ج۔ تفریق فقط شیخ صدوق ؒکی مرسلہ روایات میں اس طرح سے کہ فرق کریں گے جب وہ عبارت بیان کرے کہ: کہا صادق علیہ السلام نے اور اس میں جب وہ عبارت استعمال کرے کہ : مروی ہے صادق علیہ السلام سے۔ پہلی قسم حجّت ہے اور دوسری نہیں ہے، چونکہ " قال " (کہا) کے لفظ کا استعمال اس بات پر دلیل ہے کہ شیخ صدوق ؒکو اس روایت کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے اور اس کی سند صحیح ہونے کا یقین ہے جبکہ اگر انہیں روایت کی صحت کا یقین نہ ہوتا تو ان کے لیے پختہ یقین کے ساتھ اس روایت کی امام علیہ السلام کی طرف نسبت دینا ممکن و جائز نہ ہوتا۔ اور یہ اس صورت کے برخلاف ہے جب " روی " (مروی ہے) کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ اصطلاح نسبت کے صحیح ہونے کے یقین پر دلالت نہیں کرتی لہذا یہ نقل حجّت نہیں ہے۔
تطبیقات
تطبیق(۴)
حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ وضو کے ابواب میں سے باب ۴۲ کی حدیث ۱ میں بیان کیا ہے، اس کی عبارت اس طرح سے ہے :
" محمد بن الحسن عن المفيد عن أحمد بن محمد عن ابيه عن أحمد بن ادريس و سعد بن عبد اللّه عن أحمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن حماد عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام
(محمد بن حسن، انہوں نے مفید سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن ادریس اور سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین بن سعید سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے ۔۔۔)
پھر انہوں نے اس حدیث کے آخر میں جو بیان کیا اس کی عبارت اس طرح سے ہے:
" و رواه الكليني عن علي بن إبراهيم عن ابيه و عن محمد بن اسماعيل عن الفضل بن شاذان جميعا عن حماد بن عيسى عن حريز"
(اور اسے روایت کیا ہے کلینی نے علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے ان سب نے حماد بن عیسی سے، انہوں نے حریز سے)۔
حر عاملی ؒکی یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے شیخ طوسی ؒکی دو کتابوں میں سے کسی ایک سے اور شیخ کلینی ؒسے یعنی ان دونوں سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ اور دونوں میں سے ایک کا سلسلہ سند دوسرے سے مختلف ہے۔ اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے ان دونوں میں سے ایک کی سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔ تو اگر فرض کریں کہ کسی لحاظ سے شیخ طوسی ؒکا سلسلہ سند ضعیف ہے تو ہمارے لیے کلینی ؒکے سلسلہ سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔
دونوں سلسلہ سند کی حالت کی تحقیق کے لیے ہم کہتے ہیں:
جہاں تک پہلے سلسلہ سند کا تعلق ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے سوائے احمد بن محمد کے لحاظ سے جن سے شیخ مفید ؒنے روایت کو بیان کیا ہے چونکہ یہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں۔ اور یہ راوی شیخ مفید ؒکے شیخ و استاد ہیں۔ اور ہم تک بہت سی حدیث کی بنیادی کتابیں ان کے ذریعہ پہنچی ہیں چونکہ شیخ طوسی ؒنے ان بنیادی کتابوں میں سے کثیر کو اپنے استاد مفید ؒکے توسّط سے بیان کیا ہے اور مفید ؒنے ان کی روایت مذکورہ راوی کے توسّط سے کی ہے۔ اور مقام افسوس یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی توثیق وارد نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اگر ہم اس بات کو قبول کرتے ہو کہ " شیخوخۃ الاجازہ " ہونا توثیق پر دلالت کرتا ہے تو اس کے ذریعہ ان کی وثاقت ثابت ہو جائےگی، لیکن اگر ہم اس بات کو رد کرتے ہو تو پہلا سلسلہ سند فقط ان کی وجہ سے ضعیف قرار پائےگا چونکہ محمد بن حسن طوسی ؒاور شیخ مفید ؒتو تعارّف کے محتاج نہیں ہیں۔
جہاں تک احمد کے والد کا تعلق ہے یعنی محمد بن حسن بن ولید قمی تو یہ ثقہ و جلیل (القدر) ہیں یہ شیخ صدوق ؒکے استاد ہیں۔
جہاں تک احمد بن ادریس کا تعلق ہے تو یہ ابو علی اشعری ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ(۱)نے بیان کیا ہے اور یہ کلینی ؒکے استاد ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے کثیر روایات بیان کی ہے۔
اور جہاں تک سعد بن عبد اللہ قمی کا تعلق ہے تو یہ ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ ؒنے بیان کیا ہے۔
اور جہاں تک احمد بن محمد کا تعلق ہے تو یہ احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی ہیں جو ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں سعد بن عبد اللہ کے قرینہ سے چونکہ انہوں نے ابن عیسی اشعری سے کثرت سے روایات بیان کی ہے۔(۲)
اور رہی بات حسین بن سعید اور اس سے اوپر (سند میں) امام علیہ السلام تک کے راویوں کی، تو وہ سب کے سب ثقہ اور جلیل القدر ہیں، جیسا کہ ان کی طرف سابقہ تطبیقات میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔
حوالہ:(۱) -رجوع کریں معجم رجال الحديث ۲: ۴۱ (۲)- اور اس کی طرف اشارہ تطبیق :۱ میں گذر چکا ہے۔
اور اس بنا پر پہلا سلسلہ سند احمد بن محمد بن حسن ابن ولید کے لحاظ سے قابل تأمل ہے اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ وثاقت ثابت ہونے میں " شیخوخۃ الاجازہ" (اجازہ دینے والے شیخ ہونا) ہونا کافی نہیں ہے۔
اور جو بات مشکل کو آسان کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا سلسلہ سند صحیح ہے۔
یہ اس لیے چونکہ دوسرا سلسلہ سند در حقیقت دو سلسلہ سند کی طرف پلٹتا ہے، مندرجہ ذیل شکل میں:-
الف: کلینی ؒ، انہوں نے علی بن ابراہیم ؒسے، انہوں نے اپنے والد ابراہیم بن ھاشم سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔
ب: کلینی ؒ، انہوں نے محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔
اور کلینی ؒکے سلسلہ سند میں وارد ہونے والا " جمیعا" کا معنی یہ ہے کہ ابراہیم اور فضل دونوں نے اس حدیث کو حمّاد سے روایت کیا ہے، لہذا " جمیعا" کے لفظ کا معنی یہ دونوں ہیں۔
پھر " الف " میں بیان شدہ سلسلہ سند صحیح ہے چونکہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس لیے کہ علی بن ابراہیم ؒیہ تو مشہور تفسیر کے مؤلف اور جلیل القدر ثقہ افراد میں سے ہیں۔ اور کلینی ؒنے الکافی کی تقریباً ایک تہائی احادیث ان کے حوالے سے بیان کی ہے۔
اور جہاں تک ابراہیم کا تعلق ہیں تو ان کی توثیق ممکن ہے اس سبب سے جس کا بیان ان شاء اللہ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگا۔
اور جہاں تک حمّاد اور حریز کا تعلق ہے تو سابقہ تطبیقات میں بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔
اور جب " الف " کا سلسلہ سند صحیح ہیں تو پھر ہمیں " ب " کے سلسلہ سند کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس روایت کی صحت ثابت ہو جائےگی۔
تمرینات
س ۱: حدیث کی چار اقسام کیا ہیں؟ انہیں بیان کریں اور ان کے معنی واضح کریں۔
س ۲: اخباری علماء نے حدیث کی چار اقسام میں تقسیم کی مذمّت کیوں کی؟
س ۳: کہا جاتا ہے کہ صحیح خبر حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اگر وہ شہرتِ فتوائیہ کے مخالف ہو۔ اس بات کا مقصود واضح کریں۔
س ۴: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت حجیت ساقط ہو جاتی ہے اس بات کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
س ۵: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت کی حجیت سے ساقط ہونے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیسے احراز و ثابت کریں کہ۔۔۔ جو مناسب ہو، اس کے ذریعہ جملہ مکمل کریں۔
س ۶: خبرِ ثقہ اور خبرِ عادل میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے کس کی حجیت مشہور ہے؟
س ۷: خبرِ ثقہ کی حجیت اور عدالت کے شرط نہ ہونے پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟
س ۸: اگر کہا جائے کہ خبرِ ثقہ پر عمل کے لیے جس سیرتِ عقلائیہ کا دعوی کیا گیا ہے اس کے ذریعہ استدلال ممکن نہیں ہے کیونکہ آیت النبأ نے اسے رد کر دیا ہے، تو ہم اس دعوے کو کیسے رد کریں گے؟
س ۹: سیرتِ عقلائیہ پر عمل کرنے میں ہمیں شارع کی جانب سے منع نہ ہونے کا ثبوت کیوں درکار ہے؟
س ۱۰: ثقہ کی خبر اور قابل اطمینان خبر میں کیا فرق ہے؟
س ۱۱: اگر کہا جائے کہ خبر کی حجّیت کے ثبوت میں اس روایت پر اطمینان ہونا ضروری ہے تو اس پر کیسے دلیل قائم کی جائےگی۔
س ۱۲: حجیتِ خبر میں اطمینان ضروری نہیں ہے (بلکہ صرف راوی کا ثقہ ہونا کافی ہے) اس بات پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟
س ۱۳: خبرِ حسن کی حجیت کےکون قائل ہیں؟
س ۱۴: خبرِ حسن کی حجیت پر استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟
س ۱۵: خبرِ ضعیف کی عدم حجیت معروف ہے۔ اس میں کیا نکتہ ہے؟
س ۱۶: کہا گیا ہے کہ خبرِ ضعیف خاص حالت میں حجیت رکھتی ہے۔ وہ حالت بیان کریں۔
س ۱۷: شہرتِ فتوائیہ سے تدارک یافتہ خبرِ ضعیف کی حجیت پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟
س ۱۸: تلافی و تدارک کے اصول کو قبول کرنے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ۔۔۔ جو مناسب ہو اسے بیان کرتے ہوئے اس جملے کو مکمل کریں۔
س ۱۹: خبرِ مضمر کیا ہے؟
س ۲۰: خبرِ مضمر کی ایک مثال دیں۔
س ۲۱: بعض اوقات ابتدائی نگاہ میں کہا جاتا ہے کہ مضمرہ روایات حجّت نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
س ۲۲: کہا گیا ہے کہ تمام مضمرہ روایات حجت ہیں۔ اس بات کی وضاحت کریں۔
س ۲۳: مشہور نے مضمرہ روایات کی حجیت میں تفریق قائم کی ہے۔ وہ تفریق اور اس کی تشریح بیان کریں۔
س ۲۴: خبرِ مرسل کیا ہے؟ اس کی ایک مثال دیں۔
س ۲۵: مرسلہ روایات کی حجیت پر تین اقوال پائے جاتے ہیں۔ انہیں بیان کریں۔
س ۲۶: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق پہلے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
س ۲۷: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق دوسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
س ۲۸: تیسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟