چار نکات
کتاب الکافی سے متعلق کئی ابحاث ہیں، ہم ان میں سے چار کو منتخب کرتے ہیں۔
کلینی ؒ کا سلسلہ سند
۱۔ بعض اصحابِ ائمہ علیہم السّلام نے وہ احادیث جو انہوں نے ائمہ علیہم السّلام سے سنی تھیں، کاغذی کتابچوں میں درج کیں جن کی تعداد چار سو تک پہنچی، اور بعد میں انہیں چار سو اصول ( الاصول الاربعمائة) کہا گیا۔
اور کلینی ؒ، صدوق ؒ اور طوسی ؒ نے ان اصولوں کو بنیاد بنایا اور انہیں مخصوص ابواب میں تقسیم کیا اور ہر حدیث کو اس کے مناسب باب میں رکھا۔ اور انہوں نے اس میدان میں انمول کوششیں کیں۔ اور ان کوششوں کے نتیجے میں آج ہمارے ہاتھوں میں موجود کتب اربعہ سامنے آئیں، اور وہ الکافی ، من لا یحضرہ الفقیه، التھذیب ، اور الاستبصار ہیں۔
اور ان عظیم علماء نے ہمارے لیے یہ کام آسان کر دیا ہے اور اجتہاد و استنباط کا راستہ ہموار کر دیا ہے، لہذا جب کوئی فقیہ کسی حکم کا استنباط کرنا چاہے اور اس سے متعلق حدیث کی موجودگی جاننا چاہے تو وہ مذکورہ کتب میں اس حکم کے متعلقہ باب میں رجوع کرتا ہے۔
اور ان کتابوں کے مؤلفین کا طریقہ مختلف ہے، چنانچہ کلینی ؒ جب اصول سے احادیث نقل کرتے ہیں تو وہ اکثر مکمل سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں: " حدثنی علی بن ابراہیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن الامام علیہ السلام " ، اور وہ شاذ و نادر ہی سند کا کچھ حصہ حذف کرتے ہیں۔
ہاں، کبھی کبھی وہ سابقہ سند پر اعتماد کرتے ہوئے سند کا کچھ حصہ حذف کر دیتے ہیں، جسے اصطلاحاً تعلیق کہا جاتا ہے، اور یہ ان کے نزدیک ایک رائج عمل ہے۔
اس کی وضاحت کے لیے ہم درج ذیل مثال ذکر کرتے ہیں جو الفروع ج ۴ ص ۱۷۶ میں مذکور ہے، شیخ قدس سرہ کہتے ہیں :
۱۔ ہمارے چند اصحاب سے، انہوں نے سہل بن زیاد سے، انہوں نے حسن بن محبوب سے، انہوں نے عمر بن یزید سے، انہوں نے کہا: میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے عرض کیا ۔۔۔
۲۔ سہل بن زیاد سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے داؤد بن سرحان سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ۔۔۔
ہم اپنی مراجعت (تحقیق و مطالعہ) سے جانتے ہیں کہ کلینی ؒ سہل سے براہِ راست روایت نہیں کرتے، لہٰذا دوسری حدیث میں سند کا سہل سے شروع کرنا سابقہ سند پر اعتماد اور تعلیق کے عنوان سے ہے، گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں: میں دوسری حدیث روایت کرتا ہوں ہمارے چند اصحاب سے، انہوں نے سہل سے، لیکن انہوں نے " چند " کا لفظ سابقہ سند پر اعتماد کی بنا پر حذف کر دیا ہے۔
اور یہ بات کبھی مبتدی پر پوشیدہ رہتی ہے لہذا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کلینی ؒ سہل سے روایت کر رہے ہیں اور سہل کلینی ؒ کے مشائخ میں سے ہیں۔
اور کبھی کبھی وہ سہل سے براہِ راست اور سابقہ سند پر تعلیق کیے بغیر روایت کرتے ہیں، جیسا کہ الفروع ج ۳ ص ۱۵۴، ۱۵۵، ۱۶۵، ۔۔۔ میں۔
اور ایسی صورت میں حدیث سند کے اعتبار سے غیر معتبر شمار ہوگی، کیونکہ کلینی اور سہل کے درمیان واسطہ معلوم نہیں ہے، الا یہ کہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہی واسطہ ہے جسے کلینی ؒ دیگر مقامات پر ذکر کرتے ہیں۔
اور جو انہوں نے سہل کے بارے میں ذکر کیا ہے اور واسطے کو حذف کیا ہے وہ مثال کے طور پر ہے، ورنہ ہمیں اس کی نظائر اور دیگر مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔
یہ بات تھی کلینی ؒ کے بارے میں۔
جہاں تک شیخ طوسی ؒ اور صدوق ؒ کا تعلق ہے تو ان پر یہ غالب ہے کہ وہ حدیث کی مکمل سند نقل نہیں کرتے بلکہ اس کا کچھ حصہ حذف کر دیتے ہیں اور شاذ و نادر ہی اسے مکمل ذکر کرتے ہیں۔ اور ہم ان شاء اللہ تعالیٰ " الفقیه" اور " التھذیبین" کے بارے میں بات کرتے وقت اس کی وضاحت کریں گے۔
الکافی کی تمام احادیث کی صحت
۲۔ کہا گیا ہے کہ الکافی میں موجود تمام احادیث صحیح اور قابل اعتبار ہیں۔ اور شیخ نوری ؒ نے اپنی مستدرک کے چوتھے فائدے میں اس پر چار وجوہات کے ذریعہ استدلال کیا ہے، جن میں سے ہم دو کا ذکر کرتے ہیں :
الف۔ کلینی ؒ چاروں معزز سفیروں (نواب اربعہ) کے ہم عصر تھے، اور یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ان میں سے کسی ایک کو پیش نہ کی ہو، خصوصاً جبکہ کلینی ؒ نے مذکورہ کتاب شیعوں کے لیے ایک رجوع گاہ و حوالہ بنانے کے مقصد سے تالیف کی تھی جیسا کہ انہوں نے مقدمے میں صراحت کی ہے۔
اور کتابوں کو کسی ایک سفیر کے سامنے پیش کرنا ایک رائج عمل تھا۔
اور اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ اس سے مقصود اس بات کو صحیح قرار دینا نہیں ہے جو بعض زبانوں پر رائج ہے کہ امام حجت علیہ السلام نے فرمایا کہ الکافی ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے، کیونکہ اس کی ہمارے اصحاب کی تالیفات میں کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے بلکہ محدث استرآبادی ؒ نے ایسا کوئی فرمان نہ ہونے کی تصریح کی ہے، اور مقصود صرف یہ دعویٰ ہے کہ اس کتاب کو کسی ایک معزز سفیر کے سامنے پیش کیے جانے کا اطمینان حاصل ہے۔
اور اس کا رد یہ ہے: کہ اس کتاب کو پیش کیے جانے پر اطمینان کا دعویٰ بلکہ ظن کا دعویٰ بھی بےجا ہے، کیونکہ کتاب کو کسی ایک معزز سفیر کے سامنے پیش کرنے کا محرک عام طور سے اس کے مؤلف کا انحراف ہوتا تھا، جیسا کہ شلمغانی اور بنی فضال کے معاملے میں تھا، کیونکہ ان کی کتابوں کے بارے میں سوال کرنا یا انہیں کسی سفیر کے سامنے پیش کرنا رویے یا عقیدے کے انحراف کی وجہ سے تھا، جس سے بعض لوگ یہ تصوّر کر سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا انحراف روایت کو اختیار کرنے میں مانع ہے تو اس صورت میں سوال یا پیش کرنے کا محرک موجود تھا، لیکن کلینی ؒ جیسے شخص کے لیے جس کے بارے میں نجاشی ؒ نے کہا: " اپنے زمانے میں ہمارے اصحاب کے شیخ اور ان کا نمایا چہرہ اور حدیث میں سب سے زیادہ ثقہ " ، تو ان کی کتاب کو کسی ایک نائب کے سامنے پیش کرنے کا کیا محرک تھا؟
اور اگر آپ چاہے تو کہے: یا تو یہ دعویٰ کیا جائے کہ کلینی ؒ کے لیے خود اپنی کتاب پیش کرنا مناسب تھا یا دوسروں کے لیے کتاب پیش کرنا مناسب تھا۔
اور پہلی بات مردود ہے چونکہ کتابوں کے مؤلفین کی طرف سے انہیں پیش کرنے کی کوئی سیرت و طریقہ ثابت نہیں ہے۔
اور دوسری بات سابقہ دلائل سے مردود ہے۔
ب۔ الکافی کے اصول کے مقدمے میں کلینی ؒ نے جو کچھ ذکر کیا ہے اسے بنیاد بنایا جائے، چونکہ بعض نے ان سے کتاب الکافی کی تالیف کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا : " میں نے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ تمہارے پاس ایک ایسی کافی کتاب ہو جس میں دین کے علم کے تمام فنون سے وہ کچھ جمع ہو جس سے طالب علم اکتفا کرے اور طالبِ ہدایت اس کی طرف رجوع کرے اور جو دین کا علم اور صادقین علیہم السلام سے مروی صحیح آثار پر عمل کرنا چاہے وہ اس سے حاصل کرے۔۔۔ اور اللہ نے آسان کر دیا ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، جو تم نے سوال کیا تھا اس کی تالیف یہاں تک کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے کتاب الحجہ کو تھوڑا وسیع کیا ہے اگرچہ ہم نے اسے کما حقہ مکمل نہیں کیا۔۔۔ " ۔
مذکورہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان سے ایسی کتاب کی تالیف کی درخواست کی گئی تھی جس کی طرف وہ شخص رجوع کرے جو صحیح آثار پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور انہوں نے اس مذکورہ درخواست کا جواب دیا اور اس کی تکمیل کی گواہی دی جہاں انہوں نے کہا: اور یقیناً اللہ نے اس تالیف کو آسان کر دیا ہے جس کی تم نے درخواست کی تھی۔
اور بظاہر کلینی ؒ نے مذکورہ مقدمہ " الکافی" کی تالیف مکمل کرنے کے بعد لکھا تھا جہاں انہوں نے کہا: اور یقیناً اللہ نے اس تالیف کو آسان کر دیا ہے جس کی تم نے درخواست کی تھی، اور یہ بھی کہا: اور ہم نے کتاب الحجہ کو تھوڑا وسیع کیا ہے۔
اس کے ساتھ، کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں پہنچتا کہ اگرچہ کلینی ؒ سے یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ ایک ایسی کتاب تالیف کریں جو صرف صحیح روایات پر مشتمل ہو، لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنے اس وعدے کو وفا بھی کیا یا نہیں؛ کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص تالیف کا آغاز کسی ارادے پر کرتا ہے لیکن دورانِ تالیف اس سے عدول کر لیتا ہے۔
اور اس کا رد یہ ہے: کہ کلینی ؒ نے یہ نہیں کہا کہ میں اس میں صرف صحیح آثار ذکر کروں گا بلکہ کہا کہ اس میں صحیح آثار شامل ہے اور یہ بات اس میں اس کے علاوہ شامل ہونے کے منافی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں، قدماء کی اصطلاح میں صحیح کا مطلب صرف وہ روایت نہیں ہے جس کے راوی عادل ہوں بلکہ وہ روایت ہے جس پر عمل کرنا واجب ہو، اگرچہ وہ بعض ایسے قرائن سے متصل ہو جن سے اگر ہم مطلع ہوتے تو شاید ہمیں یقین حاصل نہ ہوتا۔
ہاں، اگر کلینی ؒ یہ کہتے: اور صادقین (علیہم السلام) سے مروی ثقات کے آثار پر عمل، تو جو کچھ ذکر کیا گیا وہ درست قرار پاتا کیونکہ یہ احادیث کے راویوں کی وثاقت کی گواہی قرار پاتی لیکن انہوں نے " صحیح آثار " کی تعبیر استعمال کی ہے، اور احادیث کی صحت کی گواہی کا لازمہ راویوں کی وثاقت کی گواہی نہیں ہے۔
اور اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ طوسی ؒ " الکافی" کی بعض روایات پر اشکال کرتے ہیں اور انہیں سند کی کمزوری کی وجہ سے رد کرتے ہیں جیسا کہ کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کی صحت پر بحث کے موقع پر کچھ کی طرف اشارہ پہلے ہو چکا ہے۔
عدۃ من اصحابنا (ہمارے چند اصحاب)
۳۔ کلینی ؒ کے متعدد ایسے مشایخ تھے جن سے وہ اپنی کتاب کافی کی روایات نقل کرتے ہیں، جن کی تعداد تیس سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے، البتہ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے انہوں نے کثرت کے ساتھ روایت کی ہے، بعض وہ ہیں جن سے نسبتاً کم روایت کی ہے، اور کچھ ایسے ہیں جن سے ان کی روایت کا سلسلہ درمیانی درجے میں رہا ہے۔
جن سے وہ کثرت سے روایت کرتے ہیں، وہ یہ ہیں: علی بن ابراہیم، محمد بن یحییٰ، احمد بن ادریس، حسین بن محمد، حمید بن زیاد، اور محمد بن اسماعیل قدّس سرھم۔
علی بن ابراہیم ؒ کا درجہ سب سے اوّل ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کی تقریباً ایک تہائی احادیث ان سے روایت کی ہیں، یعنی ۴۹۵۷ احادیت(۱)-
حوالہ:
(۱)- الکافی کی احادیث کی تعدد جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا تھا ۱۶۱۹۹ ہیں۔
دوسرے درجے پر محمد بن یحییٰ ہیں، جنہوں نے ان سے اپنی کتاب کی ایک چوتھائی احادیث روایت کی ہیں، یعنی ۳۱۱۴ احادیث۔
باقی کے درجات اس کے بعد تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آتے ہیں۔
یہ ایک حسنِ اتفاق ہے کہ یہ تمام افراد ثقہ اور جلیل القدر تھے ۔(۱)
اور ایک ایسا اسلوب ہے جو کلینی ؒ سے مخصوص ہے، اور وہ یہ کہ وہ " عدة من اصحابنا" (ہمارے اصحاب میں سے چند) سے روایت کرتے تھے۔ سند کے آغاز میں وہ کثرت سے
" عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ" یا " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد البرقی" یا " عدة من اصحابنا عن س ہ ل بن زیاد"
کہتے تھے۔
حوالہ: (۱)- سوائے محمد بن اسماعیل کے کہ جن کے سلسلہ میں بحث ہے، لیکن اختیار شدہ نظریہ کے مطابق وہ ثقہ ہیں۔
یہ الکافی میں بہت کثرت سے ہے، کہ " عدة" کی روایت یا تو احمد بن محمد بن عیسیٰ سے ہے یا برقی سے ہے یا سہل سے ہے۔
اور احمد بن محمد بن ابی نصر یا سعد بن عبد اللہ سے " عدة" کا روایت کرنا شاذ و نادر ہے۔
" عدة" کے مفہوم اور اس سے سند کے صحیح ہونے یا نہ ہونے پر بحث واقع ہوئی ہے۔
اور اس موضوع میں کچھ رسائل لکھے گئے ہیں، جن میں سے ایک سید محمد باقر اصفہانی شفتی کا رسالہ ہے، جنہیں " حجۃ الإسلام" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اور اس بارے میں آراء درج ذیل ہیں:
۱۔ علامہ قدس سرہ نے اپنی رجالی کتاب " خلاصۃ الاقوال" کے آخر میں درج کردہ فوائد میں سے تیسرے فائدے میں ذکر کیا ہے کہ کلینی ؒ نے کہا: جب میں کہتا ہوں " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ " ، تو " عدة من اصحابنا" سے مراد محمد بن یحییٰ اور علی بن موسیٰ کمندانی اور ۔۔۔ ہیں۔ اور جب میں کہتا ہوں " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد البرقی" ، تو " عدة من اصحابنا" سے مراد علی بن ابراہیم اور ۔۔۔ ہیں۔ اور جب میں کہتا ہوں " عدة من اصحابنا عن سہل بن زیاد" ، تو " عدة من اصحابنا" سے مراد علی بن محمد بن علان اور ۔۔۔ ہیں۔
اور نجاشی ؒ نے احمد بن محمد بن عیسیٰ کے حالات میں بیان کیا ہے کہ کلینی ؒ نے کہا: " میری اس کتاب میں جو کچھ بھی " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسیٰ" ہے، تو وہ محمد بن یحییٰ ہیں اس بات کے آخر تک جو علامہ ؒ نے بیان کی ہے۔
اور نجاشی ؒ کی نقل کردہ بات احمد بن محمد بن عیسیٰ سے مروی " عدة" سے مخصوص ہے۔
اور علامہ ؒ کی مذکورہ تفسیر کی بنیاد پر، " عدة" پر اشکال ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ تینوں عدد میں سے ہر ایک میں ایک ثقہ شخص شامل ہے، اور یہ " عدة" کی صحت کے لیے کافی ہے، چونکہ ایک میں محمد بن یحییٰ ثقہ شامل ہیں، دوسرے میں علی بن ابراہیم ثقہ شامل ہیں، اور تیسرے میں ابن علّان ثقہ شامل ہیں۔
اور بہت سے بزرگ علماء نے علامہ ؒ کی اس تفسیر پر اعتماد کیا ہے، خاص طور پر جبکہ اس کی تائید نجاشی ؒ کی نقل سے تین "عدة" میں سے ایک میں ہو رہی ہے۔
اور اس رائے پر غور ق تأمل واضح ہے، کیونکہ علامہ ؒ یا نجاشی ؒ، کلینی ؒ کے ہم عصر نہیں ہیں کہ ان سے براہِ راست سماعت کر سکتے، لہٰذا ان کے درمیان ضرور واسطے موجود ہوں گے جو حذف کر دیئے گئے ہیں۔ اور چونکہ یہ واسطے مجهول الحال ہیں، اس لیے لازم آتا ہے کہ اس طرح کے نقل کی حجیت ثابت نہ ہو۔
۲۔ کلینی ؒ نے اصول کافی کی پہلی حدیث میں ذکر کیا ہے: " ہمیں خبر دی ابو جعفر محمد بن یعقوب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے حدیث بیان کی " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب) نے، جن میں سے محمد بن یحییٰ عطار شامل ہیں، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے ۔۔۔
یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کلینی " عدة" کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تو ان میں سے ایک جلیل القدر ثقہ محمد بن یحییٰ عطار ہوتے ہیں۔
یہ سید خوئی قدس سرہ نے اس وقت ذکر کیا تھا جب ہم نے ان سے " عدة" کے بارے میں ان کی رائے کے متعلق سوال کیا تھا۔
اور اسی طرز پر یہ بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ کلینی ؒ نے کتاب العتق کے نویں باب میں ذکر کیا ہے، جس کی عبارت یہ ہے: " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب) علی بن ابراہیم اور محمد بن جعفر اور محمد بن یحییٰ اور علی بن محمد بن عبد اللہ القمی اور احمد بن عبد اللہ اور علی بن الحسین (ہیں) ان سب نے احمد بن محمد بن خالد سے ۔۔۔
لیکن یہ الکافی کے تمام نسخوں میں موجود نہیں ہے، بعض میں یوں ہے: " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب)، انہوں نے احمد بن محمد بن خالد سے۔ اور اس صورت میں مذکورہ نقل کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے اور ثبوت صرف پہلے نقل تک باقی رہ جاتا ہے۔
و بہرحال، یہ رائے غور و تأمّل کے قابل ہے کیونکہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ تمام مواقع پر عمومی قرینہ نہیں بنتا۔
۳۔ یہ کہا جائے کہ " عدة" کے افراد کی کم سے کم تعداد تین ہے۔ اور کلینی ؒ کے تین اساتذہ کا جھوٹ پر اتفاق کرنا بعید ہے۔
اور یہ قول ان کے لیے اچھا ہے جنہیں مذکورہ بات سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
۴۔ جو ہم اس مسئلے کے حل کے لیے اختیار کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر ہم کلینی ؒ کے مشائخ و اساتذہ کا جائزہ لیں، تو ہم دیکھیں گے کہ ان کی تعداد - جن کے نام متعدد الفاظ میں دہرائے گئے ہیں انہیں ایک شمار کرنے کے بعد - تیس افراد تک پہنچتی ہے۔
اور اگر ہم ہر ایک سے کلینی ؒ کی روایات کو شمار کریں، تو ہم پائیں گے کہ وہ علی بن ابراہیم سے ۴۹۵۷ مقامات میں، اور محمد بن یحییٰ سے ۳۱۱۴ مقامات میں، اور حمید بن زیاد سے ۳۶۱ مقامات میں، اور احمد بن ادریس جو کہ ابو علی اشعری ہیں سے ۸۰۳ مقامات میں، اور حسین بن محمد سے ۶۶۳ مقامات میں، اور محمد بن اسماعیل سے ۵۱۳ مقامات میں روایت کرتے ہیں۔
اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الکافی کا تقریباً دو تہائی حصہ ان چھ ثقہ افراد سے روایت کیا گیا ہے، کیونکہ الکافی کی احادیث کی تعداد، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا ۱۶۱۹۹ احادیث ہیں۔
اور اگر ہم ان کے باقی مشائخ کی طرف رجوع کریں، تو ہم پائیں گے کہ ان میں سے ایک بڑا حصہ بھی ثقہ ہے اور باقی دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک بڑا حصہ جسے " عدة من اصحابنا" (ہمارے چند اصحاب سے) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور ایک چھوٹا حصہ ان کا ہے جن کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم ایک اور مقدمہ متصل کرتے ہیں، اور وہ یہ کہ "عدة" کے لفظ سے تین یا اس سے زیادہ افراد مراد ہوتے ہیں۔
اور اس مقدمے کو اس کے ساتھ ملانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ " عدة" کے تمام تین افراد باقی مجہول افراد میں سے ہوں جن کی وثاقت ثابت نہیں ہوئی ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ان چھ افراد میں سے نہ ہو جن سے ۱۰،۰۰۰ سے زائد مقامات پر روایت کی گئی ہے — یہ احتمال بہت ہی کمزور ہے۔ اور اس سے یہ اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ کم از کم ایک فرد ان چھ ثقہ راویوں میں سے ضرور ہے۔
پھر، اگر ہم ایک اور چیز کو مدّنظر رکھیں، تو " عدة" کے کسی ایک فرد کی وثاقت پر اطمینان حاصل کرنا زیادہ قوی ہو جائےگا، اور وہ یہ کہ کہا جائے: " الکافی" میں مذکور " عدة" کی تین شکلیں ہیں: " العدة عن احمد بن محمد بن عیسیٰ" ، اور " العدة عن البرقی" ، اور " العدة عن سہل" ۔
جہاں تک " العدة عن ابن عیسیٰ" کا تعلق ہے، تو اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک محمد بن یحییٰ ہے اس اعتبار سے کہ محمد بن یحییٰ ابن عیسیٰ سے کثرت سے روایت کرتے ہیں اور شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ ابنِ عیسیٰ کا نام ذکر ہو اور اس کے ساتھ محمد بن یحییٰ کا نام نہ ہو، جو کہ جلیل القدر ثقہ راویوں میں سے ہیں۔
اور جہاں تک " العدة عن البرقی" کا تعلق ہے، تو اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک علی بن محمد بن بندار ہے جو ثقہ ہے اس اعتبار سے کہ ابن بندار، برقی سے کثرت سے روایت کرتے ہیں۔
اور جہاں تک " العدة عن سہل" کا تعلق ہے، تو اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بھی ایک ابن بندار ہے کیونکہ وہ سہل سے کثرت سے روایت کرتے ہیں۔
پھر ایک اور مقدمہ متّصل کیا جا سکتا ہے جو اطمینان حاصل کرنے میں تیزی لاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کلینی ؒ – کہ جنہوں نے اپنی کتاب کو قیامت تک شیعوں کے لیے مرجع بنانے کی غرض سے تألیف کیا – کے تین مشائخ کا جھوٹ پر جمع ہونا بہت بعید ہے۔
اور بالآخر، ان قرائن میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملانے سے بلا شکال یہ اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ " العدۃ" کے افراد میں سے کوئی ایک ضرور ثقہ ہے، اور یہی مطلوب ہے۔
کلینی کے مشائخ
۴۔ کلینی قدس سرہ کے کئی مشائخ ہیں جن سے انہوں نے اپنی کتاب الکافی کی احادیث نقل کی ہیں، ہم ان میں سے اُن افراد کا ذکر کرتے ہیں جن تک ہماری ناقص تحقیق کے مطابق ہم پہنچ سکے ہیں۔
اور بعض لوگوں نے ان کے ناموں کا ایک جدول تیار کیا ہے جو " الروضہ" کے آغاز میں ذکر ہوا ہے۔ علامہ حلّی ؒ نے اپنی کتاب کے آخر میں درج کردہ بعض فوائد میں کلینی ؒ کے بعض مشائخ کا ذکر کیا ہے اور ان ہی افراد کے ذریعے کلمہ " عدة من اصحابنا" کی تفسیر کی ہے، جسے کلینی ؒ نے کافی میں بارہا استعمال کیا ہے۔ تاہم، ہم نے کلینی ؒ کے مشائخ کے طور پر ان میں سے بعض افراد کے نام الکافی میں نہیں پائے۔
اور ہم اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کلینی ؒ کبھی کبھی ایک ہی شیخ کا مختلف ناموں سے ذکر کرتے ہیں، لہذا دیکھنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ وہ متعدد افراد ہیں جبکہ وہ ایک ہی فرد ہوتا ہے۔
اور ہم درج ذیل جدول میں مشائخ کے نام ذکر کرتے ہیں :
۱۔ علی بن ابراہیم – ان سے کتاب الکافی میں ۴۹۵۷ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ ثقہ جلیل القدر ہیں اور مشہور تفسیر " تفسیر القمی " کے مؤلّف ہیں۔ کلینی ؒ نے الکافی میں ان سے سب سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔
۱۔ محمد بن یحییٰ – ان سے ۳۱۱۴ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ محمد بن یحییٰ عطار اشعری کے نام سے معروف ہیں، اور یہ ثقہ جلیل القدر ہیں۔
۳۔ حمید بن زیاد – ان سے ۳۶۱ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں۔
۴۔ احمد بن ادریس ابو علی اشعری – کلینی ؒ نے کبھی ان سے " احمد بن ادریس " کے نام سے ۱۲۰ مقامات پر، اور کبھی " ابو علی اشعری " کے نام سے ۶۸۳ مقامات پر روایت کی ہے۔ اور وہ ثقہ اور جلیل القدر راویوں میں سے ہیں۔
علامہ ؒ نے " الخلاصہ" میں بیان کیا ہے کہ مذکورہ کنیت کا اطلاق محمد بن عیسیٰ بن عبد اللہ بن سعد بن مالک، شیخِ القمیین، پر ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ دونوں حضرات (یعنی احمد بن ادریس اور محمد بن عیسیٰ) کی وثاقت ثابت ہے، اس لیے یہ اختلافِ نسبت مہم نہیں ہے۔
۵۔ حسین بن محمد – ان سے ۶۶۳ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ ثقہ راویوں میں سے ہیں۔
۶۔ محمد بن اسماعیل – ان سے ۵۱۳ مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ اور یہ فضل بن شاذان سے روایت کرتے ہیں، اور کلینی ؒ نے فضل بن شاذان کے حوالے سے محمد بن اسماعیل سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں۔
اس محمد بن اسماعیل کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے کہ ان سے مراد کون ہے، کیونکہ " محمد بن اسماعیل " کے نام کا اطلاق تین افراد پر ہوتا ہے: ابن بزیع پر جو کہ ثقہ ہیں، البرمکی پر جو کہ ثقہ ہیں اور البندقی پر کہ جن کی توثیق نہیں کی گئی ہے۔
پس اگر مراد محمد بن اسماعیل بن بزیع یا محمد بن اسماعیل البرمکی ہوں، تو یہ ثقہ ہیں۔ لیکن اگر مراد محمد بن اسماعیل البندقی ہو، تو وہ مجهول الحال ہیں۔
ظاہر یہ ہے کہ مراد ابن بزیع نہیں ہیں – اگرچہ صاحبِ تأسیس الشیعة لعلوم الإسلام سید حسن الصدر نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک رسالہ تالیف کیا ہے – کیونکہ ابن بزیع امام رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں، اور کلینی ؒ ان سے دو واسطوں کے ذریعے روایت کرتے ہیں، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۴۳۶ اور الفروع جلد ۳، صفحہ ۴۷ اور ۱۵۲ میں موجود ہے۔
اسی طرح نہ ہی البرمکی مراد ہیں، کیونکہ کلینی ؒ ان سے صرف ایک واسطے کے ذریعے روایت کرتے ہیں، چنانچہ واضح ہوتا ہے کہ مراد تیسرا شخص ہے، (یعنی محمد بن اسماعیل البندقی)۔
لہذا اس کے لحاظ سے اس سند کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس پر یہ بات غالب آتی ہے کہ اس کا تذکرہ کامل الزيارة میں ہے، جہاں وارد ہوا ہے :
محمد بن اسماعیل، انہوں نے فضل بن شاذان سے، بشرطیکہ کامل الزيارة میں موجود ہونا وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہو یا یہ کہا جائے کہ کلینی ؒ کا ان سے کثرت سے روایات نقل کرنا بھی ان کی وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
۷۔ محمد بن جعفر الرزاز الکوفی – کلینی ؒ نے اپنے اس شیخ سے مختلف مقامات پر اور مختلف ناموں کے ساتھ روایت کی ہے، بعض مقامات میں ان سے مذکورہ نام کے ساتھ روایت کی ہے، جیسا کہ الفروع جلد ۴، صفحہ ۵۷۸ میں، اور دوسری جگہ " محمد بن جعفر ابو العباس " کے نام سے، جیسا کہ الفروع جلد ۶، صفحہ ۵۹ اور ۶۴ میں، اور تیسری جگہ " ابو العباس الرزاز " کے نام سے، جیسا کہ الفروع جلد ۶، صفحہ ۸۴ میں، اور چوتھی جگہ " محمد بن جعفر الکوفی " کے نام سے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۲۵ میں۔ اور شاید یہی وہ شخص ہو جسے محمد بن ابی عبد اللہ الکوفی بھی کہا جاتا ہے، جس سے کلینی ؒ نے متعدد مقامات پر روایت کی ہے، جن میں سے ایک الفروع جلد ۶، صفحہ ۱۶۰ میں۔
اس شخص کی وثاقت کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے۔ نجاشی ؒ کہتے ہیں: محمد بن جعفر بن محمد بن عون الاسدی ابو الحسن کوفی، رے میں رہنے والے، جنہیں " محمد بن ابی عبد اللہ " کہا جاتا ہے، وہ ثقہ اور صحیح الحدیث تھے۔ تمام۔
اور کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص ہی جو " الرزاز" ہیں جن سے کلینی ؒ روایت کرتے ہیں، اور اس وجہ سے ان کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے، لیکن کہا گیا ہے کہ رزاز اور اسدی (محمد بن ابی عبد اللہ) دونوں ایک ہی فرد ہے اس کی کوئی قوی دلیل نہیں ہے، لہٰذا ان کی وثاقت کا حکم لگانا ممکن نہیں ہے۔
۸۔ احمد بن محمد بن احمد الکوفی – اور وہ العاصمی ہیں - یہ نام " الروضہ صفحہ ۱۷ " میں اسی طرح وارد ہوا ہے۔ اور کلینی ؒ نے ان سے دوسری جگہ " احمد بن محمد العاصمی " کے نام سے روایت کی ہے، جیسا کہ الفروع جلد ۶، صفحہ ۶ میں، اور تیسری جگہ " احمد بن محمد " کے نام سے، جیسا کہ الفروع جلد ۴، صفحہ ۴۴، ۴۵ اور ۱۳۳ میں، اور یہ راوی ثقہ راویوں میں سے ہیں۔
۹۔ علی بن محمد بن بندار – ان سے کلینی ؒ نے کبھی تو اسی نام سے روایت کی ہے، جیسا کہ الفروع جلد ۳، صفحہ ۲۳ اور ۱۲۳ میں، اور دوسری دفعہ " علی بن محمد " کے نام سے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۹۶، اور الروضہ صفحہ ۲۳۱ اور ۲۵۵ میں، اور تیسری دفعہ " علی بن محمد بن عبد اللہ " کے نام سے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۲۷۵ میں۔
۱۰۔ احمد بن مہران – کلینی ؒ نے ان سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں، اور وہ خود بھی عبدالعظیم حسینی (رہ) سے بہت سی روایات نقل کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی وثاقت ثابت نہیں ہوئی، مگر یہ کہ کلینی ؒ کی طرف سے ان سے کثرت روایت کو وثاقت کے ثبوت کے لیے کافی مان لیا جائے۔
۱۱۔ محمد بن احمد بن الصّلت – کلینی ؒ نے ان سے کبھی تو اسی نام سے روایت کی ہے، جیسا کہ الروضہ صفحہ ۳۹۰ میں۔ اور دوسری جگہ " محمد بن احمد بن عبد اللہ الصّلت " کے نام سے، جیسا کہ الروضہ صفحہ ۳۰۲ میں، اور تیسری جگہ " محمد بن احمد القمی " کے نام سے، جیسا کہ الروضہ صفحہ ۳۳۴ اور ۳۰۴ میں۔
اور ان کی وثاقت کا حکم اس بنیاد پر دیا جا سکتا ہے کہ صدوق ؒ نے اپنی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمة میں بیان کیا ہے: میرے والد ان سے روایت کرتے تھے، اور ان کے علم، فضیلت، زہد اور عبادت کی تعریف کرتے تھے۔
۱۲۔ (الحسین) حسن بن علی الهاشمي – ان کا ذکر الفروع جلد ۴، صفحہ ۱۴۶ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۱۳۔ الحسین بن علی العلوی – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۷۲ اور ۵۲۳، اور الفروع جلد ۳، صفحہ ۶۲ میں آیا ہے، اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۱۴۔ الحسین بن الحسن الحسني – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۲۹۹ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۱۵۔ الحسین بن الحسن العلوی – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۵۲۵ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔ اور یہ احتمال ہے کہ یہ پچھلے (نمبر ۱۴: الحسین بن الحسن الحسني) کے ساتھ ایک ہی شخص ہوں۔
۱۶۔ الحسن بن خفیف – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۵۲۵ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۱۷۔ ابو داؤد – ان کا ذکر الفروع جلد ۳، صفحہ ۴۹، ۵۱، ۲۶۵، ۳۰۴ اور ۳۱۴ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۱۹۔ محمد بن عبد اللہ اور محمد بن یحییٰ – محمد بن یحییٰ سے مراد وہی محمد بن یحییٰ عطار ہیں جن کا ذکر نمبر ۲ پر گزرا۔ اور جہاں تک تعلق محمد بن عبد اللہ کا ہے، تو بعید نہیں ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ بن جعفر الحمیری ہوں، جو ثقہ اور اجلہ میں سے ہیں۔ اس بات پر قرینہ یہ ہے کہ دونوں نے عبد اللہ بن جعفر الحمیری جو کہ ثقہ جلیل القدر ہیں، سے روایت کی ہے، جیسا کہ الاصول جلد ۱، صفحہ ۳۲۹ میں موجود ہے۔ لیکن ہر صورت میں، محمد بن یحییٰ کی وثاقت ہمارے لیے کافی ہے، اور ہمیں محمد بن عبد اللہ کی توثیق کی ضرورت نہیں ہے۔
اور جہاں تک عبد اللہ بن جعفر الحمیری کا تعلق ہے – جو ہمارے جلیل القدر اصحاب میں سے ہیں – ان سے کلینی ؒ براہِ راست نہیں روایت کرتے، بلکہ وہ ان کے بیٹے محمد یا کسی دوسرے کے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔ اور اگر بالفرض کہیں کہیں سند کا آغاز ان کے نام سے ہو، تو اسے باب تعلیق سے ہونے پر محمول کرنا لازم ہے۔
۱۹۔ احمد بن عبد اللہ – ان کا ذکر الفروع جلد ۴، صفحہ ۵۴ میں آیا ہے۔ اور بعید نہیں ہے کہ یہ اور احمد بن عبد اللہ بن امیہ ایک ہی ہوں، اور اسی طرح سے یہ اور احمد بن عبد اللہ بن احمد ایک ہی ہو۔ لیکن بہر حال، یہ مجهول الحال ہیں۔
۲۰۔ ابو عبد اللہ الاشعری – ان کا ذکر الفروع جلد ۶، صفحہ ۲۸۲ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہے۔
۲۱۔ علی بن موسی الکمندانی – اور یہ صدوق ؒ کے شیخ بھی ہیں۔ ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔
۲۲۔ محمد بن علی بن معمر – ان کا ذکر الروضہ صفحہ ۱۸ اور ۳۱ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۲۳۔ علی بن محمد بن علی بن العباس – ان کا ذکر الروضہ صفحہ ۱۷۸ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۲۴۔ علی بن الحسین المؤدب – ان کا ذکر الروضہ صفحہ ۳۵۲، ۱۸۷ اور ۱۷۰ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہیں۔
۲۵۔ سعد بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن جعفر الحمیری – ان دونوں کا ذکر الاصول جلد ۲، صفحہ ۴۰۲، ۴۲۱ اور جلد ۱، صفحہ ۴۵۷ میں آیا ہے۔ اور ان کا ذکر الاصول کے پہلے حصے کے آخر میں بار بار آیا ہے۔
اور دونوں ثقہ اور جلیل القدر ہیں، لیکن بظاہر وہ کلینی ؒ کے براہِ راست شیوخ (مشايخ مباشرين) میں سے نہیں ہیں۔ اور ان کا سند کے آغاز میں ذکر کو ضروری ہے کہ باب تعلیق سے ہونے پر محمول کیا جائے۔
۲۶۔ ابو محمد القاسم بن العلاء – ان کا ذکر الاصول جلد ۱، صفحہ ۱۹۸ میں آیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ وہ ناحیہ مقدسہ کے وکلاء میں سے تھے؛ اور اگر یہ بات ثابت ہو جائے، تو ان کی وثاقت کا حکم لگایا جائےگا۔
۲۷۔ محمد بن عقیل – ان کا ذکر الفروع جلد ۴، صفحہ ۲۲۴ میں آیا ہے۔ اور یہ مجهول الحال ہے۔
۲۸۔ محمد بن الحسن – ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ الصفّار ہیں یا البرنانی یا کوئی اور شخص۔ اور چونکہ یہ ثابت نہیں کہ وہ صفار ہیں، لہٰذا ان کے بارے میں مجهول الحال کا حکم لگایا جائےگا۔
۲۹۔ احمد بن محمد بن سعید الکوفی – یہ ابن عقدہ کے نام سے معروف ہیں۔ اور یہ اگرچہ کہا گیا ہے کہ وہ زیدی تھے، لیکن وہ ثقہ ہیں۔