دونوں کتابوں کی تمام احادیث کی صحت
۲۔بعض افراد تھذیبین کی تمام احادیث کی صحت کے قائل ہیں۔ اور اس کی تشریح دو بیانات میں سے کسی ایک سے کی جا سکتی ہے:-
الف۔ فیض کاشانی ؒ سے الوافی میں شیخ ؒ کی عدۃ الاصول کے حوالے سے جو کچھ حکایت کیا گیا ہے است بنیاد بنایا جائے کہ انہوں نے کہا: " جو کچھ میں نے اپنی دونوں روایتی کتابوں میں درج کیا ہے وہ میں نے معتبر اصول سے لیا ہے " ۔ اور جب روایات معتبر کتابوں سے لی گئی ہوں تو شیخ ؒ اور صاحب کتاب کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اس کا رد یہ ہے: کہ مذکورہ عبارت کا " العدۃ" میں ثابت ہونا واضح نہیں ہے۔ اور اگر اس کے ثابت ہونے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ اصل کے معتمد علیہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی تمام احادیث پر بلا استثناء اعتماد کیا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس کی ایک عمومی خصوصیت ہے۔
اور یہی مقصود ہے اس بات کی تائید اس چیز سے ہوتی ہے کہ شیخ ؒ نے خود اپنی کتاب میں درج شدہ احادیث کے ایک مجموعے کی سند پر اشکال کیا ہے۔ اور جب وہ احادیث خود شیخ ؒ کی نظر میں صحیح نہیں تھیں تو ہم سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے نزدیک صحیح ہوں گی؟
ب۔ سید مصطفی تفریشی ؒ نے جو بات بیان کی ہے جیسا کہ صاحبِ "جامع الرواۃ"
(رجوع کریں جامع الرواة ۲: ۴۸ ۹)
نے ان کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ شیخ طوسی ؒ نے مشیخہ کے آغاز میں صراحت کی ہے کہ وہ احادیث کو اصحاب کی اصل کتابوں اور اصول سے نقل کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے اس میں ایک دوسرے مقدمہ کا اضافہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کتابیں اور اصول معروف تھے اور ان کی ان کے مؤلفین کی طرف نسبت معلوم تھی اور اس میں کوئی شک نہیں تھا جیسے آج کل کتب اربعہ کی ان کے مؤلفین کی طرف نسبت کی کیفیت ہے۔ اور ایسی صورت میں ہمیں شیخ ؒ اور ان کتابوں کے مؤلفین کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اس کا رد یہ ہے: جو بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ شیخ ؒ کے مشیخہ کے آغاز میں موجود کلام میں ایک قرینہ موجود ہے جو اس دعوے کو باطل کرتا ہے کہ یہ کتابیں اس قدر مشہور تھی کہ ان سے روایت کرنے کے لیے صحیح سند کی ضرورت نہیں رہتی۔
اور یہ قرینہ ان کا یہ قول ہے کہ میں کتابوں کے مؤلفین تک سلسلہ ذکر کرتا ہوں تاکہ جو احادیث میں نقل کر رہا ہوں وہ ارسال سے نکل کر اسناد کی طرف منتقل ہو جائیں۔
یہ اس کے علاوہ ہے جو پہلے بیان ہوا کہ کسی کتاب کی شہرت سے اس کے تمام نسخوں کی شہرت لازم نہیں آتی۔ اور ممکن ہے کہ بعض نسخے غلطیوں پر مشتمل ہوں، اس لیے ایک معتبر سند و طریق کا ہونا ضروری ہے تاکہ غلطی سے بچا جا سکے۔
علاوہ ازیں، مذکورہ دعوے کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ کا مشیخہ لکھنا اور اس میں اپنی عمر کا ایک حصہ صرف کرنا لغو و بیکار تھا، سوائے اس کے کہ ان کا مقصد اپنی سند کو امام علیہ السلام تک پہنچا کر برکت حاصل کرنا ہو، لیکن یہ ضعیف ہے اس بنا پر کہ برکت کے لیے کثرت سے سلسلہ اسناد ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کسی کتابی شکل میں درج کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے دل میں یا ایک خاص کاغذ پر محفوظ رکھنا کافی ہے۔
ضعیف سلسلہ سند کا تدارک
۳۔ شیخ ؒ نے مشیخہ کے آغاز میں ذکر کیا ہے کہ جس شخص کے نام سے انہوں نے سند کا آغاز کیا ہے انہوں نے حدیث اس کی کتاب سے لی ہے۔
اور اگر ہم مشیخہ کی طرف رجوع کریں تاکہ صاحب کتاب تک سلسلہ سند معلوم کر سکیں تو ہو سکتا ہے کہ شیخ ؒ نے ان تک کوئی سلسلہ سند ذکر نہ کیا ہو یا ان تک ان کا سلسلہ سند ضعیف ہو۔
اور ایسی صورت حال میں، اس " الفھرست" کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے جسے انہوں نے شیعوں کے صاحبانِ کتب کے نام جمع کرنے اور ان تک اپنے سلسلہ اسناد بیان کرنے کے لیے تالیف کیا ہے۔
اور اس کتاب میں وہ مشیخہ میں جو ذکر کیا ہے اس سے زیادہ سلسلہ اسناد ذکر کرتے ہیں، چنانچہ کبھی وہ مشیخہ میں صاحب کتاب تک ایک سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں جبکہ فہرست میں دو یا تین بلکہ وہ کبھی مشیخہ میں کسی شخص تک کوئی سلسلہ سند ذکر نہیں کرتے اور " الفھرست" میں ان تک سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں۔
چنانچہ اگر مشیخہ میں سلسلہ سند ضعیف ہو اور " الفھرست" میں ذکر کردہ بعض سلسلۂ اسناد صحیح ہوں تو تدارک کیا جا سکتا ہے اور " الفھرست" میں ذکر کردہ صحیح سلسلہ سند سے مدد لی جا سکتی ہے۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ ؒ " الفھرست" میں عموماً جب کسی شخص اور اس کی کتابوں کا ذکر مکمل کر لیتے ہیں تو اس طرح تعبیر کرتے ہیں: ہمیں اس کی تمام کتابوں اور روایات کی خبر دی فلاں نے، فلاں سے، فلاں سے۔۔۔ اور اس تعبیر سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ان سلسلۂ اسناد میں سے کسی ایک کے ذریعے روایت کرتے ہیں، تو وہی سب کچھ دوسرے سلسلہ سند سے بھی روایت کرتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخص کی بعض روایات کو کسی ایک سلسلہ سند سے اور باقی روایات کو دوسرے سلسلہ سند سے روایت کرتے ہیں۔
جو ہم نے بیان کیا اس کی روشنی میں " الفھرست" کے سلسلہ اسناد کے ذریعہ تدارک کا پہلو واضح ہے۔ ہاں، مشکل اس صورت میں باقی رہتی ہے جب " الفھرست" کے سلسلہ اسناد بھی ضعیف ہوں، تو کیا کچھ دیگر طریقے ہیں جن سے مدد لی جا سکے تاکہ اس مشکل پر قابو پایا جا سکے؟
اور ذیل میں ہم جدید طریقوں کا ایک حصہ بیان کرتے ہیں۔
شیخ اردبیلی ؒ کا طریقہ
شیخ محمد اردبیلی ؒ - جو شیخ مجلسی ؒ کے شاگردوں میں سے ہیں اور " جامع الرواۃ" نامی معروف کتاب کے مؤلف ہیں - کا ایک غیر مطبوعہ رسالہ ہے جس کا نام انہوں نے " رسالة تصحیح الاسانید" رکھا ہے۔
اور انہوں نے مذکورہ رسالے کے مقدمے میں بعض اسانید کے ضعف پر قابو پانے (یعنی اس کا تدارک کرنے) کا ایک طریقہ بیان کیا ہے۔
اور انہوں نے اس طریقے کا خلاصہ اپنی کتاب " جامع الرواۃ" کے آخر میں ذکر کردہ فوائد میں سے ساتویں فائدے میں درج کیا ہے۔
اور انہوں نے جو طریقہ ذکر کیا ہے اس میں کچھ ابہام ہے، جسے سید بروجردی ؒ نے اچھے انداز سے واضح کیا ہے۔
اور اس کی وضاحت کے لیے ہم درج ذیل مثال ذکر کرتے ہیں: شیخ ؒ نے " التھذیب" میں علی بن حسن طاطری سے متعدد روایات نقل کی ہیں جو اجلہ و معزز ثقات میں سے ہیں۔
چنانچہ " التھذیب" ج ۲ حدیث ۵۴۹ میں انہوں نے یہ نص ذکر کی ہے: " علی بن حسن طاطری نے کہا: مجھے حدیث بیان کی عبد اللہ بن وضاح نے، انہوں نے سماعہ بن مہران سے، انہوں نے کہا: مجھ سے ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خبردار! تم زوال سے پہلے نماز نہ پڑھو، کیونکہ تمہارے لیے زوال سے پہلے نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ تم عصر کے وقت میں نماز پڑھو۔
اور جب ہم شیخ ؒ کے طاطری تک کے سلسلہ سند کو جاننے کے لیے مشیخہ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ان کا یہ قول ملتا ہے: " اور جو کچھ میں نے علی بن حسن طاطری سے ذکر کیا ہے تو مجھے خبر دی ہے اس کی احمد بن عبدون نے، انہوں نے علی بن محمد بن زبیر سے، انہوں نے ابو الملک احمد بن عمر بن کیسہ سے، انہوں نے علی بن حسن طاطری سے " ۔
یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طاطری تک شیخ ؒ کا سلسلہ سند تین واسطوں پر مشتمل ہے: احمد بن عبدون، علی بن محمد بن زبیر، ابو الملک۔
اور ان تینوں واسطوں کے حق میں توثیق وارد نہیں ہوئی ہے، چنانچہ سلسلہ سند ضعیف ہو جائےگا اور نتیجۃً طاطری سے شروع ہونے والی تمام روایات - جن کی تعداد ۳۴ روایات تک پہنچتی ہیں - ضعیف اور ناقابل قبول ہوں گی۔
اور اردبیلی ؒ ان روایات کی سند کو صحیح قرار دینے کے مقام پر کہتے ہیں: میں نے " التھذیب" کے مختلف ابواب کا جائزہ لیا تو میں نے باب الطواف میں دیکھا کہ شیخ ؒ چار روایات اس صورت میں ذکر کرتے ہیں: موسیٰ بن القاسم، انہوں نے علی بن حسن طاطری سے، انہوں نے درست بن ابو منصور سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔
اور یہ چاروں افراد ثقہ ہیں۔
پھر انہوں نے ایک دوسرا کام کیا اور وہ یہ کہ انہوں نے " الفھرست" یا " مشیخہ" میں موسیٰ بن القاسم تک شیخ کے سلسلہ سند جائزہ لیا تو اسے صحیح پایا کیونکہ وہ اس طرح ہے: المفید، انہوں نے ابن بابویہ سے، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے صفار سے، انہوں نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے موسیٰ بن القاسم سے۔
اور اس طرح ہمیں طاطری تک ایک نیا سلسلہ سند حاصل ہوتا ہے جو پہلی بات کو دوسری سے ملانے کا نتیجہ ہے، اور وہ اس صورت میں ہے: المفید، انہوں نے ابن بابویہ سے، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے صفار سے، انہوں نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے موسیٰ بن قاسم سے، انہوں نے علی بن حسن طاطری سے۔ اور یہ ایک معتبر سلسلہ سند ہے۔
اور مذکورہ طریقے پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ اس فرض پر تکمیل پاتا ہے جب موسیٰ بن قاسم کے پاس طاطری کی کتاب موجود تھی جب انہوں نے اس سے مذکورہ چار روایات نقل کی تھیں۔ کیونکہ اگر یہ بنیاد مان لی جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طاطری کی تمام روایات موسیٰ بن قاسم تک پہنچی تھیں، اور چونکہ شیخ کو موسیٰ بن قاسم تک ایک معتبر سند حاصل ہے، لہٰذا یہ نتیجہ نکلےگا کہ طاطری کی تمام روایات ہم تک ایک معتبر سند کے ذریعے پہنچی ہیں۔البتہ یہ ممکن ہے کہ موسیٰ بن قاسم کے پاس طاطری کی کتاب نہ ہو بلکہ ان کے پاس صرف طاطری سے پہلے کے راوی، جیسے درست یا ابن مسکان، کی کتاب ہو۔ تو مثال کے طور پر درست کے پاس ایک کتاب تھی جس میں بہت سی روایات تھیں جن میں سابقہ چار روایات بھی شامل تھیں، اور درست نے طاطری سے کہا: میں تمہیں اپنی اس کتاب کو روایت کرنے کی اجازت دیتا ہوں، اور طاطری نے اپنے دور میں موسیٰ بن القاسم سے کہا: میں تمہیں درست کی کتاب روایت کرنے کی اجازت دیتا ہوں " ، اور موسیٰ بن قاسم نے درست کی کتاب سے سابقہ چار روایات لی اور انہیں اپنی اس کتاب میں درج کیا جس میں وہ احادیث جمع کرتے تھے۔اس بنا پر موسیٰ بن قاسم، طاطری کی تمام روایات کے راوی نہیں ہوں گے بلکہ وہ درست کی کتاب کے راوی ہوں گے جو ان تک طاطری کے واسطے سے پہنچی ہے، اور موسیٰ کے لیے اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مجھے طاطری نے درست کے حوالے سے یہ چار روایات بیان کی۔
شیخ مجلسی ؒ کا طریقہ
شیخ مجلسی ؒ کی طرف ان کی کتاب " الاربعین" میں درج ذیل طریقہ منسوب کیا جاتا ہے: اگر شیخ طوسی ؒ کی صاحب کتاب تک سند ضعیف ہو تو جب بھی شیخ صدوق ؒ کی اس کتاب کے مؤلّف تک کی سند صحیح ہو تو شیخ صدوق ؒ کی سند پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعہ شیخ طوسی ؒ کی سند کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔
اور اس کی وجہ یہ ہے: کہ شیخ طوسی ؒ کا شیخ صدوق ؒ کی تمام روایات تک سلسلہ سند صحیح ہے کیونکہ وہ شیخ صدوق ؒ کی تمام روایات شیخ مفید ؒ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔
چنانچہ اگر شیخ طوسی ؒ کا شیخ صدوق ؒ کی تمام روایات تک سلسلہ سند صحیح ہو اور یہ فرض کیا جائے کہ شیخ صدوق ؒ کا بھی اس صاحبِ کتاب کی روایات تک سلسلہ سند صحیح ہے جس سے شیخ طوسی ؒ روایت کرتے ہیں تو اس طرح شیخ طوسی ؒ کا صاحبِ کتاب تک صحیح سلسلہ سند کا وجود ثابت ہو جائےگا۔
تو جب بھی شیخ طوسی ؒ کسی اصل کے مؤلف سے کوئی روایت نقل کریں اور شیخ صدوق ؒ نے وہ روایت ذکر نہ کی ہو لیکن ان کے پاس صاحبِ کتاب تک کا صحیح سلسلہ سند موجود ہو تو مذکورہ تدارک اور اس روایت تک ایک صحیح سلسلہ سند کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔
اور اس کا رد یہ ہے: کہ یہ بات اس فرض پر تکمیل پائےگی جب ہم یہ امکان نہ رکھے کہ کتاب کے دو مختلف نسخے موجود تھے جن میں سے ایک کو شیخ ؒ نے ضعیف سلسلہ سند سے روایت کیا ہے اور دوسرے کو صدوق ؒ نے اپنے صحیح سلسلہ سند سے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ امکان - جو ثابت ہے اور جس کی نفی ممکن نہیں ہے - کے ہوتے ہوئے مذکورہ طریقے سے مدد نہیں لی جا سکتی کیونکہ یہ امکان ہے کہ جو حدیث شیخ طوسی ؒ روایت کرتے ہیں وہ ان کے نسخے میں موجود ہو نہ کہ شیخ صدوق ؒ کے نسخے میں۔
اور اس بات کی تائید کہ نسخے متعدد ہونے کا احتمال ہے، یہ ہے کہ شیخ طوسی ؒ نے اپنی " الفھرست" ص ۱۱۲ میں علاء بن رزین کے حالات میں بیان کیا ہے کہ ان کی ایک کتاب ہے جس کے چار نسخے ہیں اور ان کا ہر نسخے تک کا ایک خاص سلسلہ سند ہے جو دوسرے نسخے تک کے سلسلہ سند سے مختلف ہے۔
تیسرا طریقہ
جب ہمارے پاس ایک ہی روایت دو مختلف اسناد سے پہنچی ہو، اور دونوں میں کسی خاص لحاظ سے ضعف موجود ہو تو دونوں اسناد کو ملا کر ایک تیسرا سلسلہ سند حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس کی مثال: شیخ طوسی ؒ نے ایک روایت اس سند کے ساتھ روایت کی ہے: المفید، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے زرعہ سے، انہوں نے سماعہ سے، انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے ۔۔۔(۱)
اور یہی روایت کلینی ؒ نے اس طرح روایت کی ہے: محمد بن یحییٰ، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے علی بن اسماعیل سے، انہوں نے عثمان بن عیسیٰ سے، انہوں نے زرعہ سے، انہوں نے سماعہ سے، انہوں نے امام علیہ السلام سے(۲)۔
حوالے:
(۱)- اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے احمد بن محمد، شیخ مفید کے اُستاد کے، جو کہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں۔ اس بنا پر کہ صرف "شیخوختہ الاجازۃ" ہونا اثباتِ وثاقت کے لیے کافی نہیں ہے۔
اور جہاں تک محمد بن یحییٰ، سعد، احمد بن محمد — یعنی احمد بن محمد بن عیسیٰ — اور حسین بن سعید اھوازی، حسن بن سعید اھوازی، زرعہ اور سماعہ کا تعلق ہے، تو یہ سب کے سب ثقہ ہیں۔
(۲)- اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے علی بن اسماعیل کے، کیونکہ محمد بن یحییٰ عطار کلینی کے معروف شیخ ہیں جو وثاقت اور جلالت کے حامل ہیں۔ اور جہاں تک احمد بن محمد بن عیسیٰ اور باقیوں کا تعلق ہے تو وہ ثقہ ہیں۔