غلامی کے جدید طریقے
0%
مؤلف: سید جہانزیب عابدی
زمرہ جات: گھریلو اورمعاشرتی لائبریری
صفحے: 15
مؤلف: سید جہانزیب عابدی
زمرہ جات: صفحے: 15
مشاہدے: 155
ڈاؤنلوڈ: 118
تبصرے:
0%
مؤلف: سید جہانزیب عابدی
زمرہ جات: گھریلو اورمعاشرتی لائبریری
صفحے: 15
مؤلف: سید جہانزیب عابدی
غلامی کے جدید طریقے
مرتبہ: سید جہانزیب عابدی
﷽
لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ
فہرست
تعارف
سیاسیات کا شعبہ
اساتذہ کی تعلیم اور تعلیمی سائنس
علمیات، سائنس و ٹیکنالوجی، اور ادبیات کا شعبہ
سماجیات کا شعبہ
عمرانیات اور بشریات کا شعبہ
خاندانی نظام اور نفسیات کا شعبہ
غذا اور زراعت کا شعبہ
ثقافت اور تہذیب کا شعبہ
معیشت، کاروبار، اور بینکنگ کا شعبہ
صحت و ادویات کا شعبہ
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کا شعبہ
کھیل اور تفریح کا شعبہ
مذہب کا شعبہ
قانون و عدلیہ کا شعبہ
ماحولیات کا شعبہ
دفاع کا شعبہ
ذرائع نقل و حمل اور مواصلات کا شعبہ
غلامی سے نجات
تعارف
جدید غلامی سے مراد وہ نیا استحصالی نظام ہے جو روایتی جسمانی غلامی کے بجائے ذہنی، معاشی، سماجی، اور ثقافتی سطح پر قوموں اور افراد کو پابند کر دیتا ہے۔ یہ غلامی بظاہر آزادی کے پردے میں لپٹی ہوتی ہے، لیکن درحقیقت یہ افراد، معاشروں اور ریاستوں کو ایک مخصوص عالمی نظام کا تابع بنا دیتی ہے۔ یہ وہ جال ہے جو تعلیم، معیشت، میڈیا، سیاست، اور ثقافت جیسے مختلف شعبوں میں بچھایا گیا ہے تاکہ لوگ بظاہر آزاد ہوں، لیکن ان کی سوچ، طرز زندگی، نظریات، اور حتیٰ کہ ان کی خواہشات تک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابو رکھا جا سکے۔
سیاست میں جدید غلامی اس طرح نظر آتی ہے کہ ریاستیں بظاہر خودمختار ہوتی ہیں، لیکن ان کی پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں، بڑی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے اشاروں پر بنتی ہیں۔ بین الاقوامی معاہدوں، اقوام متحدہ جیسے اداروں کے دباؤ، اور اقتصادی امداد کی شرائط کے ذریعے کمزور ممالک کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کے قومی مفادات سے زیادہ استعماری طاقتوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ایسے نظام مسلط کیے جاتے ہیں جو عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے چند سرمایہ داروں اور سیاسی اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔
سماجیات کے میدان میں جدید غلامی کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ روایتی خاندانی نظام کو کمزور کر دیا جاتا ہے، سماجی اقدار کو فرسودہ قرار دے کر ان کی جگہ مغربی نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ حقوق، آزادی، اور ترقی کے نام پر ایسے تصورات متعارف کرائے جاتے ہیں جو افراد کو اپنی روایات اور دین سے دور کر کے ایک مخصوص طرز زندگی اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرتی ڈھانچے کو اس نہج پر لے جایا جاتا ہے کہ لوگ فطری طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے بجائے انفرادی مفادات کے گرد گھومنے لگیں، جس سے سماجی ہم آہنگی ختم ہو جائے اور افراد ایک کنزیومر یعنی محض صارف بن کر رہ جائیں۔
علمیات میں جدید غلامی سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ براہ راست ذہنوں کو مسخر کرتی ہے۔ تعلیمی نصاب اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں کہ طلبہ صرف وہی سیکھیں جو استعماری طاقتوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ ان کے ذہنوں میں علمی اور فکری آزادی کے بجائے وہ نظریات بٹھائے جاتے ہیں جو مغربی استعماری نظام کو مستحکم کریں۔ مقامی تاریخ، اسلامی ورثہ، اور فکری خودمختاری پر تحقیق کرنے کے بجائے ترقی، سائنسی تحقیق، اور جدت کے نام پر مغربی علمی ڈھانچے کو حتمی سچائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل تیار ہوتی ہے جو اپنی ہی روایات اور عقائد کو کمتر سمجھنے لگتی ہے۔
ثقافت اور تہذیب میں جدید غلامی کا سب سے زیادہ اثر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مقامی ثقافتوں کو قدامت پرست، غیر مہذب، اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے کر ان کی جگہ مغربی طرزِ زندگی کو فیشن، لائف اسٹائل، اور جدیدیت کے نام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ فلموں، موسیقی، فیشن انڈسٹری، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک خاص قسم کی ثقافتی یلغار کی جاتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی شناخت، اقدار، اور دینی اصولوں کو پس پشت ڈال کر استعماری ثقافت کو اپنانے میں فخر محسوس کریں۔
معیشت میں جدید غلامی سودی نظام، عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں، اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے استحصال کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو اس طرح کے قرضے دیے جاتے ہیں جن کی شرائط انہیں مستقل طور پر مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع رکھتی ہیں۔ مقامی صنعتوں کو پنپنے نہیں دیا جاتا اور آزاد منڈی کے نام پر ایسی پالیسیوں پر مجبور کیا جاتا ہے جو بالآخر عالمی طاقتوں کے مالیاتی تسلط کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ افراد کو بھی صارفیت کے دائرے میں جکڑ دیا جاتا ہے، جہاں خوشی، کامیابی، اور ترقی کا تصور صرف زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے، برانڈز کے پیچھے بھاگنے، اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہنے سے وابستہ کر دیا جاتا ہے۔
میڈیا جدید غلامی کے نفاذ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ خبروں، تفریحی مواد، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک خاص بیانیہ عام کیا جاتا ہے جو استعماری قوتوں کے مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔ ایسے ایشوز کو زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے جو لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا دیں، اور ایسی شخصیات اور نظریات کو مقبول بنایا جاتا ہے جو ذہنی غلامی کو مزید مضبوط کریں۔ صحافت اور تفریح کے نام پر ایسی خبروں اور کہانیوں کو فروغ دیا جاتا ہے جو مخصوص طاقتوں کے ایجنڈے کی ترویج کریں، جبکہ مزاحمتی یا متبادل نظریات کو سازشی تھیوریز یا انتہا پسندی کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
کھیل کے میدان میں بھی جدید غلامی نمایاں ہے۔ کھیلوں کو محض تفریح تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ انہیں ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے، جہاں چند مخصوص ادارے اور کمپنیاں پوری دنیا کے کھلاڑیوں، ناظرین، اور فین کلچر پر قابض ہیں۔ کھیلوں کی عالمی تنظیمیں اکثر سیاسی اور معاشی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور ان میں ایسے تصورات کو فروغ دیا جاتا ہے جو استعماری طاقتوں کے مفادات کے مطابق ہوں۔
صحت کے شعبے میں جدید غلامی کا ایک بڑا ذریعہ دوا ساز کمپنیاں اور عالمی ادارہ صحت جیسے ادارے ہیں، جو بیماریوں کی روک تھام کے بجائے مخصوص دوائیوں اور ویکسینز کی فروخت کو یقینی بناتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو صحت کے نام پر ایسی پالیسیاں اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کے عوامی مفادات کے بجائے چند بڑی دوا ساز کمپنیوں کے مالی فوائد کو ترجیح دیتی ہیں۔ غذائیت اور طرز زندگی کو بھی اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ لوگ مسلسل طبی مسائل کا شکار رہیں اور ہمیشہ دوا، اسپتال، اور میڈیکل انڈسٹری پر انحصار کریں۔
یہ جدید غلامی کا ایک وسیع جال ہے جو ہر شعبے میں کسی نہ کسی انداز میں بچھایا گیا ہے۔ بظاہر آزادی کا احساس دیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت افراد اور قوموں کو ایسے دائرے میں قید کر دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی سوچ، معیشت، ثقافت، اور طرز زندگی پر خود کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اس سے نجات کا واحد راستہ فکری خودمختاری، دینی شعور، اور عملی مزاحمت ہے، تاکہ اپنی شناخت، نظریات، اور وسائل پر خود مختارانہ کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
اگلے صفحات میں اوپر دیئے گئے موضوعات کو توڑی تفصیل سے دیکھیں گے۔
سیاسیات کا شعبہ
سیاست کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسا پیچیدہ اور منظم جال ہے جو بظاہر خودمختاری کا تاثر دیتا ہے، لیکن حقیقت میں قومی پالیسیوں، حکومتی فیصلوں، اور ریاستی ڈھانچے کو بیرونی طاقتوں کے مفادات کے تابع کر دیتا ہے۔ یہ غلامی براہ راست قابض ہونے کے بجائے مقامی حکمرانوں، سیاسی جماعتوں، اور پالیسی ساز اداروں کو اس نہج پر لے آتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بھی وہی فیصلے کریں جو استعماری قوتوں کے حق میں ہوں۔ یہ تسلط مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، جن میں انتخابی عمل کی مداخلت، عوامی رائے عامہ کی تشکیل، اور ریاستی اداروں کی ساخت میں بیرونی اثر و رسوخ شامل ہیں۔
اس غلامی کا سب سے بنیادی طریقہ یہ ہے کہ جمہوریت اور انتخابی نظام کو ایک ایسا ڈھانچہ بنا دیا جاتا ہے جو درحقیقت عوام کے مفاد کے بجائے طاقتور کارپوریٹ اداروں، عالمی مالیاتی نظام، اور استعماری ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے کام کرے۔ انتخابات کے دوران براہ راست یا بالواسطہ طریقوں سے ان امیدواروں اور جماعتوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے جو مغربی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوں، جبکہ ان سیاستدانوں کو کمزور کیا جاتا ہے جو حقیقی آزادی، خودمختاری، اور قومی وقار کے حامی ہوں۔ بعض اوقات یہ مداخلت میڈیا کے ذریعے عوامی ذہن سازی کے طور پر کی جاتی ہے، جبکہ بعض اوقات سیاسی جماعتوں کو بیرونی فنڈنگ اور سفارتی دباؤ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کی ظاہری شکل تو برقرار رہتی ہے، لیکن اس کی روح مکمل طور پر غلامی میں جکڑی جاتی ہے۔
قومی پالیسی سازی کے میدان میں بھی جدید غلامی انتہائی منظم انداز میں کام کرتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، ایسی معاشی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں جو مقامی معیشت کو کمزور کر کے اسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع بنا دیں۔ اس کا اثر صرف معیشت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ سیاست بھی براہ راست ان فیصلوں سے متاثر ہوتی ہے۔ حکمران طبقے کو اس حد تک مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کے بجائے ان شرائط کو قبول کرے جو استعماری قوتوں کے فائدے میں ہوں۔ اسی طرح، سیکیورٹی پالیسیوں میں بھی بڑی طاقتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کر کے یہ طے کرتی ہیں کہ کس ملک کو دشمن سمجھا جائے، کس کے ساتھ اتحاد کیا جائے، اور کون سی جنگیں لڑی جائیں۔ دفاعی معاہدے، فوجی امداد، اور اسٹریٹجک شراکت داریاں بظاہر خودمختاری کا تاثر دیتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ ملکوں کو بڑی طاقتوں کے عسکری ایجنڈے کا حصہ بنا دیتی ہیں۔
سیاست میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ داخلی انتشار اور سیاسی عدم استحکام کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض ملکوں میں ایسی جماعتوں، گروہوں، اور تحریکوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے جو مسلسل داخلی اختلافات کو ہوا دیتی رہیں، تاکہ ریاست اندرونی بحرانوں میں الجھی رہے اور عالمی استعماری قوتوں کے خلاف کوئی مضبوط موقف اختیار نہ کر سکے۔ مذہبی، نسلی، اور لسانی تقسیم کو بڑھاوا دے کر ملک کے اندر ایک ایسی فضا بنائی جاتی ہے جہاں عوامی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ کر غیر ضروری تنازعات میں الجھ جائے۔ اس کے لیے میڈیا، این جی اوز، اور تھنک ٹینکس کو بھی استعمال کیا جاتا ہے، جو بظاہر آزادیٔ اظہار اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرتے ہیں، لیکن درحقیقت وہی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں جو عالمی طاقتوں کے مفاد میں ہو۔
قانون سازی اور عدالتی نظام میں بھی جدید غلامی کا تسلط نظر آتا ہے۔ ایسے قوانین متعارف کرائے جاتے ہیں جو بظاہر انصاف، حقوق، اور ترقی کے لیے ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کے ذریعے ایسی پالیسیاں رائج کی جاتی ہیں جو مقامی ثقافت، مذہبی اقدار، اور خودمختاری کو کمزور کرتی ہیں۔ عالمی معاہدے، جیسے انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، اور ماحولیاتی معاہدے، اکثر ان شرائط کے ساتھ نافذ کیے جاتے ہیں جو استعماری طاقتوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، جبکہ کمزور ممالک کے لیے ان کا بوجھ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ عدالتی نظام میں بھی بیرونی مداخلت کے ذریعے ایسے فیصلے کروائے جاتے ہیں جو مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھائیں، اور ان رہنماؤں یا جماعتوں کو قانونی جکڑ بندیوں میں پھنسا دیا جاتا ہے جو استعماری طاقتوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔
عوامی سطح پر سیاسی شعور کو بھی اس انداز میں محدود کر دیا جاتا ہے کہ لوگ حقیقی آزادی اور خودمختاری کے تصورات سے بے گانہ ہو جائیں۔ تعلیمی نظام میں ایسے نصاب متعارف کرائے جاتے ہیں جو غلامی کو ایک مہذب اور ناگزیر حقیقت کے طور پر پیش کریں، اور ایسے ہیرو اور رہنما نمایاں کیے جاتے ہیں جو عالمی طاقتوں کے قریب رہے ہوں۔ دوسری طرف، انقلابی رہنماؤں، آزادی پسند تحریکوں، اور حقیقی قومی ہیروز کو یا تو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے، یا انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی نسل نہ تو اپنی تاریخ سے واقف ہوتی ہے، نہ ہی اسے آزادی کی حقیقی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں بھی جدید غلامی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ سفارتی سطح پر کمزور ممالک کو اس طرح مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے مطابق فیصلے کریں۔ اقوامِ متحدہ، جیسا کہ ایک عالمی ادارہ، بظاہر سب کے لیے ہے، لیکن اس کے فیصلے ہمیشہ انہی طاقتوں کے حق میں ہوتے ہیں جو اصل میں اس کے منتظم ہیں۔ عالمی قوانین، جنگی جرائم کے مقدمات، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اکثر مخصوص ممالک کے خلاف سختی سے نافذ کی جاتی ہیں، جبکہ دیگر طاقتور ممالک کو ان سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی غلامی صرف مقامی حکومتوں تک محدود نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مکمل نظام کے تحت قائم رکھی جاتی ہے۔
جدید غلامی کی ایک واضح مثال مشرق وسطیٰ میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں کئی ممالک کی داخلی سیاست اور حکومتی پالیسیاں بڑی طاقتوں کے مفادات کے تابع نظر آتی ہیں۔ عراق پر ۲۰۰۳ میں امریکی حملہ ایک ایسا ہی واقعہ تھا، جہاں آزادی اور جمہوریت کے نام پر ایک خودمختار ملک پر جنگ مسلط کی گئی اور بعد میں ایسا سیاسی نظام ترتیب دیا گیا جس میں مقامی قیادت اپنی پالیسی سازی میں آزاد نہ رہ سکی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ان ممالک کو ایسے قرضے دیتے ہیں جن کی شرائط ان کی معیشت کو جکڑ لیتی ہیں۔ مصر میں ۲۰۱۳ میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنا اور اس کے بعد فوجی حکومت کی حمایت عالمی طاقتوں کے اس کردار کی مثال ہے، جہاں حقیقی جمہوری قیادت کو کمزور کر کے ایسی حکومتوں کو مسلط کیا جاتا ہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کریں۔
پاکستان میں بھی یہ اثر و رسوخ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لیا، جس کے نتیجے میں ملک کو سخت مالیاتی شرائط کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کے معاہدے مقامی معیشت کو خودکفالت کی راہ پر ڈالنے کے بجائے مزید مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح، ۲۰۱۸ میں جب پاکستان کو دوبارہ مالی بحران کا سامنا تھا، تب بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومتی پالیسیوں میں تبدیلیاں کی گئیں، جن میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، عوامی اخراجات میں کمی، اور معاشی فیصلوں پر عالمی مالیاتی اداروں کی براہ راست نگرانی شامل تھی۔ یہ تمام اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک خودمختار ملک ہونے کے باوجود پالیسی سازی کا اختیار بیرونی اداروں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔
میڈیا اور عوامی رائے سازی پر اثر انداز ہونے کی ایک اور مثال عرب بہار کے دوران دیکھی گئی۔ جب تیونس، مصر، لیبیا، اور شام میں عوامی بغاوتیں ہوئیں تو بین الاقوامی میڈیا نے کچھ مخصوص ممالک میں جمہوریت کے حق میں پروپیگنڈا کیا، جبکہ دوسرے ممالک جہاں آمریت زیادہ مستحکم تھی، وہاں خاموشی اختیار کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مخصوص بیانیہ مضبوط کیا جا سکے اور عوامی سوچ کو ایک خاص رخ پر ڈالا جائے۔
قانون سازی کے حوالے سے بھارت میں ۲۰۱۹ میں متعارف کرایا گیا شہریت ترمیمی قانون (CAA) ایک اہم مثال ہے، جس پر کئی بین الاقوامی اداروں نے دباؤ ڈالا کہ وہ انسانی حقوق کے نام پر بھارتی حکومت کو مخصوص پالیسیوں کی طرف راغب کریں۔ اسی طرح، پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے خلاف بین الاقوامی مہم بھی ایک ایسا ہی طریقہ ہے جس کے ذریعے مقامی قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کے مطابق ہوں۔
داخلی انتشار اور سیاسی عدم استحکام کے ہتھیار کو مشرق وسطیٰ میں مسلسل استعمال کیا گیا ہے۔ عراق اور شام میں مذہبی اور نسلی اختلافات کو ہوا دے کر داخلی جنگوں کو بڑھاوا دیا گیا، جس کے نتیجے میں ریاست کمزور ہو گئی اور عالمی طاقتوں کو خطے میں اپنی عسکری مداخلت کا جواز مل گیا۔ یمن میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ کے ذریعے داخلی بحران پیدا کیا گیا تاکہ خطے میں عدم استحکام برقرار رہے اور کوئی بھی طاقت عالمی تسلط کو چیلنج نہ کر سکے۔
عدالتی نظام میں مداخلت کی ایک مثال پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہے، جسے کئی مبصرین ایک عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ اس فیصلے کے پیچھے عالمی سیاسی دباؤ اور داخلی اسٹیبلشمنٹ کا کردار شامل تھا، جس کا مقصد ایسے رہنما کو راستے سے ہٹانا تھا جو خودمختاری پر زور دیتا تھا۔ اسی طرح، ۲۰۱۸ میں ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کو کرپشن کیس میں سزا دی گئی، لیکن اس کے پیچھے بھی عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ شامل تھا، جو ان کی آزاد معاشی پالیسیوں سے ناخوش تھے۔
تعلیمی نظام میں تبدیلی کے ذریعے جدید غلامی کو مضبوط کرنے کی مثال بھی کئی ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں انگریزی نصاب کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ قومی زبان اور اسلامی تاریخ کو پسِ پشت ڈالا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، یورپی ممالک میں اپنی تاریخ کو فخر کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تاکہ نئی نسل قومی شناخت کو برقرار رکھ سکے۔
بین الاقوامی تعلقات میں اقوامِ متحدہ کا کردار اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کمزور ممالک کے خلاف قوانین سختی سے نافذ کیے جاتے ہیں، جبکہ بڑی طاقتوں کو آزادی دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق اور افغانستان پر حملے کیے، لیکن اقوامِ متحدہ نے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس کے برعکس، ایران اور شمالی کوریا پر معمولی اقدامات پر سخت پابندیاں لگا دی گئیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ بین الاقوامی قوانین بھی طاقتور اقوام کے مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔
ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیاست میں جدید غلامی کوئی غیر حقیقی تصور نہیں، بلکہ ایک منظم نظام کے تحت نافذ کی گئی حقیقت ہے۔ جب تک عوام اور قیادت اس جال کو پہچاننے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک حقیقی آزادی محض ایک خواب ہی بنی رہے گی۔
اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی شعور کو بحال کیا جائے، خودمختاری کی حقیقی اہمیت کو سمجھا جائے، اور ان تمام طریقوں کو بے نقاب کیا جائے جن کے ذریعے استعماری طاقتیں سیاست کو قابو میں رکھتی ہیں۔ جب تک سیاسی قیادت اور عوام ان ہتھکنڈوں کو نہیں پہچانیں گے، تب تک آزادی کا تصور محض ایک سراب ہی رہے گا۔
اساتذہ کی تعلیم اور تعلیمی سائنس
اساتذہ کی تعلیم اور تعلیمی سائنس کے شعبے میں جدید غلامی ایک پیچیدہ مگر منظم انداز میں نافذ کی جا رہی ہے، جس کے ذریعے تعلیمی اداروں، اساتذہ، اور طلبہ کو ایسے نظریاتی، معاشی، اور سائنسی جال میں جکڑ دیا گیا ہے کہ وہ حقیقی آزادیِ فکر اور تعلیمی خودمختاری سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیم، جو کبھی قوموں کی ترقی اور شعوری بیداری کا ذریعہ ہوا کرتی تھی، آج اسے ایک مخصوص بیانیے، سرمایہ دارانہ مقاصد، اور نیوکالونیل پالیسیوں کے تابع کر دیا گیا ہے، جہاں اساتذہ اور تعلیمی سائنس کے ماہرین کو آلۂ کار بنا دیا گیا ہے تاکہ وہ صرف وہی کچھ سکھائیں جو موجودہ عالمی طاقتوں کی فکری، سیاسی، اور اقتصادی برتری کو برقرار رکھنے میں مدد دے۔
اساتذہ کی تربیت اور نصاب کے تعین میں جدید غلامی سب سے پہلے اس مقام پر ظاہر ہوتی ہے جہاں عالمی سطح پر تعلیمی نصاب اور تدریسی طریقے اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ ایک خاص نظریے کو فروغ دیں۔ تعلیمی نصاب کو اس انداز میں تشکیل دیا جاتا ہے کہ وہ مقامی ثقافت، تاریخ، اور فکری خودمختاری کو کمزور کرتے ہوئے طلبہ کو ایک مخصوص عالمی نظریاتی سانچے میں ڈھال دے۔ اساتذہ کو ایسے نصاب پڑھانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو عالمی طاقتوں کے تیار کردہ تعلیمی ماڈلز پر مبنی ہوتے ہیں، اور ان ماڈلز میں تنقیدی سوچ، فکری آزادی، اور روایتی علمی ورثے کے لیے بہت کم جگہ چھوڑی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک استاد، جو معاشرے میں روشنی پھیلانے والا ہونا چاہیے، خود اس تعلیمی نظام کا ایک ایسا پہیہ بن جاتا ہے جو طلبہ کو آزاد سوچنے، سوال اٹھانے، اور اپنی علمی و فکری شناخت کی حفاظت کرنے سے روکتا ہے۔
اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت بھی جدید غلامی کے جال میں جکڑی جا چکی ہے۔ استاد کو ایک ایسے تربیتی عمل سے گزارا جاتا ہے جہاں اسے جدید تعلیمی سائنسی اصولوں کے نام پر ایسے تدریسی طریقے سکھائے جاتے ہیں جو روایتی اور مقامی علمی ورثے سے متصادم ہوتے ہیں۔ مغربی تعلیمی ماڈلز کو ایک معیاری نظام قرار دے کر نافذ کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی، مشرقی، اور دیگر روایتی تعلیمی نظریات کو فرسودہ، غیر سائنسی، یا غیر ضروری کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں تعلیمی تحقیق اور تدریس کو اس حد تک کنٹرول کر لیا جاتا ہے کہ استاد صرف مخصوص کتابیں، مخصوص تعلیمی تھیوریز، اور مخصوص نظریاتی سانچے کے اندر رہ کر پڑھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے پاس نہ تو اپنی تعلیمی شناخت کو محفوظ رکھنے کا اختیار ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ اپنی تدریس میں ایسے افکار شامل کر سکتا ہے جو عالمی طاقتوں کے تسلط کو چیلنج کر سکیں۔
اساتذہ کی تنخواہوں، مراعات، اور ملازمت کی سیکیورٹی کو بھی جدید غلامی کے ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو کم اجرت دی جاتی ہے، جبکہ تعلیمی پالیسیوں اور نصاب میں ان کی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ استاد، جو ایک وقت میں معاشرتی ترقی کا اہم ستون سمجھا جاتا تھا، اب ایک معمولی ملازم میں بدل دیا گیا ہے جو محض حکم بجا لانے والا بن چکا ہے۔ عالمی تعلیمی پالیسیوں کے تحت نجی تعلیمی اداروں کو زیادہ فروغ دیا جا رہا ہے، جہاں استاد کو معاشی طور پر اتنا کمزور رکھا جاتا ہے کہ وہ کسی آزاد تعلیمی سوچ کی طرف مائل نہ ہو سکے۔ دوسری طرف، سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے مسائل اور تنخواہوں کے معاملات کو نظرانداز کر کے انہیں تعلیمی نظام میں محض ایک روبوٹک کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
تعلیمی سائنس میں جدید غلامی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ تدریس کے سائنسی اصولوں کو یکطرفہ طور پر مغربی مفکرین اور تعلیمی ماہرین کی رائے کے تابع کر دیا گیا ہے۔ تعلیم کی ہر تھیوری کو مغربی دانشوروں کے حوالوں کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے، جبکہ مشرقی، اسلامی، اور دیگر روایتی تعلیمی فلسفوں کو یا تو نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر ان پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یوں، تعلیمی سائنس کو بھی ایک ایسی فکری غلامی کے ماتحت کر دیا گیا ہے جہاں صرف مخصوص دانشوروں اور اداروں کے نظریات کو علمی ترقی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔
اساتذہ کی آزادی پر جدید غلامی کے اثرات اس وقت مزید واضح ہو جاتے ہیں جب تعلیمی تحقیق کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور جامعات میں تحقیق کو مخصوص موضوعات تک محدود کر دیا جاتا ہے، اور وہ تمام تحقیقاتی منصوبے جو عالمی تعلیمی پالیسیوں سے متصادم ہوں، انہیں یا تو فنڈنگ نہیں دی جاتی یا پھر انہیں پسماندہ اور غیر سائنسی قرار دے کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور تعلیمی محققین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ انہی موضوعات پر تحقیق کریں جن سے سرمایہ دارانہ نظام کو فائدہ ہو یا پھر ایسی تحقیق کریں جو مغربی تعلیمی نظریات کو مزید تقویت دے۔ چنانچہ اساتذہ اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کے باوجود صرف مخصوص نظریاتی، سائنسی، اور فکری حدود میں رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور آزاد تحقیق کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے بھی تعلیمی شعبے میں جدید غلامی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز، ڈیجیٹل نصاب، اور ای-لرننگ کے ذریعے تعلیمی مواد کو اس انداز میں کنٹرول کیا جا رہا ہے کہ اساتذہ کے لیے نصاب میں تبدیلی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ تعلیمی نصاب، جو پہلے استاد کی صوابدید پر منحصر ہوتا تھا، اب اسے ڈیجیٹل نظام کے ذریعے پہلے سے طے شدہ فارمیٹ میں قید کر دیا گیا ہے، اور استاد محض ایک پریزنٹر بن کر رہ گیا ہے جو پہلے سے تیار شدہ مواد کو دہرانے پر مجبور ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف تدریسی عمل میں استاد کا کردار کمزور پڑ رہا ہے، بلکہ تعلیم کو ایک مخصوص فکری اور سائنسی سانچے میں قید کر کے طلبہ کی سوچ کو بھی محدود کیا جا رہا ہے۔
طلبہ کی ذہنی تشکیل میں استاد کا کردار کمزور کرنے کے لیے جدید غلامی کا ایک اور طریقہ کار یہ اپنایا گیا ہے کہ اساتذہ کے احترام کو رفتہ رفتہ ختم کیا جائے۔ میڈیا، فلموں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے اساتذہ کی اہمیت کو کم کر کے انہیں محض ایک سرکاری ملازم، ایک معمولی ٹیوشن ٹیچر، یا ایک روبوٹک تعلیمی کارکن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے نئی نسل کے دلوں میں اساتذہ کے لیے وہ احترام باقی نہیں رہا جو کبھی تعلیمی نظام کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔ جب استاد کا احترام کم ہو جائے، تو اس کی بات کی تاثیر بھی کم ہو جاتی ہے، اور نتیجتاً تعلیمی نظام کو اس طریقے سے کنٹرول کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس کے ذریعے کوئی بیداری یا فکری خودمختاری پیدا نہ ہو سکے۔
یہ تمام پہلو اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ تعلیمی شعبہ، جو کبھی آزادیِ فکر، شعوری بیداری، اور معاشرتی ترقی کا ضامن سمجھا جاتا تھا، آج جدید غلامی کے شکنجے میں بری طرح جکڑ چکا ہے۔ اساتذہ کی تعلیم، ان کی تربیت، نصاب کی تشکیل، تعلیمی سائنسی اصول، اور تدریسی آزادی کو منظم انداز میں یوں قابو میں رکھا جا رہا ہے کہ نہ استاد خودمختار رہے اور نہ ہی طلبہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں جو انہیں حقیقی معنوں میں آزاد فکر، خودمختاری، اور شعوری بیداری کی طرف لے جا سکے۔
جدید غلامی کے ان پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے تاریخی اور معاصر مثالیں پیش کرنا ضروری ہے تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ تعلیمی شعبے کو کس طرح ایک منظم سازش کے تحت فکری، نظریاتی اور عملی طور پر قابو میں رکھا گیا ہے۔ تعلیم جو ایک قوم کی ترقی، شعوری بیداری اور فکری آزادی کی بنیاد ہوا کرتی تھی، اسے رفتہ رفتہ ایک ایسے ڈھانچے میں ڈھالا گیا ہے جہاں استاد، طالبعلم، اور تعلیمی مواد سب کچھ مخصوص عالمی طاقتوں کے مفادات کے مطابق ڈھل چکا ہے۔
مثال کے طور پر، برطانوی استعمار کے دوران برصغیر میں لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی اس جدید غلامی کی ابتدائی شکل تھی، جس کا مقصد ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا تھا جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو مگر ذہنی طور پر انگریزوں کا غلام ہو۔ لارڈ میکالے نے ۱۸۳۵ میں اپنی مشہور تقریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہمیں ایسا تعلیمی نظام متعارف کروانا ہوگا جو ہندوستانیوں کو ان کی زبان، ثقافت اور تاریخ سے کاٹ کر انہیں مغربی افکار کا مکمل طور پر تابع بنا دے۔ اس پالیسی کے تحت روایتی مدارس، اسلامی درسگاہیں، اور دیسی علمی نظام کو کمتر ثابت کرکے انگریزی نصاب اور تعلیمی اداروں کو رائج کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ مقامی تعلیمی ورثہ معدوم ہوتا چلا گیا اور ایک ایسا تعلیمی طبقہ پروان چڑھا جو اپنے ہی تہذیبی، فکری اور نظریاتی ورثے سے کٹا ہوا تھا۔
اسی طرح، فرانز فینن (Frantz Fanon) اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں بتاتے ہیں کہ نوآبادیاتی طاقتیں تعلیم کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ مفتوح اقوام کو احساسِ کمتری میں مبتلا رکھا جا سکے۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ کس طرح استعمار زدہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں مقامی ثقافتوں کو پسماندہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے کر مغربی ثقافت کو اعلیٰ ثابت کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالبعلم اور اساتذہ خود اپنے علمی ورثے کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور مغربی علمی ماڈلز کو ہی معیار تسلیم کر لیتے ہیں۔
جدید دور میں بھی یہ سلسلہ مختلف انداز میں جاری ہے۔ یونیسکو اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے تعلیمی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ترقی پذیر ممالک کو تعلیمی اصلاحات کے نام پر مخصوص نصاب اور تدریسی ماڈلز اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو بظاہر جدید اور ترقی یافتہ نظر آتے ہیں، مگر درحقیقت ان کا مقصد ایک خاص نظریاتی ڈھانچے کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ Education Strategy ۲۰۲۰ میں واضح طور پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تعلیمی پالیسیوں کو عالمی معیشت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد علم کا فروغ نہیں بلکہ عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ایک خاص قسم کی افرادی قوت پیدا کرنا ہے۔
اساتذہ کی تربیت کے میدان میں بھی یہی رجحان نظر آتا ہے۔ فن لینڈ، امریکہ، اور برطانیہ جیسے ممالک میں اساتذہ کی تربیت کے لیے جو ماڈلز متعارف کروائے گئے ہیں، انہیں دنیا بھر میں ایک معیاری ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ مقامی تدریسی روایات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلامی دنیا میں روایتی تعلیم کا جو نظام صدیوں سے قائم تھا، جہاں استاد اور شاگرد کا ایک گہرا علمی تعلق ہوتا تھا، اسے جدید تعلیمی پالیسیوں کے تحت ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ مغربی ماڈلز متعارف کروا دیے گئے۔
اساتذہ کی معاشی حیثیت کو کمزور کرنے کی مثالیں بھی بے شمار ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں اساتذہ کو انتہائی کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، جبکہ تعلیمی پالیسی سازی میں ان کی رائے کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ Global Education Monitoring Report ۲۰۱۷ میں بتایا گیا کہ دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں اساتذہ کو زندہ رہنے کے لیے اضافی کام کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے تدریسی فرائض کو موثر انداز میں ادا نہیں کر پاتے۔ یہی صورتحال جدید غلامی کی نشانی ہے، جہاں استاد کو ایک ایسا معمولی ملازم بنا دیا گیا ہے جس کا کام محض دیے گئے نصاب کو دہرانا ہے، نہ کہ علم کی حقیقی روشنی پھیلانا۔
تعلیمی سائنس کے میدان میں بھی جدید غلامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی مفکرین کے علاوہ کسی بھی نظریے کو سائنسی اہمیت دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلامی تعلیمی فلسفہ جسے امام غزالی، ابن خلدون، اور ملا صدرا جیسے مفکرین نے پیش کیا تھا، اسے جدید تدریسی اصولوں میں شاذ و نادر ہی شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جان ڈیوی (John Dewey) ، پیاجے (Piaget) ، اور واٹسکی (Vygotsky) جیسے ماہرین تعلیم کے نظریات کو عالمی معیار کا درجہ دے کر نصاب کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس طرح تعلیمی سائنسی اصولوں کو ایک خاص مغربی زاویے تک محدود کر دیا گیا ہے، جس کے باعث اساتذہ کو انہی نظریات کے تحت تدریس کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ ان کے مقامی تعلیمی تناظر سے ہم آہنگ ہوں یا نہ ہوں۔
تحقیقی آزادی پر قدغن کی مثالیں بھی مختلف ممالک میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی بیشتر جامعات میں مشرقی، اسلامی، یا روایتی تعلیمی ماڈلز پر تحقیق کے مواقع بہت کم دیے جاتے ہیں۔ وہ تحقیقی مقالے جو سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کرتے ہیں، یا کسی متبادل تعلیمی ماڈل کی حمایت کرتے ہیں، انہیں یا تو مسترد کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کے مصنفین کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوم چومسکی (Noam Chomsky) اور ایوان ایلیچ (Ivan Illich) جیسے ماہرین تعلیم نے اس بات کی بارہا نشاندہی کی ہے کہ جدید تعلیمی نظام کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ طلبہ کو حقیقی سوچ اور تنقیدی تجزیے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے، اور انہیں ایک خاص قسم کی ذہنیت میں قید کر دیتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کی محافظ ہو۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیمی کنٹرول کی ایک بڑی مثال آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز ہیں۔ گوگل، مائیکروسافٹ، اور ایپل جیسی کمپنیاں ڈیجیٹل تعلیمی مواد پر اپنا مکمل کنٹرول رکھتی ہیں، اور ان کے پلیٹ فارمز پر جو تعلیمی نصاب دستیاب ہوتا ہے، وہ مکمل طور پر مغربی تعلیمی ماڈلز کے مطابق ہوتا ہے۔ اسلامی یا مشرقی تعلیمی فلسفوں پر مشتمل نصاب یا تو بہت محدود ہے یا پھر اسے عالمی معیار پر پورا نہ اترنے کا بہانہ بنا کر رد کر دیا جاتا ہے۔
اساتذہ کی عزت اور مقام کو کم کرنے کے لیے میڈیا بھی ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں، ڈراموں، اور میڈیا رپورٹس میں استاد کو یا تو ایک مزاحیہ کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یا پھر ایک ایسے شخص کے طور پر دکھایا جاتا ہے جو طلبہ پر سختی کرتا ہے اور نئے تعلیمی رجحانات سے ناواقف ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نئی نسل میں استاد کا وہ وقار باقی نہیں رہا جو ماضی میں ہوتا تھا، اور جب استاد کا احترام ختم ہو جائے تو تعلیمی نظام کو ایک مخصوص سمت میں لے جانا مزید آسان ہو جاتا ہے۔
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ تعلیم، جو کسی بھی قوم کی فکری، ثقافتی، اور نظریاتی آزادی کی ضامن ہوا کرتی تھی، آج ایک پیچیدہ مگر مکمل طور پر کنٹرولڈ نظام میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں اساتذہ، طلبہ، اور تعلیمی سائنسی اصول سب کچھ جدید غلامی کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے۔
علمیات، سائنس و ٹیکنالوجی، اور ادبیات کا شعبہ
علمیات، سائنس و ٹیکنالوجی، اور ادبیات کے شعبے میں جدید غلامی ایک گہرے اور وسیع نظام کے تحت پروان چڑھتی ہے، جہاں علمی پیداوار، سائنسی ایجادات، اور ادبی اظہار کو اس نہج پر ڈھال دیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص طاقتوں کے نظریاتی اور عملی تسلط کے تابع ہو جائیں۔ اس غلامی کا سب سے زیادہ اثر انسانی سوچ، تحقیق، اور علم کے ان ذرائع پر پڑتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے فکری اور سائنسی تشخص کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم کے افراد اپنی تاریخ، زبان، اور علمی ورثے سے کٹ جاتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ بیرونی نظریات اور ماڈلز کے محتاج بن جاتے ہیں، تو وہ علمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔
علمیات کے شعبے میں جدید غلامی کی سب سے بڑی شکل یہ ہے کہ علم کے معیارات، تحقیق کے اصول، اور سچائی کے پیمانے ایسے ادارے اور افراد طے کرتے ہیں جو استعماری طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ مغربی جامعات اور تحقیقاتی ادارے دنیا کے فکری منظرنامے پر اس حد تک غالب ہو چکے ہیں کہ ہر نئی تحقیق، ہر سائنسی دریافت، اور ہر فکری پیش رفت کو انہی کے مقرر کردہ معیارات پر پرکھا جاتا ہے۔ کسی بھی نظریے یا فکر کو اسی وقت تسلیم کیا جاتا ہے جب وہ ان اداروں کی توثیق حاصل کرے، خواہ وہ حقیقت میں کتنا ہی اہم اور نتیجہ خیز کیوں نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے محققین اور دانشور اپنی علمی کاوشوں کو انہی معیارات کے تابع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اپنی ضروریات، اپنی تہذیب، اور اپنی تاریخ کی روشنی میں علم و تحقیق کے نئے زاویے پیدا کریں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید غلامی کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ علمی اور سائنسی ترقی کے تمام وسائل چند مخصوص ممالک اور اداروں کی اجارہ داری میں آ گئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے سائنسی اذہان کو یا تو مغرب میں کھپایا جاتا ہے، یا پھر انہیں اس نہج پر ڈھالا جاتا ہے کہ وہ خود اپنے ملک میں کوئی بنیادی تبدیلی یا ترقی پیدا کرنے کے بجائے مغربی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون بن جائیں۔ تحقیق و ترقی کے شعبے میں جدید نوآبادیاتی قوتوں کا کنٹرول اس حد تک ہے کہ نئی ایجادات اور سائنسی ترقیات کا رخ ہمیشہ ان کے مفادات کے مطابق متعین کیا جاتا ہے۔ جو سائنسی تحقیق عالمی اقتصادی اور سیاسی قوتوں کے ایجنڈے کے خلاف جاتی ہے، اسے یا تو نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا پھر اس کے ذرائع مسدود کر دیے جاتے ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدید غلامی کی ایک اور شکل مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، اور ڈیجیٹل ورلڈ پر تسلط کے ذریعے سامنے آتی ہے۔ ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک نے ایسا نظام قائم کر لیا ہے جہاں دنیا بھر کے عوام کی معلومات، خیالات، اور رجحانات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ سماجی میڈیا پلیٹ فارمز، سرچ انجنز، اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے یہ ممکن بنا دیا گیا ہے کہ لوگ کسی بھی معاملے پر وہی سوچ اپنائیں جو پہلے سے ان کے ذہن میں متعین کر دی گئی ہو۔ یہ ٹیکنالوجی محض معلومات تک رسائی کا ذریعہ نہیں بلکہ ذہنی ساخت کو کنٹرول کرنے کا ایک آلہ بن چکی ہے، جہاں لوگوں کے خیالات اور علمی ترجیحات کو ایک مخصوص سمت میں موڑا جاتا ہے۔
ادبیات کے میدان میں جدید غلامی کی ایک بڑی شکل زبان اور ادبی اظہار پر مسلط کی جانے والی اجارہ داری ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی فکری اور تہذیبی شناخت کی سب سے بنیادی اکائی ہوتی ہے، لیکن جدید نوآبادیاتی نظام نے دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کی اپنی زبانوں کو پسِ پشت ڈال کر انہیں مغربی زبانوں کے تابع بنا دیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے ادبی اور علمی حلقے اپنی زبان میں لکھنے کے بجائے انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں لکھنے پر مجبور کیے جاتے ہیں تاکہ وہ عالمی سطح پر قبولیت حاصل کر سکیں۔ نتیجتاً، ان کی تحریریں اپنے معاشرتی و تہذیبی پس منظر سے کٹ کر محض مغربی معیارات پر پوری اترنے کے لیے لکھی جاتی ہیں، جس سے نہ صرف فکری غلامی کو فروغ ملتا ہے بلکہ ایک نئی ادبی نواستعماری شکل بھی وجود میں آتی ہے۔
ادبیات کی دنیا میں جدید غلامی کی ایک اور شکل یہ ہے کہ ادب کو محض تفریح اور تخلیقی اظہار کے ایک ایسے ذریعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو افراد کو ان کے حقیقی سماجی اور فکری مسائل سے دور رکھے۔ عالمی سطح پر وہی ادبی کام مقبولیت حاصل کر پاتے ہیں جو یا تو مغربی بیانیے کی تائید کرتے ہیں یا پھر ایسے موضوعات کو نمایاں کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سامراجی قوتوں کے ایجنڈے کے حق میں جاتے ہیں۔ ایسے ادب کو زیادہ پذیرائی دی جاتی ہے جو جدیدیت، فردیت، اور روایتی اقدار کی مخالفت کو فروغ دے۔ اس کے برعکس، وہ ادبی تحریریں جو استعماری طاقتوں کے خلاف شعور بیدار کرتی ہیں، یا جو اپنی تہذیب و ثقافت کے احیاء پر زور دیتی ہیں، انہیں یا تو محدود کر دیا جاتا ہے یا پھر انہیں دقیانوسی اور غیر ترقی یافتہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
سائنس، علمیات، اور ادبیات میں جدید غلامی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ تحقیق اور سائنسی ترقی کے وسائل کو محدود کر کے ترقی پذیر ممالک کو ہمیشہ ایک ایسے مقام پر رکھا جاتا ہے جہاں وہ انحصار کی کیفیت میں رہیں۔ اعلیٰ تعلیم، تحقیقاتی سہولیات، اور سائنسی تجربات کے زیادہ تر مواقع صرف ترقی یافتہ ممالک کے اداروں میں دستیاب ہوتے ہیں، اور اگر کوئی ترقی پذیر ملک اپنی سائنسی اور تحقیقی صلاحیتوں کو آزاد کرنے کی کوشش کرے تو اسے مختلف اقتصادی اور سیاسی حربوں کے ذریعے روک دیا جاتا ہے۔
جدید غلامی کے اثرات کو علمی، سائنسی اور ادبی سطح پر بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کچھ تاریخی اور معاصر مثالوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ علمیات کے میدان میں اس کا ایک نمایاں مظہر وہ علمی ڈھانچہ ہے جو استعماری طاقتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ترتیب دیا۔ ایک مثال برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں تعلیمی نظام کی تبدیلی ہے۔ لارڈ میکالے کی ۱۸۳۵ کی منٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ برطانوی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان میں ایسا تعلیمی نظام نافذ کیا جائے جو مقامی افراد کو انگریزی سوچ، اقدار اور نظریات کے تابع کر دے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ روایتی ہندوستانی علوم، جن میں فقہ، فلسفہ، اور دیگر علوم شامل تھے، آہستہ آہستہ پس منظر میں چلے گئے اور مغربی معیار کو ہی اعلیٰ علمی معیار سمجھا جانے لگا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں جدید غلامی کا ایک اور مظہر ترقی پذیر ممالک کے سائنسی اذہان کو مغرب میں ضم کرنے کی پالیسی ہے۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں ایران کے معروف سائنسدان ڈاکٹر مصطفی چمران نے اپنی تعلیم امریکہ میں مکمل کی اور جدید سائنس میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایران واپس آئے تاکہ سائنسی ترقی کو ملکی خودمختاری کے لیے استعمال کر سکیں۔ تاہم، مغربی نظام تعلیم میں جو افراد تربیت پاتے ہیں، ان میں سے اکثر کو اس نہج پر ڈھال دیا جاتا ہے کہ وہ واپس جا کر اپنے ملک میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کرنے کے بجائے مغرب کے سائنسی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے اکثر ہونہار سائنسدان مغربی تحقیقی اداروں کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہاں کی علمی پیداوار کو مضبوط کرتے ہیں، جبکہ ان کے اپنے ممالک سائنسی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید غلامی کا ایک اور واضح مظہر ڈیٹا کے ذریعے ذہنی ساخت پر قابو پانے کی حکمت عملی ہے۔ ۲۰۱۸ میں کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل نے یہ ظاہر کیا کہ کیسے ڈیٹا مائننگ کے ذریعے عوام کے خیالات کو مخصوص سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، سرچ انجنز، اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے لوگوں کے لیے وہی معلومات نمایاں کی جاتی ہیں جو استعماری اور سامراجی قوتوں کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اس کا ایک اور مظہر فیس بک اور گوگل کے الگورتھمز ہیں جو مخصوص موضوعات اور نظریات کو بڑھاوا دیتے ہیں جبکہ وہ خیالات جو عالمی طاقتوں کے بیانیے کے خلاف ہوں، ان کی رسائی کو محدود کر دیا جاتا ہے۔
ادبیات کے میدان میں جدید غلامی کی ایک مثال نوبل انعام یافتہ ادیب نغوگی وا تھیونگو کی تحریریں ہیں، جنہوں نے کینیا کی زبان کیکویو میں لکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن انہیں شدید دباؤ اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے افریقی معاشرے کی ثقافتی شناخت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی زبان میں لکھنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ عالمی ادبیات پر مغربی زبانوں کی اجارہ داری قائم ہے، اس لیے ان کے کام کو ابتدا میں زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ دوسری جانب، وہ افریقی ادیب جو انگریزی یا فرانسیسی میں لکھتے ہیں، انہیں زیادہ قبولیت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ ان کی تحریریں مغربی ادبی معیارات کے مطابق ہوتی ہیں۔
ادبی بیانیے کے تسلط کی ایک اور مثال مشرق وسطیٰ سے متعلق ان تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے جنہیں عالمی سطح پر پذیرائی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایرانی نژاد فرانسیسی مصنفہ مرجانے ساتراپی کی کتاب "Persepolis" کو مغربی میڈیا میں کافی پذیرائی ملی کیونکہ اس میں ایرانی انقلاب کو ایک منفی روشنی میں دکھایا گیا تھا۔ اس کے برعکس، اگر کوئی ایسی کتاب لکھی جائے جو استعماری قوتوں کے خلاف ہو یا مشرقی تہذیب کے احیاء پر زور دے، تو اسے یا تو دبایا جاتا ہے یا پھر اس کی تشہیر محدود کر دی جاتی ہے۔
جدید غلامی کے ان پہلوؤں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو علمی، سائنسی اور ادبی سطح پر ایک ایسے فکری نظام کی ضرورت ہے جو ان کے اپنے ثقافتی، معاشرتی اور سائنسی تشخص پر مبنی ہو۔ جب تک ان ممالک کے اہل علم، سائنسدان، اور ادیب اپنی پیداوار کو مغربی معیارات کے تابع رکھیں گے، تب تک وہ علمی، سائنسی اور ادبی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ مقامی زبانوں، نظریات، اور سائنسی ضروریات کو بنیاد بنا کر ایک آزاد علمی اور تحقیقی نظام قائم کیا جائے جو بیرونی طاقتوں کے اثر سے محفوظ ہو۔
اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ علمیات، سائنس، اور ادبیات کو استعماری تسلط سے آزاد کر کے ایک خودمختار فکری و سائنسی نظام قائم کیا جائے۔ اپنی زبانوں میں تحقیق اور علمی پیداوار کو فروغ دیا جائے، سائنسی ترقی کو اپنے مقامی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جائے، اور ادبی اظہار کو ایسی سمت میں موڑا جائے جو سماجی بیداری، تہذیبی شناخت، اور فکری آزادی کو مستحکم کرے۔ جب تک ترقی پذیر اقوام اپنی علمی، سائنسی، اور ادبی پیداوار کو بیرونی طاقتوں کے تابع رکھیں گی، وہ نہ صرف غلامی کا شکار رہیں گی بلکہ اپنی حقیقی ترقی اور بقا کے امکانات بھی کھو دیں گی۔
سماجیات کا شعبہ
سماجیات کے شعبے میں جدید غلامی ایک پیچیدہ اور گہرا نظام ہے جو افراد، خاندانوں، اور معاشرتی ڈھانچے کو اس نہج پر لے آتا ہے کہ وہ بظاہر آزاد ہوں لیکن درحقیقت ان کی سوچ، طرزِ زندگی، اقدار، اور تعلقات بیرونی اثر و رسوخ کے تابع ہو جائیں۔ یہ غلامی جدید ذرائع، جیسے تعلیم، میڈیا، ٹیکنالوجی، اور معاشرتی اداروں کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے تاکہ افراد اور اقوام اپنے فیصلے خود کرنے کے بجائے غیر محسوس طریقے سے ایک خاص سمت میں چلنے پر مجبور ہو جائیں۔
سماجی غلامی کا سب سے پہلا وار خاندانی نظام پر کیا جاتا ہے، کیونکہ خاندانی اقدار اور روایات ہی وہ بنیادی عناصر ہیں جو کسی بھی قوم کے نظریات، ثقافت، اور بقا کی ضمانت ہوتے ہیں۔ جدید سماجی غلامی میں خاندان کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کر کے اسے ایسے ماڈلز میں ڈھالا جاتا ہے جو مغربی استعمار کے لیے زیادہ موزوں ہوں۔ خاندانی رشتے، والدین اور بچوں کے تعلقات، ازدواجی زندگی، اور باہمی حقوق و فرائض کے وہ تمام اصول جو ایک مستحکم معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں، انہیں آہستہ آہستہ ختم کر کے فرد کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ پیدا کر کے نسل در نسل چلنے والے دینی اور اخلاقی ورثے کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات کو آزادی اور مساوات کے نام پر اس طرح بگاڑا جاتا ہے کہ خاندانی نظام کمزور ہو کر انتشار کا شکار ہو جائے۔
معاشرتی غلامی کا ایک اور بڑا پہلو تعلیم کے ذریعے افراد کی ذہن سازی ہے۔ تعلیمی نظام کو اس انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ افراد کو آزاد سوچ کے بجائے ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دے۔ نصاب میں ایسے تصورات داخل کیے جاتے ہیں جو مقامی ثقافت، دین، اور اقدار کے بجائے مغربی نظریات کو فروغ دیں۔ طلبہ کو اپنی تاریخ، تہذیب، اور علمی ورثے سے دور کر کے انہیں ایک ایسی دنیا کی طرف مائل کیا جاتا ہے جہاں ان کے لیے صرف وہی راستہ کھلا ہو جو استعماری طاقتوں نے متعین کیا ہے۔ تعلیمی نظام کا مقصد شعور بیدار کرنے کے بجائے ایسے افراد تیار کرنا بن جاتا ہے جو موجودہ عالمی نظام کے لیے خاموشی سے کام کرتے رہیں اور اس پر سوال نہ اٹھائیں۔
سماج میں جدید غلامی کا ایک اہم ذریعہ زبان اور ثقافتی اظہار پر تسلط ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی شناخت کا بنیادی عنصر ہوتی ہے، اور جب کسی قوم کی زبان کو پسِ پشت ڈال کر اسے کسی غیر زبان میں سوچنے اور اظہار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو درحقیقت اس کے ذہن کو غلام بنا دیا جاتا ہے۔ آج کئی اقوام اپنی زبان کو فراموش کر کے ایسی زبانوں کو اختیار کر رہی ہیں جو استعماری طاقتوں کی غلامی کو فروغ دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک عام فرد نہ صرف اپنی تہذیب سے کٹ جاتا ہے بلکہ اس کے خیالات، طرزِ بیان، اور معاشرتی تعلقات بھی غیر محسوس طریقے سے ایک ایسی دنیا میں ڈھلنے لگتے ہیں جو اس کے اپنے مفادات کے بجائے استعماری طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہے۔
سماج میں غلامی کا ایک اور پہلو ذہنی اور نفسیاتی غلامی ہے، جہاں انسانوں کے شعور کو اس طرح قابو میں کر لیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی، خوشی، اور کامیابی کے معیار ان ہی طاقتوں کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق بنا لیں جو درحقیقت انہیں غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا، فلمیں، ڈرامے، اور تفریحی مواد کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ افراد کو اس بات پر قائل کر دیا جاتا ہے کہ ترقی، کامیابی، اور خوشحالی کے وہی پیمانے ہیں جو مغربی دنیا نے متعین کیے ہیں، اور جو بھی ان سے ہٹ کر سوچے گا وہ پسماندہ، قدامت پسند، یا ترقی مخالف کہلائے گا۔
سماج میں جدید غلامی کی ایک اور شکل خیرات اور امداد کے نام پر محتاجی کو فروغ دینا ہے۔ مغربی ممالک اور بین الاقوامی ادارے اکثر ترقی پذیر ممالک میں فلاحی منصوبے، این جی اوز، اور امدادی پروگرامز کے ذریعے عوام میں ایک ایسی نفسیات پیدا کر دیتے ہیں جہاں وہ خود کفالت کے بجائے دوسروں کی مدد کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ ان منصوبوں کا اصل مقصد انسانی ہمدردی نہیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کو حکومتی پالیسیوں اور خودمختاری کے سوالات سے دور رکھا جائے، اور انہیں امداد کی ایسی زنجیر میں باندھ دیا جائے جو انہیں ہمیشہ ان طاقتوں کا تابع رکھے۔
لباس، طرزِ زندگی، اور سماجی روایات میں بھی غلامی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ فیشن انڈسٹری اور میڈیا کے ذریعے ایک خاص قسم کا لباس اور طرزِ زندگی رائج کیا جاتا ہے جو مقامی اقدار سے متصادم ہوتا ہے لیکن ترقی، ماڈرن ازم، اور آزادی کے نام پر اسے لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ افراد کو ان کے روایتی لباس اور طرزِ زندگی سے متنفر کر کے انہیں ایک ایسے کلچر میں دھکیلا جاتا ہے جو نہ صرف ان کے لیے غیر فطری ہوتا ہے بلکہ ان کی پہچان اور انفرادیت کو بھی ختم کر دیتا ہے۔
سماج میں غلامی کو مستحکم رکھنے کے لیے روایتی قیادت اور مذہبی اثر و رسوخ کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ علمائے کرام، دانشور، اور سماجی رہنما جو معاشرتی اقدار کی حفاظت کرتے ہیں، انہیں یا تو بدنام کیا جاتا ہے، یا انہیں ایسے متنازع معاملات میں الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اصل ذمہ داریوں کو پورا نہ کر سکیں۔ اس کے برعکس، ایسے مصنوعی دانشور اور رہنما پیدا کیے جاتے ہیں جو استعماری طاقتوں کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں۔
سماجیات کے شعبے میں جدید غلامی کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ افراد کو اس حد تک بے حس کر دیا جاتا ہے کہ وہ خود غلامی کو ایک فطری اور ناگزیر حقیقت سمجھنے لگیں۔ جب ایک معاشرہ غلامی کو محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے تو وہ خود اس کے خلاف مزاحمت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔
جدید سماجی غلامی کے کئی پہلو عملی مثالوں کے ذریعے واضح کیے جا سکتے ہیں۔ خاندانی نظام کو کمزور کرنے کے حوالے سے مغربی معاشروں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، شادی کے ادارے کی کمزوری، اور والدین و بچوں کے درمیان فاصلے کی حوصلہ افزائی ایک نمایاں مثال ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ایسے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں جو والدین کے اختیار کو محدود کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض ممالک میں بچوں کو اپنے والدین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق بھی حاصل ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس، اسلام میں والدین کی اطاعت اور ان کے حقوق کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
الإمامُ عليٌّ عليه السلام : حَقُّ الوَلَدِ علَى الوالِدِ أن يُحَسِّنَ اسمَهُ ، و يُحَسِّنَ أدَبَهُ ، و يُعَلِّمَهُ القرآنَ .حديث
" اولاد کا باپ پر حق ہے کہ اسے اچھا نام دے، اسے ادب سکھائے اور قرآن کی تعلیم دے " (نہج البلاغہ، حکمت ۳۹۹)۔
جب خاندانی تربیت کمزور پڑ جائے تو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونے والی دینی اور اخلاقی اقدار بھی ختم ہو جاتی ہیں، اور یہی جدید سماجی غلامی کا اصل ہدف ہوتا ہے۔
تعلیمی نظام میں غلامی کے اثرات کو سمجھنے کے لیے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی تعلیمی پالیسیوں کو دیکھنا کافی ہوگا۔ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران لارڈ میکالے نے ایسا تعلیمی نظام رائج کیا جس کا مقصد مقامی افراد کو انگریزی تہذیب کا دلدادہ بنانا تھا۔ آج بھی، پاکستان، ہندوستان، اور کئی دیگر ممالک کے تعلیمی نصاب میں مغربی نظریات اور تاریخ کو فوقیت دی جاتی ہے، جب کہ اسلامی تاریخ اور مقامی ثقافت کو پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے :
العلمُ النافعُ هو ما يُعَرِّفُ الإنسانَ بِخالِقِهِ وَدِينِهِ وَحَقيقتِهِ.
" علم وہی مفید ہے جو انسان کو اس کے خالق، دین اور حقیقت کی پہچان دے " (بحار الانوار، جلد ۱، صفحہ ۲۱۴)۔
لیکن جدید تعلیمی نظام میں طلبہ کو اپنی تاریخ، تہذیب، اور علمی ورثے سے دور کر کے مغربی فکری غلامی کی زنجیر میں جکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
زبان اور ثقافت پر تسلط کی مثال کے طور پر الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے دور کو دیکھا جا سکتا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے عربی زبان پر پابندی عائد کر دی اور تعلیمی اداروں میں صرف فرانسیسی زبان رائج کی گئی تاکہ مقامی افراد کو ان کی تہذیب سے کاٹ کر فرانسیسی طرزِ فکر میں ڈھالا جا سکے۔ ق
رآن میں ارشاد ہے :
" ي َا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا"
اور ہم نے تمہیں قبیلوں اور قوموں میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو " (الحجرات: ۱۳)،
لیکن جب کسی قوم کی زبان اور ثقافت کو بدل دیا جاتا ہے تو اس کی شناخت ختم ہو جاتی ہے، اور وہ فکری طور پر غلام بن جاتی ہے۔
ذہنی اور نفسیاتی غلامی کی ایک مثال میڈیا اور تفریحی صنعت کے ذریعے دی جا سکتی ہے۔ ہالی وڈ اور مغربی میڈیا اسلامی اقدار کے برخلاف آزادی، فحاشی، اور الحاد کو ترقی یافتہ زندگی کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک عام نوجوان جب روزانہ ایسے مواد کو دیکھتا ہے تو اس کے نظریات، ترجیحات، اور طرزِ زندگی غیر محسوس طریقے سے تبدیل ہو جاتے ہیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام دعا کرتے ہیں :
" ا َللّٰهُمَّ احْرُسْنِي بِعَيْنِكَ الَّتِيْ لَا تَنَامُ، عَنْ مَكْرِ مَنْ جَعَلَ زَيْنَةَ الدُّنْيَا لِي فِتْنَةً.
اے اللہ! مجھے ان کے مکر و فریب سے بچا جنہوں نے دنیا کی زینت کو میرے لیے فتنہ بنایا " (صحیفہ سجادیہ، دعا نمبر ۲۰)۔
جب انسان ترقی اور خوشحالی کے وہی پیمانے قبول کر لیتا ہے جو مغرب نے متعین کیے ہیں، تو وہ بغیر کسی دباؤ کے خود کو ان کے مطابق ڈھالنے لگتا ہے، جو جدید غلامی کی سب سے مؤثر شکل ہے۔
خیرات اور امداد کے نام پر غلامی کا فروغ کئی افریقی اور ایشیائی ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز اور فلاحی منصوبے متعارف کرواتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا مقصد خودمختاری کے بجائے محتاجی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کے ذریعے کمزور ممالک کو اپنی پالیسیاں ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے :
" و َاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
اور اللہ نے تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے، لیکن جو لوگ زیادہ دیے جانے کے بعد بھی دوسروں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی اصل میں ظالم ہیں " (النحل: ۷۱)۔
اس استحصالی نظام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اقوام کبھی خودکفیل نہ ہوں، بلکہ ہمیشہ کسی نہ کسی طاقت کے زیرِ اثر رہیں۔
لباس اور طرزِ زندگی کی تبدیلی بھی غلامی کی ایک اہم شکل ہے۔ سعودی عرب، ترکی، اور دیگر مسلم ممالک میں مغربی فیشن انڈسٹری نے ایسا اثر ڈالا کہ روایتی اسلامی لباس کو دقیانوسی اور غیر مہذب قرار دیا جانے لگا۔ مسلمان خواتین پر حجاب اور عبایہ ترک کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، جب کہ مغربی لباس کو آزادی اور جدت کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے :
" ي َا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کریں، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے " (الاحزاب: ۵۹)۔
جب لباس تک پر غلامی مسلط کر دی جائے تو پھر پوری ثقافت مغربی اثرات کے تابع ہو جاتی ہے۔
روایتی قیادت اور مذہبی اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کے لیے مسلم دنیا میں کئی سازشیں رچی گئی ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے قبل رضا شاہ پہلوی نے علما کو کمزور کرنے کے لیے مغربی ایجنڈا نافذ کیا۔ پاکستان میں اسلامی نظریات کی حامل شخصیات کو متنازع بنا کر عوام سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں : "
اگر علمائے دین کو بے اثر کر دیا جائے تو معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جائے گا " ۔
یہی وجہ ہے کہ میڈیا اور استعماری قوتیں ان شخصیات کو بدنام کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں، تاکہ اسلامی بیداری کی کوئی لہر نہ اٹھ سکے۔
جب غلامی کو فطری بنا دیا جائے تو معاشرہ خود اسے قبول کرنے لگتا ہے۔ آج کئی مسلمان مغربی طرزِ زندگی کو ایک لازمی حقیقت سمجھتے ہیں، اور جو کوئی اس پر اعتراض کرے، اسے دقیانوسی قرار دیا جاتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے :
" و َإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ ۔۔۔ "
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں " (البقرہ: ۱۷۰)۔
جدید سماجی غلامی کا سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ افراد خود اس غلامی کو خوشی خوشی قبول کر لیں، اور پھر کوئی اسے ختم کرنے کے بارے میں نہ سوچے۔ جب تک شعور بیدار نہیں ہوگا، غلامی برقرار رہے گی۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ اپنی شناخت، دینی اقدار، اور تہذیبی ورثے کو زندہ کیا جائے، تاکہ امت مسلمہ اپنی اصل حیثیت میں واپس آ سکے۔
اس غلامی سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ افراد میں شعور پیدا کیا جائے، اپنی شناخت، زبان، ثقافت، اور مذہبی اقدار کو دوبارہ زندہ کیا جائے، اور ہر اس طریقے کو بے نقاب کیا جائے جس کے ذریعے سماج کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ جب تک یہ شعور بیدار نہیں ہوگا، جدید غلامی کا شکنجہ مزید مضبوط ہوتا جائے گا، اور اقوام بظاہر آزاد ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی۔
عمرانیات اور بشریات کا شعبہ
عمرانیات اور بشریات کے شعبے میں جدید غلامی ایک انتہائی پیچیدہ اور گہرے نظام کی شکل میں کام کر رہی ہے، جس کے ذریعے انسانی معاشروں کی تشکیل، ان کے خیالات، رسم و رواج، اور طرزِ حیات کو اس انداز میں ڈھالا جا رہا ہے کہ وہ غیر محسوس طریقے سے طاقتور استحصالی قوتوں کے تابع ہو جائیں۔ یہ غلامی روایتی زنجیروں اور قیدخانوں کی محتاج نہیں بلکہ یہ فکری، نفسیاتی، تہذیبی اور ثقافتی جال کے ذریعے فرد اور معاشرے کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالتی ہے جہاں وہ اپنی آزادی کا شعور کھو بیٹھے اور ایک مخصوص ڈھانچے میں خود کو باآسانی ایڈجسٹ کرنے لگے۔
معاشرتی سطح پر جدید غلامی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب معاشرے کے اجتماعی شعور کو مخصوص نظریات کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ عمرانیات میں اس غلامی کی بنیاد نظریاتی استبداد پر رکھی گئی ہے، جہاں سماجی ادارے، بشمول تعلیمی نظام، مذہبی تنظیمیں، خاندانی ڈھانچے، اور کمیونٹی کے اثر و رسوخ کو اس انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کو ایک مخصوص سمت میں چلانے کا کام کریں۔ یہ عمل زیادہ تر طاقتور استحصالی قوتوں کے ذریعے جدید ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، اور ماہرینِ سماجیات کے نام نہاد تحقیقی کاموں کے تحت انجام دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے وہ ایک خاص قسم کا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جو افراد کی سوچ کو غلامی کے قریب لے جاتا ہے۔
بشریات کے میدان میں جدید غلامی کے اثرات سب سے زیادہ واضح اس وقت نظر آتے ہیں جب دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والی اقوام اور ان کے ثقافتی و سماجی رویوں کو مصنوعی انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مخصوص عالمی طاقتیں ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کو "مہذب" بنانے کے نام پر ان کی زبان، لباس، روایات، اور خاندانی ڈھانچے کو ایک مخصوص شکل میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ ان کی منفرد شناخت ختم ہو جائے اور وہ استعماری نظام میں ضم ہو جائیں۔ اس کا سب سے بڑا ہتھیار ثقافتی امپیریلزم ہے، جس کے ذریعے مغربی اور نوآبادیاتی تہذیبوں کو برتر اور ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ مقامی
ثقافتوں اور روایات کو پسماندہ، غیر ترقی یافتہ، اور ناقابلِ عمل قرار دیا جاتا ہے۔
معاشرتی علوم میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ افراد کو سماجی رشتوں اور باہمی تعلقات میں اس طرح الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اصل طاقت سے ناواقف رہیں۔ اجتماعی معاشرتی تحریکوں کو غیر موثر بنانے کے لیے ایسے سماجی رویے اور نظریات فروغ دیے جاتے ہیں جو فرد کو انفرادیت پسندی اور خود غرضی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگ اجتماعیت کی قوت سے محروم ہو کر محض ذاتی مفادات کے دائرے میں قید ہو جاتے ہیں اور یوں سماجی ڈھانچے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے افراد کو ایسی مصنوعی سماجی زندگی فراہم کی جاتی ہے جو انہیں حقیقی سماجی تعلقات سے کاٹ کر تنہائی، خود غرضی اور بے حسی کی طرف دھکیل دیتی ہے، جس سے معاشرتی یکجہتی کمزور ہو جاتی ہے اور افراد غیر محسوس انداز میں ایک مخصوص طاقت کے تابع ہو جاتے ہیں۔
بشریاتی سطح پر جدید غلامی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات اور فطری جبلتوں کو اس انداز میں قابو میں رکھا جاتا ہے کہ وہ مخصوص تجارتی اور سیاسی نظاموں کے لیے سودمند ثابت ہو۔ یہ غلامی خوراک، رہائش، صحت، اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں میں نظر آتی ہے، جہاں انسان کی ضروریات کو ایک ایسے دائرے میں محصور کر دیا جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی استحصالی قوت کا محتاج رہے۔ لوگوں کو ان کے روایتی رہن سہن، مقامی وسائل، اور خود انحصاری کے اصولوں سے ہٹا کر ایک ایسے نظام کا عادی بنایا جاتا ہے جہاں وہ ہر چیز کے لیے عالمی مارکیٹ اور بڑی کارپوریشنز کے محتاج بن جائیں۔ نتیجتاً، ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جہاں افراد اور اقوام خود کفالت کے بجائے ایک ایسے اقتصادی اور معاشرتی نظام میں پھنستے چلے جاتے ہیں جو انہیں مکمل غلامی میں دھکیل دیتا ہے۔
عمرانیات اور بشریات میں جدید غلامی کی ایک اور صورت یہ ہے کہ اخلاقیات، اقدار، اور انسانی فطرت کے بنیادی اصولوں کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی نظریاتی تحریکیں متعارف کروائی جاتی ہیں جو صدیوں پر محیط اخلاقی و سماجی اصولوں کو بے معنی بنا کر افراد کو ایک ایسے مخمصے میں ڈال دیتی ہیں جہاں وہ اپنے روایتی سماجی اصولوں کو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ خاندانی نظام، صنفی تعلقات، والدین کی حیثیت، اور سماجی نظم و ضبط جیسے بنیادی اصولوں کو بتدریج کمزور کیا جاتا ہے، تاکہ معاشرے میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جائے جہاں لوگ اپنی اجتماعی شناخت کھو بیٹھیں اور ایک ایسے عالمی نظام میں ڈھل جائیں جو انہیں بغیر کسی مزاحمت کے استحصالی قوتوں کے تابع بنا دے۔
بشریات میں جدید غلامی کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ مخصوص مفادات کے تحت انسان کی تاریخ اور اس کی جڑوں کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ استعماری قوتیں مختلف قوموں کی تاریخ کو اس انداز میں بدلنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے ماضی سے کٹ جائیں اور ان کی نفسیات میں ایک احساسِ کمتری پیدا ہو جائے۔ نصابی کتابوں، تحقیقی مقالوں، اور سوشل سائنسز کے مختلف نظریات کے ذریعے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ جو کچھ مغرب یا نوآبادیاتی طاقتوں نے فراہم کیا ہے، وہی انسانی ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے، جبکہ قدیم روایات، مذہبی اقدار، اور تاریخی ثقافتوں کو دقیانوسی اور غیر موثر قرار دے کر انہیں ترک کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
عمرانیات اور بشریات کے شعبے میں جدید غلامی کی اس گہرائی کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب تک انسان اپنی معاشرتی اور بشریاتی جڑوں سے واقف نہیں ہوگا، وہ ان سازشوں کو پہچاننے کے قابل نہیں ہوگا جو اسے رفتہ رفتہ ایک بے حس، بے اختیار، اور استحصالی نظام کے مطیع غلام میں تبدیل کر رہی ہیں۔
جدید غلامی کی حقیقت کو اگر تاریخی اور معاصر مثالوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ محض ایک نظریاتی تصور نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت ہے جو مختلف طریقوں سے انسانی معاشروں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
تاریخی طور پر جب یورپی نوآبادیاتی طاقتوں نے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک پر قبضہ کیا تو انہوں نے نہ صرف ان کے وسائل پر تسلط جمایا بلکہ ان کے سماجی ڈھانچے، تعلیمی نظام اور ثقافتی اقدار کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ ہندوستان میں برطانوی استعمار نے تعلیمی نظام کو اس انداز میں تبدیل کیا کہ مقامی افراد کو نوکری پیشہ کلرکوں اور دفتری ملازمین میں بدل دیا جائے جو آزادانہ طور پر سوچنے کے بجائے برطانوی حکومت کے تابع رہیں۔ لارڈ میکالے کی ۱۸۳۵ء میں دی گئی تعلیمی پالیسی کا مقصد یہی تھا کہ ایک ایسا طبقہ تیار کیا جائے جو "خون اور رنگت میں ہندوستانی ہو مگر ذہنیت اور افکار میں انگریز ہو"۔ اسی پالیسی کے نتیجے میں ہزاروں سال پر محیط ہندوستانی تعلیمی اور فلسفیانہ روایات کو پس پشت ڈال کر مغربی اندازِ فکر کو غالب کر دیا گیا۔
جدید غلامی کی ایک مثال موجودہ دور میں کارپوریٹ کلچر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں افراد کی محنت کو زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر انہیں ایسا محسوس کروایا جاتا ہے جیسے وہ آزاد ہیں۔ معروف ماہرِ عمرانیات کارل مارکس نے اپنے نظریۂ بیگانگی (Alienation) میں اسی استحصالی عمل کی وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور کو اپنی ہی محنت کے نتائج سے بیگانہ کر دیا جاتا ہے، یعنی وہ کسی ایسی چیز کی تخلیق کرتا ہے جو اس کی اپنی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ دار اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آج کی جدید کارپوریٹ دنیا میں یہ غلامی اس صورت میں موجود ہے کہ لوگ لمبے اوقاتِ کار میں مشغول رہ کر اپنے خاندان، مذہب اور معاشرتی تعلقات سے کٹ جاتے ہیں، مگر انہیں لگتا ہے کہ وہ ترقی کر رہے ہیں۔
ثقافتی امپیریلزم بھی جدید غلامی کی ایک بڑی شکل ہے جس کے تحت مغربی میڈیا اور تفریحی صنعت کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی ثقافتوں کو کمزور کیا جاتا ہے۔ ہالی وڈ کی فلمیں، مغربی فیشن انڈسٹری اور گلوبل برانڈز ایک خاص طرزِ زندگی کو فروغ دیتے ہیں، جس میں مقامی اقدار کو دقیانوسی اور غیر عملی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلامی ممالک میں مغربی لباس اور طرزِ زندگی کو "جدیدیت" اور "ترقی" کے ساتھ جوڑ کر مقامی روایات اور لباس کو فرسودہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو نوآبادیاتی دور میں فرانس نے الجزائر میں کیا تھا، جہاں الجزائری خواتین کے حجاب کو ایک "پسماندہ روایت" قرار دے کر انہیں مغربی طرزِ زندگی اپنانے کی ترغیب دی گئی۔
فرانتز فینن نے اپنی مشہور کتاب The Wretched of the Earth میں لکھا کہ نوآبادیاتی طاقتیں محکوم قوموں کے ذہنوں میں احساسِ کمتری پیدا کرنے کے لیے ان کی ثقافت اور زبان کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے ذریعے جدید غلامی کو مزید گہرائی کے ساتھ لاگو کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے کہ افراد اپنی انفرادی خواہشات کو اجتماعی مفاد پر فوقیت دیں۔ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسی ایپس کے ذریعے ایک ایسی مصنوعی دنیا تخلیق کی گئی ہے جہاں انسان اصل سماجی تعلقات سے کٹ کر ورچوئل دنیا میں کھو جاتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق، سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے نوجوانوں میں تنہائی، ذہنی دباؤ اور احساسِ کمتری میں اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ ایک ایسی غلامی ہے جس میں لوگ اپنی مرضی سے بندھے رہتے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں بھی جدید غلامی کی ایک بڑی مثال دیکھی جا سکتی ہے، جہاں نصابی کتب اور علمی مباحث کو ایک مخصوص فکری سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ ادوارد سعید نے اپنی کتاب Orientalism میں واضح کیا کہ مغربی دانشوروں نے مشرقی دنیا کو ہمیشہ ایک پسماندہ، غیر مہذب اور جمود زدہ معاشرہ قرار دیا تاکہ مغربی استعمار کو "اصلاح" کے نام پر ان پر حکمرانی کا جواز مل سکے۔ آج بھی عالمی سطح پر تعلیمی نصاب کو اس طرح تشکیل دیا جا رہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے طلبہ مغربی افکار کو حتمی سچائی سمجھ کر اپنائیں اور اپنی علمی و فکری جڑوں سے کٹ جائیں۔
اقتصادی غلامی کی ایک اور مثال عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پر مسلط کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے مختلف ممالک کو ایسے قرضے فراہم کرتے ہیں جن کی شرائط اس قدر سخت ہوتی ہیں کہ وہ ممالک ہمیشہ ان اداروں کے محتاج رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں افریقی اور لاطینی امریکی ممالک پر جو قرضے مسلط کیے گئے، ان کے بدلے میں ان ممالک کو اپنی معیشت کے اہم شعبے نجی کمپنیوں کو بیچنے پڑے، جس سے وہ مکمل طور پر مغربی کارپوریشنز کے کنٹرول میں آ گئے۔
معروف ماہرِ معاشیات جان پرکنز نے اپنی کتاب Confessions of an Economic Hitman میں واضح کیا کہ کیسے بڑی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر ان کے قدرتی وسائل اور اقتصادی خود مختاری پر قبضہ کر لیتی ہیں۔
ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید غلامی کا نظام کسی ایک مخصوص پہلو تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ گیر عمل ہے جو انسانی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں سرایت کر چکا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ فکری، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر ایک مضبوط شعور پیدا کیا جائے اور مقامی اقدار، زبان اور روایات کی حفاظت کی جائے، تاکہ افراد اور معاشرے اپنی اصل شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے حقیقی آزادی حاصل کر سکیں۔
اس غلامی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ مقامی ثقافتوں، اجتماعی شعور، اور خاندانی و سماجی نظم کو بحال کیا جائے، خود انحصاری اور مقامی وسائل پر اعتماد کو فروغ دیا جائے، اور عمرانی و بشریاتی نظریات کی مغربی تعبیرات کو چیلنج کر کے ایک ایسے علمی و فکری نظام کو اپنایا جائے جو حقیقی معنوں میں انسان کو آزادی، خود مختاری، اور وقار عطا کر سکے۔
خاندانی نظام اور نفسیات کا شعبہ
خاندانی نظام اور نفسیات کے میدان میں جدید غلامی کی جڑیں نہایت گہرائی تک پیوست ہیں، جہاں ایک ایسا استحصالی نظام تشکیل دیا گیا ہے جو خاندان کے بنیادی ڈھانچے، باہمی تعلقات، افراد کی شناخت، اور ان کے نفسیاتی رجحانات کو کنٹرول کرنے کے اصولوں پر استوار ہے۔ اس غلامی کا آغاز نظریاتی و فکری تسلط سے ہوتا ہے، جہاں میڈیا، تعلیمی نظام، اور ثقافتی اثر و رسوخ کے ذریعے خاندان کے روایتی تصورات کو کمزور کر کے ایک ایسا ماڈل متعارف کروایا جاتا ہے جو فرد کو اجتماعی و خاندانی وابستگی سے زیادہ انفرادی اور خود غرضانہ طرزِ زندگی کی طرف راغب کرے۔
نفسیاتی غلامی کے پہلو کو دیکھیں تو مغربی نفسیاتی ماڈلز کے ذریعے افراد کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کامیابی، آزادی، اور خودمختاری کے حصول کے لیے خاندان ایک رکاوٹ ہے۔ والدین کی رہنمائی کو دقیانوسی قرار دے کر نوجوانوں کو خاندان سے دور کیا جاتا ہے، اور ان میں یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے کہ ان کی شناخت کا تعلق کسی خاص خاندانی یا دینی پس منظر سے نہیں بلکہ صرف ان کے ذاتی انتخاب اور معاشی کامیابی سے ہے۔ بچوں کو والدین کی تربیت سے آزاد کر کے جدید نفسیاتی اصولوں پر چلایا جاتا ہے، جہاں ان کی اخلاقی و روحانی بنیادوں کو کمزور کر کے انہیں ایسی نفسیاتی کیفیت میں دھکیل دیا جاتا ہے جہاں وہ معاشرتی و اخلاقی روایات سے کٹ کر غیر محسوس انداز میں مغربی طرزِ زندگی کو اپنانے لگیں۔
خواتین کو گھریلو زندگی سے متنفر کرنے کے لیے فکری غلامی کے جدید طریقے اختیار کیے گئے ہیں، جہاں انہیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگر وہ گھر اور خاندان کے دائرے میں رہیں گی تو ان کا کوئی سماجی مقام نہیں ہوگا۔ خواتین کے حقوق کے نام پر ان سے ان کے فطری کردار کو چھین کر انہیں کارپوریٹ غلامی میں دھکیل دیا جاتا ہے، جہاں انہیں آزادی کے بجائے معاشی استحصال اور ذہنی دباؤ کے ایسے دائرے میں ڈال دیا جاتا ہے جو انہیں خاندانی تعلقات اور جذباتی استحکام سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندان کا وہ مرکز جو محبت، رحمت، اور نسلوں کی تربیت کا محور تھا، رفتہ رفتہ کمزور ہو کر افراد کے منتشر گروہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو اپنی اصل شناخت سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔
خاندانی نظام کو کمزور کرنے کے لیے جدید غلامی کے اثرات ازدواجی زندگی پر بھی مرتب کیے گئے ہیں۔ شادی کو ایک روایتی اور بوجھل رشتہ قرار دے کر نوجوانوں کو غیر روایتی اور وقتی تعلقات کی طرف مائل کیا جاتا ہے، جس سے خاندانی استحکام ختم ہو کر افراد کی زندگیاں جذباتی و نفسیاتی خلفشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ طلاق کی شرح میں اضافہ، بچوں کی تربیت سے والدین کی لا تعلقی، اور ازدواجی تعلقات میں بے چینی دراصل اس نفسیاتی اور سماجی تسلط کا نتیجہ ہے جو جدید استحصالی نظام کے تحت دنیا بھر میں فروغ دیا جا رہا ہے۔
نئی نسل کو خاندان سے الگ کرنے اور انہیں عالمی استحصالی نظام کا حصہ بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا، تفریحی مواد، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنی روایتی اقدار اور والدین کی تربیت کو غیر اہم سمجھیں اور ایسے نظریات اپنائیں جو انہیں اپنی شناخت سے محروم کر کے ایک عالمی صارف میں تبدیل کر دیں۔ ڈیجیٹل دنیا میں موجود مصنوعی فطرت کا عادی بنا کر حقیقی انسانی رشتوں کو بے معنی بنا دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ اپنے ہی گھر میں اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں، اور خاندانی محبت اور باہمی تعلقات کے وہ جذبات جو نسلوں کو جوڑتے تھے، آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتے ہیں۔
ماں باپ کی محبت، پرورش اور رہنمائی کو جدید سائنسی اور نفسیاتی اصولوں کے ذریعے بے اثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جہاں والدین کے تجربے اور حکمت کو کمزور کر کے بچوں کو براہ راست میڈیا اور مغربی تعلیمی نظام کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ والدین کی حیثیت کو محض بچوں کے مالی سرپرست کے طور پر پیش کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کا تربیتی کردار غیر ضروری ہے اور بچوں کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہونا چاہیے، چاہے وہ ان کی اخلاقیات، شناخت، یا مستقبل کے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔
خاندانی نظام کی اس ٹوٹ پھوٹ کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ جب افراد اپنے خاندان اور روایات سے کٹ جاتے ہیں تو وہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت میں
مبتلا ہو جاتے ہیں جہاں وہ جدید کارپوریٹ غلامی کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔ انہیں ایسی ملازمتوں میں ڈال دیا جاتا ہے جو ان کی روحانی اور نفسیاتی صحت کو تباہ کر دیتی ہیں، لیکن چونکہ ان کے پاس کوئی مضبوط خاندانی سہارا نہیں ہوتا، اس لیے وہ اسی غلامی کے نظام میں جینے پر مجبور رہتے ہیں۔ جذباتی و نفسیاتی مسائل بڑھتے ہیں، ڈپریشن، تنہائی، اور بے مقصدیت کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں، اور جدید نفسیاتی علاج اور دوا ساز کمپنیاں اس صورت حال کو مزید اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں، تاکہ افراد مکمل طور پر اس نظام کا حصہ بن جائیں اور حقیقی آزادی کی خواہش ہی ان کے ذہن سے مٹ جائے۔
یہ تمام پہلو اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ خاندانی نظام اور نفسیات کے میدان میں جدید غلامی محض کسی ایک معاشرتی تبدیلی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ جہتی منصوبہ ہے جو افراد کو ان کی اصل شناخت، محبت، خاندانی تعلقات، اور روحانی و نفسیاتی استحکام سے محروم کر کے ایک ایسی بھیڑ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جو آسانی سے قابو میں رہے اور عالمی طاقتوں کے لیے ایک بے حس اور مطیع صارف کے طور پر کام کرے۔
جدید غلامی کے اثرات کو سمجھنے کے لیے خاندانی نظام اور نفسیات کے میدان میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہرائی سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، مغربی معاشروں میں "self-reliance" اور "individualism" کے نام پر والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے کو بڑھایا گیا ہے۔ امریکہ میں کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاندانی تعلقات میں کمزوری کی وجہ سے نوجوانوں میں ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک مطالعہ کے مطابق، جو لوگ خاندان سے قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں ڈپریشن کی علامات نسبتاً کم ہوتی ہیں، جبکہ وہ نوجوان جو والدین سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں یا انہیں اپنی زندگی کے فیصلوں میں غیر متعلقہ سمجھتے ہیں، زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں (Twenge, J. M. & Campbell, W. K., ۲۰۱۸, "The Narcissism Epidemic").
اسی طرح، جدید نفسیاتی ماڈلز کے ذریعے والدین کی روایتی رہنمائی کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، "authoritative parenting" کو بعض مغربی تعلیمی اداروں میں روایتی پابندیوں کا نام دے کر بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں، چاہے وہ ان کے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک میں نوجوانوں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوا، کیونکہ وہ جب عملی زندگی میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے پاس والدین کا وہ سہارا نہیں ہوتا جو انہیں نفسیاتی طور پر مضبوط رکھ سکے۔
ایک تحقیق میں پایا گیا کہ جو بچے والدین کی رہنمائی اور محبت سے محروم ہوتے ہیں، ان میں اضطراب اور بے چینی کی سطح زیادہ ہوتی ہے (Baumrind, D., ۱۹۹۱, "The Influence of Parenting Style on Adolescent Competence and Substance Use").
خواتین کو گھریلو زندگی سے متنفر کرنے کی ایک واضح مثال "feminist corporate model" میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں خواتین کو باور کروایا گیا کہ اگر وہ گھریلو زندگی اور بچوں کی پرورش پر توجہ دیتی ہیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہی ہیں۔
اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا جو ازدواجی زندگی اور مادری فرائض کو پس پشت ڈال کر پیشہ ورانہ زندگی میں الجھ گئیں، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ وہ شدید ذہنی تناؤ اور جذباتی خلا کا شکار ہو چکی ہیں۔ ایک برطانوی مطالعہ کے مطابق، وہ خواتین جو خاندانی زندگی اور بچوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں، وہ ملازمت پیشہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ خوش اور مطمئن ہوتی ہیں (Hakim, C., ۲۰۱۱, "Feminist Myths and Magic Medicine: The Flawed ThinkingBehind Calls for Further Equality").
شادی کے روایتی تصور کو کمزور کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں مغربی ممالک میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں ۱۹۶۰ کے بعد سے طلاق کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا، جس کی بنیادی وجوہات میں "freedom of choice" اور "temporary relationships" جیسے تصورات کو فروغ دینا شامل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، جو معاشرے خاندانی نظام کو کمزور کرتے ہیں، وہاں افراد زیادہ ذہنی اضطراب، جذباتی عدم استحکام اور بے مقصدیت کا شکار ہو جاتے ہیں (Cherlin, A. J., ۲۰۰۴, "The Deinstitutionalization of American Marriage").
نوجوانوں کو خاندان سے کاٹنے اور ان میں مصنوعی شناخت پیدا کرنے کے لیے میڈیا اور ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اور نمایاں مثال ہے۔ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوانوں میں ایسی سوچ پیدا کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی شناخت کو سماجی میڈیا کے "likes" اور "followers" سے منسلک کر لیں، بجائے اس کے کہ وہ اپنی خاندانی روایات اور دینی پس منظر سے جڑے رہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق، زیادہ تر نوجوان جو روزانہ پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، وہ اپنے خاندان سے کم جڑے ہوتے ہیں اور ان میں خود اعتمادی کی کمی محسوس کی گئی ہے (Twenge, J. M., ۲۰۱۷, "iGen: Why Today's Super-Connected Kids Are GrowingUp Less Rebellious, More Tolerant, Less Happy").
خاندانی نظام کی کمزوری کے نتیجے میں جدید معاشی نظام افراد کو کارپوریٹ غلامی میں جھونک دیتا ہے۔ جب افراد کا خاندانی سہارا ختم ہو جاتا ہے، تو وہ آسانی سے ایسی ملازمتوں کا حصہ بن جاتے ہیں جو انہیں جذباتی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیتی ہیں۔
جاپان میں "karoshi" یعنی کام کے دباؤ سے موت کے واقعات اسی حقیقت کو آشکار کرتے ہیں، جہاں افراد اپنی خاندانی زندگی سے کٹ کر صرف ملازمت کے دباؤ میں زندہ رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں (Shimomura, Y., ۲۰۱۶, "Work Until You Drop: The Reality of Japan's Karoshi Culture").
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ جدید غلامی محض ایک نظریاتی تصور نہیں، بلکہ یہ ایک عملی حقیقت ہے جو افراد کو خاندانی نظام، دینی و روحانی شناخت، اور نفسیاتی استحکام سے محروم کر کے انہیں ایک ایسے معاشی اور سماجی نظام کا حصہ بنا رہی ہے، جہاں وہ ایک صارف بن کر زندگی گزارتے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں خوشی، اطمینان اور خودمختاری سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خاندانی نظام کو مضبوط کریں، والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیں، مغربی نفسیاتی ماڈلز کی اندھی تقلید سے بچیں، اور میڈیا و ٹیکنالوجی کے اثرات کو محدود کر کے اپنی اصل شناخت کی طرف لوٹنے کی کوشش کریں۔
اس غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ خاندانی نظام کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کیا جائے، والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنایا جائے، مغربی نفسیاتی ماڈلز کو تنقیدی نظر سے دیکھا جائے، اور میڈیا و ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا ہونے والی ذہنی غلامی سے خود کو آزاد کیا جائے تاکہ ایک مضبوط، خودمختار، اور باوقار معاشرتی نظام تشکیل دیا جا سکے۔
غذا اور زراعت کا شعبہ
غذا اور زراعت کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسی حقیقت ہے جو بظاہر ترقی اور خوشحالی کے نعروں میں لپٹی ہوئی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک عالمی استحصالی نظام ہے جس نے کھیتوں سے لے کر دسترخوان تک ہر چیز کو سرمایہ دارانہ منافع کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ زراعت، جو کبھی ایک قدرتی اور خود کفیل عمل ہوا کرتا تھا، آج چند ملٹی نیشنل کمپنیوں، اجارہ داریوں، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑ چکا ہے۔ روایتی کاشتکاری، جو مقامی کمیونٹیز کی خودمختاری اور معیشت کا ستون ہوا کرتی تھی، اب جدید غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکڑ دی گئی ہے جہاں کسان اپنی ہی زمین پر بے اختیار ہو چکے ہیں اور ان کے فیصلے عالمی منڈی، بڑی زرعی کمپنیوں اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج (GMO) تیار کرنے والی اجارہ دار قوتوں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔
جدید غلامی کا آغاز سب سے پہلے بیجوں کے ذریعے کیا گیا، جہاں فطری اور مقامی بیجوں کو غیر مؤثر یا ناپید کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مداخلت کی گئی۔ قدرتی بیج جو کسان نسل در نسل استعمال کرتے تھے، اب رفتہ رفتہ ممنوع قرار دیے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ لیبارٹری میں تیار کردہ جینیاتی بیج متعارف کروائے جا رہے ہیں، جو ایک خاص وقت کے بعد ناکارہ ہو جاتے ہیں اور کسانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہر سال نئے مہنگے بیج خریدیں۔ اس کے نتیجے میں، کسانوں کا انحصار بڑی زرعی کمپنیاں، جیسے مونسانٹو اور دیگر کارپوریشنز، پر بڑھ گیا ہے اور وہ اپنی زمین پر فیصلے کرنے کے بجائے ان کمپنیوں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں۔ ان جینیاتی بیجوں کے ساتھ مخصوص کھادیں، کیڑے مار ادویات، اور مصنوعی طریقے استعمال کرنے کو ضروری قرار دے دیا گیا ہے، جس سے کسان مزید مقروض اور محتاج ہوتے جا رہے ہیں۔
جدید زراعت میں کیمیکل کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے ذریعے زمین کی زرخیزی کو تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ پہلے کسان روایتی اور نامیاتی کھادوں کا استعمال کرتے تھے، جو زمین کی طبعی صحت کو برقرار رکھتے تھے، لیکن اب انہیں ایسی کھادوں اور اسپرے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو وقتی طور پر پیداوار بڑھاتے ہیں، مگر طویل المدتی طور پر زمین کی زرخیزی کو برباد کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کسان مزید مہنگی کھادیں اور مزید مہنگے بیج خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور اس غلامی کے جال میں ایسا پھنستا ہے کہ وہ اپنی زمین کا مالک ہونے کے باوجود عملی طور پر بے اختیار ہو جاتا ہے۔
زراعت میں جدید غلامی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ چھوٹے کسانوں کی زمینیں بڑے سرمایہ داروں اور زرعی کارپوریشنز کے ہاتھوں میں منتقل کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں زرعی اصلاحات کے نام پر ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جو چھوٹے کسانوں کے لیے زمین رکھنا مشکل بنا دیتی ہیں، اور وہ یا تو اپنی زمینیں فروخت کر دیتے ہیں یا بڑے اداروں کے لیے ٹھیکے پر کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بڑے زرعی کارپوریشنز اور حکومتوں کے درمیان ایسے معاہدے کیے جاتے ہیں جن کا فائدہ صرف چند سرمایہ داروں کو ہوتا ہے، جبکہ مقامی کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی زمینیں گنوا دیتے ہیں۔
غذا کی پیداوار میں بھی جدید غلامی اپنے عروج پر ہے۔ آج جو خوراک عام صارفین تک پہنچ رہی ہے، وہ حقیقی معنوں میں صحت بخش اور قدرتی نہیں بلکہ صنعتی پراسیسنگ سے گزر کر اپنی اصل شکل کھو چکی ہے۔ زرعی پیداوار کو بڑے پیمانے پر تبدیل کر کے ایسی غذا میں بدلا جا رہا ہے جو زیادہ دیر تک اسٹور ہو سکے، تیزی سے منافع دے، اور صارفین کو مخصوص کھانے کی عادت ڈالے، تاکہ وہ ہمیشہ اسی مخصوص غذا پر انحصار کریں۔ فاسٹ فوڈ، مصنوعی مشروبات، اور پروسیسڈ فوڈ کے ذریعے ایسے کیمیکل انسانی جسم میں داخل کیے جا رہے ہیں جو نہ صرف صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، بلکہ انسان کو مسلسل ان اشیاء پر انحصار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مارکیٹنگ اور اشتہارات کے ذریعے صارفین کے ذہنوں کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ عام انسان کو اس حد تک مشروط کر دیا گیا ہے کہ وہ نامیاتی اور قدرتی خوراک کو غیر معیاری اور مہنگا سمجھتا ہے، جبکہ پراسیسڈ (Processed) اور صنعتی خوراک کو سہولت، ذائقہ، اور معیار کی علامت سمجھنے لگتا ہے۔ بچوں کو بچپن سے ہی ایسے مشروبات، چپس، چاکلیٹ اور فاسٹ فوڈ کا عادی بنایا جاتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، مگر اشتہارات اور سوشل انجینئرنگ کے ذریعے انہیں روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ جدید غلامی کی سب سے خطرناک شکل ہے، کیونکہ اس کے ذریعے صرف جسمانی صحت نہیں بلکہ ذہنی اور سماجی زندگی بھی کنٹرول کی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر خوراک کو ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے، ترقی یافتہ ممالک، اور بڑی زرعی کمپنیوں کے ذریعے ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جو غریب ممالک کو خوراک کے معاملے میں مکمل طور پر بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ خود کفیل زراعت کو ترقی دینے کے بجائے ان ممالک کو ایسی امداد دی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی زراعت کو مزید کمزور کر دیتے ہیں اور غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، غذائی خود مختاری ختم ہو جاتی ہے اور خوراک کے معاملے میں مکمل انحصار ایک نئے قسم کی نواستعماریت کو جنم دیتا ہے۔
زراعت اور غذا میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کسانوں اور عام صارفین کے درمیان موجود روایتی نظام کو توڑ دیا گیا ہے اور تمام تر خوراک کی ترسیل کو بڑی سپلائی چینز، اسٹورز، اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں کسان مقامی منڈیوں میں اپنی پیداوار براہِ راست بیچ سکتے تھے، لیکن اب انہیں بڑے کارپوریٹ اسٹورز، سپلائی چین کمپنیوں، اور آن لائن مارکیٹنگ پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی پیداوار بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جہاں ان کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس نظام میں کسان کو کم ترین قیمت دی جاتی ہے، جبکہ صارفین تک خوراک پہنچنے تک اس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، اور منافع صرف ان بڑی کمپنیوں کو حاصل ہوتا ہے جو درمیان میں موجود ہیں۔
یہ تمام پہلو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غذا اور زراعت اب صرف ایک بنیادی ضرورت نہیں رہی، بلکہ ایک ایسا ہتھیار بن چکی ہے جس کے ذریعے قوموں کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ مقامی کسانوں کی خود مختاری ختم کر کے انہیں عالمی زرعی اجارہ داریوں کا محتاج بنا دیا گیا ہے، خوراک کی پیداوار اور ترسیل کو بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے، اور صارفین کو ایسی غذائی عادات دی جا رہی ہیں جو انہیں طویل المدتی بیماریوں، کمزور جسمانی صحت، اور مسلسل کیمیکل پر مبنی خوراک پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیں۔ یہ غلامی کا وہ جال ہے جس میں پوری دنیا دھیرے دھیرے جکڑتی جا رہی ہے، اور جب تک یہ نظام قائم ہے، نہ کسان آزاد ہو سکتا ہے اور نہ ہی عام انسان صحت بخش خوراک تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
نمایاں مثال ہندوستان میں کسانوں کی خودکشی کے بحران سے لی جا سکتی ہے، جہاں ہزاروں کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی جان لے چکے ہیں۔ عالمی زرعی اجارہ داریوں نے انہیں ایسے بیجوں اور کیمیکل پر مجبور کر دیا جو ان کی زمین کے لیے موزوں نہیں تھے اور جنہیں ہر سال نئے سرے سے خریدنا ضروری تھا۔ بیج اور کیمیکل کا یہ چکر مونسانٹو جیسی کمپنیوں کے ذریعے مسلط کیا گیا، جس نے بھارتی کسانوں کو دیوالیہ کر دیا۔ بھارت میں کسانوں کی خودکشی کے اس بحران پر کئی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح بڑی زرعی کارپوریشنز نے روایتی کاشتکاری کو تباہ کر کے کسانوں کو مسلسل قرضوں میں جھونک دیا۔
اسی طرح، افریقہ میں غذائی امداد کی آڑ میں زراعت کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں۔ مغربی ممالک اور مالیاتی اداروں نے وہاں کے مقامی کسانوں کو جدید زراعت کے نام پر ایسی پیداوار اپنانے پر مجبور کیا جو زیادہ تر برآمدات کے لیے تھی، جبکہ مقامی خوراکی اجناس کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک کی غذائی خود کفالت ختم ہو گئی، اور وہ خوراک کے لیے عالمی منڈیوں اور بڑی زرعی کمپنیوں کے محتاج ہو گئے۔ یہ ایک ایسی شکل کی نواستعماریت ہے جس میں طاقتور ممالک کمزور ممالک کی زراعت اور خوراکی پیداوار کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔
جدید خوراکی صنعت میں غلامی کی ایک اور مثال برازیل، امریکہ اور دیگر ممالک میں فاسٹ فوڈ اور پراسیسڈ فوڈ انڈسٹری کا بڑھتا ہوا غلبہ ہے۔ بڑی فوڈ کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو اس طرح مارکیٹ کیا کہ قدرتی اور نامیاتی خوراک کو غیر معیاری اور غیر ضروری بنا دیا گیا۔ مختلف تحقیقی مطالعات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ فاسٹ فوڈ انڈسٹری مصنوعی ذائقے اور کیمیکل استعمال کر کے صارفین کو مخصوص کھانوں کا عادی بنا رہی ہے، تاکہ وہ دیگر صحت بخش متبادل پر غور ہی نہ کریں۔ اس کی ایک مثال ۲۰۱۷ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ہے، جس میں بتایا گیا کہ میکڈونلڈز اور کوکا کولا جیسی کمپنیاں اپنے اشتہارات خاص طور پر بچوں کے لیے ڈیزائن کرتی ہیں، تاکہ انہیں بچپن سے ہی پراسیسڈ فوڈ کا عادی بنایا جا سکے۔
خوراک کی ترسیل اور قیمتوں پر بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو سمجھنے کے لیے مصر کی مثال دی جا سکتی ہے، جہاں حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں آ کر گندم کی درآمد پر انحصار بڑھا دیا اور مقامی کسانوں کو نظرانداز کر دیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں مصری عوام کو سستے آٹے اور خوراک کے حصول کے لیے بین الاقوامی منڈی کے اتار چڑھاؤ پر انحصار کرنا پڑا، اور جب ۲۰۰۸ میں گندم کی عالمی قیمتیں بڑھیں تو مصر میں خوراک کا بحران پیدا ہو گیا۔ اس بحران کے دوران واضح ہوا کہ خوراک کی عالمی منڈی پر چند بڑی کمپنیوں کا کنٹرول ہے، جو قیمتوں کو اپنی مرضی سے چلاتی ہیں، اور کمزور ممالک کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ تمام مثالیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ جدید غلامی اب صرف روایتی زراعت یا براہِ راست مزدوری تک محدود نہیں رہی، بلکہ ایک ایسا نظام بن چکی ہے جس میں کسانوں، صارفین، اور پوری غذائی معیشت کو کارپوریٹ اجارہ داریوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے تابع کر دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں بھی معاشی استحصال کے خلاف واضح تنبیہ موجود ہے،
جیسا کہ سورہ المطففین میں فرمایا گیا : "
وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ " (المطففین: ۱-۳)
یعنی تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو دوسروں سے ناپ تول کر پورا لیتے ہیں، لیکن جب دوسروں کو ناپ کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ ج
دید زرعی اجارہ داریاں اور سرمایہ دارانہ فوڈ انڈسٹری اسی استحصالی رویے کا جدید روپ ہیں، جہاں چند طاقتور کمپنیاں پوری دنیا کے خوراکی وسائل پر قابض ہو کر کسانوں اور صارفین دونوں کا استحصال کر رہی ہیں۔
ثقافت اور تہذیب کا شعبہ
ثقافت اور تہذیب کے شعبے میں جدید غلامی ایک نہایت پیچیدہ مگر گہرائی میں پیوست حقیقت ہے جو انسانی معاشروں کی شناخت، طرزِ زندگی، اور فکری رویوں کو ایک خاص سمت میں ڈھالنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ تہذیب کسی قوم کی تاریخی وراثت، روایات، اخلاقی اقدار، زبان، مذہبی عقائد، اور فکری اسلوب کا مجموعہ ہوتی ہے، لیکن جب استعماری قوتیں یا عالمی طاقتیں کسی قوم کو اپنے اثر و رسوخ میں رکھنا چاہتی ہیں تو وہ سب سے پہلے اس کی ثقافتی اور تہذیبی شناخت کو مسخ کرتی ہیں۔ جدید غلامی کا سب سے خطرناک پہلو یہی ہے کہ غلامی کا شکار قوم کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک نفسیاتی اور تہذیبی غلامی میں جکڑی جا چکی ہے۔ وہ اسی کو اپنی ترقی اور جدیدیت سمجھتی ہے جو درحقیقت اسے اپنی اصل شناخت سے محروم کرنے کی ایک منظم سازش ہوتی ہے۔
ثقافتی غلامی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ مغربی طرزِ زندگی کو ایک ترقی یافتہ ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر وہ ثقافتی عنصر جو مقامی یا روایتی ہو، اسے دقیانوسی، پسماندہ، اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ لباس، طرزِ گفتار، معاشرتی رسومات، اور روزمرہ زندگی کے معمولات تک کو مغربی انداز میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ لوگ اپنی تہذیبی جڑوں سے کٹ جائیں اور وہ ایک ایسی مصنوعی زندگی گزارنے لگیں جو حقیقت میں ان کے تاریخی پس منظر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ شادی بیاہ کے طریقے، خاندانی نظام، میل جول کے اصول، اور حتیٰ کہ کھانے پینے کی عادات تک اس نوآبادیاتی ذہنیت کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں، جہاں لوگ اپنی مقامی اور مذہبی ثقافت کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور ایک ایسی طرزِ زندگی کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جو بیرونی طاقتوں کی منصوبہ بندی کا حصہ ہوتا ہے۔
زبان کے میدان میں جدید غلامی کی سب سے بڑی شکل یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کی مادری زبان سے کاٹ کر کسی اور زبان کا محتاج بنا دیا جاتا ہے۔ زبان کسی بھی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہے اور جب کسی قوم کی زبان کو اس کے علمی، فکری، اور ثقافتی اظہار کے لیے ناکافی یا غیر ضروری قرار دے دیا جائے، تو اس کے فکری زوال کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ آج ترقی پذیر ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان کے تعلیمی، سائنسی، اور سماجی ادارے غیر ملکی زبانوں پر منحصر ہو چکے ہیں اور اگر کوئی شخص اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اسے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ یہ زبان کی سطح پر غلامی کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں لوگ اپنی ہی زبان کو کمتر اور کسی دوسری زبان کو برتر مان لیتے ہیں، اور یوں رفتہ رفتہ وہ علمی، فکری، اور تہذیبی طور پر ایک غیر محسوس غلامی میں جکڑے چلے جاتے ہیں۔
فنونِ لطیفہ اور تفریح کے میدان میں جدید غلامی کی ایک اور بھیانک شکل نظر آتی ہے جہاں فلم، موسیقی، تھیٹر، اور دیگر تفریحی ذرائع کو ایک خاص تہذیبی ایجنڈے کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے۔ عالمی میڈیا کے ذریعے وہ مواد تخلیق کیا جاتا ہے جو مغربی طرزِ زندگی کو مثالی اور ترقی یافتہ دکھاتا ہے جبکہ روایتی، مذہبی، اور مشرقی اقدار کو دقیانوسی اور فرسودہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ فلموں، ڈراموں، اور موسیقی کے ذریعے انسانوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور انہیں اس راہ پر ڈالا جاتا ہے جہاں وہ فکری طور پر غیر محسوس انداز میں استعمار کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ آج ترقی پذیر ممالک میں نوجوان نسل مغربی طرزِ زندگی، فیشن، موسیقی، اور تفریحی ذرائع کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ اسے اپنی تہذیب اور ثقافت غیر اہم اور پسماندہ محسوس ہوتی ہے۔
خاندانی نظام میں جدید غلامی کی ایک اور خطرناک صورت یہ ہے کہ روایتی اور مذہبی اقدار کو اس حد تک کمزور کر دیا جاتا ہے کہ خاندان کا بنیادی ڈھانچہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان رشتے، شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات، اور خاندانی اجتماعیت کو انفرادیت، آزادی، اور خود مختاری کے نام پر اس انداز میں متاثر کیا جاتا ہے کہ خاندانی روایات اور اقدار اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھتی ہیں۔ آج مغرب میں جو خاندانی بحران دیکھنے کو مل رہا ہے، وہی ترقی پذیر ممالک میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ معاشرتی استحکام کو متزلزل کیا جا سکے اور افراد کو ریاستی یا عالمی قوتوں کا مکمل محتاج بنا دیا جائے۔
تہذیبی غلامی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ تاریخی شعور کو مٹا دیا جاتا ہے اور اقوام کو ان کی اصل تاریخ سے دور کر کے ایک ایسی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جو استعماری قوتوں کے بیانیے کے مطابق ہو۔ آج بہت سے ممالک میں اپنی ہی تاریخ کو اس نظر سے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ کسی اور قوم کی تاریخ ہو، کیونکہ تاریخی شعور کو اس نہج پر بدلا گیا ہے کہ وہ اپنی فتوحات، تہذیبی روایات، اور فکری عظمت پر شرمندہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ جب کسی قوم کا تاریخی شعور کمزور کر دیا جائے تو وہ خود اپنی تہذیب کو حقیر سمجھنے لگتی ہے اور یوں وہ استعماری طاقتوں کے ایجنڈے کے لیے ایک آسان شکار بن جاتی ہے۔
جدید غلامی کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے آزادی اور ترقی کے نام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ آج لوگ اس بات کو محسوس ہی نہیں کرتے کہ وہ کس طرح مغربی تہذیب کے اصولوں کو اپنی زندگی میں نافذ کر رہے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایسا کر رہے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ذہن سازی اس انداز میں کی جا چکی ہوتی ہے کہ وہ لاشعوری طور پر ایک مخصوص تہذیبی ایجنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ میڈیا، تعلیم، اور تفریح کے ذرائع کے ذریعے انہیں ایسا مواد دیا جاتا ہے جو ان کے اندر اپنی ثقافت اور تہذیب کے خلاف بیزاری پیدا کرے اور وہ بیرونی اقدار کو اپنانے میں فخر محسوس کریں۔
ثقافتی اور تہذیبی غلامی کی سب سے بڑی مثال نوآبادیاتی دور میں برصغیر، افریقہ، اور لاطینی امریکہ کی اقوام پر مسلط کی جانے والی مغربی طرزِ زندگی ہے، جہاں مقامی زبانوں، لباس، رسوم و رواج، اور مذہبی و اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر استعماری طاقتوں نے اپنی ثقافت کو برتر بنا کر پیش کیا۔ برصغیر میں برطانوی راج کے دوران تعلیمی نصاب کو اس انداز میں ڈھالا گیا کہ ہندوستانی باشندے اپنی تاریخ کو حقیر سمجھنے لگیں۔
لارڈ میکالے کی مشہور تقریر (۱۸۳۵) اس کی واضح مثال ہے، جس میں کہا گیا کہ ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرایا جائے جو ہندوستانیوں کو ذہنی طور پر انگریز بنا دے، تاکہ وہ اپنے ہی لوگوں پر حکمرانی کے لیے موزوں ہو جائیں ("Minute on Indian Education", Thomas Babington Macaulay, ۱۸۳۵) ۔
زبان کے میدان میں جدید غلامی کی سب سے بڑی علامت یہ دیکھی جا سکتی ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوں نے ترقی پذیر ممالک میں اپنی زبان کو لازمی قرار دیا اور مقامی زبانوں کو کم تر ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ الجیریا میں فرانسیسی حکمرانی کے دوران عربی زبان کو سرکاری سطح پر ممنوع قرار دے کر فرانسیسی کو نافذ کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج الجیریا کے کئی طبقات فرانسیسی زبان کے بغیر سرکاری اور تعلیمی امور انجام نہیں دے سکتے (Frantz Fanon, "The Wretched of the Earth", ۱۹۶۱) ۔
مغربی طرزِ زندگی کو ایک ترقی یافتہ ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا عمل میڈیا اور تفریحی ذرائع کے ذریعے مسلسل جاری ہے۔
ہالی وڈ کی فلموں میں مغربی لباس، طرزِ زندگی، اور انفرادی آزادی کو مثالی بنا کر دکھایا جاتا ہے، جبکہ مشرقی، اسلامی، اور روایتی اقدار کو دقیانوسی اور قدامت پسند ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب "Orientalism" (۱۹۷۸) میں تفصیل سے بیان کیا کہ کس طرح مغربی میڈیا اور علمی حلقے مشرق کو ایک پسماندہ، غیر ترقی یافتہ، اور جامد تہذیب کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ مغربی استعمار اور ثقافتی تسلط کو جواز فراہم کیا جا سکے۔
خاندانی نظام میں جدید غلامی کی مثال مغربی معاشرتی ڈھانچے کے نفوذ میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں انفرادیت اور خودمختاری کے نام پر خاندانی اجتماعیت کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ مغربی ماڈل کے تحت طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں، اور بوڑھے والدین کے لیے نرسنگ ہومز کا رواج ایسے عوامل ہیں جو ترقی پذیر ممالک میں بھی تیزی سے پھیلائے جا رہے ہیں۔
یونیسف اور عالمی بینک کی رپورٹس میں ذکر ملتا ہے کہ مغربی اثر و رسوخ کے باعث مشرقی ممالک میں خاندانی نظام کے روایتی ڈھانچے میں واضح کمزوری دیکھنے کو مل رہی ہے (World Bank, "World Development Report", ۲۰۱۲) ۔
تاریخی شعور کو مٹانے کی سب سے نمایاں مثال یہ ہے کہ آج کئی اسلامی اور مشرقی ممالک میں تعلیمی نصاب میں مقامی اور اسلامی تاریخ کی جگہ مغربی تاریخی بیانیہ غالب آ چکا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی میں کمال اتاترک نے تعلیمی نصاب کو مکمل طور پر سیکولر کر دیا، عربی رسم الخط کو ترک کر کے لاطینی رسم الخط اختیار کیا، اور اسلامی تاریخ کو پسِ پشت ڈال کر یورپی طرزِ تاریخ نویسی کو اپنایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترک قوم آہستہ آہستہ اپنی اسلامی شناخت سے بیگانہ ہوتی چلی گئی (Bernard Lewis, "The Emergence of Modern Turkey", ۱۹۶۱) ۔
میڈیا کے ذریعے جدید غلامی کی ایک اور شکل یہ ہے کہ فلموں، ڈراموں، اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر مغربی نظریات اور طرزِ زندگی کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ نوجوان نسل اسے اپنی ترقی کا معیار سمجھنے لگے۔
نیٹ فلکس اور ہالی وڈ کی فلموں میں ایک خاص بیانیہ چلایا جاتا ہے جس میں اسلامی ثقافت، حجاب، اور روایتی خاندانی نظام کو دقیانوسی دکھایا جاتا ہے، جبکہ آزاد خیالی اور مادر پدر آزادی کو ترقی کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نظریاتی جنگ محض تفریح کے دائرے تک محدود نہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب اور میڈیا میں آنے والی خبروں کے ذریعے بھی مسلط کی جاتی ہے (Noam Chomsky, "Manufacturing Consent", ۱۹۸۸) ۔
ثقافتی غلامی کے ان تمام پہلوؤں سے نکلنے کا واحد راستہ شعور اور آگہی پیدا کرنا ہے۔
زبان کی سطح پر خود مختاری کے لیے ضروری ہے کہ علمی، سائنسی، اور فکری مواد اپنی زبان میں تیار کیا جائے، جیسا کہ چین اور جاپان نے کیا، جس کی وجہ سے وہ ترقی یافتہ ہونے کے باوجود اپنی ثقافت پر قائم رہے۔ میڈیا میں متبادل بیانیہ قائم کرنے کے لیے اسلامی اور مشرقی اقدار کو جدید ذرائع ابلاغ میں مؤثر طریقے سے پیش کرنا ہوگا، تاکہ نوجوان نسل کو اپنے اصل تہذیبی ورثے سے جوڑا جا سکے۔
تاریخ کی درستگی کے لیے تعلیمی نصاب میں اپنی اصل روایات، علمی ورثے، اور تہذیبی کامیابیوں کو اجاگر کرنا ہوگا تاکہ مشرقی اقوام احساسِ کمتری سے نکل کر اپنی حقیقی شناخت کو پہچان سکیں۔ جب تک ان عملی اقدامات کو اپنایا نہیں جاتا، ثقافتی اور تہذیبی غلامی کا تسلط مزید بڑھتا رہے گا اور اقوام اپنی زبان، تاریخ، اور فکری آزادی سے ہمیشہ محروم رہیں گی۔
ثقافتی اور تہذیبی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم شعور اور آگہی پیدا کرنا ہے۔ جب تک لوگ اپنی تاریخ، زبان، اور تہذیب کی اصل حقیقت کو نہیں پہچانیں گے، وہ اس غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتے۔
اپنی زبان میں علمی اور فکری پیداوار کو فروغ دینا، روایتی اور دینی اقدار کو جدید چیلنجز کے مطابق پیش کرنا، اور استعماری بیانیے کے خلاف ایک متبادل تہذیبی بیانیہ قائم کرنا ہی اس غلامی سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جائیں گے، ثقافتی اور تہذیبی غلامی کا شکنجہ مزید سخت ہوتا چلا جائے گا، اور اقوام اپنی شناخت، خود مختاری، اور فکری آزادی سے ہمیشہ محروم رہیں گی۔
معیشت، کاروبار، اور بینکنگ کا شعبہ
معیشت، کاروبار، اور بینکنگ کے شعبے میں جدید غلامی ایک نہایت پیچیدہ مگر انتہائی منظم شکل میں موجود ہے، جہاں افراد، ادارے اور پوری قومیں غیر محسوس طریقے سے عالمی مالیاتی نظام کے جال میں جکڑی جاتی ہیں۔ یہ غلامی براہ راست جسمانی جبر کے بجائے ذہنی، نفسیاتی، اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے، تاکہ انسان خود کو بظاہر آزاد سمجھے، لیکن درحقیقت اس کی معاشی قسمت کا فیصلہ وہی استحصالی قوتیں کریں جو عالمی معیشت کے اصل مراکز پر قابض ہیں۔ آج کا عالمی اقتصادی نظام اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک اور عام شہری ایک مسلسل قرضوں، افراطِ زر، اور مصنوعی ضروریات کے چکر میں پھنستے چلے جائیں اور یوں وہ خود کو مالیاتی غلامی سے کبھی آزاد نہ کر سکیں۔
جدید مالیاتی نظام کا سب سے بڑا ہتھیار سودی معیشت ہے، جو بظاہر ترقی اور خوشحالی کے نام پر نافذ کی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی زنجیر ہے جو اقوام اور افراد کو ہمیشہ محتاج اور دستِ نگر رکھتی ہے۔ بینکنگ کا پورا ڈھانچہ اس سودی نظام پر قائم ہے، جہاں عام افراد گھروں، گاڑیوں، اور کاروبار کے لیے قرضہ لیتے ہیں، اور پھر برسوں تک سود کی شکل میں اصل رقم سے کئی گنا زیادہ ادا کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی ملکیت بینکوں کے پاس ہی رہتی ہے۔ اسی طرح، ترقی پذیر ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں سے قرض دیا جاتا ہے، لیکن وہ قرض ایسے شرائط کے ساتھ آتا ہے کہ ان ممالک کو اپنی معیشت، پالیسی سازی، اور قدرتی وسائل پر اختیار کھونا پڑتا ہے۔ یہ قرضے درحقیقت استعماری طاقتوں کے لیے ایک ایسا ذریعہ ہیں جس کے ذریعے وہ ممالک کو مستقل غلامی میں رکھ سکیں اور ان پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کر سکیں۔
عالمی تجارتی نظام بھی جدید غلامی کے ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک کو خام مال اور سستی مزدوری فراہم کرنے کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اصل منافع اور تجارتی برتری مغربی ممالک کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ترقی پذیر ممالک میں کارخانے قائم کر کے کم اجرت پر مزدوروں سے کام لیتی ہیں، جبکہ وہی مصنوعات مہنگے داموں مغربی مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہیں، اور یوں ان ممالک کے مزدور اور وسائل کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جدید کارپوریٹ نظام میں افراد کو صارفیت (consumerism) کا ایسا عادی بنا دیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ نئی اشیاء خریدنے کی دوڑ میں لگے رہیں، جس سے وہ قرضوں میں جکڑ جاتے ہیں اور بڑی کمپنیوں اور بینکوں کے مستقل محتاج بن جاتے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور عالمی تجارتی تنظیم بھی جدید غلامی کے نظام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کوئی ملک ان اداروں سے قرض لیتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کو ان کی شرائط کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے، جس میں اکثر نجکاری، سبسڈی کا خاتمہ، اور مقامی صنعتوں کی کمزوری شامل ہوتی ہے۔ نتیجتاً، یہ ممالک اپنی معیشت کو آزادانہ طور پر منظم نہیں کر سکتے اور انہیں ہر بڑے مالیاتی فیصلے کے لیے انہی عالمی اداروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، وہ ممالک جو اپنی معیشت کو خود مختار بنانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں مختلف اقتصادی پابندیوں اور تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ کبھی بھی عالمی مالیاتی اشرافیہ کے اثر و رسوخ سے باہر نہ جا سکیں۔
کرنسی کا استحصالی نظام بھی جدید غلامی کی ایک اہم شکل ہے، جہاں دنیا بھر کی معیشتوں کو امریکی ڈالر یا یورپی کرنسیوں پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ تیل، سونا، اور دیگر اہم اشیاء کی تجارت مخصوص عالمی کرنسیوں میں کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو ہمیشہ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ جب کبھی کوئی ملک اس مالیاتی نظام سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے اقتصادی پابندیوں، داخلی خلفشار، یا حتیٰ کہ فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ دوبارہ اسی نظام میں واپس آ جائے۔
کاروباری دنیا میں جدید غلامی کا ایک اور بڑا عنصر اجرتی غلامی (wage slavery) ہے، جہاں عام افراد اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملازمتوں میں گزار دیتے ہیں، لیکن انہیں کبھی بھی وہ مالی استحکام حاصل نہیں ہوتا جو ان کے حقیقی محنت کا صلہ ہونا چاہیے۔ کمپنیاں مزدوروں کو اس حد تک مصروف اور معاشی طور پر مجبور رکھتی ہیں کہ وہ اپنی معاشی بہتری کے لیے کوئی متبادل راستہ تلاش ہی نہ کر سکیں۔ بڑے کاروباری ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اجرتوں کو کم سے کم رکھنے کے لیے مختلف طریقے اپناتی ہیں، جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے مالی آزادی کا حصول تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
ڈیجیٹل معیشت کے میدان میں بھی جدید غلامی کے نئے طریقے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ آج بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں صارفین کی ذاتی معلومات اور ڈیٹا کو استعمال کر کے ان کے رویوں کو کنٹرول کرتی ہیں، اور انہیں مخصوص اشتہارات، مصنوعات، اور مالیاتی خدمات کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دے کر افراد کو کیش لیس معیشت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی خریداری، مالی فیصلے، اور اخراجات کا مکمل ڈیٹا ان طاقتور کمپنیوں اور حکومتوں کے پاس ہوگا، اور جب چاہیں کسی کو مالیاتی طور پر مفلوج کیا جا سکتا ہے۔
جدید غلامی کا ایک اور بڑا پہلو یہ ہے کہ افراد کو "امیر بننے" کا خواب دکھا کر انہیں ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں لگا دیا جاتا ہے، جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ محنت کریں گے، زیادہ سرمایہ کاری کریں گے، اور زیادہ قرض لیں گے تو وہ مالی طور پر مستحکم ہو جائیں گے۔
لیکن حقیقت میں، یہ نظام اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی مکمل مالی آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے بجائے، وہ مزید قرضوں، مزید اخراجات، اور مزید محنت میں الجھتے چلے جاتے ہیں، اور یوں وہ اپنی ساری زندگی اسی استحصالی معاشی ڈھانچے کی خدمت میں لگا دیتے ہیں۔
معیشت، کاروبار، اور بینکنگ کے شعبے میں جدید غلامی کی مختلف مثالیں تاریخی اور معاصر حوالوں سے واضح کی جا سکتی ہیں۔ تاریخ میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کیسے استعماری طاقتوں نے قرضوں اور تجارتی استحصال کے ذریعے اقوام کو غلام بنایا۔
مثال کے طور پر، برطانوی سامراج نے ہندوستان کی معیشت کو اس حد تک جکڑ لیا کہ مقامی صنعتیں ختم ہو گئیں اور برطانیہ سے درآمد شدہ اشیاء کی مانگ بڑھا دی گئی۔ گاندھی جی کی مشہور "سوتی تحریک" اسی معاشی غلامی کے خلاف مزاحمت کی علامت تھی، جس میں مقامی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تاکہ درآمدات پر انحصار کم ہو۔
جدید دور میں یہی استحصالی طریقے مالیاتی اداروں کے ذریعے جاری رکھے گئے ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے ترقی پذیر ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں، لیکن ان قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں جن کے تحت ان ممالک کو اپنی اقتصادی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔
ان میں سبسڈی کا خاتمہ، نجکاری، اور قومی وسائل کو بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے کھولنا شامل ہے۔ ایک مثال ۱۹۸۰ کی دہائی میں لاطینی امریکی ممالک کی ہے، جہاں آئی ایم ایف کے "اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام" کے نتیجے میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور عوامی سہولیات کو نجی اداروں کے سپرد کر دیا گیا۔
سودی نظام جدید مالیاتی غلامی کا سب سے بڑا ستون ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۔۔۔
" اور اگر تم (سود) نہ چھوڑو تو اللہ اور اس کے رسول (ص) سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ "(البقرہ ۲:۲۷۹)۔
یہ واضح کرتا ہے کہ سودی معیشت ایک ظالمانہ نظام ہے جو افراد اور اقوام کو مالیاتی غلام بناتا ہے۔
مثال کے طور پر، امریکہ میں ۲۰۰۸ کا مالی بحران بنیادی طور پر بینکوں کے دیے گئے سودی قرضوں کی وجہ سے آیا، جس میں لاکھوں افراد اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہو گئے، جبکہ بڑے بینکوں کو حکومتی امداد سے بچایا گیا۔ یہ سرمایہ دارانہ معیشت کے اس دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے جہاں عام آدمی خسارے میں رہتا ہے اور بڑے مالیاتی ادارے مستفید ہوتے ہیں۔
تجارتی استحصال کی ایک اور بڑی مثال افریقی ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فرانس نے اپنی سابقہ نوآبادیاتی ریاستوں پر ایک ایسا مالیاتی نظام نافذ کر رکھا ہے جس کے تحت وہ ان ممالک کی کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے اور انہیں زبردستی فرانسیسی خزانے میں اپنی دولت جمع کرانی پڑتی ہے۔ نتیجتاً، یہ ممالک حقیقی معنوں میں آزاد ہونے کے باوجود مالیاتی طور پر خود مختار نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح، نائجیریا جیسے ممالک کو تیل کی برآمد سے خاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے، لیکن اس کا بیشتر حصہ مغربی کمپنیوں کے منافع میں چلا جاتا ہے، جبکہ مقامی آبادی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہتی ہے۔
صارفیت کے کلچر کو فروغ دینا بھی جدید غلامی کا ایک بڑا حربہ ہے۔ آج کل لوگوں کو مختلف اشتہارات اور مارکیٹنگ مہمات کے ذریعے اس قدر قائل کر دیا جاتا ہے کہ وہ غیر ضروری اشیاء خریدنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہو جائیں۔ امریکہ میں کریڈٹ کارڈ انڈسٹری اسی بنیاد پر قائم ہے کہ لوگ ہر ماہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں صرف کرتے رہیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : "
قالَ عَلِىُّ عليه السلام: اِيّاكُمْ وَالدَّيْنَ؛ فَاِنَّهُ هَمٌّ بِاللَّيْلِ وَذُلٌّ بِالنَّهارِ
قرض غم کا باعث ہے " (نہج البلاغہ)۔
یہ حقیقت ہے کہ جب انسان مالی بوجھ تلے دب جائے تو وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کھو دیتا ہے۔
ڈیجیٹل معیشت میں بھی یہی استحصال جاری ہے۔ چین میں "سوشل کریڈٹ سسٹم" متعارف کرایا گیا، جہاں شہریوں کے مالی معاملات، سوشل میڈیا سرگرمی، اور رویے کو ایک اسکورنگ سسٹم میں شامل کر کے ان کی مالیاتی سہولیات کو محدود یا وسیع کیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کا اسکور کم ہو جائے تو اسے سفر، رہائش، یا ملازمت میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی ڈیجیٹل غلامی کی شکل ہے جس میں حکومتیں اور بڑی کمپنیاں افراد کی مالیاتی خود مختاری پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔
اگر کوئی ملک عالمی مالیاتی اشرافیہ کے تسلط سے نکلنے کی کوشش کرے تو اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ وینزویلا کی مثال لی جائے تو وہاں کی حکومت نے اپنی معیشت کو امریکی ڈالر سے آزاد کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے جواب میں امریکہ نے سخت پابندیاں لگا دیں، جس کی وجہ سے وہاں کے عوام کو غذائی اور طبی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران پر بھی معاشی پابندیاں اسی لیے عائد کی گئیں کہ وہ سودی مالیاتی نظام اور امریکی ڈالر کی اجارہ داری سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس استحصالی نظام سے بچنے کا واحد راستہ اسلامی معیشت کے اصولوں کو اپنانا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : "
لَنْ تَفْلَحَ أُمَّةٌ يَكْتَنِزُ أَمْوَالَهَا فِيهَا أُولُو قِلَّةٍ (او)
لَنْ تُرْقَى أُمَّةٌ يَتَحَكَّمُ فِي ثَرْوَاتِهَا قَلِيلُونَ
وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس میں دولت چند ہاتھوں میں محدود ہو " (مسند احمد)۔
اسلامی اقتصادی نظام سود سے پاک ہے، زکوٰۃ اور خمس کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم کرتا ہے، اور ذخیرہ اندوزی و اجرتی غلامی کو مسترد کرتا ہے۔ ایران میں بعض اسلامی مالیاتی ماڈلز متعارف کروائے گئے ہیں جن میں بینک بغیر سود کے قرضے فراہم کرتے ہیں، اور اسلامی کوآپریٹو بینکنگ کا نظام اپنایا گیا ہے تاکہ مالیاتی خود مختاری حاصل کی جا سکے۔
جب تک اقوام اپنی معیشت کو خود کفیل بنانے کے اقدامات نہیں کرتیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے تسلط سے نکلنے کے لیے مقامی صنعتی اور زرعی پیداوار کو فروغ نہیں دیتیں، اس وقت تک یہ جدید غلامی برقرار رہے گی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مالیاتی آزادی اور معاشی انصاف کے بغیر حقیقی آزادی کا حصول ممکن نہیں۔
اس سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ ایک متبادل معاشی نظام تشکیل دیا جائے جو سودی معیشت، استحصالی بینکنگ، اور صارفیت کے بجائے مقامی وسائل، اسلامی اقتصادی اصولوں، اور حقیقی معاشی خود مختاری پر مبنی ہو۔ خود کفالت کی پالیسیوں کو فروغ دینا، مقامی صنعتوں کو مضبوط کرنا، اور اسلامی مالیاتی نظام کو نافذ کرنا ہی وہ راستے ہیں جو اس جدید غلامی کے شکنجے سے نکلنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ جب تک اقوام اپنی معیشت کو خود مختار نہیں کریں گی اور عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کم نہیں کریں گی، اس وقت تک وہ حقیقی آزادی حاصل نہیں کر سکتیں۔ جدید غلامی صرف اس وقت ختم ہوگی جب مالیاتی، کاروباری، اور بینکاری کے شعبے میں استحصال کے بجائے انصاف، خود مختاری، اور مقامی ترقی کو بنیادی حیثیت دی جائے گی۔
صحت و ادویات کا شعبہ
صحت کے شعبے میں جدید غلامی ایک پیچیدہ اور گہرائی میں جکڑی ہوئی حقیقت ہے جو انسانی زندگی کے بنیادی حق، یعنی صحت و علاج، کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر چکی ہے۔ جدید دنیا میں صحت کی سہولیات بظاہر ترقی یافتہ ہو چکی ہیں، لیکن درحقیقت یہ سہولیات ایک ایسے استحصالی نظام کے تابع ہو گئی ہیں جہاں بیماریوں کا علاج مہنگے داموں بیچا جاتا ہے اور انسانوں کو تندرست رکھنے کے بجائے انہیں مسلسل دواؤں، مہنگے علاج، اور پیچیدہ میڈیکل سسٹم کا محتاج بنا دیا گیا ہے۔ اس استحصالی ڈھانچے میں صحت کو ایک بنیادی انسانی حق نہیں بلکہ ایک تجارتی سامان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کا مقصد لوگوں کو مکمل شفا دینے کے بجائے انہیں دائمی مریض بنا کر رکھنا ہے تاکہ وہ زندگی بھر اس سسٹم کے محتاج رہیں اور بڑی دوا ساز کمپنیوں، ہسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے جال میں پھنسے رہیں۔
جدید غلامی کی ایک شکل یہ ہے کہ بیماریوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے انہیں ایک طویل مدتی کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں نئی نئی بیماریوں کو دریافت کرنے، انہیں بڑے پیمانے پر پھیلانے، اور پھر انہی بیماریوں کے مہنگے علاج بیچنے میں ملوث ہیں۔ بہت سی بیماریاں جو ماضی میں عام اور سادہ علاج سے ٹھیک ہو جاتی تھیں، آج انہیں پیچیدہ اور مہنگا بنا دیا گیا ہے تاکہ مریض طویل عرصے تک دوا خریدنے پر مجبور رہے۔ تحقیق اور طبّی ترقی کو انسانیت کی فلاح کے بجائے کاروباری مفادات کے تابع کر دیا گیا ہے، جہاں صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دینے کے بجائے لوگوں کو ایسی غذا، ماحول اور عادات کی طرف دھکیلا جاتا ہے جو انہیں رفتہ رفتہ بیمار کر کے طبی صنعت کا مستقل گاہک بنا دے۔
خوراک اور صحت کے درمیان تعلق کو ایک منصوبہ بندی کے تحت استحصالی انداز میں استوار کیا گیا ہے۔ مصنوعی کھادوں، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک (GMO) ، کیمیکل ملے ہوئے مشروبات، فاسٹ فوڈ، اور غیر متوازن غذائیت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ لوگ کم عمری میں ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائیں اور دوا ساز کمپنیوں کے مستقل گاہک بن جائیں۔ کاربونیٹیڈ ڈرنکس، مصنوعی مٹھاس، اور پراسیسڈ فوڈ کی ایسی عادت ڈال دی جاتی ہے کہ لوگ ان سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکیں، اور یوں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، دل کی بیماریاں اور دیگر مہلک امراض تیزی سے عام ہو رہے ہیں۔ بڑی فوڈ کمپنیوں، فارماسیوٹیکل کارٹلز اور عالمی پالیسی سازوں کے درمیان ایک ایسا خفیہ گٹھ جوڑ ہے جس میں انسانوں کی صحت کو برباد کر کے انہیں دواؤں پر منحصر رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
بیماریوں کے علاج کو مہنگا کرنے کے علاوہ جدید غلامی کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ صحت کو انشورنس کمپنیوں، بڑے پرائیویٹ اسپتالوں اور مہنگے میڈیکل سسٹم کے ذریعے سرمایہ دارانہ شکنجے میں قید کر دیا گیا ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں طبی سہولیات اتنی مہنگی کر دی گئی ہیں کہ عام آدمی کے لیے علاج کروانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ صحت کا شعبہ اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں لوگ صحت مند رہنے کے بجائے بیمار ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ معمولی بیماری بھی ان کے مالی وسائل پر بھاری پڑ سکتی ہے۔ میڈیکل انشورنس کو اس انداز میں متعارف کروایا گیا ہے کہ لوگ ہر ماہ بھاری رقم ادا کریں، لیکن جب ضرورت پڑے تو انہیں پیچیدہ شرائط اور تاخیری حربوں کے ذریعے علاج سے محروم رکھا جائے۔
دوا ساز کمپنیوں کا کنٹرول صرف بیماریوں پر نہیں بلکہ تحقیق اور میڈیکل ایجوکیشن پر بھی گہرا ہو چکا ہے۔ میڈیکل کالجوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس میں ایسے نصاب کو فروغ دیا جاتا ہے جو قدرتی اور روایتی طریقہ علاج کو کمزور کر کے جدید فارماسیوٹیکل ادویات پر مکمل انحصار کو ضروری بنا دے۔ طبّی تحقیق میں فنڈنگ صرف ان تحقیقات کو دی جاتی ہے جو بڑی دوا ساز کمپنیوں کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہیں، جبکہ جڑی بوٹیوں، ہربل میڈیسن اور روایتی طریقہ علاج کو کمزور یا غیر مؤثر قرار دینے کے لیے منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ بہت سی ایسی بیماریاں جو سادہ اور سستے قدرتی طریقوں سے ٹھیک ہو سکتی ہیں، انہیں جدید دواؤں کے بغیر لاعلاج قرار دے دیا جاتا ہے تاکہ عوام کے پاس کوئی اور راستہ نہ رہے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور دیگر بین الاقوامی ادارے بظاہر صحت کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ادارے مخصوص کارپوریٹ مفادات کے تابع ہیں۔ ویکسینز، ادویات اور صحت کی پالیسیوں کو اسی انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ بڑی دوا ساز کمپنیوں کے مالی مفادات کو محفوظ رکھیں۔ وباؤں اور بیماریوں کا خوف پیدا کر کے نئی دوائیں اور ویکسینز کے لیے مصنوعی مارکیٹ بنائی جاتی ہے، جہاں حکومتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ان دواؤں کو عوام تک پہنچائیں، چاہے وہ کتنی ہی غیر ضروری یا غیر مؤثر کیوں نہ ہوں۔
جدید غلامی کی ایک اور شکل ذہنی صحت کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور مصنوعی ذہنی امراض پیدا کرنا ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کی درجہ بندی اور ان کے علاج کے طریقے اب بڑے پیمانے پر دوا ساز کمپنیوں کے اثر و رسوخ میں ہیں، جہاں ہر عام انسانی رویے کو کسی نہ کسی بیماری کے زمرے میں شامل کر کے اس کے لیے مخصوص دوائیں بیچی جاتی ہیں۔ اداسی، پریشانی، بے چینی اور نیند کی کمی جیسے مسائل جو پہلے انسانی زندگی کا معمولی حصہ سمجھے جاتے تھے، اب انہیں ایسے امراض قرار دیا جا رہا ہے جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں، اور ان کے علاج کے لیے بھاری مقدار میں اینٹی ڈپریسنٹ، اینٹی انزائٹی اور دیگر مہنگی دوائیں تجویز کی جا رہی ہیں، جو لوگوں کو مکمل شفا دینے کے بجائے انہیں ایک مستقل مریض بنا کر رکھتی ہیں۔
ہسپتالوں اور کلینکس میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مریضوں کو غیر ضروری ٹیسٹ، مہنگے علاج، اور بار بار چیک اپس کے جال میں پھنسا دیا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کریں۔ بڑے پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں کو اسٹریٹجک طریقے سے داخل کیا جاتا ہے اور ان کے علاج کو غیر ضروری طور پر طویل کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ بل وصول کیے جا سکیں۔ اس کے برعکس، غریب اور پسماندہ علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تاکہ بیماریاں جڑ سے ختم نہ ہوں اور لوگ ہمیشہ صحت کے شعبے میں سرمایہ دارانہ قوتوں کے محتاج رہیں۔
یہ پورا نظام انسان کی صحت کو ایک کاروباری ماڈل میں بدلنے کے لیے کام کر رہا ہے، جہاں بیماریاں ختم کرنے کے بجائے انہیں برقرار رکھا جاتا ہے، علاج فراہم کرنے کے بجائے بیماریوں کا خوف بیچا جاتا ہے، اور صحت مند زندگی کو ایک پرتعیش خواب بنا کر پیش کیا جاتا ہے جسے صرف امیر اور بااثر طبقہ ہی حاصل کر سکتا ہے۔ جدید غلامی کا یہ پہلو سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ یہ براہِ راست انسانی زندگی اور بقا سے جڑا ہوا ہے، اور جب تک یہ نظام قائم ہے، انسان صحت مند ہونے کے بجائے مزید بیمار ہوتا رہے گا، اور دوا ساز کمپنیاں، ہسپتال، انشورنس ادارے، اور بین الاقوامی صحت کے نام پر چلنے والی کمپنیاں اس غلامی کے شکنجے کو مزید سخت کرتی چلی جائیں گی۔
صحت کے شعبے میں استحصال کی حقیقت کو مختلف مثالوں اور حوالہ جات کے ذریعے واضح کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ میں دوا ساز کمپنیوں کی اجارہ داری اس حقیقت کی بڑی مثال ہے کہ صحت کے شعبے کو منافع بخش کاروبار میں بدل دیا گیا ہے۔ مشہور دوا ساز کمپنی Pfizer کی جانب سے Lipitor نامی کولیسٹرول کم کرنے والی دوا پر ۱۹۹۷ سے ۲۰۱۱ تک اجارہ داری رہی، اور اس دوران اس دوا سے تقریباً ۱۲۵ بلین ڈالر کا منافع کمایا گیا۔ یہ دوا مہنگے داموں بیچی گئی، جبکہ کولیسٹرول کم کرنے کے کئی قدرتی طریقے موجود ہیں جو مفت یا سستے ہیں، مگر انہیں عام کرنے کے بجائے دبانے کی کوشش کی گئی۔ (Reference: Statista, Pfizer's Revenue from Lipitor, ۲۰۲۱)
برطانیہ میں National Health Service (NHS) کو کئی بار مالی مشکلات کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ صحت کے نجی شعبے نے علاج کو مہنگا کر دیا ہے۔ Lancet کی ایک رپورٹ کے مطابق، ۲۰۱۹ میں NHS کو شدید مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ دواؤں اور علاج کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کا فائدہ بڑی دوا ساز کمپنیوں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو پہنچا، جبکہ عام عوام کو علاج کے لیے مہینوں قطار میں انتظار کرنا پڑا۔ (Reference: The Lancet, NHS Financial Struggles, ۲۰۱۹)
خوراک کے ذریعے صحت پر استحصال کا سب سے بڑا ثبوت Monsanto جیسی کمپنیوں کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (GMO) غذا کو فروغ دینا ہے۔ American Academy of Environmental Medicine (AAEM) کی ۲۰۰۹ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ GMO خوراک کے استعمال سے مختلف اقسام کے کینسر، معدے کے مسائل اور دیگر سنگین بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان مصنوعات کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ لوگ کم عمری میں ہی مختلف بیماریوں کے شکار ہو کر فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے محتاج بن جائیں۔ (Reference: AAEM, GMO and Health Risks, ۲۰۰۹)
ذیابیطس کے مریضوں کے علاج میں بھی یہی استحصالی حربے دیکھے جا سکتے ہیں۔ Insulin جو کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ناگزیر دوا ہے، اسے جان بوجھ کر مہنگا رکھا گیا ہے۔ Harvard Medical School کی ۲۰۲۰ کی ایک تحقیق کے مطابق، امریکہ میں انسولین کی قیمت پچھلے ۲۰ سال میں ۱۰۰۰ فیصد تک بڑھ چکی ہے، جس کی وجہ دوا ساز کمپنیوں کی اجارہ داری اور قیمتوں پر بے لگام کنٹرول ہے۔ (Reference: Harvard Medical School, Insulin Pricing, ۲۰۲۰)
ذہنی صحت کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ایک واضح مثال DSM (Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders) میں نئے نفسیاتی امراض کا اضافہ ہے۔ Allen Frances ، جو کہ DSM-IV کے چیف ایڈیٹر تھے، نے خود اعتراف کیا کہ DSM-۵ میں ایسی عام انسانی کیفیات کو بھی بیماریوں کے زمرے میں شامل کر دیا گیا ہے، جنہیں پہلے نارمل سمجھا جاتا تھا۔ ان میں Mild Cognitive Impairment اور Disruptive Mood Dysregulation Disorder جیسے نئے نام شامل ہیں، جن کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو غیر ضروری دوائیں تجویز کی جا رہی ہیں۔ (Reference: Allen Frances, Saving Normal, ۲۰۱۳)
صحت کے شعبے میں جدید غلامی کی اس شکل کا ایک اور پہلو غیر ضروری طبی ٹیسٹ اور مہنگے علاج ہیں۔ New England Journal of Medicine میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، امریکہ میں تقریباً ۳۰ فیصد طبی اخراجات غیر ضروری علاج اور ٹیسٹوں پر خرچ کیے جاتے ہیں ، جو کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے منافع میں اضافے کے لیے کروائے جاتے ہیں۔ (Reference: NEJM, Overuse of Medical Services, ۲۰۱۷)
ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید صحت کا نظام لوگوں کو تندرست رکھنے کے بجائے انہیں دائمی مریض بنانے اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری، ہسپتالوں، انشورنس کمپنیوں اور خوراک کے استحصالی نظام کے جال میں پھنسانے پر مبنی ہے۔ جب تک یہ نظام جاری رہے گا، صحت انسانوں کا بنیادی حق نہیں بلکہ ایک منافع بخش کاروبار بنا رہے گا۔
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کا شعبہ
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسی حقیقت ہے جسے اکثریت محسوس نہیں کرتی لیکن اس کے اثرات ہماری زندگیوں کے ہر پہلو پر مرتب ہوتے ہیں۔ میڈیا کے یہ دونوں شعبے آج کے دور میں رائے عامہ بنانے، خیالات کو کنٹرول کرنے، اور عوام کو مخصوص نظریات، طرزِ زندگی، اور رویوں کا عادی بنانے کے بنیادی ذرائع بن چکے ہیں۔ جدید غلامی کا یہ نظام براہ راست طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ نفسیاتی، معلوماتی، اور نظریاتی قابو پانے کے طریقوں سے نافذ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں افراد کو اپنی سوچ، ترجیحات، اور طرزِ عمل میں ایک خاص رخ پر چلنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
مین اسٹریم میڈیا کو چند بڑی کارپوریشنز، حکومتی ادارے، اور عالمی سیاسی و اقتصادی قوتیں کنٹرول کرتی ہیں، جو خبروں، تفریحی مواد، اور تجزیاتی پروگراموں کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو مخصوص بیانیے کا عادی بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
خبریں عام طور پر اس انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھا جائے اور انہیں ان معاملات پر مرکوز کیا جائے جو طاقتور گروہوں کے مفادات کے مطابق ہوں۔ جنگوں، سیاسی معاملات، اور معاشرتی موضوعات پر رپورٹس اکثر یکطرفہ ہوتی ہیں، جہاں مخصوص بیانیہ کو فروغ دیا جاتا ہے، جبکہ مخالف نظریات کو یا تو دبایا جاتا ہے یا انہیں منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے جھوٹے بحران پیدا کیے جاتے ہیں، مصنوعی خوف پھیلایا جاتا ہے، اور معاشرتی نفرت کو ہوا دی جاتی ہے، تاکہ عوام جذباتی طور پر قابو میں رہیں اور حکمران طبقے اپنی پالیسیوں کو آسانی سے نافذ کر سکیں۔
تفریحی صنعت بھی اس جدید غلامی کے منصوبے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فلمیں، ڈرامے، میوزک، اور دیگر تفریحی مواد اس انداز میں ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ عوام کی سوچ کو ایک خاص دائرے میں محدود کر دیں۔ ہالی وڈ اور دیگر بڑے میڈیا ہاؤسز کی تخلیقات میں ہمیشہ ایسے کردار، کہانیاں، اور نظریات پیش کیے جاتے ہیں جو مغربی ثقافت، سرمایہ دارانہ نظام، اور صارفیت کو فروغ دیتے ہیں۔ اسلامی اقدار، مشرقی روایات، اور مزاحمتی نظریات کو یا تو کمزور دکھایا جاتا ہے یا انہیں دقیانوسی اور پسماندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ عوام خود بخود ان سے دور ہو جائیں۔ فیشن، طرزِ زندگی، اور اخلاقیات کے ایسے نمونے دکھائے جاتے ہیں جو افراد کو مادہ پرستی، نفس پرستی، اور اخلاقی انحطاط کی طرف لے جاتے ہیں، تاکہ وہ اپنی فطری اقدار کو بھول کر سرمایہ دارانہ معیشت کے ایندھن میں تبدیل ہو جائیں۔
سوشل میڈیا کی شکل میں جدید غلامی کا ایک اور نہایت مؤثر ہتھیار متعارف کروایا گیا ہے، جس کے ذریعے افراد کو اس حد تک مشغول کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی حقیقی زندگی سے غافل ہو جائیں اور ایک مصنوعی، کنٹرول شدہ ڈیجیٹل دنیا میں اپنی شناخت تلاش کرنے لگیں۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، اور دیگر پلیٹ فارمز کو ایسے الگوردمز کے ذریعے ڈیزائن کیا گیا ہے جو صارفین کے رویوں، خیالات، اور رجحانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ افراد جو کچھ دیکھتے ہیں، جو کچھ پڑھتے ہیں، اور جس قسم کی معلومات ان تک پہنچتی ہیں، وہ سب کچھ سوشل میڈیا کے مالکان اور پس پردہ موجود اداروں کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ آزادی اظہار کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت ایسے خیالات اور مواد کو زیادہ پذیرائی دی جاتی ہے جو مخصوص نظریات اور نظام کو تقویت دیتے ہیں، جبکہ ان نظریات کو دبایا یا محدود کیا جاتا ہے جو اس بیانیے کے مخالف ہوں۔
سوشل میڈیا کا ایک بڑا استحصالی پہلو یہ ہے کہ صارفین خود اپنی ذاتی معلومات، خیالات، اور روزمرہ زندگی کی تفصیلات ان پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کرتے ہیں، جو بعد میں مارکیٹنگ، جاسوسی، اور نفسیاتی کنٹرول کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ لوگوں کی پسند و ناپسند، ان کے خیالات، ان کے رجحانات، یہاں تک کہ ان کے خوف اور کمزوریاں بھی سوشل میڈیا کمپنیوں کے پاس ایک ڈیٹا بیس کی صورت میں موجود ہوتی ہیں، جنہیں نہ صرف تجارتی مقاصد بلکہ سیاسی اور سماجی کنٹرول کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انتخابات میں عوامی رائے کو بدلنے، مظاہروں کو دبانے، اور مخصوص ایجنڈوں کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا ایک بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جہاں خودکار بوٹس، جعلی خبریں، اور نفسیاتی حربے عوام کو ایک خاص رخ پر لے جانے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔
ایک اور پہلو جس کے ذریعے سوشل میڈیا جدید غلامی کو فروغ دیتا ہے وہ افراد کو مستقل اسکرینز میں الجھا کر غیر پیداواری، ذہنی دباؤ کا شکار، اور اپنی حقیقی زندگی سے بے خبر رکھنا ہے۔ آج کا انسان حقیقت میں جو کچھ ہے، اس سے زیادہ وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کس طرح نظر آ رہا ہے۔ لوگ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات حقیقی خوشی کے بجائے سوشل میڈیا پر دکھاوے کے لیے گزارنے لگے ہیں، اور اپنی خودی، خود اعتمادی، اور فکری آزادی کو اسکرین کے پیچھے چھپے نامعلوم قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ چکے ہیں۔ نفسیاتی طور پر افراد کو لائکس، شیئرز، اور فالوورز کے ذریعے اس طرح قابو میں رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی سوچ اور اقدار کو پسِ پشت ڈال کر محض مقبولیت حاصل کرنے کے چکر میں مخصوص رویوں اور نظریات کو اپنانے لگتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے افراد کو مصنوعی مسائل میں الجھا کر اصل مسائل سے ہٹایا جاتا ہے۔ کسی ملک میں غربت، استحصال، اور ظلم و ناانصافی کے مسائل موجود ہوں، لیکن عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے کسی مشہور شخصیت کی شادی، کسی فلم کے ریلیز ہونے، یا کسی وائرل میم میں الجھا دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس شعبے میں غلامی کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مختلف تاریخی اور موجودہ مثالوں پر غور کرنا ہوگا جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے کس طرح خیالات کو قابو میں رکھا جاتا ہے اور افراد کو ایک خاص بیانیے کے تحت ڈھالا جاتا ہے۔
تاریخ میں، پروپیگنڈے کا سب سے بڑا استعمال دوسری جنگ عظیم کے دوران دیکھا گیا، جب نازی جرمنی میں جوزف گوئبلز نے میڈیا کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اخبارات، ریڈیو، اور فلموں کے ذریعے جرمن عوام کو اس بیانیے کا عادی بنایا گیا کہ ان کی نسل برتر ہے اور جنگ ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ جھوٹ کو بار بار دہرانے سے اسے سچ کے طور پر قبول کروا لیا گیا، اور عوام کو اس حد تک برین واش کر دیا گیا کہ وہ کسی بھی متبادل نظریے کو سننے کے لیے تیار نہ رہے۔ یہ بالکل وہی طریقہ ہے جو آج مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے اختیار کیا جاتا ہے، جہاں کسی بھی بڑے واقعے کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ عوام کو وہی سوچنے پر مجبور کیا جائے جو مقتدر حلقے چاہتے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں عراق جنگ ایک اور مثال ہے، جہاں مغربی میڈیا نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے بیانیے کو فروغ دیا، اور اس کے نتیجے میں ایک پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔ بعد میں یہ تسلیم کر لیا گیا کہ یہ بیانیہ غلط تھا، لیکن تب تک عوام کی رائے کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جا چکا تھا۔ یہ وہی طریقہ ہے جو آج مختلف ممالک میں اختیار کیا جاتا ہے، جہاں مین اسٹریم میڈیا عوام کو مخصوص نظریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے جھوٹے بحران پیدا کرتا ہے، مصنوعی خوف پھیلاتا ہے، اور ایسے بیانیے کو فروغ دیتا ہے جو صرف طاقتور حلقوں کے مفادات کے مطابق ہو۔
تفریحی صنعت کے ذریعے بھی اسی قسم کی ذہنی غلامی مسلط کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہالی وڈ کی فلموں میں ہمیشہ وہی بیانیہ دکھایا جاتا ہے جس میں مغربی تہذیب کو ترقی یافتہ اور باقی دنیا کو پسماندہ یا دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلموں میں جو بھی مسلم کردار دکھائے جاتے ہیں، وہ یا تو بنیاد پرست ہوتے ہیں یا مظلوم، جو مغربی "ہیروز" کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ناظرین لاشعوری طور پر ان نظریات کو سچ سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی اصل شناخت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ جدید غلامی کا ایک نفسیاتی پہلو ہے جس کے ذریعے افراد کو اپنی اقدار سے بیگانہ کر دیا جاتا ہے اور انہیں مغربی ثقافت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کا معاملہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے، کیونکہ یہ ہر فرد کو انفرادی سطح پر قابو میں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، فیس بک اور ٹوئٹر کے الگوردمز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صارف وہی مواد دیکھے جو اس کی پہلے سے بنی ہوئی رائے کو مزید مضبوط کرے۔ اگر کوئی شخص کسی مخصوص سیاسی یا سماجی نظریے کا حامی ہے، تو اسے اسی نظریے سے متعلق پوسٹس، ویڈیوز، اور خبریں زیادہ دکھائی جاتی ہیں، تاکہ وہ کسی دوسرے نظریے کو جاننے یا سمجھنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اس طرح ایک "ایکو چیمبر" بن جاتا ہے جہاں افراد صرف اپنی پسند کے خیالات میں قید ہو جاتے ہیں، اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے نظریے کے علاوہ کوئی اور سچائی موجود ہی نہیں۔ اس کا فائدہ سیاستدانوں، کارپوریٹ اداروں، اور میڈیا مالکان کو ہوتا ہے، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ایک اور مثال "کیملبریج اینالیٹیکا" اسکینڈل کی ہے، جس میں یہ انکشاف ہوا کہ کس طرح لاکھوں افراد کا ڈیٹا چوری کر کے ان کے نفسیاتی رجحانات کو سمجھا گیا اور پھر ان کے خیالات کو ایک خاص سمت میں موڑنے کے لیے مخصوص اشتہارات اور خبریں ان تک پہنچائی گئیں۔ اس کے ذریعے کئی ممالک کے انتخابات پر اثر ڈالا گیا، اور عوام کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ ان کی آرا اور خیالات مصنوعی طریقے سے بنائے جا رہے ہیں۔ یہی وہ جدید غلامی ہے جو براہ راست طاقت کے بجائے نفسیاتی، معلوماتی، اور نظریاتی طریقوں سے مسلط کی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ افراد اپنی نجی زندگی کو خود ان پلیٹ فارمز پر عام کرتے ہیں، اور ان کی معلومات بعد میں ان پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ گوگل، فیس بک، انسٹاگرام، اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہمارے سرچ ہسٹری، دلچسپیوں، حتیٰ کہ جذباتی رجحانات کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور پھر ان معلومات کو اشتہارات، سیاسی مہمات، اور سماجی کنٹرول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ افراد کو یہ لگتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر آزاد ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ایک ایسی فضا میں قید ہوتے ہیں جہاں ان کے خیالات، پسند و ناپسند، اور یہاں تک کہ جذبات بھی مکمل طور پر کنٹرول کیے جا رہے ہوتے ہیں۔
یہی استحصالی نظام اس وقت مزید خطرناک ہو جاتا ہے جب سوشل میڈیا کے ذریعے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی ملک میں غربت، کرپشن، یا حکومتی جبر کے خلاف کوئی تحریک جنم لے، تو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی توجہ کسی غیر ضروری موضوع کی طرف مبذول کروا دی جاتی ہے۔ کہیں کسی مشہور شخصیت کی شادی موضوعِ بحث بنا دی جاتی ہے، کہیں کوئی وائرل ویڈیو عوامی سوچ پر حاوی ہو جاتی ہے، اور کہیں کسی بے معنی تنازعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ اصل مسائل کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو قدیم روم میں "بریڈ اینڈ سرکس" کے نام سے جانی جاتی تھی، جہاں عوام کو روٹی اور تماشوں میں الجھا کر سیاسی اور سماجی معاملات سے بے خبر رکھا جاتا تھا۔
یہ تمام مثالیں واضح کرتی ہیں کہ جدید غلامی اب زنجیروں کے ذریعے نہیں بلکہ میڈیا اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے۔ اگر اس نظام سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے، تو وہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب افراد اپنی فکری آزادی کو بحال کریں، معلومات کو صرف سطحی طور پر قبول کرنے کے بجائے ان کا تنقیدی تجزیہ کریں، اور میڈیا کے ہر بیانیے کو عقل و شعور کے ساتھ پرکھیں۔ جب تک عوام اپنی سوچ پر قابو نہیں پائیں گے اور اپنی معلومات کا ذریعہ خود نہیں بنائیں گے، وہ اس نفسیاتی اور نظریاتی غلامی کے چنگل میں پھنسے رہیں گے۔
ان معاملات پر غور نہ کریں جو ان کی حقیقی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب کبھی کوئی مزاحمتی تحریک یا نظریہ عوام میں مقبول ہونے لگتا ہے، تو سوشل میڈیا کمپنیوں کی طرف سے اس کی رسائی محدود کر دی جاتی ہے، اس کے خلاف جعلی پروپیگنڈا چلایا جاتا ہے، اور اسے متنازع بنا کر کمزور کر دیا جاتا ہے۔
یہ پورا نظام اس انداز میں تشکیل دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو بظاہر آزاد محسوس کریں لیکن درحقیقت وہ ایک ایسے نفسیاتی اور معلوماتی قید خانے میں رہیں جہاں ان کے خیالات، نظریات، اور طرزِ زندگی کو مکمل طور پر قابو میں رکھا جا سکے۔ جدید غلامی کا یہ نظام صرف میڈیا کے ذریعے نافذ نہیں ہوتا، بلکہ میڈیا کو دیگر استحصالی شعبوں کے ساتھ جوڑ کر کام میں لایا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت، سیاست، تعلیم، اور ثقافت کے ساتھ مل کر مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو ایک ایسا ہتھیار بنا دیا گیا ہے جو عوام کے ذہنوں کو قابو میں رکھنے، ان کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے، اور انہیں ایک مصنوعی آزادی کے دھوکے میں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اس غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنی فکری خود مختاری کو بحال کریں، ذرائع ابلاغ کی حقیقت کو سمجھیں، اور ان پلیٹ فارمز کو بغیر سوچے سمجھے استعمال کرنے کے بجائے شعوری طور پر اپنا وقت اور ذہنی توانائی صرف کریں۔ جب تک لوگ میڈیا کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے اور اس کے اثرات سے خود کو آزاد نہیں کریں گے، اس وقت تک وہ جدید غلامی کے شکنجے میں جکڑے رہیں گے۔
کھیل اور تفریح کا شعبہ
کھیل اور تفریح کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسا پیچیدہ اور گہرائی میں اثر انداز ہونے والا نظام ہے جو نہ صرف لوگوں کی توجہ، توانائی اور جذبات کو قابو میں رکھتا ہے بلکہ اسے مخصوص نظریات، طرزِ زندگی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کے تابع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شعبہ بظاہر معصومانہ تفریح اور صحت مند جسمانی سرگرمیوں کا ذریعہ معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے ایک ایسا استحصالی ڈھانچہ کارفرما ہے جو ذہنوں کو مسخر کرنے، نظریاتی اور فکری وابستگی کو مخصوص سمت دینے اور افراد کو مصنوعی مسابقت میں الجھا کر حقیقی مسائل سے دور رکھنے کے لیے کام کرتا ہے۔
کھیل کی صنعت کو عالمی سطح پر چند طاقتور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے کاروباری اداروں نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، جو ہر بڑے ایونٹ، کھلاڑیوں کی مارکیٹنگ، کھیلوں کے اصولوں اور ان کے معاشی فوائد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جدید کھیلوں کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف افراد کی جسمانی سرگرمی تک محدود رہیں بلکہ ان کے جذبات، شناخت اور نظریات پر بھی اثر انداز ہوں۔ اسپورٹس لیگز، عالمی مقابلے، اور بین الاقوامی ٹورنامنٹس کو ایسی حکمت عملی کے ساتھ ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا کر ایک ایسی دنیا میں مرکوز کر دیں جہاں وہ اپنے تمام جذبات، وابستگی اور توانائی کو ان کھیلوں میں جھونک دیں، جبکہ پس پردہ طاقتیں اپنے عزائم کی تکمیل میں مصروف رہیں۔
کھلاڑیوں کو سپر اسٹارز اور رول ماڈلز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ نہ صرف کھیل بلکہ طرزِ زندگی، فیشن، خیالات اور معاشرتی رجحانات کے حوالے سے عوام کے لیے راہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ ایک عام فرد کے لیے ان کھلاڑیوں کی کامیابیاں، ان کا طرزِ زندگی، ان کی برانڈ ایمبیسڈرشپ اور ان کا سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑا ہونا ایک ایسا خواب بنا دیا جاتا ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنی اصل زندگی کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ کھیلوں کے ذریعے ایک عام نوجوان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ بھی اگر اسی طرح محنت کرے، انہی برانڈز کو اپنائے، اور اسی نظریاتی سانچے میں ڈھل جائے تو وہ بھی انہی کامیابیوں کو حاصل کر سکتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ پورا نظام مخصوص طبقات اور اداروں کے لیے کام کرتا ہے، جہاں صرف منتخب افراد کو اوپر لے جا کر باقی عوام کو ایک خواب دکھایا جاتا ہے تاکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے جال میں مزید پھنستے چلے جائیں۔
تفریحی کھیلوں، ویڈیو گیمز، اور ای سپورٹس کے ذریعے نوجوان نسل کو ایک ایسے مصنوعی مسابقتی ماحول میں دھکیل دیا جاتا ہے جہاں ان کی ذہنی اور جسمانی توانائی بے مقصد مقابلوں میں ضائع ہو جاتی ہے۔ آج کے نوجوان کو حقیقی سماجی اور فکری جدوجہد کی بجائے آن لائن گیمز، اسپورٹس بیٹنگ، اور تفریحی ایونٹس میں اس حد تک الجھا دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مقاصد سے غافل ہوتا جا رہا ہے بلکہ وہ ایک ایسی ورچوئل دنیا میں کھو رہا ہے جو اسے حقیقت سے دور کر کے محض جذباتی تسکین فراہم کرتی ہے۔ بڑی کارپوریشنز اور میڈیا کمپنیاں ویڈیو گیمز اور آن لائن تفریحی پلیٹ فارمز کو اس انداز میں ڈیزائن کر رہی ہیں کہ وہ نوجوانوں کی توجہ، ذہنی صلاحیت، اور فکری آزادی کو سلب کر کے انہیں ایک ایسے دائرے میں قید کر دیں جہاں وہ کنٹرول کیے جا سکیں۔
بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جہاں مختلف ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف مسابقت میں الجھا کر قومی تعصب، فرقہ واریت، اور دشمنی کو بڑھایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر کھیلوں کے ذریعے اس بات کو فروغ دیا جاتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم سے برتر ہے، یا ایک مخصوص طرزِ زندگی اور نظریہ زیادہ کامیاب اور مقبول ہے۔ اسپورٹس ڈپلومیسی کے نام پر مختلف ممالک کے تعلقات، سفارتی حکمت عملیاں، اور عوامی جذبات کو کھیلوں کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ ممالک کو کھیلوں کے ذریعے ترقی یافتہ اور مہذب دکھایا جاتا ہے، جبکہ دیگر کو پسماندہ اور کمزور بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ دنیا میں طاقت کے توازن کو ایک خاص سمت میں رکھا جا سکے۔
کھیلوں اور تفریح کے ذریعے ایک ایسی صارفیت (consumerism) کو فروغ دیا جاتا ہے جس میں عوام غیر ضروری چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے کو اپنی سماجی شناخت کا لازمی حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ بڑے اسپورٹس ایونٹس میں برانڈز، کارپوریٹ اسپانسرشپ، اور مارکیٹنگ کے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں جو لوگوں کو ایک غیر حقیقی طرزِ زندگی کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کھیلوں کی یونیفارمز، برانڈڈ جوتے، مشروبات، فیشن آئٹمز اور دیگر مصنوعات کو اس حد تک گلیمرائز کیا جاتا ہے کہ وہ صرف کھیل سے منسلک نہ رہیں بلکہ ایک سماجی شناخت کا حصہ بن جائیں۔ یوں عوام کی ذہنیت کو اس انداز میں ڈھال دیا جاتا ہے کہ وہ کھیل کو ایک تفریحی سرگرمی سمجھنے کے بجائے اپنی سماجی حیثیت اور طرزِ زندگی کی بنیاد بنانے لگیں، جس سے سرمایہ دارانہ نظام کا دائرہ مزید مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔
تفریحی صنعت میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ افراد کو ایسی تفریح فراہم کی جائے جو انہیں سماجی اور سیاسی شعور سے دور رکھے۔ ہالی وڈ کی فلمیں، نیٹ فلکس سیریز، اور دیگر تفریحی مواد اس انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ افراد کو معاشرتی ناہمواریوں، استحصالی نظام، اور سیاسی شعور سے بے نیاز کر کے محض وقتی تسکین میں مبتلا کر دے۔ آج کا انسان حقیقی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر غور کرنے کے بجائے فکشن، فینٹسی، اور غیر حقیقی دنیا میں اپنی شناخت اور مقصد تلاش کر رہا ہے، جس سے وہ نہ صرف اپنے حقیقی حقوق سے بے خبر ہو جاتا ہے بلکہ ان استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بھی کھو بیٹھتا ہے۔
کھیل اور تفریح کے شعبے میں جدید غلامی کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ وہ افراد کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہونے دیتی کہ وہ غلامی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی پسند سے کھیل دیکھ رہے ہیں، اپنی مرضی سے تفریحی مواد کا انتخاب کر رہے ہیں، اور اپنی خواہش کے مطابق ان سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، جبکہ درحقیقت ان کے انتخاب، ترجیحات، اور جذبات کو ایک خاص سمت میں ڈھالا جا رہا ہے تاکہ وہ غیر محسوس طریقے سے مخصوص نظریات، سرمایہ دارانہ سوچ، اور استحصالی قوتوں کے اثر و رسوخ میں آ جائیں۔ یہی جدید غلامی کی سب سے پیچیدہ اور مؤثر شکل ہے، جس میں افراد کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا جاتا کہ وہ کنٹرول کیے جا رہے ہیں، بلکہ انہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ آزاد ہیں اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزار رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ ایک منظم اور کنٹرول شدہ نظام کے تابع ہوتے جا رہے ہیں۔
کھیل اور تفریح کے شعبے میں جدید غلامی کی ایک نمایاں مثال اولمپکس جیسے بڑے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے ہیں، جہاں ممالک کو قومی وقار کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے۔ اولمپکس کے دوران نہ صرف کھلاڑیوں کو بلکہ پوری قوموں کو ایک ایسی نفسیاتی جنگ میں جھونک دیا جاتا ہے جس میں ہر ملک اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے جذباتی طور پر مشغول ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں، میڈیا کا کردار بھی اہم ہے، جو ان مقابلوں کو ایک قومی فریضہ بنا کر پیش کرتا ہے، جبکہ درحقیقت یہ کھیل بڑے تجارتی اداروں کے معاشی مفادات کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ قرآن کریم میں اس قسم کی غیر ضروری مسابقت اور دکھاوے کے رجحان کو غیر مفید قرار دیا گیا ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التکاثر میں فرماتے ہیں :
" أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (سور ۃ التکاثر: ۱-۲)،
یعنی تمہیں ایک دوسرے پر بڑھ جانے کی ہوس نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔
دوسری مثال اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کیسے عالمی اسپورٹس لیگز کو ایک مخصوص طرزِ زندگی اور نظریات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فٹبال کی عالمی لیگز، جیسے کہ انگلش پریمیئر لیگ اور چیمپئنز لیگ، کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ محض کھیل کے میدان تک محدود نہ رہیں، بلکہ وہ ایک خاص ثقافت، فیشن اور برانڈنگ کے فروغ کا ذریعہ بن جائیں۔
یہ لیگز نوجوانوں میں مخصوص برانڈز کے جوتے، یونیفارم، اور دیگر مصنوعات کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، جس سے سرمایہ دارانہ نظام مزید مستحکم ہوتا ہے۔
اس حوالے سے امام علی علیہ السلام کا فرمان قابلِ غور ہے :
" الناس عبید الدنيا، والدين لعق على ألسنتهم، يحوطونه ما درّت معايشهم، فإذا محّصوا بالبلاء قلّ الديّانون " (نه ج البلاغ ه ، ال حکم ه ۳۱) ،
یعنی لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبان پر صرف ایک چاشنی کی طرح ہے، جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو دین دار بہت کم رہ جاتے ہیں۔
ای سپورٹس اور ویڈیو گیمز کی دنیا میں بھی یہی جدید غلامی نظر آتی ہے، جہاں نوجوانوں کو مصنوعی مسابقت میں الجھا دیا جاتا ہے۔ مشہور آن لائن گیمز، جیسے PUBG ، Fortnite اور Call of Duty ، نوجوان نسل کو ایک ایسے دائرے میں قید کر دیتی ہیں جہاں وہ حقیقی دنیا کے مسائل سے بالکل کٹ جاتے ہیں اور ان کی تمام ذہنی صلاحیتیں محض گیم میں جیتنے یا رینک بڑھانے میں صرف ہو جاتی ہیں۔
اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے :
" إياكم و اللهو فإنّه ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع " (الکافی، ج ۲، ص ۲۳۶)
یعنی کھیل تماشے سے بچو کیونکہ یہ دل میں نفاق کو اس طرح اگاتا ہے جیسے پانی کھیت میں سبزہ اگاتا ہے۔
عالمی سطح پر کھیلوں کے ذریعے قوموں میں تعصب اور فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے، جس کی ایک مثال بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے مقابلے ہیں۔ یہ میچز محض کھیل نہیں رہتے بلکہ دونوں ممالک میں شدید قومی تعصب اور دشمنی کو بھڑکانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ میڈیا ان مقابلوں کو جنگی ماحول میں پیش کرتا ہے، اور عوام کو ایک ایسی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ حقیقت میں درپیش مسائل، جیسے کہ غربت، بے روزگاری، اور سماجی ناہمواریوں، کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
" وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ "(سورۃ الأنفال: ۴۶)،
یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری طاقت ختم ہو جائے گی۔
تفریحی صنعت میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو ہالی وڈ کی فلموں اور نیٹ فلکس کی سیریز میں نظر آتا ہے، جہاں مخصوص بیانیے اور نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ فلموں میں ایسے کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ حقیقی سماجی تبدیلی کے لیے کام کرنے والوں کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا انہیں باغی اور خطرناک عناصر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے
۔ اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
" ما أكثر العبر وأقل الاعتبار " (نه ج البلاغ ه ، ال حکم ه ۲۹۷) ،
یعنی عبرت کے مواقع تو بہت زیادہ ہیں مگر ان سے نصیحت حاصل کرنے والے بہت کم۔
یہ تمام مثالیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کھیل اور تفریح کے شعبے میں جدید غلامی ایک غیر محسوس مگر انتہائی طاقتور نظام ہے، جو افراد کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ ایک استحصالی ڈھانچے کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف لوگوں کی توجہ اور توانائی کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ انہیں ایسی دنیا میں الجھا دیتا ہے جہاں وہ اپنی حقیقی آزادی اور شعور سے محروم ہو جاتے ہیں۔
مذہب کا شعبہ
مذہبی شعبے میں جدید غلامی سب سے زیادہ نازک اور پیچیدہ انداز میں کام کرتی ہے، کیونکہ یہ براہ راست عقائد، عبادات، اور دینی افکار کو متاثر کرتی ہے۔ یہ غلامی افراد کو ظاہری طور پر دین کے قریب رکھتی ہے، لیکن ان کے فہم اور دینی شعور کو اس نہج پر لے جاتی ہے کہ وہ اصل روح سے محروم ہو کر ایک مخصوص بیانیے کے اسیر بن جائیں۔ استعماری طاقتیں براہ راست مذہب پر حملہ کرنے کے بجائے ایسے نظریات، شخصیات، اور ادارے پروان چڑھاتی ہیں جو دین کی نئی تشریحات پیش کریں، دین کو ایک رسمی عمل میں محدود کر دیں، یا اسے سیاسی اور معاشرتی زندگی سے بالکل جدا کر دیں۔ اس غلامی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دینی طبقے کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے فرقہ واریت کو ہوا دی جائے، تاکہ مسلمان آپس میں ہی الجھتے رہیں اور اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچاننے سے قاصر رہیں۔
دین کی تعبیر و تشریح کے معاملے میں جدید غلامی اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ یا تو اسلام کو بالکل ہی قدامت پرستی اور پسماندگی سے جوڑ دیا جاتا ہے، یا پھر اسے اس قدر نرم اور لبرل بنا دیا جاتا ہے کہ وہ استعماری طاقتوں کے سماجی اور سیاسی ایجنڈے سے متصادم نہ رہ
ے۔ استشراق اور مغربی دانش گاہیں ایسے علما، اسکالرز، اور مفکرین کو فروغ دیتی ہیں جو دین کی ایسی تشریحات پیش کریں جو مغربی افکار اور اقدار کے لیے خطرہ نہ بنیں، بلکہ الٹا انہیں تقویت دیں۔ ایسے خیالات متعارف کرائے جاتے ہیں جن کے تحت جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اور اسلامی معاشرتی اصولوں کو شدت پسندی اور رجعت پسندی سے تعبیر کیا جائے، جبکہ ہر وہ تصور جو اسلام کی اجتماعی قوت کو مضبوط کرتا ہو، اسے متنازع بنا دیا جائے۔ اس کے برعکس ایسے تصورات کو عام کیا جاتا ہے جو دین کو محض ایک انفرادی اور نجی عمل تک محدود کر دیں، تاکہ وہ ایک اجتماعی، انقلابی، اور عملی نظام کے طور پر سامنے نہ آئے۔
دینی تعلیمی اداروں کو بھی اس غلامی کے تحت مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر انہیں ریاست کے مکمل کنٹرول میں دے دیا جاتا ہے، تاکہ ان کے نصاب اور طریقہ تدریس کو حکومتی پالیسیوں کے مطابق ڈھالا جا سکے، اور بعض جگہ انہیں اس قدر تنہا کر دیا جاتا ہے کہ وہ جدید دنیا سے کٹ کر غیر مؤثر ہو جائیں۔ دینی نصاب میں بھی ایسا مواد شامل کیا جاتا ہے جو طلبہ کو صرف رسمی علوم تک محدود رکھے، لیکن انہیں جدید فکری چیلنجز اور عالمی سازشوں سے بے خبر رکھے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف ایسے علما پیدا ہوتے ہیں جو جدید دور کے مسائل کا اسلامی حل پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اور دوسری طرف ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو دین کو صرف کتابی یا ماضی کا ایک قصہ سمجھ کر جدیدیت اور مغربی افکار کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔
عبادات کے دائرے میں جدید غلامی کا ایک پہلو یہ ہے کہ دین کے ظاہری پہلوؤں پر تو بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، لیکن اس کی روح اور فلسفے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ عبادات کو محض ایک رسمی عمل بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جس کا مقصد صرف ذاتی نجات یا اخروی فلاح ہو، لیکن ان عبادات کے وہ پہلو جن سے معاشرتی انقلاب، اجتماعی بیداری، اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا درس ملتا ہے، انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح دین کو ایک غیر متحرک اور غیر انقلابی مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ موجودہ عالمی استحصالی نظام کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکے۔
مذہبی قیادت کے دائرے میں بھی جدید غلامی کا جال بڑی ہوشیاری سے بچھایا جاتا ہے۔
بعض علما اور مذہبی شخصیات کو جان بوجھ کر میڈیا کے ذریعے مشہور کیا جاتا ہے، تاکہ وہ دین کی ایسی تشریح کریں جو عالمی طاقتوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔ بعض دینی رہنماؤں کو مالی اور سیاسی مفادات میں الجھا دیا جاتا ہے، تاکہ وہ استعماری طاقتوں کے خلاف کوئی مضبوط موقف نہ لے سکی
ں۔ اس کے برعکس جو علما اور اسکالرز حقیقی دینی بیداری کی کوشش کرتے ہیں، انہیں شدت پسند، انتہا پسند، یا متنازع قرار دے کر الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے، تاکہ عوام ان کے افکار سے متاثر نہ ہو سکیں۔
مساجد اور دینی اجتماعات کو بھی اس غلامی کے تحت مخصوص دائرے میں محدود کر دیا جاتا ہے۔
جہاں ممکن ہو، وہاں ریاستی کنٹرول کے ذریعے خطبات اور دینی بیانیے کو مخصوص پالیسیوں کے مطابق ڈھال دیا جاتا ہے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو، وہاں ایسے نظریاتی اور فکری رجحانات کو فروغ دیا جاتا ہے جو عوام کو صرف انفرادی اصلاح اور روحانی مشقوں میں الجھائے رکھیں، لیکن انہیں اجتماعی فکری و عملی بیداری کی طرف نہ لے جائیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دین ایک زندہ اور متحرک قوت بننے کے بجائے محض ایک ذاتی عقیدہ اور روحانی مشق کا درجہ اختیار کر لیتا ہے، جو سماجی و سیاسی تبدیلی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔
مذہبی تہواروں، اعمال، اور رسوم کو بھی جدید غلامی کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یا تو انہیں سطحی اور تجارتی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، تاکہ لوگ ان کے حقیقی پیغام سے غافل ہو جائیں، یا پھر ان میں ایسے غیر ضروری اور اختلافی پہلو داخل کیے جاتے ہیں جو فرقہ واریت کو بڑھا کر مسلمانوں کو تقسیم کر دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، بعض روایات اور اعمال کو انتہا پسندی یا دقیانوسیت سے جوڑ کر ان پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف ایسی رسومات کو فروغ دیا جاتا ہے جو دین کے نام پر ہو کر بھی درحقیقت لوگوں کو اس کی اصل روح سے دور کر دیں۔
یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جہاں مذہب بظاہر موجود رہتا ہے، لیکن اس کی روح، مقصد، اور اجتماعی اثر ختم کر دیا جاتا ہے۔ دین کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر اپنانے کے بجائے اسے یا تو صرف انفرادی عبادات تک محدود کر دیا جاتا ہے، یا پھر اسے مکمل طور پر جدید مغربی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جدید غلامی کے اثرات مذہبی شعبے میں کئی سطحوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب دین کی ایسی تشریحات پیش کی جاتی ہیں جو محض رسمی عبادات تک محدود ہوں، تو اس کے نتائج تاریخ میں واضح نظر آتے ہیں۔
اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے دور میں مذہبی قیادت کا ایک طبقہ ایسا پیدا ہوا جو صرف ظاہری عبادات کو اصل دین سمجھتا تھا، لیکن ان عبادات کے انقلابی اور اجتماعی پہلو کو نظر انداز کر چکا تھا۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ جب اسپین میں عیسائی استبداد نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی، تو امت کی اجتماعی طاقت منتشر ہو چکی تھی، کیونکہ دین کو ایک زندہ قوت کے طور پر اپنانے کے بجائے اسے محض ایک رسمی روایت بنا دیا گیا تھا۔
اسی طرح، جدید دور میں بعض اسلامی ممالک میں دینی نصاب کو اس انداز میں ترتیب دیا گیا کہ وہ طلبہ کو موجودہ عالمی مسائل کے اسلامی حل پیش کرنے کی بجائے، محض قدیم فقہی اختلافات میں الجھا دے۔
اس کا ایک نمایاں مثال مصر میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں استعماری طاقتوں نے بعض مخصوص فقہی مکاتب فکر کی سرپرستی کی اور انہیں ایسے علمی دائرے میں محدود کر دیا جہاں وہ صرف روایتی مسائل پر بات کریں، لیکن سماجی ناانصافی، معاشی استحصال اور استعماری پالیسیوں کے خلاف کوئی مزاحمتی کردار ادا نہ کر سکیں۔
اسلامی تعلیمات کو مغربی ایجنڈے کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں کا ایک بڑا نمونہ وہ تحریکیں ہیں جو اسلامی اصولوں کو اس انداز میں پیش کرتی ہیں کہ وہ مغربی اقدار سے متصادم نہ ہوں۔ مثال کے طور پر، استشراقی دانش گاہوں میں اسلام کے ایسے بیانیے کو فروغ دیا جاتا ہے جس میں جہاد کو ایک خالصتاً دفاعی عمل کے طور پر پیش کیا جائے، یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فرد کی ذاتی اصلاح تک محدود کر دیا جائے۔ یہ رویہ اس کے برعکس ہے جو امام حسینؑ کے قیامِ کربلا میں نظر آتا ہے، جہاں دین کو ایک اجتماعی قوت کے طور پر منوایا گیا اور ظلم کے خلاف قیام کو اس کا لازمی حصہ بتایا گیا۔
مساجد اور دینی اجتماعات کو جدید غلامی کے تحت مخصوص دائرے میں محدود کرنے کا ایک اور مظہر سعودی عرب میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں خطبات اور دینی بیانیے کو مکمل طور پر ریاستی پالیسیوں کے تابع کر دیا گیا۔ وہاں کے سرکاری علما کسی بھی ایسے موقف سے اجتناب کرتے ہیں جو عالمی استعماری طاقتوں یا حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہو۔ اس کے برعکس، جو علما اسلامی مزاحمت یا خود مختاری کی بات کرتے ہیں، انہیں شدت پسند قرار دے کر یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے یا پھر جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔
عبادات کو رسمی بنا کر اس کے انقلابی اثرات کو زائل کرنے کی ایک بڑی مثال ایران کے اسلامی انقلاب سے قبل کے دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس وقت کی شاہی حکومت نے کوشش کی کہ دین کو صرف مساجد، خانقاہوں اور نجی عبادات تک محدود رکھا جائے، تاکہ وہ سماجی اور سیاسی تبدیلی کا ذریعہ نہ بن سکے۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس روایت کو چیلنج کرتے ہوئے دین کے اس پہلو کو اجاگر کیا جو ظالم حکمرانوں کے خلاف قیام اور اجتماعی عدل کا درس دیتا ہے۔ یہی وہ دینی بصیرت تھی جس نے ایک اسلامی انقلابی تحریک کو جنم دیا اور استعماری منصوبوں کو ناکام بنایا۔
مذہبی تہواروں اور رسوم کو سطحی بنانے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آج بعض مسلم ممالک میں عاشورہ کے پیغام کو صرف ماتمی جلوسوں اور روایتی عزاداری تک محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،
جبکہ اس کا اصل مقصد ظلم کے خلاف مزاحمت اور اسلامی اصولوں کی سربلندی کے لیے قیام تھا۔
اہل بیت علیہم السلام کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین کا اصل پیغام عدل و انصاف کے قیام اور باطل کے خلاف جدوجہد میں ہے، نہ کہ اسے صرف شخصی اعمال یا محدود دائرے میں محصور کر دینا۔
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ دین کو اگر اس کی اصل روح کے ساتھ نہ سمجھا جائے، اور اگر اس کے اصولوں کو جدید غلامی کے نظریاتی اثرات سے محفوظ نہ رکھا جائے، تو مسلمان رفتہ رفتہ اپنے حقیقی پیغام سے دور ہو جاتے ہیں۔
اس غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ دین کو ایک متحرک، زندہ اور جامع نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے، جس میں عبادات، تعلیم، سماجی معاملات اور سیاست سب کچھ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔اس غلامی سے نکلنے کا واحد راستہ دینی بصیرت، فکری آزادی، اور اسلامی تعلیمات کو ان کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے اور اپنانے میں ہے، تاکہ دین کو ایک حقیقی، متحرک، اور انقلابی قوت کے طور پر بحال کیا جا سکے۔
قانون و عدلیہ کا شعبہ
قانون و عدلیہ کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسی پیچیدہ حقیقت ہے جس کے ذریعے عالمی طاقتیں قانونی نظام کو اپنے مفادات کے تحت ڈھال کر کمزور ممالک اور اقوام کو ایک مخصوص قانونی دائرے میں قید کر دیتی ہیں۔ اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب بین الاقوامی قوانین کو بظاہر انسانی حقوق، انصاف اور عالمی امن کے قیام کے نام پر تشکیل دیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت ان کا بنیادی مقصد طاقتور ممالک کو قانونی جواز فراہم کرنا اور کمزور ممالک کو قانونی طور پر بے بس کرنا ہوتا ہے۔ عالمی عدالتوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے ایسی پالیسیز مسلط کی جاتی ہیں جن کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا جواز پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی خودمختاری محدود کر دی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے قانونی نظام کو اس انداز میں ڈھالا جاتا ہے کہ وہ عالمی عدالتی ڈھانچے پر منحصر ہو جائیں اور اپنے قومی قوانین کو ان بین الاقوامی ضابطوں کے تابع کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
جدید غلامی کی ایک نمایاں شکل یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو ایسے معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو بظاہر تو انصاف، انسانی حقوق، اور عالمی تجارت کے فروغ کے لیے ہوتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ ان ممالک کو قانونی پیچیدگیوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ ان معاہدوں کے ذریعے ان پر غیر منصفانہ تجارتی، سفارتی اور دفاعی شرائط لاگو کی جاتی ہیں جن کی خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانے، عالمی پابندیاں اور قانونی قدغنیں عائد کی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے ان قوانین کے نفاذ کے لیے دباؤ ڈالنے میں کردار ادا کرتے ہیں، جس کے باعث کمزور ممالک اپنی پالیسیوں کو خود بنانے کے بجائے عالمی اصولوں کے مطابق ترتیب دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف، عالمی تجارتی تنظیم، عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر قانونی ادارے بھی جدید غلامی کے اس جال کو مزید مضبوط کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب کوئی طاقتور ملک کسی کمزور ملک پر حملہ کرتا ہے یا اس کی معیشت پر پابندیاں لگاتا ہے، تو بین الاقوامی عدالتیں اور عالمی ادارے اکثر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں یا پھر ایسی تاویلیں گھڑتے ہیں جن کے ذریعے طاقتور ملک کو قانونی جواز فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر کوئی کمزور ملک ان طاقتوں کی پالیسیوں سے انحراف کرنے کی کوشش کرے تو فوراً اس پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اسے مختلف قانونی مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے۔ یہ قانونی غلامی اس قدر مؤثر طریقے سے نافذ کی جاتی ہے کہ متاثرہ ممالک کو یہ تک محسوس نہیں ہوتا کہ وہ خودمختاری کھو چکے ہیں اور ان کے فیصلے درحقیقت عالمی طاقتوں کے مفادات کے تابع ہو چکے ہیں۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ جدید قانونی نظام کو اس انداز میں تشکیل دیا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنے ہی ملک کے قانونی ڈھانچے سے فائدہ اٹھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ طاقتور ممالک کے سرمایہ کار اور کمپنیاں مقامی قوانین کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان ممالک میں عدالتی اصلاحات کے نام پر ایسے قوانین متعارف کرائے جاتے ہیں جو بظاہر تو شفافیت اور انصاف کی بات کرتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ عالمی کارپوریشنز اور طاقتور لابیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں، جبکہ عام شہریوں کے لیے انصاف کا حصول مشکل تر بنا دیا جاتا ہے۔
مزید برآں، جدید قانونی غلامی میں ایک بڑا کردار غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کا بھی ہے جو بظاہر تو آزادی، انصاف اور بنیادی حقوق کی بحالی کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ مخصوص عالمی ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں۔ ان تنظیموں کو ترقی پذیر ممالک میں متعارف کروا کر وہاں کے عدالتی نظام میں بیرونی مداخلت کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیمیں اکثر ان معاملات کو ہوا دیتی ہیں جن کے ذریعے داخلی مسائل کو عالمی سطح پر اٹھایا جا سکے، تاکہ عالمی عدالتوں اور اداروں کو ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع مل سکے۔ اس طرح مقامی حکومتوں اور عدالتی اداروں کو اس قدر کمزور کر دیا جاتا ہے کہ وہ عالمی دباؤ کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔
جدید غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں قانونی ماہرین کی تربیت اور عدالتی ڈھانچے کی اصلاح کے نام پر ایسے منصوبے متعارف کروائے جاتے ہیں جو درحقیقت مقامی قانونی نظام کو مغربی عدالتی اصولوں کے تابع کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے وکلاء اور جج صاحبان اکثر انہی عالمی نظریات کو اپناتے ہیں جو ان کے اپنے ملک کے قانونی، ثقافتی اور مذہبی اصولوں سے متصادم ہوتے ہیں۔ اس طرح قانونی نظام آہستہ آہستہ مقامی شناخت اور اسلامی اصولوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک ایسا عدالتی ڈھانچہ وجود میں آتا ہے جو اپنی اصل جڑوں سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جدید غلامی صرف فوجی اور اقتصادی سطح تک محدود نہیں، بلکہ عدالتی نظام کو بھی ایک ایسے جال میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو کمزور ممالک کی آزادی کو محدود کرنے اور طاقتور قوتوں کو ان پر حاوی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ غلامی نہ صرف قانونی پیچیدگیوں کے ذریعے قائم رکھی جاتی ہے بلکہ اس کے ذریعے ایک ایسا ذہنی اور نظریاتی دباؤ بھی مسلط کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کے حکمران اور عدالتی ادارے خود کو عالمی قوانین اور اصولوں کے سامنے مجبور پاتے ہیں۔ جب تک قانونی خودمختاری اور عدالتی نظام کو مقامی ضروریات، دینی اصولوں اور قومی مفادات کے مطابق استوار نہیں کیا جاتا، تب تک جدید غلامی کے اس شکنجے سے نکلنا ممکن نہیں۔
جدید غلامی کے عدالتی پہلو کو سمجھنے کے لیے مختلف مثالیں موجود ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ کس طرح عالمی طاقتیں قانونی نظام کو اپنے مفادات کے تابع رکھتی ہیں۔ ایک نمایاں مثال بین الاقوامی عدالت انصاف کے وہ فیصلے ہیں جو طاقتور ممالک کے حق میں دیے جاتے ہیں، جبکہ کمزور اقوام کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ان پر قانونی جبر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ فلسطین کا معاملہ اس کی ایک بڑی مثال ہے، جہاں بین الاقوامی قوانین کے تحت قابض ریاست کی سرگرمیاں غیر قانونی قرار دی جا چکی ہیں، لیکن عالمی عدالتیں اور ادارے اس کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو تسلیم نہ کرنے کا کہتی ہیں، لیکن جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر قانونی جواز کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسی طرح، عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کے جال میں جکڑنے کے لیے ایسی قانونی شرائط نافذ کرتے ہیں جو بظاہر تو اقتصادی استحکام کے لیے ہوتی ہیں لیکن درحقیقت ان ممالک کو مالیاتی غلامی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو بارہا ایسے قانونی معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جن میں قرضوں کی واپسی کے سخت قوانین شامل ہوتے ہیں، جبکہ انہی شرائط کو ترقی یافتہ ممالک پر لاگو نہیں کیا جاتا۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی بینک ایسے قانونی معاہدے مسلط کرتے ہیں جن کی بنیاد پر مقامی معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتی ہے اور قومی پالیسیوں کو مقامی ضروریات کے بجائے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔
تجارت کے شعبے میں بھی یہی طرزِ عمل نظر آتا ہے، جہاں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قوانین ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے بجائے بڑی معیشتوں کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ بھارت میں زرعی قوانین کی مثال لی جائے تو عالمی مالیاتی اداروں اور تجارتی معاہدوں کی وجہ سے مقامی کسانوں کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑا، کیونکہ نافذ کیے گئے قوانین کارپوریشنز کے مفادات کو تحفظ دے رہے تھے اور کسانوں کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا رہے تھے۔ اس طرح مقامی قوانین کو بین الاقوامی پالیسیوں کے تابع کر دیا جاتا ہے اور ایک ایسا قانونی ڈھانچہ کھڑا کیا جاتا ہے جو صرف بڑی طاقتوں کے حق میں کام کرے۔
بین الاقوامی عدالتیں بھی اسی نظام کا حصہ ہیں، جہاں طاقتور ممالک کے خلاف مقدمات یا تو سنے ہی نہیں جاتے یا پھر ان کے فیصلے نافذ نہیں ہوتے۔ عراق پر امریکی حملے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کے باوجود کسی عالمی عدالت نے امریکہ کو جنگی جرائم کا مرتکب نہیں ٹھہرایا، لیکن جب کسی کمزور ملک میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو فوری طور پر عالمی قوانین کے تحت اس پر سخت کارروائی کر دی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کردار بھی اسی نظام کی تقویت میں نظر آتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے ادارے کچھ مخصوص ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تو شور مچاتے ہیں، لیکن جب انہی حقوق کی خلاف ورزی کسی طاقتور ملک کے ہاتھوں ہوتی ہے تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا معاملہ ہو یا بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد، ان پر عالمی سطح پر اتنا دباؤ نہیں ڈالا جاتا جتنا دیگر کمزور ممالک پر ڈالا جاتا ہے۔
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ جدید غلامی کا عدالتی ڈھانچہ ایک ایسے جال کی مانند ہے جو کمزور اقوام کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھانے، ان کی خودمختاری کو محدود کرنے اور عالمی طاقتوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ جب تک ترقی پذیر ممالک اپنی قانونی خودمختاری بحال نہیں کرتے اور اپنے عدالتی نظام کو مقامی اور دینی اصولوں کے مطابق مضبوط نہیں کرتے، تب تک اس غلامی کے شکنجے سے نکلنا ممکن نہیں۔
ماحولیات کا شعبہ
ماحولیاتی پالیسی اور کلائمیٹ چینج کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ذریعے ترقی یافتہ اور نوآبادیاتی ذہنیت رکھنے والی طاقتیں ماحولیاتی مسائل کے نام پر ترقی پذیر ممالک پر اپنی مرضی کے قوانین، معاہدے اور پابندیاں مسلط کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کو ایک عالمی بحران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حل ایسا تجویز کیا جاتا ہے جو بالآخر ترقی پذیر اقوام کو کمزور اور عالمی کارپوریشنز اور طاقتور حکومتوں کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ بڑی طاقتیں، جو صنعتی انقلاب کے بعد سے صدیوں تک زمین کے قدرتی وسائل کا استحصال کرتی رہی ہیں اور آج بھی دنیا کے بڑے پیمانے پر کاربن اخراج کی سب سے بڑی ذمہ دار ہیں، وہی آج موسمیاتی انصاف کے چیمپئن بن کر ترقی پذیر اقوام پر ماحولیاتی معاہدے مسلط کر رہی ہیں۔
عالمی سطح پر کیے جانے والے معاہدے جیسے کہ پیرس معاہدہ، کیوٹو پروٹوکول اور دیگر پالیسی فریم ورک بظاہر تو ماحولیاتی تحفظ کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں، لیکن عملی طور پر یہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ایسے اہداف مقرر کرتے ہیں جو ان کی اقتصادی ترقی کو محدود کر دیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کاربن اخراج کم کریں، کوئلے اور دیگر روایتی توانائی کے ذرائع کو ترک کریں، جبکہ وہی ترقی یافتہ ممالک جو سالہا سال سے صنعتی سرگرمیوں کے ذریعے زمین کی فضا کو آلودہ کر رہے ہیں، اپنی صنعتوں کو محدود کرنے کے بجائے ان ممالک کو مالی امداد، قرضوں اور جدید ٹیکنالوجی کی فروخت کے نام پر مزید معاشی دباؤ میں ڈال رہے ہیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک سستی توانائی کے ذرائع ترک کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور مہنگے، درآمد شدہ، اور اکثر غیر مستحکم توانائی کے ذرائع کو اپنانے کی شرطوں میں جکڑے جاتے ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ کے نام پر مخصوص بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں مقامی حکومتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ مخصوص اقسام کے ترقیاتی منصوبوں کو ترک کریں، جیسے کہ ڈیموں کی تعمیر، فوسل فیول سے چلنے والے بجلی گھروں کا قیام، اور بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات، کیونکہ انہیں ماحولیاتی نقصان کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک میں توانائی کا بحران پیدا ہوتا ہے، زرعی پیداوار متاثر ہوتی ہے، اور معیشت مزید مغربی امداد اور قرضوں پر منحصر ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب، یہی طاقتیں اپنی زمینوں پر انہی ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھتی ہیں اور کسی بھی قسم کی ماحولیاتی قدغنوں کا شکار نہیں ہوتیں۔
کاربن کریڈٹ جیسے میکانزم کو بھی ایک قسم کی جدید غلامی کے طور پر نافذ کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیاں اور حکومتیں کاربن کریڈٹ خرید کر اپنے ماحولیاتی جرائم کو قانونی جواز فراہم کرتی ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک پر سخت ضوابط عائد کیے جاتے ہیں۔ یوں، دولت مند ممالک کے پاس نہ صرف ماحول کو آلودہ کرنے کا قانونی حق موجود ہوتا ہے، بلکہ وہ اس ماحولیاتی بحران کو مزید اپنے تجارتی و معاشی فوائد کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں زرعی نظام کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ روایتی زراعت کو غیر مؤثر قرار دے کر ایسی پالیسیز متعارف کروائی جاتی ہیں جو ان ممالک کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج، کیمیکل کھاد اور دیگر مہنگے زراعتی طریقوں پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ مقامی کسانوں کے روایتی طریقے ختم کیے جاتے ہیں اور انہیں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ مزید قرضوں اور معاشی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی ماحولیاتی قوانین کو جواز بنا کر بعض ترقی پذیر ممالک پر ایسی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں جو ان کی صنعتوں اور برآمدات کو متاثر کرتی ہیں۔ جب یہ ممالک اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے صنعتی ترقی کی راہ اختیار کرتے ہیں، تو ماحولیاتی آلودگی کا بہانہ بنا کر ان پر تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں، جبکہ انہی صنعتوں کو ترقی یافتہ ممالک میں آزادی کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کو تحفظ کے نام پر محفوظ رکھنے کی پالیسی کے پیچھے بھی ایک گہرا استحصالی نظام کام کر رہا ہوتا ہے، جہاں ان ممالک کو ان کے وسائل سے استفادے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے، جبکہ انہی وسائل کو عالمی کمپنیاں اپنے قبضے میں لے کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
ماحولیاتی پالیسیوں کے نام پر نافذ کی جانے والی ان استحصالی حکمتِ عملیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک اپنی معاشی، صنعتی اور زرعی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جبکہ ان کی حکومتیں مسلسل بین الاقوامی مالیاتی اداروں، مغربی حکومتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مدد کی محتاج رہتی ہیں۔
ماحولیاتی پالیسیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو کس طرح پابند کیا جاتا ہے، اس کی ایک واضح مثال پیرس معاہدہ ہے، جس میں تمام ممالک کو کاربن اخراج کم کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ تاہم، عملی طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے کاربن کے اخراج کو محدود کرنا ان کی صنعتی ترقی کو روکنے کے مترادف ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے صنعتی ڈھانچے کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا ہے اور وہ اس پابندی سے متاثر نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر، بھارت جیسے ملک پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبے ترک کرے، جبکہ امریکہ اور یورپی یونین میں فوسل فیول سے توانائی کے حصول کا عمل بدستور جاری ہے۔
کاربن کریڈٹ سسٹم ایک اور استحصالی نظام ہے جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک اپنی ماحولیاتی خلاف ورزیوں کو قانونی جواز فراہم کر لیتے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو کاربن اخراج کی حد سے تجاوز کرنے پر سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ایک نمایاں ثبوت برازیل اور انڈونیشیا میں جنگلاتی وسائل کے استعمال پر عائد کی جانے والی بین الاقوامی پابندیاں ہیں، جن کے تحت ان ممالک کو اپنے جنگلات کو کاٹنے یا زرعی زمین کے طور پر استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے۔ دوسری طرف، کینیڈا اور روس جیسے ممالک کاربن کریڈٹ خرید کر اپنی فیکٹریوں اور صنعتوں کو بغیر کسی بڑی پابندی کے چلاتے ہیں۔
بین الاقوامی این جی اوز بھی ماحولیاتی پالیسیوں کے نفاذ میں ایک خاص کردار ادا کرتی ہیں، لیکن ان کی سرگرمیاں اکثر مخصوص مقاصد کے تحت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، افریقی ممالک میں زراعتی ترقی کے کئی منصوبے ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر روک دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں مقامی کسان غربت اور غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ماحولیاتی ادارے نے ۲۰۱۵ میں کینیا میں ایک بڑے زرعی منصوبے کو اس بنیاد پر رد کر دیا کہ وہ مقامی ماحولیاتی نظام پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جبکہ اس سے ہزاروں کسانوں کو روزگار ملنے کی امید تھی۔ اس کے برعکس، یورپ اور امریکہ میں اسی نوعیت کے زرعی منصوبے بدستور جاری ہیں، جہاں حکومتیں اپنے کسانوں کو سبسڈی بھی فراہم کرتی ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ کے نام پر عائد پابندیاں صنعتی ترقی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بین الاقوامی دباؤ کے تحت محدود کیے جا رہے ہیں، جبکہ چین اور جرمنی میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جا رہی ہے۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ ماحولیاتی پالیسیوں کا نفاذ ترقی یافتہ ممالک کے حق میں اور ترقی پذیر ممالک کے خلاف کام کر رہا ہے۔
قدرتی وسائل کے تحفظ کے نام پر ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضے کی ایک مثال افریقی ممالک میں پائی جاتی ہے، جہاں نایاب معدنیات کو تحفظ کے نام پر مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ کانگو میں کوبالٹ کی کانیں بین الاقوامی کمپنیوں کے قبضے میں چلی گئی ہیں، کیونکہ مقامی حکومت کو ماحولیاتی قوانین کے تحت انہیں استعمال کرنے سے روکا گیا ہے۔ دوسری طرف، یہی کوبالٹ مغربی ممالک میں بیٹری انڈسٹری کے لیے کھلے عام استعمال ہو رہا ہے، جو اس ماحولیاتی دوغلے پن کو واضح کرتا ہے۔
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ ماحولیاتی پالیسیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو ایک مخصوص دائرے میں محدود کر کے ان کی خودمختاری کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ یہ ممالک اپنی آزاد ماحولیاتی حکمت عملی مرتب کریں، جس میں ان کے مقامی وسائل اور ترقیاتی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے اور عالمی سطح پر اس استحصالی نظام کے متبادل تلاش کیے جائیں۔
اس جال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ترقی پذیر اقوام اپنے ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے خودمختار حکمت عملی مرتب کریں، اپنے روایتی اور مقامی وسائل کو جدید سائنسی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے ترقی کی راہ ہموار کریں، اور بین الاقوامی معاہدوں اور پالیسیوں کے پیچھے چھپے استحصالی عناصر کو پہچان کر ان کا متبادل تلاش کریں۔
دفاع کا شعبہ
دفاع کے شعبے میں جدید غلامی ایک ایسی پیچیدہ مگر مؤثر حکمت عملی کے تحت مسلط کی جا رہی ہے جس کے ذریعے اقوام، بالخصوص ترقی پذیر اور مسلم ممالک کو عسکری، اسٹریٹجک، اور سیکیورٹی پالیسیوں میں خودمختاری سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ غلامی براہ راست فوجی طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ جدید حربوں، معاہدوں، تکنیکی انحصار، عالمی دباؤ، اور نفسیاتی اثر و رسوخ کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک ملک کے دفاعی ادارے اپنی آزادانہ پالیسی سازی سے قاصر ہو کر عالمی طاقتوں کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اس غلامی کے اثرات نہ صرف روایتی جنگی حکمت عملی پر مرتب ہوتے ہیں بلکہ قومی سلامتی، اسلحے کی پیداوار، خفیہ ایجنسیوں کے دائرہ کار، اور حتیٰ کہ عسکری نظریات تک میں سرایت کر چکے ہیں۔
جدید غلامی کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک کو اپنے دفاعی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی اسلحہ سازی، دفاعی ٹیکنالوجی، اور انٹیلیجنس سسٹمز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اسلحہ سازی اور جدید جنگی سازوسامان کی تیاری میں چند بڑی طاقتیں اجارہ داری قائم کر چکی ہیں، جس کی وجہ سے چھوٹے اور کمزور ممالک کو دفاعی صلاحیت میں برتری حاصل کرنے کے لیے انہی طاقتوں سے اسلحہ خریدنا پڑتا ہے۔ لیکن اس خریداری کے ساتھ ایسے معاہدے بھی مسلط کیے جاتے ہیں جو ان ممالک کی آزادی کو محدود کر دیتے ہیں، جیسا کہ اسلحے کے استعمال پر شرائط، ٹیکنالوجی کی مکمل منتقلی نہ ہونے کی پابندیاں، اور حساس جنگی آلات پر مکمل کنٹرول برقرار رکھنے کی پالیسیاں۔ نتیجتاً ایک ملک بظاہر طاقتور فوج رکھنے کے باوجود عملی طور پر ان قوتوں کے تابع رہتا ہے جو اس کے دفاعی وسائل کو کنٹرول کرتی ہیں۔
دفاعی معاہدے اور اتحادی سمجھوتے بھی جدید غلامی کے ایک مؤثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی سیکیورٹی معاہدوں میں شامل کر کے اس طرح پابند کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی عسکری حکمت عملی کو مکمل طور پر آزادانہ انداز میں ترتیب نہ دے سکیں۔ مختلف بین الاقوامی معاہدے، جیسے نیٹو، اسٹریٹجک عسکری تعاون، اور دفاعی شراکت داری کے معاہدے، درحقیقت ان ممالک کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو اپنے دفاع میں خودکفیل ہونا چاہتے ہیں۔ ان معاہدوں کی شرائط اس طرح طے کی جاتی ہیں کہ متعلقہ ممالک کسی بھی جنگی یا دفاعی مسئلے پر خودمختار فیصلے نہ کر سکیں بلکہ ان پر عالمی قوتوں کی رائے مسلط ہو جائے۔
خفیہ ایجنسیوں اور انٹیلیجنس نظام پر جدید غلامی کا تسلط بھی ایک پیچیدہ مگر مؤثر حربہ ہے۔ کئی ترقی پذیر اور مسلم ممالک اپنی انٹیلیجنس معلومات کے لیے عالمی سطح پر قائم ایجنسیوں، سیٹلائٹ سسٹمز، اور ڈیجیٹل نگرانی کے نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دفاعی راز، قومی سیکیورٹی کی پالیسیاں، اور اسٹریٹجک منصوبے ہمیشہ ان طاقتوں کی نظروں میں ہوتے ہیں جو اپنی مرضی سے ان معلومات کو استعمال کر کے ان ممالک کو بلیک میل کر سکتی ہیں، ان کی عسکری پالیسیوں کو متاثر کر سکتی ہیں، اور بعض اوقات انہیں اپنی منشا کے مطابق جنگوں میں دھکیل بھی سکتی ہیں۔ مزید برآں، جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف ممالک کی دفاعی حکمت عملی پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے، جس کے باعث کوئی بھی ملک مکمل رازداری کے ساتھ اپنی دفاعی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کر سکتا۔
دفاعی بجٹ، جنگی اخراجات، اور مالی امداد کے ذریعے بھی جدید غلامی کو تقویت دی جاتی ہے۔ کئی ممالک اپنی فوج کو برقرار رکھنے اور جدید جنگی سازوسامان خریدنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں سے قرض حاصل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے عسکری فیصلے معاشی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن ممالک کی فوجی معیشت عالمی امداد پر منحصر ہوتی ہے، وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں آزاد دفاعی پالیسیاں تشکیل نہیں دے سکتے۔ انہیں ایسی جنگوں میں دھکیلا جاتا ہے جو درحقیقت ان کے قومی مفادات کے خلاف ہوتی ہیں، لیکن چونکہ وہ مالیاتی دباؤ میں ہوتے ہیں، اس لیے وہ ان جنگوں سے نکلنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتے۔
نظریاتی اور ذہنی غلامی بھی دفاع کے شعبے میں گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جدید عسکری تربیت کے دوران ایسے نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے جو مخصوص عالمی طاقتوں کے تسلط کو جائز ثابت کریں اور ان کے مفادات کی حفاظت کریں۔ عسکری نصاب میں ایسے تصورات کو شامل کیا جاتا ہے جو مغربی فوجی حکمت عملی کو حتمی ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ مقامی جنگی حکمت عملیوں، اسلامی دفاعی نظریات، اور روایتی عسکری حکمت عملیوں کو غیر مؤثر یا پرانی سوچ قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں بہت سے ممالک کی افواج اپنی مقامی جنگی حکمت عملی سے دور ہو کر انہی طاقتوں کے طریقے اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہیں جو ان کی دفاعی خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
جنگی اتحادوں اور پراکسی جنگوں کے ذریعے بھی جدید غلامی کو نافذ کیا جاتا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک کو مختلف عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنی افواج اور دفاعی وسائل کو دوسرے ممالک کے مفادات کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ ان ممالک کو دانستہ طور پر ایسے تنازعات میں الجھا دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنے اصل دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ان طاقتوں کے مخالفین کے خلاف لڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان پر اپنی عسکری پالیسیاں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان ممالک کی افواج داخلی مسائل اور بیرونی خطرات کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتیں، کیونکہ وہ پہلے ہی کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہوتی ہیں۔
میڈیا اور پروپیگنڈہ بھی دفاعی شعبے میں جدید غلامی کو فروغ دینے کے اہم اوزار بن چکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ ایسے بیانیے تشکیل دیتے ہیں جو مخصوص ممالک کو سیکورٹی خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور دیگر ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی دفاعی حکمت عملی کو انہی عالمی طاقتوں کے مطابق ڈھالیں جو اس بیانیے کو فروغ دے رہی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، امن کے قیام کی کوششیں، اور عالمی خطرات جیسے بیانیے درحقیقت ایک ایسی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی عسکری خودمختاری کو ختم کیا جاتا ہے اور انہیں عالمی پالیسیوں کے تابع کر دیا جاتا ہے۔
ان تمام ذرائع کے ذریعے دفاع کے شعبے میں جدید غلامی کو ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس غلامی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ براہ راست فوجی قبضے یا جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ ایسے پیچیدہ اور جدید طریقوں کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے جو نظر نہ آنے کے باوجود انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، کئی ممالک بظاہر آزاد نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اپنی دفاعی پالیسیوں، عسکری فیصلوں، جنگی حکمت عملیوں، اور خفیہ معلومات کے تحفظ میں مکمل خودمختاری سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں، اور ان کے فیصلے وہ طاقتیں کرتی ہیں جو جدید غلامی کے ان دیکھے زنجیروں کو قابو میں رکھتی ہیں۔
جدید غلامی کے ان پہلوؤں کو مختلف ممالک کی مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے جہاں دفاعی خودمختاری کو محدود کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک نمایاں مثال سعودی عرب کی ہے، جو بظاہر ایک طاقتور عسکری قوت رکھتا ہے، لیکن اس کے دفاعی نظام کا مکمل انحصار امریکہ اور مغربی ممالک پر ہے۔ سعودی عرب جدید ترین اسلحہ خریدنے کے باوجود اپنے دفاعی فیصلوں میں مکمل طور پر خودمختار نہیں ہے۔ یمن جنگ میں سعودی فوج کی حکمت عملی امریکی اور مغربی پالیسیوں کے مطابق ترتیب دی گئی، اور اسے کئی ایسے معاہدوں اور شرائط کا سامنا کرنا پڑا جو اس کی دفاعی آزادی کو محدود کرتے ہیں۔ امریکہ نے کئی بار سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روکنے کی دھمکی دی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ جدید غلامی محض عسکری تعلقات تک محدود نہیں بلکہ پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
پاکستان کی مثال بھی اسی تناظر میں لی جا سکتی ہے۔ پاکستان اپنی دفاعی حکمت عملی میں امریکہ اور چین جیسے ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں سوویت-افغان جنگ کے دوران پاکستان کو امریکہ کے دفاعی نظام کا حصہ بنایا گیا، لیکن جیسے ہی عالمی مفادات بدلے، پاکستان کو سخت شرائط اور اقتصادی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ برسوں میں ایف-۱۶ طیاروں کی اپ گریڈیشن پر امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں اسی جدید غلامی کی ایک شکل ہیں، جس میں ایک ملک کو دفاعی طور پر مغربی پالیسیوں کے تابع رکھا جاتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی معلومات بھی مغربی انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے زیر اثر رہتی ہیں، اور اکثر ان کے فیصلے براہ راست بین الاقوامی دباؤ کے تحت کیے جاتے ہیں۔
افغانستان ایک اور مثال ہے جہاں جدید غلامی کے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ امریکی افواج کی ۲۰ سالہ موجودگی کے دوران افغان فوج کو جدید تربیت اور سازوسامان فراہم کیا گیا، لیکن جیسے ہی امریکہ نے انخلا کا اعلان کیا، افغان دفاعی ادارے مکمل طور پر بے بس ہو گئے۔ طالبان کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود، افغان افواج اپنی حکمت عملی میں خودمختاری نہ رکھ سکیں کیونکہ ان کی انٹیلیجنس معلومات، فوجی تربیت، اور سازوسامان سب کچھ بیرونی قوتوں کے کنٹرول میں تھا۔ جب امریکہ نے اپنی حمایت واپس لے لی، تو افغان فوج بغیر کسی مزاحمت کے منتشر ہو گئی، جو ظاہر کرتا ہے کہ دفاعی پالیسیوں کی خودمختاری کے بغیر عسکری طاقت بے معنی ہو جاتی ہے۔
ترکی کی دفاعی حکمت عملی میں بھی جدید غلامی کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ترکی نیٹو کا ایک اہم رکن ہونے کے باوجود جب اس نے روسی ایس-۴۰۰ دفاعی نظام خریدنے کی کوشش کی، تو امریکہ اور یورپی ممالک نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں اور اسے امریکی ایف-۳۵ پروگرام سے باہر کر دیا گیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ نیٹو جیسی تنظیموں کے تحت شامل ممالک بھی مکمل دفاعی خودمختاری نہیں رکھتے۔ اسی طرح، ترکی نے جب مشرقی بحیرہ روم میں اپنے دفاعی مفادات کے مطابق اقدامات کیے، تو اسے مغربی طاقتوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی معاہدے بعض اوقات خودمختاری محدود کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ایران کی مثال جدید غلامی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ ۱۹۷۹ کے انقلاب کے بعد ایران نے مغربی دفاعی معاہدوں سے آزاد ہونے کی کوشش کی، لیکن اسے مسلسل پابندیوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کو اسلحے کی خرید و فروخت میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے، اور اسے اپنی دفاعی صلاحیت کو مقامی سطح پر ترقی دینی پڑ رہی ہے۔ اس کے باوجود، مغربی طاقتیں ایران کے میزائل پروگرام اور دفاعی حکمت عملی پر مسلسل دباؤ ڈالتی رہتی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملک جدید غلامی کے جال سے نکلنے کی کوشش کرے، تو اسے عالمی سطح پر تنہائی اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید غلامی عسکری معاہدوں، انٹیلیجنس نیٹ ورکس، دفاعی انحصار، اور نظریاتی تسلط کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے۔ بظاہر آزاد ممالک بھی اپنی عسکری اور سیکیورٹی پالیسیوں میں مکمل طور پر خودمختار نہیں ہوتے، بلکہ ان پر عالمی طاقتوں کی مرضی مسلط کی جاتی ہے، جو دفاعی فیصلوں کو مخصوص ایجنڈے کے تحت ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ذرائع نقل و حمل اور مواصلات کا شعبہ
ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کے شعبے میں جدید غلامی کی مختلف شکلیں نہ صرف معاشی اور تجارتی پہلوؤں سے جڑی ہوئی ہیں بلکہ یہ ممالک کے درمیان طاقت کے توازن کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ جدید دور میں سفر اور مواصلات کے ذرائع کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن عالمی سطح پر اس نظام کو کچھ مخصوص طاقتوں اور کارپوریشنز کے ذریعے اس طرح کنٹرول کیا گیا ہے کہ ترقی پذیر اقوام ان پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ ٹرانسپورٹیشن کے میدان میں جدید غلامی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی جدید اور تیز رفتار سفری سہولیات کے ذریعے تجارتی منڈیوں پر قابض ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کو فرسودہ اور مہنگے سفری نظام پر گزارا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی ہوائی سفری نظام پر چند گنی چنی کمپنیاں اور اتحادی گروپس قابض ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مسافروں پر بھاری کرایوں، ویزا پابندیوں اور دیگر شرائط کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہیں۔ ان پابندیوں کی آڑ میں ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کے لیے سفر محدود کر دیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے دنیا بھر میں سفر کر سکتے ہیں۔ فضائی کمپنیوں، ایئرپورٹس، اور ایوی ایشن پالیسیوں پر مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے قابض ہیں، اور جو ممالک ان ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں اقتصادی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح سمندری نقل و حمل کا نظام بھی بڑی مغربی کمپنیوں کے قبضے میں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر شپنگ کنٹینرز، بندرگاہوں کا انتظام، اور سامان کی ترسیل کے قوانین کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو مہنگے معاہدے کرنے پڑتے ہیں۔ بڑی شپنگ کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کے تاجروں اور کاروباری اداروں کو بھاری اخراجات اور پیچیدہ قانونی تقاضوں کے ذریعے دباؤ میں رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ عالمی تجارت میں آزادانہ حصہ نہیں لے پاتے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے ان ممالک کی درآمدات و برآمدات پر کنٹرول کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کو عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں چھوڑا جاتا۔ سڑکوں اور ریلوے کے نظام میں بھی ایک استحصالی طرزِ عمل واضح نظر آتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بناتے ہیں، لیکن ان کے ذریعے مقامی معیشت کے بجائے غیر ملکی کمپنیوں کو زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں اکثر قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہیں، اور یہ قرضے عام طور پر انہی طاقتوں سے لیے جاتے ہیں جو انفراسٹرکچر کے یہ بڑے منصوبے چلاتی ہیں۔ اس طرح سڑکوں، ریلوے، اور پلوں جیسے بنیادی منصوبے بھی ان بڑی طاقتوں کے مالیاتی کنٹرول میں آ جاتے ہیں اور مقامی حکومتیں صرف ایک انتظامی کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
مواصلات کے میدان میں جدید غلامی کا سب سے بڑا ہتھیار ڈیجیٹل کنٹرول ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل نیٹ ورکس، اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کی ملکیت چند ہی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے جو ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کی معلومات اور ڈیٹا کو کنٹرول کرتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں بنائی گئی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ گوگل، فیس بک، ٹوئٹر، اور دیگر بڑی کمپنیاں نہ صرف معلومات کو کنٹرول کرتی ہیں بلکہ ان پلیٹ فارمز کو سیاسی اور سماجی انجینئرنگ کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں تاکہ مخصوص بیانیے کو فروغ دیا جا سکے اور ترقی پذیر اقوام میں فکری غلامی کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں جدید غلامی اس طرح بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو ان کمپنیوں کی خدمات اور جدید ٹیکنالوجیز استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن ان کی قیمتیں زیادہ رکھی جاتی ہیں۔ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو اپنے کنٹرول میں لے کر رکھتی ہیں، اور جب ان ممالک کی حکومتیں اپنی مقامی سطح پر خودمختار نظام قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو ان پر مختلف قسم کے تجارتی اور سیاسی دباؤ ڈالے جاتے ہیں۔
مصنوعی سیاروں اور اسپیس کمیونیکیشن کے میدان میں بھی ترقی پذیر ممالک کو مکمل طور پر مغربی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عالمی مواصلات کے سیٹلائٹ، جی پی ایس، اور دیگر جدید نیویگیشن سسٹمز پر چند بڑی طاقتوں کا کنٹرول ہے، جو اپنی مرضی سے ترقی پذیر ممالک کے لیے رسائی محدود یا مہنگی کر سکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کی سیکیورٹی، معیشت، اور ٹیکنالوجی مغربی طاقتوں کی محتاج ہو جاتی ہے، اور وہ اپنی آزادانہ پالیسیز بنانے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کے میدان میں جدید غلامی کے یہ تمام پہلو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے بنیادی ڈھانچے کو ایسے طریقے سے ڈیزائن کیا جا رہا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے محتاج رہیں۔ خودمختاری کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنے والے ممالک کو مختلف طریقوں سے روکا جاتا ہے، چاہے وہ مالی دباؤ کے ذریعے ہو، قانونی پیچیدگیوں کے ذریعے، یا تکنیکی اور سیکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر۔
ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کے میدان میں جدید غلامی کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام محض معاشی تسلط یا تجارتی اجارہ داری تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا ہمہ جہتی شکنجہ ہے جو نہ صرف اقوام کی نقل و حرکت، رسد و ترسیل اور تجارتی سرگرمیوں کو اپنے قابو میں رکھتا ہے بلکہ فکری، سیکیورٹی، دفاعی اور حتیٰ کہ ثقافتی سطح پر بھی غلامی کے نئے زاویے پیدا کرتا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کے ذریعے ایک قوم کی داخلی خودمختاری اور علاقائی آزادی کو متاثر کرنا ایک قدیم استعماری طریقہ رہا ہے، جو آج جدید شکل میں بین الاقوامی قوانین، ماحولیاتی ضوابط، جدید ٹیکنالوجی، اور مالیاتی معاہدوں کے جال میں بُنا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی فضائی سفر میں غلامی کا پہلو محض کرایوں یا پابندیوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں ایک اور استحصالی پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی فضائی کمپنیاں بڑے مغربی اتحادوں کے ساتھ مقابلہ کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ زیادہ تر عالمی ہوائی کمپنیاں مغربی ممالک کی مالی اعانت سے چلتی ہیں اور ان کے پاس وہ جدید ترین طیارے اور وسائل موجود ہیں جو انہیں مارکیٹ میں برتری دیتے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک کی کمپنیاں یا تو دیوالیہ ہو جاتی ہیں یا پھر بین الاقوامی قوانین کے دباؤ میں آ کر محدود وسائل کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، فضائی ٹریفک کنٹرول، بین الاقوامی فلائٹ رُوٹس، اور ایئرپورٹس پر بڑی طاقتوں کے ادارے حکمرانی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کی فضائی نقل و حمل پسماندہ اور غیر مؤثر رہتی ہے۔
سمندری تجارت میں غلامی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس اپنے مال بردار بحری جہازوں کی کمی ہے، اس لیے وہ مغربی شپنگ کمپنیاں ہی استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو نہ صرف مہنگی ہوتی ہیں بلکہ ان کی شرائط اور قوانین بھی استحصالی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بڑی طاقتیں بین الاقوامی بحری گزرگاہوں اور بندرگاہوں پر تسلط رکھتی ہیں اور اس کے ذریعے بحری نقل و حمل کے قوانین ایسے بنائے جاتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک ان پر انحصار کیے بغیر تجارت کر ہی نہ سکیں۔ بحری قزاقی اور سیکیورٹی کے نام پر بعض ممالک کی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کیا جاتا ہے اور ان کے جہازوں کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا کر بھاری جرمانے اور فیسیں وصول کی جاتی ہیں، جس سے ان کی معیشت مزید دباؤ میں آ جاتی ہے۔
سڑکوں اور ریلوے کے نظام میں جدید غلامی کی ایک اور شکل قرضوں اور غیر ضروری میگا پراجیکٹس کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک کو مہنگے انفراسٹرکچر پراجیکٹس کے لیے قرضے دیتے ہیں، جن کی تعمیر کے لیے وہی کمپنیاں فراہم کی جاتی ہیں جو بڑی طاقتوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں۔ ان منصوبوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو مزید قرضوں میں جکڑ دیا جاتا ہے، جبکہ مقامی معیشت کو کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔
مواصلات کے میدان میں غلامی کا سب سے خطرناک پہلو معلومات کا کنٹرول ہے۔ ڈیجیٹل نیٹ ورکس، انٹرنیٹ، اور موبائل نیٹ ورکس کے تمام بڑے انفراسٹرکچر مغربی کمپنیوں کے پاس ہیں، اور یہ کمپنیاں نہ صرف ترقی پذیر ممالک کی عوام کی معلومات تک رسائی رکھتی ہیں بلکہ ان کے مواصلاتی نیٹ ورکس کو مانیٹر کرنے، بند کرنے یا محدود کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا اینالیٹکس کے ذریعے لوگوں کی عادات، ترجیحات، اور طرزِ زندگی کو مسلسل مانیٹر کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک میں مقامی سطح پر آزادانہ پالیسی سازی مشکل ہو جاتی ہے۔
سیٹلائٹ کمیونیکیشن کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو مغربی طاقتوں کا محتاج بنا دیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ سروسز، جی پی ایس، اور دیگر نیویگیشن سسٹمز مکمل طور پر بڑی طاقتوں کے کنٹرول میں ہیں، اور اگر کوئی ترقی پذیر ملک اپنا خودمختار سیٹلائٹ نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بین الاقوامی دباؤ، قانونی مسائل اور سیکیورٹی خدشات کے نام پر روکا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بیشتر ترقی پذیر ممالک مغربی کمپنیوں کے مہیا کردہ سیٹلائٹ نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہیں، جو ان کی قومی خودمختاری کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کے میدان میں غلامی کے ایک اور پہلو کا تعلق ڈیجیٹل کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی سے ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو عالمی بینکاری نظام اور مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، لیکن اب بڑی طاقتیں کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل فنانس کے ذریعے اس انحصار کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ اور کاروبار ان کے فراہم کردہ پلیٹ فارمز کے ذریعے ادائیگیاں کریں، تاکہ ان کا ڈیٹا اور مالی سرگرمیاں مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں رہیں۔
مواصلات میں جدید غلامی کا ایک اور پہلو پروپیگنڈا اور ذہنی تسلط ہے۔ عالمی میڈیا کمپنیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کو ایسا مواد دکھایا جاتا ہے جو ان کے ذہنوں میں مغربی ثقافت اور طرزِ زندگی کی برتری کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نظریاتی کنٹرول کو فروغ دیا جاتا ہے، اور ایسے الگورتھمز استعمال کیے جاتے ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مقامی کلچر، نظریات، اور خودمختاری کے حق میں کام کرنے والے مواد کو محدود کرتے ہیں، جبکہ مغربی بیانیے کو بھرپور فروغ دیتے ہیں۔
یہ تمام پہلو مل کر یہ واضح کرتے ہیں کہ ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کے میدان میں جدید غلامی محض ایک معاشی یا تکنیکی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر استحصالی نظام ہے جو ترقی پذیر اقوام کو سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اور نظریاتی سطح پر محکوم بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔استحصالی قوتوں نے ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کے نظام پر کنٹرول قائم کرکے ترقی پذیر اقوام کو مختلف سطحوں پر محتاج بنا دیا ہے۔ ایک نمایاں مثال ریلوے نظام کی ہے، جسے برطانوی استعمار نے برصغیر میں بظاہر تجارتی اور سفری سہولت کے لیے متعارف کرایا، لیکن درحقیقت یہ استحصالی پالیسیوں کا حصہ تھا۔ ریلوے لائنز کا بنیادی مقصد خام مال کو بندرگاہوں تک پہنچانا اور برطانوی مصنوعات کو منڈیوں میں پھیلانا تھا، جبکہ مقامی صنعتیں تباہ ہوئیں اور معیشت کا دارومدار استعماری طاقت پر بڑھتا گیا (مارکس، "سرمایہ داری اور استحصال"، ۱۸۶۷)۔
جدید دور میں مواصلات کے میدان میں بھی یہی حکمت عملی دیکھی جا سکتی ہے۔ انٹرنیٹ انفراسٹرکچر اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر چند بڑی کارپوریشنز کا تسلط ترقی پذیر ممالک کو فکری غلامی میں مبتلا کر رہا ہے۔ گوگل، فیس بک اور دیگر مغربی کمپنیاں معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرتی ہیں، جس کے ذریعے مخصوص نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے اور مقامی ثقافتوں کو پس منظر میں دھکیلا جاتا ہے۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے صارفین اپنی قومی زبانوں میں علمی مواد تلاش کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ مغربی نظریات کو زیادہ پذیرائی دی جاتی ہے (شوشانہ زبوف، "دی ایج آف سرویلنس کیپیٹلزم"، ۲۰۱۹)۔
ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں، عالمی شپنگ کمپنیوں اور ایوی ایشن نیٹ ورکس پر چند طاقتور ممالک کی اجارہ داری ترقی پذیر اقوام کو تجارتی سطح پر محکوم بناتی ہے۔ افریقی ممالک اپنی برآمدات کے لیے یورپی بندرگاہوں پر انحصار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اضافی لاگت اور تجارتی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اسی طرح، بین الاقوامی فضائی نقل و حمل پر مغربی ایئرلائنز کا قبضہ مقامی ائیرلائنز کو پنپنے نہیں دیتا، جس کی مثال نائجیریا ایئرویز کی ناکامی سے دی جا سکتی ہے (والرشتین، "دی ماڈرن ورلڈ سسٹم"، ۱۹۷۴)۔
یہ تمام مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات کا استحصالی کنٹرول ترقی پذیر اقوام کو معاشی، تجارتی، اور فکری سطح پر کمزور بنا رہا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف ان ممالک کی معیشت کو مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ فکری و ثقافتی سطح پر بھی ان کی خودمختاری متاثر ہوئی ہے۔ اس غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک اپنی ڈیجیٹل اور سفری خودمختاری کے لیے جامع حکمت عملی اپنائیں، مقامی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کے متبادل تیار کریں، اور ان استحصالی نظاموں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیں۔ ترقی پذیر ممالک اپنی نقل و حمل، انفراسٹرکچر، اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس میں خودکفالت حاصل کریں، اپنی ایئرلائنز، شپنگ کمپنیوں، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ترقی دیں، اور مغربی طاقتوں پر انحصار کم سے کم کرتے ہوئے اپنی داخلی خودمختاری کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی اپنائیں۔
غلامی سے نجات
جدید غلامی کے اس پیچیدہ جال سے نکلنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی درکار ہے جو فکری، تعلیمی، سماجی، اقتصادی، اور تہذیبی سطح پر مکمل انقلاب برپا کر سکے۔ اس عمل کا آغاز خود آگہی اور شعور کی بیداری سے ہوتا ہے، جس کے بعد عملی اقدامات کے ذریعے آزاد، خود مختار، اور خود انحصار معاشروں کی تشکیل ممکن ہے۔ اس غلامی کے جال کو کاٹنے کے لیے سب سے پہلے ان بنیادی نکات پر توجہ دینا ضروری ہے جو ہمیں اس استحصالی نظام کے خلاف ایک مؤثر مزاحمت فراہم کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلا قدم تعلیمی اور فکری میدان میں بیداری ہے۔
موجودہ تعلیمی نظام کا بغور جائزہ لے کر اس میں موجود استعمار زدہ نصاب، نظریاتی غلامی پیدا کرنے والے مضامین، اور فکری جمود کا سبب بننے والے تصورات کو پہچاننا ضروری ہے۔ تعلیمی نظام کو ایسی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا جو خودی، خود مختاری، اور فکری آزادی کو پروان چڑھائے۔ اسکول، مدارس، اور جامعات میں ایسے نصاب متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو طلبہ کو اپنی تہذیب، تاریخ، اور اصل علمی ورثے سے جوڑے اور انہیں مغربی فکری تسلط سے آزاد کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد تحقیق کو فروغ دینا ہوگا تاکہ اسلامی اور مقامی علوم کو جدید سائنسی اور فکری بنیادوں پر ازسرِ نو تشکیل دیا جا سکے۔
دوسرا اہم پہلو معاشی خود انحصاری کا ہے۔
جدید غلامی کی سب سے بڑی جڑ عالمی اقتصادی نظام اور سودی معیشت پر انحصار ہے۔ جب تک مسلمان معاشی لحاظ سے مغربی بینکاری اور سرمایہ دارانہ نظام کے محتاج رہیں گے، آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی بینکاری، خود انحصاری پر مبنی معیشت، اور لوکل انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو نوجوانوں کو ہنر مند بنائیں، سمال بزنس اور لوکل پروڈکشن کو سپورٹ کریں، اور مغرب کے استحصالی اقتصادی نظام سے نکلنے کے عملی مواقع فراہم کریں۔
تیسرا اہم میدان میڈیا اور ڈیجیٹل ورلڈ ہے۔
موجودہ مین اسٹریم میڈیا، سوشل میڈیا، اور تفریحی ذرائع عالمی طاقتوں کے کنٹرول میں ہیں جو مخصوص نظریات کو مسلط کر کے لوگوں کے خیالات، طرزِ زندگی، اور تہذیبی رجحانات کو قابو میں رکھتے ہیں۔
اس سے نکلنے کے لیے مسلمانوں کو اپنے میڈیا چینلز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس قائم کرنے ہوں گے جو حقیقت پر مبنی اور آزادانہ فکر کی نمائندگی کریں۔ نوجوانوں کو جدید میڈیا ہنر سکھانے، اسلامی فکر پر مبنی ڈاکیومینٹریز، فلمیں، اور معیاری تفریحی مواد تخلیق کرنے پر کام کرنا ہوگا تاکہ فکری غلامی سے باہر نکلا جا سکے۔
چوتھا اہم عنصر ثقافتی اور تہذیبی احیاء ہے۔
جدید غلامی کا ایک بڑا ہتھیار ثقافتی تسلط ہے، جس کے ذریعے مقامی روایات، زبان، لباس، اور طرزِ زندگی کو کمتر بنا کر مغربی تہذیب کو اعلیٰ ترین ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تہذیب اور ثقافت کو نئے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلامی اور مشرقی ثقافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ، لباس، زبان، طرزِ تعمیر، اور آرٹ کے میدان میں ایک ایسا احیاء کیا جائے جو ہمیں فکری اور تہذیبی طور پر آزاد کر سکے۔
پانچواں اور سب سے اہم قدم روحانی اور اخلاقی بیداری ہے۔
غلامی کے خلاف سب سے بڑی قوت وہی فرد اور قوم رکھ سکتی ہے جس کا اندرونی نظام مضبوط ہو۔ جب تک افراد میں روحانی بیداری، تقویٰ، خود احتسابی، اور اخلاقی صلابت پیدا نہیں ہوگی، وہ ہر طرح کے استحصالی نظام کا شکار رہیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن، احادیث، اور اسلامی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے اور اخلاقی، روحانی، اور فکری سطح پر تربیت دی جائے تاکہ انسان مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو سکے اور کسی استحصالی قوت کا شکار نہ بنے۔
اگر پلیٹ فارمز کی بات کی جائے تو بدقسمتی سے کوئی بھی عالمی سطح کا ایسا مکمل پلیٹ فارم موجود نہیں جو ان تمام مسائل کا احاطہ کرے۔ تاہم، مختلف میدانوں میں کچھ کوششیں ہو رہی ہیں جو اس غلامی کے خلاف مزاحمت میں مدد دے سکتی ہیں۔ اسلامی بینکاری اور معاشی خود مختاری کے لیے مختلف اسلامی مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں، مگر انہیں مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے میدان میں بعض اسلامی جامعات جدید اور اسلامی علوم کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن یہ کاوشیں محدود پیمانے پر ہیں۔ میڈیا میں کچھ آزادانہ اسلامی اور مشرقی ذرائع ابلاغ موجود ہیں جو مین اسٹریم میڈیا کے خلاف متبادل بیانیہ فراہم کر رہے ہیں، مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے کہ آزاد سوشل نیٹ ورکس، ویب سائٹس، اور اسلامی ڈیجیٹل اکیڈمیز بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
یہ سب اقدامات ایک دن میں ممکن نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے ایک مضبوط فکری اور عملی تحریک کی ضرورت ہے۔ سب سے بہتر نقطۂ آغاز یہ ہے کہ پہلے ہر فرد خود شعور حاصل کرے اور اس غلامی کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں اپنا حصہ ڈالے، مقامی اور خود انحصاری پر مبنی معیشت کو سپورٹ کرے، مین اسٹریم میڈیا کے بجائے آزاد ذرائع سے معلومات حاصل کرے، اور اپنی تہذیب و ثقافت کے احیاء میں کردار ادا کرے۔ جب اجتماعی سطح پر یہ شعور پروان چڑھے گا، تب ہی کوئی مضبوط پلیٹ فارم بن سکے گا جو حقیقی معنوں میں اس غلامی کے شکنجے کو توڑ سکے۔
البتہ! دنیا میں سب سے جامع اور ہمہ گیر تعلیمات رکھنے والا مذہب جو کہ اسلام ہے وہی اس نجات میں سب سے زیادہ معاون ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ایک مکمل نظامِ زندگی فراہم کرتا ہے جو انسان کی تمام جہتوں کو شامل کرتا ہے۔ اگر کوئی مذہب حقیقی معنوں میں مکمل اور آفاقی ہے، تو وہ نہ صرف فرد کی روحانی ترقی کا ضامن ہوگا بلکہ اجتماعی سطح پر ایک عادلانہ، آزاد اور باوقار زندگی کا خاکہ بھی پیش کرے گا۔
اسلام، جو کہ الٰہی تعلیمات کا آخری اور کامل ترین نظام ہے، جدید غلامی سے نجات کے لیے سب سے مؤثر اصول اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ دین نہ صرف عقائد اور عبادات کا مجموعہ ہے بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو فرد کی اخلاقی، سماجی، سیاسی، اقتصادی، اور علمی ترقی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔
اسلام سب سے پہلے فکری آزادی کو فروغ دیتا ہے۔
قرآن بار بار تدبر، تفکر، اور عقل کے استعمال پر زور دیتا ہے تاکہ انسان اندھی تقلید، فکری غلامی اور استحصالی نظاموں سے آزاد ہو سکے۔ سورہ بقرہ میں اللہ واضح فرماتا ہے کہ "لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" یعنی دین میں کوئی جبر نہیں، کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جو شعور اور دلائل پر مبنی ہے، نہ کہ کسی جبر یا استحصال پر۔ فکری آزادی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی غلامی کے نظام سے نکلنے کا پہلا زینہ ہے۔
اسلام معاشی خودمختاری پر بھی زور دیتا ہے۔
زکوٰۃ، خمس، صدقات، اور تجارت کے اسلامی اصول ایک ایسے اقتصادی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جو سود، اجارہ داری، اور استحصالی سرمایہ داری کے چنگل سے آزاد ہو۔ اسلام میں سود کو حرام قرار دیا گیا کیونکہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر جدید مالیاتی غلامی کی عمارت کھڑی ہے۔ اگر اسلامی معیشت کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نیوکالونیل سرمایہ دارانہ نظام سے مکمل نجات ممکن ہو سکتی ہے۔
اسلام سیاسی خودمختاری کا بھی قائل ہے۔
سورہ نساء میں اللہ فرماتا ہے کہ
"وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"
یعنی اطاعت صرف اللہ، رسول، اور ان کے برحق اولی الامر کی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اقتدار انہی کے پاس ہونا چاہیے جو عادل ہوں اور معاشرے کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلائیں، نہ کہ وہ جو مغربی استعمار کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں یا غیر اسلامی طاقتوں کے آلہ کار بنتے ہیں۔
آج مسلم دنیا کی غلامی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ حکمران مغربی طاقتوں کے تابع ہو چکے ہیں، جبکہ اسلام اس کے بالکل برعکس ایک عادلانہ قیادت کا تصور پیش کرتا ہے۔
اسلام میڈیا اور ثقافتی آزادی کو بھی بہت اہمیت دیتا ہے۔
جدید غلامی کا ایک بڑا ہتھیار میڈیا ہے جو لوگوں کے خیالات اور ترجیحات کو قابو میں رکھتا ہے۔ اسلام سچائی پر مبنی بیانیہ کو فروغ دیتا ہے اور پروپیگنڈے، افواہوں اور غلط معلومات کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ سورہ الحجرات میں واضح حکم ہے کہ اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے تحقیق کرو، تاکہ دھوکہ دہی کا شکار نہ ہو جاؤ۔ آج اگر مسلم دنیا آزاد میڈیا نیٹ ورکس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قائم کرے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوں، تو ذہنی غلامی کے شکنجے سے نکلا جا سکتا ہے۔
اسلام تعلیم اور تحقیق کو بھی بنیادی اہمیت دیتا ہے۔
مسلمانوں کی علمی غلامی اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے تحقیق چھوڑ دی اور مغربی علمی نظام پر انحصار شروع کر دیا۔
اسلام میں
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ"
پڑھ اپنے رب کے نام سے"
کا حکم سب سے پہلے نازل ہوا، جو بتاتا ہے کہ اسلام میں علم کی جستجو کتنی اہم ہے۔ اگر مسلم دنیا اپنی تعلیمی خود مختاری حاصل کر لے اور مغرب کے تسلط سے نکل کر اپنی علمی روایات کو زندہ کرے، تو ذہنی غلامی کے بندھن توڑے جا سکتے ہیں۔
اسلام عدل و انصاف کا بھی علمبردار ہے۔
جدید عدالتی نظام بیشتر استعماری قوانین پر مبنی ہے جو طاقتور کو مزید طاقت دیتا ہے اور کمزور کو انصاف سے محروم رکھتا ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام مکمل طور پر عدل، مساوات، اور حق پر مبنی ہے۔
سورہ النساء میں اللہ فرماتا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"
یعنی اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو
۔ اگر مسلمان اپنی عدالتی اور قانونی آزادی حاصل کر لیں اور اسلامی عدل کے اصولوں پر مبنی نظام نافذ کریں، تو جدید قانونی غلامی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اسلام خاندانی نظام کو بھی محفوظ رکھنے کا درس دیتا ہے، جبکہ جدید غلامی کا ایک بڑا ہتھیار خاندانوں کو کمزور کرنا ہے۔ جدید ثقافتی اور قانونی نظام خاندان کے بنیادی ڈھانچے کو توڑ کر انفرادی آزادی، جنسی انارکی، اور مغربی خاندانی ماڈلز کو فروغ دیتا ہے، جس سے مسلمان اپنی روایات اور اقدار سے کٹ جاتے ہیں۔ اسلام نے شادی، والدین کے حقوق، بچوں کی تربیت، اور خاندان کی اہمیت پر جو تعلیمات دی ہیں، وہ جدید تہذیبی یلغار کا بہترین جواب ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام جدید غلامی سے نجات کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے، کیونکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اگر مسلمان ان اصولوں کو اپنی زندگی میں نافذ کریں، اپنے سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، اور تہذیبی نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کریں، اور استعمار کے تسلط سے نکلنے کے لیے اجتماعی کوشش کریں، تو نہ صرف وہ خود غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر مظلوموں کے لیے بھی آزادی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اسلام کا نفاذ ہی وہ حقیقی حل ہے جو نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیا کو اس استحصالی نظام سے نجات دلا سکتا ہے۔
تعلیم جدید غلامی سے نجات کے عمل میں سب سے بنیادی اور پہلا مرحلہ ہے، جو فکری، روحانی، اور عملی آزادی کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ وہی مرحلہ ہے جسے اسلامی تاریخ میں "مکی دور" سے تعبیر کیا جاتا ہے، جہاں بنیادی طور پر عقائد، نظریات، فکری شعور اور اخلاقی تربیت کو مضبوط کیا جاتا ہے تاکہ ایک ایسا مضبوط اور باشعور فرد اور معاشرہ تیار ہو جو کسی بھی استحصالی نظام کے سامنے جھکنے کے بجائے حق اور عدل کی راہ پر گامزن ہو۔ مکی مرحلہ وہ دور ہوتا ہے جب افراد کو فکری غلامی، خوف، تعصب، اور غیر اسلامی نظریات سے آزاد کر کے ان کی سوچ کو حقیقت کی روشنی میں استوار کیا جاتا ہے اور انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی فکری، سیاسی، یا سماجی دباؤ کا سامنا کر سکیں۔
مکی مرحلے میں سب سے پہلا کام ذہنی آزادی کی بحالی ہے۔ غلامی کی سب سے خطرناک شکل فکری غلامی ہے، جہاں انسان سوچنے کے بجائے دوسروں کے مسلط کردہ نظریات پر یقین کر لیتا ہے۔ مکی دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے لوگوں کو یہ شعور دیا کہ وہ حق و باطل میں تمیز کریں، اندھی تقلید سے بچیں، اور اپنی عقل کو استعمال کریں۔ یہی اصول آج بھی ضروری ہے، کیونکہ جدید تعلیم، میڈیا اور پروپیگنڈہ انسان کی سوچ کو مخصوص نظریات کا پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ایسا نظامِ تعلیم ترتیب دیا جائے جو نہ صرف سائنسی و دنیاوی علوم پر مشتمل ہو بلکہ ایک مضبوط فکری و نظریاتی بنیاد بھی فراہم کرے، تاکہ ایک ایسا باشعور معاشرہ تشکیل پائے جو ذہنی و فکری غلامی کو قبول نہ کرے۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مکی مرحلے میں شخصی، اخلاقی اور روحانی تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ اگر کسی تحریک کو کامیاب بنانا ہو تو پہلے افراد کو اخلاقی، روحانی اور عملی طور پر اتنا مضبوط بنایا جاتا ہے کہ وہ مشکلات اور دباؤ کا سامنا کر سکیں۔ اس کے بغیر اگر کوئی معاشرہ محض جذباتی یا وقتی بیداری کے تحت اٹھ کھڑا ہو تو وہ جلد ہی استعمار کی چالوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ سالہ مکی دور میں بنیادی طور پر فرد کی تربیت پر زور دیا، کیونکہ جب تک افراد نظریاتی، ایمانی اور اخلاقی لحاظ سے مضبوط نہ ہوں، وہ کسی بھی طویل جدوجہد میں ثابت قدم نہیں رہ سکتے۔ آج کے دور میں بھی یہی ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں ایسے نصاب اور تربیتی پروگرام شامل کیے جائیں جو افراد کو حق و باطل کی پہچان، خودداری، سچائی، صبر، استقلال، اور قربانی جیسے اوصاف سے آراستہ کریں۔
مکی مرحلے کا تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں صبر اور تدریجی ارتقا کے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے۔ کوئی بھی بڑی تبدیلی یکدم رونما نہیں ہوتی، بلکہ ایک طویل اور منظم جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ مکی دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوری تصادم کے بجائے فکری، تعلیمی اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کیا، کیونکہ جب تک افراد شعوری اور عملی طور پر تیار نہ ہوں، تب تک کوئی بھی تحریک حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ یہی اصول آج بھی نافذ ہوتا ہے۔ جدید غلامی کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں، مدارس، جامعات اور علمی مراکز میں فکری انقلاب برپا کیا جائے، تاکہ افراد پہلے ذہنی طور پر آزاد ہوں، پھر عملی اقدامات کی طرف بڑھیں۔
مکی دور میں چھوٹے مگر پائیدار اجتماعات اور مراکز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دارِ ارقم جیسے مراکز کو علمی و فکری تربیت کے لیے استعمال کیا، جہاں افراد کو نہ صرف نظریاتی طور پر مضبوط کیا جاتا بلکہ عملی طور پر بھی تیار کیا جاتا۔ آج کے دور میں بھی ضروری ہے کہ ایسے تعلیمی و فکری مراکز قائم کیے جائیں جو جدید تعلیمی غلامی سے نکلنے کے لیے تحقیق، مکالمہ، اور فکری بیداری کے پلیٹ فارم فراہم کریں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مکی مرحلے میں وقتی سیاسی یا عسکری اقتدار کے بجائے نظریاتی بالادستی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آج کے جدید استعماری نظام میں بھی یہی چال چلی جاتی ہے کہ عوام کو محض وقتی مسائل میں الجھا کر حقیقی فکری آزادی کی جانب بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ اگر ہم حقیقی نجات چاہتے ہیں تو پہلے فکری میدان میں آزادی حاصل کرنا ہوگی، جس کے بعد مدنی دور کا آغاز ممکن ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عملی اقدامات نہ کیے جائیں، بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ جب تک بنیاد مضبوط نہ ہو، عمارت کی تعمیر بے سود ہوگی۔
اس مکی دور کا سب سے بڑا مقصد ایسی نسل تیار کرنا ہے جو جدید غلامی کے مختلف پہلوؤں کو پہچان سکے اور اپنے دین، ثقافت، معیشت، سیاست اور تعلیم کو آزاد کر سکے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر بعد میں ایک منظم اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں کیا۔ آج کے دور میں بھی جدید استعماری نظام کو شکست دینے کے لیے سب سے پہلے اسی فکری و تعلیمی بیداری کو عام کرنا ہوگا، تاکہ ایک باشعور اور خودمختار نسل تیار ہو جو جدید غلامی کے خلاف علمی اور عملی جدوجہد کر سکے۔
امام خمینیؒ کی جدوجہد جدید غلامی سے نجات کے عملی ماڈل کے طور پر بے حد مؤثر اور قابلِ تقلید ہے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف فکری اور نظریاتی بنیادوں پر قوم کی تربیت کی بلکہ عملی سطح پر بھی استعماری طاقتوں کے شکنجے کو توڑنے کا ایک منظم راستہ فراہم کیا۔ ان کی تحریک کا آغاز کسی فوری تصادم سے نہیں بلکہ فکری، تعلیمی، اور نظریاتی بیداری سے ہوا، جس میں انہوں نے اسلامی اصولوں کو اس انداز میں پیش کیا کہ ایک غلام قوم میں خود اعتمادی اور خودمختاری کا شعور پیدا ہو۔ ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ پہلے فکری انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوئے اور پھر عوامی بیداری کو عملی اقدام میں تبدیل کیا۔
امام خمینیؒ نے سب سے پہلے اس فکری غلامی کو چیلنج کیا جو صدیوں سے مسلمان معاشروں میں استعماری طاقتوں کے ذریعے مسلط کی گئی تھی۔ انہوں نے قوم کو یہ باور کرایا کہ مغرب یا مشرق کے نظاموں کی پیروی کے بجائے اسلام میں ہی وہ مکمل نظام موجود ہے جو فرد اور معاشرے کو حقیقی آزادی عطا کرتا ہے۔ ان کے دروس، تقاریر اور تحریریں اس بنیاد پر تھیں کہ ایک ایسا معاشرہ تیار کیا جائے جو خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کر سکے اور کسی بیرونی طاقت کے دباؤ میں نہ آئے۔ یہ نظریاتی بیداری جدید غلامی کے خاتمے کے لیے آج بھی اولین شرط ہے، کیونکہ جب تک افراد اور اقوام اپنی فکری شناخت کو بحال نہ کریں، وہ کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔
امام خمینیؒ کی جدوجہد میں تعلیم اور علماء کا کردار بھی بنیادی تھا۔ انہوں نے اسلامی مدارس اور جامعات کو محض روایتی تعلیم کے مراکز کے بجائے انقلابی تحریک کے مراکز میں تبدیل کیا، جہاں سے ایسے علماء اور دانشور تیار ہوئے جو استعماری قوتوں کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت میں قیادت کر سکتے تھے۔ یہ وہی طریقہ ہے جسے آج کے دور میں اپنانا ہوگا، یعنی تعلیمی اداروں کو صرف ڈگریاں دینے والے مراکز بنانے کے بجائے حقیقی معنوں میں آزادی، خودداری، اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
امام خمینیؒ کی حکمتِ عملی میں صبر، استقامت اور تدریجی پیش قدمی بھی ایک اہم پہلو تھا۔ انہوں نے فوری انقلاب کے بجائے ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کی، جس میں افراد کی فکری تربیت، عوامی بیداری، اور بتدریج سیاسی، اقتصادی اور سماجی مزاحمت کو فروغ دیا گیا۔ یہی تدریجی عمل انہیں اس مقام تک لے آیا کہ عوام میں استعماری حکومت کے خلاف اتنا شعور پیدا ہو گیا کہ وہ خود کھڑے ہو کر ظلم کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ اصول آج بھی ناگزیر ہے کہ پہلے عوام کی فکری، تعلیمی اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے، پھر عملی جدوجہد کی طرف بڑھا جائے، کیونکہ بغیر تیاری کے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
امام خمینیؒ نے جدید میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی طاقت کو بھی پہچانا اور اس کا استعمال جدوجہد کے لیے کیا۔ انہوں نے کیسٹ ریکارڈنگز، کتابیں، رسائل اور دیگر ذرائع سے اپنا پیغام عوام تک پہنچایا، تاکہ استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکے۔ آج کے دور میں بھی میڈیا جدید غلامی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس لیے اسی میدان میں مزاحمت ناگزیر ہے۔ اگر ہم آج اس غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں متبادل میڈیا پلیٹ فارمز، تعلیمی ذرائع، اور فکری تحریکوں کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ استعماری بیانیے کو چیلنج کیا جا سکے۔
امام خمینیؒ کی ایک اور اہم حکمت عملی یہ تھی کہ انہوں نے اسلامی مزاحمت کو محض ایک مذہبی معاملہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے ایک جامع نظامِ زندگی کی صورت میں پیش کیا، جس میں سیاست، معیشت، تعلیم، ثقافت، اور عدل و انصاف سب شامل تھے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو نہ صرف افراد کی روحانی اصلاح کرتا ہے بلکہ ایک خودمختار، عادلانہ اور استعماری طاقتوں سے آزاد نظام بھی فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے آج اپنانا ضروری ہے کہ اسلام کو صرف عبادات یا روحانی اصلاح کے دائرے میں محدود نہ کیا جائے، بلکہ اسے ایک مکمل نظام کے طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے، تاکہ مسلمان اقوام جدید استعمار کے چنگل سے نکل سکیں۔
ان کے سب سے اہم اصولوں میں سے ایک "لا شرقیہ، لا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ" کا نعرہ تھا، جس کا مطلب تھا کہ کوئی بھی غیر اسلامی نظریہ یا استعماری طاقت ہمارے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ نظریہ جدید غلامی کے مکمل خاتمے کی بنیاد ہے، کیونکہ جب تک اقوام اپنے سیاسی، معاشی، اور تعلیمی فیصلوں میں خودمختار نہ ہوں، وہ آزاد نہیں ہو سکتیں۔ امام خمینیؒ نے اس نعرے کو عملی طور پر نافذ کیا، جس کے نتیجے میں ایران نے عالمی استعماری قوتوں کے دباؤ کو رد کر کے اپنی خودمختار پالیسی ترتیب دی۔ آج کے مسلمانوں کو بھی اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے سیاسی و معاشی خودمختاری حاصل کرنی ہوگی، تاکہ وہ عالمی طاقتوں کے شکنجے سے باہر نکل سکیں۔
امام خمینیؒ کی تحریک کا سب سے منفرد پہلو یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے قوم کو اس ذہنی کیفیت سے نکالا کہ مغربی یا استعماری طاقتوں کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ یہی سب سے بنیادی نکتہ ہے، کیونکہ جدید غلامی کی سب سے بڑی جڑ یہی احساسِ کمتری ہے جو مسلمان اقوام میں پیدا کر دی گئی ہے۔ جب تک مسلمان اپنی اصل طاقت اور صلاحیت کو نہیں پہچانیں گے، وہ ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہیں گے۔
آج اگر جدید غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو امام خمینیؒ کی حکمتِ عملی کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے، جس میں سب سے پہلے فکری آزادی، تعلیم و تربیت، صبر و استقامت، متبادل میڈیا اور اسلامی نظام کے نفاذ پر توجہ دی جائے۔ ان کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک ایسی نسل تیار کی جا سکتی ہے جو نہ صرف ذہنی طور پر آزاد ہو بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے استعمار کا مقابلہ بھی کر سکے۔ امام خمینیؒ نے ہمیں یہ سکھایا کہ غلامی سے نجات ممکن ہے، بس شرط یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو پہچانے، شعور کو بیدار کرے، اور قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے۔