‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 106

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 106
مشاہدے: 5073
ڈاؤنلوڈ: 167

تبصرے:

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5073 / ڈاؤنلوڈ: 167
سائز سائز سائز
‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہماری بحث کا اسلوب

مذکورہ تمہید کی وضاحت کے بعد، ہم ان مباحث کے اسلوب پر بات کریں گے

جنہیں ہم چار فصلوں میں پیش کریں گے :

" فصلِ اول : توثیق سے متعلق بحث۔

" فصلِ دوم : حدیث کی اقسام پر بحث۔

" فصلِ سوم : بعض کتبِ حدیث کے متعلق نظریات۔

" فصلِ چہارم : بعض کتبِ رجالی کے متعلق نظریات۔

۴۱

فصلِ اول

توثیق سے متعلق بحث

فصل اول میں ہماری گفتگو تین نکات پر مشتمل ہوگی : -

" نکتہٗ اول : راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کے متعلق بحث۔

" نکتہٗ دوم : توثیقاتِ عامہ کے متعلق بحث۔

" نکتۂ سوم : رجالی کے قول کی حجیت کے مدرک کے متعلق بحث۔

حدیث کو چار اقسام میں تقسیم(۱) کیا گیا ہے:-

۱۔ صحیح: جس کے تمام راوی عادل اور امامی ہو۔

۲۔ موثق: جس کے تمام یا بعض راوی غیر امامی ہو لیکن ان کی توثیق ہوئی ہو۔

حوالہ:(۱)- ہم اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ روایت اگر متواتر یا ایسے قرائن سے متصل ہو جو اس کی حقانیت کا یقین فراہم کرتے ہو تو اس کی حجّیت اور اس کی قبولت میں کوئی اشکال نہیں ہے، بحث ان دونوں اقسام کے علاوہ میں ہے۔ اور جو تقسیم ہم عنقریب بیان کریں گے اس کی نگاہ ان دو قسموں کی علاوہ کی طرف ہے۔

۳۔ حسن: جس کے تمام یا بعض راوی امامی ہو لیکن عادل نہ بلکہ صرف ممدوح ہو۔

۴۔ ضعیف: جو ان تین اقسام میں سے نہ ہو، اس طرح سے کہ اس کے راوی مجہول ہو یا انہیں ضعیف قرار دیا گیا ہو۔

اور اخباریوں نے اس چہار گانہ تقسیم کی مذمت کی ہے۔

۴۲

نکتۂ اول

راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے

نکتۂ اول پر اپنی بحث کے ضمن میں ہم کہتے ہیں: راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے کئی طریقے ذکر کیے گئے ہیں(۱)، جنہیں وحید بہبہانی ؒنے انتالیس طریقوں تک پہنچایا ہے، ہم ان میں سے اہم طریقوں پر بحث کریں گے، جو درج ذیل ہیں :

حوالہ(۱)- عنقریب یہ واضح ہو جائےگا کہ ان میں سے کچھ طریقہ بننے میں کامل و درست نہیں ہیں، جیسے تیسرا، چھٹا اور آٹھواں۔

۴۳

۱۔ معصومین علیہم السلام میں سے کسی کے حق میں صریح گواہی

اگر کسی معصوم علیہ السلام نے کسی مخصوص راوی کی وثاقت پر صراحت کے ساتھ گواہی دی ہو تو اس سے وثاقت ثابت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

اور کشّی نے اپنی مشہور کتاب میں راویوں کے حق میں وارد بہت سی روایات جمع کی ہیں، بلکہ ان کی مذکورہ کتاب صرف انہی روایات کا مجموعہ ہے۔

اس کی مثال: وہ جس کا ذکر کیا ہے - کشّی نے - محمد بن سنان کے حالات میں نمبر ۹۶۵ کے تحت اپنی اس سند سے جو محمد بن اسماعیل بن بزیع تک ختم ہوتی ہے، کہ: امام ابو جعفر علیہ السلام صفوان بن یحییٰ اور محمد بن سنان پر لعنت بھیجتے تھے، پس آپ (ع) نے فرمایا کہ ان دونوں نے میرے حکم کی مخالفت کی۔ راوی کہتا ہے کہ جب اگلے سال آیا تو امام ابو جعفر علیہ السلام نے محمد بن سہل بحرانی سے فرمایا: صفوان بن یحییٰ اور محمد بن سنان کی ولایت و دوستی اختیار کرو کہ میں ان دونوں سے راضی ہو گیا ہوں۔

امام علیہ السلام کا صفوان اور محمد بن سنان سے راضی ہونے کو فقیہ مذکورہ دونوں شخصیات کی توثیق سمجھ سکتا ہے، جیسا کہ یہ بعید نہیں ہے۔

اور اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ وہ روایت جو کسی شخص کی توثیق پر دلالت کرتی ہے، اس روایت کو معصوم علیہ السلام سے روایت کرنے والا راوی خود وہی شخص نہیں ہونا چاہیے جس کی وثاقت ثابت کرنا مقصود ہے، ورنہ یہ بات " دور " سے زیادہ مشابہ ہوگی۔

اس کی مثال: وہ بات جو کشّی نے اپنی کتاب میں نمبر ۷۵۸ کے تحت علی بن ابی حمزہ بطائنی کے حالات میں ذکر کی ہے – جس کی وثاقت کے بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے – کہ امام ابو الحسن علیہ السلام نے اس سے فرمایا: میں نے اللہ سے تیرے لیے مغفرت طلب کی ہے۔

مذکورہ روایت کو بطائنی کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ امام علیہ السلام سے روایت کرنے والا اس روایت کا راوی خود وہی شخص ہے۔

اور یہ بات عجیب ہے کہ بعض بزرگ علماء نے اس طرح کی بات کو توثیق ثابت کرنے کے لیے کافی قرار دیا ہے، یا تو اس دعوے کے ساتھ کہ شیعہ اپنے امام علیہ السلام پر جھوٹ نہیں باندھتا اور نہ ہی امام علیہ السلام کی طرف کوئی جھوٹی روایت منسوب کرتا ہے، یا اس دعوے کے ساتھ کہ مذکورہ روایت ظنّ بالوثاقت (وثاقت کا گمان) پیدا کرتی ہے، اور ظنّ توثیقات کے باب میں حجت ہے۔

اور جن سے اس طرز عمل کو اختیار کرنا ظاہر ہوا ہے ان میں محدث نوری ؒعمران ابن عبد اللہ قمی کے حالات میں ہیں۔ انہوں نے کہا: " کشّی نے دو ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں عظیم مدح و تعریف پائی جاتی ہے، اور ان دونوں کی سند کا ضعیف ہونا مضر نہیں ہے، کیونکہ ان دونوں سے ظنّ حاصل ہو جاتا ہے '( معجم رجال الحديث ۱: ۳۹ )

اور پہلے دعوے پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جو شخص امامی ہو لیکن شریعت کے راستے کا پابند نہ ہو، اس کے لیے اپنے امام پر جھوٹ باندھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو حاصل ہوتا ہے وہ یہ ظنّ و گمان ہے کہ اس سے جھوٹ صادر نہیں ہوا، اور ہر قسم کا ظنّ حجت نہیں ہے۔

اسی طرح دوسرے دعوے پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ توثیقات کے باب میں ظنّ کی حجیت کو ثابت کرنے کے لیے دلیل درکار ہے، جو موجود نہیں ہے۔

۲۔ بعض متقدمین رجالیوں کی صریح گواہی

رجالی جو توثیق اور تضعیف کا کام کرتے ہیں، کبھی متقدمین میں سے ہوتے ہیں جیسے نجاشی ؒاور شیخ طوسی ؒ، اور کبھی متاخرین میں سے ہوتے ہیں جیسے علامہ ؒاور ابن طاووس ؒ۔

اور جس چیز کی طرف اب اشارہ کرنا مقصود ہے وہ بعض متقدمین رجالیوں کا کسی شخص کی وثاقت پر صریح گواہی ہے، اور جہاں تک بعض متاخرین کی صریح گواہی کا تعلق ہے تو اس کی طرف ان شاء اللہ تعالیٰ بعد میں اشارہ آئےگا۔

اور متقدمین کی توثیق کی حجیت کی وجہ – جیسا کہ کہا گیا ہے – یہ ہے کہ نجاشی ؒجیسے افراد ثقہ ہیں، اور چونکہ خبر ثقہ شارع کی جانب سے تائید یافتہ سیرت عقلائیہ کی بنا پر حجّت ہے چونکہ شارع نے اسے ممنوع قرار نہیں دیا ہے، لہٰذا نجاشی ؒجیسے افراد کی جانب سے کی جانے والی توثیق کی حجیت ثابت ہو جاتی ہے۔

اور وثاقت کے بارے میں خبر دینا اگرچہ موضوعات میں سے کسی موضوع کے بارے میں خبر دینا ہے(۱)،

اور یہ شرعی حکم کے بارے میں خبر نہیں ہے، لیکن خبر ثقہ کی حجیت کی دلیل – یعنی سیرتِ عقلائیہ– عام ہے جس میں موضوع کے بارے میں خبر بھی شامل ہے، برخلاف بعض کے جنہوں نے حجیت کو اس صورت سے مخصوص کیا ہے جب خبر حکم کے بارے میں ہو۔

حوالہ:

(۱)-

چونکہ راوی کا ثقہ ہونا شرعاً اس کی تصدیق کے وجوب کا موضوع ہے، لہٰذا شرعی حکم وجوبِ تصدیق ہے، اور وثاقت اس (وجوبِ تصدیق) کا موضوع ہے۔

۴۴

یہ نہیں کہا جائےگا: کہ خبر ثقہ اگرچہ سیرتِ عقلائیہ کی وجہ سے حجت ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب خبر حسّی ہو نہ کہ حدسی اور اجتہادی، اور یہ واضح ہے کہ جب نجاشی ؒزرارہ کی توثیق کرتے ہیں، مثال کے طور پر، تو چونکہ وہ ان کے ہم عصر نہیں تھے، لہٰذا ان کی وثاقت کے بارے میں ان کی خبر حدسی تھی نہ کہ حسّی۔

کیونکہ (جواب میں) یہ کہا جائےگا: کہ نجاشی ؒاگرچہ زرارہ کے ہم عصر نہیں تھے، لیکن یہ احتمال ہے کہ انہوں نے ان کی وثاقت کی جو خبر دی ہے وہ حسّ پر مبنی ہو، اور اس کے حسّ پر مبنی ہونے کے احتمال کے ہوتے ہوئے لازم ہے کہ اس پر – یعنی خبر کے حسّی ہونے پر – بنا رکھی جائے، چونکہ جب خبر کے حسّی یا حدسی ہونے کے درمیان تردّد واقع ہو تو عقلائی اصول یہ ہے کہ اسے حسّی قرار دیا جائے۔

لہٰذا، ہمارے پاس دو دعوے ہیں جنہیں ثابت کرنا ضروری ہے :

دونوں میں سے ایک: یہ کہ اس بات کا احتمال ہے کہ نجاشی ؒکی زرارہ کی وثاقت کے بارے میں خبر حسّی ہو۔

دونوں میں سے دوسرا: جب حسّی اور حدسی کے درمیان شک ہو تو حسّی پر بنا رکھنا ضروری ہے۔

جہاں تک پہلے دعوے کا تعلق ہے تو اس کے اثبات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقط اس بات سے کہ زرارہ ؒاور نجاشی ؒایک دوسرے کے ہم عصر نہیں تھے ان کی وثاقت کے بارے میں ان کی خبر کا حدسی ہونا لازم نہیں آتا۔ ہم شیخ طوسی ؒ، انصاری ؒ، آخوند خراسانی ؒاور ان کی مانند ہمارے دوسرے متقدمین علماء کی وثاقت کے بارے میں خبر دیتے ہیں، لیکن کیا ہماری یہ خبر، خبرِ حدسی ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں، یہ حسّی ہوتی ہے، کیونکہ ایسے بزرگ علما کی وثاقت ہمارے زمانے میں ایسے ہی واضح ہے جیسے دوپہر کے وقت کی سورج کی روشنی۔ اور یہی بات ہم نجاشی ؒکی جانب سے زرارہ ؒکی توثیق کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ نجاشی ؒاور شیخ طوسی ؒکے دور میں توثیق اور تضعیف کے لیے تیار کی گئی رجالی کتابیں بہت تھیں اور ان کتابوں کے نتیجے میں واضح صورت حاصل ہو جاتی تھی۔

اور شاید سب سے پہلے جس نے اس موضوع میں تالیف کا آغاز کیا وہ جلیل القدر راوی حسن بن محبوب ؒتھے کہ انہوں نے اپنی مشہور کتاب " المشیخہ"

( مفعلۃ" کے وزن پر اور یہ شیخ کی جمع ہے )

تالیف کی، اور اس کے بعد اسی طرز پر دیگر کتابیں بھی لکھی گئیں۔

اور شیخ آغا بزرگ تہرانی قدس سرہ نے مذکورہ موضوع میں تالیف کرنے والوں کی معلومات کو ایک کتاب میں یکجا کیا ہے جس کا نام انہوں نے " مصفی المقال" (مصفی المقال فی مصنفی علم الرجال) رکھا، جس میں انہوں نے ایک سو سے زیادہ تالیفات کا ذکر کیا ہے۔

اور ہماری بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو شیخ طوسی ؒنے اپنی کتاب " عدۃ " میں بیان کی ہے، جہاں وہ کہتے ہیں: " ہم نے پایا کہ اس طائفہ (علماء شیعہ) نے یہ روایات نقل کرنے والے راویوں کو پرکھا ہے، پس انہوں نے ان میں سے ثقہ افراد کی توثیق کی ہے اور کمزوروں کی تضعیف کی ہے... اور انہوں نے اس بارے میں کتابیں بھی تصنیف کیں۔۔۔ " ۔

اور نجاشی ؒکبھی بعض راویوں کے حالات میں یہ عبارت استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: " اس کا ذکر اصحابِ رجال نے کیا ہے " ۔

اور جہاں تک دوسرے دعوے کا تعلق ہے، تو اس کے اثبات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صاحبانِ عقل جب کسی ثقہ شخص کی خبر سنتے ہیں تو وہ اس کے ساتھ یہ دقیق تحقیق نہیں کرتے کہ آیا تمہاری یہ خبر حِس پر مبنی ہے یا حدس پر بلکہ جب تک اس کے حِسّ پر مبنی ہونے کا احتمال ہو، وہ اس پر بنا رکھتے ہیں۔

متقدمین کی توثیقات کی وضاحت میں اس طرح کہا گیا ہے۔

(- رجوع کریں معجم رجال الحديث ۱: ۴۱)

۴۵

اعتراض اور جواب

ہم نے جو بیان کیا اس کے دوران درج ذیل دو اعتراضات واضح طور سے دور ہو جاتے ہیں :

۱۔ شیخ فخر الدین طریحی ؒنے اپنی مشہور کتاب " تمییز المشترکات" میں جو بیان کیا ہے کہ متقدمین کی توثیقات چونکہ حدس پر مبنی ہیں نہ کہ حس پر، اس لیے ان پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔

اور جواب: یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا، ان توثیقات کے حسّی ہونے کا احتمال موجود ہے، اور جب اس کے ساتھ عقلاء کے قانون " اصالۃ الحس" کو ملایا جائے تو معین ہو جاتا ہے کہ ان توثیقات کا ماخذ و منشأ حِسّ ہے۔

۲۔ بہت سے بیانات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقدمین کی توثیقات اگرچہ یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ حسّی بنیاد پر وجود میں آئی ہیں اور ایک ثقہ نے دوسرے ثقہ سے اور بڑے نے بڑے سے نقل کی ہیں، لیکن مثال کے طور پر نجاشی ؒجب کسی شخص کی توثیق کرتے ہیں تو وہ ان افراد کے نام ذکر نہیں کرتے جن پر وہ توثیق نقل کرنے میں اعتماد کرتے ہیں۔ اور جب ان کے نام ذکر نہیں کیے جاتے تو ان کی طرف سے وثاقت کی خبر ایک مرسل خبر کے حکم میں ہو جاتی ہے، اور مرسل خبر حجت نہیں ہے۔

اور اگر آپ چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں: کہ اگر نجاشی ؒخود امام علیہ السلام سے شرعی حکم ثقہ راویوں کے ایک سلسلے کے واسطے سے نقل کرتے اور ان کے ناموں کا اشارہ نہ کرتے تو کیا ان کا یہ نقل کیا جانا قابلِ قبول ہوتا؟ ہرگز نہیں، بلکہ ان کی یہ خبر مرسَل قرار پاتی اور حجیت سے ساقط ہو جاتی، اس احتمال کی وجہ سے کہ سند کے کسی ایک راوی میں جرح (یعنی قابلِ اعتماد نہ ہونے) کا پہلو موجود ہو۔

لہٰذا، اگر نجاشی ؒکی خبر احکام کے باب میں قبول نہیں کی جاتی جب وہ مرسَل ہو اور سلسلہ سند کے ناموں کی صراحت کے بغیر ہو، تو یہ ضروری ہے کہ اگر وہ وثاقت کو بھی مرسَل طور پر نقل کریں تو انہیں قبول نہ کیا جائے، کیونکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اور یہ اشکال نہایت دقیق اور قوی ہے، یہاں تک کہ بعض نے کہا: جو شخص مجھے اس کا حل پیش کرے، میں اُسے انعام دوں گا اور اُس کا شکر گزار رہوں گا۔

( رجوع کریں كتاب بحوث في علم الرجال للمحسني: ص ۴۵ )

اور اس کا جواب پہلے بیان کردہ باتوں کی روشنی میں یہ ہے: کہ ان جیسے افراد کی وثاقت اتنی ہی واضح ہونا ممکن ہے جتنی ہمارے نزدیک شیخ انصاری ؒاور آخوند ؒکی وثاقت واضح ہے، اور اس حد تک واضح ہوتے ہوئے نجاشی ؒکی زرارہ ؒکی وثاقت کی گواہی حدسی خبر نہیں ہوگی کہ یہ اعتراض وارد ہو کہ اسے حدس پر مبنی ہونے کی وجہ سے رد کرنا لازم ہے، اور نہ ہی یہ کسی شخص کی کسی دوسرے شخص کے حوالے سے خبر ہے کہ واسطے کے مجہول ہونے کے بعد یہ مرسَل خبر بن جائے، بلکہ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا پہلو ہے، اور وہ ہے " وضوح " (یعنی بات کا واضح و روشن ہونا)، جس کی بنیاد پر یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔

اور اگر کہا جائے کہ " وضوح " خبر دینے کا منبع نہیں ہو سکتا، ورنہ ہم شیخ ؒاور نجاشی ؒکے درمیان بعض صورتوں میں ہونے والے اختلاف کی کیسے تفسیر کریں گے؟ کہ شیخ ؒکسی شخص کی توثیق کرتے ہیں اور نجاشی ؒاسے ضعیف قرار دیتے ہیں یا اس کے برعکس۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے: کہ یہ اختلاف " وضوح " کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے اس زمانے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ میں اور آپ کسی ہم عصر شخص کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تو ہم میں سے ایک اس کی توثیق کرتا ہے اور دوسرا اسے فاسق قرار دیتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اپنی بات کو واضح اور درست سمجھتا ہے۔

یہ وہ باتیں تھیں جو مذکورہ اعتراض کو دور کرنے کے لیے کہی گئی ہیں، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس بات پر دوبارہ واپس آئیں گے جب ہم تیسرے نکتہ پر بات کریں گے جو رجالی کے قول کی حجیت کی وجہ پر بحث کرتا ہے۔

۳۔ متاخرین بزرگ علماء میں سے کسی کی صریح گواہی

علماء کے درمیان اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا متاخرین – جیسے علامہ ؒ، ابن طاؤس ؒ، ابن داؤد ؒاور شہید ثانی ؒ– کی توثیقات قابلِ قبول ہیں یا نہیں؟ مشہور رائے ان کے قابلِ قبول ہونے کی ہے، تاہم بعض علماء جیسے سید خوئی ؒاور دیگر نے اسے مسترد کیا ہے۔ اور دونوں میں سے ہر رائے کی اپنی خاص وضاحت ہے۔

متاخرین کی توثیقات حجّت نہیں ہے اس کا سبب

جنہوں نے متاخرین کی توثیقات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، انہوں نے اس پر یہ دلیل دی ہے کہ علامہ ؒجیسے شخص کی توثیقات دو باتوں میں سے کسی ایک سے خالی نہیں ہو سکتیں: یا تو وہ متقدمین کی توثیقات پر مبنی ہیں اگر متقدمین کی توثیق موجود ہو، یا اگر متقدمین کی کوئی توثیق نہ ہو تو وہ حدس اور اجتہاد پر مبنی ہیں، اور وہ حِسّ سے اور بعض ان رجالی کتابوں تک رسائی سے پیدا نہیں ہوئی ہیں جن تک متقدمین کو رسائی حاصل نہیں ہوئی تھی۔

اور یہ توثیق حِسّ سے پیدا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے: کہ شیخ طوسی ؒکے بعد سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اور شیخ طوسی ؒکے زمانے کے بعد جو بھی شخص کسی توثیق یا تضعیف کو نقل کرتا ہے، وہ دراصل خود شیخ طوسی ؒپر اعتماد کرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔

اور جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر متأخرین کے پاس کوئی ایسا طریقہ اور سلسلہ ہوتا جو شیخ طوسی ؒسے نہ گزرتا، تو وہ اس طریقے کا ذکر ضرور کرتے، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس جتنے بھی طریقے ہیں وہ سب شیخ طوسی قدس سرہ سے گزرتے ہیں، تو علامہ حلی ؒاپنی کتاب " الاجازۃ الکبیرۃ لبنی زھرۃ" (۱) میں ان تمام کتابوں تک اپنے سلسلہ کا ذکر کرتے ہیں جن سے وہ نقل کرتے ہیں اور وہ سب سلسلہ شیخ طوسی قدس سرہ پر ختم ہوتے ہیں۔

حوالہ:

(۱)-

اور جنہیں علامہ مجلسی نے اپنی کتاببحار الأنوار کے "مجلدِ اجازات" میں نقل کیا ہے۔

اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ علامہ ؒکے پاس کوئی ایسا مستقل طریق و سلسلۂ سند موجود نہیں تھا جو شیخ طوسی ؒکے سلسلے سے مختلف ہو۔

اس کے علاوہ، یہ بھی بعید ہے کہ متأخرین کے پاس کوئی مستقل طریق و سلسلہ موجود ہو جو شیخ طوسی ؒسے نہ گزرتا ہو، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو خود شیخ ؒکو اس کا علم ہوتا۔

متاخرین کی توثیقات قابل قبول ہونے پر دلیل

اس کے برعکس، دوسری رائے رکھنے والوں نے یہ دلیل دی ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ علامہ ؒجیسے علماء کو کچھ ایسی کتابوں تک رسائی حاصل ہوئی ہوں جن میں بعض راویوں کی توثیق کا ذکر ہو اور وہ کتابیں شیخ ؒاور نجاشی ؒکو دستیاب نہ ہوئی ہوں، کیونکہ کتنی ہی چیزوں پر متأخرین نے دسترس حاصل کی ہے جن پر متقدمین کو دسترس حاصل نہیں ہوئی تھی۔تو یہ ابن ادریس ؒہیں جن کو بعض اصولِ اربعمائہ تک رسائی حاصل ہوئی اور انہوں نے ان سے کچھ احادیث کو اخذ کیا اور ان سے اپنی کتاب " مستطرفات السرائر" کا آخری حصہ تالیف کیا۔

اور سید رضی الدین ابن طاؤس ؒکو ان میں سے ایک اور حصہ دستیاب ہوا اور انہوں نے اس میں سے کچھ اپنی کتاب " کشف المحجہ" میں درج کیا۔

اور ہمارے موجودہ دور میں سید محمد حجت ؒ، جو سید کوہکمری کے نام سے مشہور ہیں، کو سولہ اصلیں ملیں جنہیں انہوں نے " الاصول الستہ عشر" کے عنوان سے شائع کیا۔اور شیخ نائینی ؒاجود التقریرات جلد ۲، صفحہ ۹۹ پر نقل کرتے ہیں کہ محدث شیخ مرزا حسین نوری ؒکے پاس تقریباً پچاس اصلیں موجود تھیں۔

اور اگر یہ بات اصولِ اربعمائہ کے سلسلہ میں ثابت ہے تو رجالی کتابوں کے سلسلہ میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے کہ کچھ کتابیں متأخرین کو دستیاب ہوئیں اور متقدمین کو دستیاب نہ ہوئیں۔اور جہاں تک یہ دعویٰ ہے کہ اگر متأخرین کے پاس ان توثیقات تک کوئی ایسا طریقہ ہوتا جو شیخ طوسی ؒسے نہ گزرتا تو خود شیخ طوسی ؒاس سے مطلع ہوتے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ خود شیخ ؒکی بعض راویوں کی توثیقات پر اعتراض وارد ہوگا جب کسی راوی کی فقط انہوں نے توثیق کی ہو اور نجاشی ؒنے نہ کی ہو یا اس کے برعکس صورت حال ہو، کیونکہ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو کوئی طریق و سلسلہ حاصل ہوا ہوتا، تو لازم تھا کہ دوسرا بھی اس سے باخبر ہوتا۔

دونوں آراء میں سے صحیح رائے

اور ہماری نظر میں صحیح رائے وہ ہے جو متأخرین کی توثیقات کی حجیت سے انکار کرتی ہے۔

اور ہم اپنی گفتگو کو علامہ حلی ؒکی توثیقات پر مرکوز کریں گے، جو اس شعبہ میں متأخرین میں سب سے اہم ہیں، اور اس کے ذریعے دوسرے متأخرین کی توثیقات کا حال بھی واضح ہو جائے گا۔

اور ابتداء میں ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ وہ مقامات جہاں علامہ ؒنے توثیق کرنے میں شیخ طوسی ؒیا نجاشی ؒکی شرکت کے بغیر انفرادیت اختیار کی ہے، وہ انتہائی حد تک نادر ہیں۔

لہٰذا، اس بحث کا ثمرہ انہی نادر مقامات تک محدود ہے، کیونکہ مشترکہ مقامات میں تو شیخ ؒیا نجاشی ؒکی گواہی کی بنا پر توثیق کا حکم دیا جاتا ہے، اور علامہ ؒکی توثیق سے وابستہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

اور علامہ ؒکی توثیقات کی عدم حجیت کی وجہ : یہ ہے کہ ان کی شہادت پر اعتماد یا تو اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں " اصالۃ الحس" جاری کی جائے، جب یہ احتمال موجود ہو کہ ان کی بات کا ماخذ حس ہو، یا اس وجہ سے کہ وہ اہلِ خبرہ (ماہرین) میں سے ہیں۔ اور دونوں پہلو قابل غور و فکر ہیں۔

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے: تو اس بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ عقلاء کی سیرت علامہ ؒجیسے شخص کے بارے میں " اصالۃ الحس" پر اعتماد کرنے پر قائم ہو جن کے بہت سے کلام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ توثیق میں حدس پر اعتماد کرتے تھے۔

اور مثال کے طور پر ہم انہیں ابراہیم بن ہاشم کے حالات میں دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں: " اور میں نے ہمارے اصحاب میں سے کسی سے نہ تو ان کے بارے میں کوئی قدح (عیب/جرح) پائی اور نہ ہی صراحت کے ساتھ ان کی تعدیل و توثیق۔ اور ان سے مروی روایات کثیر ہیں۔ اور زیادہ راجح (زیادہ قرینِ قیاس) بات یہی ہے کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے " ۔

ان کی طرف سے اس اعتراف کے بعد کہ رجالی کتابیں ان کی توثیق سے خالی ہیں یہ عبارت استعمال کرنا کہ " اور قابل ترجیح بات یہ ہے کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے " یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی رائے قائم کرنے میں حدس اور اجتہاد سے کام لیا ہے۔

اور ابراہیم بن سلیمان بن عبداللہ کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " ابن غضائری نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے ۔۔۔ اور نجاشی ؒنے ان کی توثیق کی ہے، جیسا کہ شیخ ؒنے، تو اس صورت میں میرے نزدیک قوی یہ ہے کہ اس بات پر عمل کیا جائے جو وہ روایت کرتے ہیں " ۔

جرح و تعدیل کے تعارض کا اعتراف کرنے کے بعد ان کا " قوی ہے۔۔۔ " جیسے الفاظ استعمال کرنا اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے اپنی رائے قائم کرنے میں اجتہاد اور حدس سے کام لیا ہے۔

اور اسماعیل بن مہران کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " میرے نزدیک اقوی ہے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے کیونکہ شیخ ابو جعفر طوسی ؒاور نجاشی ؒنے ان کے ثقہ ہونے کی گواہی دی ہے " ۔

اور ادریس بن زیاد کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " میرے نزدیک اقرب یہ ہے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے کیونکہ نجاشی ؒنے ان کی تعدیل و توثیق کی ہے۔ اور ابن غضائری ؒکا قول اس کے مخالف نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے ادریس کی ذات پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کی عدالت پر طعن کیا ہے " ۔

اور احمد بن اسماعیل بن سمکہ کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " ہمارے علماء نے ان کی تعدیل و توثیق پر کوئی صراحت نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کے سلسلہ میں کوئی جرح وارد ہوئی ہے، لہٰذا اقوی ان کی روایت کو قبول کرنا ہے بشرطیکہ وہ معارض سے سالم ہو " ۔

اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ہیں جو ان کے اجتہاد اور نظر (فکری غور و فکر) کے استعمال پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ ہم بھی بعض راویوں کی توثیق میں ایسا ہی کرتے ہیں۔

جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے، یعنی کسی پر اعتماد کرنا اس بنیاد پر کہ وہ اہلِ خبرہ (ماہر) ہے، تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ علّامہ ؒکی مہارت ہم پر اس حد تک فوقیت رکھتی ہو کہ ان پر " اہلِ خبرہ " کا اطلاق درست ہو۔ کیونکہ یہ عنوان (اہلِ خبرہ) صرف اسی شخص پر صادق آتا ہے جو کتابوں اور کتب خانوں میں گہرائی سے تحقیق کرے اور وہ باتیں معلوم کرے جن تک ہم نہ پہنچ سکے ہوں۔ لیکن اگر اس شخص نے بھی محدود تعداد میں انہی کتابوں کو دیکھا ہے جن تک ہم بھی پہنچے ہیں اور اس سے زیادہ کتابوں پر نگاہ نہ کی ہو، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ انہوں نے اپنی رائے استعمال کی ہے، جیسا کہ ہم بھی بعض اوقات اپنی رائے استعمال کرتے ہیں، تو ان پر اہلِ خبرہ کا اطلاق درست نہیں، تو کیا یہ حق ہے کہ ہم علامہ ؒکے اہل خبرہ میں سے ہونے کا حکم لگائیں جبکہ انہوں نے ابراہیم بن ہاشم پر اعتماد کرنے کے لیے یہ بات کہی کہ : " میں (ہمارےاصحاب میں سے) کسی سے واقف نہیں ہوا ۔۔۔ اور زیادہ راجح ان کے قول کا قبول کرنا ہے " یا جب انہوں نے ابراہیم بن سلامہ پر اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ: " امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے وکیل تھے شیخ ؒنے ان کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا ہے۔ اور میرے نزدیک اقوی ان کی روایت کو قبول کرنا ہے " ۔

علامہ ؒاکثر اوقات اور نوے فیصد تک شیخ نجاشی ؒکی توثیقات پر اعتماد کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ مقامات میں حدس کے استعمال پر اعتماد کرتے ہیں، اور ایسا ہونا ان پر اہل خبرہ و ماہرین میں سے ہونے کی بات کے صادق آنے کو درست نہیں قرار دیتا کیونکہ ہم بھی بغیر کسی فرق کے یہی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ علامہ ؒکے پاس ایسی رجالی کتابیں تھیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں، جیسے ابن غضائری کی رجال، یا عقیقی کی رجال، یا ابن عقدہ کی رجال، تو پھر انہیں ہم پر کیوں فضیلت نہیں ہے؟

جواب یہ ہوگا کہ علامہ ؒتک مذکورہ کتابوں کا پہنچنا مہم نہیں ہے، کیونکہ ابن غضائری ؒکی رجال صحیح نسخہ کے ساتھ اور معتبر ذریعہ سے علامہ ؒتک پہنچی ہو اس بات پر ہمیں اطمینان نہیں ہے، کیونکہ شیخ طوسی ؒ "الفھرست" کے مقدمہ کے صفحہ ۲ پر نقل کرتے ہیں کہ ابن غضائری ؒنے " دو کتابوں کو عملی جامہ پہنایا، جن میں سے ایک میں انہوں نے " مصنفات " (تالیفات) کا ذکر کیا اور دوسری میں " اصول " کا، اور دونوں کو اس حد تک مکمل کیا جس حد تک انہوں نے پایا اور جس پر قادر تھے، مگر ان دونوں کتابوں کو ہمارے اصحاب میں سے کسی نے بھی نسخ (نقل) نہیں کیا، اور وہ رحمہ اللہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور اس کے بعض ورثاء نے – جیسا کہ بعض نے ان کے بارے میں نقل کیا ہے– ان دونوں کتابوں اور دیگر کتب کو ضائع کرنے کا اقدام کیا " ۔

اور جہاں تک سید علی بن احمد عقیقی کی رجال کا تعلق ہے، جو شیخ طوسی ؒسے پہلے کے دور کے ہیں، تو اس پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ علامہ نے سید عقیقی کا ذکر اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں کیا ہے جسے انہوں نے ان لوگوں کے ذکر کے لیے خاص کیا ہے جن پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔

اور جہاں تک رجالِ ابن عقدہ کا تعلق ہے تو وہ شیخ ؒاور نجاشی ؒکے پاس موجود تھی اور انہوں نے اس میں سے ہر چیز سے فائدہ اٹھایا اور علامہ ؒکے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا جس کے ذریعے وہ خبرویت و مہارت کا عنوان حاصل کر سکیں اور جس کے ذریعے ہم پر امتیاز حاصل کر سکیں۔

علامہ حلی ؒکے اقوال میں "اصالة العدالة"

کہا گیا ہے کہ علّامہ ؒکی توثیقات قبول کرنے میں تأمل و توقف کا امکان ہے، اس لحاظ سے کہ وہ بعض اوقات اپنی توثیق میں " اصالۃ العدالة" پر اعتماد کرتے ہیں، یعنی یہ کہ ہر وہ امامی راوی جس کے بارے میں نہ تضعیف آئی ہو اور نہ توثیق، اس کے بارے میں اصل عدالت ہے۔ اور چونکہ ہم اس اصل کو قبول نہیں کرتے، لہٰذا ہمارے لیے ان کی توثیقات پر اعتماد کرنا درست نہیں ہے۔

اور انہوں نے "اصالة العدالة" پر اعتماد کیا ہے اس بات کے ثبوت کے لیے ان کے کلام کے بعض مقامات پیش کیے گئے ہیں:-

۱۔ جو انہوں نے ابراہیم بن ہاشم کے حالات میں صفحہ ۴ پر ذکر کیا ہے، جہاں انہوں نے کہا ہے: " اور میں نے ہمارے اصحاب میں سے کسی سے نہ تو ان کے بارے میں کوئی قدح (عیب/جرح) پائی اور نہ ہی صراحت کے ساتھ ان کی تعدیل و توثیق۔ اور ان سے مروی روایات کثیر ہیں۔ اور زیادہ راجح (زیادہ قرینِ قیاس) بات یہی ہے کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے " ۔

علامہ ؒکا یہ فیصلہ کہ ابراہیم بن ہاشم کے قول کو قبول کرنا قابل ترجیح ہے فقط اسی وقت درست و کامل ہو سکتا ہے جب "اصالة العدالة" پر بنا رکھی جائے اور اسے اس شخص کے حق میں ثابت کیا جائے جس کے حق میں نہ کوئی ضعف وارد ہوا ہو اور نہ ہی توثیق وارد ہوئی ہو۔

۲۔ جو انہوں نے احمد بن اسماعیل بن سمکہ کے حالات میں صفحہ ۱۷ پر ذکر کیا ہے، جہاں انہوں نے کہا ہے: " اور ہمارے علماء نے ان کی تعدیل و توثیق پر کوئی نص قائم نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان کے سلسلہ میں کوئی جرح وارد ہوئی ہے، لہٰذا اقوی یہ ہے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے بشرطیکہ وہ معارض سے سالم ہو " ۔

میں کہتا ہوں: غالباً سب سے پہلے جس نے اصالتِ عدالت کو اختیار کرنے میں شہرت پائی وہ ابنِ جنید ؒہیں، کیونکہ شیخِ اعظم ؒنے رسالۂ عدالت میں، جو کتاب المكاسب کے آخر میں شامل ہے، صفحہ ۳۲۶ پر ذکر کیا ہے کہ عدالت کے معانی میں سے ایک معنی اسلام کا ہونا اور فسق کا ظاہر نہ ہونا ہے، جہاں انہوں نے کہا: یہ ابنِ جنید ؒسے منقول ہے اور مفید ؒنے اپنی کتاب " الاشراف " میں اور شیخ ؒنے کتاب " الخلاف " میں اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

لیکن علامہ ؒکی عبارت مذکورہ دونوں مقامات پر " اصالة العدالة" پر اعتماد کرنے کی بات میں صریح نہیں ہے۔ اور ان کی دیگر عبارتیں بھی ہیں جو زیادہ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ " اصالة العدالة" کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے، ان عبارتوں میں سے بعض کو ہم ذکر کرتے ہیں :

اسماعیل بن الخطاب کے حالات میں صفحہ ۱۰ پر ان کا قول، جب انہوں نے ایک روایت ذکر کی جس میں امام علیہ السلام اسماعیل پر رحمت کی دعا فرماتے ہیں، یہ کہتے ہوئے: اللہ اسماعیل بن الخطاب پر رحم کرے: تو علامہ ؒکہتے ہیں: " اور میرے نزدیک اس خبر کی نہ تو صحت ثابت ہے اور نہ ہی اس کا بطلان، لہٰذا اقوی یہ ہے کہ اس کی روایت میں توقف کیا جائے " ۔

تو اگر وہ " اصالة العدالة" پر بنا رکھتے ہوتے تو اسماعیل بن الخطاب کی روایت میں توقف کیوں کرتے؟

اور احمد بن حمزہ کے حالات میں صفحہ ۱۸ پر ان کا قول: " کشّی نے حمدویہ سے، اور انہوں نے اپنے مشائخ سے روایت کیا ہے کہ وہ وزیروں کی صف میں شمار ہوتا تھا، مگر میرے نزدیک اس سے اس کی عدالت ثابت نہیں ہوتی " ۔

اور بشیر النبال کے حالات میں صفحہ ۲۵ پر ان کا قول: " کشّی نے ایک حدیث روایت کی ہے ۔۔۔ یہ ان کی تعدیل و توثیق میں صریح نہیں ہے، لہٰذا میں ان کی روایت میں متوقف ہوں " ۔

اور ثویر بن ابی فاختہ کے حالات میں صفحہ ۳۰ پر ان کا قول، ان کے حق میں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد :

" اور یہ (قول) نہ تو مدح کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی قدح و عیب کا، لہٰذا ہم اس کی روایت کےسلسلہ میں متوقفین میں سے ہیں " ۔

اس کے علاوہ بھی ایسے کئی مقامات ہیں جو ان کے کلمات میں جستجو کرنے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

بلکہ ان کی کتاب کا خاص طریقہ ہی " اصالة العدالة" پر ان کے اعتقاد نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے، جہاں انہوں نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: پہلے حصے میں ان کو ذکر کرتے ہیں جن کی روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے، اور دوسرے حصے میں ان کو ذکر کرتے ہیں جن کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا، یا تو اس لیے کہ ان کا ضعف ان کے نزدیک ثابت ہو گیا ہے، یا ان کی توثیق و تضعیف میں اختلاف ہے، یا وہ ان کے نزدیک مجہول الحال ہے۔

بےشک، اگر وہ " اصالة العدالة" کے معتقد ہوتے، تو ان کے اس عقیدے کی بنیاد پر کسی مجہول الحال راوی کو دوسرے حصے میں ذکر کرنے کا کوئی مطلب نہیں تھا چونکہ یہ حصہ اُن راویوں کے لیے مخصوص ہے جن کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا بلکہ لازمی طور پر اسے پہلے حصے میں ذکر کرنا چاہیے تھا۔

تمرینات

س ۱: وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کی دو اقسام ہیں، بعض کو کسی خاص ضابطہ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور بعض کو نہیں۔ دونوں قسموں میں سے ہر قسم کی کچھ مثالیں بیان کیجیے، اور اس کی وضاحت کیجیے کہ ایک قسم کو معین ضابطہ میں کیوں بیان کیا جا سکتا ہے اور دوسری کو کیوں نہیں؟

س ۲: وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کے عنوان سے کیا یہ لازم آتا ہے کہ یہ طریقے حجت ہیں؟

س ۳: معصوم علیہ السلام کی کسی شخص کی وثاقت پر صریح گواہی وثاقت ثابت کرنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن یہ مطلق نہیں بلکہ ایک شرط کے ساتھ ہے۔ وہ شرط ذکر کیجیے؟

س ۴: بعض نے اس شرط سے دستبرداری اختیار کی ہے۔ ان کی دستبرداری کی وجہ اور اس پر اشکال کی کیفیت بیان کیجیے؟

س ۵: متقدمین رجالیوں میں سے کسی کی صریح گواہی وثاقت پر دلیل ہے، برخلاف متأخرین کی صریح گواہی کے۔ متقدمین اور متأخرین سے کیا مراد ہے؟

س ۶: وثاقت پر متقدمین میں سے کسی کی صریح گواہی حجت ہونے کی کیا وجہ ہے؟

س ۷: خبر ثقہ کبھی موضوعات میں واقع ہوتی ہے اور کبھی احکام میں۔ اس سے کیا مراد ہے واضح کیجیے؟

س ۸: وثاقت کے بارے میں خبر دینا آیا حکم کے بارے میں خبر دینا ہے یا موضوع کے بارے میں؟ اور کیوں؟

س ۹: " اصالة الحس" سے کیا مقصود ہے؟ اور اس پر کیسے استدلال کیا جاتا ہے؟

س ۱۰: کیا خبر ثقہ حجت ہے اگر وہ حدس سے پیدا ہوئی ہو؟ اور کیوں؟

س ۱۱: نجاشی جب زرارہ کے ہم عصر نہیں تھے تو ہم ان کی طرف سے کی گئی زرارہ کی توثیق کیسے قبول کرتے ہیں؟ جبکہ قبولیت کی شرط یہ ہے کہ خبر حِسّ سے پیدا ہوئی ہو اور ہم عصر نہ ہونے کی وجہ سے یہ شرط موجود نہیں ہے؟

س ۱۲: شیخ فخر الدین طریحی کا قدماء کی توثیقات پر کیا اعتراض ہے؟

س ۱۳: قدماء کی توثیقات پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ توثیقات مرسلہ ہیں۔ مذکورہ اعتراض اور اس اعتراض کے جواب کی کیفیت واضح کیجیے؟

س ۱۴: متأخرین کی توثیقات کی عدم حجیت کا سبب کیا ہے؟

س ۱۵: متاخرین کی توثیقات کی حجیت کے قائل کی دلیل کیا ہے؟ اور اس پر کیسے اشکال کیا جائےگا؟

س ۱۶: علامہ ؒکی توثیقات میں " اصالة الحس" کیوں جاری نہیں ہوتی؟

س ۱۷: اگر کہا جائے کہ علّامہ ؒکی توثیقات اس بنیاد پر حجت ہیں کہ وہ " اہلِ خبرہ " میں سے ہیں، تو ہم اس دعوے کو کس طرح رد کریں؟

س ۱۸: کیا علامہ ؒکا ابن غضائری ؒکی کتاب سے نقل پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

س ۱۹: کیا علامہ ؒکا سید عقیقی ؒسے نقل پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اور کیوں؟

س ۲۰: علامہ ؒکا رجالِ ابن عقدہ ؒسے نقل میں فائدہ کیوں ظاہر نہیں ہوتا؟

س ۲۱: " اصالة العدالة" سے کیا مراد ہے؟ اور علّامہ ؒکے اس پر اعتماد کی کس طرح تشریح کی جائےگی؟

س ۲۲: علامہ ؒکے " اصالة العدالة" پر اعتماد کے جو شواہد پیش کیے جاتے ہیں، ان کا جواب کس انداز سے دیا جائےگا؟

س ۲۳: کیا وسائل الشیعہ کے ابواب مقدمۃ العبادات کے باب ۱۷، حدیث ۱،کی سند صحیح ہے؟

۴۶

عملی تطبیقات

۱۔ حر عاملی ؒنے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں مقدمہ کے بعد سب سے پہلی حدیث اس طرح نقل کی ہے:

" محمد بن يعقوب الكليني رضي اللّه عنه عن ابي علي الأشعري عن الحسن ابن علي الكوفي عن عباس بن عامر عن إبان بن عثمان عن الفضيل بن يسار عن أبي جعفر عليه السّلام: بني الإسلام على خمس: على الصلاة و الزكاة و الحج و الصوم و الولاية"

(محمد بن یعقوب کلینی رضی اللہ عنہ، انہوں نے ابی علی اشعری سے، انہوں نے حسن بن علی کوفی سے، انہوں نے عباس بن عامر سے، انہوں نے ابان بن عثمان سے، انہوں نے فضیل بن یسار سے، وہ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور ولایت پر)۔

مذکورہ حدیث کو حر عاملی ؒنے کتاب الکافی سے نقل کیا ہے، اس کی دلیل ان کا قول " محمد بن یعقوب کلینی " ہے۔

اور مذکورہ سند کی صحت جاننے کے لیے اس کے رجال کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

جہاں تک محمد بن یعقوب کلینی ؒکا تعلق ہے تو وہ کسی تعارّف کے محتاج نہیں ہیں اور وہ دوپہر کے سورج کی طرح ہیں، تاہم، مزید معلومات کے لیے ہم نجاشی ؒکا ان کے حق میں قول ذکر کرتے ہیں: " یہ اپنے زمانے میں ری (شہر) میں ہمارے اصحاب (یعنی شیعہ علماء) کے شیخ اور ان کی نمایا شخصیت تھے، اور حدیث کے معاملہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ ثقہ اور سب سے زیادہ ثابت (پختہ) تھے۔ انہوں نے وہ عظیم کتاب تصنیف کی جو الکلینی کے نام سے مشہور ہے، اور اسے الکافی (۱)کہا جاتا ہے، اور اسے بیس سال میں مکمل کیا ۔۔۔ میں مسجد میں آیا جایا کرتا تھا، اور ہمارے اصحاب کی ایک جماعت ابو الحسین احمد بن محمد کوفی الکاتب کے سامنے " الکافی" کی قراءت کیا کرتی تھی ۔۔۔ " (۲) ۔

حوالہ جات:(۱)- رجال النجاشی میں عبارت اسی طرح ہے، اور بظاہر اس میں کوئی خلل (خرابی یا نقص) موجود ہے۔

(۲)-معجم رجال الحديث ۱۸: ۵۰

اور جہاں تک ابو علی اشعری کا تعلق ہے تو یہ احمد بن ادریس ؒکی کنیت ہے جو کلینی ؒکے شیخ ہیں اور کلینی ؒان کے حوالے سے الکافی میں کثرت سے روایت بیان کرتے ہیں۔ نجاشی ؒنے ان کے بارے میں کہا: " یہ ہمارے اصحاب میں ثقہ، فقیہ، کثیر الحدیث اور صحیح الروایۃ تھے " ۔ اور یہی مضمون شیخ طوسی ؒ (۱) نے بھی ذکر کیا ہے۔

اور جہاں تک تعلق حسن بن علی کوفی کا ہے تو یہ حسن بن علی بن عبد اللہ بن مغیرہ بجلی ہیں۔ نجاشی ؒنے ان کے بارے میں کہا: " ثقہ ثقہ (انتہائی ثقہ) " (۲) ۔

---حوالہ جات

(۱)- معجم رجال الحديث ۲: ۴۱

اور اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ہمارے لیے دونوں بزرگوں یعنی نجاشی یا شیخ میں سے کسی ایک کی توثیق کافی ہے، اور ان دونوں کی توثیق کا بیک وقت ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ سیرتِ عقلائیہ اسی پر جاری ہے کہ وثاقت ثابت کرنے کے لیے ایک کی توثیق پر اکتفا کیا جائے۔ البتہ، ان دونوں میں سے کسی ایک کی توثیق کافی تب ہے جب دوسرا تضعیف نہ کرے، ورنہ ساقط ہو جاتی ہے۔

(۲)- معجم رجال الحديث ۵: ۴۱

اور جہاں تک تعلق عباس بن عامر کا ہے تو ان کے بارے میں نجاشی ؒنے کہا: " شیخ، انتہائی سچے، ثقہ، کثیر الحدیث" [ (۱) ۔

اور جہاں تک تعلق ابان بن عثمان کا ہے تو ان کا ذکر نجاشی ؒاور شیخ ؒدونوں نے کیا ہے لیکن دونوں نے ان کی توثیق نہیں کی ہے، تاہم ان کی وثاقت کو کشّی کے اس دعوے سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ طائفہ و علماء شیعہ کا امام صادق علیہ السلام کے چھ اصحاب کی وثاقت پر اجماع ہے جن میں سے ایک ابان بن عثمان بھی ہیں۔ انہوں نے ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے: امام ابو عبد اللہ علیہ السلام کے اصحاب میں سے فقہاء کے نام، پھر کہا: " عصابہ (۲) کا اجماع ہے کہ ان (راویوں) کی طرف سے جو صحیح(۳)قرار دیا گیا ہے اسے صحیح قرار دیا جائےگا اور ان کے اقوال کی تصدیق کی جائےگی، اور ان کے حق میں فقاہت کا اقرار کیا جائےگا: جميل بن دراج، عبداللہ بن مسكان، عبداللہ بن بکير، حماد بن عثمان، حماد بن عيسى، اور أبان بن عثمان " (۴) ۔

مذکورہ اجماع کی حجیت کی وضاحت یہ کی جا سکتی ہے: کہ اگر مذکورہ اجماع واقع میں حق اور ثابت ہو تو یہ ان لوگوں کی وثاقت کی دلیل ہے، اور اگر (یہ اجماع) حقیقت میں ثابت نہ بھی ہو، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشّی ؒکی طرف سے اس اجماع کا دعویٰ بذاتِ خود ان چھے افراد کی وثاقت پر ایک ضمنی گواہی کا درجہ رکھتا ہے۔

اور اگر کہا جائے کہ ان لوگوں کی روایت کو صحیح قرار دیئے جانے پر اجماع وثاقت پر اجماع کو لازم نہیں کرتا، کیونکہ روایت کو صحیح قرار دیئے جانے کا مطلب اسے قبول کرنا ہے، اور کسی شخص سے روایت کو قبول کرنے کا مطلب اس شخص کی توثیق کرنا نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ روایت بعض خاص قرائن کے ساتھ ہونے کی وجہ سے قابلِ قبول ہو گئی ہو، جن قرائن نے اس کی سچائی کا علم و یقین پیدا کر دیا ہو۔

حوالہ جات: (۱)-سابقہ مأخذ ۹: ۲۲۷

(۲)-یعنی گروہِ شیعہ

(۳)- یعنی روایت کو مقبول شمار کیا جائےگا جب اس روایت کا ان افراد کے ذریعہ سے وارد ہونا ثابت ہو جائے۔

(۴)-معجم رجال الحديث ۱: ۱۵۷

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اس صورت میں ہے جب کسی شخص کی مخصوص روایت کو قبول کرنے پر اجماع منعقد ہوا ہو، لیکن اگر اس کی تمام روایات قبول کرنے پر اجماع منعقد ہو تو یہ اس کی وثاقت کے حکم کے مساوی ہے۔

اور جہاں تک فضیل بن یسار کا تعلق ہے تو ان کی توثیق شیخ ؒاور نجاشی ؒدونوں نے کی ہے۔ اور کشّی ؒنے ان کے حق میں کئی احادیث روایت کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام جب فضیل کو دیکھتے تو فرماتے :

" بشارت دو عاجزی و فروتنی کرنے والے افراد کو۔ جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ اہل جنّت میں سے کسی شخص کو دیکھے، تو اسے چاہیے کہ اس کو دیکھے " ۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب امام علیہ السلام اُسے دیکھتے، تو فرمایا کرتے: " خوش آمدید اُس شخصیت کو جس کی موجودگی زمین والوں کے لیے باعثِ سکون ہے " ۔

اور فضیل کی موت پر غسل دینے والے شخص سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ کہتا تھا: " میں فضیل کو غسل دے رہا تھا اور ان کا ہاتھ ان کی شرمگاہ کی طرف مجھ سے پہلے بڑھ رہا تھا، تو میں نے یہ بات ابو عبد اللہ علیہ السلام کو بتائی، تو آپ نے مجھ سے فرمایا: اللہ فضیل بن یسار پر رحم کرے اور وہ ہم اہلِ بیت سے ہیں۔ "

( معجم رجال الحديث ۱۳: ۳۳۵ )

اور ان سب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سند کے تمام رجال ثقہ ہیں اور روایت حجت ہے۔

۲۔ دوسری روایت حر عاملی ؒنے اس طرح نقل کی ہے:

" و عن علي بن إبراهيم عن ابيه و عبد اللّه بن الصلت جميعا عن حماد بن عيسى عن حريز بن عبد اللّه عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام قال: بني الإسلام ..."

( اور علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد اور عبد اللہ بن صلت سے، ان سب (دونوں) نے حماد بن عیسیٰ سے، انہوں نے حریز بن عبد اللہ سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے کہ آپ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔۔۔)

مذکورہ روایت کو حر عاملی ؒنے الکافی سے نقل کیا ہے، اس کی دلیل سند کا علی بن ابراہیم ؒسے شروع ہونا ہے، کیونکہ کلینی ؒنے ہی الکافی میں علی بن ابراہیم ؒسے روایت نقل کی ہے۔

علی بن ابراہیم ؒتفسیر قمی کے نام سے مشہور تفسیر کے مصنف ہیں، اور وہ تعارّف کے محتاج نہیں ہیں۔ اور نجاشی ؒنے ان کے حق میں کہا: " حدیث میں ثقہ، ثابت، قابلِ اعتماد، صحیح المذہب۔۔۔ " ۔( سابقہ مأخذ ۱۱: ۱۹۳ )

اور ان کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ کلینی ؒنے الکافی کی تقریباً ایک تہائی روایات ان سے نقل کی ہیں، اور ہم یہ ممکن نہیں جانتے کہ کلینی ؒاپنی کتاب کی ایک تہائی روایات ایسے شخص سے نقل کریں جسے وہ قابلِ اعتماد و ثقہ نہ سمجھتے ہوں، کیونکہ عقلمند آدمی کا یہ طریقہ نہیں ہو سکتا۔

اور جہاں تک ابراہیم بن ہاشم ؒکے نام سے مشہور علی ؒکے والد کا تعلق ہے تو ان کے بیٹے نے ان سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں۔ اور نجاشی ؒاور شیخ ؒنے ان کا ذکر بغیر توثیق کے کیا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ جو انہوں نے ان کے حق میں ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کوفی تھے جو قم منتقل ہوئے اور ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کوفیوں کی حدیثیں قم میں پھیلائیں۔

اور اس عبارت سے راوی کی مدح و تعریف کا فائدہ اٹھایا گیا ہے نہ کہ اس کی توثیق کا، اور اسی وجہ سے وہ روایت جس کی سند میں راوی کی مدح و تعریف ہو وہ " حسنہ " شمار ہوتی ہے نہ کہ " صحیحہ " ۔

( حسَنہ وہ روایت ہے جس کے تمام راوی یا ان میں سے بعض امامی ہوں اور ان کی مدح کی گئی ہو، لیکن ان کی تعدیل و توثیق نہ کی گئی ہو)

اور سید خوئی قدس سرہ نے ان (ابراہیم بن ہاشم) کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے ان کے بیٹے کی ان کی تفسیر میں ان کے حوالے سے روایت کرنے کو دلیل بنایا ہے، اور ان کے بیٹے نے تفسیر کے مقدمہ میں کہا ہے کہ وہ اپنی تفسیر کو ثقہ راویوں سے روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کی توثیق ثابت کرنے کے لیے ان کے کامل الزیارات کی اسناد میں وارد ہونے کو بھی دلیل بنایا ہے، جس کے مؤلف جعفر بن محمد ابن قولویہ ؒنے مقدمہ میں ان تمام افراد کی وثاقت کی گواہی دی ہے جن کا نام انہوں نے اس میں شامل کیا ہے۔

اور یہ اس شخص کے لیے ایک اچھا طریقہ ہے جو مذکورہ اصول پر اعتقاد رکھتا ہو، لیکن ہم توثیقاتِ عامہ کی بحث میں اس پر اشکال پیش کریں گے۔

اور ہماری نظر میں ان (ابراہیم بن ہاشم) کی توثیق ثابت کرنے کے لیے سب سے مناسب یہ کہنا ہے :

الف- کوفہ کے راویوں کی احادیث کو قم کی اُس علمی فضا میں جو سخت معیار رکھنے میں مشہور تھی عام کرنا ہم اُس وقت تک ممکن نہیں سمجھتے جب تک وہ احادیث کسی ایسے شخص کے ذریعے نہ آئی ہوں جو احادیث کے قابل قبول ہونے کے درجے پر ہو۔ اور وہ شخص صرف وہی ہو سکتا ہے جو ثقہ و قابلِ اعتماد ہو، بلکہ بہت اعلیٰ درجے کا ثقہ ہو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی سخت گیر علمی فضا میں ایسے شخص سے احادیث قبول کی جائیں جس کی وثاقت ثابت نہ ہو؟

ب- ان کے بیٹے (یعنی علی بن ابراہیم) نے اپنے والد (ابراہیم بن ہاشم) سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں، اور ہم یہ ممکن نہیں جانتے کہ یہ اتنی بڑی تعداد میں روایت کرنا اس حالت میں ہوا ہو کہ وہ اپنے والد کو قابلِ اعتماد و ثقہ نہ سمجھتے ہوں۔

اور جہاں تک تعلق عبد اللہ بن صلت کا ہے تو ان کے بارے میں نجاشی ؒنے کہا: " ثقہ ہے، ان کی روایت قابلِ اطمینان سمجھی گئی ہے " ( معجم رجال الحديث ۱۰: ۲۲۲ )

اور اس بات کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے کہ ہمارے لیے ان دو افراد – یعنی ابراہیم بن ہاشم یا عبد اللہ بن صلت – میں سے کسی ایک کی وثاقت ثابت ہونا ہی کافی ہے، اور ان دونوں کی وثاقت کا بیک وقت ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، اگرچہ اتفاق سے دونوں ثقہ ہوں۔

اور جہاں تک حماد بن عیسیٰ کا تعلق ہے تو یہ جھنی ہیں جو جحفہ میں غرق ہو گئے تھے۔ نجاشی ؒنے ان کے بارے میں کہا: " وہ اپنی حدیث میں ثقہ اور انتہائی سچے تھے " ۔

( معجم رجال الحديث ۶: ۲۲۴)

اور انہوں نے امام کاظم علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ انہیں گھر، بیوی، بیٹا، خادم اور ہر سال حج کی توفیق عطا فرمائے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: " خداوندا درود نازل فرما محمد و آل محمد پر اور انہیں گھر، بیوی، بیٹا، خادم اور پچاس سال تک حج عطا فرما " ۔ حماد ؒنے کہا: جب آپ علیہ السلام نے پچاس سال کی شرط لگائی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ میں پچاس سال سے زیادہ حج نہیں کروں گا، تو حماد نے کہا: اور میں نے اڑتالیس سال حج کیا، اور یہ میرا گھر ہے جو مجھے عطا ہوا ہے اور یہ میری بیوی پردے کے پیچھے میری بات سن رہی ہے اور یہ میرا بیٹا ہے اور یہ میرا خادم ہے اور مجھے یہ سب کچھ عطا ہو چکا ہے۔ اور اس کے بعد انہوں نے دو حج کیے جو پچاس پورے ہو گئے، پھر پچاس سال کے بعد حج کے لیے نکلے، تو جب وہ احرام کی جگہ پہنچے تو غسل کرنے لگے تو (اچانک) وادی (پانی کا بہاؤ یا ندی) آئی اور انہیں بہا لے گئی اور وہ غرق ہو گئے، اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ (۱)

اور جہاں تک حریز بن عبد اللہ کا تعلق ہے تو یہ سجستانی ہیں۔ شیخ ؒنے ان کے بارے میں کہا: " ثقہ کوفی " ۔

حوالہ جات:

(۱)- معجم رجال الحديث ۶: ۲۲۷

(۲)۔ معجم رجال الحديث ۴: ۲۴۹

اور حریز کے قتل کی وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سجستان میں اپنے اصحاب کے ساتھ رہتے تھے اور مذکورہ شہر پر شراۃ (۱) کا غلبہ تھا، اور وہ ان سے امیر المومنین علیہ السلام کی توہین و سب و شتم سنتے تھے تو حریز کو خبر دیتے اور ان سے یہ رائے طلب کرتے کہ جس سے یہ سنا ہے اسے قتل کر دیں، تو انہوں نے انہیں اجازت دی، تو شراۃ کو مسلسل ایک کے بعد ایک مقتول ملتے رہے اور وہ شیعوں سے ایسا ہونے کا احتمال نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کی تعداد کم تھی، اور وہ مرجئہ پر الزام لگاتے اور ان سے لڑتے تھے، اور جب انہوں نے حقیقتِ حال کو جان لیا تو وہ شیعوں کی تلاش میں نکل پڑے، چنانچہ حریز اور ان کے ساتھی مسجد میں جمع ہوئے، تو ان لوگوں نے مسجد پر حملہ کیا اور اس کی زمین ان پر الٹ دی۔ اللہ تعالیٰ حریز اور ان کے ساتھیوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔(۲)

حوالہ جات:

(۱)۔ یعنی خوارج۔

(۲) ۔ معجم رجال الحديث ۴: ۲۵۲.

اور حریز کی ایک کتاب ہے جسے کتاب الصلاۃ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور یہ مشہور کتابوں میں سے ہے جس پر اعتماد کیا جاتا ہے جیسا کہ صدوق ؒنے مقدمہ الفقیہ جلد ۱، صفحہ ۳ پر بیان کیا ہے۔

اور ایک دن حماد بن عیسیٰ امام صادق علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: " کیا تم اچھی طرح نماز پڑھنا جانتے ہو، اے حماد؟ " تو انہوں نے عرض کی: " اے میرے سید و سردار! میں نے نماز کے متعلق حریز کی کتاب یاد کی ہوئی ہے " ۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : کوئی بات نہیں، کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب انہوں نے اپنی وہ نماز پڑھی جو جعفر صادق علیہ السلام کے شیعوں سے مناسبت نہیں رکھتی تھی، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کے لیے کتنا برا ہے کہ اس پر ساٹھ یا ستر سال گزر جائیں اور وہ ایک بھی نماز اس کی تمام حدود کے ساتھ مکمل طور پر نہ پڑھ سکے۔(۱)

حوالہ(۱)- وسائل الشيعة باب ۱ من أبواب أفعال الصلاة حديث ۱

مذکورہ روایت حریز کی کتاب کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے یہاں تک کہ حماد نے اسے یاد کیا ہوا تھا۔

اور جہاں تک زرارہ کا تعلق ہے تو وہ تعارّف کے محتاج نہیں ہے۔ اور ان کی تعریف میں امام صادق علیہ السلام کا جمیل بن دراج سے فرمایا ہوا یہ قول ہمارے لیے کافی ہے: متواضع و خشوع اختیار کرنے والوں کو جنت کی بشارت دو: برید بن معاویہ عجلی، ابو بصیر لیث بن بختری مرادی، محمد بن مسلم اور زرارہ یہ چاروں نجیب (شریف و برگزیدہ) اور اللہ کے حلال و حرام پر امین ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو نبوت کی نشانیاں مٹ جاتیں اور (دین کے) آثار ختم ہو جاتے۔(۱)

حوالہ:

(۱)- معجم رجال الحديث ۷: ۲۲۲

۴۷

توجہ طلب بات

صاحبِ وسائل ؒنے مذکورہ روایت کے آخر میں یہ عبارت ذکر کی ہے:

" و رواه أحمد بن ابي عبد اللّه البرقي في المحاسن عن عبد اللّه بن الصلت بالاسناد المذكور "

(اور اسے احمد بن ابی عبد اللہ برقی نے المحاسن میں عبد اللہ بن صلت سے مذکورہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔

اس عبارت کا مقصد یہ اشارہ کرنا ہے کہ مذکورہ روایت صرف شیخ کلینی ؒنے ہی نقل نہیں کی ہے، بلکہ برقی ؒنے بھی اپنی مشہور کتاب المحاسن میں اسے نقل کیا ہے۔

اور برقی اسے عبداللہ بن صلت سے، انہوں نے حماد بن عیسیٰ سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے نقل کیا ہے جو کلینی کی روایت میں مذکورہ سابقہ سند ہی ہے۔

اور ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ جب ہمارے پاس کلینی ؒکا سابقہ سلسلہ سند صحیح ثابت ہو چکا ہے تو ہمیں برقی ؒکے دوسرے سلسلہ سند کی صحت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم فرض کریں کہ سابقہ سلسلہ سند صحیح نہ ہو تو ہم مذکورہ سلسلہ سند کی صحت کیسے ثابت کریں گے؟

ہمیں سب سے پہلے صاحبِ وسائل ؒکا برقی ؒتک کا سلسلہ سند جاننا ہوگا، پھر برقی ؒکا امام علیہ السلام تک کا سلسلہ سند جاننا ہوگا۔

جہاں تک صاحبِ وسائل ؒکا برقی ؒتک سند و طریق کا تعلق ہے تو وہ صحیح ہے، کیونکہ انہوں نے وسائل کی آخر میں یہ ذکر کیا ہے کہ وہ تمام کتابیں جن سے وہ روایت کرتے ہیں، جیسے کہ " المحاسن" وغیرہ، وہ ان تک متعدد اسناد کے ذریعے پہنچی ہیں، اور وہ تمام اسناد شیخ طوسی ؒپر ختم ہوتی ہیں۔

اور جب ہم شیخ طوسی ؒکی فہرست میں برقی ؒکے حالات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ان کا ایک معتبر سلسلہ سند ملتا ہے۔

اور اس طرح حر عاملی ؒکا برقی ؒتک کا سلسلہ سند صحیح ثابت ہو جاتا ہے۔

اور جہاں تک برقی ؒکا امام علیہ السلام تک کے سلسلہ سند کا تعلق ہے تو وہ کلینی ؒکے سلسلہ سند کے بیان میں پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ وہ صحیح ہے۔

اب ہمیں صرف یہ جاننا باقی رہ جاتا ہے کہ برقی ؒکا کیا مقام و مرتبہ ہے، اور چونکہ وہ ثقہ ہیں، لہٰذا اس سلسلہ سند میں اس پہلو سے بھی کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔

۳۔ صاحبِ وسائل ؒنے تیسری روایت میں اس طرح کہا ہے:

" و عن محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد عن علي بن النعمان عن ابن مسكان عن سليمان بن خالد عن أبي جعفر عليه السّلام قال الا (أخبرك بالاسلام) "

(اور محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے علی بن نعمان سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے سلیمان بن خالد سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے فرمایا کہ کیا نہ (بتاؤں میں تمہیں اسلام کے بارے میں؟۔۔۔)

اور یہ روایت بھی حر عاملی ؒنے الکافی سے نقل کی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے سند کا آغاز محمد بن یحییٰ سے کیا ہے جو کلینی ؒکے شیخ ہیں اور کلینی ؒان کے حوالے سے کثرت سے روایات بیان کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، انہوں نے اسے کلینی ؒسے نقل کردہ سابقہ دو روایات کے بعد ذکر کیا ہے، تو اگر وہ مثلاً شیخ طوسی ؒسے نقل کرنا چاہتے تو سند کا آغاز محمد بن حسن طوسی سے کرتے،

لیکن چونکہ وہ مسلسل کلینی ؒسے نقل کر رہے ہیں لہذا انہیں ہر بار کلینی ؒکا نام ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور مذکورہ سند کے حال کو جاننے کے لیے ہم کہتے ہیں :

جہاں تک محمد بن یحییٰ کا تعلق ہے تو یہ محمد بن یحییٰ عطار قمی اشعری ہیں جو کلینی ؒکے شیخ ہیں اور کلینی ؒنے ان کے حوالے سے الکافی میں کثرت سے روایات بیان کی ہیں۔ نجاشی ؒان کے بارے میں کہتے ہیں:

" وہ اپنے زمانے میں ہمارے اصحاب کے شیخ تھے، ثقہ، عین (یعنی انتہائی ممتاز و معتمد شخص) اور کثیر الحدیث تھے " (۱) ۔

اور جہاں تک احمد بن محمد کا تعلق ہے تو یہ احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری ہیں جو عظیم المرتبت اور کثرتِ روایت اور وثاقت کے لیے مشہور ہیں۔

مذکورہ نام اگرچہ کئی افراد کے درمیان مشترک ہے، لیکن ہم نے یقین کے ساتھ اسے ابن عیسیٰ اشعری قرار دیا ہے، محمد بن یحییٰ کی اس سے روایت کی بنیاد پر، کیونکہ محمد بن یحییٰ احمد بن محمد بن عیسیٰ سے روایت کرتے ہیں، اور وہ ان کے شاگرد اور ہم نشین تھے۔نجاشی ؒان کے بارے میں کہتے ہیں: " ابو جعفر رحمہ اللہ اہل قم کے شیخ اور ان کے نمایا فرد اور ان کے بلا تردید فقیہ تھے۔ اور یہ قائد بھی تھے جو سلطان سے ملاقات کرتے تھے۔ اور ان کی امام رضا علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی " (۲) ۔

حوالہ جات:

(۱)۔ معجم رجال الحديث ۱۸: ۳۰.

(۲) ۔ سابقہ مأخذ ۲: ۲۹۶.

اور جہاں تک علی بن نعمان کا تعلق ہے تو نجاشی کے بقول: " علی ثقة، باوقار (وجیہ)، مضبوط (ثبت)، درست عقیدے والا (صحیح) اور صاف و واضح طریقے پر چلنے والا شخص تھا " (۱) ۔

اور کہا گیا ہے کہ مسجد الحرام میں تین افراد جمع ہوئے جو صفوان بن یحییٰ، عبد اللہ بن جندب اور علی بن نعمان تھے، تو ان سب نے عہد کیا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی مر گیا تو جو باقی رہےگا وہ اپنی زندگی تک اس کی نماز پڑھےگا، روزہ رکھےگا، حج کرےگا اور زکوٰۃ ادا کرےگا۔ پس علی اور عبد اللہ وفات پا گئے اور صفوان ان کے بعد زندہ رہے، اور وہ ان کے لیے اس عہد کو پورا کرتے رہے (۲) ۔

حوالہ جات:

(۱)۔ معجم رجال الحديث ۱۲: ۲۱۵

(۲)- معجم رجال الحديث ۹: ۱۲۴

اور جہاں تک ابن مسکان کا تعلق ہے تو یہ عبد اللہ بن مسکان ہیں۔ نجاشی ؒان کے بارے میں کہتے ہیں: " ثقہ، عین (انتہائی ممتاز و معتمد شخص) " اور یہ امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ان چھ اصحاب میں سے ایک ہیں جن (کی وثاقت) پر اجماع ہے۔

اور کہا گیا ہے کہ وہ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں اس لیے حاضر نہیں ہوتے تھے کہ کہیں وہ مقامِ امامت کو وہ عظمت اور تعظیم پیش نہ کر سکیں جو اس مقام کا حق ہے (۱) ۔

اور جہاں تک سلیمان بن خالد کا تعلق ہے تو نجاشی ؒکے بقول: " وہ قاری، فقیہ، وجہ (معروف شخصیت)۔۔۔

حوالہ:

معجم رجال الحديث ۱۰: ۳۲۴

۴۸

اور وہ زید (ابن امام سجاد علیہ السلام) کے ساتھ خروج میں شامل ہوئے، اور امام ابو جعفر علیہ السلام کے اصحاب میں سے ان کے ساتھ جانے والے صرف یہی ایک تھے، پھر ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، اور وہ شخص جس نے خود ان کا ہاتھ کاٹا، وہ یوسف بن عمر تھا۔ اور وہ امام ابو عبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی زندگی میں وفات پا گئے، تو امام علیہ السلام نے ان کے فُقدان (انتقال) پر غم کا اظہار کیا، ان کی اولاد کے لیے دعا کی، اور اپنے اصحاب کو ان (کی اولاد) کی وصیت کی (یعنی ان کا خیال رکھنے کی ہدایت فرمائی)۔۔۔ " (۱) ۔

حوالہ:

معجم رجال الحديث ۸: ۲۴۵

۴۹

دیگر اسانید

صاحبِ وسائل ؒنے تیسری حدیث کی نقل کی تکمیل کے بعد یہ عبارت کہی ہے:

" و رواه البرقي في المحاسن عن أبيه عن علي بن النعمان. و رواه الشيخ باسناده عن الحسن بن محمد بن سماعة عن ابن رباط عن ابن مسكان عن سليمان بن خالد عن أبي عبد اللّه عليه السّلام عن رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله نحوه. و رواه الحسين بن سعيد في كتاب الزهد عن علي بن النعمان مثله إلى قوله الجهاد. و عن محمد بن يحيى عن أحمد ابن محمد بن عيسى عن ابن فضال عن ثعلبة عن علي بن عبد العزيز عن ابي عبد اللّه عليه السّلام نحوه. و رواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب عن محمد بن يحيى. و رواه الصدوق باسناده عن علي بن عبد العزيز. و رواه البرقي في المحاسن عن الحسن بن علي بن فضال مثله"

(اور اسے برقی نے " المحاسن" میں اپنے والد سے، انہوں نے علی بن نعمان سے روایت کیا ہے۔ اور شیخ نے اسے اپنی اسناد سے حسن بن محمد بن سماعہ سے، انہوں نے ابن رباط سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے سلیمان بن خالد سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے، آپ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور اسے حسین بن سعید نے کتاب " الزھد" میں علی بن نعمان سے ان کے قول " الجھاد " تک اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے ابن فضال سے، انہوں نے ثعلبہ سے، انہوں نے علی بن عبد العزیز سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور اسے شیخ نے اپنی اسناد کے ساتھ محمد بن یعقوب سے، انہوں نے محمد بن یحییٰ سے روایت کیا ہے۔ اور اسے صدوق نے اپنی اسناد کے ساتھ علی بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے۔ اور اسے برقی نے " المحاسن" میں حسن بن علی بن فضال سے اسی کی مثل روایت کیا ہے)۔

حر عاملی ؒکا اس عبارت سے مقصود مذکورہ حدیث کے لیے دیگر اسناد اور طریقوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اور اگر ہم اسے مزید مکمل طور پر واضح کرنا چاہیں تو اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے :

اول: مذکورہ حدیث کو برقی نے اپنی کتاب " المحاسن" میں اپنے والد سے، انہوں نے علی بن نعمان سے، انہوں ابن مسکان سے، انہوں نے سلیمان بن خالد سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے روایت کیا ہے۔۔۔

حر عاملی ؒنے اس سلسلہ میں علی بن نعمان اور امام علیہ السلام کے درمیان کے واسطوں کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے کیونکہ یہ واسطے اس سلسلہ سند اور الکافی میں ثابت شدہ سابقہ سلسلہ سند کے درمیان مشترک ہیں، لہٰذا اختصار کی خاطر انہوں نے دونوں سلسلہ سند کے درمیان کے مشترک واسطوں کو حذف کر دیا ہے۔

اور یہ سلسلہ سند بھی صحیح ہے کیونکہ حر عاملی ؒکا برقی تک کی سند صحیح ہے جیسا کہ دوسری حدیث کے ذیل میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

اور برقی خود ثقہ ہیں اور ان کے والد بھی ثقہ ہیں۔ اور علی بن نعمان سے لے کر امام علیہ السلام تک کے باقی تمام راوی بھی سب ثقہ ہیں اس حساب سے جو پہلے بیان ہوا تھا۔

دوم: مذکورہ حدیث کو شیخ طوسی ؒنے بھی " التھذیب" میں حسن بن محمد بن سماعہ تک کی اپنی سند سے، حسن بن محمد بن سماعہ نے ابن رباط سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے سلیمان بن خالد سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے۔

اور مذکورہ سلسلہ سند کا حال جاننے کے لیے شیخ طوسی ؒکی حسن بن محمد بن سماعہ تک کی سند جاننا ضروری ہے، اور اسے مشیخة التھذیب جلد ۱۰، صفحہ ۷۵ کی طرف رجوع کر کے دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے مذکورہ شخص تک اپنا سلسلہ سند ذکر کیا ہے۔

سوم: مذکورہ حدیث حسین بن سعید صاحبِ کتاب " الزھد" نے بھی علی بن نعمان سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے سلیمان بن خالد سے روایت کیا ہے۔

اور حر عاملی ؒکا حسین بن سعید تک کی سند جاننا ضروری ہے، اور وہ صحیح ہے جیسا کہ وسائل کے آخر میں ہے کیونکہ وہ سند شیخ طوسی ؒپر ختم ہوتی ہے اور ان کے پاس " الفھرست" میں حسین بن سعید تک ایک معتبر سلسلہ سند ہے۔

اور باقی یہ ہے کہ ہم حسین بن سعید سے لے کر امام علیہ السلام تک کی سند جانیں، اور وہ صحیح ہے۔

چہارم: مذکورہ حدیث کلینی ؒنے دوسری بار ایک اور مقام پر محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے ابن فضال سے، انہوں نے ثعلبہ سے، انہوں نے علی بن عبد العزیز سے روایت کی ہے۔

پنجم: شیخ طوسی ؒنے " التھذیب" میں دوسری بار کلینی ؒسے، انہوں نے " الکافی" میں محمد بن یحییٰ سے حدیث روایت کی ہے۔ اور جہاں تک محمد بن یحییٰ کا تعلق ہے تو انہوں نے حدیث احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے ابن فضال سے، انہوں نے ثعلبہ سے، انہوں نے علی بن عبد العزیز سے روایت کی ہے۔ اور صاحب وسائل ؒنے اسے گزشتہ بیان پر اعتماد کرتے ہوئے حذف کیا ہے۔

ششم: مذکورہ حدیث کو صدوق ؒنے بھی " الفقیہ" میں روایت کیا ہے علی بن عبد العزیز سے، انہوں نے امام علیہ السلام سے۔

اور جہاں تک صدوق ؒکی علی بن عبد العزیز تک کی سند کا تعلق ہے تو ضروری ہے کہ اس سند کے لیے " مشیخة الفقیہ" کی طرف رجوع کیا جائے۔

ہفتم: مذکورہ حدیث کو برقی ؒنے بھی " المحاسن" میں دوسری بار حسن ابن علی بن فضال سے روایت کیا ہے۔ اور جہاں تک ابن فضال کا تعلق ہے تو اس نے اسے ثعلبہ سے، انہوں نے علی بن عبد العزیز سے، انہوں نے امام علیہ السلام سے روایت کیا ہے۔ اور صاحب وسائل ؒنے گزشتہ بیان پر اعتماد کرتے ہوئے اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔

۴۔ صاحبِ وسائل ؒنے کہا:

" و عن علي بن إبراهيم عن ابيه و عن ابي علي الأشعري عن محمد بن عبد الجبار جميعا عن صفوان عن عمرو بن حريث انه قال لأبي عبد اللّه عليه السّلام ألا أقص عليك ديني ..."

(اور علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، اور ابو علی اشعری سے، انہوں نے محمد بن عبد الجبار سے، " جمیعا" (ان سب یعنی ان دونوں) نے صفوان سے، انہوں عمرو بن حریث سے کہ انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے عرض کی: کیا میں آپ کو اپنا دین نہ سناؤں۔۔۔؟)

مذکورہ حدیث کو حر عاملی ؒنے الکافی سے نقل کیا ہے، اس کی دلیل دوسری حدیث میں مذکور سابقہ قرینہ ہے۔

اور مذکورہ حدیث کو کلینی ؒصفوان سے، انہوں نے عمرو بن حریث سے دو سلسلہ اسناد سے نقل کرتے ہیں اور یہ دونوں :

الف۔ علی بن ابراہیم، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے صفوان سے، انہوں نے عمرو بن حریث سے۔

ب۔ ابو علی اشعری، انہوں نے محمد بن عبد الجبار سے، انہوں نے صفوان سے، انہوں نے عمرو بن حریث سے۔

اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا قول: " اور ابو علی اشعری سے، انہوں نے محمد بن عبد الجبار سے " یہ عطف ہو رہا ہے " اور علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے " پر۔

اور " جمیعاً " (سب) کا معنی یہ ہے کہ ابراہیم بن ہاشم اور محمد بن عبد الجبار دونوں نے حدیث صفوان سے روایت کی ہے۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حدیث کی صحت کے لیے اس کے دو میں سے کسی ایک سلسلہ سند کی صحت کافی ہے اور دونوں کی صحت ضروری نہیں ہے۔

اور دونوں سلسلہ سند کے حال کی تحقیق کے سلسلے میں ہم کہتے ہیں:

جہاں تک تعلق پہلے سلسلہ سند کے بارے میں تو علی بن ابراہیم اور ان کے والد کے بارے میں بات پہلے ہو چکی ہے کہ وہ دونوں ثقہ ہیں، حدیث ۲ کی طرف رجوع کریں۔

اور جہاں تک صفوان کا تعلق ہے تو یہ نام اگرچہ کئی راویوں میں مشترک ہے، لیکن ان میں سے مشہور اور جب صفوان کا نام مطلق(یعنی نام کے ساتھ بغیر کسی اضافے کے) آئے تو جس کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے وہ یا تو صفوان بن یحییٰ بیاع السابری ہیں یا صفوان بن مہران الجمال ہیں، اور نجاشی ؒکی گواہی کے مطابق دونوں ہی ثقہ ہیں (۱) ، اور اس صورت میں اس تعیّن میں بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ مراد یہ ہیں یا وہ۔

اور جہاں تک عمرو بن حریث کا تعلق ہے تو یہ ابو احمد صیرفی اسدی کوفی ہیں، نجاشی ؒنے جو بیان کیا ہے اس کے مطابق وہ ثقہ ہیں (۲) ۔

حوالہ جات:

(۱)- معجم رجال الحديث ۹: ۱۲۱، ۱۲۳

(۲)- سابقہ مأخذ ۱۳: ۸۵

۵۰

اور اس طرح یہ سلسلہ سند صحیح ثابت ہو جاتا ہے۔

اور جہاں تک تعلق دوسرے سلسلہ سند کا ہے تو یہ بھی صحیح ہے کیونکہ ابو علی اشعری کے بارے میں حدیث :۱ میں بیان ہو چکا ہے کہ وہ احمد بن ادریس ؒہیں جو ثقہ اور کلینی ؒکے شیخ ہیں۔

اور جہاں تک صفوان اور عمرو بن حریث کا تعلق ہیں تو ان کے بارے میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔

لہذا صرف محمد بن عبد الجبار باقی رہ جاتے ہیں اور وہ محمد بن ابی الصہبان ہیں اور شیخ طوسی ؒنے ان کے بارے میں کہا ہے کہ: یہ قمی ثقہ ہیں۔

( سابقہ مأخذ ۱۴: ۲۶۳ )

۵۔ اور چھٹی حدیث میں حر عاملی ؒنے جو کہا وہ یہ ہے:

" و عن محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد. و عن عدة من أصحابنا عن سهل بن زياد جميعا عن الحسن بن محبوب عن هشام بن سالم عن عبد الحميد بن أبي العلا عن أبي عبد اللّه عليه السّلام في جملة حديث ..."

(اور محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے۔ اور ہمارے چند اصحاب سے، انہوں نے سہل بن زیاد سے، سب نے حسن بن محبوب سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے عبد الحمید بن ابی العلاء سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے حدیث کے ضمن میں۔۔۔)

یہ حدیث حر عاملی ؒنے کلینی ؒکی الکافی سے نقل کی ہے، اس قرینہ کی وجہ سے جو پہلے بیان ہوا تھا۔

اور اس عبارت میں کلینی ؒہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مذکورہ حدیث نقل کرنے کے ان کے پاس دو سلسلہ سند ہیں۔

اور دونوں سلسلۂ اسناد کا اختتام حسن بن محبوب، انہوں نے ہشام بن سالم، انہوں نے عبد الحمید بن ابی العلاء پر ہوتا ہے۔

لہٰذا، سلسلہ سند میں تعدّد (یعنی راویوں کا مختلف ہونا) کلینی اور حسن بن محبوب کے درمیان حائل واسطے سے مخصوص ہے، اور جہاں تک تعلق اُس سلسلہ سند کا ہے جو حسن بن محبوب اور امام علیہ السلام کے درمیان ہے تو اس میں کوئی تعدّد نہیں ہے۔

اور اس بنا پر روایت کے دونوں سلسلہ اسناد کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے :

الف۔ محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسن بن محبوب سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے عبد الحمید بن ابی العلاء سے۔

ب۔ ہمارے چند اصحاب سے، انہوں نے سہل بن زیاد سے، انہوں نے حسن بن محبوب سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے عبد الحمید سے۔

اور پہلا سلسلہ سند صحیح ہے

کیونکہ محمد بن یحییٰ اور احمد بن محمد کے بارے میں حدیث : ۳ میں بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ اور جلیل القدر ہیں۔

اور جہاں تک حسن بن محبوب کا تعلق ہے تو یہ صاحبِ " کتاب المشیخہ" ہیں۔ اور شیخ طوسی ؒنے ان کے بارے میں کہا : کوفی ثقہ (۱) ۔

اور جہاں تک ہشام بن سالم کا تعلق ہے تو نجاشی ؒکے قول کے مطابق: ثقہ، ثقہ (انتہائی ثقہ) (۲) ۔

اور جہاں تک تعلق عبد الحمید بن ابی العلاء کا ہے تو یہ ازدی ہیں، نجاشی ؒکے قول کے مطابق ثقہ ہیں (۳) ۔

حوالہ جات:

(۱)- معجم رجال الحديث ۵: ۸۹

(۲)- سابقہ مأخذ ۱۹: ۲۹۷

(۳)- سابقہ مأخذ ۹: ۲۷۱

۵۱

اور جہاں تک تعلق دوسرے سلسلہ سند کا ہے تو اس کی ابتداء " عدۃ من اصحابنا " (ہمارے چند اصحاب) سے ہوتا ہے۔ اور یہ اصطلاح کلینی ؒکے ہاں رائج ہے اور کسی اور نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، اور اس وجہ سے، جب بھی " عدۃ من اصحابنا " کی اصطلاح آئےگی تو ہم جان جائیں گے کہ حدیث کلینی ؒسے منقول ہے۔

اور " عدۃ " کے افراد سے مقصود اور ان کی توثیق ثابت کرنے کے طریقے کے بارے میں کلام واقع ہوا ہے، اور ہم ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب کتاب الکافی کے متعلق اپنی بحث میں اس کا مطالعہ کریں گے۔

ہم یہاں مختصر طور پر یہ کہتے ہیں کہ سب کے نزدیک " عدة" کے معتبر ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے، اصل بحث اس بات میں ہے کہ فنی طور پر اس کا استنباط کیسے کیا جائے۔ لہٰذا ہمارا " عدة" پر بحث کرنا اس کے اعتبار میں شک پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ اس پر متفقہ اعتبار کے فنی استنباط میں اختلاف کی نشاندہی کرنا ہے۔

اور جہاں تک سہل بن زیاد کا تعلق ہے تو یہ علماء کے درمیان ایک طویل بحث کا موضوع رہے ہیں۔ اور ہم طالب علم کو ان کے بارے میں ایک تحقیق لکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ یہ ان کی رجالی معلومات کے لیے ایک کلید بن جائے۔

اور جہاں تک سند کے باقی افراد کا تعلق ہے تو ان کی وثاقت کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔

اور اس بنا پر دوسرا سلسلہ سند سہل بن زیاد کی وجہ سے قابلِ بحث و اشکال ہے، البتہ پہلے سلسلہ سند کے صحیح ہونے کے بعد یہ کوئی اہم بات نہیں۔

۵۲

ملاحظہ

پہلے بیان شدہ احادیث کو حر عاملی ؒنے کلینی رحمہ اللہ کی کتاب " الکافی" سے نقل کیا ہے۔ اب ہم وسائل کے دوسرے ابواب کی طرف منتقل ہوتے ہیں تاکہ ایسی احادیث کا مشاہدہ کریں جو الکافی کے علاوہ دیگر کتب سے نقل کی گئی ہیں۔

مطلق پانی کے ابواب، باب:۱، میں ان قدس سرہ نے یہ عبارت ذکر کی ہے :

۱۔ " محمد بن علي بن الحسين بن بابويه رضي اللّه عنه باسانيده عن محمد بن حمران و جميل بن دراج عن أبي عبد اللّه عليه السّلام ..."

(محمد بن علی بن حسین بن بابویہ رضی اللہ عنہ اپنی اسانید(۱) کے ساتھ محمد بن حمران اور جمیل بن دراج سے، انہوں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے ۔۔۔)۔

حوالہ :

(۱)- درست (لفظ) "إسناده" ہے، جیسا کہ تیمم کے ابواب میں باب نمبر ۲۳، حدیث نمبر ۱ میں وارد ہوا ہے۔

اس حدیث کو حر عاملی ؒنے " الفقیہ" سے نقل کیا ہے، اس پر قرینہ ان کا قول " محمد بن علی بن الحسین " ہے جو صدوق ؒہیں۔

اور روایت کی صحت جاننے کے لیے صدوق ؒکی محمد بن حمران اور جمیل تک کی سند کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔

اور جب ہم " مشیخة الفقیہ" جلد ۴، صفحہ ۱۷ پر رجوع کرتے ہیں تو ہم ان کے اس قول کو پاتے ہیں: " اور جو کچھ اس میں محمد بن حمران اور جمیل بن دراج سے ہے تو میں نے اسے اپنے والد رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے یعقوب بن یزید سے، انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے، انہوں نے محمد بن حمران اور جمیل بن دراج سے روایت کیا ہے " ۔

اور یہ سند صحیح ہے کیونکہ صدوق ؒکے والد جن کا نام علی بن الحسین بن بابویہ ؒہے، وہ کسی تعارّف کے محتاج نہیں ہے، کیونکہ جیسا کہ نجاشی ؒنے کہا: " وہ اپنے زمانے میں اہل قم کے شیخ اور ان کے متقدم و پیش رو اور ان کے فقیہ اور ان کے ثقہ تھے"

حوالہ: ۔ معجم رجال الحديث ۱۱: ۳۶۸

اور جہاں تک سعد بن عبداللہ کا تعلق ہے تو یہ اشعری قمی ہیں۔ نجاشی ؒنے ان کے بارے میں کہا: " یہ اس طائفہ کے شیخ، فقیہ اور وجہ (نمایا شخصیت) تھے " (۱) ۔ اور ان کا روایات میں کثرت سے ذکر آیا ہے۔

اور جہاں تک یعقوب بن یزید کا تعلق ہے تو نجاشی ؒکے قول کے مطابق وہ ثقہ صدوق (انتہائی سچے)ہیں (۲) ۔

اور جہاں تک محمد بن ابی عمیر کا تعلق ہے تو یہ کسی تعارّف کے محتاج نہیں ہیں، یہ ہمارے اور مخالفین کے نزدیک جلیل القدر اور عظیم المرتبت ہیں(۳)۔

حوالہ جات:

(۱)- معجم رجال الحديث ۸: ۷۴

(۲)- سابقہ مأخذ ۲۰: ۱۴۷

(۲)۔ سابقہ مأخذ ۱۴: ۲۷۹

۵۳

ور کہا گیا ہے کہ ہارون (رشید) نے انہیں اس لیے قید کیا تاکہ وہ شیعوں کے مراکز کی نشاندہی کرے، تو ان کی بہن نے ان کی (حدیثی) کتب کو اس کے تحفظ کی خاطر زمین میں دفن کر دیا، جس سے وہ تلف ہو گئیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کتب ایک کمرے میں تھیں، جن پر بارش کا پانی آ گیا، جس کی وجہ سے وہ تلف ہو گئیں، اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی یادداشت سے حدیثیں بیان کرنا شروع کر دیں اور ان کی مراسیل (مرسل روایات) کی کثرت ہو گئی۔

اور جہاں تک محمد بن حمران کا تعلق ہے تو ان کا ذکر شیخ ؒنے محمد بن حمران بن اعین کے عنوان سے کیا ہے اور ان کی توثیق نہیں کی جبکہ نجاشی ؒنے ان کا ذکر محمد بن حمران النہدی کے عنوان سے کیا اور ان کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں۔

اور یہ دونوں ایک ہی شخص ہے یا الگ الگ اس کے بارے میں بحث ہے، لیکن جمیل بن دراج کی وثاقت کے بعد اس مقام پر یہ بات مہم نہیں ہے۔

۲۔ حر عاملی ؒنے کہا: " کہا: اور صادق علیہ السلام نے فرمایا: ہر پانی پاک ہے سوائے اس کے جس کے بارے میں تمہیں معلوم ہو کہ وہ نجس ہے " ۔

اور (کہا سے) مقصود: صدوق ؒنے کہا: اور صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔۔۔

اور یہ روایت مرسل ہے۔ اور صدوق ؒکے یہاں ان کی کتاب " الفقیہ" میں ارسال کا رجحان بہت زیادہ ہے، اور یہ ان کے مخصوص رجحانات میں سے ایک ہے۔

اور اسی وجہ سے ان کی مراسیل کی حجیت پر بحث واقع ہوئی ہے۔

اور ایک رائے تفریق پر مشتمل ہے جو اس میں فرق کرتی ہے کہ اگر صدوق ؒنے امام علیہ السلام سے " قال الامام علیہ السلام" (امام علیہ السلام نے فرمایا) کے الفاظ میں ارسال کیا ہو اور اگر " روی عن الامام علیہ السلام " (امام علیہ السلام سے روایت کیا گیا ہے) کے الفاظ میں ارسال کیا ہو تو اول الذکر ( قال الامام علیہ السلام ) حجت ہے، جبکہ مؤخر الذکر (روی عن الامام علیہ السلام) حجت نہیں ہے۔ دعوی یہ ہے کہ جب بھی وہ امام علیہ السلام سے " قال " کے الفاظ میں ارسال کرتے ہیں تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہ روایت کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے پر یقین رکھتے ہیں، اور ان کے اس یقین کی وجہ سے ہم کہتے ہیں: کہ مذکورہ یقین حسّ سے پیدا ہونے اور حدس سے پیدا ہونے کے درمیان متردّد ہے، اور عقلائی اصول " اصالة الحس" کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کا یقین حسّ سے پیدا ہوا ہے اور اس وجہ سے یہ مرسل روایت حجت ہے۔

اور ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب " من لا یحضرہ الفقیہ" کی بحث کے دوران اس پر تفصیلی بحث آئےگی۔

۳۔ حر عاملی ؒنے کہا: " کہا: اور آپ علیہ السلام نے فرمایا ۔۔۔ " ، اور اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

۴۔ حر عاملی ؒنے کہا:

" محمد بن الحسن الطوسي رضي اللّه عنه باسناده عن محمد بن أحمد ابن يحيى عن يعقوب بن يزيد عن ابن أبي عمير عن داود بن فرقد عن أبي عبد اللّه عليه السّلام ..."

(محمد بن الحسن طوسی رضی اللہ عنہ اپنی اسناد کے ساتھ محمد بن احمد بن یحییٰ سے، انہوں نے یعقوب بن یزید سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے داود بن فرقد سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔۔۔)

اور یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب حر عاملی ؒنے اس مقام پر شیخ طوسی ؒسے نقل کرنا چاہا تو انہوں نے سند کا آغاز " محمد بن الحسن الطوسی " کہہ کر کیا، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے سابقہ نقل جو صدوق ؒسے تھا، اس سلسلہ کو ترک کر دیا ہے۔

اور شیخ ؒکا محمد بن احمد بن یحییٰ تک کا سلسلہ سند جاننے کے لیے "مشیخة التھذیب" جلد ۱۰، صفحہ ۷۱(۱)کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔

حوالہ:

اسی طرح اس کے لیے "الفھرست" کی طرف رجوع بھی ممکن ہے۔

۵۴

اور ان قدس سرہ نے سلسلہ کے چار اسناد بیان کیے ہیں، ہمارے لیے ان میں سے کسی ایک کی صحت کافی ہے اور وہ یہ ہے:

" الشيخ أبو عبد اللّه و الحسين بن عبيد اللّه و أحمد بن عبدون كلهم عن أبي محمد الحسن بن حمزة العلوي و أبي جعفر محمد ابن الحسين البزوفري جميعا عن أحمد بن ادريس عن محمد بن أحمد بن يحيى"

(الشیخ ابو عبد اللہ اور حسین بن عبید اللہ اور احمد بن عبدون یہ سب ابو محمد حسن بن حمزہ علوی اور ابو جعفر محمد بن حسین بزوفری سے، یہ سب ( یعنی دونوں) نے احمد بن ادریس سے، انہوں نے محمد بن احمد بن یحییٰ سے)۔

جہاں تک شیخ ابو عبد اللہ کا تعلق ہے تو یہ شیخ مفید ؒہیں،

اور ان کی وثاقت ہمیں حسین اور احمد کی وثاقت پر بحث سے بےنیاز کر دیتی ہے۔

اور جہاں تک تعلق حسن بن حمزہ علوی کا ہے تو یہ مرعش یا مرعشی کے نام سے مشہور ہیں اور نجاشی ؒکے قول کے مطابق اس طائفہ (گروہ امامیہ) کے جلیل القدر اور فقیہ ہیں (۱) ۔

اور جہاں تک بزوفری کا تعلق ہے تو ان کا ذکر نہ شیخ ؒنے کیا ہے اور نہ ہی نجاشی ؒنے (۲) ، اور ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے لیکن حسن بن حمزہ کی وثاقت کے بعد ان کی وثاقت کا ثابت نہ ہونا نقصاندہ نہیں ہے۔

اور جہاں تک احمد بن ادریس ؒکا تعلق ہے تو ان کے بارے میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ وہ ابو علی اشعری ثقہ، جلیل القدر اور کلینی ؒکے شیخ ہیں۔

حوالے:

(۱)-معجم رجال الحديث ۴: ۳۱۳

(۲)- سابقہ مأخذ ۱۵: ۲۹۰

اور جہاں تک محمد بن احمد بن یحییٰ کا تعلق ہے تو نجاشی ؒکے بیان کے مطابق یہ حدیث میں ثقہ ہیں۔اور یہ کثیر الروایت ہیں، اور ان کی کتاب " نوادر الحکمۃ" ہے جسے قم والے " دبة شبیب" کے نام سے جانتے ہیں۔

اور شبیب قم میں ایک شخص تھا جس کے پاس ایک " دبۃ" (برتن) تھا جس سے وہ جو بھی تیل مانگتا تھا اس سے دیتا تھا، تو انہوں نے اس کتاب کو اس سے تشبیہ دی (۱) ۔

اور جہاں تک یعقوب بن یزید اور ابن ابی عمیر کا تعلق ہے تو ان دونوں کے بارے میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔

اور جہاں تک داود بن فرقد کا تعلق ہے تو نجاشی ؒکے قول کے مطابق یہ کوفی (اور) ثقہ ہیں(۲)۔

حوالے:

(۱)۔ معجم رجال الحديثر ۱۵: ۴۴

(۲)۔ سابقہ مأخذ ۷: ۱۱۴

اور اس بنا پر روایت صحیح السند ہے۔

۵۔ حر عاملی ؒنے ساتویں حدیث میں کہا:

" محمد يعقوب الكليني رضي اللّه عنه عن علي ابن إبراهيم عن أبيه عن النوفلي عن السكوني عن أبي عبد اللّه عليه السّلام ..."

(محمد یعقوب کلینی رضی اللہ عنہ، انہوں نے علی ابن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نوفلی سے، انہوں نے سکونی سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ۔۔۔)۔

جہاں تک علی اور ان کے والد کا تعلق ہیں تو ان دونوں کے بارے میں پہلے بات ہو چکی ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔جہاں تک سکونی کا تعلق ہے تو ان کی توثیق کی کوئی راہ نہیں سوائے شیخ طوسی ؒکی " العدۃ " میں موجود اس عبارت کے کہ طائفہ (شیعہ علماء) نے ان کی روایات پر عمل کیا ہے، کیونکہ اس طرح کا بیان توثیق کا ایک اور انداز ہے۔اور جہاں تک نوفلی کا تعلق ہے تو یہ عام طور پر سکونی کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ان سے روایت کرتے ہیں۔ اور ان کے حق میں کوئی خصوصی توثیق وارد نہیں ہوئی ہے۔

ہاں، ان کا نام تفسیر قمی اور کامل الزیارات کی اسانید میں وارد ہوا ہے، لہٰذا جو شخص ان دونوں کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی مذکور ہر نام کی وثاقت کا قائل ہو، وہ مذکورہ شخص کی وثاقت کا بھی قائل ہوگا، لیکن مذکورہ اصول ہمارے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔

اور ایک اور طریقہ ہے جسے ہم مذکورہ شخص کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ طائفہ (شیعہ علماء) کا سکونی کی روایات پر عمل کے بارے میں اتفاق اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ نوفلی کو بھی ثقہ مانتے ہوں، کیونکہ اگر نوفلی کو ثقہ نہ مانا جائے تو سکونی کی روایات پر عمل کرنا ممکن ہی نہ ہوگا۔

اصل موضوع کی طرف واپسی

ہم پہلے - تطبيقات کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے- وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اور ہم اب دوبارہ ان طریقوں کی طرف آتے ہیں۔

۴۔ تصدیق یا توثیق پر اجماع کا دعویٰ

اور وثاقت ثابت کرنے کے دعویٰ شدہ طریقوں میں سے ایک راوی کی تصدیق یا توثیق پر اجماع کا دعویٰ ہے۔

چنانچہ کشّی ؒنے ائمہ علیہم السلام کے اٹھارہ راویوں کی تصدیق پر طائفہ (شیعہ علماء) کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ان میں سے چھ امام باقر اور صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے ہیں، اور وہ یہ ہیں: زرارہ، معروف بن خرّبوذ، برید، ابو بصیر اسدی، فضیل بن یسار، اور محمد بن مسلم طائفی [ ۔( رجال الكشي: رقم ۴۳۱ )

اور امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے چھ ہیں، اور وہ یہ ہیں: جمیل بن دراج، عبد اللہ بن مسکان، عبداللہ بن بکیر، حماد بن عیسیٰ، حماد بن عثمان، اور ابان بن عثمان (۱) ۔

اور امام کاظم اور رضا علیہما السلام کے اصحاب میں سے چھ ہیں، اور وہ یہ ہیں: یونس بن عبد الرحمن، صفوان بن یحییٰ بیاع السابری، محمد بن ابی عمیر، عبد اللہ بن مغیرہ، حسن ابن محبوب، اور احمد بن محمد بن نصر (۲) ۔

مذکورہ اجماع کی حجیت کی وضاحت: اگر کشّی ؒکا اجماع کا دعوی مطابقِ واقع ہوں اور طائفہ نے واقعی اس پر اجماع کیا ہو تو یہی مطلوب ہے، اور اگر وہ مطابقِ واقع نہ ہوں اور اس بارے میں کوئی اجماع موجود نہ ہو تو ہمارے لیے کشّی ؒکی خود کی شہادت ہی کافی ہے جو ہمیں مذکورہ اجماع نقل کرنے کے ذریعے ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہے،

حوالے:

(۱)- رجال الكشي: رقم ۷۰۵

(۲)- سابقہ مأخذ: رقم ۱۰۵۰

۵۵

کیونکہ ان کا اس اجماع کو نقل کرنا دراصل اس بات کی ضمنی گواہی ہے کہ وہ جس مضمون کو نقل کر رے ہیں وہ حق و درست ہے۔لیکن یہ بات اس وقت درست و کامل ہو سکتی ہے جب اجماع نقل کرنے والا متقدمین اکابرین میں سے ہو، لیکن اگر وہ متاخرین میں سے ہو جیسے ابن طاؤس ؒکا نقل کرنا کہ ابراہیم بن ہاشم ؒکی وثاقت پر اتفاق ہے، تو یہاں یہ بات درست و کامل نہیں ہوگی، کیونکہ متاخرین کی توثیق حجت نہیں ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

یہ بات اپنے مقام پر، لیکن سید خوئی ؒنے مذکورہ صورت حال میں حجیت کو قریب کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابن طاؤس ؒکا دعویٰ کم از کم قدماء میں سے کسی ایک کی اس شخص کی وثاقت پر شہادت کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ توثیق کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔( معجم رجال الحديث ۱: ۴۶ )

اور اس پر اشکال یہ ہے:

کہ ابن طاؤس ؒکے دعوے سے اگر واقعی اتفاق ثابت ہونا کشف و ظاہر نہ ہوتا ہو تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے بزرگ متقدمین علماء میں سے کسی ایک کی وثاقت کی گواہی بھی ظاہر و کشف نہ ہو، جیسا کہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ ابن طاؤس ؒکا اجماع کا دعویٰ تفسیر قمی کی اسناد میں ابراہیم بن ہاشم ؒکے وجود کو ملاحظہ کرنے اور – اس تفسیر کے مقدمہ کی عبارت کی وجہ سے- یہ خیال کرنے سے پیدا ہوا ہو کہ جو بھی نام اس میں آیا ہے اس کے ثقہ ہونے پر اتفاق ہے، جو ہو سکتا ہے یہ ابن طاؤس ؒکا اپنا خاص اجتہاد ہو جس کا ان کے علاوہ کوئی قائل نہ ہو۔

۵۶

۵۔ امام علیہ السلام کی طرف سے وکالت

اور ان طریقوں میں سے جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ وثاقت پر دلالت کرتے ہیں ایک امام علیہ السلام کا کسی شخص کو اپنے کسی کام میں وکیل بنانا ہے، کیونکہ ان حضرات علیہم السلام کے وکلاء دو اقسام کے ہوتے تھے: ایک تو وہ وکلاء جو امام علیہ السلام کی طرف سے عام نمائندگی کرتے تھے جیسا کہ سفراء اربعہ (نوابِ اربعہ) رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی صورت حال تھی، اور دوسرے وہ وکلاء جنہیں کسی خاص شعبہ میں خاص نمائندگی حاصل ہوتی تھی۔

اور پہلی قسم کی وکالت وکیل کے مقام کی بلندی اور اس کی شان کی رفعت پر دلالت کرتی ہے اس بات میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور اشکال فقط دوسری قسم کی وکالت میں ہے کیونکہ ائمہ علیہم السلام کے اس قسم کے بہت سے وکلاء تھے جن کی طرف اشارہ رجالی کتابوں میں کیا گیا ہے۔

چنانچہ بعض تو وکیل بنانے کو نہ صرف وثاقت بلکہ عدالت پر بھی دلالت ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر وکیل عادل نہ ہو تو اس کو وکیل بنانا حرام ہے کیونکہ یہ ظالم کی طرف جھکاؤ کی ایک قسم ہے جس سے قرآن کریم کی آیت:

" وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ"

(اور تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ (جہّنم کی) آگ تمہیں چھولے گی)-( هود: ۱۱۳ )

نے منع کیا ہے، جبکہ ہم دوسروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ وکالت کی وثاقت پر دلالت کا انکار کرتے ہیں اس دلیل سے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کے بہت سے وکلاء کے حق میں مذمت صادر ہوئی ہے۔

اور شیخ طوسی قدس سرہ نے اپنی کتاب " الغیبۃ" میں ان وکلاء کے لیے ایک خاص باب تشکیل دیا ہے جن کے حق میں مذمت صادر ہوئی ہے۔

اور جب وہ واقفہ فرقہ کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں بتاتے ہیں کہ اس عقیدے کو سب سے پہلے علی بن ابی حمزہ بطائنی، زیاد بن مروان قندی اور عثمان بن عیسیٰ رواسی نے ظاہر کیا تھا، انہوں نے دنیا کی لالچ کی اور اس کے مال کی طرف مائل ہوئے اور ایک قوم کو اپنی طرف مائل کر لیا اور انہیں ان اموال میں سے کچھ دیا جو انہوں نے خیانت سے حاصل کیا تھا۔

اور امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ بطائنی کو دفن کرنے کے بعد اسے اس کی قبر میں بٹھایا گیا اور ائمہ علیہم السلام کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ان کے نام بتائے یہاں تک کہ جب مجھ تک بات پہنچی تو اس سے پوچھا گیا تو وہ رک گیا تو اس کے سر پر ایک ایسی ضرب لگائی گئی کہ اس کی قبر آگ سے بھر گئی۔( معجم رجال الحديث ۱۱: ۲۱۷ )

یہ اپنے مقام پر، لیکن صحیح یہ ہے کہ وکالت وثاقت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ عقلاء کی سیرت اس بات پر جاری ہے کہ اگر کسی شخص کی سچائی پر اور اس کے جان بوجھ کر جھوٹ نہ بولنے پر مکمل وثوق حاصل نہ ہو تو اسے کسی خاص معاملے میں وکیل نہیں بنایا جاتا۔ اور آپ اپنی ذات پر اس کا تجربہ کریں تو آپ ہماری بات کو سچی پائیں گے۔

اور اگر کہا جائے کہ تو پھر آپ لوگ بہت سے وکلاء کے حق میں صادر ہونے والی مذمت کی کیسے تفسیر کریں گے؟

ہم جواب دیں گے کہ انحراف انہیں وکالت دیئے جانے کے بعد واقع ہوا تھا، تو کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن پر ہم بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں وکالت دیتے ہیں اور اس کے بعد وہ منحرف ہو جاتے ہیں۔

اور اگر کہا جائے کہ کسی شخص کو کسی خاص شعبہ میں وکیل بنانا اس شعبہ میں اس کی وثاقت کا تقاضا کرتا ہے، نہ کہ کسی دوسرے شعبہ میں، تو کسی شخص کو گھر بیچنے میں وکیل بنانا اس کی وثاقت اور گھر بیچنے کے شعبہ میں اس کے جھوٹ نہ بولنے کو لازم کرتا ہے، نہ کہ دوسرے شعبوں میں جیسے حدیث نقل کرنے کا شعبہ جو ہمارے زیر بحث ہے۔

جواب یہ ہے: کہ سمجھدار شخص جب تک اسے وکیل میں مطلق وثاقت کا یقین حاصل نہیں ہوتا وہ اسے وکیل بنانے کا اقدام نہیں کرتا کیونکہ جب تک اسے دوسرے شعبوں میں اس کے جھوٹ بولنے کا احتمال ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس خاص شعبے میں بھی سرایت کر جائے جس میں اسے وکالت دی گئی ہے۔

اور کم از کم امام علیہ السلام کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے بعض اہم معاملات ایسے شخص کے سپرد کریں جو بعض شعبوں میں خائن ہو۔

۶۔ ثقہ کی روایت

کیا ثقہ کا کسی شخص سے روایت کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ ثقہ جس طرح سے ثقہ سے روایت کرتا ہے، اسی طرح دوسروں سے بھی روایت کرتا ہے۔ اور کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ ثقہ راوی، غیر ثقہ راوی سے روایت کرتا ہے جیسا کہ یہ بات روایات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے، اور اگر کسی شخص سے ثقہ کا روایت کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلیل قرار پاتا تو اکثر راوی یا تمام ہی ثقہ قرار پاتے کیونکہ شیخ طوسی قدس سرہ ثقہ ہیں، تو جب انہوں نے کسی شخص سے روایت کی تو وہ بھی ثقہ ہو گیا اور دوسرے کی روایت تیسرے کی وثاقت کی دلیل ہو جائےگی اور اسی طرح سلسلۂ سند کے آخر تک۔

اور اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ میرزا حسین نوری صاحب مستدرک ؒکا یہ قول کہ کسی شخص سے ثقہ کی روایت اس شخص کی وثاقت کی دلیل ہے، قابلِ تأمّل و غور ہے۔

ہاں، اگر جلیل القدر ثقہ افراد اور ان کے اکابرین کسی شخص سے کثرت سے روایت کریں تو یہ اس شخص کی وثاقت کی دلیل ہونا بعید نہیں ہے - سید خوئی ؒاور ایک جماعت کے برخلاف جنہوں نے اسے بھی قبول نہیں کیا ہے ، کیونکہ عاقل ایسے راوی سے روایت کرنے کا اقدام نہیں کرتا جس کے ضعیف ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو، ایسا کرنا ایک بےوقوفی کا کام ہے جس کی ہمیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

اور یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے جو ٹھہرنے اور طویل غور و فکر کے لائق ہے، کیونکہ اگر ہم ثقہ کے (کسی شخص سے) کثرت سے روایت کرنے کو (اس شخص کی) وثاقت کی دلیل مان لیں تو بہت سے راویوں کی وثاقت ثابت ہو جائےگی اور وہ جہالت کی حالت سے وثاقت کی حالت میں آ جائیں گے۔

مثال کے طور پر، " محمد بن اسماعیل " کا ذکر کرتے ہیں، کلینی ؒنے محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے بہت سی روایتیں بیان کی ہیں۔ اور محمد بن اسماعیل سے مقصود کون ہے اس میں بحث واقع ہوئی ہے۔ وہ محمد بن اسماعیل بن بزیع جو ثقہ اور جلیل القدر ہیں وہ نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہ امام رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ کلینی ؒان سے کیسے روایت کر سکتے ہیں؟ لہٰذا، یہ متعین ہے کہ مقصود کوئی اور ہے۔ اور چونکہ اس دوسرے شخص کی وثاقت ثابت نہیں ہے، لہذا کلینی ؒکی مذکورہ روایات، ان کی کثرت کے باوجود اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہیں۔

جبکہ، اگر ہم مذکورہ رائے کو قبول کرتے اور یہ کہتے کہ کلینی ؒکے لیے ایسے شخص سے کثرت سے روایت کرنا مناسب نہیں ہے جس کے ضعیف ہونے کا وہ اعتقاد رکھتے ہوں، خاص طور پر جب وہ ان روایات کو اپنی اس کتاب میں درج کر رہے ہیں جو انہوں نے آئندہ نسلوں کے عمل کرنے کے لیے لکھی تھیں۔ ایک صاحبِ عقل اپنی کتاب میں ضعیف روایات درج کرنے پر راضی نہیں ہوتا، تو پھر یہ بات ایسے شخص سے کیسے ممکن ہے جس نے اپنی کتاب کو شروع سے ہی آئندہ نسلوں کے لیے ایک مرجع بنانے کی منصوبہ بندی کی ہو، اگر ہم مذکورہ رائے کو قبول کریں تو محمد بن اسماعیل کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔

اور جو بات ہماری دلیل کو مزید تقویت دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب ہم رجالی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ ضعیف راویوں سے روایت کرنا ان کے نزدیک شخصیت کے لیے عیب شمار ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ بعض راویوں کے حالات میں اس بات سے خبردار کرتے ہیں کہ وہ ضعیف راویوں سے روایت کرتا ہے، جیسا کہ عیاشی ؒاور کشّی ؒوغیرہ کی جانب سے بیان کردہ راویوں کے حالات میں ملتا ہے۔

اور جب ہم احمد بن محمد بن خالد برقی کے حالات پڑھتے ہیں تو یہ بات ملاحظہ کرتے ہیں کہ احمد بن محمد بن عیسیٰ نے انہیں قم سے نکال دیا تھا، کیونکہ وہ ضعیف راویوں سے روایت کرتے تھے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ثقہ راوی ایسے ضعیف راوی سے کثرت سے روایت نہیں کرتا جسے وہ اپنی نظر میں ضعیف سمجھتا ہو، لیکن مجہول الحال راوی سے روایت کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ تو اس دلیل کی بنا پر یہ فرض کرنا ممکن ہے کہ محمد بن اسماعیل کلینی ؒکے نزدیک مجہول الحال تھے، اور اس وجہ ان کی وثاقت ثابت نہیں ہوتی۔

جواب یہ ہے کہ جب تک مجہول الحال راوی اس کی روایت مردود ہونے کے معاملہ میں ضعیف کے حکم میں ہے، تو عاقل کا اس کے حوالے سے بھی کثرت سے روایت کرنا مناسب نہیں ہے۔

اور جب ہم رجالی کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک مجہول سے روایت کرنا ضعیف سے روایت کرنے کے مترادف ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آپ محمد بن مالک کے حالات میں نجاشی ؒکے کلام کو دیکھے کہ وہ کہتے ہیں: " کہا احمد بن حسین نے کہا کہ وہ حدیثیں وضع کرتا تھا اور مجاہیل سے روایت کرتا تھا۔ اور میں نے کسی کو کہتے سنا کہ وہ فاسد المذہب اور فاسد الروایت بھی تھا۔

اور مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے محترم ثقہ شیخ ابو علی بن ہمام اور ہمارے جلیل القدر اور ثقہ شیخ ابو غالب الزراری رحمھما اللہ نے ان سے کیسے روایت کی ہے " ۔

یہ سب کچھ اس کے علاوہ ہے کہ روایت کی کثرت بعض اوقات طویل صحبت کے ساتھ لازم آتی ہے، جس کے ساتھ یہ امکان نہیں رہتا کہ شخص مجہول الحال باقی رہے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ جب کثرتِ روایت وثاقت کی دلیل ہے، تو پھر ہم کیسے دیکھتے ہیں کہ بعض ضعیف راویوں سے اجلاء نے کثرت سے روایت کی ہے، جیسے محمد بن سنان، سہل بن زیاد، اور بطائنی وغیرہ، جن سے اجلاء نے کثرت سے روایت کی ہے۔

جواب یہ ہے: کہ اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا مانع ہے کہ یہ لوگ اجلاء کی نظر میں ثقہ تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے ان سے کثرت سے روایت کی اور یہ مقام تعدیل اور جرح کے تعارض کے مقامات میں سے ہو جائےگا، اور اسے ہمارے خلاف اعتراض کے طور پر درج کرنا صحیح نہیں ہے۔

ہاں، اعتراض تب صحیح ہوگا جب کوئی شخص سب کی نظر میں ضعیف ہو اور اس کے باوجود اجلاء نے اس سے کثرت سے روایت کی ہو، اور وہ صرف شیخ ؒاور نجاشی ؒکی نظر میں ضعیف نہ ہو۔ اور اس شکل کا ضعیف حاصل کرنا کہاں ممکن ہے؟

اور اگر یہ کہا جائے: کہ ثقہ جیسے کلینی ؒکا محمد بن اسماعیل سے کثرت سے روایت کرنا شاید ان کے نزدیک اس کی وثاقت کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ ان روایات کی حقانیت پر ان کے اطمینان کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے روایت کی ہیں، اور اسی اطمینان کی وجہ سے انہوں نے محمد بن اسماعیل سے نقل کرنے میں نرمی برتی اور ان سے کثرت سے روایت بیان کی۔

اور اگر ہم یہ امکان ظاہر کریں کہ کلینی ؒنے اپنے اطمینان پر اعتماد کیا تھا نہ کہ محمد بن اسماعیل کی وثاقت ثابت کرنے پر، تو ہم اس میں ایک دوسرا مقدمہ بھی شامل کریں گے، اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص کا اطمینان صرف اس کے لیے حجت ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے حجت نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ قرائن جن پر انہوں نے اپنے اطمینان کے حصول میں بھروسہ کیا ہو، اگر ہم ان قرائن سے واقف ہوتے تو وہ ہمارے لیے اطمینان کا باعث نہ بنتے۔

جواب یہ ہے:کہ اطمینان حاصل کرنے کے لیے سب سے اہم قرینہ جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، وہ روایت کا کسی ایسی اصل و بنیادی کتاب میں موجود ہونا ہے جس پر اصحاب اعتماد کرتے ہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ اصل و بنیادی کتاب میں روایت کا موجود ہونا محمد بن اسماعیل کی وثاقت کے ثابت ہونے پر موقوف ہے، اور واضح ہے کہ اصل میں روایت کا ہونا، محمد بن اسماعیل کی ثقہ ہونے کی صحت پر منحصر ہے، ورنہ اس کے جھوٹ بولنے اور اس اصل میں روایت درج کرنے میں دھوکہ دینے کا امکان ہو سکتا ہے۔

اور ممکن ہے کہ دیگر قرائن بھی موجود ہوں جن پر کلینی ؒنے اعتماد کیا ہو، جو محمد بن اسماعیل کی وثاقت کے پہلے سے ثابت ہونے پر موقوف نہ ہوں، اگرچہ یہ امکان موجود ہے، لیکن یہ محض ایک نظری احتمال ہے جس پر اعتنا نہیں کیا جاتا، کیونکہ ان کے نزدیک اہم قرینہ یہی ہے کہ روایت کسی معتبر کتاب میں موجود ہو، اس کے علاوہ کچھ نہیں، اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صدوق ؒاپنی کتاب کے مقدمے میں کہتے ہیں: اور اس میں جو کچھ بھی ہے، وہ مشہور اور معتبر کتابوں سے ماخوذ ہے جن پر اعتماد کیا جاتا ہے، تو اگر اس کے علاوہ کوئی اور قرینہ موجود ہوتا جو اس کے برابر یا اس سے قوی تر ہوتا، تو وہ اس کی طرف اشارہ کرتے۔

اور اگر یہ کہا جائے: کہ شاید کلینی ؒنے محمد بن اسماعیل سے کثرت سے روایت کرنے میں " اصالة العدالة" پر اعتماد کیا ہو نہ کہ ان کی وثاقت کے اثبات پر، اور چونکہ "اصالة العدالة" ہمارے نزدیک مسترد ہے، تو ان کی کثرتِ روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس سے محمد بن اسماعیل کی وثاقت کو کشف نہیں کیا جا سکتا۔

جواب یہ ہے: کہ ہم اس بات کو ممکن نہیں جانتے کہ کلینی ؒنے " اصالة العدالة" پر اعتماد کیا ہو، کیونکہ اس پر اعتماد کرنے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کلینی ؒنے ایک ایسے شخص کو پایا جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے انہیں ایک کتاب دی جس میں احادیث تھیں اور کلینی ؒنے اسے لیا اور اس سے اپنی کتاب الکافی درج کی، جس کتاب کے بارے میں ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ شیعوں کے لیے ان کے دین کے احکام میں ایک شرعی مرجع بنے، کلینی ؒنے ایسا اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے انہیں کتاب دینے والے محمد بن اسماعیل سے کوئی فسق نہیں جانا لہذا انہوں نے اس کے بارے میں " اصالة العدالة" پر اعتماد کیا۔

کلینی ؒکے حق میں ممکن نہیں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔

۷۔ شیخوخۃ الاجازۃ

کسی شخص سے روایت حاصل کرنے کی کئی صورتیں ہیں: کبھی شاگرد استاد سے روایت سنتا ہے، اور کبھی استاد شاگرد کو روایت پڑھ کر سناتا ہے، اور تیسری صورت یہ ہے کہ استاد شاگرد کو اجازت دیتا ہے، یعنی اسے وہ کتاب دیتا ہے جس میں اس نے روایات کو درج کیا تھا اور جمع کیا تھا اور اس سے کہتا ہے کہ میں نے تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم میرے حوالے سے اس میں موجود روایات بیان کرو۔

اور اس تیسری صورت کو اصطلاح میں روایت کو اجازۃ کے ذریعے تحمل کرنا کہتے ہیں۔ اسی طرح جس سے اجازت صادر ہوئی تھی اس صاحبِ کتاب کو اصطلاح میں " شیخ الاجازۃ" کہتے ہیں۔

اور اس بات پر بحث واقع ہوئی ہے کہ کیا کسی شخص کا مشائخ الاجازۃ میں سے ہونا اس کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

اور اس نقطے پر بحث انتہائی اہم ہے، کیونکہ شیخ طوسی ؒکو حدیثی اصولوں میں سے بہت سے ایسے اصول پہنچے ہیں جن سے انہوں نے اپنی کتابیں " التھذیب" اور " الاستبصار" تالیف کی ہیں، ان اصولوں کے درمیان ایسے افراد بھی تھے جن کی خصوصی توثیق واقع نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہ صرف مشائخ الاجازۃ میں سے تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر احمد بن محمد بن حسن بن ولید، جس سے شیخ طوسی ؒبعض اصول و بنیادی کتابیں شیخ مفید ؒکے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔ اور اسی طرح ہیں احمد بن محمد بن یحییٰ، اور احمد بن عبد الواحد جو ابن عبدون یا ابن الحاشر کے نام سے مشہور ہیں، اور علی بن محمد بن الزبیر القرشی، اور ابو الحسین بن ابی جید اور ان کے علاوہ۔

بلاشبہ اگر " شیخوخۃ اجازہ" وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو بہت سی روایات میں ان کی وجہ سے مشکل پیش آئے گی۔ یہی امر اس بات کا سبب بنا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے ایجاد کرنے پر غور کیا جائے۔ اور ہم ان میں سے بعض طریقوں کا ہم اس کتاب کے آخر میں، ان شاء اللہ تعالیٰ، جائزہ لیں گے۔

اور جن لوگوں نے توثیق ثابت کرنے کے لیے " شیخوخۃ الاجازۃ" کو کافی سمجھا ہے ان میں شیخ بحرانی ؒاپنی حدائق جلد ۶ صفحہ ۴۸ میں، اور شیخ آغا رضا ہمدانی ؒاپنی کتاب صلاۃ صفحہ ۱۲ میں اور ان دونوں کے علاوہ دیگر افراد شامل ہیں، بلکہ شاید یہی مشہور اور مروجہ رائے یہی ہے۔

البتہ بعض متاخرین جیسے سید خوئی ؒاور سید شہید ؒنے اسے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ " شیخوخۃ الاجازۃ" وثاقت پر دلیل نہیں ہے۔

سید خوئی ؒنے اس کی وضاحت اس طرح پیش کی ہے کہ اجازہ کا فائدہ بس اتنا ہے کہ شیخ مفید ؒ، مثال کے طور پر، اجازہ کی وجہ سے یہ کہنے کے حقدار ہو جائیں گے کہ مجھے خبر دی احمد بن محمد بن حسن بن ولید نے ان روایات کی جو اس کتاب میں موجود ہیں جس کی روایت کی انہوں نے مجھے اجازت دی ہے اور گویا انہوں نے یہ روایت ان سے سنی تھی۔

اور چونکہ ثقہ راوی کا کسی شخص سے روایت سننا اور اس سے نقل کرنا اس کی وثاقت پر دلالت نہیں کرتا – کیونکہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ثقہ کی کسی شخص سے روایت اس شخص کی توثیق پر دلیل نہیں ہے – لہٰذا " شیخوخۃ الاجازۃ" ہونا توثیق پر دلیل نہیں بن سکتی۔( معجم رجال الحديث ۱: ۷۷ )

اور اس پر ہم یہ کہہ کر اشکال کر سکتے ہیں: کہ اگر " شیخ الاجازۃ" ایسا شخص ہوں جو اس بات میں معروف ہو کہ اس سے کثرت سے اجازت لی جاتی ہے، تو یہ توثیق پر دلالت کے لیے کافی ہے، کیونکہ یہ بعید ہے کہ بڑے بڑے ثقہ افراد کسی ایسے شخص کے پاس جائیں اور اس سے کسی کتاب کی روایات بیان کرنے کی اجازت طلب کریں جس کی وثاقت ان کے نزدیک ثابت نہ ہو۔ اور اس کا تجربہ خود آپ اپنی ذات پر کریں، تو کیا آپ کسی ایسے شخص کے پاس جائیں گے اور اس سے کسی ایک یا دو کتابوں کی احادیث روایت کرنے کی اجازت لیں گے جبکہ آپ کے لیے اس کی وثاقت ثابت نہ ہو؟ !!

اور اگر آپ کہیں: جس بعید ہونے کی بات آپ نے بیان کی ہے، وہ اس بات سے رد ہو جاتی ہے جو شیخ صدوق ؒاپنی کتاب " عیون اخبار الرضا علیہ السلام " جلد ۲، صفحہ ۲۷۹ میں نقل کرتے ہیں کہ ان کے ایک شیخ جن کا نام احمد ابن الحسین بن احمد بن عبید نیشاپوری مروانی تھا، ناصبی تھا اور وہ اس سے زیادہ کسی ناصبی کو نہیں ملے، اور اس کی ناصبیت اس حد تک تھی کہ وہ کہتا تھا " اللہم صل علی محمد فرداً " (اے اللہ صرف محمد (ص) پر درود بھیج) اور آپ (ص) کے طیب و طاہر آل علیہم السلام پر درود پڑھنے سے گریز کرتا تھا۔

جواب یہ ہے : کہ یہ عقیدے کے فساد پر دلالت کرتا ہے، اور یہ وثاقت سے متصادم نہیں ہے۔

البتہ جو استبعاد (یعنی بعید سمجھنا) ہم نے ذکر کیا ہے، وہ خاصہ (شیعہ) کے مشایخِ اجازہ کے ساتھ مخصوص ہے، نہ کہ اس صورت میں جب وہ عامہ (اہلِ سنت) میں سے ہوں۔ کیونکہ جلیل القدر علماء بعض خاص مقاصد کے لیے عامہ سے بھی اجازتِ روایت حاصل کر لیتے ہیں، جیسا کہ شہیدِ اوّل رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس عامہ کی طرف سے دی گئی بہت سی اجازتیں موجود تھیں۔

اور اگر آپ کہیں: جب " شیخوخۃ" وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، تو شیخ ؒاور نجاشی ؒنے احمد بن محمد بن حسن بن ولید اور ان جیسے دیگر افراد کی وثاقت پر صراحت کیوں نہیں کی؟ ان افراد کی وثاقت پر صراحت نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان دونوں کے نزدیک وثاقت ثابت نہیں تھی۔

میں کہوں گا: سید بروجردی ؒنے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ رجالی کتب یعنی : رجال نجاشی، رجال کشی، اور رجال شیخ۔

جہاں تک رجال نجاشی کا تعلق ہے تو اس کا مقصد اصحابِ کتب کا احاطہ کرنا تھا، اور شاید احمد بن محمد اور ان جیسے دیگر افراد کی کوئی کتابیں نہیں تھیں۔

اور جہاں تک تعلق رجال کشّی کا ہے تو اس کا مقصد ان افراد کا ذکر کرنا تھا جن کے حق میں کوئی روایت موجود ہو، اور ان افراد کے حق میں کوئی روایت نہیں ہے۔

اور جہاں تک شیخ ؒکی رجال کا تعلق ہے تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ مسودے کی صورت میں تھی، اور شیخ ؒکا ارادہ یہ تھا کہ بعد میں دوبارہ اس کی طرف رجوع کر کے اسے منظم اور مرتب کریں، اور اس میں ذکر کیے گئے بعض افراد کے حالات کو واضح کریں، اس پر اس بات سے بھی دلیل ملتی ہے کہ بعض راویوں کے بارے میں صرف ان کا نام اور ان کے والد کا نام ذکر کیا ہے، بغیر اس کے کہ ان کے حالات کی مزید وضاحت کی ہو۔ اسی طرح بعض راویوں کا بار بار ذکر کیا ہے اور دیگر ایسی چیزیں جو اس بات کا گمان دلاتی ہیں کہ کتاب اپنے مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچی تھی، اور یہ سب کچھ شیخ ؒکی کثرتِ تالیف اور تصنیف میں مشغولیت کی وجہ سے تھا، اس طرح کہ اگر ان کی عمر کو ان کی تالیفات پر تقسیم کیا جائے تو ان کی رجال کی کتابت کے مقابلے میں چند گھنٹے ہی آتے ہیں۔

( نهاية التقرير ۲: ۲۷۰ )

۵۷

سید بحر العلوم ؒاور ایک جماعت کا مسلک

اور " مشائخ الاجازۃ" کے مسئلے کے حل کے لیے – اس بنیاد پر کہ " شیخوخہ" وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں – سید بحر العلوم ؒاور ایک جماعت نے ایک دوسرا مسلک اختیار کیا ہے، چنانچہ بحر العلوم ؒنے اپنی کتاب " رجال " میں سہل بن زیاد پر بحث کرتے ہوئے جلد تین ۳، صفحہ ۲۵ پر ذکر کیا ہے: کہ وہ روایت جس کی سند میں " مشائخ الاجازۃ" میں سے کوئی ایک شامل ہو وہ صحیح اور حجّت ہے، لیکن اس وجہ سے نہیں کہ " شیخوخۃ الاجازۃ" وثاقت کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ جن کتابوں سے روایت لی گئی ہے وہ معلوم اور متواتر تھیں، جس طرح ہمارے زمانے میں کتبِ اربعہ اپنے مؤلفین کی طرف نسبت کے اعتبار سے معلوم و مسلّم ہیں، اور ان سے روایت لینے کے لیے کسی معتبر سند کی ضرورت نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ بطورِ تبرّک اور تیمّن (برکت و نیک شگون) کی خاطر سند بیان کی جائے، اسی طرح اُس زمانے میں وہ اصول و بنیادی کتابیں بھی، جن سے روایات لی جاتی تھیں، اپنے مؤلفین کی طرف نسبت کے اعتبار سے معلوم تھیں، اور ان سے روایت لینے کے لیے بھی صحیح سند کی ضرورت نہ تھی، اور اس صورت میں، اگر " مشائخ الاجازۃ" یا دیگر راویوں میں سے کوئی شخص جس کی وثاقت ثابت نہ ہو، سند کے اندر موجود ہو، تو اس کا ہونا کوئی ضرر نہیں پہنچاتا، جب تک سلسلہ سند ذکر کرنے کا مقصد صرف تبرک و تیمن ہو اور اس سے زیادہ نہ ہو۔

اور ان قدس سرہ نے مزید کہا: اور شیخ طاب ثراہ کا طریقہ اس پر متوجہ کرتا ہے، کیونکہ وہ کبھی مکمل سند ذکر کرتے ہیں جیسا کہ قدماء کا معمول تھا اور کبھی مشائخ کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف روایات کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، اور یہ صرف اس لیے ہے کہ مشائخ کے ذکر کرنے یا ترک کرنے سے سند کے حالت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ہے۔

اور شیخ نوری ؒنے اپنی مستدرک جلد ۳، صفحہ ۳۷۳ پر تیسرے فائدے کے آغاز میں اس طریقے کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے شہید ثانی ؒاور دیگر کی طرف منسوب کیا ہے۔

اور جن لوگوں نے اسے اختیار کیا ہے ان میں حر عاملی ؒبھی اپنی کتاب " وسائل الشیعہ " میں فائدۂ پنجم کے آغاز میں شامل ہیں۔ اور فائدۂ نہم میں انہوں نے جن کتابوں سے روایات لی گئی ہیں ان کی صحت اور تواتر پر دلالت کرنے والے بعض قرائن کا ذکر کیا ہے اور انہیں بائیس قرائن تک پہنچایا ہے۔

اور شاید یہ بات شیخ تستری رحمہ اللہ کی قاموسِ رجال سے بھی ظاہر ہوتی ہے، تو رجوع کریں۔

اور ہم، اِن شاء اللہ تعالیٰ، کسی مناسب دوسرے مقام پر اس طریقۂ کار اور اس کے اندازِ بحث کا جائزہ لیں گے، البتہ فی الحال ہم یہ کہتے ہیں: کہ خود سید بحر العلوم ؒنے جلد ۴، صفحہ ۴۷ پر بعض فوائد کے ذکر میں کہا ہے کہ وہ کتابیں متواتر نہیں ہیں اور اس پر بعض شواہد پیش کیے ہیں، اور ایسی صورت میں صحیح سند کی ضرورت اپنے مقام پر برقرار رہتی ہے۔

۸۔ ایسی سند میں واقع ہونا جس پر صحت کا حکم لگایا گیا ہو

جب ہمارے پاس کسی کتاب یا کسی معین راوی کی سند ہو اور توثیق میں جن اکابرین کی بات قبول کی جاتی ہے ان میں سے کسی نے اس پر صحت کا حکم لگایا ہو اور یہ فرض کیا جائے کہ اس سند میں شامل کسی راوی کی توثیق یا تضعیف پر کوئی وضاحت موجود نہ ہو، تو کیا اس راوی پر اس سند کے صحیح ہونے پر لگائے گئے حکم کی وجہ سے وثاقت کا حکم لگایا جائےگا جس سند میں وہ راوی واقع ہے؟

بعض اس کے قائل ہیں، یعنی اس شخص کی وثاقت کو اس سند کے صحیح ہونے کے حکم سے کشف کیا جائےگا جس میں وہ واقع ہے۔

مثال کے طور پر، محمد بن حسن بن ولید - جو صدوق ؒکے استاد اور معززین و اکابرین میں سے ہیں - کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے محمد بن احمد بن یحییٰ - جو خود بھی اجلاء و اکابرین میں سے ہیں - سے منقول روایات کی صحت کا حکم لگایا ہے، چاہے وہ کسی بھی سند سے ہوں، سوائے بعض خاص روایات کے جو مخصوص اسانید میں وارد ہوئی ہیں۔

اس مسلک کی بنا پر جو سند کے صحیح ہونے کے حکم سے وثاقت کشف کرنے کا قائل ہے، لازم آئےگا کہ محمد بن احمد بن یحییٰ سے منقول روایات کی سند میں شامل تمام افراد کی وثاقت کا حکم لگانا جائے، بشرطیکہ وہ مستثنیٰ افراد میں سے نہ ہوں۔

اور اس پر یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ قدماء کے ہاں روایت پر صحت کا حکم لگانے کا مطلب اس روایت پر عمل کرنا ہے، اور یہ واضح ہے کہ کسی خاص روایت پر عمل کرنا جس طرح سے اس کے راویوں کے ثقہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے، اسی طرح سے عمل کرنے والے کے اس اعتقاد کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ روایت بعض خاص قرائن سے گھری ہوئی ہے۔ اور یہ ممکن ہے کہ اگر ہم ان قرائن سے مطلع ہوتے تو وہ ہماری نظر میں معتبر نہ ہوتے۔

اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ اعتراض اس مثالِ مذکورہ میں درست نہیں ہے، اگرچہ دوسری صورتوں میں یہ قابلِ لحاظ ہے، اس قرینہ کی وجہ سے کہ ابنِ ولید نے مخصوص روایات کو مستثنیٰ نہیں کیا، بلکہ مخصوص اشخاص کو مستثنیٰ کیا ہے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں محمد بن احمد یحییٰ کی تمام روایات پر عمل کرتا ہوں سوائے اِس یا اُس روایت کے، بلکہ انہوں نے کہا سوائے فلاں اور فلاں کی روایات کے، تو اگر ان کا ان روایات پر عمل کرنا جن کے صاحبان کو انہوں نے مستثنیٰ نہیں کیا تھا، قرائن کی وجہ سے ہوتا تو روایات کو مستثنیٰ کرنا مناسب ہوتا کیونکہ وہ قرائن سے گھری ہوئی ہیں نہ کہ خود افراد کو۔

اور سید خوئی ؒنے اس طریقے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ابن ولید کا کسی سلسلہ سند کی صحت پر حکم لگانا اس کے راویوں کی وثاقت پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے " اصالة العدالة" پر اعتماد کیا ہو اور ہر اس مؤمن کی بیان کردہ روایت کی حجیت پر اعتقاد رکھا ہو جس سے فسق ظاہر نہ ہوا ہو۔

( معجم رجال الحديث ۱: ۷۴ )

اور مذکورہ اعتراض کو اس طرح دفع کیا جا سکتا ہے کہ یہ احتمال اگرچہ ابن ولید کے کلام میں موجود ہے، لیکن ابن نوح کے کلام میں موجود نہیں۔

اس کی وضاحت: نجاشی ؒنے اپنی فہرست میں محمد بن احمد بن یحییٰ کے حالات میں کہا: اور محمد بن حسن بن ولید، محمد بن احمد بن یحییٰ کی روایت سے وہ تمام روایتیں مستثنیٰ کرتے تھے جو انہوں نے محمد بن موسیٰ ہمدانی سے روایت کی ہیں، اور وہ جو " عن رجل " کہہ کر روایت کی ہیں، یا " بعض اصحابنا " کہا ہے، یا محمد بن یحییٰ المعاذی سے روایت کی ہے ۔۔۔ یا محمد بن عیسیٰ بن عبید سے روایت کی ہے ۔۔۔ پھر انہوں نے مزید کہا جو اس طرح سے ہے:

" ابو العباس بن نوح (۱) نے کہا: اور ہمارے شیخ، ابو جعفر محمد بن حسن ابنِ ولید نے اس تمام معاملے میں درست رائے قائم کی ہے، اور ابو جعفر ابن بابویہ رحمہ اللہ نے بھی اس پر عمل کیا ہے سوائے محمد بن عیسیٰ بن عبید کے سلسلہ میں، تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے، کیونکہ وہ ظاہر العدالۃ اور وثاقت پر تھے " ۔

ابن نوح کا کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ محمد بن احمد بن یحییٰ کے تمام راویوں کی عدالت کی گواہی دے رہے ہیں، جن میں محمد بن عیسیٰ بن عبید بھی شامل ہے اس لیے کہ انہوں نے کہا: " کیونکہ وہ ظاہر العدالۃ اور وثاقت پر تھے " تو اگر ابن نوح کے نزدیک معیار " اصالة العدالة" کا اصول ہوتا تو ان کے لیے یہ کہنا مناسب ہوتا کہ " کیونکہ ان کا ضعف ثابت نہیں ہوا " ، اور ان کے لیے " کیونکہ وہ تھے...(ظاہر العدالۃ اور وثاقت پر) " کہہ کر علت پیش کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

حوالہ:(۱)-نجاشی نے ان کے بارے میں کہا: "احمد بن نوح بن علی بن عباس بن نوح سیرافی – بصرہ کے رہائشی – اپنی حدیث میں ثقہ تھے، جو کچھ روایت کرتے تھے اس میں پختگی رکھتے تھے، فقیہ تھے، حدیث اور روایت میں بابصیرت تھے، اور وہ ہمارے استاد، شیخ اور اُن میں سے تھے جن سے ہم نے استفادہ کیا"۔

یہ سب اس کے علاوہ ہے کہ اگر انہوں نے " اصالة العدالة" پر اعتماد کیا ہوتا تو مناسب تھا کہ باقیوں کی عدالت پر بھی حکم لگائے کیونکہ " اصالة العدالة" پر اعتماد کے عنوان سے ان کی عدالت پر حکم لگانے میں ان کا " ظاہر العدالة " نہ ہونا مانع نہیں ہے۔

اور صحیح یہ ہے کہ دونوں بیانات باطل ہیں۔

جہاں تک پہلے بیان کا تعلق ہے، تو جس طرح یہ علت پیش کرنا صحیح ہے کہ " ان کا ضعف ثابت نہیں ہوا " ، اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ " وہ ظاہر العدالۃ پر ہیں " ۔ کیونکہ جب ایک قوی علت موجود ہو تو ضعیف کی طرف جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جہاں تک دوسرے بیان کا تعلق ہے، تو چونکہ محمد بن عیسیٰ کے ظاہر العدالۃ پر ہونے کا دعویٰ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ مستثنیٰ شدہ دیگر افراد ظاہر الفسق پر نہیں تھے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ظاہر الفسق پر بھی ہوں، اور اسی لیے ان کے سلسلہ میں اصالۃ العدالۃ جاری نہ کی گئی ہو۔

وثاقت ثابت کرنے کے دیگر طریقے

یہ آٹھ طریقے ہیں وثاقت ثابت کرنے کے لیے جن کو بطور دعویٰ پیش کیا گیا تھا۔ اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان میں سے تیسرا، چھٹا، اور آٹھواں مکمل نہیں ہیں۔

اور دیگر طریقے بھی ہیں – جیسے صدوق ؒکی مشیخہ میں کسی شخص کے کی طرف سلسلہ سند کا ذکر یا اس پر " رحمہ اللہ " کہہ کر رحمت کی دعا کرنا، یا معصوم علیہ السلام کی صحبت، یا کتاب یا اصل کی تالیف وغیرہ – ان طریقوں کے حجّت نہ ہونے اور طوالت کے خوف سے ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔

اور جس بات کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ دیگر طریقے بھی موجود ہیں جنہیں کسی خاص ضابطے میں محدود نہیں کیا جا سکتا، جیسے ابراہیم بن ہاشم ؒکی کوفیوں کی حدیث کو نشر کرنے کے سبب توثیق کرنا، اس اعتبار سے کہ جس شخص کی وثاقت معلوم نہ ہو اس کی حدیثیں قبول نہیں کی جاتیں اور اس طرح وہ کسی ایک مکتبہ فکر کی حدیثیں دوسرے مکتبہ فکر میں منتقل نہیں کر سکتا۔اور جیسے سکونی کی توثیق شیخ طوسی ؒکے " العدۃ " میں کیے اس دعویٰ سے کرنا کہ طائفہ نے ان کی روایات پر عمل کیا ہے، کہ انہوں نے حجیت خبر کی بحث میں ذکر کیا ہے کہ راوی کا عقیدے میں انحراف اس کی روایات کو قبول کرنے میں مضرّ نہیں ہے، اور اس پر انہوں نے اس قول کو بطور ثبوت پیش کیا ہے کہ: اور جو کچھ ہم نے کہا ہے اسی وجہ سے طائفہ نے حفص بن غیاث، غیاث بن کلوب، نوح بن دراج اور سکونی اور دیگر غیر شیعہ راویوں کی ہمارے ائمہ علیہم السلام سے مروی روایات پر عمل کیا ہے " ۔( معجم رجال الحديث ۳: ۱۰۶ )

اور جیسے نوفلی - جو اپنی روایت میں عام طور پر سکونی کے ساتھ ہے - کی توثیق، چونکہ علماء کے درمیان معروف یہ ہے کہ اس کی روایت قبول نہیں کی جائےگی کیونکہ اس کی وثاقت ثابت نہیں ہے، لیکن کامل الزیارات یا تفسیر القمی کے توسّط سے، تاہم اس کی وثاقت کو دوسرے طریقے سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے، یہ کہہ کر کہ طائفہ کا سکونی کی روایات پر عمل کرنا نوفلی کی روایات پر عمل کرنے کو لازم کرتا ہے، کیونکہ سکونی کی روایات کا راوی عام طور پر نوفلی ہے، تو اگر نوفلی کی روایات قبول نہ کی جائیں تو لازم آئےگا کہ سکونی کی روایات بھی قبول نہ کی جائے۔اور ایسے دوسرے طریقے بھی ہیں جنہیں جستجو اور تحقیق کرنے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

۵۸

تمرینات

س ۱: اصحاب اجماع کون ہیں؟ اور ان کی وثاقت پر اجماع کے ذریعہ کیسے استدلال کیا جاتا ہے؟

س ۲: سید خوئی ؒ نے اجماع کی حجیت کو اختیار کیا ہے، یہاں تک کہ اگر اجماع کا دعویٰ کرنے والا متأخرین میں سے ہو، اس نظریہ کے پیچھے جو استدلال انہوں نے اختیار کیا، اس کا ذکر کریں اور اس پر اشکال کی کیفیت بیان کریں۔

س ۳: معصوم علیہ السلام کی طرف سے وکالت کی دو صورتیں ہیں۔ ان کا ذکر کریں اور وضاحت کریں کہ ان میں سے کس صورت میں اس بات پر بحث ہے کہ آیا وہ وثاقت پر دلالت کرتی ہے یا نہیں۔

س ۴: وکالت کی وثاقت پر دلالت کے قائلین کی دلیل کیا ہے اور اس کا انکار کرنے والوں کی دلیل کیا ہے؟

س ۵: وکالت کے سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے، کیا وکالت وثاقت پر دلالت کرتی ہے؟ اسے ایسی وضاحت کے ساتھ ذکر کریں جس پر آپ مطمئن ہیں۔

س ۶: اگر وکالت وثاقت پر دلالت کرتی ہے تو بعض وکلاء کے حق میں صادر ہونے والی مذمت کی آپ کیسے تشریح کریں گے؟

س ۷: کیا ثقہ کا کسی شخص سے روایت کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے؟ اس بات کو دلیل کے ساتھ بیان کریں۔

س ۸: وہ کون ہیں جن کا یہ نظریہ ہے کہ ثقہ کا کسی شخص سے روایت کرنا اس کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے؟

س ۹: کیا آپ کے خیال میں ثقہ کا کسی شخص سے کثرت سے روایت کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۰: ثقہ کے کسی شخص سے کثرت سے روایت کرنے کی اس شخص کی وثاقت پر دلالت کے بارے میں بحث کا فائدہ بیان کرنے کے لیے مثال ذکر کریں۔

س ۱۱: اگر یہ کہا جائے کہ ثقہ اگرچہ ضعیف سے کثرت سے روایت نہیں کرتا، لیکن وہ مجہول الحال سے کثرت سے روایت کر سکتا ہے تو ہم اس کا جواب کیسے دیں گے؟

س ۱۲: اگر یہ کہا جائے کہ ثقہ کی کثرتِ روایت وثاقت پر دلالت نہیں کرتی، اس دلیل سے کہ اجلاء نے بعض ضعیف راویوں سے کثرت سے روایت کی ہے تو ہم اس کا جواب کیسے دیں گے؟

س ۱۳: اگر یہ کہا جائے کہ کلینی ؒ کا محمد بن اسماعیل سے کثرتِ روایت شاید ان کی روایت کی حقانیت پر ان کے اطمینان کی وجہ سے ہے نہ کہ ان کی وثاقت کے اثبات کی وجہ سے تو ہم اس کا جواب کیسے دیں گے؟

س ۱۴: اگر یہ کہا جائے کہ کلینی ؒ کا محمد بن اسماعیل سے کثرتِ روایت شاید ان کے "اصالۃ العدالۃ " پر اعتماد کی وجہ سے ہے نہ کہ ان کی وثاقت کے اثبات کی وجہ سے تو ہم اس کا جواب کیسے دیں گے؟

س ۱۵: روایت لینے اور اس کا تحمّل کرنے کی تین صورتیں ہیں۔ ان کا ذکر کریں۔

س ۱۶: مشائخ الاجازۃ سے کیا مراد ہے؟

س ۱۷: وثاقت ثابت کرنے میں شیخوخۃ الاجازۃ کافی ہونے کے بارے میں بحث کیوں اہم ہے؟

س ۱۸: مشائخ الاجازۃ کی چند مثالیں بیان کریں جن کی وثاقت ثابت نہیں ہوئی۔

س ۱۹: سید خوئی ؒ نے شیخوخۃ الاجازۃ کی وثاقت پر عدم دلالت ثابت کرنے کے لیے جس استدلال پر اعتماد کیا ہے وہ کیا ہے اور اس کا کیسے جواب دیا جائےگا؟

س ۲۰: شیخوخۃ الاجازۃ کی وثاقت پر عدم دلالت پر کبھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ صدوق ؒ کے بعض مشائخ ناصبی تھے۔ مذکورہ استدلال کا جواب کیسے دیا جائےگا؟

س ۲۱: سید بحر العلوم ؒ اور ایک جماعت نے مشائخ الاجازۃ کے مسئلہ کے حل کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا ہے؟

س ۲۲: کہا گیا ہے کہ راوی کا کسی ایسی سند میں واقع ہونا جس پر صحت کا حکم لگایا گیا ہو یہ اس کی وثاقت پر دلیل ہے۔ اس بات سے کیا مراد ہے؟ مثال کے ساتھ واضح کریں۔

س ۲۳: یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابن ولید کا محمد بن احمد بن یحییٰ کی روایات کی صحت پر حکم شاید بعض قرائن کی وجہ سے ان روایات کی صحت پر ان کے اعتقاد کی وجہ سے تھا نہ کہ اس وجہ سے کہ محمد بن احمد بن یحییٰ جن سے روایت کرتے ہیں وہ سب ثقہ ہیں، اس کا کیسے جواب دیا جائےگا؟

س ۲۴: سید خوئی ؒ نے بیان کیا ہے کہ ابن ولید کا محمد بن احمد بن یحییٰ کی روایات کی صحت کا حکم راویوں کی وثاقت پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کی دلیل ذکر کریں۔

س ۲۵: ابن نوح کی گواہی سے محمد بن أحمد بن يحيى کے تمام مشایخ کی وثاقت پر استدلال کیا جاتا ہے۔اس استدلال کی وضاحت اور اس پر اشکال بیان کریں۔

س ۲۶: وثاقت ثابت کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ انہیں بیان کریں اور ان میں آپ کے نزدیک کون سے قابل قبول ہیں اور کون سے قابل قبول نہیں ہیں یہ بھی واضح کریں۔

س ۲۷: وثاقت ثابت کرنے کے بعض ایسے طریقے ذکر کریں جو کسی معین ضابطے میں شامل نہیں ہو سکتے۔

س ۲۸: کیا مقدمہ عبادات کے ابواب میں سے باب ۱۸ حدیث ۱ کی سند صحیح ہے؟

۵۹

نکتہ دوم

عمومی توثیقات

توثیق کبھی کسی معین شخص یا اشخاص کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی کسی کلی و عمومی عنوان کے متعلق ہوتی ہے۔

پہلی قسم کی مثال: حماد کے حق میں نجاشی ؒ کو قول مثلا: "ثقة فی حدیثه " (وہ اپنی حدیث میں ثقہ تھے)۔

دوسری قسم کی مثال: جس بات کا علی بن ابراہیم ؒ کے حق میں دعوی کیا گیا ہے کہ انہوں نے ان تمام افراد کی توثیق کی ہے جو روایات کے ان اسانید میں وارد ہوئے ہیں جنہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔

توثیقات عامہ کثرت سے ہیں، جن میں سے ہم چند کا ذکر کرتے ہیں:-

۱۔ راویانِ تفسیرِ قمی

تفسیر قمی، قرآن کریم کی ایک روائی (۱) تفسیر ہے امام عسکری علیہ السلام کے زمانہ کے ہمارے علماء میں سے ایک مردِ عظیم کی جنہیں علی بن ابراہیم قمی ؒ سے جانا جاتا ہے، جن کی وفات سن ۲۱۷ ہجری میں ہوئی تھی۔

نجفِ اشرف کی دوسری طباعت مذکورہ کتاب کی آخری و جدید طباعت ہے اس میں ایک طویل مقدمہ ہے جس میں قمی ؒ نے ایک جملہ بیان کیا ہے جس سے بعض بزرگ علماء نے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ انہوں نے ان تمام راویوں کی توثیق کی ہے جنہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔

حوالہ:

(۱)- یعنی ایسی تفسیر جو روایات کے ذریعہ کی گئی ہو۔

۶۰