مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43389
ڈاؤنلوڈ: 4106

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43389 / ڈاؤنلوڈ: 4106
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

ستاروں کے بارے میں جابر کے استفسارات

جابر نے جعفر صادق سے پوچھا ‘ یہ روشن ستارے جو مسلسل متحرک ہیں اور ان میں بعض کو ہم معین فاصلوں تک دیکھتے ہیں یہ کیا ہیں ؟ اور کیوں حتی کہ ایک دن کیلئے ہی سہی رکتے نہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا آسمان کا ہر ستارہ ایک دنیا ہے اور ان سب ستاروں کے مجموعے سے ایک بڑا جہاں تشکیل پاتا ہے ۔ ستاروں کی دائمی حرکت اسلئے ہے تاکہ یہ سقوط نہ کریں اور گر نہ پڑیں اور دنیا کا ڈسپلن ختم نہ ہو جائے اور یہ حرکت وہی حرکت ہے جس سے زندگی وجود میں آتی ہے ‘ یا یہ کہ خود حرکت زندگی ہے اور جب حرکت رک جاتی ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن خداوند تعالی نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ حرکت کسی وقت بھی نہیں رکتی یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور زندگی کی بقا بھی مخلوقات کے فائدے میں ہے کداوند تعالی کے کرم ہی سے جاری و ساری رہتی ہے ۔

خداوند تعالی بے نیاز ہے اسے اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کائنات میں مسلسل حرکت ہوتی رہے اور اسکے نتیجے میں زندگی موجود رہے حرکت اور اسکے نتیجے میں زندگی ایک نعمت ہے جو خدا وند تعالی کی طرف سے مخلوقات کو عطا کی گئی ہے اور جب تک خداوند تعالی نے مقرر کر دیا ہے حرکت اور زندگی جاری رہے گی جابر نے پوچھا ‘ خلا میں ستاروں کی شکل کیسی ہے ؟

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ آسمان کے بعض ستارے جامد اجرام ہیں اور بعض دوسرے مایع اجرام ہیں اور آسمانی ستاروں کا ایک حصہ بخارات سے وجود میں آیا ہے ۔

جابر بن حیان نے تعجب سے پوچھا یہ بات کس طرح قبول کی جا سکتی ہے کہ آسمان کے ستارے بخارات سے وجود میں آئے ہوں کیا یہ بات ممکن ہے کہ بخارات اس قدر چمکیلے ہوں جس طرح رات کو یہ ستارے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں جعفر صادق نے فرمایا ‘ تمام ستارے بخارات سے تشکیل نہیں پاتے لیکن وہ ستارے جو بخارات سے تشکیل پاتے ہیں گرم ہیں اور ان کی زیادہ گرمی ان کی چمک کا سبب ہے اور میرا خیال ہے کہ سورج بھی بخارات سے بنا ہے ۔

جابر نے پوچھا ‘ ستاروں کی حرکت کیسے ان کے سقوط میں مانع ہے جعفر صادق نے جواب دیا ‘ کیا تم نے ایک چرخی کو جس میں پتھر ہو کبھی گھمایاہے ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ‘ جعفر صادق نے اظہار خیال کیا‘ کیا چرخی کو گھمانے کے دوران اچانک ساکن کیا ہے ؟

جابر نے جواب دیا ‘ میں نے سکان نہیں کیا۔ جعفر صادق نے فرمایا اگر پھر کبھی چرخی کو گھماؤ تو ایک مرتبہ اسے روکنا تاکہ پتہ چل سکے کہ کای ہوتا ہے اور چرخی کے رکنے کے بعد وہ گر پڑتی ہے جو تپھر اس میں لگا ہوتا ہے وہ زمین پر گر پڑتا ہے ور یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ اگر سیارے مسلسل حرکت نہ کر رہیہوں تو سقطو کر جائیں ۔

جابر نے کہا ‘ آ نے فرمایا ہے کہ تاروں میں سے ہر ایک ایک دنیا ہے ۔

جعفر صادق نے تصدیق فرمائی ‘ جابر نے پوچھا ‘ کیا انسان ان جہانوں میں ہمارے جان کی امند موجود ہے ؟جعفر صاد ق نے فرمایا ‘ انسان کیبارے میں ‘ میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس دنیا کے علاوہ دوسرے جہانوں میں بھی موجود ہے یا نہیں ؟ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے سیاروں میں مخلوقات موجودہیں ور ان ستاروں کے دور ہونیکی وجہ سے ہم ان مخلوقات کو نہیں دیکھ پائے ۔

جابر نے پوچھا ‘ آپ کے پاس کی دلیل ہے کہ دوسری سیاروں میں مخلوق موجود ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا اللہ تعالی کے بقول ‘ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں انسان کے ذکر کے ساتھ جن کا ذکر بھی کیا ہے اور جن ایسی مخلوق ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی۔ یعنی ہم انہیں نہیں دیکھ پاتے وگرنہ خداوند تعالی سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ تمام مخلوقات کو دیکھتا ہے اور جن جو شاید دوسرے جہانوں میں رہے رہے ہیں ہم انسانوں کی مانند ہیں یا ہم سے برتر انسانوں جیسے ہیں جابر نے پوچھا ہم سے برتر انسانوں سے آپ کی مراد کیا ہے؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ شاید وہ ایسے انسان ہیں جو ہامرے جیسی دنیا میں زندگی گزاریں گے جنہیں ہم راتوں کو دیکھتے ہیں ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں تمہیں نہیں بتا سکتا کہ موت کی نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہماری جگہ کہاں ہو گی اور شاید ہماری جگہ اسی دنیامیں ہو جس میں ہم رہ رہے ہیں اور خدا کیلئے کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنے نیکو کار بندوں کیلئے جنت اور گنہاگاروں کیلئے دوذخ وجود میں لائے یا یہ کہ اسنان کے موت سے بیدار ہونے کے بعد اسے دوسرے جہاں میں جگہ دے ۔

جابر نے کہا کیا خداوند تعالی کو علم ہے کہ موت سے بیدار ہونے کے بعد آئندہ ہمارا ٹھکانا کہاں ہے ؟ یا یہ کہ ہمیں زندہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے گا کہ کونسی جگہ میں نیکوکاروں کو رکھے اور کونسی جگہ گنہگاروں کیلئے مخصوص کرے ۔

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ خداوند تعالی از اور ابدی ہے ( یعنی نہ تو وجود میں آیا ور نہ اس کی انتہا ہے ) وہ دانا اور توانائے مطلق ہے اس کیلئے ماضی اور مستقل نہیں ہے جو کجھ گزر چکا اور جو کچھ ہونا ہے اس پر واضح ہے ۔

کائنات میں کوئی ایسا واقعہ نہیں جس سے خداوند تعالی پہلے سے مطلع نہ ہو اور اس کا حکم صادر نہ کر چکا ہو کہ وہ واقعہ فلاں معین وقت میں وقوع پذیر ہو گا ۔ اگر ایسا ہوتا کہ کائنات میں دور مستقبل میں ایک ایسا واقعہ رونما ہونا ہوتا جس کے انعقاد کا خداوند تعالی کو علم نہ ہوتا اور وہ پھر خدا نہ کہلاتا بلکہ وہ واقعہ جو خداوند تعالی کی پیش گوئی اور اسکے عرفان کے بغیر وقوع پذیر ہوتا وہ خدا کہلاتا چونکہ اس واقعے نے اپنے آپ کو خدا کے علم اور توانائی کے تسلط سے نجات دلائی ہے تو لا محالہ وہ خداوند تعالی سے زیادہ علام اور توانا ہے لہذا وہ خدا کہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ خداوند تعالی انسان کی موت سے پہلے ہی آگاہ ہے کہ وہ جب انسان کو دوابرہ زندہ کرے گا تو اس کو کہاں ٹھکانہ مہیا کرے گا بلکہ پہلے لمحے ہی جب اس نے آدم کو خلق کیا تھا تو وہ اس بات سے واقف تھا جابر نے کہا یہ جو آپ فرما رہے ہیں اس نے مجھے ورطئہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

جعفر صادق نے فرمایا کس بات نے ؟ جابر نے کہا اپ فرماتے ہیں کہ خداوند تعالی نے پہلے ہی لمحے تمام چیزوں کی پیشگوی کر دی ہے اور جو اقعات کائنات میں رونما ہونا تھے ان کے واقع پذیر ہونے کا زمانہ معین کر دیا ہے جعفر صادق نے فرمایا ‘ ازلی اور ابدی ہونے کے معنی بھی یہی ہیں اور داناو توانا ہونے کا مطلب بھی یہی ہے ۔

جابر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وجہ سے خداوند تعالی نے تمام چیزوں کی پیشگوئی کر دی ہے اور جو حکم صادر کرنا تھا ‘ صادر کر دیا ہے تو اس طرح اس نے ہر قسم کے فیصلے اقدام اور جدید ارادے کو اپنے آپ سے چھین لیا ہے اور جب تک وہ ہے ہاتھ پرہاتھ دھرا بیٹھا رہے گا چونکہ اس کا کوئی کام نہیں جو کچھ اس نے کرنا تھا ‘ کر دیا ہے اور جو پیش گوئی اس نے کرنا تھی کر دی ہے جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر تم نے مجھ سے ایسا سوال کر دیا ہے جو انسانی فہم کے ادراک سے باہر ہی چونکہ انسان خداوند تعالی کے ازلی ‘ ابدی اور دانائی اور توانائی مطلق کے پہلو کو سمجھنے سے قاصر ہے اور ان حقائق سے آگاہ نہیں لہذا وہ اس وسوسے کا شکار ہو جاتا ہے کہ چونکہ خداوند تعالی نے تمام چیزوں کی پیش گوئی کر دی اور جو کچھ انجام دینا تھا انجام دے دیا ہے ‘ اس بنا پر لا محدود وسعت اور ابدی موجودگی کے باوجود اسکے پاس کرنے کیلئے کوئی کام نہیں اے جابر کیا تم سوچ سکتے ہو کہ خداوند تعالی کے ازلی اور ابدی ہونے کی مدت کتنی ہے ؟ جابر نے کہا ‘ کیا دس ہزار سال سے زیادہ ہے جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے جابر ‘ جابر نے پوچھا کیا پچاس ہزار سال سے زیادہ ہے ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ ہاں اے جابر ‘ جابر نے پوچھا کیا ایک لاکھ پچاس ہزار سال سے زیادہ ہے ؟ جعفر صادق نے مثبت جواب دیا ۔ جابر نے کہا ‘ میری سوچ اس سے زیادہ آگے نہیں جاتی ۔ جعفر صادق نے فرمایا اے جابر تو ایک لاکھ پچاس ہزار سال سے بھی بڑی رقم بول سکتا ہے تو ازل اور ابد کے درمیانی فاصلے کا اپنی فکری قوت سے اندازہ لگا سکتا ہے لیکن میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ جب ازلی اور ابدی کی گفتگو ہوتی ہے تو انسانی سوچ اس بات کو درک نہیں کر سکتی کہ ازل کب سے شروع ہو اہے اور ابد کب تک جاری رہے گا از ل کی ابتدا اور ابد کی انتہا کے درمیانی فاصلے کا حساب لگانا انسانی فکر اور حساب کی قوت کے بس کا روگ نہیں ۔

میں تمہیں اتنا ہی بتاتا ہوں کہ اگر میں اور تم مزید ایک سو سال تک زندہ رہتے اور اس تمام عرصے میں ہر لمحے سالوں کی تعداد کو دو گنا بڑھاتے جاتے پھر بھی ایک سو سال بعد جو عدد ہمیں میسر آتا وہ ازل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیانی فاصلے سے کم ہوتا ۔

جابر نے کہا ‘ کیا اس تمام عصرے میں خداوندتعالی جس نے تمام کامون کو انجام دے دیا ہے اس کا کوی کام نہیں اور اس نے اپنے آپ کو بیکاری کا شکار بنا لیا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر ‘ میں نے جو تم سے کہا ہے کہ ازل اور ابد کے درمیانی فاصلے کو اپنی قوت فکر سے ناپو ‘ اور اپنی قوت فکر سے اس کا تعین کرو اس سے میری مراد کچھ اور تھی ۔ جابر نے پوچھا ‘ کیا کہنا چاہتے تھے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو ازل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیانی موجودہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصے کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے ۔جابر اس بات سے حیران ہو گیا جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو از ل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیان موجود ہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصی کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے ۔

جابر اس بات سے حیران ہو گیا ۔ جعفر صادق نے پوچھا ‘ کیا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے سمجھ رہے ہو ؟ جابر نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو فاصلہ ازل اور ابد کے درمیان سے خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے جعفر صادق نے فرمایا ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں اور یہ اس لئے خدوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے کہ وہ زمانے کے گزرنے کا تابع نہیں اور چونکہ ہم بھی موت کی بعد زمانے کے گزرنے کے تابع نہیں ہوں گے لہذا زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔ اور اگر خداوند تعالی ہزار سال یا دس ہزار سال بعد ہمیں زندہ کرے تو ہم نیند سے بیدار ہونے کے بعد یہی خیال کریں گے کہ ہم ایک لمحہ سوئے رہے کیونکہ موت کی حالت میں زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔

اس بان پر تمہارا یہ اععتراض درستہے جو اس امر پر مبنی ہے کہ چونکہ خداوند تعالی نے جو کام کرنا تھا کر دیا ہے تو جب تک موجود رہے گا اس نے اپنے آپ کو بیکاری میں مبتلا کر دیا ہے اور جو کچھ تمہارای اور میری نظر میں لاکھون سال کا زمانہ ہے (یہ میں اسلئے کہتا ہوں کہ عدد کا ذکر ضروری ہے وگر نہ از اور ابد کے درمیانی فاصلے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ) خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے اور اس لمحے میں بھی کام میں مشغول اور تازہ ہے ایک ایسا وجود جو ازلی اور ابدی ہے اسکے لئے کام کا مسئلہ کام کی مانند ہمارے لئے واضح نہیں ہیہماری زندگی میں کام کا مسئلہ روحانی یا مادی ضرورت کے پیش نظر ہے ۔

بنی نوع انسان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے ور اگر اس لحاظ سے اسے کام کرنے کی ضرورت نہ ہو تو روحانی ضرورت کے تحت اسے علم حاصل کرنے کیلئے کام کرنا پرتا ہیا ور اس بات سے آگاہ ہے کہ اگر مکمل طور پر بیکار ہو جائے تو اس قدر تنگ آ جائیگا کہ اسکے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائیگا یہی اندیشہ ہے جو امراء کو شکار کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ ان کی بیکاری انہیں زندگی سے اس قدر بیزار کر سکتی ہے کہ وہ زندگی سے سیر ہو جائیں ۔ لیکن وہ لوگ جو تلاش معاش کیلئے سر گرم رہتے ہیں یا تحصیل علم میں مشعول رہتے ہیں ہر گز بیکاری کا شکار نہیں ہوتے ۔

خالق کائنات ازلی اور ابدی ‘ دانا اور توانائے مطلق ہونے کے لحاظ سے اس طرح کی کسی ضرورت کا محتاج نہیں ہے اگر کوی کہے کہ خداوند تعالی کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو یہ کفر ہے اور اگر کبھی العیاذ باللہ خدا کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ خدا نہیں ہے پھر جس چیز کی اسے ضرورت ہو گی وہ اسکی جگہ لیکر خد ہو جائے گی ۔ پس اے جابر ‘ جب ہم خداوند تعالی کے کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم اسے اپنی عقل کی حدود میں محدود کر دیتے ہیں اور اپنی عقل کی جانب سے اسکے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ۔ خداوند تعالی کا کام کرنا ‘ ہمارے کام کرنے کی مانند نہیں ہے وہ جو دانا و توانائے مطلق اور ازلی و ابدی ہے اس کا کام کرنا ہمارے کام کرنے کی مانند ہے نہیں کیونکہ ہمارے تمام کام جس صورت میں بھی ہوں ضرورت کے تحت ہیں ہمارا ایسا کوئی کام نہیں جو مادی یا روحانی ضرورت کے پیش نظر نہ ہو ۔

چونکہ ہماری عقل اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ خداوند تعالی کے کام کس نوعیت کے ہیں تو ناگزیر اسکے کاموں کو انسانی کام کی مانند خیال کرتے ہیں اور چونکہ آدمی کام ختم ہونے کے بعد اگر ایک لمبی مدت بیکار پڑا رہے تو بیمار پڑ جاتا ہے اور تمہارا خیال ہے چونکہ خداوند تعالی نے تمام کام انجام دے دئے ہیں لہذا اب وہ بیکار رہ رہ کر بیمار پڑ جائیگا ۔

جابر نے کہا ‘ ہم موت کے بعد خداوند تعالی کو آج سے بہتر طور پر پہچان سکیں گے ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کے بعد انسان جب زندہ ہو گا تو آج سے بہتر کامل انسان بن چکا ہو گا کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خداوند جو بڑی عظمت و کرم کژا مالک ہے بنی نوع انسان کو اسلئے نہیں مارتا کہ اسکی زندگی کو بد تر بنائے بلکہ موت بنی نوعی انسان کی تکمیل کے مراحل میں سے ایک اور اونچے مرحلے تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ جابر نے پوچھا کیا موت کے بعد ہم خدا کو دیکھ سکیں گے ؟ مجھے معلوم ہے کہ موسی نے کوہ طور پر خداوند تعالی سے چاہا کہ اسے دیکھے اور خدا نے اسکے جواب میں فرمایا ‘ اے موسی تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے ۔ لیکن ہم مسلمان ہیں اور ہمیں دوسری قوموں پر فضیلت حاصل ہے کیا اس فضیلت کے باوجود خداوند تعالی کو نہیں دیکھ سکیں گے ؟

جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر ‘ موت کے بعد اسکے باوجود کہ ہم مسلمان ہیں خد کو نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ خدا کا جسم نہیں کہ ہم اسے دیکھ سکیں ہماری آنکھیں ایسی چیز کو نہیں دیکھ سکتیں جس کا جسم نہ ہو اور جس پر روشنی نہ پرتی ہو ۔

ہماری آنکھیں حتی کہ تاریکی میں بھی چیزوں کو دیکھنے پر قادر نہیں تو تم کس طرح اس بات کے امیدوار ہو کہ انہی آنکھوں سے خدا وند تعالی کو دیکھ سکو گے جس کا جسم نہیں ہے ۔ لیکن اگر خداوند تعالی کو دیکھنے سے مراد اسے دل کی انکھوں سے دیکھنا ہے یعنی خدا کی معرفت ‘ تو اس طرح تم موت سے قبل بھی اس کو اس دنیا میں دیکھ سکتے ہو ۔

جابر نے کہا ‘ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالی خود کو کس لئے مخلوقات کو نہیں دکھانا چاہتا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ یہ اسکی اپنی مشیت ہے اور ہم اس ضمن میں اظہار خیال نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند تعالی کیوں اپنے آپ کو مخلوقات کو نہیں دکھاتا ۔ لیکن چونکہ ہم خدا کو نہیں دیکھتے لہذا اسکو دیکھنے کی بڑی تڑپ رکھتے ہیں ۔جابر نے پوچھا میں آپ کی بات کو نہیں سمجھ سکا ‘ خداکو نہ دیکھ سکنا کیسے اس بات کا سبب ہے کہ ہم اسکے دیکھنے کی تڑپ رکھتے ہیں جعفر صادق نے وضاحت فرمائی اگر ہم خدا کو دیکھ سکتے تو چونکہ ہم اسے محدود کرتے اور اس کی ہستی تک پہنچ جاتی تو اس سے مایوس ہو جاتے ۔ جابر نے سوال کیا ‘ اگر اسے دیکھتے تو محدود کر دیتے ۔

جعفرصادق نے مثبت جواب دیا ور فرمایا اجسام کو دیکھنا انہیں محدود کر دنا ہے اور اگر انہیں محدود نہ کریں تو انہیں چاروں اطراف سے نہیں دیکھ سکتے ۔

حتی کہ اگر خدا کی ہستی کی معرفت حاصل نہ بھی کر سکیں تو بھی جتنا اسے دیکھ لیں گے اتنا ہی اس سے مایوس ہو جائیں گے کیونکہ اسے محدود کر دیں گے اور چونکہ وہ ہماری طرف سے محدود ہو جائے گا اور ہم مزید اسے لا محدود نہیں سمجھیں گے اس طرح ہم آخری نجات کے لحاظ سے اس سے مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اگرچہ اس وقت تک اس کی ہستی کی معرفت حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ چونکہ ہم سوچیں گے کہ خدا خود محدود ہے اور اس نے ہمیں بھی محدود خلق کیا ہے اور ہم ہمیشہ کی ژندگی اور سرمدی نجات کے امیدار نہیں ہو سکیں گے ۔ اور سوچیں گے کہ جو خدا محدود ہے ہمیں کیسے لا محدود پیدا کر سکتا ہے کیونکہ محدود خالق لا محدود مخلوق کو خلق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اگر خدا کو دیکھنے کے بعد اس کی ہستی کی معرفت حاصل کریں تو زیادہ مایوس ہو جائیں گے جابر نے پوچھا ہمیں کونسی چیزخداکی ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد زیادہ مایوس کرے گی ؟

جعفر صادق نے فرمایا جب ہم اس کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے اور جیسا وہ ہے ویسے اسے پہچان لیں گے تو وہ ہماری نظر میں چھوٹا ہو جائے گا ۔ چونکہ ہم ان دکھے اور واحد خدا کے بارے میں بلند تفکرات رکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اس قدر بڑا ہے کہ اگر ہماری موجود عقل کئی گناہ زیادہ طاقتور بھی ہو جائے تو پھربھی ہم اس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ۔ یہ موضوع ہمیں امیدوار اور متلاشی رکھتا ہے اور ہمیں امید بندھی رہتی ہے کہ خداوند تعالی جو لا محدود اور بے پایاں ہے اس نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور چونکہ توانا اور بے نیاز ہے اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں ا ور ہمیں صرف اپنے کرم کی رو سے پیدا کی اہے لہذا ہمیں ہمیشہ کی سعادت عطا فرمائے گا ۔ لیکن جب ہم خدا کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے تو اپنے آپ سے کہیں گے کہ خدا اتنا چھوٹا ہے کہ ہماری چھوٹی سی اورمحدود عقل میں سما گیا ہے ۔

یہ باتں جو میں تمہیں بت رہا ہوں ‘ اصول دین کی رو سے نہیں بلکہ فلسفے کی رو سے بتا رہا ہو ں ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مسلمان نہ ہو تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارا خداوند تعالی کو نہ دیکھنا اسے دیکھنے سے بہتر ہے کیونکہ اگر اسے دیکھ کر فضا میں محدود کر لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے بھی ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا پس بہتر یہی ہے کہ ہم اسے نہ دیکھیں ۔

جابر نے کہا ‘ میں آپ کے اس فرمان سے متفق نہیں ہوں اور میرا خیال ہے جب ہم خدا کی ہستی کا کھوج لگا لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے ہماری نظر میں بڑا ہو جائے گا اور میرے اس قول کی میرے پاس دلیل بھی ہے میری دلیل یہ ہے کہ جس وقت میں شہر کی بازار میں ایک شخص کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ میری نظر میں دوسرے راہ گزر لوگوں سے مختلف نہیں ہوتا ‘ ممکن ہے وہ اپنے دائیں یا بائیں طرف سے گزرنے والے لوگوں سے زیادہ بلند قامت اور موٹا ہو لیکن میری نظر میں روحانی لحاظ سے وہ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہے ۔

لیکن اگر میں اس شخص کو کسی محفل میں دیکھتا ہوں اور مجھے پتہ چلتاہے کہ وہ فقیہ ہے تو میں ا سکے قریب جا کر اس سے فقہ کا مسئلہ دریافت کروں گا ‘ یوں جب میں نے اس کی گفتگو سنی اور میں سمجھ گیا کہ وہ شخص عالم ہے تو میں اس کی شخصیت تک رسائی حاصل کروں گا تو پھر وہ شخص میری نظر میں پہلے سے کہیں عظیم ہو جائے گا ۔

ب کبھی میں تیسرے ‘ چوتھے ‘ پانچویں اور چھٹے دن اس کے ہاں جاؤں گا اور ہر دن اس سے مسئلہ دریافت کروں گا اور وہ مجھے جواب دے گا تو میں اس کا زیادہ احترام کرنے لگے جاؤں گا کیونکہ میں سمجھ جاؤں گا کہ وہ شخص عالم ہے ۔ اس بنا پر اگر ہم خدا کی ہستی کی کما حقہ معرفت حاصل کر لیں تو ہماری نظر میں اس کے احترام کا احساس زیادہ بڑھ جائے گا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ وہ شخص جس کے پاس تم ہر روز جا کر اس سے مسئلہ دریافت کرو گے وہ تمہارے جیسا انسان ہو گا اگرچہ اس کی فہم و فراست تمہاری فہم و فراست سے زیادہ ہو گی لیکن اس کی فہم و عقل ایک انسان کی فہم و عقل سے زیادہ نہیں ہو گی اور تمہارے مسائل کا جواب دینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دوسرے تمام انسانوں سے برتر ہے اور سب کچھ جانتا ہے اسی شخص کو اگر تم تالا ساز کے پاس لے جاؤں اور تالا بنانے کے اوزار اس کے ہاتھ میں دی دو اور اسے کہو کہ تمہارے لئے ایک تالا بنا دے تو وہ یہ کام نہیں کر سکے گا چونکہ جو کچھ اس نے سیکھا ہے اس کا تعلق فقہ سے ہے تالا سازی سے نہیں ہے اس شخص کو تم تالا سازی کی دکان سے پنیرو دودھ و غیرہ بیچنے والے کی دکان پر لے جاؤ اور اس سے کہو کہ پنیر بیچے تو تم دیکھو گے کہ وہ پنیر بیچنے کے کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس نے ہر گز ایسے کام نہیں کئے اور فقہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں سیکھی ۔

تم اس کے احترام کے قائل اس لئے ہوئے کہ اس کے علم کو سمجھ سکتے ہو جبکہ تمہاری فہم اور علم کا میزان محدود ہے لیکن اس قدر وسیع اور توانا ہے کہ تم ایک فقیہ کے علم تک رسائی حاصل کر سکتیہو جابر نے کہا ‘ بہر حال جب میں اس کی ہستی سے متعارف ہو جاؤں گا تو وہ میرے نزدیک زیادہ محترم ہو جائے گا اور جتنا زیادہ میں اس کی ہستی کی معرفت حاصل کروں گا اتنا ہی زیادہ اس کا احترام کروں گا جعفر صادق نے فرمایا ‘ بنی نوع انسان کے باہمی روابط کے لحاظ سے یہ موضوع حقیقت پر مبنی ہے لیکن انسان اور خدا کے درمیان اس موضوع کی کوئی حقیقت نہیں اور اگر بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو وہ مزید خدا کا احترام نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس کی نظروں میں چھوٹا نظر ائے گا وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ اس کے باوجود کہ میں محدود فہم و عقل رکھتا ہوں تب بھی میں نے خدا تک رسائی حاصل کر لی ہے تو لا محالہ خدا محدود ہے وگرنہ میں اس محدود عقل و فہم کے ساتھ ہر گز خداوند تعالی کی ہستی تک رسائی حاصل نہ کرسکتا ۔

یہ بات میں دلیل کے طور پر کہتا ہوں وگرنہ بنی نوع انسان خداوند تعالی کی ہستی تک رسای حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ایک ایسی ہستی جو ازلی ابدی اور لا محدود ہے اس کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن اگر بفرض محال ‘ ایک دن بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو خدا اس کی نظر میں اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اسے عام انسانوں میں شمار کر لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا کو نہ دیکھ سکنا ایک ایسا موثر عامل ہے جسکی وجہ سے ہم خدا کی معرفت سے ابدی نجات کے امیدوار ہوتے ہیں وگرنہ اگر ہم اس کی حدود تک رسائی حاصل کرکے اس کی ہستی کو پالیں تو وہ ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا اور اس طرح ہم اسے عام انسانوں کی صفت میں لے آئیں گے اور یہ بات میں فلسفے کی رو سے کہتا ہوں نہ اصول دین کے مطابق چونکہ مسلمانوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ کی نجات حاصل ہو کر رہی گی ۔ جابر نے کہا ‘ کیا اس تمام عصرے میں خداوندتعالی جس نے تمام کامون کو انجام دے دیا ہے اس کا کوی کام نہیں اور اس نے اپنے آپ کو بیکاری کا شکار بنا لیا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر ‘ میں نے جو تم سے کہا ہے کہ ازل اور ابد کے درمیانی فاصلے کو اپنی قوت فکر سے ناپو ‘ اور اپنی قوت فکر سے اس کا تعین کرو اس سے میری مراد کچھ اور تھی ۔ جابر نے پوچھا ‘ کیا کہنا چاہتے تھے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو ازل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیانی موجودہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصے کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے ۔جابر اس بات سے حیران ہو گیا جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو از ل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیان موجود ہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصی کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے ۔

جابر اس بات سے حیران ہو گیا ۔ جعفر صادق نے پوچھا ‘ کیا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے سمجھ رہے ہو ؟ جابر نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو فاصلہ ازل اور ابد کے درمیان سے خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے جعفر صادق نے فرمایا ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں اور یہ اس لئے خدوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے کہ وہ زمانے کے گزرنے کا تابع نہیں اور چونکہ ہم بھی موت کی بعد زمانے کے گزرنے کے تابع نہیں ہوں گے لہذا زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔ اور اگر خداوند تعالی ہزار سال یا دس ہزار سال بعد ہمیں زندہ کرے تو ہم نیند سے بیدار ہونے کے بعد یہی خیال کریں گے کہ ہم ایک لمحہ سوئے رہے کیونکہ موت کی حالت میں زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔

اس بان پر تمہارا یہ اععتراض درستہے جو اس امر پر مبنی ہے کہ چونکہ خداوند تعالی نے جو کام کرنا تھا کر دیا ہے تو جب تک موجود رہے گا اس نے اپنے آپ کو بیکاری میں مبتلا کر دیا ہے اور جو کچھ تمہارای اور میری نظر میں لاکھون سال کا زمانہ ہے (یہ میں اسلئے کہتا ہوں کہ عدد کا ذکر ضروری ہے وگر نہ از اور ابد کے درمیانی فاصلے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ) خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے اور اس لمحے میں بھی کام میں مشغول اور تازہ ہے ایک ایسا وجود جو ازلی اور ابدی ہے اسکے لئے کام کا مسئلہ کام کی مانند ہمارے لئے واضح نہیں ہیہماری زندگی میں کام کا مسئلہ روحانی یا مادی ضرورت کے پیش نظر ہے ۔

بنی نوع انسان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے ور اگر اس لحاظ سے اسے کام کرنے کی ضرورت نہ ہو تو روحانی ضرورت کے تحت اسے علم حاصل کرنے کیلئے کام کرنا پرتا ہیا ور اس بات سے آگاہ ہے کہ اگر مکمل طور پر بیکار ہو جائے تو اس قدر تنگ آ جائیگا کہ اسکے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائیگا یہی اندیشہ ہے جو امراء کو شکار کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ ان کی بیکاری انہیں زندگی سے اس قدر بیزار کر سکتی ہے کہ وہ زندگی سے سیر ہو جائیں ۔ لیکن وہ لوگ جو تلاش معاش کیلئے سر گرم رہتے ہیں یا تحصیل علم میں مشعول رہتے ہیں ہر گز بیکاری کا شکار نہیں ہوتے ۔

خالق کائنات ازلی اور ابدی ‘ دانا اور توانائے مطلق ہونے کے لحاظ سے اس طرح کی کسی ضرورت کا محتاج نہیں ہے اگر کوی کہے کہ خداوند تعالی کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو یہ کفر ہے اور اگر کبھی العیاذ باللہ خدا کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ خدا نہیں ہے پھر جس چیز کی اسے ضرورت ہو گی وہ اسکی جگہ لیکر خد ہو جائے گی ۔ پس اے جابر ‘ جب ہم خداوند تعالی کے کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم اسے اپنی عقل کی حدود میں محدود کر دیتے ہیں اور اپنی عقل کی جانب سے اسکے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ۔ خداوند تعالی کا کام کرنا ‘ ہمارے کام کرنے کی مانند نہیں ہے وہ جو دانا و توانائے مطلق اور ازلی و ابدی ہے اس کا کام کرنا ہمارے کام کرنے کی مانند ہے نہیں کیونکہ ہمارے تمام کام جس صورت میں بھی ہوں ضرورت کے تحت ہیں ہمارا ایسا کوئی کام نہیں جو مادی یا روحانی ضرورت کے پیش نظر نہ ہو ۔

چونکہ ہماری عقل اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ خداوند تعالی کے کام کس نوعیت کے ہیں تو ناگزیر اسکے کاموں کو انسانی کام کی مانند خیال کرتے ہیں اور چونکہ آدمی کام ختم ہونے کے بعد اگر ایک لمبی مدت بیکار پڑا رہے تو بیمار پڑ جاتا ہے اور تمہارا خیال ہے چونکہ خداوند تعالی نے تمام کام انجام دے دئے ہیں لہذا اب وہ بیکار رہ رہ کر بیمار پڑ جائیگا ۔

جابر نے کہا ‘ ہم موت کے بعد خداوند تعالی کو آج سے بہتر طور پر پہچان سکیں گے ؟

جعفر صادق نے فرمایا ‘ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کے بعد انسان جب زندہ ہو گا تو آج سے بہتر کامل انسان بن چکا ہو گا کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خداوند جو بڑی عظمت و کرم کژا مالک ہے بنی نوع انسان کو اسلئے نہیں مارتا کہ اسکی زندگی کو بد تر بنائے بلکہ موت بنی نوعی انسان کی تکمیل کے مراحل میں سے ایک اور اونچے مرحلے تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ جابر نے پوچھا کیا موت کے بعد ہم خدا کو دیکھ سکیں گے ؟ مجھے معلوم ہے کہ موسی نے کوہ طور پر خداوند تعالی سے چاہا کہ اسے دیکھے اور خدا نے اسکے جواب میں فرمایا ‘ اے موسی تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے ۔ لیکن ہم مسلمان ہیں اور ہمیں دوسری قوموں پر فضیلت حاصل ہے کیا اس فضیلت کے باوجود خداوند تعالی کو نہیں دیکھ سکیں گے ؟

جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر ‘ موت کے بعد اسکے باوجود کہ ہم مسلمان ہیں خد کو نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ خدا کا جسم نہیں کہ ہم اسے دیکھ سکیں ہماری آنکھیں ایسی چیز کو نہیں دیکھ سکتیں جس کا جسم نہ ہو اور جس پر روشنی نہ پرتی ہو ۔

ہماری آنکھیں حتی کہ تاریکی میں بھی چیزوں کو دیکھنے پر قادر نہیں تو تم کس طرح اس بات کے امیدوار ہو کہ انہی آنکھوں سے خدا وند تعالی کو دیکھ سکو گے جس کا جسم نہیں ہے ۔ لیکن اگر خداوند تعالی کو دیکھنے سے مراد اسے دل کی انکھوں سے دیکھنا ہے یعنی خدا کی معرفت ‘ تو اس طرح تم موت سے قبل بھی اس کو اس دنیا میں دیکھ سکتے ہو ۔

جابر نے کہا ‘ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالی خود کو کس لئے مخلوقات کو نہیں دکھانا چاہتا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ یہ اسکی اپنی مشیت ہے اور ہم اس ضمن میں اظہار خیال نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند تعالی کیوں اپنے آپ کو مخلوقات کو نہیں دکھاتا ۔ لیکن چونکہ ہم خدا کو نہیں دیکھتے لہذا اسکو دیکھنے کی بڑی تڑپ رکھتے ہیں ۔جابر نے پوچھا میں آپ کی بات کو نہیں سمجھ سکا ‘ خداکو نہ دیکھ سکنا کیسے اس بات کا سبب ہے کہ ہم اسکے دیکھنے کی تڑپ رکھتے ہیں جعفر صادق نے وضاحت فرمائی اگر ہم خدا کو دیکھ سکتے تو چونکہ ہم اسے محدود کرتے اور اس کی ہستی تک پہنچ جاتی تو اس سے مایوس ہو جاتے ۔ جابر نے سوال کیا ‘ اگر اسے دیکھتے تو محدود کر دیتے ۔

جعفرصادق نے مثبت جواب دیا ور فرمایا اجسام کو دیکھنا انہیں محدود کر دنا ہے اور اگر انہیں محدود نہ کریں تو انہیں چاروں اطراف سے نہیں دیکھ سکتے ۔

حتی کہ اگر خدا کی ہستی کی معرفت حاصل نہ بھی کر سکیں تو بھی جتنا اسے دیکھ لیں گے اتنا ہی اس سے مایوس ہو جائیں گے کیونکہ اسے محدود کر دیں گے اور چونکہ وہ ہماری طرف سے محدود ہو جائے گا اور ہم مزید اسے لا محدود نہیں سمجھیں گے اس طرح ہم آخری نجات کے لحاظ سے اس سے مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اگرچہ اس وقت تک اس کی ہستی کی معرفت حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ چونکہ ہم سوچیں گے کہ خدا خود محدود ہے اور اس نے ہمیں بھی محدود خلق کیا ہے اور ہم ہمیشہ کی ژندگی اور سرمدی نجات کے امیدار نہیں ہو سکیں گے ۔ اور سوچیں گے کہ جو خدا محدود ہے ہمیں کیسے لا محدود پیدا کر سکتا ہے کیونکہ محدود خالق لا محدود مخلوق کو خلق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اگر خدا کو دیکھنے کے بعد اس کی ہستی کی معرفت حاصل کریں تو زیادہ مایوس ہو جائیں گے جابر نے پوچھا ہمیں کونسی چیزخداکی ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد زیادہ مایوس کرے گی ؟

جعفر صادق نے فرمایا جب ہم اس کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے اور جیسا وہ ہے ویسے اسے پہچان لیں گے تو وہ ہماری نظر میں چھوٹا ہو جائے گا ۔ چونکہ ہم ان دکھے اور واحد خدا کے بارے میں بلند تفکرات رکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اس قدر بڑا ہے کہ اگر ہماری موجود عقل کئی گناہ زیادہ طاقتور بھی ہو جائے تو پھربھی ہم اس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ۔ یہ موضوع ہمیں امیدوار اور متلاشی رکھتا ہے اور ہمیں امید بندھی رہتی ہے کہ خداوند تعالی جو لا محدود اور بے پایاں ہے اس نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور چونکہ توانا اور بے نیاز ہے اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں ا ور ہمیں صرف اپنے کرم کی رو سے پیدا کی اہے لہذا ہمیں ہمیشہ کی سعادت عطا فرمائے گا ۔ لیکن جب ہم خدا کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے تو اپنے آپ سے کہیں گے کہ خدا اتنا چھوٹا ہے کہ ہماری چھوٹی سی اورمحدود عقل میں سما گیا ہے ۔

یہ باتں جو میں تمہیں بت رہا ہوں ‘ اصول دین کی رو سے نہیں بلکہ فلسفے کی رو سے بتا رہا ہو ں ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مسلمان نہ ہو تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارا خداوند تعالی کو نہ دیکھنا اسے دیکھنے سے بہتر ہے کیونکہ اگر اسے دیکھ کر فضا میں محدود کر لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے بھی ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا پس بہتر یہی ہے کہ ہم اسے نہ دیکھیں ۔

جابر نے کہا ‘ میں آپ کے اس فرمان سے متفق نہیں ہوں اور میرا خیال ہے جب ہم خدا کی ہستی کا کھوج لگا لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے ہماری نظر میں بڑا ہو جائے گا اور میرے اس قول کی میرے پاس دلیل بھی ہے میری دلیل یہ ہے کہ جس وقت میں شہر کی بازار میں ایک شخص کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ میری نظر میں دوسرے راہ گزر لوگوں سے مختلف نہیں ہوتا ‘ ممکن ہے وہ اپنے دائیں یا بائیں طرف سے گزرنے والے لوگوں سے زیادہ بلند قامت اور موٹا ہو لیکن میری نظر میں روحانی لحاظ سے وہ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہے ۔

لیکن اگر میں اس شخص کو کسی محفل میں دیکھتا ہوں اور مجھے پتہ چلتاہے کہ وہ فقیہ ہے تو میں ا سکے قریب جا کر اس سے فقہ کا مسئلہ دریافت کروں گا ‘ یوں جب میں نے اس کی گفتگو سنی اور میں سمجھ گیا کہ وہ شخص عالم ہے تو میں اس کی شخصیت تک رسائی حاصل کروں گا تو پھر وہ شخص میری نظر میں پہلے سے کہیں عظیم ہو جائے گا ۔

ب کبھی میں تیسرے ‘ چوتھے ‘ پانچویں اور چھٹے دن اس کے ہاں جاؤں گا اور ہر دن اس سے مسئلہ دریافت کروں گا اور وہ مجھے جواب دے گا تو میں اس کا زیادہ احترام کرنے لگے جاؤں گا کیونکہ میں سمجھ جاؤں گا کہ وہ شخص عالم ہے ۔ اس بنا پر اگر ہم خدا کی ہستی کی کما حقہ معرفت حاصل کر لیں تو ہماری نظر میں اس کے احترام کا احساس زیادہ بڑھ جائے گا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ وہ شخص جس کے پاس تم ہر روز جا کر اس سے مسئلہ دریافت کرو گے وہ تمہارے جیسا انسان ہو گا اگرچہ اس کی فہم و فراست تمہاری فہم و فراست سے زیادہ ہو گی لیکن اس کی فہم و عقل ایک انسان کی فہم و عقل سے زیادہ نہیں ہو گی اور تمہارے مسائل کا جواب دینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دوسرے تمام انسانوں سے برتر ہے اور سب کچھ جانتا ہے اسی شخص کو اگر تم تالا ساز کے پاس لے جاؤں اور تالا بنانے کے اوزار اس کے ہاتھ میں دی دو اور اسے کہو کہ تمہارے لئے ایک تالا بنا دے تو وہ یہ کام نہیں کر سکے گا چونکہ جو کچھ اس نے سیکھا ہے اس کا تعلق فقہ سے ہے تالا سازی سے نہیں ہے اس شخص کو تم تالا سازی کی دکان سے پنیرو دودھ و غیرہ بیچنے والے کی دکان پر لے جاؤ اور اس سے کہو کہ پنیر بیچے تو تم دیکھو گے کہ وہ پنیر بیچنے کے کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس نے ہر گز ایسے کام نہیں کئے اور فقہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں سیکھی ۔

تم اس کے احترام کے قائل اس لئے ہوئے کہ اس کے علم کو سمجھ سکتے ہو جبکہ تمہاری فہم اور علم کا میزان محدود ہے لیکن اس قدر وسیع اور توانا ہے کہ تم ایک فقیہ کے علم تک رسائی حاصل کر سکتیہو جابر نے کہا ‘ بہر حال جب میں اس کی ہستی سے متعارف ہو جاؤں گا تو وہ میرے نزدیک زیادہ محترم ہو جائے گا اور جتنا زیادہ میں اس کی ہستی کی معرفت حاصل کروں گا اتنا ہی زیادہ اس کا احترام کروں گا جعفر صادق نے فرمایا ‘ بنی نوع انسان کے باہمی روابط کے لحاظ سے یہ موضوع حقیقت پر مبنی ہے لیکن انسان اور خدا کے درمیان اس موضوع کی کوئی حقیقت نہیں اور اگر بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو وہ مزید خدا کا احترام نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس کی نظروں میں چھوٹا نظر ائے گا وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ اس کے باوجود کہ میں محدود فہم و عقل رکھتا ہوں تب بھی میں نے خدا تک رسائی حاصل کر لی ہے تو لا محالہ خدا محدود ہے وگرنہ میں اس محدود عقل و فہم کے ساتھ ہر گز خداوند تعالی کی ہستی تک رسائی حاصل نہ کرسکتا ۔

یہ بات میں دلیل کے طور پر کہتا ہوں وگرنہ بنی نوع انسان خداوند تعالی کی ہستی تک رسای حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ایک ایسی ہستی جو ازلی ابدی اور لا محدود ہے اس کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن اگر بفرض محال ‘ ایک دن بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو خدا اس کی نظر میں اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اسے عام انسانوں میں شمار کر لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا کو نہ دیکھ سکنا ایک ایسا موثر عامل ہے جسکی وجہ سے ہم خدا کی معرفت سے ابدی نجات کے امیدوار ہوتے ہیں وگرنہ اگر ہم اس کی حدود تک رسائی حاصل کرکے اس کی ہستی کو پالیں تو وہ ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا اور اس طرح ہم اسے عام انسانوں کی صفت میں لے آئیں گے اور یہ بات میں فلسفے کی رو سے کہتا ہوں نہ اصول دین کے مطابق چونکہ مسلمانوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ کی نجات حاصل ہو کر رہی گی ۔

عہد پیری کا سوال

جابر نے پوچھا ‘ آدمیبوڑھا ہونے کے بعد منکسر المزاج کیوں ہو جاتا ہے ؟

جعفر صادق نے فرمایا یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے ‘ ہر بوڑھا ہو جانے والا شخص منکسر المزاج نہیں ہوتا کچھ لوگ ایسے بھیہوتے ہیں جو جوانی میں منکسر المزاج ہوتے ہیں لیکن ان کی جوانی کی نشاط اور طراوت ان کے انکسار کو اچھی طرح دوسروں کی نظر تک پہچانے میں رکاوٹ ہوتے ہیں یہی لوگ بڑھاپے میں منکسر المزاج دکھائی دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جوانی کی نشاط اور طراوت مزید ان کے انکسار کو نہیں چھپا سکتے ۔

لیکن جو مرد یا عورت جوانی میں عاقل مطلع اور پرہیز گار ہوتے ہیں ‘ بڑھاپے میں بھی وہ مرد یا عورت عاقل ‘ مطلع اور پرہیز گار ہوتے ہیں ‘ مطلب یہ ہے کہ جسمانیطاقت کے لحاظ سے جوانی ‘ بڑھاپے کی مانند نہیں ہے بڑھاپے میں علما کا طبقہ جوانی کے زمانے کی نسبت زیادہ عاقل ‘ مطلع اور عقلمند دکھائی دیتا ہے چونکہ جو توشہ وہ جوانی میں حاصل کرتے ہیں کم ہوتا ہے اور جوں جوں ان کی عمربڑھتی جاتی ہے اس توشے میں بھی اضافہ ہو تا جاتا ہے اور ان کی عقل مزید طاقتور ہوتی جاتی ہے اور وہ بے لوث ہو کر عدل قائم کرتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ انہیں ہمیشہ حقیقت کا حامی ہونا چاہیے ۔

جابر نے کہا ‘ میں نے سنا ہے کہ بڑھاپا نسیان پیدا کرتا ہے اور کیا یہ موضوع ایک کلی قاعدہ ہے جعفر صادق نے فرمایا نہ اے جابر ‘ جو چیز نسیان وجود میں لاتی ہے وہ حافظے کی طاقت کا عدم استعمال ہے حافظے کی قوت کی دوسری انسانی قوتوں کی مانند کام میں لاتے رہنا چاہیے تاکہ زائل نہ ہو ۔ اگر ایک جوان بھی اپنی قوت حافظہ کو کام میں نہ لائے تو وہ بھی نسیان کا شکار ہو جائے گا لیکن بعض عمر رسیدہ اشخاص اس لئے فراموشی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ جسمانی طاقت کی کمزوری کے نتیجے میں ان کی توجہ ان کے ماحول کی نسبت جس میں وہ زندگی گزار رہیہوتے ہیں کم ہو جاتی ہے اور حتی کہ ان کی توہ ان کے نواسوں و پوتوں وغیرہ کی نسبت بھی کم ہوجاتی ہے اور جب ان کے نواسے و پوتے وغیرہ برے ہو جاتے ہیں تو انہیں بھی نہیں پہچانتے جسمانی قوت جتنی کمزور ہو گی ان کی اپنے ماحول جس میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں کی جانب توجہ زیادہ کم ہو جائے گی پھر وہ گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے اور سفر نہیں کرنا چاہتے حتی کہ بڑے اور نا گہانی واقعات کی طرف بھی وہ متوجہ نہیں ہوتے ۔

اسی لئے ان کا حافظہ مزید استعمال نہیں ہوتا ‘ اور جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ جمود اس بات کا باعث بنتا ہے کہ پہلے تو ان کے حافظہ میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا اور دوسرا ان کے حافظے کے ذخائر کا تمام یا کچھ حصہ فراموشی کے سپرد ہو جاتا ہے ۔

جس کے نتیجے میں عمر رسیدہ مرد یا عورت نہ صرف یہ کہ جو کچھ اس کے زمانے میں وقوع پذیر ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا بلکہ جو کچھ وہ جانتا ہے اور اس کے حافظے میں ذخیرہ ہوتا ہے وہ بھی اسے بھول جاتا ہے لوگ جب ایک یا دو یا تین عمر ریسدہ آدمیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنا حافظہ کھو چکے ہیں تو اسے ایک کلی قاعدہ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں جو کوئی بوڑھا ہو جائے ‘ فراموشی کا شکار ہو جاتا ہے لیکن ایسے بوڑھے افراد جو جسمانی قوت کی کمزوری کے نتیجے میں اپنے حافظے کو جمود کا شکار نہیں ہونے دیتے ان کا حافظہ بڑھاپے میں ان کی جوانی کے دور سے زیادہ طاقتورہوتا ہے کیونکہ ان کا حافظہ تمام عمر کام میں مشغول رہتا ہے اور عمر کی آخری سالوں میں اپنی قوت کے جوبن پر ہوتا ہے ۔

جابر نے کہا میں نے کچھ عرصہ پہلیایک ایسے شخص سے گفتگو کی جو اپنے آپ کو با خبر سمجھتا تھا کہنے لگا آدم کے تمام فرزند اپنے جد کا کیفر دیکھتے ہیں ۔

میں نے اس سے پوچھا کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ آدم کے فرزند اپنے جد کا کیفر دیکھتے ہیں اس نے اس کے جواب میں کہا کہ خداوند تعالی کیلئے ماضی اور مستقبل ایک ہی ہے اور جو کچھ ہے اس کیلئے زمانہ حال ہے چونکہ خداوند تعالی کی نظر میں ابھی تک وہی دور ہے جب آدمی وجود میں آئے تھے لہذا آدم اور فرزند یعنی ہم کو وہ آدم و حوا کے گناہ کی پاداش میں سزا دیتا ہے ۔

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ اس شخص نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ خدوند تعالی کیلئے زمانے کا وجود معنی نہیں رکھتا تاکہ وہ مشمول زمانہ ہو اگرچہ وہ زمانہ ہی کیوں نہ ہو اور شمول زمانہ ہونا مخلوق کی خصوصیات میں سے ہے نہ کہ خالق کی خصوصیات میں سے اگر یہ شخص مسلمان ہوتا تو میں اسے کہتا کہ خداوند تعالی نے اپنے احکام میں نہایت صراحت سے بیان فرما دیا ہے کہ نیکو کاروں کو بہشت لے جائے گا اور گنا ہگاروں کو دوزخ میں جگہ دے گا لیکن چونکہ مسلمان نہیں ہے ؟ وگرنہ ایسی بات تم سے نہ کہتا ’ اس لئے اس کا جواب فلسفے کی رو سے دینا چاہیے ۔ یہ شخص ایک لحاظ سے صحیح سمجھا ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند تعالی کیلئے ماضی اور مستقبل دونوں طرف نہیں ‘ لیکن یہ بات نہیں کہ اس کیلئے ماضی اور مستقبل کا وجود نہیں ہے یعنی وہ ماضی اور مستقبل کا استنباط نہیں کر سکتا ماضی اور مستقبل کا مشمول نہ ہونے اور ماضی و مستقبل کو نہ سمجھ سکنے میں فرق ہے ۔

میں مطلب کو مزید بہتر انداز میں سمجھانے کی خاطر مثال دیتا ہوں ۔

کہ اگر زمین میں ہل چلاتے ہو اور زمین میں گندم کا شت کرتے ہو تو تمہیں معلوم ہوتا کہ اس گندم کے مستقبل کیا ہو گا لیکن تم خود اس غللے کے مشمول نہیں ہوگے گندم کے وہ دانے جنہیں تم زمین میں کاشت کرتے ہو تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گے گندم کے وہ دانے جنہیں تم زمین میں کاشت کرتے ہو تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا ۔ لیکن گندم کے ان دانوں کے مستقبل کے متعلق تم ہفتہ بہ ہفتہ مطلع ہو اور تمہیں معلوم ہے ہر ہفتے گندم کی کیفیت کیا ہو گی اور کس حد تک بڑھے گیا ور کس وقت فصل کاٹنے کا وقت آ پہنچے گا ہمارے استنباط کے مطابق خود گندم اپنے ماضی اور مستقبل سے آگاہ نہیں ہے ہم کہتے ہیں ؟ہمارے استنباط کی بنا پر ’ چونکہ گندم با شعور ہے لیکن ہم اس کے کتنے اور کیسے ہونے سے مطلع نہیں ہیں اور اس طرح سوچتے ہیں کہ گندم اپنے ماضیا ور مستقبل سے بے خبر ہے لیکن تم تو اس گندم کے کاشتکار ہو ‘ اس کے ماضی اور مستقبل سے بخوبی مطلع ہو اور اس کے ماضیا ور مستقبل کے مشمول نہیں ہو خداوند تعالی بھی ہمارے ماضی اور مستقبل کا مشمول نہیں ہے وہ اس کائنات کے ماضی اور مستقبل کا بھی مشمول نہیں ہے لیکن اس کائنات اور تمام مخلوقات کے ماضی و مستقبل سے مطلع ہے جس کسی نے تمہیں کہا ہے کہ خداوند تعالی صرف زمانہ حال کو دیکھ رہا ہے اس نے غلطی کی ہے اور اس نے کدا کو زمانہ حال میں محدود کر دیا ہے یعنی اسے زمانہ حال کا مشمول سمجھا ہے جبکہ خداوند تعالی اس قدر بڑا ہے کہ زمانہ حال کا مشول ہونے سے مبرا ہے ۔

اگر ہم کہیں کہ خداوند تعالی زمانہ حال کا مشمول ہے یعنی زمانہ حال کے علاوہ اس کیلئے کوئی زمانہ نہیں ہے تو دین اسلام کی نظر میں یہ کلمہ کفر ہے اس شخص سے کہو کہ اگرچہ خداوند تعالی ماضی اور مستقبل کا مشمول نہیں ہے لیکن ماضی اور مستقبل سے مطلع ہے اسے معلوم ہے کہ آدمی ماضی میں تھا اور گناہ کا مرکتب ہوا ہے تو وہ کیفر کردار تک پہنچا ہے اور اس کی سزا یہ تھی کہ اسے بہشت سے نکال دیا گیا لیکن ہم آدم اور حوا کے فرزند اس کی نسبت سے مستقبل کا جز ہیں اور خداوند تعالی ہمیں اپنے پہلے باپ کے جرم میں سزا نہیں دے گا ۔

اس شخص سے کہو یہ اصل کہ خدا ماضی اور مستقبل کا مشمول نہیں ہے اور یہ اصل کہ خداوند تعالی ماضی اور مستقبل کی تشخیص نہیں دیتا ان دونوں میں غلط فہمی کا شکار نہ ہو ۔ اور خداوند تعالی ہر گز ایک بیٹے کو باپ یا مان کے گناہ کے جرم میں سزا نہیں دیتا اور اس کے بعد بھی کسی بیٹے کو اس کے والدین یا دونوں میں کسی ایک کے گناہ میں سزا نہیں دے گا جابر نے پوچھا ‘ پس یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے نا پسندیدہ اعمال کی سزا کا سامنا کرتے ہیں ۔

جعفر صادق نے جواب دیا اس موضوع اور خداوند تعالی کی طرف سے سزا دینے میں فرق ہے جب ماں یا باپ ایسے اعمال کے مرکتب ہوتے ہیں جن کے ارتکاب کی ممانعت ہے ‘ تو یہ اعمال ان کے بیٹوں کی آئندہ زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں مثال کے طور سے شراب پینے کی ممانعت ہے اور جب باپ شراب نوشی کا عادی ہو تو جو بیٹے اس سے پیدا ہوں گے ممکن ہے وہ ناقص العقل ہوں ایک شرابی شخص کے بیٹوں کا احتمالا ناقص العقل ہونا خدائی سزا نہیں ہے بلکہ باپ کے عمل کا نتیجہ ہے جو شاید بیٹوں کو وراثت میں ملے اور انہیں ناقص العقل بنا دے یا یہ کہ ایک باپ ظلم کرے اور کچھ بے گناہ لوگوں کو قت کر دے تو جب وہ فوت ہو گا تو مقتولین کی اولاد قاتل کی اولاد سے قدرتی طور پر نفرت کرے گیا ور اس دوستانہ نگاہوں سے نہیں دیکھیں گے اس بات میں کسی بحث یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔

کیا مقتولین کے بیٹوں کا اس شخص کے بیٹوں سے اچھے تعلقات استوار نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند تعالی نے ظالم شخص کے بیٹوں کو سزا دی ہے ؟ ہر گز نہیں یہ باپ کے عمل کا نتیجہ ہے جو بیٹوں تک پہنچا ہے اور خداوند تعالی نہیں چاہتا تھا کہ ظالم شخص کے بیٹوں کو ایسے حالات پیش آئیں بلکہ خود اس نے اپنے بیٹوں کیلئے ایسے حالات پیدا کئے ہیں جابر نے پوچھا اس طرح تو خداوند تعالی کسی شخص کو اس کے والدین کے گناہوں کی پاداش میں سزا نہیں دے گا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ نہیں اے جابر ‘

خداوند تعالی اس سے کہیں زیادہ بڑاہے کہ اس طرح کے نا معقول عمل کا مرتکب ہو اور بیٹوں کو ان کے ماں باپ کے گناہوں کے جرم میں سزا دے ۔ جابر نے پوچھا ‘ مجھے معلوم ہے کہ کن فیکون کے معنی کیا ہیں اور چونکہ مسلمان ہوں اس لئے میرا عقیدہ ہے کہ جونہی خدا وند تعالی نے چاہا یہ کائنات وجود میں آ گئی لیکن میں چاہتا ہوں کہ فلسفے کے لحاظ سے کن فیکون کے معنی سمجھوں تاکہ اگر اس موضوع کے بارے میں کسی غیر مسلم شخص سے گفتگو کروں تو اسے قائل کر سکوں ۔

جعفر صادق نے فرمایا تجھے فلسفے کیر و سے جواب دینے کیلئے ارادے کے بارے میں بات چیت کرنا ہے ارادہ ایسی چیزہے جس کا وجود ہے اگر ایک توحید پرست سامع میرا مخاطب ہو تو اسے کہوں گا کہ ارادہ خداوند تعالی کی صفات ثبوتیہ کا جزو ہی اسے کہوں گا کہ ارادہ خدا کی ذات کا جزو ہے کیونکہ خداوند تعالی کی صفات اس کی ذات سیجدا نہیں ہیں جبکہ انسان میں اس کی صفات ‘ ذات سے جدا ہیں اس طرح دنیا میں آنے والا بچہ دانا نہیں ہوتا اور دانائی اس کی ذات میں وجود نہیں رکھتی اسے دانا بننے کیلئے ایک لمبیمدت تک علم حاصل کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر دانائی جو اس کی ذات میں موجود نہیں ہوتیا س کی ذات سے ملحق ہو جاتی ہے ۔

کوئی صنعتکار پیدا ہوتے ہی صنعتکار نہیں ہوتا اور صنعت اس کی ذات میں موجود نہیں ہوتی اسے صنعت سیکھنے کیلئے ایک مدت تک استاد کے ہاں کام کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر وہ صنعت سیکھتا ہے اور اس وقت صنعت اس کی ذات کا جزو بن جاتی ہے ۔

لیکن خداوند تعالی میں جتنی صفات موجود ہیں اس کی ذات کا جزو ہیں وہ پہلے ہی لمحے ؟اگر خداوند تعالی کے متعلق پہلے اور آخری لمحے کی گفتگو کی جا سکے ’ دانا اور توانا تھا اور جو کچھ جانتا تھا س کی ذات کا جزو شمار ہوتا تھا اور اس پرہگز کسی چیز کا اضافہ نہیں ہو گا اور کسی وقت اس سے کوئی چیز کم نہیں ہو گی ۔علم اور طاقت جو علم سے عبارت ہے خدا کی ذات کا جزو ہے لیکن جو شخص توحید پرست نہیں ہے وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بت پرستی کا معتقد ہے اور ایک بت کی قدرت کا قائل ہے لیکن خدائے واحد کے علم اور قدرت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں البتہ یہ ہے کہ جیسا کہ تم جانتے ہو بت پرست بھی آخری مرحلے میں ایسی چیز کی پوجا کرتا ہے جو بت نہیں ہوتی چونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کا بنایا ہوا یہ بت قدرت کا حامل نہیں ہے ۔ میں ایک ایسے شخص سے جو موحد نہیں ہے اور خدائے واحد کا معتقد نہیں ‘ کہتا ہوں کہ ارادہ بذاتہ موجود ہے اگر وہ اعتراض کرے اور کہے کہ ارادہ بذاتہ وجود نہیں رکھتا بلکہ اس کا وجود ہم سے وابستہ ہے اور اگر ہم نہ ہوں تو ارادہ بھی نہیں تو میں اس سے کہتا ہوں کہ ارادہ ہمارے وجود کے بغیر وجود رکھتا ہے ۔ چونکہ فلسفے کا ایک اصول جسے تمام فلسفی تسلیم کرتے ہیں یہ ہے کہ جو چیز وجود رکھتی ہے فنا نہیں ہوتی لیکن ممکن ہے اس کی صورت تبدیل ہو جائے اگر وہ کہے کہ ہماری موت کے بعد ارادہ ختم ہو جاتا ہے تو میں اس کیلئے ‘مثال پیش کروں گا اور کہوں گا کہ ایک بڑا مخزن یا ایک نہر موجود ہے جس سے پانی مٹی کی نالی کے ذریعے گھر تک پہنچتا ہے اگر مٹی کی نالی کایہ جوڑ کاٹ دیا جائے تو پانی ہمارے گھر میں نہیں پہنچے گا ۔ لیکن کیا مٹی کی نالی کے جوڑ کا کٹ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مخزن یا نہر جس کے ذریعے پانی ہماری گھر تک آتا ہے سرے سے موجود ہی نہیں ؟

صاف ظاہر ہے ایسا نہیں ا ور وہ نہر یا مخزن اپنی جگہ موجود ہے ہمارا وجود بھی ارادے کے لحاظ سے اس مٹی کی نالی کے جوڑ سے مشابہ ہے ‘ اور ہماری موت کے بعد ارادہ فنا نہیں ہوتا اور صرف مٹی کی نالی کا جوڑ کٹ گیا یا ختم ہو گای ارادہ توباقی ہے میں اس غیر موحد شخص سے کہتا ہوں کہ ارادہ کائنات کا جوہر ہے اور کائنات ایک ایسا ارادہ ہے جو مشہود ‘ محسوس اور ملموس صورت میں سامنے آیا ہے جس لمحے ارادہ نے محسوس صورت میں سامنے آنا چاہا اس صورت میں سامنے آ گیا ارادہ ایک تخلیق جس سے محسوس و ملموس کائنات وجود میں آئی آپس میں اس قدر نزدیک ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ۔

اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر ارادے کا نام روح رکھ دیا جائے کیونکہ ارادے کی وضاحت اور محسوس و ملموس کائنات کی صورت میں اس سے جو تخلیق وجود میں آئی ہے اس کی روح اور جسم میں کوی فرق نہیں لیکن جو شخص موحد نہیں وہ ارادہ اور اس سے وجود میں آں ے والی تخلیق کو قبول کرنے کی نسبت روح اور جسم کے قبول کرنے سے زیادہ آمادگی رکھتا ہے یہ ارادہ اور اس سے وجود میں آنے والی محسوس و ملموس صورت میں تخلیق ہم میں بھی ہے اور ہمارا وہ ارادہ زندہ رہنے کیلئے اور وہ محسوس اور ملموس وجود یعنی ہمارا جسم ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آدمی کے وجود میں زندہ رہنے کی طرف مائل ہونے سے زیادہ مضبوط ارادہ موجود نہیں ہے میں اس شخص سے جو موحد نہیں کہتا ہوں کہ ارادے نے چاہا کہ اپنا محسوس وجود پیدا کرے اور وہ محسوس وجود یہی کائنات ہے جسے ہم دیکھتے ہیں اور ہم اس کا جزو ہیں ۔

فلسفے کے مطابقیہ ہیں کن فیکون کے معنی ‘ اور جو ارادے نے چاہا سو وہ ہو گیا اور محسوس کائنات وجود میں آئی کائنات و ارادے میں اس سے زیادہ فرق نہیں ہے کہ انسان ارادے کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی لمس کر سکتا ہے جبکہ جہاں کو وہ مشاہدہ کر سکتا ہے اور لمس بھی کرتا ہے جابر نے کہا اسطرح تو ہماری موت کے بعد ارادہ فنا نہیں ہوتا ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ نہیں اور موت محسوس ہونے والے ارادے کے جسم کا جزو ہے میں تم سے کہت اہوں کہ یہ جہان جسے ارادہ وجود میں لایا ہے زندگی ہے اور تجھے معلوم ہے کہ کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں جو زندہ نہ ہو اور جامد پتھر بھی زندہ ہیں چہ جائیکہ درخت حیوان ‘ انسان ‘ دریاؤں اور سمندروں کا پانی ۔ جب ارادے نے کن کہا ‘ تو فیکون ؟یعنی ہو گیا ’ زندگی وجود میں آ گئی اور زندگی میں موت کے معنی فنا ہونا نہیں اور صرف زندگی کے ایک حصے کی ایک صورت کی تبدیلی ہے ولادت اور موت دونوں زندگی ہیں اور ہمیں موت کو منحوس اور ولادت کو مبارک نہیں سمجھنا چاہیے چونکہ دونوں زندگی کے دو رخ ہیں پانی اور برف کی ماند جو پانی کی دو حالتیں ہیں جبکہ ماہیت کے لحاظ سے پانی اور برف میں کوئی تفاوت نہیں ۔

ہماری زندگی اور رہائش بھی اسی طرح ہے یہ زندگی کے دو رخ ہیں ‘ جس طرح ولادت موت کو ختم نہیں کرتی اسی طرح موت ‘ ولادت کو ختم نہیں کرتی ۔ اگر ہم ولادت اور موت کو ایک لکڑی کے دوسرے فرض کریں ‘ تو یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ لکڑی زندگی ہے جس کا ایک سرایا قطب ولادت ہے اور دوسرا سریا قطب موت ہے ایک موحد موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ موت کے بعد باقی رہے گا اگر ایک غیر موحد شخص بھی جان لے کہ موت زندگی کا دوسرا رخ ہے تو وہ ہر گز موت سے نہیں ڈرے گا اور یہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں لایا اسے سمجھانا پڑے گا کہ موت کے بعد فنا نہیں ہو گا جابر نے کہا اگر وہ شخص مجھ سے پوچھے کہ ارادہ کن لوازمات اور اوزاروں کے ذریعے زندگی کو وجود میں لایا ہے تو میں اسے کیا جواب دوں ؟

جعفر صادق نے فرمایا اسے کہو کہ ہماری عقل اور حواس اس بات کو سمجھنے سے قاصرہیں کہ ارادہ کن اوزاروں کے ساتھ کائنات کو وجود میں لایا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کن لوازامات کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور جن لوازمات کے ساتھ کائنات وجود میں لائی گئی وہ بھی آج ہمار نظروں کے سامنے ہیں اسی بات کو سمجھنے کیلئے کہ ارادے نے کن اوزاروں کے ذریعے اس کائنات یا زندگی کو پیدا کیا ہے اس کیلئے عقل کو آج سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے اور آج جو حواس موجودہیں ان سے زیادہ حواس موجود ہونا چاہیں تجھے معلوم ہے کہ آج بنی نوعی انسان میں ایسے بھی موجود ہیں جو کسی قسم کی خوشبو یا بد بو کو نہیں سونگھ سکتے کیونکہ ان میں اس حس کی کمی ہوتی ہے جس سے بو سونگھی جاتی ہے تجھے معلوم ہے کہ ہم جیسے انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو کچھ نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ان میں اس حس کی کمی ہوتی ہے جس سے اشیاء اور اشخاص کو دیکھا جا سکتا ہے ۔

اس موضوع کو سمجھنے کیلئے کہ ارادہ کن اوزاروں کے ساتھ کائنات کو وجود میں لایا ہماری مثال ان لوگوں جیسی ہے جن میں بعض حواس مفقود ہوتے ہیں لہذا وہ بو کو نہیں سونگھ سکتے یا چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے ہمیں اس موضوع کو سمجھنے کیلئے موجودہ عقل سے زیادہ طاقتور عقل اور موجودہ حواس سے زیادہ طاقتور حواس درکار ہیں جابر نے پوچھا کیا ممکن ہے کہ ایک دن ایسا آئے کہ ہم سمجھیں کہ کائنات یا زندگی کس اوزار سے بنائی گئی ہے ؟ جعفر صادق نے فرمیا ہاں اے جابر کیونکہ آج تک کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ علم جمود اور حرکت کے مراحل سے گزرتا رہا ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ علمی حرکت کے ادوار آئیں اور ان ادوار میں بنی نوع انسان سمجھے کہ کائنات کن اوزاروں کے ساتھ بنائی گہی ہے ۔ جابر نے سوال کیا بڑھاپا کس سے وجد میں آتا ہے جعفر صادق نے جواب دیا انسانی مزاج پر مسلط ہونے والی بیماریوں کی دو اقسام ہیں امین سے ایک قسم تیز کہلاتی ہے اور ایک قسم کند کہلاتی ہے تیز بیماریوں کی اقسام اچانک مزاج پر مسلط ہو جاتی ہیں اور تیزی سے افاقہ ہو جاتا ہے یا پھر ہلاکت کا سبب بنتی ہیں ۔ بیماریوں کی دوسری قسم کند کہلاتی ہے جن کا سفر لمبا اور بتدریج ہے اور یہ بیماریاں ایک مدت تک مزاج میں رہتی ہیں اور علاج کار گر ثابت نہیں ہوتا یہاں تک کہ انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور بڑھاپا کند بیماریوں کی ایک قسم ہے ۔

جابر نے کہا پہلی مرتبہ میں سن رہا ہوں کہ بڑھاپا ایک بیماری ہے جعفر صادق نے فرمایا ہے یہ بیماری بعض لوگوں میں جلدی سرایت کر جاتی ہے اور بعض میں دیر سے جو لوگ خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی نہیں کرتے اور منکرات سے اجتناب نہیں کرتے وہ نسبتا جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو خداوند تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں دیر سے بوڑھے ہوتے ہیں ۔

جابر نے کہا میرا ایک اور سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند تعالی نے جب انسان کو مارنا ہی ہوتا ہے تو اسے اس جھان میں کیوں لاتاہے اور کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اسے اس دنیا میں مارنے کیلئے نہ لائے ۔

جعفر صادق نے فرمایا میں نے تجھے کہا ہے کہ موت کا کوئی وجود نہیں ہے اور جو کچھ میری اور تمہاری نظروں میں موت کی صور ت جلوہ گر ہوتی ہے وہ دوسری زندگی کی ابتدا ہے اور خداوند تعالی انسان کوا س جھان میں اس لئے لاتا ہے تاکہ انسانیت کاملہ کا ایک مرحلہ یہاں پر طے کر لے اس مرحلے کے بعد انسان گذشتہ مرحلے سے زیادہ کامل انسان کی صورت میں دوسرے جھان میں جاتا ہے اور اس جھان میں بھی کامل انسان کا ایک مرحلہ طے کرتا ہے ۔ جابر نے پوچھا تخلیق کا حتمی سبب کیا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا تخلیق کا حتمی سبب خداوند تعالی کی طرف سے تمام مخلوقات حتی کہ جمادات کیلئے اس کے لطف و کرم سے عبارت ہے جابر نے پوچھا ‘ خداوند تعالی نے کیوں لطف و کرم کیا ؟ جعفر صادق نے پوچھا کیا تم ایک کریم کے مقصد کو نہیں سمجھ سکتے ۔

جابر نے کہا ابن آدم میں ایسا کم اتفاق ہوا ہے کہ کوئی بغیر کسی مقصد کے کریم ہو جائے اور انسانوں سے محظوظ نہ ہو سکتے ۔ اسی طرح ہم پانی پیتے ہوئے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہماری جسم کو پانی کی ضرورت ہے اور اگر جسم نہ ہو تو ہمیں پیاس کا احساس نہ ہو تاکہ ہم پانی پیئں ۔

ہم باغ کا تماشا کرنے سے لذت اٹھاتے ہیں اور اس کے باوجود کہ یہ ایک روحانی لذت ہے پھر بھی ہمارے جسم سے وابستہ ہے چونکہ اگر ہم اپنے جسم میں آنکھیں نہ رکھتے تو باغ کو نہ دیکھ سکتے تاکہ اس کے مشاہدے سے لذت اٹھائیں ایک لذت ایسی ہے جس کے بارے میں پہلی نظر میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک روحانی لذت ہے اور جسم کی اس میں کوئی مداخلت نہیں ہے وہ علم کو رک کرنیکی لذت ہے ۔

بہر کیف یہ لذت بھی جسم کے رابطے کے بغیر محال ہے چونکہ اگر ہمارا جسم نہ ہوتا تو ہم کتاب نہ پڑھ سکتے اور نتیجتا علم نہ سیکھ سکتے اور اگر کان نہ ہوتے تو علما کی باتیں نہ سن سکتے تاکہ انہیں یاد کر لیں نہیں علم کے ادارک کی لذت بھی ہمارے جسم کے اعضا سے وابستہ ہے اور جسم سے وابستہ ہے جبکہ خداوند تعالی کا جسم ہی نہیں کہ وہ کسی قسم کی مسرت یا لذت کا محتاج ہو ۔

جابر نے کہا پس خداوند تعالی کسی لذت کو درک کرنے پر قادر نہیں ؟

جعفر صادق نے جواب دیا تم اپنے سوال کو صحیح طریقے سے زبان پر نہیں لائے تم نے کہا ہے کہ خداوند تعالی قادر نہیں ہے جبکہ خداوند تعالی ہر کام کرنے پر قادر ہے اور کوئی ایسا کام نہیں جسے وہ انجام نہ دے سکتا ہو ۔ یہ لذت جو ہمیں بھوک کے وقت کھانے سے اور پیاس کے وقت مشروب سے محسوس ہوتی ہے در اصل یہ اس نے ہمارے وجود میں رکھی ہے اور یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کی لذت کو درک کرنے پر قادر نہیں ؟

ہم میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کو درک کرنے پر خداوند تعالی قادر نہ ہو چونکہ وہ خالق اور ہم مخلوق ہیں اور کوئی عاقل شخص یہ بات تسلیم نہیں کر سکتا کہ خالق ‘ مخلوق کے حواس خمسہ سے آگاہ نہ ہو سکے مختصر یہ کہ اسے اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہماری طر اپنے لئے لذتیں وجود میں لائے کیونکہ اس کا جسم نہیں ہے ہماری زندگی میں جو چیز ہمیں لذت پہنچاتی ہے اور جو چیز ہمارے کام آتی ہے وہ ضرورت کی پیدوار ہے اور ضرورتوں کو بھی ہمارا جسم وجود میں لاتاہے اور خدا جس کا کوئی جسم نہیں لذتوں سے بے نیاز ہے ۔ ایک گروہ ایسا ہے جو شہرت اور ناموری کیلئے سخاوت کرتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے انہیں کریم کہا جائے ۔

جعفر صادق نے فرمایا لیکن خداوند تعالی ایک ریکار کریم نہیں ہے اور اس لئے نہیں بخشتا کہ نام پیدا کرے وہ ریا کاری کے بغیر کریم ہے اور اس نے مخلوقات کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ وہ فیض پائیں لیکن اگر تو یہ پوچھے کہ اس مخلوقات کی تخلیق میں خداوند تعالی کے فضل و کرم کے علاوہ کوی اور سبب کار فرما ہے یا نہیں ؟ تو میں تم سے یہ کہوں گا کہ یہ سوال نہ کرو کیونکہ ایک موحد کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے جابر نے کہا یہ بات واضح ہے کہ میں یہ سوال اس لئے پوچھتا ہوں تاکہ اگر میرا کسی غیر موحد سے پالاپڑے تو اسے جواب دے سکوں ۔

جعفر صادق نے فرمایا اے جابر فلسفہ کی رو سے کائنات کو وجود میں لانے کا سبب خداوند تعالی کے فضل و کرم کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا چونکہ اگر کائنات کو تخلیق کرنے کا کوئی اور سبب ہوتا اور وہ سبب خدا کو کائنات کی تخلیق پر لگاتا تو وہی سبب خدا کی جگہ لے لیتا اور پھر خداوند تعالی خدائی نہ کر سکتا اسی بنا پر فلسفے کی رو سے کائنات کو وجود میں لانے کا کوئی سبب نہ تھا کیونکہ اگر کوئی سبب موجود ہوتا تو وہ سبب خدا کی جگہ لے لیتا اس لئے کہ وہ سبب خدا کو کائنات کی تخلیق پر مجبور کر دیتا اور ایک مجبور خدا کو خدا تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔

جابر نے پوچھا ‘ کیا یہ بات ممکنہے کہ کائنات کو تخلیق کرنے کا کوئی سبب ہو جس کی بنا پر خدا نے کائنات کو تخلیق کای ہو ‘ قطع نظر اس کے کہ اس سبب نے خدا کو کائنات تخلیق کرنے پر مجبور کیا ہو ؟ فرض کرتے ہیں کہ خداوند تعالی کائنات کی تخلیق کی طرف اس لئے متوجہ ہوا ہو تاکہ اپنی تخلیق کا تماشہ کرے یا س لئے کائنات تخلیق کی ہو کہ اپنی خلقت سے لذت اٹھائے ۔

جعفر صادق نے جواب دیا اے جابر کسی کام کو انجام دے کر اس سے لذت اٹھانا یا اس کا تماشا کرنا ہم انسانوں کی طبعیت کا خاصہ ہے اور یہ دونوں باتیں ضرورت کی پیدوار ہیں ہم اپنی روح کو خوش کرنے کیلئے تماشا کرنے جاتے ہیں چونکہ ہمیں لذت اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے لہذا جب ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو وہ ہماری نظر میں لذت بخش دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن خداوند تعالی جو بے نیاز ہے اسے تماشا کی کوی ضرورت نہیں اور نہ کسی چیز سے لذت اٹھانے کا محتاج ہے اے جابر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری لذتوں کا زیادہ حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ہمارے جسم کی پیدوار ہے ہم بھوک کے وقت غذا کھاتے ہوئے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہماری بدن کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ہمارے منہ میں زبان یا چکھنے کی حس نہ ہوتی تو شاید ہم غذا کھاتے اس موضوع سے قطع نظر ‘ کائنات کی ایجاد کا سبب جو کچھ بھی ہو اس سے خدائی قدرت کو سلب کر لیتا ہے اور کوئی موحد اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ کائنات کی پیدائش کا کوئی سبب تھا اور خداوند تعالی نے اسی سبب کی بنا پر اس کائنات کو خلق کیا ہے ہاں مگر یہ کہ خداوند تعالی نے اپنے فیض و کرم سے اس کائنات کی تخلیق کی تاکہ مخلوقات زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہو اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی کہا جائے وہ توحید کے خلاف ہے ۔

جابر نے کہا ‘ کیا خداوند تعالی کا کرم جو کائنات کی تخلیق کا سبب ہوا ہے اس تخلیق کی وجہ نہیں ہے اور کیا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدوند تعالی نے اپنے کرم کی رو سے مخلوقات کو خلق یا ہے ایک سبب کا ذکر نہیں کرتے ۔ جعفر صادق نے فرمایا ایک لازمی سبب نہیں ہے ‘ یعنی ایک ایسا سبب نہیں جس کی وجہ سے خدا کائنات کو تخلیق کرنے پر مجبور ہوا ہو اور چونکہ لازمی سبب نہیں لہذا جب موحد کہتا ہے کہ خداوند تعالی نے اپنے کرم کی رو سے کائنات کو تخلیق کیا ہے تو اس کا یہ قول توحید کے خلاف نہیں جابر نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ یہ سبب بھی لازمی ہے جعفر صادق نے وضاحت چاہی اور جابر نے کہا خداوند تعالی جس نے اپنے کرم کی رو سے کائنات کو خلق کیا ہے کائنات کی تخلیق سے صرف نظر بھی کر سکتا تھا جعفر صادق نے فرمایا ظاہر ہے ۔ جابر نے کہا لیکن اس نے کائنات کی تخلیق سے صرف نظر نہیں کیا اور اسے اپنے کرم کی رو سے خلق کیا اور کیا یہ موضوع ہمیں اس بات تک نہیں پہنچاتا کہ خداوند تعالی اپنے فیض و کرم سے پہلو تہی نہیں کر سکتا تھا جعفر صادق نے فرمایا یہ جو کجھ تم کہہ رہے ہو گجھگڑا ہے نہ کہ مباحثہ جب تم ایک شخص کا احترام کرتے ہو تو کیا تم اس کا احترام کرنے پر مجبور ہوتے ہو ۔ غور کرو کہ میں احترام کے بارے میں اس کے اصلی معنوں سے بحث کر رہا ہوں نہ کہ وہ احترام جسے انسان اپنے فرض کے طور پر نبھاتا ہے اور جو مسلط کیا جاتا ہے مثال کے طور پر تمہارا کوئی عزیز غریب ہے اور تم ایک معین عرصے میں لگا تار اس کی مدد کرتے رہتے ہو اور جانتے ہو کہ اگر تم اس کی مدد نہیں کرو ے تو اس کا جینا محال ہو جائے گا اس کے باوجود کہ تم اس پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہو لیکن تمہارا یہ عمل کرم نہیں بلکہ تمہاری ڈیوٹی ہے اور تم اپنی ڈیوٹی یہ سمجھتے ہو کہ معین وقت میں بغیر کسی لالچ کے آپ اس کی مدد کرتے رہو اور تم سے مدد حاصل کرنے کے لحاظ سے تقریبا وہ تمہارا قرض دار ہو جائے گا ۔

لیکن میں اس اکرام کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں جو حقیقی معنوں میں کرم ہے ایک شخص تمہاری توجہ کا مرکز ہے اور تم اس کی مدد کرنا چاہتے ہو اور وہ پیش گوئی نہیں کرتا تو اسکی مدد کرے گا اور حتی کہ ایک دفعہ بھی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ تم سے کوی چیز وصول کرے گا تم بھی اس کی مدد کرنے میں مکمل طور پر خود مختار ہو اور کوئی مادی یا روحانی محرک تمہیں اس کی مدد پر مجبور نہیں کرتا ان نکات کو مد نظر رکھت ہوئے اگر تم اس شخص پر کرم کرتے ہو تو کیا تم مجبور تھے ؟ جابر نے کہا نہیں ‘

جعفر صادق نے فرمایا خدا نے بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنے حقیقی کرم کی رو سے کائنات کو تخلیق کیا ہے تاکہ زندگی کی یہ نعمت مخلوقات کو عنایت فرمائے بہر حال میں جو ایک موحد ہوں اپنی عقل کے مطابق کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس کی ایجاد کیلئے خدا کے کرم کے علاوہ کسی سبب کو مد نظر نہیں رکھتا ۔

میں اپنی عقل کا سہارا لیتا ہوں ‘ اور میری عقل انسانی ہے جبکہ خداوند تعالی دانا اور توانائے مطلق ہے اس کی عقل ‘عقل الہی ہے عقل الہی انسانی عقل سے اس قدر بڑی اور طاقتورہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی نسبت نہیں ان کا موازانہ کسی صورت ممکن نہیں ہم جس قدر کہیں کہ عقل الہی انسانی عقل سے برتر اور زیادہ طاقتور ہے پھر بھی خداوند تعالی کے عقل کو انسانی عقل سے کوئی نسبت نہیں دے سکتے کیونکہ خداوند تعالی کی عقل اس کی تمام صفات کی مانند لا محدود ازلی اور ابدی ہے اس کو کسی پیمانے یا میزان سے ناپا یا تولا نہیں جا سکتا اور ایسا کوئی عدد نہیں جو اس کی برتری کی نشاندہی کر سکے چونکہ جونہی زبان پر کوئی عدد لایا جاتا ہے یا کاغذ پر لکھا جاتا ہے تووہ ایک محدود عدد ہو جاتا ہے اور ایک محدود چیز کا لا محدود ازلی اور ابدی چیز سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔

آپ سے کیے جانے والے دوسرے سوالات

جابر نے پوچھا ‘ بشری عقل کے الہی عقل سے موازنے سے آپ کی کیا مراد ہے ؟

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ میں بشری عقل کا الہی عقل سے موازنہ نہیں کر سکتا اور کوئی انسان اس موازنے پر قادر نہیں ‘ صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ الہی عقل بشری عقلسے اس قدر برتر ہے جس کا قیاس کرنا ممکن نہیں اور اس کی برتری وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ بتاؤں میں اپنی عقل کے مطابق کائنات کے وجود میں آنے کے سبب کو مد نظر رکھتا ہوں نہ کہ ایسی عقل کے مطابق جس سے میں بے خبر ہوں ۔ جابر نے اظہار خیال کای میں آپ کا مقصد نہیں سمجھا جعفر صادق نے فرمایا میرا مطلب یہ ہے کہ میری عقل یہ کہتی ہے کہہر چیز کی تخلیق کا کوئی سبب موجود ہوتا ہے اور میری عقل کسی ایسے معلول ؟ جس کا سبب یا علت بیان کی گئی ہو ’ کو تسلیم نہیں کرتی جس کی علت موجود نہ ہو کیونکہ بشری عقل ہے اور شاید عقل الہی کے وسیع احاطے میں علت کا مسئلہ سر ے سے موجود نہ ہو اور خالق کی عقل ضروری نہ سمجھتی ہو کہ ایک ایسی علت وجود میں آئے جس سے کوئی معلول نمودار ہو اور اس طرح کیا حادثہ وجود میں آئے ۔

ہماری عقل علت و معلول کے رابطے کو اس قدر ضروری خیال کرتی ہے کہ اس رابطے کے باہر مخلوقات کی پیدائش کو سمجھنے سے قاصر ہے اور جو نہی کسی تخلیق کو دیکھتی ہے فورا اس کی علت تک پہچنے کی کوشش کرتی ہے اور شاید خداوند تعالی کی مشینری میں جو خداوند تعالی کے ارادے کی مطیع ہے تخلیقات بغیر کسی علت کے وجود میں آتی ہوں اور کسی علت کے موجود ہونے کی ضرور تنہ ہو تاکہ کوئی مخلوق وجود میں آئے اور لہذا شاید یہ کائنات کسی علت کے بغیر وجود میں آئی ہے ۔

جابر نے اظہار خیال کای ‘ آپ نے جو کجھ کہا ہے میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں لیکن اس کے باوجود کہ ہماری عقل ‘ عقل بشری ہے اور عقل الہی کا ہماری عقل سے کسی طور موازانہ ممکن نہیں ہمارے پاس اس عقل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خداوند تعالی کے بارے میں غور و فکر کیلئے کوئی دوسرا ذریعہ استعمال کریں ۔ اور خصوصا کائنات کی تخلیق کے سبب کے بارے میں فکر کریں میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ خداوند تعالی نے ہمیں زیادہ طاقتور عقل کیوں نہ دی تاکہ اسے اچھی طرح ہم پہچان سکیں چونکہ جیسا کہ آپ نے کہا خدا کی مشینری تک رسائی نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہمیں چون و چرا کا بھی حق حاصل نہیں یہ ہماری عقل جو خداوند تعالی کی معرفت کیلئے ہمار ا واحد وسیلہ ہے ہمیں کہتی ہے کہ کائنات اور جو کچھ اس میں ہے کسی علت کے بغیر وجود میں نہیں آیا اور ہم اس علت کیجستجو میں ہیں ۔

جعفر صادق نے اظہار خیال فرمایا ہماری عقل کے مطابق وہ علت خداوند تعالی کے کرمس ے عبارت ہے تاکہ مخلوقات ایجاد ہوں اور زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہوں اور اگر اس کے لاوہ کوئی علت موجود ہو تو وہ خدا ہی جانتا ہے اور بس ۔

جابر نے کہا ‘ جو کچھ آ اپ نے فرمایا ہے اس سے میں یہی سمجھا ہوں کہ خداوند تعالی ازلی و ابدی ہے اس کا کوئی مبدا اور منتہی نہیں ہے کائنات کو مستقل قوانین کے تحت چلا رہا ہے جعفر صادق نے فرمایا ہاں اے جابر ۔

جابر نے پوچھا ‘ اس طرح تو کائنات کی انتہا تک دنیا میں کوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہو گا ؟ جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے جابر ‘ خدا کیلئے کوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہوتا اور اس کی مثال میں نے گندم کاشت کرنے والے دھقان کی مثال سے دی ہے لیکن کائنات کی مخلوقات جس میں انسان بھی شامل ہیں ان کیلئے ہر رونما ہونے والا واقعہ نیا ہوت اہے حتی کہ موسموں کی تبدیلی بھی ان کیلئے نئی ہوتی ہے کیونکہ انہیں دو بہاریں ہر لحاظ سے مختلف دکھائی دیتی ہیں جابر نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے کہ کائنات کی مخلوقات میں کوئی اس دنیا کیلئے خداوند تعالی کے وضع کردہ قوانین کی پیروی نہ کرے اور نا فرمانی کر بیٹھے ۔

جعفر صادق نے جواب دیا ‘ نہیں اے جابر ‘ کائنات کی مخلوق میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو اس کائنات کیلئے خداوند تعالی کے وضع کردہ قوانین کی نا فرمانی کرے اگرچہ وہ ایک چیونٹی کیوں نہ ہو ای اس سے بھی کوئی چھوٹا ذرہ ہو وہ مخلوقات بھی خدا کی تسبیح کرتی ہیں جو ہماری نظر میں بے جان ہیں لیکن ان کی زندگی میں پایا جانے والا جوش و خروش ہماری زندگی سے کہیں زیادہ ہے یہ سب مخلوقات خد اکے وضع کردہ قوانین کی پیروی کرتی ہیں ۔

جابر نے سوال کیا ‘ بیمار ی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ کیا بیماری کو خداوند تعالی انسان پر نازل کرتا ہے یا یہ کہ کسی حادثے کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے ۔

جعفر صادق نے فرمایا ‘ بیماریوں کی تین اقسام ہیں بیماریوں کی ایک قسم وہ ہے جو مشیت الہی سے رونما ہوتی ہے ان میں بڑھاپا بھی شامل ہے کوئی بھی اس بیماری سے بچ نہیں سکتا یہ ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے بیماریوں کی دوسری قسم وہ ہے جو آدمی کی جہالت یا ہوس کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے جبکہ خداوند تعالی فرماتا ہے کہ کھانے اور پینے میں اسراف سے کام نہ لو اگر آدمی کھانے پینے میں اسراف نہ کرے اور چند لقمے کم کھائے اور چند گھونٹ کم پیئے توبیماری کا شکار نہیں ہو گا بیماریوں کی تیسری قسم وہ ہے جو جسم کے دشمنوں سے عارض ہوتی ہیں اور وہ انسانی بدن پر حملہ کرتے ہیں لیکن جسم اپنے پورے وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتا اور اگر جسمانی قوت ان دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے لیکن جب انسان بیمار پڑ جاتا ہے پھر بھی بدن مقابلہ کرتا ہے اور بدن کے اس مقابلے کے نتیجے میں بیماری ختم ہو جاتی ہے اور بیماری شفایاب ہو جاتا ہے ۔

جابر نے پوچھا جسم کے دشمن کون ہیں جعفر صادق نے جواب دیا جسم کے دشمن اتنی چھوتی مخلوق ہے جو بہت زیادہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے دیکھائی نہیں دیتی یہ مخلوق جسم پر حملہ کرتی ہے اور جسم میں بھی ایسی چھوٹی مخلوق موجود ہے جو بہت زیادہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتی اور جسم کے دشمنوں کے خلاف اس کا دفاع کرتی ہے جابرنے پوچھا بیماری پیدا کرنے والے جسم کے دشمن کون سے ہیں جعفر صادق نے جواب دیا ان کی اقسام کی تعداد بہت زیادہ ہے اس طرح بدن کا دفاع کرنے والے بھی مختلف اقسام کے ہیں لیکن جو چیز انہیں تشکیل دیتی ہے وہ محدود ہے جابر نے کہا آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ان کی اقسام کیسے زیادہ ہیں اور جو چیز انہیں تکیل دیتی ہے وہ محدود ہے جعفر صادق نے فرمایا جوکتاب تم پڑھ رہے ہو وہ ہزاروں کلمات کی حامل ہے اور اس کتاب میں ہر کلمہ حروف سے لکھا گیا ہے لیکن جو چیز کلمات کو تشکیل دیتی ہے وہ حروف تجہی کے محدود حروف ہیں اور حروف تہجی کے چند گنے چنے حروف کے ساتھ ہزارون کلمات لکھے جا سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک یا ان کلمات کا ہر دستہ مخصوص معنوں کا حامل ہے ۔

ہمارے جسم کے دشمن اور ان دشمنوں کے خلاف دفاع کرنی والے تمہاری کتاب کے ہزاروں کلمات کی مانند ہیں لیکن سب محدود ہیں جو چند گروہوں سے تشکیل پاتے ہیں( جس طرح حروف تہجی سے کلمات تشکیل پاتے ہیں)جابر نے کہا اب میں سمجھا کہ آپ کا کیا مطلب ہے جعفر صادق نے فرمایا میں تمہیں اچھی طرح سمجھانے کیلئے ایک اور مثال دیتا ہوں جانوروں میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کی ہڈیاں گوشت اور خون ہے اور ہر طبقے کے جس جانور کا تم مشاہدہ کرو گے تو دیکھو گے کہ وہ ہڈیاں گوشت اور خون رکھتا ہے لیکن کیا ان تین مادوں سے تشکیل پانے والے تمام جانور ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اونٹ کی ہڈیاں گوشت اور خون ہے اور بلی بھی ہڈیوں گوشت اور خون کی حامل ہے لیکن اونٹ اور بلی کے درمیان کوئی شباہت نہیں ہے ان میں سے ایک گھاس کھانے والا ہے اور دوسرا گوشت خور ہے جبکہ ان کے بدن کو تشکیل دینے والے مواد کی جنس بنیاد ی طور پر ایک ہی ہے میں نے بنیادی طور پر اس لئے کہا کہ بلی کے گوشت کی جنس اونٹ کے گوشت کی جنس سے مختلف ہے لیکن بنیادی طور پر دونوں گوشت ہی ہیں ہمارے جسم کے دشمن اور وہ جو ہمارے جسم کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں بنیادی لحاظ سے تھوڑے سے مواد سے تشکیل پاتے ہیں لیکن ان کی اقسام زیادہ ہیں ۔

جابر نے پوچھا دنیا کب وجود میں آئی ؟ جعفر صادق نے جواب دیا یہ خدا جانتا ہے جابر نے اظہار خیال کیا لیکن یہودیوں کے بقول اب اسکی پیدائش ۴۷۶۲ واں سال گزر رہا ہے جعفر صادق نے فرمایا خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کب معرض وجود میں آئی اور عقل کہتی ہے کہ جہاں یہودیوں کی اس روایت سے کہ دنیا کا ۴۷۶۲ واں سال ہے کہیں زیادہ پرانی ہے جابر نے پوچھا کیا ان کے پیغمبر نے نہیں کہا کہ کائنات آج سے ۴۷۶۲ سال پہلے وجود میں آئی ؟ جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر اور یہ قول یہودی راویوں کا ہے نہ ان کے پیغمبر کا اور اگر کوئی عالم انسان صحراؤں پہاڑوں دریاؤں اور سمندروں پر نظر ڈالے تو اسے اندازہ ہو گا کہ کائنات کی عمر ۴۷۶۲ سال سے کہیں زیادہ ہے جابر نے پوچھا اگرچہ انداز ہی سہی لیکن کیا آپ کائنات کی عمر بتا سکتے ہیں جعفر صادق نے جواب دیا نہیں اے جابر میں انداز بھی نہیں بتا سکتا کہ کائنات کو وجودمیں آئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کائنات کب وجود میں آئی دنیا کی بعض اقوام دنیا کو یہودیوں کی اس روایت کے برعکس کہیں زیادہ پرانی سمجھتی ہیں ہندوستان والوں کے بقول دنیا کی عمر کے بیس ہزار سال گزر چکے ہیں چینی دنیا کو اس سے کہیں زیادہ قدیم سمجھتے ہیں ان کے بقول دنیا کی عمر ایک لاکھ سال ہے یعنی یہودی راویوں کی روایت سے بیس گنا سے بھی زیادہ ۔

مصر میں ایک عمارت ہے جس کے بارے میں مصریوں کا کہنا ہے کہ آج سے چھ ہزار سال پہلے بنائی گئی اور اگر مصریوں نے درست اخذ کیا ہو تو وہ عمارت اس وقت بنائی گئی جب دنیا کے آغاز کو تقریبا ایک ہزار تین سو سال رہتے تھے اس طرح قدیم مصریوں نے ایک ایسی دنیا میں عمارت بنائی جو ابھی تک وجود میں نہیں آئی تھی اور یہ بات قابل قبول نہیں ہے ۔

جابر نے پوچھا اس دنیا کا خاتمہ کب ہو گا؟ کہ اس کے بعد جہان باقی نہیں رہے گا جعفر صادق نے جواب دیا ایسا زمانہ ہر گز نہیں آئے گا کہ جہاں موجود نہ ہو کیونکہ جو چیز ایک دفعہ وجود میں آ جاتی ہے فنا نہیں ہوتی صرف اس کی شکل تبدیل ہوتی ہے جابر نے پوچھا کہا جاتا ہے کہ دنیا کے اختتام پر سورج اور چاند کی روشنی ختم ہو جائے گی کیا یہ حقیقت ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ممکن ہے ایسا زمانہ آئے کہ سورج ماند پڑ جائے اس صورت میں چاند بھی ماند پڑ جائے گا اور جاند سورج سے روشنی نہیں حاصل کر سکے گا تو وہ دنیا کا خاتمہ نہ ہو گا بلکہ دنیا کے ایک اور دور کا آغاز ہو گا جابر نے پوچھا ‘ کیا ممکن ہے بنی نوعی انسان کی زندگی میں ایسی رات آئے جس کے بعد سورج طلوع نہ ہو جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر کیوں کہ خداوند تعالی دنیا کو مستقل قوانین کے تحت چلا رہا ہے اور ان قوانین کے تحت سورج کو ہر روز طلوع ہونا چاہیے ۔

لیکن اگر ایسا دن آئے کہ سورج ماند پڑ جائے کہ وہ بھی خداوند تعالی کے اس کائنات کو چلانے کیلئے وضع کردہ قوانین کے مطابق ہے تو پھر طلوع نہیں ہو گا جابر نے پوچھا آپ سورج کے ماند پڑنے کے وقت کی قیاس آرائی کر سکتے ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا صرف خداوند تعالی بتا سکتا ہے کہ سورج کب ماند پڑے گا ؟ لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ واقعہ اتنا جلدی وقوع پذیر نہیں ہو گا اور شاید بیابان کی ریت کے ذرات کی تعداد کیبرابر سال گذر جائیں تب کہیں جا کر سورج ماند پڑے اور اس وقت کائنات کی زندگی میں نئے دور کا آغاز ہو گا جابر نے پوچھا جو لوگ دنیا کے مال و متاع کو سمیٹنے میں حرص سے کام لیتے ہیں دوسرے جہان میں ان کی کیا حالت ہو گی ؟ کیا وہ جنت میں جائیں گے ؟

جعفر صادق نے جواب دیا زندگی گزارنے اور کاندان کی کفالت کیلئے جدوجہد ضروری ہے اور وہ لوگ جو اپنی زندگی کے وسائل مہیا کرنے کیلئے کام کرتے ہیں خدا کی اچھی مخلوق ہیں اور ایسا کم ہوا ہے کہ ان لوگوں میں حرص پائی جائے چونکہ یہ لوگ زحمت کش ہوتے ہیں اپنی اور اپنے خاندان کی روزی کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں لہذا ان کے پاس حریص بننے کا کوئی وسیلہ نہیں ہوتا ۔

جن لوگوں کو مال جمع کرنے کی حرص ہوتی ہے وہ دوسرے طبقے کے لوگ ہیں اور جو چیز انہیں حریص بناتی ہے وہ کم مدت میں زیادہ مال و دولت کا میسر آنا ہے اور چونکہ صرف تکلیف اٹھا کر اور حلال روزی کما کر تھوڑی مدت میں زیادہ مال و دولت اکٹھی نہیں کی جا سکتی لہذا اس قسم کے لوگ ناجائز ذرائع استعمال کرکے نہایت ہی کم مدت میں زیادہ مال کما لیتے ہیں ایسے لوگ جب ایک مرتبہ تجربہ کر لیتے ہیں کہ نہایت ہی قلیل مدت میں بہت سا مال جمع کیا جا سکتا ہے تو وہ بار بار یہ عمل دھراتے ہیں اور آکر کار ان میں مال جمع کرنے کی اتنی حرص پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ زندگی کے آخری حصے تک اسی کام میں لگے رہتے ہیں ان کا بہترین مشغلہ مال جمع کرنا ہوتا ہے یہی لوگ ہیں جن کے بارے خداوند تعالی نے فرمایا ہے کہ "الذی جمع مال و عددہ " ان کی زندگی کی سب سے بری لذت مال جمع کرنا اور زرو جواہر کو گننا ہے مال جمع کرنے کیلئے حریص ہونے کا ایک خاصہ یہ ہے کہ حریص انسان اپنے مال کا کچھ حصہ محتاجوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ نہیں کر سکتا اور نہ صرف یہ کہ محتاجوں کیلئے مال خرچ نہیں کر سکتا بلکہ محتاجوں اور مسکینوں کو ان کی موجودہ زندگی کا مستوجب سمجھتا ہے اس کے ضمیر میں یہ بات جاگزین ہو جاتی ہے کہ اگر خدا کسی کو محتاج نہ بنانا چاہے تو ہو محتاج نہیں ہوتا پس اسے کسی محتاج کی مدد کیلئے ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے کیونکہ حریص شخص کے نظریئے کے مطابق کسی محتاج کی مدد مشیت الہی کیبر خلاف ہے ۔

دنیا میں اس طرح کے لوگ کسی چیز سے اتنی لذت نہیں اٹھاتے جتنی وہ سیم و زر کو گننے میں اٹھاتے ہیں یا اس میں کہ ان کے پاس وسیع و عریض اراضی ہو ۔

دوسرے جہان میں ان کی حالت وہی ہو گی جو کلام خدا میں بیان کی گئی ہے لیکن وہ لوگ جو روزی کمانے کیلئے مشقت کرتے ہیں اور اپنی حلال کمائی سے کچھ رقم جمع کرتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے تو ایسے لوگ ہر گز حریص نہیں کہلاتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قناعت پسند ہوتے ہیں اور انہیں اپنے پسماندگان کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ چلے جائیں اور اپنے پسماندگان کیلئے کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جائیں گے تو ان کے پسماندگان فقرو فاقے کا شکار ہو جائیں گے ۔ اس قسم کے افراد جو اپنے برھاپے کی فکر کریں یا اس خیال سے کہ ان کی موت کے بعد ان کی بیوی بچے فقرو فاقے کا شکار نہ ہوں ایسے لوگوں کو خدا وند تعالی اجر عنایت فرمائے گا اور اگر ان سے کوئی ایسا عمل سر زد نہ ہوا ہو جسکی وجہ سے وہ سزا کے مستحق ہوں تو وہ موت کے بعد جنت میں جائیں گے ۔

زندگی میں قدم قدیم پر یہی لوگ کام انجام دیتے ہیں یہی لوگ زراعت کرتے ہیں یہی لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں پھل دار درختوں کی پرورش کرتے ہیں اور گھر بناتے ہیں اور اپنی قوم کی صنعتی ضروریات پوری کرتے ہیں اگر مسلمان ہوں تو جہاد کے موقع پر مجاہد فی سبیل اللہ بن جاتے ہیں اور میدان جنگ میں جا کر قتل ہو جاتے ہیں ۔ لیکن وہ لوگ جو حریص ہیں اور تما م عمر مال جمع کرنے کے علاوہ کوئی کام اور آرزو نہیں رکھتے وہ اپنی قوم کیلئے کوئی مفید کام نہیں کرتے اگر جہاد پیش آئے تو میدان جنگ میں نہیں جاتے کیونکہ اپنی وسیع و عریض اراضی غلے سے بھرے ہوئے گوداموں کو اور بے تحاشا مال و دولت کو چ ۹ وڑ کر میدان جنگ میں نہیں جا سکتے چونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہاں قتل ہونے کا خطرہ ہے اسی لئے خداوند تعالی نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ وہ حریص کو پسند نہیں کرتا ۔

حتی کہ اگر ایک حریص موت سے پہلے اپنا تمام مال و متاع اپنے پسماندگان کی ضرورت کے علاوہ محتاجوں میں تقسیم کر دے تو بھی بعید ہے کہ خداوند تعالی اسے جنت میں بھیج دے چونکہ جیسا کہ تجربہ کیا گیا ہے مال جمع کرنے کی حرص وہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جہاں شروع ہی سے انسان نہایت کم مدت میں ناجائز طریقے سے بہت زیادہ مال اکٹھا کرنا شروع کرتا ہے اور یہ بات انسان کو بار بار اسی طریقے سے اتنا ایا اس سے زیادہ حاصل کرنے کا شوق دلاتی ہے لہذا چونکہ مال ناجائز طریقے سے اکٹھا ہوتا رہا تو یہ گناہ خدا کی قربتکی خاطر مال خرچ کرنے سے دور نہیں ہو گا کیونکہ اس سے لوگوں کے صرف ایک گروہ کو فائدہ پہنچے گا ۔

جابر نے پوچھا ‘ کیا جانوروں کا خدا پر ایمان ہے ؟ جعفر صادق نے فمایا کسی شک و شبہ کے بغیر جانور خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اگر خدا پر ایمان نہ رکھتے ہوں تو ان کی زندگی منظمنہ ہو جاتی کہا جتا ہے کہ فطرت جانوروں کی زندگ کو منظم کرتی ہے اور یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس خو کو کون جانوروں کی فطرت میں شامل کرتا ہے اگر جانور خالق پر ایمان نہ رکھتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ جانوروں کی بعض انواع جن کی منظم اجتماعی زندگی سے تم مطلع ہو ایسی منظم زندگی کی حامل ہوتیں ؟ کیا خداوند تعالی کے علاوہ کوئی خالق ہے جو جانوروں کی بعض انواع کی اجتماعی زندگی کو اس قدر منظم کرے کہ ان میں سے ہزاروں ایک لمحے میں ایک مخصوص کام کریں اور ساری زندگی ان سے ذرا سی کوتاہی سرزد نہ ہو ؟

کیا خالق کے ایمان کے بغیر جانوروں کی بعض اقسام جن سے تو مطلع ہے ایسی منظم و مرتب اجتماعی زندگی بسر کر سکتے ہیں ؟ جبکہ ان کا کوئی سردار کمانڈر نہیں ہوتا اور ان میں مرتبے کے لحاظ سے کوئی بھی دوسرے پر فوقیت نہیں رکھتا ۔ اجتماعی زندگی گزارنے والے جانوروں کی بعض اقسام اپنے فرائض انجام دینے میں اس قدر کوشاں ہوتی ہیں کہ وہ جانور جو جوانی ہی میں مر جاتے ہیں اور اگر وہ کم دوڑ دھوپ کریں تو وہ اپنی حیوانی زندگی کی نسبت سے طویل عمر گزاریں گے ۔ میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو جانور سماجی زندگی بسر کرتے ہیں اور انسان جو دائمی لگاتار محنت کے نتجے میں جوانی میں ہی فوت ہو جاتے ہیں وہ اس محنت سے خود فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ جس معاشرے میں وہ زندگ بسر کرتے ہیں وہ معاشرہ ان کی محنت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔

کیاممکن ہے کہ ایک خالق پر ایمان لائے بغیر اور اس خالق کو اپنی تقدیر میں موثر جانے بغیر اس معاشرے کے راستے میں جس میں وہ زندگی گزار رہے ہیں اس قدر فدا کاری کریں ۔ اے جابر جان لو کہ یہ بات محال ہے کہ ایک چیز موجود ہو لیکن وہ ایک خالق کی اطاعت نہ کرے اور اس خالق کی اطاعت اس پر ایمان کی دلیل ہے ۔

نہ فقط انسان جانورون اور درخت خالق کی فرمانبرداری کرتے ہیں بلکہ جمادات بھی خالق کے فرمانبردار ہیں اور اگر فرمانبردار نہ ہوتے تو باقی رہنے کیلئے وجود میں نہ آتے جابر نے پوچھا انہوں نے خداوند تعالی کی صفات تک رسائی کہاں سے حاصل کی ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ انہوں نے قرآن سے خداوند تعالی کی کی صفات تک رسائی حاصل کی جابر نے اظہار خیال کیا ‘ میرا مقصد وہ قرآن نہیں جس پر میرا عقیدہ ہے بلکہ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام سے قبل خداوند تعالی کی صفات تک کیسے رسائی حاصل کی ؟ جعفر صادق نے فرمایا خدا کی وہ صفات بتاؤ جن کی انہوں نے معرفت حاصل کی ہے وہ کون کونسی ہیں ؟ جابر نے کہا ‘ اسلام سے قبل توحید پرست اقوام کو معلوم تھا کہ خداوند تعالی کا جسم نہیں ہے اور وہ کسی چیز سے وجود میں نہیں آیا اور دیکھا نہیں جاتا اور لا مکان ہے یا کسی مکان میں نہیں سماتا واحد ہے اور لا شریک ہے اسکی صفات اسکی ذات پر زائد نہیں بلکہ اسکی ہر صفت اسکی ذات کا جزو ہے وہ دانا اور توانا ہے وغیرہ وغیرہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیسے ان لوگوں نے خداوند تعالی کی صفات کی معرفت حاصل کی ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ ان میں سے بعض صفات جن کا تم نے ذکر کیا ‘ قرآن میں آئی ہیں اور میں قرآن کے حوالے سے تصدیق کرتا ہوں کہ وہ خداوند تعالی کی صفات میں سے ہیں لیکن اگر کوئی صفت خداوند تعالی سے منسوب کی جائے اور وہ قرآن میں ذکر نہ کی گئی ہو تو میں اسکی تصدیق نہیں کرتا ۔

جابر نے کہا کیا اپ کی عقل تسلیم کرتی کہ وہ صفات خداوند تعالی کی صفات ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا میری عقل ایک انسانی عقل ہے وہ خدا کی صفات کو درک نہیں کر سکتی اور وہ لوگ جنہوں نے قرآن سے قبل خدا کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے خدا کی بعض صفات کو مثبت اور بعض کو منفی قرار دیا انہوں نے خود بخود قیاس کیا ہے ۔ جابر نے کہا میں آپ کا مقصد نہیں سمجھا ؟

جعفر صادق نے فرمایا میں مثال دیتا ہوں تاکہ تم میرا مطلب سمجھ جاؤ اسلام سے قبل ایک شخص خداوند تعالی کی صفات معلوم کرنا چاہتا تھا ‘ اس کا خیال تھا کہ خداوند تعالی پرندوں کی مانند پرواز کر سکتا ہے اور اسکی پرواز کو وہ اسکی مثبت صفات میں شمار کرتا تھا ۔ وہ شخص پرواز کرنے کو کیوں خدا وند تعالی کی مثبت صفات میں شمار کرتا تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے چونکہ خود وہ پرواز نہیں کر سکتا تھا لہذا اس کا خیال تھا کہ خداوند تعالی پرواز کرنے پر قادر ہے یا یہ کہ ایک شخص کا خیال تھا کہ خداوند تعالی پانی کی مچھلی کی طرح پانی میں زندہ رہنے پر قادر ہے اور خداوند تعالی کے پانی میں زندگی بسر کرنے کو وہ خدا کی مثبت صفات میں سے خیال کرتا تھا اور جو چیز اسے اس فکر میں لگائے رکھتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ خود مچھلی کی مانند پانی میں زندگی بسر نہیں کر سکتا تھا تیسرے کا خیال تھا کہ خداوند تعالی کا جسم نہیں ہے اور جو چیز اسے اس فکر میں لگائے رکھتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ خود جسم رکھتا تھا لہذا وہ جسم نہ رکھنے کو خداوند تعالی کی صفات (منفی صفات ) میں سے جانتا تھا ایک دوسرے کا خیال تھا کہ خداوند تعالی لا مکان ہے چونکہ خود وہ لا مکان نہیں بن سکتا تھا اور ہر حالت میں کسی مکان میں سمایا ہوتا تھا ۔ لہذا مکان نہ ہونے کو یہ خداوند تعالی کی منفی صفات میں سے شمار کرتا تھا ایک شخص جھوٹا تھا اس کا خیال تھا کہ خداوند تعالی سچ بولنے والا ہے کیونکہ خود وہ سچ نہیں بولا سکتا تھا لہذا وہ سچ بولنے کو خداوند تعالی کی مثبت صفات میں سے شمار کرتا تھا خلاصہ یہ کہ تمام وہ لوگ جنہوں نے خدا کی مثبت یا منفی صفات کو مد نظر رکھا انہوں نے وہ صفات جو خود ان میں موجود نہیں تھیں یا ان تک وہ رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے انہیں انہوں نے خدا کی صفات کا جزو سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام سے قبل جتنی صفات بھی خداوند تعالی کی توصیف میں بیان کی گئی ہیں عام طور پر مثبت یا منفی صفات ہیں انہیں میں خداوند تعالی کی صفات کا جزو خیال نہیں کرتا ہوں مگر یہ کہ ان کا ذکر قرآن میں آیا ہے ہو کیونکہ انسانی عقل خداوند تعالی کی صفات اور خصوصیات کو درک کرنے پر قادر نہیں ۔

جابر نے کہا اس طرح تو جو کجھ قبل از اسلام خدا کی صفات کے متعلق کہا گیا بے بنیاد ہے ۔ جعفر صادق نے فرمایا ‘ وہ صفات مستثنی ہیں جنکی اسلام نے تصدیق کی ہے باقی تمام صفات اسی دلیل کی بنا پر بے بنیاد ہیں جابر نے کہا جو کچھ آپ نے بیان فرمایا میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں لیکن کیا ہم خداوند تعالی کی صفات کو درک کرنے کیلئے عقل کے علاوہ کوئی حربہ استعمال کر سکتے ہیں ۔

یہی عقل جسکی وجہ سے ہم خداوند تعالی کے وجود کے قائل ہیں اور اسے اس جہان کا اور اپنا خالق سمجھتے ہیں اسی عقل کی وساطت سے ہمیں خداوند تعالی کی صفات تک رسائی حاصل کرنا چاہیے ہمارے پاس کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ہے جس کے ذریعے ہم جان سکیں کہ وہ کن صفات کا مالک ہے جعفر صادق نے فرمایا کیا تم نے پالتو بھیڑ دیکھی ہے ؟ جابر نے کہا خود میرے پاس ایک پالتو بھیڑ تھی جعفر صادق نے فرمایا ۔

چونکہ تم نے خود ایک بھیڑ کو پالا ہے لہذا تمہیں معلوم ہے کہ وہ تمہیں پہچانتی ہے اور جب تم اسے اشارہ کرتے ہو تو وہ تمہاری طرف آتی ہے اور تمہارے ہاتھ سے گھاس اور دوسری چیزیں جو اس کی پسند اور ذائقے کے مطابق ہوتی ہیں انہیں کھا جاتی ہے وہ تمہارے اور دوسرے لوگوں میں فرق کرتی ہے جب تم اسے اشارے سے بلاتے ہو تو وہ دوڑے ہوئے آتی ہے اور تمہارے ہاتھ سے گھاس اور دوسری چیزیں جو اسکی طبیعت اور ذائقے کے مطابق ہوتی ہیں کھاتی ہے وہ تمہیں خوب پہچانتی ہے اور اگر کوئی دوسرا اسے بلائے تو اسکی طرف نہیں جاتی جونہی تم اسے اشارہ کرتے ہو وہ دوڑ کر تم تک پہنچتی ہے چونکہ وہ تمہیں پہچانتی ہے اور اسے معلوم ہے کہ تم دوسرے سے مختلف ہو ۔

جابر نے جعفر صادق کی گفتگو کی تصدیق کی جعفر صادق نے فرمایا کہ وہ بھیڑ جو تمہیں پہچانتی ہے اور تمہارے حکم کی تعمیل کرتی ہے کیا تمہارے صفات کو درک کرتی ہے ؟ کیا اس جانور کیلئے یہ بات جاننے کا امکان ہے کہ اس کے بارے میں تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ وہ تمہیں پہچانتی ہے اور تمہارے حکم کی تعمیل کرتی ہے اسے جو شعور عطا ہوا ہے اسکے ذریعے وہ تمہاری شناخت کرنے پر قادر ہے لیکن اس بات پر قادر نہیں کہ تمہاری صفات اور ارادوں حتی کہ خود اس کے بارے میں تمہارے ارادوں سے مطلع ہو سکے اس مثال سے تم یہ سمجھ سکتے ہو کہ خدا کی پہچان کے لحاظ سے ہماری عقل کی حدود کہاں تک ہیں ۔ ہم خدا کو پہچانتے ہیں اسے اپنا خالق سمجھتے ہیں اور اسکے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں لیکن اسکی صفات تک رسای حاصل نہیں کر سکتے ہماری عقل اسی قدر محدود ہے کہ اسے پہچانیں اور اسکے حکم کی تعمیل کریں لیکن اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ یہ جان سکیں وہ کون ہے ؟ اور اس نے اس جہان کو کیوں خلق کیا ہے اور اس دنیا کا خاتمہ کیا ہو گا اس کی نسبت ہماری عقل کی کیفیت پالتو بھیر کی مانند ہے جو تم سے مانوس ہے ۔ کیا تمہاری بھیڑ جانتی ہے کہ تم کب پیدا ہوئے ؟ کیا وہ گھر جس میں بھیڑ رہتی ہے اسے معلوم ہے کہ تم نے کب بنایا تھا ؟ کیا اسے معلوم ہے کہ وہ گھر کب تک باقی رہے گا کیا اسکے لئے یہ بات جاننا ممکن ہے کہ تم نے اس گھر کی بناوٹ میں کیسا میٹیریل استعمال کیا ہے؟ اور اسے بنانے والے کون تھے ؟

اسکے باوجود کہ وہ تمہیں پہچانتی اور تمہارے حکم کی تعمیل کرتی ہے ان میں سے کسی مسئلے سے آگاہ نہیں ‘ ہم بھی جو انسانی عقل کے ذریعے خداوند تعالی کی پرستش کرتے ہیں ان میں سے کسی مسئلے سے آگاہ نہیں ہیں مگر صرف اس حد تک کہ جہاں تک قرآن ہماری راہنمائی کرتا ہے جابر نے کہا میں جو اپنی انسانی عقل کے ذریعے اپنے خدا کی عبادت کرتا ہوں مجھ میں اور اس بھیڑ میں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ میری صفات جاننے کیلئے تڑپ نہیں رکھتی جبکہ میں اپنے خداکی صفات جاننے کا متلاشی ہوں ۔

جعفر صادق نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہے کہ تمہاری پالتو بھیڑ تمہاری صفات سے اگاہی حاصل کرنے کی متلاشی نہیں ؟ تمہیں کہاں سے معلوم ہے کہ وہ جانور جب تم گھر میں نہیں ہوتے ہو تو تمہاری فکر نہیں کرتا اور تمہیں اچھی طرح پہچاننے کی سعی نہیں کرتا ؟ تمہیں کیسے یقین ہے کہ تمہاری ہاتھ پال بھیڑ تمہاری شناخت کی متلاشی نہیں ہے ؟ لیکن کا حیوانی شعور ایسا ہے کہ وہ تمہاری صفات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیا ور تمہاری زبان کو نہیں سمجھ سکتی لیکن صرف ایک حد تک ‘ تجھے یہ سب معلوم ہے اور اسی وجہ سے جب کبھی اپنی پالتو بھیڑ سے بات چیت کرنا چاہتے ہو تو اس سے ایسی زبان میں بات کرتے ہو کہ وہ تمہارا مدعا سمجھ سکے اور حقیقت میں اے جابر تم اس سے خود اسکی زبان میں مخاطب ہوتے ہو کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگر تم اس سے کسی دوسری زبان میں بات کرو گے تو وہ نہیں سمجھ سکے گی کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟

اے جابر ‘ یہ تصور نہ کرو کہ چونکہ خداوند تعالی عربی میں کلام کرتا ہے لہذا اسنے قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے خداو ند تعالی دانا و توانائے مطلق ہے تمام زبانوں سے آگاہ ہے اور اس سیبر کر یہ کہ اسے اپنا مطلب سمجھانے کیلئے زبان کی احتیاج نہیں ہے۔

یہ ہم ہیں کہ جنہیں اپنے جیسے انسانوں کو مدعا سمجھنے کیلئے زبان کی ضرورت ہوتی ہے اور خداوند تعالی نے قرآن کو عربی میں اسلئے نازل کیا ہے کہ اس کا پیغمبر عرب تھا اور عرب قوم میں زندگی بسر کر رہا تھا لہذا قرآن کو ایک ایسی زبان میں نازل کیا کہ اس ک پیعمبر اور وہ قوم جس میں وہ رہ رہا ہے اسے سمجھیں اور اسی لئے قران بنی نوعی انسان کی فہم و فراستکی حدود میں نازل ہوا اور جس طرح تم اپنی پالتو بھیڑ سے اسکی زبان میں گفتگو کرتے ہو خداوند تعالی نے بھی بنی نوع انسان کی زبان میں ہم سے کلام کیا نہ کہ اپنی فہم و فراست کے مطابق چونکہ اگر خالق اپنے فہم و ادارک کے مطابق ہم سے کلام کرتا تو ہم اسکے کلام سے کچھ بھی سمجھ نہ پاتے جس طرح اگر تم اپنے فہم و ادارک کے مطابق اپنی بھیڑ سے گفتگو کرو تو وہ تمہارے کلام کو سمجھنے سے قاصر رہے گی ۔

جابر نے کہا میری مشکل یہ ہے کہ خداوند تعالی نے اپنی زبان جیسی زبان مجھے کیوں نہیں دی ؟ تاکہ میں اسکی زبان سے خداوند تعالی سے کلام کروں ؟ اور اسکے کلام کو مکمل طور پر یعنی اسکے فہم و ادارک کے مطابق سمجھ سکوں اور مجھے کیوں ایسی عقل نہیں دی کہ میں خداوند تعالی کی صفات کی معرفت حاصل کر سکوں اور یہ جانوں کہ ماضی میں اسکے کیا کام تھے اور آئندہ کیاہوں گے تاکہ میری اس سے نسبت بھیڑ کے مالک کی نسبت کی مانند نہ ہو ؟