مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 43378
ڈاؤنلوڈ: 4103

تبصرے:

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43378 / ڈاؤنلوڈ: 4103
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

جعفری ثقافت میں تصور "زمانہ "

جن مسائل پر جعفری ثقافت میں بحث ہوئی تھی ان میں اایک زمانہ بھی تھا ۔ جعفری صادق جو حکمت کا درس دیتے تھے ‘ زمانے کے بارے میں بھی بہت سے مسائل پر اظہار خیال کرتے تھے جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ فلسفے میں زمانے کے متعلق بحث ‘ قدیم بحثوں میں سے ہے اور قدیم یونان میں یہ موضوع حکیموں کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے اور آج تک اس کے متعلق بحث کا خاتمہ نہیں ہو اقدیم یونان کے فلسفیوں کے ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ زمانہ وجود نہیں رکھتا اور ان میں سے بعض زمانے کے وجود کے قائل تھے ۔

جو لوگ زمانے کے وجود کے منکر تھے ان کے بقول زمانے کا ذاتی وجود نہیں ہے بلکہ دو حرکتوں کے درمیانی فاصلے کا نام ہے اور اگر انسان کی مانند ایک ذی شعوری اور حساس وجود اس فاصلے کا احساس نہیں ہوتا ۔ اور ایک بے حس اور بے شعور وجود کو تو دو حرکتوں کے درمیانی فاصلے کا احساس بھی نہیں ہوتا کیا جانور زمانیکے وجود کا احساس کرتے ہیں ؟ یونانی حکماء کے بقول اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ جانور یا ان کی بعض اقسام زمانے کا احساس کرتی ہیں کیونکہ وہ وقت کی پہچان کر سکتے ہیں اور اگر زمانے کا احساس نہ کریں تو وقت کی پہچان نہیں کر سکتے ان کی وقت کی پہچان شاید بھوک یا دن کے نکلنییا سورج کے غروب ہونے کی بنا پر ہو لیکن بہر حال جانوروں کی بعض اقسام کے بارے میں ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وہ وقت کی شناخت کر سکتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ زمانے کا احساس کرتے ہیں ۔

یونانی فلسفہ نے زمانے کی بذاتہ عدم موجودگی کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل پیش کئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جیسا انسان کے ہوش و حواس کھو جاتی ہیں تو وہ زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کرتا اور اگر چند دن و رات تک بے ہوش رہے اور پھر جو وہ ہوش میں آئے تو اسے یہ بات بھی نہیں یاد آ سکتی کہ وہ کتنا عرصہ بے ہوش رہا ۔ اور اگربذاتہ زمانے کا ووجود ہوتا تو جب انسان ہوش و حواس میں آتا ہے تو اسے یہ بھی جاننا چاہیے تھا کہ وہ کتنی مدت بے ہوش رہا اور گہری نیند سو جائے تو بھی جاگنے کیبعد محسوس نہیں کر سکتا کہ وہ کسی قدر سویا ہے ؟ البتہ دن کو سورج اور رات کو ستاروں کو دیکھ کر یہ معلوم کیاجا سکتا ہے کہ کس قدر نیند کی ہے ؟

زمانے کی موجودگی پر دلائل دینے والوں کا کہنا ہے کہ زمانہ بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل ہے یہ ذات اس قدر چھوٹے ہیں کہ ہم زمانے کی موجودگی کا احساس بھی نہیں کر سکتے ہمارے حواس خمسہ ان ذرات کا احساس کرنے پر قادر نہیں ہیں ۔

زمانے کے ذرات مسلسل حرکت کر رہے ہیں وہ ایک طرف سے آتے ہیں اور دوسری طرف نکل جاتے ہیں اور ہم اگرچہ ان کے گزرنے کا احساس کرتے ہیں اور اس بات کو اچھی طرح درک کرتے ہیں کہ بچپن سے نوجوانی اور پھر جوانی اور اس کے بعد بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں اور زمانے کے گزرنے کا احساس ہمیں ہمارے ارد گرد کے جانوروں اور درختوں میں رو نما ہونے والیتبدیلیوں سے بھی ہوتاہے ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہماری بیٹے جو پہلے دودھ پیتے تھے ‘ بڑے ہو گئے اور انہوں نے اپنا قدم جوانی کے مرحلے میں رکھا ‘ اسی طرح بھیڑی کا بچہ پہلے چھوٹا سا ہوتا ہے ھپر وہ بڑا ہو جات اہے اس ضمن میں درخت کے پودے کی مثال بھی دی جا سکتی کہ وہ پہلے ایک چھوٹا سا پودا ہوتا ہے اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑا تن آور درخت بن جاتا ہے مانے کی دوسری قسم وہ ہے جس کے ذرات حرکت نہیں کرتے اور خاکی یا وہ ذرات جو کسی نہر کی تہہ میں پڑے ۔ہوتے ہیں باقی رہتے ہیں ۔اس قسم کا زمانہ متحرک ہی نہیں ہوتا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے اس بے حرکت اور ٹھہرے ہوئے زمانے کو ابدیت کا نام دیا جاتا ہے ۔

قدیم یونانی فلاسفر کے عقیدے کے مطابق ابدیت ‘ خداؤں کا زمانہ ہے اور متحرک زمانہ انسان سمیت تمام موجودات کا زمانہ ہے چونکہ زمانہ خداؤں کیلئے ساکنا ور بے حرکت ہے لہذا ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ لیکن درخت ‘ جاندار اور انسان متحرک زمانے میں ہیں لہذا ان میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور کسی صورت میں بھی ان میں واقع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کو روکنا محال ہے اور جب حرکت اور ساکن زمانے سے بہرہ مند ہوں گے کیا یہ ممکن ہے کہ اتفاق سے ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو یعنی پودے و جاندار ساکن زمانے سے بہرہ مند ہو جائیں دوسری لفظوں میں پودے اور انسان سمیت تمام جاندار خدا بن جائیں اس بارے میں ۔۔۔

یونانی حکما کا جواب مثبت ہے اور یہ وہی یونانی عرفان ہے جسکے بعض یونانی حکما معتقد تھے وہ اپنے آپ کو خداؤں کے برابر کرنا چاہتے تھے ان میں سے ہر ایک نے اپنے مقصد کے حصول کیلئے ایک راستہ اختیار کیا مثلا مشہور ایوانی فلسفے کی ابتدا کرنے والا زنون ‘ نفس کے کچلنے اور ہھوی اور ہوس کو مارنے کو خداؤں کید رجے تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتا تھا (اسکے فلسفے کو ایوانی اس لئے کہا جاتاہے کہ وہ ایتھنز میں ایوان میں د رس دیتا تھا )

اس نے کہا تھا ایتھنز جیسے جمہوری ملک میں صرف قانون کی وساطت سے ازادی حاصل نہیں کی جا سکتی اورآزادی تو اس وقت میسر آ سکتی ہے جب لوگ جہاد اکبرکریں ۔ یعنی جہاد بالنفس کریں اور جب نفس کچل دیا جائے اور سر کش لوگوں کی ھوی و ہوس انہیں دوسری لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق پر ڈاکہ نہ ڈلانے دے تو تمام لوگ آزادی سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ۔

اسی طرح ایک دوسرا حکیم جو زنون کے ایک سو پچاس سال پہلے اس دنیامیں آیا ‘ اور اس نے ۲۷۰ قبل مسیح میں اس دنیا سے کوچ کیا اس کے بقول انسان کو تمام لذات سے بہرہ مند ہونا چاہیے لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے تب ہی انسان خدئاوں کا رتبہ حاصل کرسکتا ہے۔

اپیکور کا ہم عصر ایک دوسرا فلسفی جس کا نام دیوژن ہے اس کے بقول خداؤں کے ربتے تک رسائی حاصل کرنے کیلئے انسان کو تمام اشیاء سے ہاتھ دھو کر ایک گوشے میں بیٹھ جانا چاہیے تب ہی انسان غیر متحرک زمانے تک رسائی حاصل کرکے خداؤں کا رتبہ پا سکتا ہے ایک دن اس نے ایک لڑکے کو اپنے دو ہاتھوں سے پانی پیتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنا لکڑی کا پیالہ دور پھینک دیا اور کہنے لگا یہ دنیاوی اسباب میں سے ہے لہذا خدؤں سے پیوستگی میں مانع ہے ۔

جو نکتہ یہاں پر سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ یونان اور مشرقی ممالک میں خدئاوں تک رسائی حاصل کرنے میں جس چیز پر زور دیا گیاہے وہ ھوائے نفس سے روکنا ہے اس لحاظ سے قدیم یونانا ور قدیم مشرق میں کوئی فرق نہیں ‘ فرق صرف نفسانی خواہشات کو روکنے کے معیار میں ہے ۔ دیوژن جیسے بعض یونانی عارفوں نے شرمگاہ کو ڈھانپنے والے کپڑے کے علاوہ باقی لباس کو بھی خداؤں سے پیوستگی میں رکاوٹ قرار دیا ہے یہ فکر کیسے وجود میں آئی کہ یونان اور مشرق میں ایک ہی صورت میں ظاہر ہوئی؟ ہمیں معلومہے کہ ہنا منشیوں سے پہلے یونان اور مشرق میں ثقافتی رابطہ نہ تھا اس رابطے کا آغاز ہنامنشی حکمرانو کے دور سے ہو لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا کا درجہ حاصل کرنے کیلئے جہاد بالنفس کی فکر مشرق سے یونان گئی یا یونان سے مشرق میں آئی اس قسم کی سوچ جس میں کنفیوشس ہندوستان میں بدھ ‘ زردشت کی ایران میں تحقیقی تعلیمات میں نہیں پائی جاتی ۔ اور انہوں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ اگر آپ خدائی رتبہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو اپنے نفس کو کچل ڈالیں بلکہ یہ سوچ یونان اور مشرق کے عرفانی مکاتب میں کسی ثقافتی اور فکر رابطے کے بغیر ہی پیدا ہوئی کیا اس موضوع سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ عرفانی سوچ تمام مفادات پر ان لوگوں میں پیداء ہوئی جو دنیاوی طاقت کے حامل نہیں تھے ۔ اور اپنے آپ کو ضعیف سمجھتے تھے اور اسی لئے کہتے تھے خداوند سے پیوستہ ہونے کا راستہ نفسانی خواہشات کی نفسی اور جہاد بالنفس ہے اور اگر عرفان کے طالب دنیاوی لحاظ سے طاقت ور ہوتے تو خداوند تعالی سے وابستہ ہونے کیلئے کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرتے ۔

لیکن ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہبعض اہل عرفان دنیاوی طاقت بھی رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نفس امارہ پر کنٹرول کرتے تھے لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ خداوند تعالیس ے متصل ہونے کیلئیاپنے نفسانی خواہش کو زیر کرنا اور نفس کے خلاف جہاد کرنا صرف مادی لحاظ سے کمزور لوگوں کا خاصہ رہا ہے ۔

بعد میں انے والے ادوار میں حکما زمانے کے وجود کے منکر ہوگے اور انیسویں صدی میں یہ انکار یورپ کے عام سکالرز میں پیدا ہوا اور انہوں نے کہا کہ زمانہ موجود ہی نہیں جو کچھ ہے وہ مکان ہی ہے ۔

ایک گروہ مکان کا منکر ہو گیا اور کہنے لگا ‘ مکان بذاتہ وجود نہیں رکھتا اور اس کا وجود مادی ہے اگر مادہ موجود ہے تو مکان بھی ہے اگر مادہ موجود نہیں تو مکان بھی نہیں ‘ عام لوگوں کی نظر میں یہ نظریہ احساسات کا انکار تھا اور ہے جو شخص کسی ایسی کمریمیں جو چند میٹر لمبا اور چوڑا ہے بیٹھا ہوا ہے اور احساس کر رہا ہے کہ وہ ایک مکان ہے تو وہ اس مکان کی موجودگی کا ہر گز انکار نہیں کر سکتا ۔

جب ایک دانشور سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر مکان وجود نہیں رکھتا تو کیسے یہ ہوائی جہاز دنیا کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک اتنی تیزی رفتاریس ے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں ة اگر مکان نہیں ہے تو یہ کس میں پرواز کرتے ہیں ؟وہ جوابا کہتا ہے کہ وہ مادے میں پرواز کرتے ہیں ۔

عام ذہنوں اور سطحی احساسات کے حامل افرد کو یہ باور کرانا مشکل ہے کہ آج کل جو راکٹ مریخ یا زہرہ کی طرف جاتے ہیں ‘ مادے میں سے پروازکرتے ہیں کیونکہ شاید زمین سے دو ہزار یا تین ہزار کلو میٹر کی بلندی تک تو ہوا کے ذرات موجود ہوں گے لیکن اس کے بعد ہوا کے ذرات نہیں ہیں اور جس فضا میں راکٹ سفر کرتے ہیں وہاں پرخلا ہے اور کوئی چیز نہیں پائی جاتی سوائے شعاعوں کے مثلا روشنی کی برقی اور مقناطیسی اور قوت کشش کی شعاعیں پائی جاتی ہیں وہاں پر مادے کے کوئی آثار نہیں ملتے کہ یہ راکٹ اس میں سے گزریں ۔

لیکن وہ سائنس دان جو مکان کے وجود کے مخلافہیں ان کے بقول یہ خلا جس میں رکٹ پرواز کر رہے ہیں ایٹم کے مرکزی اور الیکٹرانوں کے درمیان فاصلے کی مانند ہے ایٹم اور الیکٹرانوں کے درمیان فاصلے کی لمبائی کو سورج اور سیاروں کے درمیانی فاصلے سے نسبت ہے ۔

اسی طرح جو فصالہ زمینا ور سورج زہرہ اور سوج وغیرہ کے درمیان موجود ہے مادے کا جزو ہے اور اس کے زجو مادہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ قوت جاذبہ (قوت کشش) اس سے گزرتی ہے اور قوت جاذبہ مادے سے اور مادہ قوت جاذبہ سے جدا نہیں ہے اس نظریہ میں جیسا کہ ہم مشادہ کرتے ہیں توانائی اور مادے کا درمیانی فرق ختم ہو جاتا ہیا ور ہر دو ایک ہی سمجھے جاتے ہیں کیونکہاس بات کو نہایت صراحت سے یہاں بیانکر دیا گیا ہے کہ قوت جاذبہ مادہ ہے اور مادہ و قوت جاذبہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی سے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مادہا ور توانائی ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں لیکن مادے کی خصوصیات کو توانائی کی خصوصیات سے مختلف سمجھتے ہیں جدید فزکس میں امدے اور توانائی کی تعریف اس قدر مشکل ہو گئی ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا مادہ کای ہے اور توانائی کیا ہے ؟

بیسویں صدی کے آغاز تک یہ کہا جاتا رہا کہ مادہ ‘ کثیر مقدار میں جمع شدہ توانائی کا نام ہے اور اسی طرح توانائی امدے کی لہروں کا نام ہے لیکن اج کل ہر تعریف مادے اور توانائی کی وضاحت کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کیونکہ جب قوت تجاذب وہی مادہ بن جاتا ہے جو آج تک ایک کثری مقدار میں توانائی اور لہروں کے عالوہ کسی چیز کی حیثیت سے پہچانا چجاتا تھا وہی آج لہروں کی صورت اختیار کرکے لامتناہی بن جاتا ہے اور ہم اس تعریف کے ساتھ نا گزیر قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ کائنات میں مادے کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے اور جہاز اور مصنوعی راکٹ مادے میں پرواز کر رہے ہیں لیکن یہ بات ابھی تھیوری کے مراحل میں ہے کہ مکان کا کوئی وجود نہیں اور جو کچھ ہی مادہ ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قوت جاذبہ کی لہروں کی تیزی میں سیارہ لا متناہی ہو جات اہے اور اس نظرہ کی بنید پر مادہ لا متناہی ہے ۔

جن لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ کائنات میں مکان کا وجود نہیں اور جو کچھ ہے مادہ ہے ان کے اس نظریئے کی وضاحت کیلئے ایک دوسری مثال دیتے ہیں کہا جاتا ہے کہ کائنات میں اندازا ایک لاکھ کہکشائیں موجود ہیں یہ بھی ایک اندازہ ہے ممکن ہے کہکشاؤں کی اصلی تعداد اس سے دو گنا یا تین گنا زیادہ ہو ان کہکشاؤن نے اپنی جسامت کے لحاظ سے کائنات میں جگہ گھیری ہوئی ہوئی ہے اب ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک ہزار ملین کہکشائیں اور وجود میں آتی ہیں جبکہ ہامری عقل کہتی ہے کہ اس میں ایک ہزار ملین کہکشاؤں کیلئے مزید جگہ نہیں ہے کیونکہ جس قدر جگہ تھی وہی پہلے سے موجود کہکشاؤں نے پر کر لی ہے اور کائنات کی مثال تماشا خانے کے اس ہال کی ہے جس میں تماشائیوں نے ساری کرسیاں پر کر دی ہیں اور کسی نئے انے والے تماشائی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے اور کرسیاں بھی کچھ اس طرح ہیں کہ دو تماشائی ایک کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے لیکن وہ لوگ جن کے بقول کائنات میں مکان نہیں ہے اور جو ہے وہ مادہ ہیان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس مسئلے سے کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی کیونکہ جونہی ایک ہزار ملین فالتو کہکشاں وجود میں آئیں گی ان کیلئے مکان بھی وجود میں آ جائے گا اور کہکشاؤں کا مکان وہی مادہ ہے جو انہیں وجود میں لاتا ہے ان فزکس دانوں کے عقیدے کے مطابق لا متناہی کائنات میں مادے کی کچھ مقدار اگر موجودہ مادے پربڑھا دی جائے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جب ہم کسی ایسے تماشا خانے کے ہال کا تصور کرتے ہیں جن کا طول اور عرض اور بلندی لا محدود ہو اور اس کی کرسیوں کی تعداد بھی لا محدود ہو اگر ایک ملین تماشائی کا موجودہ تماشائیوں پر اضافہ کر دیا جائے تو کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اور ان کے بعد آنے والے ایک ملین یا ایک ہزار ملین مزید تماشائیوں کیلئے جگہ ہے ۔

عام عقل کے حامل لوگوں اور ان لوگں کے درمیان جو یہ کہتے ہیں کہ مکان موجود نہیں ہے اور جو کچھ ہے مادہ ہے ان دو طرح کے لوگوں کی سمجھ میں فرق یہ ہے کہ عام عقل رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے مکان موجود ہوتا کہ اس میں کہکشاں وجود میں آئیا ور جو مکان کی عدم وجود کے حامی ہیں ان کا خیال ہے کہ جو کہکشاں وجود میں آئے گی وہی مکان ہو گیا س پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم طول و عرض اور اونچائی (یا ضخامت ) کی گہرائی میں جائیں تو ہم محسوس کریں گے کہاگر ایک شعور طویل کو محسوس کر لیتا ہے تو اس کیلئے عرض کی گہرائی کو درک کرنا محال ہیاور ایک مربع جو طول و عرض پر مشتمل ہے یا ایک دائرہ دونوں آپ کیلئے بے معنی ہیں کیونکہ حقائق کا ادراک مشکل ہے وہ صحیح معنوں میں طول یا عرض کی تعریف نہیں کر سکتا ۔

اگر فرض کریں وہ طول و عرض کو مہسوس کر لیتا ہے اور ایک مربع یا دائرے کو سمجھ سکتا ہے کہ وہ کیسے ہے ؟ لیکن اس کیلئے یہ سمجھنا محال ہو گا کہ ایک آنکھ جو طول اور عرضاور بلندی پر مشتمل ہے ایک کریٹ یا ایک ویگن سے کہاں نسبت رکھتی ہے ؟

اس قیاس کی بنا پر ہم عام انسان جو کسی چیز کو تین اطراف سے ماپ سکتے ہیں جوتھی طرف کو محسوس نہیں کر سکتے جب کہ ریاضی دانوں نے چوتھی طرف کا وجود بھی ثابت کیا ہے چونکہ چوتھی طرف کے وجود کے قائل ہیں لہذا پانچویں اور چھٹی طرف کے بھی قائل ہوں گے لیکن تین اطراف کی کمیت رکھنے والی چیزوں کی مانند ان کے وجود کو سننے والے اور پڑھنے والے کیلے مجسم صورت میں نہیں پیش کر سکتے جب سے انسان عملی طور پر خلا میں گیا ہے مادے کے بارے میں اس کی معلومات میں اضافہ ہوا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جتنے اجسام موجود ہیں ان سے مسلسل انفرا ریڈریز خارج ہو رہی ہیں جب کہ اس سے پہلے یہ تصور پایا جاتا تھا کہ مذکورہ شعاعیں صرف گرم چیزوں سے خارج ہور رہی ہیں زمین کے گرد گھومنے والے مصنوعی سیارہ کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی سے بھی مسلسل مذکورہ شعاعیں خارج ہو رہی ہیں ۔

سائنسی تحقیقات سے لیبارتریوں میں یہ بات پاہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اگر کسی چیز کو سرد خانے میں رکھ دیا جائے تو بھی وہ سردی کے مطلق صفر درجہ تک یہ شعاعیں خارج کرتا رہتا ہے لیکن جونہیسردی کا مطلق صفر درجہ پہنچتا ہے یہ شعاعیں خارج ہونا بند ہو جاتی ہیں مطلق صفر وہ درجہ ہے جہاں پر مالیکیول کی حرکت رک جاتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ رات کو ان دور بینوں کے ذریعے جو انفرا ریڈ ریز کو دیکھتی ہیں عام چیزیں نظر اتی ہیں اور جن لوگوں کے پاس یہ دور بینہوتیہے ان سے کوئی چیز نہیں چھپ سکتیا ور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ زندہ جانوروں یا پودوں سے یہ شعاعیں مردہ جانوروں یا پودوں کی نسبت زیادہ خارج ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جنگ کیمحاذوں پر ٹینک یا توپ یا بکتر بند گاڑیوں کو درختوں یا پودوں کی مدد سے ا س دشمن سے نہیں چھپایا جا سکتا جس کے پاس چیزوں کو ان کی انفر ریڈ ریز کی مدد سے دیکھنے والی دور بین ہو کیونکہ دشمن مذکورہ دور بین سے درختوں کی تمام شاخوں کو انفرا ریڈ ریز خارج کرنے کی بنا پر دیکھ لیت اہے دشمن دیھکتا ہے کہ درختوں کی شاخیں اپنی جروں سے نہیں ملی ہوتیں تو وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ شاخیں ضرور کسی ٹینک یا بکتر بند گاری کو چھپانے کیلئے ڈالی گئی ہیں ۔

اسی طرح آج کے دور میں فوجیوں کو بھی میدان جنگ میں مذکورہ دور بین رکھنے والے دشمن کی جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں تمام اجسام سے انفر ریڈ ریز خارج ہوتی ہیں البتہ صرف ان اجسام سے یہ شعاعیں خارج نہیں ہوتیں جن کا جسم مطلق صفر درجے تک ٹھنڈا ہو مطلق صفر درجے تک کی سردی کو ۲۷۳ درجے سینٹی گرید یا ۴۵۹ درجہ فارن ہائیٹ کے مساوی مانا جات اہے اس درجے تک کی سردی کو ابھی تک سائنس دان دباؤ میں اضافہ کرنے کے باوجود وجود میں نہیں لا سکے البتہ لیبارٹریز میں ابھی تک اس پر ریسرچ جاری ہے ۔

اس دنیا کی لیبارٹریز منفی ۲۲۰ ( دو سو بیس درجے ) سینٹی گریڈ تک کی سردی کو حاصل کر سکی ہیں ۔لیکن اس سے زیادہ ٹھنڈک پیدا کرنے میں انہین کافی زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا کیونکہ صرف دس درجے ٹھنڈ حاصل کرنے کیلئے انہیں برے بڑے وسائل سے کام لینا پڑتا ہے تاکہ وہ یہ جانیں کہ مالیکیول کا مکمل طور پر جامد رکھنا اجسام پر کیا اثر ڈالتا ہے ة اور کیا مالیکیولوں کا جامد ہونا ایٹم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ؟ اس بات کے زیر اثر کہ چونکہ مادے کی شناخت ابھی ترقی کے مراحل میں ہے یہ خیال آتا ہے کہ جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات ایک لا متناہی مادہ کے سوا کچھ نہیں کہ جو کچھ ہمیں خلا نظر آتی ہے وہ مادے کے موجیں مارنے کا زمانہ ہے ‘ ان کا یہ عقیدہ بے بنیاد نہیں اور ان کے قول کے نتیجے میں کہا جا سکتا ہے اور جو کچھ موجود ہے وہ مادہ ہی ہے شاید یہ بات بے بنیاد نہ ہو لیکن جب تک یہ تھیوری علمی قانون کی شکل اختیار نہیں کر لیتی اسے قبول نہیں کیا جا سکتا موجودہ فزکس دانوں میں سے ایک ایزاک آسیموف ہیں جو روس میں پیداہوئے اور بعد میں امریکہ ہجرت کر گئے اور آج کل وہ امریکہ کے شہری ہیں انہوں نے مکان کیبارے میں ایک جدید نظریہ پیش کیا جسے علمی اصطلاحوں اور ریاضی کیفارمولوں کی مدد سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے مکان مادے اور اس کی شاعوں سے عبارت ہیوہ اس ترتیب کے ساتھ کہ مادہ ایٹم کے مرکزے یا مجموعی طور پر ایٹموں کے مرکزوں کا نام ہے اس مرکزے سے مسلسل شعاعیں خارج ہوتی جاتی ہیں جب یہ شعاعیں مرکزے سے قریب ہوتیں ہیں تو ان پر مرکزے کی گرفت سخت ہوتی ہے لیکن جوں جون یہ مرکزے سے دور ہوتی جاتی ہیں تو ان پر مرکزے کی گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے البتہ ان کی رفتار کم نہیں ہوتی ہم ایک مرکزے کو چراغ سے تشبیہ دے سکتے ہیں کہ چراغ کے قریب روشنی کافی زیادہ ہوتی ہے لیکن جون جون یہ روشنی چراغ سے دور ہوتی جاتی ہے ماند پڑتی جاتی ہے البتہ اس روشنی کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ جس وقت ہم چراغ سے اتنے دور ہو اجتے ہیں کہ اس کی روشنی ہمیں دکھائی نہیں دیتی تب بھی اس کی روشنی موجود ہوتی ہے اور اسی رفتار (تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ) سے پھیل رہی ہوتی ہے لیکن ہماری آنکھ تک نہیں پہنچتی ہمارے حواس خمسہ شعاعوں کو ایک حد تک درک کرتے ہیں اگر شعاوں کی حرکت اس حد میں نہ ہو تو نہ ہی ہماری آنکھ روشنی کو دیکھتی ہے اور نہ ہمارے کان آواز کو سنتے ہیں اور نہ ہمارے بدن کی جلد گرمی کا احساس کر سکتی ہے مثلا جب ہم گھر میں روشن چراغ سے دور ہوتے جاتے ہیں تو اس چراغ کی روشنی ماند پرتی نظر آتی ہے حالانکہ اس کی روشنی اسی رفتار سے یعنی تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے پھیل رہی ہوتیہے پرانے زمانے میں یہ تصور پایا جا تا تھا کہ روشنی خط مستقیم پر چلتی ہے لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہیہ طاقتور قوت کشش رکھنے والے ستارے کی قربت میں خط محننی راستہ اختیار کر لیتی ہے سورج جس کی قوت جاذبہ بہت زیادہ ہے اور اس کے زیر اثر ہمارے چراع کی روشنی محننی راستہ کر لیتی ہے کیا س سورج کی روشنی اسے اپنی طرف کھنچتی بھی ہے ؟ علم فزکس جواب دیت اہے نہیں ۔

ہم حیران ہوتے ہیں کہ کیسے سورج اپنی مضبوط قوت کشش کے ساتھ ہمارے گھر کے چراغ کی روشنی کو خط محننی پر ڈال دیت اہے لیکن اسے اپنی طرف نہیں کھنچتا ؟

ہر ستارے کی قوت جاذبہ اس کی کمیت کے متناسب ہوتی ہے اور سورج کی کمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے اگر سورج کی کمیت کو سو حصوں میں تقسیم کیا جائے اور پھر سو میں سے کسی ایک حصیکو دوبارہ سو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو نظام شمسی کے باقی سیاروں کی کل کمیت اس سوویں حصے کے چودہ فیصد کے مساوی ہو گی ۔

یہاں ہمیں اجسام کی کمیت کو ان کا حجم خیال نہیں کرنا چاہیے ایک غبارہ جب اسے بھر دیا جائے تو اس کا حجم بڑھ تو جاتا ہے لیکن اس کی کمیت وہی رہتی ہے ۔

اجسام کی کمیت کا ہم ان کے وزن سے اندازہ لگاتے ہیں جتنا ایک جسم بھاری ہو گا اس کی کمیت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور جتنی کسی جسم کی کمیت زیادہ ہو گی اتنی ہی اس کی قوت جاذبہ بھی ہو گی اور چونکہ سور کی کمیت بہت زیادہ ہے لہذا اس کی قوت تجاذب بھی بہت زیادہ ہے بہر کیف سورج اپنی تمام قوت کشش کے ساتھ بھی ہمارے گھر کے چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی کو اپنی طرف نہیں کھنچ سکت لیکن اس کے راستے کو ٹیڑھا کر دیتا ہے سورج کے ہمارے گھر کے چراغ کی روشنی تین سو ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتے ہوئے سورج کی روشنی کو عبور کرکے اسکے پار پہنچ جاتی ہے اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ جب ہمارے گھر کے چراغ کی روشنی سورج کو عبور کرتی ہے تو کس طرف جاتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روشنی نظام شمسی سے گزرنے کے بعد ایک دوسرے سورج کو عبور کر لیتی ہے البتہاسکا راستہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے لیکن یہ روشنی اس سورج سے بھی آگے نکل جاتی ہے ۔

کیا اس بات کا امکان ہے کہکسی سورج کی قوت تجاذب اس قدر زیادہ ہو کہ وہ ہمارے گھر کے چراغ کی روشنی کو جو تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے ‘ اپنے اندر جذب کر لے اور اسے دور نہ جانے دے ؟

ہاں ‘ اس بات کا امکان پایا جاتاہے کہ ا گر ہمارے گھر کے چراغ کی روشنی ایک کو تولہ سے عبور کرے تو اس میں جذب ہو جائے گی نجومیوں نے یہ نام بیسویں صدی کے آغاز میں ان ستاروں کیلئے منتخب کیاہے جن کی کمیت اس قدر زیادہ اور ان کیقوت کشش اتنی اطقتور ہے کہ روشنی ان سے نہیں گزر سکتی اور ان میں جذب ہو جاتی ہے کو تولہ نامی ستاروں کی کمیت اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے مذکورہ ستاروں کی کمیت اس لے بہت زیادہ ہے کہ ان کے ایٹموں کے الیکٹران نہیں ہوتے اور وہ صرف مرکزے پر مشتمل ہوتے ہیں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایٹم جو مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہے ‘ ہمارے نظام شمسی کی نسبت ایک خالی فضا ہے ۔

ایٹم کا اصلی حصہ اس کا مرکزہ ہے ‘ اور باقی خالی فضا ہے ۔ اور الیکٹران ایٹم کے مرکزے کے ارد گرد اس طرح گھوم رہے ہیں جس طرح سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں ۔ اگر تمام الیکٹرانوں اور مرکزوں کا درمیانی فاصلہ ختم کر دیا جائے تو کرہ ارض کا حجم فٹ بال کی گیند کے برابر ہو گا لیکن اس کا وزن وہی ہو گا جو آج کرہ ارض ہے ۔

کوتولہ نامی ستاروں کے ایمتوں میں خالی فضا نہیں پائی جاتی اور نہ ہی ان کے الیکٹران ہیں ‘ ان میں صرف مرکزے باقی ہیں جو اس میں ملے ہوئے ہیں ان کا وزن اس قدر زیادہ ہے کہ مذکور بالا مثال کے مطابق ان کا فٹ بال جتنی ایک گیند کی کمیت کا وزن آج کرہ ارض کے کل وزن کے برابر ہے چونکہ قوت جاذب کو کمیت سے نسبت ہے لہذا ہمارے چراغ کی روشنی کو تولہ ستاروں سے نہیں گزر سکتی کیونکہ ان کی کمیت اتنی زیادہ ہے کہ یہ روشنی ان میں جذب ہو جاتی ہے یہی وجہہے کہ کوتولہ ستارے تاریک دکھائی دیتے ہیں فرض کیجئے ہم اپنے ساتھ چراغ لے کر کوتولہ ستارے تک پہنچ جاتے ہیں وہاں ہم اندھرے کو دور کرنے کیلئے اپنا چراغ جلاتے ہیں (اگر جل سکے ) تو بھی ہم دیکھیں گے کہ ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دیگا اس کی وجہ یہ ہے کہ قبل اس کے ہمارے چراغ کی روشنی ارد گرد پھیلنے کیلئے حرکت کرے کوتولہ ستارے میں جذب ہو جائے گی کیونکہ کوتولہ ستاروں کی قوت تجاذب اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ہمارے چراغ کی روشنی کو متحرک ہونے اور ارد گرد پھیلنے سے پہلے ہی جذب کر لے گی اور اس طرح ہمارا ماحول تاریکی میں ڈوبا رہے گا ۔

کوتولہ ستاروں کے تاریک ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے قرب و جوار میں روشنی کی شعاعیں نہیں ہوتیں اگر ہوتی بھی ہیں تو ستارے میں جذب ہو جاتی ہیں ۔ اور فلکیات کے ماہرین نے کوتولہ ستاروں کو ان کے اطراف میں پائیجانے والے ستاروں کی مدد سے دیکھ اہے لیکن آچ جبکہ ریڈیو ٹیلی سکوب ایجاد ہو چکا ہے اسکی مدد سے کوتولہ ستاروں کے وجود کا احساس کیا جا سکتا ہے اگر گھروں میں روشن چراغ کی روشنی کسی کو تولہ ستارے میں جذب نہ ہو تو وہ اپنے راستے پر چلتی ہے اس کا راستہ دائیں طرف یا بائیں طرف اور اوپر یا نیچے بھی مڑ سکتا ہے ۔

آیزاک آسیموف کے بقول راستہ یعنی مکان وجود نہیں رکھتا بلکہ روشنی خود اسے وجود میں لاتی ہے اور روشنی کی شعاعیں مکان ہیں اس ماہر طبعیات کے نظر یہ کی بنا پر مکان کا کوئی وجود نہیں ہے جب تک کہ روشنی اس میں سفر نہ کرے بلکہ روشنی اور اس کی شعاعوں نے مکان وجود میں لایا ہے اگر یہ سوال کیا جائے کہ ہمارے گھر کے چراغ کی روشنی کب تک محو سفر رہتی ہے ؟

علم فزکس جواب دیتا ہے کہ ان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور اس وقت تک اپنا سفر جاری رکھتیہے جب تک وہ مادے میں تبدیل نہیں ہو اجتی ہامرے گھر کے چراغ کی روشنی جو توانائی ہے کیسے امدے میں تبدیل ہو جاتی ہے ؟

آج تک علم فزکس اس سوال کا جواب دینے سے عاری ہے اور اگر علم فزکس اس سوال کا جواب ڈھونڈلے تو وہ ایک لاکھ سال کا علمی راستہ ایک سیکنڈ میں طے کر لے گی چونکہ فزکس میں سب سے بڑا راز یہی ہے اور عظیم تخلیق کے راز کا جواب بھی یہی سوال ہے کہ توانائی مادے میں کیسے تبدیل ہوتی ہے مادے کا توانائی میں تبدیل ہونا ہماری نظر میں عام سی بات ہے ہم دنا ور رات کارخانوں ‘ بحری جہازوں ‘ گاڑیوں اور گھروں میں مادیکو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں لیکن آج تک ہم توناائی کو مادے میں تبدیل نہیں کر سکے ۔ اور ابھی تک ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ توانائی مادے میں کیسے تبدیل ہوتی ہے ؟ ہماری آنکھوں کے سامنے تخلیق کا بہترین نمونہ سورج ہے لیکن سورج میں بھی توانائی مادے میں تبدیل ہوتی ہے بلکہ ایک ماد دوسرے مادے میں تبدیل ہوتا ہے وہ اس طرح کہ سورج میں پائی جانے والی ہائیڈروجن کی مقدار ہیلیم میں تبدیل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کافیحرارت وجود میں آتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خود سورج کیسے وجود میں آیاہے ؟ جو کچھ اس بارے میں اب تک کہا گیا ہے وہ سب تھیوری کی حد تک محدود ہے اس کی علمی اہمیت کوئی نہیں ہمیں اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کا چراغ جب اک طویل عرصے میں شعاعیں بکھیر لیتا ہے تو مادے میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہے ہم نے ایک اور تھیوری بیان کر دی ہے کیونکہ ہم نے اج تک مشاہدہ نہیں کای کہ توانائی مادے میں تبدیل ہوتی ہواور قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ توانائی مادے میں تبدیل ہوئی ہو گی ۔

لیکن اس اندازے یا فرض کرنے اور یعنی علم کے درمیان زمین وہ آسمان کا فرق ہے ‘ علم میں اندازہ لگانے یا مرضی کرنے کی گنجائش نہیں ۔

مختصر یہ کہ ایزاک آسیموف ‘ موجودہ زمانے کا ایک معروف سائنس دان مکان کے وجود کا منکر ہے اس کے بقول مکان کا کوئی وجود نہیں اور جو کچھ موجود ہے وہ مادہ یا اس کی شعاعیں ہیں اور ہم بنی نوع انسان مکان کو شعاعوں کے ذریعے محسوس کر سکتے ہیں اگر آپ ایک آزاد فضا میں چل پھر رہے ہیں یا کمرے میں بیٹھے ہیں تو آپ کو مکان کا احساس س لئے ہو رہا ہے کہ آپ شعاعوں کے نرغے میں ہیں اور اگر شعاعیں رک جائیں تو پھر یہ احساس ختم ہو جائیگا کہ آ مکان میں ہیں کیا اس بات کا امکان ہے کہ شعاعیں کٹ جائیں ا ور آسیموف کے بقول ہم مکان کا احساس نہ کریں ؟

علم فزکس کہتا ہے نہیں ‘ چونکہ تاریک ترین راتوں میں بھی ہمیں روشنی کی ایسی شعاعوں نے گھر رکھا ہوتا ے جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے ۔ اور خاموش ترین ماحول میں بھی مختلف النوعی آوازوں کی لہریں ‘ جنہیں ہم سننے سے معذور ہیں ہمارے ارد گرد متحرک ہوتی ہیں اور ان میں سے بعض ہمارے جسم کے پار چلی جاتی ہیں لیکن فرض کریں اگر تمام شعاعیں بھی کٹ جائیں تو بھی عام قوت تجاذب کی شعاع نہیں کٹے گی ‘ یعنی کسی حالت میں بھی یہ شعاعی نہیں کٹتی حتی کہ جب خلا باز خلائی جہاز میں بے وزنی کی حالت میں ہوتے ہیں تو اس حالت میں بھی خلائی جہاز کی رفتار اور زمین کی قوت کشش کے درمیان برابری وجود میں آتی ہے جس کی وجہ سے خلا باز (خلائی جہاز سے باہر نکلنے کے بعد )نہیں گرتا ۔

اور یہ تصور صحیح نہیں کہ خلائی جہاز میں یا اس کے باہر خلا باز قوت جتازب کے زیر اثر نہیں ہوتے قوت تجاذب کی مادے سے اس قدر وابستگی ہے کہ علم فزکس کی رو سے اگر قوت تجادب مادے سے چھین لی جائے تو مادہ باقی نہ رہے گا ۔ اور محال ہے کہ قوت جاذب کی شعاعوں کے کٹ جانے کے بعد کوئی جاندار یا بے جان زندہ رہ سکے ۔

یہت ھے ‘ انیسویں صدی اور موجودہ دور کے طبعیات دانوں کے زمان اور مکان کے بارے میں نظریات اب اگر ہمیں اطلاع ملے کہ زمان اورمکان کے بارے میں انہی نظریات کو آج سے ساڑھے بارہ سو سال پہلے ایک شخص نے پیش کیا تھا تو کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم اس شخص کو آفرین کہیں اور اس کی عقلمندی کی داد دیں ؟

زمان اور مکان کے باریمیں یہ نظریات دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران امام جعفر صادق نے پیش کئے تھے جو آج کے نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں ۔

اس کے باوجود کہ جعفر صادق کے زمان اور مکان کے بارے میں پیش کردہ نظریات میں آج کی اصطلاحات اور فارمولے استعمال نہیں ہوئے پھر بھی آپ کے ان نظریات کو جدید نظریات کے ساتھ تطبیق کیا جا سکتا ہے ۔

جعفر صادق کے بقول زمان فی نفسہ وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمارے احساسات کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور ہمارے لئے دو واقعات کے درمیانی فاصلے کا نام زمان ہے ۔

مکان کے بارے میں جعفر صادق کا نظریہ یہ تھا کہ مکان تابع ہے اس کا بھی ذاتی وجود نہیں مکان ہمیں ایک ایسی فضا کی صورت میں نظر آتا ہے جس کا طول و عرض و بلندی ہے اور اس کا یہ تابع وجود بھی زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف دکھائی دیتا ہے ۔

ایک چھوٹا بچہ جو ایک جھوٹے سے گھر میں رہ رہا ہے اس گھر کے ضہن کو وہ ایک بڑا میدان خیال کرتا ہے لیکن یہی چھوٹا بچہ بیس سال کے بعد اس گھر میں داخلہوتا ہے تو اسے وہ صحن بہت چھوٹا نظر آتا ہے وہ انگشت بد ندان سوچتا ہے کہ یہ صحن جو پہلے بہت وسیع تھا اب اتنا چھوٹا کیون ہو گیا ہے ؟ مختصر یہ کہ جعفر صادق کی نظر میں مکان وجود طبع رکھتا ہے اور آج بھی طبعیات دانوں کا گروہ (جیسا ہم نے ذکر کیا ہے ) اس نظریئے کی حامی ہے۔

جعفر ی نظریہ دربارہ اسباب امراض

جو نظریات امام جعفر صادق کے علمی کمالات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ان میں ایک بیماری کا بعض روشنیوں کے ذریعے منتقل ہونا بھی ہے ۔

جعفر صادق نے فرمایا بعض ایسی شعائیں ہیں جو اگر ایک بیمار شخص سے ایک تندرست شخص پر پڑیں تو ممکن ہے وہ تندرست آدمی کو بیمار کر دیں یہاں پر اس بات کو ملحوظ نظر رکھیں کہ آب و ہوا یا جراثیم کے منتقل ہونے کے بارے میں گفتگو نہیں ہو رہی (کیونکہ دوسری صدیہجری کے اوائل میں لوگ اس سے بے خبر تھے ) بلکہ شعاع کے متعلق بات ہو رہی ہے وہ بھی تمام شعاعوں کے بارے میں نہیں صرف چند اقسام کی شعاعوں کے بارے میں جو اگر ایک بیماری انسان سے ایک تندرست انسان پر پڑیں تو ممکن ہے اسے بیمار کر دیں حیوانیات کے ماہرین اور ڈاکٹر صاحبان نے اس نظریہ کو بیہودہ خیال کیا تھا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ ایک بیماری انسان سے تندرست انسان تک بیماری منتقل کرنے کا عامل بیکٹریا یا وائرس ہوتاہے خواہ یہ بیماری کیٹروں مکوڑوں یا پانی یا ہوا کے ذریعے متنقل ہو یا دو (بیمار یا تندرست ) انسانوں کے ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ کرنے کے ذریعے ۔

بیکٹیریا اور وائرس کے وجود کی شناخت سے قبل یہ خیال تھا کہ بیماریوں کے منتقل ہونے کا سبب بو ہے اور قدیم ادوار میں بیماریوں کو پھیلنے سے روکنے کیلئے تمام اقدامات بو کوروکنے کے ذریعے انجام پاتے تھے ۔ تاکہ ایک بیمار شخص کی بیماری ‘ بو کے ذریعے ایک تندرست شخص تک نہ پہنچ پائے اور اسے بیمار نہ کرے ۔

کسی نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ بعض شعاعیں ایسی ہیں جو اگر بیمار شخص سے تندرست پر پڑیں تو اسے بیمار کر دیتی ہیں ‘ صرف جعفر صادق ہی وہ انسان تھے جنہوں نے یہ فرمایا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ اس نظریہ کو سائنس دانوں نے بے ہودہ شمار کیا لیکن جدید علمی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ نظریہ حقیقی ہے اور اگر بعض شعاعیں ایک بیمار شخص سے ایک تندرست انسان تک پہنچیں تو وہ اسے بیمار کر دیتی ہیں روس میں پہلی مرتبہ اس حقیقت کا کھوج لگایا گیا ہے روس کے شہر نوو دو سائیبیرسک میں جو روس کے میڈیکل سائنس ‘ کیمیا اور بیالوجی کے عظیم مراکز میں سے ایک ہے ‘ وہاں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پہلے بیمار شخص کے خلیات سے شعاعیں نکلتی ہیں اور پھر جو نہین یہ شعاعیں تندرست انسان کے خلیات پر پڑتی ہے تو اسے بیمار کر دیتی ہے اگرچہ بیماری شخص کے خلیات اور تندرست انسان کے خلیات کے درمیان معمولی سا رابطہ بھی نہ ہو اور نہ ہی بیمار شخص کے خلیات سے بیکٹیریا یا وائرس نکل کر تندرست انسان کے خلیات میں حلول کر گئے ہوں ۔

نوو۔ دو ۔ سائیبیرسک کے سائنس دان جو تحقیق میں مصروف تھے ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ انہوں نے ایک ہی زندہ عضو (مثلا دل یا گردے ) سے خلیات کا انتخاب کیا اور انہیں ایک دوسرے سے جدا کرکے دو حصوں میں تقسیم کیا اور دیکھا کہ ان خلیات سے چند اقسام کی فوٹان نکل رہی ہیں (جیسا کہ ہم تذکرہ کر چکے ہیں روشنی کے ایک زرے کو فوٹان کہا جاتا ہے ) اور آج شعاعوں پر تحقیقات اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ ایک فوٹان پر بھی تحقیق ہو سکتی ہے سائنس دانوں نے دوسرے حصے کے صحتمند خلیات کو لیکر دو محفوظ بکسوں میں رکھ دیا جن میں سے ایک سیلیکا کا بنا ہوا تھا اور دوسرا شیشے سے تیار کیا ہوا تھا ۔

سلیکا میں یہ خاصیت ہے کہ اس میں سے سوائے الٹرا وائلٹ ریز کے کوئی شعاع نہیں گز سکتیا ور عام شیشے میں یہ خاصیت ہے کہ اس میں سے الٹرا وائلٹ ریز کے علاوہ تمام شعاعیں گزر سکتی ہیں ۔ چند گھنٹوں کیلئے بیمار خلیات کی شعاعیں سلیکا اور شیشے میں محفوظ خلیات پر ڈالی گئیں تو معلوم ہوا کہ سلیکا کے بکس میں محفوظ خلیات بیمار ہو گئے ہیں لیکن وہ صحتمند خلیات جو شیشے کے بکس میں محفوظ تھے ‘ بیمار نہیں ہوئے ۔

چونکہ سلیکا میں سے الٹر اوائلٹ ریز کے علاوہ کوئی شعاع نہیں گزر سکتی لہذا انہی شعاعوں نے صحتمند خلیات تک پہنچ کر انہیں بیمار کیا ہے لیکن شیشے میں سے الٹرا وائلٹ ریز کے علاوہ تمام شعاعیں گزر سکتی ہیں اور چونکہ وہ شعاعیں صحتمند خلیات پر نہیں پڑیں لہذا وہ صحتمند رہے اور بیمار نہیں ہوئے یاد رہے کہ صحتمند خلیات پر پڑنے والی تمام شعاعیں بیمار خلیات سے نکلتی ہیں لیکن چونکہ صحتمند خلیات شیشے میں محفوظ تھے اور بیمار خلیات سے نکلنے والی الٹر ا وائلٹ ریز کی زد میں نہیں آئے ‘ لہذا سالم رہے ۔

یہ تجربہ مختلف بیماریوں اور ایک جیسے یا متفرق خلیات پر بیس سالوں کے دوران پانچ ہزار مرتبہ دہرایا گیا کیونکہ نوو ۔ دو ۔ سائیبیرسک کے تحقیقاتی مرکز کے سائنس دان چاہتے تھے کہ تجربے کے نتیجے میں ذرا بھر شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے ۔

پانچ ہزار مرتبہ انجام پانے والے تجربے کا نتیجہ ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ بیمار خلیات الٹرا وائلٹ ریز سمیت تمام شعاعین خارج کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جب کبھی صحت مند خلیات ‘ بیماری خَیات سے خارج ہونے والی الٹر اوائلٹ ریز ( نہ کہ کوئی دوسری الٹرا وائلٹ ریز ) کی زد میں آتے ہیں بیمار ہو جاتے ہیں اور دوسری یہ کہ ان کو وہی بیمار لاحق ہو جاتی ہے جو اس مریض کے خلیات کی بیمار ہوتی ہے ۔

یہ تجربات جن کو انجام دینے میں بیس سال کا عرصہ لگا ‘ اس دوران صحتمند اور بیماری خلیات کے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہ تھا جس سے یہ گمان پیدا ہوتا کہ وائرس یا بیکٹیریا ایک گروہ کے خلیات سے دوسرے گروہ کے خلیات میں نفوذ کرتے ہیں ‘ اور پانچ ہزار تجربات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ صحتمندخلیات میں بیماری پیدا کرنیکا سبب وہ الٹرا وائلٹ ریز ہیں جو بیمار خلیات سے خارج ہوتی اور صحتمند خلیات پر پرٹی ہیں ۔

اگر بیماری انسا ن کے خلیات سے خارج ہونیوالی شعاعوں کو کسی طرح روک دیا جائے تو صحتمند خَیات بیمار نہیں ہوں گے اور اینٹی بائیوٹک ادویات ( جو بیکٹیریا یا وائرس کو مارتی ہیں ) کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیمار جسم سے خارج ہونے والی الٹر ا وائلٹ ریز کی شدت کو بھی کم کرتی ہیں یہاں تک کہ ان خلیات سے خارج ہونے والی شعاعین اتنی کم اثر ہو جاتی ہیں کہ وہ مزید نقصان دہ نہیں رہتیں۔

روسی سائنس دانوں کے تجربات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے بدن کے خلیات میں سے ہر ایک شعاعیں خارج کرنے والے اور شعاعیں وصول کرنے والا ہے اگر ایک صحتمند خلیہ ایک بیماری خلیے سے خارج ہونے والی الٹرا وائلٹ ریز شعاع کو وصول یا ریکارڈ کرے تو وہ صحتمند خلیہ بھی بیمار ہو جائیگا لیکن اگر الٹرا وائلٹ ریز کو خارج کرنے والا خلیہ بیمار نہ ہوتو اسکی شعاعیں صحتمند خلیوں میں بیماری نہیں پیداکر سکتیں ۔متعدد تجربات کی روشنی میں یہ بات پائیہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اگر کچھ صحتمند خلیات ٹاکسین کے اثر سے بیمار ہو جائیں اور الٹرا وائلٹ ریز خارج کریں تو ان کی شعاعیں ان صحتمند خلیات کو بھی بیمار کر دیتی ہیں جن کا ان سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا ۔ ٹاکسین ایک زہر کا نام ہے جو ہمارے جسم کے بعض اعضا ء پیدا کرتے ہیں اور ان کا خلیات کو بیمار کرنے کا طریقہ بیکٹیریا اور وائرس سے مختلف ہے اور خصوصا نصف عمر کے بعد بدن میں ٹاکسین بنانے کے جو عوامل ہیں ان میں ایک زیادہ اور مقوی غذا کھانا بھی ہے ۔ بہر حال ٹاکسین ایک زہر ہے جو صحتمند خلیات کو بیمار کر دیتی ہے یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ جو خلیات ٹاکسین کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں اور شعاعیں خارج کرتے ہیں وہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے صحتمند خلیات کو بھی بیمار کر دیتے ہیں ‘ یعنی اس بات کا انحصار صرف اسی پر نہیں کہ وائر س اور بیکٹریا کے ذریعے ہی بیمار ہونے ولے خلیات صحتمند خلیات کو بیمار کر سکتے ہیں بلکہ ٹاکسین کے ذریعے بیمار ہونے ولے خلیات بھی الٹرا وائلٹ شعاعیں خارج کرکے صحتمند خلیات کو بیمار کر سکتے ہیں ۔

یہاں اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ علمی حقیقت بیس سال کے عرصے میں پانچ ہزار تجربات کے نتیجے میں پایہ ثبوت کو پہنچی ‘ کوئی جدید نظریہ اسکی برابری نہیں کر سکتا اسکی وجہ سے ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کیلئے بیماریوں کا علاج معالجہ کرنے کے سلسلے میں نئی راہیں کھلیں ۔

وہ اس ترتیب کے ساتھ کہ بیماری کے نمودار ہونے کے بعد جسم کے کچھ خلیات بیمار خلیات سے خارج ہو کر صحتمند خلیات کی طرف رخ کر نے والی الٹرا وائلٹ ریز کے راستے میں رکاوٹ بنیں اور اس طرح بیماری کے پھیلنے میں رکاوٹ ثابت ہوئیں ۔

اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خلیات کو بیمار ہی نہ ہونے دیا جائے کہ وہ الٹرا وائلٹ ریز خارج کرکے تندرست خلیات کو بیمار کر دیں ۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں اگر علاج معالجہ کی کوئی جدید روش دریافت ہوتی ہے تو اس روش پر انحصار کرتے ہوئے اس سے کافی امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ تمام امراض کا اس روش کی ذریعے علاج ہو سکتا ہے ۔

لیکن ہم اس طبی روش کی دریافت کے بارے میں مبالغہ آرائی نہیں کرتے اور یہ نہیں کہتے کہ سرطان سمیت تمام بیماریوں کا علاج اس طریقہ کار سے ہو سکتا ہے خصوصا وہ سائنس دان جنہوں نے یہ روش دریافت کی ہے انہوں نے اس طریقہ کار کی نشان دہی نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ بیمار خلیات سے خارج ہونے والی الٹرا وائلٹ ریز کو کیسے روکا جا سکتا ہے ۔

بہر کیف یہ دریافت علمی نقطہ نگاہ سے قابل توجہ ہے اور اس پر اتنا کاما اور تحقیق ہوئی ہے کہ اب اس کی صحت پر کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا اور محقق سائنس دانوں نے معلوم کر لیا ہے کہ خلیات کا ایک گروہ اگر چند بیماریوں میں مبتلا ہو جائے تو ان میں سے ہر بیماری ایک مخصوص قسم کی فوٹان خارج کرتی ہے اور یہ سائنس دان اب ان فوٹانوں کے جدول کے اور ان کی اپنی اصلاح میں ان فوٹانوں کے کوڈ کو تیار کرنے میں مشغول ہیں جو بیمار خلیات مختلف قسم کی بیماریوں کی اقسام کی وجہ سے خارج کرتے ہیں اور چونکہ بیکٹیریا یا وائر س اور ٹاکسین کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں کوئی ایک یا دو نہیں لہذا اس جدول کے تیار کرنے میں ایک عرصہ لگے گا البتہ جدول کی تکمیل کے دوران کئی بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے ۔

مثال کے طورپر جب یہ معلوم ہو جائے کہ انفلوائنزا کے وائرس سے بیمار ہونے والے خلیات کونسی شعاع خارج کرتے ہیں اور وہ کتنی ہیں یا ان کی لمبائی وغیرہ کتنی ہے تو انفلوائنز ا کے علاج و معالجے اور صحتمند خلیات کو بیمار ہونے سے روکنے کے سلسلے میں اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔

اس سلسلے میں امریکہ میں بھی تحقیقات ہوئی ہیں اور جو نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ روسی سائنس دانوں کے نتائج سے ملتے جلتے ہیں یہ نتائج ۔ امریکہ کے علمی رسالوں میں بھی شائع ہو چکے ہیں ‘ اس موضوع پر ڈاکٹر جوہن اوٹ (ایک محقق ) نے ایک کتاب بھی لکھی ہے ۔

اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالون کے دوران جعفر صادق کا یہ نظریہ کہ روشنی کی بعض شعاعین بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتی ہیں جسے اس زمانے میں اور اس کے بعد بیہودہ خیال کیا جاتا رہا آخر کار حقیقت ثابت ہوا اور آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ الٹرا وائلٹ ریز شعاعین جب بیمار اجسام سے خارج ہو کر تندرست اجسام پر پڑتی ہیں تو انہیں بیمار کر دیتی ہیں جبکہ سورج سے خارج ہونے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں ہوا کی عدم موجودگی میں جانداروں کے بدن پر پڑیں تو ان کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہیں لیکن یہی شعاعیں چونکہ ہوا کی موجودگی میں زمین پر جانداروں کے اجسام پر پڑتی ہیں تو کسی جاندار کو بیمار نہیں کرتیں ۔ بہر حال بیالوجی اور جدید طبعی تحقیقات نے بارہ سو پچاس سال کے بعد جعفر صادق کے نظریہ کی صحت کا ثبوت فراہم کر دیا ہے ۔

جیسا کہ ہم نے تذکرہ کیا ہے ‘ پرانے زمانے میں بیماری کے منتقل ہونے کا واحد ذریعہ بیماری کی بو کو خیال کیاجاتا تھا ‘ لیکن قدیم مانوں میں انسان اس بات کا کھوج لگا چکا تھا کہ بعض امراض متعددی ہیں اور ایک سے دوسرے تک پہنچتے ہیں ۔

فرانس میں موجود ایک مصری پاپی روس (دستاویز )جس کا تعلق پندرہویں صدی قبل مسیح سے ہے میں تحریر ہے کہ مصری لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ساحل پر لنگر انداز ہونے والی کشتیوں کے مسافروں کو مصر کے ساحل پر اترنے کی اجازت نہ ہوتی تھی اس دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ پندرھویں صدی ق ۔ م میں کشتیاں مصر کی جانب سفر کرتی تھیں اور وہاں تک مسافر لے جاتی تھیں اور آج سے تین ہزار پانچ سو سال پہلے بھی کم از کم بحیرہ روم اور بحیرہ احمر میں جہاز رانی عام تھی ‘ اور اس بات کا احتمال ہے کہ سمندری جہاز اس ڈر سے کہ راستہ گم نہ ہو ‘ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اگر پاپی روس کی دستاویز کے علاوہ کوئی اور دستاویز اس بات کا ثبوت فراہم نہ بھی کرتی کہ آدمی قدیم زمانے سے متعدد امراض سے واقف تھا تو صرف یہی دستاویز یہ بات ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ آدمی ۳۵ صدیاں پہلے اس بات سے اگاہ تھا کہ بعض امراض ایسے ہیں جو ایک انسان سے دوسروں تک پھیلتے ہیں جیسا کہ آج کے علوم نے جعفر صادق کے اس نظریئے کی تصدیق کر دی ہے کہ روشنی کی بعض اقسام بیماریوں کے پھیلانے کا باعث بنتی ہیں تو کیا اس بنا پر یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ متعددی بیماریاں جو کسی جگہ اچانک نمودار ہوتی ہیں وہ روشنی کی وجہ سے نمودار ہوتی ہیں ؟

کیونکہ الٹرا وائلٹ شعاعیں بیمر خلیات سے خارج ہونے کے بعد ارد گرد پھیل جاتی ہیں ا ور اسی وجہ سے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جہاں متعدی بیماری کے وجود کا شائبہ تک بھی نہیں ہوتا وہاں اچانک ایک آدمی اس وبائی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے الٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے روس اور امریکہ کے ماہرین جنہیں یقین ہے کہ بیماری ‘ بیمار خلیات سے یو وی آر کی ذریعے صحت مند خلیات تک پہنچتی ہے لیکن ابھی تک وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ بیماری کا نفوذ کیسے ہوتا ہے جب کہ انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ الٹرا وائلٹ شعاعیں جو بیمار خلیات سے خارج ہو تی ہیں صحتمند خلیات میں بیماری پھیلانے کا سب بنتی ہیں ۔

سائنس دان اس پر غور کر رہے ہیں کہ روشنی کی حرات کیسے صحتمند خلے میں بیماری کو جنم دیتی ہے ؟ کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو جائے کہ روشنی کی حرارت صحت مند خلیے میں بیماری کو جنم دیتی ہے ‘ اس وقت تک اس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ کسی علاقے میں نا گہان پھوٹ پڑنے والی متعددی بیمری جہاں اس بیماری کے پھوٹ پڑنے کا کوئی احتمال نہیں ہوتا روشنی کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے پھوٹتی ہے ۔

چونکہ ہم الٹرا وائلٹ ریز کے ذریعے بیماری کے پھیلنے کا تذکرہ کر رہے ہیں اور اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ الٹرا وائلٹ ریز جب ایک بیمار خلیے سے تندرست خلیے پر پڑتی ہیں تو اسے کیسے بیمار کر دیتی ہیں ؟ پس ہمیں یہ کہنا پڑت اہے کہ انسانی علم ‘ وائرس کے بیماری پھیلانے کے عمل کے ایک حصے کے متعلق کوئی اطلاع نہیں رکھتا ۔

انسانی علم یہ جانتا ہے کہ وائرس خلیے میں جگہ گھر کر اسے تباہ کرنے پر لگ جاتا ہے اور جب کوئی دوائی مریض کو دی جاتی ہے تو وہ دوائی وائرس کی نابودی میں مدد کرتی ہے بہر کیف اس بارے میں ابھی تک بعض چیزوں سے انسانی علم آگاہ نہیں ہے چونکہ علم نے نہ تو ابھی خلیے کو بخوبی پہچانا ہے اور نہ ہی وائرس کی شناخت کر سکا ہے اگر انسانی علم یہ جان لے کہ بدن کے خلایت کیسے بوڑھے ہوتے ہیں تو ضرور بڑھاپے پر قابو پا لے ۔

امریکی اور روسی سائنس دانوں کی تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہو چکا ہے کہ فوٹان جو روشنی کا ایک ذرہ ہے اگر اس کا شمار الٹرا وائلٹ ریز میں کیا جائے اور یہ ایک بیمار خلیے سے خارج ہو تو صحت مند خلیے کی بیماری کا باعث بنتا ہے ۔

بہر کیف شاید انسانی علم سے اندازہ لگانے سے فوٹان کے ذریعے بیماری کے پیدا ہونے کی حالت اتنی مختلف ہو کہ ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ بیماری کے پیدا ہونے کا سبب اس سے بالکل مختلف ہے جو ہم خیال کرتے تھے فزکس سمیت مختلف علوم کے بارے میں امام جعفر صادق کے نظریات یہاں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ آپ کے فزکس سمیت دوسرے علوم کے بارے میں ایسے نظریات ہیں جن کی تائید آجکل کے علوم کرتے ہیں امام جعفر صادق کے نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ خداوند تعالی کے علاوہ جتنے وجود اس کائنات میں پائے جاتے ہیں ان کی صد بھی موجود ہے لیکن ان اضداد میں تصادم نہیں پیدا ہوتا اگر تصادم وجود میں آ جائے تو بعید نہیں کہ یہ کائنات ویران ہو جائے ۔

یہ نظریہ آج کے مادہ اور ضد مادہ کے نظریے سے ملتا جلتا ہے ‘ جس کا ہم مختصرا گذشتہ صفحات میں ذکر کر چکے ہیں اور اب بحث کی مناسبت سے جعفر صادق کے نظریہ کے بارے میں گفتگو کریں گے اور بتائیں گے کہ آپ کا نظریہ تھیوری کے مرحلے سے گزر کر عملی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور بتدریج سائنس دان مختلف ممالک میں عناصر کے ضد مادہ کو دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں مادہ اور ضید مادہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ عام عناصر کے مادہ کے ایٹموں میں الیکٹران پر منفی اور پروٹان پر مثبت برقی بار ہوتا ہے ابھی تک کسی نے تجربہ نہیں کای کہ اگر مادہ کے ایٹم ضد مادہ کے ایٹموں سے متصادم ہو جائیں اور دھماکہ ہو تو کیا ہو گا ؟ اس بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ تھیوری تک محدود ہے اور ایسا ہی ہے جس طرح ۱۹۴۴ ء کی گرمیوں سے پہلے یورنیم کے ایٹموں کے دھماکے کے بارے میں کہا جاتا تھا جب کہ اس وقت تک امریکہ نے اپنے ملک میں ایٹمی تجربہ نہیں کیا تھا اس وقت کہا جاتا تھا کہ ایٹم بم کا تجربہ ممکن ہے ایسا نہیں ہوا اور اس کے بعد آج تک کئی مرتبہ ایٹمی اور ہائیڈروجنی دھماکے ہوئے لیکن کرہ زمین کے عناصر دھماکے کا شکار نہیں ہوئے ایٹم بم کے دھماکے اور مادہ و ضد مادہ کے دھماکے میں فرق پایا جاتا ہے کیونکہ ایٹم بم یا ہائیڈروجن پھٹتا ہے تو مادے کا کچھ حصہ توانائی میں تبدیل ہوتا ہے اور مادے کا زیادہ حصہ بیکار رہ جاتا ہے یعنی وہ توانائی میں تبدیل نہیں ہوتا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے توانائی کو مادے مین تبدیل کرنے کا قانون جسے آئن سٹائن نے وضع کیا یہ ہے ۔

E=mc۲

اس قانون کے مطابق جو کچھ ایک ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم میں ہے اگر وہ سب کچھ توانائی میں تبدیل ہو جائے تو بہت زیادہ توانائی وجود میں آتی ہے اور انگلستان کے ایک طبعیات دان جول نے جس کے نام پر ایک مقناطیسی پیمانے کا نام رکھا گیا ہے ‘ اور جو انیسویں صدی عیسوی میں ہو گزارا ہے کے بقول ‘ اگر ایک کلو گرام مادہ تمام کا تمام توانائی میں تبدیل ہو جائے اس طرح کہ اس سے دھواں اور راکھ بھی وجود میں نہ آئے تو کائنات محو ہو جائے گی ۔

لیکن ایک اور طبعیات دان ‘ آئن سٹائن نے بیسویں صدی میں مادے کو توانائی میں تبدیل کرنے کے قانون کے ذریعے اسبات کی نشاندہی کی کہ اگر ایک کلو گرام مادہ مکمل طور پر توانائی میں تبدیل ہو جائے تو کائنات فنا نہیں ہو گی ۔ لیکن بنی نوعی انسان آج تک ایٹمی اور ہائیڈروجنی بموں کے ذریعے مادے کو مکمل طور پر توانائی میں تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہو سکا ۔

اگست ۱۹۴۵ ء میں ہیرو شیما پر جم بم گرایا گیا تھا اس کی کمیت کے ہزاروں حصوں میں سے انیس حصے توانائی میں تبدیل ہو گئے اور باقی ضائع ہو گئے ہائیڈروجنی بموں میں مادے کے تونائی میں تبدیل ہونے کے اندازے کے بارے میں ہمیں اطلاع نہیں اور وہ حکومتیں جن کے پاس یہ بم ہیں اور انہوں نے ان پر تجربات کئے ہیں ان کے بقول اس راز کو افشا نہیں کیا کہ بم کی کتنی مقدار کمیت توانائی میں تبدیل ہوتی ہے تاکہ ہم یہ جان لیں کہ ان کا کتنا حصہ ضائع ہوتا ہے اس بارے میں ان حکومتوں کی خاموشی کی وجہ دفاعی رازوں کی حفاظت ہے ۔

آئن سٹائن کے ا س قانون کے باوجود کہ اگر ایک کلو گرام مادہ مکمل طور پر توانائی میں تبدیل ہو جائے تو زمین نیست و نابود نہیں ہو گی ‘ لیکن بہر حال جب امریکی سائنس دان ۱۹۴۴ ء میں ایٹمی تجربہ کرنا چاہتے تھے تو اس بلڈنگ میں موجود سائنس دان اس بات سے گھبرا گئے تھے کہ کرہ ارض فنا ہو جائے گا ۔

آج بھی جب فزکس میں مادہ اور ضد مادہ کی بحث سامنے آتی ہے تو طبعیات دان کہتے ہیں کہ مادہ اور ضد مادہ کا ٹکراؤ ‘ دونوں کو مکمل طور پر توانائی میں تبدیل کر دے گا ۔

ان سائنس دانوں کے بقول ایک کول گرام مادے کا ایک کلو گرام ضد مادہ میں تبدیل ہونے سے اس قدر توانای وجود میں آئیگی کہ کرہ ارض تباہ ہو کر گیس میں تبدیل ہو جائے گا اور چونکہ اس گیس کی حرارت بہت زیادہ ہو گی لہذا یہ سورج تک پھیل جائے گی لیکن پروفیسر آلفن ‘ جو سویڈن کی لونڈ یونیورسٹی میں فزکس کے استاد ہیں اس نظریئے کے مخالف ہیں ان کے بقول آئندہ بنی نوعی انسان کی توانائی کا منبع نہ تو یورانیم کا برقی کارخانوں میں استعمال ہے اور نہ دریاؤں اور سمندروں سے ہائیڈروجن حاصل کرکے اس کا استعمال ہے ‘ بلکہ بنی نوعی انسان آئندہ مادہ اور ضد مادہ کے تصادم کے ذریعے توانائی حاصل کر لے گا اور ایک سو کلو گرام مادہ اور ضد مادہ یعنی پچاس کلو گرام مادہ اور پچاس کلو گرام ضد مادہ تمام دنیا میں انسان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایک سال کیلئے کافی ہو گا ۔

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ ابھی تک مادہ اور ضد مادہ کو آپس میں ٹکرایا نہیں گیا جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ کیا چیز حاصل ہوتی ہے لیکن پروفیسر آلفن کی تھیوری کے مطابق توانائی کے علاوہ کوئی ایسی چیز وجود میں آئے گی جو ماحول کو آلودہ کرے ۔

پروفیسر آَفن نے اس توانائی کو جو مادہ اور ضد مادہ کے تصادم کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے میٹر جی کا نام دیا ہے ‘ جیسا کہ عام توانائی کو انرجی کہا جاتا ہے۔

اس سائنس دان کے نظریئے کے مطابق اگر آدھا کلو گرام مادہ ‘ آدھے کلو گرام ضد مادہ کے ساتھ تصادم کرے تو ایک ارب درجہ حرارت وجود میں آئے گا اور دنیا میں کوئی ایسا منبع یا ذریعہ نہیں ہے جو اتنی حرارت پیدا کر سکے علم نجوم کے ماہرین کے بقول سورج کے مرکز کا درجہ حرارت دس ملین درجے ہے کیا بنی نوعی انسان اتنی زیادہ حرارت کو کنٹرول کرکے اپنے کام میں لا سکتا ہے ؟ پروفیسر آلفن کہتا ہے ہاں مادہ اور ضد مادہ کے نا مکمل دھماکے سے درجہ حرارت میں کمی پیدا کی جا سکتی ہے ‘ نا مکمل دھماکے سے اس کی مراد ایٹمی بموں کا دھماکہ ہے جس میں مادے کا صرف تھوڑا سا حصہ توانائی میں تبدیل ہوتا ہے جب کہ باقی حصہ ضائع ہو جاتا ہے مادہ اور ضد مادہ میں تصادم کے موضوع کو جو چیز تھیوری کی حدود سے اگے نہیں بڑھنے دیتی وہ اس کا اقتصادی پہلو ہے ۔ کیونکہ لونڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آلفن کے نظریہ کے مطابق مادہ اور ضد مادہ کے آپس میں ٹکرانے اور توانائی پیدا کرنے پر دس سے پندرہ ارب ڈالر خرچ آتا ہے اور آج کوئی حکومت یا ادارہ دس سے پندرہ ارب ڈالر خرچ کرکے مادہ اور ضد مادہ کے دھماکے کا تجربہ کرنے پر تیار نہیں ہے تاکہ پروفیسر آلفن کی اصطلاح کے مطابق میٹر جی وجود میں آئے ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اگر مادہ اور ضد مادہ کے تصادم کا تجربہ کر لیا جائے تو امدہ اور ضد مادہ کے دھماکے سے میٹر جی کا حصول آسان ہوجائے گا ۔

جس طرح ایٹمی توانائی سے فائدہ اٹھانے کیلئے تمام عناصر میں سے یورانیم کا انتخاب کیا گیا تھا اسی طرح خیال کیا جاتا ہے کہ مادہ اور ضد مادہ کے دھماکے سے توانائی حاصل کرنے کے لیے ہیلیم کے عنصرسے استفادہ کیا جائے گا کیونکہ روسی طبعیات دانوں نے ہیلیم کا ضد مادہ حاصل کیا ہے اور روس میں ہیلیم کے مادہ اور صدمادہ کے دھماکے کیابھی سے تیاریاں ہو رہی ہیں ہمارا خیال ہے کہ اس بارے میں مزید بحث فضول ہے ۔

ستاروں کی روشنی پر گفتگو

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ علمی بحثوں میں سے کوئی ایسی بحث نہیں ‘ جس کے بارے میں جعفر صادق نے اظہار خیال نہ فرمایا ہو اور آ کے بعض نظریات جو اب تک ہامرے سامنے آئے ہیں آپ کے علمی کمال کی دلیل ہیں ۔

آپ کے منجملہ نظریات میں سے ستاروں کے بارے میں اپ کا ایک نظریہ بھی ہے کہ جو ستارے ہم رات کو آسمان پر دکھتے ہیں ان میں سے ایسے ستارے بھی ہیں جو اس قدر نورانی ہیں کہ سورج کی روشنی ان کے مقابلے میں ہیچ ہے ۔

ستاروں کے متعلق بنی نوعی انسان کی ممدود معلومات امام جعفر صادق اور ان کے بعد آنے ولے دور سے لیکر اب تک اس حقیقت کو سمجھنے میں رکاوٹ بنی رہیں اس زمانے میں انسان کا خیال تھا کہ جو کچھ امام جعفر صادق نے ستاروں کی روشنی کے متعلق کہا ہے وہ عقل سے بعید اور نا قابل قبول ہے اور یہ بات محال نظر آتی ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے نورانی نقطے جنہیں ستاروں کا نام دیا جاتا ہے اس قدر روشن ہوں کہ سورج ان کے سامنے بے نور نظر آئے ۔

آج جبکہ امام جعفر صادق کو گزرے ہوئے ساڑھے بارہ سو سال ہو چکے ہیں یہ ابت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جو کچھ اس بزرگ شخص نے کہا صحیح ہے اور دنیا میں ایسے ستارے موجود ہیں جن کی روشنی کے سامنے ہمارا سورج بے نور نظر آتا ہے ۔

یہ روشن ستارے کو ازر کے نام سے موسوم ہیں ان میں سے بعض کا زمین تک فاصلہ نو ہزار ملین (نو ارب ) نوری سال ہے اور آج دن و رات میں ریڈیو ٹیلی سکوب کی اں کز تک پہنچنے والی شعاعین نو ہزار ملین سال کا فاصلہ طیکرنے کے بعد زمین تک پہنچتی ہیں ہم نے یہاں پر دن و رات کیا ہیں اور ممکن ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ ہم نے غلطی کی ہے کیونکہ ستارے تو صرف رات کو نظر آتے ہیں ۔

لیکن اب وہ زمانہ لد گیا جب انسان کے پاس ریڈیو ٹیلی سکوب نہیں تھی جبکہ آج تین سو میٹر قطر کی ٹیلی سکوپ ‘ پورٹوریکو میں موجود ہے اسکی مدد سے دن میں بھی ستاروں کو دیکھا جا سکتا ہے ۔

بعض کو آزر نامی ستاروں کی روشنی ہمارے سورج کی روشنی سے دس ہزار ارب گنا زیادہ ہے یہاں پر ہم نے غلطی کی ہے اور نہ ہی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ستاروں کی روشنی ناپنے کے لئے ہمارے پاس پیمائش کی واحد اکائی ہمارے سورج کی روشنی ہے بعض کو آزر ستارے اس قدر روشن ہیں کہ ان کی روشنی ہمارے سورج کی روشنی سے دس ہزار ارب گنا زیادہ ہے لہذا کسی مبالغہ آرائی کے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سورج کو آزر ستارے کے مقابلے میں بجھا ہوا ایک چراغ ہے اس کو اچھی طرح تصور میں لانے کیلئے ایک کا ہندسہ ڈالیں اور اسکے دائیں جانب سولہ صفر لگا دیں ۔

یہ ستارے جن میں سے پہلا ستارہ ۱۹۶۳ عیسوی میں دریافت ہوا اور اب تک ان میں سے دو سو سے زیادہ دریافت ہو چکے ہیں اب سائنس دان ایک ایسی ریڈیو ٹیلی سکوپ کیلئے کوئی ایسی دوربین نہیں بنائی جا سکی جس کا عرض تیس کلو میٹر (تیس ہزار میٹر ) ہو ۔

اس عظیم ریڈیو ٹیلی سکوپ کی سائنس دانوں نے منصوبہ بندی اس طرح کی ہے کہ ریڈیو ٹیلی سکوپ کے انٹینا کی کچھ تعداد کو ایک علاقے میں انگریزی کے وائی یا فرانسیسی کے ایگرک کی شکل میں اسطرح لگایا ہے کہ اس وائی یا ایگرک کی تینوں شاخوں میں سے ہر ایک اکیس کلو میٹر ہو اور یہ انٹینا لوہے کی پٹڑی پر رکھے جائیں تاکہ ان کو مرضی سے ادھر ادھر حرکت دے کر معین فاصلے پر کھڑا کیا جا سکے ان انٹینوں کا مجموعی رقبہ جو اکیس کلو میٹر ہو گا اسکی قوت ریڈیو ٹیلی سکوپ کے نظارہ کرنے کی قوت کے مساوی ہو گی پھر اس عظیم ریڈیو ٹیلی سکوپ کو آزر کے دیکھنے کیلئے استعمال کریں گے تاکہ اسکے ذریعے اچھی طرح اس کا مشاہدہ کر سکیں ۔

نجومیون نے اٹھارویں صدی عیسوی کے بعد آہستہ آہستہ عادت بنا لی تھی کہ کائنات میں دریافت ہونیوالے بڑے بڑے اور روشن ستاروں کے بارے میں حیرت کا اظہار نہیں کرتے تھے ۔

پھر بھی جب ۱۹۶۳ عیسوی میں پہلا کو آزر دریافت ہوا تو فلکیات کے ماہرین کی عقل دنگ رہ گئی اور جب انہوں نے دور دراز ایک کو آزر پر تحقیق کرنے کیلئے ٹیلی سکوپ کی آنکھ سے آنکھ لگائی تو انہوں نے اپنے سر کو اپنے دو ہاتھوں سے پکڑ لیا کہ کہیں ایسا نہہو کہ ان کی عقل ان کے سر سے اڑ جائے اور وہ دیوانے ہو جائیں ۔

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں دور دراز موجود کو آزر زمین سے نو ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں جب کہ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ کائنات کا قطر تین ارب نوری سال سے زیادہ نہیں ہے فضائی وسعت جسے روشنی نو ہزار ملین سال میں طے کرتی ہے اسکے لئے صرف اتنا جاننا کافیہے کہ روشنی ہر سال ۹۵۰۰ ارب کلو میٹر فاصلہ طے کرت ہے اس طرح ہمیں کو آزر اور زمین اک درمیانی فاصلہ معلوم کرنے کیلئے ۹۵۰۰ ارب کلو میٹر کو نو ارب سال سے ضرب دنا چاہیے ۔

اس فاصلہ جس کا انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی سے بھی زیادہ حیران کن چیز کو آزر کی روشنی ہے جس نے سائنس دانوں کی عقل مبہوت کر دی ہے یہ روشنی جو سورج کی روشنی کے دس ہزار ارب گنا کے برابر ہے اور سائنس دان ابھی تک اس بات کا کھوج نہیں لگا سکے کہ وہ کونسی توانائی ہے جو اس روشنی کو وجود میں لاتی ہے۔

پروفیسر آلفن کا کہنا ہے کہ کائنات میں مادہ اور ضد مادہ کے دھماکوں کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو اس قدر توانائی پیدا کر سکے اور وہ تجربہ جس کی تمہید روس میں باندھی جا رہی ہے اگر عملی صورت میں سامنے آ جائے اور ہیلیم اور ضد ہیلیم کا دھماکہ ہو تو نہ صرف یہ کہ توانائی کا ایک بیش بہا منبع بنی نوع انسان کے ہاتھ لگے گا بلکہ ممکن ہے کہ کوآزر کی توانائی کا منبع بھی معلوم ہو جائے ۔

شاید آپ یہ پوچھیں کہ روس میں عنصر اور ضد عنصر کا دھماکہ نہیں کیا جاتا اور ہیلیم اور ضد ہیلیم کو ہی کیوں اس مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ضد ہیلیم بااسانی دستیاب ہے جبکہ آکسیجن یا ہائیڈروجن کا اینٹی عنصر دستیاب نہیں اور آج جب کہ امریکہ میں پہلے ایٹمی دھماکے کے تجربے کو انتیس سال ہو چکے ہیں ابھی تک یورانیم اور پلاٹینم (جسے یورانیم سے حاصل کرتے ہیں ) اور ہائیڈروجن ہی کو ایٹمی دھماکوں میں استعمال کرتے ہیں اور ہائیڈروجن میں کسی دوسرے عنصر کے ایٹموں کے اوغام کے ذریعے توانائی حاصل کی جاتی ہے نہ کہ یورانیم اور پلاٹینم کی طرح اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ۔

سب سے زیادہ پائے جانے والے عناصر میں لوہا بھی ہے لیکن ابھی تک لوہیکے ایٹموں کا دھماکہ نہیں کیا جا سکا اور اسکے باوجود کہ تھیوری کے لحاظ سے لوہے اور تابنے وغیرہ کے ایتموں کا دھماکہ بھی ممکن ہے لیکن ابھی تک کسی ایٹمی طاقت نے ان دھاتوں کے ایٹموں کے دھماکے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا ۔ پس ہیلیم اور ضد ہیلیم کے دھماکے کی وجہ ضد ہیلیم کی فراہمی ہے ریڈیو ٹیلی سکوپ نہ صرف دور دراز کی شعاعوں کو ریکارڈ کرتا ہے بلکہ خلا میں موجود مالیکیولوں تک بھی اسکی رسائی ہوتی ہے اور اب تک اس عظیم کائنات میں تقریبا تیس قسم کے مالیکیول دریافت ہوئے ہیں جن کا کچھ حصہ مشہور تیزابوں اور پروٹین کے خام مال پر مشتمل ہے اور سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جانداروں کی ساخت میں استعمال ہونے والے خام مال کے خلیات پر مشتمل ہے ۔

ان مالیکیولوں کی ہماری زمین پر موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان سمیت تمام جانداروں کی اس روئے زمین پر موجودگی ایک معمولی بات ہے کوئی استشنائی بات نہیں ۔

آج ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ شروع میں زمین میں زندگی کے کوئی آثار نہ تھے کیونکہ زمین ایک انتہائی گرم سیارہ تھا لہذا اس میں کسی زندہ وجود کا پایا جانا محال تھا ۔ لیکن جونہی زمین ٹھنڈی ہوئی اور کائنات میں پائے جانیوالے زندہ جرثومے زمین پر پہنچنے لگے تو وہ نابود نہیں ہوئے اور ان سے جاندار خلیات وجود میں آئے خصوصا پانچ مالیکیول جنکا نام یوراسیل ہے یعنی کو آنین ٹی مین اوہ نین سیٹورین جن سے زمین میں مشہور تیزاب اور پروٹین بنی اور پھر ان سے حیوانوں کے خلیات کیلئے جن میں انسانی خلیات بھی شامل ہیں اور اس علمیدریافت کے ضمن میں ہم ریڈیو ٹیلی سکوپس کے ممنون احسان ہیں فلکی دوربین کے ذریعے انسان آج تک ستاروں کا مشاہدہ کرتا تھا اور ستاروں میں پائے جانے والے عناصر کو دریافت کرتا تھا اس طرح انسان ستارے کے درجہ حرارت کو بھی اخذ کر لیتا تھا۔

لیکن انسان اس بے کراں خلا میں موجود مالیکیولوں کا پتہ نہیں چلا سکتا تھا اور یہ مالیکیول جن کا کچھ حصہ زندگی کی تولید کرنے والے مالیکیولوں پر مشتمل ہے ریڈیو ٹیلی سکوپ کے ذریعے دریافت ہو چکے ہیں کیونکہ آج ہمیں معلوم ہے کہ زندگی زمین پر کوئی کم یاب وجود نہیں لہذا ہم ان دوسرے سیاروں پر بھی زندگی کی موجودگی کے امیدوار ہو سکتے ہیں جن کی کیفیت کرہ ارض جیسی ہے اور شاید وہ معیار زندگی کے لحاظ سے ہزاروں ملین سال ہم پر سبقت رکھتے ہوں اور چونکہ وہ اس کائنات میں ہم سے ہزاروں ملین سال پہلے وجود میں آئے ہیں لہذا انہوں نے وسائل بھی حل کر دیئے ہونگے جنہیں ہم ابھی تک حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اگرچہ زیادہ وقت زندہ رہنا ہی زیادہ علم رکھنے کی دلیل نہیں کیونکہ بنی نوعی انسان نے تقریبا اس زمین پر دو ملین سال گزارے ہیں لیکن اس کے علم کا آغاز صرف دس پندرہ ہزار سال پہلے ہوا ہے ۔

بہر کیف آج چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ صرف ہم ہی اس کائنات کے شاہد نہیں اور شاید ایسے کئی اربوں دوسرے سیارے موجود ہوں جن میں بے شمار جاندار اور باہوش مخلوقات پائی جاتی ہوں جنکے علوم اور تجربات سے ہم استفادہ کر سکیں اور موجودہ زمانے میں ہمارے پاس ریڈیو ٹیلی سکوپس ہی دوسرے سیاروں کے ساتھ رابطے کا بہترین ذریعہ ہیں ۔

جعفر صادق نے فرمایا بعض ستاروں کی روشنی اتنی زیادہ ہے کہ سورج ان کے سامنے ماند ہے آج ہم آپ کے فرمان کی تائید کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سورج ان ستاروں کے سامنے ایکبجھا ہوا چراغ ہے اور آپ کی سوچ اور فکر میں وسعت اور گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے دوسری صدی ہجر کے پہلے پچاس سالوں کے دوران میں اس حقیقت کو پا لیا تھا جس سے ہم آج مطلع ہو سکے ہیں یہ کوآزر جن سے بعض زمین سے نو ہزار سال نوری فاصلے پر واقع ہیں کیا یہ کائنات کی ابتدا میں واقع ہیں یا کائنات کے وسط یا آخر میں ؟

ہمارا سورج ان کو آرز کے سامنے ایک بجھے ہوئے چراغ کی مانند ہے جبکہ سورج ہمارے چوبیس گھنٹوں کے دوران زمین اور دوسری سیاروں کو ہرارت اور روشنی پہنچانے کیلئے چار سو ارب ٹن ہائیڈروجن کو ہیلیم میں تبدیل کرتا ہے اور مزید دس ارب سال تک یہ اسی طرح جلتا رہے گا ۔

جب ہمارے سورج کی عمر اتنی لمبی ہے تو ہم اندازا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک کو آزر کی عمر کتنی ہو گی ہم ایک نہایت ہی سادہ تخمینے سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کو آرز جو زمین سے نو ہزار ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں ان کی عمر ہزار ارب سال سے زیادہ ہے اور چونکہ اس کائنات میں ہامرے سورج کی مانند ایسے دوسرے سورج بھی موجود ہیں جو دس ارب سال بعد بجھ جائیں گے تو ناگزیر علم و عقل کے حکم کے تحت اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس کائنات میں صرف ہمارے دنیا ہی نہیں بلکہ دوسری دنیائیں بھی موجود ہیں ۔

اگرچہ ہمارے فلکیات کے ماہرین کی نظر میں بعض ستارے نہیں بجھے اور نہ ہی ناپید ہوئے پھر بھی دو یا دو سے زیادہ سورجوں کے درمیان پائے جانے والے طول کے فرق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ صرف ایک ہی دنیا نہیں بلکہ ہماری دنیا کے علاوہ بھی دنیائیں موجود ہیں ۔

جعفر صادق نے فرمایا دنیائیں صرف ایک یا دو ہی نہیں بلکہ متعدد دنیائیں موجود ہیں آپ کا یہ فرمان آج نا قابل تردید طور پر ثابت ہو چکا ہے اور ہمارے نظام شمسی کی مانند ہزاروں دنیائیں مٹ جاتی ہیں لیکن کو آزر باقی رہتے ہیں ۔

جعفر صادق کے نظریہ کے مطابق یہ متعدد دنیائیں دو گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہیں ایک کا نام عالم اکبر اور دوسرے کا عالم اصغر ہے ۔

ہمارا خیال ہے چونکہ عوالم اکبر اور عوالم اصغر موجودہوں گے لیکن جعفر صادق نے عوالم اوسط کا نام ہی نہیں لیا بلکہ صرف عوالم اکبر اور عوالم اصغر کا نام لیا ہے کیونکہ دو عوالم میں سے ضرور ایک عالم بڑا اور دوسراچھوٹا ہو گا جب آپ سے عوالم اکبر اور عوالم اصغر کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا خداوند تعالی کے علاوہ کوئی بھی ان کی تعداد سے مطلع نہیں ہے اور کسی طرح بھی عوالم کی تعداد کو شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ آج کا علم جعفر صادق کے اس فرمان کی تصدیق کرتا ہے ۔

کیونکہ علم فلکیات جب ترقی کرتا جاتا ہے ‘ ماہرین کہکشاؤں اور سورجوں کی تعداد سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے جاتے ہیں وہ اس بات کو جان لیتے ہیں کہ کہکشاؤں اور سورجوں کی تعداد کے بارے میں ان کا پہلا تصور غلط تھا اور کائنات کے سورجوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو ارشمیدس نے تیسری صدی قبل از مسیح میں ذرات کی تعداد کے بارے میں بتائی تھی ارشمیدس نے کہا تھا کہ اگر ہم دس کے ہندے کو ۶۳ بار اسی دس کے ہندسے سے ضرب دیں تو کائنات میں پائے جانے والے ذرات کی تعداد کا پتہ چل سکتا ہے ارشمیدس کے نظریئے کے مطابق ذرہ مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا ہوتا ہے جسے مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا اسیلئے اس ذرے کو نا قابل تقسیم کہا جاتا تھا ۔

اڈیلنگٹن ایک انگریز طبعیات دان جو ۱۹۴۴ میں پیدا ہوااس نے کہا اگر دس کے عدد کو اٹھاسی مرتبہ اسی دس کے ساتھ ضرب دیں تو کائنات میں ایٹموں کی تعداد معلوم کی جا سکتی ہے جس دن اڈیلنگٹن نے کائنات کے ایٹموں کا ریاضی کے اس فارمولے سے حساب لگایا تو فلکیات کے ماہرین معتقد تھے کہ کہکشاں کی تعداد ایک ملین ہے اور اسوقت تک فلکی دوربین جو کوہ پالومر کی رصد گاہ پر نصب ہے اور جس نے دو ہزار ملین نوری فاصلے پر واقع دنیا کو ماہرین فلکیات کی آنکھوں تک پہنچایا ہے ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اسی طرح اس زمانے میں ریڈیو ٹیلی سکوپ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا ۔

اگر آج اڈیلنگٹن زندہ ہوتا اور ریڈیو ٹیلی سکوپ کے ذریعے کو آزر کو دیکھنے میں کامیاب ہو جاتا تو اس کائنات میں ایٹموں کی تعداد کو شمار کرنے کیلئے جو فارمولہ دیا تھا اس پر نظر ثانی کرتا ۔ کیونکہ ۱۹۰۰ میں ماہرین فزکس اور فلکیات کا کائنات کے بارے میں جو تصور تھا اگر اس کا موازنہ آج کے تصور سے کیا جائے تو ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے تصور کو دوسرے تصور سے وہ نسبت ہے جو پانی کی ایک پیالی کو ایک سمندر سے ہے ۔

کوآرز کی دریافت کے بعد فلکیات کے ماہرین کو یہ نظریہ ہاتھ آیا کہ تمام وہ کہکشائیں جنہیں انسان آنکھ دیکھ سکتی ہے وہ جھان کی سرحدوں سے باہر واقع سیارے ہیں اور جہان کی سرحد ان مذکورہ کوآزر سے شروع ہوتی ہے جس میں سے بعض کا زمین سے نو ہزار ملیکن نوری سال فاصلہ ہے بنا براین چونکہ ہماری ریڈیو ٹیلی سکوپ نو ہزار ملین نوری سال سے زیادہ فاصلے تک نہیں دیکھ سکتے اس لئے جو کچھ کوآزر سے آگے یا اوپر واقع ہے ہماری آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی ۔

اس نظریے کے مطابق ایک لاکھ ملین کہکشاں جس میں سے ہر ایک دس ہزار ملین سورج کی حاملہے اور انسانی تیلی سکوپ کی آنکھ اور ریڈیو ٹیلی سکوپ کی ان تک رسائی ہے وہاں تک اصلی دنیا نہیں بلکہ کائنات کی سرحد کے باہر بکھرے ہوئے نہایت ہی قلیل سیارے ہیں اور اصلی کائنات تو کوآزروں سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اگر اصل نہہوتی توہر کو آزر کی روشنی ہمارے سورج کی روشنی سے دس ہزار ارب گنا زیادہ نہ ہوتی ۔

ہمارے سورج میں چوبیس گھنٹوں کے دوران جو روشنی پیدا ہوتی ہے وہ چار سو ارب ٹن ہائیڈروجن دھماکوں کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے اور ایک کو آزر میں چوبیس گھنٹوں کے دوران سورج کی روشنی کے دس ہزار ارب گنا کے برابر روشنی پیدا کرنے کیلئے کتنی ہائیڈروجن درکار ہوتی ہے (اگر کو آزر کی روشنی مادہ اور ضد مادہ کے دھماکے کے نتیجے میں حاصل نہ ہوتی ہو ) ایک سادہ حساب کے ذریعے ہم چار سو ارب ٹن کو دس ہزار ارب سے ضرب دیں تو ہمیں چار کا ہندسہ اور اسکے دائیں طرف ستایس صفر ملتے ہیں اور یہ عدد اس قدر بڑا ہے کہ ہم اسے زبان پر نہیں لا سکتے ۔

لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ قاعدے کی رو سے ہر کو آزر میں چوبیس گھنٹوں کے دوران سورج سے دس ہزار ارب گنا زیادہ ایندھن جلتا ہے لہذا اصلی دنیا کو آزر ہے یعنی اصلی دنیا کو آزر سے شروع ہوتی ہے اور چونکہ ریڈیو ٹیلی سکوپس ابھی تک اس پر قادر نہیں ہیں کہ کوآزر سے اگے دیکھ سکیں ۔ لہذا ماہرین فلکیات اور طبعیات دان کو آزر سے شروع ہونیوالی اصلی دنیا کی وسعت کا اندازہ نہیں لگا سکے اور چونکہ جہان کی وسعت کا تخمینا اندازہ لگانا بھی محال ہے اس لئے سورجوں کی تعداد کا اندازہ لگانا بھی ان کیلئے محال ہے چہ جائیکہ وہ ارشمیدس اور اڈیلنگٹن کی تقلید میں جہاں میں موجود ایٹموں کا حساب لگا سکیں ۔

اسی بنا پر بڑی اور چھوٹی دنیاؤں کی تعداد کے بارے میں منطقی ترین نظریہ وہی ہے جس کا جعفر صادق نے اظہار فرمایا اور کہا کہ خداوند تعالی کے سوا کوئی بھی دنیاؤں کی تعداد سے مطلع نہیں ہے اور اس نظریئے کا دوسرا مفہوم یہہے کہ بنی نوعی انسان عوالم کبیر اور صغیر کے احاطہ کرنے پر قادر نہیں اور انہیں شمار نہیں کر سکتا عالم کبیر اور صغیر کے درمیان فرق جعفر صادق کے نزدیک صرف حجم کے لحاظ سے ہے نہ کہ کمیت کے لحاظ سے اور اج علم فزکس اس نظریہ کی بھی تصدیق کرتا ہے ۔

ہم نے گذشتہ صفحات میں ذکر کیا ہے کہا گر الیکٹرانوں اور مرکزے کے درمیان پائے جانے والے خلا کو درمیان سے ہتا دیا جائے تو کرہ ارض فٹ بال کی ایک گند کے برابر ہو جائیگا ۔ لیکن اس فٹ بال کی گیند کا وزن کرہ ارض کے موجودہ وزن کے مساوی ہو گا فٹ بال کی گیند کی مثال ہم نے اسلئے دی کہ اس سے ذہن آشنا ہے ورنہ اگر الیکٹرانوں اور نیو کلیس کا درمیان خلا ختم کر دیا جائے تو کرہ ارض کا حجم فٹ بال کی گیند سے بھی کم ہو جائیگا لیکن اس گیند کا وزن کرہ ارض کے موجودہ وزن کے برابر ہو گا ۔

اس طرف بھی توجہ کرنا لازم ہے کہ خلا میں کرہ ارض بے وزن ہے اور ہم صریحا یہ کہہ سکتے ہیں کہ خلا میں کرہ ارض کا وزن مرغ کے ایک پر جتنا ہے اور زمین پر ہی کیا منحصر ہے تمام سیارے جو سورج کے اردگرد گردش کر رہے ہیں اور بطور کلی تمام اجرام وسیع خلا میں دوسرے اجرما کے گرد گردش کر رہے ہیں بے وزن ہیں اور ان کے اس بے وزن ہونے کی دلیل ان کی حرکت کی رفتار ہے ۔

جعفر صادق کے نظریہ کے مطاقب جو کچھ عالم اصغر میں ہے وہی عالم اکبر میں بھی ہے لیکن جو کجھ عالم اکبر میں ہے اس کا حجم اصغر کے موجودات کے حجم سے زیادہ ہے اور جو خواص عالم اکبر میں پائے جاتے ہیں وہی خواص عالم اصغر میں بھی پائے جاتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے پہلے عالم کا حجم دوسریعالم کے حجم سے زیادہ ہے ۔

اس بنا پر اگر قدرت ہو تو ہر عالم اصغر کو عالماکبر اور ہر عالم اکبر کو عالم اصغر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس وقت ہم ان نظریات کو سنتے ہیں تو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم فزکس کے کسی استاد سے سبق سن رہے ہیں یا یہ کہ فزکس کی کسی جدید کتابکا مطالعہ کر رہے ہیں جبکہ یہ وہ نظریات ہیں جنہیں ساڑھے بارہ سو سال پہلے پیش کیا گیا جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ جہان کب وجود میں آیا ؟

آپ نے جوابا فرمایا جہان شروع سے موجود ہے آپ سے جہان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں سوال کیا گیا جعفر صادق نے جواب دیا میں جہان کی تاریخ پیدائش نہیں بتا سکتا چونکہ شیعہ اپنے اماموں کے معجزات کے قائل ہیں لہذا ان کا عقیدہ ہے کہ جعفر صادق بتا سکتے تھے کہ جہاں کب وجود میں آیا ؟ شیعوں کا اپنے آئمہ کے معجزات کے بارے میں جو عقیدہ ہے اس میں ایک علم امامت بھی ہے جو وسیع معنوں میں علم مطلق ہے ۔

مومن شیعہ جو امام کے معجزات کے قائل ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ جعفر صادق دنیا کی تاریخ پیدائشبتانا نہیں چاہتے تھے ورنہ وہ علم امامت کے ذریعے جہان کی تاریخ پیدائش سے آگاہ تھے شیعوں کے عقیدے کے مطابق (جو علم امامت اور امام کے اعجاز کے قائل ہیں )جعفر صادق نے نہ صرف اس موقع پر جواب نہیں دیا بلکہ بہت سے دوسرے مواقع پر بھی سوال کرنے والوں کے جوابات نہیں دیئے کیونکہ آپ نے بنی نوعی انسان کی مصلحت اسی میں سمجھی کہ انسان کچھ اسرار سے نا اگاہ رہے کیونکہ بعض اسرار سے اگاہی انسانی زندگی کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن جاتی ہے ۔

بعض دوسرے مومن شیعہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں چونکہ جعفر صادق نے تمام علوم عوام کی بارے میں اظہار خیال فرماتے لیکن علم امامت نا ممکنات کا احاطہ نہیں کر سکتا اس لئے امام نا ممکن کام بجا نہیں لا سکتا ۔ شیعوں کے گروہ کا قولا ہے کہ امام تو امام خدا بھی نا ممکنات کو انجام نہیں دے سکتا اس موضوع پر ‘ شیعہ علما میں صدیوں سے فلسفیانہ بحثیں جاری ہیں کہ کیا خداوند تعالی نا ممکن کا کرنے پر قادر رہے انہوں نے یہ اظہار خیال کیا ہے کہ بنی نوعی انسان کی محدود توانائی کی وجہ سے بعض کام اس نا ممکن دکھائی دیتے ہیں ۔

لہذا محال کام بذاتہ نا ممکن نہیں ہے بلکہ بنی نوع انسان کی محدود توانائی کی وجہ سے اسے بعض کام نا ممکن دکھائی دیتے ہیں جس طرح ایک دو سالہ لرکے کیلئے بیس کلو گرام وزن اٹھانا محال ہے لیکن شیعہ علماء کا دوسرا گروہ کہتا ہے کہ بہر کیف ایسے کام ہیں جو محالات کے زمرے میں آتے ہیں مثلا کل کو جزو کے برابر کرنا کیونکہ عقلی لحاظ سے یہ ممکن نہیں ۔

لیکن وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ خداوند تعالی ہر مہال کام کو انجام دے سکتا ہے ان کا کہنا ہے کل اور جزو ہماری عقل کے لحاظ سے غیر مساوی ہیں ۔ اور ممکن ہے کہ ایک دوسری عقل کل اور جزو کو مساوی خیال کرے ۔ ان لوگوں کو کہنا ہے کہ خدا بکھری ہوئی اور خاک میں ملی ہوئی ہڈیوں کو اکٹھا کرے گا اور انسان کو اپنے اعمال کے حساب کیلئے زندہ کرے گا تاکہ انسان اپنے اعمال کی سزا یا جزا پائے یہ کام محال ہے لیکن بہر کیف خداوند تعالی اس محال کام کو انجام دیتا ہے جو کوئی خداوند تعالی کی طرف سے اس محال کام کی انجام دہی کا منکر ہو وہ مسلمان نہیں کیونکہ معاد دین اسلام کے اصولوں میں سے ہے مختصر یہ کہ مومون شیعہ معتقد ہیں کہ جعفر صادق جہان کی تاریخ پیدائش سے آگاہ تھے لیکن اس کے بارے میں اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے تھے تاکہ لوگوں میں پریشانی نہ ہونے پائے ۔ جعفر صادق کا فرمان ہے کہ اگر اج سے لے کر میری زندگی کے آخری مرحلے تک مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ جہان سے پہلے کیا چیز موجود تھی تو میں کہوں گا کہ جہان موجود تھا ۔ اس موضوع سے واصح ہوتا ہے جعفر صادق جہان کو ازلی مانتے ہیں جعفر صادق کا جہانوں کیبارے میں ایک دلچسپ نظرہ جہانوں کی وسعت اور سکڑنے کے متعلق ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو دنیائیں موجود ہیں ایک حال میں نہیں رہتیں کبھی وہ وسیع ہو جاتی ہیں اور کبھی ان کی وسعت کم ہونے کی وجہ سے وہ سکڑ جاتی ہیں جعفر اصدق کا یہ نظریہ بھی ان کے دوسرے نظریات کی مانند اہل علم حضرات کیلئے بے بنیاد تھا سائنس دانوں نے اس نظریئے کو ایک تخیل سمجھا اور کہا کہ جعفر صادق نے ایک ایسی بات کہی ہے جس کے درست ہونے کے وہ پابند نہیں ہیں جبکہ ایک سائنس دان جب کوئی بات کرتا ہے تو اسکی صحت کا پابندی ہوتا ہے اور ایک دانشمند کیلئے مناسب نہیں ہے کہ کوئی ایسی بات کہے جسے وہ حقیقی اور صحیح نہ سمھجتا ہو ۔

جب اٹھارویں صدی عیسوی کے بعد فلکی دوربینیں زیادہ طاقتور بنا لی گئیں اور ماہرین فلکیات نے ان دوربینوں کے ذریعے نہ صرف نظام شمسی کے سیاروں کا پہلے سے بہتر مشاہدہ کیا بلکہ نظام شمسی سے باہر کی دنیا کا بھی بہتر نظارہ کیا اور انیسویں صدی عیسوی کے نصف میں سیاروں کی روشنی کے ذریعے ان میں موجود بعض عناصر کا بھی پتہ چلا لیا۔

بیسوی صدی عیسوی کے آغاز میں ایک یورپی ماہر فلکیات جس کا نام ایبلیمیٹر ہے ۔ جو مذہبی لباس بھی پہنتا تھا اور بلجیئم کی یونیورسٹی میں پروفیسر بھی تھا ۔ اس نے جدید علم کے ابتدائی مراحل میں جان لیا تھا کہ کہکشاؤں کا ایک گروہ جو ہمارے نظام شمسی سے کافی قریب ہیں اور انہیں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے وہ بتدریج دور ہوتا اور اطراف میں بکھرتا جا رہا ہے ایبلیمیٹر نے اپنے مشاہدات کی اطلاع رصد گاہ میں موجود دوسرے ماہرین کو دی اور ان سے درخواست کی کہ وہ یہ معلوم کریں کہ اس نے صحیح اخذ کیا ہییا نہیں ؟ ماہرین فلکیات جب فضاء میں کسی ایسی چیز کو دیکھتے ہیں جو پہلے دکھائینہ دی ہو تو وہ اس کی اطلاع دوسروں کو دیتے ہیں تاکہ انہیں یہ پتہ چلے کہ انہوں نے جو استنباط کیاہے وہ صحیح ہے یا غلط ہے ؟ اور اگر دوسرے بھی اس نئی چیز کو دیکھیں یا استنباط کر لیں تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ غلطی نہیں ہوئی جو کچھ ایبلیمیٹر نے دیکھا تھا اس کی تصدیق چند یورپی اور امریکی رصد گاہوں نے کی اور معلوم ہوا کہ کہکشاؤں کا ایک گروہ جو نظام شمسی کے قریب تر ہے اور اسے اجھی طرح دیکھا بھی جا سکتا ہے دور ہٹتا جا رہ ہے گویا وہ نظام شمسی سے حالت گریز میں ہیں اور ان کا فاصلہ اس کہکشاں سے جس میں ہمارا نظام شمسی ہیبتدریج بڑھتا جا رہا ہیایبلیمیٹر اور دوسری سائنس دان جو متعدد رصد گاہوں میں آسمانی سیاروں پر تحقیق کر رہے تھے ۔ کہکشاؤں کے ہمارے نظام شمسی کی کہکشاں سے دور ہٹنے کے مسئلے کے بارے میں بھی ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے تھے یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے شعلے بھڑک اٹھے اور ان میں سے بعض جو اس موضوع سے خصوصا دلچسپی رکھتے تھے مثلا ایبلیمیٹر اور انگلستان کا طبیعات دان اڈیلنگٹن اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے لہذا کہکشاؤں کے دور ہونے کے مسئلے پر تحقیق ۱۹۶۰ ء عیسوی تک کھٹائی میں پڑ گئی کیونکہ دوسرے نہیں چاہتے تھے کہ جس کام کی ابتداء ایبلیمیٹر نے کی تھی اسے اس کے نام سے جاری رکھیں ۔

۱۹۶۰ ء عیسوی کے بعد کہکشاؤں کے ہامرے نظام شمسی کی کہکشاں سے دور ہونے کے مسئلے کے بارے میں تحقیق دوبار ہ شروع ہوئی ۔ دوسری مرتبہ معلوم ہوا کہ جو کہکشائیں ہماری کہکشاں کے نزدیک ہیں اور ماہرین فلکیات انہیں اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں ہماری کہکشاں سے دور ہوتی جا رہی ہیں لہذا ماہرین فلکیات کو اس میں کوئی شک نہیں چ کہ دنیا ہماری کہکشاں کے اردگرد وسیع ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ہماری کہکشاں کے تمام اطراف میں کہکشائیں دور ہوتی جا رہی ہیں لیکن سائنس دان نہیں جانتے کہ دوسری جگہوں پر بھی کہکشائیں حالت گریز میں ہیں اور دور ہو رہی ہیں یا نہیں ؟ ان کی اس مسئلے سے بے خبری کی وجہ کائنات کا وسیع ہونا اور اجرام فلکی کا زمین سے دور ہونا ہے ہم نے گذشتہ صفحات میں دیکھا کہ بعض اجرام فلکی جن کا نام کو آزر ہے ہم سے نو ہزار ملین سال نوری فاصلے پر واقع ہیں اگر ان کو آزروں میں سے اچانک آج ایک تباہہو جائے تو ہمارے ماہرین فلکیات نو ہزار ملین سال کے بعد اس کی تباہی سے مطلع ہوں گے لہذا ہمارے ماہرین فلکیات کیلئے یہ جاننا نا ممکن ہے کہ دور دراز واقع اجرام فلکی نزدیک ہو رہے ہیں یا ہم س دور ہو رہے ہیں ؟ جو بات تحقیق سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ وہ کہکشائیں جو ہامری کہکشاں کے نزدیک ہیں اور ماہرین فلکیات انہیں اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں وہ اطراف میں بکھرتی جا رہی ہیں لہذا دنیا کے اس کائنات میں سکڑنے اور پھیلنے کی جعفر صادق کے نظریئے کی ہماری کہکشاں سے تصدیق ہو جاتی ہے اور چونکہ اس علاقے کی تمام کہکشائیں دور ہو رہی ہیں ہماری کہکشاں بھی دور ہو رہی ہے ہمیں معلوم نہیں کہ یہ دور ہونے کا عمل کس زمانے سے شروع ہو اہے ۔ جعفر صادق نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے کہا جہان کبھی پھیلتے ہیں اور کبھی سکڑتے ہیں جس جہان میں ہم رہ رہے ہیں اس کا پھیلنا نہ صرف یہ کہ جعفر صادق کے زمانے سے شروع ہوا بلکہ آپ سے ہزاروں یا لاکھوں سال پہلے شروع ہوا ہمیں ان ہزاروں یا لاکھوں سال کے فرق پر حیرانی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے نزدیک واقع کہکشاؤں کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ ہے کہ ہم حساب نہیں لگا سکتے وہ کہکشائیں ہزاروں سال پہلے دور ہٹنی شروع ہوئیں یا لاکھوں سال پہلے ؟ کائنات کے اس حصے میں کہکشاؤں کے دور ہونے کا پیمانہ ہمارے پاس وہ روز افزوں فاصلہہے جو ایبلیمیٹر کے مشاہدے سے لے کر آج تک کرہ زمین اور ان کہکشاؤں میں وجود میں آیا ہے ماہرین فلکیات کائنات کے تمام حصوں سے مطلع نہیں ہیں وہ نہیں جانتے کہ دوسری کہکشائیں بھی حالت گریز میں ہیں یا صرف کائنات کے اس حصے میں ایسا ہو رہا ہے ۔

لیکن ان ستاروں کا وجود جن کا نام کوتولے اور جن کا ذکر گذشتہ صفحات میں ہو چکا ہے ان کا سکڑنا ماہرین فلکیات کے ہاں ثابت ہے ماہرین فلکیات نے مشاہدہ کیا ہے کہ بعض ستارے اس قدر سکڑتے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ جیسا کہ ماہرین فلکایت کہکشاؤں کے سکڑنے اور پھیلنے یعنی فاصلوں کی زیادتی اور کمی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ کس وقت یہ عمل شروع ہوا ہے اسی طرح وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کوتولہ ستارے کس زمانے میں کس قدر سکڑ گئے ہیں خیال کیا جاتا ہے ۔ جس طرح دنیاؤں کا سکڑنا اور پھیلنا تدریجی ہے اسی طرح ان ستاروں کا سکڑنا بھی تدریجیہے اور کوتولہ ستارے قلیل عرصے میں وجود میں نہیں ائے بلکہ ان کے ایٹموں کے الیکٹرانوں کے مفقود ہونے اور ایٹموں کے مرکزوں کو آپس میں پیوست ہونے میں ایک طویل مدت لگی ہے ۔

بنا بریں اس حالت میں کہ کائنات کے ایک حصے میں اجرام فلکی پھیل رہے ہیں اور دوسرے حصوں میں سکڑ رہیہیں یا یہ کہ ان کے سکڑنے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور وہ ہماری زمین کی مانند زندگی کے کاروبار میں مشغول ہیں حالانکہ ایسا ہونا ہمیں محال نظر آتا ہے مادے کے حقیقی موت کو تولہ ستاروں میں واقع ہوتی ہے کیونکہ ان ستاروں میں مادہ مکمل طور پر ساکن ہوتا ہے ظاہرا مادیکی آخری منزل یہ ہے کہ وہ کوتولہ کی شکل اختیار کر لے اور اس کے الیکٹران ختم ہو جائیں اور صرف ایٹموں کے مرکزے باقی رہ جائیں جو آ  س میں جڑے ہوئے ہوں اور اس طرح ایک ایسی کمیت وجود میں ائے جو ہماری زمین پر پائے جانے والے سب سے زیادہ کمیت والے میٹیریل سے کھربوں گنا زیادہ کمیت کے حامل ہوں ۔ مختصر یہ کہ موجودہ زمانے میں علمنجوم اور فزکس جعفر صادق کے جہانوں کے پھیلنے اور سکڑنے کے نظریہ کی تائید کرتے ہیں ۔

اٹھارویں صدی عیسوی تک یورپ والے ہندوستان کے تمام لوگوں کے دینی فلسفی اعتقادات سے مطلع نہیں تھے اور صرف ہندوستانی مسلمانوں کے عقائد سے آگاہ تھے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپ کے کچھ دانشوروں نے ہندوستان کی قدیم فلسفی عقائد کے اصولوں سے اگاہ ہوئے اور انہوں نے جانا کہ ہندوستانیوں کے قدیم عقائد میں سے عقیدہ یہ بھی تھا کہ دنیا بیداری اور جوش و خروش کا مرحلہ ہے اور کاہلی کا دور جو آہستہ آہستہ جمود میں تبدیل ہو جاتا اور اخر کار خوبیدگیپر منتج ہوتا ہے ۔ دنیا کی بیداری کے زمانے میں اس قدر و سعت پیدا ہو گی کہ اس کی ابتدا اور انتہا کے بارے میں بھی ہم نہیں سوچ سکتے اس دوان گو نا گوں اقسام کے بے شمار درخت اور جانور دنیا میں وجود میں آئیں گے ۔اس دنیا کی وسعت کی ابتدا لاکھوں سال پہلے ہو چکی ہے اور مختلف اقسام کا مواد درخت اور جانور ابھی تک وجود میں آ چکے ہیں ایک زمانے کے بعد جس کے وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ دنیا سکڑتی اور پھیلتی رک جائے گی اور پھر دنیا میں مختلف اقسام کا مواد ‘ درخت اور جدید قسم کے جانور وجود میں نہیں ائیں گے۔ موجودہ مواد ‘ درخت اور جانور بھی بتدریج ختم ہوتے جائیں گے ۔ دنیا کی وسعت روبہ زوال ہو گی اور دنیا اپنے آپ کو سمیت لے گی اور اپنے مرکز کی طرف رجوع کریگی ۔ اپنے آپ کو سمیٹنے اور اپنیمرکز کی طرف جانے میں بھی لاکھوں سال لگیں گے اور یہ مدت بھی اس قدر طویل ہے کہ ہم اس کو متعین کرنے کیبارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ایک زمانہ آئے گا کہ دنیا بے حرکت ہو کر اپنے اندر ڈوب جائے گی اس طرح کہ کسی قسم کے مواد درخت اور جانور کا نام و نشان نہیں رہے گا اس مرحلیکودنیا کے ڈوبنے یا خوبیدگی کا دوسرا مرحلہ شمار کیاجا سکتا ہے کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کتنا عرصہ تک غفلت میں رہے گی یا حالت خواب میں رہے گی شاید یہ مدت ملین ہا سال طویل کھنچے اور اس کے بعد دنیا کو جھٹکا لگے اور دنیا خواب سے بیدار ہو جائے اور دوبارہ وسیع ہو جائے اور جدید مواد درخت اور جاندار وجود میں آئیں اور دنیا کی توسیع میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے دنیا کی بیداری کے جدید مرحلے کے دوران وہ مواد درخت اور جاندار وجود میں آئیں گے۔ جو پہلے وجود میں نہیں آئے تھے اور یہ قدرتی امر ہیجو انسان جدید مرحلے میں وجود میں آئے گا وہ پہلے انسان سے مختلف ہو گا یعنی ا س سے برتر ہو گا کیونکہ دنیا جب بیدار ہو گی اور اس میں توسیع پیداہو گی تو وہ اپنی اشیا وجود میں لائے گی جو پہلے سے ترقی یافتہ ہوں گی کیونکہ قدیم ہندوستانیوں کے عقیدے کے مطابق اگر دنیا گھٹیا چیزیں وجود میں لائے گی تو وہ زوال اور فساد کا باعث بنے گی اور نابود ہو جانے کے بعد پھر دوبارہ خواب سے بیدار نہیں ہو گی ۔ بنا بریں جس مرحلے میں دنیا خواب سے بیدا ہو گیا ور انسان سمیت جو کچھ بھی اس میں پیدا ہو گا وہ پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا اس عقیدے کے مطابق انسان کے مقدر کی ایک خاص حالت تھی ۔ قدیم ہندوستانیوں کے عقیدے کے مطابق انسان دنیا کی خوبیدگی کے دوران میٹرئیل ‘ درختوں اور جانداروں کے برعکس ختم نہیں ہوتا بلکہ مرنے کے بعد انسانی روح دوسرے مراحل طے کرتی ہے اور آخر کار ہمیشہ کی سعادت کے مرحلے تک پہنچتی ہے اور دنیا کی بیداری کے دوسرے مرحلے میں پہلے سے بہتر انسان وجود میں آتے ہیں جو موت کے بعد اپنی روح کے ذریعیباقی رہ جاتے ہیں اور ان کی روح چند مراحل کو طے کرنے کے بعد جنت میں دوسری ارواح سے جا ملتی ہے قدیم ہندوستانیوں کے عقیدے کے مطابق انسانی روح دنیا کے خواب اور بیداری کے قانون کی مطیع نہیں ہے اور جب خوابیدگی کے دوران تمام مواد درخت اور جاندار مر جاتے ہیں تو انسان کی روح باقی رہ جاتی ہے ۔ دنیا کی خوابیدگی کے موقع پر ہر چیز ختم ہو جاتی ہے مگر صرف انسانی روح بہشت ارواح میں باقی رہتی ہے کیا قدیم ہندوستانیوں کے اس عقیدے کو ان کی حب ذات اور خود پرستی کا نتیجہ خیال کیا جا سکتا ہے یا نہیں بظاہر یہ عقیدہ حب ذات اور خود پرستی کا نتیجہ ہے لیکن اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ تھا وہ روح کو مواد ‘ درختوں اور جانداروں کے برعکس ایک ایسی چیز سمجھتے تھے جسے موت نہیں آتی کیونکہ وہ مادی نہیں ہے کہ مر جائے اور اسی وجہ سے موت کے بعد انسان مادی دنیا سے بالاتر دنیا میں رہتا ہے اور جس دن سے تاریخی لکھی گئی ہے ا سے لیکر آج تک جس معاشرے میں آخرت کے بارے میں عقیدہ رہا ہے اس میں روح کی بقا کا عقیدہ بھی موجود رہا ہے اور کوئی ایک معاشرہ بھی ایس انہیں مل سکتا جس میں آخرت کا عقیدہ تو ہو لیکن روح کی بقا کا عقیدہ نہ پایا جاتا ہو ۔

مرکزی افریقہ کے سیاہ فام قبائل سے لیکر توحید ی مذاہب کے پیروکاروں تک سابقہ اور موجودہ تمام معاشرے روح کی بقا کا عقیدہ اس لئے رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ وہ روح کو مادے سے جدا خیال کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ مادیکو موت ا جاتی ہے لیکن انسانی روح نہیں مرتی ‘ جو کچھ ہم نے عرض کیا اس کا ماحصل یہ ہے کہ دنیا کے پھیلنے اور سکڑنے کے بارے میں نظریہ قدیم ہندوستانی عقائد کے رنگ میں رنگ گیا ہے ۔

یہ نظریہ چاہے جعفر صادق نے پیش کیا ہو یا قدیم ہندوستانیوں کا عقیدہ ہو آج کے علم نجوم اور فزکس کے انکشافات اسے ایک علمی حقیقت قرار دیتے ہیں ۔

اگر ساری کائنات سکڑ اور پھیل نہیں رہی تو بھی اس کے کچھ جہاں پھیل اور سکڑ رہے ہیں اور جس مقام پر جہاں سکڑتا ہے وہاں اس کے بعد مادے کا وجود نہیں رہتا کیونکہ مادہ تو کمیت کا نام ہے جو ایٹموں میں موجود ہوتی ہے اور ایٹم جو اس مقام کو چھوڑ گئے اسے مادہ نہیں کہا جا سکتا ۔ کیا یہ مرہ ستارے جن کی کمیت اس قدر زیادہ ہے قدیم ہندوستانیوں کے عقیدے کے مطابق ایک دن زندہ ہونگے کیونکہ ان ستاروں کی حالت ویسی ہے جیسی قدیم ہندوستانیوں نے دنیا کے خواب میں جانے یا سانس روک لینے میں کہی ہے لیکن علم فزکس یہ نہیں بتا تا کہ یہ مردہ ستارے جن کا میزان کمیت اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ان کے ذرات کے درمیان تھوڑی سی خالی جگہ بھی نہیں ہے وہ کیسے زندہ ہونگے ۔