برقی اور ابن غضائری کی رجال
دو دیگر کتابیں ہیں جو پہلے بیان شدہ چار کتابوں سے تالیف کے لحاظ سے قدیم ہیں۔
ان میں سے اول: رجال برقی۔
اور اس میں یہ بحث ہے کہ کیا یہ محمد بن خالد برقی ؒ کی ہے یا ان کے بیٹے احمد ؒ کی یا یہ کوئی تیسرے برقی ؒ کی ہے جو ان دونوں کے علاوہ ہیں۔
بعض متاخرین نے آخری احتمال کو اختیار کیا ہے۔
لیکن مذکورہ اختلاف غیر اہم ہے کیونکہ مذکورہ کتاب توثیق یا جرح کے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ بالکل شیخ طوسی ؒ کے رجال کی طرح رواۃ کے طبقات کو بیان کرتی ہے۔
اور یہ کتاب حال ہی میں ابن داود ؒ کے رجال کے ساتھ منسلک ہو کر طبع ہوئی ہے۔
دونوں میں سے دوسری: رجال ابن غضائری۔
ابن غضائری احمد بن حسین بن عبید اللہ غضائری ؒ ہیں۔ اور یہ احمد شیخ طوسی ؒ اور نجاشی ؒ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اور یہ تینوں احمد کے والد یعنی حسین بن عبید اللہ غضائری کے شاگردوں میں سے تھے۔
اور شیخ طوسی ؒ نے " الفھرست" کے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ احمد کی دو کتابیں تھیں جن میں سے ایک مصنفات کے ذکر میں تھی اور دوسری اصول کے ذکر میں۔ پھر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کتابوں کو ہمارے اصحاب میں سے کسی نے نقل نہیں کیا، اور وہ (احمد) رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا، اور ان کے بعض وارثوں نے ان دونوں کتابوں اور دیگر کتابوں کو تلف کر دیا جیسا کہ ان میں سے بعض نے ان کے بارے میں بیان کیا ہے۔
یہ بات اپنے مقام پر، لیکن علامہ ؒ اور سید ابن طاووس ؒ بعض اوقات مذکورہ کتاب سے نقل کرتے ہیں جیسا کہ علامہ حلی ؒ کے رجال کے جائزے کے دوران واضح ہو جاتا ہے۔
البتہ اس نقل شدہ بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ابن الغضائری ؒ کی رجال کی کتاب ان دونوں (علامہ حلّی ؒ اور سید ابن طاؤوس ؒ) تک پہنچ گئی ہو، جبکہ شیخ طوسی ؒ یہ نقل کر چکے ہیں کہ وہ دونوں کتابیں تلف ہو چکی ہیں۔اور اس سے قطع نظر بھی مذکورہ نقل پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مذکورہ کتاب تک سند مجہول ہے کیونکہ ان دونوں - علامہ ؒ اور ابن طاووس ؒ - نے ابن غضائری ؒ تک کا اپنا سلسلہ سند ذکر نہیں کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ سلسلہ سند صحیح اور قابلِ اعتماد ہے یا نہیں۔
پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابن غضائری ؒ نے اشخاص پر بہت زیادہ قدح (عیب جوئی) کی ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی ان کی قدح سے بچا ہو۔
اور اسی وجہ سے بعض لوگ اس لحاظ سے ان کی تضعیفات (راویوں کو ضعیف قرار دیئے جانے کے عمل) کو قبول کرنے میں تأمّل کرتے ہیں۔
لیکن اس پر بحث غیر اہم ہے بعد اس کے جو ہم نے بیان کیا کہ کتاب تلف ہو گئی ہے اور اس تک کا سلسلہ سند مجہول ہے۔
دیگر رجالی کتب
مذکورہ چار رجالی کتب - رجال کشی، رجال نجاشی، رجال طوسی اور الفھرست - اصولِ رجالیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں کیونکہ وہ اس شعبہ میں اصل اور معتمد ہیں، اور ان کے بعد جو کچھ بھی تالیف ہوا ہے وہ ان پر منحصر ہے اور ان سے اخذ کیا گیا ہے۔
اور ان متأخرہ کتب میں سب سے اہم علامہ حلی ؒ کی رجال ہے جو " خلاصۃ الاقوال" کے نام سے معروف ہے۔
علامہ ؒ نے اپنی اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ان کے لیے مختص کیا ہے جن کی روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے اور دوسرا حصہ ان ضعیف لوگوں کے لیے جن کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔
اور علامہ ؒ اپنی کتاب میں اکثر مذکورہ چار کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں جہاں وہ بعینہ ان کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔ اور جہاں تک ان چند مقامات کا تعلق ہے جہاں وہ مذکورہ چار کتابوں پر اعتماد نہیں کرتے، تو ان میں ان کی توثیقات پر اعتماد کرنے میں جو اشکال ہے وہ کتاب کے اوائل میں " توثیقات المتأخرین" کے عنوان کے تحت پہلے بیان ہو چکا ہے۔
اور متأخرہ کتب میں سے رجال ابن داود بھی ہیں۔ اور وہ اکثر پہلے بیان شدہ چار کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔
اور حال ہی میں دیگر رجالی کتب بھی تالیف ہوئی ہیں جیسے :
میرزا محمد استرآبادی ؒ کی رجال جو " منہج المقال" کے نام سے معروف ہے۔
اور سید بحر العلوم ؒ کی رجال جو " الفوائد الرجالیہ" کے نام سے معروف ہے۔
اور شیخ عنایۃ اللہ قھپائی ؒ کی رجال جو " مجمع الرجال" کے نام سے معروف ہے۔
اور شیخ ابی علی حائری ؒ کی رجال جو " منتہی المقال" کے نام سے معروف ہے۔
اور سید مصطفی تفریشی ؒ کی رجال جو " نقد الرجال" کے نام سے معروف ہے۔
اور شیخ محمد اردبیلی ؒ کی رجال جو " جامع الرواۃ" کے نام سے معروف ہے۔
اور شیخ محمد طہ نجف ؒ کی رجال جو " اتقان المقال" کے نام سے معروف ہے۔
اور شیخ عبداللہ مامقانی ؒ کی رجال جو " تنقیح المقال" کے نام سے معروف ہے۔
ان کے علاوہ دیگر رجالی کتابیں بھی ہیں۔
اور ان میں سے بعض کتابوں نے شیخ طوسی ؒ، نجاشی ؒ، کشی ؒ اور علامہ ؒ کے اقوال کو جمع کیا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اور بعض دیگر نے رجالیوں کے اقوال میں تعارض کی صورت میں تحقیق کا عمل انجام دیا ہے۔
اور اس شعبہ میں حال ہی میں جو بہترین کتاب تالیف ہوئی ہے وہ " معجم رجال الحدیث" ہے۔ اور مذکورہ کتاب کی خصوصیات درج ذیل طور پر بیان کی جا سکتی ہیں:-
۱۔ کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ ذکر کیا ہے جس میں بعض رجالی فوائد کو آسان، واضح اور سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اور یہ خصوصیت اس کتاب تک محدود نہیں ہے بلکہ اوپر ذکر کی گئی کتابوں نے بھی اکثر یہ کام یا تو مقدمے میں یا خاتمے میں انجام دیا ہے۔
۲۔ نجاشی ؒ، کشی ؒ، طوسی ؒ، علامہ ؒ، ابن داود ؒ اور برقی ؒ کے اقوال کا متن نقل کیا ہے۔
اور کبھی کبھی - اگر وہ شخص متأخرین میں سے ہو تو - شیخ منتجب الدین ؒ کی الفہرست میں اور ابن شہر آشوب ؒ کی معالم العلماء میں موجود اقوال بھی نقل کرتے ہیں۔
اور اس بنا پر جو شخص المعجم کا مطالعہ کرتا ہے اسے ان کتابوں کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔
۳۔ ایک ہی راوی روایات میں یا رجالی کتابوں میں متعدد عناوین سے وارد ہو سکتا ہے، چنانچہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری روایات میں کبھی احمد کے عنوان سے، دوسری دفعہ احمد بن محمد کے عنوان سے، تیسری دفعہ احمد بن محمد بن عیسیٰ کے عنوان سے، چوتھی دفعہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری کے عنوان سے، اور پانچویں دفعہ کسی اور عنوان سے۔
اور کتاب ان تمام عناوین کو حروف تہجی کے تسلسل کے مطابق ذکر کرتی ہے، چنانچہ ایک ہی شخص اگر چھ عناوین سے وارد ہوا ہو تو کتاب اسے چھ بار بیان کرتی ہے، اور اسی طرح۔
اور وہ اپنے ہر عنوان میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ راوی دوسرے عنوان کے ساتھ متحد ہے یا اتحاد کا احتمال ہے، چنانچہ جب وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ کو مثلاً نمبر ۱۰ کے تحت ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری کے ساتھ متحد ہے جو نمبر ۱۱ یا ۱۲ یا ۔۔۔ میں آئےگا۔
پھر وہ کسی شخص کے حالات اور اس کے حق میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے اس عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں جو نجاشی ؒ نے اپنی کتاب میں اس کے لیے ذکر کیا ہے۔
ہاں، وہ ہر عنوان کے تحت ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن میں یہ عنوان وارد ہوا ہے، یعنی ان کے مأخذ و مصادر بیان کرتے ہیں، نہ کہ خود روایات کو۔
اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ سید خوئی قدس سرہ صرف چار کتابوں کی روایات پر اکتفا کرتے ہیں اور ان سے آگے نہیں بڑھتے، چنانچہ جس کا نام ان میں سے کسی ایک میں وارد ہوا ہے اسے انہوں نے ذکر کیا ہے، لیکن جس کا نام مثلاً کتاب العلل یا معانی الاخبار یا ۔۔۔ میں وارد ہوا ہے تو انہوں اسے ذکر کرنے کے ذمہ داری نہیں لی ہے۔
پھر اگر کسی شخص کی روایات کم ہوں تو انہیں اس کے نام کے ذکر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اگر زیادہ ہوں تو انہیں کتاب کے آخر میں خاص جداول میں بیان کرتے ہیں۔
۴۔ جب وہ کسی راوی کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس نے کن سے روایت کی ہے اور کون اس سے روایت کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ مثلاً احمد بن محمد بن عیسیٰ کی طرف اشارہ کرے، تو ان اشخاص کا بھی ذکر کرتے ہیں جو اس سے روایت کرتے ہیں اور ان کا بھی جن سے یہ روایت لیتے ہیں۔ اس میں بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی سند میں صرف " احمد بن محمد " کا ذکر آئے بغیر اس کے کہ اسے " ابن عیسیٰ " کے ساتھ مقیّد کیا گیا ہو، تو ہم شناخت کر سکتے ہیں کہ آیا وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ ہے یا کوئی اور، اس بنیاد پر کہ اس نے کن سے روایت کی ہے اور کنہوں نے اس سے روایت کی ہے۔
اور اس کام میں اردبیلی ؒ نے جامع الرواۃ میں سبقت حاصل کی ہے، چنانچہ انہوں نے بھی راوی اور مروّی عنہ کا ذکر کیا ہے
لیکن انہوں نے اسے جامع انداز میں انجام نہیں دیا تھا اور مصادر کا اشارہ نمبروں کے ساتھ نہیں کیا تھا۔
۵۔ نسخوں کے اختلاف کے مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، چنانچہ اگر کافی یا باقی کتب اربعہ کے نسخوں میں راوی کے نام میں اختلاف ہو تو وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۶۔ وہ ان چیزوں کو ذکر کرتے ہیں جن سے کسی شخص کی وثاقت یا ضعف پر استدلال کیا جا سکتا ہے پھر وہ تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اور ایک خاص نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک فنی اور منظّم اسلوب میں اور آسان عبارات میں ہے۔
ہاں، اگر فرض کیا جائے کہ راوی کے حق میں کوئی توثیق یا تضعیف وارد نہیں ہوئی تو وہ اس کے بارے میں خاموش رہتے ہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی مجہول الحال ہے اور ضعیف کے حکم میں ہے۔
اور اگر وہ تفسیر قمی یا کامل الزیارات کی اسانید میں وارد ہوا ہو تو وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس کا مطلب ان کے نزدیک اس کی وثاقت کا ثابت ہونا ہے کیونکہ وہ قدس سرّه ان دونوں کتابوں کے تمام اسناد میں آنے والوں کی وثاقت پر اعتماد کرتے ہیں(۱)۔
یہ مذکورہ کتاب کی اہم ترین خصوصیات ہیں۔
حوالہ:
(۱)۔ یہ بات بالکل فطری ہے کہ "رجال کامل الزیارات" کے حوالے سے سید خوئی قدّس سرّه نے اپنی عمرِ شریف کے آخری حصے میں رجوع کیا، اور اس پر بنا رکھی تھی کہ ان راویوں میں سے ثقہ صرف وہی ہیں جو ابن قولویہ کے براہِ راست مشائخ (اساتذہ) میں شمار ہوتے ہیں۔