• ابتداء
  • پچھلا
  • 40 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 506 / ڈاؤنلوڈ: 142
سائز سائز سائز
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختصر حیات طیبہ

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختصر حیات طیبہ

مؤلف:
اردو

۱

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختصر حیات طیبہ

تحریر: گروہ ترجمہ و تحقیق ویکی شیعہ

محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم (عام الفیل–۱۱ھ) اللہ کے آخری نبی، پیغمبر اسلامؐ اور اولو العزم انبیاء میں سے ہیں۔ آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔

آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم بتوں کی پرستش اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی تھا۔ مکارم اخلاق اور اچھائیوں کی تکمیل آپ کی بعثت کے اہداف میں سے تھے۔ مکہ کے مشرکین نے اگرچہ کئی سال تک آپ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت اور آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ مکہ میں تیرہ سال تک تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینے کی طرف آپ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی طرف سے آپ کو مدینے میں متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے مسلمانوں کے قدم چومے۔

رسول خداؐ کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو مسلمانوں کی ہدایت کیلئے اپنے بعد قرآن اور اہل بیتؑ کا دامن تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ واقعہ غدیر سمیت مختلف مواقع پر امام علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

۲

نسب، کنیت اور القاب

نسب

مُـحـمّـد بـن عـبـد الله بن عبد المطّلب (شَيبة الحمد، عامر) بن هاشم (عَمرو العُلى) بن عبد مَناف (مُـغيره) بن قُصَىّ (زيد) بن كلاب (حكيم) بن مُرّة بن كَعب بن لُؤىّ بن غالب بن فِهر (قریش) بن مالك بن نَضر (قَيس) بن كنانة بن خُزَيمة بن مُدركة (عمرو) بن الياس بن مضر بن نِزار (خلدان) بن مَعَدّ بن عدنان عليهم السلام [۱]

ابھی آپ ۶ سال ۳ مہینے یا ایک قول کی بنا پر ۴ سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب نے آپ کو آپ کے نھنیال والوں سے ملاقات کے لئے مدینہ لے گئیں تھیں لیکن مکہ واپسی کے وقت ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک کی گئیں۔[۲]

شیعہ امامیہ کے نزدیک ابو طالب، آمنہ بنت وہب، عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت آدم تک رسول خداؐ کے اجداد کے مؤمن ہونے پر اجماع قائم ہے۔[۳]

شجرہ نامہ رسول خدا

قُصَیّ

عبدالعزی

عبدمناف

عبدالدار

عبدالعزی کی اولاد: "أسد" پھر ان سے" خویلد" پھر ان سے " عوام (عوالم کی زبیر ) اور خدیجہ

دوسری طرف عبد المناف کی اولاد: مطلب،ہاشم ، نوفل ،عبد شمس

عبد الشمس کی اولاد : امیہ

ہاشم کی اولاد : عبدالمطلب

پھر عبدالمطلب کی اولاد: حمزہ ،عبداللہ ، ابوطالب ،عباس

پھر عبداللہ کی اولاد: رسول خدا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شادی ہوئی اور اہل بیت علیہم السلام کی نسل چلی

ابوطالب کی اولاد: علیؑ ، عقیل ،جعفر

پھر جعفر کی اولاد : عبداللہ

جبکہ عقیل کی اولاد : مسلم

کنیت اور القاب

ابو القاسم اور ابو ابراہیم آپ کی کنیتیں ہیں۔[۴]

آپ کے بعض القاب کچھ یوں ہیں:

مصطفیٰ، حبیب الله ، صفی الله، نعمة الله، خیرة خلق الله، سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمة للعالمین، نبی امّی ۔ [۵]

۳

ولادت

رسول اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا سال بطور دقیق معلوم نہیں ہے۔ ابن ہشام اور دیگر مورخین کے مطابق آپ عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ کعبہ کو منہدم کرنے آیا تھا) میں اس دنیا میں تشریف لائے لیکن انہوں نے یہ مشخص نہیں کیا ہے کہ آپؐ عام الفیل کے کون سے سال متولد ہوئے۔ البتہ تاریخ نگاروں نے آپ کی تاریخ وفات کو عام الفیل سنہ۶۳۲ اور وفات کے وقت آنحضرتؐ کی عمر ۶۳ برس ذکر کی ہیں اس لحاظ سے آپ کا سال ولادت سنہ ۵۶۹ اور ۵۷۰ کے درمیان ہونا چاہئے۔[۶]

رسول اللہؐ کا یوم ولادت مشہور شیعہ قول کے مطابق ۱۷ ربیع الاول اور اہل سنت کے مشہور قول کے مطابق ۱۲ ربیع الاول ہے۔[۷]

آپ کا محل ولادت مکہ اور بعض مآخذ میں شعب ابی طالب میں محمد بن یوسف کا گھر مذکور ہے۔[۸]

۱۲ سے ۱۷ ربیع الاول کے دوران مسلمانوں کے درمیان اظہار وحدت کی خاطر ہفتۂ وحدت منایا جاتا ہے۔

رسول خدا:

میرے لیے رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنا، پوری دنیا اور اس میں جو کچھ بھی ہے، ان سے افضل ہے۔

( طباطبائی، سنن النبی، ص۲۸۸)

۴

پیغمبر خداؐ کی مکی زندگی

مکی زندگی کے اہم واقعات

۵۶۹ والد کی وفات

۵۷۰ آپؐ کی ولادت

۵۷۶ والدہ کی وفات

۵۷۸ عبدالمطلب (جدامجد اور سرپرست) کی وفات

۵۸۳ شام کا تجارتی سفر

۵۹۵ حضرت خدیجہ کے ساتھ شادی

۶۰۵ حضرت فاطمہ کی ولادت (بروایت اہل سنت)

۶۱۰ بعثت اور آغاز نبوت

۶۱۳ دعوت ذو العشیرہ، اعلانیہ عمومی دعوت کا آغا‌ز

۶۱۴ مکیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی آزار و اذیت کا آغاز

۶۱۵ حضرت فاطمہ کی ولادت (بروایت شیعہ)

۶۱۵ مسلمانوں کی ایک جماعت کی ہجرت حبشہ

۶۱۶ شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کے محاصرے کا آغاز

۶۱۹ شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کے محاصرے کا خاتمہ

۶۱۹ عام الحزن:ابوطالب اور خدیجہ کی وفات

۶۲۰ معراج

۶۲۱ پہلی بیعت عقبہ (بیعۃ النساء) - ۶۲۲ دوسری بیعت عقبہ (بیعۃ الحرب)

۶۲۲ مسلمانان کی ہجرت بسوئے یثرب

بچپن

مؤرخین نے آپ کی زندگی سے متعلق مختلف قسم کی داستانیں لکھی ہیں لیکن تاریخی حقیقت کو داستانوں سے جدا کرنا صرف اس وقت ممکن ہے کہ ہم اس قطعی سند کا سہارا لیں جو سند ان سالوں کے واقعات کو واضح کر سکے۔ وہ سند قرآن کریم اور سنت (احادیث) ہی ہیں لیکن قرآن مجید نے اس سلسلے میں بہت مختصر اشارے ہی دیئے ہیں۔ جن اشاروں اور مؤرخین کے منقولہ واقعات پر سب کا اتفاق ہے ان کی بنا پر یہ سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے کہ محمدؐ نے اپنے بچپن کے ایام یتیمی میں گذارے ہیں۔[۹]

عبداللہ آپ کے والد تھے اور وہ قبیلۂ بنی زہرہ کے زعیم (وہب) کی دختر آمنہ بنت وہب کو بیاہ لینے کے چند ماہ بعد شام کے ایک کاروباری دورے سے واپس آتے ہوئے یثرب میں انتقال کرگئے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ عبداللہ محمدؐ کی ولادت کے چند ماہ بعد انتقال کر گئے۔ بہرحال محمدؐ نے اپنی شیر خوارگی کے ایام قبیلۂ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ کے ہاں بسر کئے اور ۶ سال کی عمر میں والدہ کے سائے سے محروم ہوئے اور آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی سرپرستی کی۔ آپ کی عمر ابھی آٹھ برس ہی تھی کہ عبد المطلب بھی دنیا سے رخصت ہوئے اور محمدؐ کو اپنے چچا ابو طالبؑ کی سرپرستی حاصل ہوئی؛[۱۰]

جو آپؐ کے والد عبداللہ کے سگے بھائی تھے۔

مروی ہے کہ ایک دن عبدالمطلب خانہ کعبہ کے صحن میں اکابرین قریش کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اسی اثنا میں محمدؐ آتے ہوئے دکھائی ديئے چنانچہ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ راستہ کھولو، اور جب آپؐ قریب پہنچے تو عبدالمطلب نے آپ کو اپنے مخصوص بچھونے پر اپنے قریب بٹھایا مگر یہ حالات زیادہ دیر تک پائیدار نہ رہ سکے اور آپؐ آٹھ سال کے تھے کہ آپ کے مہربان جدِّ رحلت کر گئے۔[۱۱]

عبدالمطلبؑ نے اپنی وفات سے قبل حضرت محمدؐ کو ابو طالبؑ کے سپرد کیا جو اگرچہ زيادہ صاحب ثروت نہ تھے مگر بھائیوں میں سب سے زيادہ با صلاحیت، نیک اور لائق تھے اور علاوہ ازیں محمدؐ کے والد ماجد کے سگے بھائی بھی تھے اور ان دو بھائیوں کی والدہ ایک تھیں چنانچہ ابو طالب اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) محمدؐ سے دلی محبت کرتے تھے۔ یہ دو بزرگوار آپؐ کی پرورش اور آپ کی ضروریات پوری کرنے میں بہت زیادہ کوشاں تھے اور آپ کو اپنی اولاد پر مقدم رکھتے تھے؛ یہاں تک کہ محمدؐ ابو طالب کی زوجہ اور امام علی علیہ السلام کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کو ماں سمجھتے تھے اور جب انھوں نے وفات پائی تو آپؐ نے فرمایا: "آج میں اپنی ماں کے سائے سے محروم ہو گیا ہوں"۔[۱۲]

نیز منقول ہے کہ ابو طالبؑ کے گھر میں آپ کی زوجۂ مکرمہ، فاطمہ بنت اسد محمدؐ سے بہت زیادہ محبت کرتی تھیں یہاں تک کہ جب فاطمہ بنت اسد انتقال کر گئیں تو رسول اللہؐ نے فرمایا:

"آج میری ماں چل بسیں"۔ اور انہیں اپنا کرتا کفن کے عنوان سے پہنایا، ان کی قبر میں اترے، ان کی لحد میں لیٹ گئے اور جب آپ سے عرض کیا گیا کہ "اے رسول خدا! آپ فاطمہ کے لئے سخت بے چین ہوگئے ہیں" تو آپ نے فرمایا: "حقیقتاً وہ میری ماں تھیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں لیکن مجھے کھانا کھلاتی اور انہیں گرد و غبار میں اٹا ہوا چھوڑ دیتی تھیں لیکن مجھے نہلا دھلا کر آراستہ کر دیتی تھیں، بے شک وہ میری ماں تھیں"۔[۱۳]

۵

شام کا پہلا سفر اور راہب کی پیش گوئی

محمدؐ بچپن کے زمانے میں اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ ایک کاروباری سفر میں شام چلے گئے اور راستے میں بصریٰ نامی علاقے میں بحیرا نامی ایک مسیحی راہب نے آپؐ کے چہرے پر نبوت کی نشانیاں دیکھیں اور آپ کے چچا ابو طالب سے آپ کے متعلق سفارش کی اور بطور خاص کہا کہ :

"اس بچے کو یہودیوں کی گزند سے محفوظ رکھیں کیوں یہ لوگ آپؐ کے دشمن ہیں۔ مؤرخین کے مطابق جب قافلہ بحیرا کے ہاں سے چلے گئے تو بحیرا نے محمدؐ کو اپنے یہاں روک لیا اور کہا: میں آپ کو لات و عُزی کی قسم دیتا ہوں کہ میں جو پوچھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں۔ اس وقت آپ نے جواب دیا: مجھ سے لات و عزی کے نام پر کچھ نہ پوچھو کیونکہ میرے نزدیک کوئی چيز ان دونوں سے زيادہ قابل نفرت نہيں ہے۔ اس کے بعد بحیرا نے آپ کو خدا کی قسم دی۔[۱۴]

۶

حِلفُ الفضول

محمدؐ کی شادی سے پہلے کے اہم واقعات میں سے حلف الفضول نامی معاہدے میں آپ کی شرکت ہے جس کے تحت بعض اہل مکہ نے قسم اٹھائی کہ وہ ہر مظلوم کی حمایت کریں گے اور اس کو اس کا حق دلا دیں گے۔ رسول اللہؐ بعد میں اس معاہدے کی تعریف کرتے اور فرماتے کہ اگر انہیں ایک بار پھر اس طرح کے معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو آپ اس میں شامل ہوجائیں گے۔[۱۵]

شام کا دوسرا سفر

محمدؐ ۲۵ برس کے تھے کہ ابو طالبؑ نے آپ سے کہا: قریش کا تجارتی قافلہ شام جانے کے لئے تیار ہے خدیجہ بنت خویلد نے اپنے بعض اعزاء و اقارب کو سرمایہ دیا کہ وہ ان کے لئے تجارت کریں اور منافع میں شریک ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو وہ آپ کو بھی شریک کے طور پر قبول کریں گی۔ اس کے بعد ابو طالب نے اس سلسلے میں خدیجہ سے بات چیت کی اور خدیجہ مان گئیں۔ ابن اسحٰق سے مروی ہے کہ چونکہ خدیجہ محمدؐ کی امانت داری اور بزرگواری کو پہچان گئی تھیں چنانچہ انھوں نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ "اگر آپ میرے سرمائے پر تجارت کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں آپ کو منافع میں سے دوسروں کی نسبت زیادہ حصہ دونگی"۔[۱۶]۔[۱۷]

۷

شادی

ازواج رسول خدا (ص)

خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: ۲۵ عام الفیل)

سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)

عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: ۱ یا ۲ یا ۴ ہجری)

حفصہ بنت عمر (ازدواج: ۳ ہجری)

زینب بنت خزیمہ (ازدواج: ۳ ہجری)

ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: ۴ ہجری)

زینب بنت جحش (ازدواج: ۵ ہجری)

جویریہ بنت حارث (ازدواج: ۵ یا ۶ ہجری)

رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: ۶ یا ۷ ہجری)

ماریہ بنت شمعون (ازدواج: ۷ ہجری)

صفیہ بنت حیی (ازدواج: ۷ ہجری)

میمونہ بنت حارث (ازدواج: ۷ ہجری)

ازواج رسول

اس سفر سے خدیجہ نے بڑا منافع کمایا کیونکہ انھوں نے ایسی شخصیت کو تجارت کی ذمہ داری سونپی تھی جو امانت داری اور صداقت و دیانت داری میں شہرت رکھتے تھے۔ اس تجارتی سفر کے بعد خدیجہ محمدؐ کے حبالۂ نکاح میں آئیں۔ محمدؐ ـ جیسا کہ ہم نے لکھا ـ اس وقت ۲۵ سالہ نوجوان تھے اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس وقت خدیجہ کی عمر ۴۰ سال تھی؛ تاہم حضرت خدیجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ امکان ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ان کی عمر چالیس سال سے کم تھی اور عرب مؤرخین نے اس لئے ان کی عمر چالیس سال بتائی ہے کہ یہ ایک مکمل عدد ہے۔[۱۸]

خدیجہ سے رسول اللہؐ کی کئی اولاد ہوئی جن میں سے بیشتر نے بچپن ہی میں وفات پائی اور آپ کی بیٹیوں میں سے سب سے عظیم و مشہور حضرت فاطمہ(س) ہیں۔

خدیجہ(س) نے تقریباً ۲۵ سال کا عرصہ رسول خداؐ کے ساتھ گذارا اور سنہ ۱۰ بعثت میں ۶۵ سال کی عمر میں شعب ابی طالب سے بنی ہاشم کے باہر آنے کے اٹھارہ مہینے بعد وفات پاگئیں۔

ان کے انتقال کے بعد رسول اللہؐ سودہ بنت زمعۃ بن قیس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ رسول اللہؐ نے بعد میں جن خواتین سے نکاح کیا ان کے نام یہ ہیں: عائشہ، حفصہ، زینب بنت خزیمہ، ام حبیبہ بنت ابی سفیان،ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، صفیہ بنت حیی بن اخطب، میمونہ بنت حارث بن حزن۔[۱۹]

۸

اولاد

رسول خداؐ:

إنَّ أثقل شیءٍ یُوضَعُ فِی المیزانِ هُوَ حُسنُ الخُلُقِ (ترجمہ: مؤمن کے ترازوئے اعمال میں سب سے بھاری چیز حسنِ خُلق (خوش اخلاقی) ہے۔)آخذ، خرمشاهی، پیام پیامبر، ص۷۰۱۔

حضرت فاطمہ (س) کے سوا رسول اللہؐ کے دوسرے بچے آپ کی زندگی میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے اور آپ کی نسل صرف اور صرف سیدہ فاطمہ(س) سے چلی۔ مجموعی طور پر آپ کے ۳ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں:

قاسم: پہلے فرزند جن کا انتقال دو سال کی عمر میں مکہ میں ہوا۔

عبد اللہ: بعثت کے بعد مکہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پاگئے۔

زینب: سنہ ۸ ہجری کو مدینہ میں وفات پاگئیں۔

رقیہ: سنہ ۲ ہجری کو مدینہ میں انتقال کرگئیں۔

ام کلثوم: سنہ ۹ ہجری کو مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔

حضرت فاطمہ: جن کی شہادت سنہ ۱۱ ہجری کو رسول اللہ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد مدینہ میں ہوئی۔

ابراہیم: سنہ ۱۰ ہجری کو مدینہ میں انتقال کرگئے۔ [۲۰]

۹

حجر اسود کی تنصیب

محمدؐ کی بعثت سے قبل مکہ میں حجر اسود نصب کرنے کااہم واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ مکہ کی عوام میں آپ کی منزلت کا اظہار کرتا ہے۔ خانۂ کعبہ دوران جاہلیت بھی عرب کے ہاں قابل احترام تھا۔ ایک دفعہ کعبہ کے اندر تک سیلاب سرایت کرگیا اور خانہ کعبہ کی دیواریں گر گئیں۔ قریش نے دیواریں تعمیر کر دیں۔ جب حجر اسود کے نصب کی باری آئی تو قریش کے عمائدین میں اختلاف ظاہر ہوا۔ ہر قبیلے کا زعیم اس شرف کو اپنے نام کرنا چاہتا تھا اور آخر کار جب اختلاف بہت آگے بڑھا تو ایک قبیلے کے بزرگ خون بھرا طشت لے آئے اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو دیئے، یہ عمل حقیقت میں قسم کھانے کے مترادف تھا کہ اب انہیں لڑ لڑ کر اپنا مقصد حاصل کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود صلاح مشورے جاری رہے اور آخرکار سب نے اتفاق کرلیا کہ جو بھی سب سے پہلے دروازہ بنی شیبہ سے مسجد الحرام میں داخل ہوگا اس کو قاضی و منصف قرار دیا جائے گا اور وہ جو بھی کہے گا سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔

جو سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے مسجد میں داخل ہوئے وہ محمدؐ کے سوا کوئی اور نہ تھا چنانچہ قریش کے بزرگوں نے کہا: وہ امین اور صادق ہیں، ہمیں ان کا فیصلہ قبول ہے۔ انھوں نے اپنا قصہ محمدؐ کو کہہ سنایا۔

محمدؐ نے فرمایا: ایک چادر بچھا دو۔ اور جب چادر بچھا دی گئی تو آپ نے حجر اسود اس چادر پر رکھ دیا اور فرمایا ہر قبیلے کا بزرگ چادر کا ایک گوشہ تھام لے اور چادر کو اٹھائیں؛ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھا لیا اور آپ نے خود حجر الاسود کو چادر سے لے کر مقررہ مقام پر رکھ دیا اور آپ کے اس حکیمانہ فیصلے نے عظیم جنگ اور خونریزی کا راستہ روک لیا۔[۲۱]

۱۰

بعثت

شیعہ امامیہ کے مشہور قول کے مطابق رسول اللہؐ ۲۷ رجب المرجب کو نبوت پر مبعوث ہوئے۔[۲۲]

بعثت جس قدر قریب تر آرہی تھی آپ لوگوں سے دور اور خدائے یکتا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ ہر سال ایک مہینہ حرا نامی پہاڑی میں غار حراء میں گوشہ نشینی اختیار کرکے عبادت میں مصروف رہتے۔ (دیکھئے: تحنّث) اس زمانے میں جو غریب افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے آپ انہیں کھانا کھلاتے۔ عبادت کا مہینہ ختم ہونے کے بعد مکہ تشریف لاکر گھر واپس جانے سے پہلے سات یا کچھ زیادہ مرتبہ خانۂ کعبہ کا طواف فرماتے اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے۔[۲۳]

گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں نبوت پر مبعوث ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں:

جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا:

پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا:

پڑھو۔ میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا:

إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ[۲۴]

(ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا۔ جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی۔[۲۵]

رسول خداؐ نبوت پر مبعوث ہونے والی سورہ علق کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے مکہ اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کے گھر میں تین افراد:

آپ کی زوجۂ مکرمہ سیدہ خدیجہ، آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب اور زید بن حارثہتھے۔[۲۶]

پیغمبرؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب(ئ) تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔[۲۷] بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کہ ابوبکر اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔[۲۸]

۱۱

پہلا مسلمان

تاہم حاكم نیشابوری رقمطراز ہے:

"لا أعلم خلافاً بین أصحاب التواریخ أنّ علی بن أبی‏طالب أوّلهم اًّسلاماً و اًّنّما اختلفوا فی بلوغه" ۔

(ترجمہ: اصحاب میں سب سے پہلے علی بن ابیطالبؑ کے اسلام لانے کے حوالے سے مؤرخین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تاہم انھوں نے اسلام لاتے وقت آپ کے بلوغ میں اختلاف کیا ہے)۔[۲۹]

حالانکہ اگر امیرالمؤمنینؑ پر نابالغ ہونے کے حوالے سے ہونے والے اعتراض کو درست مانا جائے تو حقیقت میں اسے رسول اللہؐ پر اعتراض گردانا جائے گا کیونکہ آپؐ نے "یوم الدار" کے موقع پر اپنے خاندان اور قبیلے کو اسلام کی دعوت دی اور امیرالمؤمنینؑ کے سوا کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہیں کی؛ علی اٹھے اور اپنے ایمان و اسلام کا اعلان کیا اور رسول خداؐ نے نہ صرف آپ کے اسلام کو قابل قبول قرار دیا بلکہ اعلان کیا کہ :

"اے علی تم میرے بھائی اور وصی اور میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔ اور حاضرین سے بھی کہا کہ ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔[۳۰]

گوکہ ابتدائی دعوت بہت محدود تھی لیکن مسلمانوں کی تعداد روز افزوں تھی اور بہت کم عرصے میں مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطراف میں جاتا تھا اور رسول اللہؐ کے ساتھ نماز بجا لاتا تھا۔[۳۱]

۱۲

اعلانیہ تبلیغ دین

رسول خد(ص):"'نحن معاشر الأنبياء والامناء والأتقياء براء من التكلف

(ترجمہ: ہم انبیاء اور امناء اور پرہیزگار تکلف (اور بےجا زحمت اٹھانے) سے بیزار ہیں)۔

مآخذ، طباطبائی، سنن النبي، ص۱۲۹۔

علنی دعوت

مشہور ہے کہ نبوت و رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد محمدؐ کی تبلیغ کا سلسلہ تین سال تک خفیہ رہا؛ تاہم بعض مؤرخین قرآنی آیات کی ترتیب نزول کے پیش نظر کہتے ہیں کہ عمومی تبلیغ بعثت کے تھوڑے عرصے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔[۳۲]

پیغمبر خداؐ ابتدا میں لوگوں کو بتوں کی پرستش ترک کرنے اور صرف خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دیتے تھے۔ ابتدا میں نمازیں دو رکعتی ہوتی تھیں۔ بعد میں حاضرین پر چار رکعت اور مسافرین پر دو رکعت نماز واجب ہوئی۔ مسلمان نماز اور خدا کی پرستش کے وقت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے اور پہاڑیوں کی کھائیوں، شگافوں اور لوگوں کی آمد و رفت سے دور نماز ادا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اسلام مکہ میں پھیل گیا۔[۳۳]

روایت مشہور ہے کہ: جب آپ کی دعوت کو تین سال ہوئے تو پروردگار نے آپ کو مأمور کیا کہ لوگوں کو اعلانیہ طور پر خدا کی طرف بلائیں اور اعلانیہ دعوت بنی عبدالمطلب سے شروع ہوئی جب ارشاد ہوا:

"وَأَنذِرْ عَشِيرَ تَكَ الْأَقْرَ بِينَ ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ۔ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ" ۔ [۳۴]

ترجمہ: اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرا دیجئے۔ اور اپنا بازو جھکایئے مؤمنین سے اس کے لیے جو آپ کا پورا پورا پیرو ہے۔ تو اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں بے تعلق ہوں اس سے جو تم کرتے ہو۔

ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں تو رسول اللہؐ نے علیؑ سے فرمایا:

اے علی! خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس کی پرستش اور بندگی کی دعوت دوں۔ ایک بکرا ذبح کرو، کچھ روٹی اور ایک کاسہ دودھ کا فراہم کرو۔ علیؑ نے ایسا ہی کیا اور اس دن خاندان عبدالمطلب کے چالیس یا [تقریبا چالیس] افراد اکٹھے ہوئے اور سب نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا لیکن جونہی رسول اللہؐ نے جب اپنے کلام کا آغاز کیا تو ابولہب نے کہا:

"اس نے تم پر جادو کیا"؛ اور یوں مجلس بدنظمی کا شکار ہوئی۔ رسول خداؐ نے دوسرے روز پھر بھی انہیں بلایا اور فرمایا: اے فرزندان عبدالمطلب! میرا خیال نہيں ہے کہ عرب میں کوئی اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر چیز لایا ہو جو میں تمہارے لئے لے کر ایا ہوں۔ میں تمہارے لئے دنیا اور آخرت لے کر آیا ہوں۔[۳۵]

طبری لکھتا ہے:

رسول خداؐ نے افراد خاندان کو اپنا پیغام پہونچانے کے بعد فرمایا:

تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین ہو؟ سب خاموش رہے اور علیؑ نے کہا:

اے رسول خدا! وہ میں ہوں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:

یہ (علی) میرے وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں؛ ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔[۳۶]۔[۳۷]

یہ روایت اسی صورت میں دوسرے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے بھی نقل کی ہے اور مشہور احادیث کے زمرے میں آتی ہے۔[۳۸]

۱۳

قریش کی دشمنی اور اس کے نتائج

رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہوئی اور قریش کے عمائدین کی فکرمندی میں اضافہ ہوا۔ وہ (رسول اللہؐ کے چچا اور حامی و سرپرست حضرت) ابو طالبؑ کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو اس دعوت و تبلیغ سے باز رکھیں۔ ایک دن انھوں نے ابو طالبؑ سے درخواست کی محمدؐ کو ان کے سپرد کریں تاکہ وہ آپ کو قتل کریں اور آپؐ کے عوض وہ عمارة بن ولید نامی نوجوان ان کے سپرد کریں گے جو ایک خوبصورت اور مشرکین کے بقول عقل مند نوجوان تھا۔

ابو طالبؑ نے جواب دیا: کیا میں اپنا بیٹا تمہارے حوالے کردوں کہ تم اسے مار ڈالو اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں اور پروان چڑھاؤں؟ کیا دشوار فریضہ ہے یہ؟۔[۳۹]۔[۴۰]

قریش قبائلی معاہدوں کی بنا پر رسول خداؐ کو جانی نقصان پہونچانے سے عاجز تھے کیونکہ ایسی صورت میں انہيں بنی ہاشم کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسرے قبائل کی مداخلت کا امکان بھی پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے ان کا کام مزید دشوار ہوجاتا۔ چنانچہ وہ صرف بدگوئی اور جزوی طور پر نقصان پہنچانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے تاہم نہتے نو مسلموں کو ۔جہاں تک ممکن تھا۔ نقصان پہونچا دیتے تھے۔[۴۱]

رفتہ رفتہ جھگڑا نمایاں ہوا۔ قریشی ایک بار پھر ابو طالب کے پاس پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو اس راستے پر مزید آگے بڑھنے سے باز رکھیں جس پر وہ چل نکلے تھے۔ ابو طالبؑ نے ان کے مطالبات کے سلسلے میں اپنے بھتیجے اور نور چشم محمدؐ سے بات کی اور آپؐ نے جواب میں فرمایا:

خدا کی قسم! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند رکھ دیں تو بھی اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہونگا۔

ابو طالب نے بھی رسول اللہؐ سے کہا: اب جب بات یہ ہے تو آپ اپنا کام جاری رکھيں اور میں بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہونچنے دونگا۔ اس کے بعد قریشی رسول اللہؐ اور مسلمانوں کو نقصان اور آزار و اذیت پہنچانے کے لئے زیادہ کوشاں ہوئے۔[۴۲]

ہجرت حبشہ

جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا محمدؐ کے ساتھ قریش کی دشمنی اور مخالفت میں اسی انداز سے اضافہ ہو رہا تھا؛ تاہم پیغمبرؐ کو ابو طالبؑ کی حمایت حاصل تھی اور قریش قبائلی معاہدوں کی وجہ سے آپ کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن آپ کے نہتے اور کمزور مسلمانوں سمیت آپکے پیروکاروں کو کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔

ان نو مسلموں کو پہنچنے والی اذیت پیغمبرؐ پر بہت گراں گذرتی تھی۔ چنانچہ آپ نے انہیں بامر مجبوری حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں۔

آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

اس سرزمین میں ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاؤ اور وہیں رہو حتی کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب جب معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے۔[۴۳]

بنی ہاشم کا محاصرہ

قریش نے جب مکہ میں مسلمانوں کی مسلسل پیش قدمی کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ نجاشی نے ان کے نمائندوں کی حبشہ کے مہاجرین کو حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے، تو انھوں نے محمدؐ اور بنی ہاشم پر معاشی دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا اور ایک عہدنامہ لکھا کہ "اس کے بعد کوئی بھی ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد کو رشتہ نہ دے گا اور ان سے رشتہ نہ لے گا، کوئی بھی انہیں کچھ نہ بیچے گا اور ان سے کچھ نہ خریدے گا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ عہدنامہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا۔ اس کے بعد بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی یوسف نامی درے میں محصور کئے گئے جو بعد میں شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہوا۔[۴۴]

بنو ہاشم کا محاصرہ ۲ یا ۳ سال تک جاری رہا۔ بنو ہاشم کی دشواریوں کے ایام میں ان کے ایک یا دو رشتہ دار رات کے وقت کچھ گندم یا دیگر اشیائے خورد و نوش ان تک پہنچا دیتے تھے۔ ایک رات بنو ہاشم کے ساتھ شدید دشمنی برتنے والے ابوجہل کو معلوم ہوا تو اس نے حکیم بن حزام کا راستہ روکا جو خدیجہ کے لئے گندم لے کر جارہا تھا۔ دوسروں نے مداخلت کی اور ابو جہل پر لعنت ملامت کی۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور بنو ہاشم کی حمایت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ (ابو جہل کا قبیلہ) بنو مخزوم کیوں نعمتوں میں کھیلے جبکہ بنو ہاشم و بنو عبدالمطلب کو سختی میں رکھا جارہا ہے۔ آخر کار انھوں نے کہا کہ بنو ہاشم کے خلاف لکھا ہوا عہدنامہ منسوخ ہونا چاہئے۔ معاہدے کے بعض فریقوں نے اسے پھاڑنے کا فیصلہ کیا۔

ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ معاہدہ دیمک نے چاٹ کھایا ہے اور صرف جملہ "باسمک اللهم" باقی ہے۔[۴۵]

ابن ہشام نے بعض اہل علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

ابو طالبؑ قریش کے پاس گروہ بنا کر پہنچے اور ان سے کہا:

میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارا لکھا ہوا عہدنامہ دیمک نے کھا لیا ہے اور صرف اللہ کا نام باقی ہے؛ جاؤ دیکھو! اگر ان کی بات صحیح ہے تو ہماری ناکہ بندی ختم کرو اور اگر صحیح نہیں ہے تو میں انہیں تمہاری تحویل میں دونگا۔ جب قریش کعبہ کے اندر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ دیمک نے خدا کے نام کے سوا پورا عہدنامہ کھا لیا ہے۔ اور یوں محاصرہ اٹھ گیا اور بنو ہاشم شعب ابی طالب سے باہر نکل کر مکہ پلٹ آئے۔[۴۶]

۱۴

طائف کا سفر

پیغمبرؐ شعب ابی طالب سے نکلے تو کچھ ہی عرصہ بعد آپ کے دو اہم ترین حامی، قریب ترین مددگار اور ہمدرد خدیجہ اور ابو طالب انتقال کرگئے۔[۴۷]

(دیکھئے: عام الحزن) ابو طالبؑ کی وفات پر رسول خداؐ سنجیدہ ترین حامی سے محروم ہوگئے اور مشرکین نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر رسول اللہؐ اور مسلمانوں کو ایذائیں پہنچانے اور ہراساں کرنے کے سلسلے کو شدت بخشی۔ مکہ سے باہر کے علاقوں ـ خاص طور پر طائفـ کے رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دینے کے سلسلے میں آپ کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں اور آپ آزردہ خاطر اور بے سکون ہوکر مکہ واپس پلٹ آئے۔[۴۸]۔[۴۹]

(دیکھئے: رسول خداؐ کا سفر طائف)

۱۵

ہجرت سے پہلے کے واقعات

عقبہ کا پہلا عہد نامہ

بعثت کے گیارہویں سال حج کے موقع پر بنی خزرج کے چھ افراد نے رسول اللہ سے ملاقات۔ آپ نے انہیں دیں الہی کا پیغام پہنچایا انہوں نے اسے قبول کیااور رسول اللہ سے عہد کیا کہ وہ اس پیغام کو اپنے قبیلے کے افراد تک پہنچائیں گے۔ اگلے سال مدینے کے ۱۲ افراد نے عقبہ نامی جگہ پر رسول اللہ کی بیعت کی۔ انہوں نے شرک، چوری، زنا، تہمت نہ لگانے اور اپنی اولاد کے قتل نہ کرنے اور رسول اللہ کی جانب سے امور خیر میں دیے گئے احکامات کی پیروی کرنے پر بیعت کی۔ رسول اللہ نے مصعب بن عمیر کو مبلغ اور لوگوں کو تعلیم قرآن دینے کے عنوان سے ان کے ساتھ یثرب روانہ کیا۔ اس کے ذریعے آپؐ اس شہر کے حالات اور لوگوں کی طرف سے اسلام کے استقبال سے مطلع ہونا چاہتے تھے۔[۵۰]

عقبہ کا دوسرا عہد نامہ

بعثت کے ۱۳ ویں سال بنی خزرج قبیلے کے ۷۳ افراد حج سے فارغ ہونے کے بعد عقبہ میں اکٹھے ہوئے۔ رسول خدا اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے ہمراہ انکے پاس گئے ۔مؤرخین کے مطابق پہلے عباس بن عبد المطلب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

اے بنی خزرج! محمد ہم میں سے ہے۔ جہاں تک ہم میں توان و سکت تھی ہم نے اسے کسی قسم کی تکلیف پہنچنے سے محفوظ رکھا۔ اب وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے اگر تم اس کی حمایت اور اسکے مخالفین کے شر سے دفاع کی قدرت رکھتے ہو تو بہت خوب و گرنہ ابھی سے ہی اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔

بنی خزرج نے جواب میں کہا:

عباس! ہم نے تمہاری گفتگو سن لی ہے۔ اے رسول خدا! آپ کے اپ کے خدا کے نزدیک پسندیدہ کیا ہے؟

رسول اللہ نے جواب میں قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور فرمایا:

میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم میری حمایت کرو گے۔

بنی خزرج کے نمائندوں نے آپ کی اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں کے دشمن اور دوستوں کے دوست ہونگے، جو کوئی بھی آپ سے جنگ کرے گا وہ بھی ان سے جنگ کریں گے۔ اسی وجہ سے اس بیعت کو بیعت الحرب کہتے ہیں۔ اس بیعت کے بعد رسول اللہ نے مسلمانوں کو یثرب جانے اجازت دی۔تاریخ اسلام میں مکہ سے مدینہ جانے والوں کو مہاجر اور انہیں قبول کرنے والوں کو انصار کہا جاتا ہے ۔

۱۶

دار الندوۃ کی سازش

قریش جب یثرب کے لوگوں سے رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔

قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے تمام افراد یک لخت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔

اس نقشے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور ۳ دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔[۵۱]

۱۷

ہجرت مدینہ کے اہم واقعات:

پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی

ہجرت نبوی ۶۲۲ء بمطابق ۱ھ

معراج ۶۲۲ء بمطابق ۱ھ

غزوہ بدر ۶۲۴ء بمطابق ۱۷ رمضان ۲ھ

امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی ۶۲۴ء بمطابق یکم ذی الحجہ ۲ھ

بنی‌قینقاع کی شکست ۶۲۴ء بمطابق ۱۵ شوال ۲ھ

غزوہ احد ۶۲۵ء بمطابق شوال ۳ھ

بنو نضیر کی شکست ۶۲۵ء بمطابق ۴ھ

غزوہ احزاب ۶۲۷ء بمطابق ۵ھ

بنو قریظہ کی شکست ۶۲۷ء بمطابق ۵ھ

غزوہ بنی مصطلق ۶۲۷ء بمطابق ۵ھ یا ۶ھ

صلح حدیبیہ ۶۲۸ء بمطابق ۶ھ

غزوہ خیبر ۶۲۸ء بمطابق ۷ھ

پہلا سفرِ حجّ ۶۲۹ء بمطابق ۷ھ

جنگ مؤتہ ۶۲۹ء بمطابق ۸ھ

فتح مکہ ۶۳۰ء بمطابق ۸ھ

غزوہ حنین ۶۳۰ء بمطابق ۸ھ

غزوہ طائف ۶۳۰ء بمطابق ۸ھ

جزیرة العرب پر تسلط ۶۳۱ء بمطابق ۹ھ

غزوہ تبوک ۶۳۲ء بمطابق ۹ھ

حجۃ الوداع ۶۳۲ء بمطابق ۱۰ھ

واقعۂ غدیر خم ۶۳۲ء بمطابق ۱۰ھ

وفات ۶۳۲ء بمطابق ۱۱ھ

ہجرت مدینہ

رسول خدا کے مکہ سے نکلنے اور مدینے پہنچنے کی تاریخ میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا وہ لکھتا ہے ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی ۱۲ویں تاریخ بروز سوموار ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ ۱ ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی ۱۲ بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ ۸ ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے ۱۲ویں سال ربیع الاول کے ۹ دن سفر میں رہے اور ۱۲ تاریخ بمطابق ۲۴ ستمبر۶۲۲سن عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔(حوالہ درکار ہے)۔

پیغمبر کی مکہ سے مدینہ ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی اسے مسجد قبا کہا جاتا تھا ۔[۵۲]۔

حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ رہے اور آپؑ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے ملحق ہو گئے ۔ [۵۳]۔

رسول خدا ۱۲ ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پڑھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپکی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔

رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ حکم دے دیا گیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟

بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد النبی کی بنیاد ہے ۔

ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ کے حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے ۔

رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ صفہ بنایا گیا تا کہ وہاں مستمد حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔[۵۴]۔

دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان صیغۂ اخوت قائم کیا اور رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔[۵۵]

ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے انہیں منافقان کہتے تھے۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تا ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے ۔[۵۶] (ر ک: اسلام کا پہلا عمومی معاہدہ)

۱۸

منافقین اور یہودی

اس کے باوجود کہ اکثر یثربی عوام یا تو مسلمان تھے یا پھر رسول اللہؐ کے حامی تھے، ایسا بھی نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اور محمدؐ کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو چکا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور اس کے باوجود کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر محمدؐ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا۔[۵۷]

اس گروہ نے ـ جنہيں قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے۔[۵۸]

خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کے پیغمبر تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تم نے مسلمانی کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال قرار دیا ہے:

" إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ" ۔ (منافقون ۱)

ترجمہ: جب منافق لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ ضرور اسکے پیغمبر ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔

ترجمہ سید علی نقی نقوی ۔آیت ۱۔

اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ ۹ ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری و بےآہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب محمدؐ اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔

علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد محمدؐ کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔

یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب مین قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔

بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا ربط توڑ کر رکھ دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:

عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں:

" يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ " ۔

ترجمہ: اے کتاب والو! ابراہیم کے بارے میں کیوں خوامخواہ تکرار کرتے اور جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل دونوں تو ان کے بعد اتریں، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لو گے؟ ٭

اچھا! اب تک تو تم ان سے ایسی باتوں میں بحث اور حجت کر رہے تھے جن کا تمہیں کچھ علم ہے اب کیوں تم ان باتوں میں حجت کرتے ہو جن سے تمہیں کوئی بھی واقفیت نہیں ہے اللہ علم رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے ٭ ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو نرے کھرے مسلم تھے اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔[۵۹]۔[۶۰]۔[۶۱]

۱۹

قبلہ کی تبدیلی

پیغمبرؐ مدینہ پہنچنے کے بعد سترہ مہینوں تک (قبلۂ اول ) مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نماز کے لئے کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ یہودی کہتے تھے: محمد کا کوئی قبلہ نہ تھا حتی کہ ہم نے انہيں سکھا دیا۔ رسول اللہؐ اس یہودی سرزنش سے آزردہ خاطر تھے۔ ایک روز آپ مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر ادا کررہے تھے اور یہ ۲ ہجری سال کا ماہ شعبان تھا کہ نماز کے دوران ہی آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:

" قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ " ۔ ؛

ترجمہ: بہت دیکھ رہے ہیں ہم آپ کے چہرے کی گردش کو آسمان کی طرف، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔ بس اب مسجد الحرام کی طرف اپنا رخ موڑ دیجئے اور تم لوگ جہاں کہیں ہو اپنے منہ اسی طرف کیا کرو، اور وہ جنہیں کتاب دی گئی ہے یقینا بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف کا حقیقی فیصلہ ہے اور اللہ اس سے، جو وہ کرتے ہیں، بے خبر نہیں ہے۔[۶۲]

پیغمبرؐ نے اسی حال میں اپنا رخ بیت المقدس کی طرف سے کعبہ کی طرف موڑ لیا۔ یہ مسجد تاریخ اسلام میں مسجد ذوالقبلتین کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔ مسجد الاقصی سے مکہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی یہود اور منافقین پر گراں گذری۔

اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر تنقید کرنے لگے کہ "اب تک تو مسجد میں تم مسجد الاقصی کی طرف رخ کرتے رہے ہو اب کیوں تمہارا قبلہ تبدیل ہوا؟"۔ چنانچہ یہ آیت ملامت کرنے والوں کے جواب میں نازل ہوئی:

"سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِ قُ وَالْمَغْرِ بُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ۔ ؛

ترجمہ: بہت جلد بے وقوف لوگ یہ کہیں گے کہ کس چیز نے ان لوگوں کو پھیر دیا ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے، کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے۔[۶۳]۔[۶۴]

جنگ بدر

جس روز سے رسول اللہؐ نے عقبہ کا دوسرا معاہدہ مدینہ والوں کے ساتھ منعقد فرمایا اس روز سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی تھی کہ قریش کے ساتھ جنگ حتمی طور پر وقوع پذیر ہوگی۔[۶۵]

سب سے پہلا غزوہ ماہ صفر سنہ ۲ ہجری کو انجام پایا جس کو غزوة الابواء یا ودّان کہا گیا ہے۔ اس لشکر کشی کے دوران کوئی جھڑپ نہيں ہوئی۔

اس کے بعد غزوہ بُواط ربیع الاول کے مہینے میں تھا اور اس میں بھی کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔ جمادی الاولٰی میں خبر ملی کہ قریش کا قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں مکہ سے شام کی طرف روانہ ہورہا ہے۔

پیغمبرؐ نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول اللہؐ کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھے۔[۶۶]

آخر کار ہجرت کے اسی دوسرے سال کے دوران مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان اہم ترین لڑائی ہوئی۔ یہ لڑائی غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں گو کہ مسلمانوں کی تعداد مکیوں سے بہت کم تھی، مگر وہ فتح یاب ہوئے اور بڑی تعداد میں مکی مشرکین مارے گئے یا پھر قید کرلئے گئے اور باقی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔[۶۷] اس جنگ میں ابوجہل اور قریش کے دوسرے اکابرین اور ان کے بیٹوں میں سے (۷۰) افراد ہلاک ہوگئے اور اتنی ہی تعداد قید کرلی گئی۔

اس جنگ میں ۱۴ مسلمان بھی شہید ہوئے۔ جنگ بدر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، نے بڑی جانفشانیاں کیں اور رسول اللہؐ کی خوب مدد کی اور شجاعت کے حوالے سے مکہ کے کئی مشہور جنگجو پہلوان آپ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور امیرالمؤمنین علی کی شجاعت ہی تھی جس نے مسلمانوں کے لشکر کی فتح و کامیابی کو یقینی بنایا۔[۶۸]

یہودیوں کے ساتھ تنازعہ

یہودیوں کے ساتھ پہلی جھڑپ جنگ بدر اور مسلمانوں کی عظیم فتح کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینقاع کے یہودی مدینہ سے باہر ایک قلعے میں سکونت پذير تھے اور سُنار اور لوہار کے پیشے سے وابستہ تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن ایک عرب خاتون بنی قینقاع کے بازار میں گئی اور اپنا سامان ان کے بازار میں فروخت کیا اور ایک سُنار کی دکان پر بیٹھ گئی۔ ایک یہودی نے اس کے لباس کا کنارہ اس کی لاعلمی میں اس کی پشت پر باندھ لیا اور جب وہ اٹھی تو اس کا لباس ایک طرف ہٹ گیا اور گویا اس کا جسم عریاں ہوا جس پر یہودی ہنس پڑے۔ مسلم خاتون نے مسلمانوں کو مدد کے لئے بلایا؛ تنازعے کا آغاز ہوگیا اور ایک مسلمان مرد اس خاتون کی مدد کو لپکا اور اس یہودی شخص کو ہلاک کردیا جس نے شرارت کی تھی۔ یہودیوں نے اٹھ کر مسلمان مرد کو قتل کر ڈالا اور فتنہ اگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کو قریش کے انجام کا حوالہ دے کر خبردار کیا اور فرمایا: اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو تمہیں اطاعت گزار ہونا پڑے گا۔ بنی قینقاع کے افراد نے گستاخی کرتے ہوئے کہا: مکی عوام کی شکست کہیں آپ کو فریفتہ نہ کرے۔ وہ جنگی افراد نہیں تھے۔ اگر ہم آپ کے خلاف لڑیں تو بتا دیں گے کہ ہم ہیں کون اور کس کام کے!۔ خداوند متعال نے ان یہودیوں کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:

قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ وا سَتغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئتَيْنِ الْتقَتَا فِئَةٌ تقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَ ىٰ كَافِرَةٌ ۔۔۔ (۱۳)

کافروں سے کہہ دو کہ بہت جلد تم مغلوب ہو گے اور سمیٹ کے لے جائے جاؤ گے دوزخ کی طرف اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے ٭ تم لوگوں کے لیے ایک معجزہ تھا ان دونوں گروہوں میں جن کی مڈبھیڑ ہوئی تھی ایک گروہ اللہ کی راہ میں جنگ کر رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔۔۔)۔[۶۹]

رسول اللہؐ نے مجبور ہو کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کا محاصرہ ۱۵ شب و روز تک جاری رہا اور جب ہتھیار ڈال کر باہر آئے تو رسول اللہؐ نے [عبداللہ بن ابیّ]] کے شدید اصرار پر ان کی جان بخشی فرمائی تاہم انہيں شام کی طرف جلاوطن کیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ دوسرے ہجری سال کے ماہ شوال میں انجام پایا۔[۷۰]

جنگ احد

سنہ ۳ ہجری میں قریشیوں نے اپنے حلیف قبائل کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے مدد کے لئے بلوایا اور وہ ابوسفیان کی سرکردگی میں ہر قسم کے ہتھیاروں اور ساز و سامان سے لیس لشکر لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہؐ نے ابتدا میں فیصلہ کیا تھا کہ مدینہ میں رہ کر حملہ آور مشرکین کا مقابلہ کریں لیکن بعد میں آپ نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مدینہ سے باہر آئے۔ کوہ احد کے قریب ایک جگہ دو لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ اگرچہ اس جنگ میں ابتدائی طور پر مسلمان فتح مندی سے ہمکنار ہوئے لیکن خالد بن ولید مخزومی نے ایک چال چلی اور مشرکین نے مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت اور نافرمانی سے فائدہ اٹھا کر مسلم مجاہدین پر پشت سے حملہ کرکے ان کا قتل عام شروع کیا۔

اس جنگ میں رسول اللہؐ کے چچا (اسد اللہ اور اسد رسول اللہ) حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؑ بھی شہید ہوئے۔ اس جنگ میں رسول اللہؐ بھی زخمی ہوئے اور آپ کے مارے جانے کے تشہیری ہتھکنڈے نے بھی مسلمانوں کا حوصلہ کمزور کردیا۔ مسلمان غمگین ہوکر مدینہ لوٹ کر آئے۔ اور اس واقعے کے حوالے سے نازل ہونے والی آیات کریمہ در حقیقت مسلمانوں کے لئے تعزیتی اور تسلیتی پیغام کی حامل تھیں۔

۲۰