‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 106

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 106
مشاہدے: 5056
ڈاؤنلوڈ: 167

تبصرے:

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5056 / ڈاؤنلوڈ: 167
سائز سائز سائز
‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

رجال کشی کے بارے میں نظریات

رجال کشی شیخ جلیل القدر محمد بن عمر بن عبد العزیز کشی ؒ (۱)کی تالیف ہے جن کی کنیت ابو عمرو ہے۔

یہ جلیل القدر شیخ، شیخ کلینی ؒ کے ہم عصر تھے اور ان کے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔

اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے: ثقہ، عین (ماہر و نمایا)، روایات اور رجال کے بارے میں بصیرت رکھنے والے ہیں، البتہ ضعیف راویوں سے کثرت سے روایت کرتے ہیں۔

حوالہ:

(۱)- کہا گیا ہے کہ "کشّی" کاف پر زبر اور شین پر تشدید، نسبت ہے "کَشّ" شہر کی طرف، جو ماوراء النہر کے علاقوں میں سے ایک شہر ہے، اور سمرقند سے چند منزلوں کے فاصلے پر واقع ہے۔

یہ بات اپنے مقام پر، مگر ہم نے خود سید خوییؒ کو یہ نام "کَشی" یعنی کاف پر زبر اور شین مخفف کے ساتھ پڑھتے سنا ہے۔

یہ جلیل القدر شیخ عیاشی ؒ کے شاگردوں میں سے تھے۔ نجاشی ؒ نے ذکر کیا ہے کہ کشی ؒ نے عیاشی ؒ کی صحبت حاصل کی، ان کے پاس تعلیم حاصل کی، اور ان کے گھر میں رہائش کی جو شیعوں اور علماء کے لیے ایک مرتع (ملاقات اور تعلیم کا مرکز) تھا۔

اس شیخ ؒ نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں بعض راویوں کی مدح یا ذم سے متعلق روایات شامل ہیں، چنانچہ وہ عام طور پر یہ نہیں کہتے کہ یہ ثقہ ہے یا ضعیف، بلکہ وہ پہلے راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں وارد ایک یا زیادہ روایتیں ذکر کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر وہ تمام راویوں یا اکثر راویوں کا ذکر نہیں کرتے، بلکہ صرف اُن کا ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں کوئی روایت وارد ہوئی ہے۔

اور اسی وجہ سے اس میں مذکور راویوں کی تعداد کم ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد ۵۲۰ پر مشتمل ہیں۔

اور یہ بات مشہور ہے کہ کشی ؒ کی اصل کتاب " رجال الکشی" آج ہمیں دستیاب نہیں ہے، بلکہ جو ہمارے پاس ہے، وہ وہی ہے جسے شیخ طوسی ؒ نے تدوین کیا، مرتب کیا اور اس کی اصلاح کی۔ اور اسی وجہ سے آج جو موجود ہے اسے " اختیار معرفۃ الرجال" کے نام سے جانا جاتا ہے، چنانچہ اصل کتاب کا نام " معرفۃ الرجال " ہے، اور شیخ طوسی ؒ کی کوششوں کا نتیجہ " اختیار معرفۃ الرجال" ہے اس بنا پر کہ یہ وہ ہے جسے شیخ ؒ نے اس کتاب سے اختیار کیا ہے۔

اور شیخ طوسی ؒ نے جو اصلاح کا عمل کیا ہے اس میں بحث واقع ہوئی ہے، چنانچہ یہ احتمال ہے کہ اصل کتاب میں اہل سنت کے رجال شامل تھے، اور شیخ طوسی ؒ نے اسے اس سے پاک کر کے اسے شیعہ رجال کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔

اور یہ احتمال بھی ہے کہ اصل کتاب میں کچھ زائد اور اضافی مواد شامل تھا، جسے شیخ ؒ نے نکال کر کتاب کو ان سے پاک کر دیا۔

اور بعض لوگوں نے نقل کیا ہے کہ انہیں اس کتاب کا ایک ایسا نسخہ ملا جو شیخ حسن صاحبِ معالم ؒ کے پاس تھا۔ انہوں نے اس نسخے کی تعریف کی اور کتاب کو اتنا وسیع قرار دیا کہ اس کی یہ وسعت آج کے رائج نسخے سے مختلف ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پرانا نسخہ ایک اسلامی دائرۃ المعارف (اسلامی انسائیکلوپیڈیا) کی مانند تھا، اور علمِ رجال محض اس کے کچھ ابواب میں شامل تھا۔

اور اس کتاب کی متعدد بار طباعت ہوئی ہے، جن میں سب سے بہتر طباعت دانشگاہ (جامعہ) کی ہے، جس کی تحقیق شیخ حسن المصطفوی ؒ نے کی ہے۔

اور اور کتاب کا جائزہ لینا قابلِ قدر ہے چونکہ اس میں بہت سے راویوں کے حالات اور سوانح کو ان کے متعلق بیان کردہ روایات کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔

۱۰۱

رجال شیخ طوسی

شیخ طوسی ؒ کی دو کتابیں ہیں جن میں سے ایک رجال میں ہے، اور یہ وہی ہے جس کے بارے میں ہم اب بات کرنا چاہتے ہیں اور یہ رجال شیخ طوسی کے نام سے معروف ہے۔

اور شیخ ؒ نے اس کتاب میں پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے ناموں کا ذکر کیا ہے پھر امیر المؤمنین علیہم السلام کے اصحاب پھر باقی ائمہ صلوات اللہ و سلامہ علیہم کے اصحاب کا۔ اور آخر میں انہوں نے ان کے ناموں کی فہرست ذکر کی جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی۔

اور اس کتاب میں شیخ ؒ کی غالب خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ راوی کا نام ذکر کرتے ہیں تو اس کی وثاقت یا ضعف کا ذکر نہیں کرتے اگرچہ انہوں نے کچھ مقامات پر ایسا کیا ہے۔

اور اس بنیاد پر مذکورہ کتاب کا فائدہ راوی کے طبقہ اور یہ جاننے میں ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے کس زمانی مرحلے میں زندگی گذاری اور وہ کس امام علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہے۔

اور مذکورہ کتاب سے متعلق دو نکات ایسے ہیں جو مختصر توقف کے مستحق ہیں۔

پہلا نکتہ

شیخ ؒ نے کتاب کے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ میں پہلے ان کے نام ذکر کروں گا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام میں سے کسی سے روایت کی ہے پھر میں دوسرے مرحلے میں وہ نام ذکر کروں گا جنہوں نے ان علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے چاہے وہ راوی ان کا ہم عصر ہوں اور اس نے ان سے روایت نہ کی ہو یا وہ ان کا ہم عصر نہ ہوں۔

اور یہ ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ شیخ ؒ نے بعض مقامات میں ایک ہی شخص کا نام دو بار ذکر کیا ہے، ایک بار مثلاً امام صادق علیہ السلام سے روایت کرنے والوں کے باب میں اور دوسری بار ان کے باب میں جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے، جیسا کہ قاسم بن محمد جوہری، فضالہ بن ایوب، محمد بن عیسیٰ عبیدی اور ۔۔۔ کے معاملے میں ہے۔

اور اس میں تضاد واضح ہے کیونکہ ایک ہی شخص نے جب ائمہ علیہم السلام میں سے کسی کو پایا ہے اور ان سے روایت کی ہے تو مناسب ہے کہ اس کا ذکر صرف پہلے باب میں کیا جائے اور اس کا نام ان کے باب میں دہرایا نہ جائے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے، اور اگر اس نے ائمہ علیہم السلام میں سے کسی کو نہیں پایا ہو تو مناسب ہے کہ اس کا ذکر صرف دوسرے باب میں کیا جائے، چنانچہ اس طرح دونوں ابواب میں اس کا ذکر کرنے سے تضاد اور یہ لازم آتا ہے کہ ایک ہی شخص ائمہ علیہم السلام سے روایت کرنے والا بھی ہو اور ائمہ علیہم السلام سے روایت نہ کرنے والا بھی ہو۔

اور مذکورہ اشکال کو حل کرنے کے لیے چند وجوہات ذکر کی گئی ہیں:-

۱۔ کسی امام علیہ السلام کے اصحاب میں کسی شخص کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کے ہم عصر تھے چاہے انہوں نے ان سے روایت کی ہو یا نہ کی ہو۔ اس بنیاد پر ایک ہی شخص کا دونوں ابواب میں ذکر کرنا صحیح ہے، چنانچہ اسے ائمہ علیہم السلام کے اصحاب کے باب میں اس بنا پر ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے اصحاب میں سے اور ان کے ہم عصر تھے چاہے انہوں نے ان سے روایت نہ کی ہو، اور اسے دوسرے باب میں اس بنا پر ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ اگرچہ ائمہ علیہم السلام کے ہم عصر تھے لیکن انہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی تھی۔

اور اس کا رد یہ ہے:

اولاً: جو کچھ ذکر کیا گیا ہے وہ شیخ ؒ نے خود مقدمے میں جو صراحت کی ہے اس کے خلاف ہے جہاں انہوں نے کہا کہ میں پہلے مرحلے میں ان کے نام ذکر کروں گا جنہوں نے ائمہ علیہم السلام میں سے کسی سے روایت کی ہے اور میں دوسرے مرحلے میں وہ نام ذکر کروں گا جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے، اور انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں پہلے ان کے نام ذکر کروں گا جو ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے چاہے انہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہ کی ہو۔

ثانیاً: جب ہم ان ناموں کا جائزہ لیتے ہیں جن کا دونوں ابواب میں تکرار ہوا ہے تو ہم پاتے ہیں کہ بعض میں مذکورہ تشریح صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے معصوم سے روایت کی ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں سے ہیں اور انہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔

۲۔ اگر کوئی شخص ائمہ علیہم السلام سے کبھی براہِ راست اور بغیر کسی راوی کے واسطے کے روایت کرتا ہو اور کبھی کسی دوسرے راوی کے واسطے سے روایت کرتا ہو تو اس کا دونوں ابواب میں ذکر کرنا صحیح ہے، چنانچہ اس اعتبار سے کہ وہ بعض اوقات بغیر واسطہ کے روایت کرتا ہے تو اس کا ان افراد کے باب میں ذکر کرنا صحیح ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام میں سے کسی سے روایت کی ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ بعض اوقات براہِ راست روایت نہیں کرتا تو اس کا ان افراد کے باب میں ذکر کرنا صحیح ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے:

اولاً: جب کسی شخص نے اگرچہ بعض اوقات ائمہ علیہم السلام سے براہِ راست روایت کی ہے تو اس کا ان کے باب میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے کیونکہ اس پر حقیقت میں یہ صادق آتا ہے کہ وہ ان میں سے ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت کی ہے اور وہ حقیقت میں ان میں سے نہیں ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔

ثانیاً: مذکورہ تشریح کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ زیادہ تر راویوں کو دونوں ابواب میں ذکر کریں کیونکہ زیادہ تر راوی جیسا کہ بعض اوقات امام علیہ السلام سے براہِ راست روایت کرتے ہیں اسی طرح سے بعض اوقات واسطہ کے ساتھ بھی روایت کرتے ہیں، جبکہ تکرار بہت کم راویوں میں واقع ہوئی ہے۔

۳۔ یہ اعتقاد رکھنا کہ راوی جدا جدا ہے اس طرح کہ دونوں ابواب میں مذکور ایک ہی نام دو جدا جدا اشخاص کے نام ہیں، چنانچہ قاسم بن محمد جوہری کی مثال میں مثلاً یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ دو اشخاص ہیں جن میں سے ہر ایک کو قاسم بن محمد جوہری کہا جاتا ہے ان میں سے ایک ائمہ علیہم السلام سے روایت کرتا ہے اور دوسرا ائمہ علیہم السلام سے سے روایت نہیں کرتا۔

اور یہ وجہ بعید ہے کیونکہ دو اشخاص کا اپنے نام، اپنے والد کے نام اور اپنے لقب میں ایک جیسا ہونا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اور اگر ایسا ایک یا دو بار ممکن ہو تب بھی ایسا متعدد بار پایا جانا بعید ہے۔

اور ان وجوہات کا باطل ہونا واضح ہو جانے کے ساتھ ہم کہتے ہیں: یہ قریب ہے کہ شیخ ؒ سے اس طرح کا صدور غفلت اور غلطی کی وجہ سے ہوا ہو کیونکہ علمِ رجال کا عنوان ناموں کی کثرت اور ان کے ایک دوسرے سے مشابہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی بات ممکن ہونے کی تائید کرتا ہے۔

یہ سب اس کے علاوہ ہے کہ شیخ قدّس سرّه کے علمی کاموں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ اپنے زمانے میں شیعوں کے مرجع تھے، اور عظیم استاد تھے جو ہر روز اپنے شاگردوں کو دروس دیا کرتے تھے۔ اسی طرح وہ ایسی عظیم الشان کتب کے مؤلّف بھی تھے جن میں سے ہر ایک کی تصنیف کے لیے عام طور پر ایک بڑی جماعت درکار ہوتی ہے۔ پس کبھی " التھذيب" پر نظر ڈالیں، کبھی " الاستبصار" پر، اور " النهاية" ، " المبسوط" ، " التبيان" ، " الفهرست" ، " ان کی رجال " ، " العدة في الاصول" ، " الخلاف" ، " تلخيص الشافي" وغیرہ کو دیکھیں۔

اس طرح کا شخص اگر ہم فرض کریں کہ اس سے اتنی غلطی ہوئی ہو تو یہ ان کے حق میں بہت کم ہے(۱)۔

حوالہ:

(۱)۔ اس موضوع کو لکھنے کے بعد ہمیں سید بروجردی قدس سرہ کا ان کے فقہی درس کی تحریر "نہایۃ التقریر" ج ۲ ص ۲۷۰ میں کلام ملا جس میں وہ کہتے ہیں: "بظاہر شیخ کی رجال مسودے کی صورت میں تھی اور شیخ کا مقصد اس کا دوبارہ جائزہ لے کر اسے منظم کرنا اور اسے ترتیب دینا تھا اور اس میں موجود بعض لوگوں کے حالات کو واضح کرنا تھا جیسا کہ بعض راویوں میں بغیر ان کے حالات کی وثاقت وغیرہ کے لحاظ سے بیان کیے فقط ان کے نام اور ان کے والد کے نام کا ذکر کرنے سے اس بات کی گواہی ملتی ہے، اور اسی طرح بعض راویوں کا بار بار ذکر کرنا ۔۔۔ یہ سب کچھ ان کی تالیف اور تصنیف کی کثیر مصروفیات کی وجہ سے ہے ۔۔۔ اس طرح کہ اگر ان کی زندگی کی مدت کو ان کی تالیفات پر تقسیم کیا جائے تو ان کی اس کتاب کے مقابلے میں صرف محدود گھنٹے ہی آتے ہیں"۔

دوسرا نکتہ

شیخ قدس سرہ کی جانب سے امام صادق علیہ السلام کے اصحاب کے باب میں بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ جب وہ کسی راوی کا نام ذکر کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ لفظ " اسند عنه" ذکر کرتے ہیں۔

اور مذکورہ لفظ سے مراد اور اِسے پڑھنے کے طریقے کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے کہ کیا اسے فعل مجہول کے صیغے میں پڑھا جائے، یعنی " اسند عنه" ، یا فعل معلوم کے صیغے میں، یعنی: " اسند عنه" ۔

اور اس سلسلے میں متعدد وجوہات ذکر کی گئی ہیں جن میں سے بعض کا ہم ذکر کرتے ہیں:-

۱۔ مقصود یہ ہے کہ مخصوص راوی نے امام علیہ السّلام سے براہِ راست روایت نہیں کی، بلکہ وہ امام علیہ السّلام سے واسطے کے ساتھ روایت کرتا ہے، یعنی مخصوص راوی نے امام علیہ السّلام سے سند اور واسطہ کے ذریعے روایت بیان کی ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ مذکورہ تعبیر ان اشخاص کے حق میں ذکر کی گئی ہے جنہوں نے امام علیہ السلام سے براہِ راست روایت کی ہے جیسے محمد بن مسلم اور جابر جعفی وغیرہ۔

۲۔مقصود یہ ہے کہ اکابرین نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے روایت کی ہے۔ اور اس لحاظ سے اسے فعلِ مجہول کے صیغے میں پڑھنا مناسب ہے، چنانچہ " اسند عنہ" یعنی اس سے استناد اور اعتماد کے ساتھ روایت کی گئی۔

اور اس کا رد یہ ہے : اس مذکورہ تفسیر کو سابقہ لفظ کے ظاہر سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، خاص طور سے جبکہ یہ لفظ بعض مجہول راویوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔

یہ سب اس کے علاوہ ہے کہ مذکورہ تفسیر کے لحاظ سے یہ مناسب ہے کہ یہ لفظ امام صادق علیہ السلام کے تمام اجلہ ثقات اصحاب کے حق میں ذکر کیا جائے جبکہ ہم اس کا ذکر ان میں سے بعض کے حق میں دیکھتے ہیں۔

۳۔ مقصد یہ ہے کہ وہ معین راوی صرف امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتا ہے اور ائمہ علیہم السلام میں سے کسی اور سے روایت نہیں کرتا، چنانچہ اس کی احادیث کی سند امام صادق علیہ السلام تک پہنچتی ہے اور کسی اور تک نہیں۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ مذکورہ تفسیر نہ صرف یہ کہ ظاہر کے خلاف ہے، بلکہ اس بات سے بھی ہم آہنگ نہیں کہ شیخ ؒ نے وہ سابقہ کلمہ ان راویوں کے حق میں بھی استعمال کیا ہے جنہوں نے غیر امام علیہ السلام سے سے بھی روایت کی ہے، جیسے محمد بن مسلم وغیرہ(۱)۔

اس بنا پر مذکورہ لفظ مبہم ہی رہتا ہے اور اس کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔

حوالہ:

(۱) ۔ پس محمد بن مسلم نے مثلاً زرارہ سے روایت کی، جیسا کہ "الکافی" جلد ۲ ، صفحہ ۶۳۰ ، ح ۱۲ میں ہے۔ اور حُمران سے بھی روایت کی، جیسا کہ "الکافی" جلد ۴ ، ص ۱۵۷ میں ہے۔

۱۰۲

فہرست شیخ طوسی

شیخ طوسی ؒ کی ایک اور کتاب ہے جس کا نام " الفھرست" ہے جس میں امامیہ راویوں میں سے جن کی کتابیں ہیں ان کا ذکر ہے۔

اور اس کتاب کا ان کی سابقہ کتاب الرجال سے فرق یہ ہے کہ سابقہ کتاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام کے اصحاب ذکر کرنے کی ذمہ دار ہے چاہے ان کی کوئی کتاب ہو یا نہ ہو، جبکہ یہ کتاب صرف ان شیعہ مصنفین کا ذکر کرتی ہے جن کی کتابیں ہیں، اور جن کی کوئی کتاب نہیں ہے ان کا ذکر نہیں کرتی چاہے وہ معصومین علیہم السلام کے اصحاب میں سے کوئی ہو۔ چنانچہ اس لحاظ سے یہ خاص طور پر شیعہ مصنفین کی فہرست ہے۔

اور ان قدس سرہ نے کتاب کے مقدمے میں بیان کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کا وہ ذکر کرتے ہیں اس کے بعد اس کے حق میں جو تعدیل یا جرح کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے اس کا ذکر کرنے، اور یہ کہ وہ ان کی روایات پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں، اور ان کا عقیدہ حق کے مطابق ہے یا نہیں، اس سب کا ذکر کرنے کے پابند ہیں۔

ان قدس سرہ نے ایسا بیان کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے وعدے کو بہت کم لوگوں کے حق میں پورا کیا ہے۔

اور شاید بعض کی توثیق نہ کرنے کا جواز یہ ہو کہ چونکہ ان کی وثاقت واضح تھی، چنانچہ زرارہ اور سلمان اور ان دونوں جیسے لوگ توثیق کے محتاج نہیں ہیں۔

اور اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بعض ایسے افراد کی توثیق کو نظر انداز کیا ہے جن کی حالت واضح نہ ہونے کے باعث ان کی توثیق ضروری تھی، جیسے عمار ساباطی۔ کیونکہ وہ فطحی ہونے کی وجہ سے اس کی روایت پر اعتماد نہ کرنے کی بات کہی جا سکتی ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کی توثیق کو نظر انداز کر دیا ہے۔

یہ ایک لحاظ سے ہے۔ اور دوسرے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسے اشخاص کی توثیق کی ہے جن کی توثیق کی ضرورت نہیں تھی جیسے شیخ کلینی ؒ اور ابن ابی عمیر ؒ۔

مزید برآں، کسی شخص کے حال کا واضح ہونا اور اس کا عظیم المرتبہ ثقہ ہونا صرف اس وقت ثابت ہوتا ہے جب شیخ ؒ، نجاشی ؒ اور ان دونوں کے علاوہ نے اس کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہو اور اسے ثقہ جلیل کہا ہو، تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شیخ ؒ کا کسی شخص کا ذکر نہ کرنا شاید اس کی جلالت کے واضح ہونے کی وجہ سے ہو؟

" جماعت " کی اصطلاح

پھر شیخ ؒ جب کسی شخص کا نام ذکر کرتے ہیں اور یہ کہ اس کی کتاب ہے تو وہ اکثر کتاب تک اپنا سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں۔ اور سلسلہ سند ذکر کرتے وقت کبھی کبھی کہتے ہیں: ہمیں خبر دی اس کتاب کے بارے میں ہمارے اصحاب کی ایک جماعت نے، انہوں نے فلاں سے، انہوں نے فلاں سے ۔۔۔

اور ممکن ہے کہ مذکورہ سلسلہ سند کی صحت پر اس لحاظ سے اشکال کیا جائے کہ جماعت سے مراد واضح نہیں ہے۔

لیکن اس کا رد یہ ہے کہ شیخ ؒ جن سے زیادہ تر نقل کرتے ہیں اور جن سے اصحاب کی کتابیں روایت کرتے ہیں وہ شیخ مفید ؒ، حسین بن عبید اللہ غضائری ؒ، احمد بن عبدون ؒ اور ان کے علاوہ ہیں، اور وہ وثاقت کے لیے معروف ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی جب وہ کہتے ہیں: ہمیں خبر دی ہمارے اصحاب کی ایک جماعت نے، انہوں نے فلاں سے، انہوں نے فلاں سے ۔۔۔ تو یقین حاصل ہو جائےگا کہ جماعت کے افراد میں سے کوئی ایک مذکورہ ثقات میں سے ہے جن کا پہلے ذکر ہوا ہے اور جن سے وہ دیگر مقامات میں کثرت سے روایت کرتے ہیں اور ان کے ناموں کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

یہ اس کے علاوہ ہے کہ وہ متعدد مقامات میں بالکل واضح کرتے ہیں کہ مجھے ایک جماعت نے خبر دی جن میں مفید ؒ، حسین بن عبید اللہ غضائری ؒ اور ابن عبدون ؒ شامل ہیں، اور ایسی صورت میں اشکال کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

رجال نجاشی

رجال نجاشی شیخ جلیل احمد بن علی بن عباس نجاشی ؒ کی تالیف ہے۔ اور ان کی کنیت ابو العباس ہے۔

یہ جلیل القدر شیخ ؒ، شیخ طوسی ؒ کے ہم عصر تھے۔ اور کبھی کبھی وہ ایک ہی استاد کے پاس حاضر ہونے میں شریک ہوتے تھے۔

اور اس جلیل القدر شیخ ؒ کی تعریف میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اور طائفہ و شیعہ علماء میں ان کی جلالتِ قدر اور عظمتِ شان اس سے کہیں زیادہ مشہور ہے کہ اسے نقل کرنے کی ضرورت ہو۔

اور اس شیخ ؒ نے اپنی کتاب صرف اصحاب کتب کو جمع کرنے کے لیے تالیف کی ہے، چنانچہ وہ صرف ان کا ذکر کرتے ہیں جن کی کوئی کتاب ہے پھر وہ اس تک اپنا سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں۔ اور اس معاملے میں وہ شیخ طوسی ؒ کی فہرست کے انداز پر ہے۔

اور انہوں نے مقدمے میں اس سبب کا ذکر کیا ہے جس نے انہیں اس کی تالیف پر آمادہ کیا اور وہ مخالفین کی طرف سے یہ طعنہ تھا کہ تمہارا نہ کوئی سلف ہے اور نہ ہی کوئی مصنف۔

اور انہوں نے اس کتاب کو حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ لیکن حروف تہجی کے مطابق ناموں کا ذکر کرنے سے پہلے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام امیر المؤمنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے متقدمین کی ایک جماعت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے کتاب تالیف کی تھی اور انہیں پہلے طبقہ کا نام دیا ہے اور ان کی تعداد دس سے کم تھی۔

اور اس پہلے طبقہ کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے حروف تہجی کے مطابق امام باقر علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے بعد کے ائمہ علیہم السلام کے اصحاب کے ناموں کا ذکر شروع کیا ہے۔

اور ان قدس سرہ نے مقدمہ میں راوی کی وثاقت یا ضعف کی طرف اشارہ کرنے کا وعدہ نہیں کیا، لیکن کتاب کے دوران انہوں نے اسے ذکر کرنا شروع کر دیا اور بہت کم مواقع پر ہی اسے نظر انداز کیا۔

اور یہ کتاب اس فن میں لکھی گئی کتابوں میں سب سے اہم اور زیادہ ترجیح کے لائق سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ کسی شخص کی توثیق اور تضعیف میں شیخ ؒ اور نجاشی ؒ کے کلام کے درمیان تعارض کی صورت میں نجاشی ؒ کے کلام کو ترجیح دی جائےگی۔

اور اس کتاب کو ترجیح دیئے جانے کی وجہ اس پر نظر ڈالنے والے پر واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس میں دقت اور انساب اور قبائل کی خبروں کے بارے میں وسیع اطلاع پاتا ہے، چنانچہ جب وہ بعض اشخاص کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ان کی اولاد، بھائیوں، اجداد اور ان کے حالات کا اس طرح سے ذکر کرتے ہیں گویا وہ خود ان میں سے ایک ہوں۔

اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ زیادہ تر راوی کوفہ اور اس کے گرد و نواح کے تھے اور نجاشی ؒ کوفی اور وہاں کے نمایا افراد میں سے تھے اور وہاں کے ایک معروف گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ اس بات کے علاوہ ہے جو پہلے گزر چکی کہ شیخ ؒ کے علوم مختلف شعبوں میں پھیلے ہوئے تھے، ان کی تالیفات کی کثرت تھی اور ان پر ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ برخلاف نجاشی ؒ کے، جو ایک مخصوص شعبہ کے ماہر سے زیادہ مشابہ تھے۔

دوسری تالیف کیوں؟

یہ سوال باقی رہتا ہے کہ نجاشی ؒ کو اپنی کتاب تالیف کرنے کی کیا ضرورت تھی جب یہ فرض کیا گیا ہے کہ شیخ ؒ نے اپنی معروف کتاب " الفھرست" میں اصحاب کتب اور مصنفین کا ذکر کرنے کا کام انجام دیا تھا؟ شیخ طوسی ؒ کی " الفھرست" اور " کتاب الرجال" ، نجاشی ؒ کے رجال کی تالیف سے پہلے کی ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ نجاشی ؒ نے اپنی کتاب میں شیخ طوسی ؒ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیخ طوسی ؒ کی تالیفات میں سے " الفھرست" اور " کتاب الرجال" بھی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں، سید البروجردی قدس سرہ سے منقول ہے کہ ان کے نزدیک نجاشی ؒ نے اپنی کتاب اس کوشش کے طور پر تالیف کی کہ فہرست الشیخ میں موجود مواد کی تصحیح کی جائے (۱) ۔

حوالہ:

(۱) ۔ ملاحظہ کریں مقدمة كتاب رجال الكشي طبع دانشگاه

اور ہم اس میں یہ اضافہ کر سکتے ہیں کہ نجاشی ؒ کی کتاب کو شیخ ؒ کی فہرست پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ان اشخاص کے حالات کے بیان میں زیادہ تفصیل سے کام لیتے ہیں جن کا وہ ذکر کرتے ہیں، یہ وہ بات دوسری کتاب کی تالیف کا جواز فراہم کرتی ہے۔

۱۰۳

برقی اور ابن غضائری کی رجال

دو دیگر کتابیں ہیں جو پہلے بیان شدہ چار کتابوں سے تالیف کے لحاظ سے قدیم ہیں۔

ان میں سے اول: رجال برقی۔

اور اس میں یہ بحث ہے کہ کیا یہ محمد بن خالد برقی ؒ کی ہے یا ان کے بیٹے احمد ؒ کی یا یہ کوئی تیسرے برقی ؒ کی ہے جو ان دونوں کے علاوہ ہیں۔

بعض متاخرین نے آخری احتمال کو اختیار کیا ہے۔

لیکن مذکورہ اختلاف غیر اہم ہے کیونکہ مذکورہ کتاب توثیق یا جرح کے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ بالکل شیخ طوسی ؒ کے رجال کی طرح رواۃ کے طبقات کو بیان کرتی ہے۔

اور یہ کتاب حال ہی میں ابن داود ؒ کے رجال کے ساتھ منسلک ہو کر طبع ہوئی ہے۔

دونوں میں سے دوسری: رجال ابن غضائری۔

ابن غضائری احمد بن حسین بن عبید اللہ غضائری ؒ ہیں۔ اور یہ احمد شیخ طوسی ؒ اور نجاشی ؒ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اور یہ تینوں احمد کے والد یعنی حسین بن عبید اللہ غضائری کے شاگردوں میں سے تھے۔

اور شیخ طوسی ؒ نے " الفھرست" کے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ احمد کی دو کتابیں تھیں جن میں سے ایک مصنفات کے ذکر میں تھی اور دوسری اصول کے ذکر میں۔ پھر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کتابوں کو ہمارے اصحاب میں سے کسی نے نقل نہیں کیا، اور وہ (احمد) رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا، اور ان کے بعض وارثوں نے ان دونوں کتابوں اور دیگر کتابوں کو تلف کر دیا جیسا کہ ان میں سے بعض نے ان کے بارے میں بیان کیا ہے۔

یہ بات اپنے مقام پر، لیکن علامہ ؒ اور سید ابن طاووس ؒ بعض اوقات مذکورہ کتاب سے نقل کرتے ہیں جیسا کہ علامہ حلی ؒ کے رجال کے جائزے کے دوران واضح ہو جاتا ہے۔

البتہ اس نقل شدہ بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ابن الغضائری ؒ کی رجال کی کتاب ان دونوں (علامہ حلّی ؒ اور سید ابن طاؤوس ؒ) تک پہنچ گئی ہو، جبکہ شیخ طوسی ؒ یہ نقل کر چکے ہیں کہ وہ دونوں کتابیں تلف ہو چکی ہیں۔اور اس سے قطع نظر بھی مذکورہ نقل پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مذکورہ کتاب تک سند مجہول ہے کیونکہ ان دونوں - علامہ ؒ اور ابن طاووس ؒ - نے ابن غضائری ؒ تک کا اپنا سلسلہ سند ذکر نہیں کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ سلسلہ سند صحیح اور قابلِ اعتماد ہے یا نہیں۔

پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابن غضائری ؒ نے اشخاص پر بہت زیادہ قدح (عیب جوئی) کی ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی ان کی قدح سے بچا ہو۔

اور اسی وجہ سے بعض لوگ اس لحاظ سے ان کی تضعیفات (راویوں کو ضعیف قرار دیئے جانے کے عمل) کو قبول کرنے میں تأمّل کرتے ہیں۔

لیکن اس پر بحث غیر اہم ہے بعد اس کے جو ہم نے بیان کیا کہ کتاب تلف ہو گئی ہے اور اس تک کا سلسلہ سند مجہول ہے۔

دیگر رجالی کتب

مذکورہ چار رجالی کتب - رجال کشی، رجال نجاشی، رجال طوسی اور الفھرست - اصولِ رجالیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں کیونکہ وہ اس شعبہ میں اصل اور معتمد ہیں، اور ان کے بعد جو کچھ بھی تالیف ہوا ہے وہ ان پر منحصر ہے اور ان سے اخذ کیا گیا ہے۔

اور ان متأخرہ کتب میں سب سے اہم علامہ حلی ؒ کی رجال ہے جو " خلاصۃ الاقوال" کے نام سے معروف ہے۔

علامہ ؒ نے اپنی اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ان کے لیے مختص کیا ہے جن کی روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے اور دوسرا حصہ ان ضعیف لوگوں کے لیے جن کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔

اور علامہ ؒ اپنی کتاب میں اکثر مذکورہ چار کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں جہاں وہ بعینہ ان کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔ اور جہاں تک ان چند مقامات کا تعلق ہے جہاں وہ مذکورہ چار کتابوں پر اعتماد نہیں کرتے، تو ان میں ان کی توثیقات پر اعتماد کرنے میں جو اشکال ہے وہ کتاب کے اوائل میں " توثیقات المتأخرین" کے عنوان کے تحت پہلے بیان ہو چکا ہے۔

اور متأخرہ کتب میں سے رجال ابن داود بھی ہیں۔ اور وہ اکثر پہلے بیان شدہ چار کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔

اور حال ہی میں دیگر رجالی کتب بھی تالیف ہوئی ہیں جیسے :

میرزا محمد استرآبادی ؒ کی رجال جو " منہج المقال" کے نام سے معروف ہے۔

اور سید بحر العلوم ؒ کی رجال جو " الفوائد الرجالیہ" کے نام سے معروف ہے۔

اور شیخ عنایۃ اللہ قھپائی ؒ کی رجال جو " مجمع الرجال" کے نام سے معروف ہے۔

اور شیخ ابی علی حائری ؒ کی رجال جو " منتہی المقال" کے نام سے معروف ہے۔

اور سید مصطفی تفریشی ؒ کی رجال جو " نقد الرجال" کے نام سے معروف ہے۔

اور شیخ محمد اردبیلی ؒ کی رجال جو " جامع الرواۃ" کے نام سے معروف ہے۔

اور شیخ محمد طہ نجف ؒ کی رجال جو " اتقان المقال" کے نام سے معروف ہے۔

اور شیخ عبداللہ مامقانی ؒ کی رجال جو " تنقیح المقال" کے نام سے معروف ہے۔

ان کے علاوہ دیگر رجالی کتابیں بھی ہیں۔

اور ان میں سے بعض کتابوں نے شیخ طوسی ؒ، نجاشی ؒ، کشی ؒ اور علامہ ؒ کے اقوال کو جمع کیا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

اور بعض دیگر نے رجالیوں کے اقوال میں تعارض کی صورت میں تحقیق کا عمل انجام دیا ہے۔

اور اس شعبہ میں حال ہی میں جو بہترین کتاب تالیف ہوئی ہے وہ " معجم رجال الحدیث" ہے۔ اور مذکورہ کتاب کی خصوصیات درج ذیل طور پر بیان کی جا سکتی ہیں:-

۱۔ کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ ذکر کیا ہے جس میں بعض رجالی فوائد کو آسان، واضح اور سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اور یہ خصوصیت اس کتاب تک محدود نہیں ہے بلکہ اوپر ذکر کی گئی کتابوں نے بھی اکثر یہ کام یا تو مقدمے میں یا خاتمے میں انجام دیا ہے۔

۲۔ نجاشی ؒ، کشی ؒ، طوسی ؒ، علامہ ؒ، ابن داود ؒ اور برقی ؒ کے اقوال کا متن نقل کیا ہے۔

اور کبھی کبھی - اگر وہ شخص متأخرین میں سے ہو تو - شیخ منتجب الدین ؒ کی الفہرست میں اور ابن شہر آشوب ؒ کی معالم العلماء میں موجود اقوال بھی نقل کرتے ہیں۔

اور اس بنا پر جو شخص المعجم کا مطالعہ کرتا ہے اسے ان کتابوں کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔

۳۔ ایک ہی راوی روایات میں یا رجالی کتابوں میں متعدد عناوین سے وارد ہو سکتا ہے، چنانچہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری روایات میں کبھی احمد کے عنوان سے، دوسری دفعہ احمد بن محمد کے عنوان سے، تیسری دفعہ احمد بن محمد بن عیسیٰ کے عنوان سے، چوتھی دفعہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری کے عنوان سے، اور پانچویں دفعہ کسی اور عنوان سے۔

اور کتاب ان تمام عناوین کو حروف تہجی کے تسلسل کے مطابق ذکر کرتی ہے، چنانچہ ایک ہی شخص اگر چھ عناوین سے وارد ہوا ہو تو کتاب اسے چھ بار بیان کرتی ہے، اور اسی طرح۔

اور وہ اپنے ہر عنوان میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ راوی دوسرے عنوان کے ساتھ متحد ہے یا اتحاد کا احتمال ہے، چنانچہ جب وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ کو مثلاً نمبر ۱۰ کے تحت ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری کے ساتھ متحد ہے جو نمبر ۱۱ یا ۱۲ یا ۔۔۔ میں آئےگا۔

پھر وہ کسی شخص کے حالات اور اس کے حق میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے اس عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں جو نجاشی ؒ نے اپنی کتاب میں اس کے لیے ذکر کیا ہے۔

ہاں، وہ ہر عنوان کے تحت ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن میں یہ عنوان وارد ہوا ہے، یعنی ان کے مأخذ و مصادر بیان کرتے ہیں، نہ کہ خود روایات کو۔

اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ سید خوئی قدس سرہ صرف چار کتابوں کی روایات پر اکتفا کرتے ہیں اور ان سے آگے نہیں بڑھتے، چنانچہ جس کا نام ان میں سے کسی ایک میں وارد ہوا ہے اسے انہوں نے ذکر کیا ہے، لیکن جس کا نام مثلاً کتاب العلل یا معانی الاخبار یا ۔۔۔ میں وارد ہوا ہے تو انہوں اسے ذکر کرنے کے ذمہ داری نہیں لی ہے۔

پھر اگر کسی شخص کی روایات کم ہوں تو انہیں اس کے نام کے ذکر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اگر زیادہ ہوں تو انہیں کتاب کے آخر میں خاص جداول میں بیان کرتے ہیں۔

۴۔ جب وہ کسی راوی کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس نے کن سے روایت کی ہے اور کون اس سے روایت کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ مثلاً احمد بن محمد بن عیسیٰ کی طرف اشارہ کرے، تو ان اشخاص کا بھی ذکر کرتے ہیں جو اس سے روایت کرتے ہیں اور ان کا بھی جن سے یہ روایت لیتے ہیں۔ اس میں بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی سند میں صرف " احمد بن محمد " کا ذکر آئے بغیر اس کے کہ اسے " ابن عیسیٰ " کے ساتھ مقیّد کیا گیا ہو، تو ہم شناخت کر سکتے ہیں کہ آیا وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ ہے یا کوئی اور، اس بنیاد پر کہ اس نے کن سے روایت کی ہے اور کنہوں نے اس سے روایت کی ہے۔

اور اس کام میں اردبیلی ؒ نے جامع الرواۃ میں سبقت حاصل کی ہے، چنانچہ انہوں نے بھی راوی اور مروّی عنہ کا ذکر کیا ہے

لیکن انہوں نے اسے جامع انداز میں انجام نہیں دیا تھا اور مصادر کا اشارہ نمبروں کے ساتھ نہیں کیا تھا۔

۵۔ نسخوں کے اختلاف کے مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، چنانچہ اگر کافی یا باقی کتب اربعہ کے نسخوں میں راوی کے نام میں اختلاف ہو تو وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۶۔ وہ ان چیزوں کو ذکر کرتے ہیں جن سے کسی شخص کی وثاقت یا ضعف پر استدلال کیا جا سکتا ہے پھر وہ تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اور ایک خاص نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک فنی اور منظّم اسلوب میں اور آسان عبارات میں ہے۔

ہاں، اگر فرض کیا جائے کہ راوی کے حق میں کوئی توثیق یا تضعیف وارد نہیں ہوئی تو وہ اس کے بارے میں خاموش رہتے ہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی مجہول الحال ہے اور ضعیف کے حکم میں ہے۔

اور اگر وہ تفسیر قمی یا کامل الزیارات کی اسانید میں وارد ہوا ہو تو وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس کا مطلب ان کے نزدیک اس کی وثاقت کا ثابت ہونا ہے کیونکہ وہ قدس سرّه ان دونوں کتابوں کے تمام اسناد میں آنے والوں کی وثاقت پر اعتماد کرتے ہیں(۱)۔

یہ مذکورہ کتاب کی اہم ترین خصوصیات ہیں۔

حوالہ:

(۱)۔ یہ بات بالکل فطری ہے کہ "رجال کامل الزیارات" کے حوالے سے سید خوئی قدّس سرّه نے اپنی عمرِ شریف کے آخری حصے میں رجوع کیا، اور اس پر بنا رکھی تھی کہ ان راویوں میں سے ثقہ صرف وہی ہیں جو ابن قولویہ کے براہِ راست مشائخ (اساتذہ) میں شمار ہوتے ہیں۔

۱۰۴

تمرینات

س۱: وسائل الشیعہ پر پانچ ملاحظات و اعتراضات ذکر کریں۔

س۲: وسائل الشیعہ پر وارد ہونے والے اعتراضات سے کس طرح گریز یا ان کا تدارک کیا گیا ہے؟

س۳: مستدرک الوسائل کے بارے میں ایک مختصر جائزہ ذکر کریں۔

س۴: الوافی کے بارے میں ایک مختصر جائزہ ذکر کریں۔

س۵: بحار الانوار کے بارے میں ایک مختصر جائزہ ذکر کریں۔

س۶: چار رجالی کتابیں وجود میں آئی ۔۔۔ نتیجہ کے طور پر۔ خالی جگہ پُر کریں۔

س۷: کشی ؒ کا اپنی رجالی کتاب میں کیا طریقہ ہے؟

س۸: شیخ طوسی ؒ نے رجال کشی کے بارے میں کیا کام کیا؟

س۹: شیخ طوسی ؒ کے رجال سے متعلق پہلے ملاحظہ کی تشریح کریں۔

س۱۰: شیخ ؒ پر بعض ناموں کے تکرار کی وجہ سے وارد تضاد کے اشکال کو کئی وجوہ سے دور کیا گیا ہے۔ پہلی وجہ اور اس پر اشکال بیان کریں۔

س۱۱: دوسری وجہ اور اس پر اشکال کریں۔

س۱۲: تیسری وجہ اور اس پر اشکال کریں۔

س۱۳: جواب میں کیا مناسب ہے؟

س ١٤: جملہ " اسند عنہ" کی تفسیر میں پہلی وجہ کیا ہے؟ اور اس پر کیسے اشکال کیا جاتا ہے؟

س ١٥: اس سلسلے میں دوسری وجہ کیا ہے؟ اور اس پر کیسے اشکال کیا جاتا ہے؟

س ١٦: اس سلسلے میں تیسری وجہ کیا ہے؟ اور اس پر کیسے اشکال کیا جاتا ہے؟

س ١٧: شیخ ؒ نے " الفھرست" میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے کثرت سے روایت کی ہے۔ ہم اس جماعت کے معتبر ہونے کی کیسے تشریح کر سکتے ہیں؟

س ١٨: شیخ طوسی ؒ نے اپنی کتاب " رجال " کو ۔۔۔ غرض سے تالیف کیا۔ خالی جگہ پُر کریں۔

س ١٩: شیخ طوسی ؒ نے اپنی کتاب " فھرست" کو ۔۔۔ غرض سے تالیف کیا۔ خالی جگہ پُر کریں۔

س ٢٠: نجاشی ؒ نے اپنی کتاب " فھرست" کو ۔۔۔ غرض سے تالیف کیا۔ خالی جگہ پُر کریں۔

س ٢١: شیخ ؒ کی دو تالیف شدہ کتابیں ہونے کے باوجود نجاشی ؒ نے اپنی کتاب کیوں تالیف کی؟

س ٢٢: رجالِ برقی کس کی تالیف ہے؟ اور اس کے حالات پر توجہ دینا کیوں اہم نہیں ہے؟

س ٢٣: علامہ حلی ؒ کا ابن الغضائری ؒ سے نقل دو وجوہات کی بنا پر قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ وہ دونوں وجوہات ذکر کریں۔

س ٢٤: علامہ ؒ نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ اس کی وضاحت کریں۔

س ٢٥: "معجم رجال الحدیث" کا طریقہ کیا ہے؟

اور اسی کے ساتھ ہم رجال سے متعلق ان مسائل پر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں جن کا ہم نے ذکر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اور یہ اختتام قم مقدس شہر میں ٢٥ رجب المرجب ١٤١٦ ہجری کو واقع ہوا۔ اور ہم اللہ عز و جل کا اس توفیق پر شکر ادا کرتے ہیں۔

باقر الایروانی

۱۰۵

۱۰۶