اعتراض اور جواب
ہم نے جو بیان کیا اس کے دوران درج ذیل دو اعتراضات واضح طور سے دور ہو جاتے ہیں :
۱۔ شیخ فخر الدین طریحی ؒنے اپنی مشہور کتاب " تمییز المشترکات" میں جو بیان کیا ہے کہ متقدمین کی توثیقات چونکہ حدس پر مبنی ہیں نہ کہ حس پر، اس لیے ان پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
اور جواب: یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا، ان توثیقات کے حسّی ہونے کا احتمال موجود ہے، اور جب اس کے ساتھ عقلاء کے قانون " اصالۃ الحس" کو ملایا جائے تو معین ہو جاتا ہے کہ ان توثیقات کا ماخذ و منشأ حِسّ ہے۔
۲۔ بہت سے بیانات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقدمین کی توثیقات اگرچہ یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ حسّی بنیاد پر وجود میں آئی ہیں اور ایک ثقہ نے دوسرے ثقہ سے اور بڑے نے بڑے سے نقل کی ہیں، لیکن مثال کے طور پر نجاشی ؒجب کسی شخص کی توثیق کرتے ہیں تو وہ ان افراد کے نام ذکر نہیں کرتے جن پر وہ توثیق نقل کرنے میں اعتماد کرتے ہیں۔ اور جب ان کے نام ذکر نہیں کیے جاتے تو ان کی طرف سے وثاقت کی خبر ایک مرسل خبر کے حکم میں ہو جاتی ہے، اور مرسل خبر حجت نہیں ہے۔
اور اگر آپ چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں: کہ اگر نجاشی ؒخود امام علیہ السلام سے شرعی حکم ثقہ راویوں کے ایک سلسلے کے واسطے سے نقل کرتے اور ان کے ناموں کا اشارہ نہ کرتے تو کیا ان کا یہ نقل کیا جانا قابلِ قبول ہوتا؟ ہرگز نہیں، بلکہ ان کی یہ خبر مرسَل قرار پاتی اور حجیت سے ساقط ہو جاتی، اس احتمال کی وجہ سے کہ سند کے کسی ایک راوی میں جرح (یعنی قابلِ اعتماد نہ ہونے) کا پہلو موجود ہو۔
لہٰذا، اگر نجاشی ؒکی خبر احکام کے باب میں قبول نہیں کی جاتی جب وہ مرسَل ہو اور سلسلہ سند کے ناموں کی صراحت کے بغیر ہو، تو یہ ضروری ہے کہ اگر وہ وثاقت کو بھی مرسَل طور پر نقل کریں تو انہیں قبول نہ کیا جائے، کیونکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اور یہ اشکال نہایت دقیق اور قوی ہے، یہاں تک کہ بعض نے کہا: جو شخص مجھے اس کا حل پیش کرے، میں اُسے انعام دوں گا اور اُس کا شکر گزار رہوں گا۔
( رجوع کریں كتاب بحوث في علم الرجال للمحسني: ص ۴۵ )
اور اس کا جواب پہلے بیان کردہ باتوں کی روشنی میں یہ ہے: کہ ان جیسے افراد کی وثاقت اتنی ہی واضح ہونا ممکن ہے جتنی ہمارے نزدیک شیخ انصاری ؒاور آخوند ؒکی وثاقت واضح ہے، اور اس حد تک واضح ہوتے ہوئے نجاشی ؒکی زرارہ ؒکی وثاقت کی گواہی حدسی خبر نہیں ہوگی کہ یہ اعتراض وارد ہو کہ اسے حدس پر مبنی ہونے کی وجہ سے رد کرنا لازم ہے، اور نہ ہی یہ کسی شخص کی کسی دوسرے شخص کے حوالے سے خبر ہے کہ واسطے کے مجہول ہونے کے بعد یہ مرسَل خبر بن جائے، بلکہ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا پہلو ہے، اور وہ ہے " وضوح " (یعنی بات کا واضح و روشن ہونا)، جس کی بنیاد پر یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔
اور اگر کہا جائے کہ " وضوح " خبر دینے کا منبع نہیں ہو سکتا، ورنہ ہم شیخ ؒاور نجاشی ؒکے درمیان بعض صورتوں میں ہونے والے اختلاف کی کیسے تفسیر کریں گے؟ کہ شیخ ؒکسی شخص کی توثیق کرتے ہیں اور نجاشی ؒاسے ضعیف قرار دیتے ہیں یا اس کے برعکس۔
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے: کہ یہ اختلاف " وضوح " کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے اس زمانے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ میں اور آپ کسی ہم عصر شخص کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تو ہم میں سے ایک اس کی توثیق کرتا ہے اور دوسرا اسے فاسق قرار دیتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اپنی بات کو واضح اور درست سمجھتا ہے۔
یہ وہ باتیں تھیں جو مذکورہ اعتراض کو دور کرنے کے لیے کہی گئی ہیں، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس بات پر دوبارہ واپس آئیں گے جب ہم تیسرے نکتہ پر بات کریں گے جو رجالی کے قول کی حجیت کی وجہ پر بحث کرتا ہے۔
۳۔ متاخرین بزرگ علماء میں سے کسی کی صریح گواہی
علماء کے درمیان اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا متاخرین – جیسے علامہ ؒ، ابن طاؤس ؒ، ابن داؤد ؒاور شہید ثانی ؒ– کی توثیقات قابلِ قبول ہیں یا نہیں؟ مشہور رائے ان کے قابلِ قبول ہونے کی ہے، تاہم بعض علماء جیسے سید خوئی ؒاور دیگر نے اسے مسترد کیا ہے۔ اور دونوں میں سے ہر رائے کی اپنی خاص وضاحت ہے۔
متاخرین کی توثیقات حجّت نہیں ہے اس کا سبب
جنہوں نے متاخرین کی توثیقات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، انہوں نے اس پر یہ دلیل دی ہے کہ علامہ ؒجیسے شخص کی توثیقات دو باتوں میں سے کسی ایک سے خالی نہیں ہو سکتیں: یا تو وہ متقدمین کی توثیقات پر مبنی ہیں اگر متقدمین کی توثیق موجود ہو، یا اگر متقدمین کی کوئی توثیق نہ ہو تو وہ حدس اور اجتہاد پر مبنی ہیں، اور وہ حِسّ سے اور بعض ان رجالی کتابوں تک رسائی سے پیدا نہیں ہوئی ہیں جن تک متقدمین کو رسائی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
اور یہ توثیق حِسّ سے پیدا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے: کہ شیخ طوسی ؒکے بعد سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اور شیخ طوسی ؒکے زمانے کے بعد جو بھی شخص کسی توثیق یا تضعیف کو نقل کرتا ہے، وہ دراصل خود شیخ طوسی ؒپر اعتماد کرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔
اور جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر متأخرین کے پاس کوئی ایسا طریقہ اور سلسلہ ہوتا جو شیخ طوسی ؒسے نہ گزرتا، تو وہ اس طریقے کا ذکر ضرور کرتے، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس جتنے بھی طریقے ہیں وہ سب شیخ طوسی قدس سرہ سے گزرتے ہیں، تو علامہ حلی ؒاپنی کتاب " الاجازۃ الکبیرۃ لبنی زھرۃ" (۱) میں ان تمام کتابوں تک اپنے سلسلہ کا ذکر کرتے ہیں جن سے وہ نقل کرتے ہیں اور وہ سب سلسلہ شیخ طوسی قدس سرہ پر ختم ہوتے ہیں۔
حوالہ:
(۱)-
اور جنہیں علامہ مجلسی نے اپنی کتاببحار الأنوار
کے "مجلدِ اجازات" میں نقل کیا ہے۔
اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ علامہ ؒکے پاس کوئی ایسا مستقل طریق و سلسلۂ سند موجود نہیں تھا جو شیخ طوسی ؒکے سلسلے سے مختلف ہو۔
اس کے علاوہ، یہ بھی بعید ہے کہ متأخرین کے پاس کوئی مستقل طریق و سلسلہ موجود ہو جو شیخ طوسی ؒسے نہ گزرتا ہو، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو خود شیخ ؒکو اس کا علم ہوتا۔
متاخرین کی توثیقات قابل قبول ہونے پر دلیل
اس کے برعکس، دوسری رائے رکھنے والوں نے یہ دلیل دی ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ علامہ ؒجیسے علماء کو کچھ ایسی کتابوں تک رسائی حاصل ہوئی ہوں جن میں بعض راویوں کی توثیق کا ذکر ہو اور وہ کتابیں شیخ ؒاور نجاشی ؒکو دستیاب نہ ہوئی ہوں، کیونکہ کتنی ہی چیزوں پر متأخرین نے دسترس حاصل کی ہے جن پر متقدمین کو دسترس حاصل نہیں ہوئی تھی۔تو یہ ابن ادریس ؒہیں جن کو بعض اصولِ اربعمائہ تک رسائی حاصل ہوئی اور انہوں نے ان سے کچھ احادیث کو اخذ کیا اور ان سے اپنی کتاب " مستطرفات السرائر" کا آخری حصہ تالیف کیا۔
اور سید رضی الدین ابن طاؤس ؒکو ان میں سے ایک اور حصہ دستیاب ہوا اور انہوں نے اس میں سے کچھ اپنی کتاب " کشف المحجہ" میں درج کیا۔
اور ہمارے موجودہ دور میں سید محمد حجت ؒ، جو سید کوہکمری کے نام سے مشہور ہیں، کو سولہ اصلیں ملیں جنہیں انہوں نے " الاصول الستہ عشر" کے عنوان سے شائع کیا۔اور شیخ نائینی ؒاجود التقریرات جلد ۲، صفحہ ۹۹ پر نقل کرتے ہیں کہ محدث شیخ مرزا حسین نوری ؒکے پاس تقریباً پچاس اصلیں موجود تھیں۔
اور اگر یہ بات اصولِ اربعمائہ کے سلسلہ میں ثابت ہے تو رجالی کتابوں کے سلسلہ میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے کہ کچھ کتابیں متأخرین کو دستیاب ہوئیں اور متقدمین کو دستیاب نہ ہوئیں۔اور جہاں تک یہ دعویٰ ہے کہ اگر متأخرین کے پاس ان توثیقات تک کوئی ایسا طریقہ ہوتا جو شیخ طوسی ؒسے نہ گزرتا تو خود شیخ طوسی ؒاس سے مطلع ہوتے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ خود شیخ ؒکی بعض راویوں کی توثیقات پر اعتراض وارد ہوگا جب کسی راوی کی فقط انہوں نے توثیق کی ہو اور نجاشی ؒنے نہ کی ہو یا اس کے برعکس صورت حال ہو، کیونکہ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو کوئی طریق و سلسلہ حاصل ہوا ہوتا، تو لازم تھا کہ دوسرا بھی اس سے باخبر ہوتا۔
دونوں آراء میں سے صحیح رائے
اور ہماری نظر میں صحیح رائے وہ ہے جو متأخرین کی توثیقات کی حجیت سے انکار کرتی ہے۔
اور ہم اپنی گفتگو کو علامہ حلی ؒکی توثیقات پر مرکوز کریں گے، جو اس شعبہ میں متأخرین میں سب سے اہم ہیں، اور اس کے ذریعے دوسرے متأخرین کی توثیقات کا حال بھی واضح ہو جائے گا۔
اور ابتداء میں ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ وہ مقامات جہاں علامہ ؒنے توثیق کرنے میں شیخ طوسی ؒیا نجاشی ؒکی شرکت کے بغیر انفرادیت اختیار کی ہے، وہ انتہائی حد تک نادر ہیں۔
لہٰذا، اس بحث کا ثمرہ انہی نادر مقامات تک محدود ہے، کیونکہ مشترکہ مقامات میں تو شیخ ؒیا نجاشی ؒکی گواہی کی بنا پر توثیق کا حکم دیا جاتا ہے، اور علامہ ؒکی توثیق سے وابستہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
اور علامہ ؒکی توثیقات کی عدم حجیت کی وجہ : یہ ہے کہ ان کی شہادت پر اعتماد یا تو اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں " اصالۃ الحس" جاری کی جائے، جب یہ احتمال موجود ہو کہ ان کی بات کا ماخذ حس ہو، یا اس وجہ سے کہ وہ اہلِ خبرہ (ماہرین) میں سے ہیں۔ اور دونوں پہلو قابل غور و فکر ہیں۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے: تو اس بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ عقلاء کی سیرت علامہ ؒجیسے شخص کے بارے میں " اصالۃ الحس" پر اعتماد کرنے پر قائم ہو جن کے بہت سے کلام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ توثیق میں حدس پر اعتماد کرتے تھے۔
اور مثال کے طور پر ہم انہیں ابراہیم بن ہاشم کے حالات میں دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں: " اور میں نے ہمارے اصحاب میں سے کسی سے نہ تو ان کے بارے میں کوئی قدح (عیب/جرح) پائی اور نہ ہی صراحت کے ساتھ ان کی تعدیل و توثیق۔ اور ان سے مروی روایات کثیر ہیں۔ اور زیادہ راجح (زیادہ قرینِ قیاس) بات یہی ہے کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے " ۔
ان کی طرف سے اس اعتراف کے بعد کہ رجالی کتابیں ان کی توثیق سے خالی ہیں یہ عبارت استعمال کرنا کہ " اور قابل ترجیح بات یہ ہے کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے " یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی رائے قائم کرنے میں حدس اور اجتہاد سے کام لیا ہے۔
اور ابراہیم بن سلیمان بن عبداللہ کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " ابن غضائری نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے ۔۔۔ اور نجاشی ؒنے ان کی توثیق کی ہے، جیسا کہ شیخ ؒنے، تو اس صورت میں میرے نزدیک قوی یہ ہے کہ اس بات پر عمل کیا جائے جو وہ روایت کرتے ہیں " ۔
جرح و تعدیل کے تعارض کا اعتراف کرنے کے بعد ان کا " قوی ہے۔۔۔ " جیسے الفاظ استعمال کرنا اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے اپنی رائے قائم کرنے میں اجتہاد اور حدس سے کام لیا ہے۔
اور اسماعیل بن مہران کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " میرے نزدیک اقوی ہے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے کیونکہ شیخ ابو جعفر طوسی ؒاور نجاشی ؒنے ان کے ثقہ ہونے کی گواہی دی ہے " ۔
اور ادریس بن زیاد کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " میرے نزدیک اقرب یہ ہے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے کیونکہ نجاشی ؒنے ان کی تعدیل و توثیق کی ہے۔ اور ابن غضائری ؒکا قول اس کے مخالف نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے ادریس کی ذات پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کی عدالت پر طعن کیا ہے " ۔
اور احمد بن اسماعیل بن سمکہ کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " ہمارے علماء نے ان کی تعدیل و توثیق پر کوئی صراحت نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کے سلسلہ میں کوئی جرح وارد ہوئی ہے، لہٰذا اقوی ان کی روایت کو قبول کرنا ہے بشرطیکہ وہ معارض سے سالم ہو " ۔
اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ہیں جو ان کے اجتہاد اور نظر (فکری غور و فکر) کے استعمال پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ ہم بھی بعض راویوں کی توثیق میں ایسا ہی کرتے ہیں۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے، یعنی کسی پر اعتماد کرنا اس بنیاد پر کہ وہ اہلِ خبرہ (ماہر) ہے، تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ علّامہ ؒکی مہارت ہم پر اس حد تک فوقیت رکھتی ہو کہ ان پر " اہلِ خبرہ " کا اطلاق درست ہو۔ کیونکہ یہ عنوان (اہلِ خبرہ) صرف اسی شخص پر صادق آتا ہے جو کتابوں اور کتب خانوں میں گہرائی سے تحقیق کرے اور وہ باتیں معلوم کرے جن تک ہم نہ پہنچ سکے ہوں۔ لیکن اگر اس شخص نے بھی محدود تعداد میں انہی کتابوں کو دیکھا ہے جن تک ہم بھی پہنچے ہیں اور اس سے زیادہ کتابوں پر نگاہ نہ کی ہو، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ انہوں نے اپنی رائے استعمال کی ہے، جیسا کہ ہم بھی بعض اوقات اپنی رائے استعمال کرتے ہیں، تو ان پر اہلِ خبرہ کا اطلاق درست نہیں، تو کیا یہ حق ہے کہ ہم علامہ ؒکے اہل خبرہ میں سے ہونے کا حکم لگائیں جبکہ انہوں نے ابراہیم بن ہاشم پر اعتماد کرنے کے لیے یہ بات کہی کہ : " میں (ہمارےاصحاب میں سے) کسی سے واقف نہیں ہوا ۔۔۔ اور زیادہ راجح ان کے قول کا قبول کرنا ہے " یا جب انہوں نے ابراہیم بن سلامہ پر اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ: " امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے وکیل تھے شیخ ؒنے ان کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا ہے۔ اور میرے نزدیک اقوی ان کی روایت کو قبول کرنا ہے " ۔
علامہ ؒاکثر اوقات اور نوے فیصد تک شیخ نجاشی ؒکی توثیقات پر اعتماد کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ مقامات میں حدس کے استعمال پر اعتماد کرتے ہیں، اور ایسا ہونا ان پر اہل خبرہ و ماہرین میں سے ہونے کی بات کے صادق آنے کو درست نہیں قرار دیتا کیونکہ ہم بھی بغیر کسی فرق کے یہی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ علامہ ؒکے پاس ایسی رجالی کتابیں تھیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں، جیسے ابن غضائری کی رجال، یا عقیقی کی رجال، یا ابن عقدہ کی رجال، تو پھر انہیں ہم پر کیوں فضیلت نہیں ہے؟
جواب یہ ہوگا کہ علامہ ؒتک مذکورہ کتابوں کا پہنچنا مہم نہیں ہے، کیونکہ ابن غضائری ؒکی رجال صحیح نسخہ کے ساتھ اور معتبر ذریعہ سے علامہ ؒتک پہنچی ہو اس بات پر ہمیں اطمینان نہیں ہے، کیونکہ شیخ طوسی ؒ "الفھرست" کے مقدمہ کے صفحہ ۲ پر نقل کرتے ہیں کہ ابن غضائری ؒنے " دو کتابوں کو عملی جامہ پہنایا، جن میں سے ایک میں انہوں نے " مصنفات " (تالیفات) کا ذکر کیا اور دوسری میں " اصول " کا، اور دونوں کو اس حد تک مکمل کیا جس حد تک انہوں نے پایا اور جس پر قادر تھے، مگر ان دونوں کتابوں کو ہمارے اصحاب میں سے کسی نے بھی نسخ (نقل) نہیں کیا، اور وہ رحمہ اللہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور اس کے بعض ورثاء نے – جیسا کہ بعض نے ان کے بارے میں نقل کیا ہے– ان دونوں کتابوں اور دیگر کتب کو ضائع کرنے کا اقدام کیا " ۔
اور جہاں تک سید علی بن احمد عقیقی کی رجال کا تعلق ہے، جو شیخ طوسی ؒسے پہلے کے دور کے ہیں، تو اس پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ علامہ نے سید عقیقی کا ذکر اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں کیا ہے جسے انہوں نے ان لوگوں کے ذکر کے لیے خاص کیا ہے جن پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔
اور جہاں تک رجالِ ابن عقدہ کا تعلق ہے تو وہ شیخ ؒاور نجاشی ؒکے پاس موجود تھی اور انہوں نے اس میں سے ہر چیز سے فائدہ اٹھایا اور علامہ ؒکے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا جس کے ذریعے وہ خبرویت و مہارت کا عنوان حاصل کر سکیں اور جس کے ذریعے ہم پر امتیاز حاصل کر سکیں۔
علامہ حلی ؒکے اقوال میں "اصالة العدالة"
کہا گیا ہے کہ علّامہ ؒکی توثیقات قبول کرنے میں تأمل و توقف کا امکان ہے، اس لحاظ سے کہ وہ بعض اوقات اپنی توثیق میں " اصالۃ العدالة" پر اعتماد کرتے ہیں، یعنی یہ کہ ہر وہ امامی راوی جس کے بارے میں نہ تضعیف آئی ہو اور نہ توثیق، اس کے بارے میں اصل عدالت ہے۔ اور چونکہ ہم اس اصل کو قبول نہیں کرتے، لہٰذا ہمارے لیے ان کی توثیقات پر اعتماد کرنا درست نہیں ہے۔
اور انہوں نے "اصالة العدالة" پر اعتماد کیا ہے اس بات کے ثبوت کے لیے ان کے کلام کے بعض مقامات پیش کیے گئے ہیں:-
۱۔ جو انہوں نے ابراہیم بن ہاشم کے حالات میں صفحہ ۴ پر ذکر کیا ہے، جہاں انہوں نے کہا ہے: " اور میں نے ہمارے اصحاب میں سے کسی سے نہ تو ان کے بارے میں کوئی قدح (عیب/جرح) پائی اور نہ ہی صراحت کے ساتھ ان کی تعدیل و توثیق۔ اور ان سے مروی روایات کثیر ہیں۔ اور زیادہ راجح (زیادہ قرینِ قیاس) بات یہی ہے کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے " ۔
علامہ ؒکا یہ فیصلہ کہ ابراہیم بن ہاشم کے قول کو قبول کرنا قابل ترجیح ہے فقط اسی وقت درست و کامل ہو سکتا ہے جب "اصالة العدالة" پر بنا رکھی جائے اور اسے اس شخص کے حق میں ثابت کیا جائے جس کے حق میں نہ کوئی ضعف وارد ہوا ہو اور نہ ہی توثیق وارد ہوئی ہو۔
۲۔ جو انہوں نے احمد بن اسماعیل بن سمکہ کے حالات میں صفحہ ۱۷ پر ذکر کیا ہے، جہاں انہوں نے کہا ہے: " اور ہمارے علماء نے ان کی تعدیل و توثیق پر کوئی نص قائم نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان کے سلسلہ میں کوئی جرح وارد ہوئی ہے، لہٰذا اقوی یہ ہے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے بشرطیکہ وہ معارض سے سالم ہو " ۔
میں کہتا ہوں: غالباً سب سے پہلے جس نے اصالتِ عدالت کو اختیار کرنے میں شہرت پائی وہ ابنِ جنید ؒہیں، کیونکہ شیخِ اعظم ؒنے رسالۂ عدالت میں، جو کتاب المكاسب کے آخر میں شامل ہے، صفحہ ۳۲۶ پر ذکر کیا ہے کہ عدالت کے معانی میں سے ایک معنی اسلام کا ہونا اور فسق کا ظاہر نہ ہونا ہے، جہاں انہوں نے کہا: یہ ابنِ جنید ؒسے منقول ہے اور مفید ؒنے اپنی کتاب " الاشراف " میں اور شیخ ؒنے کتاب " الخلاف " میں اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔
لیکن علامہ ؒکی عبارت مذکورہ دونوں مقامات پر " اصالة العدالة" پر اعتماد کرنے کی بات میں صریح نہیں ہے۔ اور ان کی دیگر عبارتیں بھی ہیں جو زیادہ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ " اصالة العدالة" کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے، ان عبارتوں میں سے بعض کو ہم ذکر کرتے ہیں :
اسماعیل بن الخطاب کے حالات میں صفحہ ۱۰ پر ان کا قول، جب انہوں نے ایک روایت ذکر کی جس میں امام علیہ السلام اسماعیل پر رحمت کی دعا فرماتے ہیں، یہ کہتے ہوئے: اللہ اسماعیل بن الخطاب پر رحم کرے: تو علامہ ؒکہتے ہیں: " اور میرے نزدیک اس خبر کی نہ تو صحت ثابت ہے اور نہ ہی اس کا بطلان، لہٰذا اقوی یہ ہے کہ اس کی روایت میں توقف کیا جائے " ۔
تو اگر وہ " اصالة العدالة" پر بنا رکھتے ہوتے تو اسماعیل بن الخطاب کی روایت میں توقف کیوں کرتے؟
اور احمد بن حمزہ کے حالات میں صفحہ ۱۸ پر ان کا قول: " کشّی نے حمدویہ سے، اور انہوں نے اپنے مشائخ سے روایت کیا ہے کہ وہ وزیروں کی صف میں شمار ہوتا تھا، مگر میرے نزدیک اس سے اس کی عدالت ثابت نہیں ہوتی " ۔
اور بشیر النبال کے حالات میں صفحہ ۲۵ پر ان کا قول: " کشّی نے ایک حدیث روایت کی ہے ۔۔۔ یہ ان کی تعدیل و توثیق میں صریح نہیں ہے، لہٰذا میں ان کی روایت میں متوقف ہوں " ۔
اور ثویر بن ابی فاختہ کے حالات میں صفحہ ۳۰ پر ان کا قول، ان کے حق میں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد :
" اور یہ (قول) نہ تو مدح کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی قدح و عیب کا، لہٰذا ہم اس کی روایت کےسلسلہ میں متوقفین میں سے ہیں " ۔
اس کے علاوہ بھی ایسے کئی مقامات ہیں جو ان کے کلمات میں جستجو کرنے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
بلکہ ان کی کتاب کا خاص طریقہ ہی " اصالة العدالة" پر ان کے اعتقاد نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے، جہاں انہوں نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: پہلے حصے میں ان کو ذکر کرتے ہیں جن کی روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے، اور دوسرے حصے میں ان کو ذکر کرتے ہیں جن کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا، یا تو اس لیے کہ ان کا ضعف ان کے نزدیک ثابت ہو گیا ہے، یا ان کی توثیق و تضعیف میں اختلاف ہے، یا وہ ان کے نزدیک مجہول الحال ہے۔
بےشک، اگر وہ " اصالة العدالة" کے معتقد ہوتے، تو ان کے اس عقیدے کی بنیاد پر کسی مجہول الحال راوی کو دوسرے حصے میں ذکر کرنے کا کوئی مطلب نہیں تھا چونکہ یہ حصہ اُن راویوں کے لیے مخصوص ہے جن کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا بلکہ لازمی طور پر اسے پہلے حصے میں ذکر کرنا چاہیے تھا۔
تمرینات
س ۱: وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کی دو اقسام ہیں، بعض کو کسی خاص ضابطہ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور بعض کو نہیں۔ دونوں قسموں میں سے ہر قسم کی کچھ مثالیں بیان کیجیے، اور اس کی وضاحت کیجیے کہ ایک قسم کو معین ضابطہ میں کیوں بیان کیا جا سکتا ہے اور دوسری کو کیوں نہیں؟
س ۲: وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کے عنوان سے کیا یہ لازم آتا ہے کہ یہ طریقے حجت ہیں؟
س ۳: معصوم علیہ السلام کی کسی شخص کی وثاقت پر صریح گواہی وثاقت ثابت کرنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن یہ مطلق نہیں بلکہ ایک شرط کے ساتھ ہے۔ وہ شرط ذکر کیجیے؟
س ۴: بعض نے اس شرط سے دستبرداری اختیار کی ہے۔ ان کی دستبرداری کی وجہ اور اس پر اشکال کی کیفیت بیان کیجیے؟
س ۵: متقدمین رجالیوں میں سے کسی کی صریح گواہی وثاقت پر دلیل ہے، برخلاف متأخرین کی صریح گواہی کے۔ متقدمین اور متأخرین سے کیا مراد ہے؟
س ۶: وثاقت پر متقدمین میں سے کسی کی صریح گواہی حجت ہونے کی کیا وجہ ہے؟
س ۷: خبر ثقہ کبھی موضوعات میں واقع ہوتی ہے اور کبھی احکام میں۔ اس سے کیا مراد ہے واضح کیجیے؟
س ۸: وثاقت کے بارے میں خبر دینا آیا حکم کے بارے میں خبر دینا ہے یا موضوع کے بارے میں؟ اور کیوں؟
س ۹: " اصالة الحس" سے کیا مقصود ہے؟ اور اس پر کیسے استدلال کیا جاتا ہے؟
س ۱۰: کیا خبر ثقہ حجت ہے اگر وہ حدس سے پیدا ہوئی ہو؟ اور کیوں؟
س ۱۱: نجاشی جب زرارہ کے ہم عصر نہیں تھے تو ہم ان کی طرف سے کی گئی زرارہ کی توثیق کیسے قبول کرتے ہیں؟ جبکہ قبولیت کی شرط یہ ہے کہ خبر حِسّ سے پیدا ہوئی ہو اور ہم عصر نہ ہونے کی وجہ سے یہ شرط موجود نہیں ہے؟
س ۱۲: شیخ فخر الدین طریحی کا قدماء کی توثیقات پر کیا اعتراض ہے؟
س ۱۳: قدماء کی توثیقات پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ توثیقات مرسلہ ہیں۔ مذکورہ اعتراض اور اس اعتراض کے جواب کی کیفیت واضح کیجیے؟
س ۱۴: متأخرین کی توثیقات کی عدم حجیت کا سبب کیا ہے؟
س ۱۵: متاخرین کی توثیقات کی حجیت کے قائل کی دلیل کیا ہے؟ اور اس پر کیسے اشکال کیا جائےگا؟
س ۱۶: علامہ ؒکی توثیقات میں " اصالة الحس" کیوں جاری نہیں ہوتی؟
س ۱۷: اگر کہا جائے کہ علّامہ ؒکی توثیقات اس بنیاد پر حجت ہیں کہ وہ " اہلِ خبرہ " میں سے ہیں، تو ہم اس دعوے کو کس طرح رد کریں؟
س ۱۸: کیا علامہ ؒکا ابن غضائری ؒکی کتاب سے نقل پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
س ۱۹: کیا علامہ ؒکا سید عقیقی ؒسے نقل پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اور کیوں؟
س ۲۰: علامہ ؒکا رجالِ ابن عقدہ ؒسے نقل میں فائدہ کیوں ظاہر نہیں ہوتا؟
س ۲۱: " اصالة العدالة" سے کیا مراد ہے؟ اور علّامہ ؒکے اس پر اعتماد کی کس طرح تشریح کی جائےگی؟
س ۲۲: علامہ ؒکے " اصالة العدالة" پر اعتماد کے جو شواہد پیش کیے جاتے ہیں، ان کا جواب کس انداز سے دیا جائےگا؟
س ۲۳: کیا وسائل الشیعہ کے ابواب مقدمۃ العبادات کے باب ۱۷، حدیث ۱،کی سند صحیح ہے؟