‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 106

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 106
مشاہدے: 5083
ڈاؤنلوڈ: 167

تبصرے:

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5083 / ڈاؤنلوڈ: 167
سائز سائز سائز
‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۵۔ تین اکابرین میں سے ایک کی روایت

کہا گیا ہے کہ تین بزرگوار – محمد بن ابی عمیر، صفوان اور بزنطی – جب کسی شخص سے روایت کرے تو یہ اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے۔

اس کی بنیاد شیخ طوسی ؒکی اپنی کتاب " عدۃ الاصول" کی یہ عبارت ہے :

" سوّت الطائفة بين ما يرويه محمد بن أبي عمير و صفوان بن يحيى و أحمد بن محمد ابن أبي نصر و غيرهم من الثقات الذين عرفوا بانهم لا يروون و لا يرسلون إلّا عمن يوثق به و بين ما اسنده غيرهم"

(گروہِ امامیہ نے محمد بن ابی عمیر، صفوان بن یحییٰ، احمد بن محمد بن ابی نصر اور دیگر ایسے ثقہ راویوں، جو اس بات سے معروف ہیں کہ وہ روایت اور ارسال صرف قابلِ اعتماد افراد سے ہی کرتے ہیں، ان کی مروی احادیث اور دوسروں کی مسند روایات کے درمیان برابری قائم کی ہے)۔

اور اسی وجہ سے مشہور نے کہا ہے کہ ابن ابی عمیر – اور اسی طرح سے صفوان اور بزنطی – کی مرسل روایات ان کی مسند روایات کی طرح سے ہیں۔

اور سیّد خوئی ؒنے اس بیان کردہ رائے کو رد کر دیا ہے – باوجود اس کے کہ یہ مشہور رائے ہے– اس دلیل کے ساتھ کہ ان (تین راویوں) کا صرف ثقہ افراد سے روایت کرنا ایک ایسی بات ہے جس کا علم صرف انہی تین افراد کی جانب سے ہو سکتا ہے، اور انہوں نے خود اس بات کی صراحت نہیں کی ہے، چونکہ اگر انہوں نے ایسا کہا ہوتا تو ان سے یہ نقل کیا جاتا کہ " ہم صرف ثقہ افراد سے ہی روایت کرتے ہیں " ۔اور اس بنا پر لازم آتا ہے کہ شیخ (طوسی) کی اصحاب کی جانب تسویہ (یعنی برابری) کی نسبت ان کے حدس و اجتہاد پر مبنی ہے، نہ کہ ان کے حس (مشاہدہ یا سماع) پر۔

اور اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ متقدمین علماء میں سوائے شیخ طوسی ؒکے کسی اور کے یہاں یہ دعویٰ معروف نہیں ہے، اور متقدمین کے کلام میں اس (دعویٰ) کا کوئی نشان اور اثر موجود نہیں ہے۔

دیگر توثیقات عامہ

توثیقات عامہ ہم نے بیان کیا انہیں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ دیگر مثالیں بھی ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے بیان نہیں کر رہے ہیں۔

تیسرا نکتہ

رجالی کے قول کی حجّیت کا مدرک

گذشتہ بحث میں ہم جان چکے ہیں کہ وثاقت کو ثابت کرنے کے لیے متعدد طریقے موجود ہیں اور ان میں سب سے عمدہ رجالی کی توثیق ہے۔

اس بحث میں ہم رجالی کے قول کی حجّیت کے مدرک کو جانیں گے۔ اور ذیل میں ہم درج ذیل پہلوؤں کا ذکر کریں گے:

۱۔ یہ بات شہادت کے باب سے ہے، جیسا کہ قاضی کے سامنے جب خبر دی جاتی ہے کہ فلاں مکان زید کا ہے تو یہ گواہی شمار ہوتی ہے اور جس طرح اس کی حجّیت کا تعلق شہادت کی حجّیت کے باب سے ہے اسی طرح سے رجالی کا کسی راوی کی وثاقت کی خبر دینا یہ ایک شہادت ہے اور اس کی حجّیت کا تعلق شہادت کی حجّیت کے باب سے قرار پائےگا۔ اور اس پر یہ اشکال وارد کیا گیا ہے: اس عنوان کا لازمہ یہ ہے کہ نجاشی ؒاور شیخ طوسی ؒجیسی شخصیات کی جانب سے دی گئی وثاقت کی گواہی کو قبول نہ کیا جائے چونکہ گواہ کی گواہی کو قبول کرنے کے لیے شرط ہے کہ وہ زند ہو، مردہ نہ ہو۔

جس طرح سے ان دونوں میں سے ہر ایک کی گواہی کو اس وقت قبول نہ کرنا لازم آئےگا جب فقط ایک کی گواہی ہو اور دوسرے کی نہ ہو چونکہ گواہی قبول کرنے میں گواہ کا متعدد ہونا اور کم از کم دو ہونا ہے شرط ہے۔

اور جس طرح سے یہ بھی لازم آئےگا کہ امامی شیعہ اثنا عشری کے علاوہ کی توثیق کو قبول نہ کیا جائے چونکہ گواہ کی گواہی قبول کرنے میں اس کا عادل ہونا شرط ہے، اس کا ثقہ ہونا کافی نہیں ہے۔ اور اس بنا پر لازم آئےگا کہ بنی فضّال کی ان توثیقات کو رد کیا جائے جن میں سے بعض کو کشّی ؒنے نقل کیا ہے چونکہ بنو فضّال فطحی تھے۔ جبکہ یہ بات بعید ہے۔

۲۔ یہ اہل خبرہ کے قول کی حجّیت کے باب و عنوان سے ہے، جس طرح سے چیزوں کی قیمت کا تعین کرنے والے دلال کا قول حجّت ہوتا ہے چونکہ وہ اہل خبرہ ہیں تو اسی طرح سے بطور مثال نجاشی ؒکا راویوں کی وثاقت کے بارے میں خبر دینا مذکورہ لحاظ سے حجّت ہے۔

۳۔ یہ ثقہ کی خبر کی حجّیت کے باب و عنوان سے ہے، چونکہ صاحبانِ عقل کا یہ طریقہ ہے کہ وہ تمام امور میں ثقہ کی خبر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور یہ اس وقت تک حجّت ہے جب تک کسی خاص مقام کے متعلق منع ثابت نہ ہو، جیسا کہ زنا کا مسئلہ ہے کہ دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ چار گواہ کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ، اور جس طرح سے چوری کا معاملہ ہے کہ دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بغیر دو گواہیوں کے چوری ثابت نہیں ہوتی۔

اس نطریہ کی بنیاد پر جس شخص کو ثقہ قرار دیا گیا ہو اس میں عدالت شرط نہیں ہے بلکہ یہی کافی ہے کہ وہ قابلِ اعتماد ہو اور جھوٹ سے پرہیز کرنے والا ہو۔ جس طرح سے اس میں متعدد و ایک سے زیادہ ہونا بھی شرط نہیں ہے بلکہ ایک کا خبر دینا کافی ہے۔ جس طرح سے اس کا زندہ ہونا بھی شرط نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی میں اس کا خبر دینا کافی ہے چونکہ مرنے کے بعد بھی اس کی حجّیت برقرار رہتی ہے۔

یہ سب اس لحاظ سے ہے کہ عقلا کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ تمام مذکورہ حالتوں میں خبرِ ثِقہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔

تطبیقات

تطبیق (۳)

صاحب وسائل ؒنے " وسائل الشیعہ ابوابِ وضو میں سے پہلے باب کی حدیث ۲ " میں کہا، جس کی عبارت یہ ہے:

" و عنه عن حماد عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام في حديث قال: يا زرارة الوضوء فريضة"

(اور ان سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے ایک حدیث میں، فرمایا:اے زرارہ وضو فریضہ ہے)۔

اس حدیث کو حر عاملی ؒنے شیخ طوسی ؒسے نقل کیا ہے، اس بات پر قرینہ یہ ہے کہ اس حدیث سے پہلے جو حدیث تھی حر عاملی ؒنے اس کی ابتداء محمد بن حسن طوسی ؒسے کی تھی، اور اس حدیث کی ابتداء میں کلینی ؒیا کسی اور کے نام کا ذکر نہیں کیا ہے جو اس بات پر دلیل ہے کہ ان کا شیخ طوسی ؒسے نقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اور " عنہ " کے لفظ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع حسین بن سعید ہے نہ کہ محمد بن حسن۔ مقصود یہ ہے کہ محمد بن حسن اس دوسری حدیث کو بھی حسین بن سعید سے نقل کر رہے ہیں۔

اس بات کو جاننے کے لیے کہ مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے یا نہیں ضروری ہے کہ حسین بن سعید تک کی شیخ ؒکی سند کو دیکھا جائے اور حسین کے بعد کے اس سند کے باقی افراد کو دیکھا جائے یہاں تک کہ سلسلہ امام علیہ السلام تک پہنچے۔ اور یہ ساری باتیں تطبیق ۲ میں گذر چکی ہے۔

اور حرّ عاملی ؒنے سابقہ عنوان کی حدیث ۳ میں کہا جس کی عبارت یہ ہے:

" و بالاسناد عن زرارة قال سألت أبا جعفر عليه السّلام عن الفرض في الصلاة فقال: الوقت و الطهور و القبلة و التوجه و الركوع و السجود و الدعاء"

(اور اسناد کے ساتھ زرارہ سے، کہا میں نے ابو جعفر علیہ السلام سے نماز میں فرض کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: وقت، طہارت، قبلہ، توجہ، رکوع، سجود اور دعا)۔

اس حدیث کو بھی حرّ عاملی ؒنے شیخ طوسی ؒسے نقل کیا ہے چونکہ انہوں نے اس کی ابتداء میں کسی اور کے نام کا ذکر نہیں کیا ہے۔

اور " و بالاسناد " ساتھ سے مراد ہے کہ سابقہ حدیث میں پہلے بیان شدہ اسناد کے ساتھ، یعنی اس حدیث کو شیخ طوسی ؒحسین بن سعید سے اور انہوں نے حماد سے اور انہوں نے حریز سے اور انہوں نے زرارہ سے نقل کیا ہے۔

۲۱

تمرينات

س ۱: توثیق کی دو اقسام ہیں: خاص اور عام۔ ان دونوں کے درمیان فرق مثال کے ساتھ واضح کریں۔

س ۲: تفسیر قمّی کے مؤلف کون ہیں؟

س ۳: سید خوئی ؒکی تفسیر قمّی کے راویوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ساتھ میں اس کی بنیاد بھی بیان کریں۔

س ۴: کس طرح اس امکان کو رد کیا گیا ہے کہ قمّی کا مقصد صرف اُن کے خاص ان مشایخ کی توثیق ہے جن سے انہوں نے براہِ راست روایت کی ہے؟

س ۵: تفسیر قمّی کے تمام راوی ثقہ ہیں اس نظریہ پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۶: " کامل الزيارة " کتاب کے مؤلف کون ہیں؟ اور اس کتاب کو اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟ اس کتاب کے متعلق کیا رائے ہے؟

س ۷: راویانِ " کامل الزيارة " کی وثاقت کے حکم کی کیا بنیاد ہے؟

س ۸: " کامل الزيارة" کے تمام راوی ثقہ ہیں اس نظریہ پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۹: نجاشی ؒکے مشایخ کے متعلق ایک نطریہ ہے۔ اسے واضح کریں اور اس کی بنیاد بیان کریں۔

س ۱۰: نجاشی ؒکی کوئی روائی کتاب نہیں ہے تو نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت کا دعویٰ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟

س ۱۱: بنو فضّال کون تھے؟

س۱۲: ایک نظریہ ہے کہ اگر بنو فضّال میں سے کوئی شخص کسی روایت کے سند میں موجود ہو تو وہ روایت مقبول ہے۔ اس رائے کی وضاحت کریں اور اس کی بنیاد بیان کریں۔

س۱۳: بنو فضّال سے متعلق پیش کردہ نظریہ پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۴: " تین اکابرین میں سے ایک کی روایت " کا کیا مطلب ہے؟ اور اس سے متعلق کیا رائے ہے؟

س ۱۵: سید خوئی ؒنے " تین اکابرین " کے متعلق رائے کیوں مسترد کی ہے؟

س ۱۶: رجالی کے قول کی حجیت کے مدارک بیان کریں۔

س ۱۷: رجالی کے قول کی حجیت کے پہلے مدرک پر کیا اعتراض ہے؟

س۱۸: کیا آپ کی نگاہ میں وسائل الشیعہ کے ابوابِ وضو کے باب ۱۲ کی حدیث ۱ کی سند صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔

۲۲

فصل دوم: حدیث کی اقسام کے متعلق

حدیث کو چار اقسام میں تقسیم(۱) کیا گیا ہے:-

۱۔ صحیح: جس کے تمام راوی عادل اور امامی ہو۔

۲۔ موثق: جس کے تمام یا بعض راوی غیر امامی ہو لیکن ان کی توثیق ہوئی ہو۔

۳۔ حسن: جس کے تمام یا بعض راوی امامی ہو لیکن عادل نہ ہو بلکہ صرف ممدوح ہو۔

۴۔ ضعیف: جو ان تین اقسام میں سے نہ ہو، اس طرح سے کہ اس کے راوی مجہول ہو یا انہیں ضعیف قرار دیا گیا ہو۔

----------

(۱) ہم اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ روایت اگر متواتر یا ایسے قرائن سے متصل ہو جو اس کی حقانیت کا یقین فراہم کرتے ہو تو اس کی حجّیت اور اس کی قبولت میں کوئی اشکال نہیں ہے، بحث ان دونوں اقسام کے علاوہ میں ہے۔ اور جو تقسیم ہم عنقریب بیان کریں گے اس کی نگاہ ان دو قسموں کی علاوہ کی طرف ہے۔

اور اخباریوں نے اس چہار گانہ تقسیم کی مذمت کی ہے اور اس تقسیم کی ایجاد کی جن کی طرف نسبت ہے یعنی علامہ حلی ؒپر اعتراض کیا ہے۔اور اخباریوں کے اس تقسیم کو رد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں کتب اربعہ کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور حر عاملی ؒنے اپنی کتاب وسائل میں اس – یعنی کتب اربعہ میں موجود تمام روایات کے صحیح ہونے – پر قرائن جمع کیے ہے جن کی تعداد ۲۲ ہیں (۱) ۔

ان قدّس سرہ نے کہا: " اور اس سے حدیث کی صحیح، حسن، موثق اور ضعیف کی تقسیم پر مبنی جدید اصطلاح کا ضعف ظاہر ہو جاتا ہے جو اصطلاح علامہ ؒاور ان کے استاد احمد ابن طاووس ؒکے زمانہ میں نئی نئی وجود میں آئی تھی۔

اور اس دعوے پر مختصر طور پر تبصرہ ان شاء اللہ تیسری فصل میں آئےگا۔

روایات کی ان چار اقسام سے مربوط چند ابحاث ہیں جنہیں ہم چند نکات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔

(۱)- وسائل کے آخر میں ذکر کردہ فوائد میں سے نواں فائدہ ملاحظہ کریں۔

صحیح حدیث کے خلاف شہرت

۱۔ جب روایت صحیح السند ہو تو اس کی حجّیت معروف ہے، لیکن بحث اس وقت واقع ہوتی ہے جب شہرتِ فتوائیہ اس صحیح روایت کے برخلاف ہو، تو کیا یہ بات اس روایت کی حجّیت کو ساقط کر دےگی یا نہیں؟

مشہور یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ روایت اعتبار سے ساقط ہو جائےگی سوائے سید خوئی ؒکے جنہوں نے ساقط نہ ہونے کے نظریہ کو اپنایا ہے بعد اس کے کہ (پہلے) وہ ساقط ہونے کے مشہور کے نظریہ کے موافق تھے (۱) ۔

ساقط ہونے کے نظریہ کی یہ تشریح کی جا سکتی ہے کہ ہمارے بزرگ علماء کے سابقہ طبقے نے جب اس روایت کو نظر انداز کیا ہے تو اس سے آشکار ہوتا ہے کہ اس روایت میں بعض لحاظ سے خلل موجود تھا ورنہ وہ کیوں اس روایت کو نظر انداز کرتے۔

------

(۱)- مصباح الاصول ۲: ۲۰۳

ہاں، یہ لازم ہے کہ ان کا اس روایت کو نظر انداز کرنا ان کے اپنے نظریہ اور اجتہاد پر عمل کے نتیجہ میں نہ ہو چونکہ ان کا اجتہاد ان پر حجّت ہے نہ کہ ہم پر۔

لیکن اس کے بعد مسئلہ یہ باقی رہتا ہے کہ ہم یہ کیسے ثابت کریں کہ متقدمین نے اس روایت کو نظر انداز کیا تھا جبکہ ان میں سے کثیر کے بیانایت ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔

۲۳

ثقہ یا عادل کی خبر

۲۔ فقہا؍ کے درمیان یہ مشہور ہے کہ حجّت فقط عادل کی خبر نہیں ہے بلکہ ثقہ کی خبر بھی حجّت ہے۔

ثقہ کی خبر کی حجّیت اور عدالت شرط نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیرتِ عقلائیہ ثقہ کی خبر پر عمل کے بارے میں اسی انداز سے قائم ہے جس طرح سے عادل کی خبر پر عمل کے بارے میں قائم ہے۔ اور چونکہ مذکورہ سیرت سے منع نہیں کیا گیا، اس لیے یہ حجت ہے۔

اور اگر کہا جائے کہ آیتِ نبأ ثقہ کی خبر پر عمل کو ممنوع قرار دیتی ہے اگر وہ ثقہ عادل نہ ہو چونکہ آیت کہتی ہے: اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو، اور ثقہ جب عادل نہ ہو تو وہ فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق ضروری ہے اور اس کا مطلب ہے کہ حجّیت نہیں ہے۔

ہم جواب دیں گے کہ اس آیتِ کریمہ میں فاسق سے مراد ایسا شخص ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرتا ہو، فاسق سے ایسا شخص مراد نہیں ہے جو عادل کے مقابل ہو، چونکہ دو قرینے موجود ہیں:

الف: حکم اور موضوع کی مناسبت چونکہ عدمِ حجّیت کے حکم سے جو بات مناسب ہے وہ ایسے شخص کی خبر ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرتا ہو نہ کہ ایسے شخص کی خبر جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے لیکن کبھی بعض دیگر گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہو۔

ب۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں جو ندامت (پشیمانی) کی علت مذکور ہے، اس وقت وجود میں آتی ہے جب جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والے (غیر متحرز عن الکذب) کی خبر پر عمل کیا جائے، اور یہ علت اُس شخص کو شامل نہیں کرتی جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہو۔

۲۴

ثقہ کی خبر یا قابلِ اعتماد خبر

۳۔ اس بنا پر کہ حجّت ثقہ کی خبر ہے کیا ثقہ کی خبر کا حجّت ہونا مطلق طور پر ہے یا اس بات سے مشروط ہے کہ اس خبر پر اعتماد اور اطمینان حاصل ہو۔

کہا جا سکتا ہے کہ (خبر کے حجت ہونے کے لیے) اعتماد پیدا ہونا شرط ہے، کیونکہ آیتِ نبأ کے آخر میں ذکر کردہ ندامت (پشیمانی) کا خوف، اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک خبر پر اطمینان حاصل نہ ہو۔

لیکن صحیح نظریہ یہ ہے کہ اطمینان شرط نہیں ہے چونکہ عبد العزیز بن مہتدی اور حسن بن علی بن یقطین کی امام رضا علیہ السلام سے یہ روایت موجود ہے کہ " میں نے عرض کی: اپنے جن دینی امور کی مجھے ضرورت پیش آتی ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے آپ (ع) سے سوال کرنے کے لیے آپ (ع) تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے تو کیا یونس بن عبد الرحمن ثقہ ہیں کہ میں ان سے اپنے دینی امور میں سے جس چیز کا محتاج ہوں اسے اس سے حاصل کروں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں(۱)

(۱) وسائل الشيعة باب ۱۱ من صفات القاضي ح ۳۳

چونکہ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے والے کے ذہن میں راوی کی وثاقت کا کافی ہونا مرتکز و طے شدہ تھا، اور امام علیہ السلام نے بھی اس بات کی تائید فرمائی ہے " ۔

خبرِ حسن

۴۔ کیا حسن روایت حجّت ہے؟ شیخ نائینی اور سید خوئی قدّس سرھما اس کی حجّیت کے قائل ہیں۔

اور مصباح الأصول میں انہوں نے اس بات پر سیرتِ عقلائیہ سے استدلال کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ عقلاء کا طرزِ عمل اس پر قائم ہے کہ اگر مولا (مالک) کا کوئی حکم اس کے بندے تک ایسے امامی راوی کے ذریعے پہنچے جو قابلِ تعریف (ممدوح) ہو، اور جس کا نہ فسق ظاہر ہو اور نہ عدالت، تو بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے، اسی طرح جس طرح سے سیرت اس روایت پر عمل کرنے پر قائم ہے جو کسی امامی عادل راوی کے ذریعے پہنچی ہو۔ اور چونکہ اس سیرت سے شریعت نے منع (ردع) نہیں کیا ہے، تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شارع نے اس پر امضاء کیا ہے۔( مصباح الاصول ۲: ۲۰۰ )

اس پر بتصرہ ان شاء اللہ تعالی دوسرے حصے میں آئےگا۔

خبرِ ضعیف

۵۔ متأخر علماء کے درمیان معروف بات یہ ہے کہ ضعیف خبر کے لیے حجیت نہیں ہے، لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ضعیف خبر اس وقت حجیت کی سطح تک ترقی کر سکتی ہے جب اس کی موافقت میں شہرتِ فتوائیہ موجود ہو؟ یعنی کیا ممکن ہے کہ سند کی کمزوری کا تدارک اس کے موافقت میں موجود شہرتِ فتوائیہ سے ہو جائے ؟

مشہور یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اس کے ضعف کا تدارک ہو جاتا ہے کیونکہ شہرت ایک طرح سے اس روایت کے متعلق " تبیّن" (تحقیق) ہے، اور یہ بات خبر کی حجیت کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ آیتِ نبأ نے فاسق کی خبر کو مطلقاً ناقابلِ حجت قرار نہیں دیا بلکہ اس میں " تبیّن" یعنی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جب تحقیق کے بعد خبر کی صداقت واضح ہو جائے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے، اور فتوے کی شہرت اس صداقت کو واضح کرتی ہے۔

یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ مشہور کی جانب سے کسی روایت پر عمل کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اس روایت کی توثیق کر رہے ہیں چونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کیوں اس پر عمل کرتے بلکہ متقدمین میں سے مشہور کا کسی روایت پر عمل اس روایت کے صدور کا اطمینان فراہم کرتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ باقی رہتا ہے کہ اس بات کو ثابت کیسے کریں، چونکہ متقدمین کی استدلالی کتابیں ہمیں دستیاب نہیں ہیں کہ ہم اس بات کو جان سکے کہ انہوں نے اپنے فتووں میں اس روایت کو بنیاد بنایا ہے اور اس روایت پر عمل کیا ہے، چونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ مشہور کے فتوے کے درمیان اور اس روایت کے درمیان محض اتفاقی موافقت قائم ہو گئی ہو بغیر اس کے کہ مشہور نے اس روایت کو بنیاد بنایا ہوا۔

خبرِ مضمر

۶۔ خبر مضمر ایسی روایت ہے جس میں جس سے سوال کیا گیا ہو اس کا تذکرہ نہ ہو کہ آیا وہ امام علیہ السلام ہیں یا کوئی اور، جسیا کہ یہی صورت حال زرارہ کی اس صحیح روایت میں ہے جسے شیخ طوسی ؒنے " التھذیب" میں اپنی سند کو حسین بن سعید تک اور انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے کہاں: قلت لہ (میں نے ان سے کہا) اگر ایک شخص کو وضو کی حالت میں نیند آ جائے تو کیا ایک جھپکی یا دو جھپکیاں اس پر وضو کو واجب کر دےگی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا۔۔۔ ( وسائل الشيعة باب ۱ من أبواب نواقض الوضوء ح ۱ )

زرارہ نے یہ نہ کہا کہ میں نے بطور مثال امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا بلکہ فقط یہ کہا کہ میں نے ان سے عرض کیا، یعنی ایسی ضمیر کا ذکر کیا جس کے امام علیہ السلام کی طرف رجوع کا بھی امکان ہے اور غیر امام کی طرف بھی رجوع کا امکان ہے۔ اور اسی وجہ سے بعض اوقات روایاتِ مضمرہ کی عدمِ حجیت کا حکم دیا جاتا ہے، کیونکہ اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ جس شخص سے سوال کیا گیا وہ امام علیہ السلام ہی ہیں۔

اس کے مقابل میں دو نظریات پائے جاتے ہیں :

ان میں سے ایک: تمام مضمرات حجّیت رکھتی ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ اضمٰار (ضمیر کے استعمال) کا سبب اور اس اسلوب کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ راوی بعض اوقات امام علیہ السلام سے کئی سوالات کرتا تھا، اور جب وہ ان سوالات کو نقل کرنا چاہتا تو شروع میں امام علیہ السلام کے نام کی وضاحت کرتا اور کہتا کہ

" سألت الصادق عليه السّلام عن كذا فاجاب بكذا، و سألته عن كذا فاجاب بكذا، و سألته عن ۔۔۔ "

(میں نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا فلاں چیز کے بارے میں تو آپ علیہ السلام نے یہ جواب دیا اور میں نے ان سے یہ سوال کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا اور میں نے یہ سوال کیا۔۔۔)۔

یہ کہ روایت کے آغاز میں امام علیہ السلام کا نام صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا، اور اس کے بعد صرف ضمیر کے ذریعے اُن کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا، اور نام کی دوبارہ صراحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پھر بعد میں، جب احادیث کو تقطیع (ٹکڑوں) میں تقسیم کیا گیا تو ہر فقرہ (جزو) کو اس کے مناسب حدیثی باب میں اسی طرح درج کر دیا گیا جیسا وہ تھا، بغیر جن سے سوال کیا گیا ہے اس شخص یا امام علیہ السلام کے نام کی وضاحت کیے۔

یوں اضمار کا رجحان شروع ہوا۔۔

اور جب ہم اضمٰار (ضمیر کے استعمال) کی اس وجہ سے مطلع ہو جائیں گے، تو ہم بلا شک و شبہ تمام " مضمرات " (ضمیر والی روایات) کی حجّیت کا حکم دیں گے، کیونکہ جس شخص سے سوال کیا گیا تھا وہ شروع سے ہی امام علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔

اور یہ رائے قابلِ بحث و اشکال ہے، کیونکہ یہ بات اس فرض پر درست ہو سکتی ہے جب یہ یقینی ہو کہ شروع میں جن سے سوال کیا گیا وہ شخص امام علیہ السلام ہی تھے، لیکن ہم اس بات کا قطعی حکم کیسے لگا سکتے ہیں؟ ہمیں یہ احتمال بھی رہتا ہے کہ شاید جس سے سوال کیا گیا وہ امام علیہ السلام کے بجائے کوئی اور شخص ہو۔

اور دوسرا نظریہ جو بعض فقہاء نے اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ فرق کیا جائے : اگر مضمرہ روایت بیان کرنے والا شخص اصحابِ امام علیہ السلام میں سے جلیل القدر اور بزرگوں میں سے ہو، اس طرح کہ اس کے شایانِ شان نہیں کہ وہ امام علیہ السلام کے علاوہ کسی اور سے نقل کرے — جیسا کہ زرارہ کی صورت حال ہے — تو ایسی صورت میں مضمَرہ روایت حجت ہوگی، کیونکہ راوی کا بلند مقام خود ایک قرینہ ہے جو اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ جس شخص سے سوال کیا گیا ہے وہ امام علیہ السلام ہی ہیں، لیکن اگر راوی ایسا نہ ہو (یعنی عام راوی ہو)، تو ایسی روایت حجت نہیں ہوگی کیونکہ مذکورہ قرینہ موجود نہیں ہے۔

اور ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ تمام مضمرات (ضمیر والی روایات) حجت ہیں، ایک لطیف و باریک نکتہ کی وجہ سے جس کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ دوسرے حصے میں آئےگی

۲۵

خبرِ مرسل

خبر مرسل یعنی ایسی روایت جس میں سند کے بعض راویوں کے نام کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو، جیسا کہ یہی صورت حال اس سند میں ہے کہ شیخ صدوق ؒنے اپنے والد سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے ایوب بن نوح سے، انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے، انہوں نے ایک سے زائد سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔۔۔ ( وسائل الشيعة باب ۱۸ من أبواب أحكام الخلوة حديث ۴ )

اس میں ابن ابی عمیر نے اس راوی کے نام کی وضاحت نہیں کی ہے جس سے انہوں نے روایت کی ہے اور فقط " عن غیر واحد " (ایک سے زائد سے) کے الفاظ استعمال کیے ہے اور اس طرح کی روایت کو مرسلہ شمار کیا جاتا ہے۔

اور فقہاء کے درمیان مرسلہ روایات کی حجّیت کے بارے میں متعدد اقوال پر مبنی اختلاف واقع ہوا ہے جن میں سے ہم بعض کو مندرجہ ذیل میں ذکر کرتے ہیں:-

الف: مطلق طور پر (ہر حال میں) عدمِ حجیت، چونکہ مبہم و غیر واضح واسطہ کی وثاقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔

ب: تفریق کی گئی ہے: اگر ارسال کرنے والا راوی ابنِ ابی عمیر، صفوان، یا بَزَنطی(۱)ہوں تو روایت حجت ہوگی؛ اور اگر ارسال کرنے والا ان کے علاوہ کوئی اور ہو، تو روایت حجت نہیں ہوگی۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ طوسی ؒنے اپنی کتاب العدّة(۲)میں ذکر کیا ہے کہ شیعہ علماء نے ابنِ ابی عمیر، صفوان اور بَزَنطی کی مرسل روایات پر عمل کیا ہے، اس بنیاد پر کہ یہ حضرات صرف ثقہ افراد ہی سے روایت کرتے تھے اور انہی سے ارسال کرتے تھے، لہٰذا اگر ارسال کرنے والا راوی ان میں سے کوئی ہو، تو اس کی روایت حجت ہوگی کیونکہ وہ صرف ثقہ سے ہی مرسلہ روایت بیان کرتا ہے، اور اگر ارسال کرنے والا راوی ان کے علاوہ ہو، تو روایت رد کر دی جائےگی کیونکہ اس میں واسطے کی وثاقت کا احراز و اثبات نہیں ہے۔

-----

حوالہ جات:(۱) "یہ تینوں (راوی) ہمارے بڑے اصحاب میں سے ہیں۔ جہاں تک ابنِ ابی عُمَیر کا تعلق ہے، تو نجاشی نے ان کے بارے میں کہا : "جلیل القدر اور ہمارے نزدیک نیز مخالفین کے نزدیک بھی بلند مرتبہ رکھتے ہیں"۔ اور شیخ طوسی نے ان کے بارے میں کہا : "وہ خاصہ (شیعہ) اور عامہ (اہل سنت) دونوں کے نزدیک سب سے زیادہ قابلِ اعتماد، سب سے زیادہ عبادت گزار، پرہیزگار اور زاہد تھے"۔ اور ان کے مکمل حالات جاننے کے لیے معجم رجال الحدیث، جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

اور جہاں تک صفوان بن یحییٰ کا تعلق ہے، تو نجاشی نے ان کے بارے میں کہا : "ثقہ، ثقہ، عین (یقینی قابلِ اعتماد)۔ اور ان کے حالات کے لیے المعجم، جلد ۹، صفحہ ۱۲۳ کی طرف رجوع کرنا مناسب ہوگا۔

اور جہاں تک احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی کا تعلق ہے تو یہ امام رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہے اور آپ علیہ السلام کے نزدیک عظیم المرتب تھے۔ ان کے حالات المعجم ح۲ ص۲۳۱ میں درج ہے۔

(۲)- کتاب "العدۃ" کی خبر واحد کی حجّیت کی بحث کے آخری حصے کی طرف رجوع کریں۔

۲۶

ج۔ تفریق فقط شیخ صدوق ؒکی مرسلہ روایات میں اس طرح سے کہ فرق کریں گے جب وہ عبارت بیان کرے کہ: کہا صادق علیہ السلام نے اور اس میں جب وہ عبارت استعمال کرے کہ : مروی ہے صادق علیہ السلام سے۔ پہلی قسم حجّت ہے اور دوسری نہیں ہے، چونکہ " قال " (کہا) کے لفظ کا استعمال اس بات پر دلیل ہے کہ شیخ صدوق ؒکو اس روایت کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے اور اس کی سند صحیح ہونے کا یقین ہے جبکہ اگر انہیں روایت کی صحت کا یقین نہ ہوتا تو ان کے لیے پختہ یقین کے ساتھ اس روایت کی امام علیہ السلام کی طرف نسبت دینا ممکن و جائز نہ ہوتا۔ اور یہ اس صورت کے برخلاف ہے جب " روی " (مروی ہے) کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ اصطلاح نسبت کے صحیح ہونے کے یقین پر دلالت نہیں کرتی لہذا یہ نقل حجّت نہیں ہے۔

تطبیقات

تطبیق(۴)

حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ وضو کے ابواب میں سے باب ۴۲ کی حدیث ۱ میں بیان کیا ہے، اس کی عبارت اس طرح سے ہے :

" محمد بن الحسن عن المفيد عن أحمد بن محمد عن ابيه عن أحمد بن ادريس و سعد بن عبد اللّه عن أحمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن حماد عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام

(محمد بن حسن، انہوں نے مفید سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن ادریس اور سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین بن سعید سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے ۔۔۔)

پھر انہوں نے اس حدیث کے آخر میں جو بیان کیا اس کی عبارت اس طرح سے ہے:

" و رواه الكليني عن علي بن إبراهيم عن ابيه و عن محمد بن اسماعيل عن الفضل بن شاذان جميعا عن حماد بن عيسى عن حريز"

(اور اسے روایت کیا ہے کلینی نے علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے ان سب نے حماد بن عیسی سے، انہوں نے حریز سے)۔

حر عاملی ؒکی یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے شیخ طوسی ؒکی دو کتابوں میں سے کسی ایک سے اور شیخ کلینی ؒسے یعنی ان دونوں سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ اور دونوں میں سے ایک کا سلسلہ سند دوسرے سے مختلف ہے۔ اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے ان دونوں میں سے ایک کی سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔ تو اگر فرض کریں کہ کسی لحاظ سے شیخ طوسی ؒکا سلسلہ سند ضعیف ہے تو ہمارے لیے کلینی ؒکے سلسلہ سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔

دونوں سلسلہ سند کی حالت کی تحقیق کے لیے ہم کہتے ہیں:

جہاں تک پہلے سلسلہ سند کا تعلق ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے سوائے احمد بن محمد کے لحاظ سے جن سے شیخ مفید ؒنے روایت کو بیان کیا ہے چونکہ یہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں۔ اور یہ راوی شیخ مفید ؒکے شیخ و استاد ہیں۔ اور ہم تک بہت سی حدیث کی بنیادی کتابیں ان کے ذریعہ پہنچی ہیں چونکہ شیخ طوسی ؒنے ان بنیادی کتابوں میں سے کثیر کو اپنے استاد مفید ؒکے توسّط سے بیان کیا ہے اور مفید ؒنے ان کی روایت مذکورہ راوی کے توسّط سے کی ہے۔ اور مقام افسوس یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی توثیق وارد نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اگر ہم اس بات کو قبول کرتے ہو کہ " شیخوخۃ الاجازہ " ہونا توثیق پر دلالت کرتا ہے تو اس کے ذریعہ ان کی وثاقت ثابت ہو جائےگی، لیکن اگر ہم اس بات کو رد کرتے ہو تو پہلا سلسلہ سند فقط ان کی وجہ سے ضعیف قرار پائےگا چونکہ محمد بن حسن طوسی ؒاور شیخ مفید ؒتو تعارّف کے محتاج نہیں ہیں۔

جہاں تک احمد کے والد کا تعلق ہے یعنی محمد بن حسن بن ولید قمی تو یہ ثقہ و جلیل (القدر) ہیں یہ شیخ صدوق ؒکے استاد ہیں۔

جہاں تک احمد بن ادریس کا تعلق ہے تو یہ ابو علی اشعری ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ(۱)نے بیان کیا ہے اور یہ کلینی ؒکے استاد ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے کثیر روایات بیان کی ہے۔

اور جہاں تک سعد بن عبد اللہ قمی کا تعلق ہے تو یہ ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ ؒنے بیان کیا ہے۔

اور جہاں تک احمد بن محمد کا تعلق ہے تو یہ احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی ہیں جو ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں سعد بن عبد اللہ کے قرینہ سے چونکہ انہوں نے ابن عیسی اشعری سے کثرت سے روایات بیان کی ہے۔(۲)

اور رہی بات حسین بن سعید اور اس سے اوپر (سند میں) امام علیہ السلام تک کے راویوں کی، تو وہ سب کے سب ثقہ اور جلیل القدر ہیں، جیسا کہ ان کی طرف سابقہ تطبیقات میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

حوالہ:(۱) -رجوع کریں معجم رجال الحديث ۲: ۴۱ (۲)- اور اس کی طرف اشارہ تطبیق :۱ میں گذر چکا ہے۔

اور اس بنا پر پہلا سلسلہ سند احمد بن محمد بن حسن ابن ولید کے لحاظ سے قابل تأمل ہے اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ وثاقت ثابت ہونے میں " شیخوخۃ الاجازہ" (اجازہ دینے والے شیخ ہونا) ہونا کافی نہیں ہے۔

اور جو بات مشکل کو آسان کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا سلسلہ سند صحیح ہے۔

یہ اس لیے چونکہ دوسرا سلسلہ سند در حقیقت دو سلسلہ سند کی طرف پلٹتا ہے، مندرجہ ذیل شکل میں:-

الف: کلینی ؒ، انہوں نے علی بن ابراہیم ؒسے، انہوں نے اپنے والد ابراہیم بن ھاشم سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔

ب: کلینی ؒ، انہوں نے محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔

اور کلینی ؒکے سلسلہ سند میں وارد ہونے والا " جمیعا" کا معنی یہ ہے کہ ابراہیم اور فضل دونوں نے اس حدیث کو حمّاد سے روایت کیا ہے، لہذا " جمیعا" کے لفظ کا معنی یہ دونوں ہیں۔

پھر " الف " میں بیان شدہ سلسلہ سند صحیح ہے چونکہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس لیے کہ علی بن ابراہیم ؒیہ تو مشہور تفسیر کے مؤلف اور جلیل القدر ثقہ افراد میں سے ہیں۔ اور کلینی ؒنے الکافی کی تقریباً ایک تہائی احادیث ان کے حوالے سے بیان کی ہے۔

اور جہاں تک ابراہیم کا تعلق ہیں تو ان کی توثیق ممکن ہے اس سبب سے جس کا بیان ان شاء اللہ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگا۔

اور جہاں تک حمّاد اور حریز کا تعلق ہے تو سابقہ تطبیقات میں بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔

اور جب " الف " کا سلسلہ سند صحیح ہیں تو پھر ہمیں " ب " کے سلسلہ سند کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس روایت کی صحت ثابت ہو جائےگی۔

تمرینات

س ۱: حدیث کی چار اقسام کیا ہیں؟ انہیں بیان کریں اور ان کے معنی واضح کریں۔

س ۲: اخباری علماء نے حدیث کی چار اقسام میں تقسیم کی مذمّت کیوں کی؟

س ۳: کہا جاتا ہے کہ صحیح خبر حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اگر وہ شہرتِ فتوائیہ کے مخالف ہو۔ اس بات کا مقصود واضح کریں۔

س ۴: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت حجیت ساقط ہو جاتی ہے اس بات کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

س ۵: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت کی حجیت سے ساقط ہونے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیسے احراز و ثابت کریں کہ۔۔۔ جو مناسب ہو، اس کے ذریعہ جملہ مکمل کریں۔

س ۶: خبرِ ثقہ اور خبرِ عادل میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے کس کی حجیت مشہور ہے؟

س ۷: خبرِ ثقہ کی حجیت اور عدالت کے شرط نہ ہونے پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۸: اگر کہا جائے کہ خبرِ ثقہ پر عمل کے لیے جس سیرتِ عقلائیہ کا دعوی کیا گیا ہے اس کے ذریعہ استدلال ممکن نہیں ہے کیونکہ آیت النبأ نے اسے رد کر دیا ہے، تو ہم اس دعوے کو کیسے رد کریں گے؟

س ۹: سیرتِ عقلائیہ پر عمل کرنے میں ہمیں شارع کی جانب سے منع نہ ہونے کا ثبوت کیوں درکار ہے؟

س ۱۰: ثقہ کی خبر اور قابل اطمینان خبر میں کیا فرق ہے؟

س ۱۱: اگر کہا جائے کہ خبر کی حجّیت کے ثبوت میں اس روایت پر اطمینان ہونا ضروری ہے تو اس پر کیسے دلیل قائم کی جائےگی۔

س ۱۲: حجیتِ خبر میں اطمینان ضروری نہیں ہے (بلکہ صرف راوی کا ثقہ ہونا کافی ہے) اس بات پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۱۳: خبرِ حسن کی حجیت کےکون قائل ہیں؟

س ۱۴: خبرِ حسن کی حجیت پر استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟

س ۱۵: خبرِ ضعیف کی عدم حجیت معروف ہے۔ اس میں کیا نکتہ ہے؟

س ۱۶: کہا گیا ہے کہ خبرِ ضعیف خاص حالت میں حجیت رکھتی ہے۔ وہ حالت بیان کریں۔

س ۱۷: شہرتِ فتوائیہ سے تدارک یافتہ خبرِ ضعیف کی حجیت پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۱۸: تلافی و تدارک کے اصول کو قبول کرنے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ۔۔۔ جو مناسب ہو اسے بیان کرتے ہوئے اس جملے کو مکمل کریں۔

س ۱۹: خبرِ مضمر کیا ہے؟

س ۲۰: خبرِ مضمر کی ایک مثال دیں۔

س ۲۱: بعض اوقات ابتدائی نگاہ میں کہا جاتا ہے کہ مضمرہ روایات حجّت نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

س ۲۲: کہا گیا ہے کہ تمام مضمرہ روایات حجت ہیں۔ اس بات کی وضاحت کریں۔

س ۲۳: مشہور نے مضمرہ روایات کی حجیت میں تفریق قائم کی ہے۔ وہ تفریق اور اس کی تشریح بیان کریں۔

س ۲۴: خبرِ مرسل کیا ہے؟ اس کی ایک مثال دیں۔

س ۲۵: مرسلہ روایات کی حجیت پر تین اقوال پائے جاتے ہیں۔ انہیں بیان کریں۔

س ۲۶: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق پہلے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

س ۲۷: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق دوسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

س ۲۸: تیسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

۲۷

تیسری فصل

حدیث کی بعض کتابوں کے بارے میں نظریات

اس سے پہلے کہ ہم اپنی حدیثی کتابوں کے بارے میں گفتگو کریں، ہم اس دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اخباریوں کی طرف منسوب ہے، کہ وہ کہتے ہیں ہے کہ ہماری چاروں کتابوں یعنی الکافی، من لا یحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں موجود ہر چیز صحیح ہے۔

ان کے مطابق، ان کتابوں میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب صحیح ہے اور اس میں سندی دقت و تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اور اس دعوے کے قائل بعض اوقات ان عبارات پر اعتماد کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کتاب کے مقدمه میں وارد ہوئی ہیں۔

اور اس دعوے کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ اس وقت بیان کی جائے گی جب ان کتابوں پر گفتگو ہوگی۔

اور کبھی وہ ایسے دلائل پر اعتماد کرتے ہیں جو چاروں کتابوں پر عمومی طور پر لاگو ہوتے ہیں، کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ہوتے۔ ان دلائل کی مثال ان وجوہات سے دی جا سکتی ہے جنہیں صاحبِ وسائل ؒنے اپنی کتاب کے آخر میں درج بعض فوائد میں ذکر کیا ہے، کیونکہ ان قدس سرہ نےاس بات کو ثابت کرنے کے لیے بائیس (۲۲) وجوہات بیان کی ہیں۔

اور شاید ان میں سب سے قوی دلیل پہلی دلیل ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصحابِ ائمہ علیہم السلام نے احادیث کو محفوظ رکھنے اور ان کی ضبط و تدوین میں بھرپور کوششیں کیں، یہاں تک کہ یہ احادیث محمدونِ ثلاثہ کے زمانے تک پہنچ گئیں۔ پھر محمدونِ ثلاثہ نے اپنی طرف سے ان احادیث کو مدوّن کیا اور انہیں نئی کتابوں کی صورت میں پیش کیا، جن کے نام ہیں: الکافی، من لا یحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار ۔

اور یہ پختہ اہتمام عام طور سے ان کتابوں میں موجود احادیث کے صادر ہونے کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے۔

اور اس مذکورہ اہتمام کو ثابت کرنے کے لیے کئی شواہد موجود ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئیں گے۔

اور ہم کتب اربعہ کی تمام احادیث کے صحیح ہونے کے دعوے کو متعدد وجوہات کی بنا پر شدّت سے رد کرتے ہیں، جن میں سے ہم کچھ کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ اصحاب کی طرف سے اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث پر شدید و خاص توجہ ان تمام احادیث کے صحیح ہونے کا یقین پیدا نہیں کرتا جو انہوں نے نقل کی ہیں، بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ اس علم و یقین کا باعث بنتا ہے کہ ان میں موجود تمام باتیں باطل و غلط نہیں ہیں کیونکہ اس طرح کی پختہ و خاص توجہ ان سب کے باطل ہونے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔

۲۔ کتب اربعہ کے مؤلفین کو خود ان میں موجود تمام احادیث کے صحیح ہونے کا قطعاً یقین نہیں تھا، تو ہم سے اس کا یقین رکھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

اور اس بات کی دلیل کہ انہیں یقین حاصل نہیں تھا یہ ہے کہ شیخ طوسی قدس سرہ نے اپنی دونوں کتابوں میں درج بعض احادیث کو قابل بحث و اشکال قرار دیا ہے۔ ہم نے اس کتاب کے دوسرے حصے میں کچھ شواہد پیش کیے ہیں۔

۳۔ یہ کہ اگر کتب اربعہ میں موجود تمام چیزوں کو قطعی مان لیا جائے تو شیخ طوسی ؒاور صدوق ؒکے لیے اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ اورجن سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ان کے نام درج کرنے اور ان بنیادی کتابوں تک اپنے ان سلسلہ اسناد ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جن سے انہوں نے احادیث نقل کی ہیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ طوسی ؒ التھذیب کی مشیخہ میں صراحت سے کہتے ہیں کہ میں یہ مشیخہ اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ میری کتاب کی احادیث ارسال سے خارج ہو کر اسنادکی طرف منتقل ہو جائیں۔

۲۸

کتاب الکافی کے بارے میں نظریات

کتاب الکافی شیخ جلیل القدر محمد بن یعقوب کلینی کی تالیف ہے جن کی وفات ۳۲۸ ہجری میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی معزز کتاب نجاشی ؒنے جو بات ان کے حالات میں بیان کی ہے اس کے مطابق ۲۰ سال کے عرصے میں تالیف کی۔

یہ جلیل القدر شیخ غیبت صغریٰ کے زمانے میں زندہ تھے اور ناحیۂ مقدسہ کے عظیم سفیروں کے ہم عصر تھے، جو یہ ہیں :

۱۔ ابو عمرو عثمان بن سعید اسدی ؒ۔

۲۔ ابو جعفر محمد بن عثمان ؒ۔

۳۔ شیخ ابو القاسم حسین بن روح نوبختی ؒ۔

۴۔ شیخ ابو الحسن علی بن محمد سمری ؒ۔

کلینی ؒان معزز مشایخ کے ہم عصر تھے۔ اور چوتھے سفیر کی وفات سے ایک سال پہلے یا ان کی وفات کے سال ہی انتقال کر گئے۔

اور الکافی تین حصوں پر مشتمل ہے : الاصول، الفروع، اور الروضہ ۔

جہاں تک " الاصول " کا تعلق ہے، تو یہ دو جلدوں میں ہے، جن میں سے ایک عقل اور جہل، علم کی فضیلت، توحید اور معصومین علیہم السلام سے متعلق ابحاث پر گفتگو کرتی ہے، اور دوسری جلد ایمان اور کفر کے مسائل، دعا، قرآن کی فضیلت اور اسلامی طرزِ عمل کے آداب پر بحث کرتی ہے۔

اور جہاں تک " الفروع" کا تعلق ہے، تو یہ پانچ جلدوں میں ہے جو نماز، روزہ وغیرہ جیسے فقہی احکام سے متعلق احادیث پر مشتمل ہے۔

اور جہاں تک " الروضہ" کا تعلق ہے، تو یہ ایک ہی جلد میں ہے۔ اور یہ اہلِ بیت علیہم السلام کی کچھ نصیحتوں، ان کے خطبوں اور ان سے متعلق بعض تاریخی واقعات پر مشتمل ہے۔

اور کتاب الکافی سے متعلق کئی ابحاث پائی جاتی ہیں، جن میں سے ہم مندرجہ ذیل میں دو نکات کے تحت دو ابحاث کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔ کہا گیا ہے کہ " الکافی" کی تمام احادیث صحیح اور معتبر ہیں۔ اور شیخ نوری ؒنے اس پر چار دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے ہم دو کا ذکر کرتے ہیں :

الف۔ کلینی ؒچاروں معزز سفیروں کے ہم عصر تھے۔ اور یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ان میں سے کسی ایک کو پیش نہ کی ہو، خصوصاً جب کہ کلینی ؒنے اپنی کتاب شیعوں کے لیے ایک مرجع و رجوع گاہ بنانے کے لیے تالیف کی تھی جیسا کہ انہوں نے اس بات کو مقدمے میں صراحت سے بیان کیا ہے۔

اور کتابوں کو کسی ایک سفیر کے سامنے پیش کرنا ایک عام رواج تھا۔

اور اس سے ہمارا مقصد یہ نہیں کہ بعض زبانوں پر رائج اس بات کو صحیح قرار دیا جائے کہ ناحیۂ مقدسہ سے یہ صادر ہوا تھا کہ " الکافی ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے " ، یہ ثابت نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ دعویٰ ہے کہ معزز سفیروں میں سے کسی کے سامنے پیش کیے جانے کی وجہ سے کسی کتاب پر اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اور اس بات پر یہ اشکال کیا جا سکتا ہے کہ اطمینان حاصل ہونے کا دعویٰ سخت و مشکل ہے، کیونکہ بعض کتابیں اگرچہ معزز سفیروں سے سامنے پیش کی گئیں — جیسے شلمغانی کی کتاب جو اپنی ابتدائی زندگی میں سلیم سیرت کا مالک تھا اور اس نے " کتاب التکلیف" کے نام سے ایک کتاب تالیف کی تھی، اور آخری عمر میں شیخ نوبختی ؒسے سفارت کے معاملے میں حسد کی وجہ سے منحرف ہو گیا تھا، اور اس کے انحراف کے بعد اس کی کتابیں شیخ نوبختی ؒکے سامنے پیش کی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ ہم ان کی کتابوں کے ساتھ کیا کریں جب کہ ہمارے گھر ان سے بھرے ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اس میں وہی کہتا ہوں جو ابو محمد حسن بن علی صلوات اللہ علیہما نے فرمایا تھا جب آپ (ع) سے بنی فضال کی کتابوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم ان کی کتابوں کے ساتھ کیا کریں جب کہ ہمارے گھر ان سے بھرے ہوئے ہیں؟ تو آپ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا تھا: " جو انہوں نے روایت کیا ہے اسے لے لو اور جو انہوں نے رائے دی ہے اسے چھوڑ دو "

( كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص ۲۳۹ )

لیکن یہ اس صورت میں تھا جب کتاب کا مؤلف منحرف ہو گیا تھا اور فرض یہ ہے کہ پیش کرنے کا عمل خود اس کتاب کے مؤلف کے علاوہ دوسرے افراد کی جانب سے واقع ہوا تھا۔ اور اس کا موازنہ اس مقام سے کیسے کیا جا سکتا ہے جس میں کلینی ؒکو استقامات و دیانت کے کمال و عروج پر سمجھا جاتا ہے؟ اور ان کی استقامت کے فرض کے بعد دوسروں کی جانب سے پیش کیے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

اور اگر اس سے صرفِ نظر بھی کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دو یا تین بار کتاب (نائب خاص کی خدمت میں) پیش کیے جانے سے کلی اطمینان حاصل نہیں ہوتا (کہ کتاب پوری کی پوری صحیح ہے)، اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو شخص بھی کسی کتاب کو تالیف کرے لازمی ہے کہ وہ اپنی کتاب (نائب خاص کے سامنے) پیش کرے۔

ب۔ اصول کافی کے مقدمے میں کلینی ؒکے اس بیان کو دلیل بنانا کہ بعض لوگوں نے ان سے ایک ایسی کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی جس کی طرف رجوع کیا جا سکے، تو انہوں نے اس کا جواب یوں دیا: " میں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک ایسی کتابِ کافی ہو جس میں دینی علم کی تمام شاخیں شامل ہوں، جو سیکھنے والوں کے لیے کافی ہو اور جس کی طرف ہدایت کا متلاشی رجوع کرے، اور دین کے علم اور صادقین علیہم السلام کی صحیح روایات پر عمل کرنے کا خواہشمند اس سے فائدہ اٹھائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے، کہ اسی کے لیے حمد ہے، جو کچھ آپ نے طلب کیا تھا اس کی تالیف کو آسان کر دیا۔۔۔ " ۔

ان سے ایک ایسی کتاب کی تالیف کی درخواست کی گئی جو صحیح روایات پر مشتمل ہو تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے، اور کلینی ؒنے اس کا جواب دیا اور کہا: " اور اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا۔۔۔ " ۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ ان کی کتاب میں جو کچھ بھی ذکر کیا گیا ہے وہ صحیح روایات میں سے ہے۔

اس بات پر یہ اشکال ممکن ہے کہ متقدمین علماء کی اصطلاح میں خبرِ صحیح سے مراد وہ خبر نہیں جس کے راوی عادل ہوں، بلکہ وہ خبر ہے جس پر عمل کرنا واجب ہو کیونکہ اس کے ساتھ ایسے قرائن موجود ہوتے ہیں جو اس کی حقانیت کے علم و یقین کا باعث بنتے ہیں، چاہے کلینی ؒکے نزدیک ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ بات معلوم و ظاہر ہے کہ اس معنی میں صحیح ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ وہ ہمارے نزدیک بھی صحیح ہو، کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اگر ہم ان قرائن سے مطلع ہوتے تو وہ ہمارے نزدیک حقانیت کے علم و یقین کا باعث نہ بنتے۔

ہاں، اگر خبر صحیح سے مقصود وہ اصطلاح ہو جو آج کے دور میں رائج ہے، یعنی وہ جس کے راوی عادل امامی ہوں، تو کلینی ؒکی یہ گواہی کہ ان کی کتاب صحیح روایات پر مشتمل ہے، ان کی روایات کی سند کے رجال کے عادل ہونے کی گواہی بن جاتی اور اس سے مطلوب ثابت ہو جاتا، لیکن یہ مقصود نہیں ہے، کیونکہ خبر صحیح کی یہ اصطلاح علامہ ؒکے زمانے سے رائج ہونے والی جدید اصطلاح ہے۔

۲۔ یہاں ایک ایسا رجحان و اسلوب ہے جو کلینی ؒکی کافی سے مخصوص ہے، اور وہ یہ کہ وہ اکثر " عدة من الاصحاب" (اصحاب و علماء کے ایک گروہ) سے روایت کرتے ہیں، تو وہ اس طرح کہتے ہیں:

" عدة من اصحابنا عن سہل بن زیاد " یا کہتے ہیں : " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسی " ، یا " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد برقی " ۔

اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ " عدة" سے مقصود اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس میں کون کون شامل ہیں، لہٰذا " عدة" کے واسطے سے نقل کردہ روایت اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔

اور اس کے جواب میں کئی دلائل دیئے جاتے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا ذکر کرتے ہیں :

الف۔ علامہ حلی ؒنے " الخلاصة" کے آخر میں تیسرے فائدے میں خود شیخ کلینی ؒسے نقل کیا ہے کہ میرے قول " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد ابن عیسی " سے مقصود: محمد بن یحییٰ، علی بن موسیٰ کمندانی، داؤد بن کورة، احمد ابن ادریس اور علی بن ابراہیم ہیں۔ اور میرے قول " عدة من اصحابنا عن احمد ابن محمد بن خالد برقی " سے مقصود: علی بن ابراہیم اور ۔۔۔ ہیں کہ اس صورت میں " عدة" کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور اس کا اعتبار ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ " عدة" کا کوئی ایک فرد ثقہ ہو — جیسے پہلے " عدة" میں محمد بن یحییٰ اور دوسرے "عدة" میں علی بن ابراہیم — تو یہ اس کے اعتبار کے لیے کافی ہے۔

ب۔ لفظ " عدة" کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ پر ہوتا ہے، اور کلینی ؒکے تین یا اس سے زیادہ مشائخ کا جھوٹ پر جمع ہونا بعید ہے۔

ج۔ کلینی ؒنے اصول کافی کی پہلی حدیث میں ذکر کیا ہے: " ہمیں خبر دی ابو جعفر محمد بن یعقوب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے حدیث بیان کی ہمارے اصحاب میں سے ایک گروہ (عدۃ) نے جن میں محمد بن یحییٰ عطار شامل ہیں، انہوں نے ۔۔۔ " ۔

یہ فقره اس بات کی دلیل ہے کہ " عدة" کے افراد میں سے ایک محمد بن یحییٰ عطار ہیں، اور چونکہ وہ ثقہ ہیں، تو اس مقام میں اور باقی تمام مقامات میں بھی " عدة" کا اعتبار ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ " عدة" کی مذکورہ تفسیر کسی خاص مقام سے مخصوص نہیں ہے۔

۲۹

" کتاب من لا یحضرہ الفقیہ " کے بارے میں نظریات

" کتاب من لا یحضرہ الفقیہ" شیخ جلیل القدر محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی کی تصنیف ہے جو شیخ صدوق ؒکے نام سے مشہور ہیں۔

اور اس کتاب کی تالیف کا سبب جیسا کہ خود صدوق ؒنے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ جب تقدیر انہیں پردیس لے گئی اور ان کی ملاقات شریف ابو عبداللہ محمد بن الحسن المعروف بنعمہ سے ہوئی، تو انہوں نے ان سے ایک کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی جس کا نام " کتاب من لا یحضرہ الفقیہ" ہو، جس طرح سے طبیب رازی نے " کتاب من لا یحضرہ الطبیب" کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی۔

اور یہاں دو نکات قابلِ بحث ہیں۔

۱۔ مشہور کی رائے ہے جس کا کہنا ہے کہ " الفقیه " کی تمام احادیث حجت ہیں اور ان کے اسناد میں تحقیق و دقّت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کی بنیاد درج ذیل دو وجوہات ہیں :

۳۰

الف۔ صدوق ؒنے " الفقیہ " کے مقدمہ میں یہ عبارت ذکر کی ہے:

" و لم اقصد فيه قصد المصنفين في ايراد جميع ما رووه، بل قصدت إلى ايراد ما افتي به و احكم بصحته و اعتقد فيه انه حجة فيما بيني و بين ربي تقدس ذكره"

(اور میں نے تصنیف شدہ کتابوں میں جو کچھ انہوں نے روایات کیا ہے ان تمام کو بیان کرنے کا ارادہ نہیں کیا، بلکہ میرا ارادہ صرف ان روایات کو درج کرنا تھا جن کے مطابق میں فتویٰ دیتا ہوں اور جن کی صحت کا میں حکم کرتا ہوں، اور جن کے بارے میں میرا اعتقاد ہے کہ وہ میرے اور میرے ربّ کہ جس کا ذکر پاک و مقدّس ہے- کے درمیان حجت ہیں)۔

مذکورہ فقره اس بات کو بالکل واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف وہی ذکر کرتے ہیں جس کی صحت کا وہ حکم کرتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ان کے اور ان کے ربّ کے درمیان حجت ہے۔ لہٰذا، مذکورہ گواہی کی بنیاد پر " الفقیہ" کی تمام احادیث پر اعتماد کرنا لازم ہے۔

ب۔ صدوق ؒکی اپنی کتاب کے مقدمہ میں ایک اور عبارت ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

" و جميع ما فيه مستخرج من كتب مشهورة عليها المعول و اليها المرجع مثل كتاب حريز ابن عبد اللّه السجستاني و كتاب عبيد اللّه بن علي الحلبي و ..."

(اور اس (کتاب) میں جو کچھ بھی ہے وہ ان مشہور کتابوں سے ماخوذ ہے، جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، جیسے حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب اور عبید اللہ بن علی حلبی کی کتاب اور۔۔۔)۔

چونکہ " الفقیہ" کی احادیث مشہور کتابوں سے ماخوذ ہیں اور اصحاب ان کتابوں پر اعتماد کرتے تھے، لہٰذا ان کی سند کی جانچ پڑتال کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

اور مذکورہ دونوں دلائل پر بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۔ کتاب " الفقیہ" میں بہت سی مراسيل شامل ہیں جو کُل کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان مذکورہ مراسيل کو صحیح قرار دینے کے ممکنہ طریقے پر غور کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔

اور اگر پہلے ذکر کردہ دونوں دلائل درست ثابت ہو جائیں تو ان پر اعتماد کرنا ممکن ہے۔

اور ایک رائے جو متعدد علما نے اختیار کی ہے جس کے مطابق فرق کیا جائےگا کہ آیا صدوق ؒنے ارسال میں " قال الصادق علیہ السلام" کا لفظ استعمال کیا ہے یا " روي عن الصادق علیہ السلام" کا لفظ استعمال کیا ہے، تو اول حجت ہے اور دوم نہیں۔

اور مذکورہ تفریق کی توضیح خبرِ مرسل کے متعلق بحث کے موقع پر پہلے بیان ہو چکی ہے۔

اور اس پر ہماری بحث ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگی۔

۳۱

تہذیبین (تہذیب و استبصار) کے بارے میں نظریات

تہذیب الاحکام اور الاستبصار شیخ طوسی قدس سرہ کی دو کتابیں ہیں۔

جہاں تک " تہذیب الاحکام" کا تعلق ہے، تو یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے انہوں نے اپنے استاد شیخ مفید ؒکی کتاب "المقنعہ " کی شرح کے طور پر تالیف کیا ہے۔

اور جہاں تک " الاستبصار" کا تعلق ہے، تو انہوں نے اسے اس لیے تالیف کیا کہ ہمارے مخالفین کا ایک گروہ ہماری کتابوں کی احادیث میں اختلاف اور تعارض کا طعنہ دیتا تھا، تو انہوں نے مذکورہ کتاب کو روایات میں بظاہر دکھائی دینے والے اس تعارض کو دور کرنے کی کوشش کے طور پر تالیف کیا۔

اور ان دونوں کتابوں میں شیخ ؒکا طریقہ شیخ کلینی ؒکے الکافی کے طریقے سے مختلف ہے۔ کلینی ؒعام طور پر روایت کی پوری سند ذکر کرتے ہیں اور اس کا کوئی حصہ حذف نہیں کرتے، اس کے برعکس شیخ ؒشاذ و نادر ہی پوری سند ذکر کرتے ہیں، اور عام طور پر سند کا آغاز اس اصل و بنیادی کتاب کے مؤلف کے نام سے کرتے ہیں جس کے حوالے سے وہ حدیث نقل کرتے ہیں۔ تو اگر انہوں نے حدیث عمار بن موسیٰ ساباطی کے اصل سے لی ہو تو وہ سند کا آغاز عمار سے کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں: عمار بن موسیٰ عن۔۔۔

جہاں تک عمار تک ان کی اپنی سند کا تعلق ہے تو وہ اسے حدیث نقل کرتے وقت ذکر نہیں کرتے، بلکہ اسے وہ مشیخہ( مشیخہ شیخ کی جمع ہے ) میں ذکر کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ایک کتابچہ تالیف کیا ہے جسے " تہذیب" اور " الاستبصار" کے آخر میں شامل کیا ہے، اس میں انہوں نے ان اصولوں و بنیادی کتابوں کے مؤلفین تک کا اپنا وہ سلسلہ سند ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے احادیث نقل کی ہے اور اسے مشیخہ کا نام دیا ہے۔

تو اگر ہم عمار تک ان کی سند جاننا چاہیں تو ہم مشیخہ کی طرف رجوع کریں گے، اگر وہ صحیح ہو تو ہم روایت کو لیں گے اور اس کی حجیت کا حکم لگائیں گے، بشرطیکہ عمار اور امام علیہ السلام کے درمیان کی سند بھی صحیح ہو۔

چونکہ شیخ ؒاپنی دونوں کتابوں میں احادیث کو عام طور پر اصول کے مؤلفین سے نقل کرتے ہیں اور سند کا آغاز اصل کے مؤلف کے نام سے کرتے ہیں، لہٰذا حدیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے دو باتوں کو ثابت کرنا ضروری ہے :

۱۔ شیخ اور اصل کتاب کے مؤلف درمیان سند کی صحت۔

۲۔ اصل کتاب کے مؤلف اور امام علیہ السلام کے درمیان سند کی صحت۔

شیخ ؒاور صاحبِ اصل کے درمیان کا طریقہ " مشیخہ" یا " الفھرست" کا مطالعہ کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے کتاب "الفھرست" میں بھی اصول کے مؤلفین تک کے اپنے سلسلہ سند کو ذکر کیا ہے۔ اور "الفھرست" میں ذکر کردہ طریقوں کی تعداد " مشیخہ" میں ذکر کردہ طریقوں سے زیادہ ہے کیونکہ " الفھرست" انہوں نے اصول کے مؤلفین اور ان تک کے سلسلہ سند کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے تالیف کی تھی۔

پھر شیخ ؒکبھی " مشیخہ" یا " الفھرست" میں صاحبِ اصل تک رسائی کے لیے اسناد کے کئی سلسلہ ذکر کرتے ہیں اور صرف ایک سلسلہ سند پر اکتفا نہیں کرتے۔

اس روشنی میں، یہ سوال کیا جا سکتا ہے: کیا ان تمام سلسلہ اسناد کا صحیح ہونا ضروری ہے یا ان میں سے کسی ایک کا صحیح ہونا کافی ہے؟

یہ واضح ہونا چاہیے کہ ان میں سے کسی ایک کا صحیح ہونا کافی ہے اور ان سب کی صحت ضروری قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

اور اس میں نکتہ واضح ہے کیونکہ روایت کی صحت اس کے تمام سلسلہ اسناد کی صحت پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اس میں سے صرف ایک سلسلہ سند کی صحت کافی ہے۔

۳۲

تمرینات

س ۱: اخباریوں کی کتب اربعہ کی روایات کے بارے میں ایک خاص رائے ہے۔ وہ رائے بیان کیجیے؟

س ۲: کتب اربعہ کی تمام روایات کی صحت پر دو دلائل سے استدلال کیا جاتا ہے۔ وہ دو دلائل کیا ہیں؟

س ۳: وہ پہلی دلیل بیان کیجیے جسے حر عاملی ؒنے کتب اربعہ میں موجود ہر چیز کی حجیت کے نظریہ کے لیے بنیاد بنایا ہے؟

س ۴: صاحب وسائل ؒنے کتب اربعہ میں موجود ہر چیز کی حجیت کے مسئلہ کو پیش کیا ہے۔

انہوں نے کتنے دلائل دیئے ہیں اور ان میں سب سے قوی کون سی دلیل ہے؟

س ۵: کتب اربعہ میں موجود ہر چیز کی حجیت کی تردید میں کئی دلائل ہیں۔ پہلی دلیل ذکر کیجیے؟

س ۶: اس کی دوسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۷: اس کی تیسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۸: شیخ کلینی ؒکس زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے؟

س ۹: چاروں معزز سفیر کون ہیں؟ اور سفارت سے کیا مراد ہے؟

س ۱۰: الکافی کا تشکیلی انداز بیان کیجیے؟

س ۱۱: شیخ نوری ؒکی " الکافی" کی احادیث کے بارے میں ایک رائے ہے اور انہوں نے اس رائے کے حق میں چار دلائل کی مدد سے استدلال کیا ہے۔ وہ رائے کیا ہے؟

س ۱۲: ان دلائل میں سے کوئی ایک دلیل بیان کیجیے جسے نوری ؒنے الکافی کی تمام احادیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔

س ۱۳: اس دلیل پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۱۴: شیخ نوری ؒنے جن چار دلائل کو بنیاد بنایا ہے ان میں سے دوسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۱۵: اس دلیل پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۱۶: ایک مخصوص اسلوب و طریقہ ہے جسے کلینی ؒ "عدة" سے روایت کرنے میں اپنایا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

س ۱۷: " عدة" کی پہلی تفسیر ذکر کیجیے؟

س ۱۸: " عدة" کی دوسری تفسیر ذکر کیجیے؟

س ۱۹: تیسری تفسیر ذکر کیجیے؟

س ۲۰: شیخ صدوق ؒنے جو حدیث کی کتاب تالیف کی ہے اس کا نام کیا ہے؟ اور اس نام کی وجہ واضح کیجیے؟

س ۲۱: " کتاب من لا یحضرہ الفقیہ" کی احادیث سے متعلق ایک مشہور رائے ہے۔ وہ رائے کیا ہے؟

س ۲۲: " الفقیہ" کی احادیث کی حجیت ثابت کرنے کے لیے پہلی دلیل بیان کیجیے؟

س ۲۳: اس کی دوسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۲۴: کتاب " الفقیہ" میں ۔۔۔شامل ہیں جو کُل کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔ مناسب الفاظ سے مکمل کیجیے؟ اور اس سے کیا مراد ہے یہ واضح کیجیے؟

س ۲۵: وہ کیا وجہ ہے جس کی بنیاد پر " الفقیہ" کی مراسل کو صحیح قرار دینے کا طریقہ سوچا گیا؟

س ۲۶: " الفقیہ" کی مراسيل کو صحیح قرار دینے کے لیے کس چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

س ۲۷: صدوق ؒکی مراسيل کی حجیت میں ایک رائے تفریق پر مشتمل ہے۔ وہ تفریق بیان کیجیے؟

س ۲۸: " تھذیب الاحکام" وہ کتاب ہے جسے شیخ طوسی ؒنے ۔۔۔ کے لیے تالیف کیا۔

س ۲۹: " الاستبصار" کی تالیف کا مقصد کیا تھا؟

س ۳۰: احادیث ذکر کرتے وقت شیخ طوسی ؒکے طریقے اور شیخ کلینی ؒکے طریقے میں کیا فرق ہے؟

س ۳۱: " مشیخہ" سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی تالیف کا سبب کیا تھا؟

س ۳۲: اگر ہم شیخ ؒکے اس اصل کے مؤلف تک کے سلسلہ سند کو جاننا چاہیں جس سے وہ نقل کرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

س ۳۳: شیخ ؒکے اس اصل کے مؤلف تک کے سلسلہ سند کو جاننے کے لیے ہم یا تو ۔۔۔ یا۔۔۔ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

س ۳۴: " مشیخہ" میں مذکور سلسلہ اسناد اور " الفھرست" میں مذکور سلسلہ اسناد کے درمیان فرق ہے، وہ فرق ذکر کیجیے؟

س ۳۵: اگر ہمیں " مشیخہ" میں سلسلہ سند ضعیف ملے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

س ۳۶: اگر شیخ ؒ "مشیخہ" میں کئی سلسلہ اسناد بیان کریں تو کیا ان سب کا صحیح ہونا ضروری ہے اور کیوں؟

س ۳۷: اگر ہم کسی ایسی روایت کو لینا چاہیں جو شیخ ؒنے اپنی دونوں کتابوں میں سے کسی ایک میں ذکر کی ہو تو دو باتوں کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ انہیں ذکر کیجیے؟ اور یہ دونوں باتیں لازم ہونے میں موجود نکتہ واضح کیجیے؟

س ۳۸: وسائل الشیعہ کے باب ۳، أبواب مقدمة العبادات میں مذکور حدیث : ۱ : کی سند کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اپنے جواب کی تائید میں دلیل پیش کریں؟

۳۳

چوتھی فصل

ہماری بعض رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات

۱۔ رجال کشّی

رجال کشّی ، یہ شیخ جلیل القدر محمد بن عمر بن عبد العزیز کشّی ؒکی تالیف ہے جو ابو عمرو کی کنیت سے مشہور تھے۔

یہ شیخِ جلیل القدر شیخ کلینی ؒکے ہم عصر تھے اور ان کے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔

اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے: وہ ثقہ، عین و نمایا شخصیت کے حامل، روایات اور راویوں کے بارے میں بصیرت رکھنے والے تھے، لیکن وہ ضعیف راویوں سے روایت کرتے ہیں۔

یہ جلیل القدر شیخ، محمد بن مسعود عیاشی ؒکے شاگردوں میں سے تھے اور ان کے اس گھر سے تربیت حاصل کی جو شیعہ اور اہل علم کا مرکز تھا۔

اس جلیل القدر شیخ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں راویوں کی تعریف یا مذمت میں وارد روایات کا ذکر ہے، پس وہ عام طور پر یہ نہیں بتاتے کہ یہ ثقہ ہے یا ضعیف، بلکہ پہلے راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں روایات میں جو کچھ وارد ہوا ہے اسے ذکر کرتے ہیں۔ اور اس بنا پر وہ تمام راویوں کا ذکر نہیں کرتے، بلکہ صرف ان کا ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں کوئی روایت وارد ہوئی ہوں۔ اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے جن راویوں کا ذکر کیا ہے ان کی تعداد " ۵۲۰ " افراد تک پہنچتی ہے۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصلی رجال کشّی – جسے " معرفة الرجال" سے موسوم کیا جاتا ہے – وہ نہیں ہے جو آج کل ہاتھوں میں گردش کر رہی ہے، کیونکہ اصلی کتاب میں بہت سی غلطیاں تھیں، اور شیخ طوسی ؒنے اس کی طرف توجہ دی اور اسے ان غلطیوں سے پاک کیا، اور اسی لیے آج کل متداول و رائج کتاب " اختیار معرفة الرجال" کے نام سے جانی جاتی ہے، یعنی وہ جس کا انتخاب شیخ طوسی ؒنے کتاب " معرفة الرجال" سے کیا۔

اور اس کتاب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ یہ عام طور پر راویوں کی توثیق یا تضعیف کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ راویوں کے حالات سے متعلقہ روایات کا ذکر کرتی ہے، لہٰذا یہ رجال نجاشی یا شیخ کی فہرست کے درجے میں نہیں آتی، بلکہ ان سے بعد کے مرحلے میں آتی ہے۔

۲، ۳۔ رجالِ شیخ اور فھرستِ شیخ

شیخ طوسی قدس سرہ کی اس موضوع میں دو کتابیں ہیں۔

الف۔ ان کی رجالی کتاب جو رجال شیخ طوسی کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس کتاب میں وہ عام طور پر راویوں کی توثیق یا تضعیف بیان نہیں کرتے، اور اگر ایسا کسی جگہ ہوا بھی ہے تو وہ نادر و بہت کم ہے۔ بلکہ انہوں نے اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب اور اہلِ بیت علیہم السلام کے ہر امام کے اصحاب کا ذکر کیا ہے۔ تو وہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کے نام ذکر کرتے ہیں، پھر امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب کے، پھر باقی ائمہ علیہم السلام کے اصحاب کے۔

اور آخر میں ان لوگوں کے ناموں کی ایک فہرست ذکر کی ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔

اور اس بنا پر مذکورہ کتاب کا فائدہ راوی کی طبقے اور اس بات کو جاننے میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس زمانی مرحلے میں زندگی بسر کر رہا تھا اور کس امام کے اصحاب میں سے تھا۔

اور مذکورہ کتاب سے متعلق دو نمایاں پہلو ہیں۔

اول: یہ کہ وہ بعض راویوں کے نام دو بار ذکر کرتے ہیں، مثال کے طور پر قاسم بن محمد جوہری کا ایک بار اصحابِ امام صادق علیہ السلام میں ذکر کیا ہے اور دوسری بار ان لوگوں کے باب میں ذکر کیا ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔ اور ایسا انہوں نے دوسرے راویوں کے بارے میں بھی کیا ہے۔

اور اس میں واضح تضاد شامل ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص اصحابِ امام صادق علیہ السلام میں سے ہو اور آپ علیہ السلام سے روایت کرنے والوں میں سے ہو تو اسے ان لوگوں کے باب میں کیسے ذکر کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی؟ اس کا لازمہ متضاد چیزوں کا ایک ساتھ جمع ہونا اور ایک ہی شخص کا ائمہ علیہم السلام سے روایت کرنے والا اور ائمہ علیہم السلام سے روایت نہ کرنے والا دونوں ہونا ہے۔

اور ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب کے دوسرے حصے میں وہ وجوہات بیان کی جائیں گی جو مذکورہ تضاد کو دور کرنے کے لیے ذکر کی گئی ہیں۔

دوم:امام صادق علیہ السلام کے اصحاب کے باب میں شیخ ؒکی طرف سے لفظ " اسند عنہ" کا تکرار۔ تو جب وہ محمد بن مسلم کو مثلاً اصحابِ امام صادق علیہ السلام میں ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں :

" اسند عنہ" اور یہ ایک ایسا انداز ہے جو شیخ قدس سرہ سے مخصوص ہے۔ اور اس سے مقصود کیا ہے اس کے بارے میں کلام واقع ہوا ہے۔ اور اس سلسلہ میں کئی احتمالات ذکر کیے گئے ہیں جن کی طرف ہم ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب کے دوسرے حصے میں اشارہ کریں گے۔

ب۔ الفھرست ۔ اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے انہوں نے ہمارے اصحاب میں سے جو کتب اور اصول کے مؤلفین ہیں ان کی تحقیق و جمع آوری کے لیے تالیف کیا ہے۔ تو انہوں نے ہر راوی کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف ان کا ذکر کیا ہے جن کی کوئی کتاب ہے۔ اور راوی کا نام اور اس کی کتاب کا ذکر کرنے کے بعد وہ اس کتاب تک اپنے سلسلہ سند کو بیان کرتے ہیں۔

اور انہوں نے عملی طور پر خود کو اس بات کا پابند نہیں کیا کہ ہر راوی کی توثیق و تضعیف بھی بیان کریں، بلکہ یہ کام انہوں نے بعض مقامات پر کیا ہے اور یہ ان کا عمومی طریقہ کار نہیں ہے۔

۳۴

۴۔ رجالِ نجاشی

رجالِ نجاشی یہ شیخ جلیل القدر احمد بن علی بن العباس نجاشی ؒکی تالیف ہے۔ اور ان کی کنیت ابو العباس ہے۔یہ شیخِ جلیل القدر شیخ طوسی ؒکے ہم عصر تھے اور وہ ان کے ساتھ ایک ہی شیخ و استاد یعنی حسین بن عبید اللہ غضائری سے استفادہ میں شریک تھے۔

اور اس شیخ ؒنے اپنی کتاب صرف کتب کے مؤلفین کو جمع کرنے کے لیے تالیف کی ہے، لہٰذا وہ – شیخ طوسی ؒکی فہرست کی طرح – صرف ہمارے اصحاب و علماء میں سے ان کا ذکر کرتے ہیں جن کی کوئی کتاب ہو۔

اور یہ کتاب شیخ طوسی ؒکی فہرست سے اس بات میں ممتاز ہے کہ اس کتاب کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ جس کے نام کو اس میں پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی اس کی توثیق و تضعیف بھی بیان کی گئی ہے۔

اور نجاشی ؒکے اس کتاب کو تالیف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مخالفین کے ایک گروہ نے شیعہ پر یہ طعن کیا کہ ان کے پاس نہ کوئی سلف ہے اور نہ ہی کوئی تصنیف شدہ کتاب۔

۳۵

تمرینات

س ۱: رجال کشّی کے مؤلف کون ہیں؟

س ۲: شیخ کشّی ؒکو ۔۔۔ کے ہم عصر شمار کیا جاتا ہے؟

س ۳: کشّی ؒکے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۔۔۔

س ۴: کشّی ؒنے ۔۔۔ سے تعلیم و تربیت حاصل کی؟

س ۵: کشّی ؒکا اپنی کتاب میں کیا طریقہ ہے؟

س ۶: کشّی ؒکی کتاب کو " اختیار معرفة الرجال" کیوں کہا جاتا ہے؟

س ۷: شیخ طوسی ؒکی دو کتابیں ہیں۔ وہ کون سی ہیں؟

س ۸: شیخ ؒکا اپنی رجال میں کیا طریقہ ہے اور کیا وہ ان کی کتاب " الفھرست" کے طریقے سے مختلف ہے؟

س ۹: شیخ ؒکی رجال میں ایک دوسرے سے مربوط دو نمایا پہلو ہیں۔ پہلےپہلو کو واضح کیجیے؟

س ۱۰: دوسرےپہلو کو واضح کیجیے؟

س ۱۱: کیا شیخ طوسی ؒکی فہرست اور رجال النجاشی میں کوئی نمایاں فرق یا امتیاز موجود ہے؟

س ۱۲: رجال نجاشی کے مؤلف کا نام کیا ہے؟

س ۱۳: نجاشی ؒ۔۔۔ کے ہم عصر تھے؟

س ۱۴: نجاشی ؒنے اپنی کتاب کس وجہ سے تالیف کی؟

س ۱۵: کیا شیخ ؒکی فہرست اور رجالِ نجاشی غیر شیعہ راویوں کا ذکر کرتی ہیں؟

س ۱۶: حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ کے باب ۲، ابواب صلاة الجماعة کی حدیث ۴ میں یہ عبارت نقل کی ہے:

" قال: و قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله لقوم: لتحضرن المسجد أو لاحرقن عليكم منازلكم "

(یعنی: انہوں نے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک قوم سے فرمایا: تم ضرور مسجد میں حاضر ہوا کرو، ورنہ میں تمہارے گھروں کو جلا دوں گا)۔ پہلے " قال " کا فاعل واضح کیجیے؟ اور مذکورہ حدیث کی سند کو کس رائے کی بنیاد پر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟

یہ ہماری کتاب کے پہلے حصے میں جن باتوں کا ہم نے ذکر کرنا چاہا تھا ان کا اختتام ہے۔ اور یہ نبوی مبعث کے دن ۲۷ رجب المرجب، ۱۴۱۶ ہجری کو مقدس شہر قم میں، اس شخص کے قلم سے مکمل ہوا جو کریم سے اپنے گناہوں سے درگزر کی امید رکھتا ہے۔

باقر الایروانی

۳۶

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

حصۂ دوم

مؤلف: آیت اللہ محمد باقر ایروانی

مترجم: دلاور حُسین حجّتی

۳۷

تمہید

جب فقیہ کسی خاص و معین حکم کا استنباط کرنا چاہتا ہے تو وہ تشریع کے چاروں مصادر کی طرف رجوع کرتا ہے , مثال کے طور پر اگر وہ ریاکاری (دکھاوے) کا حکم جاننا چاہے تو وہ وسائل الشیعہ کے عبادات کے مقدمہ کے ابواب میں سے بارہویں باب کی طرف رجوع کرے گا، تو وہاں اسے حر عاملی ؒایک حدیث کو اس شکل میں نقل کرتے ہوئے ملیں گے:

" أحمد ابن محمد بن خالد البرقي في المحاسن عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد اللّه عليه السّلام قال: يقول اللّه عزّ و جلّ انا خير شريك فمن عمل لي و لغيري فهو لمن عمله غيري"

(احمد بن محمد بن خالد برقی نے المحاسن میں اپنے والد سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں، پس جو شخص میرے لیے اور کسی اور کے لیے عمل انجام دےگا، تو وہ عمل اُس غیر کے لیے ہو جائےگا جس کے لیے اس نےعمل کیا ہے)۔

اگرچہ اس معزز روایت کی دلالت ریاکاری کے ساتھ کیے گئے عمل کے باطل ہونے پر واضح ہے، لیکن کیا ہر روایت کو قبول کر لیا جائےگا یا مخصوص شرائط کے تحت ہی ایسا کرنا جائز ہے؟

( روایت سے حکم کا اخذ کرنا فطری طور پر تین امور کا محتاج ہوتا ہے: ظہور کا ثابت ہونا، اس کی حجیت، اور سند کی حجیت، جیسا کہ کتاب کے پہلے حصے میں گزر چکا ہے )

اس سوال کے جوابات مختلف ہیں۔ ہم ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں :

خبر کی حجیت کے مسئلے میں آراء

۱۔ اگر روایت متواتر ہو یا قطعی قرینہ سے گھری ہوئی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز ہے، ورنہ نہیں۔ یہ رائے سید مرتضیٰ ؒاور دیگر کئی افراد سے منسوب ہے۔

۲۔ اگر روایت پر مشہور نے عمل کیا ہو تو وہ حجت ہے، چاہے اس کی سند ضعیف ہو اور اسے غیر ثقہ راویوں نے روایت کیا ہو، اور اگر مشہور نے اس پر عمل نہ کیا ہو تو وہ حجت نہیں ہے، چاہے اس کی سند صحیح ہو اور اسے ثقہ راویوں نے روایت کیا ہو۔ یہ رائے محقق حلی ؒسے منسوب ہے۔

۳۔ اگر روایت کتب اربعہ(۱) میں موجود ہو تو اس کی سند میں غور کیے بغیر اسے قبول کیا جائےگا، اس اعتبار سے کہ کتب اربعہ میں موجود تمام چیزیں ائمہ علیہم السلام سے قطعی طور پر صادر ہوئی ہیں۔ یہ رائے بعض اخباریوں سے منسوب ہے۔

(۱)- یعنی: 'الکافی' محمد بن یعقوب کلینی کی تالیف، 'الاستبصار' اور 'تہذیب الاحکام' محمد بن حسن، جو شیخ طوسی کے نام سے مشہور ہیں، کی تالیفات، اور 'من لا یحضره الفقیہ' محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی کی تالیف۔

۴۔ اگر روایت کتب اربعہ میں موجود ہو تو اس کی سند میں غور کیے بغیر اسے قبول کیا جائےگا، اس لیے نہیں کہ کتب اربعہ میں موجود تمام چیزیں قطعی الصدور ہیں، بلکہ اس لیے کہ اس میں موجود تمام چیزیں معتبر اور ان کی حجّیت قطعی ہیں۔ اور شاید یہی رائے اخباریوں میں مشہور ہے، بلکہ شاید بعض اصولیوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس رائے کو اختیار کیا ہے، پس سید خوئی اپنے استاد شیخ نائینی قدس سرّھما سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنی درسی نشست میں کہتے تھے: " الکافی کی روایات کی اسناد پر بحث و اشکال عاجز کا پیشہ ہے "

( معجم رجال الحديث ۱: ۸۷ )

۵۔ اگر روایت کی سند کے راوی عادل ہوں تو وہ حجت ہے، اور اگر وہ عادل نہ ہوں تو وہ حجت نہیں ہے، چاہے وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ رائے صاحب مدارک ؒسے منسوب ہے، اور شاید علامہ حلی ؒکے بعض بیانات سے بھی یہ رائے ظاہر ہوتی ہے۔

۶۔ اگر روایت کی سند کے راوی ثقہ ہوں تو وہ حجت ہے، چاہے وہ عادل نہ ہوں، اور اگر وہ ثقہ نہ ہوں تو وہ حجت نہیں ہے۔ یہ رائے ہمارے متاخرین علماء میں مشہور ہے۔

ہاں، اس رائے کے پیروکاروں میں اس بات میں اختلاف ہے کہ اگر روایت کی سند کے راوی ثقہ نہ ہوں لیکن مشہور نے اس روایت پر عمل کیا ہو تو کیا ان کا یہ عمل اس روایت کے سندی ضعف کا تدارک کرتا ہے یا نہیں؟اور سید خوئی ؒکے دور سے پہلے کے علماء میں یہ معروف تھا کہ وہ تدارک کے کبری و کلیہ کو تسلیم کرتے تھے لیکن ان کے زمانہ سے اس بات کا انکار معروف ہو گیا ہے۔

تحقیق: کیا صحیح ہے؟

اور علمِ اصول کی " خبر کی حجیت " کی بحث نے ان اقوال کی تحقیق اور ان کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد صحیح قول کو واضح کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔

لیکن اجمالی طور پر ہم کہتے ہیں: ان اقوال میں سے صحیح آخری قول ہے، یعنی حجت خبرِ ثقہ ہے، کیونکہ عقلاء کی سیرت ثقہ افراد کی خبروں پر عمل کرنے پر استوار ہے اور شارع کی طرف سے اس کی ممانعت واقع نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اس سے شارع کی جانب سے امضاء و اجازت کا انکشاف ہوتا ہے۔

۳۸

علمِ رجال کی ضرورت

علماء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ علمِ رجال اور نجاشی ؒو شیخ طوسی ؒکے بیانات کی طرف رجوع کرنا، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سا راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہے اور کون سا ضعیف، آیا یہ ایک لازمی عمل ہے جس کی فقیہ کو اشد ضرورت ہے، یا یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے بےنیاز ہوا جا سکتا ہے؟

کچھ علماء نے علمِ رجال کی ضرورت کو مسترد کیا ہے، بلکہ بعض نے تو اسے حرام تک قرار دیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ اس میں مومنین کے عیب ظاہر ہوتے ہیں اس طرح سے کہ فلاں راوی ضعیف ہے، اس کی حدیث نہیں لی جائے گی، اور فلاں انتہائی جھوٹا ہے۔

علمِ رجال کی ضرورت یا عدم ضرورت کا یہ اختلاف پہلے ذکر کردہ آراء سے منسلک کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر، اگر یہ مان لیا جائے کہ اگر کسی خبر پر مشہور نے عمل کیا ہو تو وہ حجّت ہے، چاہے اس کے راوی ثقہ نہ ہوں، تو اس صورت میں علمِ رجال کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ اصل بنیاد مشہور کا عمل ہے نہ کہ راوی کی وثاقت، کہ جس کی خاطر وثاقت کی تشخیص کی ضرورت ہو۔

اسی طرح، علمِ رجال کی ضرورت کمزور پڑ جاتی ہے، اگرچہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، جب یہ اصول تسلیم کیا جائے کہ سند کے ضعف کا مشہور کے عمل سے تدارک ہو جاتا ہے، چونکہ اس رائے کی بنیاد پر جب ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مشہور نے روایت پر عمل کیا ہے، تو پھر راویوں کی وثاقت کی تحقیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی، ایسی صورت میں، تحقیق کی ضرورت صرف اس روایت کی حد تک محدود ہو جاتی ہے جس پر مشہور نے عمل نہ کیا ہو۔

اور چونکہ ہمارے نزدیک — جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا — صحیح بات یہ ہے کہ ثقہ راوی کی خبر حجت ہے، اور انجبار (یعنی عملِ علما سے سند کے ضعف کا تدارک) اس وقت تک کافی نہیں ہے جب تک وہ سچائی کا اطمینان پیدا کرنے کی سطح تک نہ پہنچے، لہٰذا علمِ رجال کی ضرورت ثابت اور شدت کے ساتھ باقی رہتی ہے۔

اور یہ دعویٰ کہ یہ حرام ہے اور اس میں مؤمنین کے عیوب ظاہر ہوتے ہیں۔

مردود ہے، کیونکہ جب یہ کسی اہم تر مقصد کے لیے ہو ـ اور وہ مقصد یہ ہے کہ ثقہ کی روایت کو پہچاننا اور اسے غیر ثقہ کی روایت سے جدا کرنا ہے ـ تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسے بابِ قضاء میں معاملہ ہے، جہاں گواہوں کو جرح کرنا اور ان کے فسق کو ظاہر کرنا بالاتفاق جائز ہے، کیونکہ ایک بڑے اہم کام کا انحصار اس پر ہے۔

پھر وہیں سے آغاز

ہم نے پہلے اس روایت کا ذکر کیا تھا جسے صاحب وسائل ؒاس طرح نقل کرتے ہیں:

" أحمد ابن محمد بن خالد البرقي في المحاسن عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد اللّه عليه السّلام ..."

(احمد بن محمد بن خالد برقی نے المحاسن میں اپنے والد سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔۔۔)۔

اور اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ مذکورہ روایت کی سند معتبر ہے یا نہیں تو ہمیں دو امور کو مد نظر رکھنا ہوگا :

الف۔ برقی اور امام علیہ السلام کے درمیان کی سند کا جائزہ لینا۔ اگر سند کے تمام افراد کی وثاقت ثابت ہو جائے تو اس لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

لیکن مذکورہ سند کے افراد کی وثاقت ہم کیسے ثابت کریں گے؟ یہ وثاقت کو ثابت کرنے کے طریقوں میں سے کسی ایک کو استعمال کر کے ہو سکتا ہے جس کی طرف ہم تھوڑی دیر بعد اشارہ کریں گے۔

ب۔ حر عاملی ؒاور برقی ؒکے درمیان کی سند کا جائزہ لینا۔ کیونکہ یہ دونوں ہم عصر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان ایک بڑا زمانی فاصلہ ہے، تو اگر مذکورہ سند کے تمام افراد کی وثاقت ثابت ہو جائے تو اس لحاظ سے بھی کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

لیکن ہم حر عاملی ؒکی سند کو برقی ؒتک کیسے جانیں گے، یا دوسرے الفاظ میں ہم ان راویوں کے نام کیسے جانیں گے جن کے حوالے سے حر عاملی ؒنے برقی ؒکی کتاب روایت کی ہے؟

یہ اس طرح واضح کیا جا سکتا ہے: شیخ طوسی ؒکا برقی ؒکی کتابِ محاسن تک ایک سلسلہ سند ہے جس کا انہوں نے اپنی کتاب " الفھرست" میں احمد بن محمد بن خالد برقی کے حالات میں اشارہ کیا ہے۔

اور صاحب وسائل ؒکے پاس ان تمام کتابوں تک سلسلہ سند ہے ہیں جنہیں شیخ طوسی ؒنے روایت کیا ہیں، اور انہوں نے وہ سلسلہ اسناد وسائل کے آخر میں درج کیے ہیں۔ تو جب ہم اِس کو اُس کے ساتھ ملائیں گے تو ہمارے لیے حر عاملی ؒکا برقی ؒتک سلسلہ سند ثابت ہو جائےگا۔

۳۹

تمرینات

س ۱: اگر فقیہ کسی روایت سے حکم استنباط کرنا چاہے تو اسے تین امور ثابت کرنا ضروری ہے۔

انہیں ہر ایک کی ضرورت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ذکر کیجیے؟

س ۲: خبر یا تو متواتر ہوتی ہے یا واحد۔ ان میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے کس کی حجیت پر اتفاق ہے؟

س ۳: حجیتِ خبر کے باب میں سید مرتضیٰ ؒکی کیا رائے ہے؟

س ۴: حجیتِ خبر کے باب میں محقق حلی ؒکی رائے ذکر کیجیے؟

س ۵: روایات کے باب میں اخباریوں سے منسوب رائے ذکر کیجیے؟

س ۶: رواہات کے باب میں صاحبِ مدارک ؒکی کیا رائے ہے؟

س ۷: حجیتِ خبر کے باب میں متاخرین کے درمیان مشہور رائے کیا ہے؟

س ۸: سند کے ضعف کا شہرت کے ذریعے تدارک کرنے کے اصول سے کیا مراد ہے؟

س ۹: شیخ نائینی ؒکی کتاب الکافی کی احادیث کے بارے میں کیا رائے ہے؟

س ۱۰: حجیتِ خبر کے باب میں متاخرین کی رائے پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۱۱: کیا علمِ رجال کی کوئی ضرورت ہے؟

س ۱۲: بعض نے علمِ رجال کو کیوں حرام قرار دیا ہے؟ اور ہم اس کو کیسے جواب دیں گے؟

س ۱۳: علمِ رجال کی ضرورت کو حجیتِ خبر کے مسئلہ میں موجود اقوال سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وضاحت کیجیے؟

س ۱۴: اگر ہم کسی روایت کی سند کو جاننا چاہیں اور یہ کہ کیا وہ صحیح ہے یا نہیں، تو کون سا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟

س ۱۵: صاحب وسائل ؒنے باب ۳، ابواب مقدمۃ العبادات میں نمبر ۱ میں ایک حدیث بیان کی ہے جو عقل کی اہمیت اور تکلیف کے ثبوت میں اس کے کردار سے متعلق ہے۔ کیا مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کیجیے؟

س ۱۶: کیا رجالی مبانی (یعنی علمِ رجال کے اصول و نظریات) میں تقلید ممکن ہے؟ اور کیوں؟

۴۰