‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 106

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 106
مشاہدے: 5080
ڈاؤنلوڈ: 167

تبصرے:

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5080 / ڈاؤنلوڈ: 167
سائز سائز سائز
‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

مؤلف: آیت اللہ محمد باقر ایروانی

مترجم: دلاور حُسین حجّتی

ناشر: الغدیر ایجوکیشنل نیٹ ورک

۱

بسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد لله رب العالمين،

والصلاة والسلام على أشرف الخلق

محمد و اهل بيته الطيبين الطاهرين

۲

فہرست

پیش گفتار ۱۵

مقدمۂ مؤلف ۱۷

جدید اصولی نظریات سےواقفیت ۱۹

عرض مترجم ۲۷

تمہید ۳۱

عملی تطبیق ۳۴

تطبیق ( ۱) ۳۵

غلط فہمی ۳۹

فصل اول ۴۰

پہلا نکتہ راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے ۴۱

۱ ۔ معصوم علیہ السلام کی گواہی ۴۱

۲ ۔ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی وثاقت کی گواہی ۴۲

۳ ۔ وثاقت پر اجماع ۴۴

۴ ۔ امام علیہ السلام کی طرف سے حاصل وکالت ۴۶

۵ ۔ ثقہ کی روایت ۴۹

۶ ۔ شیخوخۃ الاجازہ ۵۱

تطبیقات ۵۳

تطبیق ( ۲) ۵۳

تمرینات ۶۰

توثیقاتِ عامہ ۶۵

۱ ۔ تفسیر قمی کے راویوں کی توثیق ۶۶

۲ ۔ کامل الزیارت کے راوی ۶۹

۳ ۔ مشایخ نجاشی ۷۱

۴ ۔ سند میں بنو فضال کا واقع ہونا ۷۳

۵ ۔ تین اکابرین میں سے ایک کی روایت ۷۵

رجالی کے قول کی حجّیت کا مدرک ۷۷

تطبیقات ۸۰

تطبیق ( ۳) ۸۰

تمرينات ۸۳

فصل دوم: حدیث کی اقسام کے متعلق ۸۶

صحیح حدیث کے خلاف شہرت ۸۸

ثقہ یا عادل کی خبر ۹۰

ثقہ کی خبر یا قابلِ اعتماد خبر ۹۲

خبرِ حسن ۹۳

خبرِ ضعیف ۹۴

خبرِ مضمر ۹۵

خبرِ مرسل ۱۰۰

تطبیقات ۱۰۴

تطبیق( ۴) ۱۰۴

تمرینات ۱۱۰

حدیث کی بعض کتابوں کے بارے میں نظریات ۱۱۵

کتاب الکافی کے بارے میں نظریات ۱۱۹

" کتاب من لا یحضرہ الفقیہ " کے بارے میں نظریات ۱۲۸

تہذیبین (تہذیب و استبصار) کے بارے میں نظریات ۱۳۲

تمرینات ۱۳۶

ہماری بعض رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات ۱۴۲

۱ ۔ رجال کشّی ۱۴۲

۲ ، ۳ ۔ رجالِ شیخ اور فھرستِ شیخ ۱۴۴

۴ ۔ رجالِ نجاشی ۱۴۸

تمرینات ۱۴۹

تمہید ۱۵۳

خبر کی حجیت کے مسئلے میں آراء ۱۵۴

تحقیق: کیا صحیح ہے؟ ۱۵۷

علمِ رجال کی ضرورت ۱۵۸

پھر وہیں سے آغاز ۱۶۰

تمرینات ۱۶۳

ہماری بحث کا اسلوب ۱۶۶

توثیق سے متعلق بحث ۱۶۷

حدیث کو چار اقسام میں تقسیم( ۱) کیا گیا ہے:- ۱۶۷

راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے ۱۶۹

۱ ۔ معصومین علیہم السلام میں سے کسی کے حق میں صریح گواہی ۱۷۰

۲ ۔ بعض متقدمین رجالیوں کی صریح گواہی ۱۷۳

اعتراض اور جواب ۱۷۹

۳ ۔ متاخرین بزرگ علماء میں سے کسی کی صریح گواہی ۱۸۳

متاخرین کی توثیقات حجّت نہیں ہے اس کا سبب ۱۸۳

متاخرین کی توثیقات قابل قبول ہونے پر دلیل ۱۸۵

علامہ حلی ؒکے اقوال میں "اصالة العدالة" ۱۹۴

تمرینات ۱۹۹

عملی تطبیقات ۲۰۳

دیگر اسانید ۲۲۶

اصل موضوع کی طرف واپسی ۲۵۳

۴ ۔ تصدیق یا توثیق پر اجماع کا دعویٰ ۲۵۳

۵ ۔ امام علیہ السلام کی طرف سے وکالت ۲۵۷

۶ ۔ ثقہ کی روایت ۲۶۱

۷ ۔ شیخوخۃ الاجازۃ ۲۷۰

۸ ۔ ایسی سند میں واقع ہونا جس پر صحت کا حکم لگایا گیا ہو ۲۷۹

وثاقت ثابت کرنے کے دیگر طریقے ۲۸۵

عمومی توثیقات ۲۹۳

۱ ۔ راویانِ تفسیرِ قمی ۲۹۴

۲ ۔راویانِ کامل الزیارۃ ۳۰۳

۳ ۔ نجاشی ؒ کے مشائخ ۳۰۹

۴ ۔ اصحاب الاجماع کی سند میں واقع ہونا ۳۱۲

۵ ۔ بنو فضال کا سند میں واقع ہونا ۳۱۵

۶ ۔ مشائخ ثلاثہ میں سے کسی ایک کی روایت ۳۲۰

مذکورہ بالا کا نتیجہ ۳۲۶

دیگر توثیقاتِ عامہ ۳۲۶

تمرینات ۳۲۷

رجالی کے قول کی حجیت کا مدرک ۳۳۱

توثیقات میں ارسال کا مسئلہ ۳۳۶

تطبیقات ۳۴۲

تمرینات ۳۴۵

حدیث کی اقسام کے بارے میں بحث ۳۴۷

صحیح روایت کےخلاف شہرت کا وجود ۳۵۰

ثقہ کی خبر یا عادل کی خبر ۳۵۳

خبرِ ثقہ یا الموثوق بہ ۳۵۴

خبرِ حسن ۳۵۷

خبرِ ضعیف ۳۵۹

خبرِ مضمر ۳۶۳

ضمیر کےاستعمال کا سبب ۳۶۷

خبرِ مرسل ۳۶۹

تمرینات ۳۷۳

بعض حدیث کی کتابوں کے بارے میں نظریات ۳۷۹

کتب اربعہ میں سب کچھ صحیح نہیں ہے ۳۸۵

خصوصی اشکالات ۳۹۵

مسترد شدہ مستندات ۳۹۶

برعکس دعویٰ ۳۹۹

تمرینات ۴۰۳

کتاب "الکافی" کے بارے میں نظریات ۴۰۶

چار نکات ۴۱۳

کلینی ؒ کا سلسلہ سند ۴۱۳

الکافی کی تمام احادیث کی صحت ۴۱۶

عدۃ من اصحابنا (ہمارے چند اصحاب) ۴۲۲

کلینی کے مشائخ ۴۳۱

تمرینات ۴۴۳

کتاب "من لا یحضرہ الفقیه" کے بارے میں نظریات ۴۴۶

پہلا نکتہ ۴۵۱

دوسرا نکتہ ۴۵۳

تیسرا نکتہ ۴۵۵

چوتھا نکتہ ۴۶۲

تمرینات ۴۶۵

"التھذیبین" کے بارے میں نظریات ۴۶۷

شیخ ؒ کا سلسلہ سند بیان کرنے کا طریقہ ۴۷۱

دونوں کتابوں کی تمام احادیث کی صحت ۴۷۲

ضعیف سلسلہ سند کا تدارک ۴۷۵

شیخ اردبیلی ؒ کا طریقہ ۴۷۸

شیخ مجلسی ؒ کا طریقہ ۴۸۲

تیسرا طریقہ ۴۸۴

میرزا محمد استرآبادی ؒ کا طریقہ ۴۸۹

سید خوئی ؒ کا طریقہ ۴۹۳

سید خوئی ؒ کا ایک اور طریقہ ۵۰۱

عملی تطبیقات ۵۱۱

تمرینات ۵۲۱

وسائل الشیعہ کے بارے میں نظریات ۵۲۴

وسائل الشیعہ پر ملاحظات ۵۲۷

مستدرک الوسائل ۵۳۳

الوافی ۵۳۴

بحار الانوار ۵۳۶

ہماری رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات ۵۴۱

رجال کشی کے بارے میں نظریات ۵۴۳

رجال شیخ طوسی ۵۴۷

پہلا نکتہ ۵۴۸

دوسرا نکتہ ۵۵۵

فہرست شیخ طوسی ۵۵۸

" جماعت " کی اصطلاح ۵۶۰

رجال نجاشی ۵۶۱

دوسری تالیف کیوں؟ ۵۶۵

برقی اور ابن غضائری کی رجال ۵۶۷

دیگر رجالی کتب ۵۷۰

تمرینات ۵۷۸

۳

بسمہ تعالی

پیش گفتار

از: حجّۃ الاسلام مولانا محمد رضا داؤدانی دامت برکاتہ

آپ کے پیش نظر جناب آیت اللہ باقر ایروانی مدظلہ کی کتاب

"‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة"

کا اردو ترجمہ ہے۔ محترم مؤلف کی یہ خوبی ہر صاحب علم پر عیاں ہے کہ وہ مشکل مباحث کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔

ان کی تمام کتب اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ یہ کتاب انہوں نے بنیادی طور پر حوزۂ علمیہ اور مدارس کے طلاب کے لیے بطور نصاب تحریر کی ہے۔

یونیورسٹی کے طلبا اور دانشور حضرات بھی مکتب اہلِ بیت علیہم السلام کے راویان حدیث سے آشنائی کے لیے اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

اصل کتاب عربی میں ہے جس سے اردو دان طبقے کا براہِ راست فائدہ اٹھانا ناممکن تھا۔ اردو ترجمہ استاد محترم حجۃ الاسلام مولانا دلاور حسین حجّتی مدظلہ کی کوشش ہے۔

ترجمہ اور تالیف کا شعبہ ان کے لیے نیا نہیں ہے۔ وہ اس شعبے میں سالوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ برجستہ خطیب ہونے کے باوجود انہوں نے خود کو حوزوی علوم کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ مجھے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل رہا ہے بلکہ حوزوی علوم کی طرف راغب کرنے والی اوّلین شخصیت مولانا حجّتی کی ہی تھی۔

خواہش اور تمنا ہے کہ طلاب اور دانشور اس کتاب سے استفادہ کریں اور مولانا دلاور حجّتی تا دیر مکتب اہلِ بیت علیہم السلام کی خدمت کرتے رہیں۔

محمد رضا داؤدانی

۶ ستمبر ۲۰۲۵ / ۱۲ ربیع الاول سن ۱۴۴۷ ھ

۴

مقدمۂ مؤلف

میں نے اپنی آنکھیں نجفِ اشرف کے محبوب مدرسہ میں فقہ اور اصول کے شعبوں میں کھولیں، اور اس کے ساتھ مجھے علمِ رجال اور اس کے قواعد کا کوئی شعبہ نہ ملا، بلکہ میں تو صرف نامور شخصیات کی سوانح عمریوں میں پڑھا کرتا تھا کہ فلاں نے فلاں سے رجال کا علم پڑھا ہے، مگر عملی سطح پر اس کا کوئی نمونہ یا مشاہدہ مجھے دیکھنے کو نہ ملا۔

میں نے سطوح کا مرحلہ مکمل کیا اور خارج کے مرحلہ میں داخل ہوا، جبکہ رجال کے مسائل سے میرا نہ قریب کا اور نہ ہی بعید کا کوئی تعلق تھا، خاص طور پر جب میں نے فقہ میں " الروضة البهية" (شرح لمعہ) اور " المکاسب" کو پڑھا، تو دونوں ہی اس بات سے مکمل طور پر دور تھیں۔

میں جب درسِ خارج میں شرکت کرتا تھا تو اِس یا اُس علم کے توسّط سے علمِ رجال کے بعض مسائل سنتا تھا، جس سے مجھے ایک واضح خلاء کا احساس ہوا۔

میں نے یہ خلا تین مقامات پر محسوس کیا ہے، جن کا میں ذکر کرتا ہوں، شاید جو لوگ اس کے ناممکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ہمیں اس کا کوئی حل فراہم کر سکیں۔

۱۔ میں نے سطوح کے مرحلہ میں اصول کی جن کتابوں کو پڑھا، ان میں تین اکابرین - نائینی ؒ، عراقی ؒاور اصفہانی ؒ - کے نظریات شامل نہیں تھے۔ اور میں نے صرف اصفهانی ؒکی فصول، قمي ؒکی قوانین، رشتي ؒکی بدائع، شیخ انصاری ؒکی رسائل اور آخوند خراسانی ؒکی کفایہ جیسے پرانے نظریات کا مطالعہ کیا۔

میرا مقصد ان مکاتب ِفکر کے نظریات کو کم تر سمجھنا نہیں ہے۔ خدا کی پناہ کہ میں ایسا تصور بھی کروں، اور میں اپنے ربّ سے معافی مانگتا ہوں اگر میں نے ایسا ارادہ کیا ہو، میرا اصل مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مکتب کے افکار مخصوص زمانی مرحلے میں جیتے ہیں اور قانونِ ارتقا ان پر بھی لاگو رہتا ہے۔ قانونِ ارتقا اگر کسی چیز میں استثنا پاتا ہے تو وہ صرف ان نظریات میں ہے جو قرآنِ کریم نے پیش کیے اور وہ افکار جو اہلِ بیت علیہم السلام نے بیان فرمائے ہیں۔

جدید اصولی نظریات سےواقفیت

میں ان تین نمایا ں شخصیتوں کے افکار کا عاشق ہوں جن کے ساتھ میں نے اپنی اصولِ خارج کی تعلیم کے دوران وقت گزارا، اور پھر میں سید شہید ؒکے اصولی حلقات کا بھی عاشق ہوں اور جن کے ذریعے ہم اس فکری خلا پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔

۲۔میں نے اپنے سطوح کے دروس کے دوران اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث دیات، حدود، اور تعزیرات تو درکنار نہ روزہ کے بارے میں پڑھی، نہ نماز کے بارے میں اور نہ ہی طہارت کے بارے میں پڑھی۔ اسی طرح سے میں نے استدلال کے ان طریقوں کو بھی نہیں پڑھا جن سے استنباط کے مقام پر فقیہ مدد لیتا ہے۔ میں یہ سنتا تھا کہ "الروضہ البھیہ"(شرح لمعہ) ایک استدلالی دورہ ہے جو استدلال کے ذریعے فقہ سکھاتی ہے اور میں اسے فقط بطور تعبّد قبول کرتا رہا یہاں تک کہ جب میں نے آنکھیں کھولیں تومیں نےمعاملہ اس کےبرخلافپایا۔ "الروضۃ البھیۃ"ہمیں سکھاتی ہےکہ ہم کیسےپیچیدہ الفاظ کےساتھت لفظ کرسکتے ہیں اوررموزاورمبہم الفاظ کوکیسےحل کرسکتےہیں۔

میں کچھ عرصےتک مبہم الفاظ کوحل کرتارہااورجوباتیں ان مبہم الفاظ کےاندرتھیں وہ مجھ سےپوشیدہ رہیں۔ میں یہ سیکھتارہاکہ یہ اصل کے لیے شرط نہیں ہےاور وہ روایت کی وجہ سے واجب ہے۔ میں نے اس قدر جانا، بس اس سے زیادہ نہیں، اور میں اس مسئلے میں وارد ہونے والی روایات کو نہیں جانتا تھا کہ جب میں ابھی انہیں سنوں تو میرے لیے اجنبی نہ ہوں۔

میں نے نہیں سنا کہ یہ کس طرح متعارض ہیں اور ہم تعارض کو کیسے حل کریں گے اور جب تعارض مستحکم ہو جائے تو ہم کس طرف رجوع کریں گے؟ میں نے یہ چیز " الروضہ"(شرح لمعہ) میں نہیں دیکھی۔ ہاں، میں نے اس کا کچھ حصہ المکاسب میں دیکھا، لیکن المکاسب کی حدود تنگ ہیں اور یہ صرف بیع اور خیارات تک محدود ہے، تو نماز کہاں ہے، روزہ کہاں ہے، حج کہاں ہے، خمس کہاں ہے، اور کہاں ہیں اور کہاں ہیں اور کہاں ہیں۔

ہمیں سطوح کی مرحلے میں ایک ایسی فقہی کتاب کی ضرورت ہے جو کم از کم اکثر فقہی ابواب پر مشتمل ہو، تاکہ ہم اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات کو سنیں اور جب تعارض ہو تو ہم کیسے عمل کریں اور ہمارے نامور علماء کی طرف سے استعمال ہونے والے جدید استدلال کے طریقے کیا ہیں، ساتھ ہی کچھ رجال کے مسائل کا مختصر ذکر ہو۔

اور اس کے بعد ہمیں طلاسم اور رموز والی عبارات کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہمارے علمی مطالب اور ہمارے استدلال کے طریقوں میں کوئی کمی ہے کہ ہم اس کی اس کے ذریعہ تکمیل کی ضرورت محسوس کریں؟

میں تجربے کی بنا پر کہتا ہوں: میں نے اہلِ بیت علیہم السلام کی مختلف فقہی ابواب کی روایات کو صرف خارج کی بحث میں شرکت کے دوران ہی جانا، اور اس وقت مجھے دوبارہ ایک نئی اور غیر معمولی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمیں ایک ایسی کتاب تالیف کرنے کی شدید ضرورت ہے جو ایک مکمل یا تقریباً مکمل فقہی دورے پر مشتمل ہو اور اس میں اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات کی بڑی تعداد اور جدید استدلال کے طریقے شامل ہوں، تاکہ خارج کے مرحلے میں منتقل ہوتے وقت ہمارا افق مکمل ہو۔

اور اس تجویز کو ہم عالمِ امکان سے عالمِ فعلیت میں نہیں لا سکتے، سوائے اس کے کہ ہم اپنی نیت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے خالص کریں، جیسے شہید ثانی ؒ، شیخِ اعظم ؒاور آخوند خراسانی ؒاور دیگر بزرگوں نے اپنی نیت خالص کی، جن کی کتابیں آج تک پڑھائی جاتی ہیں۔

یقیناً ایسی خالص نیت پہاڑ جیسے مشکل حالات کو دور کر دیتی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو ایسا خلوص عطا فرمائے تاکہ ہم اس کے ذریعے ان درسی مشکلات پر قابو پا سکیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔

۳۔ اور تیسرا میدان جس میں مجھے خلا کا سامنا ہوا، وہ رجال اور روایات کی اسناد کا میدان تھا۔ تو وثاقت کے ثابت ہونے کے کیا طریقے ہیں اور ہم کیسے جانیں کہ فلاں شخص ثقہ ہے یا نہیں؟ اور روایت کی حجیت کا کیا ضابطہ ہے؟ اور عمومی توثیقات کیا ہیں؟ یہ سب میں نے مرحلۂ سطوح میں نہیں جانا تھا، بلکہ اساتذہ سے یہ نکتہ اور وہ نکتہ سیکھتا رہا اور باقی چیزوں کو جاننے کے لیے کوشش کرتا رہا۔

اور میں رجال کے نکات کا عاشق تھا اور میں اس استاد یا کتاب کو پسند کرتا تھا جو مجھے واضح طور پر رجال کے نکات کا ایک مجموعہ پیش کرے تاکہ میں اس سے سیراب ہو سکوں۔

اور میرے پاس ان نکات کا ایک مجموعہ جمع ہو گیا اور میں ایک مدت تک ان نکات کو معزز اساتذہ اور علمی مباحثات کے ذریعے سمجھنے میں لگا رہا۔

اور تھوڑی بہت سمجھ آنے کے بعد، میں نے یہ پایا کہ جو کچھ بھی میں نے سمجھا ہے، ہمارے بزرگ علماء نے اپنی کتابوں اور بیانات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور کوتاہی میری جانب سے تھی یا عبارات میں کوئی کمزوری تھی۔

اور میرے لیے یہ واضح ہو گیا کہ ہمیں صرف ایک قلم کی ضرورت ہے جو ان اعلیٰ مطالب کی وضاحت کرے جنہیں ہمارے علماء کے افکار نے شامل کیا ہے۔

میں نے دس سال قبل جب ہجرت کر کے شہر قم مقدس میں قدم رکھا، ایک علمِ رجال کا دوره تحریر کیا جو تقریباً مسئلہ کے ایک حصے کو حل کر دینے کے مترادف ہے، اور میں نے اسے شائع نہ کرنے کا عہد کیا کیونکہ میں نے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو شائع کرنے کے قابل ہو۔

اور دس سال گزرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مسئلہ حوزہ علمیہ کی خدمت کا ہے تو ہمارے علماء کی بات کو آسان زبان میں بیان کر دینا کافی ہے اور اس کے لیے یہ شرط نہیں کہ کوئی نئی بات سامنے آئے۔

اور اس کے بعد میں نے عزم کیا کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کروں: ایک حصہ جس کی طرف طالب علم اپنے ابتدائی ایام میں رجوع کرےگا اور دوسرا حصہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا مگر کچھ وسعت کے ساتھ ہوگا۔ اور میں نے دونوں حصوں پر

" ‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة"

کا عنوان دیا تاکہ وہ شخص جو مجھ سے زیادہ وسیع فکر اور علم رکھتا ہو، میرے لکھے ہوئے سے زیادہ وسیع افق کے ساتھ ایک دوسری کتاب لکھنے کی جانب متوجہ ہو سکے۔

اور میرا خیال ہے— اگر میں غلط نہیں ہوں — کہ جو شخص میرے لکھے ہوئے کی طرف رجوع کرےگا، وہ خارج کی مرحلے میں خلا کا سامنا نہیں کرے گا یا سامنا کرےگا بھی تو جزوی طور پر۔

اور میرا یہ بھی گمان ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے، اگرچہ میں نے اسے آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی بعض مقامات میں خاص استاد کی ضرورت ہے تاکہ پھل کی مکمل طور پر بارآوری ہو سکے۔

اور میرا اعتقاد یہ بھی ہے کہ اگر اس کتاب کو اس کی اس عملی تطبیق کے بغیر پڑھا جائے جو ہم نے کتاب کے مختلف مقامات پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے، تو یہ درخت اپنے پھل نہیں دے گا۔

نظریہ کو علمی تطبیق سے جدا رکھنا علم نحو میں بُرے نتائج کا باعث بنتا ہے، لہذا جو شخص عربی قواعد کو بغیر تطبیق کے پڑھتا ہے، وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرتا ہے۔ اور فقہ میں، جو شخص اصول کو بغیر ذاتی عملی استنباط کی تمرین کیے پڑھتا ہے، وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرتا ہے اور ہماری اس کتاب کے حوالے سے، جو اس کو بغیر تطبیق کے پڑھےگا، وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرےگا۔

اور آخر میں، میں نے جو کچھ لکھا اس کا مقصد صرف ہمارے حوزات کے طلباء اور اہلِ بیت علیہم السلام کے مدرسے کی خدمت ہے، اگر میں کامیاب ہوا تو یہی میری حقیقی خواہش ہے، ورنہ میرے فخر کے لیے اتنا کافی ہے کہ جو غلطیاں مجھ سے سرزد ہوئی ہے اس میں، میں جاہلِ بسیط ہوں جاہل ِمرکب نہیں ہوں۔اور میں اللہ تعالیٰ سے ہمارے ولی اور ہمارے زمانے کے امام – کہ ان پر میری روح اور تمام عالمین کے ارواح فدا ہو - کے حق کے واسطے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے امام علیہ السلام کی مبارک دعا کے ذریعہ قوت عطا فرمائے کہ جس کے ذریعے ہر مشکل حل ہوتی ہے اور ہر کمزور کو کامیابی ملتی ہے، اور میری توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے، اور میں اس سے مغفرت چاہتا ہوں اور اسی کی طرف توبہ و رجوع کرتا ہوں۔

باقر ایروانی

۲۵/ رجب المرجب/ ۱۴۱۶ھ

۵

عرض مترجم

تمام تعریفیں عالمین کے پروردگار اللہ کے لیے ہے، اور درود و سلام انبیاء و مرسلین کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور آپ ؐ کی طیب و طاہر آل علیہم السلام پر اور دائمی لعنت ان کے تمام دشمنوں پر۔

علم و دانش کی وادیوں میں بعض علوم وہ ہیں جو صرف عقل کو جِلا بخشتے ہیں، مگر بعض ایسے بھی ہیں جو نہ صرف فکر کو روشن کرتے ہیں بلکہ عمل اور ایمان کی بنیاد کو بھی استحکام عطا کرتے ہیں۔ اہلِ معرفت پر روشن ہے کہ علومِ اسلامی کے دامن میں بے شمار گوہر پنہاں ہیں، اور ان میں علمِ رجال ایک ایسا گوہر ہے جو فقہ و حدیث کے خزانوں کی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک ایک روایت کی سند و راوی معتبر نہ ہو، اس پر فقہی و اعتقادی عمارت کھڑی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ علمِ رجال احکامِ شریعت کے فہم اور احادیثِ معصومین علیہم السلام کے اعتماد و اعتبار کا سنگِ بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے حوزہ ہائے علمیہ میں یہ علم اہمیت کا حامل رہا ہے۔

تاریخِ حوزہ پر نظر ڈالی جائے تو قدیم ادوار سے ہی مختلف درسی اور مطالعاتی کتابوں نے علمی سفر کے لیے اساس فراہم کی؛ یہ کتب متون کی گہرائی اور دقت اپنی مثال آپ ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب اور طرزِ بیان ایک خاص عہد کے علمی ماحول سے وابستہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں طلبہ کو براہِ راست ان کتابوں سے استفادہ کرنے میں دشواریاں لاحق ہوئیں؛ وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس بڑھتا گیا کہ ایک نئے طرز کی درسی کتب سامنے آئیں، جو علمی گہرائی کو برقرار رکھتے ہوئے سادہ، منظم اور عصرِ حاضر کے طلبہ کے ذوق کے مطابق ہوں۔اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمارے عہد کے برجستہ عالم و محقق، آیت اللہ محمد باقر ایروانی دامت برکاتہ نے قدم بڑھایا۔ آپ نجفِ اشرف کے حوزہ علمیہ میں بلند مرتبہ استاد اور دقیق النظر محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ فقہ و اصول کے میدان میں آپ کی تحریریں پہلے ہی ایک نئی روشنی کا درجہ حاصل کر چکی ہیں، اور علمِ رجال میں بھی آپ کی کاوشیں حوزات کے لیے تازگی اور سہولت کا سامان فراہم کر رہی ہیں۔زیرِ نظر کتاب " ‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة" دراصل اسی سلسلے کی ایک تابناک کڑی ہے؛ اس میں مؤلف نے علمِ رجال کے بنیادی قواعد کو نہایت تدریجی اور شفاف انداز میں بیان کیا ہے۔ کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم مآخذ کا علمی سرمایہ بھی اپنی اصل صورت میں جلوہ گر ہے، اور ساتھ ساتھ جدید اسلوب کی وضاحت بھی قاری کو سہولت بخشتی ہے۔ یوں یہ کتاب ایک ایسا پل ہے جو قدیم اور جدید کے درمیان فکری ربط و ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔عرصہ دراز سے یہ خواہش تھی کہ درسی کتب اور خاص طور سے جدید انداز سے تحریر شدہ درسی کتب کا اردو ترجمہ سامنے آئے تاکہ حوزہات علمیہ کے طلاب کو اپنے درس کو پختہ کرنے میں اور اسی طرح سے بعض مقامات میں اساتذہ کو مشکل عبارات کو حل کرنے کے موقع پر مددگار ثابت ہو، یہ بات تو واضح ہے کہ یہ ترجمہ ہے اصل کتاب نہیں اور کوئی بھی ترجمہ کبھی بھی اصل کتاب کی جگہ نہیں لے سکتا، حقیقی محور تو اصل متن ہی رہے گا اور رہنا چاہیے۔

ان کتب کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے یا نہیں اس کے متعلق متعدد اہل علم سے مشورہ کرتا رہا، مگر جن کی تائید اور مشورہ نے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا وہ برادر محترم حجّۃ الاسلام مولانا محمد رضا داؤدانی دامت برکاتہ ہیں کہ نہ فقط انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ ان کتابوں کا ترجمہ ہونا چاہیے بلکہ اس کو امرِ لابدّ قرار دیا۔یہ اردو ترجمہ اسی آرزو کے تحت پیش کیا جا رہا ہے کہ برصغیر کے مدارس اور علمی حلقوں کے اہلِ علم و دانش بھی براہِ راست اس قیمتی علمی گنجینے سے بہرہ مند ہوں۔ امید ہے کہ یہ ترجمہ طلبہ کے لیے حصولِ فہم میں آسانی کا باعث ہوگا اور اہلِ تحقیق کے لیے رجالی مباحث میں ایک معتبر رہنما کی حیثیت اختیار کرے گا۔ ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ عربی عبارت کی روانی اور علمی گہرائی کو اردو زبان کے قالب میں منتقل کیا جا سکے اور قارئین کو اس علم سے متعلق بنیادی مفاہیم کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس ترجمہ میں اگر کوئی سقم یا کوتاہی نظر آئے تو اہلِ علم سے التماس ہے کہ وہ رہنمائی فرمائیں۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو بارگاہِ امامِ عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف میں مقبول فرمائے، اور اس علمی خدمت کو دینِ مبین کے فروغ کا ذریعہ قرار دے۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته

دلاور حسین حجتی۹ربیع الاول ۱۴۴۷ ھ۔

حصۂ اول

تمہید

جب فقیہ کے سامنے کوئی روایت آئے اور وہ اس روایت سے کسی معین حکم کو استنباط کرنا چاہے تو اس پر مندرجہ ذیل امور کو انجام دینا لازم ہے:

الف: اس بات کو ثابت کرنا کہ اس معین حکم پر روایت دلالت کرتی ہے اور اس کا طریقہ استظہار ہے اور جب وہ اس روایت سے اس حکم پر دلالت کا استظہار کرےگا تو مذکورہ لحاظ سے مقصد تکمیل پا جائےگا۔

اور استظهار کا عمل ایک وجدانی عمل ہے جو عموماً کسی معین ضابطے کے تحت نہیں آسکتا۔

فقیہ عموماً استظهار کا دعویٰ کرنے اور اسے ثابت کرنے کا عمل فقہ میں اس وقت انجام دیتا ہے جب وہ حکم کے استنباط میں مصروف ہوتا ہے۔

ب۔دلالت کی حجّیت یا جسے اصطلاح میں حجّیتِ ظہور کہا جاتا ہے اسے ثابت کرنا۔

اور یہ وہ کام ہے جس کا اہتمام اصولی علمِ اصول کے مبحثِ حجج میں کرتا ہے۔

ج۔ خبرِ ثقہ کی حجّیت کو ثابت کرنا، ورنہ اس فرض کے بعد کہ روایت کا صادر ہونا یقینی نہیں ہے روایت کے صادر ہونے پر بنا رکھنا ممکن نہیں ہے۔

اور یہ وہ کام ہے جس کا اہتمام اصولی حجّیت خبر کی بحث میں انجام دیتا ہے۔

د۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ خبر ثقہ کی خبر ہے تاکہ خبرِ ثقہ کی حجّیت کے قاعدے کے مطابق اس کی حجّیت کا حکم جاری کرنا ممکن ہو۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے سند کے راویوں کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ اور وہ ثقہ ہے یا نہیں۔ در حقیقت ضروری ہے کہ پہلے تو اس بارے میں بحث کی جائے کہ حجّت فقط ثقہ کی خبر ہے یا اس کا دائرہ اس سے بڑھ کر ہے اور حسن یا ایسی ضعیف خبر بھی شامل ہے جس کے ضعف کا عملِ مشہور ذریعہ تدارک ہوا ہو یا۔۔۔ اور اگر حجت صرف خبرِ ثِقہ ہے تو راوی کی وثاقت ثابت کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا یہ طریقہ صرف شیخ طوسی ؒاور نجاشی ؒکی شہادت تک محدود ہے یا دیگر طریقے بھی ہیں، جیسے راوی کا سندِ کامل الزیارات یا تفسیرِ قمی میں آنا، یا اجلاء و اکابرین کا اس سے روایت کرنا، یا اس کا ایسی روایت کی سند میں ہونا جس میں بنی فضال کے بعض افراد شامل ہوں، یا ۔۔۔اور اگر خبر کی سند ضعیف ہو تو کیا اسے درست کرنے کے لیے نظریۂ تعویض (تلافی و تدارک کا نظریہ) سے مدد لی جا سکتی ہے؟یہ سوالات اور ان جیسے دیگر سوالات کے کچھ جوابات دینے کی ہم اس کتاب میں کوشش کریں گے تاکہ طالبِ علم جب استنباط کے مرحلے تک پہنچے اور اس میدان میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس پہلو سے رکاوٹوں کو عبور کر سکے۔اور طالبِ علم پر لازم ہے کہ جب وہ ان مباحث کا مطالعہ کرے، جن میں سے کچھ کا ہم یہاں جائزہ لیں گے، تو وہ خود غور و فکر کرے، اجتہاد کرے اور ان کی صحت و ضعف پر تدبّر کرے، اسے ہمارے یا کسی اور کے اس دعویٰ پر کہ یہ بات درست ہے، بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ میدان تقلید کا نہیں بلکہ اجتہاد کا ہے۔ تقلید کا میدان فقہ اور احکامِ فقہیہ ہے، نہ کہ رجالی مباحث۔

۶

عملی تطبیق

اور ہم نے محسوس کیا ہے کہ رجالی مباحث کا محض بیان کرنا، بغیر ان میں عملی تطبیقات کے ساتھ شامل کیے، ایک ناکام معاملہ ہے، کیونکہ اس صورت میں طالبِ علم محض خالص نظری مباحث ہی میں الجھا رہتا ہے، جو اس کے لیے بیزاری اور اُکتاہٹ کا باعث بنتا ہے۔

اور ان میں سے اہم ترین مسئلہ جو اسے پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ وسائل الشیعہ سے احادیث کو کیسے نکالے اور سند کی صحت کو کیسے معلوم کرے۔

لہٰذا ہم وقتاً فوقتاً وسائل الشیعہ سے بعض احادیث نقل کریں گے اور ان کی سند کے مطالعے کا عملی طور پر اہتمام کریں گے۔

۷

تطبیق (۱)

اور بطورِ مثال ہم درج ذیل مثال پیش کرتے ہیں تاکہ طالبِ علم کو یہ باور کرائیں کہ رجالی مباحث کو سمجھنا اور ان سے عملی طور پر استفادہ کرنا کس قدر ضروری ہے اور ان سے عملی طور پر کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

وسائل الشیعہ، مقدمہ عبادات کے ابواب میں سے باب ۱۶ ح۱ میں جو کہا اس کی عبارت یہ ہے: " محمد بن يعقوب، انہوں نے محمد بن يحيى سے، انہوں نے أحمد بن محمد بن عيسى سے، انہوں نے علي ابن نعمان سے، انہوں نے أبو اسامہ سے، انہوں نے أبو عبد اللّه عليه السّلام سے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ایک حدیث میں: تم لوگ اپنے نفسوں کی جانب سے تبلیغ کرنے والے بنو بغیر اپنی زبانوں کے، (بلکہ اپنے عمل و کردار کے ذریعے) اور زینت کا باعث بنو، بدنامی و شرمندگی کا باعث مت بنو " ۔

مذکورہ حدیث کو حر عاملی ؒنے شیخ کلینی ؒکی الکافی سے نقل کیا ہے سند کے شروع میں موجود قرینہ کی وجہ سے چونکہ انہوں نے اپنی سند کی ابتداء میں " محمد بن یعقوب " کہا ہے اور یہ کلینی ؒہیں۔

اور مذکورہ سند کی حالت جاننے کے لیے ہم اس کا اس طرح مطالعہ کریں گے۔

جہاں تک محمد بن یعقوب ؒکا تعلق ہے تو ان کے تعارف کی ضروری نہیں ہے، اور ہم اس کی وثاقت میں کوئی شک نہیں رکھتے، کیونکہ وہ ہمارے بڑے بزرگ علما میں سے ایک ہیں جنہیں مکتب جعفریہ فخر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نجاشی ؒان کے بارے میں کہتے ہیں: " وہ اپنے زمانے میں ری (شہر) کے ہمارے علماء کے شیخ و بزرگ اور رہنما تھے، اور حدیث کے معاملہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ معتبر اور مضبوط الثبت تھے " ( معجم رجال الحديث ۱۸: ۵۰ )

اور صرف نجاشی ؒیا شیخ طوسی ؒکی توثیق کافی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا تھا اور دونوں کی توثیق کا یکجا ہونا ضروری نہیں ہے۔

اور جہاں تک محمد بن یحیی کا تعلق ہے تو یہ کلینی ؒکے شیخ و استاد ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے کثرت سے روایات الکافی میں بیان کی ہے اور بہت بڑے ثقہ افراد میں سے تھے۔ ان کے بارے میں نجاشی ؒکہتے ہیں: " اپنے زمانے کے ہمارے علماء کے شیخ ثقہ، عین (انتہائی معتبر) کثرت سے حدیث بیان کرنے والے "( سابقہ مأخذ ۱۸: ۳۰ ) ۔

اور جہاں تک احمد بن محمد بن عیسی کا تعلق ہے تو اشعری قمی ہیں جو اپنے بلند مقام و مرتبے کی وجہ سے معروف ہیں۔

ان کے بارے میں نجاشی ؒنے کہا: " ابو جعفر رحمہ اللہ اہل قم کے شیخ اور ان کے نمایاں فرد اور ان کے بلا تردید فقیہ تھے۔ اور یہ قائد بھی تھے جو سلطان سے ملاقات کرتے تھے۔ اور ان کی امام رضا علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی "

( سابقہ مأخذ ۲: ۲۹۶ ) ۔

اور جہاں تک علی بن نعمان کا تعلق ہے تو وہ جیسا کہ نجاشی ؒنے کہا ہے : " علی ایک ثقہ، نمایاں شخصیت کے حامل، ثابت، صحیح اور واضح طریق کے حامل تھے "( معجم رجال الحديث ۱۲: ۲۱۵ ) ۔

اور جہاں تک ابو اسامہ کا تعلق ہے تو یہ زید الشحام ہیں – اور ہم نے یہ بات (کہ ابو اسامہ سے مراد زید الشحام ہے) اپنے رجالی مطالعے اور تحقیق کے ذریعے جانی ہے – اور جن کے پاس کافی مہارت یا تجربہ نہیں ہے، وہ اس معاملے کے لیے کنیت کے بیان سے مخصوص معجم رجال الحدیث کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ اس کی اطلاع حاصل کر سکیں، کہ حصہ ۲۱ ص ۱۳ میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ابو اسامہ یہ وہی ابو اسامہ الشحام اور وہی زید الشحام ہے۔

اور جب ہم زید الشحام کے حالات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ نجاشی ؒنے ان کی توثیق نہیں کی ہے اور فقط شیخ طوسی ؒنے ان کی توثیق یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ : " زید الشحام جس کی کنیت ابو اسامہ تھی ثقہ ہے "

( معجم رجال الحديث ۱۲: ۲۱۵ ) ،

اور یہ کافی ہے۔

اور اس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت صحیح السند ہے چونکہ اس کے سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

۸

غلط فہمی

کچھ لوگ سابقہ تطبیق سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ روایات کے اسناد کی صحت یا ناسازگاری کا جاننا ایک آسان مسئلہ ہے اور اس کے لیے کسی تحقیق یا مطالعه کی ضرورت نہیں ہے، اور ایک ہی جملہ میں یہ کہنا ممکن ہے کہ: روایت اس وقت صحیح السند ہوتی ہے جب سند کے تمام راویوں کی وثاقت کی شیخ طوسی ؒیا نجاشی ؒنے گواہی دی ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ سند ضعیف ہے۔

لیکن یہ غلط فہمی ہے چونکہ وثاقت کا راستہ فقط شیخ ؒیا نجاشی ؒکی گواہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ دیگر بہت سارے طریقے ہیں جن طریقوں کی صحت کی مقدار کا جائزہ لینا ضروری ہے، جس طرح سے اس مقام میں دیگر ایسی ابحاث بھی ہیں جن سے طالب علم بےنیاز نہیں ہو سکتا جیسا کہ یہ بات عنقریب واضح ہوگی۔

اور ایک نگاہ ابحاث کے اس طریقہ کار پر جنہیں ہم ان شاء اللہ تشکیل دیں گے، اور اس کتاب کی معلومات کی فہرست اس بات پر دلالت کرتی ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔

۹

فصل اول

اور فصل اول میں ہماری گفتگو تین نکات میں واقع ہوگی:

" پہلا نکتہ: راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کے متعلق بحث۔

" دوسرا نکتہ: توثیقات عامہ کے متعلق بحث۔

" تیسرا نکتہ: رجالی کے قول کی حجّیت کے مدرک کے متعلق بحث۔

ہماری ابحاث کا اسلوب

ہم اپنے رجالی ابحاث کے بیان کے طریقے کو مندرجہ ذیل فصلوں میں ترتیب دیں گے:

" فصل اول: توثیق سے مربوط امور کے بارے میں بحث۔

" فصل دوم: حدیث کی اقسام کے بارے میں بحث۔

" فصل سوم: حدیث کی بعض کتابوں کے سلسلہ میں نظریات۔

" فصل چہارم: ہماری بعض رجالی کتابوں کے سلسلہ میں نظریات۔

۱۰

پہلا نکتہ راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے

راوی کی وثاقت ثابت کرنےکے متعدد طریقے ہیں ہم ان میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱۔ معصوم علیہ السلام کی گواہی

جب معصوم علیہ السلام کسی شخص کی وثاقت کی گواہی دے تو اس طریقے سے اس شخص کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، جیسے جو بات زرارہ کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس صحیح سلسلہ سند سے جس کا اختتام جمیل بن دراج پر ہوتا ہے کہ انہوں نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ: متواضع و فروتن لوگوں کو جنت کی خوشخبری دو: برید بن معاویہ عجلی، ابو بصیر لیث بن بختری مرادی، محمد بن مسلم اور زرارہ یہ چار صاحبانِ فضل ہیں جو اللہ کے امانتدار ہیں اس کے حلال اور حرام پر۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت ختم ہو جاتے اور نابود ہو جاتے

( معجم رجال الحديث ۷: ۲۲۲ )۔

ہاں یہ ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کی طرف سے توثیق بیان کرنے والا راوی بذات خود وہی شخص نہ ہو جس کی امام علیہ السلام کی گواہی کے ذریعہ وثاقت ثابت کرنا مقصود ہو، ورنہ یہ دور سے زیادہ مشابہ ہو جائےگا۔

۲۔ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی وثاقت کی گواہی

نجاشی کے نام سے معروف شیخ ابو العباس احمد بن علی بن عباس ؒ– جو شیخ طوسی ؒکے ہم عصر تھے اور بعض دروس میں ان کے ساتھی تھے – نے اپنی مشہور کتاب " فہرست مصنفی الشیعۃ" تالیف کی اور اس میں ان افراد کو جمع کیا جنہوں نے کتاب تالیف کی ہے اور ساتھ ہی اکثر جگہوں پر اس صاحب کتاب کے ثقہ یا ضعیف ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

اسی طرح سے شیخ طوسی ؒنے دو کتابیں تالیف کی جن میں سے ایک کا نام " الفہرست " ہے اور دوسرے کا نام " رجال الشیخ الطوسی" ہے۔ اور انہوں نے ان دونوں کتابوں میں بعض اوقات بعض راویوں کی توثیق یا تضعیف کا ذکر کیا ہے۔اور اسی طرح سے کشی ؒکے نام سے معروف شیخ ابو عمرو محمد بن عمر بن عبد العزیر – انہیں شیخ کلینی ؒکے طبقہ میں شمار کیا جاتا ہے – نے اپنی مشہور کتاب " رجال الکشی " تالیف کی۔ اور انہوں نے اس میں بعض راویوں کے بارے میں وارد شدہ روایات کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے، البتہ انہوں نے اکثر مقامات میں اور براہِ راست راویوں کی تضعیف اور توثیق کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ ان تینوں بزرگواروں میں سے کسی ایک کا کسی معین راوی کی توثیق کرنا اس کی وثاقت ثابت کرنے کا ذریعہ ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ صاحبانِ عقل کی یہ سیرت و طریقہ ہے کہ تمام مقامات میں ثقہ کی خبر پر عمل کرتے ہیں اور ان مقامات میں سے ایک توثیق کا مقام بھی ہے، اور چونکہ اس سیرت کو (معصومین علیہم السلام کی جانب سے) ممنوع قرار دیا جانا ثابت نہیں ہے لہذا یہ شرعی طور پر امضاء شدہ تصوّر کی جائےگی

( اور دوسرے نکتہ میں یہ بات آئےگی کہ رجالی کے قول کی حجّیت کا مدرک بیان کرنے کے لیے دوسری صورتیں بھی ہیں۔)

اور ایک کی گواہی کافی ہے ایک سے زائد کی گواہی لازم نہیں ہے چونکہ مذکورہ سیرت ایک پر اکتفاء کرنے سے قائم ہو جاتی ہے۔

کیا ہمارے بعض متأخرین علماء کی توثیق – جیسے علامہ حلی ؒ، ابن طاوس ؒ، شہید ثانی ؒاور ابن داؤد ؒ– اس بات کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ اس میں اختلاف ہے جس کا ہم ان شاء اللہ دوسرے حصے میں جائزہ لیں گے۔

۳۔ وثاقت پر اجماع

بعض ایسے راوی ہیں جن کی وثاقت کی نجاشی ؒاور دوسروں نے وضاحت نہیں کی ہے لیکن ان افراد میں سے ہیں جن کی روایت قابل قبول ہونے پر شیعوں کا اجماع ہونے کا کشی ؒنے دعوی کیا ہے۔

بطور مثال ابان بن عثمان جو ابان الاحمر کے نام سے معروف ہیں جن کی وثاقت کی گواہی نہ تو نجاشی ؒنے دی ہے اور نہ ہی کسی اور نے لیکن یہ امام صادق علیہ السلام کے ان چھ اصحاب میں سے ہیں جن کی تصدیق پر اجماع ہونے کا کشی ؒنے دعوی کیا ہے جیسا کہ انہوں نے کہا اپنی اس عبارت میں: " شیعہ علماء کا اجماع ہے اسے صحیح قرار دینے پر جسے یہ افراد صحیح قرار دیں اور اس بات کی تصدیق پر جسے یہ افراد بیان کریں اور شیعہ علماء نے ان کے فقه (علم و فقاہت) کو تسلیم کیا ہے: جمیل بن دراج، عبد اللہ بن بکیر، حماد بن عثمان، حماد بن عیسی اور ابان ابن عثمان" ( رجال الكشي: رقم ۷۰۵ )

اور وثاقت کے اثبات کے لیے مذکورہ اجماع کی حجیت کو اس طرح واضح کیا جاتا ہے: اگر کشی ؒاپنے اجماع کے دعوی میں حق پر ہے اور واقعی وہاں وثاقت پر اجماع موجود ہے، تو یہی مطلوب ہے، اور اگر وہ اس سلسلہ میں حق تک نہیں پہنچ سکے ہیں، اور حقیقت میں اجماع کا وجود نہیں ہے تو ہمارے لیے وثاقت کے اثبات کے لیے کشی ؒکی ضمنی اور پوشیدہ گواہی کافی ہے، چونکہ ان کا ان چھ افراد کی وثاقت پر اجماع کا دعوی ان کی طرف سے ان افراد کی وثاقت کی گواہی کو اپنے اندر مضمر اور پوشیدہ کیے ہوئے ہے، اور وثاقت ثابت کرنے کے لیے یہ کافی ہے۔

۱۱

۴۔ امام علیہ السلام کی طرف سے حاصل وکالت

وکالت کبھی عمومی نمائندگی کی سطح پر اور تمام شعبوں میں ہوتی ہے، اور کبھی کسی خاص شعبے تک محدود ہوتی ہے۔

پہلی وکالت وہ ہے جسے سفارت کہا جاتا ہے، اور اس کی وثاقت پر دلالت میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ یہ تو اس سے بھی اعلیٰ مرتبے اور بلند مقام پر دلیل ہے۔

بحث فقط دوسری قسم کے وثاقت پر دلالت کے بارے میں ہے کہ فقہاء کی ایک جماعت جن میں سید خوئی قدّس سرہ بھی شامل ہیں، نے اس کا انکار کیا ہے یہ دلیل پیش کرتے ہوئے کہ ہم بہت سے ایسے وکلاء کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کی طرف سے ان کی مذمت صادر ہوئی ہیں۔ اور شیخ طوسی ؒنے اپنی کتاب " الغیبہ" میں " الوکلاء المذمومین" کے نام سے ایک خاص باب تشکیل دیا ہے۔( معجم رجال الحديث ۱: ۷۵ )

اور صحیح یہ ہے کہ وکالت وثاقت کی دلیل ہے، کیونکہ سیرت عقلائیہ اس بات پر قائم ہے کہ صاحبِ عقل اپنے کسی بھی کام کو غیر قابلِ اعتماد شخص کو نہیں سونپتا، اور خاص طور پر امام علیہ السلام، کیونکہ غیر قابلِ اعتماد شخص امام کے مقام کے لیے کوئی ایسی بات منسوب کر سکتا ہے جس کا امام علیہ السلام سے کوئی تعلق نہ ہو، اور یہ بات بعض پہلوؤں سے نقصان دہ یا خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اور اگر کہا جائے کے ایسی صورت میں بعض وکلاء کے بارے میں صادر ہونے والی مذمت کی کیا تشریح کی جائےگی؟

تو جواب یہ ہے کہ: یہ مذمت ان کو وکیل بنا دیئے جانے کے بعد صادر ہوئی تھی نہ کہ اس سے پہلے۔

اور یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اگر ہم وکیل ہونا ثقہ ہونے پر دلیل ہونے کی بات کو قبول کریں تو ہم ایسے متعدد راویوں کی وثاقت حاصل کر سکتے ہیں جنہیں مجہول اور ضعیف راویوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے، ہم ان کے درمیان میں سے علی بن حمزہ بطائنی کا تذکرہ کرتے ہیں، یہ امام کاظم علیہ السلام کے وکلاء اور آپ علیہ السلام کے اموال کے منتظمین میں سے تھا۔ بزرگ علماء کا اس کے بارے میں اختلاف ہے (کہ آیا یہ ثقہ تھا یا غیر ثقہ) تو اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ وکالت وثاقت پر دلیل ہے تو اس بات کو بنیاد بنا کر اسے ثقہ قرار دینا ممکن ہو جائےگا اور ہم نتیجۃً ان روایات کے ایک بڑے مجموعے کو صحیح قرار دیں گے جن کی سند میں بطائنی ہے چونکہ بطائنی بہت ساری روایات کی اسناد میں واقع ہے۔

۱۲

۵۔ ثقہ کی روایت

صاحب مستدرک میرزا حسین نوری ؒاس بات کے قائل ہیں کہ ثقہ جب کسی شخص سے روایت کرے تو یہ اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے۔

اور صحیح یہ ہے کہ یہ وثاقت پر دلیل نہیں ہے، کیونکہ کتنے ہی ثقہ راوی ایسے ہیں جو غیر ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ اور اگر ثقہ کی کسی شخص سے روایت کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہوتی تو زیادہ تر بلکہ تمام کے تمام راویوں کا ثقہ ہونا لازم آتا چونکہ شیخ طوسی رحمہ اللہ ثقہ ہیں تو اگر وہ کسی شخص سے روایت کرے تو وہ شخص ثقہ ہو جائےگا، اور جب مذکورہ شخص تیسرے سے روایت کرےگا تو وہ بھی ثقہ ہو جائےگا، اور اسی طرح سے سلسلہ آگے بڑھےگا۔

ہاں! اگر بڑے بڑے جلیل القدر اور ثقہ راوی کسی شخص سے کثرت سے روایت کریں تو یہ اس کی وثاقت کی دلیل ہو یہ بعید نہیں ہے، کیونکہ کوئی عقلمند شخص کسی کی وثاقت پر یقین رکھے بغیر اس سے بکثرت روایت نہیں کرتا، ورنہ یہ اپنے وقت کو بلا وجہ ضائع کرنا قرار پائےگا، کیونکہ کمزور راویوں سے روایات جمع کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اور اگر ہم اس رائے کو قبول کر لیں تو اس سے اہم نتائج برآمد ہوں گے جن میں سے ہم بطور مثال محمد بن اسماعیل کی توثیق کو بیان کرتے ہیں، چونکہ کلینی ؒنے " الکافی" میں محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان کے حوالے سے کثرت سے روایات بیان کی ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ محمد بن اسماعیل مجہول الحال ہیں لہذا ان کی مذکورہ کثیر روایات اعتبار سے ساقط ہیں، جبکہ اگر ہم بیان شدہ نظریہ پر بنا رکھے تو محمد بن اسماعیل کی وثاقت کا حکم ممکن ہے چاہے ہم انہیں تفصیل کے ساتھ شناخت نہ کر سکتے ہو، اور اس طرح سے بہت بڑی تعداد میں روایات حجّیت کی سطح پر آ جائےگی۔

۱۳

۶۔ شیخوخۃ الاجازہ

کسی شخص سے روایت اخذ کرنے کی متعدد صورتیں ہیں، کبھی شاگرد اس روایت کو استاد سے سنتا ہے، اور دوسری صورت میں استاد روایت کو شاگرد کے سامنے پڑھتا ہے، اور تیسری صورت میں استاد شاگرد کو اجازت دیتا ہے اس طرح سے کہ وہ اسے وہ کتاب دیتا ہے جس میں اس نے روایات درج کی ہے اور جس میں اس نے روایات کو جمع کیا ہوتا ہے اور اس سے کہتا ہے میں تمہیں اس کتاب میں موجود روایات کو میرے حوالے سے نقل کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔تیسری صورت کو اصطلاحی طور پر " تحمّل الروایۃ بنحو الاجازۃ" کہا جاتا ہے، اسی طرح سے اجازت صادر کرنے والے صاحب کتاب کو اصطلاحاً " شیخ الاجازۃ" کہا جاتا ہے۔اس بارے میں اختلاف ہے کہ " شیخوخۃ الاجازہ" اثباتِ وثاقت کے لیے کافی ہے یا نہیں ؟ مذکور نکتہ پر بحث اہم ہے چونکہ بہت سی حدیثی اصول و بنیادی کتابیں جن سے " التھذیب" ، " الاستبصار" اور " من لا یحضرہ الفقیہ" کو تالیف کیا گیا ہے وہ شیخ صدوق اور شیخ طوسی قدّس سرھما تک ایسے افراد کے واسطے سے پہنچی ہیں جن کے حق میں کوئی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ افراد " مشایخ الاجازہ" تھے جیسے احمد بن عبدون، احمد بن محمد بن حسن بن ولید اور احمد ابن محمد بن یحیی وغیرہ۔۔۔متقدمین فقہاء کے نزدیک شاید معروف یہ تھا کہ وثاقت کو ثابت کرنے کے لیے مشایخ الاجازہ ہونا کافی ہے برخلاف دوسروں کے جن میں سید خوئی ؒبھی شامل ہیں ان کے نزدیک یہ کافی نہیں ہے۔

یہ کافی نہ ہونے پر یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ اجازت کا فائدہ فقط یہ ہے کہ شیخ مفید ؒکو مثلاً اجازت کی وجہ سے یہ حق حاصل ہوا کہ وہ یہ کہے کہ مجھے احمد بن محمد بن حسن بن ولید نے خبر دی ان روایات کی جو اس کتاب میں موجود ہیں جس کی روایات بیان کرنے کی انہوں نے مجھے اجازت دی ہے اور گویا کہ انہوں نے ان سے روایت سنی تھی۔

اور جب ثقہ کا کسی شخص سے روایت سننا اور اس کے حوالے سے نقل کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلیل نہیں ہے تو مشایخ الاجازہ ہونا بھی وثاقت پر دلیل نہیں ہے۔

۱۴

تطبیقات

تطبیق (۲)

حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ وضو کے ابواب میں سے باب ۱، حدیث ۱، میں کہا جس کی عبارت اس طرح سے ہے:

۱۔ " محمد بن الحسن باسناده عن الحسين بن سعيد عن حماد بن عيسى عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام قال: لا صلاة إلّا بطهور"

(محمد بن حسن نے اپنی اسناد سے حسین بن سعید سے، انہوں نے حماد بن عیسی سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے کہ فرمایا: کوئی نماز نہیں ہےمگر طہارت کے ساتھ)۔

مذکوہ سند کی حالت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے حسین بن سعید تک شیخ طوسی ؒکی سند کی طرف رجوع کیا جائے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ " مشیخۃ التھذیب ج۱۰ ص۶۳" کو ملاحظہ کیا جائے کہ انہوں نے کہا : " جس چیز کو میں نے اس کتاب میں حسین بن سعید کے حوالے سے بیان کیا ہے تو اس کی مجھے خبر شیخ ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان

( یہ شیخ مفید قدّس سرہ ہیں۔ اور جہاں تک حسن بن عبید اللہ کا تعلق ہے تو یہ غضائری سے معروف ہیں جو ثقہ، جلیل (القدر) اور شیخ طوسی کے استاد تھے۔ اور جہاں تک احمد بن عبدون کا تعلق ہے تو ان کے حق میں توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے۔ ہاں ان کی توثیق ممکن ہے یا تو اس عنوان سے کہ یہ مشایخ الاجازہ میں سے ہیں یا اس عنوان سے کہ یہ نجاشی کے شیخ و استاد ہے اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ نجاشی کے تمام مشایخ ثقہ ہیں اس مبنیٰ پر جو ان شاء اللہ تعالی آئےگا۔ لیکن ان کے لحاظ سے معاملہ آسان ہے چونکہ ان تین میں سے کسی ایک کا ثقہ ہونا کافی ہے)

اور حسین بن عبید اللہ اور احمد بن عبدون نے دی ہے اور ان تمام نے احمد بن محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن حسن بن ولید سے۔

اور اس کے علاوہ مجھے اس کی خبر دی ہے ابو الحسین بن ابی جید قمی نے، انہوں نے محمد بن حسن ابن ولید سے، انہوں نے حسین بن حسن بن ابان سے، انہوں نے حسین بن سعید سے " ۔

یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حسین بن سعید کی طرف دو سلسلہ سند موجود ہیں جن دونوں کی انتہاء محمد بن حسن بن ولید پر ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں:

الف: مفید، انہوں نے احمد سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن حسن بن ولید سے۔

ب: ابن ابی جید، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے۔

اور محمد بن حسن بن ولید نے نقل کیا ہے حسین بن حسن بن ابان سے، انہوں نے حسین بن سعید سے۔

دونوں سلسلہ سند قابل تأمل و غور ہے۔

جہاں تک پہلے سلسلہ سند کا تعلق ہے: تو احمد بن محمد بن حسن بن ولید کے لحاظ سے چونکہ ان کے حق میں توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے۔

ہاں اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ توثیق کو ثابت کرنے کے لیے شیخوخۃ الاجازہ ہونا کافی ہے مذکورہ لحاظ سے ان کی وثاقت کا حکم دیا جا سکتا ہے۔

اور جہاں تک دوسرے سلسلہ سند کا تعلق ہے: تو ابن ابی جید کے لحاظ سے چونکہ ان کے حق میں بھی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے۔

ہاں یہ بھی شیوخ الاجازہ میں سے اور نجاشی ؒکے شیخ ہیں تو تمام مشایخ الاجازہ کی وثاقت یا نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت پر بنا رکھتے ہوئے – اس بیان کے ساتھ جو ان شاء اللہ تعالی توثیقات عامہ کی بحث میں آئےگا – ان کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔

اور اگر ہم ان تمام باتوں سے چشم پوشی کریں تو حسین بن حسن ابن ابان کے لحاظ سے مشکل درپیش ہے چونکہ ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر مذکورہ دونوں یا ان میں سے ایک سلسلہ سند کی صحت ثابت ہو جائے تو یہی مقصود ہے ورنہ ہم شیخ طوسی ؒکی " الفھرست" کی طرف رجوع کریں گے چونکہ اس میں اس سے زیادہ سلسلہ اسناد مذکور ہیں۔ پس ص ۵۸ میں ایک نیا سلسلہ اسناد مذکور ہے اور وہ یہ ہے: " ہمیں اس کی خبر دی ہمارے چند اصحاب (عدة من أصحابنا) نے، انہوں نے محمد بن علی بن حسین سے، انہوں نے اپنے والد اور محمد بن حسن اور محمد بن موسی بن متوکل سے، انہوں (یعنی ان تینوں) نے سعد ابن عبد اللہ اور حمیری سے، انہوں (یعنی ان دونوں) نے احمد بن محمد بن عیسی بن حسین بن سعید سے " ۔

مذکورہ سلسلہ سند صحیح ہے چونکہ " عدة من أصحابنا" کی اصطلاح کم از کم تین کی نمائندگی کرتی ہے اور ہمارے نزدیک یہ قبول کرنا ممکن نہیں ہے کہ شیخ ؒکے مشایخ میں سے تین افراد کذب پر یکجا ہو جائے۔

اور جہاں تک محمد بن علی بن حسین کا تعلق ہے تو یہ صدوق، ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں۔

اور یہ تین افراد سے روایت کو نقل کر رہے ہیں وہ تین افراد: اپنے والد، محمد بن حسن اور محمد بن موسی بن متوکل سے اور ان تینوں میں سے ایک کی وثاقت ہمارے لیے کافی ہے، جبکہ اتفاقاً ان تینوں میں سے دو بہت بڑے ثقہ و قابلِ اعتماد شخصیات میں سے ہیں اور وہ دو میں سے ایک تو ان کے والد اور دوسرے محمد بن حسن بن ولید ہیں۔

اور جہاں تک سعد اور حمیری کا تعلق ہے تو یہ دونوں بھی بزرگ ثقہ افراد میں سے ہیں اگرچہ ان دونوں میں سے ایک کی وثاقت ہی ہمارے لیے کافی ہے۔

اور جہاں تک احمد بن محمد بن عیسی کا تعلق ہے تو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ اشعری ہیں جو ثقہ ہیں۔

اس سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حسین بن سعید تک کے شیخ طوسی ؒکے سلسلہ سند کو صحیح قرار دینا ممکن ہے۔

اب یہ باقی رہتا ہے کہ ہم حسین بن سعید سے امام علیہ السلام تک کی سند میں موجود افراد کو ملاحظہ کریں۔

جہاں تک حسین بن سعید کا تعلق ہے تو یہ اہوازی اور کثیر کتابوں کے مؤلف ہیں۔ جن کے بارے میں شیخ ؒنے " الفھرست صفحہ ۵۸" میں کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں۔

اور جہاں تک حماد بن عیسی کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں نجاشی ؒنے کہا ہے: "یہ اپنی حدیث میں ثقہ تھے اور انتہائی سچے" ( معجم رجال الحديث ۶: ۲۲۴ )

اور جہاں تک حریز کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں شیخ ؒکہتے ہیں: " ثقہ ہیں کوفی ہیں " [ ۔

( معجم رجال الحديث ۴: ۲۲۹ )

اور جہاں تک زرارہ کا تعلق ہے تو ہمارے لیے امام صادق علیہ السلام کی ان کے حق میں یہ تعریف ہی کافی ہے: " متواضع و فروتن لوگوں کو جنت کی خوشخبری دو: برید بن معاویہ عجلی، ابو بصیر لیث بن بختری مرادی، محمد بن مسلم اور زرارہ یہ چار صاحبانِ فضل ہیں جو اللہ کے امانتدار ہیں اس کے حلال اور حرام پر۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت ختم ہو جاتے اور نابود ہو جاتے "

(معجم رجال الحديث ۷: ۲۲۲)

۱۵

تمرینات

س ۱: فقیہ کو کسی مخصوص روایت سے حکم نکالنے کے لیے چار امور کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ان کا ذکر کریں اور ہر ایک کی ضرورت کی وضاحت کریں۔

س ۲: کیا علمِ رجال کے مطالب میں تقلید جائز ہے؟ اور کیوں؟

س ۳: اگر کہا جائے کہ ہمیں " علمِ رجال " یا زیارہ بہتر ہے کہ کہے " قواعدِ رجالیہ" کے عنوان سے کسی علم کے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ روایتوں کی اسناد کی پہچان کے لیے شیخ ؒاور نجاشی ؒکے بیانات ملاحظہ کرنا کافی ہے، تو جب یہ دونوں کسی سند کے راویوں کی توثیق کریں، تو ہم اس روایت کو صحیح قرار دیں گے، ورنہ نہیں۔ تو اس طرح کے کلام کو آپ کیسے رد کریں گے؟

س ۴: معصوم علیہ السلام کی گواہی کی ایک مثال ذکر کریں جس سے راوی کی وثاقت حاصل ہوتی ہو۔

س ۵: معصوم علیہ السلام کی گواہی وثاقت ثابت کرنے میں حجّت ہے ایک شرط کے ساتھ، آپ اس شرط کو ذکر کریں اور اس شرط کو قرار دیئے جانے کا سبب بیان کریں۔

س ۶: تین بزرگ رجالیوں کے نام ذکر کریں جن کی گواہی پر وثاقت کے لیے انحصار کیا جا سکتا ہے۔

س ۷: وثاقت کے لیے رجالی کا قول اور اس کی گواہی کی حجّیت کا سبب بیان کریں۔

س ۸: وثاقت کے لیے ایک شخص کی گواہی کافی ہے، متعدد کی ضرورت نہیں ہے، کیوں؟

س ۹: وثاقت کو ثابت کرنے کا ایک طریقہ وثاقت پر اجماع ہے۔ ایک مثال ذکر کریں جو اس بات کو واضح کرتی ہو۔

س ۱۰: ہم نے وثاقت پر اجماع کی حجیت کے لیے ایک تشریح بیان کی ہے۔ اس تشریح کو واضح کریں۔

س ۱۱: امام علیہ السلام کی جانب سے وکالت دو اقسام پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کا فرق واضح کریں۔

س ۱۲: ان دو اقسام میں سے کون سی وکالت کی قسم وثاقت پر دلالت کے بارے میں بحث کا موضوع واقع ہوئی ہے؟

س ۱۳: کیا امام علیہ السلام کا کسی شخص کو وکیل بنانا آپ کی نگاہ میں اس کی وثاقت کی علامت ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۴: اگر وکالت وثاقت کی دلیل ہے تو پھر بعض راویوں کے حق میں صادر ہونے والی مذمت کی ہم کیسے تشریح کریں گے؟

س ۱۵: اگر وکالت وثاقت پر دلالت کرتی ہے تو اس سے کچھ راویوں کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔ اس کی ایک مثال ذکر کریں۔

س ۱۶: کیا ایک ثقہ کا کسی شخص سے روایت کرنا آپ کی نگاہ میں اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۷: کیا کسی شخص سے جلیل القدر ثقہ راویوں کا کثرت سے روایت کرنا آپ کی نگاہ میں اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۸: اس بنیاد پر کہ کسی شخص سے مروی روایت کی کثرت اس کی وثاقت پر دلیل ہے، ہمیں اہم نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کی ایک مثال ذکر کریں۔

س ۱۹: " اجازت " کے طریقے سے روایت کے تحمل سے کیا مراد ہے؟ اور " شیخ الاجازة" سے کیا مراد ہے؟

س ۲۰: اثباتِ وثاقت میں " شیخ الاجازہ" کافی ہونے کے بارے میں بحث کیوں اہم ہے؟

س ۲۱: کیا متقدمین علماء اثباتِ وثاقت میں " شیخ الاجازہ" ہونے کو کافی سمجھتے تھے؟

س ۲۲: اثباتِ وثاقت میں " شیخ الاجازہ" ہونا کافی نہ ہونے پر کیسے استدلال کیا جائےگا؟

س ۲۳: حر عاملی ؒنے جو حدیث بیان کی ہے وسائل الشیعہ، ابواب الوضو میں سے باب ۶ حدیث ۱،میں، وہ صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔

۱۶

دوسرا نکتہ

توثیقاتِ عامہ

توثیق کا تعلق معین شخص یا معین اشخاص کے ساتھ ہو تو یہ توثیق خاص ہے، اور جب کلی عنوان کے ساتھ ہو تو یہ توثیق عام ہے۔

توثیق خاص کی مثال واضح ہے چونکہ شیخ ؒاور نجاشی ؒکی توثیقات عام طور سے خاص ہوتی ہے۔

توثیق عام کی مثال قمی ؒکی ان تمام افراد کی توثیق کرنا جن کے نام ان کی تفسیر میں ذکر ہوئے ہیں جیسا کہ عنقریب ہم واضح کریں گے۔

توثیقات عامہ کے لیے کثیر مثالیں ہیں ان میں سے ہم ذکر کرتے ہیں:

۱۷

۱۔ تفسیر قمی کے راویوں کی توثیق

تفسیر قمی، قرآن کریم کی ایک روایتی تفسیر ہے جو حال ہی میں نجفِ اشرف میں دو جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔ اس کے مؤلف علی بن ابراہیم قمی ؒہیں، جن کا انتقال ۲۱۷ ہجری میں ہوا۔ وہ شیخ کلینی ؒکے مشائخ میں سے ہیں اور کلینی ؒنے الکافی میں ان سے کثرت سے روایت کی ہے۔

مذکورہ کتاب میں ایک طویل مقدمہ ہے جس کے ضمن میں انہوں نے یہ عبارت بیان کی ہے:

" و نحن ذاكرون و مخبرون بما ينتهي الينا، و رواه مشايخنا و ثقاتنا عن الذين فرض اللّه طاعتهم و اوجب ولايتهم ۔۔۔ "

(ہم بیان کرنے والے اور اطلاع دینے والے ہیں ان باتوں کی جو ہم تک پہنچی ہیں، اور جنہیں ہمارے مشائخ اور ہمارے ثقہ افراد نے ان معززین (ع) سے روایت کیا ہے جن کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے اور جن کی ولایت اللہ نے واجب کی ہے۔۔۔)۔

اس عبارت سے بزرگ علماء کی ایک تعداد نے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ مذکورہ کتاب کی روایات کی سند میں موجود تمام افراد ثقہ ہیں۔

اور ان بزرگ علماء میں سید خوئی ؒبھی شامل ہیں۔

اور اس امکان کو کہ قمی ؒکا مقصود فقط اپنے براہِ راست مشائخ کی توثیق ہو، سید خوئی قدّس سرہ نے یہ کہتے ہوئے رد کیا ہے کہ قمی ؒاپنی تفسیر کی صحت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، اور یہ نہ صرف براہِ راست مشائخ بلکہ اس میں موجود تمام راویان کی توثیق پر موقوف ہے۔

اس کی روشنی میں سید خوئی ؒنے حکم دیا ہے کہ تفسیر قمی میں مذکور تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے ان کے جنہیں نجاشی ؒیا دیگر نے ضعیف قرار دیا ہو، ایسی صورت میں توثیق کا اعتبار باقی نہیں رہےگا کیونکہ توثیق کا اعتبار اس وقت تک ہی ہے جب تک اس کی مخالفت میں جرح وارد نہ ہوئی ہو جیسا کہ یہ بات واضح ہے۔

پھر مذکورہ توثیقِ عام حاصل ہونے کی بنیاد پر ۲۶۰ راوی ثقہ راویوں کی فہرست میں منتقل ہو جائیں گے جبکہ پہلے ان کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا تھا۔

اور اس کا رد یہ ہے کہ: مذکورہ کتاب کا اصلی نسخہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، اور جو ہمارے ہاتھ میں رائج مطبوعہ نسخہ ہے اس کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کامل طور پر تفسیر قمی ہے بلکہ بعض قرائن ایسے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس میں تفسیر قمی اور دوسرے مواد کو مخلوط کر دیا گیا ہے، چونکہ اس میں متعدد مقامات پر اس طرح کی تعبیرات وارد ہوئی ہے:

«رجع إلى تفسير علي بن إبراهيم» یا «رجع إلى رواية علي بن إبراهيم»یا «رجع الحديث إلى علي بن إبراهيم» یا ۔۔۔

اور ایسی صورت میں اس بات کا علم اجمالی حاصل ہوتا ہے کہ اس میں تفسیر قمی کے ساتھ دوسرے مواد کو مخلوط کیا گیا ہے، وہ بھی اس طرح سے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ پوری کتاب اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔

۱۸

۲۔ کامل الزیارت کے راوی

کامل الزیارت ایسی کتاب ہے جس میں تمام زیارات کو تالیف کیا گیا ہے، اس کے مؤلف ثقلہ جلیل (القدر) جعفر بن محمد بن قولویہ ہیں جو ہمارے نمایا متقدمین علماء میں سے ہیں۔

اس شیخ جلیل ؒنے اپنی کتاب کا مختصر مقدمہ بیان کیا ہے جس کے ضمن میں انہوں نے یہ عبارت بیان کی ہے:

" و قد علمنا بانا لا يخيط بجميع ما روي عنهم في هذا المعنى و لا في غيره لكن ما وقع لنا من جهة الثقات من أصحابنا رحمهم اللّه برحمته و لا أخرجت فيه حديثا روي عن الشذاذ من الرجال"

(اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم اس موضوع میں اور نہ ہی دوسرے موضوعات میں ان حضرات سے مروی تمام روایات پر احاطہ نہیں رکھتے، لیکن جو روایات ہمیں اپنے ثقہ اصحاب کی طرف سے پہنچی ہیں، اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے، اور میں نے اس میں کوئی ایسی حدیث بیان نہیں کی جو شاذ راویوں سے مروی ہو)۔ اور اس عبارت سے صاحب وسائل ؒنے یہ سمجھا ہے کہ ابن قولویہ ؒاپنے بلا واسطہ اور بالواسطہ تمام مشائخ کی توثیق کر رہے ہیں۔ اور اس پر سید خوئی ؒنے بھی اپنے سابقہ موقف میں موافقت کی تھی، جہاں انہوں نے یہ رائے اختیار کی تھی کہ جس کسی کا نام مذکورہ کتاب کی اسناد میں آیا ہے وہ ثقہ ہے، سوائے اس کے کہ کسی دوسرے کی طرف سے اس کی تضعیف کی گئی ہو۔ یہ اسی کلی اصول کے مطابق ہے جو ہر توثیق میں لاگو ہوتا ہے، یعنی توثیق کو اسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب اس کے خلاف تضعیف موجود نہ ہو۔ اس نظریہ کی بنیاد پر ۳۸۸ راویوں کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔

اور اس کا رد: سابقہ عبارت سے جو بات طے شدہ ہے وہ یہ ہے کہ ابن قولویہ ؒفقط ان افراد کی توثیق کر رہے ہیں جن سے انہوں نے براہِ راست روایت بیان کی ہے نہ کہ تمام کی جیسا کہ اسی بات کو خود سید خوئی ؒنے قبول کیا ہے جب انہوں نے اپنی عمر شریف کے آخری حصہ میں اپنی سابقہ رائے سے رجوع کیا تھا۔

۳۔ مشایخ نجاشی

برزگ فقہاء کی ایک تعداد نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت کی قائل ہیں چونکہ انہوں نے متعدد افراد کے جو حالات بیان کیے ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غیر ثقہ سے روایت نہ کرنے کے پابند تھے۔

پس انہوں نے جوہری کے حالات میں بیان کیا ہے: " میں نے اس شیخ کو دیکھا ہے، اور وہ میرا اور میرے والد کا دوست تھا اور میں نے اس سے بہت سی باتیں سنی تھیں، لیکن میں نے دیکھا کہ ہمارے مشائخ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں، لہٰذا میں نے اس سے کوئی روایت بیان نہیں کی اور اس سے اجتناب کیا۔۔۔ " ۔

اور ابن بھلول کے حالات میں وہ کہتے ہیں : " وہ اپنے ابتدائی دور میں ثابت (قابلِ اعتماد) تھا، پھر اس میں خلل پیدا ہو گیا، اور میں نے دیکھا کہ ہمارے اکثر اصحاب اس پر طعن کرتے اور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔۔۔ میں نے اس شیخ کو دیکھا تھا اور اس سے بہت کچھ سنا تھا، پھر میں نے اس سے براہِ راست روایت کرنے سے توقف کیا، سوائے اس کے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی واسطہ ہو " ۔

اور اگر کہا جائے کہ: نجاشی ؒکے مشائخ کی وثاقت ثابت ہونے کا کیا فائدہ ہے جبکہ اس کی کوئی روایتی کتاب ہی موجود نہیں ہے۔

تو جواب یہ ہے کہ: فائدہ " التھذیب" اور " الاستبصار" کی روایات کے لحاظ سے ظاہر ہوگا چونکہ شیخ طوسی ؒنے بیان کیا ہے کہ اصحاب کے جملہ اصول و بنیادی کتابیں ان تک احمد بن عبدون یا ابن ابی جید کے توسّط سے پہنچی ہیں، اور یہ دونوں کے حق میں کسی قسم کی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے لیکن یہ دونوں نجاشی ؒکے مشائخ میں سے ہیں، لہذا نجاشی ؒکے مشائخ کی وثاقت ثابت ہونے کی صورت میں ان دونوں کی وثاقت بھی ثابت ہو جائےگی اور ان دونوں کے توسّط سے پہنچے والی روایات حجّت ہو جائےگی۔

۱۹

۴۔ سند میں بنو فضال کا واقع ہونا

بنو فضال – یہ حسن بن علی بن فضّال، احمد بن حسن بن علی ابن فضّال اور علی بن حسن بن علی بن فضّال ہیں – یہ فطحیوں کا ایک گروہ ہیں۔

فطحی وہ فرقہ ہے جو امام صادق علیہ السلام کے فرزند عبد اللہ افطح کی امامت کے قائل ہیں۔

ان لوگوں کی احادیث کے کثیر ہونے اور ان کے عقیدے کے فاسد ہونے کی وجہ سے بعض شیعوں نے امام عسکری علیہ السلام سے ان احادیث کے بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا: " جو انہوں نے روایت کیا ہے اسے لے لو اور جو انہوں نے رائے دی ہے اسے چھوڑ دو " [ ۔

( وسائل الشيعة/ باب ۱۱ من أبواب صفات القاضي حديث ۱۳ )

اور اس روایت کی وجہ سے بزرگ فقہاء کی ایک بڑی تعداد کہ جن میں شیخ انصاری ؒبھی شامل ہیں اس بات کی قائل ہیں کہ جب کسی روایت کی سند میں بنو فضال واقع ہوئے ہو تو وہ روایت حجّت ہے اور اس پر عمل کیا جائےگا یہاں تک کہ اس صورت میں بھی جب بنو فضال اور امام علیہ السلام کے درمیان بعض ضعیف راوی بھی موجود ہو۔

اور اس رائے کو بہت سے بزرگ علما نے مسترد کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ اس روایت کا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ عقیدے کا بگاڑ روایت لینے میں مانع نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت صرف بنی فضّال کی طرف سے روایت لینے میں کسی ممانعت کے نہ ہونے کو بیان کرنے کے سلسلہ میں ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

۲۰