عدالت صحابہ کا نظریہ

 عدالت صحابہ کا نظریہ0%

 عدالت صحابہ کا نظریہ مؤلف:
: شیخ محمد علی توحیدی
: شیخ محمد علی توحیدی
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 34

 عدالت صحابہ کا نظریہ

مؤلف: حجۃ الاسلام سید عبد الرحیم موسوی
: شیخ محمد علی توحیدی
: شیخ محمد علی توحیدی
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات:

صفحے: 34
مشاہدے: 183
ڈاؤنلوڈ: 191

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 183 / ڈاؤنلوڈ: 191
سائز سائز سائز
 عدالت صحابہ کا نظریہ

عدالت صحابہ کا نظریہ

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

نوٹ: اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔نیزادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=467&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=467&view=download&format=doc

قارئین محترم !

اپنی قیمتی اور علمی کتابیں، مقالات نیز اپنے مفید آراء ومشورے، سوالات، اشکالات، معروضات اور تبصرے وغیرہ ہمارے ادارہ کے اس ایمیل پر بھیج سکتے ہیں

ihcf.preach.urdu@gmail.com

 

بسم الله الرحمن الرحیم

نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔ عدالت صحابہ کا نظریہ

موضوع : علوم قرآن

مولف : حجۃ الاسلام سید عبد الرحیم موسوی۔ریسرچ کمیٹی

مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی

نظرثانی: حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین

کمپوز ر: حجۃ الاسلام شیخ غلام حسن جعفری

اشاعت :اول ۲۰۱۸

ناشر: عالمی مجلس اہل بیت

جملہ حقوق محفوظ ہیں

۱

۲

ص۵

اہل البیت علیہم السلام ،قرآن کے آئینے میں:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سور ۃٔ احزاب/۳۲ )

ترجمہ :اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ وہ آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے پاک و پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔

اہل بیت رسول علیہم السلام،سنت نبوی کے آئینے میں:

اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ (صحاح و مسانید)

ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں۔ وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔

۳

ص۶ - ص۷

عرضِ مجلس

اہل بیت علیہم السلام کا علمی و فکری ورثہ جسے مکتب اہل بیت نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے مکتب فکر کی تصویر پیش کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ کی مختلف جہات کو محیط ہے ۔اس مکتب فکر نے اسلامی معارف کے اس صاف سرچشمے سے سیراب ہونے کے لائق نفوس کی ایک کھیپ کو پروان چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر نے امت مسلمہ کو ایسے عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے نظریاتی نقش قدم پر چلے ہیں ۔اسلامی معاشرے کے اندر اور باہر سے تعلق رکھنے والے مختلف فکری مناہج اور مذاہب کی جانب سے اُٹھنے والے سوالات ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل نظر رہی ہے ۔

یہ علماء اور دانشور مسلسل کئی صدیوں تک ان سوالات اور شبہات کے معقول ترین اور محکم ترین جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس اہل بیت نے اپنی سنگین ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ان اسلامی تعلیمات و حقائق کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے جن پر مخالف فِرق و مذاہب اور اسلام دشمن مکاتب و مسالک کے اربابِ بست و کشاد نے معاندانہ توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی مجلس اہل بیت نے اس سلسلے میں اہل بیت علیہم السلام اور مکتب اہلبیت کے ان پیروکاروں کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کی ہے جنہوں نے ہر دور کے مسلسل چیلنجوں سے معقول ،مناسب اور مطلوبہ انداز میں نمٹنے کی کوشش کی ہے ۔

۴

ص۸

اس سلسلے میں مکتب اہل بیت کے علماء کی کتابوں کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں ،عقل و برہان کی بنیادوں پر استوار ہیں اور مذموم تعصبات و خواہشات سے پاک ہیں نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین کو اس انداز میں اپنا مخاطب قرار دیتی ہیں جو عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے ۔

عالمی مجلس اہل بیت کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ اور شبہات و اعتراضات کے بارے میں بے لاگ سوال و جواب کا ایک جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں اور آج بھی انہیں ہوا دی جارہی ہے ۔

اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے بعض حلقے اس سلسلے میں انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد کررہے ہیں ۔اس بارے میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ لوگوں کے جذبات اور تعصبات کو مذموم طریقے سے بھڑکانے سے اجتناب برتا جائے جبکہ عقل و فکر اور طالبِ حق نفوس کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں جنہیں اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب پورے عالم کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ بھی اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔

۵

ص۹

یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ زیر نظر تحقیقی مباحث ممتاز علماء اور دانشوروں کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر اور قدر دان ہیں جن میں سے ہر ایک نے ان علمی مباحث کے مختلف حصوں کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔

ہمیں امید ہے کہ ہم نے اپنی ان ذمہ داریوں میں سے بعض کو ادا کرنے میں ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔

عالمی مجلس اہل بیت شعبہ ثقافت

۶

ص۱۱

عدالت صحابہ کا نظریہ، مکتب اہل بیت کی نظر میں

عدالت صحابہ کے نظرئے سے یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر صحابی (خواہ وہ نہایت مختصر مدت کے لیے صحابی رہا ہو ) عادل ہے ۔وہ جھوٹ نہیں بولتا اور عمداً خطا نہیں کرتا ۔اس کے قول و عمل اور اس کی روایت کی پیروی جائز ہے نیز وہ دوسروں کے لیے حجت کی حیثیت رکھتا ہے ۔

یہ نظریہ مخصوص سیاسی اہداف کی خاطر ایک خاص سیاسی ماحول میں پروان چڑھا ۔اس کا بنیادی مقصد اموی اقتدار کو مضبوط کرنے، ان کے تصرفات واقدامات کو جواز فراہم کرنے اور انہیں شرعی لبادہ پہنانے سے عبارت تھا ۔

بعض انتہا پسندوں نے اس نظرئے کو اپنالیا اور امت مسلمہ کے درمیان اس کی ترویج کے لیے جد وجہد کی ۔ ان عناسر نے اس نظرئے کو اہل بیت علیہم السلام کے موقف کے متبادل طور پر پیش کیا اور مکتب اہل بیت کو رد کرنے کی دلیل کے طور پر اس سے استفادہ کیا ۔وہی اہل بیت جن کی عصمت کو قرآن کریم نے آیت تطہیر میں یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ اللہ نے ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور کیا ہے اور انہیں اس طرح پاک کیا ہے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے ۔

اگرچہ اس نظرئے کا پرچار کرنے والوں نے اسے مضبوط بنانے اور علمی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے لیکن مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس نظرئے کو رد کیا ہے ،اس کے دلائل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان دلائل کے نتائج کو قبول نہیں کیا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نظرئے کے دعویداروں نے بذات خود اس نظرئے کی پیروی نہیں کی ہے کیونکہ وہ

ص۱۲

خلفاء اور حکام کے ان اقدامات کی توجیہ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی حکومت پر تنقید کرنے والے اصحاب کے خلاف انجام دیے تھے۔ عدالت صحابہ کے نظرئے کے بارے مکتب اہل بیت کے درست نقطۂ نظر سے آشنائی کے لئے پہلے ہم’’ صحبت ‘‘ کے لغوی معنی پر روشنی ڈالیں گے پھر اس بارے میں قرآنی موقف اور اہل بیت علیہم السلام کے بعض فرمودات پر گفتگو کریں گے ۔اس کے بعد ہم اس نظرئے کے دلائل پیش کریں گے اور کتاب و سنت کے فرمودات کی روشنی میں ان دلائل کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لیں گے ۔بعدازاں ہم ان اسباب کی طرف اشارہ کریں گے جن کے باعث یہ نظریہ پروان چڑھا۔

۷

صحبت کے لغوی معنی

راغب اصفہانی کہتے ہیں : صاحب سے مراد ہے ساتھی ، خواہ اس کی مصاحبت جسمانی ہو جو مصاحبت کا اصلی اور غالب مفہوم ہے ،خواہ ارادے اور توجہ کی صورت میں ہو ۔کسی چیز کے مالک کو اس چیز کا صاحب کہا جاتا ہے ۔یہی حال اس شخص کا ہے جو اس چیز میں تصرف کا مالک ہو۔

لفظ مصاحبت اور لفظ اصطحاب لفظ اجتماع سے زیادہ بلیغ اور رسا ہے کیونکہ ’’مصاحبت‘‘ میں صحبت کی طوالت کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔

بنابریں ہر اصطحاب اجتماع ہے لیکن ہر اجتماع اصطحاب نہیں ہے ۔

(دیکھیے راغب اصفہانی کی :مفردات الفاظ القرآن الکریم ،ص ۲۷۵)

قرآن کریم نے متعدد الفاظ کی صورت میں اس مادے کے جن مشتقات کو استعمال کیا ہے ان سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے جو لغت کی کتابوں میں مذکور ہے ۔ان سارے الفاظ کا مفہوم تقریبا ً یکساں ہے جو اس باہمی معاشرت ،میل جول اور مل ملاپ سے عبارت ہے جو لوگوں کے باہم اِکھٹا ہونے ،ملنے اور ساتھ رہنے سے حاصل ہوتے ہیں خواہ ان کا اعتقاد یا طرز عمل یکساں ہو یا نہ ہو ۔قرآن کریم نے ان الفاظ کو باہمی معاشرت اور مل جول کے مطلق اور وسیع مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔

۸

ص۱۳

قرآن میں مذکور الفاظ :

تصاحبنی ،صاحبهما، صاحبه ،صاحبته ،اصحاب اور اصحابهم

کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اسی مطلق مفہوم میں تکرار کے ساتھ ۹۷ بار استعمال ہوئے ہیں ۔

بنابریں ’’صحبت ‘‘ کے لغوی معنی جسے ارباب لغت نے بیان کیاہے اور قرآن کریم میں ذکر شدہ معنی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

ادھر سنت نبوی نے ہر اس مسلمان کے لیے صحابی کا لفظ استعمال کیا ہے جسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصاحبت نصیب ہوئی ہو خواہ آنحضرت پر اس کا ایمان حقیقی اور سچا ہو یا ظاہری ۔پس روایات (جن کا ہم عنقریب ذکر کریں گے ) میں صحابی کا لفظ مومن مسلمان اور منافق مسلمان دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

جب حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشہور و معروف منافق عبد اللہ بن ابی ابن ابی سلول کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آنحضرت نے فرمایا :

فکیف یاعمر! اذا تحدث الناس انَّ محمداً یقتل اصحاب ہ ؟

(دیکھئے:ابن ہشام کی السیرۃ النبویہ ،ج۳،ص ۳۰۳،ابن کثیر کی السیرۃ النبویۃ،ج۳،ص ۲۹۹ اور واحدی کی اسباب النزول ،ص ۴۵۲ )

۹

ص۱۴

اے عمر ! اس وقت کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمد تو اپنے ہی اصحاب کو قتل کرتا ہے ؟

اسی طرح جب عبد اللہ بن عبداللہ ابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے والد کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آنحضرت نے فرمایا : ہم اس کے ساتھ نرمی برتیں گے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ رہے ہم اس کے ساتھ اچھی مصاحبت کا مظاہرہ کریں گے ۔

( دیکھئے:ابن ہشام کی السیرۃ النبویہ ،ج۳،ص ۲۔۵نیز ابن کثیر کی السیرۃ النبویۃ،ج۳،ص۳۰۱)

خلاصہ یہ کہ سنت نبوی کی رو سے لفظ صحابی کا مفہوم مطلق اور وسیع ہے جو عبد اللہ بن اُبی ابن اَبی سلول جیسے معروف منافق اور فاسق کو بھی شامل ہے اور ان افراد کو بطریق اولی شامل ہے جن کا نفاق پوشیدہ تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :

اِنّ فِیْ اَصْحَابِیْ مُنَافِقِیْنَ

(دیکھئے:احمد بن حنبل کی المسند ،ج۵،ص ۴۰ اور ابن اکثیر کی تفسیر القرآن العظیم ،ج۲،ص ۳۹۹)

(بے شک میرے اصحاب کے درمیان منافقین بھی پائے جاتے ہیں) ۔

۱۰

ص۱۵

سچے اصحاب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے صحابہ وہ ابتدائی مسلمان ہیں جنہوں نے آنحضرت کو دیکھا اور آپ کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا نیز اسلام کی دعوت اور اس کی نشرو اشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور مشکلات برداشت کیں ۔ان میں سے ایک جماعت نے عقیدہ رسالت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی خاطر جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کیا ،

یہاں تک کہ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا ۔اگر ان کی تلواروں کی چمک دمک ، ان کے بازوؤں کی قوت اور ان کے صبر کی طاقت نہ ہوتیں تو دین کی عمارت کھڑی نہ ہوتی ۔

قرآن کریم اور سنت نبوی میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب و سنت نے سچے صحابہ کی کس قدر تعریف و تمجید اور تکریم کی ہے ۔ارشاد الہی ہے :

’’مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‘‘(فتح/۲۹)

ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں ۔آپ انہیں رکوع وسجود میں دیکھتے ہیں ۔وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں ۔سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ۔ جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہوگئی پھر اپنے تنےپر سیدھی کھڑی ہوگئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے ۔ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجالائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کاوعدہ کیا ہے ۔

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی ،خدا کے دین کو زندہ کیا ،اسلامی حکومت کی بنیادوں کو استوار کیا اور جاہلیت کو موت کی نیند سلادی ۔

قرآن کی بعض آیات نے صحابہ کی زبردست تعریف و تمجید کی ہے ۔جو شخص مہاجرین و انصار اور ان کی بہترین پیروی کرنے والوں کی تعریف میں نازل شدہ آیات کا مطالعہ کرے وہ ان کے بلند مقام و مرتبے کو دیکھ کر رشک کرنے لگتا ہے ۔جو شخص درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرنے والے صحابہ کے بارے میں نازل شدہ آیات کو سنے اس کا دل اس مومن جماعت (جس نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا ) کی محبت میں بے قرار ہوکر دھڑکنے لگتا ہے ۔

۱۱

ص۱۶

حقیقی صحابہ کی توصیف امام علی علیہ السلام کی زبانی

آپ علیہ السلام نے فرمایا :

’’وَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ الل ہ ِ نَقْتُلُ آبَاءَنَا وَ أَبْنَاءَنَا وَإِخْوَانَنَا وَ أَعْمَامَنَا مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وَ تَسْلِيماً وَ مُضِيّاً عَلَى اللَّقَمِ وَ صَبْراً عَلَى مَضَضِ الْأَلَمِ وَ جِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ ۔۔۔ فَلَمَّا رَأَى اللهُ صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ حَتَّى اسْتَقَرَّ الْإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَهُ وَ مُتَبَوِّأً أَوْطَانَهُ وَ لَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ وَ لَا اخْضَرَّ لِلْإِيمَانِ عُودٌ ‘‘

(نہج البلاغۃ ،صبحی صالح کی تحقیق کے ساتھ ،ص ۹۱۔۹۲)

بہ تحقیق ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رکاب میں اپنے آباء ،اپنے بیٹوں ،اپنے بھائیوں اور اپنے چچوں کے ساتھ جنگ کرتے تھے جس سے ہمارے ایمان ،جذبۂ تسلیم ،جادۂ حق پر آگے بڑھنے کے جذبے ،تکالیف پر صبر اور دشمنوں کے خلاف جہاد میں دلجمعی میں اضافہ ہی ہوتا تھا ۔پس جب اللہ نے ہمارے اخلاص کو دیکھا تو اس نے ہمارے دشمن پر ذلت نازل کی اور ہمیں اپنی مدد سے نوازا یہاں تک کہ اسلام پابرجا ہوگیا اور اس کی بنیادیں مستحکم ہو گئیں ۔میری جان کی قسم ! اگر ہماری روش تمہاری جیسی ہوتی تو نہ دین کا کوئی ستون پابرجا ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی ٹہنی ہری ہوتی ۔

آپ علیہ السلام نے اصحاب کی توصیف ،ان کے عظیم مرتبے کی یاد دہانی اور ان سے جدائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو دیکھا ہے ۔میں تم میں سے کسی کو ان کا شبیہ نہیں پاتا ۔بےشک وہ بکھرے بالوں اور غبار آلود حالت کے ساتھ دن کا آغاز کرتے تھے جبکہ سجدے اورقیام کی حالت میں رات گزار تے تھے ۔وہ اپنی پیشانیوں اور چہروں کو باری باری زمین پر رکھتے تھےاور اپنی آخرت کی یاد میں اس طرح کھڑے ہوتے تھے جس طرح آگ کے انگارے پر کھڑے ہوں۔

لَقَدْ رَأَيْتُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم فَمَا أَرَى أَحَداً يُشْبِهُهُمْ مِنْكُمْ لَقَدْ كَانُوا يُصْبِحُونَ شُعْثاً غُبْراً وَ قَدْ بَاتُوا سُجَّداً وَ قِيَاماً يُرَاوِحُونَ بَيْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُودِهِمْ وَ يَقِفُونَ عَلَى مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكْرِمَعَادِهِمْ

(نہج البلاغۃ ،صبحی صالح کی تحقیق کے ساتھ ،ص ۹۷۔۱۴۳)

ص۱۷

آپ علیہ السلام نے ان کی محبت میں شعلہ ور دل کے ساتھ فرمایا :

کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو حق کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے چلے گئے ؟ کہاں ہے عمار ؟کہاں ہے ابن تیہان ؟ کہاں ہے ذوالشہادتین؟کہاں ہیں ان کے وہ بھائی جو ان جیسے تھے ، جنہوں نے قرآن کی تلاوت اور اس کی تقویت کی ؟

أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَ مَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَ أَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَ أَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَ أَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَلَوُا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوهُ وَ تَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَأَقَامُوهُ أَحْيَوُا السُّنَّةَ وَ أَمَاتُوا الْبِدْعَةَ دُعُوا الی الْجِهَادِ فَأَجَابُوا وَ وَثِقُوا بِالْقَائِدِ فَاتَّبَعُوهُ

(نہج البلاغۃ ،صبحی صالح کی تحقیق کے ساتھ ،ص ۱۸۲۔۲۶۴)

۱۲

سچے صحابہ کے حق میں امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا

امام زین العابدین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے حق میں دعاکرتے ہوئے فرمایا :

’’اللَّهُمَّ وَأَصْحَابُ مُحَمَّدٍ خَاصَّةً الَّذِينَ أَحْسَنُوا الصُّحَبَةَ وَالَّذِينَ أَبْلَوُا الْبَلَاءَ الْحَسَنَ فِي نَصْرِهِ، وَكَانَفُوهُ وَأَسْرَعُواإِلَى وِفَادَتِهِ وَ سَابَقُوا إِلَى دَعْوَتِهِ، وَ اسْتَجَابُوا لَهُ حَيْثُ أَسْمَعَهُمْ حُجَّةَ رِسَالَاتِهِ وَ فَارَقُوا الْأَزْوَاجَ وَ الْأَوْلَادَ فِي إِظْهَارِ كَلِمَتِهِ وَ قَاتَلُوا الْآبَاءَ وَ الْأَبْنَاءَ فِي تَثْبِيتِ نُبُوَّتِهِ، وَانْتَصَرُوا بِهِ ‘‘

(صحیفہ سجادیہ ،ص۴۳۔۴۵ ۔یہ کتاب امام سجاد علیہ السلام کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔مکتب اہل بیت کے پیروکار دعا کے موقعوں پر اس کتاب کی دعائیں پڑھتے ہیں )

اے اللہ ! خصوصیت سے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے وہ افراد جنہوں نے پوری طرح پیغمبرکا ساتھ دیا اور آپ کی نصرت میں پوری شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جو آپ کی مدد پر کمر بستہ رہے اور جنہوں نے آپ پر ایمان لانے میں جلدی اور آپ کی دعوت کی طرف سبقت کی اور جب پیغمبر نے اپنی رسالت کی دلیلیں ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے لبیک کہی اور آپ کا بول بالا کرنے کے لئے بیوی بچوں کو چھوڑدیا اور امر نبوت کے استحکام کے لئے باپ بیٹوں تک سے جنگیں کیں اورآپ کے وجود کی برکت سے کامیابی حاصل کی ۔

۱۳

ص۱۸

سچے اصحاب کے اوصاف، جناب عبد اللہ بن عباس کی زبانی

ایک دفعہ معاویہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے بعض امور کے بارے میں سوال کیا ۔اس کے بعد ان سے صحابہ کے بارے میں پوچھا تو ابن عباس نے کہا : انہوں نے دین کی تعلیمات کو پابر جا کیا اور مسلمانوں کے لئے مخلصانہ جد و جہد کی یہاں تک کہ دین کے راستے صاف ہوگئے ،اس کے اسباب مضبوط ہوگئے اور اللہ کی نعمتیں ظاہر ہوگئیں ، اس کادین پابر جا ہوگیا اور اس کی نشانیاں واضح ہوگئیں ۔

اللہ نے ان کے ذریعے شرک کو ذلیل وخوار کیا ،شرک کے علمبرداروں کو ختم کیا اور اس کی نشانیوں کو محو کیا ۔یوں اللہ کا قول سب سے سربلند ہوگیا اور کافروں کا قول سب سے نچلا ۔

(مسعودی کی مروج الذہب ،ج۳،ص ۴۲۶،۴۲۵،۶۶)

۱۴

ص۱۹

تمام اصحاب کے عادل ہونے کا نظریہ

اس نظرئے کے طرفداروں کا کہنا ہے کہ صحابی ہر وہ شخص ہے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو اگرچہ دن کے ایک پہر کے لئے ہی کیوں نہ ہو اور مسلمان مرا ہو ۔ ان کی نظر میں سارے صحابہ عادل ہیں اور وہ تنقید سے بالاتر ہیں ۔جو شخص ان صحابہ میں سے کسی کی تنقیص کرے وہ زندیق ہے ۔

(عسقلانی کی الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ ،ج۱،ص ۱۱)

۱۵

اس نظرئے کا لازمہ یہ ہے کہ تمام اصحاب کی روایت درست ہے اور کسی صحابی کی بات کو رد کرنا جائز نہیں ہے ۔

اہل سنت کا اتفاق ہے کہ سارے صحابہ عادل ہیں اور چند بدعتیوں کے علاوہ کوئی اس کا مخالف نہیں ہے ۔الخطیب الکفایہ میں کہتے ہیں : سارے صحابہ ان کے بعد آنے والے تمام لوگوں یہاں تک کہ بعد میں آنے والے عادل لوگوں سے بھی افضل ہیں ۔

ابو محمد ابن حزم رقمطراز ہیں : سارے صحابہ قطعی طورپر جنتی ہیں۔ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ

(انبیاء/۱۰۱۔ دیکھئے:عسقلانی کی الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،ج۱،ص ۱۰ اور رازی کی الجرح والتعدیل ،ص ۷۔۹) ۔

جن کے حق میں ہماری طرف سے پہلے ہی (جنت کی )خوشخبری مل چکی ہے وہ اس آتش سے دور ہوں گے ۔

اس نظریے کی روسے امویوں کے پہلے طبقے کے سارے افراد مثلا ابو سفیان اور اس کی اولاد نیز سارے مروانی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھتکارا ہوا (حَکَم) اور اس کی اولاد بھی عادل صحابہ ہیں ۔

۱۶

ص۲۰

تمام اصحاب کی عدالت کے نظرئے کے دلائل

اس نظرئے کے طرفداروں نے بعض آیات کریمہ سے استدلال کیا ہے جن میں سے بعض یہ ہیں :

الف ۔ ۱ ۔ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران/۱۱۰)

سب سے بہترین امت تم ہو جو تمام لوگوں (کی اصلاح )کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔

۲ ۔ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا(بقر ہ /۱۴۳)

اسی طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت ِ بنادیا ۔

۳ ۔ لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ (فتح /۱۸)

بہ تحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہوا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے ۔پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہوگیا ۔

۴ ۔ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ

(توبہ/۱۰۰۔دیکھئے : عسقلانی کی الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،ج۹،ص ۱۰ نیز ابن کثیر کی تفسیر القرآن العظیم ،ج۱،ص ۳۹۹ اورسیوطی کی الدرالمنثور ،ج ۲،ص ۲۹۳)

مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیروکار ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔

ب۔اس نظرئے کے حامیوں نے سنت نبویہ سے بھی استدلال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کے خیال میں بعض روایات سے تمام اصحاب کے عادل ہونے کا عندیہ ملتا ہے اور احادیث نے ان میں سے کسی کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا ہے ۔ان میں سے بعض روایات یہ ہیں :

۱ ۔ اَصْحَابِیْ کَالنُّجومِ ۔ بِاَیِّهِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِهْتَدَیْتُمْ ۔

(میرے سارے اصحاب عال ہیں ۔تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤگے ۔)

۲ ۔ خَیْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ۔ ثمَّ الَّذِیْنَ یَلَوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلَوْنَهُمْ ۔

(سب سے بہترین صدی میری صدی ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ ہیں جو ان(اس صدی کے لوگوں ) کے بعد آئیں پھر وہ جو ان کے بعد آئیں ۔)

۳ ۔ اِحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَصْحَابِیْ ۔

(میری خاطر میرے اصحاب کی حفاظت کرو ۔)

۴ ۔ لَاتَسَبُّوْا اَصْحَابِیْ ۔

( میرے اصحاب کو گالی نہ دو ۔)

(سنن ترمذی ،ح ۲۳۰۲،۲۳۰۳ ،ابن حجر کی فتح الباری ،ج۷،ص ۶ اورج۱۳،ص ۲۱،زبیدی کی اتحاف السادۃ المتقین،ج۲،ص ۲۲۳،ابن حجر کی تلخیص الحبیر ،ج۴،ص ۲۰۴،ابن کثیر کی البدایۃ اوالنہایۃ ،ج۶،ص ۲۸۶،ابن کثیر کی تفسیر،ج۷،ص ۴۹۳،خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد،ج۲،ص ۵۳) ۔

۱۷

ص۲۱

عدالت صحابہ کا تحقیقی جائزہ

الف۔ تمام اصحاب کی عدالت کے نظرئے کے بارے میں قرآن کا موقف

یہ بات واضح اور قطعی ہے کہ تمام اصحاب کی عدالت کا نظریہ قرآنی آیات کی براہ راست دلالت کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں اصحاب کی کئی اصناف بیان ہوئی ہیں ۔ بنابریں ان سب کو ایک ہی صنف اور یکسان قرار نہیں دیا جاسکتا یعنی ان سب کو عادل قرار دینا درست نہیں ہے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض سابقون الاولون ہیں ،بعض درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ہیں ،بعض مہاجرین ہیں اور بعض فتح مکہ میں شریک افراد ہیں ۔علاوہ ازیں قرآن کریم نے ان کے مقابلے میں بعض دیگر اصناف کا ذکر کیا ہے مثلا: منافقین،(سورہ منافقون/۱۰)

وہ منافقین جن کا نفاق پوشیدہ تھا اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں نہیں پہچانتے تھے،(توبہ /۱۰۱)

ضعیف الایمان اور دل کے مریض افراد، (سورہ احزاب/۱۱)

فتنہ گروں کے لئے جاسوسی کرنے والے ، (سورہ توبہ/۴۵۔۴۷)

اچھے اور برے اعمال کو مخلوط کرنے والے ،(سورہ توبہ/۱۰۲)

مشکلات کے وقت ارتداد کے دہانے تک پہنچنے والے ، (سوورہ آل عمران/۱۵۴)

وہ ارباب فسق جن کے قول و فعل میں ہماہنگی نہیں تھی ، (سورہ حجرات/۶،سجدہ/۱۸)

وہ مسلمان جن کے دلوں میں ہنوز ایمان داخل نہیں ہوا تھا (سورہحجرات/۱۴)

اور وہ اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اپنے یقین کی کمزوری کے باعث زکات کی مد میں سے کچھ مال دینے پر اسلام کی طرف راغب ہوتے تھے (سورہ توبہ/۶۰)

اور کافروں کے سامنے سے فرار کرنے والے ۔(سورہ انفال/۱۵۔۱۶)

ص۲۲

یہ وہ صحابہ ہیں جن کے مقامات مختلف ہیں اور ان کا طرزِ عمل بھی جدا ہے اس کے باوجود قرآن کریم نے ان سب کو اصحاب رسول کی حیثیت دی ہے ۔

ادھر کچھ صحابہ ایسے ہیں جن کی قرآن کریم نے سرزنش کی ہے اور ان کے فسق کی طرف اشارہ کیا ہے نیز انہیں جہنمی قرار دیا ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے رسول پر جھوٹی تہمت لگائی اور قرآن میں تحریف کی کوشش کی ۔اس سلسلے میں بعض قرآنی فرمودات ملاحظہ ہوں :

۱ ۔ أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ أَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَلَهُمْ جَنَّـٰتُ ٱلْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ فَسَقُوا ا فَمَأْوَىٰهُمُ ٱلنَّارُ كُلَّمَآ أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَآ أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِ ۦ تُكَذِّبُونَ ۔ ( سجد ہ /۱۸ ۔ ۲۰)

ترجمہ:بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟

یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتےمگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان کے لئے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں ۔یہ ضیافت ان کے انجام دیے ہوئے اعمال کا صلہ ہے ۔لیکن جنہوں نے نافرمانی کی ان کی جائے بازگشت آتش ہے ۔جب بھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا : اس آتش کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کرتے تھے ۔

اگر ہم تفسیر اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ قرآن نے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مومن اور ولید بن عقبہ کو فاسق قرار دیا ہے جبکہ یہی ولید حضرت عثمان کی طرف سے کوفہ کا گورنر رہا جبکہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کی طرف سے مدینے کا حاکم رہا ۔

(دیکھئے: حاکم حسکانی حنفی کی شواہد التنزیل ،ح ۴۴۵،۴۵۳،۶۱۰،۵۲۶نیز ابن مغازلی شافعی کی علی ابن ابی طالب ،ص ۳۲۴،۳۷۰،۳۷۱ ،تفسیر طبری ،ج۲۱،ص ۱۰۷،زمخشری کی الکشّاف ،ج۳،ص ۵۱۴، شوکانی کی فتح القدیر ،ص ۲۰۰، سیوطی کی اسباب النزول جو تفسیر جلالین کے حاشیے میں طبع ہوئی ہے ،ص۵۰۰، ابن عربی کی احکام القرآن ،ج۳،ص ۱۴۸۹، ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغۃ ،ج۴،ص ۸۰ اور ج ۶،ص ۲۹۲، طبری شافعی کی ذخائر العقبیٰ ،ص۸۸،خوارزمی حنفی کی المناقب ،ص۱۹۷، زرندی حنفی کی نظم درر السمطین ،ص ۹۲،سبط ابن جوزی حنفی کی تذکرۃ الخواص ،ص۲۰۷،ابن طلحہ حنفی کی مطالب السوؤل ،ج۶،ص ۳۴۰،بلاذری کی انساب الاشراف،ج۲،ص ۱۴۸،،ح ۱۵۰، تفسیر الخازن ،ج۳،ص ۴۷۰ اور ج ۵،ص ۱۸۷، بغوی کی معالم التنزیل تفسیر خازن کے حاشیے میں ،ج۵،ص ۱۸۷، حلبی شافعی کی السیرۃ الحلبیہ ،ج۲،ص ۸۵، ابن حجر عسقلانی کی تخریج الکشّاف کشاف کے حاشیے میں ،ج۳،ص ۵۱۴، الانتصاف فی ما تضمنہ الکشاف ،ج۳،ص ۲۴۴)

۱۸

ص۲۳

سورہ انعام میں ارشاد الہی ہے :

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ (انعام/۹۳)

اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا یہ دعوی کرے کہ : مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں ہوئی ۔

یہ آیت عبد اللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ۔وہ حضرت عثمان کی طرف سے مصر کا گورنر رہا ۔اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹی تہمت لگائی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے خون کو مباح قرار دیا اگرچہ وہ کعبے کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہو۔ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان اس کے لئے امان طلب کرنے آئے ۔چونکہ وہ اب تک قتل نہیں ہوا تھا اس لیے اسے امان دی گئی ۔

پس اس شخص نے قرآن میں تحریف کی کوشش کی ۔یوں وہ تمام لوگوں سے زیادہ ظالم افراد میں شامل ہوگیا ۔

(السیرہ الحلبیہ ،ج۳،ص ۸۱،باب فتح مکہ نیز قرطبی کی الجامع لاحکام القرآن،ج۷،ص ۳۹ نیز ابن اثیر کی الکامل فی التاریخ ،ج۲،ص ۲۴۹،فتح مکہ )

سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے :

يَـٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ٱنفِرُوا ۟ فِى سَبِيلِ ٱللهِ ٱثَّاقَلْتُمْ إِلَى ٱلْأَرْضِ أَرَضِيتُم بِٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا مِنَ ٱلْاخِرَةِ ؟

فَمَا مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْاخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ۔ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْـًا وَٱللهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ ۔ ( توب ہ /۳۸ ۔ ۳۹)

اے ایمان والو تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے: اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو ؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو ؟دنیوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا اور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے ۔

ص۲۴

یہ آیت بھی صریحا کہتی ہے کہ بعض صحابہ نے جہاد کرنے سے سستی برتی اور دنیوی زندگی کی محبت کو ترجیح دی جبکہ انہیں علم تھا کہ دنیوی زندگی زود گذر اور عارضی متاع ہے ۔اس سستی کے نتیجے میں اللہ تعالی ٰ نے ان کی سرزنش فرمائی اور انہیں دردناک عذاب سے ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ ان کے بدلے دیگر سچے مومنوں کا انتخاب فرمائے گا ۔

اس کے علاوہ دیگر متعدد آیات میں بھی بعض اصحاب کے بدلے دوسروں کے انتخاب سے ڈرایا گیا ہے ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصحاب نے متعدد مواقع پر جنگ میں سستی اور بے رغبتی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ارشاد خداوندی ہے :

وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم ۔ ( محمد /۳۸)

اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہارے بدلے اور لوگوں کو لے آئے گا ۔پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے ۔

یہ آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ بعض اصحاب کے غلط موقف اور طرزِ عمل کی طرف اشارہ کرتی ہیں جن کے باعث وہ اللہ کی طرف سے سرزنش کےمستحق ٹھہرے۔

یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تمام اصحاب کے عادل ہونے کا نظریہ اصحاب کے بارے میں نازل شدہ آیات کریمہ کی دلالت کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہے ۔

۱۹

ص۲۵

ب۔تمام اصحاب کی عدالت کا نظریہ سنت نبوی کے آئینے میں

اگر ہم صحابی کے مفہوم کے بارے میں سنت شریفہ کی جانب رجوع کریں تومعلوم ہوگا کہ سنت نبوی میں صحابی کا مفہوم وسیع اور مطلق ہے جو سچے صحابی کو بھی شامل ہے اور غیر سچے کو بھی ۔بعض احادیث میں اصحاب کی تعریف و تمجید کی گئی ہے جبکہ کچھ احادیث میں بعض اصحاب کی مذمت عمل میں آئی ہے ۔جن احادیث میں اُن کی مدح کی گئی ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱ ۔ اللهم امض لاصحابی هجرتهم ولاتردهم علی اعقابهم ۔ (بخاری،ج۵،ص ۸۷ ۔ ۸۸)

اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت کو کامیاب قرار دے اور انہیں الٹے پاؤں نہ پھیردے۔

۲ ۔ اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام لا تعبد في الارض، ۔

اے اللہ ! اگر تو اس گروہ کو ہلاکت سے دوچار کرے گا تو پھر تیری عبادت کا سلسلہ ختم ہوجائے گا ۔

۳ ۔ اثبتکم علی الصراط اشدّکم حباً لاهل بیتی و لاصحابی ۔

(صحیح مسلم، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، حدیث : ۴۵۸۸ -ابن ہشام کی السیرۃ النبویہ،ج۲،ص ۲۷۹)

صراط پر تم لوگوں میں سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے اہل بیت اور میرے اصحاب کا سب سے زیادہ چاہنے والاہو ۔

جن احادیث میں بعض اصحاب کی مذمت کی گئی ہے ان میں سے چند یہ ہیں :

۲۰