مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43386
ڈاؤنلوڈ: 4106

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43386 / ڈاؤنلوڈ: 4106
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

جعفر صادق بانی مکتب عرفان

کچھ مسلمان عرفا اور مورخین کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے والد گرامی محمد باقر کے حلقہ درس میں عرفان کی تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔

" تذکرة الاولیا ء " کا مصنف شیخ عطار اسی گرو کے لوگوں سے ہے جب کہ پہلی صدی ہجری میں عرفان کا وجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اس نے مکتب کی شکل اختیار نہیں کی تھی شاید عرفانی تفکرات اس زمانے میں موجود ہوں اور بعض اسلامی مفکرین اسے زبان پر لائے ہوں ۔

لیکن پہلی صدی ہجری میں کوئی عرفانی مکتب موجود نہ تھا جس میں خاص طور پر عرفان کی قسم پر بحث کی جائے اور ایک پیریا مرشد یا غوث ایسا پایا جاتا ہو جو اپنے مریدوں کو اردگرد جمع کرے اور انہیں عرفان کی تعلیم دے ۔ دوسرا یہ کہ عرفان افکار کی تجلی کی ایک قسم ہے جس میں کلاس کی مانند نہیں پڑھا جاتا ۔ اور مرشد یا قطب اپنے مریدوں کو درس نہیں دیتا بلکہ ان سے عمل چاہتا ہے اور کہتے ہیں کہ درس عشق کو قلم ‘ کاغذ اور نوٹ بک کے ذریعے نہیں سیکھا جا سکتا ۔ (بشوئی اوراق اگر ہمدرس مائی ۔ کہ درس عشق در دفتر نباشد ) عرفان دوسری صدی سے وجود میں آیا یا اس زمانے میں مکتب کی صورت اختیار کر گیا اور اس سے قبل مکتب نہ تھا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے تذکرة الاولیا چند مشہور کتابوں میں سے ایک ہے اور بعض فضال کے نزدیک اسلامی دنیا کی معتبر کتابوں میں سے ایک ہے لیکن اس کتاب میں بعض ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جن کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔

مثلا یہ بات کہ با یزید بسطامی ‘ جو ایک مشہور عارف ہو گزرا ہے اس نے امام جعفر صادق کے حضور میں درس تلمذ تہہ کیا ہے ۔ یعنی ان کا شاگرد ہو گزرا ہے اس نے امام جعفر صادق سے عرفان بھی سیکھا تھا ۔ تذکرة الاولیاء کے مطابق جب وہ علوم حاصل کر چکا اور عرفان میں داخل ہوا تو اس نے عارف کامل بننے کیلئے ضروری سمجھا کہ دنیا کے بڑے عرفا کی خدمت میں پہنچے ۔ لہذا وہ بسطام سے نکل پڑا اور تیس سال تک بھوک کو برداشت کرنے اور دوسری تکالیف اٹھانے کے بعد دنیا کے بڑے عرفا کی خدمت میں حاضر ہوا ۔

اس دوران میں اس نے ایک سو تیرہ عرفا کا قرب حاصل کیا جس میں سب سے آخری جعفر صادق تھے با یزید بسطامی ہر روز جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کی باتیں غور سے سنتا ان کے نصائح پلے باندھتا اور پوری دل جمعی کے ساتھ ان کی تعلیم سنتا ۔ ایک دن جعفر صادق نے اسے کہا " اے یزید ‘ وہ کتاب جو تمہارے سر کے اوپر طاق میں ہے مجھے لا کر دو " بایزید نے کہا آپ کس طاق کے بارے میں فرماتے ہیں ۔

جعفر صادق نے فرمایا ایک زمانہ ہو گیا ہے تم یہاں آئے ہو اور ابھی تک تم نے طاق نہیں دیکھا با یزید بسطامی نے کہا میں نے آپ کے علاوہ یہاں کسی کو نہیں دیکھا کیونکہ صرف آپکو دیکھنے کیلئے آتا ہوں جعفر صادق نے یہ بات سن کر فرمایا اے با یزید تمہاری تعلیم کا عرصہ پورا ہو گیا ہے اور اب تم بسطام واپس جا سکتے ہو وہاں جا کر لوگوں کو تعلیم دو ۔ با یزید اپنی جگہ سے اٹھا اور واپس بسطام پہنچ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے میں مشغول ہو گیا شاید تذکرة الاولیاء کے مصنف نے اس روایت کو درست مجھ کر لکھا ہے لیکن بائیو کرونولوجی یعنی واقعہ کا تاریخ کے لحاظ درست ہونا ) کی رو سے صحیح نہیں ہے اور اگر تذکر‘ الاولیا ء کے مصنف نے اسے خود نہیں گھڑا تو صرور یہ کسی دوسرے مصنف کی جعلی روایت ہے جس نے اسے بغیر تحقیقی کے نقل کیا ہے کیونکہ امام جعفر صادق دوسری صدی ہجری کے پہلے نصف حصے میں پڑھاتے تھے اور ان کی تاریخ وفات بھی ۱۴۸ ہجری ہے جبکہ با یزید بسطامی تیسری صدی ہجر میں گزرے ہیں اور ان کی تاریخ وفات ۲۶۱ ہجری لکھی گئی ہے بایزید بسطامی کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ تیسری صدی ہجری میں ہو گزرے ہیں ۔ اور اسی وجہ سے وہ امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے لیکن عرفانی تعلیمات کی امام جعفر صادق کے دروس میں موجودگی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔

امام جعفر صادق کے دروس میں عرفان کے وجود سے ان کی روحانی شخصیت ہمارے لئے پر کشش بن جاتی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ذوق کے لحاظ سے آپ گو نا گوں تجلیات کے مالک تھے جس عرفان کی ۔۔۔۔۔ دوسری صدی ہجری میں مشرق میں ابتداء ہوئیا ور اب تک موجود ہے وہ ایک ایسی چیز ہے جو تخیل فکر اور اپنے آپ میں گم ہونے سے زیادہ آگے نہیں بڑھتا ۔

اگرچہ عرفان کے اثرات عارف پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اسے خوش اخلاقی و مہربان بنا دیتے ہیں لیکن خود عرفان ایک روحانی خلیہ ہے جسکا مادی اور سائنسی علوم سے کوئی تعلق نہیں ہے ایی صورت میں جبکہ امام جعفر صادق ایک سائنس دان تھے اور مسلمانوں میں پہلے انسان تھے جنہوں نے تیھوری کو عملی صورت دی اور کسی بھی فزکس اور کیمیاء کے نظریہ کو جب تک خود پرکھ نہ لیا ۔ قبول نہیں کیا اس طرح انہوں نے ٹیسٹ کے ذریعے کسی بھی نظریئے کے درست ہونے پر یقین کیا آج کے فزکس دان یا کیمیا دن جن میں سے ایک جعفر صادق بھی تھے کو عرفان سے کوئی دلچسپی نہ ہونا چاہیے تھیکیونکہ فزکس اور کیمیا کے تجربات کے ذریعی اسے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ عرفان اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کے بڑی مشق کے بعد حاصل ہوتا ہے جعفر صادق جو مسلمانوں میں پہلے فزکس دان اور کیمیا دان تھے اصولا انہیں عرفان سے رغبت نہیں ہونا چاہیے تھی لیکن وہ اس قدر عرفان سے دل چسپی رکھتے تھے کہ زمحشری جو ایک مشحور عالم تھا اپنی کتاب " ربیع الابرار " میں امام جعفر صادق کے علمی درجے کی غیر معمولی توصیف کرنے کے بعد آپ کو عرفان میں سب سے آگے سمجھتا ہے ۔

تذکرة الاولیاء کا مصنف " عطار " جو خود مشہور عارف ہے جعفر صادق کو عرفان کی ابتداء کرنے والوں میں سے قرار دیتا ہے " تذکرة الاولایاء ‘ ‘کی بعض روایات تاریخی لحاظ سے مرتب نہیں اور کتاب کا مصنف تصنیف کے جذبے سے سر شار اور عرفا کا عاشق تھا لہذا اس نے بعض کے بارے میں نا دانستہ طور پر مبالغے سے کام لیا ہے اگر وہ غور کرتا تو ہر گز مبالغے سے کام نہ لیتا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مبالغے سے کلام کی وقعت کم ہو جاتی ہے اور اگر تاریخ میں مبالغے سے کام لیا جائے تو اسے تاریخ نہیں کہا جائے گا جو قلم ز محشری کے ہاتھ میں تھا ہم اسے ایک مورخ کا قلم کہہ سکتے ہیں اور جو قلم تذکرة الاولیاء کے مصنف کے ہاتھ میں ہے اسے ایک عاشق کا قلم شمار کر سکتے ہیں ۔

بہر حال اسلامی عرفا اور مورخین میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ جعفر صادق اسلامی دنیا کے پہلے عارف یا پہلے عرفا میں سے ایک ہیں اگر ایسا ہے تو کیا جعفر صادق جیسا عارف ایسے طلباء کو جو مسلمان نہ تھے اپنے درس میں بیٹھنے اور درس حاصل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے کیونکہ چند کتابیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کچھ ایسے طلباء بھی امام جعفر صادق کے درس میں شریک ہوتے تھے جو صابئی تھے ۔ صابئین ایک ایسی قوم تھے جن کا مذہب یہودی اور عیسائی مذہب کی درمیانی صورت تھی اور توحید پرست شمار ہوتے تھے ۔

کچھ صابئین مشرک بھی تھے اور جب اسلام پھیلا تو وہ گروہ جو مشرک تھا اپنے آپ کو توحید پرست کہلانے لگا تاکہ مسلمانوں کے ہمراہ زندگی گزار سکیں کیونکہ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے مسلمان ان فرقوں کے لوگوں کو جو توحید پرست ہوتے تھے اہل کتاب کہتے تھے ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتے تھے ۔

صابئین کی سکونت صران میں تھی جو جنوبی بین النہرین کے مغرب میں واقع ہے قدیم یورپی تاریخ میں جس کا نام "کارہ " ہے صابئین کا وہ گروہ جو موحد تھا انکے ہاں رواج تھا کہ بچے کو پیدائش کے بعد غسل دیتے اور اس کا نام رکھتیتھے ان کی اصطلاح میں اس عمل کو تعمید کہا جاتا ہے ۔

بعض یورپی محققین جن کا نظریہ دائرةالمعارف الاسلامی کتاب میں منعکس ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ صبائی ‘ صبع سے مشتق ہے (یعنی صاد ۔ با ۔ عین ) جس کے معنی پانی میں غوطہ لگانا یا غسل کرنا ہے کیونکہ صبائی پادری کے پروکار ‘ نومولود کو تعمید کے دوران پانی میں غوطہ دیتے تھے ۔ زمانے کے ساتھ ساتھ لفظ صابئی سے عین گر گیا اور اس کی موجودہ شکل بن گئی ۔

وہی یورپی محققین کہتے ہیں ‘ صبائین ‘ یحیی کو جو معمد (یعنی غسل دینے والا کے نام سے مشہور ہے اپنا پیغمبر جانتے ہیں ۔

تذکرة الاولیاء کا مصنف کہتا ہے کہ تمام فرقے امام جعفر صادق کے در س میں حاضر ہوتے تھے ۔ شیخ ابوالحسن خرقانی کہتا ہے مسلمان اور کافر جعفر صادق کے درس میں حاضر ہوتے تھے ان کے علم و فضل کے دستر خوان سے بہرہ مند ہوتے تھے ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ کس طرح جعفر صادق جیسا عارف انسان غیر مسلم طلباء کو اپنے درس میں حاضر ہونے کی اجازت دے سکتا تھا ۔ یا یہ کہ چونکہ وہ ایک وسیع النظر انسان تھے اور علم کو سب کیلئے چاہتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے موافقت کی کہ جو کوئی بھی علم دوست ہو ان کے حلقہ درس میں حاضر ہو سکتا تھا اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو یہ بات تسلیم شدہ ہے جعفر صادق کے شاگردوں میں سے بعض ایسے بھے تھے جو صابئی تھے اور بعض یورپی محققین جن کے نظریات دائرة المعارف الاسلامی میں ثبت ہیں ۔ نے لکھا ہے کہ جابر بن حیان جو جعفر صادق کے مشہور شاگردوں میں سے ایک تھا وہ صابئی قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔ صابئی طلباء جو جعفر صادق کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے۔ نہایت ذی فہم ہوتے اور تحصیل علم کیلئے کافی تکالیف اٹھاتے تھے انہوں نے علمی میدان میں خاصی پیش رفت کی ‘ گویا جعفر صادق کا حلقہ درس ان کیلئے ایک ایسی یونیورسٹی بن گیا تھا جس نے صابئی لوگوں کے علم و ثقافت کی بنیاد ڈالی ۔

جب ہم صابئی قوم کی جعفر صادق سے پہلے اور بعد کے دور کی تاریخ کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ موازنہ گویا ظلمت کے ساتھ نور کا موازنہ ہے ۔

امام جعفر صادق سے پہلے صابئی ایک بدوی اور پسماندہ قوم تھے جن کی معلومات بدوؤں کیمعلومات سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں ۔ حتی کہ وہ صابئی جو موحد شمار ہوتے تھے ان کی معلومات بھی صحرانشین قبائل سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں ۔ لیکن جعفر صادق کے دور کے بعد صابئی قوم ایک ثقافت کی وارث بن گئی اور اس قوم میں اتنے قابل سائنس دان پیدا ہوئے جنہوں نے طب ‘ فزکس و کیمیاء ‘ انجینئرنگ میں ساری دنیا میں نام پیدا کیا اور آج ہم ان کے نام دائرة المعارف جیسی کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔

جعفر صادق کی یونیورسٹی کے سبب صابئی پسماندہ قوم ایک متمدن قوم بن گئی اور اس متمدن معاشرے سے ایسے سائنس دان اور ادیب پیدا ہوئے جن کے کارناموں سے دنیا مستفید ہوئی اس کے ساتھ جعفر صادق کی یونیورسآٹی صابئی قوم کے باقی رہنے کا موجب بنی جو قوم اپنے آپ کو نہیں پہچانتی اور اپنی تاریخ سے مطلع نہیں ہوتی اگرچہ اس قوم میں قابل لوگ ہوں لیکن ان کی اپنی ثقافت نہ ہو تو وہ قوم مٹ جاتی ہے ۔

مگر وہ قوم جو تاریخ رکھتی ہو اور اپنے آپ کو پہچانتی ہو اور اس میں قابل افراد بھی پائے جاتے ہوں اور اس کے ساتھ وہ اپنی ثقافت بھی رکھتی ہو تو وہ قوم نہیں مٹتی جس طرح صابئی نہیں مٹے اور ابھی تک باقی ہیں اگرچہ ان کی تعداد پہلے کی مانند نہیں ہے لیکن ابھی تک ان کا کچھ حصہ اپنے قدیم رہائشی قطعات پر زندگی بسر کر رہا ہے۔

شیخ ابوالحسن خرقانی بھی زمحشری اور عطار نیشا پوری کی مانند جعفر صادق کا بہت احترام کرتا ہے اور انہیں اسلامی دنیا میں عرفا کا پیشوا سمجھتا ہے شیخ ابوالحسن خرقانی کو ایک تاریخی محقق بھی تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے عرفان کی بجیاد کے بارے میں تحقیق کی اور اس بات کا کھوج لگایا کہ عرفان اسلام سے قبل بھی مشرق میں موجود تھا ۔ لیکن وہ اسلام سے قبل ایران میں عرفان کی جڑوں کو نہیں ڈھونڈ سکے ۔

کیونکہ شیخ ابوالحسن خرقانی نے زرد شتی مذہب کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی ۔ انہیں ایران میں عرفان کی بنیادیں تلاش کرنے کیلئے زردشتی مذہب کو مد نظر رکھنا چاہیے تھا ۔

آج ہمیں معلوم ہے کہ عرفان اسلام سے پہلے ایران میں چند بنیادوں پر استوار تھا اور ان میں سے دو بنیادیں دوسروں سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں ایک وہ عرفان جو زردشتی مذہب سے وجود میں آیا اور دوسرا وہ عرفان جو مکتب اسکندریہ سے ایران میں پہنچا ۔

شیخ ابوالحسن خرقانی زردشتی مذہب کی بنیاد کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کر سکے کیونکہ انہوں نے اس مذہب کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جبکہ چوتھی صپدی کے دوسرے نصف حصے اور پانچویں صدی ہجری کے نصف حصے کے دوران جو شیخ خرقانی کی زندگی کا حصہ ہے اب تک ایران کے بعض خطوں کے لوگ پہلوی ساسانی زبان میں گفتگو کرتے تھے لیکن مسلمان تھے اور کچھ لوگ جو پہلوی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور شیخ کی پیدائش کی جگہ کے نزدیک رہتے تھے یہ محال ہے کہ شیخ نے انہیں نہ دیکھا ہو اور انکی زبان نہ سنی ہو ۔ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہب کو اچھی طرح جانتا تھا ۔ لیکن زردشتی مذہب کی ماہیت سے مطلع نہیں تھا ۔ بہر حال اسلام سے قبل عرفان کے بارے میں اس کی تحقیق قابل توجہ ہے ۔

فرانسیسی مستشرقین کی وسیع تحقیقات جو سترھویں صدی عیسوی سے لیکر موجودہ دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ ہندوستان کی قدیم کتابوں کا ترجمہ اور خاص طور پر ادویہ کی کتابیں ثابت کرتی ہیں کہ قدیم ادوار میں ہندوستان اور ایران کے درمیان گہرے فکری اور ثقافتی روابط تھے ۔ اور ہر دو ممالک کی ثقافت پر ان روابط کا گہرا اثر تھا ۔ سترھویں صدی عیسوی کے بعد یورپی مستشرقین نے جان لیا کہ زردشتی مذہب میں ہندی افکار بھی پائے جاتے ہیں اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ زردشتی عرفان نسبتا کچھ زیادہ ہی ہندی افکار سے ملتا جلتا ہے ۔

البتہ زردشتی مذہب اور ہندوؤں کا مذہب دو مختلف چیزیں ہیں ۔زردشتی مذہب میں دو خداؤں اور ہندوؤں میں تین کا وجود ان دو میں فرق ڈالتا ہے زردشت مذہب والوں نے جب ہندوؤں کے افکار کو جانلیا تو وہ جہاں بھی ہوتے ہندوؤں کے تین کے تصور سے پرہیز کرتے ۔ انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد دو کے تصور پر رکھی کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ دنیا کی بنیاد اضداد پر رکھی گئی ہے اور ہر چیز کے دو قطب یعنی منفی اور مثبت ہیں ۔

اگر شیخ ابوالحسن خرقانی اسلام سے قبل کے ادوار کے زردشتی اور مکتب اسکندریہ کے عرفان میں فرق کر سکتے تو وہ آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ زردشتی عرفان تین کے تصور سے وجود میں آیا ہے لیکن وہ عرفان جس کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی وہ توحیدی عرفان ہے اور اس میں دو یا تین کا ذرا بھی تصور نہیں پایا جتا ‘ اور گہرائی میں جائے بغیر ہی یہ عرفان انسان کو تزکیہ نفس اور روح کی بالیدگی کی جانب لے جاتا ہے یہ اس قدر بلند ہے کہ نہ تو جعفر صادق کے زمانے میں اور نہ از کے بعد عام لوگوں کی اس تک رسائی ہو سکی ہے جبکہ بعد کے ادوار میں عرفان چند مکاتب کا حامل بن گیا لیکن اس کے باوجود بھی جس عرفان کی جعفر صادق نے بنیاد ڈالی تھی وہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر رہا ۔

جعفر صادق کا عرفان نہ تو ہندوؤں اور عیسائیوں جیسا تین خدئاوں کا تصور رکھتا ہے نہ ہی زردشتیوں کی مانند دو خداؤں کے تصور پر مبنی ہے اور نہ ہی بعد کے ادوار میں عرفان میں مبالغہ آرائی کی کیفیت سے دو چار ہے۔

بعد میں جب عرفان مکاتب وجود میں آئے تو ان مکاتب کے بعض بانیوں نے عرفانی فکر میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا کہ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان کی مبالغہ آرائی کے نتیجے میں ان کے پیروکار تک بھی ان سے منحرف ہو گئے بعض عرفا تو اپنے آپ کو خداوند کے برابر سمجھنے لگے ۔

از زمحشری کی ان سے نفرت بیجا نہیں تھی البتہ زمحشری ‘ امام جعفر صادق اور انکے پیروکاروں کے علاوہ دوسرے عرفاء سیبھی نفرت کرتا تھا ۔ مرتضی فرہنگ جو ایران کے دانشوروں میں سے ایک ہے ۔ کا کہنا ہے کہ بعض کا عرفان میں نے ایک ایسے پتھر سے زیادہ پایا جو کسی کو نقصان نہ پہنچا سکے ۔ لیکن خود مرتضی فرہنگ بھی عرفانی ذوق رکھتا تھا اس نے اپنی بعض تصانیف میں عرفان کا دفاع بھی کیا ہے لیکن جعفر صادق کا عرفان مبالغے سے مبرا تھا نہ صرف یہ کہ شیعہ مذہب کے عرفا نے اس کی پیروی کی بلکہ اہل سنت و جماعت کے عرفا کے ایک گروہ نے جعفر صادق سے عرفان کا درس حاصل کیا حتی کہ جعفر صادق کے دو سو سال گزر جانے کے بعد عباسی خلفاء کے مرکز بغداد میں سنی المذہب جعفر صادق کی پیروی کرتے تھے ۔اسلام میں عرفان کا یہ بانی ایک عباسی خلیفہ کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا ۔

جعفر صادق کا عرفان ‘ خداوند تعالی پر توکل اور اس کے احکامات کی پروی ہے آپ نے اس کے ساتھ ساتھ دنیوی امور میں بھی غفلت نہیں برتی تاکہ زندگی کا نظم و ضبط تعطل کا شکار نہ ہو ۔ " عطار نیشا پوری " تذکرة الاولیاء میں لکھتا ہے کہ با یزید بسطامی تیس سال تک بڑے بڑے عرفا کی حضور میں حاضری کیلئے بیابانوں میں ٹھوکریں کھاتا اور بھوک برداشت کرتا رہا ۔ آخر کار وہ جعفر صادق کے حضور میں حاضر ہوا اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ جعفر صادق با یزید کے ترک دنیا پر اور تیس سال بیابان میں بھوک برداشت کرنے پر خوش نہیں ہیں اگر با یزید بسطامی کی جعفر صادق کے حضور میں حاضر ہونے کی روایت صحیح ہے تو عرفان کے بانی نے اسے ضرور تنبیہہ کی ہو گیاور کہا ہو گا کہ کیوں تیس سال زندگی بیابانوں میں بسر کی اور بیوی فرزندوں کے بارے میں اپنے فرائض سے غافل رہے کیونکہ جعفر صادق عرفان دنیا کے ترک کرنے کے حق میں نہیں اور کہتا ہے کہ ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے دنیوی امور کو اخروی امور کے ساتھ منظم کرے ۔

جعفر صادق کے بعد عرفانی مکاتب نے انا للہ و انا الیہ راجعون سے یہ مراد لیا ہے کہ آدمی مرنے کے بعد خدا سے وابستہ ہو جاتا ہیا ور خدا بن جاتا ہے وہ زندگی کے دوران خدا کیوں نہیں بن سکتا مرنے کے بعد آدمی کے خدا بن جانے کے عقیدے سے یہ نظریہ پیدا ہوا کہ چونکہ آدمی خدا بن کر زندہ جاوید اور تمام چیزوں سے آگاہ ہو جاتا ہے لہذا اس دنیا کے حالات کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہے وہ اپنے قرابت داروں کو دیکھتا اور انکی مشکلات کو حل کر سکتا ہے ۔ مرنے کے بعد زندگی کا عقیدہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ یہ عقیدہ تمام قدیم مذاہب میں پایا جاتا ہے ہم گذشتہ مذاہب میں سے دو مذاہب کے عالوہ کسی تیسری مذہب کو نہیں پاتے جس میں مرنے کے بعد زندگی کا تصور نہ ہو ۔ حتی کہ وہ مذاہب جن میں مردے کو جلاتے اور اس کے باقیات دریا میں بہاد دیتے تھے ۔ ان کا بھی عقیدہ تھا کہ وہ مردہ دوسری دنیا میں زندہ ہے صرف مانوی مذہب اور باطنی فرقہ جو اسماعیلی فرقے کی ایک شاخ ہے ان دو کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد آدمی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتا ہے ان دونوں کے پیروکار آخرت پر بھی ایمان نہیں رکھتے تھے ۔

لیکن حسن بن صباح کے بعد باطنی فرقے کے پیشوا متوجہ ہوئے کہ ان کے پیروکاروں کو مرنے کے بعد معاد کی زندگی جزا اور سزا کا معتقد ہونا چاہیے ۔ تاکہ وہ ان میں سے ہر ایک کے اندر ایک پولیس ہو جو اسے برے کاموں کے ارتکاب سے منع کرے ان دونوں فرقوں کے علاوہ تمام ادیان میں وحدانی یا باطنی پولیس کا وجود موجود تھا اور وہ معاد کے قائل تھے ۔

ان میں سے بعض میں مثلا قدیم مصر میں عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کے اعمال کی جزاو سزا ملنا شروع ہو جاتی ہے اور بعض میں ان کی زندگی کی موت اور اس دوسری دنیا میں اعمال کی سزا و جزا میں فاصلہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ وحشی قبائل میں بھی مرنے کے بعد کی زندگی کا عقیدہ موجود ہے ۔ اور وہ بھی اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوتا ۔

ڈاکٹر لای وینک اسٹون جو دریائے نیل کے منابع کا دریافت کرنے والا ہے جس نے انیسویں صدی عیسوی میں اپنے سیاحت نامیا ور انکشافات کے مجموعے کو انگلستان کی شاہی حکومت کی جغرافیہ کی تنظم کو تحفتہ پیش کیا جتنے عرصہ وہ مرکزی افریقہ میں رہا ‘ وہ ہر قبیلہ میں گیا اور اس نے مشاہدہ کیا کہ قبائل کے لوگ اپنے مردہ اجداد کی زندگی کے معتقد ہیں اور ان میں بعض قبیلے امور زندگی میں اپنے مردہ اجداد کے ارادہ کو موثر سمجھتے ہیں ۔ اور افریقہ کے قابل میں سے کچھ لای وینک اسٹون نے مرکزی افریقہ میں دیکھا اور سنا اور اسی طرح دوسری لوگوں نے دوسری علاقوں میں مشاہدہ کیا کہ کوئی قبیلہ جتنا پسماندہ ہو گا اس کا عقیدہ مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں اتنا ہی پختہ ہو گا اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جو قومیں ترقی یافتہ اور متمدن ہیں ان میں موت کے بعد کی زندگی کا نظریہ نہیں پایا جاتا بلکہ آج ایک امریکی اور فرانسیسی بھی موت کے بعد زندگی کا قائل ہے لیکن اس کا عقیدہ سیاہ فام سے مختلف ہے ۔

سیام فام اس بات کا قائل ہے کہ موت کے بعد کی زندگی اور اس دنیا کی زندگی میں ذرا بھی فرق نہیں ہو گا جبکہ ایک امریکی یا فرانسیسی یہ گمان کرتا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی میں بھی وہ اسی طرح غذا کھائے گا ‘ لباس پہنے گا اور پکچر دیکھنے کیلئے سینما جائے گا اسی لئے بعض مفکرین کہتے ہیں کہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ انسان کے فطری عقائد میں سے ایک ہے اگرچہ بیالوجی کے مظاہر اور اعضائے انسانی کے ٹائم ٹیبل کے نظام سے اس کا کوئی تعلق نہین مثلا جیسا کہ بھوک اور پیاس جانداروں کی زندگی کا خاصہ ہے ۔

بہر کیف چونکہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ قدیم ترین اداوار میں بھی موجود تھا اور شاید یہ عقیدہ اسلام سے نسل در نسل انسانوں تک پہنچتا رہا ہو کہ اتنا پختہ ہو گیا کہ انسانی فطرت کا حصہ بن گیا اور صرف وہ آدمی جو معاشرے میں نہ رہا ہو اور متمدن یا وحشی تہذیب کے عقائد اس تک نہ پہنچے ہوں اس عقیدے سے مبرا ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے تمام مذاہب جو موت کے بعد زندگی کے معتقد ہیں ان میں معاد کی بنیاد اسی فطری عقیدے پر رکھی گئی ہے ہر وہ مذہب جس میں معاد پر اعتقاد پایا جاتا ہے اس نے اس فطری عقیدے سے فائدہ اٹھا کر انسانوں میں وجدانی یا باطنی پولیس پیدا کی ہے قدیم مصر میں یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کا مال چوری کرے گا تو دوسری دنیا (مغربی دنیا ) میں وہ ہمیشہ کیلئے تاریکی میں زندگی بسر کرے گا اور سورج کی روشنی اس تک نہیں پہنچے گی حتی کہ وہ ایک چراغ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔

&#زرد شتی مذہب میں عقیدہ تھا کہ دوسری دنیا میں چنوند (بروزن در بند ) ایک پل ہے جو گنہگار ہو گا وہ اس پل پر سے نہیں گزر سکے گا اور وہیں گر جائے گا ۔ مشرق کے عرفانی مکتب فکر نے مسلمانوں کے موت کے بعد زندگی کے فطرت اور مذہبی عقیدہ سے فائدہ اٹھایا اور اپنے پیروکاروں کی روح کی پرورش کیلئے راستہ ہموار پایا بس انہیں اس بات کی ضرورت پیش نہ آئی کہ وہ اپنے پیروکاروں کی روح کی پرورش ابتداءسے کریں اور اس ابتداء میں ایک عرصہ صرف کریں پھر کہیں جا کر ان کے پیروکار اس بات کو سمجھیں کہ آدمی موت کے بعد زندہ رہتا ہے اور انہیں ایسے کاموں کی طرف شوق دلائیں جن کی وجہ سے وہ مرنے کے بعد اعلی مقام پر فائز ہو سکیں ۔ یہ کام عرفان کی پہلی سیڑھی تھی لیکن عرفاء دوسری صدی ہجری کے خاتمہ پر اس سے بلند مرتبے تک پہنچ گئے اور عرفان کی بنیاد اس پر رکھی کہ انسان اسی دنیا میں بلند ترین مرتبے تک پہنچ گئے اور عرفان کی بجیاد اس پر رکھی کہ انسان اسی دنیا میں بلند ترین مرتبے تک پہنچ گئے اور عرفان کی بنیاد اس پر رکھی کہ انسان اسی دنیا میں بلند ترین مرتبے تک پہنچ جائے اور جو چیز اس فکر کو وجود میں لائی وہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ تھا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر مسلمان یا دوسری اقوام موت کے بعد زندگی کی معتقد نہ ہوتیں تو عرفان وجود میں نہ آتا اس لئے کہ عرفان کے وجود میں آنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔ عارفوں نے کہاہے یہ انسان جو مرنے کے بعد بدون شک و تردید زندہ رہتا ہے اور موت لباس کی تبدیلی کے علاوہ کچھ بھی نہیں پھر کیوں نہ انسان اسی دنیا میں روح کی تکمیل کے اعلی ترین مرتبے تک نہ پہنچے اور اپنے آپکو ملکوت تک نہ پہنچائے چہ جائیکہ وہ صبر کے تاکہ موت کے بعد کامل انسان کے اعلی مرتبے پر فائز ہو ۔

عرفان کے متعدد مکاتب فکر کا آخری ہدف یہ رہا ہے کہ انسان اسی دنیا کی زندگی میں اپنے آپکو ملکوت تک پہنچائیا ور جب ہم عرفان کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عرفان کا مقصد یہ ہے کہ انسان اسی دنیا میں اور موت سے پہلے اپنے آپ کو خدائی مرتبے تک پہنچائے لیکن جعفر صادق کے عرفان میں یہ موضوع نہیں پایا جاتا اور انہوں نے کہا کہ انسان کو اس دنیوی زندگی میں خدائی کے مرحلے تک پہنچ جانا چاہیے ۔ یہ عقیدہ جعفر صادق کے بعد کے عرفانی مکاتب فکر کی پیدوار ہے اور دو چیزیں عرفانی مکاتب فکر میں اس عقیدہ کو وجود میں لائیں ایک یہ کہ آدمی موت کے بعد بھی زندہ رہے گا اور دوسرا وحدت وجود کا نظریہ ۔

وحدت وجود کا نظریہ جو جعفر صادق کے بعد مشرق میں دو بڑے عرفانی مکاتب فکر کی بنیاد بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظریہ مشرق کی پیدوار ہے اور ہندوستان و ایران سے اٹھا اور پھر مشرق سے یورپ گیا وہاں اس نظریئے کے بہت سے حامی پیدا ہوئے

جعفر صادق وحدت وجود پر یقین نہیں رکھتے تھے اور مخلوق کو خالق سے جدا سمجھتے تھے جو لوگ وحدت وجود کے حامی تھے وہ کہتے تھے کہ خدا اور جو کچھ اس نے خلق کیا ہے ا میں کوئی فرق نہیں مگر یہ کہ صرف حالت کا فرق ہے یعنی شکل و لباس وغیرہ کا تفاوت ہے ۔

عام جامد اشیاء درخت ‘ دوسرے جاندار یہی خدا ہے کیونکہ شروع میں خدا کے علاوہ کچھ نہ تھا اور چونکہ جہان کا آغاز و انجام نہیں ہے یہ چیزیں بھی خدا کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتیں اور چونکہ خدا کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی اور نہ ہے ۔ لہذا جمادات درختوں اور جانوروں کا خمیر خدا نے اپنی ذات سے اٹھایا ہے پس اسی لئے خداوند عالم اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے ماہیت کے لحاظ سے ان دو میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

شیعیت کو نابودی سے بچانے کیلئے امام جعفر صادق کا اقدام

عیسائی مذاہب میں تفرقہ اندازی جو ناسوت اور الاھوت کی پیدوار ہے وہ اتوس پہاڑ پر واقع عیسائی راہبوں کی (بلحاظ مذہب ) خانقاہوں کی حالت کشمکش ہے ۔

یونان میں سالونیک نام کی ایک ریاست ہے اور سالونیک کے مشرق میں تین جزیرے ہیں ان میں جو جزیرہ مشرق کی سمت میں ہے اس کا نام کوہ اتوس یا جزیرہ اتوس ہے اس کوہ اتوس پر مختلف مراتب کی خانقاہیں ہیں جن میں پہلے درجے میں بیس ہیں دوسرے میں بارہ ‘ تیسرے میں دو چار اور چوتھے میں دو سو پینسٹھ خانقاہیں ہیں ۔

قدیم زمانوں سے یہ کوہ اتوس ان آرتھوڈ کسی عیسائیوں کی پناہ گاہ رہا ہے جو دنیا ترک کرنا اور ساری عمر عبادت میں مشغول رہنا چاہتے تھے ۔ کوہ اتوس کی تمام خانقاہیں آرتھوڈ کسی مذہب کی ہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد جب روس میں بالشویکی حکومت بر سراقتدار آئی تو کوہ آتوس کی خانقاوں کے سارے عطیات کو زبردستی ضبط کر لیا اور مشرقی یورپ کے تمام ممالک میں یہ خانقاہیں عطیات کی حامل تھیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی حکومتوں میں تبدیلی آئی اور ان ممالک میں کوہ آتوس کے عطیات بھی قومی ملکیت قرار دے دیئے گئے اور آج کوہ اتوس کے عطیات وہی ہیں جو یونان او ترکی کے یورپی حصے میں ہیں پہلے جنگ عظیم کے بعد یہ وقف شدہ املات روس میں بسنے والے راہبوں کے ہاتھوں سے چلی گئی تھیں ۔

پھر بھی ان خانقاہوں کی اتنی آمدن تھی کہ تقریبا پندرہ ہزار راہب اس پر گزر بسر کرتے اور تقریبا پندرہ سو خدمت گزار جو راہبوں کے لباس اور جوتے وغیرہ سیتے ‘ غذا تیار کرتے اور ان کے لباس دھوتے اس آمدن پر گزر بسر کرتے تھے ۔

لیکن آج کوہ اتوس کی یہ خانقاہیں ان وسائل سے محروم ہیں اور راہبوں کی تعداد بھی بہت کم ہے کوہ اتوس کیخواص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ عورت کا وہاں پر وجود نہیں ہے اور دراصل عورت کوہ اتوس کی خانقاہوں میں گئی ہی نہیں اور کسی بھی دستاویز کی رو سے عورت ‘ جوان ہو یا بوڑھی ‘ ان خانقاہوں میں نہیں جا سکتی اگر کوئی راہب عالم نزاع میں ہو اور اسکی بوڑھی ماں چاہے کہ آخری لمحات میں اپنے بیٹے کو دیکھے تو اسے بھی ہر گز ان خانقاہوں میں جانے کی اجازت نہیں ملتی اور صرف وہ اپنے بیٹے کا تابوت جس میں اس کا جسد خاکی پڑا ہوتا ہے خانقاہ کے باہر دیکھ سکتی ہے ۔

دوسری جنگ عظیم تک کوہ اتوس کی خانقاہوں کا برقی رو کے ذریعے روشن ہونا تھا مزید لباس کی حالت یا گھریلو اثاثے اور لباس وغیرہ کے لحاظ سے ) پہلی صدی عیسوی کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد راہبوں کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی وہ تبدیلی ‘ خانقاہوں کا برقی رو کے ذریعے روشن ہونا تھا ۔

مزید لباس کی حالت یا گھریلو اثاثے کے لحاظ سے خانقاہوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اگر ان خانقاہوں کے راہب ‘ باہر کی دنیا سے باخبر ہوتے اور اپنے زمانے کے واقعات کی تاریخ رقم کرتے تو آج سب سے حقیقی تاریخ کوہ اتوس کی خانقاہوں میں ملتی ان خانقاہوں کے قیام کو چودہ صدیاں ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک بیرونی دنیا کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب بھی نہیں ملتی اور آج جبکہ ان خانقاہوں کو بجلی کے نظام سے متصل کر دیا گیا ہے پھر بھی ان تمام خانقاہوں میں سے سترہ خانقاہیں ایک ہی فرقے کی ہیں پھر بھی ایک خانقاہ میں تبدیل نہیں ہو سکیں کیونکہ ناسوت اور لاھوت کے لحاظ سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے کوہ اتوس پر دو یونانی خانقاہیں ایسی نہیں ملتیں جن کے راہب عیسی کی بشری ماہیت اور خدائی ماہیت کے بارے میں آپس میں متفق ہوں ۔

یہ اختلاف جس طرح کوہ اتوس کی درجہ اول کی خانقاہوں میں پایا جاتا ہے اسی طرح اس پہاڑ کے درجہ دوم کی بارہ خانقاہوں میں بھی پایا جاتا ہے چونکہ چودہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان خانقاہوں کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ نہیں ہے لہذا فرانسیسی ٹیلیویژن کے ۱۹۶۹ ء کے معلومات عامہ کے مقابلے میں جن دانشوروں نے شرکت کی وہ کوہ اتوس کے درجہ اول کی پانچ خانقاہوں کے نام بھی نہیں بتا سکے ۔ چہ جائیکہ وہ درجہ اول و دوم کی تمام خانقاہوں کے نام بتاتے ۔

کوہ آتوس پر پہلی آرتھوڈ کسی خانقاہ چھٹی صدی عیسوی میں وجود میں آئی یہ ایک یونانی خانقاہ تھی ‘ جن راہبوں نے اسے تعمیر کیا انہوں نے اس خیال سے اس جگہ کو منتخب کیا کہ یہ ایک سنگلاخ پہاڑ تھا جو گہری وادیوں پر مشتمل دریا کے قریب اور آبادیوں سے دور تھا یہ مقام ان لوگوں کے رہنے سہنے کیلئے انتہائی مناسب تھا جو ساری عمر انسانوں سے دور رہنا اور عبادت کے سوا کوئی دوسرا کام نہ کرنا چاہتے ہوں اس کے بعد تمام آرتھوڈ کسی مذاہب کی خانقاہیں اسی کوہ آتوس پر بننی شروع ہوئیں اور درجہ اول کی بیسویں خانقاہ روسی آتھوڈ کسی فرقہ کے راہبوں نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں بنائی آج جبکہ پہلی خانقاہ کو تعمیر ہوئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں ان خانقاہوں میں عیسی کی ناسوتیا ور لاہوتی فطرت کے بارے میں اختلاف جوں کا توں ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ جس وقت سلطان محمد دوم ملقب بہ فاتح ‘ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو اس شہر کے راہب بجائے اس کے کہ شہر کے دفاع کیلئے اقدامات عمل میں لاتے ‘ عیسی کی ناسوتی اور لاہوتی ماہیت کے بارے میں بحث کر رہے تھے بعض لوگوں نے اس روایت کو مذاق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ قسطنطنیہ کے کلیسا کے راہب شہر پر حملے کے خطرے کو نظر انداز کرکے عیسی کی ناسوتی اور لاہوتی ماہیت کے بارے میں بحث میں مبتلا ہوں لیکن اس روایت کو جھوٹا س لئے قرار نہیں دیا جا سکا کہ آرتھوڈ کسی کلیسا میں عیسی کی لاہوتی اور نا سوتی فطرت کے بارے میں مسلسل بحث ہوتی ہے لہذا یہ بعید نہیں ہے کہ جب سلطان محمد نے چند ماہ کیلئے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تھا تو شہر کے راہب پھر اسی موضوع پر تبادلہ خیالات کر رہے ہوں گے ۔

جو کچھ ہم نے کوہ آتوس کی خانقاہوں کے بارے میں کہا ‘ اس سے ہمارا مقصد عیسائیت میں عیسی کے ناسوت یا لاھوت ہونے کے بارے میں اختلاف کی تائید کرنے کے علاوہ یہ بھی بیان کرنا ہے کہ شیعہ مذہب کو زوال سے بچانے کیلئے جعفر صادق کون سا قدم اٹھایا ؟ دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالون میں مسلمانوں میں رھبانیت کی جانب میلان پیدا ہوا ۔ دوسری صدی ہجری کا پہلا نصف اور دوسرا نصف عرصہ وہ زمانہ ہے جس میں مسلمانوں میں بہت سے فرقوں نے جنم لیا اور تیسری صدی تک یہ عمل جاری رہا ۔ دوسری صدی ہجر کے پہلے اور دوسری نصف عرصے میں جنم لینے والے فرقوں کا ایک گروہ رھبانیت کی طرف مائل تھا ان فرقوں کے بانیوں کا عقیدہ تھا کہ آدمی معمول کی زندگی کو ترک کرکے اپنی تمام عمر گوشہ تنہائی میں گزار دے ۔

انہوں نے انسان کے فرائض کو مختل اقسام کے اعتکاف میں متعین کر دیا تھا ان میں سے بعض کہتے تھے جب انسان اعتکاف میں بیٹھے تو اسے چاہیے کہ تمام اوقات نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے کیونکہ اسلام میں نماز سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ۔

بعض کا عقیدہ تھا کہ روزہ رکھنا نماز سے افضل ہے لہذا جو کوئی اعتکاف میں بیٹھے اسے ساری عمر روزہ سے رہنا چاہیے ۔

ان سے ذرا ماڈرن فرقے کے بعض بانیوں کا کہنا تھا کہ انسان جب معتکف ہو جائے تو اسے صرف خداوند تعالی کے بارے میں غورو خوض کرنا چاہیے کیونکہ سب سے افضل عبادت خداوند تعالی کے بارے میں غورو فکر ہے یہ سب فرقے رھبانیت کا شوق دلاتے تھے بلکہ تاکید بھی کرتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے پیروکاروں کے معاش کے بارے میں فکر مند نہ تھا کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ جو لوگ معتکف ہوں گے ان کی معاش کا بندوبست اوقاف کے ذریعے کیا جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عیسائیت کی خانقاہوں کی مثال ان کے مد نظر تھی ۔

جب انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ خانقاہیں اوقاف کی حامل ہیں لہذا ہمارے جو لوگ معتکف ہو جائیں گے ان کیلئے بھی اوقاف سے بندوبست ہو جائے گا شیعہ بھی دوسرے اسلامی فرقوں کی مانند رہبانیت کی طرف مائل ہوئے خصوصا وہ لوگ جن کی فطرت میں رہبانیت ہوتی ہے اور وہ زندگی میں کام کرنا نہیں چاہتے ان کیلئے ترک دنیا کا یہی بہانہ کافی تھای ۔

جعفر صادق نے شعیوں اور دوسرے مسلمانوں کی رھبانیت کی شدید مخالفت کی ۔ جعفر صادق علم تھا کہ اگر رھبانیت کا نظریہ شیعہ میں مضبوط ہو گیا تو یہ فرقہ نابود ہو جائے گا خاص طور پر اس زمانے کی بنی امیہ کی حکومتیں بھی شیعوں کی مخالف تھیں اور کبھی تو وہ اپنی مخالفت کا بر ملا اظہار بھی کرتے تھے ایسی صورت میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیعوں کی غفلت ان کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتی تھی ۔

بنی امیہ چاہتے تھے کہ شیعہ ‘ دنیا کو ترک کرکے معتکف ہو جائیں اس طرح وہ بیرونی دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کر لیں تاکہ باہر سے کوئی ان سے رابطہ نہ رکھے اور وہ تبلیغ کے ذریعے شیعہ مذہب کو نہ پھیلا سکیں ۔ بنی امیہ جانتے تھے کہ شیعہ جب دنیا سے ہاتھ دھو لیں گے اور تمام عمر ایک عبادت گاہ میں گزاریں گے تو کچھ عرصے بعد خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔

چونکہ خانقاہ ‘ کلیسا کی مانند نہیں ہوتی اس میں کلیسا کی مانند مذہبی تبلیغ کے وسائل بھی مہیا نہیں ہوتے ۔

کلیسا مزہبی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے اور کلیسا کے نام پر جہاں کہیں کوئی مرکزی مذہبی تنظیم وجود میں آتی ہے تو اس کا واضح مقصد مزہب کا فروغ ہوتا ہے جو افراد کسی مذہب کے مرکزی انسٹیٹیوٹ میں کام کرتے ہیں وہ ان رضا کاروں کی مانند ہوتے ہیں جو مزہب کو تقویت پہنچانے اور اس کے فروغ کیلئے جنگ لڑتے ہیں چونکہ جو شخص کسی مقصد کیلئے جدوجہد کرتا ہے اسے اس کا نتیجہ ملتا ہے لہذا یہ لوگ جو مذہب کیلئے جنگ لڑتے ہیں انہیں بھی ان کے مساعی کا پھل ملتا ہے لیکن جو شخص خانقاہ میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے وہ شکست خوردہ ہوتا ہے اور جنگ و جہاد کو ایک طرف رکھ دیتا ہے ۔

خانقاہ میں گوشہ نشینی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن یہ بات عیان ہے کہ جو کوئی خانقاہ میں گیا وہ اب مجاہد نہیں رہا وہ جہاد کو ترک کرکے ساری عمر کیلئے ایک ہی ڈھنگ کی زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔ خصوصا شیعوں کو بنی امیہ جن کے خون کے پیاسے تھے ۔ جعفر صادق جانتے تھے کہ اگر اس مذہب کے کچھ لوگوں کو کسی خانقاہ میں عبادت کیلئے معتکف کیا جائے تو یہ مذہب کیلئے ہر گز سود مند نہیں ہو گا اس طرح مذہبی اشاعت رک جائے گی ۔

انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اگر شیعوں نے اعتکاف کے مراکز کی جانب رخ کر لیا اور وہاں گوشہ نشین ہو کر اپنی تمام عمر نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے میں صرف کرنے لگے تو شیعہ مذہب جسے بنو امیہ کی دشمنی کا سامنا ہے نابود ہو جائے گا اگر بنو امیہ شیعوں کی مخالفت نہ بھی کرتے اور شیعہ آبادیوں سے دور افتادہ علاقوں میں معتکف ہو جاتے تو چونکہ مذہب کی اشاعت و تبلیغ کیلئے کوئی بھی مجاہد باقی نہ رہتا اس لئے یہ مزہب خود بخود ختم ہو جاتا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اعتکاف کی فکر اور خانقہ میں بسر کرنے کا رجحان صرف عیسائیوں میں پیدا ہوا ہے ۔

اس سے پہلے دنیا سے ہاتھ دھو کر ساری عمر ایک عبادت گاہ میں گزارنے کا تصور نہیں ملتا ۔ عیسائیت سے پہلے دوسرے مذاہب میں عبادت گاہیں موجود تھیں ۔ اور ان میں سے ہر ایک میں متعلقہ مذہب کے جاننے والے لوگ بھی رہتے تھے ان عبادت گاہوں کے اوقاف بھی ہوتے تھے جس طرح قدیم مصر میں زرعی جائیدادوں کا بڑا حصہ عبادت گاہ کی ملکیت ہوتا تھا ۔

لیکن اس عبادت گاہ میں رہنے والے تارک الدنیا شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ انہیں خدام مذہب کہا جاتا تھا اور دیکھا گیا کہ وہ اپنے مذہب کی طرف داری میں جنگ لڑتے اور قتل ہو جاتے تھے اعتکاف میں بیٹھنے اور دنیا سے ہاتھ دھونے کی فکر دراصل ہندوانہ فکر ہے قدیم ہندوستان میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کے بیٹے جوان ہو جاتے تو وہ باپ اپنے کنبے کی کفالت سے دستبردار ہوتے ہوئے معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر جنگل کی راہ لیتا تھا اور اپنی باقی ماندہ زندگی کو تنہائی میں وہیں گزار کر اس جہاں فانی سے کو کر جاتا تھا ۔

یہی سوچ عیسائیت میں داخل ہوئی اور رومی حکومت کے عیسائیوں پر مظالم شاید اس سوچ کو تقویت دینے کا سبب بنے ‘ اس طرح چند عیسائی گروہوں نے اس دنیا سے ہاتھ دھو کر خانقاہوں میں گزر بسر کرنے کی ٹھانی اور بعض کا خیال ہے کہ عیسی کی تعلیمات کا بھی اس میں اثر ہے کیونکہ ان تعلیمات میں اس دنیا سے زیادہ اخروری دنیا کی جانب توجہ دی گئی ہے ۔ اس زمانے میں یعنی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں مسلمانوں نے نہ صر ف رھبانیت کی طرف توجہ دی جس کی جعفر صادق نے سختیس ے مخالفت کی تھی بلکہ عیسائیت کی ایک اور رسم بھی جسے بپتسمہ یا غسل دینا کہا جاتا ہے کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

چونکہ مسلمانوں کا اس زمانے میں صرف آرتھوڈ کسی مذہب کے پیروکاروں سے رابطہ تھا جو غسل دینے کی اس رسم کو اس طرح ادا کرتے تھے جس طرح اس مذہب کے پیروکار ادا کرتے تھے یعنی بچے کی پیدائش کی بیسویں اور چالیسویں دن کے درمیانی عرصے میں اسے مسجد لے جا کر ننگا کرکے طشت میں بیٹھا دیتے اور پھر طشت کو پانی سے بھر دیتے تھے ۔

پھر بچے کو اس طرح بٹھاتے تھے کہ اس کا چہرہ مشرق کی طرف ہوتا اور ایک مرد اور ایک عورت بچے کے دونوں جانب دائیں اور بائیں ہو جاتے اور مرد کو سوتیلا باپ اور عورت کو سوتیلی ماں قرار دیا جاتا پھر وہ بچے کا نام تجویز کرنا چاہتے اسے زبان پر لاتے جو آدمی مسجد کا متولی ہوتھا وہ جواب دیتا کیونکہ بچہ بولنے سے قاصر ہوتا وہ جواب میں کہا میں ایمان لایا ہوں ‘ دوسری مرتبہ پھر مسجد کا متولی بچے کا نام زبان پر لاتا اور کہتا کیا تو محمد پر ایمان لایا ہے ؟ اس دفعہ سوتیلی ماں جوابا کہتی میں ایمانی لائی ہوں پھر وہی متولی خوشبودار تیل کے چھوٹے سے برتن سے تیل اپنی انگلی پر لگاتا اور بچے کی پیشانی اور دو رخساروں پر ملتا اسی طرح دوبارہ انگلی کو تیل میں ڈبو کر اس کے سینے اور پیٹھ پر ملتا پھر اپنے دو ہاتھوں سے بچے کو پیٹھ سے پکڑ کر اوپر اٹھانے کے بعد پانی میں ڈبوتا اور فورا باہر نکالتا تاکہ پانی اسے ضرر نہ پہنچائے یہ عمل دو مرتبہ دھراتا اس کے بعد وہ سوتیلا باپ اور ماں بچے کو سفید لباس زیب تن کرواتے اور اس طرح بپتسمہ کی یہ رسومات ختم ہو جاتیں ۔

اس قسم کی رسومات آرتھوڈ کسی مذہب میں رائج تھیں اور کیتھولک ان رسومات کے دوران لاطینی زبان میں دعائیں پڑھتے اور بچے کو صرف سینے تک پانی میں ڈبوتے جبکہ بچے کی گردن اور سر کو پانی سے باہر رکھتے لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ مسلمانوں کا اس وقت تک کیتھولک فرقے کے ساتھ رابطہ نہ تھا اور صرف آرتھوڈکس سے رابطہ رکھتے تھے اور صاف ظاہر ہے کہ تعمید کی رسومات آرتھوڈکس کی مانند انجام دیتے تھے امام جعفر صادق نے جس طرح رہبانیت کی شدید مخالفت کی اسی طرح بپتسمہ کی بھی مخالفت کی ‘ ہمیں معلوم ہے کہ وہ عیسائیت کی تاریخ سے بخوبی واقف تھے انہیں علم تھا کہ بپتسمہ کی رسم کس طرح عیسائیت میں داخل ہوئی ۔

جعفر صادق مسلمانوں سے فرماتے تھے آج آرتھوڈ کسی عیسائیوں کو بھی علم نہیں کہ بپتسمہ کے دوران میں بچے کا رخ مشرق کی طرف کیوں موڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی مذہب شروع میں انطاکیہ میں کافی طاقت پکڑ گیا اور عیسی کے پیروکار اس جگہ بپتسمہ کے دوران بچے کا رخ مشرق کی جانب رکھتے تھے کیونکہ بیت المقدس ‘ انطاکیہ کے مشرق میں واقع ہے آج ایران کے عیسائی بھی بچے کا رخ مشرق کی جانب رکھتے ہیں حالانکہ بیت المقدس ایران کے مغرب میں واقع ہے۔ جعفر صادق شیعوں اور دوسرے اسلامی فرقوں سے فرماتے تھے میں نہیں سمجھتا کہ بپتسمہ کے دوران بچے پر تیل ملنے کی رسم جو عیسائیوں میں رائج ہے دوسری قوموں سے عیسائیت میں داخل ہوئی ہے کیونکہ ہم مسلمانوں میں بھی بعض ایسی رسومات ہیں جو دوسری مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئی ہیں ۔

لیکن پیغمبر اسلام نے انہیں اسطرح اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالا ہے کہ وہ اب غیر اسلامی نہیں رہیں البتہ بپتسمہ کی رسم اپنی اس حالت میں جیسا کہ بعض مسلمان اسے انجام دیتے ہیں عیسائی رسم ہے اور ایک مسلمان کو عیسائی مذہب کے قوانین پر عمل نہیں کرنا چاہیے ۔ اگرچہ قرآن میں عیسی کا کئی مقامات پر احترام کیا گیا ہے لیکن عیسائیت کے قوانین پر عمل کرنا مسلمان کیلئے جائز نہیں ۔

بچے کو نہلانا پاکیزگی کیلئے ضروری ہے لیکن عیسائیوں کے طریقے پر نہیں بلکہ میں تمام مسلمانوں کو ایسا کرنے سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتا ہوں اور جو کوئی میرے منع کرنے کے باوجود اس فعل کی تکرار کرے میں اسے حقیقی مسلمان نہیں سمجھوں گا اگرچہ وہ اصول دین سے منحرف نہیں ہوا ۔

لیکن ایک عیسائی رسم کی پیروی سے ظاہر ہے کہ دین اسلام کے بارے میں اس کا عقیدہ پختہ نہیں ہے اور اس کا یہ تکرار مسلمان کے درمیان تفرقہ بازی کا موجب بنے گا جس طرح عیسائیوں کے درمیان تفرقے کا سبب بنا ہے جب امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ کیا آج مسلمانوں کے درمیان اختلاف نہیں پایا جاتا ؟ آپ نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان پیغمبر اسلام کی ماہیت کے بارے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ مسلمانوں کے درمیان پیشوائی کے بارے میں ایک جیسا عقیدہ پایا جاتا ہو ۔ اور عیسائیوں کے بعض فرقے ‘ دوسرے فرقیے کے پیروکاروں کو مرتد اور واجب القتل سمجھتے ہیں جس طرح انطاکیہ کے عیسائی فرقے اور حبشہ کے عیسائی فرقے کا عقیدہ ہے کہ نستوری فرقہ والے مرتد اور واجب القتل ہیں ۔

اجو لوگ امام جعفر صادق کے حضور میں درس پڑھتے تھے وہ نستوری فرقہ کے عقیدہ سے بے خبر تھے اور جعفر صادق نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ہمارے پیغمبر کی ہجرت سے ایک سو نوے سال پہلیا ور ۴۲۹ عیسوی میں قسطنطنیہ کے عیسائی اسقف نے جس کا نام نستوریس تھا نے کہا کہ عیسی ماہیت اور فطرت کے لحاظ سے ایک انسان ہے اور اس میں خدائی ماہیت کا ذرا بھی اثر نہیں ہے لیکن خدا اس میں اس طرح رہتا ہے جس طرح ایک مسافر کسی سرائے میں ٹھہراتا ہے یا مومن ‘ کلیسا میں ٹھہرتا ہے یہ نظریہ چند ہی روز میں قسطنطنیہ میں عام ہو گیا اور پھر وہاں سے اطراف کے علاقوں میں پھیل گیا ۔

اسکندریہ اور انطاکیہ کے عیسائی فرقے جو عیسی کو انسانی فطرت اور خدائی فطرت کا خمیر سمجھتے تھے نہ صرف یہ کہ انہوں نے نستوریس کے نظریہ کو روکیا بلکہ انہوں نے فتوی دیدیا کہ نستوریس اور اس کے پیروکار مرتد اور واجب القتل ہیں

۹; نستوریس کا نظریہ ‘

جس کے تحت وہ عیسی کو مکمل طور پر انسانی ماہیت اور فطرت کا حامل قرار دیتا ہے البتہ صرف یہ کہتا ہے کہ ان کا جسم خدا کا مکان ہے (یہ نظریہ ) کافی مقبول ہوا اور اج اس فرقے کے پیروکاروں کو نستوری کہہ کر پکارا جاتا ہے اور اس فرقے کے پیروکار ‘ تمام عیسائی فرقوں کی نظر میں (چاہے وہ جو عیسی کو خدا سمجھتے ہیں یا وہ جن کا عقیدہ ہے کہ عیسی کا خمیر دونوں فطرتوں یعنی خدائی اور انسانی فطرت سے ہے ) مرتد ہیں ۔

جعفر صادق نے شاگردوں کے معلومات میں اضافے کیلئے فرمایا کہ حبشہ کے عیسائی خدا اور عیسی کی وحدت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرچہ عیسی انسانی ڈھانچہ کا حامل ہے لیکن اس کا انسانی ڈھانچہ الوہیت میں فنا ہے اس بات کو ثابت کرنے اور مخاطب کو سمجھانے کیلئے وہ مختلف مثالیں بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عیسی کا انسانی ڈھانچہ ذات باری تعالی کے مقابلے میں ایسا ہے جس طرح موم کا ایک ذرہ بہت وسیع اور پھیلی آگ کے اندر ہو اور موم کا ذرہ اس آگ میں اسی طرح فنا ہو جاتا ہے جس طرح پانی کا قطرہ دریا میں فنا ہو جاتا ہے ۔

ایک تیسری چیز جو دوسری صدی کے پہلے پچاس سالوں کے دوران (یعنی امام جعفر صادق کے تدریس کے زمانے میں ) بعض مسلمانوں کی رسومات میں شامل ہو گئی ۔ وہ تجرد یعنی کنواری زندگی تھی مسلمان مرد عیسائی پادریوں کی تقلید میں شادی نہیں کرتے تھے ۔ اور شادی نہ کرنے کو تزکیہ نفس کا وسیلہ سمجھتے تھے ۔

اس دور سے پہلے مسلمان صرف عیسائی آرتھوڈ کسی فرقوں کو پہچانتے تھے اور عیسائی کیتھو لکی فرقوں سے ان کا رابطہ نہ تھا اس زمانے میں دین اسلام کے پھیلنے کی وجہ سے مسلمانوں کے روابط کیتھولک فرقوں سے بھی پیدا ہوئے انہوں نے دیکھا کہ ان فرقوں میں نہ صرف وہ مرد راہب جو خانقاہوں میں رہ رہے ہیں شادی نہیں کرتے بلکہ وہ پادری جو کلیساؤں میں خدمت میں مشغول ہیں بھی شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔

عیسائی آرتھوڈ کسی فرقے جن سے مسلمانوں کا رابطہ تھا انطاکیہ اور اسکندریہ فرقوں کی مانند پادریوں کی شادی کو جائز سمجھتے تھے ۔

بعض عیسائی آرتھوڈ کسی فرقوں نے پادریوں کیلئے شادی بیاہ ممنوع قرار دے دیا تھا لیکن مسلمانوں ان سے واقف نہ تھے جب اسلام اتنا پھیل چکا ہ مسلمانوں کے روابط عیسائی کیتھو لکی فرقوں یا عیسائی لاطینی فرقے سے برقرار ہوئے تو انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کیتھولک عیسائی پادری شادی بیاہ نہیں کرتے اور ساری زندگی مجرد گزار دیتے ہیں اس بات کا ان پر کافی اثر ہو اور بعض مسلمانوں نے کنوارے رہنے کو ترجیح دی خاص طور پر یہ کہ جب وہ کنوارے زندگی بسر کرتے تھے تو خاندان کی معاشی کاکفالت کے فکر سے بھی بچ جاتے تھے حقیقت یہ ہے کہ شادی کیتھولکی پادریوں پر حرام نہیں تھی اس طرح اگر کوئی کیتھلوکی پادری شادی کرتا تو وہ حرام عمل کا مرتکب نہیں ہوتا تھا ۔

کسی دور میں بھی نہ ہی کسی پوپ کی طرف سے ا ور نہ ہی کیتھولکی پادریوں کی کسی عالمی کمیٹی کیطرف سے (کمیٹی جس کے ممبران ‘ عیسائی مذہب کے پیشو ہوتے ہیں اور وہ باہم مل کر فیصلہ کرتے ہیں ) پادریوں پر شادی بیاہ کے حرام ہونے کا فتوی صادر کیا گیا تھا لیکن کیتھلوکی پادری کا کنوارہ رہنا دو دلیلوں کی بنا پر اس کا کمال شمار ہوتا تھا پہلی دلیل یہ کہ لوگ کہتے تھے وہ عیسی کا خدمت گزار ہے اس لیے اس کی روش کی پیروی کرتا ہے کیونکہ عیسی نے شادی نہیں کی تھی ۔

دوسری دلیل یہ کہ وہ کہتے تھے جب پادری فارغ البال ہو گا تو وہ اپنی تمام جسمانی اور روحانی توانائی کو کلیسا کی خدمت کرنے اور کیتھولک مذہب کے فروغ کیلئے وقف کرے گا ۔

کیتھولک پادریوں کی طرف سے شادی کے حرام نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حالیہ چند سالوں کے دوران چند کیتھولکی پادریوں نے واٹیکن (کیتھولک مذہب کا مرکز)سے شادی کرنے کی اجازت لی تھی اور اگر پادری کیلئے شادی کرنا حرام ہوتا تو واٹیکن ہر گز شادی کرنے کی اجازت نہ دیتا اور کوئی کیتھولک پادری ایک حرام کام کے ارتکاب کیلئے کیتھولک مذہب کے مرکز سے اجازت نہ لیتا کیونکہ اگر اس کی درخواست قبول نہ کی جاتی تو اسے پشیمانی ہوتی ۔

بہر حال بعض مسلمان مرد کیتھولک پادریوں کی تقلید میں شادی بیاہ سے پرہیز کرتے تھے امام جعفر صادق نے اس تقلید کی مخالفت کی اور فرمایا مرد کا شادی بیاہ سے پرہیز اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی ہے اور اس سے انسان کو روحانی نقصانات ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی کنوارہ پن مسلمانوں کے معاشرے کیلئے خطرناک ہے کیونکہ اس سے مسلمانوں کی تعداد کم رہ جاتی ہے جب کہ کفار کی تعداد دن بدن بڑھتی ہے جعفر صادق نے مسلمانوں سے کہا اگر کنواری زندگی ضروری ہوتی یا اس کا کچھ فائدہ ہوتا تو پیغمبر اسلام کنوارے ہوتے اور چونکہ پیغمبر اسلام نے شادی کی ہے اس لیے ہر مسلمان مرد کو شادی کرنا چاہیے تاکہ وہ ان معنوی نقصانات سے جو کنوارے پن سے وجود میں آتے ہیں بچ سکے اور افزائش نسل کے ذریعے اسلامیمعاشرے کی خدمت بجا لائے ۔

مردوں کے کنوارے رہنے کی امام جعفر صادق نے اس قدر شدید مخالفت کی کہ کنوارے رہنے کی یہ تحریک (قریب تھا کہ اسلام میں اس کی جڑیں مضبوط ہو جائیں ) اس قدر ضیعف ہوئی کہ تقریبا ختم ہو گئی پھر بھی اس کا بچا کچھ اثر تیسری ‘ چوتھی پانچویں صدی ہجری کے دوران میں دیکھا گیا ہے کہ مردوں کے ایک گروہ نے تمام عمر شادی نہیں کی جن میں سے مشہور افراد کو ہم جانتے ہیں ۔

انیسویں صدی عیسوی تک یہ بات معلوم نہیں ہوئی تھی کہ امام جعفر صادق کی طرف سے کنوارے پن کی مخالفت انسان کی مزاجی اور اعصابی مصلحتوں کی بنا پر تھی قدیم لوگ جانتے تھے کہ کنواری پن معنوی لحاظ سے مرد کیلئے مضر ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ انسانی بیالوجی اور اعصاب کے لحاظ سے یہ کسی قدر نقصان دہ ہے ۔

دوسرا یہ کہ پرانے واقتوں میں جب کنوارے پن کی بات ہوتی تو صرف مرد کے کنوارے پن کو مد نظر رکھا جاتا عورب کے کنوارے پن کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی گویا زن کا کنوارہ ہونا کنوارے پن میں شمار نہیں ہوتا تھا جب کہ موجودہ زمانے میں جب ہم کنوارے پن کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر مرد و زند دونوں کا کنواری پن ہوتا ہے انیسوی صدی عیسوی کے بعد آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ کنوارہ پن مرد اور عورت دونوں میں نہ صرف یہ کہ اعصاب کی شکست و ریخت کا باعث بنتا ہے بلکہ اس سے بدن کے دوسرے فرائض میں بھی خلل واقع ہوتا ہے جس سے اعصاب کے علاوہ جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔

بابائے دور علم جدیدہ

ہم نے دیکھا کہ جعفر صادق نے اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں سورج کے گرد حرکت پر اس حالت میں جب وہ بارہ برجوں سے عبور کر رہا ہوتا ہے تنقید کی اور کہا کہ اس طرح کی حرکت کو عقل تسلیم نہیں کرتی اور عنقریب آگے آیے گا کہ والد کے بعد جعفر صادق نے اپنا مستقل حلقہ درس قائم کیا علم نجوم کے بارے میں انہوں نے ایسے نظریات پیش کئے کہ اگر انیس تمام جدید علوم کا پیشوا نہ بھی کہا جائے تو بھی کم از کم وہ علم نجوم کے پیشوا ضرور ہیں اور جدید علمی زمانے سے ہماری مراد وہ زمانہ ہے جس میں یورپ میں علمی روشنی پھیلی اس زمانے کا آغاز سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں قسطنطنیہ کے سقوط سے شمار کیا جاتا ہے یہ مصدقہ امر ہے کہ اسلامی دنیا جدید علوم کو قبول کرنے کیلئے یورپ کی نسبت زیادہ آمادہ تھی اور اسلام نے اپنی اشاعت کے ابتدائی زمانے میں علمی حقائق کو تسلیم کرایا تھا جب کہ یورپ پندرہویں صدی عیسوی میں جب قسطنطنیہ کا سقوط ہوا اور اس کے بعد سولہویں صدی اور یہاں تک کہ سترہویں صدی عیسوی میں بھی علمی حقائق کو سننے کا متحمل نہیں ہو اتھا وہ علمی حقائق جنہیں یورپ کم و بیش سننے کا متحمل نہیں تھا ان میں سے سب سے زیادہ قابل تحمل نجومی حقائق تھے ۔

اگر یورپ میں کوئی کسی عنصر یعنی آب ‘ خاک یا آگ کے بارے میں ایسی بات کرتا جو رسم و رواج کے خلاف ہوتی تو کہنے والا خطرے سے دور چار نہیں ہوتا تھا لیکن اگر نجوم کے متعلق کوئی ایسی بات کرتا جو رواج کے برعکس ہوتی تو وہ خطرے سے دو چار ہو جاتا اور مرتد ہونے کی وجہ سے یا توقید کر دیا جاتا یا قتل ہو جاتا یونان اور قدیم روم میں نجومی حقائق کے متعلق لوگ کافی حساس تھے قدیم یونان علم کی سر زمین بھی کہلاتی تھی جیسا کہ پلین لکھتا ہے آنا گزاگور اس نے اصرار کیا ہے کہ ایرانی علم نجوم کو یونان میں پڑھائے اسی وجہ سے اس پر یونان سے غداری کرنے کا الزام لگایا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا ۔

خیال کیا جاتا ہے کہ قومیں ‘ حتی کہ یونانی قوم بھی علم نجوم کے حقائق جاننے کے بارے میں اس لیے حساس تھیں کہ انہوں نے ستاروں کی حرکات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس میں تردید کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہے۔

چونکہ نجوم کی حرکات کو تمام لوگ محسوس کر سکتے تھے یہی وجہ تھی کہ کسی نے یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ ان حرکات میں حقیقت نہیں ہے ۔

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مشرق اور مغرب میں علمی مسائل کے متعلق ایسی باتیں کی گئیں جو اس زمانے کے رسم و رواج کے خلاف تھیں مثلا حرکت کے بارے میں یعنی یہ کہ حرکت پہلے وجود میں آئی یا دنیا؟یا پہلے دنیا وجود میں آئی اور پھر حرکت وجود میں آئی غرضیکہ بہت سی ایسی باتیں کی گئیں جو اس زمانے کے رسم و رواج کے خلاف تھیں اس طرح کبھی روح اور جسم پر بحث کی گئی کہ پہلے روح وجود میں آئی اور بعد میں جسم یا یہ کہ پہلے جسم پیدا کیا گیا اور بعد میں روح پیدا کی گئی اس طرح بہت سی باتیں اس زمانے کے طور طریقے کے خلاف کی گئیں لیکن چونکہ روح یا جسم کے بارے میں لوگوں نے نہ تو کچھ دیکھا تھا اور نہ ہی محسوس کیا تھا ان مسائل پر بحث و مباحثہ کرنے والوں پر کفر اور ارتدادکے فتوے نہیں لگائے جاتے تھے ماسوائے اصول دین مثلا توحید یا نبوت کی مخالفت کرنے والوں کے۔

آنا گزیمن یونانی دانشور اور فلسفی جو ساتویں صدی قبل از مسیح میں ہو گزار ہے ہمیں اس کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اس نے کہا ہے کہ سورج آگ کا بگولا ہے یہ زمین سے بہت بڑا ہے اور اس کے چھوٹا نظر آنے کی وجہ اس کی دور ہے اگر یہ زمین سے بڑا نہ ہوتا اور اس کی حرارت زیادہ نہ ہوتی تو یہ ساری زمین کو روشن نہ کر سکتا اور اس طرح ہم اس کی حرارت سے مستفید نہ ہو سکتے ۔

شیعی ثقافت کی اہمیت اور آزادی

امام جعفر صادق علیہ السلام شیعہ مکتب کیلنے جس ثقافت کو سامنے لانے وہ اس زمانے کی دوسری مذہبی ثقافتوں کی نسبت اس لحاظ سے ممتاز حیثیت کی حامل تھی کہ اس میں بحث کی آزادی تھی اور اسی وجہ سے اس ثقافت میں توسیع ہونی اور اسے فروغ حاصل ہوا ۔

گذشتہ صفحات میں ہم نے ذکر کیا کہ کیتھولک مذہب کی ثقافت تقریبا ایک ہزار سال تک جمود کا شکار ہی آج کے آرتھوڈکس مذہب کی ثقافت اور دوسری صدی عیسوی میں انطاکیہ میں اس مذہب کی ثقافت میں کوئی فرق نہیں ۔

لیکن شیعہ مکتب کو جعفر صادق نے ایسے خطوط پر استوار کیا کہ ابھی دوسری صدی ہجری اختتام کو نہیں پہنچی تھی کہ اس میں توسیع ہو گئی تھی ۔

شیعی ثقافت کا دامن نہ صرف یہ کہ خود وسیع ہوتا گیا بلکہ تمام اسلامی فرقوں کیلئے مباحثات میں کسی حد تک آزادی کے قائل ہونے کیلئے نمونہ ثابت ہوئی ۔

بعض لوگوں نے تصور کیا تھا کہ مذہب کے بارے میں بحث کی آزادی ‘ اسکندریہ کے علمی مکتب میں شروع ہوئی ‘ جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ اسکندریہ کے علمی مکتب میں فلسفہ کے بعد ‘ علم نجوم و فزکس و کیمیاء و طب و فارمیسی اور کسی حد تک میکانکس کے بارے میں توجہ یا رغبت کا اظہار کیا جاتا تھا لیکن مذہب کے بارے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا ۔

اسکندریہ کے علمی مکتب کے سائنس دانوں کا ایک گروہ یہودی یا عیسائی تھا لیکن انہوں نے مذہبی مسائل کو کبھی علمی مباحثات میں داخل نہیں کیا ونکہ اسکندریہ کا علمی مکتب ایک لا مذہب مکتب شمار ہوتا تھا ۔ لہذا یہ علمی مکتب مذہبی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔

ہمیں معلوم ہے کہ اسکندریہ کے علمی مکتب کا آغاز اسکندریہ کی لائبریری سے ہوا اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اسکندریہ کا کتابخانہ بطلیموس اول یعنی مصر کے بادشاہ نے قائم کیا یہ بادشاہ ۲۵۸ قبل مسیح میں فوت ہوا ‘ یہاں اس بات کا تفصیلات ذکر ضروری نہیں ہے کہ سلسلہ بطالیہ کے بادشاہوں نے ۱۵۰ مصر پر حکومت کی ان کا پہلا بادشاہ بطلیموس اول تھا جو یونانی الاصل تھا اور یہ بادشاہ یونان کے خداؤں کی پرستش کرتے تھے ۔

لیکن مصر کے بادشاہ ہونے کے باوجود ان کا مذہبی عقیدہ اسکندریہ کے علمی مکتب کی بحثوں کا موضوع نہ بنا اور وہ پہلا دانشور جو اسکندریہ کے علمی مکتب سے باہر آیا اس کا نام شکاک تھا جو پیرون کے نام سے مشہور ہوا ۔

پیرون مستقل طور پر اسکندریہ کا باسی نہ تھا لیکن اس علمی مکتب کے تربیت یافتہ لوگوں میں سے تھا اور اس مکتب نے اسے متاثر کیا اور شکی المزاج بنا دیا اس نے کہہ دیا کہ سائیاک وجود نیا میں نہیں ہے جسطرح محال ہے کہ ایک نظریہ پیش کیا جائے اور اس کو کسی دوسری نظریہ کے ذریعے مسترد نہ کیا جاسکے ۔

کہا جاتا ہے کہ اسکندریہ کے مکتب نے پیرون کو جس نے ۳۷۰ قبل مسیح نوے سال کی عمر میں اس جہاں فانی کو الوداع کہا ‘ شکی المزاج نہیں بنایا بلکہ شک و شبہ کا مادہ پیرون کے اندر موجود تھا لیکن اسکندریہ کے اس مکتب میں علمی بحث کی آزادی کی وجہ سے اس کے شک و شبہ کو تقویت ملی یہاں تک کہ پیرون مکمل طور پر حقیقت کے وجود کا منکر ہو گیا اور اگر مصر کے سلسلہ بطالیہ کے بادشاہون کا دین اسکندریہ کے مکتب میں داخل ہوتا تو پیرون اتنی دیدہ دلیری سے ہر حقیقت پر شک کا اظہار نہ کر سکتا چونکہ بطالیہ بادشاہوں کے مذہب میں یونانی خداؤں کا وجود ایک ایسے حقیقت تھا جس میں شک و شبے کی گنجائش نہ تھی ۔

یہاں پر پیرون کے فلسفے کے متعلق بحث نہیں کرتے کیونکہ اسطرح ہم اپنے اصلی مقصد سے ہٹ جائیں گے ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسکندریہ کے علمی مکتب میں مذہبی بحث ہوتی تھی ۔ کیونکہ وہ مکتب علمی بحثوں کے لحاظ سے لا مذہب تھا ۔

بحث کی آزادی اس وقت شروع ہوئی جب جعفر صادق نے شیعی ثقافت کی مذہبی مسائل میں بنیاد رکھی اس ثقافت میں مذہبی بحثیں ‘ عام علمی مباحث میں داخل ہوئیں اور صدیوں بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ شیعہ مذہب کے دانشور اس مذہب کو علمی قوانین کے ذریعے ثابت کرنے لگے ۔

شیعہ مکتب کی ابتداء کا اثر دوسرے مذاہب پر بھی پڑا اور وہ بھی اپنے مذاہب کو علمی دلائل کے ذریعے ثابت کرنے لگے عیسی اور موسی کے مذاب کی طرح دین اسلام بھی جب آیا تو اس نے کسی دوسری چیز پر تکیہ کئے بغیر علمی دلائل کے ذریعے اپنی حقانیت کو ثابت کرنیکا آغاز کیا ۔

آج جبکہ دین موسی آئے ہوئے تیس صدیاں دین عیسی کو بیس صدیاں اور اسی طرح اسلام کو چودہ سو سال ہو چکے ہیں اہل بصیرت گروہ کا عقیدہ ہے کہ دین کا علمی استدال سے کوئی تعلق نہیں اس کا تعلق قلب و نظر سے ہے نہ کہ علم سے ۔

تمام آرتھوڈ کسی مذہبی پیشوا اس نظریئے کے حامی ہیں اور کیتھولکی مذہبی پیشواؤں کی اکثریت دین کو علم سے جدا کرنے کی قائل ہے ۔ البتہ اس مفہوم میں نہیں کہ دین ایک نظریہ نہیں جسے علم کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس مفہوم میں کہ جب کبھی احکام دین عام استدال سے ثابت نہ ہوں تو یہ دین کے ناقص ونے کی دلیل نہیں کیونکہ عیسائی مذہب کا سر چشمہ عشق ہے نہ کہ علم ‘ اور دوسرے الفاظ میں اس مذہب کا سر چشمہ عشق ہے نہ کہ عقل ‘ اسی وجہ سے عیسائی مذہب کے مدارس جنکو آج انگریز زبان میں سیمزی اور فرنسیسی زبان میں سیمینر کہا جاتا ہے ان میں علوم نہیں پڑھائے جاتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ دین اک سر چشمہ علم نہیں ہے ۔

&قرون وسطی میں کلاسیکل مذہبی دروس کے علاوہ ‘ عیسائی فقہ کو بھیمذکورہ مدارس کے دروس میں قانون کے نام پر داخل کیا ‘ اور ابھی تک عیسائی مذہب کے مدارس میں خصوصا کیتھولک مذہب کے مدارس میں قانون پڑھایا جاتا ہے ۔

لہذا عیسائی مذہب کے مدارس میں جو اور علم پڑھایا جاتا ہے وہ علم قانون یا قانون مذہبی ہے ۔ قرون وسطی کے دوران فزکس و کیمسٹری و نجوم و حساب و ہندسہ و طب و میکانکس عیسائی مذہب کے مدارس میں نہیں پڑھائے جاتے تھے اور فلسفہ بھی نہیں پڑھایا جاتا تھا ۔ کیونکہ فلسفہ پڑھانے کو عیسائی مذہب کے مدارس میں سود مند نہیں سمجھا جاتا تھا ۔

&شیعہ ثقافت جسے امام جعفر صادق نے رائج کیا پہلا ایسا مکتب ہے جس میں مذکورہ بالا علوم پڑھائے جاتے تھے جعفر صادق خود ان علوم کو پڑھاتے اور فلسفہ کی تدریس سے بھی پہلو تہی نہیں کی جاتی تھی ۔

جس فلسفہ کو جعفر صادق (ع) تدریس کرتے تھے وہ اس کلاسیکل فلسفہ کی اطلاعات پر مشتمل تا جو اس وقت تک مدینہ تک پہنچ چکی تھیں ۔

جس زمانے میں جعفر صادق (ع) فلسفہ پڑھاتے تھے اس زمانے تک یونانی حکماء کی کتابوں کا سوریانی زبان سے عبی زبان میں با محاورہ ترجمہ نہیں ہوا تھا ۔

باور کیا جاتا ہے کہ یونانی حکماء کے فلسفیانہ نظریات بھی مصر کے راستے بعض قبطی دانشورں کے ذریعے جو ابھی تک اسکندریہ کے آزاد بحث والے مکتب کے پیرو تھے ‘ مدینہ تک اور جعفر صادق (ع) تک پہنچے اور اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ وہ (بظاہر ) مکتب اسکندریہ کے آزاد بحث کرنیوالے مکتب کے پیرو کار تھے اسی مذہب کے پیروکار تھے اور اسی مذب کی پیروی کرتے ہوئے فلسفہ کو مضر خیال کرتے تھے ۔ بہر کیف ‘ قبطی علماء کی تعداد جو فلسفے سے دلچسپی رکھتی تھی ‘ کچھ زیادہ نہ تھی اور ان کی توصیف کے ساتھ ہم انداز کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ ان کی وساطت سے مدینے پہنچا ‘ اسلام میں جعفر صادق (ع) سے پہلے کسے استاد نے بھی فلسفے کو اپنے دروس میں (باقاعدہ ) داخل نہیں کیا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد میں فلسفہ شیعہ میں اور دوسری اسلامی فرقوں کے مدارس کے دورس کے مواد میں شامل ہو گیا ۔ اور اس کی ابتداء کا سہرا امام جعفر صادق کے سر ہے ۔

جعفر صادق کے دورس کے فلسفیانہ مباحث‘ سقراط افلاطون اور ارسطو کے فلسفیانہ نظریات تھے اور چونکہ جعفر صادق فلسفے کی تدریس کے بانی تھے ‘ لہذا آپ کے بعد آنیوالے ادوار میں شیعہ مدارس میں فلسفے کی تدریس کا رواج پڑ گیا ‘ سارے اسلامی فرقوں میں فلسفہ پڑھایا جاتا تھا لیکن اتنا عام نہیں تھا اور علاوہ دوسری اسلامی فرقوں میں فلسفہ پر توجہ نہیں دی جاتی اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ گذشتہ صفحات میں سے ایک میں ہم نے اشارہ کیا ہے کہ جعفر صادق عرفان بھی پڑھاتے تھے آپ کا عرفان ‘مشرق کے عرفان اور اسکندریہ کے مکتب کے عرفان سے متعلق تھا لیکن آپ ان دونوں مکاتب سے ایک جدید عرفانی مکتب وجود میں لائے جسے آپ کے پیروکار جعفری عرفان کا نام دیتے ہیں جعفر ی عرفان میں اور مشرقی اور مکتب اسکندریہ کے عرفان میں یہ فرق ہے کہ جعفری عرفان میں دنیاوی امور پر بھی ‘ اخلاقی امور پر اور تزکیہ نفس کی مانند توجہ دی جاتی ہے ۔

جعفر صادق نے اپنے عرفان میں صرف اخروری امور پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیاوی امور اخلاق و تزکیہ نفس کا بھی سہارا لیا ہے گوایا انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جو کوئی دنیوی امور اخلاقی و تزکیہ نفس کے میدان جہاد میں جدوجہد کرے گا اسے آخرت میں اسکی اچھی جزا ملے گیا ور اس دنیا کی زندگی ایک کھیتی کے مانند ہے کہ جو کچھ یہاں بوئیں گے دوسری دنیامیں وہی کاٹیں گے اور جنہوں نے اس دنیا میں اپنے دنیوی و اخلاقی فرائض اادا کئے انہیں دوسری دنیا میں اپنے متعلق خوف و خظر نہیں ہونا چاہیے اور انہیں اس بارے میں فکر نہیں کرنا چاہیے کہ انہوں نے آخرت کیلئے توشہ مہیا نہیں کیا ۔ جعفر عرفان میں دوسرے مکاتب فکر کی مانند مبالغہ آرائی نہیں ہے اور خالق و مخلوق کی وحدت بھی نہیں پائی جاتی۔ آپ کے عرفان میں اگر انسان نیکو کار ہو گا تو خدا کے قریب ہو جائے گا لیکن اس سے ملحق نہیں ہو گا کیونکہ مخلوق خالق سے ملحق نہیں ہو سکتی اس بات کا امکان ہے کہ مخلوق اور خالق کے درمیان فاصلہ کم ہو جائے لیکن یہ فاصلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا ۔

جعفر صادق کے حلہ درس میں آزادانہ اظہار خیال کیا جاتا تھا جس میں ہر شاگرد استاد پر اس حد تک تنقید کر سکتا تھا کہ استاد کے نظریئے کو مسترد بھی کر سکتا تھا ۔

جعفرصادق نے اپنا نظریہ شاگردوں پر ٹھونسا نہیں بلکہ انہیں آزادی تھی کہ استاد کے نظریئے کو قبول کریں یا مسترد کر دیں ۔

جعفر صادق کے درس کا اثر تھا کہ شاگرد آپ کے نظریئے کو قبول کر لیتے تھے ۔ جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے انہیں علم تھا کہ مادی لحاظ سے ان کا درس سود مند نہیں ‘ بلکہ شہر مدینہ کے باہر ایک عرصے تک اگر کوئی شخص اپنے آپ کو جعفر صادق کے مریدوں میں سے ظاہر کرتا تو ممکن تھا کہ اس کی جان خطرے میں پڑ جائے کیونکہ اموی حکام جعفر صادق کے مردوں کو دشمن نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔اگرچہ انہیں معلوم تھا کہ ان میں اس دور میں دشمنی کرنیکی جرات نہیں لیکن پھر بھی ان کا خیا ل تھا کہ یہ لوگ پہلی فرصت میں اپنی دشمنی کو ظاہر کر دیں ۔

جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ کسی مقام پر فائز نہیں ہو سکتے کیونکہ جعفر صادق اموی حکام و خلیفہ کی مانند دینوی مصب پر براجمان نہیں تھے کہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کو کوئی رتبہ دیتے ۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ جب جعفر صادق کے اپنے پاس مال و متاع نہیں ہے تو وہ دوسری کون کیسے نوازیں گے ۔

جو چیز امام جعفر صادق کے شاگردوں کو انکے درس کی طرف کھینچ لاتی تھی وہ آ پ کی قوت کلام اور آپ گفتگو پر ایقان تھا اور چونکہ امام جعفرصادق جو کچھ فرماتے تھے اس پر ان کا ایمان ہوتا تھا ‘ اس لئے آپکے کلمات شاگردوں پر اثر کرتے تھے ۔

جعفر صاد ق جو کچھ کہتی تھے اس پر ان کا ایمان تھا لہذا اپنی زندگی میں سلوہویں صدی عیسوی کے بعد کی صورتحال سے جیسے ایتھوپیا سے موسوم کیاجاتا ہے ‘ میں دخل نہیں دیا ۔

آپ نے اپنے شاگردوں کو ہر گز ایک ایسی آئیڈیل حکومت کے قیام کی جانب راغب نہیں کیا جسے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا تھاجس زمانے میں آپ کے والد گرامی درس دیتے تھے ‘ وہ شاگرد جومحمدد باقر کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے وہ دینوی مصب تک پہنچے اور قاضی بننے کے امیدوار ہوتے تھے ۔

چونکہ ولید بن عبالملک اموی خلیفہ نے اس بات سے اتفاق کی اتھا جو لوگ آج کی اصطلاح میں فارغ التحصیل ہوں گے ۔ ان میں سے چند لوگوں کو جج منتخب کیا جائے گا ۔

لیکن جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے وہ اس بات کے امیدوار نہیں ہوتے تھے اور صرف معررفت کے حصول کیلئے علم حاصل کرتے تھے ۔

&اعراب کے مصر میں داخل ہونے اور مکتب اسکندریہ کے خاتمے میں سے پہلے مکتب اسکندریہ اور مکتب امام جعفر صادق دونوں میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی تھی لیکن ان دونوں مکاتب میں یہ فرق تھا کہ مکتب اسکندریہ میں مذہبی بحث درمیان میں نہیں لائی جا تی تھی جبکہ جعفر صادق کے درس میں مذہب پر بحث ہوتی تھیا ور شاگردوں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ استاد کے مذہبی نظریات پر بھی تنقید کریں ۔

اسی آزادی بحث کا اثر تھا کہ شیعی ثقافت طاقت ور اور وسیع ہوتی گئی اس لئے کہ اس میں زبردستی نہیں تھی اور جو شخص اسے قبول کرتا وہ صدق دل سے قبول کرتا تھا ‘ چونکہ اس ثقافت میں جبرو کراہ نہیں تھا اسلئے جو کوئی اسے قبول کرتا وہ مادی مفاد یا شان و شوکت کیلئے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے مذہب شیعہ کا گرویدہ ہونے کے باعث اسے قبول کرتا تھا ۔

مشرقی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ صفویہ دور سے پہلے مشرق میں کوئی شیعہ سلطنت نہیں تھی اور اگرچہ آل بویہ سلاطن نے شیعہ مذہب کو پھیلانے کیلئے اقدامات کئے لیکن انہوں نے جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا بلکہ شیعی ثقافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس میں کربلا کے اکسٹھ ہجری کے واقعات کا ذکر بھی ہوتا تھا ‘ اس مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرتے تھے ۔

آل بویہ کے شیعہ سلاطین کی کوئی مستقل حکومت دیکھنے میں نہیں آئی البتہ اس کے بعد صفویوں نے مضبوط حکومت کی بنیاد ڈالی ۔

بہر کیف شیعہ مذہب ‘ مشرقی ممالک میں ان ادوار کی حکومتوں کی مخالفت کے باوجود ترقی کرتا رہا اگرچہ اس کی ترقی اتنی تیز نہیں تھی پھر بھی چونکہ ایک مضبوط اور وسیع ثقافت کا حامل تھا لہذا سینکڑوں سال تک سلاطین اور حکام کی دشمنی کے مقابلے میں پائیدار رہا حالانکہ حکومت و طاقت نہ ہونے کے علاوہ اس کے پاس مادی وسائل کی بھی کمی تھی ۔بعض اقوام ایسی گزری ہیں جو صدیوں تک بغیر حکومت کے زندہ رہیں حالانکہ ان کے مساتھ مسلسل دشمنی کا برتاؤ کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قومین مادی وسال رکھتی تھیں مثلا قرون وسطی میں کہ یہودی کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ حکام حتی کہ بعض سلطاین بھی ان سے قرض لیتے تھے ۔ اور چونکہ مادی لحاظ سے وہ ان کے محتاج ہو تے تھے لہذا انہیں آزاد نہیں پہنچاتے تھے اور قرون وسطی میں یورپ کے بعض شہریوں کے حملوں میں یہودی الگ زندگی گزارتے تھے ۔

جعفر صادق کے ہزار سال بعد جب خطہ یورپ نے قون وسطی کی تاریکیوں سے نجات پائی اور اس خطے کے لوگوں کے نظریات میں جلائی آئی تو پھر بھی لاطینی یورپ کے ممالک مثلا فرانس ‘ اٹلی و سپین و پرتکال میں یہ حالت تھی کہ جب کوئی شخص کیتھولکی مذہب کی فروعات پر تنقید کرتا تو انتہائی سخت سزا دی جاتی تھی چہ جائیجہ وہ مذہب کے اصوول پر تنقید کرتا ۔

برونو ‘ ایک اٹالین پادری نے کیا کہا تھا جو اسے زندہ جلا ڈالا گیا۔ اس شخص کو ۱۶۰۰ عیسوی میں اس لئے جلا ڈالا گیا کہ یہ اصول و فروع کے لحاظ سے کیتھولکی مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ برونو نے کہا تھا کہ عقل آ جانے کے بعد دنیا اور زندگی کے بارے میں انسان وہ عقیدہ اپنا لیتاہے جو عقل و فہم کے مطابق ہو ۔

یہی سادہ اور اسان فہم عقیدہ اسے زندہ جلانیکا باعث بنا جس وقت برونو کو جلا گیا اس کی عمر باون سال تھی اور جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اس وقت سے اسے مرتد قرار دینے اور جیل بھیجنے تک وہ بغیر کسی مبالغے کے محتاجوں کی مدد اور بیواؤں کی دسگیری اور بیماریوں کے علاج معالجے کے طرف توجہ دیتا رہا ۔

جیسا کہ چیونٹی کی سب سے بڑی خوشی اور لذت یہ ہے کہ اپنی غذا کا دوسری کو دے دیتی ہے اور خود بھوکی رہتی ہے ۔

چیور دانو برونو کو بھی اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے اور دوسروں کو آرام پہنچانے میں خوشی محسوس ہوتی تھی جس دن سیبرونو ڈومینکی مذہبی فرقے کا روحانی پیشوا بن ااس وقت سے جیل خانے تک ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا کہ کوئی حاجت مند اس کے ہاں نہ آیا ہو اور برونو نے اسے نا امید واپس بھیج دیا ہو وہ جہاں رہتا اس کا گھر ہمیشہ کھلا رہتا یہاں تک کہ راتوں کو بھی اس کے گھر کا دروازہ کھلا رہتا اور جب کبھیکوئی حاجت مند رات کو اس کے گھر آتا برونو نیند سی بیدار ہو کر اپنی استطاعت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتا ۔

جو نہی برونو کو لائے اور اپنے تیر کا نشانہبنایا تمام تماشائی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور جلاد جس کے پاس جلتی ہوئی مشعل تھی اس نے اسے جیل سے لکڑی کے ڈالے ہوئے انبار کے نزدیک کر دیا تاکہ لکڑی کا انبار نورا آگ پکڑ سکے اور وہ شخص جس نے اپنی زندگی محتاجوں اور درد مندوں کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی درناک اھوں اور سسکیوں کے درمیان دم توڑ گیا اور اس کے گوشت کی بو فضا میں پھیل گئی اس کی ساری عمر کی نیکو کاری اسے درد ناک موت سے نہ بچا سکی ۔

آج ہمارے خیال کے مطابق برونو نیجو کچھ کہا وہ منطقی اور قابل قبول ہے ۔

لیکن سولہویں صدی عیسویکے آخر میں عقیدیکی تفتیش کرنے والی تنظیم نے کہا برونو کے اظہار خیال کو عیسی کی ذہانت کی مخالفت قرار دیا اور اس کا فیصلہ اس طرح دیا کہ ہر عیسائی کو بالغ و عاقل ہونے کے بعد دنیاکے متعلق " عہد عتیق اور عہد جدید " (دو کتابیں ) کے مطابق عمل کرنا چاہیے نہ کہ اپنی عقل و فہم کے مطابق اور چونکہ برونو نے کہا ہے کہ آدمی اپنی عقل و فہم کے مطابق دنیاوی فیصلے کرتا ہے لہذا وہ مرتد ہے اورا س کے ارتداد کی وجہ شیطان کا اس کے جسم میں حلول کر جانا ہے پس اسے جلانا چاہیے تاکہ شیطان اس کے جسم سے خارج ہو ۔

لیکن شیعہ ثقافت میں مختلف مسائل کے متعلق اس قدر آزادی سے بحث کی جاتی تھی کہ تیسری صدی ہجری کے پہلے دور میں ابن راوندنی جیسا انسان اسلامی دنیا میں نمودار ہوا ۔

ابن راوندی کا تعارف و کردار

احمد بنی یحیی بن اسحا ق راوندی ‘ راوند جو کاشان و اصفہان کے درمیان قصبہ ہے کا رہنے والا تھا راوند ایک بڑا قصبہ تھا جس میں ایک مدرسہ بھی تھا اور احمد بن یحیی المعروف بہ ابن راوندی نے اسی قصبے میں ابتدائی تعلیم پائی اور مزید تحصیل علم کیلئے رے(شہر ) کا رخ کیااس کا رے کی طرف جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی تک اصفہان جوبعد میں مشرق کے دارالعلوموں میں سے ایک قرار پایا اس وقت علمی حیثیت کا حامل نہیں تھا وگرنہ ابن راوندی اصفہان جاتا جو اس کے زیادہ نزدیک پڑتا تھا اور اس زمانے میں جب کہ موجودہ زمانے کی مانند رابطے کے تیز رفتار ذرائع نہیں تھے ایک طالب علم کیلئے مکتب کا نزدیک ہونا خاصی اہمیت رکھتا تھا ۔

بہر کیف ابن راوندی تحصیل علم کیلئے رے گیا اور وہاں حصول علم میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ تمام استادوں کو حیرت میں ڈال دیا اس کے استاد اس کی تعریف کرنے لگے ہمیں افسوس ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے رے کے کس مدرسے میں تعلیم حاصل کیاور وہاں اس کے استاد کون تھے اس نے انیس یا بیس سال کی عمر میں اپنے زمانے کے تمام علوم سیکھ لئے اور کوئی ایسا علم باقی نہ رہا جس سیوہ آگاہ نہ ہوتا وہ واجبات دینی پر بھر پور توجہ دیتا تھا اس نے اپنی پہلی کتاب رے میں تعلیم کے دوران " الابتداء والا عانہ "

کے نام سیلکھی اس کتاب میں اور اپنی دوسری کتاب جسے اس نے الا سماء والا حکام کے نام سے موسوم کیا اس نے اپنے کٹر مسلمان ہونے کی نشاندہی کی ہے لیکن ان کے بعد ایسی کتب لکھیں جن میں اس نے نہ صرف فروع دین اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اصولو دین پر بھی حملہ کیا ۔

اس نے شروع میں شیعوں کے آئمہ جن میں جعفر صادق بھی ہیں جو اس کی پیدائش سے پچاس سال پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے سے بھی عقیدت کا اظہار کیا تھا لیکن نہ صرف اس نے شیعہ کا انکار کیا بلکہ اسلام کے اصولوں کی مخالفت کی بنیاد بھی ڈالی اور یکے بعد دیگرتوحید کی مخالفت میں چند کتابیں لکھیں جن میں اس نے کوشش کی ہے کہ خالق کی وحدت کا اں کار کرے اور توحید کو دین میں متزلزل کر دے اپنی کتابوں میں اس نے اس طرح دکھایا ہے کہ خداوند تعالی کی صفات اس کی ذات سے جدا ہیں ۔

تمام توحید مذاہب جن میں اسلام بھی شامل ہے اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر وہ شخص جو مومن ہے خداوند تعالی کی صفات کو اس کی ذات سے جدا نہیں سمجھتا ۔

ہر وہ شخص جو وحدت خداوندی کا قائل ہے اسیخداوند تعالی کی صفات کو اس کی ذات کا جزو جاننا چاہیے یعنی خداوند تعالی کا علم اس کی ذات سے جدا نہیں ہے اور دونوں ایک ساتھ وجود میں آئے ہیں یہ اس صورت میں ہے کہ جب ہم فرض کریں کہ خدوند تعالی وجود میں آیا اور ایک موحد ایسا فرض نہیں کرتا کیونکہ ہر توحید پرست کے عقیدے کے مطابق خداوند تعالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے ا ۔

توحید پرست سوچ بھی نہیں سکتا کہ خدوند تعالی وجود میں آیا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا خیال کرے تو لا محالہ اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ کب وجود میں آیا ۱ اور کس نے اسے پیداکیا ۱ ایک توحید پر ست خدوندتعالی کے بارے میں اس طرح خیال کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کی صفت اس کی ذات سے جدا نہیں ہے یعنی ہر وہ صفت جو خدا میں پائی جاتی ہیوہ اسکے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے (ا گر موحد یہ فرض کرے کہ خدا وجود میں آیا ہے )

ابن راوندی نے توحید کو جو دین اسلام کی پہلی اصل ہے ‘ متزلزل کرنے کیلئے کہا خدا جس وقت وجود میں آیا عالم نہیں تھا اور وجود میں آنیکے بعد خدان نے علم کو کو اپنے لئے پیدا کیا ۔

ابن راوندیکا یہ کہنا اس باتکی نشاندہی ہے کہ ابن راوندینے صفات خدا کو اس کی غیر ذات قرار دیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ مشرک ہو گیا تھا کیونکہ جو شخص خدا کی صفات کو اس کی ذات سے جدا سمجھے مشرک ہے جیساکہ ہم نے ذکر کی اہے ابن راوندی جعفر صادق کی وفات کے نصف صدی بعد پیدا ہوا اور جعفر صادق موجود نہ تھے جو اسے جواب دیتے البتہ دوسری نسل کے شاگرد جو اس وقت زندہ تھے اور آپ کے حلقہ درس میں حاضر ہو چکے تھے انہوں نے ابن راوندی کو جواب دیا کہ اگر خداوند تعالی دانا نہ ہو تا تو اسے کیس معلوم ہوتا کہ وہ اپنے علم کو وجود میں لائے ۔

کیا یہی بات خدا کی دانائی پر دلالت کیلئے کافی نہیں ہے کہ اس نے درک کر لیا کہ اسے دانا بننا چاہیے ؟

چونکہ ایک نادان وجود کو اس بات کا علم نہیں ہو سکتا کہ اسے دانائی کی ضرورت ہے اور کسی وجود کا دانا بننے کیلئے کوشش کرنا بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے ۔

ابن راوندی نے نہ صرف علم کی صفت کو خدا سے جدا جانا بلکہ کہا کہ خدا کی دوسری صفات بھی اس سے جدا ہیں۔

ابن راوندی کے بقول خدا میں وہ تمام صفات جن کو اس سے نسبت دی جاتی ہے موجود نہ تھیں اور بعد میں جب خود وجود میں آیا تو اس نے صفات کو پیدا کیا اگر ابن راوندی قرون وسطی میں یورپ میں یہ بات زبان پرلاتا تو اسے موت کی سزا دی جاتیاور آگ میں جلاتے یا دوسرے طریقے سے ہلاک کر دیا جاتا ۔

لیکن تیسری صدی کے پہلے پچاس سالوں کے دوران کسی نے بھی اس کو اذیت نہیں پہنچائی اس کی کتابوں کو دیابرد کیا نہ ہی انہیں جلایا اور صرف اس کو جواب دیتے رہے۔

جو ثقافت جعفر صادق وجود میں لائے وہ آزاد بحث کی اس قدر شیدائی تھی کہ راوندی کی تکیفر اس نیان سنی کر دیاور اسے فلسفیانہ بحثوں کا حصہ شمار کیا اور کسی نے بھی اس کے مرتد ہونے پر اسے گرفتار نہیں کیا اور نہ اس کی مذمت کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچایا ۔

خدائی صفات کو اس کی ذات سے جدا ماننے کے بعد ابن راوندی ایک مرتبہ توحید کا بھی منکر ہوا جب اس شخص نے خداکا انکار کیا اور کہا کہ خدا نہیں ہے تو اسکے کافر اور مرتد ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی اسلام کے مطابق کوئی انسان اگر مرتد ہو جائے تو وہ واجب القتل ہوتا ہے بہر کیف اس کے باوجود بھی کسی نے ابن راوندی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی البتہ اس کے سوالوں کے جوابات دیتے رہے ۔

تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران بغداد نسبتا جدید شہر اور اس کی تعمیر کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ نہیں گزارا تھا بلکہ وہ عالم اسلام کی ثقافت و علم کا مرکز بنتا جا رہا تھا کوئی ایسا دن نہ گزرتا تھا کہ بغداد میں ایک جدید کتاب مکمل نہ ہوتی ہو یا دوسری جگہوں سے کوئی دانشور آ کر کتاب کی تقریب رونمائی نہ کراتا ہو ۔

لوگوں میں کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ تقریبا ہزار کاتب بغدا میں کتابیں لکھنے کیلئے بیٹھے ہوئے تھے ۔

لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا جب کہ کتابوں کے مصنفین اپنی کتابوں کی متعدد کاپیاں لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کیلئے تیار کرنے سے قاصر تھے ۔

لہذا اپنی کتابوں کو کاتبوں کے حوالے کر دیتے اور جب ایک کاتب کو کوئی کتاب موصول ہوتی تو چونکہ وہ کم عرصے میں اسے نہ لکھ سکتا تھا لہذا اسے کاتبوں کے گرو میں تقسیم کر دیا ۔

مثال کے طور پر اگر ایک کتاب کے پانچ سو صفحات ہوتے تو اسے پانچ کاتبوں کے درمیان تقسیم کرنے سے ہر ایک کے حصے میں ایک سو صفحا آتے یا اسی دن دس کاتبوں کے درمیان تقسیم کرنے سے ہر ایک کے حصے میں پچاس صفحات لکھنے پڑتے تاکہ جتنا جلدی ممکن ہو کتاب مکمل ہو جائے ۔

اتفاق سے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کتاب کی مانگ اس قدر زیادہ ہوتی کہ اس کتاب سے پچاس سو کاپیاں تیار کرنا پڑتیں اس صورت میں پانچ سو صفحات کی ایک کتاب کو سو کاتبوں میں تقسیم کر دیتے اور ہر ایک کے حصے میں پانچ صفحات آتے اس طرح ہر کاتب پچاس یا سو کاپیاں تیار کرتا جو نہی یہ کاپیاں تیار ہوتی جاتیں تو انہیں کاتبوں سے لے کر اکٹھا کرتے اور کتابوں کی شکل دیتے جاتے اور پھر خریداروں کو فروخت کر دیتے یوں ان لکھنے والوں کا طقبہ بغداد میں وجود میں آ گیا تھا اس طبقے کو " صف الورقہ " کہا جاتا تھا چونکہ کاتبوں کو وراق کہا جاتا تھا تیسری صدی ہجری میں بغداد میں وراق کا اطلاق کاتب پرہوا تھا اور چوتھی صدی ہجری میں اس اصطلاح کا اطلاق جلدیں بنانے والوں پر ہونے لگا کیونکہ کتابوں کو لکھنے کے بعد دوبارہ اکٹھا کیا جاتا تھا اور انہیں کتابی شکل دیتے تھے شاید ہمارا خیال ہو کہ یہ لوگ خلفا بنی عباسی کیدارالحکومت میں تنگ دستی کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے کیونکہ آج کل کے معاشرے میں کوئی بھی کاتب اگر فقط اس فن پر اکتفا کریگا تو اس کی معاشی حالت اچھی نہیں ہو سکتی فرانسیسی میں ایسے شخص کو طنزا " گرات پاسے " یعنی کاغذ خراش کہا جاتا ہے اور انگریز میں اسکریچ کہا جاتا ہے جس کا مفہوم بھی کاغذ خراش ہے ۔

یورپ میں نویں صدی عیسوی میں ان کاتبوں کے علاوہ ایک اور طبقہ وجود میں آیا جن کا کام موسیقی کی دھنیں لکھنا ہوتا تھا ۔

ژزان ۔ زاک روسو مشہور فرانسیسی مصنف نے ایک عرصے تک اسی کام کو ذریعہ معاش بنائے رکھا اسیہر صفے کے عوض تین شاہی (سکے کا نام ) ملتے تھے جو اس زمانیمیں ایک معقصول رقم ہوتی تھی کتابیں لکھنے والے کاتب روسو کے زمانے میں آسودہ حال نہیں تھیچونکہ چھاپہ خانے قائم تھے اور کاتبوں کرنے کا موقع بہت کم میسر اتا (البتہ صرف وہ کاتب جن کا رسم الخط اچھا ہوتا ) کیونکہ بعض کابتوں کا رسم الخط واجبی سا ہوتا تھا اس کے بعد کچھ عرصے بعد موسیقی کی دھنوں کے کاتب بھی دوسروں کے مانند بد حالی کا شکار ہو گئے کیونکہ اس کے بعد موسیقی کی دھنوں کو بھی چھاپا جانے لگا ۔

موجودہ زمانے میں یورپ اور امریکہ میں کوئی بھی کتب نویسی کو ذریعہ معاش نہیں بنا سکتا چونکہ اب کتابوں اور موسیقی کی دھنوں کی چھپائیہوتی ہے ۔

اور دوسر یہ کہ کاغذ خراش کا جو مفہوم فرانسیسی اور انگریز میں ہے امریکہا ور یورپ میں موجود نہیں ہے لیکن کاغذ خراش کی ایک دوسری قسم جو قدیم زمانے میں ناپید تھی پائی جاتی ہے وہ گاست روبتر ہے یعنی قابل رحم اور نفرت انگیزمصنف گاست روبتر وہ شخص جو کتاب لکھتا ہے اور دوسرای اسے اپنے نام اور پتے کے ساتھ شائع کروات ہے گاست روبرجس کے انگریز ی میں لفظی معنی قابل نفرت اور قابل رحم مصنف ہیں وہ شخص جو کتاب لکھتا اور تکلیف اٹھاتا ہے تاکہ دوسرا اسے اپنے نام سے شائع کروائے تو وہ مصنف انگریز رسم و رواج کے مطابق حیرت انگریز کام کرتا ہے لیکن دوسری طرف وہی شخص قابل رحم بھی ہے کیونکہ اگر وہ تنگدست نہ ہوتا تو ہر گز یہ کام نہ کرتا ۔

فرانسیسی ایسے مصنف کیلئے انگریزوں کی مانند سخت الفاظ اسعمال نہ کرتے بلکہ قدرے ملامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے مصنف کے لئینگر (سقر کے وزن پر ) یعنی سیاہ فام کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔

نگر کی اصطلاح فرانسیی میں سیاہ فام غلاموں اور کنیزوں کیلئے مخصوص ہے چونکہ جو شص اس لئے کتاب لکھے تاکہ دوسری کے نام سے شائع ہو تو وہ ایک طرح اپنی تذلیل کرتا ہے فرانسیسی اسے بھی نگر کہتے ہیں قدیم زمانے میں کوئی بھی اس لیے کتاب نہیں لکھتا تھا کہ دوسرا اسے اپنے نام سے شائع کروائے اور یہ کہ تمام کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتیتھیں بغداد تیسری صدی ہجری کے پہلے نصف عرصے میں علم کا مرکز بن گیا تھا اور جو کاتب کتابیں لکھنے پر مامور ہوتے تھے وہ معاشرے کامحترم طبقہ شمار کئے جاتے تھے جب بغداد میں کہا جاتا کہ فلاں شخص وراق ہے یعنی وہ کتابوں کی کاپیاں تیار کرتا ہے تو لا محالہ ان لوگوں کے ذہن میں ایک شخص کا خیال آتا تھا اور بغداد میں وراقوں کا احترام عربوں کی فطرت صفات میں سے تھا جو وہ ایک لکھنے والے کیلئے بجا لاتے تھے ۔

مکتوب یعنی لکھا ہوا عربوں کی نظر میں نہ صرف محترم ہوتا بلکہ مقدس بھی سمجھا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ مکتوب اس لئے عربوں کے ہاں قابل احترام ہے کہ ان کی مذہبی کتاب قران بھی مکتوب ہے لیکن قبل از اسلام عربوں کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی عرب کا ایک بدو بھی مکتوب کا احترام کرتا تھا ۔

عرب کے بدو مکتوب کو اپنے ماحول اور تصورات سے مافوق الفطرت چیز خیال کرتے تھے اور مکتوب کا اس قدر احترام کرتے کہ ان کے خیال میں ان کے خدا بھی مکتوب کے زیر اثر ہیں اور انکے خداؤں ( جن میں سے بعض کے مجسمیکعبہ میں موجود تھے جبکہ بعض کے موجود نہیں تھے ) کی سر نوشت کاتعین بھی المکتوب کرتا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے مشہور بدو عربی قبیلے ایک خدا یا چند خداؤں کو جن کے مجسمے کعبے میں لٹکے ہوتے یا مجسمے نہ ہوتے پوجا کرتیتھے اور قبل از اسلام ان قبیلوں کے درمیان جنگ کا اصلی سبب وہ اختلاف ہوتا تھا جو خداؤں کی پرستش کی بنیاد پر پایا جاتا تھا اور یہ جنگیں اس قدر طویل ہوتی تھیں کہ عام قبائل تھک جاتے اسی لئے انہوں نے آپس میں طے کیا کہ سال کے چار مہینوں کا احترام کرتے ہوئے اس دوران جنگ بندی کی جائے تاکہ دوسری کام سر انجام دے سکیں ۔

لیکن اسکے باوجود کہ ہر قبیلہ ایک یا چند خداؤں کی پرستش کرتا تھا جو دوسری قبیلوں کے خدؤں سے مختلف ہوتے تھے پھر بھی عرب کے تمام قبائل المکتوب کے ا حترام کے قائل تھے۔

اسلام کی آمد کے بعد جن لووں نے قرآن کی تفسیر کی انہوں نے المکتوب کااطلاق ان چیزوں پر کیا جو ازلی واہدی لوح پرلکھی ہوئی ہیں ۔

لیکن قبل از اسلام جبکہ ابھی قران نازل نہیں ہواتھ ایک بدو عرب ازلی اور ابدی لوح کا وہ تصور نہیں رکھتا تھا جو قراں کے بعض مفسرین نے بیان کیا ۔ بہر کیف اس کا عقیدہ تھا کہ المکتوب ایک ایسی عظیم چیز ہے کہ خدا بھی اس کے زیر اثر ہیں چونکہ بدو عرب المکتوب کا احترام کرتے تھے۔ بدو عرب ناخواندہ تھے لیکن جب کبھی کاف یا لام کا حرف سنتے تو اسے احترام سے زبان پر لاتے اور قسم کھانا چونکہ ان کا تکیہ کلام ہوتا تھا عربستان کے صحرانشین شاید دن میں دس بار سیزیادہ قسم کھاتے تھے وہ کبھی حروف تہجی کی بھی قسم کھاتے حالانکہ وہ ناخواندہ ہوتے تھے اور کاف یا لام کی شکل کیسیہے ؟ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا تھا ۔ وراق بغداد میں کتابت کے ذریعے اپنی معاش کاسامنا فراہم کرتے تھے وہ عربوں کی المکتوب کے متعلق اس فطری اور اجتماعی روایتی عقیدے سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ وہ خصوصا ایسی کتاب لکھتے جو عربوں کی نظرمیں دوسری تحریروں کی نسبت زیادہ جچتی ۔

آج اس زمانے کو گیارہ صدیاں اور اسلام کو آئے ہوئے چودہ سو سال ہوچکے ہیں عرب ممالک میں خصوصا مصر میں کتابیں اور اخبار کثرت سے چھاپے جاتے ہیں بعض اخبارات ایسے بھی ہیں جنکے ایک شمارے کی جمعہ کے دن کی تعداد پانچ لاکھ کاپی ہے ۔

کتابوں ‘ رسالوں اور اخبارات کی کثرت اشاعت کے سبب عرب ممالک میں المکتوب کا احترام ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن ابھیتک تمام عرب ممالک میں المکتوب محترمہے کیونکہ مذہبی اور علمی کتابیں مکتوب ہی تو ہیں اور دوسرا یہ کہ عرب ممالک میں المکتوب سے مراد لوح ازلی و ابدی پر لکھی ہوئی عبارت ہے اور عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ مکتوب یعنی لکھا ہوا ہے وہ ہو کر رہے گا آدمی اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکتا ۔

تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں وراقوں نے عباس خلفا کی کتابوں کے متعلق توجہ سے بھی فائدہ اٹھایا کوئی ایسا مصنف نہیں ہوتا تھا اگرچہ درمیانے درجے کی کتاب لکھتا اور عباسی خلفاء اسکی قدر دانی نہ کرتیاور ان کی معقول امداد سے بہرہ مند نہ ہوتا جو کوئی خلیفہ کی مدد سے بہرہ مند ہوتا اسے اتنا سرمایہ ہاتھ لگتا تھا کہ ساری عمر آسودہ حالی میں گزار سکتا تھا ۔

ایسے زمانے کو اگر مصنفین اور وراقوں کا سنہری دور کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا ‘ ابن راوندی نے بغداد میں قدم رکھا ۔ دو چیزوں نے اس دمی کو بغداد جانے پر مائل کیاایک جیسا کہ ہمنے ذکر کیابغداد علمی مرکز بنتا جا رہا تھاور ابن راوندی جیسے شخص نے محسوس کر لیا تھا کہ اسے بغداد جا کر دانائی کے اس مرکز سے تحصیل کرنا چاہیے دوسرا یہ کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عباسی خلیفہ کی طرف سے مالی اعانت کی امید میں اس نے بغداد کا رخ کیا ہو گا ۔

ابن راوندی جب بغداد پہنچا تو گمنام نہ تھا بلکہ اس کی دو کتابیں الاتبداء و الاعادہ اور االاسماء والا حکام کے ناموں سے بغداد کے علمی مرکز میں پہلے ہی سے پہنچ چکی تھیں ہم بتا چکے ہیں کہ ان کتابوں میں اس نے اپنے آپکو ایک کٹر مسلمان ظاہر کیا ہے بہر کیف اس کی شہرت بغداد میں اتنی نہیں تھی جتنی اراک (ایران کا ایک شہر) میں تھی ۔ اور خود اسے بھی اس بات کا بخوبی علم تھا ۔

لہذا بغداد کوچ کرنے سے قبل اس نے بغداد کے فضلا میں سیایک شخص عباس صروم کے لئے اپنے ایک جاننے والے کا پیغام بھی پلے باندھ لیا تاکہ جب خلفائیعباسیہ کے دارالحکومت میں داخل ہو تو کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ہو ۔ بغداد میں داخل ہونے کے بعد اسنے مسافر خانے میں قیام کیابغداد جو خلفائے عباسیہ کا دارالحکومت تھا ابھی چوتھی

او رپانچویں صدی ہجری کی مانند پر شکوہ نہیں ہوا تا ابن راوندی کو عباس صروم کے ڈھونڈنے میں چند دن لگے اور اگر وہ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں بغداد آتا تو جب تک اسکے ہمراہ اس کا صحیح پتہ نہ ہوتا تو شائد وہ چند مہینوں میں بھی اس تلاش نہ کر سکتا کیونکہ چوتھی صدی ہجری میں بغداد اتنا پھیل گیا تھا کہ قافلے والے شہرکے طول کا دجلہ کے کسی ایک ساحل کے ساتھ ساتھ ایک دن میں چکر نہیں لگا سکتے تھے۔

جب ابن راوندی عباس صروم سے ملا تو اس نے اپنی کتاب جو الفرند کے نامس یموسوم ہے اسے دکھائی اور کہا میرے پاس اس کتاب کی صرف ایک کاپی ہے اسلئے میں اس کی مزید کاپیاں تیار کروانا چاہتا ہوں ۔ عباس صروم نے کتاب کا ایک حصہ پڑھنے کے بعد حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے ابوالحسن (ابن راوندی کنیت) یہ کتاب جو تم نے تحریر کی ہے کیا کسی کی نظروں سے گزری ہے ؟ ابن راوندینے کہا " ایران کے شہر اراک میں اس کتاب کی کئی کاپیاں تیار کی گئیں اور بہت سے لوگ اسے پڑھ چکے ہیں ۔

عباس صروم نے حیران کن لہجے میں کہا نجانے تم آج تک کیسے زندہ ہو ؟

ابن راوندی نے کہا کیا تم اس لئے حیران ہو رہے ہو کہ میں آج تک زندہ ہوں ؟

صروم نے جواب دیا اس لئے کہ تو نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے کفر ہے اور جو مسلمان ایسے کلمات لکھے یا زبان پر لائے وہ کافر ہو جاتا ہے۔

ابن راوندی نے کہا یہ کلمات کفرنہیں بلکہ حقائق ہیں ۔ صروم نے اسے تاکید کی کہ ایسی بات زبان پرنہلاؤ تم نے اس کتاب میں دین اسلام کے اصول یعنی توحید نبوت اور معاد کا انکار کیا ہے ابن راوندی نے کہا آپ کا خیال درست نہیں اگر آپ میری کتاب کو غور سے پڑھیں تو سمجھ جائیں گے کہ میں نے توحید کا انکار نہیں کیا۔

میرا مقصد خدا پرستی کو اس خلوص کے ساتھ پہنچانا ہے جس کے وہ لائق ہے‘ اور میں ہر قسم کے خرافات سے ہٹ کر خدا پرستی کا قائل ہوں ۔

اس کے بعد ابن راوندی نے صروم سیایک خوش خط کاتب جس کو وہ جانتا ہو کا اتہ پتہ پوچھا تاکہ وہ اس کتاب کے کاپی تیار کروا کر خلیفہ کی خدمت میں پیش کر سکے۔

صروم نے کہا میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اس کام کو چھوڑ دو کیونکہ ممکن ہے یہ کام تمہارے لئے خطرناک ثابت ہو ۔ ابن راوندی بولا میں نے سنا ہے خلیفہ روشن خیال انسان ہے اور کتابوں کی قدر و منزلت جانتا ہے جونہی وہ اس کتاب کو دیکھے گا مجھے معقول انعام دے گا اور میں حج کے سفر پر روانہ ہوجاؤنگا ۔ عباس صروم نیکہا میں تجھے مطلب بصری (کاتب )سے ملواتا ہوں پھر تو جان اور تیرا کام ‘ اور جب کتاب تیار ہو جائے تو خود جا کر خلیفہ کے حضور پیش کر دینا اور مجھے درمیان میں نہ لانا ۔ ابن راوندی نے کہا مرد کو بہادر ہونا چاہیے صروم بولا میں بہادر نہیں ہوں ۔ ابن راوندی نے کہا اگر مرد میں بعض اچھی صفات نہ پائی جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن شجاعت کی صفت مرد میں ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ مرد کی ذاتی صفت ہے اور یہ شہد میں مٹھاس کی مانند ہے کیا شہد میں شیرنی نہ پائی جائے تو اسے شہدکہا جا سکتا ہے؟

صروم جو ابن راوندی کی اس بحث و تکرار سے تنگ آ چکا تھا کہنے لگا اگر تو بغداد میں پردیسی نہ ہوتا تو میں تمہیں کہہ دیتا کہ میرے گھر میں قدم نہ رکھنا ۔ ابن راوندی اسکی اس بات پر سخت ناراض ہوا وہ جب صروم کے گھر سے نکلا تو اس نے مصمم اردہ کر لیا کہ پھر کبھی بھی اسکے گھر کا رخ نہیں کریگا حالنکہ پہلے وہ اس سے کچھ رقم عارتیا حاصل کرنے کی آس لگائے ہوئے تھا ۔

اسی دن ابن راوندی نے مطلب بصری کا پتہ ادھر ادھر سے حاصل کیا اور آخر کار اسے ڈھونڈ ھ نکالا اور چونکہ معاش کی فکر کتاب کو خلیفہ کی خدمت میں پیش کرنے سے زیادہ اہم تھی اسلئے مطلب بصری سے درخواست کی کہ وہ اسکے لئے کوئی کام تلاش کرے مطلب بصری نیاسے بٹھایا اور اسکے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا پکڑاتے ہوئے کہا لکھو تاکہ میں تمہارا خط دیکھوں ابن راوندی کا خط دکھوں ابن راوندی کا خط مطلب بصری کو پسند نہ آیا اس نے کہا تمہارا خط اچھا نہیں ہے لیکن میرے پاس بعض کتابیں ہیں جنہیں مجھے لکھنے کی فرصت نہیں لہذا میں انہیں تمہارے حوالے کرتا ہوں مگر یہبات یاد رکھنا کہ تمہاری مزدوری ایک خوش خط کاتب کے برابر نہیں ہو گی ۔ ابن راوندی بولا مجھے اتنی ہی مزدوری چاہیے جس میں میرا گزر بسر ہو سکے اس سے زیادہ کی لالچ نہیں ۔

مطلب بصری نے اسیایک کتاب دی تاکہ وہ اس کی نقل اتارے اور اسے کہا کہ تمہیں کتاب کے صفحات کی مناسبت سے معاوضہ دیا جائیگا ۔

تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں جب ابن راوندی بغداد میں وارد ہوا تو اس زمانے میں اسلام میں فلسفہ اجاگر ہو رہا تھا ۔ اور عربی مترجم فلسفے کی کتب کو شریانی زبان سے عربی مین ڈھال رہے تھے ‘ جونہی کوئی کتاب ترجمہ ہو جاتی ‘ کاتبوں کے ہاں پہنچ جاتی تاکہ وہا س کی فروخت کیلئے مزیدکاپیاں تیار کریں ۔ مطلب بصری فن کتابت میں کمال کا ماہر تھا وہ اسطرح کہ مصنف سیکتاب خرید لیتا اور اسے کہتا کہ اسکی کتاب کی دس یا بیس کاپیاں بیچ ڈالے گا اور باقی دس یا بیس کاپیوں پر اس کاکوئی حق نہیں ۔ چونکہ بغداد میں کتابیں زیادہ مقدار میں لکھی جاتی تھیں ایک خواندہ شخص اگر کاتب بننا چاہتا تو وہ اگرچہ ابن راوندی کی مانند پردیسی ہی کیوں نہ ہوتا عباسی خلیفہ کے درالحکومت میں بھوکا نہ رہتا ۔

ابن راوندینے مطلب بصری کو خدا حافظ کہنے سے قبل اس سے کتاب تحریر کرنے کیلئے کچھ کاغذ لئے اس زمانے کا دستور یہ تھا کہ کاغذ کا صاحب کتاب یا وہ کانب جو دوسروں کی نسبت بڑا شمار کیاجاتا تھا کاتب کے حوالے کرتا تاکہ کتاب ایک ہی قسم کے کاغذ پر لکھی جائے اور کتاب کے صفحات بھی ایک ہی سائز کے ہوں ۔

یاد رہیکہ کتاب کوموجودہ شکل میں لکھنے کی ابتداء کتابخانہ اسکندریہ سے ہوئی پھر وہاں سے بغداد منتقل ہوئی اور کتاب کے رواج کا سبب بنی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کتاب کو رواج دینے کی ضرورت نے اسکندریہ کے کتابخانے میں کتاب کو وموجدہ شکل میں تبدیل کر دیا وہ گر نہ پہلے کتابیں بحت ضخیم ہوتی تھیں اور جب تک ان کو تقسیم در تقسیم نہ کیا جاتا ان سے کاپیاں بنانا کاتبوں کے بس کا کام نہیں ہوتا تھا ۔

جسطرح کہ ہمیں معلوم نہیں کہ حساب کے چار عملوں کے قواعد کا موجد کون ہے اسیطرح ہمیں اس بار میں کوئی علم نہیں کہ وہ پہلا شخص جسے اسکندریہ کے کتب خانے میں کتاب کو علیحدہ علیحدہ اوراق پرلکھ کر پھر انہیں آپس میں یکجا کرکے کتابی شکل دینے کا خیال آیا کون تھا ؟

جو کوئی تھا گوٹمبر گ سے صدیوں پہلے علیحدہ علیحدہ صفحات پر کتاب لکھنے کے ذریعے کتاب کو رواج دینے کا سبب بنا ‘ اس نے دعویبھی نہیں کیا کیونکہ اگر دعوی کرتا تو شاید اس کا نام باقی رہتا جسطرح گوٹمبر گ نے دعوی کیا کہ اسکی ایجاد سے اسٹراسبرگ میں ناخواندہ کوئی نہ رہے گا ۔

اسٹراسبرگ میں ناخواندہ کوئی نہیں رہیگا اور آج ہم اسے پہچانتے ہیں ‘ ابن راوندی جس مسافر خانے میں قیام پذیر تھا وہی اس کا گھر ٹھکانہ تھا اس نے وہیں پر کتابوں کی کاپیاں یا نسخے تیار کرنے شروع کئے جب کتاب کا مقدمہ لکھنے کیبعد اس نے متن لکھنا شروع کیا تو مئولف کا کہا اسے پسند نہ آیا اور مئولف کی غلطی کو آشکار کرنیکیلئے کتاب کے حاشیے میں مئولف کے نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے اپنا نظریہ رقم کر دیا۔

اس دن رات گئے تک ‘ کئی مرتبہ ابن راوندی نے نہایت وضاحت کے ساتھ مئولف کا کہا مسترد کیا اور کتاب کے صفحات کے حاشئے پرنوٹ لکھا ۔

دوسری صبح وہ ان صفحات کو لیکر اجرت طلب کرنیکی غرض سے مطلب بصری کے ہاں پہنچا ۔ مطلب بصری نہایت غور سیان صفحات کو دیکھتا رہا تاکہ یہ جان سکے کہ اس نے صفائی سے لکھا ہے یا نہیں ؟ تو اس نے اس دوران چند صفحات کے حاشیوں میں اصل متن سے اضافی عبارت لکھی ہوئی پائی ۔ وہ اس اضافی عبارت کو دیکھنے پر نہایت متحیرانہ لہجے میں استفسار کرنے لگا میں نے اس عبارت کو اصل کتاب کے صفحات کے حاشیوں میں نہیں پایا ۔

ابن راوندی بولا ‘ یہ عبارت میں نے لکھی ہے مطلب بصری نے پوچھا تم نے کس لئے لکھی ہے ؟ ابن راوندی نے جواب دیا اس لئے کہ کتاب کے مئولف نے غلطی کی ہے اور میں نے اسکی غلطی کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھا ہے اکہ یہ معلوم ہو سکے کہ صحیح نظریہ کونسا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ مئولفین کی بد بختی کا آغاز اس دن سے ہوا جب دانشور لوگ مجبورا کاتب بنے اور نسخے یا کاپیاں تیارکرنے لگے ۔ جب تک کاتب اہل دانش نہیں تھے اور وہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں جان سکتے تھے کہ اس کے متن میں جو کچھ رقم ہے صحیح ہے یا نہیں ؟ وہ جو کچھ دیکھتے وہی لکھ دیتے اور خود اظہار خیال نہیں کرتے تھی لیکن جس دن سے دانشور کاتب بننے شروع ہوئے اسی دن سے مئولفین کی بد بختی کے دور کا آغاز ہوا کیونکہ وہ مئولفین کے غلط نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے کتاب کے حاشیے میں صحیح راستے کی نشاندہی کر دیتے تھے ۔

بغداد میں تیسری صدی ہجری کے دوران اگر کوئی دانشور کاتب بنا ہے تو بھی نہایت محدود عرصے کیلئے اگر کوئی اجنبی دانشور بغداد میں وارد ہوتا اور کسی سے اس کی آشنائی نہ ہوتی یا ابن راوندی کی مانند اس کا میزبان اس کیآؤبھگت نہ کرتا تو مجبورا اسے کتابت کرنا پڑتی ۔

لیکن ایک دانشور کی کتاب کی مدت محدود ہوتی تھی اور جونہی اس کی پہچان ہو جاتی اس کا ذریعہ معاش فراہم ہو جاا تو وہ کتابت کو ترک کر دیتا چونکہ خلیفہ اور بزرگان شہر ‘ علم کی قدرو منزلت سے آگاہ تھے وہ ایک عالم سے نہایت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔

چوتھی صدی ہجری میں اگر بغداد میں ایک عالم کتابت کرنیکا محتاج ہوتا تو ایک طویل مدت تک وہ کتابت نہ کرتا یاخلیفہ اس انعام وغیرہ سے نوازتا اور وہ نہایت آرام سے بغداد ی کسی دوسری جگہ زندگی بسر کرتا ۔ لیکن پانچویں صدی سے خلفائے عباسی کی علم سے بے اعتنائی کے نتیجے میں عالموں کا بازار بے رونق ہوگیا تھا ہم یہ نہیں کہتیکہ ابن راوندی پہلا کاتب ہے جس نے ایسی کاب پر حاشیہ لکھا جو اسے نقل اتارنے کیلئے دی گئی تھی

لیکن مطلب بصری نے پہلی مرتبہ ایک ایسے کاتب کیساتھ کام کیا جس نے کتاب پر حاشیہ رقم کیا ۔ جن کاتبوں کے ساتھ ابھی تک مطلب مصریکا واسطہ پڑ چکا تھا وہ اہل علم نہیں تھے کہ وہ کتاب کے مفاہیم کو مسترد کرتے ہوئے صفحات کے حاشیے میں اپنا نظریہ رقم کرتے ۔

اسی لئے جو کچھ صفحات کے حاشیے میں مطلب مصری کی نظر سے گزار اس پر وہ سخت متعجب ہوا اور ابن راوندینے کہا تو نے اپنا کام خود بڑھا لیا ہیا ور اگر میرے لئے کام کرکے اپنا معاوضہ طلب کرنا چاہتے ہو تو ان صفحات کو حاشیہ لکھے بغیر دوبارہ لکھو اور اسکے بعد بھی اس کتاب کے صفحات میں اور ہرا س کتاب کے صفحات میں جو تمہیں بعد میں دی جائے کچھ بھی نہ لکھو ۔

ابن راوندی جو آج وارق سے کچھ رقم حاصل کرنے کی امید میں آیا تھا ‘ ناچار خالی ہاتھ لوٹا کیونکہ وہ عابس صروم کے ہاں بھی مستعار لینے کیلئے نہیں جا سکتا تھا ۔

اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ مزید ایک دن و رات بھوک برداشت کرے اور جہاں تک ہو سکے لکھے تاکہ مطلب بصری سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کر سکے ۔ اس دن ابن راوندی رات گئے تک لکھتا رہا تایکی چھا جانے کے بعد اس نیمسافر خانیکے مالک سے اس وعدے پر چراغ لیا کہ دوسرے دن وہ تیل کی قیمت ادا کرے گا ۔ چونکہ وہبھوک سے سو نہیں سکتا تھا اس لئے وہ لکھتا رہا حتی کہ چراغ خود بجھ گیا‘

صبح ہوتے ہی وہ اپنے لکھے ہوئے اوراق لئے مطلب بصری کے ہاں پہنچاا ور چند سکے اس سے مزدوری لی اس کے بعد ہر شب و روز وہ کتابت کرتا اور دوسرے دن وراق کی خدمت میں پیش کرکے اپنی مزدوری لیتا ۔

جب ابن راوندی عباس صروم کے گھر سے چلا تھا تو عباس صروم کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ اپنی کتاب براہ راست یا بالواسطہ طور پر خلیفہ کی خدمت میں پہنچائے گا ۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا ‘ عباس صروم اس کتاب کے مشاہدے سے متنفر ہوا جس کے نتیجے میں ابن راوندی آئندہ کبھی بھی اس کے گھر کا رخ نہیں کرے گا ۔ عباس صروم باطنی طور پر خوش ہوا کہ اسے ایک مرتد کے فتنے سے نجات ملی ‘اور اگر یہ شخص کوئی بڑی مصیبت لایا تو اس پر اس کا اثر نہیں پڑے گا ۔

لیکن ایک دن بعد ‘ اسے دوست کی وصیت یاد آئی ۔ اس وصیت میں کہا گیا تھا کہ عباس صروم سے جہاں تک ہو سکے ابن راوندی کی مدد کریاور اگر وصیت لکھنے والا جان لیتا کہ صروم نے ابن راوندی سے ایسا سلوک کیاتھا کہ وہ شخص غضب کے عالم میں اس کے گھر سے چلا گیا تھا ‘ تو وہ ضرور رنجیدہ ہوتا ۔ اور ضروم سے کہتا تجھے کم از کم اتنا تو شعور تھا کہ ایک ایسے انسان کو جو اجنبی اور بغداد میں حال ہی میں وارد ہوا ہے اور اس شہر میں اس کا آشنا بھی کوئی نہیں ‘ دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دینا شرافت نہیں ۔

اس کے باوجود کہ عباس صروم ابن راوندی سے خفا ہو کر چلے جانے سے سخت پشیمان ہوا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ابن راوندی کا ٹھکانہ کون کون سی سرائے میں ہے وہ اسے واپس اپنے گھر لانے کیلئے اس کے کچھ نہیں گیا کیونکہ وہ اس کے کام کے انجام سے خاصا ہراساں تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کا وبال اس کے سر پر نہ آ پڑے ۔

عباس صروم اس بات سے پوری طرح آگاہ تھا کہ اگر ابن راوندی کی کتاب خلیفہ تک پہنچ گئی اور اس نے اس کے کچھ صفحات پڑھے یا کسی سے پڑھوائے تو فورا اس شخص کے قتل کا حکم صادر کرے گا اور اگر وہ اس کا میزبان بنا اور اسکی کتاب کو منظر عام پر لایا تو خلیفہ ضرور اسے بھی سزا کا حقدار ٹھہرائے گا اور اگر قتل نہ بھی کیا تو دوسرے ذرائع سے آزار پہنچائے گا اس کے بعد اسے خیال آیاکہ جونہی یہ کتاب خلیفہ کی ں طروں سے گزرے گی تو وہ اس شخص کی گرفتاری کا حکم دے گا اور قتل کرنے سے قبل اس سے پوچھیں گے کہ دارالحکومت میں وارد ہونے کے بعد اس نے کیا کام کیا ؟ اس کے دوست کون لوگ ہیں ؟ اور وہ یقینا اس کا نام زبان پر لائے گا کیونکہ اس شہر میں وہ کسی دوسرے کو نہیں جانتا تھا پس اسی بنا پر اگر ابن راوندیاس کے گھر میں قدم نہ بھی رکھے تو بھی وہ اس کے کفر کے خطرے سے محفوظ نہیں عباس صروم ‘ المعتصم بااللہ کی خلافت کے زمانے میں خلیفہ کا ہم مشرب تھا اور خلیفہ کے ہم مشرب لوگوں کا انتخاب ان لوگوں سے ہوتا تھا جنکی ظاہری حالت پر کشش ہوتی تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں المعتصم ہارون الرشید کا بیٹا ۲۲۷ ھ میں فوت ہوا اور اکثر عباسی خلفا کی مانند جوانی میں اس دارافانی سے کوچ کر گیا ۔ اور اسی سال الواثق عباسی خلافت کے تخت پر متمکن ہوا اس نے عباس صروم کو خواندہ ہونے کی وجہ سے کاتب کی اسامی پر فائز کیا اور عباس جو اسی دن تک آج کی اصطلاح میں چپراسی تھا ‘ ورکرز کی صفت میں شامل ہو گیا ۔ جب عباس صروم کاتب ہو گیا تو اس نے خلیفہ کے تمام ان درباریوں کی خوشامد شروع کر دی جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ ایک دن بڑے مرتبے پر فائز ہوں گے عباس صروم جن لوگوں کی خوشامد کرتا تھا متوکل بھی ان میں سے ایک تھا ۔ الواثق خلافت کے پانچ سال اور نو ماہ کے بعد ۲۳۶ ھ قمری میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا اور متوکل اس کی جگہ خلیفہ بنا ۔ اس نے عباس ضروم سے آشنائی کی وجہ سے اس کا مرتبہ اس قدر بلند کر دیا کہ اس کا شمار درباری امرا میں ہونے لگا ابن راوندی ۲۳۶ ھ میں المتوکل عباسی کی خلافت کے زمانے میں بغداد میں وارد ہوا ۔

کا سال شیعوں کی عزاداری کا سال ہے اس سال متوکل نے حکم دیا کہ حسین بن علی شیعوں کے تیسرے امام کی قبر مسمار کر دی جائے کیونکہ شیعہ دور داز سے حسین کی قبر کی زیارت کرنے آتے ہیں جس کی وجہ سے متوکل حسد کی آگ میں جلتا تھا ۔

اگرچہ المتوکل فاضل اور ادب پرور خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معاملوں میں عدل و انصاف کا خیال رکھتا تھا ‘ شیعوں کے ہاں وہ بہت بد نام ہے اور شیعوں کے نزدیک وہ دوسری تمام عباسی خلفا سیزیادہ نا پسندیدہ ہے حالانکہ ن میں سے بعض نے شیعوں کے آئمہ کو بھی شہید کیا ہے شیعوں کا کہنا ہے کہ وہ تمام عباسی خلفا کی نسبت گھٹیا ترین ہو گزر ا ہے چونکہ اس نے ایک مردے پر حملہ کیا اور ایک ایسے انسان کی قبر کو مسمار کیا جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا ۔

المتوکل چونکہ امام حسین سے بغض رکھتا تھا ‘ اس لئے وہ شیعوں کا بھی دشمن تھا ۔ خلیفہ کے دارالحکومت میں بسنے والے شیعہ کوشش کرتے تھے کہ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر نہ کریں ۔ المتوکل اپنے دو پیش روؤں الواثق اور المعتصم کی مانند بہت شراب پیتا تھا اور عباس صروم نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس کی عمر پہلے دو خلفا کی مانند کم ہوگیاس لئے متوکل کیبعد جن لوگوں کے خلفیہ بننے امکان تھا اس نے ان کی خوشامد کرنا شروع کر دیا انہیں تحائف وغیرہ بھیجنے لگا ۔ لیکن جس دن تک المتوکل خلیفہ تھا عباس صروم کو اپنا رتبہ دربار میں محفوظ رکھنا تھا اسلئے وہ ابن راوندی کے کفر سے آلودہ ہو کر اپنے عہدے کو داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا ‘ خاص طور پر اس لئے کہ وہ اصفہانی شخص شیعہ بھی شمار ہوتا تھا ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ابن راوندینے بظاہر اپنے کتاب میں توحید اور نبوت کانہ صرف انکار کیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا ہے کہ وہ کسی توحیدی مذہب کا قائل نہیں ہے لیکن چونکہ وہ اصفہان سے آیا تھا اور اس کے بعد جب مشہور ہو گیا تو لوگوں نے ا سے شیعہ سمجھلیا ۔ اگر عباس صروم ابن راوندی کے ساتھ اپنے تعلقات کا راز فاش کر دیتا تو وہ خلیفہ کے غیض و غضب کا نشانہبنتا ۔ اور اگر وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا اور اس کی کوئی مدد نہ کرتا تو بھی اچھی بات نہیں تھی کیونکہ اس کے دوست نے اس کی سر پرستی کی سفارش کی تھی۔

آخر کار اس کے ذہن میں آیا کہ ابن راوندی کو خلیفہ کیہاں مرگی کیمریض کے طور پر متعارف کرایاجائے اور اسیمرگی کا مریض بتانے کے دو فائدے تھے ایک یہ کہ اگر خلیفہ جان لیتا کہ ابن راوندی‘ عباس صروم کے گھر گیا تھا وہ عباس صروم پر غضبناک نہ ہوتا اور عباس کہہ سکتا تھا کہ جونہی اس پر مرگی کا حملہ ہوا اس نے اسے گھر سے نکال باہر کیا تھا اسے مرگی کا مریض ثابت کرنے کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اگر خلیفہ ابن راوندی کی کتاب دیکھ لیتا تو اس کے قتل کا حکم صاد نہ کرتا کیونکہ اسلامی شریعت میں مرگیکا مریض جو کچھ لکھے یا کہے ا س سیباز پرس نہیں کی جاتی۔ عباس صروم اپنی پہلی فرصت میں ابن راوندی کا نام خلیفہ تک پہنچانا چاہتا تھا کہ وہ مرگی کا مریض ہے لیکن چند دنوں تک اسے فرصت نہ مل سکی ۔

وہ اور خلیفہ کے تمام دربار ی اس بات سے آگاہ تھے کہ صبح کے وقت خلیفہ سے بات چیت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دن اور رات میں کسی شرابی کیلئے بد ترین لمحات صبح کا وقت ہوتا ہے چونکہ ہر شرابی صبح کے وقت سو کر اٹھنے کے بعد نشے کا احساس کرتا اور اس قدر سستی محسوس کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ بات بھی نہیں کر سکتا جبکہ اس کے برعکس جو کوئی شراب کا عادی نہیں ہوتا صبحکا وقت اس کے لئے دن و رات میں سب سے اچھا وقت ہوتا ہے اور چونکہ انسان رات کو آرام کرتا ہے اس لئے صبح اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کام کا آغاز کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہییہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت کوئی بھی المتوکل سے بات چیت نہیں کر تا تھا اور کبھی کبھار وہ شراب کے نشے میں اس قدر مد ہوش ہوتا تھا کہ ظہر سے قبل اس کے لئے شراب کا دستر خوان بچھاتے تھے اسطرح وہ دوبارہ شراب پیکر رات کی شراب کا نشہ کافور کرتا اور ظہر کے بعد سو جاتا تھا اور جب عصر کے وقت سو کر اٹھتا تو کام کرنے کے قابل ہوتا اور اسی وقت وہ مملکت کے امور نمٹاتا یا پھر جن لوگوں سے ملاقات کرنا چاہتا ان سے ملاقات کرتا تھا ۔

علماء کو وہ عصر کے وقت ملتا لیکن شعراء کو رات کے وقت جبکہ المتوکل شراب خوری میں مشغول ہوتا اس کے حضور میں حاضر ہوتے تھے ۔ المتوکل جیسا کہ کہا گیا ہے اہل علم و ادب اور نیک خو انسان تھا لیکن شراب خوری کیوجہ سے اس کی عمر کا ایک حصہ برباد ہو گیا تھا ۔

اس دوران میں جبکہ عباس صروم المتوکل سے ابن راوندی کے متعلق بات کرنے کیلئے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا ۔ ابن راوندی جس مسافر خانے میں قیام پذیرتھا وہاں مطلب بصری وراق کیلئے کتاب کے نسخے یا کاپیاں تیار کر رہا تھا اور روزانہ جو کچھ لکھتا وراق کے پاس لے جاتا اور اپنی مزدوری پاتا مزدوری حاصل کرنے کے چند دنوں بعد ابن راوندی کی معاشی حالت اس سے کہیں بہتر ہو گئی جب وہ شروع شروع میں بغداد میں آیا تھا لیکن روحانی طور پر وہ کافی رنجیدہ ہوا کیونکہ اس نے دیکھا کہ اسے جو کتاب دی گئی ہے اس میں غلطیاں ہیں اور وہ ان غلطیوں کی اصلاح نہیں کر سکتا اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ اپنا نظریہ کتاب کے حاشے میں لکھے ۔

یہ اصفہانی شخص تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران معروف شخصیت ہو گزرا ہے اگرچہ اس کی عمر زیادہ طولانی نہ تھی اور تقریبا چالیس سال تھی پھر بھی اس نے اپنے پیچھے ایسی یادگاریں باقی چھوڑی ہیں جو اس کے ہم عصر جن کی عمر ستر یا اسی سال تھی نہیں چھوڑ سکے۔

ابن راوندی پہلی صدی ہجری میں کے تمام متاولہ علوم سے واقف تھا چونکہ اس زمانے کے علوم آج کی مانند پھیلے ہوئے نہیں تھے اور ایک شخصاپنے زمانے کے متاولہ علوم کو سیکھ سکتا تھا جبکہ آج کے دور میں انسان صرف ایک ہی علم کااحاطہ کرسکتا ہے ۔

پہلی صدی ہجری کے دوران مشرق میں ایسے انسان پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کیتمام علوم زیر کر لئے تھے لیکن ان میں بہت کم ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں ما فوق الفطرت استعداد کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے ایسی چیزوں کے متعلق غور و فکر کیاہے جو ان کے ہم عصر لوگوں کی عقل سے باہر تھیں ان میں سے ایک ابن راوندی بھی تھا جسے ریاضی اور طب جیسے علوم پر دسترس حاصل تھی ۔ ابن راوندی وہ پہلا انسان ہے جس نے کہا کہ ہمارا بدن تمام عمر ایسے دشمنوں میں گھرا ہوتا ہے جو ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس جسم کے اندر ایسی چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں جو ان دشمنوں کو دور کرتی ہیں اور انہیں ہم پر قابو پانے نہیں دیتیں یہ نظریہ اس قدر توجہ طلب ہے کہ نہصرف یہ کہ قدیم زمانے میں کسی نے اس کے متعلق نہیں سوچا بلکہ اس بیسویں صدی کے شروع میں بھی ڈاکٹروں نے اس موضوع کے بارے میں غورو فکر نہیں کیا انہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ ہمارا جسم خود بخود ایسی چیزیں وجود میں لاتا ہے کہ دشمن جو ہمارے اردگرد موجود ہیں اور مسلسل ہم پر حملے کرتے ہیں یہ چیزیں ان کے خلاف ہمار دفاع کرتی ہیں اس صدی کے آغاز میں ڈاکٹروں نے صرف سفید جسیموں کو جو ہمارے خون میں پائے جاتے ہیں دفاع کا واحد ذریعہ قرار دیا تھا اور جس چیز سے ہمارا بدن دشمنوں کو دور بھگارنے کے لئے اپنا احاطہ کرتا ہے اس کے متعلق انہیں کوئی اطلاع نہ تھی یہاں تک کہ ۱۹۴۰ ھ عیسوی تک بھی ڈاکٹر اس نظرہ سے واقف نہ تھے ۔

لہذا کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ابن راوندی کو مرگی کا مریض قرار دینے کے بعد اس کے اسی نظریئے کو اس کی مرگی کے مریض ہونے کی سند کے طور پر پیش کیا گیا تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران علم طب وہی تھا جو بقراط سے مشرق اور مغرب تک پہنچا ہے اس علم میں علم طب کی اساس آدمی کی چار فطرتوں پر رکھی گئی ہے اور ان چار فطرتوں اک توازن صحت کی ضمانت ہے اور اگر یہ توازن برقرار نہ رہے تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے اور اگر اس توازن کا بگاڑ شدت اختیار کر جائیتو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔

بس اسی لئے ہر قسم کی بیماری خود انسان کے اندر پائی جاتی ہے باہر سے اس کا تعلق نہیں البتہ بعض ایسے محرکات جو بیماری کا باعث بن سکتے ہیں مثلا سردی گرمی اور اس طرح کی دوسر ے ماحول کی تبدیلیاں وغیرہ کوئی بھی عقلمند انسان اس زمانے میں اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ ہمارا جسم ساری عمر دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنا رہتا ہے یہ نظریہ انیسویں صدی میں پاسٹر نے پیش کیا اور جب سفید جسیموں کو دریافت کر لیا گیا تو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ آیا جس میں مدافعت کرنے والی کوئی اور چیز بھی ہے یا نہیں ۔

۱۹۴۰ عیسوی کے بعد مدافعین کی دریافت آہستہ آہستہ توجہ طلب بنی بہر کیف ڈاکٹروں نے ۱۹۵۰ عیسوی میں ہی یقین کر لیا تھا کہ ہمارے بدن میں جسیموں کے علاوہ بھی مدافعت کرنے والے خلیات ہیں جنہیں انٹی باڈیز ۔

انٹی باڈیز کا نام دیا جاتا ہے یا فرانسیسی میں انٹی کور کہا جاتا ہے اور ان کا کام یہ ہے کہ بیماری کے جراثیم جب ہمارے جسم پر حملہ کرتے ہیں خصوصا کسی دوسرے جسم کے جراثیم تو یہ انہیں ختمکرتے ہیں یہاں اس بات کا ذکر کرنے کیلئے کہ انٹی باڈیز انگریز ی یا انٹی کور فرانسیسی کے وجود کا نظریہ کس قدر جدید ہے یہ بھی بتاتے چلیں کہ ۱۹۵۰ عیسوی کے بعد بھی جب اس دفاعی وسیلہ کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا ۔

ڈاکٹر ز علاج معالجے میں اس پر کم توجہ دیتے تھے یہاں تک کہ ڈاکٹر رابرٹالن گود امریکی نے جو سرطان کا سپیشلست تھا‘ نے ثابت کیا کہ اگر ہمارا بدن انٹی باڈیز یا انٹی کور نہ بنائے تو تمام انسان سرطان کا شمار ہو جائیں کیونکہہر مرد و عورت کے جسم میں بچپن سے لیکر زندگی کے آخری دن تک ہر دن دس سے لیکر ایک ہزار تک سرطانی جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور اگر دفاعی کا یہ وسیلہ نہ ہو تو سرطانی جراثیم بہت تیزیسے نشو و نما پاتے ہیں اور ان کی تعداد کئی ملین تک پہنچ سکتی ہے۔

لیکن چونکہ یہ دفاعی وسیلہ جسم میں موجود ہے اس لئے جونہی سرطانیخلیہ وجود میں آتا ہے اس دفاعی وسیلے کے ذریعہ وہ ختم ہو جاتا ہے اور اسیدو حصوں میں تقسیم ہونے کی مہلت نہیں ملتی جس سے جراثیموں کی افزائش نسل رک جاتی ہے ڈاکٹر رابرٹ گوڈ کہتا ہے بوڑھوں کا جوانوں کی نسبت سرطان میں زیادہ مبتلا ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان

کے جسم میں جوانوں کے مقابلے میں کم انٹی باڈیز پیدا ہوتے ہیں اور یہ دفاعی وسیلہ سرطانی خلیوں کو جسم میں افزائش نسل سے نہیں روک سکتا ۔

ڈاکٹر رابرٹ کے بقول عموما جو کوئی سرطان کی بیماریمیں مبتلا ہوتا ہے اس کے جسم میں انٹی باڈیز کافی مقدار میں نہیں بنتی جو ڈاکٹر سرطان کے بیمار کا علاج کرنا چاہے تو اسے پہلے اس دفاعی وسیلے کو بیماری شخص کے جسم میں پہلے سے زیادہ مقدار میں انٹی باڈیز پیدا کرکے تقویت پہنچانی چاہیے۔

کیا حیرت کی بات نہیں کہ ایک عالم نے ساڑھے گیارہ سو سال پہلے ایک ایسا طبی راز پا لیا تھا کہ بیسویں صدی عیسوی کے ڈاکٹر اس صدی کے پہلے چالیس سالوں کے دوران اس کا مطالعہ کرنے اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کیلئے تیار نہ تھے ؟

جو کچھ ابن راوندینے ایک ہزار ایک سو پچاس سال پہلے کہا تمام دنیاکے ڈاکٹر اس پر متفق ہیں اور ہر میڈیکل کالج میں اس نظریہ کو جانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آدمی ساری عمر خطرناک دشمنوں کے نرغے میں رہتا ہے جنہوں نے اس کو ختم کرنیکی ٹھانی ہوئی ہے ‘ یہ مائیکروب وائس اور سرطانی خلیات کی مانند دوسری خلیات ہیں ۔

ابن راوندی نے طب کے متعلق ایک دوسرا نظریہ بھی پیش کیا جس کے طرفدار آج موجود ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لا علاج بیماریمیں مبتلا ہو اور ڈاکٹر دداؤں سے اس کا علاجنہ کر سکیں تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ایک دوسری بیماری میں مبتلا کریتو پہلی بیماری ختم ہو جائیگی ا ورموت کا خطرہ ٹل جائے گا ۔ اور ڈاکٹر جب پہلی بیماری کا علاج کر لے تو پھر وہ دوائی سے دوسری بیماری کا علاج بھی کرسکتا ہے ۔ یہ نظریہ بھی تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران ابن راوندی کی جنونی یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے ‘ ڈاکٹر صاحبان نے صدیوں بعد اس پر غور کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ جو کوئی کسی لا علاج مرض میں مبتلا ہوتا ہے اگر وہ کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہوجائے تو اس کی پہلی بیماری آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے ۔

کئی تجربات سیابن راوندی کے اس نظریہ کی تصدیقہو چکیہے لیکن یہ تجربات اتفاقا سامنے آتے ہیں مثلا اتفاق سے ایسا ہوا کہ کوئی شخص کسی لا علاج بیماری میں مبتلا تھا تو اسی دوران وہ ایک دوسری بیماری میں مبتلا ہو گیا اور اس طرح موت کا خطرہ ٹل گیا ۔

لیکن ڈاکٹر کسی بیمار کا معالجہ کرنے کیلئے اس میں جدید بیماری نہیں پیدا کر سکے ۔ انیسویں صدی عیسوی میں عملی طور پر اس قسم کا علاج کیا گیا کیونکہ مائیکروب اور ٹاکسین کی دریافت کے بعد ڈاکٹروں نے مائیکروب یا ٹاکیسن کو جسم میں داخل کرنے سے جسم میں بیماری پیدا کی اور انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں ایک امریکی ڈاکٹر ویلیم کالی نیجو سرجن بھی تھا سرطانی مریضوں کے علاج کیلئے ابن راوندی کے نظریہ کی پیروی کی جس کے بارے میں ہم نے ذکر کیا کہ صدیوں بعد اس نظریہ کی تائید کی گئی ۔

ویلیم کالی پہلے ٹاکسین کو سرطانی مریضوں کی جسم میں داخل کرکے انہیں بیماری میں مبتلا کرتا اور جب وہ جدید بیماری میں مبتلا ہو جاتے تو سرطان کی علامتیں آہستہ آہستہ ختم ہو نے لگتیں حتی کہ سرطان مکمل طور پر ختم ہو جاتا اس طرح ڈاکٹر و یلیم کالی نے دو سو سے زیادہ سرطانی مریضوں کو موت کے چنگل سے چھڑایا یہ وہ لوگ تھے کہ اگر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ایک سال کے بعد سرطان کی بیماری سے مر جاتے لیکن ویلیم کالی کے علاج معالجے کی وجہ سے انہوں نے طبعی عمر گزاری انہوں نے زندگی کی اکہتر بہاریں دیکھیں حالنکہ وہ سرطان کی بیماری میں چالیس یا پینتالیس سال کی عمر میں مبتلا ہو چکے تھے ان میں سے جو جلدی فوت ہوئے تھے وہ بھی چار یا پانچ سال تک زندہ رہے تھے ۔

بہر کیف ویلیم کالی کے طرز علاج نے بتا دیا کہ ابن راوندی کا نظریہ معتبرہ ہے اور اگر ایک لا علاج مریض کا علاج نہ کیا جائے اور اسے کسی دوسری بیماریمیں مبتلا کیا جائے تو یہ بات مریض کی طویل عمر کا باعث ہو گی ۔

لیکن ویلیم کالی کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی روش کو نہیں اپنایا اس لئے کہ ان کا خیال تھا کہ پہلی بیماری کا دوسری بیماری کو مریض کے جسم میں داخل کرنے کے ذریعے معالجہ کرنا ایک چھوٹی خرابی کا علاج بڑی خرابی کے ذریعے کرنا ہے اور ڈاکٹر صاحبان کا اعتقاد ہے کہ اگر دوسری بیماری معمولی ہو تو وہ پہلی بیماری سے نجات نہیں دلا سکتی ۔

پس مریض کے جسم میں ایک غیر معمولی بیماری پیداکرنا ہو گی تاکہ پہلی بیماری ختم ہو اور اس وقت دوسری بیماری سے مریض کی موت واقع ہو جائے گی۔

مختصر یہ کہ ڈاکٹر ویلیم کالی کے بعد اس کا طریقہ علاج ترک کر دیا گیا اور دوبارہ سرطان کی بیماری ایک لا علاج بیماری بن گئی ۔ حتی کہ ڈاکٹر رابرٹ آلن گوڈ امریکی جو ابھی بقید حیات ہے ‘ آیا اور آج کل وہ سرطانی مریضوں کا علاج ابن راوندی کے نظریہ کی اساس پر کرتا ہیوہ ان مریضوں میں تپ دق کی بیماری پیداکرتا ہے اس کے بقول اس بیماری کو پیدا کرنے کے نتیجے میں انٹی باڈیز جو سرطان کے خلاف جسم کا دفاع کرتی ہیں زیادہ فعال ہو جاتی ہیں ۔

جونہی تپ دق کا مرض اجاگر ہوتا ہے سرطان کی بیماری خلیات بتدریج جسم سے ختم ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ کروڑوں خلیات میں سے بدن میں پچاس ہزار یا چالیس ہزار خلیات سے زیادہ باقی نہیں رہتے۔

رابرٹ آلن گوڈ کے طرز علاج کو سمجھنے کیلئے ایک میڈیکل کی کتاب لکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ڈاکٹر جو احتمال ہے کہ مستقبل میں سرطان کے مریضوں کا مکمل طور پر معالجہ کر سکے گا کیسے مریضوں کا علاج کرتا ہے اور سرطانی خلیوں کی تعداد کو کم کرکے پچاس ہزار تک پہنچا دیتا ہے۔

لیکن اس علاج کی بنیاد ابن راوندی کینظریہ پر ہی ہے اور یہ قابل ڈاکٹر اپنے مریضوں کے جسم میں تپ دق پیداکرکے ان کے سرطان کو اس طرح کم کرتا ہے کہ اپنی امید سے زیادہ زندہ رہتا ہے اور اس طرح کا علاج چھوٹی خرابی کو کسی بڑی خرابی کے ذریعے دور کرنا نہیں کیونکہ تپ دق کا مرض آج جکل قابل علاج ہے جبکہ سرطان کی بیماری لا علاج ہے ۔