مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43381
ڈاؤنلوڈ: 4106

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43381 / ڈاؤنلوڈ: 4106
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

امام جعفر صادق کے ہاں ادب کی تعریف

ہم نے ابن راوندی کی سوانح حیات کی معمولی سی ایک جھلک دکھائی تاکہ پتہ چلے کہ جس مذہبی ثقافت کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی تھی اس میں کس قدر بحث کیآزادی تھی اور ہر کسی کو اظہار خیال کی کھلی چھٹی تھی یہی ابن راوندی ایران کے علاقے عراق اور جعفر صادق کے مذہبی ثقافتی مکتب میں جو چاہتا سو لکھتا لیکن عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں اپنی تحریروں کے نتیجہ میں دو مرتبہ موت سے بال بال بچا ایک مرتبہ خلیفہ کے ہاتھوں اور دوسری بار لوگوں کے ہجوم کے قہر و غضب سے بچ نکلا اگر عباس صروم اسکی مدد نہ کرتا تو اس کا قتل یقینی تھا ۔

جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کی قوت کا راز اس میں تھا کہ اسکے چار ارکان میں سے صرف ایک رکن مذہبی باقی تین ارکان ادب ‘ علم اور عرفان تھے دنیا کی تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی مذہب کے مکتب میں علم و ادب کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی ہے جتنی جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں ہوئی ۔ جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں علم و ادب کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ محقق اپنے آپ سے پوچھتا ہیکہ مذہبی ثقافت میں ادب کی اہمیت زیادہ تھی یا مذہب کی اور کیا علم کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی یا مذہب کو ۔ جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ ایک مومن چونکہ متقین کے ایمان کا حامل ہوتا ہے پس اسے علم و ادب سے روشناس ہونا چاہیے آپ کہا کرتے تھے ایک عام شخص کا ایمان سطحی اور بے بنیاد ہے وہ چونکہ ایک عام انسان ہوتا ہے لہذا وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہو سکتا کہ کس پر ایمان لایا ہے اور کس کیلئے ایمان لایا ہے اور اسکے ایمان کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اس لئے اسکے خاتمہ کا امکان ہوتا ہے ۔

لیکن وہ مومن جو علم و ادب سے بہرہ مند ہو گا اس کا ایمان مرتے دم تک متزلزل نہیں ہو گا کیونکہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہے کہ کس لئے اور کس پر ایمان لایاہے ؟

جعفر صادق یہ دکھانے کیلئے کہ علم و ادب کس طرح ایمان کی جڑوں کو گہرا اور مضبوط کرتا ہے دوسرے مذاہب کی مثال بھی دیتے تھے اور کہا کرتے تھے جب اسلام پھیل گیا اور جزیرہ العرب سے دوسرے ممالک تک پہنچا تو ان ممالک کے عام لوگوں نے اسلام کو جلدی قبول کر لیا لیکن جو لوگ علم و ادب سے آگاہ تھے انہوں نے اسلام کو جلدی قبول نہیں کیا بلکہ ایک مدت گذر جانے کے بعد جب ان پر ثابت ہو گیا کہ اسلام دنیا اور آخرت کا دین ہے تو پھر انہوں نے اسے قبول کیا۔

جعفر صادق نے ادب کی ایسی تعریف کی ہے جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کی اس سے اچھی تعریف کی گئی ہو گی انہوں نے فرمایا ادب ایک لباس سے عبارت ہے جو تحریر یا تقریر کو پہناتے ہیں تاکہ اس میں سننے اور پڑھنے والے کیلئے کشش پیدا ہو یہاں پر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جعفر صادق یہ نہیں فرماتے کہ تحریر یا تقریر اس لباس کے بغیر قابل توجہ نہیں اپ اس لباس کے بغیر بھی تقریروں اور تحریروں کو پر کشش سمجھتے ہیں لیکن آپ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ ادب کے ذریعے تحریروں اور تقریروں کو مزید پر کشش لباس پہنایا جاتا ہے ۔

کیا امام جعفر صادق کی وفات سے لیکر اب تک اس ساڑھے بارہ سو سال کے عرصے میں اب تک کسی نے ادب کی اتنی مختصر جامع اور منطقی تعریف کی ہے ؟

جعفر صادق کا ادب کے متعلق دوسرا نظریہ یہ کہتا ہے ( ممکن ہے ادب علم نہ ہو لیکن علم کا وجود ادب کے بغیر محال ہے ) علم و ادب کے رابطے کے متعلق یہ بھی ایک جامع اور مختصر تعریف ہے اور جیسا کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے علم میں ادب ہے لیکن ممکن ہے ہر ادب میں علم نہ ہو ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ جعفر صادق علم سے زیادہ شغف رکھتے تھے یا ادب سے زیادہ لگاؤ رکھتے ؟ کیا آپ کے خیال میں شعر کی قدر و منزلت زیادہ تھی یا علم طبعیات کی بعض ایسے لوگ ہو گزرے ہیں جو علم و ادب دونوں سے برابر دلچسپی رکھتے تھے لیکن ایسے لوگوں کا شمار صرف انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ انسانوں کی اکثریت کی استعداد اتنی ہی ہے کہ یا تو وہ علم سے لگاؤں رکھتے ہونگے یا ان کی دلچسپی ادب سے ہو گی ۔ جو لوگ ادب سے شغف رکھتے ہیں وہ علم کو غم و غصے کا آلہ قرار دیتے ہیں اور مادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس کا مقصد محض ریا کاری اور لہو لعب ہے اور لم کی جانب رجوع کرنے والے کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ با ذوق اور خوش مزاج شمار کرتے ہیں ۔

جو لوگ علمی استعداد کے حامل ہوتے ہیں وہ ادب کو بچگانہ کام یا خیالی پلاؤ پکانے والے انسانوں کا خاصہ سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں ادب سے لگاؤ کسی سنجیدہ اور سلجھیہوئے انسان کا کام نہیں کاروباری طقبے کی نظر میں ادب محض زندگی کو فضول بسر کرنے کا نام ہے حتی کہ یہ طبقہ ادیبوں کی عقل سلیم کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کا خیال ہے کہ اگر ادب کے متوالوں میں عقل سلیم ہوتی تو وہ ہر گز ایسے فضول کام میں زندگی نہ گنواتے اس طبقے کو چھوڑئے کیونکہ یہ نہ صرف ادب کے قائل نہیں بلکہ جب علم نے صنعت کو فروغ دیا اور صنعت نے مادی ترقی میں مدد دی تب کہیں جا کر یہ لوگ علم کی اہمیت کے قائل ہوئے یعنی اٹھارویں صدیعیسوی کے آغاز سے اس کی اہمیت اجاگر ہوئی جب کاروباری طبقے نے محسوس کیا کہ صنعتیں مادی ترقی میں ممدو معاون ہیں تو تب انہوں نے صنعتوں کی طرف توجہ دی ۔

لیکن امام جعفر صادق ان نادر روزگار افراد میں سے تھے جو علم و ادب دونوں کے متوالے تھے جعفر صادق کی تدریس کے مقام پر اوپر یہ بیت رقم تھا ۔

لیس الیتیم قلمات والده ان الیتیم یتیم العلم والادب

یعنی یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہو گیا ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہے عربوں میں جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کے وجود میں آنے سے پہلے ادب کا اطلاق صرف شعر پر ہوتا تھا جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں دور جاہلیت میں عربوں میں ثری ادب کا وجود نہ تھا اور پہلی صدی ہجری میں عربوں کے نثری ادب کے آثار معدود ہیں ان آثار میں حضرت علی کا تہج البلاغہ خاصی اہمیت کا حامل ہے جعفر صادق کو دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران نثری ادب کا شوق پیدا ہوا جیسا کہ کہاجا سکتا ہے کہ نثری ادب کو وجود میں لانے والے امام جعفر صادق تھے ۔

کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عرب قوم میں ادبی انعام کا رواج ڈالا اگر ادبی انعام سے مراد یہ ہے کہ شاعر یا مصنف کو کوئی چیز عطا کی جائے تو یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ شعراء کو نوازنے کی رسم جزیرة العرب میں زمانے سے جاری تھی اور اسلام کے بعد بھی یہ رسم جاری رہی اور جب کوئی شعر پڑھتا اور اسے اشراف کے پا س لے جاتا تو انعام سے نوازا جاتا تھا لیکن وہ لوگ جو نثری ادب میں اضافہ کرتے تھے انہیں صلہ دینے کا رواج تھا اور نہ ہی عرب قوم نثری عبارات کو ادب کا جزو شمار کرتی تھی چہ جائیکہ نثری عبارت کا صلہ ادیب کو ملتا ایک روایت کے مطابق نثری یاد گار اور انعام و اکرام عطا کرنیکی ابتدا امام جعفر صادق سے ہوئی ۔

اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ جعفر صادق نے ادبی نثر کے انعام کا تعین کیا لیکن البتہ یہ بات مشکوک ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے نثری ادیبوں کو انعام عطا کرنیکا رواج شروع کیا یا ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر نے اس کام میں سبقت لی شروع شروع میں ادبی انعام دینے کیلئے تین ججوں کی کمیٹی تشکیل دی گئی ایک امامجعفر صادق اور دوسرے ان کے دو شاگرد ۔

اس کے بعد یہ کمیٹی پانچ ممبروں پر مشتمل ہو گئی اور اگر ان میں سے تین افراد ایک مصنف کو انعام کا حقدار قرار دیتے تو پھر مصنف انعام کا حقدار ٹھہرتا تھا ۔ جعفر صادق کی طرف سے جس عامل نے نثری ادب کی توسیع میں مدد دی وہ یہ تھا کہ انہوں نے کسی مصنف کو کسی خاص موضوع پر لکھنے کے لئے مجبور نہیں کیا اور ہر ایک اپنے ذوق کے مطابق لکھنے کیلئے آزاد تھا اور جو کچھ لکھتا بعد میں جعفر صادق کے سپرد کرتا اور آ اسے انعام کیلئے ججوں کے پینل کے سامنے پیش کر دیتے تھے اور اگر ججوں میں سے تین جج ‘ مصنف کو انعام کا حقدار قرار دیتے تو انعام اسکے سپرد کر دیا جاتا تھا جعفر صادق نے کھلے دل سے ہر قسم کی نظم و شعر کو ادب میں شامل کیا جعفر صادق کی نظر میں ادیب فقط وہ نہ ہوتا تھا جو شعر پڑھتا یا فی البدیہہ اشعار کے ذریعے اظہار خیال کرتا یا تقریر لکھتا اور پھر اسے ڑھتا بلکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی موضوع پر نظم یا شعر میں اظہار خیال کرتا جو امام جعفر صادق کے نظریئے کے مطابق ادب کی تعریف کے لحاظ سے دلچسپ ہوتا تو اس شخص کو ادیب شمار کیا جاتا تھا اور علم و ادب کو نہ صرف مذہبی ثقافت کے لحاظ سے ضروری گردانتے بلکہ انسانی وقار کی بلندی اور انسانوں میں اچھی صفات کے فروغ کیلئے بھیعلم و ادب کو لازمی خیال کرتے تھے ۔

آپ جانتے تھے کہ ایک ایسا معاشرہ جس کے افراد ادیب و عالم ہوں اس میں دوسروں کے حقوق کی پا مالی کم دیکھنے میں آتی ہے اور اگر سب علم و ادب سے آشنا ہو جائیں تو تمام طبقوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں امام جعفر صادق کی نظر میں مذہبی ثقافت جس کے چار رکن یعنی مذہب ادب علم و عرفان ہیں شیعہ مذہب کی تقویت و بقاء کیلئے بہت مفید اور موثر تھے امام جعفر صادق نے شیعہ مذہب کیلئے سن پیر کی مانند کوی بڑی عمارت تعمیر نہیں کی لیکن جو ثقافت وہ وجود میں لائے ہیں وہ سن پیر سے زیادہ دائمی ہے کیونکہ ایک مذہبی عمارت کو تباہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سن پیر کے پہلے کلیسا کو تباہ کر دیا گیا تھا لیکن جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کو کوئی ختم نہیں کر سکا ۔

سن پیر کا پہلا کلیسا قسطنطین (عیسائی روم کے پہلے بادشاہ) نے ۳۲۶ عیسوی میں بنانا شروع کیا اور چند سالوں کے بعد تکمیل کو پہنچا یہ کلیسا ماڈرن دور تک باقی رہا اس وقت جب ژول دوم عیسائی مذہب کے رہنما کے حکم سے اس کلیسا کو گرا دیا گیا اور جدید کلیسا کی تعمیر سروع کی گئی جو سن پیر کے نام سے روم میں پایا جاتا ہے اگر جعفر صادق مذہب شیعہ کیلئے ایک پر شکوہ عمارت تعمیر کرواتے تو ممکن تھا ایک ایسا آدمی پیدا ہوتا جو اس مذہب سے مخالفت کی بنا پر اس عمارت کو گرا دیتااور اج اس کا نام و نشان نہ ہوتا لیکن امام جعفر صادق نے شیعہ مذہبی ثقافت کی بنیاد کو اس طرح مستحکم اور مضبوط کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور اسے کوئی بھی تباہ نہ کر سکے اور نام و نشان نہ مٹا سکے آپ نے ثقافت کے چار ارکان کو جن کا ذکر اوپر آیا ہے تقویت پہنچائی خصوصا تین ارکان مذہب و ادب اور علم کیلئے کافی کوشش کی آ نے اس کیلئے اس قدر جدوجہد کی کہ دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں جو آپ کا تعلیم دینے کا زمانہ تھا اسلامی دنیا میں علم و ادب کی توسیع کا آغاز ہوا اور اگرچہ آپ تنہا علم و ادب کے محرک نہیں بنے لیکن آ نے سب سے پہلے اس راہ میں قدم رکھا اور دوسروں نے اس کی پیروی کی جعفر صادق علم و ادب کی توسیع اور علماء ادیبوں کو شوق دلانے کیلئے قدم آگے نہ بڑھاتے تو دوسری صدی کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران اور تیسری صدی جری کے تمام دور اور چوتھی صدی ہجری کے ساری عرصے میں جو بڑی ادبی و علمی تحریک وجود میں آئی ہر گز وجود میں نہ آ سکتی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ عباسی خلفاء نے علم و ادب کی ترویج میں سبقت حاصل کی وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔

پہلے عباسی خلفاء کا مقصد اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا اور ان کے بعد جو خلفاء آئے وہ زیادہ تر نفسانی خواہشات کے غلام تھے وہ کسی حد تک ہی علم و ادب کی طرف راغب ہوئے جیسا کہ ہم نے متوکل کے بارے میں مختصرا ذکر کیا ہے ۔

تیسری صدی ہجری اور چوتھی صدی ہجری میں علم و ادب کی جانب عباسی خلفاء کی توجہ کو اس زمانے کے رسم و رواج کی ضرورت سمجھا جا سکتا ہے نہ کہ علم و ادب کی طرف عباسی خلفاء کی خصوصی توجہ ‘ سنتیس ۳۸ عباسی خلفاء جنہوں نے مجموعا پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کی ان میں سے صرف چند ہی علم و ادب کی طرف مائل ہوئے اور باقی مادی لذتوں کے حصول کی فکر میں لگے رہے ۔

بہر کیف اس بات سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ انہیں چند خلفاء کی علم و ادب سے دلچسپی ‘ علم و ادب کے فروغ کا باعث بنی اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ انہوں نے اس زمانے کی روش کے مطابق علم و ادب سے دلچسپی کا اظہار کیاچونکہ بیت المال ان کے تصرف میں تھا اور اس کے علاوہ وہ قیمتی تحائف بھی وصول کرتے تھے جو لگا تار ان کیلئے عوام بھیجتے تھے وہ شعراء خطیبوں مصنفین اور علماء کو بڑے بڑے انعامات سے نواز سکتے تھے اور یہ انعامات دوسروں کو علم و ادب کی تحصیل کی طرف مائل کرتے تھے تاکہ وہ بھی خلیفہ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا سکیں اور بڑے بڑے انعامات حاصل کریں ۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعراء جاہلیت کے زمانے میں عربی بدو قبائل کے سرداروں کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس فطرت ثانیا کی ابتدا خود عربوں نے کی تھی انہوں نے کسی اور قوم سے حاصل نہیں کی تھی کبھی کبھار ایسا ہوتا تھا کہ قبیلے کا سردار شاعرانہ ذوق کا حامل نہ ہوتا یا اشعار کا مفہوم نہ سمجھتا ت و بھی رسم و رواج کے مطابق وہ شاعر کے کلام کو ضرور سنتا تھا شو بہناور کے بقول چونکہ عرب بدووں کے قبائل کے سردار جب بیکار اور نکمے پن سے تنگ آ جاتے تھے تو اپنا وقت شاعروں کے نغمے سننے پر صرف کرتے تھے ۔

شو بنہاور ‘ عرب بدو قبائل کے اشعار سننے کو نہ صرف ان کی بیکاری پر محمول کرتا ہے بلکہ اس کے بقول ہر وہ کام جو انسان حصول معاش کے علاوہ انجام دیتا ہے وہ سب بیکاری میں شامل ہیں مثلا کھیلیں ‘تفریحات مہمان نوازیاں وغیرہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو فضول کاموں میں لگانا چاہتا ہے اس جرمن فلسفی نے اپنے کمرے میں اپنے سر کے اوپر ایک کتبہ نصب کیا ہوا تھا جس پر کندہ تھا کہ وہ انسان جو تمہیں دو پہر یا شام کے کھانے کی دعوت دے تمہارا سب سے برا دشمن ہے کیونکہ وہ تمہیں کام نہیں کرنے دیتا ۔

جب شاعر قبیلے کے سردار کے سمنے اپنے اشاعر پڑھتا تو وہ اسے انعام و اکرام سے نوازتا اور ادب کا تقاضا یہ تھا کہ شاعر اپنے اشعار میں قبیلے کے سردار کی شان میں چند بیت شامل کر دیتا تھا ۔

لیکن اس کی شان کے بیان کی ایک حد معین تھی اور اس طرح دور جاہلیت کے شعراء مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے تھے اور اپنے آ کو قبیلہ کے سردار کے مقابلے میں پست ظاہر نہیں کرتے تھے ان کی مدح میں ایسا شکر یہ ہوتا تھا جو ایک مہمان ‘ میزبان کی مہمان نوازی پر ادا کرتا ہے ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ شعراء جو شاعروں کے اجتماعی میں شعر پڑھتے تھے لوگوں سے رقم بٹورتے تھے جب کہ ایسا ہر گز نہیں ۔

دور جاہلیت میں عربی شعراء اپنی عزت و وقار کا خاص پاس رکھتے تھے وہ قبائل کے سرداروں سے انعام لیتے اسے ایک طرح کی مزدوری سمجھا جاتا تھا اس طرح قبیلے کے رئیس کو صرف اتنا ہی حق پہنچتا تھا جتنا شاعر اپنے شعروں میں ادا کر دیتا تھا شاعر یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوتا تھا اس نے قبیلہ کے سردار کی شان میں شعر کہہ کر اس پر احسان کیا ہے لیکن سردار قبیلہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے شاعر کو نواز کر احسان کیا ہے وہ لوگ جو شاعروں کے اجتماع میں شعر خوانی کرتے ان کا مقصد شہرت اور مقبولیت پانا ہوتا تھا وہ لوگوں سے کسی تحفے وغیرہ کے امیدوار نہیں ہوتے تھے ۔

لیکن امام جعفر صادق کے زمانے تک کسی دور میں ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ جزیرہ عرب میں کسی شاعر نے شاعروں کے اجتماع میں سردار قبیلہ کے سامنے نثر کا کوئی قطعہ پیش کیا ہو وہ مضامین جو شعر کے قالب میں نہیں ڈھلتے عربوں کی نظر میں ادب کا حصہ نہیں تھے ۔

حتی کہ قرآن نازل ہوا اور قرآن کی نثر عرب بدوؤں کا پہلا نثری سرمایہ قرار پائی لیکن عرب قوم چونکہ قرآن کو ایک معجزہ خیال کرتی تھی لہذا وہ اسے ادب سے بالا تر شے خیال کرتی تھی اس کے باوجود کہ قران نے عربوں کو اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ نثر بھی ادبی سرمایہ قرار پا سکتی ہے پہلی صدی ہجری میں ماسوائے حضرت علی اور آ کے پوتے زین العابدین اور پھر محمد باقر کے کسی نے بھی ادبی نثر پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی کوئی کتاب لکھی ۔

جعفر صادق کے زمانے تک جو لوگ کتاب لکھنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ انہیں اپنے افکار کو شعر ی قالب میں ڈھالنا چاہیے اور چونکہ شعر اوزان و بحروں کا محتاج ہوتا ہے اور شاعر قافیے کی رعایت کرتا تھا لہزا وہ لوگ ازادی سے اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے تھے ۔

جعفر صادق نے ادبی نثر کی توسیع کی مدد سے ان اسلامی مفکرین کے افکار کو پر عطا کئے جو اس وقت تک شعر کی بحروں میں قید تھے اور اس کے بعد جو کوئی کتاب لکھنا چاہتا نثر سے کام لیتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ادب میں شعر کی اہمیت پر بھی کوئی اثر نہ پڑتا ۔

جعفر صادق کا فرمان جو انہوں نے اپنے بیٹھنے کی جگہ اپنے سر کے اوپر کندہ کروایا ہوا تھا کس قدر شاندار ہے کہ " یتیم وہ نہیں جس کا باپ نہ ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو "

"علم " بنظر صادق

ہم نے دیکھا کہ امام جعفر صاد ق نے ادب کی کس طرح تعریف کی اور اب یہ دیکھنا ہے کہ انہوں نے علم کو کس پیرائے میں بیان کیا اور آپ کا عقیدہ تھا کہ احکام دین کے نفاذ کے بعد ایک مسلمان کیلئے علم والوں سے بڑھ کر کوئی چیز ضروری نہیں ہے جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں عرفان چوتھا رکن ہے البتہ آ عرفان کو واجبات میں سے نہیں سمجھتے لیکن علم و ادب کو واجبات کا جزو سمجھتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ یہ دینی واجبات میں سے نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے واجبات میں شمار ہوتا ہے ۔

جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے کہ علم و ادب نہ صرف یہ کہ شیعہ مذہب کی ثقافت کی تقویت کا باعث بنیں گے بلکہ دوسری قوموں میں مسلمانوں کی تقویت کا باعث بھی ہونگے اور اسلامی دنیا میں علم و ادب نے اس قدر ترقی کی کہ چوتھی صدی ہجری اسلامی دنیا میں علم و ادب کے سنہری دور کہلایا اور یورپ والوں نے اسلامی علم سے کافی فائدہ اٹھایا جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ متعدد علوم میں سے کوسنے علم کو دوسروں پر ترجیح حاصل ہے آپ نے فرمایا کوئی علم دوسرے علوم پر قابل ترجیح نہیں البتہ علوم سے استفادہ کرنے کے موارد میں فرق پایا جاتا ہے جس کے نتجے میں انسان کیلئے لازم ہے کہ بعض علوم کی تحصیل میں جلد کرے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اور آج کے دور میں (عہد جعفر صادق میں ) دو علوم سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے ایک علم دین اور دوسرا علم طب ‘۔

جعفر صادق کی علم دین سے زیادہ تر فقہ مراد تھی اور اپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے زمانے میں علم قانون اور طب سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے آپ نے فرمایا ایک دن ایسا آئے گا جب انسان ان علوم سے بھی فائدہ اٹھائے گا جن سے فی الحال عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہا اور یہ بات محال ہے کہ علم انسان کیلئے سود مند نہ ہو مختصر یہ کہ انسان زمانے کی مناسبت سے علوم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جعفر صادق کا عقیدہ تھا کہ انسان نے دنیا میں اپنی زندگی کے طویل عرصے میں صرف ایک مختصر عرصے کو علم کیلئے مخصوص کیاہے اور زیادہ تر علوم سے دور رہا ہے اور دو چیزوں نے انسان کو علوم سے دور رکھا ہے ۔

پہلی چیز مربی اور استاد کا نہ ہونا جو اسے علوم حاصل کرنے کا شوق دلائے دوسری انسان کی کاہلی چونکہ علم کو سیکھنا تکلیف کے بغیر نا ممکن ہے لہذا انسان فطرتا سہل پسند ہونے کی بنا پر علم سے دور بھاگتا ہے ۔

فرض کیا اس دنیا میں بنی نوع انسان نے دس ہزار سال گزارے ہیں تو انسان نے اس طویل عمر میں صرف ایک سو سال تحصیل علم کی طرف توجہ دی ہے اور اگر اس عرصے سے زیادہ علوم کی تحصیل پر صرف کرتا تو آج کچھ علوم کے عملی فوائد سے بہر مند ہوتا ۔

یہاں اس نکتے کی طرف توجہ بے محل نہیں کہ پہلے زمانے کے سکالرز نے عبرانیوں کے کیلنڈر سے حساب لگا کر اس دنیا کی عمر ۴۸۰۰ سال متعین کی تھی لیکن اب سکالرز نے اپنا خیال تبدیل کر لیا کیونکہ پہلے دنیا وجود میں آئی اور پھر انسان کی خلقت ہوئی ۔

لیکن جب امام جعفر صادق نے اس کی مثال دنیا چاہی تو فرمایا فرض کیا انسان نے اس دنیا میں د س ہزار سال زندگی بسر کی ہے تو اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ دنیا اور نوع بشر کی خلقت کے بارے میں عبرانیوں کے کیلنڈر سے متفق نہیں تھے ۔

اگرچہ ایک مثال ‘ دلیل شمار نہیں کی جا سکتی لیکن مثال دینا اس کے تعین کرنے کے مترادف ہے اور اگرچہ جعفر صادق کا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ بنی نوع انسان کی عمر ۴۸۰۰ سال سے زیادہ ہے تو آپ ہر گز دس ہزار سال عمر کے بارے میں گفتگو نہ کرتے بلکہ اس سے کم عمر کی مثال لاتے تین ہزار سال کی مثال دیتے ہم یقینا کہہ سکتے کہ زمین کی خلقت کے بارے میں جعفر صادق کی معلومات اپنے ہم عصروں سے زیادہ تھیں کیونکہ بعض اوقات ان کی گفتگو سے پتہ چلتا تھا کہ وہ تخلیق کے آغاز کی کیفیت سے مطلع ہیں ایک دفعہ اپنے شاگردوں سے فرمایا یہ بڑے بڑے پتھر جو آ پہاڑوں پر دیکھ رہے ہیں شروع میں مائع حالت میں تھے اور بعد میں یہ مائع ٹھنڈا ہو کر موجودہ صورت اختیار کر گیا ۔

اس نظریئے کی اہمیت کو ثابت کرنے کیلئے ( جو ساڑھے بارہ سو سال پہلے پیش کیا گیا تھا ) اتنا کہنا کافی ہے کہ فرانس کے انقلاب کے آغاز اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام تک یورپ کے سکالرز اس بارے میں تذبذب کا شکار تھے کہ آیا زمین شروع میں ایک مائع سیارہ تھی یا نہیں ؟ اور اس سے ایک صدی پہلے پورے یورپ کا کوئی ایسا سکالر نہ تھا جو یہ کہتا کہ شاید زمین شروع میں ایک مائع سیارہ تھی ۔ اس زمانے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ زمین اج جس حالت میں دکھائی دیتی ہے پہلے بھی اسی شکل میں موجود تھی ۔

جو کچھ جعفر صادق نے بنی نوعی انسان کی تحصیل علوم کے سلسلہ میں کاموں کا ذکر کیا ہے ۔ حقیقت کے عین مطابق ہے اور آج انسانوں کا مطالعہ کرنے والے سکالرز کا کہناہے کہ جس زمانے سے انسان نے دو پاؤں پر چلنا شروع کیا ہے اسے پانچ ہزار سال یا چار ہزار سال ہوئے ہیں اس سے پہلے ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے انسان نے علوم کی طرف توجہ کی ہو گی کیونکہ چار ہاتھ اور پاؤں سے چلنے والے انسان کیلئے یہ بات محال تھی کہ تحصیل علم کیلئے آلہ تیار کرتا اور پھر صنعت سازی کرتا تاکہ اس راستے وہ علوم تک پہنچتا ۔

لیکن اگر انسان پانچ ہزار سال یا چار ہزار سال بعد بھی جبکہ وہ دو پاؤں پر چلتا رہا تھا اور اسکے دو ہاتھ کام کرنے کیلئے ازاد تھے ‘ آلہ بنا سکتا تھا اور اس کے ایک لاکھ سال بعد جبکہ انسان نے آگے سے استفادہ کرنا شروع کیا اور اگر اسکے بعد کے صرف ایک لاکھ سال کے دوران ہی علوم سے دلچسپی دکھاتا تو اج انسانی زندگی کے تمام مسائل اور شاید موت کا معمہ بھی حل ہو جاتا ۔

لیکن ان لاکھوں سالوں کے دوران مجموعی اعتبار سے انسان نے صرف ایک ہزار پانچ سو سال ہی علوم کی طرف توجہ مبذول کی ہے اور اس مختصر عرصہ میں بھی انسان کی علوم کی طر ف توجہ کبھی کم اور کبھی زیادہ رہی ہے ایک بات جو ہماری نظر میں نا قابل تردید ہے وہ یہ ہے کہ ڈکارٹ جسے فوت ہوئے تین صدیاں بیت گئی ہیں وہ پہلا شخص ہے جس نے علمی تحقیقی کی بنیاد ڈالی اور کہا کہ علمی حقیقت کو جاننے کیلئے جسم کو چھوٹی حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور اسکے بعد اسے مزید چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اتنے چھوٹے حصے بنانے چاہیں کہ جو چیز حاصل ہو مزید اس کی تقسیم نہ ہو سکے پھر اس چھوٹے سے جسم کی تحقیق کرنا چاہیے اور اسکی خصوصیات دریافت کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ فزکس اور کیمیاء کے لحاظ سے اسکی حالت کیسی ہے ؟ اور اگر ایک جسم کے چھوٹے سے چھوٹے حصے کے خواص معلوم ہو جائیں تو اس پورے جسم کے خواص معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں ۔

عصر حاضر میں علمی ترقی نہ ہوتی ۔

یہاں اس بات سے اگاہی ضروری ہے کہ سترھویں صدی عیسوی کے بعد ٹیکنالوجی اور صنعتوں کی توسیع کی وجہ سے ڈکارٹ کا نظریہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوا ۔ ڈاکرٹ سے ۲۲ صدیاں پہلے یونانی حکیم ذیم قراطیس نے یہ نظریہ پیش کیا لیکن امام جعفر صادق نے ذیم قراطیس کے نظریئے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اشیاء کے خواص ہم اس وقت معلوم کر سکتے ہیں جب ہم کسی چیز کے چھوٹے سے ٹکڑے پر تحقیق کریں اور اس کے خواص سے ہم پورے جسم کے خواص تک پہنچ سکتے ہیں ۔

جس طرح ہم دنیا کے سمندروں کے پانی پر تحقیق نہیں کر سکتے لیکن اگر ایک سمندر کے پانیکے ایک قطرے پر تحقیق کریں تو ہم اس سارے سمندر کے خواص معلوم کر سکتے ہیں اگر صنعتی ترقی نہ ہوتی اور سائنس دانوں کو اجسام کو چھوٹے سے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کے ذرائع میسر نہ آتے تو ذیم قرطیس اور جعفر صادق کے قول کی مانند ڈکارٹ کا قول بھی تھیوری حد تک محدود رہتا ۔

اگر آج جب ہم سیکنڈ کا کروڑواں حصہ ایک ملی میٹر کا کروڑواں حصہ معلوم کر سکتے ہیں تو یہ صرف صنعتی ترقی کا کمال ہے ۔

تاریخی تنقید پر تبصرہ امام

شیکسپیر کے اشعار جو ادب کا حصہ ہیں جوں کے توں قبول کئے جاتے ہیں اور یہ ایک منقول علم ہے لیکن آج کا مورخ واٹرلو کی جنگ جنگ کیشرح کو علم منقول نہیں سمجھتا کیونکہ اسے سمجھنے کیلئے عقل ‘ استعمال میں لائی تھی لہذا تاریخی تنقید کے لحاظ سے کل اور آج کے مورخ میں کوئی فرق نہیں ہے یونانی مورخ ہر و ڈوٹ نے اپنی ایک تاریخ کے مقدمے میں لکا ہے کہ جو چیز میری سمجھ میں نہیں آتی اسے قبول نہیں کرتا ۔ لیکن پھر بھی ہر وڈوٹ کی تاریخ میں ایسے افسانے ملتے ہیں جو انسانی سمجھ سے باہر ہیں ۔

امام جعفر صادق وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے تاریخی روایات پر تنقیدی نگاہ ڈالی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ تاریخی روایات کو تنقید اور گہرے غور و فکر کے بغیر قبول نہیں کرنا چاہیے آپ ہی تھے جو تاریخرقم کرنے میں ابن جریر طبری کے استاد اور مربی بنے اور اس بات کا سبب بنے کہ جس وقت ابن جریر طبری نیتاریخ لکھنے کیلے قلم ہاتھ میں لیا تو اس نے صرف وہی باتیں لکھیں جنہیں انسانی عقل قبول کرے اور ایسے افسانے لکھنے سے گریز کی اجو انسان کو سلاتے ہیں ۔

جعفر صادق سے قبل مشرق وسطی میں تاریخ کے کچھ حصے افسانوں پر مشتمل تھے کیونکہ جو لوگ تاریخ پڑھتے یا سنتے تھے اس کے تاریخی افسانوں کو بھی قبول کرتے تھے ۔

احتمال ہے کہ اسلام سے قبل ایران میں تاریخ موجود تھی اور ایسی تاریخی کتابیں پائی جاتی تھیں جن کا آج ایک صفحہ بھی ہاتھ نہیں آتا۔

ساسانیوں اور ہنحامنشیوں کے دور کی کتابوں سے پتہ چَتاہے کہ قدیم ایران میں لوگ اس حقیقت سے اگاہ تھے کہ واقعات لکھنے اور ریکارڈ کرنے کے ضمن میں افسانے کو تاریخ میں داخل کرنا چاہیے ۔

ہنحامنشیوں اور ساسانیوں کے دور سے ملنے والے کتبوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کتبوں میں افسانے کی ایک سطر بھی نہیں پائی جاتی اور واقعات کی نص ان میں درج ہے لیکن ان بادشاہوں کے مذہبی عقیدے کے آثار ان کتبوں میں ملتے ہیں جن کے حکم سے یہ کتبے لکھے گئے اگر افسانے کو تاریخ میں مد غم نہ کرنے کا شعور قدیم ایران میں نہ پایا جا تا تو ہخامنشیوں اور ساسانیوں کے دور کے کسی ایک تاریخی کتبے میں افسانہ ضرور ملتا ۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ چونکہ یہ کتبے مختصر تھے ۔ لہذا افسانوں کو تاریخ میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ کتبہ بے ستون جو پہلے ہخامنشی بادشاہ رار بوش کے حکم سے لکھا گیا اور کتبے نقش ستم جو پہلے سا سانی بادشاہ یعنی شاہ پور کے زمانے میں لکھا گیا ان میں سے ہر ایک چھوٹے کتابچے پر مشتمل ہے اگر افسانے کو ان کتبوں میں شامل کرنا چاہتے تو آسان تھا لیکن تریخ کے سوال کوئی دوسری چیز ان کتبوں میں نہیں لکھی گئی بہر حال قبل از اسلام ایران سے کوئی تاریخی کتابیں نہیں ملتیں جن سے پتہ چلے کہ افسانہ پایا جاتا تھا یا نہیں ؟

دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سال جو امام جعفر صادق کا زمانہ شمار کیا جاتا ہے اس زمانے میں افسانہ اور اریخ کی آمیزش تھی جس کا تذکرہ ہو چکا ہے دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالون کے دورنا اسلام میں کتاب وجود میں آئی یہ وہ زمانہ ہے جب عربوں نے اپنے خیالات رقم کرنے کیلئے نثر کا استعمال کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ عرب قوم میں اس تاریخ سے پہلے نثر کا وجود نہ تھا بلکہ ہماری مراد یہ ہے کہ نثر بہت کم تھی اور دوسری صدی ہجریکے پہلے پچاس سالوں میں نثر نے اتنی ترقی کی جس طرح بہار کے موسم میں پودے ایک دم زمین سے اگتے ہیں ان کتابوں میں سے اکثر آج نا پید ہیں ۔ جنگوں زلزلوں سیلابوں وغیرہ کے نتیجہ میں ان کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن ابن الندیم کا تب کی وساطت سے ہمیں ان کے اور ان کے لکھنے والوں کے نام معلوم ہیں ان کتابوں میں تاریخی کتابیں بھی ہیں لیکن یہ تاریخیں افسانے سے مبرا ہیں ۔

جعفر صادق ان میں سے ان تمام کتابوں کی تاریخی اہمیت کے قائل نہ تھے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ان میں تاریخ کے ساتھ افسانے بھی مدغم ہیں آپ فرماتے تھے کہ افسانہ گمراہ کرنے والا ہے اسے تاریخ میں جگہ نہیں دینی چاہیے ۔

اس لحاظ سے جعفر صادق وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں تاریخ پر تنقید کی اور ابن ابی الحدیدہ کے بقول تاریخ کو صحیح معنوں میں تاریخ بنانے کی طرف توجہ دلائی ۔

لفظ تاریخ جسے فرانسیسی میں ہیشوار کہا جاتا ہے پہلے پہل اس کا اطلاق ‘ اس فرانسیسی لفظ ہیشوار پر نہ ہوتا تھا قبل از اسلام عربوں میں کسی کتاب کا وجود نہ تھا کہ وہ اس کی ایک قسم کا نام تاریخ رکھتے عرب تاریخی روایات کو اشعار کے قالب میں ڈھال لیتے پھر شعراء نہیں پڑھ کر سا معین کو محفوظ کرتے تھے ۔ عربوں میں اسلام کے بعد کتاب لکھی گئی ۔ اسی طرح تاریخی کتابیں بھی وجود میں ائیں جن کا عام نام تاریخ نہیں بلکہ روایت رکھا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فارسی میں لکھی جانے والی تاریخ جس کا نام دساتیر ہے یہ بھی اسی زمانے میں لکھی گئی یاد رہے کہ یہ کتاب دری فارسی میں لکھی گئی اور کیا دری فارسی اس وقت وسیع زبان تھی کہ دساتیر جیسی ضخیم کتاب اس زبان میں لکھی جاتی ۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ محقیقین کا ایک گروہ دستا تیر کو ایک جعلی تاریخ خیال کرتا ہے یاد رہے کہ یہ تاریخ صفوی دور میں ضبط تحریر میں لائی گئی ہے ۔

امام جعفر صاد ق نے تاریخ اور افسانے کے حوالے سے جو تنقید کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسلام میں اجتماعی طور پر تاریخ کو سو د مند بنا دیا ہے آپ نے فرمایا جب افسانہ تاریخ میں مدغم ہو جاتا ہے تو پھر تاریخ کی وقعت باقی نہیں رہتی ہے تاریخ سے اگاہی اس لئے مفید ہے کہ آئندہ انے نسلیں گزرے ہوئے واقعات سے سبق حاصل کرتی اور ایسے کاموں سے پرہیز کرتی ہیں جو ان کے لئے مضر ہیں ۔

آج تاریخ کا سب سے بڑا فائدہ یہی سمجھا جاتا ہے کہ آائندہ آنے والی نسلیں گذشتہ واقعات سے سبق حاصل کریں اور ایسے اقدامات عمل میں نہ لائیں جو گذشتہ لوگوں کے خسارے کا باعث بنے ہوں اور اس طرح اسلاف کی طرح وہ نقصان اٹھانے سیبچ جائیں ۔

فرائیڈ ‘ مشہور آسٹرین فلسفی جو ماہر نفسیات بھی ہے اس بڑے تاریخی فائدے کو تسلیم کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ انسانی فطرت ‘ تاریخ سے عبرت حاصل کرنے سے مانع ہوتی ہے خصوصا انسان کی خود پسندی اس بات میں حائل ہوتی ہے خود پسندی انسان کو تلقین کرتی ہے کہ جو کچھ اسلاف پر گذر چکی وہ اب اس پر نہیں گزرے گی کیونکہ وہ ایک دوسرے دور میں زندگی گزار رہا ہے اور وہ ان سے زیادہ عقلمند ماہر یا قوی ہے حتی کہ اگر خود پسندی نہ ہوتو بھی فرائیڈ کے بقول کوئی دوسری انسانی فطرت تاریخ سے سبق حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے بہر کیف جو کچھ امام صادق نے افسانے کو تاریخ سے دور کرنے کیلئے کہا اس کی وجہ سے تاریخی تنقید کی بنیاد پڑی اور علم تاریخ وجود میں آیا ۔

گذشتہ صفحات میں ہم نے دیکھا کہ جعفر صادق نے بعض علوم اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں زانوئے تلمذ طے کرکے حاصل کئے لیکن اکثر علوم جنہیں جعفر صادق پڑھاتے تھے ان کی ذاتی سعی کا ما حصل تھے مثلا اس طرح کے مسائل کہ خاک مرکب نہیں اور ہوا بھی مرکب نہیں ‘ یہ وہ معلومات تھیں جو خود جعفر صادق کی اختراع ہیں ‘ پھر انہیں آپ نے اپنے شاگردوں تک پہنچایا ‘ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ اسلام میں وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے فرمایا کہ ہوا میں ایک ایسی چیز ہیجو جلنے میں مدد دیتی ہے اور اسی کی وجہ سے دھاتیں زنگ آلود ہوتی ہیں ۔

ہم نے دیکھا کہ جعفر صادق نے فرمایا دوسرے جہانوں میں دو قسم کے علوم پائے جاتے ہیں ایک وہ علم جسے ہم اپنی عقل کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں اور ایک وہ علم جسے شاید اس عقل کے ذریعے سمجھنا نا ممکن ہے یہ آ ہی تھے جنہوں نے فرمایا کہ شاید دوسرے جہانوں کے علماء جنہیں ہم نے پہچان سکتے ہم سے رابطہ قائم کرنے کے خواہش مند ہوں لیکن چونکہ ہم ان کے علم سے واقف نہیں اور ان کی زبان نہیں جانتے لہذا ابھی تک ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ ہم سے بات چیت کے خواہشمند ہیں امام جعفر صادق نے دوسرے جہانوں کے جن موجودات کا ذکر کیا ہے وہ حقیقی معنوں میں موجود ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر جنوں کا تذکرہ آیا ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ ایک دن بنی نوع انسان اور وہ تمام مخلوقات جو دکھائی نہیں دیتی ایک جگہ اکٹھی ہوں گی اس دن کو قرآن میں حشر کے نام سے یاد کیاگیا ہے ۔

لیکن امام جعفر صادق سے قبل اس دکھائی نہ نہ دینے والی یا دوسری دنیا کی مخلوقات کے علوم کے بارے میں کسی نے توجہ نہیں دی اس بات کا امکان ہے کہ وہ بنی نوع انسان سے رابطہ قائم کرنے کے بارے میں کسی نے توجہ نہیں دی اس بات کا امکان ہے کہ وہ بنی نوع انسان سے رابطہ قائم کرنے کے خواہشمند ہوں لیکن چونکہ انسان ان کی زبان سے نا آشنا ہے لہذا اسی وجہ سے ان کا رابطہ قائم نہ ہو سکا ہو ۔ امام جعفر صادق کے بعد انیسویں صدی عیسوی تک کسی نے اس موضوع کی طرف دھیان نہیں دیا ‘ البتہ انیسویں صدی عیسوی میں ایک فرانسیسی کا میل فلا ریوین نے اس موضوع پر توجہ دی اور دوسرے سیاروں کی مخلوقات سے انسانی رابطے کے بارے میں مشاہدے کے بغیر نظریات پیش کئے کیونکہ ابھی تک سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ کامیل فلاریوین عملی تجربہ کرتا ۔

تجربے کے رو سے پہلی مرتبہ ۱۹۲۰ عیسوی میں معلوم ہوا کہ دوسرے جہانوں کے مخلوقات ہماری زمینی مخلوقات سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہیں اس سال اٹلی کے باشندے مارکونی نے بحریہ کے کمانڈر کینٹ میلو کی سربراہی میں منعقد کئے گئے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کی کہ میں اپنی کشتی کے وائر لیس سیٹ میں ایسی لہریں پاتا ہوں جن پر مجھے کوئی شک نہیں کہ انہیں عقلمند عالم اور ماہر مخلوق م زمینی مخلوقات سے راابطہ قائم کرنے کیلئے بھیجتی ہوں گی ۔

مارکونی بھی اپنے تجربے کو آگے نہ پڑھا سکا کیونکہ ابھی تک ریڈیو ٹیلی سکوب ایجاد نہیں ہوا تھا اور عام فلکی دور بین میں اتنی طاقت نہ تھی کہ شمسی نظام سے باہر کی دنیا کا مشاہدہ ہو سکتا اور اس پر طرہ یہ کہ عام فلکی دور بین ۱۹۲۰ ء عیسوی تک اتنی طاقت ور نہ تھی اور ابھی تک کوہ پالومر (جو امریکا میں واقع ہے ) پر واقع رصد گاہ میں فلکی دور بین ایکبڑا عدسہ نصب نہیں کیا گیا تھا جس کا قطر ۵ میٹر ہے تاکہ ان کہکشاں کو جو زمین سے دور ہزاروں ملین نوری فاصلے پر واقع ہیں دیکھا جا سکے جس کے بعد اس فلکی دور بین نے کام شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے ذریعے دوسرے جہانوں کی مخلوقات سے رابطہ قائم نہیں کیا جا سکتا اگرچہ کوہ پالومر کی رصد گاہ کی یہ فلکی دور بین دو ہزار ملین فاصلے پر واقع کہکشاں کا ایک بڑے نقطے کی شکل میں آسمان پر مشاہدہ کرتی ہے لیکن ان کی وسعت اور عظمت کا کھوج نہیں لگا سکتی ۔

۹; ساخت بدن انسان اور جعفری نظریہ

جعفر صادق نے سارے مسلمانوں کی مانند فرمایا تھا کہ انسان خاک کا پتلا ہے البتہ آپ کے فرمان اور دوسرے مسلمانوں کے اقوال میں یہ فرق تھا کہ آپ نے انسان کی خاک سے پیدائش کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جو اس زمانے کے کسی مسلمان کی سمجھ نہ آ سکیں ۔ صدیوں بعد ابھی کوئی مسلمان ایسا نہیں گذرا جس نے انسانی بدن کی عمارت کے بارے میں جعفر صادق کی طرح اظہار خیال کیا ہو اور اگر کسی نے کچھ کہا بھی ہے تو وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ کے شاگردوں سے سنا ہے آپ نے فرمایا تمام وہ اشیاء جو مٹی میں پائی جاتی ہیں انسانی بدن میں موجود ہیں البتہ ان کی مقدار ایک جیسی نہیں ان میں سے بعض انسانی بدن میں زیادہ ہیں اوربعض کم ہیں ۔

وہ عناصر جو انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں ان میں بھی مساوات نہیں ان میں سے بعض دوسروں کی نسبت بہت کم مقدار میں ہیں آپ نے فرمایا انسانی بدن میں چار چیزیں زیادہ اور آٹھ چیزیں ان سے کم مقدار میں ہیں اور آٹھ عناصر ایسے ہیں جو بہت ہی کم مقدار میں ہیں انسانی جسم کیعمارت کے بارے میں آپ کا یہ اظہار خیال کبھی کبھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جیسا شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام جعفر صادق علم ااممت کے حامل ہیں اور اس نظریئے کو اپنے علم امامت کے ذریعے اخذ کیا ہے نہ کہ علم بشری کے ذریعے کیونکہ ہماری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ ساڑھے بارہ سو سال پہلے ایک عام عالم انسان کے بارے میں اتنی معلومات رکھتا ہو لیکن کیا نابغہ روزگار شخصیات اور عام لوگوں میں یہ فرق نہیں ہے کہ ان کی عقل ایسی چیزیں اخذ کرنے پر قادر ہوتی ہے جن تک دوسرے لوگوں کو دسترس نہیں ہوتی اور ان کی آں کھ اسی علاقے میں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتی ہے جو دوسروں کیلئے جہالت کی تاریکیاں ہوتی ہیں اگر یہ امتیاز نہ پایا جائے تو پھر بابغہ روزگار افراد اور عام عقل رکھنے والے لوگوں میں کیاتمیز باقی رہ جاتی ہے امام جعفر صادق اس لحاظ سے باغہ روزگار تھے کہ آپ کی عقل نے ان چیزوں کا ادارک کیا جن پر دوسرے لوگ قادر نہ تھے آ کی آں کھ نے ان چیزوں کو دیکھا جنہیں دوسرے لوگ نہ دیکھ سکے بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ تمام معلومات ہر شخص کے باطنی شعور میں موجود ہیں لیکن انسانوں کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان ایک بڑا پردہ حائل ہے جو انسانوں کو ایک لا محدود عرصے تک ان کے باطنی شعور کا مطالعہ کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے اس طرح انسان باطنی شعور کی معلومات سیفائدہ نہیں اٹھا سکتا باغہ شخصیات اور عام لوگوں میں یہ فرق ہے کہ وہ ایک لا محدود عرصے تک اپنے باطنی شعور سے آگاہی رکھتے ہیں اور ان معلومات سے فائدہ اٹھاتے ہیں برگ سون کا کہنا ہے کہ ایک ایٹم جو کائنات کی تخلیق کے یا کرہ زمین کی تخلیق کے آغاز سے موجود ہے تمام کائنات کی معلومات رکھتا ہے اور اس طرح انسانی جسم سے خلیات اپنی تخلیق کے دن سے آج تک کی معلومات سے آگاہ ہے ایک لا محدود عرصے میں باطنی شعور تک پہنچنے کو برگ سون (فرانسیسی) نے زندگی کے بارے میں کھوج لگانے کا نام دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ بابغہ روزگار شخصیات عام لوگوں کی نسبت زیادہ تیزی سے زندگی کا کھوج لگا لیتے ہیں اور اپنے بدن میں موجود حافظے کے خلیات کی مدد سے معلومات حاصل کر لیتے ہیں ۔

عموما شیعوں کے عقیدے کے مطابق جعفر صادق علم امامت سے بہرور تھے یا عقلاء کے بقول اپنے باطنی شعور سے آگاہ تھے یا برگسن کے نظریئے کی بنا پر اپنی انسان کے بارے میں کھوج لگانے کی قوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانی بدن کی ساخت کے متعلق ایسی باتیں کہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے زمانے کے لوگوں اور آپ کے بعد آنے والے زمانوں کے لوگوں میں آپ انسانی بدن کے علم میں انفرادی حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ آج ساڑھے بارہ سو سال بعد ‘ جعفر صادق کا نظریہ علمی لحاظ سے ثابت ہو چکا ہے جس کی صحت اور درستی میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں صرف یہ کہ آپ نے انسانی جسم کے مواد کا نام نہیں لیا۔

یاد رہے کہ جعفر صادق نے فرمایا جو کچھ زمین میں موجود ہیانسانی جسم میں بھی پایا جاتا ہے اب تک زمین سے ایک سو دو عناصر دریافت ہو چکے ہیں اور یہی عناصر انسانی جسم میں بھی موجود ہیں لیکن جس میں ان میں بعض عناصر کی مقدار اس قدر کم ہے کہ ان تک اس مقدار کا تعین نہیں ہو سکا ۔ جعفر صادق صرف اس قول کہ جو کچھ انسانی جسم میں موجود ہے زمین میں بھی ہے کی بنا پر بابغہ روزگار شخصیت نہیں کہلا سکتے ۔ کیونکہ جس کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ انسان خاک سے تخلیق شدہ ہے وہ یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ انسانی جسم میں ہے وہ زمین میں بھی ہے ۔

لیکن آپ کے بابغہ ہونے کی دلیل آ کا قول ہے کہ جو کچھ زمین میں ہے وہ انسانی جسم میں بھیہے لیکن ان کا تناسب اس طرح ہے کہ چار حصے زیادہ مقدار میں اور اٹھ حصے ان سے کم مقدار میں اور پھر دوسرے آٹھ حصے پہلے آٹھ حصوں کی نسبت نہایت ہی کم مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔

جیا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ یہ نظریات ثابت ہو چکا ہے ۔

امم جعفر صادق کے بقول آٹھ حصے جو انسانی جسم میں بہت کم مقدار میں ہیں وہ یہ عناصر ہیں مولیبڈن ‘ سیلینیوم ‘ فلورین ‘ کوبالٹ ‘ میگانز‘ تانبا ‘ آیوڈین اور زنک وہ اٹھ عناصر جو انسانی بدن میں پہلے آٹھ عناصر کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں مندرجہ ذیل ہیں میگنیشیم ‘ سوڈیم ‘ پوٹاشیم ‘ کیلشیم ‘ فاسفورس ‘ کلورین ‘ سلفر اور لوہا وہ چار عناصر جو انسانی بدن میں زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں وہ آکسیجن کاربن ہائیڈروجن اور نائٹروجن انسانی جسم میں ان عناصر کی شناخت کوئی ایک دن یا دو دن کا کام نہ تھا بلکہ اس کام کا آغاز اٹھارویں صدی عیسوی میں پوسٹ مارٹم کے زریعے ہوا اس کام کا سہرا دو قوموں ایک فرانسیسی اور دوسری اسٹرین کے سر ہے دوسرے ممالک میں پوسٹ مارٹم نہیں کیا جاتا تھا مگر شاذ و نادر ‘ مشرقی ممالک میں تو پوسٹ مارٹم کا سرے سے رواج نہ تھا اور یورپین ممالک میں آرتھوڈ کسی کیتھولکی اور پروٹسٹنٹ فرقے ‘ پوسٹ مارٹم کے سخت مخالف تھے ۔

آسٹریا اور فرانس میں کلیسا کے حکم کی پراہ کئے بغیر پوسٹ مارٹم کیا جاتا تھا بہر کیف مارا کے زمانے تک فرانس میں پوسٹ مارٹم کا عام رواج نہ تھا اور تقریبا خفیہ تھا ۔

"مارا" نے چند دوسرے فرانسیسی سائنس دانوں کی مدد سے جن میں لاودازیہ بھی شامل تھا جس کا سر گیوٹین کے ہمراہ ۱۸۹۴ ء میں قلم کر دیا گیا تھا اس نے بدن کے مختلف اعضاء کا تجزیہ کیا تاکہ یہ معلوم کرے کہ انسان کون کون سے عناصر سے مل کر بنا ہے "مارا " کے بعد اس کے شاگردوں نے اس کی تحقیق جاری رکھی اور پوسٹ مارٹم کے زریعے انسانی اعضاء کا تجزیہ کیا یہ تجزیہ پوری انیسویں کے دوران جاری رہا حتی کہ بیسویں صدی تک جاری تھا اس دوران اس تحقیق میں کافی وسعت پیدا ہوئی ۔

چونکہ اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں پوسٹ مارٹم صرف فرانس اور آسٹریا تک محدود تھا اس کے بعد دیگر یورپی ممالک اور دوسرے ممالک میں عام ہوا جبکہ اج ما سوائے چند ممالک کے جس میں میڈیکل کالج نہیں ہیں جہاں جہاں پوسٹ مارٹم عام ہے وہاں انسانی جسم جن عناصر سے مل کر بنا ہے ان ک بارے میں تحقیق ہوتی ہے پوسٹ مارٹم سے ویہ بات سامنے ائی ہے کہ دو مختلف مراکز کے پوسٹ مارٹم سے حاصل ہونے والے نتائج آپس میں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے بلکہ معمولی فرق کے ساتھ دونوں کے عناصر کی نسبت امام جعفر صادق کے قول کے عین مطابق ہوتی ہے بشرطیکہ دونوں پوسٹ مارٹم صحت مند انسانوں کے ہوں ۔

مثال کے طور پر تمام ممالک میں ہر صحت مند مرد و عورت جس کے جسم کا وزن پینتالیس کلو گرام ہے اس کے وزن میں ایک پاؤں کاربن ہوتی ہے اور جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ کاربن ان چار عناصر میں سے ایک ہے جو ہمارے جسم میں زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں اسی طرح پینتالیس کلو گرام وزن کے آدمی ۴ /۵ کلو گرام ہائیڈروجن ہوتی ہے ۔

لیکن اگر کوئی شخص کسی ایسی دائمی بیماری میں مبتلا ہو جس سے اس کے بدن کے عضلات ٹوٹ رہے ہوں یا بھوک کی وجہ سے اس کے عضلات ٹوٹ پھوٹ ہے ہوں تو اس کے بدن میں ہائیڈروجن کی مقدار کم ہو جاتی ہیبہر کیف تمام نسل انسانی چاہے وہ سفید فام یا سیاہ فام یا ریڈ انڈین یا دوسری مخلوط نسلوں کے انسان ہوں ‘ ان میں آکسیجن ‘ کاربن ‘ ہائیڈروجن اور نائٹروجن کی مقدار دوسرے عناصر سے زیادہ ہوتی ہے ان چار عناصر کے بعد دوسرے آٹھ عناصر جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے کی مقدار مذکورہ چار عناصر سے کم ہوتی ہے اس کے علاوہ دوسری آٹھ عناصر کی مقدار بدن میں مزید کم ہوتی ہے یہ تناسب تمام صحت مند انسانوں میں براب ہوتا ہے چاہے وہ قطبی علاقوں کے باسی ہوں یا استوائی علاقوں کے رہنے والے ‘ بشرطیکہ جسم کا وزن اور عمر برابر ہو ۔ ایک سو پچاس سال یا اس سے زیادہ کے تجرابت اور ریسرچ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ جعفر صادق کے انسانی جسم کو تشکیل دینے والے عناصر کے بارے میں نظریہ کی صحت میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔

ابھی اس تحقیق کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا انسانی بدن کے خلیات (چاہے مردہ ہوں یا زندہ ) میں وہ تمام اجزا پائے اجتے ہیں جو زمین میں موجود ہیں ۔

ابھی تک بعض عناصر عضلات یا ہڈیوں کے خلیات میں نہیں ملے لیکن گمان کیا جاتا ہے کہ یہ عناصر بدن میں موجود ہیں وہ ابھی تک اس لئے دریافت نہیں ہوئے کہ ان کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے لیبارٹریز ان کے وجود کا پتہ نہیں لگا سکیں ۔

چونکہ چھوٹے چھوٹے اجسام میں پیشرفت ہو رہی ہے لہذا امید ہے کہ ایک دن ایسا بھی ائے گا کہ انسانی بدن کے تمام عناصر دریافت ہو جائیں گے اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہر عنصر جسم میں کس مقدار میں موجود ہے اور اس کا کام کیا ہے اور اس کی مقدار میں کمییا زیادتی سے جسم پر کیا اثر پڑتا ہے ؟

جعفر صادق کا شاگر د ابراہیم بن طھمان اور ایک قانونی مسئلہ

امام جعفر صادق کے شاگرد ابراہیم بن طھمان نے ایک نا اہل عباسی خلیفہ کی برطرفی کا تذکرہ کیا ہے ابراہیم کے علاوہ جعفر صادق کے کسی شاگرد نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا ۔

ابراہیم بن طہمان کے بقول ایک دن جعفر صادق کے حضور میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ اسلامی فقہ میں کوئی ایسی شق ہے جس کی بنا پر نا اہل خلیفہ کو خلافت سے ہٹایا جا سکتا ہے اور اگر کوئی ایسی شق نہیں تو کیا جعفر صادق کی طرف سے یہ شق اسلامی فقہ میں داخل نہیں کی جانے چاہیے ۔ ابن طہمان کی روایت نقل کرنے سے پہلے ہم یہ بتاتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری فقہ میں امام کو بر طرف کرنے کی شق مووجود نہیں کیونکہ امام کی نا اہلی کا مسئلہ ہر گزپیش نہیں ایا اور نہ آئے گا ۔

شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام خداوند تعالی کی طرف سے منتخب ہوتا ہے اور معصوم ہوتا ہے امام کی اہلبیت میں کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں کیونکہ امام منصوص من اللہ ہوتاہے اور جو شخص منصوص من اللہ ہوتا ہے وہ ہر گز اپنی اہلیت نہیں کھوتا اور خدا کی طرف سے متعین ہونے کی بنا پر معصوم بھی ہے اور ہر گز گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا اگرچہ اس کا جسم عام انسانوں کی مانند ہوتا ہے لیکن چونکہ مافوق الفطرت انسانی روح کا حامل ہوتاہے لہذا اس سے گناہ سر زد نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ اثناء عشری فقہ میں کوئی ایسی شق نہیں جو امام کو بر طرف کرنے کا موجب بنے اس لئے کہ ایسی شق کے صادر کرنے کا موقع ہی نہیں آ سکتا چونکہ شیعہ مذہب میں امام عدل و انصا ف میں غلطی نہیں کرتا لہذا وہ بہترین قاضی ہے ۔

وہ اس لئے غلطی نہیں کرتا کہ عالم ہے اور عام انسانوں کی نسبت علم سے زیادہ اگاہ ہے لہذا جب کوئی شخص امام کے پاس کسی کی شکایت لے کر عدل و انصاف کیلئے حاضر ہوتا ہے اور جب مدعا علیہ کو بھی حاضر کیا جاتا ہے تو امام کو علم امامت سے علم ہوتا ہے کہ شاکی حق پر ہے یا نہیں ؟ کیا امام شکایت کرنے والے سے پہلے اس بات سے اگاہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے یا نہیں ؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام کو اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہوتی کیونکہ امام کو ایسے موضوع کے متعلق کوئی علم نہیں ہوتا جس کے بارے میں وہ خود غورو فکر نہ کرے یا کوئی دوسرا اس کی توجہ اس موضوع کے بارے میں مبذول نہ کروائے ( یہ ایک باریک اور احتیاط طلب نکتہ ہے )

امام غلطی کرتا ہے نہ ہی گناہ اور چونکہ خداوند تعالی کی طرف سے منتخب ہوتا ہے لہذا امامت کیلئے سب سے مناسب انسان ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ شیعہ فقہ میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جس میں امام کی امامت سے بر طرفی کا ذک ہو ۔

شیعوں کے نزدیک عباسی خلیفہ خدا کا برگزیدہ نہ تھا اور جیسا کہ ہم نے دیکھا ان خلیفوں میں سے بعض گناہ کے مرکتب ہوتے تھے کہ وہ علانیہ گناہ بھی کرتے تھے جعفر صادق کے شاگرد ابن طہمان کے بقول جعفر صادق کے شاگردوں نے غیر صالح خلیفہ کو برطرف کرنے کے بارے میں سوال اٹھایا اور کہا اگر اسلامی فقہ میں اس کے متعلق بھی درج نہیں تو اب اسے فقہ میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ لیکن ابن طہمان کے بقول جعفر صادق نے اپنے ان شاگردوں کا مشورہ نظر انداز کرتے ہوئے غیر صالح خلیفہ کو بر طرف کرنے سے متعلق اسلامی فقہ میں کوئی شق شامل نہیں کی ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جعفر صادق نے اپنی بعض شاگردوں کے اس مشورے کو کیوں قبول نہیں کیا ۔ غیر صالح خلیفہ کی معزولی کیلئے اسلامی فقہ میں کوئی شق شامل کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ عباسی خلفاء کے خلاف اعلان جنگ کا آغاز کریں جس طرح حسن بن علی نے معاویہ کے ساتھ جنگ نہیں کی اور ان کے بعد زین العابدین اور محمد باقر نے اموی اور عباسی خلفاء کے خلاف محاذ جنگ نہیں کھولا ۔ اسی طرح جعفر صادق بھی عباسی خلفاء کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے جوں ہی آپ مذکورہ شق کو فقہ میں داخل کرتے تو آپ اور عباسی خلفاء کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی جعفر صادق نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان برادر کشیکی جنگ لڑی جائے اس بات سے قطع نظر کہ شیعہ امام کو ایک کامل اور معصوم انسان سمجھتے ہیں ۔ جعفر صادق اس شق فقہ میں اس لئے شامل نہیں کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان برادر کشی کی جنگ کیلئے راہ ہموار نہ ہو جیسا کہ تاریخ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یونان کے سوا کسی دور میں اور کسی ملک کے آئین میں ۱۳۶۸ء تک کوئی ایسی شق موجود نہ تھی جو ایک غیر صالح حکمران کو معزول کرنیکا موجب بن سکتی ۔

قدیم یونان کے بعض شہریوں جن میں سے ایک آزاد ملک تھا قانون کے مطابق ایک غیر صالح حکمران کو جلا وطن کیا جاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان ریاستوں میں جمہوری نظام حکومت تھا غیر صالح حکمران کو جلا وطن کرنے کیلئے قانون کی منظوری دینے والی پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اسے معزول اور جلا وطن کرتی تھی قدیم روم کے قوانین میں جن میں چند مرتبہ تبدیلی وجود میں لائی گئی ہمیں کسی حاکم کو معزول کئے جانے کی سینٹ کی وساطت سے مثال دکھائی نہیں دیتی ۔ بعض اوقات بعض سینیٹر قدیم روم

میں حاکم وقت کی مخالفت کرتے تھے جن میں کاتون اصغر کا نام مشہور ہے جس نے قیصر روم کی سخت مخالفت کی اور آخر کار ۴۶ قبل مسیح میں خود کشی کر گیا لیکن کوئی ایسا مخصوص قانون نہیں بنا تھا جس کی مدد سے سینیٹر حضرات ‘ حاکم کو برطرف کرتے (جیسا کہ آج امریکہ کے ائین میں موجود ہے) عیسائی کیتھولکی کلیسا کے انیس سو سالہ دور میں کوئی ایک پوپ بھی ایسا نہیں گزرا جو کسی ایسے قانون کے ذریعے جو عیسائی کلیسا کی فقہ میں شامل ہو بر طرف کیا گیا ہو اب تک دو سو اسی پوپ کیتھولکی کلیسا کے تخت پر متمکن رہ چکے ہیں اور انیس سو سال کے دوران کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی عیسائیوں کی طرف سے کسی قانونی اقدام کے ذریعے معزول کیا گیا ہو ۔

اس طرح انہوں نے اوین یون شہر جو فرانس کے ملک میں واقع ہے میں سکونت اختیار کی لیکن ان کی کیتھولکی کلیسا کی سربراہی سے علیحدگی یا آوین یون میں سکونت کی وجہ یورپ کے کیبعض بادشاہوں سیان کی مخالفت تھی او ر کیتھولکی کلیسا کے قانونی اقدام کے نتیجے میں انہوں نے یہ قدم نہیں اٹھایا تھا کیتھولکی عیسائی پوپ کے ابرے میں وہی عقیدہ رکھتے تھے ۔ جو شیعہ اپنے آئمہ کے بارے میں رکھتے ہیں البتہ شیعہ اپنے آئمہ کے بارے میں وسیع تر عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ شیعہ اپنے آئمہ کو انسان سے بلند درجہ اعتقاد کرتے ہیں کیتھولکی عیسائیوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جو کوئی بہتر ( ۷۲) کارڈینالوں کی طرف سے کیتھولکی مذہب کا سربراہ منتخب ہوتا ہے ہر لحاظ سے اس مقام کیلئے موزوں ہوتا ہے اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا۔

مگریہ کہ ماضی میں شیطان کے دھوکے میں ا کر اس سے کوئی لغزش سر زد ہوئی ہو ۔ کیتھولکی کلیسا کی اصولی فقہ لکھنے والوں نے پوپ کو اپنے منصب سے بر طرف کرنے ولی شق کو نہ صرف یہ کہ اس عظیم مرتبے کی توہین قرار دیا بلکہ اسے عقل کے بھی خلاف شمار کیا ہے چونکہ ان کی عقل کے مطابق پوپ غیر صالح نہیں ہو سکتا کیونکہ بہتر خاص الخاص افراد پوپ کا چناؤ کرتے ہیں یونان اور قدیم روم میں چونکہ آئین ساز پارلیمنٹ کے ممبران لوگوں کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں لہذا اس بات کا امکان ہے کہ غیر ائین ساز پارلیمنٹ کے ممبران لوگوں کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں لہذا اس بات کا امکان ہے کہ غیر صالح اور عوام کو فریب دینے والے افراد آگے آئیں اور آئین ساز اسمبلی کے ممبر بن جائیں لیکن کارڈ ینال جو پوپ کا چناؤ کرتے ہیں وہ عوام میں سے نہیں ہوتے کہ عوام کو فریب دینے والے افراد کے جال میں پھنسیں ۔ دوسرا یہ کہ ایک پوپ کی موت اور دوسرے پوپ کے انتخاب میں کارڈینالوں کی طرف سے اتنی دیر نہیں کی جاتی کہ وہ کارڈینال جو حقیقی معنوں میں پوپ بننے کا اہل نہیں ہے پراپیگنڈہ کے ذریعے پوپ بن جائے جب کارڈینال جمع ہوتے ہیں تو تین چیزوں کو جدید پوپ کے انتخاب کا معیار قرار دیتے ہیں پہلا تقوی دوسرا علم تیسری جدوجہد پوپ کا مقام ایسا ہے کہ اس مرتبے پر کام کرنے والا شخص مصمم ارادے کا مالک ہوتا ہے کہ اپنے فائض بخوبی انجام دے سکے بعض کارڈنیال ایسے ہوتے تھے جو پوپ کی خصوصیات کے حامل ہوتے تھے لیکن اپنے سست مزاج کی بنا پر خود تقاضا کرتے تھے کہ انہیں کیتھولکیمذہب کی رہبری سے معاف رکھا جائے تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ کیتھولکی قانون سازوں کا یہ نظریہ کہ ایک کلیسا کے قانون میں کوئی ایسی شق نہیں ہونی چاہیے جس کی وجہ سے ایک غیر صالح پوپ کو معزول کیا جا سکے چونکہ ایک محدود دور میں ایک ةکصوص خاندان میں کیتھولکی کلیسا کی رہبری رہی ہے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی غیر صالح پوپنہ تھا بعض پوپ زیادہ مذہبی تعصب رکھتے تھے اور بعض کم مذہبی تعصب رکھتے تھے ان میں سے بعض زیادہ فراخ دل تھے اور بعض کم ۔ پوپ حضرات کا ایک گروہ اول شب عبادت کرنے کو ترجیح دیتا تھا جب کہ ایک دوسرا گروہ آخر شب کو ترجیح دیتا تھا ان میں سے ایکگروہ بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرنے کو ترجیح دیتا تھا ۔ بعض دوسرے چلتے ہوئے کتاب کا مطالعہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ خاص طور پر کسی ایک خاندان کے چند پوپ حضرات ( مذہبی رہبروں ) کو ایسا نہیں پا گیا جو کیتھولکی مذہبی کی رہبری کے لائق نہ ہوں کسی مخصوص خاندان کے چند پوپ حضرات کے علاوہ دوسرے پوپوں کی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی اور ہے کہ وہ مال جمع کرنے کی فکر نہیں کرتے اور ان میں سے کوئی ایک بھی مادی لالچ نہیں رکھتا تھا جو کوشش و محنت دوسرے لوگ مال جمع کرنے میں کرتے ہیں وہ یہ لوگ کیتھولکی کلیسا کی بنیادیں مضبوط کرنے میں صرف کرتے ہیں انہوں نے کیتھولکی کلیسا کی بنیادیں مضبوط کرنے میں اتنی تگ و دو کی ہے کہ آج کلیسا دنیا کا امیر ترین انسٹی ٹیوٹ بن چکا ہے ۔

اگر یہ پوپ عام لوگوں کی طرح شادی کرنے کے مجاز ہوتے اور پھر ان کی اولاد ہوتی تو وہ اس کے مستقبل کی فکر میں لگ جاتے مگر چونکہ وہ اہل و عیال سے مبرا و منزہ ہوتے ہیں لہذا وہ کلیسا کی خوب خدمت کرتے ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے تذکرہ کیا ہے کیتھولکی کلیسا کے رہبران ‘ صرف یورپ کے سلاطین کی ان سے مخالفت کے نتیجے میں ہی معزول ہوتے تھے بلکہ یہاں تک کہ یورپ کے سلاطین بھی انہیں بر طرف کرنے کے مجاز نہ تھے کیونکہ کیتھولکی کلیسا کی فقہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ ہو پوپوں کو بر طرف کر سکتے البتہ وہ پوپوں کو روم سے دور کر دیتے تھے ‘ یورپ کے بعض سلاطین کی پوپوں کے ساتھ مخالفت کی دو وجوہات تھیں ایک ان کے اثر و رسوخ کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنا اور دوسرا کیتھولکی کلیسا کی دولت کو اپنے ہاتھ میں لینا ‘ کیونکہ قدیم زمانے میں کیتھولکی کلیسا کا شمار دنیاکے امیر ترین انسٹی ٹیوٹ میں ہوتا تھا ۔

قدیم یونان کی بعض جمہوریتوں کو چھوڑ کر ایک غیر صالح حکمران کو برطرف کرنے کا قانون ۱۳۶۸ ء میں انگلستان میں بنایا گیا اور پہلی مرتبہ ایم پیش من کا لفظ قانون میں داخل ہوا ۔ یہ لفظ جیسا کہ ہم جانتے ہیں انگریز زبان میں پہلے سے موجود تھا لیکن جن معنوں میں آج یہ انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے آئین میں استعمال ہوتا ہے پہلے نہیں ہوتا تھا جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ایم پیش من کے معنی کسی پر شدید تنقید کرنے کے ہیں ۔ یہاں تک کہ اسے الزام لگا کر برطرف کر دیا جائے لیکن جو قانون انگلستان میں بن احکمران اس کی زد میں نہیں آتے تھے بلکہ صرف وہ لوگ جو اس کے ہمراہ کام کرتے تھے اور اس کے مشیر ہوتے تھے ‘ جن لوگوں نے قانون وضع کیا ان کا عقیدہ تھا یا انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ حکمران ہر گز ایسا کام نہیں کرتا جو غلط اور قابل مواخزہ ہو اور چونکہ اس حاکم کے رفقا اور مشیر اسے غلط کام انجام دینے پر اکساتے ہیں لہذا انہیں ایم پیش من کی زد میں انا چاہیے ۔

جھلک عقائد شیعہ دربار معجزات جعفر صادق

چونکہ ہم جعفر صادق کی سوانح حیات رقم کر رہے ہیں تو اس ضمن میں ضروری ہے کہ آپکے معجزات کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ بھی مختصرا بیان کیا جائے اگرچہ عام تاریخی نقطہ نگاہ سے یہ روایات قابل قبول نہیں لیکن منقول روایات کا جزو ضرور ہیں اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی مورخ اور محقق اگر عقل عام کا مخالف نہ ہو تو وہ منقول روایات کو تسلیم نہیں کرتا ۔

بہر کیف ‘ تحقیق کے حوالے سے ان کے معجزات کا مختصرا ذکر ناگزیر ہے

ہم آپ کے معجزات کا تذکرہ اختصار کے ساتھ درج کر رہے ہیں تاکہ ایک یورپی قاری ایسے بیسیوں غیر معمولی واقعات کو جنہیں عقل تسلیم نہ کرے پڑھے ۔

کیونکہ بہر کیف یورپی قاری چند واقعات کا مطالعہ کر ہی لیتا ہے جیسا کہ عیسی کی سوانح حیات کے ضمن میں ان کے دو یا تین معجزات کو پڑھتا ہے اور اگر عیسائی ہو تو ان معجزات پر یقین بھی کرتا ہے ۔

عیسی کی سوانح حیات کی تخلیق پر کام کرنے والوں میں سے ایک فرانسیکو گا بریلی ہے جو روم کی یونیورسٹی کا پروفیسر اور حضرت محمد کی سوانح حیات کا مصنف ہے یہ شخص کٹر عیسائی ہونے کے ناطے معتقد ہے کہ عیسی نے لازا روس کو اس کی موت کے تین دن بعد زندہ کیا تھا ۔

اسی لئے پیغمبر اسلام کی سوانح حیات کا یہ مصنف شیعوں کے امام جعفر صادق کے معجزات کے بارے میں تنقیدنہیں کرتا تمام قدیم مذاہب میں معجزے کا تصور ابد سے رہا ہے اور اگر کوئی ایسا شخص جو معجزہ نہ دکھا سکتا ہو اسے پیغمبر نہیں سمجھا جاتا تھا یعنی پیغمبر اور معجزے کو لازم و ملزوم خیال کیا جاتا تھا اٹھارویں صدی کے بعد جن لوگوں نے یورپ میں اور خصوصا امریکہ میں پیغمبر ی کا دعوی کیا ان سے کسی نے معجزہ نہیں طلب کیا ۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے بعد پیغمبری کا دعوی کرنے والے لوگ گزرے ہوئے انبیاء کی نسبت زیادہ خوش قسمت تھے کیونکہ لوگ ان کی باتیں تو سنتے تھے لیکن ان سے کسی معجزے کی توقع نہیں رکھتے تھے ۔ یہاں اس نکتے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ معجزہ ان مذاہب میں عام ہوا جو مغربی ایشیاء میں ظاہر ہوئے جبکہ مشرقی اور جنوبی ایشیاء میں معجزے نام کی کوئی اور شکل کی چیز موجود نہیں تھی قدیم ہندوستان جاپان اور چین میں نمودار ہونے والے مذاہب میں معجزے کا کوی وجود نہ تھا اور ان ادیان کے پیروکار اپنے پیغمبروں سے معجزے کی توقع نہیں رکھتے تھے یا یہ نہ کتے تھے کہ آپ معجزہ دکھائیں تو ہم اپ پر ایمان لائیں گے ۔ ایک فرانسیسی شخص رینان یورپین مفکرین میں سے وہ پہلا شخص تھا جس نے اس بات کی طرف دھیان دیا کہ مشرق اور جنوبی ایشیا کے مذاہب میں معجزے کا مسئلہ نہیں پایا جاتا جبکہ مغربی ایشیا کے مذاہب میں یہ مسئلہ موجود ہے رینان کا خیال ہے کہ مشرق اور جنوبیایشئا کے مذاہب کے پیروکار کی اپنے پیغمبروں سے معجزہ طلب نہ کرنے اور مغربی ایشیائکے مذہاب کے پیروکاروں کی اپنے پیغمبروں سے معجزہ طلب کرنے کی توجہ معاشروں میں فرق ہے چین جاپان اور ہندوستان میں گھریلو اور قومی سطح پر تربیت ایسی ہوتی تھی کہ یہ لوگ اپنے رہنماؤں اور پیغمبروں کی بات سنتے تھے اور اپنے پیغمبروں کو بر حق تسلیم کرنے کیلئے ان سے معجزے کی توقع نہیں رکھتے تھے ۔

لیکن مغربی ایشیاء کی اقوام کے خاندان یا قومی سطح پر ایسی تربیت نہیں ہوتی تھی اور یہ لوگ اپنے پیغمبروں کے پیغمبری رجحان کا اندازہ لگا کر ہی ان کی پیغمبر ی کو تسلیم کرتے تھے اسی وجہ سے وہ پیغمبر جنہوں نے مغربی ایشیاء میں ظہور کیا وہ معجزہ دکھانے پر بھی مجبورہوتے لیکن جاپان چین اور قدیم ہندوستان میں لوگ صرف پیغمبروں کے کلام اور وعظ و نصیحت سے ہی ان کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے اور وہ پیغمبر جو جاپان چین اور ہندوستان میں ظاہر ہوئے تھے اج ان کا کلام ہمیں معمولی نظر آتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حالیہ زمانوں میں ثقافت کی توسیع کے نتیجے میں ہر جگہ پر لوگوں کی فطری سطح بلند ہو گئی ہے اور لوگوں کی سوچ پہلے سے زیادہ ترقی پا گئیہے ہندو مذہب کی کتاب " رگ وید " کے مطالب آج ہماری نظر میں معمولی ہیں صرف کتاب کا اسلوب سادہ ہے اورآباد اولین کی لکھی ہوئی ہے وگرنہ اس کتاب کا مضمون ہمارے لئے کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ مارکس مولر ( ایک جرمنی ) کے بقول جو اس کتاب کا مترجم ہے سینکڑوں سال پہلے یا شاید اس سے بھی زیادہ یہ کتاب سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تھی اور قدیم ندوستان کے روحانی پیشوا کتاب کے مضمون کو جو پچاسی ہزار الفاظ پر مشتمل ہے زبانی یا د کرتے تھے اور دوسرے کیلئے بیان کرتے تھے تاکہ وہ بھی حفظ کرے لے ہندوستان کے انسان کی چار ہزار سال پہلے کی معلومات اور سوچ کی سطح کچھ زیادہ بلند نہیں ہوتی تھی ۔ اسی لئے اس کتاب کے مضامین اس پر اثر کرتے تھے ۔ لہذا یہ ضروری تھا ۔

کہ یہ کتاب جس قدر سادہ ہوبہتر ہے تاکہ سنے والوں پر اثر کرے ۔ مثال کے طور پر صبح کے وقت سورج کے طور ع ہونے کی تعریف " رگ وید " میں اس قدر سادہ بیان کی گئی ہے کہ یوں لگتا ہے یہ مضمون پرائمری سکول کے بچوں کی کتابوں سے اقتباس کیا گیا ہے اسی طرح دریا میں پانی کا چلنا اور درختوں کی شاخوں کا ہوا کے چلنے سے حرکت کرنا اس قدر سادگی سے لکھے گئے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ مضامین کسی ابتدائی سکول کے بچوں کیلئے رقم کئے گئے ہیں اور بے شک اسی سادگی کے نتیجے میں اس کتاب نے کئی ہزار سال پہلے لوگوں کے ذہن پر اثر کیا اور آجہم ان مضامین کو ماکس مولر کے ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہیں تو ہمیں اسے سمجھنے میں ذرا بھی دشواری پیش نہیں آتی ۔ رینان کہتا ہے کہ جاپان چین اور ہندوستان کے لوگ اہل مناظر تھے یعنی فطرت کے شاہکاروں پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ جبکہ مغربی ایشئا کے لوگ اتنی گہری نظر نہیں رکھتے تھے اور اہل مناظر بھی نہیں تھے کہ نظارے کے ذریعے کوئی چیز کشف کرتے وہ لوگ صرف مادی احساسات کے حامل تھے اس کے علاہ کسی دوسری چیز سے واقف نہ تھے ۔

ایسے تاریخی شواہد موجود ہیں جن کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عبرانی لوگ جن کے درمیان حضرت موسی پیغمبر نا کر بھیجے گئے اور فلسطینی لوگ جن میں دین عیسی نے ظہور کیا اور اسی طرح جزیرہ عرب کے لوگ جہاں اسلام پھیلا ‘ یہ تمام کے تمام مادی نقطہ نگاہ رکھتے تھے اور مادی جذبات سے بڑھ کر کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ ان میں صرف اعراب ایسے تھے جنہیں ادب کے ساتھ لگاؤ تھا اور شعر پسند کرتے تھے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ روحانی لحاظ سے بہت برتر تھے جبکہ دوسری اقوام کی سوچ کا دائرہ کھانے اور سونے تک محدود تھا ۔ رینا ن کہتا ہے کہ مختلف قرائن جو ہمیں اس بات کی نشاندہی کرواتے ہیں کہ اعراب کی فکری سطح عبرانیوں اور فلسطینیوں سے بلند تھی ان میں سے ایک قرینہ یہ ہے کہ قرآن میں علم کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن تمام عہد نامہ عتیق میں اس کے ضمیموں کے سوا علم کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا بہر کیف قرآن میں نیکو کاروں کی پاداش کا وعدہ دوسرے جہان میں کیا گیا ہے جس میں انسان کو کھانے پینے کی اشیاء اور دوسری جسمانی لذتیں میسر ائیں گی کیونکہ عربی بدو کسی دوسرے صلے کو سمجھنے سے قاصر تھے جب قومیں اس قدر محدود مادی سوچ و فکر رکھتی ہوں تو ان کیلئے ایسے پیغمبر کا وجود نا گزیر ہے جو معجزہ دکھا سکیں تاکہ لوگ ان کیطرف مائل ہوں لہذا اسی لئے جب موس اور عیسی نے پیغمبری کا دعوی کای تو انہیں اپنی پیغمبری ثابت کرنے کیلئے لوگوں کو معجزات دکھانے پڑے ۔ لیکن پیغمبر اسلام کو اس طرح کی کوئی مجبوری پیش نہیں آئی کیونکہ عربی بدوؤں نے کسی حد تک عالم روحانی سے آشنا ہونے کی وجہ سے محمد سے معجزہ طلب نہیں کیا۔ آج ایک روشن خیال شیعہ امام جعفر صادق سے معجزہ طلب نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آپ کا سب سے بڑا معجزہ آپ کا علم ہے جو زہد و تقوی سے اراستہ ہے ۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے رینان ایک عیسائی ہے لہذا ہم عیسی کی دیانت کینسبت اس کے مخلصانہ عقیدے پر کوئی شک نہیں کر سکتے ۔ جس کی دلیل رینان کی وہ کتاب ہے جس میں اس نے عیسی کی سوانح حیات کو مفصل پیرائے میں رقم کیا ہے یہ کتاب اب ویٹیکن میں موجود ہے اور ویٹیکن نے اپنی تمام مذہبی یورنیورسٹیوں کو حکم نامہ جاری کیا کہ اس کتاب کو پڑھا کر اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے ۔ عیسائی کیتھولکی کلیسا میں یہ بات کم ہی دیکھنے میں آئی ہے کہ عیسی کی دیانت کے متعلق مذہبی رہنما کے علاوہ کسی اور شخص نے کوئی کتاب لکھی ہو جسے کیتھولکی کلیسا کی تنظیم نے منظوری کے بعد اپنی مذبی درسگاہوں میں اسے پڑھنے کی تاکید کی ہو ۔

لہذا اس بنا پر ہم رینان کو اس بات کا ملزم نہیں ٹھہراسکتے کہ اس نے اپنی مذہبی کتابوں کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کی ہے اگرچہ جو کچھ و کہتا ہے عہد عتیق کے بارے میں ہے اور عہد نامہ عتیق عبرانیوں کی کتاب ہے کہ عیسائیوں کی کتب صرف چار انجیلیں ہیں جن کا مجموعہ عہد نامہ جدید کہلاتا ہے رنان کے بقول جب عبرانی علماء نے اس پر غورکیا کہ عہد عتیق میں کسی قسم کی علمی بحث موجود نہیں لہذا انہوں نے مزید کتابیں لکھنے اور اس کو عہد عتیق میں شامل کرنے کی طرف توجہ کی ۔ تاکہ علمی نقطہ نگاہ سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو یہ کتابیں اصلی عہد عتیق کو جو پانچ کتابوں پر مشتمل ہے کے علاوہ ہیں رینان مشرقی اور جنوبی ایشیا اور اسی علاقے کے مغربی مذاہب میں معجزے کے مسئلے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ایشیا کے مغربی مذاہب معجزے کے بغیر فروغ نہیں پاتے تھے کیونکہ لوگوں کی فکری سطح اس قدر بلند نہ تھی کہ صرف پیغمبر کا کلام سن کر اس کے گرویدہ ہو جاتے اور اس کے دن کو قبول کر لیتے ۔

لیکن رینان اس موضوع کے بارے میں خاموش ہے کہ کیا مغربی ایشیاء کے مذاہب لانے والے پیعمبر جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے معجزہ دکھا سکتے تھے یا نہیں وہ اس پر غور نہیں کرتا کہ اعجاز کا عقلی اور منطقی لحاظ سے تجزیہ کرے وہ اپنی خاموشی سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعجاز کو بطور عبادت قبول کرنا چاہیے ۔

لیکن قدیم زمانے میں ‘ اسی سبب سے جس کا اوپر ذکر آیا ہے ‘ لوگ امام سے معجزی کی توقع رکھتے تھے اور بعض روایات کے مطابق جعفر صادق نے بھی کئی معجزے دکھائے ہیں ایسی ہی روایات کے ایک راوی ابن عطبہ سے مروی ہے کہ ہم جعفر صادق کے ہمراہ کوہ صفا کے سامنے کھری تھے اور ایک طرف سے خانہ کعبہ دکھائی دیتا تھا ہم میں سے ایک شخص نے جعفر صادق سے مخاطب ہو کر کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ نے فرمایا ہے ایک مسلمان مون اس خانہ کعبہ (خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) سے بہتر ہے امام جعفر صادق نے فرمایا ‘ ہاں یہ بات درست ہے کیونکہ ایک مسلمان مومن کی خداوند تعالی کے نزدیک اتنی قدر و منزلت ہے کہ اگر وہ اس پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئیکہے کہ اے پہاڑ میرے قریب ا تو یہ پہاڑ قریب آ جائے گا ۔ جونہی آپ کے لب مبارک سے یہ الفاظ نکلے ہم نے دیکھا کہ پہاڑے نے حرکت کی اور ہمارے قریب آ گیا ‘ جعفر صادق نے پہاڑ سے مخاطب ہو کر کہا میں نہیں چاہتا تھا کہ تو نزدیک آیے اس پر وہ پہاڑ ایک گرج دار آواز کے ساتھ واپس ہوا اور واپس اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر پہلے کی طرحساکن ہو گیا اس سے قبل کہ آپ کے تمام معجزات کا تذکرہ کریں ( جن پر شیعوں کا ایمان ہے ) تاکہ آپ کے معجزات کا شیعوں کی آنکھ کے دریچے سے تحلیل و تجزیہ کر سکیں ‘ یہ بات بتاتے چلیں کہ جعفر صادق مسلمان رہنماؤں میں سے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو علم کے ذریعے خدا وند تعالی کی معرفت دلانے کی جانبت توجہ مبذول کی ۔

آپ نے لوگوں کو خداوند تعالی کی معرفت دلانے کیلئے نہ صرف احکام دین پر اکتفا کیا بلکہ لوگوں کو علم سے روشناس کرانے کی ہر ممکن سعی کی تاکہ لوگ جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس کے متعلق ان کی معلومات میں اضافہ ہو ۔ اور دنیاوی حقائق کو جان کر اس بات کے قائل ہوں کہ کسی دانا نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے اور وہی اس دنیا کو مستقل قوانین کے ذریعے چلا رہا ہے آپ جانتے تھے کہ ایک محدود اور نادان سوچ ‘ ایک محدود اور ناداں خدا کی ہی پوجا کر سکتی ہے اور جتنا اس کا ایمان مضبوط ہو گا خدا کے بارے میں اس کا عقیدہ بھی اتنا ہی بلند اور مضبوط ہو گا کیونکہ خدا کے بارے میں ایک دانشمند اور مفکر شخص کا عقیدہ ایک نادان سے کہیں زیادہ بلند اور مضبوط ہوتا ہے ۔

جعفر صادق نے فرمایا وہ لوگ جو خداوند تعالی کا انکار کرتے ہیں یا وہ لوگ جنہیں اس بارے میں شک و شبہ ہے دونوں جا ہل ہیں کیونکہ جو شخص عالم ہو گا محال ہے کہ وہ خداوند تعالی کے وجود کا قائل نہ ہو کیونکہ علم محدود نہیں لہذا جتنا کسی کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اسے خدا کی پہچان اتنی زیادہ ہونے لگتی ہے ‘ جعفر صادق نے فرمایا خداوند تعالی کو نہ صرف بنی نوع انسان پہچانتے ہیں بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات خداوند تعالی کی عبادت کرتی ہے مختصر یہ کہ جس طرح ایک نادان اور دانا کی خدائی شناخت میں فرق ہے اسی طرح کائنات کی مختلف مخلوقات کی بھی خدائی پہچان میں فرق ہے البتہ کائنات کا ہر گروہ خدا و ند تعالی کے بارے میں مساوی معرفت رکھتا ہے

اس نظریہ کی بنیاد پر جانور اور حتی کہ نباتات بھی خدا کی معرفت رکھتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان کا معیار معرفت توحید پرست انسانوں جیسا ہو ۔

جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند تعالی کا انکار جہالت کی علامت ہے اور عالم ضرور خداوند تعالی پر ایمان رکھتا ہے اگرچہ وہ خالق کیلئے خدا کے علاوہ اور کسی نام کا انتخاب کر لیتا ہے اسی طرح جس طرح جعفر صادق نے درک کیا ‘ دنیاکی مختلف اقوام نے خدا کیلئے جن ناموں کا انتخاب کیا ہے یا کر رہے ہیں ان میں فرق ہے لیکن انسان ہر گز خداوند تعالی پر ایمان سے بری نہیں ہو سکتا حتی کہ جو خداوند تعالی کے وجود کے منکر بھی کسی دوسری چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی نظر میں خدا ہوتی ہے اگرچہ خود انہیں اس بات کا شعور نہ ہو جو لیس اشترایخر ایک معروف نازی اسبات پر فخر کرتا ہے کہ خداوند تعالی پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ وہ اسبات سے غافل ہے کہ وہ خدا کا معتقد ہے اور پرنیپ الاصل (نسل برتر ہونا ) اس کا خدا ہے اور انسان جب پہلی مرتبہ اسمانی بجلی کی آواز سنتا ہے تو کانپتا ہے اور غار کی طرف دوڑتا ہے اور سورج و چاند و ستاروں کی پرستش کرتا ہے جبکہ توحیدپرست مذاہب کے ماننے والے خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اسی وقت سے لے کر اج تک مشرق و مغرب کے تمام مذاہب ایک لحاظ سے ایک دوسرے کی شبیہہ تھے اور ہیں اور یہ کہ تمام کے تمام ایک اصل کے معتقد ہیں گزرے ہوئے زمانے ای آج کیدنیا میں خداوند تعالی پر ایمان مادی شکل میں نہیں تھا اور نہ ہی ممکن ہے کہ خداوند تعالی پر عقیدے سے بعض افراد کے مادی مفادات وابستہ ہوں لیکن خود یہ عقیدہ اصل (خالص ) ہے ۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جس طرح انسان ایک ملین سال پہلے چار ہاتھ اور پاؤں سے چلتا تھا اور اس کی عمر میں وہ مرحلہ ہر گز نہ اتا تھا کہ اس کے دانت خراب ہو جاتے اس وقت بھی اسے خدا پر عقیدے کی ضرورت تھی اور اج کا انسان جو چاند پر پہنچ چکا ہے اسے بھی خدا پر ایمان لانے کی ضرورت ہے ۔

المختصر یہ کہ ہر قوم کیلئے خدا مختلف قسم کا ہے اور بعض قوموں میں لوگوں کے ہر گروہ یا ہر شخص کیلئے خدا کی قسم جداگانہ ہے لیکن کوئی بھی ایسا انسان نہیں جو خدا پر

ایمان نہ رکھتا ہو اگرچہ مادہ پرستوں کی طرح اس کے خدا کی نہ ابتدا ہو اور نہ انتہا ۔ جب قوموں یا افراد کے عقیدے کے مطابق خداوند تعالی کا جدید ترین نام جو اس زمانے میں رکھا گیا ہے گریویڈ ہے یہ لفظ فرانسیسی زبان کے گراوینہ اور انگریز کے لفظ گرویٹی سے لیا گیا ہے یعنی قوت جاذبہ جس طرح الیکتر ان کو برقی توانائی کا ایک ذرہ خیال کیاجاتا ہے اسی طرح گریویٹین ‘ کو بھی کشش کی قوت کا ایک ذرہ مانا جاتا ہے اور جدید مذہبی فرقے (گریویٹی) کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دنیا کا خدا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والا اور اس کا محافظ ہے وہ گریویٹین ہے کیونکہ کائنات میں گریویٹین سے زیادہ طاقتور اور تیز رفتار کوئی چیز نہیں اور گریویٹین ایک سیکنڈ میں کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچتا ہے اور پھر واپس آتا ہے جس کا فاصلہ بقول آئن سٹائن تین ہزار ملین نوری سال ہے جبکہ آج معلوم ہو چکا ہے کہ یہ فاصلہ اس سے بھی زیادہ ہے جبکہ برقی مقناطیسی طاقت یعینی ریڈیو و ٹیلی ویژن کی قوت اسی فاصلیکو چھ ہزار ملین نوری سال میں طے کرتیہے ‘ جو لوگ گریویٹی مذہب کے پیروکار ہیں ان کیلئے کائنات کا خالق اور اس کا نظام چلانے والا گریوٹین ہے اور وہ لوگ جو امام جعفر صادق کے زمانے میں دھریئے تھے وہ دھر کو دنیا کا خالق اور نظام چلانے والا سمجھتے تھے خدا کے دین اسلام پر ایمان نہیں لائے تھے کیونکہ اسلام کے اصول دین پر ان کا عقیدہ نہ تھا وہ لوگ جو اج گرویٹی مذہب کے پیرو کار ہیں وہ عیسائی مذہب کے خدا کی عبادت نہیں کرتے کیونکہ وہ تثیث کے مقلد نہیں ہیں لیکن وہ دھریہ خدا پرست تھا جس طرح گریویٹی مذہب کا یہ پیروکار خدا پرست ہے اگر ہم خدا کے لحاظ سے دھریئے کے دھر پر عقیدے کا گریویٹی مذہب کے گریوٹین سے موازنہ کرں تو معلوم ہو گا کہ شناخت کے لحاظ سے گریوٹین کو خدا ماننے والا دھریئے کی نسبت برتر ہے کیونکہ وہ اپنے خدا کو دھریئے کے خدا کی نسبت بہتر سمجھتا ہے جو شخص آج گریویٹین کو خدا سمجھتا ہے اس کا عقیدہ ہے کہ گرویٹین کماز کم اس نظام شمسی میں سب سے طاقتور اور تیز رفتار قوت ہے ( چونکہ اج تک تجربات سے یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ قوت جاذبہ نظام شمسی سے باہر عمل کرتی یا نہیں یہ قوت ایک لمحے میں نظام شمسی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا پہنچتی ہے اور پھر واپس لوٹ آتی ہے اور کوئی چیز اس کا راستہ نہیں روک سکتی ۔ یہ قوت سورج کے سینے کو چیر کر اسی طرح پار چلی جاتی ہے (جس کا درجہ ۲۰ ملین درجے سے بھی زیادہ ہے) جس طرح یہ ستاروں کے درمیانی فاصلوں کو جہاں پر درجہ حرارت مطلق صفر ہوتا ہے عبور کرتی ہے کسی آلے کے ذریعے اس گریوٹین کا استہ تو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی ۔ اور گریویٹین جس طرح لوہے کی دیوار سے گزرتی ہے اسی طرح شیشے کی دیوار بھی عبور کر لیتی ہے گریویٹین انسانی خون کے ہر ذرے میں موجود ہے جس طرح سورج اور نظام شمسی کے دوسرے تمام کرہ جات میں موجود ہے اس بات کا وی امکان ہے کہ یہ قوت دوسرے نظام شمسی اور دوسری کہکشاؤں میں بھی پائی جاتی ہو ۔ جو لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ گریوٹین خدا ہے وہ اس بات سے اگاہ ہیں چونکہ گریوٹین نہایت تیز رفتار ہے لہذا یہ ہر وقت دنیا کے ہر کونے میں موجود ہے اور کائنات کی مخلوقات پر اس کی حفاظت کا کم (از کم نظام شمسی پر ) اتنا گہرا اثر ہے کہ اگر قوت جاذبہ ایک لمحے کیلئے معطل ہو جائے تو نہ صرف اجسام کے مالیکیول ایکدوسرے سے جدا ہو جائیں گے بلکہ ہر مالیکیول کے اندر پائے جانے ولے ایٹم بھی ایک دوسرے سے کٹ جائیں گے اور اس طرح الیکٹران بھی اپنی مرکز سے جدا ہو جائیں گے ‘ جس کے نتیجے میں وہ مادہ جو ٹھوس یا مائع یا گیس کی حالت میں موجود ہے فنا ہو جائے گا بلکہ سادہ الاظ میں یوں کہیں کہ یہ دنیا جو موجودہ شکل میں نظر ا رہی ہے کم از کم نظام شمسی میں باقی نہیں رہے گی یہ کام صرف ایک سیکنڈ میں مکمل ہوجائے گا اور کوئی بھی المیہ اس کائنات میں اسے بڑا نہیں کہ قوت تجاذب ایک سیکنڈکیلئے قطع ہو جائے کیونکہ توانائی کی بقا کا انحصار قوت جاذبہ پر ہے جن لوگوں کا گرویٹین کے خدا ہونے پر اعتقاد ہے انہیں اس بات کا علم ہے کہ مادہ قوت جاذبہ کے بغیرہ باقی نہیں ہر سکتا جس طرح توانائی اسکے بغیر باقی رہ سکتی انیں اس بات کا علم نہیں کہ گریویٹین کیاہے ؟ جس طرح انہیں اس بات کا بھی علم نہیں کہ برقی توانائی کیا ہے ؟ لیکن چونکہ برقی قوت سے فائدہ اٹھاتا ہے لہذا اس پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح گرویٹین پر بھی ایمان رکھتا ہے جو لوگ گرویوٹین کو خدا مانتے ہیں انہیں تجاذب کے قانون کا علم ہے جبکہ جو لو گ ساڑھے بارہ سو سال پہلے دھر کو خدا سمجھتے تھے وہ دھر کے اصلی قانون سے واقف نہ تھے اور صرف جذبات کی حد تک آگاہی رکھتے تھے مثلا موسموں کی تبدیلی وغیرہ آج جو لوگ گریویٹین کو اس کائنات کا خالق اور نظام چلانے والا خیال کرتے ہیں انہیں اس بات کا بخوبی علم ہیکہ مادے اور توانائی کا راز گرویوٹین میں ہے اور اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ مادہ اور توانائی کیسے وجود میں ائے ہیں تو اسے سب سے پہلے گریویٹین کے بارے میں جاننا چاہے کژہ یہ کیا ہے ؟ اور کیسے وجود میں آیا ہے ؟

اگر یہ راز معلوم ہو جائے تو مادہ اور توانائی کے وہ تمام راز جو پرانے زمانے میں جسم اور روح کہلاتے تھے ظاہر ہو جائیں گے یونانی حکماء نے حرکت پر روح کا اضافہ کیا اس کے بعد مادہ یا جسم کا راز ایک ہی ہو گیا اور روح و حرکت کا راز ایک ہی ہو گیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ گریوٹی مذہب کے پیروکاروں کے عقیدے کے مطابق گریوٹین خود خداوند ہے یا یہ کہ قوت جاذبہ کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے ممکن ہے فزکس کے لحاظ سے ( نہ کہ مذہبی لحاظ سے ) یہ بات حقیقت پر مبنی نہ ہو ۔ سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ فزکس قوت جاذبہ کو کائنات کی سب سے بڑی قوت سمجھتی ہے لیکن چونکہ بنی نوع انسان نظام شمسی سے باہر فزکس کے قوانین سے اچھی طرح مطلع نہیں ہے لہذا یقین سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ قوت جاذبہ کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے اور کائنات کو تخلیق کرنے والی واحد قوت شمار کیجاتی ہے اور دوسری تمام قوتیں اس قوت کی پیدوار ہیں شاید ایک دن انسان دوسرے نظام ہائے شمسی کے قوانین فزکس تک رسائی حاصل کرے اور یہ نتیجہ نکالے کہ قوت جازبہ فروعی کائنات کی قوتوں میں سے ایک ہے اور اصلی قوت کوئی اور ہے اور شاید اسی طرح ایک دن ایسا آئے کہ تمام قوانین فزکس بنی نوع انسان کو ایک منفی یا مثبت فلم (پکچر ) نظر انے لگیں جو آج ہمیں نظر نہیں آتا اور فزکس کا ہر قانون مضاعف ہے کہ دو قوانین میں سے ہر ایک دوسرے قانون کا سایہ یا عکس شمار کیا جاتا ہے اور ہم اپنی دنیا میں ان دو میں سے ایک کو دیکھتے ہیں اور دوسرا جو شاید فلم کا اصلی نسخہ ہے وہ نہیں دیکھ پاتے ۔

اس بات کو ذہن میں لانا ضد مادہ کی تلاش ہے اور یہ وہ مادہ ہے جس کے ایٹموں میں الیکٹرانوں پر مثبت چارج اور پروٹانوں پر جو ایٹم کے اندر پائے جاتے ہیں منفی چارج ہے آج تک کسی کو یہ بات معلوم نہیں کہ جو عناصر ضد مادہ سے وجد میں ائے ہیں (اگر وجود میں آئے ہوں ) وہ کون سے ہیں اور ان کے طبعیاتی اور کیمیائی خواص کیا ہیں ۔ چونکہ جب ضد مادہ کے ایٹم پر غور کیا گیا تو یہ سوال اٹھا کہ شاید ایک اور قسم کا ایٹم موجود ہو کہ جس کے ایٹموں کی اقسام پر برقی بار کسی اور شکل میں ہو ۔ اس کے باوجود کہ ہمارے نظام شمسی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قوت جاذبہ دوسری قوتوں کی نسبت برتر ہے پھر بھی ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کیا قوت جاذبہ سب سے بڑی قوت اور اس کائنات کی اصل قوت ہے یا فروعی قوت ہے ؟ گریویٹی مذہب کے پیروکار جو گریوٹن کو اس کائنات کا خدا مانتے ہیں ان کی دانائی خدائی عقیدے کے لحاظ سے ان دھریوں کی نسبت زیادہ ہے جو جعفر صادق کے زمانے میں پائے جاتے تھے اور دھر کو خدا سمجھتے تھے اگر چہ آخر میں معلوم ہوا کہ جو لوگ گریویٹی مذہب کے پیروکار ہیں انہوں نے قدیم دھریوں کی مانند غلطی کی ہے اور خدا نہ تو گریوٹین ہے اور نہ دھر جن لوگوں نے آج گریویٹن کو خدا مانا ہے انہوں نے قدیم دھریوں کی نسبت زیادہ جدوجہد کی ہے شید یہ کہا جائے کہ جو لوگ آج گریویٹی مذہب کے پیرو کار ہیں انہوں نے خدا کی معرفت حاصل کرنے کیلئے خود جدوجہد نہیں کی بلکہ دوسروں کی جدوجہد کی وجہ سے انہوں نے گریویٹن کو پہچانا ہے یعنی اہل علم حضرات نے اس ضمن میں تکلیف اٹھائی ہے اگرچہ وہ خود اس کو خدا نہیں سمجھتے لیکن اس سے گراویٹی مذہب کے پیروکاروں کے عقیدے پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انسان یا تو اپنی جدوجہد سے خد کو پہچانتا ہے یا دوسروں کی کوششوں کو بروئے کار لاتا ہے محقق کا مطمع نظریہ ہے کہ علم حاصل کرنا خدا کی معرفت حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے اور آدمی اپنی محنت سے علم حاصل کرتا ہے یا پھر دوسروں سے کسب فیض کرتا ہے اور نوابغ روزگار شخصیتیں جو علم کو کشف کرتی ہیں ان کے علاوہ دورے تمام عام افراد دوسروں سے علم حاصل کرتے ہیں جس طرح جعفر صادق اپنے زمانے میں ایک نابغہ شخصیت تھے اور شیعہ اور دوسرے اسلامی فرقوں کے پیروکار آ سے علم حاصل کرتے تھے جعفر صادق نے شیعہ مذہب کی ثقافت کی بنیاد صرف ایمان پر نہیں رکھی بلکہ علم کو شیعہ مذہب کی ثقافت کا ایک طاقتور رکن قرار دیا ۔ انہوں نے جس طرح شیعہ مذہب کی بقا کی بنیاد رکھی وہ ان کا ایمان تھا اور ان کے ایمان کی دلیل یہ ہے کہ زندگی کے آخری دن تک درس و تدریس میں مشغول رہے اور وہ علوم جنہیں وہ جانتے تھے ۔ بلامعاوضہ دوسروں کو سکھاتے تھے ۔ وہ نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم دیتے تھے بلکہ اپنے مال سے ان شاگردوں میں سے ان افراد کی مالی مدد بھی کرتے تھے ۔ جنہیں اس کی ضرورت ہوتی تھی اور کسی شاگرد کو اس بات کا علم بھی نہ ہوتا تھا کہ اپ نے فلاں کی مالی مدد کی ہے آپ اپنی رقم سے کتاب خریدتے تھے اور شاگردوں کے حوالے کر دیتے تھے اگر کتبا کا ایک نسخہ ہوتا اور یہ کتاب تمام شاگردوں نے پڑھنی ہوتی تو آپ چند کا تبوں کو معاوضہ دے کر مزید نسخوں کیصورت میں تیار کر لیتے تھے اور جب ہم نے ابن راوندی کا تذکرہ کیا تو ہم نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کاتب کس طرح ایک کتاب کے قلیل مدت میں کئی نسخے تیار کر لیتے تھے چونکہ جعفر صادق کے حلقہ درس میں ایسے علوم پڑھائے جاتے تھے جو اس سے پہلے مسلمانوں میں رائج نہ تھے اور دوسری قوموں نے ان علوم پر کتابیں لکھی تھیں اب ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ کتابیں عربی میں ترجمہ کی جائیں تاکہ وہ طالب علم جو دوسری زبانوں سے آشنا نہیں ہیں ان کتابوں سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ یہ بات بعید نہیں ہے کہ دوسری زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کے ترجمے کی عربی زبان میں تحریک دوسری صدی ہجری میں بغداد میں اپنے عروج

کو پہنچی اور عباسی خلفاء کو بھی اس کا شوق پیدا ہوا بعض مترجمین جنہیں نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا وہ جعفر صادق کے حلقہ درس سے تعلق رکھتے تھے ۔

جعفر صادق کے حلقہ درس میں علوم کے قوانین کو سمجھنے کیلئے تجربات بھی بروئے کار لائے جاتے تھے ۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس عظیم سائنس دان کے حلقہ درس میں ج کی بڑی بڑی لیبارٹریز کی مانند کوئی لیبارٹری ہو گی اور وہاں پر فزکس اور کیمیا کے قوانین کو عملا آزمایا جاتا ہو گا جعفر صادق کی لیبارٹری اس زمانے کے لحاظ سے موزوں تھی اور لابتہ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اس عظیم سائنس دان نے علوم میں نہ صرف تھیوری پر اکتفا کیا بلکہ حتی الامکان تجربہ بھی کیا ہم نے دیکھا کہ جعفر صادق کو علم تھا کہ ہوا ایک عنصر نہیں ہے اور تجربے کے بغیر یہ بات سمجھنا بعید نظر آتا ہے ۔ شیعہ جعفر صادق کے تمام علوم پر یامان رکھتے ہیں کیونکہ وہ جعفر صادق کو امام مانتے ہیں اور نا کا عقیدہ ہے کہ آپ علم امامت کے ذریعے تمام علوم سے آگاہ تھے اور اسی بنا پر جعفر صادق کا کوئی معجزہ شیعوں کے لئے اجنبی نہیں ہے اور وہ تمام معجزات جو شیعہ مورخین نے جعفر صادق کی نسبت رقم کئے ہیں شیعہ انہیں بغیر کسی حیل و حجت کے قبول کرتے ہیں لیکن ایک غیر جانبدار مورخ ہر علمی نکتے یا معجزے پر اعتراض کرتا ہے اور دلیل و برہان کے بغیر کسی بات کو قبول نہیں کرتا جب ایک غیر جانبدار مورخ سنتا ہے کہ جعفر صادق نے فرمایا ہوا ایک بڑا عنصر نہیں بلکہ یہ چند عناصر پر مشتمل ہے اور ان میں سے ایک عنصر ایسا ہے جس کی وجہ سے اشیا جلتی ہیں اور یہ عنصر بعض چیزوں کو آلودہ بھی کرتا ہے تو لا محالہ اس مورخ کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آپ نے کس طرح اس بات کو درک کر لیا تھا ۔ جعفر صاد ق کا معجزہ یہ نہ تھا کہ اپ نے پہاڑ کو حرکت دی (کیونکہ عقلی لحاظ سے یہ بات قابل قبول نہیں ) بلکہ ا کا اعجاز یہ ہے کہ آپ نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے ہوا میں آکسیجن دریافت کر لی تھی اور یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ پانی میں ایسی چیز ہے جو جلتی ہیاور اسی جہ سے فرمایا کہ پانی اگ میں تبدیل ہو سکتا ہے جن لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک پیغمبر کا سب سے بہتر اعجاز اس کا کلام ہے ان کی یہ باتبے بنیاد نہیں ہے چونکہ آج ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جعفر صادق کو ہ صفا کو حرکت دی اور کوہ صفا آپ کے نزدیک آیا اور پھر دور ہٹ گیا ہم اس روایت پر یقین نہیں کر سکتے کہ جعفر صادق نے یہ معجزہ کیاہو گا لیکن جب ہم سنتے ہیں کہ آپ نے دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران آکسیجن اور ہائیڈروجن کی (پانی میں ) موجودگی کا پتہ چلا لیاتھا تو ہم دلی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اعجاز ہے کہا جاتا ہے ‘ کہ جعفر صادق نے اپنے والد کی جو ایک سائنس دان تھے کے ذریعے پانی میں ہائیڈروجن کا پتہ چلا لیا تھا جس کے بعد ا خود بھی اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ ہوا میں اکسجن ہے ‘ ہمیں افسوس ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ آکسیجن اور خالص ہائیڈروجن حاصل کر سکے یا نہیں ؟

بظاہر خالص ہائیڈروجن اور خالص آکسیجن لازم و ملزوم ہیں لیکن خالص ہائیڈروجن کو حاصل کرنا خالص آکسیجن سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ اکسیجن خالص حالت میں فضا میں ملتی ہے لیکن خاصل ہائیڈروجن نہیں پائی جاتی ۔ اسی وجہ سے حالیہ زمانوں میں جب تک پانی کا تجزیہ نہیں کیا جا سکا ۔ خالص ہائیڈروجن ہاتھ نہیں آئی‘ یہاں پر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ جعفر صادق نے اپنے والد سے مل کر کیسے ہائیڈروجن گیس کا پتہ چلا لیا جو دنیا میں خالص حالت میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کا رنگ ‘ بو ‘ ذائقہ ہے ۔ جعفر صادق یا آ کے والد گرامی پانی کے علاوہ کسی اور جگہ اسے نہیں پا سکتے تھے اور پانی کا تجزیہ کئے بغیر اسے نہیں پہچان سکتے تھے ۔ پانی کا تجزیہ بھی بجلی سے فائدہ اٹھائے بغیر نا ممکن ہے اور کیا ان دونوں میں سے ایک نے بجلی کو پانی کے تجزیئے کیلئے استعمال کیا تھا ؟ یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے جدید زمانے میں سب سے پہلے ایک انگریز ہنری کا و اندیش نے ہائیڈروجن کو پانی سے جدا کرنے میں کامیابی حاصل کی اس کی وات ۱۸۱۰ عیسوی میں ہوئی اس نے کئی سال پانی کی برقی پاشیدگی کرنے کی کوشش کی اور جب اسے ہائیڈروجن ہاتھ آئی تو اس نے اس کا نام بھڑکنے والی گیس رکھا اور پہلی مرتبہ جب یہ گیس بھڑک اٹھی تو قریب تھا کہ یہ شخص خود اور اس کا گھر دونوں جل جائیں ۔ کاواندیش ۲۷ مئی ۱۷۶۶ عیسوی میں ہائیڈروجن سے بھری ہوئے ایک سلنڈری کے زندیک ایک شعلہ لایا جس کی وجہ سے وہ سلنڈر فورا بھڑک اٹھا اور پھٹ گیا ۔ اور چاروں طرف آگ پھیل گئی اس انگریز سائنس دان کے ہاتھ اور کسی حد تک چہرہ بھی جل گیا اور اگر اس کی آواز پر اس کے گھر والے نہ دوڑتے اور آگ نہ بجھاتے تو گھر اور گھر کا سارا سامان چل جاتا اس انگریس سائنس دان نے دو وجوہات کی بنا پر اس گیس کا نما بھڑکنے والی گیس رکھا ہے ۔

پہلی یہ کہ اسے ایک تلچ تجربے کے ذریعے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ گیس بھڑک اٹھتی ہے اور دوسری یہ کہ قدیم لوگوں کا خیال تھا کہ پانی مائع ہوا ہے انہوں نے دیھکا تھا کہ جب پانی کو حرارت ملتی ہے تو بخارات میں تبدیل ہو کر اڑ جاتا ہے انہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ پانی آسمان سے بارش کی صورت میں برستا ہے لہذا انہوں نے خیال کای کہ پانی ‘ مائع ہوا کے علاوہ کوئی چیز نہیں یہی وجہ تھی کاواندیش نے اس گیس کا نام بھڑک اٹھنے والی ہوا رکھا ۔

لیکن جعفر اصدق کے زمانے میں بجلی سے صرف کھیلنے کی حد تک فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا یعنی جس طرح پتھروں کو آس میں رگڑ کر آگ پیدا کی جاتی ہے اور ایک ریشمی کپڑے کو اس کے نزدیک رکھ کر جلایا جاتا ہے ۔

کیا جعفر اصدق یا آپ کے والد گرامی نے ہائیڈروجن کو پانی سے علیحدہ کرنے کیلئے کوئی ایسا ذریعہ ڈھونڈ نکالا تھا جس سے سائنس دان اب تک بے خبر ہیں ؟اور انہوں نے بجلی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے ہائیئڈروجن کو پانی سے جدا کر لیا تھا ؟ جب سے کاوندیش نے پہلی مرتبہ ہائیڈروجن کو بجلی کے ذریعے پانیس ے جدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اس دن سے آج تک ہائیڈروجن کو بجلی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے پانی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکا ۔

حالیہ چند سالوں میں جب کہ زمینی فضا خاصی آَودہ ہے امریکہ میں اس بات پر توجہ دی جا رہی ہے کہ ہائیڈروجن کو توانائی کی کمیدور کرنے کیلئے کام میں لایا جائے لیکن برقی پاشیدگی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اسے حاصل کیا جائے ۔

اسی بنا پر شائد محمد باقر یا ان کے فرزند جعفر صادق نے ہائیڈروجن کے وجود کو برقی پاشیدگی کے ذریعے معلوم کیا ہو اور اس کے ذریعے پانی اک تجزیہ کر لیا ہو یا پھر ایسا طریقہ اختیار کیا ہو جس سے سائنس دان ابھی تک خالص ہائیڈروجن ابھی تک حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ فلسفے کے ذریعے جعفر اصدق یا ان کے والد گرامی ہائیڈروجن کا وجود نہیں معلوم کر سکتے تھے ۔

یونانی اب دمیں اور مسلمان قوموں کے ادب میں نظم و نثر میں " آگ لگانے والا پانی " جیسے مضامین ملتے ہیں لیکن اس معنی میں نہیں کہ پانی اگ کی خاصیت رکھتا ہے بلکہ شراب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ شراب ‘ شرابی کو گرم کرتی ہے کسی بھی زمانے میں کسی فلسفی سے نہیں سنا گیا کہ اس نے کہا ہو کہ پانی ‘ آگ پیدا کرتا ہے اور صرف جعفر صادق کے بعد ہی یہ مضمون بعض حکماء اور عرفاء سے سنا گیا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے یا تو جعفر صادق سے نقل کیا ہے یا ان کے شاگردوں سے ۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ گذشتہ زمانوں میں بعض ایسے افراد ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنی کوشش سے بعض علمی رازوں پر سے پردے اٹھائے لیکن ان کی یہ ایجادات بعد میں آنے والی نسلوں تک نہیں پہنچ سکیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے معلوم کیا تھا اسے کتابی صورت میں نہ لکھا تھا کہ بعد میں انے والی نسلوں کیلئے باقی رہ سکتا ان کی موت کے بعد ان کی کاوشوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا ان میں سے بعض نے اپنی ایجادات کو جان بوجھ کر دوسروں تک نہیں پہنچایا کہ کہیں یہ علم غیر صالح افراد کے ہاتھوں تک نہ پہنچ جائے اور ایسا نہ ہو کہ اسے لوگوں کو آزار پہنچانے کیلئے استعمال میں لائین ۔ اموات نامی کتاب میں جو بنی نوع انسان کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور مصر میں لکھی گئی ہے یہ ساری کتاب موجود نہیں بلکہ اس کے کچھ حصے باقی ہیں اس میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ علم کو غیر صالح افراد کو نہ سکھائیں کیونکہ اس سے وہ خداؤں اور لوگوں کو نقصان پہنچائیں گے مشہور چینی فلسفی کنیفیوش جو ۴۷۶ عیسوی میں ۷۲ سال کی عمر میں فوت ہوا اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ سرکاری ملازم اور اخلاقی معلم تھا اور آج بھی اس کی اخلاقی تعلیمات چین میں خاصی اہمیت کی حامل سمجھتی جاتی ہیں اور اس کی کتابیں چھپتی ہیں اس نے تاکید کی ہے ۔

کہ بعض علمی اسرار جن سے لوگوں کونقصان پہنچایا جا سکتا ہے مکار لوگوں کو نہ سکھائیں کیونکہ ممکن ہے وہ اسے لوگوں کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال میں لائیں اس اخلاقی معلوم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دوسرے کے ساتھ اس طرح پیش آئیں جس طرح اپ دوسروں سے اچھا سلوک کرنے کی امید رکھتے ہیں اس عظیم فلسفی کا خیال ہے کہ بعض علمی رازوں کا غیر صالح افراد کے ہاتھوں پہنچنا خطر ناک ہے حتی کہ بعض تصوف و عرفان کے فرقوں میں کچھ ایسی باتوں کو جنہیں راز خیال کیا جاتا تھا بعض مریدوں کو نہیں سکھایا جاتا تھا اور اب جب کہ بحثوں اور عرفان و تصوف کی غور و فکر میں ایسی طبیعاتی قوتیں موجود نہیں جن کی وجہ سے غیر صالح افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں اور لوگوں کیلئے خطرے کا باعث بن سکیں بہر کیف مذکورہ فرقوں میں اقطاب کی طرف سے بعض رازوں کو مخفی رکھنا واجبات میں سے تھا تاکہ یہ راز نا اہل ہاتھوں میں نہ پہنچ پائیں تصوف کے بعض فرقوں میں تعلیم و تربیت کے سات مراحل تھے جب کوئی مرید ان سات مراحل سے گزرتا تھا پھر قطب یا سر پرست اسے عبض اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کرنے کا اہل سمجھتا یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ راز فزکس ‘ کمیسٹری ‘ یا میکانکس کے قوانین کے راز نہ تھے کہ کوئی معاشرے کو نقصان پہنچانے اور خود فائدہ اٹھانے کیلئے استعمال میں لا سکتا ہے یہ صرف نظریات ہوتے تھے جنہیں مرشد نا اہل افراد تک پہنچنے کو اجتماعی یا اخلاقی لحاظ سے خطرناک سمجھتا تھا ۔

جو کچھ اوپر ذکر کیا گیا ہے کیا س کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جعفر صادق نے بجلی استعمال کئے بعیر پانی سے خالص ہائیڈروجن حاصل کی ہو اور اس راز کو نا اہل ہاتھوں میں پہنچنے سے بچانے کیلئے اس کو فاش نہ کیاہو ؟

عموما مسلمانوں اور خصوصا شیعوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ بعض ایسے اسرار و رموز تھے جن سے پیغمبر اسلام اور شیعوں کے بارہ امام آگاہ تھے لیکن انہوں نے ان سے اس لے پردہ نہیں اٹھایا کہ اس سے معاشرے کے نظم و ضبط کا شیرازہ بکھر جائے گا یا یہ کہ یہ اسرار نا اہل افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے اور وہ اسے لوگوں کو تکلیف پہنچانے اور معاشرے کا نظم و ضبط تہ و بالا کرنے کیلئے بروئے کار لائیں گے ۔

اگر جعفر صادق ہائیڈروجن کے حصول کیلئے پانی کی پاشیدگی یا تجزیئے سے اگاہ تھے اور انہوں نے اس کا اظہار نہیں کای تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک اچھا کام کیا ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ ہائیڈروجن کو پانی سے جدا کرکے انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں لایا جاتا اسے ہائیڈروجن بم بنانے کے لئے استعمال میں لایا جانے لگا ہے اور یہ اسلحہ موت کی مانند بنی نوع انسان کے سر پر لٹک رہا ہے نا معلوم کب یہ پھٹ پڑے اور بنی نوع انسان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے اگر ہائیڈروجن دریافت نہ ہوتیتو یہ آفت بنی نوعی انسان کے سر پر نہ لٹکتی ۔

نظریہ روشنی

امام جعفر صادق کے علمی کمالات سے ایک ان کا نظریہ روشنی بھی ہے آپ نے فرمایا ہے کہ روشںی چیز کی طرف سے انسانی آں کھوں میں اتی ہے وہ روشنی جو اشیاء سے ہماری انکھوں کی طرف آتی ہے اس کا صرف کچھ حصہ ہماری آنکھوں میں چمک پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے ہم دور کی اشیاء کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے اگر وہ تمام روشنی جو ایک دور کی چیز سے ہماری آنکھوں کی طرف آئے اور پتلی تک پہنچ پائے تو ہم دور کی چیز کو نزدیک سے دیکھ سکیں گے اور اگر کوئی ایس آلہ بنایا جائے جو ایک چیز سے خارج ہونے والی تمام روشنی کو آنکھوں کی پتلی تک پہنچا سکے تو ہم نہایت دور سے بھی اس چیز کو باسانی دیکھ سکیں گے ۔

یہ تھیوری جعفر صادق کے شاگردوں کے ذریعے ارد گرد کے علاقوں تک پہنچی ا ور جب صلیبی جنگوں میں مشرق اور یورپ میں رابطہ بڑھا تو یہ تھیوری یورپ منتقل ہو گئی اور یورپ کی یوونیورسٹٹیوں سے پڑھائی جانے لگی انگلستا ن کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا مشہور استاد اجر بیکن بھی اس تھیوری وکو پڑھاتا تھا ۔

اس کی روشنی کی تھیوری وہی ہے جو جعفر صادق نے پیش کی تھی اس نے جعفر صادق کی مانند اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم ایساآلہ بنا سکیں جو دور کی تمام اشیاء کی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچا سکے تو ہم ان چیزوں کو پچاس گنا زیادہ قریب دیکھ سکتے ہیں ۔

بعد میں ۱۶۰۸ ء کے دوران ایک فلینڈی لبپرشی نے اس نظریئے کی روشنی میں دنیا کی سب سے پہلی دور بین ایجاد کی پھر اسی دوربین کو دیکھتے ہوئے فلیلیو نے فلیکی دوربین ایجاد کی وہ اپنی فلکی دور بین کو ۱۶۱۰ ء عیسوی میں کام میں لایا اور اس نے اس دور بین سے سات جنوری کی رات کو آسمان پر ستارے کا مشاہدہ کیا جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں فلامنڈی موجود کے دور بین بنانے اور گلیلیو کے دوربین بنانے کے درمیان کل عرصہ تقریبا دو سال ہے اور چونکہ گلیلیو نے اپنی دوربین ۱۶۱۰ کے پہلے مہینے میں استعمال کرنا شروع کی لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دو سال سے بھی کم عرصہ ہے لہذا یہ بعید نہیں کہ ہر دو موجودوں کو ایک ہی موقع پر فلی دوربین بنانے کا خیال آیا ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گلیلیو نے فلا منڈی موجود کی تقلید کیا ور جو نقائص اس کی دور بین میں پائے جاتے تھے انہیں اس زمانے کی ٹیکنیک کی حد تک درست کیا اور سات جنوری کی رات کو اس نے اس دوربین کا افتتاح کیا ۔

گلیلیو جو پاڈو یونیورسٹی اکتعلیم یافتہ تھا جو پاٹا دیوم(ملک) میں واقع ہے جو بعد میں وینٹے کے نام سے موسوم ہوا اور اج اس کی کرسی کو وینیز کہا جاتا ہے اور مشرق میں پاٹا دیوم یا وینٹے بندوقیہ کے نام سے مشہور تھا ۔

گلیلیو جو پاڈو جیسی مشہور یونیورسٹی اک تعلیم یافتہ تھا اسی ملک میں ریاضی کا استاد بنا اس نے جب پہلی مرتبہ اپنی دور بین سے چاند کا نظارہ کیا تو یہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا کہ چاند میں بھی زمین کی مانند پہاڑوں کے سلسلے ہیں اور اس نے دیکھا کہ چاند ک یہ پہاڑی سلسلے چاند کے صحراؤں پر سایہ ڈالتے ہیں اس سے اسے اندازہ ہواکہ جہاں صرف ہماری زمین ہی نہیں بلکہ چاند بھی ایک جہان ہے ۔

اگر جعفر صادق روشنی کا نظریہ نہ پیش کرتے تو کیا فلا ماند کا باسی لیپرسی اور گلیلیو ‘ لفکی دور بین تیار کر سکتے تھے اور گلیلیو نظام شمسی کے سیاوں کا آسانی سے مشاہدہ کر سکتا ہے اور اپنے مشاہدات کے ذریعے کو پرنیک وکپلرکا مشہور نظرہ کہ نظام شمسی کے سیارے زمین سمیت سورج کے گرد گھوم رہے ہیں کہ تصدیق کر سکتا تھا ؟

گلیلیو کی فلی دور بین نے لوگوں میں اتنا جوش و خروش پیدا کیا کہ وینیز کے سینیٹرز ‘ حتی کہ وہاں کا صدر بھی اس فلکی دور بین سے نظام شمسی کے سیاروں کو دیکھنے کیلئے بے تاب ہو گیا اور گلیلیو اپنی دور بین کو پاڈو سے اٹھا کر وینیز شہر میں لایا اور اسے ایک کلیسا کی چھت پر نصب کیا بوڑھے بوڑھے سینٹرز کو پکڑ کر چھت پر پہنچایا گیا تاکہ رات ہونے پر وہ چاند اور ستاروں کو دیکھ سکیں جب گلیلیو سے سوال کیا جاتا تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اس کی دور بین آسمانی سیاروں کو اتنا قریب کر دیتی ہے کہ اس سے چاند کے پہاڑوں کا نظارہ بھی ہو سکتا ہے تو وہ امام جعفرصادق کی تیھوری کو دہراتے ہوئے کہتا تھا کہ یہ دوربین اس تمام روشنی کو جو آسمانی سیاروں سے ہماری آنکھ تک پہنچتی ہیجمع کرتی ہے جس کے نتیجے میں جو فاصلہ تین ہزار قدم ہوتا ہے وہ گھٹ کر ساٹھ قدم رہ جاتا ہے ۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ گلیلیو کی اس ایجاد کے بعد عطارد ‘ زہرہ اور مشتری کے چاند آنکھ دے دیکھے گئے تو اس کا کوپر نیک اور کپلر کے نظریئے پر کیا اثر پڑا ۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ مشہور حکیم اور مشہور مشائی فلسفے کا عالم ارسطو اور اسکے بعد بطلیموس جو ارسطو کے پانچ سو سال بعد آیا انہوں نے علم نجوم کو اٹھارہ سو سال پیچھے دھکیل دیا یعنی تیسری صدی قبل مسیح سے ندرھویں صدی عیسوی تکاس علم میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی ارلیس تا و خوس جیسے جید حکما کا کہنا تھا کہ زمین اپنے محور کے گرد گردش کرتی ہے اور یہ سورج کے ارد گرد بھی گھومتی ہے زمین کی اپنے محور کے گرد گردش سے دن و رات وجود ہی آتے ہیں اور اس کے سورج کے گرد گردش سے ہر سالبھر کے موسم وجود میں آتے ہیں ۔

ارسطو ایک عظیم مفکر اور فلسفی تھا اس کی کتابیں ‘ گانے اور فزکس انسانی ثقافت کی زندہ جاوید کتبایں سمار ہوتی ہیں لیکن بیت کے بارے میں جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ اس شعبے میں انسان کئی صدیوں تک کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکااور ہم نہایت حیرت سے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ علم ہیت کے اس زوال کا ذمہ دار ارسطو ہے اگر وہ یہ نہ کہتا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اور ستارے زمین کے گرد گردش کر رہے ہیں تو وہ عظیم علمی تحریک جو یورپ میں جدید علمی دور میں شروع ہوئی کم از کم پہلی صدی عیسوی سے ہی شروع ہو چکی ہوتی ہمیں یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہماڈرن علمی دور کی تحریک جو آج تک جاری ہے اس کا آغاز پولینڈ کے کوپر نیک نے کیا جس نے کہا کہ زمین ‘ سورج کے ارد گرد گھموتی ہے اورا س کے بعد کپلر نے جو جرمن تھا اس علمی تحریک کو زمین سمیت دوسرے سیاروں کی سورج کے گرد حرکت کو بحسن و خوبی ثابت کرکے اس علمی تحریک کو خاصی قوت بخشی اگر یہ تین اشخاص پیدا نہ ہوتے اور چالیس ہزار آٹھ سو سالہ انسان کا زمین کے ساکن ہونے اور سورج کا اس کے گرد گردش کرنے کا نظریہ اس کے دماغ سے نہ نکالتے تو دکارت ہرگز پیدا نہ ہوتا جس نے جدید علمی تحقیقات کی بنیاد ڈالی ۔

وہ بھی دوسرے سائند دانوں کی مانند کو پر نیک کے آنے تک ارسطو کے پیدا کئے ہوئے ظَمت کدے میں رہ رہا تھا جب گلیلیو نے پہلی مرتبہ اپنی فلکی دور بین سے ۱۶۱۰ ء عیسوی میں اسمان کا نظارہ کیا دکارت اس وقت چودہ سالہ لڑکا تھا وہ کو پر نیک کپلر اور گلیلیو کے بغیر اپنے آ کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر جدید عصر کی علمی تحقیق کی بنیاد نہ رکھ سکتا تھا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے علم زنجیروں کی کڑیوں کی مانند ہے علم کی ایک کڑی دوسری سے ملتی ہے اور اس طرح ایک دوسرا علم وجود میں آتا ہے۔

زمین اور دوسرے سیاروں کا سورج کے گرد حرکت نہ کرنے پر مشتمل انسانی جہالت کا نظریہ جو ارسطو نے پیش کیا اس کی وجہ سے انسان اٹھارہ صدیوں تک علمی فضا میں پرواز کرنے سے رکا رہا اور ارسطو کا اثر و رسوخ بھیا س قدر زیادہ تھا کہ کسی کو اس کے نظریئے کو باطل ثابت کرنے کی جرات بھی نہ ہوئی ۔

ارسطو کے نظریئے کو دو اور محرکات نے بھی تقویت پہنچائی پہلا محرک یہ کہ مشحور مصری جغرافیہ دان بطلیموس جو ارسطو کے پانچ سو سال بعددنیا میں آیا نے اس کے نظریہ پر مہر تصدیق ثبت کیا ور سیاروں کی حرکت کے بارے میں ایک نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیارے ایسی چیزوں کے گرد گردش کرتے ہیں جو متحرک ہیں اور وہ چیزیں زمین کے گرد گھومتی ہیں ہیں لیکن زمین بذات خود ساکن ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بطلیموس نے زمین کے ارد گرد سیاروں کی گردش کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور کہا کہ وہ سیارے ایسی چیزوں کیگرد گھومتے ہیں جو باری باری ساکن زمین کے گرد گھومتی ہیں جس محرک نے ارسطو کے نظریئے کو مزید تقویت بخشی وہ یورپ کے کلیسا کی جانب سے ارسطو کے نظریئے کی صحت پر مہر ثبت کرنا تھا اور ارسطو کے نظریئے کی حمایت میں کہا گیا کہ اگر زمین ساکن نہ ہوتی اور کائنات کا مرکز نہ ہوتی تو خدا کا بیٹا حضرت عیسی ہر گز اس میں ظہور نہ کرتا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کو پر نیک ‘ کپلر اور گلیلیو دنیا میں نہ آتے تو بھی دکارٹ جدید علمی تحقیق کی بنیاد رکھ دیتا اور اس کے بعد بھی اتنی علمی ترقی ہوتی کہ علم موجودہ ترقی سے ہم کنار ہو جاتا لیکن موجودہ دور کے سائنس دان اس بات سے متف نہیں ہیں انگلستا ن کا مشہور فزکس دان اونیگٹن جو ۷۵ سال کی عمر میں ۱۹۴۴ میں فوت ہوا جس کسی نے فزکس پر کام کیا ہے وہ اونیگٹن کے نام سے بخوبی آشنا ہے اسے معلوم ہے کہ اونیگٹن نے اس صدی میں فزکس پر نمایا کام کیا ہے کا قول ہے کہ ارسطو کا یہ نظریہ کہ زمین ساکن اور کائنات کا مرکز ہے اور سورج و ستاروں زمین کے گرد گھومتے ہیں سولہویں صدی تک یہ نظریہ ایک بوجھل جسم کی مانند ‘ علم پر پڑا ہوا تھا جس سے علم کیلئے سانس لینا بھی دشوار تھا اور اگر یہ بھار علم کے اوپر سے نہ ہٹتا اور علم کیلئے سانس لینے کا راستہ ہموار نہ ہوتا تو کوئی بھی موجود ہ علمی پیش رفت انسان کو نصیب نہ ہوتی مشرق کے سائنس دانوں اور مصنفین میں سے بعض ایسے ہیں جو یہی نظریہ رکھتے ہیں ان میں سے ایک ہندوستانی چاترجی کا کہنا ہے کہ اگر بنی نوع انسان زمین کی اپنے ارد گرد اور سورج کے ارد گرد حرکت کا پتہ نہ لگاتا تو یہ اسی طرح جہالتمیں گرفتار رہتا اور جدید دور کی علمی کامیابیوں سے ہر گز ہمکنار نہ ہوتا ۔

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ عیسائی کلیسا نے ارسطو اور بطلیموس کے اس نظریئے کی کہ زمین ساکن اور کائنات کا مرکز ہے تصدیق کی کیونکہ کلیسا کے نظریئے کی بنیاد پر اگر زمین ساکن اور کائنات کا مرکز نہ ہوئی تو خدا کا بیٹا عیسی اس میں ظہور نہ کرتا کیونکہ خدا کا بیٹا اس جگہ ظہور کرتا ہے جو جگہ ساکن اور کائنات کا مرکز ہو اور اگر یہ زمین کائنات کا مرکز اور ساکن نہ ہوتی تو ہر گز اس قابل نہ تھی کہ خداوند کا بیٹا اس پر ظہور کرتا ۔

اگرچہ زمین کے سکن اور مرکز کائنات ہونے کے نظریہ کو عیسائی کلیسا کی پشت پناہی حاصل تھی اور یہ نظریہ عیسائیت میں شامل ہو چکا تھا پھر بھی سائنس دان جب اس نظریئے کی تصدیق کرتے تھے تو کہتے تھے کہ ارسطو نے اس طرح کہا ہے یہ نہیں کہتے تھے کہ دین و عیسائیت اس طرح کہتے ہیں ۔

اگر کوپر نیک ‘ کپلر اور گلیلیو ‘ ارسطو کی اس غلطی کی اصلاح نہ کرتے اور اس نظریئے کے غلط ہونے کو ثابت نہ کرتے تو آج جو کوئی کسی چیز کو ثابت کرنا چاہتا تو اگر اس کے متعلق ارسطو نے کچھ کہا ہوتا تو وہ شخص یہ کہتا کہ ارسطو نے اس طرح کہا ہے ۔

کیونکہ ارسطو کا کہنا حجت ہوتا تھا اور کسی کا بھی یہ خیال نہ تھا کہ ارسطو نے بھی غلط بات کہی ہو گی یہی وجہ تھی کہ یہنظریہ غیر متزلزل نظر آتا تھا انسانی نسل کی زندگی میں غلط علمی نظریات بھی آیے ہیں (حالانکہ کوئی نظریہ اگر غلط ہو تو اسے علمی نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ اس کے علمی ہونے کیلئے اس کی صحت لازمی ہے )اور ممکن ہے آج بھی موجود ہوں لیکن ارسطو کے کائنات میں زمین کی مرکزیت کے متعلق نظریئے کی مانند کسی نظریئے نے عقل اور علمی اارک اپر اس قدر سایہ نہیں ڈالاا ور اس غلط نظریئے نے انسانی عقل اور علمی ادارک کو اٹھارہ صدیوں تک اس قدر مات دی ہے جس قدر کسی اور نظریئے نی نقصان نہیں پہنچایا۔

اس طویل مدت کے دوران جب کہ عیسائی کلیسا نے باقاعدہ طور پر ارسطو کے نظریہ کو قبول کر لیا تھا صرف ایک عیسائی شخص ایسا پیدا ہوا جس نے ارسطو کے نظریہ کی مخالفت کی اور وہ شخص نیکولا دو کوزا ہے جو کیتھولک کلیسا میں کارڈینال کے مرتبے پر فئاز تھا اس شخص کو قدیم یونانی حکما کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا بے حد شوق تھا اور یہی شوق ارسطو کے نظریہ سے اس کی مخالفت کا سبب قرار پایا امریکہ اور یورپی اقوام پر ثقافتی لحاظ سے ویٹیکین کے کافی احسانات ہیں کیونکہ یونان اور قدیم روم کی کتابوں کا ایک بڑا حصہ ویٹیکین کے کتابخانہ کی وساطت سے یورپی اور امریکی قوموں تک پہنچا یورپ میں کتابوں کے چند مراکز اور بھی ایسے ہیں جنہیں یونان اور قدیم رومی کتاب کو یورپی قوموں تک پہنچانے کا فخر حاصل ہے لیکن ان مراکز میں سے کوئی بھی ویٹیکین کے کتابخانے کی برابری نہیں کر سکتا اگر یہ کتابخانہ نہ ہوتا تو ممکن ہے یونان اور قدیم یونان کی بعض کتابیں گم نامی کی حالت میں پڑی رہتیں ۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یورپ میں مسلسل جنگ کا بازار گرم رہا اور وہ لوگ جو لڑ رہے تھے ان کیلئے کتاب بے وقعت چیز تھی اس زمانے میں کتابیں یا تو جل رہی تھیں یا ویرانوں میں پڑی گل سڑ رہی تھیں لیکن جو کتابیں ویٹکین کی طرح کے چند مراکز میں پڑی تھیں دو وجوہات کی بنا پر باقی رہ گئی تھیں پہلی وجہ یہ کہ حملہ آور ویٹیکین اور دوسرے مذہبی مراکز پر حملے نہیں کرتے تھے کیونکہ عیسائی تھے اور ان مراکز کو مقدس سمجھتے تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ ان مراکز میں کام کرنے والے کتابوں کے شائقین تھے انہیں کتابوں کی قدر و منزلت کا اندازہ تھا اس لئے انہیں سنبھال کر رکھتے تھے اور کیڑے مکوڑوں ‘ یا گرد و غیرہ سے انہیں حتی الامکان بچاتے تھے ۔

یونان اور قدیم روم کی علمی اور یورپی میراث کو محفوظ کرنیکے لحاظ سے یورپ کی قدیم یونیرسٹیوں مثلا پاڈو یونیورسٹی (اٹلی) اور آکسفورڈ یونیورسٹی (انگلینڈ) اسی طرح سوربون یونیورسٹی (فرانس ) کا پہلا درجہ نہیں تھا چونکہ یہ تمام یونیورسٹیاں دوسری ہزارویں عیسوی صدیمیں جوود میں آئیں جب کہ پہلی ہزارویں عیسوی صدی میں صرف ویٹیکین اور دوسرے مذہبی مراکز تھے جس میں کتبایں محفوظ تھیں یورپ کے روساء اور امراجن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ تقریبا سارے نا خواندہ تھے اہیں کتابوں سے ذرا سا بھی شغف نہ تھا بلکہ بعض زمانوں میں تو سلاطین اور امراء کیلئے پڑھا لکھا ہونا ایک بڑا عیب شمار کیا جاتا تھا اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر بادشاہ اور امرا ان پڑھ ہوں تو پڑھائی کے معاملے میں عام لوگوں کی کیا دلچسپی ہو گی یورپ میں خواندگی ‘ کتابوں کے مطالعے اور کتابوں کو محفوظ کرنے کے مراکز صرف دینی ادارے ہی تھے اور اگر کتابوں کے یہ قدیم مراکز جن میں یونانی ‘ لاطینی اور سریانی زبانوں میں مترجم کتابیں محفوظ تھیں اگر نہ ہوتے تو یونان اور قدیم روم کی کتابیں آج یورپ کی قوموں تک نہ پہنچتیں ویٹیکین کا کتابخانہ قدیم یونانی اور لاطینی کتابوں کے لحاظ سے دوسرے مذہبی مراکز کی نسبت زیادہ غنی تھا لیکن عام پادری حضرات اس کتابخانہ تک رسائی حاصل نہ کر سکتے تھے جب کہ آج عیسائی مذہب کا ہر روحانی پیشوا اس کتابخانے میں جا سکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ قدیم زمانے میں عیسائی مذہبی رہنماؤں میں علمی امتیاز برتا جاتا تھا اور وہ پادر جو ربتے میں کم ہوتے تھے انہیں ویٹیکین کے کتابخانے میں داخل ہونے کی ہر گز اجات نہ تھی بظاہر اس کی وجہ یہ بیان کیجاتی تھی کہ کم علمی درجہ کے حامل پادری اس قدر مذہبی رہنما اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ نچلے درجے کے پادری بھی آ کر ان کے ساتھ کتابخانے میں بیٹھ کرمطالعہ کریں ۔

ویٹیکین کے کتابخانے کی کتابیں کسی کو بھی امانتا گھر می ۷ ں پرھنے کیلئے نہیں دی جاتی تھیں اس کتابخانے کی کتابوں کے اسی کتابخانے تک محدود رہنے کے عوامل میں سے ایک عامل یہ بھی تھا کہ یہ کتابیں کسی کو بھی اس کتابخانے سے باہر لے جا کر مطالعہ کرنے کی اجازت نہ تھی آ ج بھی اس کتابخانے کی کتابیں کسی کو امانتا نہیں دی جاتیں البتہ وہاں سے ان کی فوٹو کاپی نکال کر لائی جا سکتی ہے نیکولا دو کوازا چونکہ کلیسا کے امراء میں سے تھا لہذا اس کتابخانے میں جا کر مطالعہ کر سکتا تھا اور وہ قدیم یونانی زبان بھی جانتا تھا ۔

اس نے اس کتابخانے میں قدیم یونان کے حکما (جس میں اریستار خوس بھی سامل ہے ) زمین کی حرکات کے متعلق معلومات حاصل کیں اسکے بعد وہ ویٹیکین سے جرمنی میں اپنے مذہبی مرکز کی طرف چلا گیا جرمنی میں پہنچ کراس نے زمین کی حرکات پر ایک کتاب لکھی ابھی تک چھاپہ خانے کی صنعت نے اتنی ترقی نہ کی تھی کہ نیکولا دو کوازہ اس کتاب کو چھپوا سکتا لہذا مذکورہ کتاب قدیم طرز پر ہی تیار ہوئی اور جو کوئی اسے حاصل کرنا چاہتا اسکی نقل تیار کر لیتا تھا نیکولا دو کواز نے یہ کتاب ۱۴۶۰ عیسوی میں (کوپرنیک کی پیدائش سے تیرہ سال پہلے تیار کی ) اس نے اس کتاب میں کہا کہ زمین ساکن نہیں اپنے گرد اور سورج کے گرد گھوم رہی ہے پھر زمین کی گردش کے اعلان کا کریڈٹ آخر نیکولا دو کوزا کو کیوں ملا ‘ پولینڈی کوپر نیک کو کیوں نہ ملا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ نیکولا دو کوازہ ایک مذہبی شخص تھا اسکے پاس بہت کم نجوم اور ریاضی کی معلومات تھیں جبکہ کو پر نیک ایک صاحب بصیرت نجومی اور ریاصے کا ماہر تھا اس نے زمین کی حرکت علم کے ذریعے ثابت کی ۔ جبکہ نیکولا دو کوازہ نے بغیر کسی علمی دلیل کے یونانی حکماء کے نظریہ کو من و عن پیش کر دیا تھا ۔

چونکہ نیکولا دو کوازہ نے اپنی کتاب میں کوئی علمی دلیل نہیں پیش کی تھی لہذا اس کے روحانی مرکز کے باہر اسکی کتاب کی پذیرائی نہ ہوئی اور نہ ہی یہ کتاب ویٹیکین کی توجہ مبذول کر اسکی اس بات کا قوی امکان ہے کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو پڑہا ہو گا انہوں نے اس پر یقین نہ کیا ہو گا بلکہ اسے مذاق گردانا ہو گا چونکہ اس میں حقائق کو رد کیا گیا تھا اور ایسے حقائق کا انکار محال ہے جنکی صحت اور وجود میں کوئی شک نہ ہو ۔

بابائے ریاضی یونان فیثا غورث کا کہنا ہے کہ بعض حقائق کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی مثلا دس پانچ سے زیادہ ہے یا پچاس سکے چالیس سکوں سے زیادہ ہیں یہ بات روز روشن کی مانند آشکارا ہے اب ہمیں اسے ثابت کرنے کیلئے کسی قسم کی کوئی دلیل لانے کی ضرورت نہیں ‘ اسی طرح سورج اور سیاروں کی زمین کے ارد گرد حرکت کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ ابتدا سے انسان اپنی دو انکھوں سے مسلسل دیکھتا آیا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ سورج اور سیارے زمین کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں زمین کا ساکن اور بے حرکت ہونا بھی ایک دوسری حقیقت تھی کیونکہ اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا کہ زمین متحرک ہے اور جب کبھی ایک مضبوط عمارت تعمیر کرتے تھے تو اس خیال سے کہ یہ عمارت سالہا سال تک باقی رہے گی اگر وہ ویران بھی ہو جاتی تھی تو بارش برف اور سورج کی وجہ سے نہ کہ زمین کی حرکت کی وجہ سے اگر کوئی کسی ٹیلے یا پہاڑ کے پاس سے گزرتا تھا اور پھر طویل عرصے کے بعد اگر اس کا گزر وہاں سے ہوتا تو وہ دیکھتا تھا کہ وہ پہاڑ یا ٹیلہ وہیں پر کھڑا ہیا ور سرک کر کسی دوسرے مقام پر نہیں گیا یہی وجہ تھی کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ زمین ساکن نہیں اور متحرک ہے (وہ بھی دو حرکات رکھتی ہے تو اسے یا تو پاگل پن کہا جاتا اور یا پھر مذاق سمجھا جاتا ۔ چونکہ نیکولا دو کوازہ ایک قابل احترام مذہبی رہنما تھا لہذا اسے دیوانہ تو نہیں کہہ سکتے تھے بلکہ یہ کہا گیا کہ وہ مذاق کر رہا ہے نیکولا دو کوزا کی کتاب نے عوام پر اس لئے کچھ اثر نہ کیا کہ اس زمانے میں عوام کتاب وغیرہ کا مطالعہ نہیں کرتے تھے اور خواص پر یہ اثر ہوا انہوں نے کہا کہ یہ شخص مذاق کر رہا ہے کیونکہ واضح حقائق کا انکار مذاق کے مترادف تھا ۔ بہر کیف اگر یہ کتاب نیکولا دو کوزا کی زندگی میں ویٹیکین تک پہنچ جاتی تو مصنف کیلئے کئی مشکلات پیدا ہوجاتیں ۔ ممکن تھا کہ اس کا لباس اور سرخ رنگ والی کارڈینال کی ٹوپی اتار لئے جاتے اور وہ کیتھولکی کلیسا کا دوسرا بڑا رتبہ کھو دیتا یعنی کارڈینل نہ رہتا ۔

جو کچھ کہا گیا ہے اسکی روشنی میں جعفر صادق کی لائٹ تھیوری سے اپ کے صدیوں بعد فلکی دور بین کی ایجاد اور اس سے اجرام فلکی کے مطالعے کا موجب بنیا ور اسطرح جدید علوم کی توسیع میں کافی مدد ملی ۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے جعفر صادق کے زمانے میں صنعت کا وجود نہ تھا اس لئے جعفر صادق نے لائٹ تھیوری اک ذکر تو کیا لیکن خود دور بین نہ بنا سکے تاکہ اس سے اسمانی سیارے اور ستارے دیکھتے ۔ لیکن اسکی دور بین نہ بنا سکنے کی وجہ نے آپ کی تھیوری کی قدر و قیمت پر کوئی اثر نہیں ڈالا ۔

کیا نیوٹن جس نے قوت جاذبہ کا قانون دریافت کیا اس کو جو قوت تجازب کے قانون کی دریافت کا سبب بن اخلا میں بھیج کر زمین کے گرد گھما سکتا تھا ۔ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ مصنوعی سیارے جو آج زمین یا چاند ‘ مریخ وزہرہ کے گرد چکر لگا رہے ہیں سب کے سب نیوٹن کے عام قوت جتاذب کے قانون کے تحت حرکت کررہے ہیں ۔ لیکن کیا نیوٹن جو اس پر عمل درآمد نہ کر سکا اس کے قوت تجاذب کے قانون کی قدر و قیمت کو گھٹا سکتی ہے ؟

کون یہ کہتا ہے چونکہ نیوٹن خلا میں زمین کے ارد گرد ایک مصنوعی سیارہ بھجنے میں کامیاب نہیں ہو سکا لہذا اس کا اس قانون کو دریافت کرنا بے قدرو قیمت ہے ؟

اگر کوئی یہ بات کہے تو عقل مند لوگ اسے حقیر سمجھیں گے کیونکہ اس کا یہ قول اسکی عقل کی کمزوری سمجھا جائیگا ۔ اگر آچ بھی بنی نوعی انسان نیوٹن کے اس قانون پر عمل در امد نہ کر سکتا تو بھی نیوٹن کے اس علمی انکشاف کی اہمیت پر کوئی اثر نہ پڑتا اس لئے کہ دنیا جانتی تھی اور جانتی ہیکہ نظام شمسی میں جو کچھ ہے وہ عام قوت تجاذب کے قانون کی زد میں ہے ۔ اور شاید نظام شمسی سے باہر بھی سورج اور کہکشائیں قوت تجاذب کے قانون کی پیروی کر رہی ہوں اور اسطرح اس کا وسیع خلا کا سفر جاری و ساری ہو ۔ امید کی جاتی ہے کہ آیندہ جب مزید سیارے نظام شمسی سے باہر بھیجے جائیں گے تو عملی طور پر معلوم ہو جائیگا کہ کیا نظام شمسی کے باہر کائنات کا نظام چلانے کیلئے بھی قوت تجاذب کا قانون کار فرما ہے یا نہیں ؟ اگر چہ آج تک کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی کہ کانات میں استثنی نہیں پاا جاتا اور ہر قانون جو کائنات کے ایک حصے میں کار فرما ہے دوسرے حصوں میں بھی لاگو ہے لیکن جب تک عملی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ قوت تجاذب کا قانون جسکی وجہ سے ہمارے نظام شمسی میں نظم و نسق قائم ہے نظام شمسی سے باہر بھی یہی نافذ العمل ہے یا نہیں ؟

جعفر صادق کی لائٹ تھیوری میں جو دوسا نکتہ غورطلب ہے وہ یہ ہے کہ اپ نے فرمایا روشنی چیزوں سے انسانی آنکھ کی طرف آتی ہے جبکہ آپ سے پہلے کہا جاتا تھ کہ روشنی آنکھ سے نکل کر اشیاء کی طرف جاتی ہے ۔ جعفر صادق وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے ا نظریئے کی نفی کی اور کہا کہ روشنی آنکھ سے نکل کر چیزوں کی طرف نہیں جاتی بلکہ چیزوں سے نکل کر انسانی آنکھ کی طرف آتی ہے اور اسکی دلیل یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں کوئی چیز نہیں دیکھ سکتے جبکہ اگر روشنی ہماری آنکھ سے نکل کر چیزوں کی طرف جاتی تو ہم اندھیرے میں تمام چیزوں کو دیکھ سکتے جعفر صادق نے فرمایا کسی روشن چیز کو دیکھنے کیلئے اس کا روشن ہونا ضروری ہے اور اگر وہ خود روشن نہیں ہے تو کسی روشن چیز کی روشنی کا اس پر پڑنا ضروری ہے تاکہ اسے دیکھا جا سکے ۔ جعفر اصدق نے روشنی کی رفتار کے متعلق بھی ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو ان کے زمانے کے لحاظ سے توجہ کا طالب ہے آپ نے فرمایا ‘ روشنی نہایت تیزی سے ہماری آں کھوں کی طرف آتی ہے اور یہ متحرک اشیاء میں سے ہے ۔

ایک مرتبہ پھر اس نکتے کا ذکر کرتے ہیں کہ اس زمانے میں اتنے ٹیکنیکی ذرائع نہ تھے کہ جعفر صادق روشنی کی رفتار کو ناپ سکتے ۔ لیکن یہی جو فرمایا کہ روشنی متحرک ہے اور نہایت تیز رفتار ہے یہ نظریہ تقریبا روشنی کے موجودہ نظریہ سے میل کھاتا نظر آتا ہے آ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ اپ نے ایک دن اپنے حلقہ میں فرمایا طاقتور روشنی ‘ بھاری چیزوں کو حرکت میں لا سکتی ہے اور وہ روشنی جو طور سینا پر موسی پر ظاہر ہوئی اگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ روشنی اس پہاڑ کو متحرک کر سکتی تھی اس بات کا امکان ہے کہ آ نے اس روایت کے ذریعے شعاعوں کے نظریئے کی بنیاد کے بارے میں پیشگوائی کی

جعفر صادق نے روشنی کی حرکت ‘ رفتار اور یہ کہ روشنی چیزوں سے ہماری آں کھ کی طرف اتی ہے ‘ کے متعلق جو کچھ کہا اسکی اہمیت لیزر شعاعوں کی تھیوری سے زیادہ ہے کیونکہ لیزر شعاعوں کی تھیوری کے بارے میں آپ سے پہلے بھی اظہار خیال ہو چکا تھا لیکن جو کچھ آپ نے روشنی کی رفتار حرکت اور ایک جگہ اکٹھا ہونے کیبارے میں کہا ‘ صرف ا کی ذات سے مخصوص ہے پرانے وقتوں میں مختلف اقوام کے درمیان یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ روشنی اجسام کو متحرک کر سکتی ہے قدیم حصہ میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ روشنی ہر چیز سے گزر سکتیا ور اجسام کو متحرک کر سکتی ہے یہاں تک کہ پہاڑ بھی اس کی عبورگی میں حائل نہیں ہو سکتا ان لوگوں کے مطابق عام روشنی پہاڑ سے نہیں گزر سکتی اور نہ ہی اسے متحرک کر سکتی ہے لیکن اگر طاقتور روشنی پیدا ہو تو وہ پہاڑ کے درمیان سے گزر کر اسے متحرک کر سکتیہے اور یہ بات طاقتور روشنی کی صوابدید پر ہے کہ وہ پہاڑ کے درمیان سے گزر کر اسے متحرک کر دے ۔

اس نظریہ کی طبعیاتی وجہ کی وضاحت کہیں بھی نہیں کی گئی لیکن تمام قدیم اقوام کے درمیان یہ عقیدہ موجود تھا ‘ اور جن مذاہب کی تاریخ تک آج ہماری رسائی ہے ان کے وجود میں آنے سے پہلے بھی یہ عقیدہ رائج تھا کیونکہ مذاہب پر ایمان لانے سے پہلے انسان جادو گری کا معتقد تھا اور دین اور جادو گری کے درمیان کوئی فرق نہ تھا اور یہ عقیدہ کہ روشنی پردوں سے گزر کر اجسام کو متحرک کر سکتی ہے جادو گری سے لیا گیا ہے ہمیں جادو گری کے اس عقیدے کی ابتدا کے بارے کچھ بھی معلوم نہیں اور جن لوگوں نے اس بارے میں کچھ کہا بھی ہے تو محض فرض کی حد تک مختصر یہ کہ کوئی ایسا ماخذ نہیں ملتا جس سے ہمیں یہ پتہ چل سکے کہ پہلے پہل یہ عقیدہ کس قوم میں وجود میں آیا ۔

اگر ہم روشنی کے توانائی ہونے کے نظریئے کو چھوڑیں تو جو کچھ جعفر صادق کی تھیوری میں روشنی کی رفتار کے بارے میں کہا گیا ہے وہی کچھ ہے جو آج ہم جانتے ہیں روشنی کی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کہی گئی ہے یہ رفتار اتنی تیز نہیں ہے کیونکہ جدید پیمانوں کے مطابق ایک سیکنڈ ایک لمبی مدت ہے اور ستاروں کے فاصلوں کو مد نظر رکھیں تو تین لاکھ کلو میٹر ایک مختصر فاصلہ ہے لیکن قدیم پیمانوں کے لحاظ سے تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ اچھی خاصی تیز رفتار ہے پس روشنی کی رفتار کو اخذ کرنے کے لحاظ سے بھی جعفر صادق نے پہل کی ہے جیسا کہ ہم نے تذکرہ کیا ہے کہ جعفر صادق کی ثقافت چار ارکان پر استوار ہے اور ان ارکان کے نام بھی لئے ہیں اس ثقافت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خشک تعصب اور گاڑھے پن سے مبرا ہے اور جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کے بنیادی محرکات میں سے ایک یہ ہے کہ آ پ نے خشک تعصب اور گاڑھے پن سے دوری برتی اور شیعہ فرقے کے پیروکاروں کو کوئی ایسا بہانہ یا دستاویز نہیں دی جسکی وجہ سے شیعوں میں تفریق پیدا ہو اور شیعہ فرقہ میں طرح طرح کے فرقے پیدا ہو جائیں ۔

جعفر صادق نے جب بھی پیغمبر اسلام اور یا اپنے آباؤ اجداد میں سے کسی بزرگ کا تعارف کرانا چاہا تو انہیں ایک عام انسان کی مانند پیش کیا اور ان میں کسی کو خدا کی ردیف نہیں جانا اور انہیں عالم بشر سے برتر کوئی مخلوق شمار نہیں کیا اور نہ ہی اس ابت کی نشاندہی کی ہے کہ وہ اللہ اور انسان کے دریان میں کوئی انوکھی مخلوق ہیں ۔ اگر آ ایسا نہ کرتے تو شیعوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا کیونکہ اس طرح یہ بحث جاری ہو جاتی کہ اللہ تعالی اور انسان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے اگر خدا تعالی اور انسان کے درمیانی فاصلے کو ۰ ۱۸ درجے فرض کر لیں اور اللہ کا آخری یعنی ۱۸۰ درجہ ہو اور انسان کا پہلا درجہ ہو تو کیا پیغمبر اسلام کا درجہ ۹۰ ہو گا یا ۱۰۰ یا ۱۵۰ کے فاصلے پر ہوں گے شاید یہ کہا جائے کہ اگر جعفر صادق یہ کہتے کہ پیغمبر اسلام اور آپ کے آباؤ اجداد اللہ تعالی کے اور بنی نوعی انسان کے درمیان ہے تو یہ بحث وجود میں نہ آتی کہ آپ خدا سے نزدیک تر ہیں یا بنی نوع انسان سے ؟ لیکن بعض مذاہب میں ایسی بحثیں وجود میں آ چکی ہیں ۔

پس جعفر صادق پیغمبر اسلام اور ان کے خویش و اقربا عام بشر ہی تھے اور انہوں نے ان کو کبھی بھی لبادہ الوہیت نہیں پہنایا اور یہ ہر گز نہ فرمایا کہ وہ ہستیاں کوئی مافوق البشر مخلوق تھیں نہ ہی کوئی ان کے بارے میں معنوی غلویا مبالغہ آرائی کی ہے ۔

آپ کے بعد تیسری صدی میں شیعہ چند فرقون میں بٹ گئیجو عرفانی فرقے کہلاتے ہیں ان فرقوں میں اس قدر تعصب پیدا ہو گیا کہ گویا ان میں سے ہر ایک جدا مذہب ہے اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جعفری مذہب کی ثقافت کے ارکان سے عرفان ایک اہم رکن تھا لیکن جعفر صادق کا عرفان معتدل تھا آپ عرفان کو شیعہ کی بہتر شناخت کی حد تک مفید خیال کرتے تھے نہ یہ کہ عرفان اس حد سے تجاوز کرکے آیک نئے مذہب کو صورت میں ابھرے لیکن وہ شیعہ عرفانی فرقے ‘ جو تیسری صدی کے بعد وجود میں آئے انہوں نے مبالغہ آرائی کی یہاں تک کہ وہ خالق و مخلوق کے ایک ہی ہونے کے معتقد ہو گئے جب کہ جعفر صادق اسکے صریحا خلاف تھے ۔

ان میں سے بعض نے اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لیا کہ خالق و مخلوق میں انسان کو خلاق سے بہتر خیال کرنے لگے ۔ جو شیعہ مذہب کے اصول کے لحاظ سے کفر ہے لیکن ان تمام عرفانی فرقوں نے جعفری مذہب کی ثقافتی آزادی سے فائدہ اٹھایا کیونکہ جس طرح ہم نے عرض کیا ہے کہ اس ثقافت میں کسی کو کوینظریہ پیش کرنے کے جرم میں سزا بھی نہیں دی جاتی تھی لیکن جعفر صادق اور ان کے شاگردوں نے منقد کے قول کو اسی طرح رد کیا جسطرح آ کے شاگردوں نے ابن راوندی کے قول کو رد کیا ۔ جعفر صادق کے بعد وجود میں آنے والے تمام عرفانی فرقوں میں خالق اور مخلوق کی وحدت ( ایک ہونا دیکھتی جاتی ہے ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض میں خالق و مخلوق کی وحدت کا تصور بلاواسطہ ہے اور بعض میں بالواسطہ ۔

ان فرقوں میں سے بعض میں یہ تصور ہے کہ آدمی جو بھی ہو خدا اور اسکے درمیان کوئی فرق نہیں ۔

دوسرے فرقوں میں عام افراد کی خداوند تعالی کے ساتھ وحدت کا تصور نہیں بلکہ پیغمبر بارہ امام اور خداوند تعالی مل کر ایک وجود تشکیل دیتے ہیں بعض ایسے فرقے پیدا ہوئے کہ ان میں فرقے کا رہنما ‘ پیر یا قطب یا مرشد یا غوث ‘ خداوند تعالی سے مل کر ایک ہی وجود تشکیل دیتا ہے ۔

ان شیعہ فرقوں کے پیروکار اپنے قطب کا اتنا احترام کرتے تھے کہ اسے آئمہ اور حتی کہ پیغمبر سے بھی زیادہ اہمیت دیتے تھے لیکن ان کی زبان سے کبھینہ سنا گیا کہ قطب ‘ ائمہ یا پیغمبر سے بر تر ہے یا وہ ڈرتے ہوں گے کہ اگر یہ کہیں گے کہ ان کا پیر آئمہ یا پیغمبر سے بر تر ہے تو وہ کافر ہو جائینگے ۔

ان فرقون کا عرفانی عقیدہ قدیم مصر ی لوگوں کے اوزیر لیس سے متعلق عقیدے سے مشابہ ہے یہ لوگ متعدد خداؤں کے قائل تھے ۔ لیکن آمون راکو دوسرے خداؤں سے بر تر خیال کرتے تھے اور مختصرا اسے آمون کہتے تھے مصریوں کے عقیدے کے مطابق آمون خداؤں کا خدا تھا لیکن اوزیریس جو موت کا خدا تھا اسکے باوجود کہ وہ آمون کے ما تحتوں میں سے تھا خداؤں کے خدا کے پاس اتنی طاقت ہونی چاہیے تھی کہ سب اسکے سامنے سر نگوں ہوتے ۔

جعفر صادق شیعہ مذہب میں متعدد فرقے پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے اگرچہ آ کے بعد کئی عرفانی فرقے پیدا ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے شیعہ مذہب کے اصول کی مخالفت نہیں کی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شیعوں کے درمیان پیدا ہونے والے عرفانی فرقے نے شیعہ نہ ہونے کا دعوی کیا ہو یا یہ کہا ہو کہ وہ اس مذہب کے آئمہ کا معتقد نہیں ہے ۔

حتی کہ اسماعیلیہ فرقہ ( یہ ایک مذہبی فرقہ تھا نہ کہ عرفانی ) جو جعفر صادق تک شیعوں کے تمام آئمہ کو برحق سمجھتا ہے اور شروع میں اسماعیلی فرقے کی مذہبی ثقافت کی بنیاد جعفر ی مذہب کی ثقافت پر تھی لیکن بعد میں جب اس فرقے میں توسیع ہوئی تو یہ چند مذہبی ثقافتی مکاتب میں تقسیم ہو گیا اسکے بعد کے ادوار میں حب جاہ و مال کی وجہ سے اسماعیلیوں میں تفرقہ پڑ گیا ۔ یہ تفرقہ اسماعیلیوں میں بدعات رائج ہونے کا سبب بنا ‘ وگرنہ اسماعیلیوں کی پہلی قوت جو بعد میں چند فرقوں میں بٹ گئی اس کا تعلق جعفر صادق کی مذہبی ثقافت سے تھا ۔

فاطمی خلفاء جنہوں نے ۲۶۷ سال حکومت کی ‘ انہوں نے جعفر صادق کی مذہبی ثقافت سے طاقت حاصل کی ‘ پہلی فاطمی خلیفہ عبید اللہ تھا جو شام میں شیعوں کا پیشوا شمار ہوتا تھا اور اس نے تیسری صدی ہجری کے دوسرے پچاس سالوں میں عباسی خلفا کی مانند اپنے آپ کو خلیفہ کہلوایا ۔ اس نے بعد میں لیبیا پر قبضہ کیا اور اسے اپنی خلافت کا مرکز قرار دیا ۔

بعض لوگوں کا خیال تھا کہ فاطمیوں کی خلافت ایک مقامی حکومت تھی جبکہ شیعہ فاطمی ایک شہنشاہیت وجود میں لائے تھے ۔ اور عبیدا للہ کے جانشینوں نے آہستہ آہستہ جنوبی اٹلی میں واقع جزیرہ سیسل اور عربستان کے مغربی حصے ‘ فلسطین شام اور مصر پر قبضہ جما لیا ۔ اسطرح قاہرہ کا شہر فاطمیوں کی شہنشاہیت کا دارالحکومت بن گیا ۔ لیکن فاطمیوں نے بدعت ایجاد کیا ور چھٹا فاطمی خلیفہ الحکیم چوتھی صدی ہجری کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران سختی سے عرفان سے مشغول ہو گیا لیکن یہ جعفر صادق کا عرفان نہیں ‘ بلکہ وہ عرفان جس میں وحدت وجود کا عقیدہ تھا ۔

وحدت وجود کے عرفانی عقیدے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس مکتب کے پیروکار کو عارف کہتے تھے کہ اگر ہم کہیں کہ خدا نے دنیاکو تخلیق کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ کسی نے خدا کو بھی تخلیق کیا ہوگا اور اس طرح وہ بھی دوسری مخلوق شمار ہوتی ہے اور یہچکر اور تسلسل ہر گز ختم نہیں ہوتا اور ہر خالق جس نے کسی چیز کو خلق کای ‘ ضرور اسے بھی کسی دوسرے نے تخلیق کیا ہے ۔

خدا کی شناخت کے معاملے میں یہ مشکل صرف اس صورت میں حل ہوتی ہے کہ خالق و مخلوق کی وحدت کا اقرار کیا جائے اور جب اس بات کے قائل ہو جائیں کہ خدا اور بشمول انسان کے جو کچھ اس نے تخلیق کیا ہے ایک ہی ہے اس صورت میں یہ سوال پیش نہیں آتا کہ خدا کو کس نے خلق کیا ہے چھٹا فاطمی خلیفہ عرفان میں کثرت مبالغہ کی وجہ سے اس فکر میں پڑ گیا کہ اپنے آپ کو خدا کہلوائے اور لوگوں سے کہے کہ وہ خداوند ہے ۔

اس ضمن میں ایک افسانہ بھی ملتا ہے کہ بعض لوگوں نے اس افسانے کو قدیم مصر کے فراعنہ میں سے کسی ایک سے منسوب کیا ہے جبکہ یہ افسانہ الحکیم سے مربطو ہے مختصرا اس طرح ہے کہ جب الحکیم نے خدائی کا دعوی کرنا چاہا تو اس کے وزیر نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ لوگ تمہاری ربوبیت کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن الحکیم نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے اور لوگوں کو بھی اسے خدا کہنا چاہیے ۔ وزیر نے کہا پس تم حکم دو کہ لوگ گندم کی بجائے باقلہ دال کی ایک قسم کا شت کریں گے گندم کا شت نہیں کریں گے سات سال بعد جب وزیر ایک پر پر سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک بڑے قد والا شخص اور ایک چھوٹے قد والے شخص سے لڑ رہا ہے وزیر ان دونوں کے قریب گیا اور انہیں چھڑا کر جھگڑے کا سبب دریافت کیا چھوٹے قد والے شخص نے کہا اس شخص نے میرے بیٹے کو مار ڈالا ہے وزیر نے بڑے قد والے شخص سے پوچھا کیا واقعی تو نے اس شخص کے بیٹے کو مار ڈالا ہے؟ اس شخص نے ایک نعل اپنی جیب سے نکالا اور کہا کہ میں نے یہ نعل گلی میں سے پایا ہے میرا خیال ہے کہ میں ایک گھوڑا خریدوں گا اور اس نعل کو اسکے سم میں نصب کروں گا اور اس گھوڑے کی باگ کو اسدروازے کی چوکھٹ کے ساتھ باندھو ں گا ۔

چھوٹے قد والے شخص نے کہا یہ دروازہ میرا ہے اور یہاں میرا گھر ہے اور میرا ارادہ ہے کہ شادی کروں گا ‘ پھر میرا بیٹا ہو گا ‘ بیٹا جب کھیلنے کیلئے گلی میں نکلے گا تو اس دروازے سے بندھا اس شخص کا گھوڑا اسے لات مار کر مار دے گا اس طرح اس چھوٹے قد والا شخص دوبارہ بڑے قد والے شخص پر برس پڑا ۔

وزیر نے ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑا اور الحکیم کے پاس جا کر کہا کہ اب تم خدائی کا دعوی کا کر سکتے ہو کیونکہ لوگوں نے سات سال تک گندم نہیں کھائی لہذا اب ان کی عقل زائل ہو گئی ہے جو بات اس روایت کے افسانہ ہونے کی نشاندہی کرتی ہے وہ عقل پر باقلا کا منفی اثر ہے جس میں صحت نہیں ہے کیونکہ باقلا کا زیادہ کھانے سے ممکن ہے صحت پر برا اثر پڑے لیکن اس سے عقل زائل نہیں ہوتی ۔

الحکیم نے خدائی دعوی کای اور اگر اس سے کسی نے دلیل چاہی تو اس نے جواب دیا کہ خداوند کائنات و مخلوق ایک ہی ہیں اور چونکہ میری خالق کے ساتھ وحدت ہے لہذا میں خدا ہوں اور آپ کو میریپرستش کرنا چاہیے کہا جاتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے فاطمی خلیفہ کو خدائی دعوی کرنے کی پاداش میں قتل کرنے کیلئے مصر پر یلغار کی اور قاہرہ پر قبضہ کر لیا لیکن الحکیم کے خدائی دعوی کرنے کیزمانے اور صلاح الدین ایوبی کے مصر میں داخلیکے زمانے میں ایک سو اکاون سال کا فاصلہ ہے اور صلاح الدین ایوبی الحکیم کے دعوی کرنے کے ایک سو اکاون سال بعد قاہرہ میں وارد ہوا لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فاطمیوں کی خلافت کی مشینری کا صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صفایا ہوا الحکیم روبیت کا دعوی کرنے کیلئے چندمراحل سے گزرا ۔

پہلے مرحلے میں اس نے وہی کچھ کیا جو اسکے ہم مسلک عرفا کہتے تھے اس نے یہ اظہار کیا کہ خالق و مخلوق ایک ہی ہے اور اس نے اس مرحلے سے تجاوز نہیں کیا اس کے بعد اس نے کہا کہ اس نے محسوس کیا ہے کہ خداوند نے اس کے اندر حلول کیا ہے اور یہ (اسکے بقول) کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ خداوند تعالی تمام مخلوقات میں موجود ہے لہذا وہ اس میں بھی ہے ۔

الحکیم نے آج کے شہرت طلب لوگوں کی رسم کے مطابق اپنے آپ کو مشہور کرنے کے پروپیگنڈے کیلئے مصر ‘ شام ‘ فلسطین اور ان تمام ممالک میں جو فاطمیوں کی شہنشاہیت میں آتے تھے ایک گروہ کو مامور کر دیا کہ خدا نے خلیفہ میں حلول کیا ہے یہ مہم چوتھی صدی ہجری کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران چلائی گئی یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی ممالک میں تصوف اور عرفان کے مسالک میں مشائخ اور اقطاب سے ہر زمانے سے زیادہ عقیدت پائی جاتی تھی ۔

چوتھی صدی ہجری اسلامی ممالک میں علمی ترقی کی صدی ہے لیکن اس علمی ترقی کے ساتھ ساتھ اقطاب و مشائخ سے عقیدت میں بھی توسیع ہوئی تعلیم یافتہ لوگ بھی تصوف اور عرفان کے فرقوں سے وابستہ ہو تاکہ دوسرے لوگوں سے پسماندہ نہ رہ جائے اس وقت یہ تصور تھا کہ اگر کوئی کسی عرفانی یا تصوف کے فرقے سے وابستہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمانے کی چال نہیں چلا یعنی بے مرشدا ہے۔

اس کے علاوہ جو باتیں اس زمانے کے لحاظ سے ضروری تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کوئی تصوف یا عرفان کے ایک فرقے کی رہبری کا دعوی کرتا اسکے لئے ضروری تھا کہ اسکے پاس کرامت بھی ہوتی اور اسکے پیروکار اس سے غیر معمولی باتیں دیکھیں اور یہ غیر معمولی باتیں تاریخی صورت میں نقل ہوتی تھیں اور اسے مسلسل ایسی باتیں ہوتی رہی تھیں اور کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ اس نے ایک پیر یا قطب میں ایک غیر معمولی بات پائیہے بلکہ یہ کہتا تھا کہ اس نے پچھلے زمانے میں اسطرح کیا ہے لیکن چونکہ اکثراقطاب اور مشائخ پرہیز گار اشخاص تھے ۔ جب ان کے پیروکار ان سے منسوب غیر معمولی باتیں سنتے تھے تو اگرچہ وہ اں کھوں سے نہ بھی دیکھتے تو قبول کر لیتے تھے ایک ایسے دور میں جب مختلف فرقوں کے مرشدوں کا کرامات دکھانا ایک عام بات تھی لوگوں نے جب سنا کہ خداوند نے خلیفہ میں حلول کیا ہے تو لوگ زیادہ حیران نہیں ہوئے اسکے بعد فاطمی خلیفہ روبیت کے اخری مرحلہ میں داخل ہوا اور علی الاعلان کہا کہ وہ خدا ہے اور لوگوں کو اسکی پرستش کرنا چاہیے ۔

پہلے اور دوسرے مرحلے میں جو کچھ الحکیم نے کہا وہ اس زمانے کے عارفوں کے نظریات کے مطابق تھا اور اسکی بنیاد وحدت وجود پر تھی لیکن جب الحکیم نے کہا کہ وہ خدا ہے اور لوگوں کو اسکی عبادت کرنا چاہیے تو لوگوں میں حیرت پیدا ہوئی اور نقادوں کی زبان کھل گی جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ الحکیم اور سارے فاطمی خلفا شیعہ تھے اور شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند تعالی آٹھ صفات ثبوتیہ رکھتا ہے اور اٹھ منفی صفات رکھتا ہے جنہیں صفات سلسیہ کہا جاتا ہے جنہوں نے خلیفہ پر اعتراض کیا انہوں نے کہا کہ خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک یہ ہے کہ وہ حی ہے یعنی کبھی نہیں مرے گا جبکہ خلیفہ حی نہیں ہے اور جب اسکی عمر پوری ہو جائیگی تو اس جہان سے کوچ کر جائے گا جبکہ اس تنقید سے پیچھے نہیں ہٹا اور کہا کہ حی (زندہ ) ہونے سے مقصود ہے کہ خداوند تعالی ہمیشہ سے ہے لیکن اسکے ہونے کی یہ دلیل نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی ہی نہیں آئے گی ۔ خداوندتعالی ہمیشہ سے ہے لیکن اسکے ہونے کی یہ دلیل نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی ہی نہیں آئیگی خداوند میں تبدیلی آتی ہے اور اس تبدیلی کوہم موت کی صورت میں دیکھتے ہیں لیکن ہماری موت حقیقی موت نہیں ہے بلکہ موت ایک ظاہری تبدیلی ہے اور میں حیہوں اور کبھی نہیں مروں گا جو کچھ آپ کی نظر میں موت ہو گی

وہ فقط میرے لباس میں تبدیلی ہو گی ‘ مخالفوں نے کہا کہ خداوند تعالی قادر ہے اور جو کچھ چاہے کر سکتا ہے پس خلیفہ کو بھی اس بات کا ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ وہ ہر کام کی قدرت رکھتا ہے ۔ خلیفہ نے مخالفوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ خداوند تعالی عالم ہے اور اس نے ہر چیز کی پیشنگوئی کر دی ہے جو کچھ انجام دینا چاہے تھا وہ اس نے انجام دیا ہے اور ابھی کوئی ایسا کام باقی نہیں رہا جسے انجام دینے کی ضرورت ہو لہذا آج اور آیندہ خداوند تعالی سے کوئی جدید کام نہیں دیکھا جائیگا اور یہ کہ خداوند کسی نا ممکن کام کو انجام نہیں دیتا اور کسی کو اس سے نا ممکن کام کی توقع نہیں رکھنی چاہیے خلیفہ سے کہا گیا کہ خداوند کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عالم ہے اور اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اور اگر خلیفہ خداوند ہے اور عالم بھی تو جو مسائل اس سے پوچھے جائیں ان کا جواب دے اور دوسری اقوام کی زبان میں بھی گفتگو کرے ۔ خلیفہ نے کہا خداوند کے عالم ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا اس علم سے بھی واقف ہو جس کت ہر ایک کی رسائی ہو ۔

خلیفہ بولا ‘ شرعی اور عرفی مسائل کا جواب دینا ‘ دوسری قوموں کی زبان میں کلام کرنا انسانی علوم کا حصہ ہے ‘ جبکہ خداوند کا اس سے کوئی تعلق نہین ہے ‘ خداوند تعالی اک علم وہ ہے جس سے انسان آگاہ نہیں ‘ اور نہ ہی اگہ ہو سکے گا اور میرا رتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ تمہارے شعری و عرفی مسائل کا جوبا دوں اور دوسری اقوام کی زبان سے گفتگو کروں ۔ کہا گیا کہ خلیفہ خداوند ہے ‘ اور علوم الہی سے آگاہ ‘ پس ان علوم میں سے کچھ ہمارے لے ارشاد کرے تاکہ ہم ان علوم سے بہرہ مند ہو سکیں خلیفہ نے کہا انسانی کان خداوند کے علمی اسرار کو سننے کے لائق نہیں اور انسانی عقل علوم الہی کا ادارک نہیں کر سکتی اور اگر میں اپنے علوم الہی کا ایک ذرہ آپ کے سامنے پرھوں تو آپ سب لوگ ایک لمحے میں مر جائیں ۔ لہذا کبھی اپنی زندگی میں میرے علوم سے مستفید ہونے کی توقع نہ رکھنا ۔

معتزلہ فرقہ کے مشائخ میں سے جس کا نام ابو طالب محمد بن خویر تھا‘ کہا اگر محبوب کی رفاقت میسر ائے تو جان قربان کرنے میں کیا مضائقہ ہے اور اگر خداوند تعالی اپنے علوم الہی میں سے کچھ حصہ مجھے سکھائے اور مجھے اسے آگاہ کرے تو میں خوشی خوشی اپنی جاں اس پر فدا کر دوں گا اور کہا جاتا ہے کہ جو کوئی حقیقت پا لیتا ہے مر جاتا ہے کیونکہ حقیقت اس قدر بڑی ‘ موثر اور روشن ہوتی ہے کہ آدمی حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا ۔

خلیفہ کہنے لگا اے محمد بن خویر ‘ میں تیری درخواست قبول کرتا ہوں اور تجھے اپنے علم کا ایک حصہ لکھواؤں گا لیکن یقین جان کہ تو مر جائے گا۔

محمد بن خویر ہر روز منتظر رہتا تھا کہ خلیفہ اسے بلائے گا اور اپنے الہی علوم سے آگاہ کرے گا لیکن الحکیم نے کبھی اس شخص کو حاضر ہونے کا حکم نہیں دیا ۔ حتی کہ محمد بن خویر کسی ناگہانی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گیا ۔ صبح جب خلیفہ کو اس کے مرنے کی اطلاع ملی تو الحکیمنے کہا میں نے اس سے کہا تھا کہ انسان جسم روح علم الہی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اگر میں اپنے علم کا تھوڑا سا حصہ اسے سکھاؤں تو وہ مر جائے گا جبکہ اسنے میرے علم الہی سے بہرہ مند ہونے پر مصر رہا اور اسی اصرار کی وجہ سے جان دے دی اس زمانے کے سادہ لوح لوگوں نے خلیفہ کے قول پر یقین کر لیا اس گروہ نے بھی جسے اس بات کا علم تھا کہ خلیفہ خدا نہیں ہے جو علم الہی رکھتا ہو اس زمانے کے تقاضے پیش نظر اسطرح اظہار کیا جیسے انہیں خلیفہ کی باتوں کا یقین ہو ۔ خلیفہ کے خدائی دعوے کے باوجود اسکی سلطنت میں بسنے والے شیعوں میں جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کی روح حکم فرما تھی اور ہم نے دیکھا کہ جعفری مذہب کی ثقافت کی خوبیوں میں سے ایک اظہار خیال کی آزادی تھیا ور کسی کو اس بات پر تکلیف نہیں پہنچائی جاتی تھی کہ وہ مذہبی مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیوں کرتا ہے ۔

قدرتی بات ہے کہ جو شخص خدائی کا دعوی کرے تو وہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس پر تنقید کریں اور اس سے خدائی کی دلیل طلب کریں لیکن چونکہ شیعہ ابھی تک جعفری مذہب کی ثقافتی آزادی سے بہرہ مند تھے لہذا الحکیم لوگوں کو تنقید کرنے سے نہیں روک سکتا تھا چنانچہ سابقہ روایت اسے لوگوں کی تنقید سننے سے مجبور کرتی تھی ۔

محمد بن خویر کی موت کے بعد تنقید ختم نہیں ہوئی اور لوگوں نے الحکیم سے چاہا کہ مردے کو زندہ کرے اور اس سے کہا گیا کہ خداوند اس بات پر قادر ہے کہ مردے کو زندگی بخشے اور خدا کے علاوہ کوئی بھی ایسی قدرت نہیں رکھتا ‘ اور اگر خلیفہ یہ چاہتا ہے کہ ہم اسکی خدائی پر ایمان لائیں تو اسے مردے کو زندہ کرنا ہو گا ۔ جو لوگ خلیفہ کی قدرت کا مظاہر ہ دیکھنے کے خواہشمند تھے انہوں نے الحکیم سے ایک گھاس بیچنے والے کے باپ کو مرے ہوئے تین سال ہو چکے تھے زندہ کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ اس شخص کا باپ چونکہ مرتے وقت لوگوں پرایسا حساب واضح نہیں کر سکا اور اس کی موت کے بعد اسکے بیٹے اور قرض خواہوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور اگر خلیفہ اس مردے کو زندہ کر دے تو صرف یہ کہ ہم خلیفہ کی خدائی قدرت کا مشاہدہ کر لیں گے بلکہ مذکورہ اختلاف بھی ختم ہو جائیگا کیونکہ مرنے والا زندہ ہونے کے بعد خود بتا دے گا کہ کس سے اس نے قرض لینا ہے اور کس کو قرض دینا ہے ۔ خلیفہ نے جستجو کی کہ اس گھاس بیچنے والے کی موت کے بعد اس کے بیٹے کیلئے کیا بچا ہے ؟ جب اسے معلوم ہو گیا کہ گھاس بیچنے کی دکان کے علاوہ بیٹے کیلئے کچھ پونجی ‘ شہر میں ایک مکان اور شہر کے باہر ایک باغ باقی بچا ہے تو کہا کہ میں تو مردے زندہ کر سکتا ہوں لیکن اس کا بیٹا اسکے زندہ ہونے پر خوش نہیں ہے کیونکہ اگر باپ زندہ ہو جائے گا تو بیٹا تین سال سے جس میراث پر بیٹھا ہے اسے وہ باپ کو واپس دینا پڑے گی جب گھاس بیچنے والے نے یہ بات سنی تو اس بات سے خوف کھا کر کہ کہیں خلیفہ اسکے باپ کو زندہ نہ کر دے اور وہ حاصل شدہ میراث سے ہاتھ دھو بیٹھے اس نے باپ کے قرض خواہوں سے صلح کر لی۔

لیکن وہ لوگ جو خلیفہ کی قدرت دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے خلیفہ سے مردے کو زندہ کرنے پر اصرار کیاجب الحکیم نے اپنے آپ کو دباؤ میں دیکھا تو کلام خدا کی غلط تفسیر بیان کی اور کہاکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ خدا نے آسمانی کتاب میں فرمایا ہے کہ وہ زندہ کو مردے سے خارج کرتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے مسلمانوں کے اس عقیدے اور خدا کے قول کے مطابق خداوند تعالی مسلسل زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکال سکتا ہے لیکن الحکیم نے کہا ‘ خداوند کے اس قول کے مطابق کبھی خداوندزندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور کبھی مردہ سے زندہ کو اور میں تمہاری تسلی کیلئے مردہ کو زندہ سے نکالتا ہوں ۔ تنقید کرنے والوں نے کہایہ کام تو سارے قصائی روز انجام دیتے ہیں اور مرنے والی بھیڑوں کو زندہ بھیڑوں سے نکال دیتے ہیں اگر خلیفہ حقیقی معنوں میں خداوند ہے تو اسے انسان یا کم از کم کسی حیوان کو بھی مرنے کے بعد زندہ کرنا چاہیے ۔ خلیفہ نے کہا کہ وہ یہ کام کسی خاص وقت پر کرے گا جس کا تعین بھی وہ خود کرے گا ۔ لیکن نقادوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسی طرح خلیفہ سے خدائی دعوی ثابت کرنے پر مصر رہے تو الحکیم اس تنقید سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جان چھڑانے کی خاطر جعفری مذہب کی ثقافت میں بد عت وجود میں لایا وہ یہ کہ مذہبی مسائل کے بارے میں آزاد بحث پر پابندی لگا دی ۔

جیسا کہ ہم نے تذکرہ کیا کہ جعفری مذہب میں ہر طرح کی آزادی مذہبی بحث ‘ شیعہ مذہب کا بنیادی رکن اور اسکی تقویت کا باعث تھا جو لوگ اعتراض کرتے تھے انہیں جعفر صادق اور ان کے بعد آپ کے شاگرد اور اسکے بعد ان کے دوسری اور تیسری نسل کے شاگردان لوگوں کو جوا ب دیتے تھے اور تمام شیعہ قلمرو میں کسی ایک با بصیرت انسان کو بھی مذہبی مسئلے پر اعتراض کرنے کی بنا پر تکلیف نہیں پہنچائی جاتی تھی ۔

الحکیم نے یہ آزادی چھین لی اور اس نے اپنے حکم کو شرعی حکم قرار دینے کیلئے کہا جو کوئی خدا کا منکر ہے اور خدا کے کاموں پر اعتراض کرتا ہے وہ مرتد اور واجب القتل ہے اور خداوند تعالی کی ثبوتیہ اور سلسیہ صفات کے بارے میں ہر قسم کی بحث منع ہے ۔

یہ پہلا قدم تھا جو الحکیم نے جعفری مذہب کی ثقافت کی آزادی کو محدود کرنے کیلئے اٹھایا اور اسکے بعد کسی کو جرات نہ ہوئی کہ خدائی دعوی کرنے والے کسی شخص کی صفات ثبوتیہ اور سلیہ کے بارے میں بحث کرے الحکیم کی یہ پابندی ان مسائل میں شامل ہو گئی جو خداوند تعالی کی صفات ثبوتیہ اور سلیہ سے متعلق تھے مختصر یہ کہ جو شیعہ الحکیم کی خلافت کی حدود میں رہ رہے تھے انہیں یہ حق حاصل تھا کہ توحید کے متعلق بحث کریں البتہ صرف اسی صورت میں جب وہ الحکیم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں اور اسکے دعوی کی تائید کرتے ہوں ۔

لیکن لوگ مذہب شیعہ کے متعلق تمام مسائل کے بارے میں بحث کرنے کیلئے آزاد تھے اور خلیفہ انہیں ان بحثوں پر آزاد نہیں پہنچاتاتھا ۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ حسن بن صباح نے دعوی کرنے سے پہلے الحکیم سے الہام لیا تھا وہ غلطی پر ہیں کیونکہ الحکیم کے خدای دعوی کرنے اور حسن بن صباح کے تعلیم ہاصل کرنے کیلئے مصر جانے کے درمیان اسی سال کا فاصلہ ہے الحکیمنے چوتھی صدی ہجری کے آخری میں خدائی کا دعوی کیاجبکہ حسن بن صباح پانچویں صدی ہجری کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران علم حاصل کرنے کیلئے مصر گیا اور جب الموت میں منتقل ہوا تو خدائی دعوی نہیں کیا اس نے الموت میں منتقل ہونے کے بعد پہلے چند سال مسلسل چلے میں گزارے اور دوسرا یہ کہ جب حسن بن صباح تعلیم حاصل کرنے کیلئے مصر میں منتقل ہوا تو اس نے قدیم ایرانی تاریخ سے آگاہی حاصل کی ۔

شاید قدیم ایرانی تاریخ سے آگاہی اس قدیم اسکندریہ کے علمی مکتب کی باقیات سے حاصل کی ہو یہ مکتب جو کسی تعریف کا محتاج نہیں اس نے قدیم یونان کے علم و ادب سے استفادہ کی یہی وجہ ہے کہ حسن بن صباح نے الموت میں قیام کے بعد جو تحریک شروع کی وہ صرف مذہبی نہ تھی بلکہ اسکا قومی پہلو بھی تھا اس صورت میں جب الحکیم کے خدائی دعوے اور حسن صباح کی تحریک جو بعد میں وجود میں ائی کوئی زیادہ فرق نہیں ہے اور یہ بات قابل قبول نہیں کہ حسن صباح نے الحکیم سے الہام لیا تھا ۔

سویڈن کی لوند یونیورسٹی کے مذہبی تاریخ کے شعبے کا استاد پروفیسر بریم کہتا ہے کہ الموت کے اسماعیلی ایرانی تاریخ سے دلچسپی رکھتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تحریک میں قومیت کا مسئلہ خاصی اہمیت کا حامل تھا ۔

ایک عرصے تک نقادوں کی زبان بند رہی لیکن جونہی خلیفہ نے نرمی اختیار کی ۔ وہ پھر چلانے لگے اور کہا کہ وہ خدا کی صفات ثبوتیہ و سلیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن خلیفہ ان صفات کے مصداق نہیں ہے اور ان کا اعتراض اسی موضوع کے بارے میں ہے نہ کہ توحید کے بارے میں کیونکہ کوئی بھی مسلمان خدا کی واحدانیت پر اعتراض نہیں کرتا جب خلیفہ سمجھ گیا کہ یہ چھوٹے چھوٹے اعتراضات بڑے اعتراضات کیلئے تمہیدبنیں گے تو اس نے پابندی لگائی کہ جو کوئی صفات ثبوتیہ اور سلیہ کی خلیفہ سے مطابقت پر معترض ہو گا وہ مرتد اور واجب القتل ہے اس پر جو زبانیں کھلنے والی تھیں یکسر ساکت ہو گئیں خلیفہ کی خرابی صحت کی بنا پر اس کی تنقید پر نگرانی سست پڑ گئی جو لوگ اعتراض کرنا چاہتے تھے لیکن وہ موت کے ڈر سے زبان کشائی نہیں کر سکتے تھے کہتے تھے کہ خَیفہ تو خدا ہے لہذا اس کابیٹا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آسمانی کتاب میں نہایت واضح الفاظ میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا نہ تو کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہو گا اسکے برعکس خلیفہ کے چند بیٹے تھے جس سے وہ انکار نہیں کر سکتا تھا اور جو محبت ہر باپ کو اپنے بیٹوں سے ہوتی ہے وہ اسکے انکار میں حائل تھی چونکہ وہ خدائی دعوے سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا اور نہ ہی اپنے بیٹوں کا انکار کر سکتا تھا کہنے لگا اگر خدا کا بیٹا ہو تو کیا حرج ہے کیا عیسی خدا کا بیٹا نہیں تھا اور کیا حدیث میں وارد نہیں ہوا کہ تمام بندے خدا کے بیٹے ہیں جو کچھ الحکیم نے عیسی کے بارے میں کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسائیوں کے عقائد کا ایک حصہ شیعوں کے مذہب میں داخل کر دیا اور جو لوگ اس کے باوجود کہ عیسی کوپیغمبر اور خدا کا بھیجا ہوا مانتے تھے یہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے شیعوں کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان بھی نہیں مانتا تھا کہ خدا کا بیٹا ہو سکتا ہے لیکن فاطمی خلیفہ الحکیم نے محض اس لئے کہ بیٹوں کی موجودگی اس کے خدائی دعوے میں حائل نہ ہو کہا کہ خدا کے بیٹے بھی ہو سکتے ہیں اور چونکہ خدا کی اولاد ہونا جائز ہے لہذا خدا کے بیٹے اس کے بعد خدا بن سکتے ہیں اس لحاظ سے الحکیم کی حب جاہ و بزرگی جعفری ثقافت کو اس کی خلافت میں زبردست ٹھیس پہنچانے کا باعث بنی ۔

لیکن یہ ٹھیس حقیقی اور روحانی پہلو کی حامل نہ تھی ۔ کیونکہ کوئی بھی عقلمند شیعہ اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیارنہ تھا کہ خلیفہ خدا ہے تمام شیعہ اس بات سے آگاہ تھے کہ اس کا دعوی بے بنیاد ہے لیکن جان بچانے یا روٹی کمانے کیلئییا ان دونوں چیزوں کیلئے وہ خاموشی رہنے پر مجبور تھے الحکیم نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر عقلمند طبقے نے اس کے خدائی دعوے پر خاموشی اختیار کی ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انہوں نے اس خدا تسلیم کر لیا ہے بلکہ انہوں نے محض خوف کی وجہ سے ایسی روش اختیار کی ہے پس اس نے اپنے خدائی دعوی کے عقیدہ کو لوگوں کے دلوں میں جا گزیں کرانے کیلئے جعفر صادق کی مانند مذہبی ثقافت وجود میں لانے کی ضرورت محسوس کی۔

یہی وجہ تھی کہ اس نے اہل علم و فضل حضرات کے ایک گروہ کو اپنی لائبریری میں جمع ہونے اور ایک دوسرے کے علم کی مدد سے خلیفہ کے خدائی دعوی کے ثبوت کیلئے ایک کتاب لکھنے پر ممور کیا تاکہ یہ کتاب اسکے پیروکاروں کا مذہبی سہارا قرار پائے بلکہ سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ الحکیم نے ایک گروہ کو قران کی مانند ایک ایسی کتاب لکھنے پر مامور کیا جو اسکے خدائی دعوی کو ثابت کرے۔

ہمیں اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ جن لوگوں کو اس کام پر مامور کیا گیا تھا کیا وہ خود یہ عقیدہ رکھتے تھے یا نہیں ؟

لیکن چونکہ یہ حصرات مسلمان ‘ شیعہ مذہب اور اہل علم تھے تب ہی تو خلیفہ نے انہیں یہ کام سونپا تھا لہذا ہم گمان نہیں کرتے کہ وہ لوگ دل سے اس کی خدائی کے قائل ہونگے ۔ خصوصا اس زمانے میں چونکہ خلیفہ بیمار بھی تھا حالانکہ خدا کو کبھی بیمار نہیں ہونا چاہیے اور تندرستی و بیماری ان مخلوقات کی صفات ہیں جوجسم رکھتی ہیں اور ماحول ان پر اثر انداز ہوتا ہے وہ غذا کھاتے ہیں اور ماحول کے اثرات یا کسی غذا کے ناگوار اثرات انہیں بیمار کرتے ہیں بعض کا قوال ہے کہ الحکیم نے جب تسلیم کر لیا کہ خداوند تعالی اک بیٹا بھی ہو سکتا ہے جسطرح عیسی خدا کا بیٹا تھا تو اس کے بعد اس نے عیسائیوں کیلئے بیت المقدس کی زیاات آزاد کر دیں اس نظریئے کی تصحیح کی ضرورت ہے اور یہ جاننا چاہیے کہ جب فاطمی خلفاء نے شہنشاہیت بنا لی اور فلسطین سمیت چند ممالک بھی ان کے زیر نگین آ گئے تو انہوں نے بیت المقدس کے مقامات مقدسہ کو عیسائیوں کیلئے ازاد کر دیا اور اس سلسلے میں ان سے کوئی معاوضہ وغیرہ بھی طلب نہیں کای جاتا تھا عیسائی زائرین پر بیت المقدس جانے کی پابندی اس وقت عائد ہوئی تھی جب سلجوقیوں نے فلسطین پر تسلط حاصل کر لیا اور جو نہی انہوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو عیسائی زائرین پر ٹیکس لگا دیا جسکی مقدار اتنی بڑھا دی گئی کہ ایک عیسائی زائر کیلئے اسکی ادائیگی ایک بوجھ بن گیا ۔

۱۰۹۵ ء میں عیسائی کلیسا سے پا پ اور بن دوم نے کیتھولکی مذہب کے ایک بڑے اجلاس میں جو کلر مون شہر میں منعقد ہوا کہا آج ایک فرانسیسی زائر جب زیارت کیلئے جاتا ہے تو اسے آنے اور جانے کا تین گنا زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور اگر ٹیکس میں سے ایک پیسہ بھی کم ہو تو اسے زیارت کی اجازت نہیں دی جاتی اور عیسائیوں کو آزادانہ طور پر بیت المقدس آنے جانے کیلئے جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے پوپ ہی تھا جو پہلی صلیبی جنگ کا باعث بنا ‘ اور اسی سال ۱۰۹۵ ء میں کیتھولکی مذہب کی عظیم کونسل کلر مون میں تشکیل دی گئی تھی ۔ اوربن دوم نے سلجوقیوں کے خلاف جنگ کیلئے ایک فوج بھیجی ۔ اس فوج کے آنے جانے میں ۱۰۹۹ ء تک کا طویل عرصہ لگا ‘ لیکن یہ فوج سلجوقیوں سے بری طرح شکست کھا کر اپنے بچے کچھے اور بے حال افراد کے ساتھ واپس ہو گئی اس جنگ کو یورپ کی تاریخ میں پہلی صلیبی جنگ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں شریک تمام عیسائیوں نے اپنے لباس پر کڑے سے صلیب کا نشان سی رکھا تھا اور عیسائیوں نے ا پہلی صلیبی جنگ سے کافی تلخ تجربات حاصل کئے بعض تجربات کی روشنی میں انہوں نے بعدکی صلیبی جنگیں لڑیں ۔ بہر حال فاطمی خلفاء کے زمانے میں جب تک فلسطین پر سلجوقیوں کا قبضہ ہو اتھا کوئی عیسائی زائرین کو بیت المقدس میں داخل ہونے سے منع نہ کرتا تھا اور نہ ہی ان سے ٹیکس طلب کیا جاتا تھا ۔

الحکیم کے متعلق اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا خدائی دعوی بھی جعفری مذہب کی ثقافت کو اس قدر متزلزل نہیں کر سکا کہ جعفری مذہب سرے سے نابود ہو جاتا اور اسکی عمر نے بھی اتنی وفا نہ کی کہ وہ اپنے خدائی دعوے کے ثبوت میں اپنی کتاب کی تکمیل کرتا ہمیں معلوم نہیں کہ کتاب کا کچھ حصہ جو الحکیم کی زندگی کے دوران لکھا گیا تھا وہ کیا ہوا ؟ الحکیم کے دور کی ایک اصطلاح قیامتہ القیامہ باقی رہ گئی کہ جب حسن بن صباح نے الموت میں اپنی تحریک کا آغاز کیا تو اس نے اس اصطلاح سے فائدہ اٹھایا ۔

الحکیم کا مقصد یہ تھا کہ جونہی اسکی کتاب اسکی خدائی کی تصدیق کریگی ۔ وہ قیامتہ القیامہ تحریک کا اعلان کر دے گا ۔ وہ اس معنی میں کہ دنیا تبدیل ہو گئی ہے اور کائنات میں ایک نئے دور کا آغاز ہونیوالا ہے اور اس دور میں اسکی خدائی پر مہر تصدیق ثبت ہو چکی ہے اور تمام لوگوں کو اسے خدا تسلیم کرنا چاہیے اسکی کتاب جو اس کی خدائی کی تصدیق کرے گی قرآن کی جگہ لے گی ۔

لیکن الحکیم کی موت کے ساتھ ہی یہ سارا پروگرام چوپٹ ہو گیا اگرچہ الحکیم کی وفات کے بعد فاطمی خلفاء نے اپنی بڑائی میں مبالغے سے کام لیا لیکن ان میں سے کسی نے خدائی دعوی نہیں کیا۔

جب حسن بن صباح نے پانچویں صدی ہجری کے دوسری پچاس سالون کے دوران الموت میں اپنی تحریک کا اغاز کیا تو اس نے قیامتہ القیامہ کا اعلان کرنے پر توجہ دی تاکہ لوگ یہ جانیں کہ کائنات میں ایک جدید دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔