قبلہ کی تبدیلی
پیغمبرؐ مدینہ پہنچنے کے بعد سترہ مہینوں تک (قبلۂ اول ) مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نماز کے لئے کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ یہودی کہتے تھے: محمد کا کوئی قبلہ نہ تھا حتی کہ ہم نے انہيں سکھا دیا۔ رسول اللہؐ اس یہودی سرزنش سے آزردہ خاطر تھے۔ ایک روز آپ مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر ادا کررہے تھے اور یہ ۲ ہجری سال کا ماہ شعبان تھا کہ نماز کے دوران ہی آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:
" قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ " ۔ ؛
ترجمہ: بہت دیکھ رہے ہیں ہم آپ کے چہرے کی گردش کو آسمان کی طرف، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔ بس اب مسجد الحرام کی طرف اپنا رخ موڑ دیجئے اور تم لوگ جہاں کہیں ہو اپنے منہ اسی طرف کیا کرو، اور وہ جنہیں کتاب دی گئی ہے یقینا بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف کا حقیقی فیصلہ ہے اور اللہ اس سے، جو وہ کرتے ہیں، بے خبر نہیں ہے۔[۶۲]
پیغمبرؐ نے اسی حال میں اپنا رخ بیت المقدس کی طرف سے کعبہ کی طرف موڑ لیا۔ یہ مسجد تاریخ اسلام میں مسجد ذوالقبلتین کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔ مسجد الاقصی سے مکہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی یہود اور منافقین پر گراں گذری۔
اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر تنقید کرنے لگے کہ "اب تک تو مسجد میں تم مسجد الاقصی کی طرف رخ کرتے رہے ہو اب کیوں تمہارا قبلہ تبدیل ہوا؟"۔ چنانچہ یہ آیت ملامت کرنے والوں کے جواب میں نازل ہوئی:
"سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِ قُ وَالْمَغْرِ بُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ۔ ؛
ترجمہ: بہت جلد بے وقوف لوگ یہ کہیں گے کہ کس چیز نے ان لوگوں کو پھیر دیا ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے، کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے۔[۶۳]۔[۶۴]
جنگ بدر
جس روز سے رسول اللہؐ نے عقبہ کا دوسرا معاہدہ مدینہ والوں کے ساتھ منعقد فرمایا اس روز سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی تھی کہ قریش کے ساتھ جنگ حتمی طور پر وقوع پذیر ہوگی۔[۶۵]
سب سے پہلا غزوہ ماہ صفر سنہ ۲ ہجری کو انجام پایا جس کو غزوة الابواء یا ودّان کہا گیا ہے۔ اس لشکر کشی کے دوران کوئی جھڑپ نہيں ہوئی۔
اس کے بعد غزوہ بُواط ربیع الاول کے مہینے میں تھا اور اس میں بھی کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔ جمادی الاولٰی میں خبر ملی کہ قریش کا قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں مکہ سے شام کی طرف روانہ ہورہا ہے۔
پیغمبرؐ نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول اللہؐ کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھے۔[۶۶]
آخر کار ہجرت کے اسی دوسرے سال کے دوران مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان اہم ترین لڑائی ہوئی۔ یہ لڑائی غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں گو کہ مسلمانوں کی تعداد مکیوں سے بہت کم تھی، مگر وہ فتح یاب ہوئے اور بڑی تعداد میں مکی مشرکین مارے گئے یا پھر قید کرلئے گئے اور باقی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔[۶۷] اس جنگ میں ابوجہل اور قریش کے دوسرے اکابرین اور ان کے بیٹوں میں سے (۷۰) افراد ہلاک ہوگئے اور اتنی ہی تعداد قید کرلی گئی۔
اس جنگ میں ۱۴ مسلمان بھی شہید ہوئے۔ جنگ بدر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، نے بڑی جانفشانیاں کیں اور رسول اللہؐ کی خوب مدد کی اور شجاعت کے حوالے سے مکہ کے کئی مشہور جنگجو پہلوان آپ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور امیرالمؤمنین علی کی شجاعت ہی تھی جس نے مسلمانوں کے لشکر کی فتح و کامیابی کو یقینی بنایا۔[۶۸]
یہودیوں کے ساتھ تنازعہ
یہودیوں کے ساتھ پہلی جھڑپ جنگ بدر اور مسلمانوں کی عظیم فتح کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینقاع کے یہودی مدینہ سے باہر ایک قلعے میں سکونت پذير تھے اور سُنار اور لوہار کے پیشے سے وابستہ تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن ایک عرب خاتون بنی قینقاع کے بازار میں گئی اور اپنا سامان ان کے بازار میں فروخت کیا اور ایک سُنار کی دکان پر بیٹھ گئی۔ ایک یہودی نے اس کے لباس کا کنارہ اس کی لاعلمی میں اس کی پشت پر باندھ لیا اور جب وہ اٹھی تو اس کا لباس ایک طرف ہٹ گیا اور گویا اس کا جسم عریاں ہوا جس پر یہودی ہنس پڑے۔ مسلم خاتون نے مسلمانوں کو مدد کے لئے بلایا؛ تنازعے کا آغاز ہوگیا اور ایک مسلمان مرد اس خاتون کی مدد کو لپکا اور اس یہودی شخص کو ہلاک کردیا جس نے شرارت کی تھی۔ یہودیوں نے اٹھ کر مسلمان مرد کو قتل کر ڈالا اور فتنہ اگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کو قریش کے انجام کا حوالہ دے کر خبردار کیا اور فرمایا: اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو تمہیں اطاعت گزار ہونا پڑے گا۔ بنی قینقاع کے افراد نے گستاخی کرتے ہوئے کہا: مکی عوام کی شکست کہیں آپ کو فریفتہ نہ کرے۔ وہ جنگی افراد نہیں تھے۔ اگر ہم آپ کے خلاف لڑیں تو بتا دیں گے کہ ہم ہیں کون اور کس کام کے!۔ خداوند متعال نے ان یہودیوں کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ وا سَتغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئتَيْنِ الْتقَتَا فِئَةٌ تقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَ ىٰ كَافِرَةٌ ۔۔۔ (۱۳)
کافروں سے کہہ دو کہ بہت جلد تم مغلوب ہو گے اور سمیٹ کے لے جائے جاؤ گے دوزخ کی طرف اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے ٭ تم لوگوں کے لیے ایک معجزہ تھا ان دونوں گروہوں میں جن کی مڈبھیڑ ہوئی تھی ایک گروہ اللہ کی راہ میں جنگ کر رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔۔۔)۔[۶۹]
رسول اللہؐ نے مجبور ہو کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کا محاصرہ ۱۵ شب و روز تک جاری رہا اور جب ہتھیار ڈال کر باہر آئے تو رسول اللہؐ نے [عبداللہ بن ابیّ]] کے شدید اصرار پر ان کی جان بخشی فرمائی تاہم انہيں شام کی طرف جلاوطن کیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ دوسرے ہجری سال کے ماہ شوال میں انجام پایا۔[۷۰]
جنگ احد
سنہ ۳ ہجری میں قریشیوں نے اپنے حلیف قبائل کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے مدد کے لئے بلوایا اور وہ ابوسفیان کی سرکردگی میں ہر قسم کے ہتھیاروں اور ساز و سامان سے لیس لشکر لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہؐ نے ابتدا میں فیصلہ کیا تھا کہ مدینہ میں رہ کر حملہ آور مشرکین کا مقابلہ کریں لیکن بعد میں آپ نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مدینہ سے باہر آئے۔ کوہ احد کے قریب ایک جگہ دو لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ اگرچہ اس جنگ میں ابتدائی طور پر مسلمان فتح مندی سے ہمکنار ہوئے لیکن خالد بن ولید مخزومی نے ایک چال چلی اور مشرکین نے مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت اور نافرمانی سے فائدہ اٹھا کر مسلم مجاہدین پر پشت سے حملہ کرکے ان کا قتل عام شروع کیا۔
اس جنگ میں رسول اللہؐ کے چچا (اسد اللہ اور اسد رسول اللہ) حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؑ بھی شہید ہوئے۔ اس جنگ میں رسول اللہؐ بھی زخمی ہوئے اور آپ کے مارے جانے کے تشہیری ہتھکنڈے نے بھی مسلمانوں کا حوصلہ کمزور کردیا۔ مسلمان غمگین ہوکر مدینہ لوٹ کر آئے۔ اور اس واقعے کے حوالے سے نازل ہونے والی آیات کریمہ در حقیقت مسلمانوں کے لئے تعزیتی اور تسلیتی پیغام کی حامل تھیں۔