بظاہر ہماری طرح مستقل نہیں ہے لہذا ہم اپنے آپ کو جمادات کی نسبت پودوں کے زیادہ قریب پاتے ہیں ۔

میں نے کہا کہ انسان کے فیصلہ کرنیکے اسباب اس قدر مختلف ہیں کہ کسی انسان کے آئندہ کے ارادوں کے بارے میں کوی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی کچھ حیوانی خصلیتیں تمام انسانوں میں مشابہ ہیں اور وہ کھانے پینے سونے اور اپنے جوڑے کا انتخاب کرنے سے عبارت ہیں اس کے باوجود کہ یہ خصلتیں تمام انسانوں میں موجود ہیں پھر بھی ہر کوئی اپنے سلیقے اور طبعیت کے مطابق ان میں سیہر ایک حاجت کو سر انجام دیتا ہے اسباب کا اختلاف جو افراد کو فیصلے کرنے پر مائل کرتا ہے لوگوں یا گروھوں کے درمیان دشمنی وجود میں لاتا ہے جس کاحتمی نتیجہ جنگ یا کشت و خون ہوتا ہے ۔

پیغمبر جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں انہوں نے احکام دینی اور قواعد کو لانے کے ساتھ ساتھ کوشش کی کہ لوگ ارادہ کرنے کے لحاظ سے ایک جیسی روش اختیار کر لیں اور انہیں متشابہ قواعد کی پیروی کرنے پر مائل کریں اور تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ دین لوگوں کے ارادوں میں یگانگت پیدا کرنے میں موثر واقع ہوا ہے اگر تو دیکھتا ہے جو کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی سے ارادوں کے لحاظ سے یگانگت کے حامل نہیں ہیں تو وہ اس لئے ہے کہ ان میں سے ایک گروہ صمیم قلب سے ایمان نہیں لایا اور جب کبھی تمام مسلمان صمیم قلب سے ایمان لائیں گے ان کی اجتماعی زندگی کے بارے میں ان کے ارادوں میں بھی یگانگت آ جائے گی ۔ اس کے باوجود کہ تمام مسلمانوں کا ایمان محکم نہیں ہے کیونکہ جب تک ان کی حرص ‘ حسد اور نکتہ چینی اور کینہ ختم نہیں ہو جاتا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ‘ لیکن پھر بھی دینی قواعد نے مسلمانوں کے مجموعی ارادوں کو مشابہ کر دیا ہے اور وہ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں ایک ہی قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے اور دن و رات میں نماز کے اوقات ایک ہی ہیں اور سب ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتے ہیں ۔

تحویل قبلہ کا عقدہ

جابر نے کہا چونکہ آپ نے قبلے کا نام لیا ہے لہذا عقدہ کھلوانے کیلئے آپ سے ایک سوال کرتا ہوں ۔ جعفر صادق نے کہا جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھو جابر نے اظہار خیال میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پیغمبر نے مسلمانوں کے قبلے کو کیوں تبدیل کیا اور ان سے کہا کعبے کی طرف نماز پڑھیں جبکہ اس سے پہلے وہ ایک دوسری طرف نماز پڑھتے تھے ۔ جعفر صادق نے جواب دیا کہ پیغمبر نے خداوند کے حکم سے مسلمانوں کا قبلہ تبدیل کیا ۔ جابر نے پوچھا خداوند تعالی نے مسلمانوں کا قبلہ کیوں تبدیل کیا ؟ کیا خداوند تعالی دانائے مطلق نہیں ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا وہ دانائے مطلق ہے جابر نے کہا وہ دانائے مطلق ہے اور آئندہ پیش آنے والی ہر چیز سے آگاہ ہے تو اسے پہلے ارادہ کو تبدیلنہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم انسان اپنی نادانی کی وجہ سے اپنی زندگی میں ارادہ تبدیل کرتے ہیں آج ہم ارادہ کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں اور چند مہینوں یا چند سالوں کے بعد تجربہ حاصل کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے غلطی کی ہے پھر ہم اپنے ارادے میں تبدیلی لاتے ہیں اور ایک دوسرا کام انجام دیتے ہیں لیکن خدا جو دانائے مطلق ہے غلطی نہیں کرتا اور ہم انسانوں کی طرح تجربے کا محتاج نہیں وہ مستقبل میں پیش آنے والے تمام واقعات سے آگاہ ہے اس کا ارادہ مستقل اور ابدی ہے پھر اس نے ارادہ کیوں تبدیل کیا؟ اور پیغمبر کے ذریعہ مسلمانوں کو کیوں کہا کہ بیت المقدس سے ہٹ کر کعبے کی طرف نماز پڑھیں جبکہ پہلی دفعہ مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ بیت المقدس کی طرف نما ز پڑھیں ۔

آپ نے فرمایا‘ اے جابر تیرے استدلال کا ایک پلڑا درست ہے لیکن دوسرا پلڑا درست نہیں اور اس سے بھی بڑ کر یہ کہ تم نے دوسرے پلڑے کو ذرا مد نظر نہیں رکھا جابر نے پوچھا دوسرا پلڑا کونسا ہے ؟

جعفر صادق نے جواب دیا ۔ دوسرا پلڑا لوگ یعنی بنی نو ع انسان ہیں تم نے غور نہیں کیا کہ خداوند تعالی احکامات بنی نوع انسان کیلئے صادر فرماتا ہے نہ اس مخلوقات کیلئے جن کی زندگی میں کوئی تبدیل نہین آتی یعنی جمادات ‘ یہی وجہ ہے کہ موسی کے ذریعے بنی نوع انسان کیلئے صادر کئے گئے احکامات ہمارے پیغمبر کے ذریعے صادر کئے جانے والیاحکامات سے مختلف تھے ۔

خداوند تعالی کو از سے معلوم تھا کہ وہ ایک دن مسلمانوں سے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے گا اور خداوند تعالی یہ بھی جانتا تھا کہ کچھ عرصہ بعد وہ ان سے کعبے کو قبلہ بنانیکا کہے گا خد کے احکامات میں ‘ میں اور تم آج جو تبدیلی مشاہدہ کرتے ہیں وہ خدا کے نزدیک مستقل قوانین ہیں کیونکہ خداوند تعالی نے ازل سے ان کی پیشگوئی کی ہوئی ہے مگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ خدائی احکامات میں تبدیلی آئی ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ اس کے احکامات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے ۔

اس کی میں دو مثالیں دیتا ہوں تاکہ تم اسے مزید بہتر طریقے سے سمجھ سکو وہ شہد کی مکھی جو بہار کے نصف ماہ کے دوران پیدا ہوتی ہے گر سردیوں کے مہینے تک زندہ رہے اور سردیوں کے سرد موسم کو دیکھ تو خیال کرے گی کہ دنیا کے قواعد تبدیل ہو گئے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے لئے بھی دنیا کے قواعد تبدیل ہو چکے ہونگے ؟

جابر بولا نہیں ‘ جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں اور تم نے پیش گوی کی تھی کہ گرمیوں کے بعد سردیاں آئیں گی اور ہماری نظر میں دنیا کے احکام میں کوئی تبدیلی وجود میں نہیں آئی ۔ ایک دوسری مثال دیتا ہوں فرض کیا آپ کے پاس کچھ زمین ہے اور آج اس میں کسی مزارع کو کام کرنے کیلئے منتخب کرتے ہیں اور آپ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ شخص صرف ایک سال تک آ کا مزارع رہے ایک سال کے بعد آپ اسے کام سے نکال کر کسی دوسرے کو اس کی جگہ رکھ لیتے ہیں جب ایک سال ہوتا ہے تو آپ اس شخص کو اطلع دیتے ہیں کہ اس کی خدمات کی آپ کو مزید ضرورت نہیں ہے وہ شخص آپ کے ارادے سے متعجب ہو گا اور اسے آپ کے پہلے ارادے کے خلاف خیال کرے گا لیکن کیا آپ نے اس مزارع کو نکالکر کسی دوسر کو ملازم رکھ کر اپنے ارادے میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے ؟ ہر گز نہیں ‘ کیوں کہ آپ نے پہلے دن سے ارادہ کیا ہوا تھا کہ ایک سال بعد اسے نکال کر اس کی جگہ ایک دوسرے شخص کو رکھیں گے خداوند تعالی کے احکامات بھی جو ہماری نظر میں الٹ یا متضاد ہوتے ہیں اسی طرح ہیں اور خداوند تعالی نے جتنے قوانین صادر کرنے تھے ازل سے ان کی پیش گوئی کر دی ہے اور اس کیلئے متضاد ارادے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ جابر بن حیان نے کہا ‘ میرا عقدہ کھل گیا کیونکہ مسلمانوں کے قبلے کی تبدیلی کا مسئلہ میرے ذہن پر بوجھ بنا ہوا تھا اور اس کے باوجود کہ اس لحاظ سے میرے پاس کوئی سوال نہیں ہے پھربھی اس موضوعکے بارے میں سوال کرتا ہوں ۔ جعفر صادق نے فرمایا پوچھو ۔

جابر نے پوچھا ‘ اس میں کیا مصلحت تھی کہ خداوند تعالی نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس کے بعد کعبے کیطرف منہ کرکے نماز پڑھیں جعفر صادق نے فرمایا ‘ جب پیغمبر نے رسالت ‘ پہچانا شروع کی مسلمان تھوڑے اور کمزور تھے ‘ جبکہ یہودی اور عیسائی اکثرت میں طاقتور تھے اور مسلمانوں کو ختم کر سکتے تھے لہذا اس زمانے میں خداوند تعالی نے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا کیونکہ یہودی اور عیسائی دونوں بیت المقدس کے احترام کے قائل تھے اور اس طرح وہ مسلمانوں کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں اور انہیں دشمن خیال نہ کرکے انہیں مٹانے سے باز رہیں ۔

بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز پڑھنے کا مقصد یہودیوں اور عیسائیوں سے نرمی سے پیش آنا تھا ور یہ سلوک کافی موثر واقع ہوا کیونکہ جب یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں میں دشمنی کے کوئی آثار نہ دیکھے تو انہیں تکلیف پہچانے سے باز رہے لیکن اس کے بعد جیسا کہ تم جانتے ہو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازعہ شروع ہو گیا ۔

جابربن حیان نے کہا جیسا آپ فرما رہے ہیں اسی طرح ہوا ہوگا ور مسلمانوں کے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے سے یہودی اور عیسائی مطمئن ہونگے لیکن خداوند تعالی کے اس حکم میں کیا مصلحت تھی کہ مسلمان کعبہ کی طرف نماز پڑھیں کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ خداوند تعالی کسی دوسری جگہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دے دیتا ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر کے مدینے سے آکر مکہ فتے کرنے سے پہلے کعبے کی کیا حالت تھی ؟ جابر نے کہا ‘ مجھے معلوم ہے ‘ بت خانہ بنا ہوا تھا جعفر صادق نے فرمایا ان بتوں کی کون پوجا کرتا تھا ؟ جابر نے کہا ‘ جزیرہ عرب کے لوگ جعفر صادق نے پوچھا ‘ جزیرہ عرب میں کون لوگ بت پرست نہ تھے ؟

جابر نے کہا ‘ یہودیوں اور کچھ عیسائیوں کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہ تھا جو بت پرست نہ ہوتا جعفر صادق نے فرمایا کعبے مین تمام جزیرہ عرب کے قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے اور اسی بنا پر کعبہ تمام عربوں کیلئے محترم تھا اور جب پیغمبر نے مسلمانوں سے کہا کہ کعبے کی طرف منہ کرکے نما ز پڑھیں تو نہ صرف یہ کہ حیران نہیں ہوئے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ کعبے کی طرف نماز پڑھنا ان کیلئے بیت المقدس کی طرف نماز پرھنے سے کہیں آسان تھا کیوں کہ جب سے ہوش سنبھالے تھے کعبے کا احترام کرتے تھے اور اسی لئے قبلہ کی تبدیلی کو جزیرہ عرب کے مسلمانوں نے راضی خوشی قبول کر لیا جابر نے کہا ‘ لیکن اسلام جزیرہ عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ مزید پھیلا اور مشرق و مغرب تک چھا گیا جعفر صادق نے فرمایا اسی طرح ہے ۔

جابر نے اظہار خیال کیا ‘ کعبہ ان لوگوں کیلئے محترم نہ تھا جو عرب نہ تھے ۔ جعفر صادق نے فرمایا چونکہ پیغمبر نے خداوند تعالی کے حکم کے مطابق کعبے کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا تھا ‘ لہذا وہ قومیں جو عرب نہ تھیں جب مسلمان ہوئیں تو ان میں کعبے کیلئے احساس اہترام پیدا ہوااور تمام دنیا کے مسلمانوں کے کعبے کی طرف نماز پڑھنے سے مسلمانوں کو ایک روحانی مرکز ملا جس کی مثال کسی بھی گذشتہ مذہب میں نہیں ملتی اور آج مشرق میں رہنے والا مسلمان ‘ مغرب میں قیام پذیر مسلمان کی طرح کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے ۔ جابر نے سوال کیا ‘ کیا یہ مرکزیت زیادہ اہمیت کی حامل ہے یا مسلمانوں کا حج کیلئے مکے جانا اور وہاں اجتماع کی صورت اختیار کرنا ۔

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ یہ مرکزیت حج کیلئے مکے جانے سے زیادہ اہمیت اور روحانی مفاد کی حامل ہے کیونکہ بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو مادی استطاعت نہ ہونے یا راہزنوں کے خلاف کی وجہ سے زندگی میں ایک مرتبہ بھی حج پر نہیں جا سکتے ‘ لیکن دنیا کے ہر کونے میں رہنے والا مسلمان رات دن پانچ دفعہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ ہر شب و روز تمام مسلمانوں کی نگاہیں پانچ مرتبہ کعبے میں پہنچتی ہیں گویا دنیا کے تمام مسلمان شب و روز پانچ مرتبہ ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے ہیں اسی طرح دنیا کے تمام مسلمانوں کا کام اسی وجہ سے کہ تمام مسلمان کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں گویا وہاں پہنچتا ہے اور دنیا کے مشرق و مغرب میں کروڑوں مسلمانوں کی تکبیر کعبے میں ی جاتی ہے اور یہ مرکزیت کسی سابقہ مذہب میں موجود نہیں اور نہ ہی آندہ موجود ہو گی کیونکہ دین اسلام وہ اخری دین ہے جو خداوند تعالی نے انسان کیلئے مقرر کیا ہے اور اسلام کے بعد کوئی دوسرا آسمانی مذہب نہیں آئے گا اور جو کوئی اسلام کے بعد پیغمبری کا دعو کرے جھوٹا پیغمبر ہے اور خداوند تعالی کی کی طرف سے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جعلی ہے ۔

جابر نے پوچھا ‘ بعض لوگ خود کشی پر کیوں مائل ہوتے ہیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا خود کشی کرنے والے لوگ مذہبی ایمان نہیں رکھتے جو کوئی مذہبی ایمان رکھتا ہو وہ اپنے آپ کو قتل نہیں کرتا مجھے یقن ہے کہ تو نے آج تک کوئی ایماندار شخص خود کشی کرتے نہیں دیکھا ہو گا مسلمان جہاد کرتا ہے اور قتل ہو جاتا ہے لیکن اپنے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا ۔

مذہبی ایمان نہ رکھنے کے علاوہ جو چیز کسی انسان کو خود کشی کرنے پر مائل کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں زندہ رہنے کا ارادہ سست پڑ جاتا ہے میں نے کہا کہ ہر زندہ وجود میں سب سے مضطوب ارادہ زندہ رہنے کی طرف مائل ہوتا ہے یہ تمایل انسان کوکام پر لگاتا ہے اور اسے شادی کرنے اور اپنی اور بیوی بچوں کی رہائش کیلئے گھر بنانے پر مائل کرتا ہے بعض لوگ جو مذہبی ایمان سے محروم ہوتے ہیں ان میں زندہ رہنے کا ارادہ سست پڑ جاتا ہے ۔

ارادے کے سست پڑ جانے کی بھی چند وجوہات ہیں ان میں ایک وجہ کاہلی ہے اور وہ انسان اس قدر سست ہو جاتا ہے کہ کوئی کام نہیں کر سکتا اور اس میں بہت زیادہ سستی وجود میں آ جاتی ہے جس سے نا امیدی جنم لیتی ہے اور اسی نا امید کے نتیجے میں انسان اپنے ہاتھ اپنے خون سے رنگین کر لیتا ہے زندگی کی ارادے کے سست پڑ جانے کی ایک دوسری وجہ جو ا بازی ہے جو ہمارے مذہب میں سختی سے منع ہے جوئے میں انسان اپنا تمام مال و متاع نہایت مختصر مدت میں کھو دیتا ہے اور جب سوچتا ہے کہ اس نے اپنے کئی سالوں کی کمائی تھوڑی دیر میں لٹا دی ہے تو نا امیدی اس پر غالب آ کر اسے خود کشی پر مائل کر دیتی ہے ۔

زندگی کے ارادہ کے سست پڑ جانے کی ایک اور وجہ جنون ہے جو زیادہ تر موروثی ہوتا ہے اور آباؤ اجداد کے شراب پینے کی وجہ سے جنم لیتی ہییہی وجہ ہے کہ اس طرح کا جنون مسلمانوں میں نہیں ہے کیونکہ مسلمان شراب نہیں پیتے جس کی وجہ سے ان کی اولاد جنون کا شکار نہیں ہوتی ۔لیکن وہ قومیں جو شراب پیتی ہیں ان میں دو بیماریوں کے وجود میں آنے کا خطرہ موجود رہتا ہے ایک دماغ کا خبط اور دوسری لقوہ ۔

موروثی جنون جو آباؤ و اجداد کے بہت زیادہ شراب پینے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے ممکن ہے زندہ رہنے کے عزم کو بغیر کسی وجہ کے ختم کر دے اور جو کوئی اس طرح کے جنون میں مبتلا ہوتا ہے اپنے خلاف بہانے تراشتا اور اپنے کینے کو اپنے خلاف ابھارتا ہے ہر شخص اپنے خلاف بغض و کینے میں اس اس قدر اگے بڑھ جاتا ہے کہ اپنے آپ کو مارا ڈالنے کا سزا وار قرار دے کر موت سے ہم کنار کر دیتا ہے ۔

دوسری وجہ جو بعض افراد میں زند رہنے کے عزم کو ختم کر دیتی ہے وہ جوا ہارے بغیر ہمت ھار بیٹھتا ہے ۔ اگر ایک مومن مسلمان ہمت ھار بیٹھے تو چونکہ وہ خداوند تعالی پر توکل کرتا ہے لہذا خود کشی کے بارے میں نہیں سوچتا لیکن وہ لوگ جو مذہبی ایمان سے محروم ہیں جون نہی وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں ممکن ہے کہ زندہ رہنے کے عزم کو ہاتھ سے دے بیٹھیں اور اپنی جان کے خلاف برا ارادہ کر لیں ۔

جو اسباب انسان کے زندہ رہنے کے عزم کو ختم کر دیتے ہیں ان میں سستی بہت عام ہے اکثرلوگ جو خود کشی کرتے ہیں وہ سست ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان کے مافی الضمیر میں جھانک سکے تو وہ محسوس کرے گا کہ ان کی خود کشی کرنے کی اپصل وجہ ان میں پائی جانے والی سستی ہے اور دین اسلام کے احکام کا ایک مقصد انسان کو سستی اور کاہلی سے دور رکھنا ہے ۔

جابر ‘ آدمی فطرتا آرام پسند ہے اور بذاتہ کام کرنے کا رجحان نہیں رکھتا ہر آدمی صبح کے وقت سونا چاہتا ہے کیونکہ صبح کی نیند تمام اوقات سے زیادہ موثر ہوتی ہے لیکن دین اسلام انسان کو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے اور یہ فریضہ مسلمانوں میں سستی دور کرنے میں بہت موثر ہے ایک مسلمان شخص جب صبح کی نماز بڑھ لیتا ہے تو وہ روز مرہ کے کاموں کیلئے تیار ہو جاتا ہے اس طرح دوسری چارنمازیں بھیا سی لئے واجب قرار دی گئی ہیں تکاہ مسلمان سستی سے پرہیز کریں ۔جابر نے کہا میں نے ہندوستانی تاجروں سے جو جدہ آتے ہیں سن رکھا ہے کہ ہندوستانیوں کے تین خدا ہیں کیا آپ کو ان تین خداؤں کے نام معلوم ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا ان تین خدئاون کے نام ہندی زبان میں براما (یا برھما ) وشنو اور شیوا ہیں ۔

جابر نے کہا مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ توحید کے بجائے تین خداون کی پوجا کیون کرتے ہیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا چونکہ یہ لوگ واحد اور حقیقتی خدا کے کلام کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اپنے تخیل سے تین خدا وجود میں لا کر ان کی پرستش شروع کر دی ‘ ان کا عقیدہ ہے کہ براما یا برھما وہ خدا ہے جس نے کائنات کو خلق کیا ہے اور براما کے کائنات کو وجود میں لانے کے متعلق وضاحت بھی کرتے ہیں جس کا خلاصہ ہے کہ براما نے اپنی پھونک یا سانس سے کائنات کو خلق کیا ہے اور جب کائنات وجود میں آ گئی تو ایک دوسرا خد ا جس کا نام ویشنون تھا ‘ کائنات کا محافظ بن گیا اور ہندو عقیدے کائنات وجود میں آ گئی تو ایک دوسرا خدا جس کا نما ویشنوتھا ‘ کائنات کا محافظ بن گیا اور ہندو عقیدے کے مطابق تیسرا خد ا جس کا نام شیوا ہے موت یا ہلاکت کا خدا ہے جو کچھ پہلے خدا (براما ) نے خلق کیا اور کرتا ہے اسے تیسرا خدا ہلاک اور نیست و نابود کرتا ہے اور اس کے باوجود کہ دوسرا خدا کائنات کا محافظ ہے تیسرے خداکے کام میں رخنہ نہیں ڈال سکتا اور موت و نیست و نابودی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا جابر نے پوچھا پھر ہندوؤں کو اپنے تخیل سے ویشنو کو وجود میں لانے کی کیا ضرورت تھی کیا اس خدا کا وجود اس لئے ضروری تھا تاکہ یہ کائنات کی حفظت کر سکتا اور جب کائنات کی حفاظت پر قادر نہیں اور شیوا ہر ایک کو ہلاک اور نیست و نابود کرتا ہے تو کیا عقل کی رو سے یہی بہتر نہ تھا کہ ہندوؤں کے دو خدا ہوتے ایک براما اور دوسرا شیوا ۔

جعفر صادق نے جواب دیا جس سوچ کی وجہ سے ہندو ویشنو کے معتقد ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ایسا خدا ہونا چاہیے جو کائنات کو موجودہ زمانے میں محفوظ رکھے اور اے جابر تجھے معلوم ہے کہ ہندوؤں کا تین خداؤں پر ایمان لانا اس بات کا باعث ہوا کہ وہ تنوں جنگ کی حالت میں ہوں اور جو کچھ براما یا برھما وجود میں لائے اسے شیوا منہدم کر دے اور اگر وہ جاندار ہے تو اسے ہلاک کر دے اور یہ بھی کہ ویشنون کو ہمیشہ شیوا سے بر سرپیکار رہنا چاہیے کیونکہ شیوا چاہتا ہیجو کچھ پہلے خدا نے خلق کیا ہے اسے ہلاک یا منہدم کرے لیکن ویشنو کو شش کرتا ہے کہ شیوا کو اپنے کام میں کامیاب نہ ہونے دے لیکنوہ اپنی اس کوشش میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے اور دو جخھ شیوا چاہتا ہے وہی کرتا ہے ۔

ایسا نظر آتا ہے کہ تیسرے خدا کو کائنات کی حفاظت کیلئے وجود میں لانے کی سوچ اس سے بھی عبارت ہے کہ خلق کرنے اور ہلاک کرنے والے خدا کے درمیان کوئی واسطہ ہونا چاہیے تاکہ زندگی اور موت کے خداؤں کا براہ راست رابطہ نہ ہو کیونکہ اگر ان کا رابطہ براہ راست ہو گا تو نہ کوئی چیز خلق ہو گیا ور نہ مرے گی۔

جابر بن حیان نے کہا میں جب یہ خیال کرتا ہوں کہ میں موحد ہوں تو میں اپنے آپ پر فخر کرتا ہوں کیونکہ میرے تو حیدی مذہب میں اس طرح کا کوئی مسئلہ یا مشکل موجود نہیں ۔

جعفر صادق نے فرمایا توحید مذاہب میں خالق اور محافظ ایک ہی ہے اور وہی ہے جو مارتا ہے کیونکہ یہ بات درست نہیں کہ معدوم کرتا ہے بلکہ صورت تبدیل کرتا ہے اور دین اسلام میں موت کے بعد قیامت موجود ہے جو اصول دین میں سے ہے جس کے مطابق انسا دوبارہ زندہ ہوں گے اور اپنی زندگی کا دوبار آغاز کریں گے ۔

یونانی فلاسفر۱

جابر بن حیان نے پوچھا کیا افلاطون اور اس کا شاگرد ارسطو موت کو برحق خیال کرتے تھے ؟ جعفر صادق نے فرمایا یہ دو شخص یونانی تھے اور قدیم یونانیون کا موت کے بارے میں یہ عقیدہ نہ تھا کہ انسانی زندگی مکمل طور پر ختم ہو جاتیہے وہ موت کو بنی نوعی انسان کی طویل عمر کا ایک مرحلہ سمجھتے تھے اسی وجہ سے جب وہ مردے کیلئے تابوت تیار کرتے تو وہ تابوت پر اپنے ذوق کے مطابق رنگ برنگی تصوریں بناتے تھے ان تصوریوں میں مرد و عورت کے ملاپ کا منظر ‘ رقص کا منظر اور شکار وغیرہ کے منظر نقش ہوتے تھے ان تصوریوں کے بنانے سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ تابوت میں موجود جسد کو مردہ نہیں بلکہ زندہ خیال کرتے تھے لیکن اس کے باوجود کہ یونانیوں کا موت پر ایمان نہ تھا ‘ پھر بھی ان کے فلاسفہ موت کے بارے میں سوچ و بچار سے غافل نہ تھے ۔

یونانی ماہرفلکیات ارسطو خوس فلسفے میں بھی صاحببصیرت تشمار ہوتا تھا اس نے موت کے بارے میں کافی غور و خوض کرنے کے بعد کہا میں اس سوچ سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا کہ وہ لاکھوں مرد اور عورتیں جو مجھ سے قبل زندہ تھے وہ کہاں گئے اور ان میں سے کوئی دکھائی کیون نہیں دیتا اور کسی کی آواز کیوں نہیں سنائی دیتی اور مجھے یہ سعادت کیوں نصیب ہوئی ہے کہ میں ان لاکھوں مردوں ‘ عورتوں کے درمیان جو مر گئے ہیں اور کوئی بھی ان میں سے واپس نہیں آیا زندہ ہوں اور زندگی کی خوشیوں سے بہرہ مند ہوں اور کیا میں بھی ایک دن ان ہی کی طرح مر جاؤں گا یا یہ کہ میں جو آج زندگی کی خوشیوں سے ہم کنار ہوں‘ نہیں مروں گا ۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ جو لاکھوں مرد اور عورتیں مر چکے ہیں میں اور مجھ میں فرق ہے چونکہ مجھے زندگی سے پیار ہیاور وہ لوگ جو مر چکے ہیں اس لئے مرے ہیں کہ انہیں زندگی سے پیار نہ تھا اور وہ زندگی کی خوشیوں سے بہرہ مند نہیں ہونا چاہتے تھے اس کے باوجود کہ میں اپنے آپ کو مستثنی خیال کرتا ہوں اور مجھے ہمیشہ زندہرہنے کی امید ہے کبھی کبھار اپنے آپ سے کہتا ہوں اگر میں مر گیا تو کیا ہو جائے گا کیا موت کے بعد میں زندگی کی موجودہ خوشیوں سے بہرہ مند ہو سکوں گا ؟ کیا موت کے بعد لذیذ غذا کھناے کی لذت اٹھا سکوں گا اور کیا موسیقی کی آواز آج کی مانند مجھے لطف پہنچائے گی ؟۔۔۔۔۔ یا یہ کہ میں بھی موت کے بعد ان جانورون کی مانند ہو جاؤں گا جو مر جاتے ہیں اور کیا وہ مرغ جس کا گوشت کل تک میری غذا تھی موت کے بعد زندہ ہو گا ؟ اور وہ بکرا جسے ہم نے ایک دن بعد ذبح کیا اور اس کے گوشت سے غذا پکای اور میرے کئی عزیزوں اور دوستوں نے وہ غذا کھائی کیا موت کے بعد اسکے زندہ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے ؟

لیکنبعد میں خیال کرتاہوں کہ مجھ میں اور بکرے میں بہت فرقہے چونکہ میں انسان ہوں اور وہ بکرا حیوان ہے انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مرنے کے بعدزندہ رہے چونکہ انسان کے پاس عقل و علم ہے اور بکرا تو علم و عقل سے محروم ہے اور اگر مرنے کے بعد میں زندہ نہ رہوں تو آج مجھے یہ خیال نہیں آ سکتا کہ موت کے بعد زندہ رہوں گا اور اپنے آپ کو بھی پہچانوں گا ۔

میں موت کے بعد نہیں چاہتا کہ اپنے آپ کو نہ پہچانوں کیونکہ اگر میں موت کے بعد اپنے آپ کو نہ پہچان سکا تو جو خوشیاں موت کے بعد میرے نصیب میں ہوں گی میں ان سے محظوظ نہیں ہو سکوں گا اور مجھے موت کے بعد اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے تاکہ مجھے علم ہو سکے کہ یہ میں ہوں جو خوشیوں کی لذت اٹھا رہا ہوں نہ کہ کوئی دوسرا اس کے بعد ارسطو خوس کہتا ہے ۔

کیا یہ بات ممکن ہے کہ میں بھی لاکھوں زرد پتوں کی مانند ہوں جو خزاں کے موسم میں درختوں سے گرتے اور جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں کبھی میں خیال کرتا ہوں کہ میں بھی انہی زردیوں کی مانند عنار بن کر ختم ہو جاؤں گا لیکن میرے ضمیر کی گہرائی میں کوئی مجھے کہتا ہے کہ اسطرح نہیں ‘ مجھ میں اور خزاں کے موسم میں درختوں سے گرنیوالے زرد پتوں میں فرق ہے اور میں ذبح ہونے اور پھر غذا میں استعمال ہونے والے بکرے سے برتر ہوں میرا خیال ہے مجھ میں اور بکرے کی نسبت اور موسم خزاں میں درختوں کے زرد پتوں کی نسبت بدرجہ اولی یہ برتری پائی جاتی ہے کہ میں زمانے کے گزرنے کا احساس کرتا ہوں اور وہ زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کرتے ۔

کئی دفعہ میں نے سوچا کہ زمانے کا گزرنا کیا ہے اور اب سوچتا ہوں کہ زمانہ بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے اور میں اس دریا میں پتھر کے تختے کی مانند ہوں جسے جب پانی پہنچتا ہے تووہ کھڑا نہیں رہتا بلکہ حرکت کرتا ہے اور اس کے کچھ حصے سے ٹکرا کر آواز پیدا کرتے ہوئے گزر جاتا ہے اور میری زندگی موجود زمانہ ہے دریا کا بالائی حصہ جہاں سے پانی آتا ہے گذشتہ زمانہ ہے اور دریا کا ڈھلوانی حصہ جس کی طرف پانی آتا ہے‘ آئند زمانہ ہے اور میں جو ایک لمحے کیلئیپانی روکتا ہوں لہذا میں زمانہ حالہوں اور چونکہ دریا کا پانی مجھسے ٹکراتا ہے لہذا وہ زمانہ حال میں تبدیل ہو اجتا ہے ۔

مجھے گزشتہ زمانے سے کوی دلچسپی نہیں چونکہ گزرے ہوئے زمانے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میں اس سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا میری زندگی زمانہ حال ہے اور ہمیشہ زمانہ حال میں زندہ ہوں اور وہ لمحہ جس میں میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میں زندہ ہوں وہ لمحہ زمانہ حال ہے نہ گذشتہ زمانہ اور نہ آئندہ زمانہ مجھے معلوم ہے کہ میرے لئے زمانہ حال میں میری حقیقی زندگی ہے اور جس کے ذریعے میں اپنی عمر کو پہچان سکتا ہوں وہ صرف زمانہ حال ہے میری گزری ہوئی عمر ایک ایسے پرندے کی مانند ہے جو پنجرے سے آزاد ہو کر اڑ چکا ہے اور اب اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور آئندہ کی عمر ایک ایسے پرندے کی مانند ہے جو فضا میں اڑ رہا ہے اور ابھی تک میں نے اسے پکڑ کر پنجرے میں قید نہیں کیا صرف زمانہ حال ہے جو وہ مکمل طورپر میرے اختیار میں ہے اور میں اس کا مالک ہوں جس طرح چاہوں اس سے فائدہ اٹھاؤں یہ زمانہ حال میرے زندہ رہنے تک باقی ہیاور وہ ہر لمحہ جس میں میں احساس کرتا ہوں کہ میں زندہ ہوں وہ لمحہ میرے لئے زمانہ ہے مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ بعض لوگ گزرے ہوئے زمانے کو اپنی عمر خیال کرتے ہیں وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ جو زمانہ ان پر بیت گیا وہ اب ان کا نہیں رہا ۔

میں حیران ہوتاہوں کہ کیسے بعض لوگ آئندہ آنے والے دور کو اپنی عمر خیال کرتے ہیں اور اس پر غور نہیں کرتے کہ جو زمانہ ابھی تک نہیں آیا وہ ایسی دولت کی مانند ہے جو ابھی تک حاصل نہیں ہوئی اور اسے اپنی خیال نہیں کیا جا سکتا ۔

مجھے تعجب ہے کہ کیوں بعض لوگ اس روشن حقیقت کو نہیں دیکھتے اور تسلیم نہیں کرتے کہ زندگی زمانہ حال کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اسے زمانہ حال سے فائدہ اٹھانا چاہیے میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں آج اس خوشی کا وقت نہیں اسے کل پر رکھ چھوڑنا چاہیے وہ اس بات سے غافل ہیں کہ کل ان کا نہیں کیونکہ ابھی تک وہ اسکے مالک نہیں بنے آدمی کی عمر زمانہ حال ہے اور یہ زمانہ عمر کے خاتمے کے آخری لمحات تک جاری رہتا ہے اور انسان کیلئے ہر گز کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جو زمانہ حال نہ ہو ۔ گذشتہ کل مکالمے میں بامغنی ہے لیکن فی نفسہ بے معنی ہے کیونکہ گذشتہ کل موجود نہیں اور جو چیز موجود نہ ہو کیسے ممکن ہے وہ مفہوم رکھتی ہے آنے والا کل بامعنی ہے لیکن بذاتہ ہی موجود نہیں ہے کیونکہ جو چیز ابھی تک وجود میں نہیں آئی کیسے ممکن ہے مفہوم رکھتی ہو ؟ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کل بھی (اگر پہنچے ) تو زمانہ حال ہے میں اگر کل ظہر کے وقت پہنچوں تو ظہر کے وقت کو زمانہ حال ہی پاؤں گا نہ کہ دوسرا دن ‘ میری اور دوسرے انسانوں کیزندگی میں گذشتہ اور آئندہ کل صرف مکالمے کی حد تک محدود ہے اور بذاتہ بے معنی اور بے مفہوم ہے ۔

میرے لئے جب تک میں زندہ ہوں کوئی ایسا لمحہ پیش نہیں آئے گا جو زمانہ حال نہ ہو اور میں کسی لمحے بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ لمحہ گذشتہ کل یا آئندہ کل ہے ۔ میرا باپ بھی جب تک زندہ تھا یہ نہیں کہہ سکا کہ یہ لمحہ گذشتہ کل یا آئندہ کل ہے میرا بیٹا بھی جو جوان آدمی ہے یہ بات نہیں کہہ سکتا یعنی اس کیلئے عمر کا ہر لمحہ زمانہ حال ہے ۔ جس وقت میں جوان تھا میں ذیمقراطیس کی اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ اس نے کہا میں اور میرا باپ اور میرا بیٹا یک ہی لمحے پیدا ہوئے اس سے اسکی کیا مرا د ہے ؟

آج ذی مقراطیس کے ا س قول کی صحت پر مجھے کوئی شک نہیں اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ نہ صرف ایک باپ اور بیٹا بلکہ تمام بنی نوعی انسان ایک لمحے یعنی زمانہ حال میں پیدا ہوئے اور ایک لمحے میں جو پھر زمانہ حال ہے اس میں مر جاتے ہیں ۔

میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ زمانہ حال جو میری حقیقی عمر ہے کہیں میرے ہاتھ سے چلا نہ جائے کبھی میں خیال کرتا ہوں کہ کیا عمر کا خاتمہ سونے کی مانند نہیں ؟ اور میں سونے سے کیوں نہیں ڈرتا مرنے سے ڈرتا ہوں ؟ جب میں سوتا ہوں تو اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو شکص سویا ہوا ہے کیا وہ میں ہی ہوں اور سونے کے دوران میں اپنی موت کو فراموش کر دیتا ہوں ۔

پس موت جو ایک دوسری طرح سونے کا نام ہے اس سے کیوں ڈروں ۔ لیکن یہ لداری مجھے تسلی نہیں دیتیا ور میرا موت سے ڈر دور نہیں ہوتا ۔ چونکہ سونے سے پہلے مجھے علم ہوتا ہے کہ سونے کے بعد جا گ اٹھوں گا لیکن موت سے بیدار نہیں ہوں گا اگر آدمی موت کے بعد سو کر بیدار ہو جاتا تو صرف یونان میں مجھے سے پہلے گزرے ہوئے لاکھوں لوگ بیدار ہو جاتے اور مجھ سے موت کے بعد کی آپ بیتی بیان کرتے ۔ لیکن موت تو ایسا سونا ہے جسکے بعد بیداری نہیں ہے اور میں امید نہیں رکھتا کہ بیدار ہو جاؤں گا ۔

چونکہ مجھے معلوم ہے کہ بیدار ہونے کیلئے میرے جسمانی ڈھانچے کا وجود ضروری ہے جو موت کے بعد ختم ہو جائیگا نہ صرف میرا گوشت پوست اور خون ختم ہو جائے گا بلکہ میری ہڈیاں بھی غبار میں تبدیل ہو جائیں گی چونکہ اس کے بعد میرا ڈھانچہ باقی نہیں رہے گا تو ظاہر ہے کہ میں بیدار نہیں ہوں گا اور یہی وہ بات ہے جو مجھے موت سے ڈراتی ہے اگر مجھے علم ہوتا کہ میری موت کے بعد میرا ڈھانچہ باقی رہے گا تو میں موت سے ہر گز نہ ڈرتا چونکہ ایک دن بیدار ہونے کا امیدوار ہوتا اسکی وجہ یہ ہے کہ جب تک بیداری کے عوامل موجود ہوں انسان بیداری کا امیدوار رہتا ہے ۔ میں نے سنا ہے کہ مصری مو کے بعد انسانی جسدکی ایسی صورت بنا دیتے ہیں جو ہر گز ختم نہیں ہوتی اور اس کام کیلئے مخصوص انسٹی ٹیوٹ قائم ہیں ۔

لیکن یہاں پر کوئی بھی جس دکو موت کے بعد محفوظ بنانے کے کام سے آگاہ نہیں اور اگر آگاہ ہو تو بھی وہ مردے کے جسد کو محفوظ بنانے کی اجازت نہیں دے گا چونکہ یونانیوں کا عقیدہ ہے کہ یونانی خدا اس روش کو پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ ایسی روش ہے جو غیر خدا نے بنائی ہے اور غیر خداؤں کیروش یونان میں رائج نہیں ہونی چاہیے ۔ کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ بڑھاپے کے آخری سالوں میں مصر جاؤں اور وہیں مروں تاکہ میرے جس کد موت کے بعد ایسی شکل دے دیں کہ وہ ختم نہ ہو اور مجھے امید ہو کہ میں موت کی نیند سے بیدار ہو جاؤں گا۔

لیکن جلدی ہی میں اس سوچ کو ترک کر دیتا ہوں کینکہ میں اپنے آپ کو قائل نہیں کر سکتا یونان کی خاک کے علاوہ کوئی خاک میرے جسم پر لپیٹی جا سکتی ہے اور میں اپنے آپ کو اس سوچ پر قائم نہیں رکھ سکتا کہ یونانی خداؤں کی رائج کردہ روش کے علاوہ کسی دوسری روش سے مجھے دفن کرنا درست ہے کیونکہ میں یونان میں رائج روش کے علاوہ اگر کسی دوسری روش کے مطابق دفن کیا جاؤں تو میں نے اپنے وطن سے غذا کی ہے ۔

کبھی میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کیا یہ بہتر نہیں کہ میں اپنے وطن میں مروں اس شرط پر کہ میرے جسد خاکی کو میری موت کے بعد محفوظ رکھیں اور اگر ہو سکے تو مجھے مصری روش کے مطابق دفن کیا جائے لیکن پھر میں اس سوچ کو جھٹک دیتا ہوں کیونکہ یونانی خداؤں کی روش کے علاوہ کسی دوسری روش کو قبول کرنا وطن سے غذاری کے مترادف ہے کیا یہ ممکن ہے کہ خدا مجھے امید دلائیں کہ موت کے بعد میں اپنے آپ کو پہچان سکوں گا ؟ اور یہ جان سکوں گا کہ میں وہی رہوں گا جو آج ہوں اور میں نے عمر کا ایک حصہ ستاروں کو پہچاننے میں گزارا ہے ؟

اور ان کی حرکات کے قوانین معلوم کئے اگر خدا مجھے یہ امید دلائیں تو میں اس قدر خوش ہوں گا کہ اگر میرے پاؤں ہوتے تو میں رقص کرتے ہوئے قبر کی طرف بڑھتا مجھے اگر یقین ہو کہ موت کے بعد اپنے آپ کو پہچان سکوں گا تو میں کھانے پینے کی لذت کو نظر انداز کر دیتا اور دوسری دنیا میں بھوک اور پیاس مٹاتا (اگر اس دنیا میں کھانے اور پینے کا امکان موجود ہوتا ) کھانا ‘ پینا اور سونا مجھے اس دنیا میں اس لئے لذت دیتاہے کہ میں اپنی عمر کو کم دیکھتا ہوں اور اگر مجھے ہمیشہ کی عمر ملے تو مجھے کھانے پینیا ور سونے کی لذت سے کیا حاجت ہے کیونکہ سب سے بڑی لذت عمر جاوید ان سے محظوظ ہونا ہے اور جب کبھی موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانوں گا تو تمام چیزیں میری اپنی ہو جائیں گی اور پھر چھوٹی چھوٹی لذتیں میرے لئے بے معنی ہو جائیں گی لیکن اگر موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانوں تو عمر جاوید ان کی میری نظر میں کوئی قدرو قیمت نہیں ہو گی کیونکہ وہ کسی دوسرے کی عمر جاوید ان ہو گی نہ کہ میری مجھے معلوم ہے کہ کوہ المپک جس میں خدا رہتے ہیں عمر جاوید ان کا مالک ہے لیکن کیا وہ ہمیشہ کی عمر میرے لئے کوئی معنی رکھتی ہے ؟ بالکل نہیں م کیونکہ نہ وہ کسی دوسرے کی ہمیشہ کی عمر ہو گی اور نہ میری م ممکن ہے میں سوچوں کہ اگرچہ موت کے بعد میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا لیکن چونکہ عمر جاوید اں رکھتا ہوں لہذا دنیا کی عمر کا شریک ہو جاؤں گا اور اس طرح کوہ اولمپ کی عمر کا بھی شریک ہو جاؤں گا لیکن اگر اس طرح بھی ہو ۔ پھر بھی میں راضی نہیں ہوں گا کیونکہ جو کیچھ زندگی کے لحاظ سے میری نظر میں اہمیت رکھتا ہے وہ میں ہوں اور اگر میں نہیں ہوں تو ہمیشہ کی زندگی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں جس طرح آج کوہ اولمپ کی ابدی زندگی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔

اے جابر میں نے تیرے سامنے ارسطو خوس کا قول بیان کیا ہے تاکہ تجھے علم ہو سکے کہ یونان میں ایسے لوگ موجود تھے جو موت کے بارے میں عورو فکر کرتے تھے اور مجموعا موت کا موضوع کئی مرتبہ گزریہوئے زمانے میں لوگوں کے ایک گروہ کی سوچ کا ہدف بنتا رہا ہے جابر نے پوچھا کہ ارسطو خوس اور دوسروں نے ان نظریات سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے ؟جعفر صادق نے فرمایا چونکہ وہ موحد نہیں تھے اور ہم مسلمانوں کی مانند قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا موت سے بہت ڈرتے تھے اور جن لوگوں نے بھی ارسطو خوس کی مانند موت کے بارے میں سوچ و بچار کی ہے ان میں اکثر اس بات سے ڈرتے رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ موت کے بعد زندہ رہیں لیکن جسم کھو دینے کے نتیجے میں اپنے آپ کو نہ پہچان سکیں ۔

لیکن ایک مسلمان وہ بھی مومن ‘ موت کے بعد اپنی عاقبت کے بارے میں مطمئن ہے اور اسے معلوم ہے کہ موت کے بعد خداوند تعالی نے جو وقت اسکے لئے معین فرمایا ہے اس وقت زندہ ہو گا اور اس وقت زندہ ہو کر نہ صرف اپنے آپ کو یہ جانے گا بلکہ اعمال کا حساب بھی دے گا وہ اپنے وجود کو اس قدر ممکن طور پر محسوس کرے گا کہ اپنے اس جہاں کے اعمال کا حساب دے سکے گا اور اگر نیکو کار ہوا تو جنت میں جائے گا وگر نہ اسے اسکے کردار کی سزا ملے گی ۔

جابر نے کہا ‘ مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ کتنا اچھا ہے کہ موت کے بعد انہیں ان کی حالت کا علم ہے اور کیا گذشتہ مذاہب میں بھی مومنوں کو موت کے بعد کی حالت کا علم ہوتا تھا ؟ جعفر صادق نے فرمایا اسلام سے قبل آنے والے تمام آسمانی مذاہب میں مومنین سے کہا گیا ہے کہ موت کے بعد پاداش اور کیفر ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی موت کے بعد پاداش اور کیفر کے مسئلے کو دین اسلام کی طرح وضاحت سیا ور دو ٹوک الفاظ میں بیان نہیں کیا گیا اور بعض گذشتہ مذاہب میں اس کے بارے میں کسی حد تک ابہام پایا جاتا ہے ۔

جابر نے پوچھا ‘ کیا دین اسلام میں پاداش کی بنیاد موت سے ڈرنے پر رکھی گئی ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ موت سے ڈرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ موت کیبعد پاداش سے خوف کی بنیاد پر ہے مومن مسلمان موت سے نہیں ڈرتے بلکہ اسے موت کے بعد سزا کا ڈر ہوتا ہے وہ موت کے بعد سزا سے بچنے کیلئے ساری عمر جن باتوں سے منع کیا جاتا ہے ان سے پرہیز کرتے ہیں ۔

اور ایک مومن مسلمان جو ساری عمر گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا ‘ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ موت کے بعد دعوت کو لبیک کہتا ہے اسکی روح آسانیس ے اسکے جسم سے پرواز کر جاتی ہے ۔

اے جابر ‘ دین اسلام میں پاداش کی بنیاد موت پر نہیں ہے بلکہ موت کے بعد پاداش سے ڈر کی بنیاد پر ہے اور اگر موت سے ڈرنے والا مسلمان ہوتو وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ موت کے بعد پاداش سے ڈرتا ہے جابر نے کہا ‘ بہر کیف موت سے ڈر موجود ہے ؟

جعفر صادق نے فرمایا لوگوں میں موت سے ڈر وہ خوف نہیں ہے جو ضرب الاجل کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے مثلا اگر کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے تو شریعت کی رو سے اسے قتل ہونا چاہیے اور اسکے قتل کا حکما گر جج نے صادر کر دیا ہے اور اسے علم ہو جاتا ہے کہ کل اسے پھانسی ہو جانا تو وہ شخص موت سے بہت ڈرتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کی موت ضرب الاجل کی حامل ہے اور معین وقت میں پہنچنے والی ہے ۔

لیکن عام لوگوں میں موت ضرب الاجل کی حامل نہیں ہے ‘ خداوند تعالی نے فرمایا ہے ہر کسی کی موت ‘ کا وقت معین ہے اور اس سے ایک لمحہ ادھر ادھر نہیں ہو گا لیکن اس معین وقت کا تعین خداوند تعالی کرتاہے نہ وہ شخص جو مرتا ہے تمام بنی نوعی انسان موت کا عقیدہ رکھنے کے بارے میں ان قرض داروں کی مانند ہیں جنہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ان کے قرض کی ادائیگی کا وقت کونسا ہے ؟

اور یہ احساس کرتے ہیں کہ اسکی ادایگی بہت دور ہے اور اسی وجہ سے عام زندگی میں کوئی بھی موت سے نہیں ڈرتا ۔ یہ بھی خداوند تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے موت کو ہر زند چیز کیلئے مقرر کیا ہے لیکن اس کا وقت ہر ایک سے پوشیدہ رکھا ہے اسی لئے عام زندگی میں موت سے کوئی نہیں ڈرتا موت سے یہ لاپرواہی بعض لوگوں میں اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ زندہ جاوید رہیں گے اور اسی لئے وہ مال جمع کرنے میں بہت دوڑ دھوپ دکھاتے ہیں ان پر حرص کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ گویا وہ ہزاروں سال زندہ رہیں گے ۔

اگر انسانیزندگی میں خدوند تعالی کی طرف سے یہ حکمت قرار نہ ہوتی توہر کوئی زندگی میں ایک ایسے محکوم کی مانند زندگی گزارتا جسے علم ہوتا کہ دوسرے دن یا دوسرے گھنٹے میں زندگیکو وداع کہنا ہے اور جب لوگوں میں یہ طرز فکر پیدا ہو جاتی ہو تو لوگ اس قدر مضطرب ہوتے کہ نہ تو حصول معاش کے لئے کام کر سکتے اور نہ ہی اجتماعی زندگی وجود میں آتی اور اسطرح بنی نوعی انسان مایوسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ۔ جابر نے کہا ‘ خداوند تعالی جو انسان کو خلق کرتا ہے اور اسے جان دیتا ہے اسے مارتا اور ناوبود کیوں کرتا ہے ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر میں نے کہا ہے کہ موت جس طرح عام لوگ تصور کرتے ہیں ‘ وجود نہیں رکھتی بلکہ ایک حالتکی تبدیلی ہے اور میں یہ بات دہراتا ہوں کہ ایک مومن مسلمان اگر عالم ہے تو اس حالت کی تبدیلی سے نہیں ڈرتا ۔ کیونکہ اسے علم ہے کہ موت کے بعد زندہ ہو گا ۔

لیکن میں فرض کرتا ہوں کہ اس وقت ایک ایسے شخص سے بات کر رہاوں جو مسلمان نہیں ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے کہ خداوند تعالی جس نے انسان کو خلق کیا ہے اور اسے جان عطا کی ہے اسے کس لئے مارتا ہے ؟ تو میں اسکے جواب میں کہوں گا کہ موت ایک ایسا دریچہ ہے جس سے انسان دوسری زندگی میں وارد ہوتا ہے اور وہ دوسری زندگی میں بھی دوبارہ زندہ ہو گا۔

اے جابر ‘ کیا تو اپنی ماں کے پیٹ میں زندہ تھا یا نہیں جابر نے کہا ‘ ہاں میں زندہ تھا جعفر صادق نے پوچھا ‘ کیا تو ماں کے پیٹ میں غذا کھاتا تھا یا نہیں ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ۔ جعفر صادق نے فرمایا کیا تو ماں کے پیٹ میں ایک مکمل لیکن جھوٹ انسان شمار ہوتا تھا یا نہیں ؟ جابر نے کہا میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ایک مکمل انسان تھا ۔ جعفر صادق نے پوچھا کیا تجھے یاد ہے کہ تو نے ماں کے پیٹ میں موت کے بارے میں فکر کی ہے یا نہیں ؟ ۔

جابر نے جواب دیا ‘ مجھے یاد نہیں کہ ماں کے پیٹ میں موت کے بارے میں غورو فکر کرتا تھا یا نہیں ۔ جعفر صادق نے پوچھا ‘ موت کے موضوع کو چھوڑو چلو یہ بتاؤ کہ ماں کے پیٹ میں تمہاری کیا غذائیں تھیں ؟

جابر نے کہا ‘ ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی حالت کے بارے میں مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔

جعفر صادق نے فرمایا اسکے باوجود کہ تمہیں ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی حالت کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں کیا اپنی زندگی کو اس جہاں میں اچھا سمجھتے ہو یا ماں کے پیٹ میں ؟جابر نے کہا ‘ ماں کے پیٹ میں میری زندگی بہت مختصر تھی یعنی تقریبا نو ماہ تھی ۔

جعفر صادق نے کہا وہ نو ماہ کی مدت جو تم نے ماں کے پیٹ میں گزارے ہیں شاید وہ نو ماہ کی مدت نہیں اس دنیاکی اسی یا نوے سال کی عمر سے جو تم اس دنیا میں گزارو گے تمہیں زیادہ نظر آئے کیونکہ زمانہ ہر قسم کے حالات میں تمام لوگوں کیلئے ایک جیسا نہیں ہے اور ہر کوئی تھوڑے بہت غور کے بعد اپنی زندگی میں اس موضوع کا ادراک کر سکتا ہے مجھے یقین ہے کہ کبھی چند گھنٹے تم نے ایسے گزارے ہوں گے کہ تم نے سمجھا ہو گا کہ ایک گھنٹہ گزار ہے اور کبھی تمہارے لئے ایک گھنٹہ اس قدر لمبا ہو گیا ہو گا کہ تمہارا خیال ہو گا کہ تم نے چند گھنٹے گزارے ہیں اسی لئے میں کہتا ہوں کہ جو نو ماہ کی مدت م نے ماں کے پیٹ میں گزاری ہے شاید وہ تمہیں اس موجودہ دنیا کی عمر سے بھی طویل محسوس ہوئی ہو گی ۔

اے جابر ‘ تو ماں کے پیٹ میں ایک مکمل اور زندہ انسان شمار ہوتا تھا اور با شعور بھی تھا ۔ با شعور ہونے کی نسبت سے شاید تمہاری کچھ آرزوئیں بھی ہونگی اور اب جب کہ تم اس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہو تمہیں ماں کے پیٹ کے زمانے کیمعمولی سی باتبھی یاد نہیں کیا تم جو ایک فاضل انسان ہو یہ گمان نہیں کرتے کہ تمہارا ماں کے پیٹ سے باہر نکلنا اور اس دنیامیں وارد ہونا شاید ایک طرح کی موت تھی کیا تم یہ خیال نہیں کرتے کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے تو تم چاہتے تھے کہ تم وہیں رہو اور ہر گز وہاں سے باہر نہ نکلو تمہارا خیال تھا کہ ماں کے پیٹ سے بہتر اور آرام وہ جہان موجود نہیں اور جب تم ماں کے پیٹ سینکالے گئے ( جس کے بار ے میں نے کہا ہے کہ شاید وہ موت کی ہی ایک قسم ہے ) اور اس جہان میں پہنچے تو تم نے رونا دھونا شروع کر دیا لیکن کیا آج تم اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ جس دنیا میں تم زندگی گزار رہے ہو وہ ماں کے پیٹ کی دنیا سے کہیں بہتر ہے ؟

جابر نے کہا ‘ اس کے باوجود کہ مجھے ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی کیفیت کے بارے میں کچھ علم نہیں میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میری موجودہ زندگی ‘ ماں کے شکم کی زندگی سے بہتر ہے ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ کیا اس موضوع کا قرینہ نہیں بتاتا کہ موت کے بعد ہماری زندگی اس دنیا کی زندگی سے بہتر ہو گی ۔ جابر نے کہا ‘ اگر اس دنیا سے بد تر ہو تو پھر ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ جو لوگ اس دنیا میں خداوند تعالی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ان کی دوسرے جہان کی زندگی اس موجودہ جہاں کی زندگی سے بہتر ہو گی اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے چونکہ علاوہ ازیں خداوند تعالی نے اس موضوع کے بارے میں اپنے بندوں سے واضح وعدہ کیا ہے عقلی لحاظ سے بھی یہی بات درست ہے ۔

خداوند تعالی دانا ‘ توانا اور عادل ہے وہ حاسد نہیں کہ اپنے بندوں کو اچھے جہاں سے برے جہاں کی طرف لے جائے اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی تخلیق کا مقصد اسے کمال تک پہنچانا ہے تو ہمیں یہ بات قبول کرنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اسکے کمال میں اضافہ کرتا ہے حتی کہ اگر خدا نے صریحا اور کسی ابہام کے بغیر اپنے بندوں کو موت کے بعد ان کے اچھے اعمال کا اجر دینے کا وعدہ بھی نہ کیا ہوتا اور یہ نہ کہا ہوتا کہ وہ ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوں گے پھر بھی ہماری عقل یہ سمجھتی کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اسے کامل انسان بنانا ہے لہذا اس جہان میں انسان کی زندگی کی حالت اس زندگی کی حالت سے بہتر ہو گی ۔

جابر نے پوچھا ‘ ہمیں اس بات میں کوی تردید نہیں کہ موت کے بعد ہم اپنے آپ کو پہچانیں گے اور اپنی اصلیت کو نہیں کھوئیں گے ۔ جعفر صادق نے جواب دیا اس بات میں کوئی شک نہیں ‘ اور ہر مومن مسلمان جانتا ہے کہ موت کے بعد خاوند تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وقت پر دوبارہ زندہ ہو گا اور اپنے آپ کو پہچان لے گا اسلام نے موت کے بعد دوبارہ زندگی کے بارے میں انسانوں کو گزشتہ مذاہب کی نسبت زیادہ یقین دلایا ہے ۔

مجھے مشرکین سے کوئی غرض نہیں جن کے اس دنیا کے بعد کی زندگی کے بارے میں خوف کے متعلق مثال میں نے تمہیں ارسطو خوس کی زبانی دی ہے لیکن حتی کہ بعض گزشتہ توحید مذاہب میں لوگ موت کے بعد زندگی پر مکمل ایمان نہیں رکھتے تھے ان کا خوف تقریبا ارسطو خوس کے خوف کی مانند تھا ان کا خیال تھا کہ موت کے بعد زندہ تو ہوں گے لیکن اس دوسری زندگی میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکیں گے اور یہ بھی نہیں جان سکیں گے کہ وہی ہیں جو اس دنیا میں کھاتے ‘ پیتے اور سوتے تھے ۔

ان کے مذاہب میں جو باتیں دوسرے جہان میں انسانی زندگی کے بارے میں موجود تھیں وہ ان سے قائل نہیں ہوئے تھے کہ وہ دوسرے جہان میں اپنیحقیقی وجدان کو محفوظ رکھ سکیں گے اور اپنی اس زندگی کی تمام خصوصیات کو یاد رکھ سکیں گے ۔

دنیا اسلام نے اس تشویش کو مومنین کے دلوں سے مکمل طور پر محو کر دیا اور صریحا کسی استثناء کے بعیر کہ اکہ انسان موت کے بعد جس دن خداوند تعالی کے حکم سے زندہ ہو گا اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے گا اور اس دنیا کی اپنی تمام انسانی خصوصیات کو یاد رکھے گا او اس دنیا کی مانند کھانے اور پینے سے لذت اٹھائے گا ۔

خداوند تعالی کے بقول ‘ نہ صرف نیک بندے موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانتے ہیں بلکہ گناہگار بندے بھی اپنی اصلیت سے آگاہ ہوتے ہیں اور اگر وہ اپنی اصلیت پر نہ ہوں تو وہ کیسے اپنی اس دنیا کے اعمال کا حساب دے سکتے ہیں جابر بن حیان نے پوچھا ‘ کیا آپ نے ابھی نہیں کہا کہ ماں کے شکم سے بچے کا باہر نکلنا بھی موت ہے ؟ جعفر صادق نے جواب دیا ‘ میں نے قطعا نہیں کہا کہ بچے کا نکلنا موت ہے بلکہ کہا ہے کہ ماں کے شکم سے بچے کا نکلنا شاید موت کی ایک قسم ہے ۔

جابر بن حیان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا درست ہے آپ نے کہا ہیکہ شاید موت کی ایک قسم ہے لیکن میرا مقصد کچھ اور ہے ۔ جعفر صادق نے پوچھا بولو تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟ جابر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسکے باوجود کہ میں آپ کے بقول ماں کے شکم میں ایک طویل مدت تک رہا ہوں اور میرا ماں کے شکم میں نو ماہ تک رہنا شاید اس دنیا کے ایک آدمی کی عمر کے برابر ہو ‘ اب مجھے اس نو ماہ یا زیادہ کی زندگی سے کوئی چیز یاد نہیں ۔ کیا ماں کے شکم میں میری زندگی کی حالت سے بے خبری اس باتکی دلیل نہیں ہے کہ میں مرنے اور اس جہاں سے چلے جانے کے بعد دوسری دنیا میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا اور نہیں جان سکوں گا کہ میں وہی ہوں جو آج کی مانند ایک دن آپ سے بات چیت کر رہا تھا اسکے بعد جابر نے اس طرح وضاحت کی ‘ چونکہ میں مسلمان ہوں لہذا خداوند تعالی کے فرمان کے مطابق میرا ایمان ہے کہ میں دوسری دنیا میں اپنے آپ کو پہچان لوں گا ۔

لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ اس موضوع پر فلسفے کے نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی جائے اور میں جو ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی کیفیت سے بے خبر ہوں کیسے یقین کروں کہ موت کے بعد دوسری دنیا میں اس دنیا کو یاد رکھ سکوں گا اور اپنے آپ کو پہچان لوں گا ۔

جعفر صادق نے جواب دیا اس سے قبل کہ میں تمہارے سوال کے جواب کی ماہیت سے تمہیں آگاہ کروں تم سے کہتا ہوں کہ قرینے کو دلیل میں گڈمڈ نہ کرو کیونکہ دلیل اور قرینے میں فرق ہے اس طرح کہنا چاہیے کہ چونکہ میں ماں کے شکم میں اپنی زندگی کی حالت سے بے خبر ہوں لہذا یہ موضوع اس بات کا قرینہ ہے کہ موت کے بعد بھی اس دنیا کی زندگی کی حالت سے کوئی چیز مجھے یاد نہیں ہو گی اور میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا ۔ کیونکہ ماں کے شکم میں گزری ہوئی زندگی سے کسی چیز کا یاد نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس دنیا کی حالت بھی یاد نہ ہو لیکن قرینہ ہے ۔ جابر بولا ‘ میرا خیال ہے میں اس قرینے کی رو سے موت کے بعد کی دنیا میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا اور اس دنیا کی زندگی کی خصوصیات کو یاد نہیں کر سکوں گا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ یہ جان لو کہ کافر اس نسبت سے کہ معاد کا منکر ہے یا یہ کہ ایک مسلمان کی مانند معاد کا معتقد نہیں ہے موت سے ڈرتا ہے جبکہ موت کے بارے میں اسے کوئی اطلاع نہیں اور چونکہ وہ موت سے مطلع نہیں لہذا اسے موت سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔ کیونکہ جب انسان ایک چیز کے بارے میں اطلاع نہ رکھتا ہو تو اس کا اس چیز سے ڈرنا عقل سے بعید ہے ۔

جابر نے کہا کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ کافر اسلئے موت سے درتا ہے کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی خوشیوں کو کھود ے گا ؟

جعفر صادق نے فرمایا میں یہی کہنا چاہتا تھا کہ کافر کو ڈر ہوتا ہے کہ موت کے نتیجے میں وہ اس جہاں کی خوشیوں سے محروم ہو جائیگا لیکن مسلمان اس وجہ سے نہیں ڈرتا چونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس جہان کی خوشیوں سے کہیں زیادہ خوشیاں دوسے جہاں میں اسکی منتظر ہیں اور اس دنیا میں اسکی خوشیوں کے مراحل محدود ہیں جبکہ دوسرے جہاں میں لا محدود ہیں اور عقلی لحاظ سے کافر کو موت سے نہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ اس پر موت کے بعد کی زندگی مجہول ہے ۔ لیکن وہ اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتا اور اپنا تصور جو وہ خود پیدا کرنے کیلئے استعمال میں لاتا ہے اس سے وہ موت کے بعد کی زندگی کو بھی سمجھنے میں مدد لے سکتا ہے ۔

مذکورہ تصور کافر کی نگاہ میں مجہولات کو ایک خوفناک صورت میں پیش کرتا ہے اور اسکے باوجود کہ کافر جانتا ہے کہ شروع میں اس دنیا میں نہ تھا اور ماں کے شکم سے اس دنیا میں آیا ہے اور اگر اس جہاں سے جائیگا تو شاید اس طرح ہو کہ وہ کسی دوسری ماں کے شکم میں جائے گا پھر بھی وہ موت سے ڈرتا ہے ۔یہ باتین جو میں کر رہا ہوں وہ موت کو ایک کافر کی نگاہوں کے دریچے سے دیکھنا ہے نہ کہ ایک مسلمان کی نگاہوں سے جو معاد پر ایمان رکھتا اور موت کیلئے تیار رہتاہے ۔

مثال دینے میں کوئی حرج نہیں ‘ اور میں مثال دیتا ہوں کہ اگر کافر کو علم ہوتا کہ اسکی زندگی موت سے شروع ہوتی ہے اور ماں کے پیٹ کی طرف جا رہا ہے اور اس کا مستقبل یہ ہے کہ عمر کے خاتمے کے بعد ماں کے شکم میں جائے گا تو وہ ماں کے شکم میں د وبارہ جانے سے ڈرے گا جس طرح آج موت سے ڈرتا ہے اور ماں کے شکم میں زندگی کے مجمولات اسے خوف سے لاحق کر دیں گے ۔

لیکن تمہار سول کا جواب یہ ہے کیا کبھی اتفاقیہ ایسا ہوا ہے کہ تم بے ہوش ہو گئے ہو ؟ جابر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا میرے ساتھ کبھی نہیں ہوا ۔ جعفر صادق نے سوال کیا ‘ کیا تم خواب دیکھتے ہو ؟ جابر نے جواب دیا بہت سے خواب دیکھتا ہوں جعفر صادق نے اظہار خیال کیا کیا خواب کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو ؟ جابر نے کہا کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے جعفر صادق نے پوچھا ‘ کس کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو کیونکہ تمہیں علم ہے کہ خواب میں تم راستہ نہیں چلتے ‘ جابر نے کہا ‘ میں اپنی روح کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہوں جعفر صادق نے پوچھا کیا تمہارا ایمان ہے کہ یہ تمہاری اپنی روح ہے کسی دوسرے کینہیں ؟ جابر نے کہا اس لحاظ سے مجھے کوئی شک نہیں جعفرصادق نے پوچھ کیا یہ روح جو نقل مکانی کرتی ہے تجھ سے جدا ہوتی ہے یا نہیں ؟

جابر نے جواب دیا مجھ سے جدا ہوتی ہے چونکہ اگر مجھ سے جدا نہ ہوتی تو ہر گز نقل مکانی نہ کر سکتی جعفرصادق نے پوچھا کیا تمہاری روح جو تم سے جدا ہوتی ہے اور نقل مکانی کرتی ہے غذا کھاتی ہے ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ۔ جعفر صادق نے پوچھا کیا پانی پیتی ہے ؟ اور جابر نے پھر مثبت جواب دیا جعفر صادق نے فرمایا کیا جس وقت ہماری روح کھانے اور پینے میں مشغول ہوتی ہے تو تمہارے منہ سے کھاتی ہو گی جابر بولا نہیں چونکہ میرا منہ خواب میں متحرک نہیں ہوتا ۔ جعفر صادق نے پوچھا کیا تمہاری روح کھانے پینے کیلئے اپنا منہ استعمال کرتی ہے ؟ جابر نے جواب د یا نہیں جعفر صادق نے فرمایا ‘ اسکے باوجود کہ اس کا منہ نہیں ہے تم سوتے ہوئے خواب میں غذا کی لذت اور پانی کا مزہ محسوس کرتے ہو ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ۔ جعفر صادق نے فرمایا ‘ جب تم خواب دیکھتے ہو تو تمہاری روح اسکے باوجود کہ اسکے پاؤں نہیں ہیں وہ چلی ہے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک جا پہنچتی ہے اور آنکھ نہیں رکھتی لیکن دیکھتی ہے اسکے کان نہیں لیکن سنتی ہے ‘ اس کا منہ نہیں لیکن وہ غذا کھاتی اور پانی پیتی ہے لہذا تمہاری روح ‘ ایک آزادزندگی کی حامل ہے اور خواب دیکھنے کے دوران تمہاری روح کو زندگی گزارنے کیلئے تمہارے جسم کی کوئی ضرورت نہیں جابر نے کہا لیکن اگر میرا جسم نہ ہو تو میں ہر گز خواب نہیں دیکھ سکتا جعفر صادق نے فرمایا ‘ خواب نہیں دیکھ سکتے مگر تمہاری روح تمہارے جسم کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے یاد رکھو میں نے کہا ہے کہ میں فرض کر رہا ہوں تم مسلمان نہیں ہو اور میں ایک ایسے شخص سے ةکاطب ہوں جو اپنے آپ کو دوسری دنیا میں لے جاتا ہے تم نے کہا ہے کہ اگر تمہارا جسم نہ ہو تو تم خواب نہیں دیکھو گے اور میں نے تمہارے قول کی تصدیق کی ہے اب تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا خواب دیکھنے کے دوران تمہاری روح ایک آزاد زندگی کی حامل ہو جاتی ہے اور جہاں جانا چاہے جاتی ہے اور جو کرنا چاہے کرتی ہے کیا وجود رکھتی ہے یا نہیں ؟ جابر نے کہا ہاں ۔

جعفر صادق نے پوچھا کیا روح کے خواب دیکھنے کے دوران موجود ہونے اور اسکی آزادنہ زندگی میں تمہیں کوئی شک ہے یا نہیں ؟ جابر نے جواب دیا کوئی شک نہیں جعفر صادق نے فرمایا کیا تم فلسفے کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہو کہ جو چیز وجود میں آ تی ہے ‘ ختم نہیں ہوتی ؟

جابر نے جواب دیا ‘ کوئی شک نہیں جعفر صادق نے فرمایا کیا تم فلسفے کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہو کہ جو چیز وجود میں آتی ہے ‘ ختم نہیں ہوتی ؟

جابر نے کہا ہاں میں اس اصول کو تسلیم کرتا ہوں ۔ جعفر صادق نے فرمایا پس تمہاری روح جو خلق ہوئی ہے اور اسکے وجود سے تمہیں انکار نہیں تمہاری موت کے بعد ختم نہیں ہو گیا ور جو کچھ تم جانتے ہو وہی تمہاری روح ہے لہذا تم بھی باقی رہو گے اور موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانوں گے جابر نے کہا مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ میری روح خواب دیکھنے کے دوران موجود ہوتی ہے لیکن روح کا وجود تابع ہے ‘ انفرادی اور آزادی نہیں ‘ چونکہ اگر میرا جسم نہ ہو تو میں خواب نہیں دیکھ سکتا اور اگر خواب نہ دیکھو تو میری روح جو مجرد اور آزاد زندگی کی حامل ہے میں اسے مشاہدہ نہیں کر سکتا جعفر صادق نے فرمایا جب سورج کی دھوپ تمہارے جسم کی حامل ہے اور تمہارا سایہ زمین پر پڑتا ہے تو کیا یہ سایہ مرہون منت ہے یا نہیں ؟ جابر نے کہا بے شک مرہین منت ہے ۔

جعفر صاد ق نے پوچھا ‘ کس چیز کا مرحون منت ہے جابر نے جواب دیا دو چیزوں کا پہلی سورج کی روشنی اور دوسری خود میرا وجود اور ان دو کے بغیر سایہ وجود میں نہیں آتا ۔ جعفر صادق نے فرمایا فلسفہ کے اصول کے مطابق تمہارا سایہ بھی جو زمین پر پڑتا ہے اور سورج کے غروبہونے کے بعد بظاہر ختم ہو جاتا ہے وہ بھی ختم نہیں ہوتا تو پھر تمہاری روح کیسے ختم ہو گی اگرچہ وہ مرہون منت ہی کیوں نہ ہو اور انحصاری زندگی کی حامل ہی کیوں نہ ہو ۔

جابر نے پوچھا ‘ خداوند تعالی نے کس لئے مقرر کیا کہ ہم ایک مدت تک ماں کے شکم میں زندگی گزاریں اور پھر ایک عرصے تک اس جہاں میں زندگی گزارنے کے بعد مر جائیں تاکہ ہمیں ایک بہتر زندگی کی جانب منتقل کیا جائے اور جس طرح آپ نے کہا ہے کہ خداوند تعالی کو کسی سے کینہ اور حسد نہیں جو وہ ہمیں برے جہاں کی طرف منتقل کرے ۔

اس سوال کے پوچھنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ کیا یہ زیادہ آسان اور بہتر نہ تھا کہ خدا شروع ہی سے ہمیں بہتر دنیا میں یعنی وہ دنیا جس میں ہم موت کے بعد پہنچیں گے ‘ اسی میں خلق کر دیتا اور ہم اس دنیا میں زندگی کے مراحل طے نہ کرتے ؟ جعفر صاد ق نے فرمایا ایک مسلمان کیلئے یہ مسئلہ حل شدہ ہے چونکہ ایک مسلمان جانتا ہے کہ آدم کا مکان بہشت میں تھا اور انہیں بظاہر ہوس کی پیروی کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا اور اسے زمینی زندگی کے تقاضے پورے کرنے پڑے ۔ ماں کے شکم میں زندگی گزارنے کے مراحل اور اس دنیا میں زندگی اور موت کے مراحل کو اسے طے کرنا چاہیے تاکہ اگر نیکو کار ہو تو پہلی جگہ واپس چلا جائے گا یعنی بہشت میں اپنا مقام بنا لے اور اگر گناہگار ہو تو ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی سزا پائے ۔

لیکن اگر میں ایک ایسے انسان سے بات کروں جو مسلمان نہیں ہے تو وہاں پر مجھے اس کا مذہب جاننا چاہیے ؟ اگر یہودی یا نصرانی ہو تو اس کا بھی عقیدہ ہے کہ آدمی شروع میں بہشت میں تھا اور وہاں سے نکالا گیا اور جو مراحل اس جہان میں طے کر رہا ہے وہ اسکے پاک و طاہر ہونے کیلئے ہیں تاکہ وہ اس قابل ہو سکے کہ بہشت میں قدیم رکھ سکے ۔

اگر مجھ سے مخاطب شخص کسی ایک توحید مذہب پر ایمان نہ رکھتا ہو تو میں اسے کہوں گا کہ اگر وہ میرے خدا پر ایمان رکھتا ہے تو یہ سوال مجھ سے کرے اور اگر ایمان نہیں رکھتا تو کس لئے پوچھتا ہے کہ کیوں خداوند تعالی نے شروع میں انسان کو بہتر دنیا میں جگہ نہ دی اور چند مراحل طے کرنے پر لگادیا تاکہ وہ ان مراحل کو طے کرنے کے بعد بہتر دنیا تک پہنچے اگر مجھ سے سوال کرنے والا شخص لادین اور مجھ سے خداوند تعالی کی حکمت کو سننا چاہے تو میں اسے کہوں گا کہ خداوند تعالی کا انسان کو مختلف مراحل سے گزارنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر مرحلے میں پہلے مرحلے سے زیادہ پاک و طاہر ہو کہ کامل بن جائے یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کی نیک بخت دنیا میں داخل ہونے کے قابل ہو جائے اور اسے یہ بھی کہوں گا کہ خدائے دانا اور وانا اس سے کہیں بڑاہے کہ آدمی کو گوناں گوں مراحل سے اسلئے گارے تاکہ آدمی پہلے سے بھی زیادہ بد بخت بن جائے لہذا دانا و توانا کا حتمی مقصد یہ ہے کہ انسان نیک بختی حاصل کر لے جابر نے کہا ‘ میرا ایک اور سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند تعالی کو انسان کو خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور کیا س بات کا امکان نہ تھا کہ خداوند تعالی انسان کو خلق کرنے سے اہتراز کرتا ۔ جعفر صادق نے جواب دیا ایک مسلمان جانتا ہے کہ خداوند تعالی نے انسان کو اسلئے پیدا کیاہے کہ اس سے خود اس کو متعارف کرائے یعنی انسان اپنے وجود کی شناخت کرے اور ایک مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند تعالی نے انسان کو جو سب سے بڑی نعمت عطا کی ہے وہ اس کا خلق کرنا ہے جابر نے کہ فرض کیا آپ ایک ایسے شخص سے گفتگو کر رہے ہیں جو مسلمان نہیں ہے تو پھر آپ انسان کو خداوند تعالی کی طرف سے خلق کرنے کی کیسے توجیہ کریں گے ؟

جعفر صادق نے فرمایا میرا اپنا ایمان ہے کہ خداوند تعالی کی طرف سے انسان کی تخلیق اور مجموعی طور پر جو کچھ وجود میں آیا ہے اس کا وجود میں آنا خداوند تعالی کے کرم کی بنا پر ہے اور خداوند تعالی نے اس دنیا کی مخلوقات کو اسلئے خلق کیا کہ وہ چاہتا ہے تمام مخلوقات اپنے آپ کو پہچانے اور میں صاحب امان ہوں ‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اپنے آپ کو نہ پہچانتی ہو خواہ وہ جمادات میں ہی کیوں شمار نہ ہوتی ہو ۔

میری نظر میں اس جہاں کی تخلیق کا سبب خداوند تعالی کے کرم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے چونکہ بے نیاز خدا نہ مادیا ور نہ ہی روحانی لحاظ سے دنیا کو وجود میں لانے کا محتاج تھا قدیم یونانی کہتے تھے کہ چونکہ خدا تنہائی کا احساس کرتے تھے لہذا انہوں نے کائنات کو تخلیق کیا تاکہ اکیلے نہ ہوں لیکن یونانی خدا ‘ خدا نہ تھے اور اگر خدا ہوتے تو انہیں تنہائی کا احساس نہ ہوتا کہ انہیں کائنات کو خلق کرنے کی ضرورت پڑتی کیونکہ جو ضرورت کا احساس کرے وہ خدا نہیں ہے ۔ جابر نے پوچھا اگر آپ کسی ایسے شخص سے گفتگو کر رہے ہوں جو یہ بات تسلیم نہ کرے کہ خداوند تعالی نے انسان اور مجموعی طور پر دنیا کو اپنے کرمس ے خلق کیا ہے تاکہ مخلوقات اپنے آپ کو پہچانے تو کائنات کے وجود میں آنے کی آپ کیا توجیہ بیان کریں گے ؟

جعفر صادق نے فرمایا اگر اس نے میری بات تسلیم نہ کی تو میں دنیا کے وجود میں آنے کو کسی دوسری طرح توجیہ نہیں کروں گا اور اسے کہوں گا کہ میرا نظریہ یہی ہے وہ اسے مانے یا نہ مانے ۔

جابر نے پوچھا ‘ آپ جو فرماتے ہیں کہ خداوند تعالی نے اپنے کرمس ے جہاں کو جس میں انسان شامل ہے ‘ تخلیق کیا ہے کیا آپ یہ بات مذہبی عقیدت کی رو سے کہتے ہیں یا یہ کہ اسے ایک حقیقت سمجھتے ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا جابر کیا تو مجھے ایسا انسان خیال کرتا ہے کہ اگر میں کسی چیز کو حقیقت نہ سمجھوں تو اس پر ایمان لے آؤں گا ؟ جابر نے کہا میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا یہ آپ کا عقیدہ ہے کہ خداوند تعالی نے اپنے کرم سے جہاں کو خلق کیا ہے یا حقیقت بھی یہی ہے ۔ دنیا کی تخلیق میں خدا کی مشیت ہے اور خدا کی مشیت کے بارے میں ہم اسکے بندے شاید اور نظریہ رکھتے ہوں اور کود خداوند تعالی کا دوسرا نظریہ ہو ۔ ہم اپنے بشری عقل کے دریچے سے خدا کی مشیتوں کے سبب کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں اور ہماری کدائی مشنری تک کوئی رسائی نہیں کہ ہمیں علم ہو سکے کہ جو کچھ ہماری عقل کہتی ہے وہ خدائی مشینیری کی عقل کے مطابق ہے یا نہیں ؟

جعفر صادق نے فرمایا میں جانتا ہوں ‘ تم کیا کہنا چاہتے ہوں تم کہتے ہو کہ میرا عقیدہ ہے کہ خداوند تعالی نے اپنے کرم سے جہاں کو خلق کیا اور یہ بات میں انے ایمان سے کہتا ہوں ممکن ہے کائنات کی تخلیق کی وجہ خداوند تعالی کی مشینیری میں کوئی اور ہو ؟ جابر نے کہا ‘ میرا مقصد یہی ہے ‘ جعفر صادق نے فرمایا ‘ اس ضمن میں میں تمہیں یا کسی اور کو کوئی چیز نہیں بتا سکتا کیونکہ میں ایک انسان ہوں اور انسان کو تخلیق کے اسباب کے سبب سے واقف ہونے کے لحاظ سے خداوند تعالی کی مشینری تک رسائی نہیں ‘ جابر نے پوچھا کیا آپ نے خلقت کے بارے میں جس نظرئے کا اظہار کیا ہے اسکے علاوہ کوئی دوسرا نظریہ پیش کر سکتے ہیں ؟ جعفر صادق نے منفی جواب دیا اور کہا میں جس چیز پر ایمان رکھتا ہوں اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔

یہ میرا ایمان ہے اور اس میں مجھے کوئی شک و شبہ نہیں اور اگر تمہارے بقول کائنات اور انسان کی تخلیق کا سبب اسکے علاوہ کچھ ہو تو چونکہ وہ اسرار الہی سے ہے لہذا مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں جابر نے پوچھا ۔ موت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا موت کا مفہوم بالکل ختم ہو جانا نہیں بلکہ اس کا مفہوم ایک حالت کی تبدیلی ہے جابر نے پوچھا کیا آپ موت کو تکلیف دہ سمجھتے ہیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا نہیں اے جابر ‘ موت تکلیف دہ نہیں ہے ‘ جابر نے پوچھا ‘ پس انسان کیوں بیماری وغیرہ کے درد سے تکلیف اٹھاتا ہے اور چوٹیں و زخم درد کا سبب کیوں بنتے ہیں ؟

جعفر صادق نے فرمایا یہ تمام درد زندگی سے متعلق ہیں اور آدمی جس وقت تک زندہ ہے بیماری یا چوٹ وغیرہ کے نتیجے میں تکالیف اٹھاتا ہے اور جس لمحے روح جسم سے جدا ہوتی ہے اور موت آ پہنچتی ہے تو انسان موت کا درد محسوس نہیں کرتا ۔