‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 106

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 106
مشاہدے: 5070
ڈاؤنلوڈ: 167

تبصرے:

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5070 / ڈاؤنلوڈ: 167
سائز سائز سائز
‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وہ عبارت اس طرح سے ہے :

" و نحن ذاكرون و مخبرون بما ينتهي الينا، و رواه مشايخنا و ثقاتنا عن الذين فرض اللّه طاعتهم و اوجب ولايتهم "

(ہم بیان کرنے والے اور اطلاع دینے والے ہیں ان باتوں کی جو ہم تک پہنچی ہیں، اور جنہیں ہمارے مشائخ اور ہمارے ثقہ افراد نے ان معززین سے روایت کیا ہے جن کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے اور جن کی ولایت اللہ نے واجب کی ہے۔۔۔)۔

مذکورہ عبارت سے صاحب وسائل ؒ نے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ قمی ؒ نے مذکورہ تفسیر میں بیان شدہ تمام افراد کی اس شرط کے ساتھ توثیق کی ہے کہ سند کا اختتام معصوم علیہ السلام کی طرف ہوتا ہو۔

انہوں نے " الوسائل ج۲۰ ص۶۸ میں کہا: " اور علی بن ابراہیم ؒ بھی گواہی دے چکے ہیں کہ ان کی تفسیر کی احادیث ثابت ہے اور انہیں ایسے ثقہ افراد سے روایت کیا گیا ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے بیان کیا ہے " ۔

اور اس نظریہ کو سید خوئی ؒ نے بھی " المعجم ج۱ ص۴۹ " میں اختیار کیا ہے۔

اور اگر مذکورہ بات ثابت ہو جائے تو جیسا کہ کہا گیا ہے ۲۶۰ راوی ثقہ راویوں کی فہرست میں منتقل ہو جائیں گے۔ اور یہی ں سے ہم اس مذکورہ بحث کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مذکورہ عبارت میں ایک اور امکان بھی ہے، اور وہ یہ کہ قمی ؒ اپنے براہِ راست مشایخ و اساتذہ کی توثیق کرنا چاہتے ہیں نہ کہ روایت کی سند میں شامل ہر شخص کی۔

سید خوئی ؒ نے اس امکان کو یہ کہتے ہوئے رد کیا ہے کہ قمی ؒ اپنی تفسیر کی صحت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اس میں موجود تمام راویان (نہ صرف براہِ راست مشائخ) کی توثیق پر موقوف ہے۔

اس بنیاد پر سید خوئی ؒ نے حکم دیا کہ تفسیر قمی میں مذکور تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے ان کے جنہیں نجاشی ؒ یا دیگر نے ضعیف قرار دیا ہو، ایسی صورت میں توثیق کا اعتبار باقی نہیں رہےگا کیونکہ توثیق کا اعتبار اسی وقت تک ہے جب تک اس کی مخالفت میں جرح وارد نہ ہو جیسا کہ یہ بات واضح ہے۔

یہ تفسیر قمی کے راویوں کی حجیت کے بارے میں کہی گئی باتوں کا خلاصہ ہے۔

لیکن اس پر مندرجہ ذیل بحث کی جا سکتی ہے:

۱۔ مذکورہ تفسیر کا راوی یعنی أبو الفضل العباس بن محمد بن القاسم بن حمزة بن الإمام موسى بن جعفر سلام اللّه عليه ہے جیسا کہ یہ بات اسی تفسیر کی طرف رجوع کے دوران واضح ہو جاتی ہے۔ اور مذکورہ شخص مجہول الحال ہے کہ اس کے بارے میں کوئی شے معلوم نہیں ہے اور ایسی صورت میں یہ کتاب اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے چونکہ اس کے راوی کا علم نہیں ہے۔

اس بات کا جواب: بےشک شیخ طوسی ؒ اپنی فہرست میں علی بن ابراہیم ؒ کی تمام کتابوں تک پہنچنے کا ایک صحیح سلسلہ سند بیان کرتے ہیں، جن میں ان کی تفسیر بھی شامل ہے، اور وہ اس سلسلہ سند کے ذریعے خود قمی ؒ تک پہنچتے ہیں۔

اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ قمی ؒ خود شیخ طوسی ؒ کو مختلف واسطوں کےذریعہ اپنی تفسیر نقل کرنے کی اجازت دے چکے ہیں، اب ابو الفضل کے متعلق جہالت کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔

۲۔ اس کتاب کی مذکورہ مقدمہ، جو ایک طویل مقدمہ ہے، اس کا قمی کی تحریر ہونا ثابت نہیں ہے، کیونکہ مقدمہ کے تسلسل کے دوران اس میں یہ عبارت آئی ہے:

" قال أبو الحسن علي بن إبراهيم الهاشمي القمي فالقرآن منه ناسخ و منه منسوخ "

(ابو الحسن علی بن ابراہیم الہاشمی القمی نے کہا: پس قرآن میں کچھ آیات ناسخ ہیں اور کچھ منسوخ ہیں۔۔۔

اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ مقدمہ کا ابتدائی حصہ قمی ؒ کا نہیں ہے بلکہ قمی ؒ کے کلام کی ابتداء " فالقرآن منه ناسخ و منه منسوخ۔۔۔" سے ہوتی ہے۔

اور سابقہ عبارت جسے بطور ثبوت پیش کیا گیا تھا - ہم بیان کرنے والے اور اطلاع دینے والے ہیں ان باتوں کی جو ہم تک پہنچی ہیں۔۔۔ – وہ اس سے پہلے مذکور ہے، یعنی " قال أبو الحسن۔۔۔" کے جملے سے پہلے اور ایسی صورت میں اس جملے کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا چونکہ اس کا قمی ؒ کا کلام ہونا یقینی نہیں ہے۔

اس میں اشکال: سابقہ جملہ جسے بطور ثبوت پیش کرنا مقصود ہے اسے صاحب وسائل ؒ نے اپنی کتاب " الوسائل" میں نقل کیا ہے، اور ان کو شیخ طوسی ؒ اور پھر ان کے توسّط سے خود قمی ؒ تک صحیح سلسلہ حاصل ہے، لہذا یہ بات ثابت ہے کہ قمی ؒ نے ہی سابقہ جملہ بیان کیا ہے اور یہ صاحبِ وسائل ؒ تک شیخ طوسی ؒ کے توسّط سے پہنچا ہے۔

۳۔ تفسیر قمی میں مذکور بعض راویوں کو نجاشی ؒ یا شیخ ؒ کی طرف سے ضعیف قرار دیا گیا ہے، جو اس بات پر دلیل ہے کہ قمی ؒ کا مقصود اپنی تفسیر میں بیان شدہ ہر راوی کی توثیق نہیں ہے۔

اس میں اشکال: ہو سکتا ہے جس راوی کو ضعیف قرار دیا گیا ہے وہ قمی ؒ کی نگاہ میں ثقہ ہو تو ایسی صورت میں یہ تعدیل اور جرح کے درمیان تعارض کے مقامات میں سے ایک مقام قرار پائےگا اور کسی راوی کو ضعیف قرار دیا جانا اس بات پر قرینہ نہیں بن سکتا کہ قمی ؒ نے اپنی تفسیر میں بیان شدہ ہر راوی کی توثیق کا ارادہ نہیں کیا ہے۔

ہاں راوی کا ضعیف ہونا تمام کے نزدیک مسلّم اور واضح ہو تو ممکن ہے کہ اسے مذکورہ بات پر قرینہ قرار دیا جائے، لیکن ایسی چیز کہاں موجود ہے۔ لہذا مذکورہ اشکالات وارد نہیں ہوتے ہیں۔

مہم یہ کہنا ہے کہ:-

۱۔ قمی ؒ کی اگرچہ تفسیر کے نام سے ایک کتاب تھی اور اس بارے میں شک قائم کرنا ممکن نہیں ہے چونکہ نجاشی ؒ اور شیخ ؒ نے مذکورہ تفسیر کے وجود کی صاف وضاحت کی ہے اور دونوں بزرگواروں نے ان سے متصل ہونے والے صحیح سلسلہ کو بیان کیا ہے، لیکن ہم اس بارے میں شک قائم کر سکتے ہیں کہ آج کے دور میں جو رائج تفسیر ہے یہ وہی تفسیرِ قمی ہے، جبکہ ہم یہ احتمال رکھتے ہیں کہ یہ تفسیر بالکل بھی قمی کی نہ ہو، یا کم از کم اس کا کچھ حصہ قمی کا ہو اور باقی حصہ اس میں مخلوط کر دیا گیا ہو۔

ہم نے جو بات بیان کی اس کی تائید مذکورہ جملے ہیں :

" رجع إلى تفسير علي بن إبراهيم" یا " رجع إلى رواية علي بن إبراهيم" یا " رجع الحديث إلى علي بن إبراهيم" یا " في رواية علي بن إبراهيم"

(رجوع کیا جائے علی بن ابراہیم کی تفسیر کی طرف " یا " رجوع کیا جائے علی بن ابراہیم کی روایت کی طرف " یا " حدیث کو علی بن ابراہیم کی طرف منسوب کیا گیا ہے " یا " علی بن ابراہیم کی روایت میں ہے)۔ اور اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے تفسیر علی ابن ابراہیم:جلد ۱، صفحات ۲۷۱، ۲۷۲، ۳۸۹، ۲۹۹، ۳۱۳، ۳۸۹، ۲۹۲، ۲۹۴۔۔

۲۔ اس تفسیر میں بعض ایسے قرائن موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قمی ؒ اپنی کتاب کے تمام راویوں کی توثیق بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ پس ج۱ ص۶۶ میں وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا میرے والد نے مرفوعہ طور پر، کہا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا۔ اور ج۱ ص۹۹ میں کہتے ہیں: اور مجھ سے بیان کیا محمد بن یحیی بغدادی نے، انہوں نے اس حدیث کو مرفوعہ طور پر بیان کیا امیر المؤمنین علیہ السلام سے۔ اور ج۱ ص۲۱۴ میں وہ کہتے ہیں: اور مجھ سے بیان کیا میرے والد نے، انہوں نے حسین بن سعید سے، انہوں نے اپنے بعض راویوں سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے، اور اس کے علاوہ ایسے مقامات کہ جن میں توثیق ممکن نہیں ہے چونکہ اس سند کے راویان مشخص نہیں ہیں۔

بلکہ بعض مقامات میں تو ایسے شخص کا نام بیان کیا ہے جس کا ثقہ راویوں میں ہونا ممکن نہیں ہے جیسے یحیی بن اکثم بطور مثال جیسا کہ ج۱ ص۳۵۶ میں ہے۔

۶۱

۲۔راویانِ کامل الزیارۃ

کامل الزیارۃ تمام زیارات کو یکجا کرنے کے مقصد سے تالیف کی گئی کتاب ہے۔ اس کتاب کے مؤلف ثقة جلیل جعفر بن محمد بن قولویہ ؒ ہیں، جو ہمارے بزرگ متقدمین علماء میں سے ہیں۔

اس شیخ جلیل ؒ نے اپنی کتاب میں ایک مختصر مقدمہ بیان کیا ہے جس کے ضمن میں مذکورہ عبارت ہے:

" و قد علمنا بانا لا نحيط بجميع ما روي عنهم في هذا المعنى و لا في غيره لكن ما وقع لنا من جهة الثقات من اصحابنا رحمهم اللّه برحمته و لا اخرجت فيه حديثا روي عن الشذاذ من الرجال "

(اور ہم جانتے ہیں کہ ہم نہ اس معنی میں، اور نہ ہی اس کے علاوہ میں، ان (اہلِ بیت علیہم السلام) سے مروی تمام احادیث کا احاطہ نہیں کر سکتے،

لیکن جو کچھ ہم تک ہمارے ثقہ اصحاب –

اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کے ذریعے پہنچا ہے، میں نے اس میں کوئی حدیث بیان نہیں کی جو شذّاذ راویوں سے روایت کی گئی ہو۔۔۔) "(۱)

شیخ نوری ؒ نے اپنی کتاب " مستدرک الوسائل ج۳ ص۵۲۲ " میں یہ معنی اخذ کیا ہے کہ ابن قولویہ ؒ کا مقصد ان راویوں کی توثیق کرنا ہے جس کے حوالے سے انہوں نے براہِ راست روایت بیان کی ہے۔ اور تحقیق و جستجو کے بعد یہ تعداد ۳۱ مشائخ تک پہنچتی ہیں۔

جبکہ اس عبارت سے صاحب وسائل ؒ نے یہ سمجھا کہ ابن قولویہ ؒ اپنے (بلا واسطہ اور بالواسطہ) تمام مشائخ کی توثیق کر رہے ہیں (۲) ۔

حوالے:

(۱)۔ کامل الزیارۃ: ص۴۔ مذکورہ عبارت سے مقصود: ہم اہل بیت علیہم السلام سے منقول زیارات اور دیگر شعبوں میں بیان کردہ تمام روایات کا احاطہ نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ ہم فقط ثقہ راویوں سے ہم تک جو پہنچا ہے اسے بیان کرتے ہیں اور شاذ راویوں سے مروی احادیث کو میں نے بیان نہیں کیا ہے۔

(۲)- وسائل الشيعة: ج ۲۰ الفائدة ۶

۶۲

اور جن افراد نے یہ رائے اختیار کی ہے ان میں سید خوئی ؒ بھی شامل ہے جیسا کہ " المعجم ج۱ ص ۵۰ " میں انہوں نے اس نطریہ کو بیان کیا ہے کہ " کامل الزیارۃ " کے اسانید میں جو راوی بھی مذکور ہے وہ ثقہ ہے سوائے یہ کہ دوسروں کی جانب سے ضعیف قرار دینا معارض ہوتا ہو، اس کلی قانون کے مطابق جو ہر توثیق کے سلسلہ میں قائم ہے کہ راوی کی توثیق کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا جائےگا جب اس سے ضعیف قرار دیئے جانے کا قول متصادم نہ ہو۔

اس نظریہ کی بنیاد پر جیسا کہ کہا گیا ہے ۳۸۸ راویوں کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے (۱) ۔

حوالہ:

(۱)- یہ بات قابل توجہ ہے کہ سید خوئی قدّس سرہ اپنے ابتدائی دور میں کامل الزیارۃ کے راویوں کی وثاقت کے معتقد نہیں تھا یہاں تک کہ ان کے براہِ راست راویوں کے سلسلہ میں بھی – جیسا کہ اس بات کی طرف انہوں نے "فقہ الشیعۃ ج۳ ص۲۷" میں اشارہ کیا ہے – لیکن اس کے بعد ہم ایسے زمانہ کے شاہد ہیں جن میں ان کا اعتقاد یہ بن گیا تھا کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں یہاں تک کہ جو براہِ راست نہیں ہیں وہ بھی، پھر انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں تفریق کے نظریہ کو اختیار کیا اور توثیق کو فقط براہِ راست راویوں سے مخصوص قرار دیا۔

اور اس پر اعتراض: تمام راویوں کی توثیق کا معنی اخذ کرنا مشکل کام ہے، بلکہ مناسب یہ ہے کہ صرف براہِ راست روایت کرنے والوں کی توثیق کا معنی اخذ کیا جائے، کیونکہ سابقہ عبارت اس لحاظ سے مجمل ہے، اور اس سے یقینی طور پر جو سمجھا جاتا ہے وہ صرف براہِ راست روایت کرنے والوں کی توثیق کا ارادہ ہے۔

اور جو بات ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ابن قولویہ ؒ نے ایسے راویوں کا ذکر کیا ہے جنہیں وہ خود بھی نہیں جانتے تھے، چنانچہ پہلے باب کی تیسری حدیث میں وہ کہتے ہیں: اس کے حوالے سے جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے، اور انہوں نے محمد بن سنان سے، اور انہوں نے محمد بن علی سے جنہوں نے اسے مرفوعہ طور پر بیان کیا ہے (عمن ذكره عن محمد بن سنان عن محمد بن علي رفعه)۔

اور سابقہ باب کی چوتھی حدیث میں وہ کہتے ہیں: ہمارے بعض اصحاب سے جس نے اسے مرفوعہ طور پر بیان کیا ہے ( عن بعض اصحابنا رفعه )، اور چوتھے باب کی دوسری حدیث میں وہ کہتے ہیں: اس شخص سے جس نے اسے حدیث بیان کی تھی۔ ( عمن حدّثه )۔

اور اس قسم کے اور بھی بہت سے مقامات موجود ہیں۔

بلکہ کبھی کہا گیا ہے(۱)کہ نہ فقط یہ بلکہ اس سے بڑھ کر ان کے براہِ راست مشائخ کی توثیق کا معنی اخذ ہونے سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ احتمال ہے کہ مذکورہ عبارت سے ان کا مقصود یہ ہو: ہم تمام روایات کا احاطہ نہیں کریں گے لیکن ہم وہ روایات نقل کریں گے جو خاص طور پر ان لوگوں نے درج کی ہیں جنہیں حدیث میں خبرویت و مہارت حاصل ہے اور جو حدیث کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔

حوالہ:

(۱)-

اس کے قائل سید سیستانی دام ظلہ ہے "قاعدۃ لا ضرر : ص۲۱"۔

۶۳

اور اس بنا پر، " ثقات " سے ان کی مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث کے ناقدین ہیں، اور وہ یہ نہیں کہنا چاہتے کہ میں وہ روایات درج کر رہا ہوں جو مجھے میرے ثقہ مشائخ سے ملی ہیں، بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں وہ روایات ذکر کر رہا ہوں جو حدیث کے ناقدین نے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں، اور وہ ناقدین کبھی ان کے براہِ راست مشائخ ہو سکتے ہیں اور کبھی ان کے مشائخ کے مشائخ۔

سید خوئی ؒنے صرف کامل الزیارہ کے بارے میں اپنے نظریہ کو کیوں تبدیل کیا؟

سید خوئی ؒنے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کامل الزیارہ کے تمام راویوں کی توثیق کے اپنے نظریہ سے رجوع کر لیا تھا اور اسے صرف براہِ راست روایت کرنے والوں کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا، لیکن انہوں نے تفسیرِ قمی کے رجال کے متعلق اپنے نظریہ کو تبدیل نہیں کیا تھا۔

اور یہاں ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ صرف کامل الزیارہ کے نظریہ سے رجوع کرنے کا سبب کیا تھا؟

اور جواب: یہ اس وجہ سے ہے کہ قمی ؒ نے اپنی سابقہ عبارت میں کہا:

" و نحن ذاکرون بما رواہ مشایخنا و ثقاتنا عن الذین فرض اللہ طاعتہم۔۔۔"

(اور ہم وہی ذکر کریں گے جو ہمارے مشائخ اور ہمارے ثقہ راویوں نے ان ہستیوں سے روایت کیا ہے جن کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے۔۔۔)۔ " عن الذین فرض اللہ طاعتہم" (جن کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے) سے مربوط " ثقاتنا" (ہمارے ثقہ) کا ذکر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جن کی اطاعت کو اللہ نے فرض کی ہے ان ائمہ علیہم السلام تک پہنچنے والے سلسلہ کے تمام راوی ثقات ہیں۔ جبکہ اس طرح کا اسلوب ابن قولویہ ؒ کی عبارت میں وارد نہیں ہے۔

۳۔ نجاشی ؒ کے مشائخ

نجاشی ؒ نے بعض راویوں کے حالات میں ایسی بات بیان کی ہے جس سے یہ معنی اخذ کیا جاتا ہے کہ وہ ضعیف راویوں سے روایت نہیں کرتے تھے، چنانچہ محمد بن عبید اللہ بن حسن جوہری کے حالات میں وہ کہتے ہیں: " میں نے اس شیخ کو دیکھا اور وہ میرے اور میرے والد کے دوست تھے اور میں نے ان سے بہت کچھ سنا اور میں نے اپنے شیوخ کو انہیں ضعیف قرار دیتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے کچھ بھی روایت نہیں کیا اور ان سے گریز کیا۔۔۔ " ۔

اور محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبید اللہ بن بہلول کے حالات میں انہوں نے ذکر کیا: " اور وہ شروع میں ثبت (قوی) تھا پھر اختلاط کا شکار ہو گیا، اور میں نے اپنے اکثر اصحاب کو دیکھا کہ وہ اس پر طعن کرتے ہیں اور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔۔۔ میں نے اس شیخ کو دیکھا اور ان سے بہت کچھ سنا پھر میں نے ان سے روایت کرنا بند کر دیا سوائے اس واسطے کے ذریعہ جو میرے اور ان کے درمیان ہو " ۔

اور جعفر بن محمد بن مالک کے حالات میں انہوں نے ذکر کیا: " وہ حدیث میں ضعیف تھا۔ احمد بن حسین نے کہا: وہ حدیثیں وضع کرتا تھا اور مجاہیل سے روایت کرتا تھا۔ اور میں نے سنا کہ کسی نے کہا: وہ فاسد المذہب اور فاسد الروایت بھی تھا۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے معزز ثقہ شیخ ابو علی بن ہمام اور ہمارے جلیل القدر ثقہ شیخ ابو غالب زراری نے ان سے کیسے روایت کی ہے " ۔

اور بعض اکابرین نے ان مقامات سے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ نجاشی ؒ اپنے تمام مشائخ کو ثقہ قرار دیتے ہیں اور وہ صرف اس سے روایت کرتے ہیں جسے وہ ثقہ سمجھتے ہیں۔

اور یہ رائے شیخ بہائی ؒ اور سید بحر العلوم( تنقيح المقال ۱: ۵۸ )سے منسوب ہے۔

اور متاخرین میں سے جن لوگوں نے اس نظریہ کو اختیار کیا ہے ان میں سید خوئی ؒ شامل ہیں۔

اور اس نظریہ پر یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ نجاشی ؒ کی عبارت سے زیادہ سے زیادہ یہ معنی اخذ ہو سکتا ہے کہ وہ ان ضعیف راویوں سے گریز کرتے تھے جنہیں اصحاب ضعیف قرار دیتے تھے، نہ کہ وہ ان سے بھی گریز کرتے تھے جو ان کے نزدیک مجہول الحال تھے۔

اور اس کا جواب مندرجہ ذیل طریقے سے دیا جا سکتا ہے:

ا- نجاشی ؒ کا ان لوگوں سے روایت کرنے سے گریز کرنا جنہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے، کسی تعبّدی امر کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ ضعیف کی روایت کی عدمِ حجّیت کی وجہ سے ہے، اور یہ واضح ہے کہ مجہول بھی ضعیف کے مانند ہے، اور اسی وجہ سے علماء مجاہیل کو ان کی روایت سے اجتناب لازم ہونے کے معاملہ میں ضعیفوں سے متصل کرتے ہیں۔

ب۔ یہ کہ نجاشی ؒ کا اپنے مشائخ کے ساتھ اتنا زیادہ تعلق رہا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ انہیں اپنے مشائخ کے حالات کا علم نہ ہو، لہذا اب معاملہ دو باتوں کے درمیان گردش کرتا ہے: یا تو وہ ان کے نزدیک ضعیف تھے، جو کہ باطل ہے، اور یا وہ ثقہ تھے، اور یہی مطلوب ہے۔

اور اس طریقے کی برکت سے بعض ان مشایخ الاجازہ کی توثیق ممکن ہے جن کے توسّط سے بعض اصول و بنیادی کتابیں شیخ طوسی ؒ تک پہنچی ہیں، جیسے احمد بن عبدون ؒ اور ابو الحسین بن ابی جید ؒ، کیونکہ یہ دونوں شیخ طوسی ؒ کے مشائخ میں سے ہیں اور ان کی خاص طور پر توثیق نہیں کی گئی ہے، لیکن چونکہ وہ نجاشی ؒ کے بھی مشائخ میں سے ہیں، لہٰذا ان کی توثیق اس طریقے سے کی جا سکتی ہے۔

۴۔ اصحاب الاجماع کی سند میں واقع ہونا

کشی ؒ نے اپنی مشہور کتابِ رجال میں ذکر کیا ہے کہ بےشک، اس طائفہ (گروہِ علماءِ شیعہ) نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ جو ایک جماعت کے ذریعے صحیح قرار پایا ہو، اسے صحیح قرار دیا جائےگا۔ امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے چھ، امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے چھ اور امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے چھ۔

طبعہ دانشگاه کے صفحہ ۲۳۸ پر کہا: " عصابہ (یعنی شیعہ علماء) ان اوّلین اصحابِ امام باقر علیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کی تصدیق پر متفق ہو گئے ہیں اور ان کے فقہ کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے۔ پس انہوں نے کہا کہ اوّلین میں سب سے زیادہ فقیہ چھ افراد ہیں: زرارة، معروف بن خرّبوذ، برید، ابو بصیر اسدی، فضیل بن یسار اور محمد بن مسلم طائفی " ۔

اور صفحہ ۳۷۵ پر کہا: " عصابہ (یعنی شیعہ علماء) اس بات پر اجماع ہے کہ جو کچھ ان حضرات کے ذریعے صحیح قرار پایا ہو، اسے صحیح قرار دیا جائےگا، اور وہ جو کچھ کہیں اس کی تصدیق کی جائےگی، اور انہوں نے ان کے فقہ (علم و اجتہاد) کا اقرار کیا ہے، ان چھ افراد کے علاوہ جنہیں ہم نے گنوایا اور نام لے کر بیان کیا تھا، یہ چھ افراد یہ ہیں: جمیل بن درّاج، عبد اللہ بن مسکان، عبد اللہ بن بکیر، حماد بن عیسیٰ، حماد بن عثمان اور ابان بن عثمان " ۔

اور صفحہ ۵۵۶ پر انہوں نے کہا: " ہمارے اصحاب کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو کچھ ان حضرات کے ذریعے صحیح قرار پایا ہو، اسے صحیح قرار دیا جائےگا اور ان کی تصدیق کی جائےگی اور انہوں نے ان کے حق میں فقہ اور علم کا اقرار کیا ہے۔ اور یہ دوسرے چھ افراد ہیں، ان چھ افراد کے علاوہ جن کا ہم نے ابو عبد اللہ علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا تھا، ان میں سے: یونس بن عبد الرحمن، صفوان بن یحییٰ بیاع سابری، محمد بن ابی عمیر، عبد اللہ بن مغیرہ، حسن بن محبوب اور احمد بن محمد بن ابی نصر " ۔

اور ان عبارات کو سمجھنے میں علماء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے پس کہا گیا ہے کہ: جب بھی ان (اصحابِ اجماع) میں سے کوئی ایک کسی روایت کی سند میں واقع ہو (یعنی ان میں سے کوئی راوی سند میں موجود ہو)، اور اگر مثلاً شیخ طوسی ؒ - جو ہمیں حدیث روایت کرتے ہیں - سے لے کر اس راوی تک کا سلسلہ معتبر ہو تو پھر اس اور امام علیہ السّلام کے درمیان جو واسطے (یعنی بیچ کے راوی) ہیں، اگر وہ مجہول بھی ہوں، تو ان کا مجہول ہونا مضر نہیں ہے۔

اور یہ رائے شہید ثانی ؒ، شیخ مجلسی ؒ، بہائی ؒ اور دیگر سے منسوب ہے۔

اور صاحب وسائل( الوسائل ۲۰: ۸۰- ۸۱ قدیم طباعت سے )اس سے بھی زیادہ آگے بڑھے اور کہا: مذکورہ واسطوں کا مجہول ہونا جس طرح نقصاندہ نہیں ہے اسی طرح انہیں ضعیف قرار دیا جانا بھی نقصاندہ نہیں ہے۔

لیکن صحیح یہ ہے کہ سابقہ عبارات سے زیادہ سے زیادہ یہ معنی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ افراد کی جلالت اور ان کے حسنِ حال پر اجماع ہے، اور گویا یہ کہنا مقصود ہے کہ جب بھی ان میں سے کوئی ایک سند میں واقع ہو تو روایت اس کی حد تک بےعیب ہے، اور جہاں تک ان سے پہلے یا بعد والوں کا تعلق ہے، تو ان کی طرف یہاں نگاہ نہیں ہے۔

۵۔ بنو فضال کا سند میں واقع ہونا

بنو فضال - اور یہ حسن بن علی بن فضال، احمد بن حسن بن علی بن فضال، اور علی بن حسن بن علی بن فضال -فطحیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔

اور فطحیہ وہ فرقہ ہے جو امام صادق علیہ السلام کے بیٹے عبد اللہ الافطح کی امامت کا قائل ہے۔

اور اپنی وثاقت اور عبادت کے لیے مشہور بنو فضال کی بہت سی احادیث تھیں۔

اور ان کی کثرتِ احادیث اور ان کے عقیدے کے فساد کی وجہ سے بعض شیعوں نے امام عسکری علیہ السلام سے ان احادیث کے بارے میں سوال کیا کہ کیا موقف اختیار کیا جائے۔

شیخ طوسی ؒ کی کتاب " الغیبہ" میں ایک روایت ہے جو وہ شیخ نوبختی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے خادم عبد اللہ کوفی، سے نقل کرتے ہیں، وہ اس میں کہتے ہیں: " شیخ یعنی حسین بن روح ؒ سے ابن ابی العزاقر کی کتابوں کے بارے میں پوچھا گیا جب اس کی مذمت کی گئی اور اس پر لعنت بھیجی گئی، تو ان سے کہا گیا کہ ہم ان کی کتابوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جب کہ ہمارے گھر ان سے بھرے پڑے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں ان کے بارے میں وہی کہوں گا جو ابو محمد حسن بن علی صلوات اللہ علیہما نے فرمایا تھا جب آپ علیہ السلام سے بنی فضال کی کتابوں کے بارے میں سوال کرتے ہوئے لوگوں نے عرض کی تھی کہ ہم ان کی کتابوں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں جب کہ ہمارے گھر ان سے بھرے پڑے ہیں؟ تو آپ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا تھا: جو انہوں نے روایت کیا ہے اسے لے لو، اور جو انہوں نے رائے دی ہے اسے چھوڑ دو " ۔( ا لغيبة: ص ۲۳۹ )

اور اس روایت کی وجہ سے بہت سے اکابرین نے، جن میں شیخ انصاری ؒ بھی اپنی کتاب " الصلوۃ" (۱) میں شامل ہیں، یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ جس روایت کی سند میں بنو فضال میں سے کوئی ایک بھی وارد ہو، وہ حجت ہے اور اس پر عمل کیا جائےگا، یہاں تک کہ اگر بنو فضال اور امام علیہ السلام کے درمیان موجود راویوں میں سے بعض میں ضعف بھی پایا جائے۔

وہ قدس سرہ اپنی کتاب " الصلوۃ" کے اوائل میں داود بن فرقد کی روایت جو انہوں نے ہمارے بعض اصحاب سے بیان کی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "اور یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، لیکن اس کی سند حسن بن فضال تک صحیح ہے(۲)۔

حوالے:(۱)- ص۲۔

(۲)- اس روایت کو شيخ طوسي نقل کرتے ہیں اپنی معتبر سند سے الحسن بن علي بن فضال تک، اس نے داود بن فرقد سے، انہوں نے ہمارے بعض اصحاب سے، انہوں نے ابو عبد اللّه عليه السّلام سے. الوسائل باب ۴ من أبواب المواقيت حديث ۷

اور بنو فضال ان میں سے ہیں جن کی کتابوں اور روایات کو لینے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے " ۔

اور اس پر اعتراض : مذکورہ روایت سند اور دلالت دونوں لحاظ سے قابلِ بحث ہے۔

جہاں تک سند کا تعلق ہے، تو اس لیے کہ کوفی جو شیخ نوبختی ؒ کا خادم ہے وہ مجہول ہے، اس کے بارے میں کوئی چیز معلوم نہیں ہے۔

یہ، ساتھ یہ کہ شیخ طوسی ؒ اسے نقل کرتے ہیں ابو الحسین ابن تمام سے اور وہ عبد اللہ کوفی سے اور ابن تمام بھی مجہول ہے۔

جہاں تک دلالت کا تعلق ہے، تو اس سے کیا مقصود ہے اس میں دو احتمالات ہیں :

الف۔ بنو فضال کی تمام روایات کی صحت پر گواہی امام عسکری علیہ السلام کی جانب سے یونس بن عبد الرحمن کی کتاب " یوم و لیلہ " میں موجود تمام چیزوں کی صحت پر دی گئی گواہی کی مانند ہے، جب ابو ہاشم جعفری اسے امام عسکری علیہ السلام کے پاس لائے اور امام علیہ السلام نے اسے لے کر اس کی ورق گردانی کی اور اس پر تعریفی تبصرہ فرمایا: " یہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے اور یہ سب حق ہے " ۔( رجال الكشي: ص ۴۸۴ رقم ۹۱۵ )

اور اس احتمال کی بنا پر شیخ انصاری ؒ کا قول صحیح ہے، کیونکہ امام علیہ السلام کی بنو فضال کی تمام روایات کی صحت پر گواہی کے بعد سند میں باریک جانچ پڑتال کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔

ب۔ یہ بیان کہ راوی کے عقیدے کا فساد اس کی روایت لینے میں مانع نہیں ہے۔

اور اس احتمال کی بنا پر شیخ انصاری ؒ کا قول صحیح نہیں ہے، کیونکہ مقصود بنو فضال کی تمام روایات کی صحت پر گواہی نہیں ہے بلکہ صرف یہ بیان کرنا ہے کہ بنی فضال (سے عقیدے کے لحاظ) سے توقف کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس سے زیادہ بیان مقصود نہیں ہے۔

اور اگر ہم دوسرے احتمال کے اظ ہ ر ہونے کا دعویٰ نہ بھی کریں، تو ہمارے لیے یہ احتمال ہی کافی ہے، چونکہ ایسے مقام میں استدلال کے باطل ہونے کے لیے احتمال کافی ہوتا ہے۔

۶۔ مشائخ ثلاثہ میں سے کسی ایک کی روایت

کہا گیا ہے کہ مشائخ ثلاثہ - محمد بن ابی عمیر، صفوان بن یحییٰ اور احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی - میں سے جب کوئی ایک کسی شخص سے روایت کرے تو یہ اس شخص کی وثاقت کی دلیل ہے۔

اور اس کی بنیاد شیخ طوسی ؒ کی ان کی کتاب " عدۃ الاصول" میں بیان کردہ عبارت ہے، جہاں انہوں نے کہا: " اور جب دو (۲)راویوں میں سے ایک سند کے ساتھ روایت کرے اور دوسرا مرسل (بغیر سند کے) روایت کرے، تو ارسال کرنے والے کی حالت کو دیکھا جائے گا۔ اگر وہ ان میں سے ہے جن کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ صرف ثقہ اور قابلِ اعتماد افراد ہی سے مرسل روایت بیان کرتے ہیں، تو پھر اس کی روایت پر دوسروں کی روایت کو کوئی ترجیح حاصل نہیں ہوگی۔ اور اسی وجہ سے طائفہ (علماء شیعہ) نے محمد بن ابی عمیر، صفوان بن یحییٰ، احمد بن محمد بن ابی نصر اور ان جیسے دیگر ثقہ راویوں کی مرسل روایات کو ان روایات کے برابر قرار دیا ہے جو دوسرے لوگ سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حضرات صرف ثقہ راویوں ہی سے روایت کرتے اور ارسال کرتے ہیں۔۔۔ " ۔

اور شاید ان تینوں کی مراسیل روایات کی حجیت ہی مشہور رائے ہے کتاب " العدہ" کی عبارت کی بنیاد پر۔

یہ، لیکن سید خوئی ؒ نے اسے کئی وجوہات کی بنا پر رد کیا ہے، مثال کے طور پر یہ کہ شیخ ؒ کا اصحاب کی طرف مساوات کی نسبت ان کے اپنے حدس اور اجتہاد پر مبنی ہے نہ کہ ان کے اپنے حسّ پر، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہوتی اور اصحاب کے درمیان یہ بات معروف ہوتی تو شیخ ؒ کے علاوہ دیگر قدماء کے کلام میں بھی بیان ہوتی، جبکہ اس کا کوئی سراغ یا نشان نہیں ہے۔

اور یہ کہ ان مشائخ ثلاثہ کا صرف ثقہ سے روایت کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی اطلاع صرف انہی کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے، جبکہ انہوں نے اس کی صراحت نہیں کی ہے، ورنہ یہ بات ان کی طرف سے نقل کی گئی ہوتی، اور یہ کہ جیسے ابن ابی عمیر اس بات کا اعلان کر چکے تھے کہ وہ اس بات کے پابند ہیں کہ غیر ثقہ کے حوالے سے رویات بیان نہیں کرتے۔

یقیناً ان اعتراضات اور ان جیسے دیگر اشکالات دور کیے جا سکتے ہیں اس بات کے ذریعے کہ شیخ طوسی ؒ نے طائفہ کے مساوات (یعنی امامیہ علما کا دوسروں کی مسند اور ان تینوں کی مرسل کو برابر قرار دینے کی بات) کو اس سبب سے بیان کیا ہے کہ یہ لوگ غیر ثقہ سے روایت نہیں کرتے، تو اس سے ضمنی طور پر خود شیخ طوسی ؒ کی طرف سے ان مشائخ ثلاثہ کے تمام مشائخ کی وثاقت کی گواہی بھی لازم آتی ہے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ شیخ ؒ کی یہ گواہی حدس پر مبنی ہے لہذا یہ حجت نہیں ہے۔

جواب یہ ہے:کہ اس کا حسّ پر مبنی ہونے کا احتمال موجود ہے - اور ایسی صورت میں " اصالۃ الحس " پر بنا رکھی جائےگی - لیکن مشائخ ثلاثہ کی صراحت کی وجہ سے نہیں، کہ یہ کہا جائے کہ اگر ان کی صراحت ہوتی تو وہ نقل ہوتی، بلکہ ان سے معاشرت کے دوران ان کے حالات سے اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے، کیونکہ بعض افراد کے ساتھ معاشرت سے کبھی اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ وہ کسی معین بات کے پابند ہیں، اور شیخ طوسی ؒ نے اس التزام (کہ یہ افراد اس بات کے پابند تھے) اور اس وضاحت کو براہِ راست حاصل کیا، اور اسی بنا پر انہوں نے اپنی ضمنی شہادت دی۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات نجاشی ؒ پر کیسے پوشیدہ رہی؟

جواب یہ ہے: کہ یہ دیگر مقامات کی طرح ہے جہاں دونوں میں سے ایک وثاقت کی گواہی دیتے ہیں بغیر دوسرے کے۔

اور ہم اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ابن ابی عمیر کی روایت کی مثلاً تین صورتیں ہیں :

۱۔ انہوں نے " مروی عنه" کے نام کو صراحت سے بتایا ہے۔ اور ایسی صورت میں مروی عنہ کی وثاقت کا حکم لگایا جائےگا – شیخ ؒ کی ضمنی شہادت کی وجہ سے – بشرطیکہ اس کا کوئی معارض نہ ہو۔

۲۔ ان کا کہنا " عن بعض اصحابنا" (ہمارے بعض اصحاب سے)۔ اور ایسی صورت میں وثاقت کا حکم نہیں لگایا جائےگا کیونکہ ابن ابی عمیر کے بعض مشائخ غیر ثقہ ہیں اور یہ احتمال ہے کہ یہ بعض انہی ضعیفوں میں سے ہوں۔

۳۔ ان کا کہنا " عن غیر واحد من اصحابنا" (ہمارے اصحاب میں سے ایک سے زائد سے) ۔

(کیونکہ ابن ابی عمیر کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ "عن غير واحد من اصحابنا " سے روایت بیان کرتے تھے۔)

اور ایسی صورت میں روایت قابل قبول ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اگر ہم ابن ابی عمیر کے مشائخ کا احصاء کریں تو ہمیں ان کی تعداد تقریباً ۴۰۰ افراد کے قریب ملےگی، اور ان میں سے پانچ ضعیف ہیں اور باقی ثقہ ہیں۔ اور اگر ہم اس کے ساتھ ایک اور بات شامل کریں اور وہ یہ ہے کہ " عن غیر واحد" کے الفاظ عرفاً کم از کم تین افراد پر دلالت کرتے ہیں، تو یہ ثابت ہوگا کہ تینوں کا ان پانچ ضعیفوں میں سے ہونے کا احتمال، اور ان میں سے کسی ایک کا بھی باقی تین سو پچانوے میں سے نہ ہونے کا احتمال انتہائی ضعیف ہے۔

اور اگر ہم مذکورہ امکانی قدر نکالنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں :

تینوں میں سے ہر ایک کے پانچ میں سے ایک ہونے کی امکانی قدر چارسو میں سے سے پانچ یعنی انسی میں سے ایک ہونے کے برابر ہے (۱) ۔

اور تینوں کے مجموعے کا پانچ میں سے ہونے کا امکان اور ان میں سے کوئی بھی باقی میں سے نہ ہو۔

اور اس بنا پر تینوں کے مجموعے کا صرف پانچ (ضعیفوں) میں سے ہونے کا امکان، اور ان میں سے کسی ایک کا بھی باقی میں سے نہ ہونا یہ ۵۱۲۰۰۰ امکانات میں سے ایک امکان کے برابر ہے۔ اور یہ انتہائی ضعیف ہے کہ صاحبانِ عقل اس کی پرواہ نہیں کرتے(۲)۔

حوالے:

(۱)- یعنی اسّی امکانات میں سے ایک امکان۔۔

(۲)-رجال کے مقام میں، اصولِ فقہ اور فقہ میں دونوں کی بعض بحثوں میں امکانی حساب کی تطبیق ایک نہایت عمدہ و شاندار خیال شمار کیا جانا چاہیے۔

مذکورہ بالا کا نتیجہ

مذکورہ بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن ابی عمیر جب اپنے شیخ کے نام کی صراحت کرے تو اس شیخ کی وثاقت کا حکم لگایا جائےگا بشرطیکہ اس کے لیے کوئی معارض نہ ہو۔

اور اگر وہ " بعض اصحابنا" کے الفاظ سے تعبیر کرے تو وثاقت کا حکم نہیں لگایا جائےگا۔

اور اگر وہ " غیر واحد" کے الفاظ سے تعبیر کرے تو سند معتبر ہونے کا حکم لگایا جائےگا۔

دیگر توثیقاتِ عامہ

اور توثیقاتِ عامہ - جن میں سے بعض کی صحت معلوم ہو چکی ہے، سب کی نہیں – یہ صرف وہی نہیں ہیں جو بیان کی گئیں بلکہ ان کے لیے دیگر مصادیق بھی ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کر رہے۔

۶۴

تمرینات

س ۱: توثیقِ عامہ سے کیا مراد ہے؟ اس کی چند مثالیں ذکر کریں۔

س ۲: تفسیر قمی کے مقدمے میں وہ کون سی عبارت ذکر کی گئی ہے جس سے اس میں مذکور ہر شخص کی وثاقت کا معنی اخذ کیا گیا ہے؟

س ۳: بعض ان اکابرین کا ذکر کریں جنہوں نے تفسیر قمی کے تمام راویوں کی وثاقت کا نظریہ اختیار کیا ہے۔

س ۴: یہ کہا جا سکتا ہے کہ قمی ؒ کا مقصود صرف ان افراد کی توثیق ہے جن سے انہوں نے براہِ راست روایت نقل کی ہے۔ اس احتمال پر سید خوئی ؒ کا اشکال ذکر کریں۔

س ۵: تفسیر قمی کے بارے میں تین ناقابل قبول اشکالات ہیں۔ انہیں ذکر کریں اور ان دونوں کے قابل قبول نہ ہونے کی وجہ بیان کریں۔

س ۶: تفسیر قمی کے بارے میں دو قابل قبول اشکال کون سے ہیں؟

س ۷: کیوں کہا گیا ہے کہ کامل الزیارہ کے تمام راوی ثقہ ہیں؟

س ۸: کامل الزیارہ کے تمام راویوں کی وثاقت کے قائل افراد کی رائے کا کیسے جواب دیا جائےگا؟

س ۹: سید خوئی ؒ نے کیوں صرف کامل الزیارہ کے راویوں کے بارے میں اپنے نظریہ کو تبدیل کیا، تفسیرِ قمی کے بارے میں نہیں؟

س ۱۰: کہا گیا ہے کہ نجاشی ؒ کے تمام مشائخ ثقہ ہیں۔ اس کی بنیاد ذکر کریں۔

س ۱۱: نجاشی ؒ کے مشائخ کی وثاقت کا معنی اخذ کیے جانے پر اعتراض کیا گیا ہے۔ اعتراض اور اس کا جواب ذکر کریں۔

س ۱۲: اصحاب الاجماع کے بارے میں کشی ؒ کی عبارت کیا ہے؟

س ۱۳: کشی ؒ کے جس کلام میں اجماع کا دعوی کیا گیا ہے اسے سمجھنے میں علماء میں اختلاف ہے۔ مذکورہ اختلاف کو واضح کریں۔

س ۱۴: اصحاب اجماع کا ذکر دو بار آیا ہے: ایک بار خصوصی توثیقات میں اور ایک بار عمومی توثیقات میں۔ کیا آپ اس میں کسی قسم کی تکرار یا تضاد دیکھتے ہیں یا اس میں سے کوئی چیز نہیں دیکھتے؟ اسے واضح کریں۔

س ۱۵: بنو فضال کون تھے؟

س ۱۶: یہ کیوں کہا گیا ہے کہ بنو فضال میں سے بعض پر مشتمل سند کے تمام افراد ثقہ ہیں؟

س ۱۷: مذکورہ قول پر کیسے اشکال کیا جائےگا؟

س ۱۸: کہا گیا ہے کہ ثقہ مشائخ ثلاثہ کے تمام مشائخ ثقہ ہیں۔ اس کی بنیاد بیان کریں۔

س ۱۹: تمام مشایخ ثلاثہ کی وثاقت کا کہنے والے کی رائے پر سید خوئی ؒ کی جانب سے کئی اشکالات ہیں۔ ان میں سے ایک اشکال ذکر کریں۔

س ۲۰: سید خوئی ؒ کے اشکالات کا کیسے جواب دیا جائےگا؟

س ۲۱: ابن ابی عُمیر کی مراسیل پر احتمال کے حساب کا تصور لاگو کریں اس کے بعد جب آپ نے وہ حالت تشخیص کر لی ہوں جن میں ایسا کرنا ممکن ہو۔

س ۲۲: تینوں کے مجموعے کا صرف پانچ ضعیفوں میں سے ہونے کی امکانی قدر نکالنے کا ریاضی طریقہ واضح کریں۔

س ۲۳: کیا وسائل الشیعہ میں مقدمہ العبادات کے ابواب کے باب ۱۹ کی حدیث ۱ کی سند صحیح ہے؟ اسے واضح کریں۔

۶۵

تیسرا نقطہ

رجالی کے قول کی حجیت کا مدرک

ہم پہلے بیان میں چکے ہیں کہ راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے کئی طریقے پائے جاتے ہیں، اور ان میں عمدہ طریقہ رجالی (علمِ رجال کے ماہر) کی توثیق تھا۔

اس نقطے میں ہم چاہتے ہیں کہ رجالی کے قول کی حجیت کے مدرک کا علم حاصل کریں۔ ذیل میں ہم چند صورتیں بیان کرتے ہیں :

۱۔ یہ شہادت کے عنوان سے ہونا، تو جس طرح حاکم کے سامنے خبر دینا کہ فلاں مکان زید کا ہے ایک شہادت ہے اور یہ شہادت کی حجیت کے عنوان سے حجت ہے، اسی طرح راوی کی وثاقت کے بارے میں رجالی کا خبر دینا بھی شہادت و گواہی ہے، اور یہ شہادت کی حجیت کے عنوان سے حجت ہے۔

اور یہ رائے کئی اکابرین نے اختیار کی ہے جن میں سے ایک صاحب المعالم ؒ ہیں اپنی کتاب " المعالم" میں۔( قدیمی طباعت صفحہ ۱۹۴ )

اور اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نجاشی ؒ اور شیخ طوسی ؒ جیسے افراد کی وثاقت کی شہادت قبول نہ کی جائے، کیونکہ گواہ کے قول کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ زندہ ہو، مردہ نہ ہو۔

اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ جب ان میں سے ہر ایک تنہا ہو تو ان کی شہادت قبول نہ کی جائے، کیونکہ شہادت قبول کرنے کی شرط گواہوں کی کثرت اور ان کا دو ہونا ہے۔

اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ غیر اثنا عشری امامی کی توثیق قبول نہ کی جائے، کیونکہ گواہ کی شہادت قبول کرنے کی شرط اس کی عدالت ہے اور صرف وثاقت کافی نہیں۔ اور اس بنا پر بنو فضال کی توثیقات کو رد کرنا لازم آئےگا جن میں سے بعض کو کشی ؒ نے نقل کیا ہے کیونکہ بنو فضال فطحیہ تھے، جبکہ یہ (رد کرنا) بعید ہے۔

۲۔ یہ اہل خبرہ (ماہرین) کے قول کی حجیت کے عنوان سے ہو، تو جس طرح دلال کا قول اشیاء کی قیمتیں متعین کرنے کے سلسلہ میں اہل خبرہ میں سے ہونے کے عنوان سے حجت ہوتا ہے، اسی طرح نجاشی ؒ کا راویوں کی وثاقت کے بارے میں خبر دینا مذکورہ جہت سے حجت ہے۔

اس بات کا رد و جواب یہ ہے کہ کسی بات کو " اہلِ خبرہ " (ماہرین) کی شہادت و گواہی میں شامل تبھی سمجھا جاتا ہے جب اس میں اجتہاد اور غور و فکر کی ضرورت ہو، جبکہ واضح ہے کہ نجاشی ؒ کی کسی راوی کے ثقہ ہونے کی خبر ایسی چیز پر موقوف نہیں ہے، کیونکہ " وثاقت " کا معاملہ محسوسات یا حس کے قریبی امور سے ہوتا ہے۔

اور اگر آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں: نجاشی ؒ کے زمانے میں رجالی کتابیں بہت تھیں اور ان کے ذریعے وہ اِس اور اُس کی وثاقت پر حکم لگاتے تھے، اور محض یہ بات انہیں اہل خبرہ میں منتقل نہیں کرتی، کیونکہ یہ اس شخص کی مثال ہے جو کسی اونچے مقام پر کھڑا ہو اور اس پر سے اِس اور اُس کے آنے کو دیکھ رہا ہو، اور وہ ہمیں اس کی خبر دے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اس کی خبر کو اہل خبرہ میں سے ہونے کے باب سے قبول کریں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔

۳۔ رجالی کے قول سے اطمینان حاصل ہونے کی وجہ سے اس کی خبر قبول کی جاتی ہے، اور چونکہ اطمینان سیرت عقلائیہ کی وجہ سے حجت ہے اور اس سیرت کو (شارع کی جانب سے) رد کیا جانا ثبوت نہیں ہے، لہٰذا رجالی کے قول کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔

اور اس بات کا رد اور جواب یہ ہے کہ رجالی کے قول سے اطمینان حاصل ہونا بہت ہی نادر ہے۔

اور یہ عجیب بات ہے جو حوزۂ نجفِ اشرف کے بعض اکابرین سے نقل کی جاتی ہے کہ شیخ طوسی قدس سرہ جس کی توثیق کرتے ہیں اس کی وثاقت پر انہیں قطع و یقین حاصل ہو جاتا تھا۔

۴۔ یہ خبرِ ثقہ کی حجیت کے عنوان سے ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ عقلاء کی سیرہ تمام شعبوں میں خبرِ ثقہ سے وابستگی پر جاری ہے۔ اور یہ حجت ہے جب تک کسی خاص مورد میں اس کا ممنوع ہونا ثابت نہ ہو جائے، جیسا کہ زنا کے معاملے میں ہے جہاں دلیل دلالت کرتی ہے کہ یہ چار گواہوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا، اور جیسا کہ چوری کے معاملے میں ہے جہاں دلیل دلالت کرتی ہے کہ یہ دو گواہوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔

اور اس رائے کی بنا پر، موثِّق (توثیق کرنے والے) میں عدالت شرط نہیں ہے بلکہ اس کا ثقہ اور جھوٹ سے بچنے والا ہونا کافی ہے۔ اسی طرح تعداد بھی شرط نہیں ہے بلکہ ایک کی خبر کافی ہے۔ اسی طرح اس کا زندہ ہونا بھی شرط نہیں ہے۔

یہ سب اس وجہ سے ہے کہ عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ ثِقہ کی خبر پر بغیر تعدد، عدالت اور حیات کی شرط کے عمل کیا جائے۔

اور متاخرین میں سے جن لوگوں نے اس رائے کو اختیار کیا ہے ان میں سید خوئی قدس سرہ ہیں۔

توثیقات میں ارسال کا مسئلہ

ایک نہایت دلچسپ اشکال - جس کا ہم نے پہلے اشارہ کیا تھا - خاص طور پر آخری رائے کی بنا پر وارد ہوتا ہے۔

اور اس کا خلاصہ یہ ہے: کہ نجاشی ؒ جب کسی خاص شخص کی وثاقت کے بارے میں خبر دیتے ہیں، تو وہ اس بارے میں اس عنوان سے خبر دیتے ہیں کہ یہ بات ان تک ہاتھوں ہاتھ اور ثقہ سے ثقہ کے ذریعے پہنچی ہے، پس اس صورت میں ان کی وثاقت کی خبر دینا، ایسی خبر ہے جو ثقہ افراد کے ایک سلسلہ سے ہو کر گزرتی ہے۔

اور اس بنا پر کہا جاتا ہے: اگر نجاشی ؒ ہمیں امام صادق علیہ السلام کے کسی معین مسئلہ پر حکم کے بارے میں خبر دیتے، تو ہم ان کی خبر قبول نہ کرتے سوائے اس کے کہ جب وہ ہمیں ان راویوں کا سلسلہ بتائیں جن پر وہ نقل میں اعتماد کرتے ہیں۔ اور ہم ان سے اکتفا نہ کرتے اگر وہ جواب میں کہتے کہ سلسلے کے تمام افراد ثقہ ہیں۔ ہم ان کی اس بات کو رد کرتے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ ان میں سے بعض جن کی وہ وثاقت کی گواہی دیتے ہیں ان کا کوئی جارح (ضعیف قرار دینے والا) ہو جو ان کے ضعف کی گواہی دیتا ہو، لہٰذا جب تک سلسلے کے افراد کے ناموں کی صراحت نہ کی جائے یہ احتمال ان کی وثاقت کی گواہی کو قبول کرنے میں مانع رہےگا۔

اور اسی وجہ سے شرعی احکام کے بارے میں خبر دینے کے باب میں مراسیل روایات مذکورہ نکتے کی وجہ سے رد کی گئی ہیں۔

اور یہی بات خود نجاشی ؒ کی توثیقات میں بھی وارد ہوتی ہے، جب وہ کسی خاص راوی کی وثاقت کے بارے میں خبر دیتے ہیں تو ان کی خبر ثقات کے سلسلے کے ضمن میں ہوتی ہے، اور چونکہ سلسلے کے افراد کے نام وہ نقل نہیں کرتے، لہٰذا ہمیں ان میں سے بعض کے لیے جارح کی موجودگی کا احتمال رہتا ہے۔

اور مختصر الفاظ میں: جس طرح نجاشی ؒ اگر کہتے: " امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: شراب نجس ہے " ، تو ہم ان کی خبر قبول نہ کرتے کیونکہ وہ مرسل ہے، اسی طرح ان کی وثاقت کے بارے میں خبر بھی مرسل ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی جائےگی۔

اور یہ اشکال - جیسا کہ ہم نے کہا - خاص طور پر آخری رائے پر وارد ہوتا ہے، باقی آراء پر نہیں، کیونکہ باقی آراء کی بنا پر رجالی کا قول خبر دینے کے عنوان سے حجت نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ مرسل خبریں حجت نہیں ہیں۔

اور ہم پہلے اس اشکال کا جواب ذکر کر چکے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ رجالی کتابیں نجاشی ؒ اور شیخ طوسی ؒ کے زمانے میں بہت تھیں، لہذا اس کے ذریعے یہ دونوں اِس اور اُس کی وثاقت کے بارے میں ایسی فضا سے روبرو ہوئے تھے جو بالکل واضح اور نمایاں تھی، اور انہوں نے اسی واضح فضا پر اعتماد کیا نہ کہ اکابرین سے اکابرین کے ذریعے نقل کرنے پر تاکہ یہ کہا جائے کہ تمام سلسلے کی بغیر معارض کے وثاقت ثابت کرنا ضروری ہے، اور جب تک واسطوں کے اسماء معلوم نہ ہو یہ ناممکن ہے۔

اور اگر یہ جواب کامل ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ ہم دو (دیگر) جوابات پیش کر سکتے ہیں :

۱۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رجالی کے قول کی حجیت کا سبب اس کا خبر ثقہ کی حجیت کے کُبریٰ و کلی قاعدے میں داخل ہونا ہے۔ اور توثیق میں ارسال نقصاندہ نہیں ہے اس بیان کی وجہ سے جو دو مقدمات پر مشتمل ہے:

الف۔ یہ کہ سیرت عقلائیہ اس بات پر جاری ہے کہ اگر ثقہ یہ کہے کہ مجھے ثقہ نے فلاں بات بتائی ہے تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے اور اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ ثقہ کون ہے جس نے تمہیں خبر دی، شاید تم غلطی پر ہو یا اس خبر دینے والے کا کوئی جارح (اسے غیر ثقہ قرار دینے والا) ہو۔

ب۔ یہ کہ ثقہ جب ہمیں کسی شخص کی توثیق نقل کرتا ہے تو وہ توثیق کو ثقات سے نقل کرنے کا پابند ہوتا ہے، ورنہ غیر ثقہ سے کسی شخص کی توثیق کی خبر دینے کا کیا فائدہ؟

اور دونوں مقدموں میں سے ایک کو دوسرے سے ملانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیخ طوسی ؒ جب کسی شخص کی وثاقت نقل کرتے ہیں تو وہ اس بات کے معتقد ہوتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ وہ ثقہ ہے، اور یہ دوسرا ثقہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جس سے وہ نقل کر رہا ہے وہ ثقہ ہے، اور اسی طرح۔

۲۔ یہ کہ ایک نیا مدرک پیش کیا جا سکتا ہے اور وہ شہادت ہے، اس طرح کہ یہ کہا جائے کہ ہمارے پاس دو چیزیں ہیں:ثقہ کی شہادت اور ثقہ کی خبر۔ اور سیرت عقلائیہ اس بات پر جاری ہے کہ ثقہ کی شہادت کو اس کے مدرک و مأخذ کی تفتیش کیے بغیر قبول کیا جائے، اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ گواہ زندہ ہو یا نہ ہو، عادل ہو یا ثقہ، ایک ہو یا متعدد۔ اور چونکہ مذکورہ سیرت پر شرعاً کوئی روک نہیں ہے، لہٰذا وہ حجت ہے۔

ہاں، ہم اس کی تلافی کے لیے کہتے ہیں کہ صاحبانِ عقل ثقہ کی گواہی اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ خبر کے حِس پر مبنی ہونے کا احتمال قابلِ توجہ حد تک ہو۔

اور یہ احتمال نجاشی ؒ اور شیخ ؒ کے حق میں ان کے زمانے میں رجالی کتابوں کی کثرت کی وجہ سے ثابت ہے۔

اور اگر آپ نے اس جواب اور چار سابقہ جوابات میں سے پہلے جواب کے درمیان فرق کے متعلق سوال کیا۔

تو جواب یہ ہے: کہ جو پہلے ذکر کیا گیا تھا اس کی نگاہ شہادت کے شرعی معنی کی طرف تھی جو گواہ کی کثرت، اس کے زندہ ہونے اور اس کی عدالت پر منحصر ہے، جبکہ اس جواب کی نگاہ شہادت کے دوسرے معنی کی طرف ہے جس پر عقلاء کی سیرت جاری ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ثقہ اگر کسی چیز کی گواہی دے تو اس کی شہادت قبول کی جاتی ہے چاہے وہ زندہ نہ ہو اور نہ ہی عادل ہو۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ ثقہ کی خبر اور ثقہ کی شہادت میں کیا فرق ہے؟

تو جواب یہ ہے: کہ ثقہ کی خبر میں صرف اس کا ناقل ہونا ملحوظ ہوتا ہے بغیر اس کے کہ اس کا خاص حکم فرض کیا جائے، جبکہ ثقہ کی شہادت میں مدّ نظر اس کا کسی شے کو نقل کرنا ہوتا ہے اس فرض کے ساتھ کہ اس کا حکم بھی اس کے نقل کے مطابق ہے اور اس نقل کی بنیاد پر قائم رائے پر وہ عمل بھی کرتا ہے۔ تو ثقہ کبھی وثاقت کو بغیر اس پر بنا رکھے نقل کرتا ہے اور کبھی اسے اختیار کرتے ہوئے اور اس کے مطابق حکم لگاتے ہوئے نقل کرتا ہے۔ اور پہلی بات خبر ثقہ کے عنوان میں آتی ہے اور دوسری بات شہادتِ ثقہ کے عنوان میں آتی ہے۔

تطبیقات

ہم دوبارہ عملی مثالوں کی طرف آتے ہیں۔

حر عاملی ؒ نے " الوسائل"ابواب الماء المطلق میں باب ۳، میں یہ بیان کیا ہے جو اس طرح سے ہے:

۱۔ محمد بن حسن، انہوں نے محمد بن محمد بن نعمان المفید سے، انہوں نے ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین بن سعید اور عبد الرحمن بن ابی نجران سے، انہوں نے حماد بن عیسیٰ سے، انہوں نے حریز بن عبد اللہ سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ۔۔۔

مذکورہ روایت کو حر عاملی ؒ نے شیخ طوسی ؒ کی دو کتابوں میں سے ایک سے نقل کیا ہے ان کے قول محمد بن حسن یعنی شیخ طوسی ؒ کے قرینہ کی وجہ سے۔

اور روایت صحیح السند ہے کیونکہ اس سند کے تمام افراد ثقہ ہیں۔ اور پہلے بھی ان کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔

اور ہم اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ مذکورہ روایت، شیخ طوسی ؒ کے سلسلہ سند سے صحیح ہونے کے باوجود، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حر عاملی ؒ نے اس کے بعد کہا: اور اسے کلینی ؒ نے علی بن ابراہیم ؒ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے، سب نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے ان سے جس نے انہیں خبر دی، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے اسی کی مثل۔ اور یہ روایت حریز اور امام علیہ السلام کے درمیان ایک مجہول واسطہ کے وجود پر دلالت کرتی ہے، اور چونکہ ہمیں یہ احتمال نہیں ہے کہ روایت متعدد (دو مختلف) ہے، لہٰذا مجہول واسطہ کے وجود کے احتمال کی وجہ سے روایت اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔

۲۔ اور اپنی اسناد سے علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے حماد یعنی ابن عثمان سے، انہوں نے حلبی سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ۔۔۔

یعنی شیخ طوسی ؒ کی اسناد سے انہوں نے علی بن ابراہیم ؒ سے۔

اور روایت صحیح السند ہے کیونکہ شیخ ؒ کی سند علی بن ابراہیم ؒ تک صحیح ہے، تو مشیخہ کی طرف رجوع کریں۔ اور سند کے باقی افراد ثقہ ہیں۔

جہاں تک علی اور ان کے والد اور ابن ابی عمیر کا تعلق ہے، تو ان کے متعلق گفتگو پہلے ہو چکی ہیں۔

اور جہاں تک حماد کا تعلق ہے، تو وہ اصحاب اجماع میں سے ہیں۔

اور جہاں تک حلبی کا تعلق ہے، تو یہ عبید اللہ بن علی بن ابی شعبہ حلبی ہیں۔ نجاشی ؒ نے کہا: وہ اور ان کے والد اور ان کے بھائی حلب کی طرف تجارت کرتے تھے تو ان پر حلب کی نسبت غالب آ گئی۔ اور آل ابی شعبہ کوفہ میں ہمارے اصحاب کا ایک مشہور خاندان تھا ۔۔ اور وہ سب ثقہ تھے اور ان کی باتوں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، اور عبید اللہ ان میں سب سے بڑے اور ان کی نمایا شخصیت تھے۔ اور انہوں نے وہ کتاب تصنیف کی جو ان سے منسوب ہے اور اسے ابو عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی اور آپ علیہ السلام نے اسے صحیح قرار دیا۔ آپ علیہ السلام نے اسے پڑھتے ہوئے فرمایا: کیا تم نے ایسے لوگوں کے لیے ایسا (بدلہ) دیکھا ہے؟ ۔( معجم رجال الحديث ۱۱: ۷۷

تمرینات

س ۱: رجالی کے قول کے اعتبار کے لیے چند مدارک ہیں۔ ان میں سے پہلے مدرک کو اس پر ہونے والے اشکال کے ساتھ ذکر کریں۔

س ۲: کیا رجالی کے قول کے اعتبار کا دوسرا مدرک آپ کے نزدیک حجت ہے؟

س ۳: چوتھے مدرک کو اس کی تشریح کے ساتھ واضح کریں۔

س ۴: توثیقات میں ارسال کے اشکال کو واضح کریں؟

س ۵: توثیقات میں ارسال کا اشکال خاص طور پر چوتھے مدرک کے ساتھ کیوں مخصوص ہے؟

س ۶: وہ سابقہ جواب ذکر کریں جو ہم نے توثیقات میں ارسال کے مسئلے کے بارے میں نقل کیا تھا۔

س ۷: پہلے جواب کو واضح کریں جو ہم نے توثیقات میں ارسال کے اشکال کے بارے میں ذکر کیا تھا۔

س ۸: اس کے متعلق دوسرا جواب واضح کریں۔

س ۹: ہم نے جو دوسرا جواب ذکر کیا تھا اس میں اور چار سابقہ جوابات میں سے پہلے جواب کے درمیان کیا فرق ہے؟

س ۱۰: ثقہ کی خبر اور ثقہ کی شہادت میں کیا فرق ہے؟

س ۱۱: کیا وسائل الشیعہ میں مقدمہ العبادات کے ابواب کے باب ۲۰ کی حدیث ۱ کی سند صحیح ہے؟ اسے مکمل بیان کے ساتھ واضح کریں۔

۶۶

فصل دوم

حدیث کی اقسام کے بارے میں بحث

حدیث کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے :

۱۔ صحیح: وہ حدیث جس کے تمام راوی عادل اور امامی ہوں۔

۲۔ موثق: وہ حدیث جس کے تمام یا بعض راوی غیر امامی ہوں لیکن ثقہ ہوں۔

۳۔ حسن: وہ حدیث جس کے تمام یا بعض راوی امامی ہوں لیکن ان کی توثیق نہ کی گئی ہو، بلکہ صرف مدح کی گئی ہو۔

۴۔ ضعیف: وہ حدیث جو مذکورہ بالا تین اقسام میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو، یعنی اس کے راوی مجہول ہوں یا ضعیف قرار دیے گئے ہوں۔

یہ چار اقسام خود بھی مزید دیگر اقسام میں تقسیم ہو سکتی ہیں جن کا ذکر یہاں اہم نہیں ہے۔

اور کہا جاتا ہے کہ متقدمین کے درمیان یہ چارگانہ تقسیم رائج نہیں تھی، بلکہ ان کے نزدیک تقسیم دوگانہ تھی، یعنی انہوں نے حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا تھا : صحیح اور ضعیف۔ ان کی اصطلاح میں صحیح وہ روایت تھی جس پر عمل کرنا لازم ہو اس کے ایسے قرائن سے گھیرے ہونے کے وجہ سے جو اس کے صدور کے قطع یا اطمینان کا فائدہ دیتے ہو جبکہ ضعیف وہ ہے جو اس طرح سے نہ ہو۔

اخباریوں، جیسے صاحب حدائق ؒ، صاحب وسائل ؒ، اور فیض کاشانی ؒ نے چارگانہ تقسیم کو مسترد کیا ہے اور اس تقسیم کے موجد یعنی علامہ حلی ؒ (۱) پر اعتراض کیا۔

اخباریوں کی دلیل اس بارے میں یہ ہے کہ ہماری حدیثوں کی جامع کتب متواتر ہیں اور ان کی صحت پر قرائن قائم ہیں۔ صاحب وسائل ؒ نے ان کتب کی صحت پر دلالت کرنے والے قرائن کی تعداد ۲۲ تک پہنچائی ہے، جیسا کہ یہ بات الوسائل کے آخری حصے میں مذکور نویں فائدے کا مطالعہ کرنے والے پر واضح ہو جاتی ہے۔

حوالہ:(۱)-اور کہا گیا ہے کہ وہ موجد سید احمد بن طاؤس ہیں جو علامہ حلی کے شیخ و استاد ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تقسیم علامہ اور ابن طاؤس سے پہلے ہی قدماء کے ہاں ثابت تھی۔

صاحب وسائل قدّس سرہ نے اپنے کلام میں کہا: " اور اس سے جدید اصطلاح کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے جو حدیث کو صحیح، حسن، موثق اور ضعیف میں تقسیم کرتی ہے، اور یہ علامہ ؒ اور ان کے شیخ احمد بن طاؤس ؒ کے زمانے میں نئی رائج ہوئی تھی " ۔

آئندہ ابحاث میں ان شاء اللہ اس دعوے کو باطل ثابت کیا جائےگا جس میں کہا گیا ہے کہ ہماری حدیثی کتب میں موجود تمام احادیث صحیح ہیں۔ اور اس دعوے کے باطل ہونے کے بعد مذکورہ چارگانہ تقسیم معقول و قابل توجہ قرار پاتی ہے۔

روایت کی مذکورہ چار اقسام سے متعلق کئی ابحاث ہیں جنہیں ہم چند نکات میں ذکر کریں گے :

صحیح روایت کےخلاف شہرت کا وجود

۱۔ اگر روایت صحیح السند ہو تو معروف یہ ہے کہ وہ حجّت ہے، لیکن یہاں ایک معروف و مشہور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فقہاء کے درمیان فتوائی شہرت صحیح روایت کے مضمون کے برخلاف ہو تو کیا اس سے وہ (صحیح روایت) حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے یا نہیں؟ معروف یہ ہے کہ وہ (صحیح خبر) اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔

اس کی تشریح یہ کی جا سکتی ہے کہ ہمارے متقدمین علماء جیسے کلینی ؒ، صدوق ؒ اور ان جیسے دیگر افراد اگر کسی روایت سے اعراض (رو گردانی) کریں تو ان کا یہ عمل اس روایت کے بعض پہلوؤں میں خلل کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے، ورنہ انہوں نے اس سے اعراض کیوں کیا؟

حوالہ:

(۱)- خلاف سید خوئی کے، جنہوں نے اس کے حجیت سے ساقط نہ ہونے کا نظریہ اختیار کیا ہے، اس اعتبار سے کہ اگر خبر بذاتِ خود حجت ہو تو صرف مشہور کی مخالفت کی وجہ سے اس کی حجیت سے دستبردار ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (اس کے لیے) مصباح الاصول جلد ۲، صفحہ ۲۰۳ کی طرف رجوع کریں۔

شاید سیرت عقلائیہ بھی اس کی تائید کرتی ہے، کیونکہ اگر کوئی ثقہ شخص خبر دے اور ماہرین کی جماعت اس کے مضمون سے اعراض و چشم پوشی کرے، تو باقی لوگ اس پر عمل کرنے سے رک جاتے ہیں۔

جس روایت سے اعراض کیا گیا ہے اس کے اعتبار سے ساقط ہونے کی تشریح میں یہ بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ خبر و روایت کی حجیت پر سب سے اہم دلیل سیرت عقلائیہ ہے، اور چونکہ یہ ایک لُبّی و عقلی دلیل ہے، لہٰذا اس میں قدرِ متقین پر اکتفا کیا جائےگا، اور قدر متیقن ایسے ثقہ شخص کی خبر ہے جس سے اس کے ہم عصر ماہرین کی جماعت نے اعراض نہ کیا ہو۔

ہم یہ بطور وضاحت کہیں گے کہ : اصحاب و علماء کا کسی روایت سے اعراض دو شرطوں کی موجودگی میں اسے حجیت سے ساقط کر دےگا :

الف- اعراض ان متقدمین علماء کے یہاں ثابت ہو، جن کا زمانہ غیبت صغریٰ کے قریب تھا، جیسے شیخ کلینی ؒ اور صدوق ؒ، نہ کہ متاخرین، کیونکہ متقدمین کا اعراض، ان کا زمانہ روایت کے صدور کے زمانہ سے قریب ہونے کی وجہ سے، روایت کے بعض پہلوؤں میں خلل کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ متاخرین کے اعراض میں یہ بات موجود نہیں ہے۔

ب- متقدمین کے درمیان ثابت شدہ اعراض ان کے نظریاتی غور و فکر اور اجتہاد کا نتیجہ نہ ہو، کیونکہ ان کا اجتہاد ان پر حجت ہے نہ کہ ہم پر۔

اور اسی وجہ سے یہ کہنا صحیح ہے کہ خبر و روایت جتنی زیادہ صحیح ہوتی جائےگی، مشہور کے اعراض و روگردانی سے اس کا ضعف اتنا ہی بڑھتا جائےگا، کیونکہ اس کی صحت کا بڑھنا اس احتمال کو کمزور کر دیتا ہے کہ اس (روایت) سے اعراض کا سبب اجتہاد ہے۔

ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ طبقۂ متقدمین کا اعراض اگرچہ اعتبار سے ساقط ہونے کا سبب بنتا ہے، لیکن اس - متقدمین کی جماعت کا اعراض – کو ثابت کرنا اکثر اوقات مشکل و سخت ہوتا ہے۔

ثقہ کی خبر یا عادل کی خبر

۲۔بزرگ علماء کے درمیان یہ معروف ہے کہ حجّت صرف عادل کی خبر نہیں ہے بلکہ ثقہ کی خبر بھی حجّت ہے، برخلاف صاحب مدارک ؒ جیسے حضرات کے جنہوں نے صرف عادل کی خبر کی حجّیت کا نظریہ اختیار کیا ہے۔

ثقہ کی خبر کی حجیت اور اس میں عدالت کی شرط نہ ہونے کی وجہ سیرت عقلائیہ ہے جو ثقہ کی خبر پر عمل کرنے پر قائم ہے۔ اور شرعاً اس سیرت عقلائیہ تائید یافتہ ہے کیونکہ اس سے کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ آیتِ نباء اپنے منطوق ( براہِ راست معنی) سے فاسق کی خبر کے عدمِ حجّت ہونے پر دلالت کرتی ہے، جہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو ۔۔۔ اور فاسق کا عنوان اس ثقہ پر بھی صادق آتا ہے جو عادل نہ ہو۔

تو جواب یہ ہوگا: کہ آیتِ کریمہ میں فاسق سے مراد جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والا ہے، دو قرائن کی وجہ سے:

الف- حکم اور موضوع کی مناسبت، کیونکہ عدم حجّیت کے حکم کے لیے مناسب وہ خبر ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والے کی ہو، نہ کہ اس کی جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہو چاہے وہ بعض دیگر محرمات کا ارتکاب کرتا ہو۔

ب- آیہ کریمہ کے آخر میں ندامت کو بطور علّت پیش کیا گیا ہے - ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر نادم ہونا پڑے - کیونکہ ندامت اس خبر کو قبول کرنے سے واقع ہوتی ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والے کی ہو، نہ کہ اس کی جو کبھی اپنے اعضاء سے گناہ کرتا ہو لیکن جھوٹ سے پرہیز کرتا ہو۔

خبرِ ثقہ یا الموثوق بہ

۳۔ اور کیا حجّت کا تعلق فقط خبرِ ثقہ سے ہے یا ساتھ میں یہ بھی شرط ہے کہ خبر وثوق اور اطمینان کا فائدہ دیتی ہو؟

شیخ اعظم ؒ رسائل میں آیتِ نباء سے استدلال سے فراغت کے بعد اور سنت سے استدلال شروع کرنے سے پہلے، وثوق معتبر ہونے کی طرف مائل ہوئے ہیں، آیتِ نباء میں وارد علّت سے تمسّک کرتے ہوئے، کیونکہ جب تک خبر سے وثوق و اطمینان حاصل نہ ہو، ندامت میں پڑنے کا خوف موجود رہتا ہے۔

لیکن صحیح اس کا ضروری نہ ہونا اور راوی کی وثاقت کا کافی ہونا ہے، کیونکہ عبد العزیز بن مہتدی اور حسن بن علی بن یقطین کی صحیح روایت امام رضا علیہ السلام سے ہے: " میں نے عرض کی: اپنے جن دینی امور کی مجھے ضرورت پیش آتی ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے آپ سے سوال کرنے کے لیے آپ تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے تو کیا یونس بن عبد الرحمن ثقہ ہیں کہ میں اپنے دینی امور میں سے جس چیز کا محتاج ہوں اسے ان سے حاصل کروں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں " ۔ ( وسائل الشيعة باب ۱۱ من صفات القاضي ح ۳۳ )

یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سائل کے ذہن میں راوی کی وثاقت کا کافی ہونا مرتکز تھا، اور امام علیہ السلام نے اس بات کی تائید کی۔

اور اسی طرح یہ احمد بن اسحاق کی صحیح روایت سے بھی سمجھا جا سکتا ہے جسے کلینی ؒ نے محمد بن عبد اللہ حمیری اور محمد بن یحییٰ سے، ان سب (دونوں) نے، عبد اللہ بن جعفر حمیری سے، انہوں نے احمد بن اسحاق سے، انہوں نے ابو الحسن علیہ السلام سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: میں نے آپ علیہ السلام سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا: میں کس سے معاملہ کروں اور کس سے لوں اور کس کی بات قبول کروں؟ تو آپ نے فرمایا: العمری میرا ثقہ ہے، پس جو کچھ وہ میرے حوالے سے جو تمہیں پہنچائے وہ میری طرف سے ہی پہنچاتا ہے، اور جو کچھ وہ میری طرف سے تمہیں کہے وہ میری طرف سے ہی کہتا ہے، پس اس کی بات سنو اور اطاعت کرو، کیونکہ وہ ثقہ اور امانت دار ہے ۔۔۔ "

( سابقہ مأخذ: من أبواب صفات القاضي ح ۴ )

پس پیش کی گئی یہ علّت کہ " کیونکہ وہ ثقہ اور امین ہے " اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دارومدار شخص کی وثاقت اور امانت پر ہے نہ کہ خبر کے وثوق پر۔

۶۷

خبرِ حسن

۴۔اور کیا خبرِ حسن حجت ہے؟ میرزا نائینی ؒ اور سید خوئی ؒ نے اس کی حجیت کے نظریہ کو اختیار کیا ہے۔

اور مصباح الاصول

( مصباح الاصول ۲: ۲۰۰ )

میں اس پر سیرت عقلائیہ کے ذریعہ استدلال کیا گیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ سیرتِ عقلائیہ اس بات پر قائم ہے کہ مولا کا اپنے بندے کو دیا گیا حکم جب کسی ایسے امامی ممدوح (قابل تعریف) کے نقل کے ذریعہ پہنچے جس بندے کا نہ تو فسق ظاہر ہو اور نہ ہی عدالت، تو اس پر عمل کیا جائےگا، اسی طرح جیسے سیرتِ عقلائیہ عادل امامی کی نقل سے پہنچی ہوئی خبر پر عمل کرنے پر قائم ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ شخص کی مدح سے یا تو اس کی توثیق حاصل ہوگی یا نہیں ہوگی۔

پہلی صورت میں یہ خبر ثقہ کی خبر کے تحت داخل ہو جائےگی اور حسن سے خارج ہو جائےگی۔

اور دوسری صورت میں اگرچہ یہ خبر ثقہ کی خبر کے تحت داخل نہیں ہوگی، لیکن اس پر عمل کرنے پر سیرت جاری ہونے کا یقین انتہائی مشکل ہے، کیونکہ مدح سے توثیق حاصل نہ ہونے کی صورت میں، جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کا احتمال اپنے مقام پر برقرار رہتا ہے، اور صاحبانِ عقل کے کسی ایسے شخص کی خبر پر عمل کرنے کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے جس کے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کا احتمال ہو !!

۶۸

خبرِ ضعیف

۵۔متأخرین کے درمیان یہ معروف ہے کہ خبر ضعیف حجت نہیں ہے، لیکن ایک سوال یہ ہے کہ کیا خبر ضعیف فقہاء کی فتوائی شہرت کے موافق ہونے کی صورت میں حجیت کے درجے تک پہنچ سکتی ہے؟

یعنی اگر خبر سند کے لحاظ سے ضعیف ہو لیکن مشہور فقہاء نے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہو تو کیا ان کا فتویٰ اس کی سند کی کمزوری کا تدارک کر دیتا ہے؟

معروف یہ ہے کہ شہرت کے ذریعے اس کا تدارک ہو جاتا ہے۔

اور اس پر استدلال کے لیے جو وجوہات پیش کی جا سکتی ہیں، ان کا ذکر کرنے سے پہلے ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ مذکورہ مسئلہ انتہائی اہم ہے، کیونکہ شہرت کے قابلِ تدارک ہونے کی بنا پر، بہت سی ایسی روایات حجیت کے دائرے میں داخل ہو جائیں گی جو شہرت کے قابلِ تدارک نہ ہونے کی بنا پر پہلے اس دائرے سے باہر تھیں۔

جیسا کہ شہرت باعث تدارک ہے اس کبریٰ و کلی قاعدے کو قبول کرنے کی صورت میں، علمِ رجال کی طرف ہماری محتاجی کم ہو جائےگی، کیونکہ روایت اگر سند کے لحاظ سے ضعیف بھی ہو، اس کی حجّیت پر بنا رکھنا ممکن ہے اگر مشہور نے اس کے مطابق فتوی دیا ہو بغیر اس کے راویوں کی وثاقت کی تحقیق کی طرف محتاج ہوئے۔

سند کی کمزوری کا شہرت کے ذریعہ تدارک پر متعدد دلائل موجود ہیں۔ اور وہ یہ ہیں :

الف۔ روایت کی فتوائی شہرت سے موافقت ایک طرح سے روایت کی سچائی کو ظاہر کرتی ہے، اور یہ حجیت کے ثبوت کے لیے کافی ہے، کیونکہ آیت کریمہ میں ہے: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو۔ اس کا مفہوم ہے کہ فاسق کی خبر کی تحقیق اور اس کے صادق ہونے کے واضح ہو جانے کے بعد وہ حجّت ہو جاتی ہے اور اسے قبول کرنا واجب ہے۔

سید خوئی ؒ نے مصباح الاصول( مصباح الاصول ۲: ۲۰۱ ) میں اس پر یہ اشکال کیا ہے کہ جب شہرتِ فتوائی خود اپنی ذات میں حجت نہیں ہے تو اسے خبر کے ساتھ ملا دینا تبیّن (یقین و وضاحت) کا باعث نہیں بنےگا، کیونکہ تبیّن صرف اسی ذریعے سے ممکن ہے جو فی نفسہٖ حجت ہو۔

ب۔مشہور فقہاء کا کسی روایت پر عمل کرنا اس روایت کے راویوں کی توثیق کو ظاہر کرتا ہے، ورنہ وہ اس پر عمل نہ کرتے، اور جب ان کے راویوں کی توثیق ثابت ہو جائے تو وہ حجت ہو جاتی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے: کہ مشہور کا کسی خبر پر عمل کرنا اس کے راویوں کی توثیق پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ ان کا اس پر عمل کرنا ہو سکتا ہے ان کے نزدیک موجود بعض ایسے قرائن کی وجہ سے ہو جنہیں اگر ہم جان لیں تو ہم ان قرائن کو رد کر دیں۔

ج۔کسی روایت پر عمل کی شہرت اس کے صدور اور صحت پر اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

یہ بات اس صورت میں اچھی ہے جب عمل کی شہرت ہمارے متقدمین علماء کی جماعت میں ثابت ہو جو غیبت صغریٰ کے ہم عصر تھے یا اس زمانہ کے قریب تھے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات کیسے ثابت ہو کہ متقدمین کے درمیان جو مسئلہ مشہور تھا اس کی بنیاد یہی روایت تھی؟ اگر متقدمین کی جماعت نے اس روایت پر اعتماد کیا ہوتا تو اطمینان حاصل ہو سکتا تھا، لیکن ہم اسے کیسے ثابت کریں؟ کیونکہ صرف ان کے فتویٰ کا روایت کے مطابق ہونا ان کے اس روایت پر اعتماد پر دلالت نہیں کرتا بلکہ شاید ان کے پاس کوئی اور مستند و بنیاد ہو جس سے ہم واقف نہیں ہیں، کیونکہ ان کی استدلالی کتب ہمارے پاس نہیں ہیں تاکہ ہم جان سکیں کہ ان کے فتوے کی بنیاد روایت ہے یا کوئی اور چیز۔ چنانچہ حسن بن عقیل جو عمانی کے نام سے مشہور ہیں، ان کی ایک فقہی استدلالی کتاب ہے جسے

"المستمسک بحبل آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ"

کہا جاتا ہے، اور نجاشی ؒ نے اس کتاب کے بارے میں کہا ہے: "یہ کتاب طائفہ (شیعوں) میں مشہور ہے، اور کہا گیا ہے کہ حاجی جب بھی خراسان سے آتے، تو اس کی نسخے طلب کرتے اور خریدتے تھے " ۔

یہ کتاب اب مفقود ہے، لہٰذا مذکورہ فقیہ کے مستندات کی شناخت نہیں کی جا سکتی۔

ابن جنید ؒ نقل کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک بڑی کتاب تھی جسے " تھذیب الشیعة لاحکام الشریعة" کہا جاتا تھا اور بعد میں انہوں نے اسے مختصر کر کے " الاحمدی فی الفقه المحمدی" نام دیا۔

بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلی فقہی استدلالی کتاب جو ہم تک پہنچی ہے وہ شیخ طوسی ؒ کی " المبسوط" ہے۔

خبرِ مضمر

۶۔ضعیف خبر کے کئی مصادیق ہیں جن میں سے ایک خبرِ مضمر (ضمیر والی روایت) ہے۔ اور اس کی حجّیت اور عدم حجّیت پر بحث واقع ہوئی ہے۔

خبرِ مضمر وہ روایت ہے جس میں جس سے سوال کیا گیا ہے ان کے نام کی صراحت و وضاحت نہیں کی جاتی کہ وہ امام علیہ السلام ہیں، بلکہ ایک ضمیر ذکر کی جاتی ہے احتمال ہوتا ہے کہ اس ضمیر کا مرجع امام علیہ السلام ہیں یا کوئی اور، جیسے مثال کے طور پر سماعہ کہتے ہیں : " میں نے ان (ضمیر) سے انگور کے رس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا ۔۔۔ " یہاں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ جن سے سوال کیا گیا ہے وہ امام علیہ السلام تھے، اور یہ احتمال ہے کہ وہ کوئی اور ہوں۔ اور اسی وجہ سے بعض اوقات مضمر روایات کی عدم حجیت کا حکم دیا جاتا ہے کیونکہ یہ احتمال ہوتا ہے کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور شخص ہو۔

بہت سے علماء نے اس صورت میں تفریق بیان کی ہے کہ آیا ضمیر بیان کرنے والا شخص ایسے اجلاء و معززین اصحاب میں سے ہیں جن کے لیے امام علیہ السلام کے علاوہ کسی اور سے روایت کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا، جیسے زرارہ اور محمد بن مسلم، یا ضمیر بیان کرنے والا شخص ان کے علاوہ کوئی اور ہے۔ چنانچہ پہلی قسم کی مضمرات حجّت ہیں جبکہ دوسری قسم کے حجّت نہیں ہیں۔

مذکورہ تفریق کی وجہ واضح ہے، کیونکہ زرارہ جیسے شخص کے لیے امام علیہ السلام کے علاوہ کسی اور سے روایت کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا، لہٰذا جن سے سوال کیا گیا وہ یقیناً امام علیہ السلام ہی ہوں گے۔ اور یہ اس وقت برعکس ہے جب ضمیر بیان کرنے والا شخص ان جیسا نہ ہو، کیونکہ اس صورت میں اس کے لیے امام علیہ السلام سے سوال کرنا متعین نہیں ہوتا، لہٰذا اس کی روایت حجت نہیں ہوگی۔

یہ تو تھا تفریق کا معاملہ، لیکن ہم ایک ایسا بیان پیش کر سکتے ہیں جس کے ذریعے تمام مضمرات کی حجیت کو بغیر کسی تفریق کے ثابت کیا جا سکے۔

مذکورہ بیان کا خلاصہ یہ ہے: کہ بغیر کسی مرجع کے ضمیر کا ذکر عربی زبان میں ایک غیر مانوس بات ہے، چنانچہ عربی کلام کے اسالیب سے واقف شخص کے لیے لوگوں کی جماعت میں داخل ہو کر بغیر کسی مرجع کا ذکر کیے " میں نے ان سے سوال کیا " کہنا مناسب نہیں ہے ۔

لہٰذا، جن مقامات پر ضمیر کا ذکر بغیر کسی واضح مرجع کے ہوتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ دونوں فریق کے درمیان ضمیر کے مرجع کے بارے میں کوئی خاص عہد (پہلے سے ذہنی طور پر تعین شدہ مرجع) موجود ہو، جس پر ضمیر کے مرجع کی تشخیص میں اعتماد کیا گیا ہو، اور اسی وجہ سے ضمیر کو ذکر کیا گیا ہوتا ہے۔

پھر ہم اس میں ایک اور مقدمہ شامل کرتے ہیں: کہ امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو معہود (پہلے سے ذہنی طور پر تعین شدہ مرجع) ہو، کیونکہ شیعہ حلقوں میں ذہنی طور پر طے شدہ بات یہ تھی کہ سوالات امام علیہ السلام سے ہی کیے جاتے ہیں۔

اس طرح جس سے سوال کیا گیا ان کا امام علیہ السلام ہونا ثابت ہو جاتا ہے، بغیر کسی تفریق کی ضرورت کے۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ شاید امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور شخص بھی تھا جو دونوں فریق کے درمیان معہود (پہلے سے ذہنی طور پر تعین شدہ مرجع) ہو جس پر (مخاطب و متکلم) دونوں فریق نے ضمیر کے ذکر کے وقت اعتماد کیا ہو، اور یہ طے شدہ نہیں ہے کہ معہود (پہلے سے ذہنی طور پر تعین شدہ مرجع) امام علیہ السلام ہی ہوں۔

تو ہمارا جواب یہ ہے کہ ضمیر بیان کرنے والا جیسے سماعہ نے روایت کو اپنے تک محدود نہیں رکھا تھا بلکہ اسے دوسروں تک پہنچایا تھا یا اپنی کتاب میں درج کیا تھا، تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اسے تمام نسلوں تک پہنچانا چاہتے تھے، اور چونکہ امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جن کے ساتھ تمام نسلیں عہد و پیمان رکھتی ہوں، لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ضمیر امام علیہ السلام کی طرف راجع ہے۔

ضمیر کےاستعمال کا سبب

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ضمیر کے استعمال کے سبب کو جاننا تمام مضمرات کی حجیت کا حکم دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، بغیر کسی تفریق کے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ اصحاب کبھی کبھی ائمہ علیہم السلام سے مختلف موضوعات کے متعدد سوالات کرتے تھے۔ اور جب انہوں نے بعد میں ان سوالات اور جوابات کو نقل کرنا چاہا تو انہوں نے سوالات کے آغاز میں صرف امام علیہ السلام کا ذکر کرنے پر اکتفا کیا اور اس کے بعد ان کی طرف ضمیر پلٹا دی۔ مثال کے طور پر زرارہ کہتے ہیں : میں نے امام صادق علیہ السلام سے نماز میں شک کے حکم کے بارے میں سوال تو آپ نے ایسا فرمایا، اور میں نے ان ؑ سے (انگور کے) رس کے حکم کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے ایسا فرمایا، اور میں نے انؑ سے فقاع کے حکم کے بارے میں سوال کیا ۔۔۔

اور اس کے بعد، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، احادیث کو ابواب میں تقسیم کیا گیا اور ہر جملے کو اس کے مناسب باب میں ذکر کیا گیا، مثلاً فقاع کا باب قائم کیا گیا اور اس کے تحت ذکر کیا گیا: زرارہ نے روایت کیا کہ میں نے ان (ضمیر) سے فقاع کے حکم کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ایسا فرمایا، اس بات کی طرف اشارہ کیے بغیر کہ سوالات کے آغاز میں جن سے سوال کیا گیا تھا وہ امام علیہ السلام تھے۔

ضمیر کے استعمال کا یہ سبب تمام مضمرات کی حجیت کا حکم دینے میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، بغیر کسی تفریق کے۔

اور اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ احتمال موجود ہے کہ سوالات کے آغاز میں جس سے سوال کیا گیا ہے وہ شخص امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہو۔

۶۹

خبرِ مرسل

خبر مرسل وہ روایت ہے جس میں سند کے بعض راویوں کا نام ذکر نہیں کیا جاتا، جیسا کہ سند کے درمیان میں کہا جائے: " عن رجل" (ایک شخص سے) یا " عن بعض اصحابنا" (ہمارے بعض اصحاب سے) یا " عن غیر واحد" (ایک سے زائد افراد سے) اور اسی طرح کے الفاظ۔

اور مراسیل کی حجّیت اور عدم حجّیت پر کلام واقع ہوا ہے، اور اس بارے میں اقوال درج ذیل ہیں :

الف۔ حدیث مرسل کی عدم حجیت اس بنا پر کہ اس میں واسطہ (راوی) مبہم ہوتا ہے، اور ہم اس کی وثاقت کو ثابت نہیں کر سکتے، اور اگر بالفرض اس کی وثاقت کو مان بھی لیں، تب بھی یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی جرح و اعتراض موجود ہو۔

اور " اصالۃ عدم وجود الجارح" کے لیے یہاں پر کوئی بنیاد نہیں ہے۔

ب۔ خبر مرسل حجّت ہے اگر اس کی سند میں اٹھارہ اصحاب اجماع میں سے کوئی شامل ہوں، کیونکہ کشی ؒ نے دعویٰ کیا ہے کہ عصابہ (امامیہ علماء) کا اجماع ہے اسے صحیح قرار دینے پر جسے اصحاب اجماع صحیح قرار دیں۔

اس کا جواب یہ ہے: کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا تھا، مذکورہ اجماع سے مراد اٹھارہ اصحاب کی وثاقت اور ان کے مقام کی عظمت پر اجماع ہے، اور یہ کہ وہ ایسے مرتبہ پر فائز تھے کہ شیعہ علماء نے ان کی وثاقت اور شان کی بلندی پر اجماع کیا ہے، کسی اور کے حال کو دیکھے بغیر (یعنی بغیر ان لوگوں کی طرف نگاہ کیے جنہوں نے ان سے روایت کی ہے اور جن سے انہوں نے روایت کی ہے)۔

ج۔ خبر مرسل حجّت ہے اگر ارسال کرنے والا ابن ابی عمیر، صفوان، اور بزنطی جیسا ہو، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا تھا، اور یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ اس طرح کے معاملے میں تفریق مناسب ہے۔

د۔ تفریق اس بات میں کہ اگر شیخ صدوق ؒ روایت کو امام علیہ السلام کی طرف ارسال " قال الامام الصادق علیہ السلام" جیسے الفاظ کے ساتھ ارسال کریں، اور جب وہ کہے " روی عن الامام الصادق علیہ السلام" تو پہلی صورت میں حجّت ہے جبکہ دوسری صورت میں حجّت نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے: کہ " قال الامام الصادق علیہ السلام" کے الفاظ کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صدوق ؒ کو روایت کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے کا یقین ہے، ورنہ ان کے لیے روایت کی نسبت امام علیہ السلام کی طرف دینا جائز نہیں ہے۔اور شیخ صدوق ؒ کے اس یقین کو فرض کرتے ہوئے، ہم کہتے ہیں: کہ مذکورہ یقین یا تو حِسّ سے پیدا ہوا ہے یا حدس سے، اور " اصالة الحس " ثابت کرتا ہے کہ یہ حسّ سے پیدا ہونے والا یقین ہے، یعنی امام علیہ السلام سے منسوب مضمون کے بار بار اور کثرت سے نقل ہونے کی وجہ سے۔ اور اسی وجہ سے ان کا نقل ہمارے لیے حجّت ہوگا۔

اور یہ سب اس کے برخلاف ہے جب شیخ صدوق ؒ " روی عن الامام الصادق علیہ السلام" کہیں، کیونکہ مذکورہ عبارت شیخ صدوق ؒ کے یقین پر دلالت نہیں کرتی کہ " اصالة الحس " کا اطلاق کیا جا سکے۔اور اس تشریح کے ذریعے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تفریق صرف شیخ صدوق ؒ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ان کا خاص طور پر ذکر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ ان کی فقہی کتابوں میں ارسال کا استعمال کثرت سے ہے، کبھی " قال" کے لفظ کے ساتھ اور کبھی " روی " کے لفظ کے ساتھ۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ " قال" کے الفاظ کا استعمال شیخ صدوق ؒ کے یقین پر دلالت کرتا ہے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ یہ امام علیہ السلام سے بار بار نقل کرنے کی وجہ سے ہو - بلکہ یہ ضعیف ہے، کیونکہ اگر بار بار نقل ہوتا تو صدوق ؒ خود یا کوئی اور ان روایات کا کچھ حصہ نقل کرتا - بلکہ یہ احتمال ہے کہ شیخ صدوق ؒ کو یقین منقولہ مضمون کے ساتھ متصل بعض خاص قرائن کی وجہ سے پیدا ہوا ہو، اور اگر ہم ان قرائن سے واقف ہوتے تو وہ ہمارے لیے یقین کا باعث نہ بنتے اور ہم ان کے باطل ہونے کا حکم دیتے۔

۷۰

تمرینات

س۱: حدیث کی چار اقسام کون سی ہیں؟ انہیں مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔

س۲: قدیم فقہاء کی حدیث کی تقسیم اور علامہ ؒ کی تقسیم میں کیا فرق ہے؟

س۳: اخباریوں نے چارگانہ تقسیم کو کیوں رد کیا ہے؟

س۴: کہا گیا ہے کہ صحیح روایت کے خلاف شہرتِ فتوائیہ اسے حجیت سے ساقط کر دیتی ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

س۵: شہرتِ فتوائیہ سے مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اس بات پر ہم کس طرح سے دلیل قائم کریں گے؟

س۶: مشہور کے اعراض سے روایت کے حجّیت سے ساقط ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ان دونوں کو بیان کریں۔

س۷: روایت کی صحت جس حد تک زیادہ ہوتی جاتی ہے، مشہور کے اعراض کی وجہ سے کیوں اتنی ہی کمزور ہوتی جاتی ہے؟

س۸: متقدمین کی جماعت کا کسی روایت سے اعراض اسے اعتبار سے ساقط کر دیتا ہے، لیکن ۔۔۔ عبارت مکمل کریں۔

س۹: خبرِ عادل اور خبرِ ثقہ میں کیا فرق ہے؟

س۱۰: صرف خبر عادل کی حجیت کا کون قائل ہیں؟

س۱۱: خبرِ ثقہ کی حجیت پر اور عدالت شرط نہ ہونے پر کیا دلیل ہے؟

س۱۲: کہا جاتا ہے کہ آیتِ نباء غیر عادل ثقہ کی خبر کے حجّت نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ہم اس کا کیسے جواب دیں گے؟

س۱۳: کیا آیتِ نباء غیر عادل ثقہ کی خبر کے حجّت نہ ہونے پر اپنے منطوق کے ذریعہ دلالت کرتی ہے یا اپنے مفہوم کے ذریعہ؟

س۱۴: خبر ثقہ اور خبر موثوق بہ میں کیا فرق ہے؟

س۱۵: کیا شیخ اعظم ؒ خبرِ ثقہ کو حجت مانتے ہیں یا خبر موثوق بہ کو؟

س۱۶: وثوق و اطمینان کے حصول کی شرط کے بغیر خبرِ ثقہ کی حجیت پر کیا دلیل ہے؟

س۱۷: سید خوئی ؒ نے خبرِ حسن کی حجیت پر کس انداز سے استدلال کیا ہے؟ اور ہم اس دلیل پر کیسے اشکال کریں گے؟

س۱۸: خبرِ ضعیف کا شہرتِ فتوائیہ کے ذریعہ تدارک کا کیا مطلب ہے؟

س۱۹: خبر ضعیف کا شہرت کے ذریعہ تدارک ہونے کے مسئلے کی بحث کیوں اہم ہے؟

س۲۰: جبران و تدارک کا مسئلہ علمِ رجال کی ضرورت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟

س۲۱: خبر ضعیف کا شہرت سے تدارک ہونے پر پہلی دلیل کی وضاحت کریں اور سید خوئی ؒ نے اس پر کس انداز سے اشکال کیا ہے؟

س۲۲: تدارک پر دوسری دلیل اور اس پر اشکال کی وضاحت کریں۔

س۲۳: تدارک پر تیسری دلیل کی وضاحت کریں۔ اور اسے کس مسئلے کا سامنا ہے؟

س۲۴: خبرِ مضمر سے کیا مراد ہے؟

س۲۵: اس تفریق کو بیان کریں جسے بہت سے بزرگ علماء نے مضمرات کی حجیت میں اپنایا ہے۔

س۲۶: اس بیان کی وضاحت کریں جس سے ہم تمام مضمرات کی حجیت کو بغیر کسی تفریق کے ثابت کرنے کے لیے وابستہ ہوئے ہیں۔

س۲۷: روایات میں ضمیر کے استعمال کا سبب کیا ہے؟

س۲۸: ضمیر کے استعمال کے سبب کو جاننا تمام مضمرات کی حجیت کے حکم میں کیسے مددگار ثابت ہوتا ہے؟ اور ہم اس پر کیسے اشکال کریں گے؟

س۲۹: خبرِ مرسل کیا ہے؟

س۳۰: مراسیل کی حجیت کے باب میں پہلا قول بیان کریں۔ اور اس پر کیسے استدلال کیا جاتا ہے؟

س۳۱: مراسیل کی حجیت کے باب میں دوسرے قول کو اس کی تشریح کے ساتھ واضح کریں اور ہم اس تشریح پر کیسے اشکال کریں گے؟

س۳۲: مراسیل کی حجیت میں تیسرے قول کو اس کی تشریح کے ساتھ بیان کریں۔

س۳۳: مراسیل کی حجیت میں چوتھے قول کو اس کی مکمل واضح تشریح کے ساتھ بیان کریں۔

س۳۴: مراسیل کی حجیت کے چوتھے قول پر ہم کس انداز سے اشکال کریں گے؟

س۳۵: شیخ حر عاملی ؒ نے ابواب الخلل الواقع فی الصلاۃ کے باب ۲۳ میں حدیث ۱ میں یہ نص بیان کی ہے:

" محمد بن الحسن باسناده عن احمد بن محمد عن احمد بن محمد بن ابی نصر عن حماد بن عیسی عن حریز بن عبدالله عن زراره قلت لابی عبدا لله علیه السلام ۔۔۔ "

کیا مذکورہ سند مکمل و درست ہے؟ اسے اچھی طرح واضح کریں۔

س۳۶: اور اسی باب میں حدیث ۲ میں یہ نص بیان کی ہے:

" و باسناد ہ عن الحسین ابن سعید عن النضر عن محمد بن ابی حمز ہ عن عبد الرحمن بن الحجاج و علی جمیعا عن ابی ابرا ہ یم علی ہ السلام فی ۔۔۔ "

کیا مذکورہ سند مکمل و درست ہے؟ اور سند میں وارد " جمیعا" کے لفظ سے کیا مراد ہے اسے واضح کریں۔

س۳۷: کیا اسی سابقہ باب میں مذکور حدیث ۳ کی سند مکمل و درست ہے؟

۷۱

فصل سوم

بعض حدیث کی کتابوں کے بارے میں نظریات

حدیث کی کتابوں میں سے ہر کتاب کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہم ایک اہم دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اخباریوں کی طرف منسوب ہے اور جسے اصولیوں میں سے بعض نے جزوی طور پر اختیار کیا ہے۔

وہ دعویٰ یہ ہے: کہ کتب اربع کی تمام احادیث قطعی طور پر صحیح اور قابل اعتبار ہیں، اور ان کی اسناد کے رجال میں غور و فکر کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ سزاوار ہے کہ اس میں مذکور ہر روایت پر بلا توقف عمل کیا جائے۔

اور اس دعوے کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے کبھی ان تعبیرات سے استدلال کیا جاتا ہے جو ان کتابوں کے مقدمے میں وارد ہوئی ہیں، جن سے یہ بات سمجھی گئی کہ ان کتابوں کے مؤلفین نے ان میں مذکور تمام راویوں کی توثیق کی ہے۔

اور اس کی وضاحت ہر ایک کتاب کے بارے میں گفتگو کرتے وقت آئےگی۔

اور کبھی ان وجوہات سے تمسک کیا جاتا ہے جو کتب اربعہ میں مشترک ہیں اور بعض سے مخصوص نہیں ہیں، مثلاً وہ وجوہات جن سے صاحب وسائل ؒ نے تمسک کیا ہے، اور وہ ۲۲ وجوہات ہیں جن کا ذکر انہوں نے ان بعض فوائد میں کیا ہے جنہیں انہوں نے اپنی کتاب کے آخر میں درج کیے ہیں۔

اور شاید ان وجوہات میں سب سے قوی پہلی وجہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کے اصحاب نے محمدون ثلاثہ (تین محمد: شیخ کلینی ؒ، شیخ صدوق ؒ اور شیخ طوسی ؒ) کے زمانے تک احادیث کو ضبط، تدوین اور محفوظ کے لیے خود کو بہت مشقت میں ڈالا اور محمدون نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان احادیث کو اپنی چاروں کتابوں میں تدوین کیا۔

اور یہ پختہ اہتمام عادتاً ان کتابوں میں درج احادیث کے صدور کے بارے میں علم و یقین پیدا کر دیتا ہے۔

اور اس اہتمام و انتظام کے کئی شواہد ہیں: جب شلمغانی نے کتاب " التکلیف" لکھی تو جلیل القدر شیخ، ناحیہ مقدسہ کے سفیر حسین بن روح رحمہ اللہ نے کہا: تم لوگ وہ کتاب میرے لیے طلب کرو تاکہ میں اسے دیکھوں، چنانچہ انہوں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا اور کہا: اس میں کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ ائمہ علیہم السلام سے روایت کی گئی ہے، سوائے دو یا تین مقامات کے کہ وہ ان پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔

بلکہ خود اسی جلیل القدر شیخ نے جب اپنی مشہور کتاب " کتاب التأدیب" لکھی تو اسے قم کے مدرسے بھیجا، اور وہاں کے فقہاء سے اس پر نگاہ کرنے کی درخواست کی۔ چنانچہ انہوں نے اس کی ہر چیز کی تائید کی سوائے اس کے جو انہوں نے ذکر کیا تھا کہ زکاتِ فطرہ نصف صاع طعام کے برابر ہے، جبکہ مناسب ایک صاع طعام ہے۔

اور یونس بن عبد الرحمن کی تالیف کردہ کتاب " یوم و لیلة" امام ابو محمد صاحب العسکر علیہ السلام کے سامنے پیش کی گئی تو آپ ؑ نے اس پر اپنے اس قول سے تعریفی تبصرہ فرمایا: اللہ اسے قیامت کے دن ہر حرف کے بدلے ایک نور عطا فرمائے۔

یہ بعض شواہد ہیں جو اصحاب کی جانب سے احادیث کے اہتمام و انتظام پر دلالت کرتے ہیں۔

شیخ اعظم (انصاری) ؒ نے اپنی کتاب " الرسائل" میں " حجیت خبر" کی بحث میں ان شواہد کا ایک وافر حصہ نقل کیا ہے، تو رجوع کریں۔

حر عاملی ؒ نے جو کثیر وجوہات ذکر کی ہیں ان میں سب سے اہم یہی وجہ ہے، ورنہ باقی وجوہات پر واضح غور و تأمّل کی گنجائش ہے۔

مثال کے طور پر، وہ تیسری وجہ میں کہتے ہیں: بےشک ربانی حکمت اور اہلِ بیت علیہم السلام کی شیعوں پر شفقت کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے لیے ایسے قابلِ اعتماد اصول فراہم کیے جائیں جن پر وہ زمانۂ غیبت میں عمل کر سکیں، اور وہ اصول دراصل وہی مصادر ہیں جن پر اعتماد کیا گیا اور جن سے کتاب وسائل کو جمع کیا گیا ہے۔

اسی طرح جو انہوں نے ساتویں وجہ میں ذکر کیا ہے کہ اگر اس کی کتاب کی احادیث صحیح نہ ہوں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلےگا کہ شیعہ قیامت کے دن تک گمراہی میں مبتلا رہیں، حالانکہ معمول کا تقاضا اس کے بطلان پر دلالت کرتا ہے، اور ائمۂ اہلِ بیت علیہم السلام اس پر ہرگز راضی نہیں ہو سکتے۔

اسی طرح جو انہوں نے بارہویں وجہ میں ذکر کیا ہے کہ حدیث کی چارگانہ تقسیم غیر شیعہ کتابوں سے لی گئی ہے، اور ہمیں ان کے طریقے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اور اسی طرح جو انہوں نے سولہویں وجہ میں ذکر کیا ہے کہ چارگانہ تقسیم علامہ ؒ اور ابن طاؤس ؒ نے ایجاد کی ہے، اور یہ صرف اجتہاد اور ظنّ ہے، اور ہمیں ظنّ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ان (ائمہ) علیہم السلام سے وارد ہوا ہے: بدترین امور وہ ہیں جو نئے ایجاد کیے گئے ہوں، اور تم پر لازم ہے کہ پرانی و اصلی باتوں کو لازمی طور پر پکڑے رہو۔

یہ تو صاحب الوسائل ؒ کے متعلق ہے۔

جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے، تو سید بحر العلوم ؒ اور دیگر ایک جماعت نے ایک اور دعوے کا اضافہ کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ حدیثی اصول و بنیادی کتابیں جن سے محمدون ثلاثہ نے اپنی کتابوں کی احادیث نقل کی ہیں وہ متواتر ہیں اور ان کی اپنے مؤلفین سے نسبت معلوم ہے، جیسے آج کتب اربعہ کی نسبت ان کے مؤلفین سے معلوم ہے۔

اور انہوں نے اس پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ محمدون ثلاثہ اور ان اصول کے مؤلفین کے درمیان صحیح سلسلہ سند کے وجود کی ضرورت نہیں ہے، لہذا اس سلسلہ سند میں بعض ایسے مشائخ اجازہ کا وجود جن کی وثاقت ثابت نہیں ہے - جیسے احمد بن محمد بن حسن بن ولید اور احمد بن محمد بن یحییٰ اور علی بن محمد بن زبیر قرشی اور حسین بن ابی جید اور احمد بن عبدون اور ۔۔۔ - روایت کو قبول کرنے میں مانع نہیں ہوگا۔

۷۲

کتب اربعہ میں سب کچھ صحیح نہیں ہے

صاحب الوسائل ؒ اور ان کے پیروکاروں کی کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی صحت کے دعوے کی تشریح سے واقف ہونے کے بعد، ہم اس پر درج ذیل طریقے سے اشکال کرتے ہیں:

۱۔ اصحاب کی جانب سے روایات کے بارے میں کیا گیا اہتمام و انتظام تمام احادیث کی صحت کا یقین پیدا نہیں کرتا، بلکہ اس کا زیادہ سے زیادہ تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا علم و یقین حاصل ہوتا ہے کہ ان میں بہت سی روایات صحیح ہیں، کیونکہ عام طور سے یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ تمام مشقتیں بےنتیجہ اور بےثمر ضائع ہو جائے۔

۲۔ خود محمدون ثلاثہ کو بھی اپنی کتابوں میں درج تمام احادیث کی صحت کا قطع و یقین نہیں تھا، تو پھر دوسروں کے لیے یہ مذکورہ قطع کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟

اور جو بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ انہیں قطع حاصل نہیں تھا وہ ان کا کتب اربعہ کی بعض روایات پر بحث و اشکال کرنا ہے۔ چنانچہ شیخ طوسی ؒ " الاستبصار" کے دوسرے حصے میں حدیث ۲۳۰، ۲۳۱ میں کہتے ہیں: " مذکورہ دونوں احادیث کا راوی عمران زعفرانی ہے اور وہ مجہول ہے، اس کے علاوہ ان دونوں کی سند میں بعض ضعیف لوگ بھی ہیں۔

اور تیسرے حصے میں حدیث ۹۳۳، ۹۳۵ میں وہ کہتے ہیں: " ان روایات میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان میں سے دو روایتیں، اور وہ آخری دو روایتیں ہیں، وہ مرسل ہیں۔ اور مراسیل کے ذریعے مسند روایات پر اعتراض نہیں کیا جاتا جیسا کہ ہم نے ایک سے زائدہ مقامات یہ بیان کیا ہے۔ اور جہاں تک پہلی روایت کا تعلق ہے تو اس کا راوی ابو سعید ادمی - سہل بن زیاد - ہے، اور وہ روایات کے ناقدین کے نزدیک انتہائی ضعیف ہے " ۔

اور شیخ مفید ؒ نے ایسی روایات بیان کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماہ رمضان کبھی ناقص (۲۹ کا) نہیں ہوتا، جو " الکافی" اور " الفقیہ" میں موجود ہیں، اور انہوں نے سند کے لحاظ سے ان روایات پر اشکال کیا ہے۔

اور شیخ صدوق ؒ نے " باب الوصي يمنع الوارث" میں کہا: " میں نے یہ حدیث صرف محمد بن یعقوب کی کتاب میں پائی ہے اور میں نے اسے صرف ان کے سلسلہ سند سے روایت کیا ہے " ۔

اور یہ تعبیر صرف اسی صورت میں درست ہے جب کتبِ اربعہ کی تمام روایات کے غیر قطعی ہونے کو بنیاد بنایا جائے، ورنہ ان روایات کے متعدد طرق سے منقول ہونے یا بالخصوص کلینی ؒ کے ذریعے روایت کیے جانے کا کوئی اثر و فرق باقی نہیں رہتا۔

اور التهذيب ج ۹ ص ۴۰ میں شیخ ؒ ایک روایت " الکافی" سے نقل کرتے ہیں جس کی انتہاء ابو سعید خدری تک ہے، پھر اپنے اس قول سے اس پر تبصرہ کرتے ہیں: " اس حدیث میں گدھے کے گوشت کی حرمت کی جو بات موجود ہے وہ اہل سنت کے نظریہ کے مطابق ہے۔ اور جن راویوں نے اس روایت کو روایت کیا ہے ان میں سے اکثر اہل سنت ہیں۔ اور جس کا نقل فقط ان ہی سے مخصوص ہو اس کی طرف توجہ نہیں دی جائےگی " ۔

۳۔ اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ جن اصول و بنیادی کتابوں سے کتب اربعہ میں روایات نقل کی گئی ہیں وہ تمام قطعی الصدور ہیں یا ان کے مؤلفین سے نسبت میں متواتر ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ معتبر سلسلہ سند کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ کتاب کے اصل کا قطعی ہونا اور اس کی اپنے مؤلف سے نسبت کا متواتر ہونا، اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ اس کے تمام نسخے قطعی ہو۔ مثال کے طور پر، " الکافی" کی نسبت کلینی ؒ کی طرف قطعی ہے، لیکن اس کا یہ لازمی نتیجہ نہیں کہ " الکافی" کے نسخوں میں سے ہر نسخہ قطعی ہے اور اس میں کلینی ؒ کے لکھے ہوئے اصل سے کوئی اختلاف نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض نسخے اضافہ، کمی یا تحریف پر مشتمل ہو، لہٰذا ہمیں - اس صورت میں - ان خطرات سے بچنے کے لیے خود صاحبِ کتاب تک ایک معتبر سلسلہ سند کی ضرورت ہے۔

دوسرے الفاظ میں: خود کتابوں کا متواتر ہونے کا مطلب ان کے نسخوں کا متواتر ہونا نہیں ہے۔

اور صاحبِ کتاب کا اس کی طرف سے اس کتاب کو روایت کرنے کی اجازت کا فائدہ اس مقام میں ظاہر ہوتا ہے۔

پس صاحبِ کتاب اپنی کتاب کا ایک نسخہ اپنے شاگرد کو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس نسخہ کی روایت میری طرف سے بیان کرنے کی اجازت دیتا ہوں، اور شاگرد اپنے موقع پر اسے اپنے شاگرد کو دیتا ہے اور اسے اس سے روایت کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور تیسرا اسے چوتھے کو دیتا ہے۔ اور اسی طرح ہر ایک وہ نسخہ دوسرے کو دیتا ہے اور اس نسخے کی روایت اس کی طرف سے بیان کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور اس طرح مؤلّف کی کتاب کا ایک نسخہ ہم تک ہر قسم کی خرابیوں سے محفوظ پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر ہر سابق کی اجازت کے ساتھ لاحق کو منتقل ہونے والی نسخے کی یہ سلسلہ وار روایت نہ ہوتی تو ہم اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔

۴۔ اگر کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث قطعی ہوتی تو شیخ طوسی ؒ اور صدوق ؒ کو اپنی کتابوں کے آخر میں " المشیخہ" درج کرنے اور ان اصول تک اپنا سلسلہ سند ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی جن سے انہوں نے احادیث نقل کی ہیں۔ اور شیخ طوسی ؒ نے " مشیخہ" کے مقدمے میں جو یہ بیان کیا ہے کہ میں یہ " مشیخہ" اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ میری احادیث ارسال سے نکل کر اسناد کی طرف منتقل ہو جائے، اس کا بھی کوئی معنی نہ ہوتا۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کا سلسلہ سند ذکر کرنے کا مقصد برکت حاصل کرنے اور سند کو امام علیہ السلام سے متصل کرنے کے لیے تھا۔

تو ہم جواب دیں گے کہ اس بنیاد پر تو سلسلہ اسناد کی کثرت کی ضرورت نہیں ہے اور اصل کے مؤلف تک ایک سے زیادہ سلسلۂ اسناد ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مناسب یہ تھا کہ اصل کے مؤلف تک ایک سلسلہ سند پر اکتفا کیا جاتا اور دوسرے سلسلہ سند کا ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی، کیونکہ برکت کا حصول ایک سلسلہ سند کے ذکر سے ہو جاتا ہے، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ طوسی ؒ مثلاً بعض اصول تک ایک سے زیادہ سلسلہ اسناد ذکر کرتے ہیں۔

بلکہ ممکن ہے کہ ہم اس سے بڑھ کر کہے: کہ برکت کے خیال پر بنا رکھتے ہوئے تو سلسلہ اسناد کو ایک کتابچہ میں درج کرنے اور اسے مشیخہ کا نام دینے اور لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مذکورہ مقصد کے حصول کے لیے سلسلہ اسناد کو ایک کاغذ پر درج کرنا اور شیخ ؒ یا صدوق ؒ کا اسے اپنے پاس محفوظ رکھنا کافی ہے، بلکہ اسے کاغذ پر درج کرنے کی بھی ضرورت نہیں اور اسے دل میں محفوظ رکھنا ہی کافی ہے۔

سند کو امام علیہ السلام تک اس طرح پہنچانے سے بھی برکت حاصل ہو جاتی ہے، اور اسے مشیخہ کے عنوان سے کتاب میں درج کرنا کاغذ اور روشنائی کا ضیاع اور بلا جواز دونوں کا اسراف ہے۔

اور ہم جو کہہ رہے ہیں اسے مزید واضح کرنے کے لیے آج کی صورتحال پر غور کریں، اگر فرض کریں کہ کوئی شخص اپنی سند امام علیہ السلام سے متصل کر کے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ صحیح ہے کہ وہ ایک کتاب لکھے جس میں وہ شیخ آغا بزرگ تہرانی یا سید مرعشی نجفی قدس سرہما تک اپنا سلسلہ اسناد ذکر کرے اور پھر ان دونوں کے شیخ طوسی ؒ تک کے سلسلہ اسناد کو بھی ذکر کرے؟ صاحبانِ عقل یقینی طور پر اس پر ہنسیں گے اور اسے کہیں گے کہ ان سلسلہ اسناد کو اپنے دل میں یا اپنے لیے ایک کاغذ پر محفوظ رکھو۔

۵۔ نجاشی ؒ نے ضعفاء سے روایت کرنے سے پرہیز کیا ہے، جیسا کہ ان کی کتاب کے بعض مقامات پر ذکر کیا گیا ہے، اور اگر ان کتابوں کا جن سے یہ روایات نقل کی گئی ہیں، متواتر ہونا فرض کر لیا جائے، تو پھر یہ بات بےمعنی ہو جاتی ہے۔

اور احمد بن محمد بن عیسیٰ نے — جیسا کہ نجاشی ؒ نے نقل کیا ہے — حسن بن علی وشّاء سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے ابان احمر کی کتاب نکال کر دے اور یہ بھی چاہا کہ وہ اسے براہِ راست اس سے سنے، تو اس پر وشّاء نے اس کی جلدبازی کو ناپسند کیا اور اس سے کہا: جاؤ، پہلے اس کتاب کی نقل تیار کرو، پھر اسے مجھ سے سنو۔ احمد نے جواب دیا: مجھے زمانے کے حوادث پر اطمینان نہیں ہے۔

ان کتابوں کے متواتر ہونے کے بعد، ان سے براہِ راست سماعت کی ضرورت اور احمد بن محمد بن عیسیٰ کا یہ عذر پیش کرنا کہ " مجھے زمانے کے حوادث کا خوف ہے " — اس کی کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہتی۔

۶۔کتب اربعہ میں ایسی احادیث بھی ہیں جن کے صدور کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، " الکافی" میں کتاب الطلاق میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: میرے بیٹے حسن علیہ السلام سے شادی نہ کرنا، کیونکہ وہ نکاح کرتا اور طلاق دیتا ہیں " (۱) ۔

ہم کتاب الکافی کی تقدیس اس بھاری قیمت پر قبول نہیں کرتے کہ اس میں ہمارے امام حسن علیہ السلام کی عزت کم ہو۔

اور " الکافی" میں ابو بصیر سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے، اللہ عز و جل کے اس قول کے بارے میں بھی روایت ہے :

" «اور بےشک یہ ایک ذکر ہے تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے، اور عنقریب تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا»۔ رسولِ خدا صلّى اللّه علیہ و آلہ ذکر ہیں، اور آپ ؐ کے اہلِ بیت علیہم السّلام وہ ہیں جن سے سوال کیا جائے گا، اور یہی وہ ہیں جو اہلِ ذکر ہیں " (۲) ۔

حوالے :

(۱)- الكافي ۶: ۵۶

(۲)- الجزء الأول من اصول الكافي: ص ۲۱۱ حديث ۴

اس قسم کی روایت کا صدور ایسا ہے جو ترکیب کے اختلال کی وجہ سے قطعی طور پر باطل ہے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ ایسی احادیث کے ظاہری معنی سے دست بردار ہونا اور ان کی کسی نہ کسی طرح کی تاویل کرنا ضروری ہے، مثلاً پہلی حدیث کی تاویل یہ کی جائے کہ کوفہ کے بعض خاندان امام حسن علیہ السلام کی شادی اپنی بعض بیٹیوں سے کرانے کی کوشش میں تھے اور امیر المؤمنین علیہ السلام اپنے بیٹے کو ان بیٹیوں سے بچانا چاہتے تھے، چنانچہ وہ منبر پر تشریف لائے اور اپنے بیٹے کی حفاظت کے لیے فرمایا: میرے بیٹے حسن ؑ سے شادی نہ کراؤ، کیونکہ وہ کثرت سے نکاح کرتے ہیں اور طلاق دیتے ہیں۔

تو ہم جواب دیں گے کہ صدور کو برقرار رکھنے اور ظہور کو ختم کرنے میں کیا فائدہ ہے؟!! اہلِ بیت علیہم السلام اور ان کی روایت کی تقدیس لازمی طور سے ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم صدور اور ظہور دونوں لحاظ سے ان کی حفاظت کریں، لیکن ان کے صدور کو تسلیم کرنا اور ان کے ظہور پر عمل نہ کرنا درحقیقت اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات سے دست بردار ہونا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔

خصوصی اشکالات

کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی قطعیت کے دعوے پر یہ کچھ اشکالات ہیں اور یہ عمومی اشکالات ہیں۔

اور ہم ہر ایک کتاب کے بارے میں بات کرتے وقت ان خاص اشکالات کا ذکر کریں گے جو ہر ایک سے متعلق ہیں۔

۷۳

مسترد شدہ مستندات

کبھی کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی قطعیت کے دعوے کی تصدیق کے لیے بعض روایات سے تمسک کیا جاتا ہے، جیسے علی بن حنظلہ کی روایت امام صادق علیہ السلام سے: " ہم سے روایت کرنے والوں کے مقامات کو ہم سے ان کی روایات کی مقدار کی بنیاد پر پہچانو "( الكافي ۱: ۵۰ )

اور محمد بن حسن بن ابی خالد کی روایت ہے، میں نے عرض کیا ابو جعفر الثانی علیہ السلام سے :

" میں آپ پر فدا، انہوں نے ابو جعفر اور ابو عبد اللہ علیہما السلام سے روایت کیا ہے اور تقیہ شدید تھا تو انہوں نے اپنی کتابیں چھپا لیں اور ان سے روایت نہیں کی گئی، پھر جب وہ وفات پا گئے تو کتابیں ہم تک پہنچیں، تو آپؑ نے فرمایا:

" حدّثوا بها فإنها حق"

(انہیں بیان کرو کیونکہ یہ حق ہیں)۔( الكافي۱: ص ۵۳ )

مذکورہ روایات کی دلالت میں غور و تأمّل واضح ہے، کیونکہ اگرچہ وہ اجمالی طور پر روایات کے نقل کے حجّت ہونے اور اس کے قبول کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں ـ اور ورنہ اس بات کا کوئی مطلب نہ ہوتا کہ کسی شخص کا مقام و مرتبہ اس کی روایت کی مقدار کے مطابق قرار دیا جائے، اور نہ ہی اس بات کا کوئی مفہوم ہوتا کہ انہیں ان احادیث کو

" حدّثوا بها فإنها حق"

کہہ کر نقل کرنے پر ابھارا جائے ـ لیکن وہ ہر نقل کے حجّت ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔ اور کیا یہ احتمال ہے کہ اہلِ بیت علیہم السلام ہمیں ہر روایت کی پیروی کا حکم دیں، جس میں فاسق کی روایت بھی شامل ہو، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ علیہ السلام کا قول " انہیں بیان کرو کیونکہ یہ حق ہیں " متقدمین اصحاب کی کتابوں میں موجود تمام احادیث کی حقانیت پر دلالت کرتا ہے۔

تو جواب یہ ہوگا: کہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ بھی امامین باقرین علیہما السلام سے صادر ہوا اور کتابوں میں درج ہوا وہ حق ہے۔ اور یہ ایک صحیح بات ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں۔ اور کیا یہ امکان ہے کہ کوئی شیعہ اپنے ائمہ علیہم السلام سے صادر شدہ باتوں کی حقانیت کو تسلیم نہ کرے !!!

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ کیسے ثابت کریں کہ کتبِ اربعہ میں موجود تمام احادیث ائمہ علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں اور وہ حق ہیں اور انہیں بیان کرنا واجب ہے؟ سابقہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ ائمہ علیہم السلام سے صادر ہوا ہے وہ حق ہے نہ کہ ہر وہ چیز جو کتبِ اربعہ میں موجود ہے وہ حق ہے اور ائمہ علیہم السلام سے صادر ہوا ہے۔

۷۴

برعکس دعویٰ

اور ممکن ہے کہ ذہن میں اس کے برعکس ایک دوسرا دعویٰ پیدا ہو، اور وہ یہ ہے کہ شیخ صدوق ؒ اور طوسی ؒ نے اپنی کتابوں میں جو کچھ درج کیا ہے وہ حجت نہیں ہے اس بنا پر کہ مشیخہ میں مذکور سلسلہ اسناد کتابوں کے مؤلفین تک کے سلسلہ اسناد ہیں، اور دوسرے الفاظ میں اصل کتاب تک کے، نہ کہ شیخ طوسی ؒ یا صدوق ؒ کے پاس موجود اس نسخے تک کے جس سے وہ اپنی کتاب میں احادیث نقل کرتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں مذکورہ روایات مرسل ہو جاتی ہیں اور بابِ علم اور علمی منسدّ و بند ہونے کا قول لازم آتا ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے:-

۱۔ اس دعوے کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ کا مشیخہ میں مذکور سلسلہ اسناد درج کرنا لغو (بے معنی) ہے اور یہ ان کی طرف سے وقت، روشنائی اور کاغذوں کا ضیاع ہے۔ اور برکت کی خاطر ایسا کیا ہو یہ خیال باطل ہے کیونکہ برکت کے لیے ان کثیر سلسلہ اسناد کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۔شیخ ؒ کا مشیخہ میں یہ قول کہ میں سلسلہ اسناد اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ احادیث ارسال سے نکل کر اسناد کی طرف منتقل ہو جائے، مذکورہ دعوے کو رد کرتا ہے۔

۳۔شیخ ؒ نے الفھرست میں علاء بن زرین کے حالات میں بیان کیا ہے کہ ان کی کتاب کے چار نسخے ہیں اور ہر نسخے کو ایک خاص سلسلہ سند سے روایت کیا گیا ہے، پھر ہر نسخے تک کا سلسلہ سند بیان کیا ہے۔

یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کے جو سلسلہ اسناد ہیں وہ ان کے پاس موجود نسخے تک کے ہیں نہ کہ اصل کتاب تک کے۔

۴۔شیخ ؒ نے " الفھرست" میں شیخ مفید ؒ کا ذکر کرتے ہوئے اور ان کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: " ہم نے ان کی یہ تمام کتابیں ان سے سنیں، بعض ان کے سامنے پڑھی گئی اور بعض ہم نے ایک سے زائدہ دفعہ ان کے سامنے پڑھیں جبکہ وہ سن رہے تھے " ۔ اور یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام تر کوششیں ایک معیّن نسخے پر مرکوز تھیں جسے یا تو پڑھا جاتا تھا یا سنا جاتا تھا۔

۵۔شیخ ؒ نے ابن مہزیار کے حالات میں ان کی کتابوں تک اپنے سلسلہ اسناد کا ذکر کرنے کے بعد کہا: سوائے " کتاب المثالب" کے، کیونکہ عباس نے اس کا نصف علی بن مہزیار سے روایت کیا ہے۔

اور محمد بن حسن صفار کے حالات میں بیان کیا ہے کہ شیخ صدوق ؒ نے ان کی تمام کتابیں روایت کیں سوائے کتاب " بصائر الدرجات" کے۔

اور شلمغانی کے حالات میں بیان کیا: ہمیں ایک جماعت نے " کتاب التکلیف" کی خبر دی سوائے باب شہادت میں موجود ایک حدیث کے۔

ان کے علاوہ بھی ایسے کئی مواقع ہیں جہاں انہوں نے ایک حدیث یا ایک کتاب کا استثناء کیا ہے۔

مذکورہ استثناء اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو سلسلہ سند شیخ ؒ ذکر کرتے ہیں وہ اس نسخے تک کا سلسلہ سند ہے نہ کہ اصل کتاب تک کا، ورنہ ایک یا دو حدیثوں کے استثناء کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

بےشک یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اجازت، قراءت یا سماعت کا تعلق ایک خاص نسخے سے ہوتا تھا، چنانچہ اس نسخے کی تمام احادیث کو یا تو پڑھا جاتا، یا سنا جاتا، یا ان کی اجازت دی جاتی، بغیر ایک یا دو حدیثوں پر اکتفا کیے۔

اور اسی طرح پوری ایک کتاب کو استثنا دینے کا کوئی معنی نہیں بنتا کیونکہ اگر شیخ ؒ کا سلسلہ (طریق) اصل کتاب تک پہنچتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا سلسلہ (طریق) لازماً صاحبِ کتاب تک بھی پہنچتا ہے۔ اور جب شیخ ؒ کا سلسلہ صاحبِ کتاب تک ہے جیسے ابن مہزیار، تو پھر ان کی بعض کتابوں کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۷۵

تمرینات

س۱: کہا گیا ہے کہ کتب اربعہ کی تمام احادیث قطعی طور پر قابل اعتبار ہیں۔ مذکورہ دعوے سے کیا مراد ہے؟ اور اس پر کیسے استدلال کیا جاتا ہے؟

س۲: وہ تیسری وجہ بیان کریں جس سے حر عاملی ؒ کتب اربعہ کی احادیث کی حجیت ثابت کرنے کے لیے وابستہ ہوئے ہیں۔

س۳: اس کی ساتویں وجہ بیان کریں۔

س۴: اس کی بارہویں وجہ بیان کریں۔

س۵: اس کی سولہویں وجہ بیان کریں۔

س۶: حدیثی اصول کے بارے میں سید بحر العلوم ؒ کا کیا دعویٰ ہے؟

س۷: سید بحر العلوم ؒ کے دعوے کا صاحب وسائل ؒ کے دعوے سے کیا ربط ہے؟

س۸: کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی صحت کے دعوے پر پہلا اشکال بیان کریں۔

س۹: مذکورہ دعوے پر دوسرا اشکال بیان کریں۔

س۱۰: اس پر تیسرا اشکال بیان کریں۔

س۱۱: اس پر چوتھا اشکال بیان کریں۔

س۱۲: اس پر پانچواں اشکال بیان کریں۔

س۱۳: اس پر چھٹا اشکال بیان کریں۔

س۱۴: ایسے مسترد شدہ مستندات ہیں جن سے کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے تمسّک کیا جاتا ہے۔ انہیں اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۱۵: ذہن میں ایک شبہ پیدا ہو سکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ شیخ صدوق ؒ اور شیخ طوسی ؒ نے جو کچھ اپنی تین کتابوں میں قرار دیا ہے، وہ حجت نہیں ہے۔ اُس شبہ کو واضح کریں۔

س۱۶: اس شبہ پر پہلا اشکال بیان کریں۔

س۱۷: اس پر دوسرا اشکال بیان کریں۔

س۱۸: اس پر تیسرا اشکال بیان کریں۔

س۱۹: اس پر چوتھا اشکال بیان کریں۔

س۲۰: اس پر پانچواں اشکال بیان کریں۔

س۲۱: وسائل الشیعہ میں ابواب الخلل فی الصلاۃ کے باب ۱ کی حدیث ۱ کی طرف رجوع کریں اور اس کی سند کی حالت واضح کریں۔

۷۶

کتاب "الکافی" کے بارے میں نظریات

کتاب " الکافی" جلیل القدر شیخ محمد بن یعقوب کلینی ؒ (۱) کی کتاب ہے جن کی کنیت ابو جعفر الاعور تھی اور ان کی وفات سن ۳۲۸ ہجری میں ہوئی تھی۔

انہوں نے اپنی باشرف کتاب بیس سال کی مدت میں تصنیف کی جیسا کہ نجاشی ؒ نے ان کے حالات میں نقل کیا ہے۔

اور بےشک اس جلیل القدر شیخ نے زمانۂ غیبتِ صغریٰ میں زندگی گزاری اور وہ ناحیہ مقدسہ کے عظیم سفیروں کے ہم عصر تھے۔ اور انہوں نے چوتھے سفیر یعنی علی بن محمد سمری کی وفات سے پہلے وفات پائی، کیونکہ یہ عظیم سفیر سن ۳۲۹ ہجری میں وفات پا گئے جبکہ کلینی ؒ کی وفات سن ۳۲۸ ہجری میں ہوئی۔ اور یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ ان کی وفات سن ۳۲۹ ہجری میں ہوئی تو اس حساب سے ان دونوں بزرگواروں کی وفات کا سال ایک ہی ہو جائےگا۔

حوالہ:

(۱)-"زبیر" کے وزن پر "کلین" ری کے قریب ایک بستی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ "امیر" کے وزن پر ہے۔

اور بحرانی ؒ نے اپنی کتاب " لؤلؤۃ البحرین" میں سید ہاشم بحرانی ؒ سے، انہوں نے بعض ثقات سے نقل کیا ہے کہ بغداد کے کسی حاکم نے کلینی ؒ کے قبر کی عمارت دیکھی تو اس کے بارے میں پوچھا، تو اسے بتایا گیا کہ یہ کسی شیعہ کی قبر ہے۔ چنانچہ اس نے اس کے منہدم کرنے اور قبر کو کھودنے کا حکم دے دیا۔ جب قبر کھودی گئی تو دیکھا کہ کلینی ؒ کا جسم ان کے کفن میں تھا اور بالکل تغیر سے محفوظ تھا، ساتھ ہی ایک دوسرا ننھا بچہ بھی ان کے ساتھ کفن میں دفن تھا، جس کا جسم بھی بالکل تغیر سے محفوظ تھا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر حاکم نے نہ صرف قبر کو دوبارہ بنا دیا، بلکہ اس کے اوپر گنبد بھی تعمیر کروایا۔

اور یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ بغداد میں کسی حاکم کو تعصب نے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ امام کاظم علیہ السلام کی قبر مطہر کھودنے کا حکم دے۔ تو اس سے کہا گیا: یہاں ان کے (شیعوں کے) علما میں سے ایک آدمی یعنی کلینی ؒ دفن ہے، اُن کی قبر کھود کر ہی عبرت حاصل کر لو تو اس نے ان کی قبر کھودنے کا حکم دیا، تو انہیں اپنی ہیئت پر ایسا پایا گویا انہیں اسی گھڑی دفن کیا گیا ہو تو اس نے اس پر ایک عظیم گنبد بنانے کا حکم دیا اور وہ مقام ایک مشہور زیارت گاہ بن گیا۔

" " "

اور کتاب " الکافی" تین اقسام پر مشتمل ہے: کتاب الروضہ ، الاصول ، اور الفروع ۔

جہاں تک کتاب الروضہ کا تعلق ہے تو وہ ایک حصہ و جلد میں طبع ہوئی ہے۔ اور اس میں ائمہ علیہم السلام کے بعض خطبات اور مواعظ، اور ائمہ علیہم السلام اور دوسروں سے مربوط بعض تاریخی واقعات شامل ہیں۔

اور بعض(۱) نے بیان کیا ہے کہ جب کلینی ؒ نے اپنی کتاب (الکافی) کو مکمل کر لیا اور اس کی روایات کو ان کے متعلقہ ابواب میں مرتب کر دیا، تو اہلِ بیت علیہم السلام کے خطبات، ائمہ علیہم السلام کے رسائل، صالحین کے آداب اور حکیمانہ لطائف و اقوال جیسا بہت سا اضافی مواد باقی رہ گیا، جنہیں چھوڑنا مناسب نہ تھا تو انہوں نے ایک اور کتاب تالیف کی جس میں ان سب کو جمع کیا، اور اس کا نام " الروضہ" رکھا، کیونکہ روضہ (باغ) کھجور کی مختلف اقسام کے اگنے کی جگہ ہوتی ہے۔

حوالہ: (۱)- اور وہ ڈاکٹر حسین علی محفوظ ہیں، جن کا ایک بیان الکافی کی مقدمہ میں مذکور ہے۔

اور اس بارے میں بحث ہے کہ آیا کتاب " الروضہ" کلینی ؒ کی تالیف ہے یا نہیں، چنانچہ بعض نے یہ رائے دی ہے کہ یہ ابن ادریس ؒ کی تالیف ہے۔

اور شیخ نوری ؒ نے اپنی کتاب مستدرک میں ریاض العلماء ؒ سے، انہوں نے مولا خلیل قزوینی ؒ سے نقل کیا ہے کہ وہ یہی رائے رکھتے تھے، یعنی " الروضہ" ابن ادریس ؒ کی تالیف ہے۔ اور کبھی اسے شہید ثانی ؒ کی طرف بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

شیخ نوری ؒ نے اسے رد کیا ہے، کیونکہ اکابرین نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ یہ کتاب کلینی ؒ کی تالیف ہے، جس کا اسلوب روضہ اور کافی کی دیگر کتابوں کے اسلوب سے ملتا جلتا ہے۔

اور اکابرین سے شاید ان کا مقصود نجاشی ؒ اور شیخ طوسی ؒ جیسے حضرات کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ ان دونوں نے بیان کیا ہے کہ " الروضہ" کلینی ؒ کی تالیفات میں سے ہے تو پھر یہ ابن ادریس ؒ کی تالیف کیسے ہو سکتی ہے جو ان کے زمانہ کے کافی عرصہ بعد دنیا میں تشریف لائے؟

" " "

جہاں تک " الاصول" (اصول کافی) کا تعلق ہے تو یہ دو حصوں میں طبع ہوئی ہے، ہر حصہ چار کتابوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ پہلا حصہ کتاب " العقل و الجہل" پر مشتمل ہے جس میں بحث عقل اور جہل کے متعلق ہے، اور کتاب " فضل العلم " جس میں علم اور اس کی فضیلت کے متعلق بحث ہے، اور کتاب " التوحید" جس میں توحید کے متعلق بحث ہے، اور کتاب الحجہ اور اس میں ان موضوعات پر بحث کی جاتی ہے جو معصومین علیہم السلام سے متعلق ہیں، جیسے ان کے علم اور ان کی زندگی کی تاریخ اور دیگر امور جو ان سے وابستہ ہیں اس کے متعلق بحث۔

اور دوسرا حصہ کتاب " الایمان والکفر"، کتاب " الدعاء"، کتاب " فضل القرآن" ، اور کتاب " العشرہ" پر مشتمل ہے۔

جہاں تک " الفروع" (فروع کافی) کا تعلق ہے تو وہ پانچ حصوں میں طبع ہوئی ہیں، جو تمام فقہی فروع میں وارد احادیث پر مشتمل ہیں۔

" " "

اور شیعوں نے الکافی کو بہت بڑی اہمیت دی ہے، اور قدیم زمانے سے لے کر آج کے دن تک اس پر تحقیق، قراءت اور مطالعہ میں اپنی کوششیں یکجا کی ہیں۔

نجاشی ؒ کہتے ہیں: میں اُس مسجد میں جایا کرتا تھا جو مسجد لؤلؤی کے نام سے معروف ہے، اور یہ مسجد نفطویہ نحوی کی ہے۔ میں اس مسجد کے مالک کے پاس قرآن مجید پڑھا کرتا تھا، اور ہمارے کچھ ساتھی ابو الحسین احمد بن احمد کوفی کاتب کے پاس کتاب الکافی پڑھا کرتے تھے۔ (انہوں نے کہا کہ) تمہیں محمد بن یعقوب کلینی ؒ نے یہ حدیث بیان کی ہے، اور میں نے ابو الحسن عقرائی کو دیکھا کہ وہ یہ روایت اُن کے حوالے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔

الکافی کی مجموعی احادیث جیسا کہ کہا گیا ہے اہل سنت کی صحاح ستہ کی مجموعی احادیث سے زیادہ ہیں، کیونکہ الکافی کی مجموعی احادیث ۱۶۱۹۹ ہیں جبکہ صحاح کی مجموعی احادیث ۹۴۸۳ ہیں۔

اور یہاں سے ہمیں مذکورہ کتاب کی عظمت اور اس کے مؤلف ؒ کی طرف سے کی گئی انتھک محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی ان کوششوں پر انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے، جس طرح وہ اپنے نیک بندوں کو جزا دیتا ہے۔

۷۷

چار نکات

کتاب الکافی سے متعلق کئی ابحاث ہیں، ہم ان میں سے چار کو منتخب کرتے ہیں۔

کلینی ؒ کا سلسلہ سند

۱۔ بعض اصحابِ ائمہ علیہم السّلام نے وہ احادیث جو انہوں نے ائمہ علیہم السّلام سے سنی تھیں، کاغذی کتابچوں میں درج کیں جن کی تعداد چار سو تک پہنچی، اور بعد میں انہیں چار سو اصول ( الاصول الاربعمائة) کہا گیا۔

اور کلینی ؒ، صدوق ؒ اور طوسی ؒ نے ان اصولوں کو بنیاد بنایا اور انہیں مخصوص ابواب میں تقسیم کیا اور ہر حدیث کو اس کے مناسب باب میں رکھا۔ اور انہوں نے اس میدان میں انمول کوششیں کیں۔ اور ان کوششوں کے نتیجے میں آج ہمارے ہاتھوں میں موجود کتب اربعہ سامنے آئیں، اور وہ الکافی ، من لا یحضرہ الفقیه، التھذیب ، اور الاستبصار ہیں۔

اور ان عظیم علماء نے ہمارے لیے یہ کام آسان کر دیا ہے اور اجتہاد و استنباط کا راستہ ہموار کر دیا ہے، لہذا جب کوئی فقیہ کسی حکم کا استنباط کرنا چاہے اور اس سے متعلق حدیث کی موجودگی جاننا چاہے تو وہ مذکورہ کتب میں اس حکم کے متعلقہ باب میں رجوع کرتا ہے۔

اور ان کتابوں کے مؤلفین کا طریقہ مختلف ہے، چنانچہ کلینی ؒ جب اصول سے احادیث نقل کرتے ہیں تو وہ اکثر مکمل سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں: " حدثنی علی بن ابراہیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن الامام علیہ السلام " ، اور وہ شاذ و نادر ہی سند کا کچھ حصہ حذف کرتے ہیں۔

ہاں، کبھی کبھی وہ سابقہ سند پر اعتماد کرتے ہوئے سند کا کچھ حصہ حذف کر دیتے ہیں، جسے اصطلاحاً تعلیق کہا جاتا ہے، اور یہ ان کے نزدیک ایک رائج عمل ہے۔

اس کی وضاحت کے لیے ہم درج ذیل مثال ذکر کرتے ہیں جو الفروع ج ۴ ص ۱۷۶ میں مذکور ہے، شیخ قدس سرہ کہتے ہیں :

۱۔ ہمارے چند اصحاب سے، انہوں نے سہل بن زیاد سے، انہوں نے حسن بن محبوب سے، انہوں نے عمر بن یزید سے، انہوں نے کہا: میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے عرض کیا ۔۔۔

۲۔ سہل بن زیاد سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے داؤد بن سرحان سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ۔۔۔

ہم اپنی مراجعت (تحقیق و مطالعہ) سے جانتے ہیں کہ کلینی ؒ سہل سے براہِ راست روایت نہیں کرتے، لہٰذا دوسری حدیث میں سند کا سہل سے شروع کرنا سابقہ سند پر اعتماد اور تعلیق کے عنوان سے ہے، گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں: میں دوسری حدیث روایت کرتا ہوں ہمارے چند اصحاب سے، انہوں نے سہل سے، لیکن انہوں نے " چند " کا لفظ سابقہ سند پر اعتماد کی بنا پر حذف کر دیا ہے۔

اور یہ بات کبھی مبتدی پر پوشیدہ رہتی ہے لہذا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کلینی ؒ سہل سے روایت کر رہے ہیں اور سہل کلینی ؒ کے مشائخ میں سے ہیں۔

اور کبھی کبھی وہ سہل سے براہِ راست اور سابقہ سند پر تعلیق کیے بغیر روایت کرتے ہیں، جیسا کہ الفروع ج ۳ ص ۱۵۴، ۱۵۵، ۱۶۵، ۔۔۔ میں۔

اور ایسی صورت میں حدیث سند کے اعتبار سے غیر معتبر شمار ہوگی، کیونکہ کلینی اور سہل کے درمیان واسطہ معلوم نہیں ہے، الا یہ کہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہی واسطہ ہے جسے کلینی ؒ دیگر مقامات پر ذکر کرتے ہیں۔

اور جو انہوں نے سہل کے بارے میں ذکر کیا ہے اور واسطے کو حذف کیا ہے وہ مثال کے طور پر ہے، ورنہ ہمیں اس کی نظائر اور دیگر مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔

یہ بات تھی کلینی ؒ کے بارے میں۔

جہاں تک شیخ طوسی ؒ اور صدوق ؒ کا تعلق ہے تو ان پر یہ غالب ہے کہ وہ حدیث کی مکمل سند نقل نہیں کرتے بلکہ اس کا کچھ حصہ حذف کر دیتے ہیں اور شاذ و نادر ہی اسے مکمل ذکر کرتے ہیں۔ اور ہم ان شاء اللہ تعالیٰ " الفقیه" اور " التھذیبین" کے بارے میں بات کرتے وقت اس کی وضاحت کریں گے۔

الکافی کی تمام احادیث کی صحت

۲۔ کہا گیا ہے کہ الکافی میں موجود تمام احادیث صحیح اور قابل اعتبار ہیں۔ اور شیخ نوری ؒ نے اپنی مستدرک کے چوتھے فائدے میں اس پر چار وجوہات کے ذریعہ استدلال کیا ہے، جن میں سے ہم دو کا ذکر کرتے ہیں :

الف۔ کلینی ؒ چاروں معزز سفیروں (نواب اربعہ) کے ہم عصر تھے، اور یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ان میں سے کسی ایک کو پیش نہ کی ہو، خصوصاً جبکہ کلینی ؒ نے مذکورہ کتاب شیعوں کے لیے ایک رجوع گاہ و حوالہ بنانے کے مقصد سے تالیف کی تھی جیسا کہ انہوں نے مقدمے میں صراحت کی ہے۔

اور کتابوں کو کسی ایک سفیر کے سامنے پیش کرنا ایک رائج عمل تھا۔

اور اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ اس سے مقصود اس بات کو صحیح قرار دینا نہیں ہے جو بعض زبانوں پر رائج ہے کہ امام حجت علیہ السلام نے فرمایا کہ الکافی ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے، کیونکہ اس کی ہمارے اصحاب کی تالیفات میں کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے بلکہ محدث استرآبادی ؒ نے ایسا کوئی فرمان نہ ہونے کی تصریح کی ہے، اور مقصود صرف یہ دعویٰ ہے کہ اس کتاب کو کسی ایک معزز سفیر کے سامنے پیش کیے جانے کا اطمینان حاصل ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ اس کتاب کو پیش کیے جانے پر اطمینان کا دعویٰ بلکہ ظن کا دعویٰ بھی بےجا ہے، کیونکہ کتاب کو کسی ایک معزز سفیر کے سامنے پیش کرنے کا محرک عام طور سے اس کے مؤلف کا انحراف ہوتا تھا، جیسا کہ شلمغانی اور بنی فضال کے معاملے میں تھا، کیونکہ ان کی کتابوں کے بارے میں سوال کرنا یا انہیں کسی سفیر کے سامنے پیش کرنا رویے یا عقیدے کے انحراف کی وجہ سے تھا، جس سے بعض لوگ یہ تصوّر کر سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا انحراف روایت کو اختیار کرنے میں مانع ہے تو اس صورت میں سوال یا پیش کرنے کا محرک موجود تھا، لیکن کلینی ؒ جیسے شخص کے لیے جس کے بارے میں نجاشی ؒ نے کہا: " اپنے زمانے میں ہمارے اصحاب کے شیخ اور ان کا نمایا چہرہ اور حدیث میں سب سے زیادہ ثقہ " ، تو ان کی کتاب کو کسی ایک نائب کے سامنے پیش کرنے کا کیا محرک تھا؟

اور اگر آپ چاہے تو کہے: یا تو یہ دعویٰ کیا جائے کہ کلینی ؒ کے لیے خود اپنی کتاب پیش کرنا مناسب تھا یا دوسروں کے لیے کتاب پیش کرنا مناسب تھا۔

اور پہلی بات مردود ہے چونکہ کتابوں کے مؤلفین کی طرف سے انہیں پیش کرنے کی کوئی سیرت و طریقہ ثابت نہیں ہے۔

اور دوسری بات سابقہ دلائل سے مردود ہے۔

ب۔ الکافی کے اصول کے مقدمے میں کلینی ؒ نے جو کچھ ذکر کیا ہے اسے بنیاد بنایا جائے، چونکہ بعض نے ان سے کتاب الکافی کی تالیف کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا : " میں نے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ تمہارے پاس ایک ایسی کافی کتاب ہو جس میں دین کے علم کے تمام فنون سے وہ کچھ جمع ہو جس سے طالب علم اکتفا کرے اور طالبِ ہدایت اس کی طرف رجوع کرے اور جو دین کا علم اور صادقین علیہم السلام سے مروی صحیح آثار پر عمل کرنا چاہے وہ اس سے حاصل کرے۔۔۔ اور اللہ نے آسان کر دیا ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، جو تم نے سوال کیا تھا اس کی تالیف یہاں تک کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے کتاب الحجہ کو تھوڑا وسیع کیا ہے اگرچہ ہم نے اسے کما حقہ مکمل نہیں کیا۔۔۔ " ۔

مذکورہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان سے ایسی کتاب کی تالیف کی درخواست کی گئی تھی جس کی طرف وہ شخص رجوع کرے جو صحیح آثار پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور انہوں نے اس مذکورہ درخواست کا جواب دیا اور اس کی تکمیل کی گواہی دی جہاں انہوں نے کہا: اور یقیناً اللہ نے اس تالیف کو آسان کر دیا ہے جس کی تم نے درخواست کی تھی۔

اور بظاہر کلینی ؒ نے مذکورہ مقدمہ " الکافی" کی تالیف مکمل کرنے کے بعد لکھا تھا جہاں انہوں نے کہا: اور یقیناً اللہ نے اس تالیف کو آسان کر دیا ہے جس کی تم نے درخواست کی تھی، اور یہ بھی کہا: اور ہم نے کتاب الحجہ کو تھوڑا وسیع کیا ہے۔

اس کے ساتھ، کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں پہنچتا کہ اگرچہ کلینی ؒ سے یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ ایک ایسی کتاب تالیف کریں جو صرف صحیح روایات پر مشتمل ہو، لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنے اس وعدے کو وفا بھی کیا یا نہیں؛ کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص تالیف کا آغاز کسی ارادے پر کرتا ہے لیکن دورانِ تالیف اس سے عدول کر لیتا ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ کلینی ؒ نے یہ نہیں کہا کہ میں اس میں صرف صحیح آثار ذکر کروں گا بلکہ کہا کہ اس میں صحیح آثار شامل ہے اور یہ بات اس میں اس کے علاوہ شامل ہونے کے منافی نہیں ہے۔

علاوہ ازیں، قدماء کی اصطلاح میں صحیح کا مطلب صرف وہ روایت نہیں ہے جس کے راوی عادل ہوں بلکہ وہ روایت ہے جس پر عمل کرنا واجب ہو، اگرچہ وہ بعض ایسے قرائن سے متصل ہو جن سے اگر ہم مطلع ہوتے تو شاید ہمیں یقین حاصل نہ ہوتا۔

ہاں، اگر کلینی ؒ یہ کہتے: اور صادقین (علیہم السلام) سے مروی ثقات کے آثار پر عمل، تو جو کچھ ذکر کیا گیا وہ درست قرار پاتا کیونکہ یہ احادیث کے راویوں کی وثاقت کی گواہی قرار پاتی لیکن انہوں نے " صحیح آثار " کی تعبیر استعمال کی ہے، اور احادیث کی صحت کی گواہی کا لازمہ راویوں کی وثاقت کی گواہی نہیں ہے۔

اور اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ طوسی ؒ " الکافی" کی بعض روایات پر اشکال کرتے ہیں اور انہیں سند کی کمزوری کی وجہ سے رد کرتے ہیں جیسا کہ کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی صحت پر بحث کے موقع پر کچھ کی طرف اشارہ پہلے ہو چکا ہے۔

عدۃ من اصحابنا (ہمارے چند اصحاب)

۳۔ کلینی ؒ کے متعدد ایسے مشایخ تھے جن سے وہ اپنی کتاب کافی کی روایات نقل کرتے ہیں، جن کی تعداد تیس سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے، البتہ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے انہوں نے کثرت کے ساتھ روایت کی ہے، بعض وہ ہیں جن سے نسبتاً کم روایت کی ہے، اور کچھ ایسے ہیں جن سے ان کی روایت کا سلسلہ درمیانی درجے میں رہا ہے۔

جن سے وہ کثرت سے روایت کرتے ہیں، وہ یہ ہیں: علی بن ابراہیم، محمد بن یحییٰ، احمد بن ادریس، حسین بن محمد، حمید بن زیاد، اور محمد بن اسماعیل قدّس سرھم۔

علی بن ابراہیم ؒ کا درجہ سب سے اوّل ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کی تقریباً ایک تہائی احادیث ان سے روایت کی ہیں، یعنی ۴۹۵۷ احادیت(۱)-

حوالہ:

(۱)- الکافی کی احادیث کی تعدد جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا تھا ۱۶۱۹۹ ہیں۔

دوسرے درجے پر محمد بن یحییٰ ہیں، جنہوں نے ان سے اپنی کتاب کی ایک چوتھائی احادیث روایت کی ہیں، یعنی ۳۱۱۴ احادیث۔

باقی کے درجات اس کے بعد تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آتے ہیں۔

یہ ایک حسنِ اتفاق ہے کہ یہ تمام افراد ثقہ اور جلیل القدر تھے ۔(۱)

اور ایک ایسا اسلوب ہے جو کلینی ؒ سے مخصوص ہے، اور وہ یہ کہ وہ " عدة من اصحابنا" (ہمارے اصحاب میں سے چند) سے روایت کرتے تھے۔ سند کے آغاز میں وہ کثرت سے

" عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ" یا " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد البرقی" یا " عدة من اصحابنا عن س ہ ل بن زیاد"

کہتے تھے۔

حوالہ: (۱)- سوائے محمد بن اسماعیل کے کہ جن کے سلسلہ میں بحث ہے، لیکن اختیار شدہ نظریہ کے مطابق وہ ثقہ ہیں۔

یہ الکافی میں بہت کثرت سے ہے، کہ " عدة" کی روایت یا تو احمد بن محمد بن عیسیٰ سے ہے یا برقی سے ہے یا سہل سے ہے۔

اور احمد بن محمد بن ابی نصر یا سعد بن عبد اللہ سے " عدة" کا روایت کرنا شاذ و نادر ہے۔

" عدة" کے مفہوم اور اس سے سند کے صحیح ہونے یا نہ ہونے پر بحث واقع ہوئی ہے۔

اور اس موضوع میں کچھ رسائل لکھے گئے ہیں، جن میں سے ایک سید محمد باقر اصفہانی شفتی کا رسالہ ہے، جنہیں " حجۃ الإسلام" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

اور اس بارے میں آراء درج ذیل ہیں:

۱۔ علامہ قدس سرہ نے اپنی رجالی کتاب " خلاصۃ الاقوال" کے آخر میں درج کردہ فوائد میں سے تیسرے فائدے میں ذکر کیا ہے کہ کلینی ؒ نے کہا: جب میں کہتا ہوں " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ " ، تو " عدة من اصحابنا" سے مراد محمد بن یحییٰ اور علی بن موسیٰ کمندانی اور ۔۔۔ ہیں۔ اور جب میں کہتا ہوں " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد البرقی" ، تو " عدة من اصحابنا" سے مراد علی بن ابراہیم اور ۔۔۔ ہیں۔ اور جب میں کہتا ہوں " عدة من اصحابنا عن سہل بن زیاد" ، تو " عدة من اصحابنا" سے مراد علی بن محمد بن علان اور ۔۔۔ ہیں۔

اور نجاشی ؒ نے احمد بن محمد بن عیسیٰ کے حالات میں بیان کیا ہے کہ کلینی ؒ نے کہا: " میری اس کتاب میں جو کچھ بھی " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ" ہے، تو وہ محمد بن یحییٰ ہیں اس بات کے آخر تک جو علامہ ؒ نے بیان کی ہے۔

اور نجاشی ؒ کی نقل کردہ بات احمد بن محمد بن عیسیٰ سے مروی " عدة" سے مخصوص ہے۔

اور علامہ ؒ کی مذکورہ تفسیر کی بنیاد پر، " عدة" پر اشکال ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ تینوں عدد میں سے ہر ایک میں ایک ثقہ شخص شامل ہے، اور یہ " عدة" کی صحت کے لیے کافی ہے، چونکہ ایک میں محمد بن یحییٰ ثقہ شامل ہیں، دوسرے میں علی بن ابراہیم ثقہ شامل ہیں، اور تیسرے میں ابن علّان ثقہ شامل ہیں۔

اور بہت سے بزرگ علماء نے علامہ ؒ کی اس تفسیر پر اعتماد کیا ہے، خاص طور پر جبکہ اس کی تائید نجاشی ؒ کی نقل سے تین "عدة" میں سے ایک میں ہو رہی ہے۔

اور اس رائے پر غور ق تأمل واضح ہے، کیونکہ علامہ ؒ یا نجاشی ؒ، کلینی ؒ کے ہم عصر نہیں ہیں کہ ان سے براہِ راست سماعت کر سکتے، لہٰذا ان کے درمیان ضرور واسطے موجود ہوں گے جو حذف کر دیئے گئے ہیں۔ اور چونکہ یہ واسطے مجهول الحال ہیں، اس لیے لازم آتا ہے کہ اس طرح کے نقل کی حجیت ثابت نہ ہو۔

۲۔ کلینی ؒ نے اصول کافی کی پہلی حدیث میں ذکر کیا ہے: " ہمیں خبر دی ابو جعفر محمد بن یعقوب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے حدیث بیان کی " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب) نے، جن میں سے محمد بن یحییٰ عطار شامل ہیں، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے ۔۔۔

یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کلینی " عدة" کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تو ان میں سے ایک جلیل القدر ثقہ محمد بن یحییٰ عطار ہوتے ہیں۔

یہ سید خوئی قدس سرہ نے اس وقت ذکر کیا تھا جب ہم نے ان سے " عدة" کے بارے میں ان کی رائے کے متعلق سوال کیا تھا۔

اور اسی طرز پر یہ بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ کلینی ؒ نے کتاب العتق کے نویں باب میں ذکر کیا ہے، جس کی عبارت یہ ہے: " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب) علی بن ابراہیم اور محمد بن جعفر اور محمد بن یحییٰ اور علی بن محمد بن عبد اللہ القمی اور احمد بن عبد اللہ اور علی بن الحسین (ہیں) ان سب نے احمد بن محمد بن خالد سے ۔۔۔

لیکن یہ الکافی کے تمام نسخوں میں موجود نہیں ہے، بعض میں یوں ہے: " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب)، انہوں نے احمد بن محمد بن خالد سے۔ اور اس صورت میں مذکورہ نقل کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے اور ثبوت صرف پہلے نقل تک باقی رہ جاتا ہے۔

و بہرحال، یہ رائے غور و تأمّل کے قابل ہے کیونکہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ تمام مواقع پر عمومی قرینہ نہیں بنتا۔

۳۔ یہ کہا جائے کہ " عدة" کے افراد کی کم سے کم تعداد تین ہے۔ اور کلینی ؒ کے تین اساتذہ کا جھوٹ پر اتفاق کرنا بعید ہے۔

اور یہ قول ان کے لیے اچھا ہے جنہیں مذکورہ بات سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

۴۔ جو ہم اس مسئلے کے حل کے لیے اختیار کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر ہم کلینی ؒ کے مشائخ و اساتذہ کا جائزہ لیں، تو ہم دیکھیں گے کہ ان کی تعداد - جن کے نام متعدد الفاظ میں دہرائے گئے ہیں انہیں ایک شمار کرنے کے بعد - تیس افراد تک پہنچتی ہے۔

اور اگر ہم ہر ایک سے کلینی ؒ کی روایات کو شمار کریں، تو ہم پائیں گے کہ وہ علی بن ابراہیم سے ۴۹۵۷ مقامات میں، اور محمد بن یحییٰ سے ۳۱۱۴ مقامات میں، اور حمید بن زیاد سے ۳۶۱ مقامات میں، اور احمد بن ادریس جو کہ ابو علی اشعری ہیں سے ۸۰۳ مقامات میں، اور حسین بن محمد سے ۶۶۳ مقامات میں، اور محمد بن اسماعیل سے ۵۱۳ مقامات میں روایت کرتے ہیں۔

اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الکافی کا تقریباً دو تہائی حصہ ان چھ ثقہ افراد سے روایت کیا گیا ہے، کیونکہ الکافی کی احادیث کی تعداد، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا ۱۶۱۹۹ احادیث ہیں۔

اور اگر ہم ان کے باقی مشائخ کی طرف رجوع کریں، تو ہم پائیں گے کہ ان میں سے ایک بڑا حصہ بھی ثقہ ہے اور باقی دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک بڑا حصہ جسے " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب سے) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور ایک چھوٹا حصہ ان کا ہے جن کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

اس کے بعد ہم ایک اور مقدمہ متصل کرتے ہیں، اور وہ یہ کہ "عدة" کے لفظ سے تین یا اس سے زیادہ افراد مراد ہوتے ہیں۔

اور اس مقدمے کو اس کے ساتھ ملانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ " عدة" کے تمام تین افراد باقی مجہول افراد میں سے ہوں جن کی وثاقت ثابت نہیں ہوئی ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ان چھ افراد میں سے نہ ہو جن سے ۱۰،۰۰۰ سے زائد مقامات پر روایت کی گئی ہے — یہ احتمال بہت ہی کمزور ہے۔ اور اس سے یہ اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ کم از کم ایک فرد ان چھ ثقہ راویوں میں سے ضرور ہے۔

پھر، اگر ہم ایک اور چیز کو مدّنظر رکھیں، تو " عدة" کے کسی ایک فرد کی وثاقت پر اطمینان حاصل کرنا زیادہ قوی ہو جائےگا، اور وہ یہ کہ کہا جائے: " الکافی" میں مذکور " عدة" کی تین شکلیں ہیں: " العدة عن احمد بن محمد بن عیسیٰ" ، اور " العدة عن البرقی" ، اور " العدة عن سہل" ۔

جہاں تک " العدة عن ابن عیسیٰ" کا تعلق ہے، تو اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک محمد بن یحییٰ ہے اس اعتبار سے کہ محمد بن یحییٰ ابن عیسیٰ سے کثرت سے روایت کرتے ہیں اور شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ ابنِ عیسیٰ کا نام ذکر ہو اور اس کے ساتھ محمد بن یحییٰ کا نام نہ ہو، جو کہ جلیل القدر ثقہ راویوں میں سے ہیں۔

اور جہاں تک " العدة عن البرقی" کا تعلق ہے، تو اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک علی بن محمد بن بندار ہے جو ثقہ ہے اس اعتبار سے کہ ابن بندار، برقی سے کثرت سے روایت کرتے ہیں۔

اور جہاں تک " العدة عن سہل" کا تعلق ہے، تو اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بھی ایک ابن بندار ہے کیونکہ وہ سہل سے کثرت سے روایت کرتے ہیں۔

پھر ایک اور مقدمہ متّصل کیا جا سکتا ہے جو اطمینان حاصل کرنے میں تیزی لاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کلینی ؒ – کہ جنہوں نے اپنی کتاب کو قیامت تک شیعوں کے لیے مرجع بنانے کی غرض سے تألیف کیا – کے تین مشائخ کا جھوٹ پر جمع ہونا بہت بعید ہے۔

اور بالآخر، ان قرائن میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملانے سے بلا شکال یہ اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ " العدۃ" کے افراد میں سے کوئی ایک ضرور ثقہ ہے، اور یہی مطلوب ہے۔

کلینی کے مشائخ

۴۔ کلینی قدس سرہ کے کئی مشائخ ہیں جن سے انہوں نے اپنی کتاب الکافی کی احادیث نقل کی ہیں، ہم ان میں سے اُن افراد کا ذکر کرتے ہیں جن تک ہماری ناقص تحقیق کے مطابق ہم پہنچ سکے ہیں۔

اور بعض لوگوں نے ان کے ناموں کا ایک جدول تیار کیا ہے جو " الروضہ" کے آغاز میں ذکر ہوا ہے۔ علامہ حلّی ؒ نے اپنی کتاب کے آخر میں درج کردہ بعض فوائد میں کلینی ؒ کے بعض مشائخ کا ذکر کیا ہے اور ان ہی افراد کے ذریعے کلمہ " عدة من اصحابنا" کی تفسیر کی ہے، جسے کلینی ؒ نے کافی میں بارہا استعمال کیا ہے۔ تاہم، ہم نے کلینی ؒ کے مشائخ کے طور پر ان میں سے بعض افراد کے نام الکافی میں نہیں پائے۔

اور ہم اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کلینی ؒ کبھی کبھی ایک ہی شیخ کا مختلف ناموں سے ذکر کرتے ہیں، لہذا دیکھنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ وہ متعدد افراد ہیں جبکہ وہ ایک ہی فرد ہوتا ہے۔

اور ہم درج ذیل جدول میں مشائخ کے نام ذکر کرتے ہیں :

۱۔ علی بن ابراہیم – ان سے کتاب الکافی میں ۴۹۵۷ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ ثقہ جلیل القدر ہیں اور مشہور تفسیر " تفسیر القمی " کے مؤلّف ہیں۔ کلینی ؒ نے الکافی میں ان سے سب سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔

۱۔ محمد بن یحییٰ – ان سے ۳۱۱۴ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ محمد بن یحییٰ عطار اشعری کے نام سے معروف ہیں، اور یہ ثقہ جلیل القدر ہیں۔

۳۔ حمید بن زیاد – ان سے ۳۶۱ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں۔

۴۔ احمد بن ادریس ابو علی اشعری – کلینی ؒ نے کبھی ان سے " احمد بن ادریس " کے نام سے ۱۲۰ مقامات پر، اور کبھی " ابو علی اشعری " کے نام سے ۶۸۳ مقامات پر روایت کی ہے۔ اور وہ ثقہ اور جلیل القدر راویوں میں سے ہیں۔

علامہ ؒ نے " الخلاصہ" میں بیان کیا ہے کہ مذکورہ کنیت کا اطلاق محمد بن عیسیٰ بن عبد اللہ بن سعد بن مالک، شیخِ القمیین، پر ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ دونوں حضرات (یعنی احمد بن ادریس اور محمد بن عیسیٰ) کی وثاقت ثابت ہے، اس لیے یہ اختلافِ نسبت مہم نہیں ہے۔

۵۔ حسین بن محمد – ان سے ۶۶۳ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ ثقہ راویوں میں سے ہیں۔

۶۔ محمد بن اسماعیل – ان سے ۵۱۳ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ فضل بن شاذان سے روایت کرتے ہیں، اور کلینی ؒ نے فضل بن شاذان کے حوالے سے محمد بن اسماعیل سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں۔

اس محمد بن اسماعیل کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے کہ ان سے مراد کون ہے، کیونکہ " محمد بن اسماعیل " کے نام کا اطلاق تین افراد پر ہوتا ہے: ابن بزیع پر جو کہ ثقہ ہیں، البرمکی پر جو کہ ثقہ ہیں اور البندقی پر کہ جن کی توثیق نہیں کی گئی ہے۔

پس اگر مراد محمد بن اسماعیل بن بزیع یا محمد بن اسماعیل البرمکی ہوں، تو یہ ثقہ ہیں۔ لیکن اگر مراد محمد بن اسماعیل البندقی ہو، تو وہ مجهول الحال ہیں۔

ظاہر یہ ہے کہ مراد ابن بزیع نہیں ہیں – اگرچہ صاحبِ تأسیس الشیعة لعلوم الإسلام سید حسن الصدر نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک رسالہ تالیف کیا ہے – کیونکہ ابن بزیع امام رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں، اور کلینی ؒ ان سے دو واسطوں کے ذریعے روایت کرتے ہیں، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۴۳۶ اور الفروع جلد ۳، صفحہ ۴۷ اور ۱۵۲ میں موجود ہے۔

اسی طرح نہ ہی البرمکی مراد ہیں، کیونکہ کلینی ؒ ان سے صرف ایک واسطے کے ذریعے روایت کرتے ہیں، چنانچہ واضح ہوتا ہے کہ مراد تیسرا شخص ہے، (یعنی محمد بن اسماعیل البندقی)۔

لہذا اس کے لحاظ سے اس سند کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس پر یہ بات غالب آتی ہے کہ اس کا تذکرہ کامل الزيارة میں ہے، جہاں وارد ہوا ہے :

محمد بن اسماعیل، انہوں نے فضل بن شاذان سے، بشرطیکہ کامل الزيارة میں موجود ہونا وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہو یا یہ کہا جائے کہ کلینی ؒ کا ان سے کثرت سے روایات نقل کرنا بھی ان کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

۷۔ محمد بن جعفر الرزاز الکوفی – کلینی ؒ نے اپنے اس شیخ سے مختلف مقامات پر اور مختلف ناموں کے ساتھ روایت کی ہے، بعض مقامات میں ان سے مذکورہ نام کے ساتھ روایت کی ہے، جیسا کہ الفروع جلد ۴، صفحہ ۵۷۸ میں، اور دوسری جگہ " محمد بن جعفر ابو العباس " کے نام سے، جیسا کہ الفروع جلد ۶، صفحہ ۵۹ اور ۶۴ میں، اور تیسری جگہ " ابو العباس الرزاز " کے نام سے، جیسا کہ الفروع جلد ۶، صفحہ ۸۴ میں، اور چوتھی جگہ " محمد بن جعفر الکوفی " کے نام سے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۲۵ میں۔ اور شاید یہی وہ شخص ہو جسے محمد بن ابی عبد اللہ الکوفی بھی کہا جاتا ہے، جس سے کلینی ؒ نے متعدد مقامات پر روایت کی ہے، جن میں سے ایک الفروع جلد ۶، صفحہ ۱۶۰ میں۔

اس شخص کی وثاقت کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے۔ نجاشی ؒ کہتے ہیں: محمد بن جعفر بن محمد بن عون الاسدی ابو الحسن کوفی، رے میں رہنے والے، جنہیں " محمد بن ابی عبد اللہ " کہا جاتا ہے، وہ ثقہ اور صحیح الحدیث تھے۔ تمام۔

اور کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص ہی جو " الرزاز" ہیں جن سے کلینی ؒ روایت کرتے ہیں، اور اس وجہ سے ان کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے، لیکن کہا گیا ہے کہ رزاز اور اسدی (محمد بن ابی عبد اللہ) دونوں ایک ہی فرد ہے اس کی کوئی قوی دلیل نہیں ہے، لہٰذا ان کی وثاقت کا حکم لگانا ممکن نہیں ہے۔

۸۔ احمد بن محمد بن احمد الکوفی – اور وہ العاصمی ہیں - یہ نام " الروضہ صفحہ ۱۷ " میں اسی طرح وارد ہوا ہے۔ اور کلینی ؒ نے ان سے دوسری جگہ " احمد بن محمد العاصمی " کے نام سے روایت کی ہے، جیسا کہ الفروع جلد ۶، صفحہ ۶ میں، اور تیسری جگہ " احمد بن محمد " کے نام سے، جیسا کہ الفروع جلد ۴، صفحہ ۴۴، ۴۵ اور ۱۳۳ میں، اور یہ راوی ثقہ راویوں میں سے ہیں۔

۹۔ علی بن محمد بن بندار – ان سے کلینی ؒ نے کبھی تو اسی نام سے روایت کی ہے، جیسا کہ الفروع جلد ۳، صفحہ ۲۳ اور ۱۲۳ میں، اور دوسری دفعہ " علی بن محمد " کے نام سے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۹۶، اور الروضہ صفحہ ۲۳۱ اور ۲۵۵ میں، اور تیسری دفعہ " علی بن محمد بن عبد اللہ " کے نام سے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۲۷۵ میں۔

۱۰۔ احمد بن مہران – کلینی ؒ نے ان سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں، اور وہ خود بھی عبدالعظیم حسینی (رہ) سے بہت سی روایات نقل کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی وثاقت ثابت نہیں ہوئی، مگر یہ کہ کلینی ؒ کی طرف سے ان سے کثرت روایت کو وثاقت کے ثبوت کے لیے کافی مان لیا جائے۔

۱۱۔ محمد بن احمد بن الصّلت – کلینی ؒ نے ان سے کبھی تو اسی نام سے روایت کی ہے، جیسا کہ الروضہ صفحہ ۳۹۰ میں۔ اور دوسری جگہ " محمد بن احمد بن عبد اللہ الصّلت " کے نام سے، جیسا کہ الروضہ صفحہ ۳۰۲ میں، اور تیسری جگہ " محمد بن احمد القمی " کے نام سے، جیسا کہ الروضہ صفحہ ۳۳۴ اور ۳۰۴ میں۔

اور ان کی وثاقت کا حکم اس بنیاد پر دیا جا سکتا ہے کہ صدوق ؒ نے اپنی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمة میں بیان کیا ہے: میرے والد ان سے روایت کرتے تھے، اور ان کے علم، فضیلت، زہد اور عبادت کی تعریف کرتے تھے۔

۱۲۔ (الحسین) حسن بن علی الهاشمي – ان کا ذکر الفروع جلد ۴، صفحہ ۱۴۶ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۱۳۔ الحسین بن علی العلوی – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۷۲ اور ۵۲۳، اور الفروع جلد ۳، صفحہ ۶۲ میں آیا ہے، اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۱۴۔ الحسین بن الحسن الحسني – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۲۹۹ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۱۵۔ الحسین بن الحسن العلوی – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۵۲۵ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔ اور یہ احتمال ہے کہ یہ پچھلے (نمبر ۱۴: الحسین بن الحسن الحسني) کے ساتھ ایک ہی شخص ہوں۔

۱۶۔ الحسن بن خفیف – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۵۲۵ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۱۷۔ ابو داؤد – ان کا ذکر الفروع جلد ۳، صفحہ ۴۹، ۵۱، ۲۶۵، ۳۰۴ اور ۳۱۴ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۱۹۔ محمد بن عبد اللہ اور محمد بن یحییٰ – محمد بن یحییٰ سے مراد وہی محمد بن یحییٰ عطار ہیں جن کا ذکر نمبر ۲ پر گزرا۔ اور جہاں تک تعلق محمد بن عبد اللہ کا ہے، تو بعید نہیں ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ بن جعفر الحمیری ہوں، جو ثقہ اور اجلہ میں سے ہیں۔ اس بات پر قرینہ یہ ہے کہ دونوں نے عبد اللہ بن جعفر الحمیری جو کہ ثقہ جلیل القدر ہیں، سے روایت کی ہے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۲۹ میں موجود ہے۔ لیکن ہر صورت میں، محمد بن یحییٰ کی وثاقت ہمارے لیے کافی ہے، اور ہمیں محمد بن عبد اللہ کی توثیق کی ضرورت نہیں ہے۔

اور جہاں تک عبد اللہ بن جعفر الحمیری کا تعلق ہے – جو ہمارے جلیل القدر اصحاب میں سے ہیں – ان سے کلینی ؒ براہِ راست نہیں روایت کرتے، بلکہ وہ ان کے بیٹے محمد یا کسی دوسرے کے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔ اور اگر بالفرض کہیں کہیں سند کا آغاز ان کے نام سے ہو، تو اسے باب تعلیق سے ہونے پر محمول کرنا لازم ہے۔

۱۹۔ احمد بن عبد اللہ – ان کا ذکر الفروع جلد ۴، صفحہ ۵۴ میں آیا ہے۔ اور بعید نہیں ہے کہ یہ اور احمد بن عبد اللہ بن امیہ ایک ہی ہوں، اور اسی طرح سے یہ اور احمد بن عبد اللہ بن احمد ایک ہی ہو۔ لیکن بہر حال، یہ مجهول الحال ہیں۔

۲۰۔ ابو عبد اللہ الاشعری – ان کا ذکر الفروع جلد ۶، صفحہ ۲۸۲ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہے۔

۲۱۔ علی بن موسی الکمندانی – اور یہ صدوق ؒ کے شیخ بھی ہیں۔ ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

۲۲۔ محمد بن علی بن معمر – ان کا ذکر الروضہ صفحہ ۱۸ اور ۳۱ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۲۳۔ علی بن محمد بن علی بن العباس – ان کا ذکر الروضہ صفحہ ۱۷۸ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۲۴۔ علی بن الحسین المؤدب – ان کا ذکر الروضہ صفحہ ۳۵۲، ۱۸۷ اور ۱۷۰ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔

۲۵۔ سعد بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن جعفر الحمیری – ان دونوں کا ذکر الاصول جلد ۲، صفحہ ۴۰۲، ۴۲۱ اور جلد ۱، صفحہ ۴۵۷ میں آیا ہے۔ اور ان کا ذکر الاصول کے پہلے حصے کے آخر میں بار بار آیا ہے۔

اور دونوں ثقہ اور جلیل القدر ہیں، لیکن بظاہر وہ کلینی ؒ کے براہِ راست شیوخ (مشايخ مباشرين) میں سے نہیں ہیں۔ اور ان کا سند کے آغاز میں ذکر کو ضروری ہے کہ باب تعلیق سے ہونے پر محمول کیا جائے۔

۲۶۔ ابو محمد القاسم بن العلاء – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۱۹۸ میں آیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ وہ ناحیہ مقدسہ کے وکلاء میں سے تھے؛ اور اگر یہ بات ثابت ہو جائے، تو ان کی وثاقت کا حکم لگایا جائےگا۔

۲۷۔ محمد بن عقیل – ان کا ذکر الفروع جلد ۴، صفحہ ۲۲۴ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہے۔

۲۸۔ محمد بن الحسن – ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ الصفّار ہیں یا البرنانی یا کوئی اور شخص۔ اور چونکہ یہ ثابت نہیں کہ وہ صفار ہیں، لہٰذا ان کے بارے میں مجهول الحال کا حکم لگایا جائےگا۔

۲۹۔ احمد بن محمد بن سعید الکوفی – یہ ابن عقدہ کے نام سے معروف ہیں۔ اور یہ اگرچہ کہا گیا ہے کہ وہ زیدی تھے، لیکن وہ ثقہ ہیں۔

۷۸

تمرینات

س۱: کلینی ؒ نے کس دور میں زندگی گزاری؟

س۲: کتاب الکافی کتنے حصوں میں تقسیم ہے؟ ہر حصے کو مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔

س۳: " الروضہ" کی کلینی ؒ سے نسبت کے بارے میں ایک شبہ ہے، اسے اس پر کیے گئے اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۴: شیخ کلینی ؒ کا احادیث نقل کرنے کا طریقہ شیخ صدوق ؒ اور شیخ طوسی ؒ کے طریقے سے مختلف ہے۔ اس کی وضاحت کریں۔

س۵: شیخ نوری ؒ نے " الکافی" کی تمام احادیث کی حجیت پر جن دو وجوہات سے استدلال کیا ہے ان میں سے پہلی وجہ بیان کریں۔ اور اس پر اشکال بھی ذکر کریں۔

س۶: دوسری وجہ کو اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۷: کلینی ؒ نے ۔۔۔ کے حوالے سے پہلے درجے پر اور ۔۔۔ کے حوالے سے دوسرے درجے پر روایت بیان کی ہے۔ خالی جگہ پر کریں۔

س۸: ایک خاص اسلوب ہے جو کلینی ؒ سے مخصوص ہے۔ اسے بیان کریں۔

س۹: جس " العدۃ" سے کلینی ؒ روایت کرتے ہیں اس کے تشریح میں چند آراء ہیں۔ آپ پہلی رائے کو اس پر کیے گئے اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۱۰: دوسری رائے کو اس پر کیے گئے اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۱۱: تیسری رائے کو اس پر کیے گئے اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۱۲: منتخب کی گئی چوتھی رائے کا خلاصہ بیان کریں۔

س۱۳: کلینی ؒ کے پانچ مشائخ کا ان کی وثاقت یا عدم وثاقت کے لحاظ سے ان کی حالت بیان کرتے ہوئے ذکر کریں۔

س۱۴: کلینی ؒ نے محمد بن اسماعیل سے کثرت سے روایت کی ہے۔ اور ان کے حال کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے۔ آپ کے نگاہ ان کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے جن باتوں سے تمسّک کیا جا سکتا ہے، انہیں بیان کریں۔

س۱۵: وسائل الشیعہ باب ۱، ابواب صلاۃ جعفر، حدیث ۱ کا جائزہ لیں۔ اور حدیث کی سند کی حالت واضح کریں۔

۷۹

کتاب "من لا یحضرہ الفقیه" کے بارے میں نظریات

" من لا یحضرہ الفقیه" جلیل القدر شیخ محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی ؒ کی کتاب ہے جو شیخ صدوق سے معروف ہیں۔

اور مشہور ہے کہ مذکورہ شیخ کی ولادت امام حجت ارواحنا لہ الفداء کی دعا سے ہوئی تھی۔ نجاشی ؒ نے علی بن الحسین بن بابویہ ؒ، جو شیخ صدوق ؒ کے والد ہیں، کے حالات میں بیان کیا ہے کہ وہ عراق آئے اور ابو القاسم الحسین بن روح - رضوان اللہ تعالیٰ علیہ - سے ملاقات کی اور ان سے کچھ مسائل پوچھے، پھر بعد میں انہیں خط لکھا جس میں ان سے یہ درخواست کی کہ وہ ان کا ایک رقعہ الصاحب علیہ السلام تک پہنچا دیں اور اس میں آپ علیہ السلام سے اولاد کی درخواست کریں، تو آپ علیہ السلام نے انہیں لکھا کہ ہم نے اللہ سے تمہارے لیے اس کی دعا کی ہے اور تمہیں دو نیک بیٹے عطا ہوں گے۔ چنانچہ ان کے یہاں ابو جعفر اور ابو عبد اللہ پیدا ہوئے۔ اور ابو جعفر - یعنی شیخ صدوق - کہا کرتے تھے کہ میں صاحب الامر ؑ کی دعا سے پیدا ہوا ہوں اور اس پر فخر کرتے تھے۔ تمام۔

اور شیخ صدوق ؒ خود یہ قصہ اپنی کتاب " اکمال الدین " ص ۲۷۶ میں نقل کرتے ہیں۔

اور " روضات الجنات" میں نقل کیا گیا ہے کہ امام عسکری علیہ السلام کا علی بن الحسین سے مکاتبہ تھا اور اس ضمن میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

" اللہ تمہیں اپنی رضاؤں کی توفیق دے، اور تمہاری نسل سے صالح اولاد پیدا فرمائے اپنی رحمت سے جو اللہ سے ڈرنے والی ہو، نماز قائم کرنے والی ہو اور زکٰوة ادا کرنے والی ہو۔۔۔ اور تم پر لازم ہے کہ فرج (ظہور) کا انتظار کرو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

میری امت کا سب سے افضل عمل فرج کا انتظار ہے، اور ہمارے شیعہ ہمیشہ غم میں رہیں گے یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرےگا۔

شیخ صدوق ؒ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں مذکورہ کتاب کی تالیف کا سبب بیان کیا ہے،

اور وہ یہ ہے کہ جب انہیں قضا و قدر بلاد غربت کی طرف لے گئی اور وہ ایلاق (۱) کے قصبے بلخ میں پہنچے، تو وہاں " نعمہ " کے نام سے معروف شریف ابو عبد اللہ محمد بن حسن آئے اور ان سے یہ درخواست کی کہ وہ فقہ اور حلال و حرام پر ایک کتاب تصنیف کریں اور اس کا نام " من لا یحضرہ الفقیه" رکھیں، جیسے طبیب رازی محمد بن زکریا نے طب پر ایک کتاب " من لا یحضرہ الطبیب" کے نام سے تصنیف کی تھی، تو انہوں نے ان کی درخواست قبول کی اور مذکورہ کتاب تالیف کی (۲) ۔

اور مذکورہ کتاب نجفِ اشرف میں سن ۱۳۷۶ ہجری میں چار جلدوں میں طبع ہوئی، اس سے پہلے یہ تین بار طبع ہو چکی تھی، جن میں سے ایک لکھنؤ، ہندوستان میں، دوسری تبریز میں، اور تیسری تہران میں۔

اور آج کل رائج ایڈیشن نجفِ اشرف کی طباعت کا عکس ہے۔

حوالے

(۱)-اور ایلاق آج جمہوریہ ترکستان یا ترکمانستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

(۲)- ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ لفظ "کتاب" کو نام کا حصہ ہونا چاہیے، لہٰذا کتاب "الفقیہ" کا نام صرف "من لا یحضره الفقیه" نہیں بلکہ "کتاب من لا یحضره الفقیه" ہے۔

اور مذکورہ جلیل القدر شیخ نے اپنی تالیف کردہ کتابوں کے ذریعے مذہب کی خدمت کی ہے جن کی تعداد تقریباً دو سو ۲۰۰ تالیفات ہیں۔

اور ان کی ایک تالیف کردہ کتاب " مدینة العلم" ہے جو دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اور یہ کتاب " الفقيه" سے بڑی تھی لیکن افسوس کہ آج اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔

شیخ بہائی ؒ اپنی " درایہ " میں کہتے ہیں: " اور ہمارے پانچ اصول: الکافی ، مدینة العلم ، من لا یحضرہ الفقیه ، التھذیب ، اور الاستبصار" ۔

اور شیخ آقا بزرگ طہرانی ؒ " الذریعہ" میں کہتے ہیں: " افسوس ہے اس عظیم نعمت کے ہمارے درمیان اور ہاتھوں سے ضائع ہونے پر، شیخ بہائی ؒ کے والد کے زمانے سے جن کی عبارت اس کے ان کے پاس موجود ہونے پر دلالت کرتی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ علامہ مجلسی ؒ نے اس کی تلاش میں کثیر رقم خرچ کی لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔۔۔ ہاں، ابن طاؤس ؒ فلاح السائل اور اپنی دیگر کتابوں میں اس سے نقل کرتے ہیں ۔۔۔ " ۔( الذريعة إلى تصانيف الشيعة ۲۰: ۲۵۲ )

اور مذکورہ جلیل القدر شیخ ؒ کی وفات سن ۳۸۱ ہجری میں ہوئی۔ اور وہ ری میں سید عبدالعظیم الحسنی (رہ) کی قبر کے قریب دفن ہوئے۔

اور کہا جاتا ہے کہ ان کی شریف قبر میں شدید بارش کی وجہ سے ایک شگاف پڑ گیا تو ان کا پاکیزہ جسم بغیر کسی تبدیلی کے پایا گیا، حتیٰ کہ ان کے ناخنوں پر مہندی کا اثر بھی موجود تھا، اس کے باوجود کہ ان کی تدفین کو ۸۵۷ سال گزر چکے تھے۔

" اور مذکورہ کتاب کے بارے میں کلام چند نکات کے تحت واقع ہوا ہے:

۸۰