‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 106

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 106
مشاہدے: 5068
ڈاؤنلوڈ: 167

تبصرے:

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5068 / ڈاؤنلوڈ: 167
سائز سائز سائز
‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‌دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہلا نکتہ

ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ شیخ کلینی ؒ کی کتاب " الکافی" میں ان کی روش یہ رہی ہے کہ وہ اکثر اوقات مکمل سند بیان کرتے ہیں اور اس سے صرف شاذ و نادر ہی انحراف کرتے ہیں۔۔ جبکہ شیخ صدوق ؒ کا طریقہ اس کے برعکس ہے، چنانچہ وہ اکثر سند کو حذف کر دیتے ہیں اور براہِ راست امام علیہ السلام سے روایت کرنے والے راوی کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں: " زرارہ" یا " روایت کیا زرارہ نے امام باقر علیہ السلام سے " ۔ اور وہ شاذ و نادر ہی مکمل سند ذکر کرتے ہیں۔ اور انہوں نے اس کی وجہ مقدمے میں یہ بیان کی ہے: اور میں نے اس کتاب کو اسناد کو حذف کر کے تصنیف کیا ہے تاکہ اس کی سندیں زیادہ نہ ہو جائیں، اگرچہ اس کے فوائد بکثرت ہیں۔

اور اسی وجہ سے انہیں کتاب کے آخر میں ان لوگوں تک اپنے سلسلہ اسناد ذکر کرنے کی ضرورت پیش آئی جن سے وہ سند کا آغاز کرتے ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں: " اور جو کچھ میں نے زرارہ سے روایت کیا ہے وہ مجھے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے ۔۔۔

اور اسناد کے اس سلسلہ کو " مشیخہ" سے موسوم کیا جاتا ہے، جو شیخ کی جمع ہے۔

اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ان میں سے بعض لوگوں تک اپنے سلسلہ اسناد ذکر نہیں کیے ہے جن سے انہوں نے سند کا آغاز کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے مذکورہ احادیث مرسل ہو جاتی ہیں۔

۸۱

دوسرا نکتہ

صدوق ؒ نے اپنی کتاب اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث کے جامع کے طور پر تالیف نہیں کی بلکہ انہوں نے اسے شیعوں کے لیے ایک عملی مرجع و رجوع گاہ کے طور پر تالیف کیا ہے نہ کہ حدیثی مرجع کے طور پر، اور یہ بات مقدمے کے بعض فقروں اور خود کتاب کے اسلوب سے ظاہر ہوتی ہے۔

اور اسی بنا پر اس میں ایک رجحان نمایاں ہوا ہے، اور وہ یہ کہ جب وہ بعض احادیث ذکر کرتے ہیں تو ان کے ساتھ تفسیر یا توضیح بھی بیان کرتے ہیں اور اسے حدیث سے متصل ذکر کر دیتے ہیں۔ بسا اوقات قاری پر یہ فرق مخفی رہ جاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ یہ سب ایک ہی حدیث ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ امام علیہ السّلام کا کلام ہے اور کچھ حصہ خود صدوق ؒ کا بیان ہے۔

اور مثال کے طور پر، صدوق ؒ نے پہلے حصے کی دوسری حدیث میں اس طرح سے ذکر کیا ہے: " اور آپ علیہ السلام نے فرمایا: پانی پاک کرتا ہے، لیکن اسے پاک نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ جب تمہیں پانی ملے اور تمہیں اس میں کوئی نجاست معلوم نہ ہو تو اس سے وضو کرو اور پیو۔ اور اگر تمہیں اس میں کوئی ایسی چیز ملے جو اسے ناپاک کرے تو اس سے وضو نہ کرو اور نہ پیو سوائے حالت اضطرار کے تو اس سے پیو اور اس سے وضو نہ کرو اور تیمم کرو ۔۔۔ " ۔

رجوع کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ مذکورہ تمام جملے امام علیہ السلام کا کلام ہے جبکہ امام علیہ السلام کا کلام صرف یہ جملہ ہے: " پانی پاک کرتا ہے، لیکن پاک نہیں کیا جاتا " ۔ اور باقی صدوق ؒ کا کلام ہے۔

۸۲

تیسرا نکتہ

ایک مشہور رائے یہ ہے کہ " الفقیہ" میں مذکور تمام احادیث حجت ہیں، اور ان کی اسناد میں تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔

اور اس رائے کی بنیاد درج ذیل دو پہلوؤں میں سے کسی ایک پر ہے:

۱۔ مقدمے میں مذکور بعض فقرات جہاں صدوق ؒ نے کہا: " اور میں نے اس میں مصنفین کی طرح ہر وہ چیز شامل کرنے کا قصد نہیں کیا جو انہوں نے روایت کی ہے بلکہ میرا مقصد صرف وہ چیزیں شامل کرنا ہے جن سے میں فتویٰ دیتا ہوں اور جن کی صحت کا حکم کرتا ہوں اور جن کے بارے میں میرا اعتقاد ہے کہ وہ میرے اور میرے ربّ تقدّس ذکرہ کے درمیان حجت ہیں " ۔

مذکورہ عبارت اس بات پر صریح ہے کہ وہ صرف صحیح احادیث ذکر کرتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں " الفقيه" میں مذکور ہر حدیث کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ صدوق ؒ نے اگرچہ صرف صحیح خبر ذکر کرنے کا خود کو پابند کیا ہے، لیکن متقدمین کی اصطلاح میں صحیح کا مطلب متاخرین کی اصطلاح سے مختلف ہے، چونکہ صحیح متأخرین کی اصطلاح میں اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے تمام راوی عادل اور امامی ہوں،

جبکہ متقدمین کی اصطلاح میں اس سے مراد ہر وہ حدیث ہے جس پر عمل واجب ہو، خواہ اس کے ساتھ کچھ ایسے قرائن موجود ہوں جو اس کے حق ہونے پر اطمینان پیدا کریں، چاہے بالفرض اس کے راوی فاسق یا غیر موثق ہی کیوں نہ ہوں۔

اور اگر صدوق ؒ کا اس خبرِ صحیح سے یہی مقصود ہے تو ان کا اپنی کتاب میں اس حدیث کا ذکر کرنا لازم نہیں کہ ہم پر اس کی حجیت ثابت ہو جائے، کیونکہ شاید اگر ہم ان قرائن سے مطلع ہوتے تو وہ ہمارے لیے باعث اطمینان نہ بنتے۔

مزید برآں صدوق ؒ کا احادیث کو صحیح قرار دینے کا ایک خاص طریقہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر وہ حدیث جسے ان کے شیخ محمد بن حسن بن ولید ؒ نے صحیح قرار دیا ہے وہ ان کے نزدیک صحیح ہے، اور ہر وہ حدیث جسے ان کے شیخ نے صحیح قرار نہیں دیا وہ ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

اور اس طریقہ کار کا ذکر بعض مقامات پر انہوں نے صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ ایسی صورت میں، پھر ان کی گواہی کہ ان کی کتاب کی احادیث صحیح ہیں، ہمارے لیے ان احادیث کے قابلِ اعتبار ہونے کا سبب کیسے بن سکتی ہے؟

۲۔ صدوق ؒ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں ایک اور عبارت بیان کی ہے جو سابقہ عبارت سے مختلف ہے

اور وہ ان کا یہ قول ہے:

" اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ ان مشہور کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جیسے حریز بن عبد اللہ سجستانی کی کتاب اور عبید اللہ بن علی الحلبی کی کتاب اور ۔۔۔ " ۔

اور چونکہ " الفقيه" کی احادیث مشہور کتابوں سے ماخوذ ہیں اور ان پر اصحاب کا اعتماد ہے اس لیے صدوق ؒ اور جس صاحب کتاب سے وہ حدیث نقل کرتے ہیں اس کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہاں، ہمیں صاحب کتاب اور امام علیہ السلام کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت ہے۔

اور اس رائے کی طرف اشارہ پہلے گزر چکا ہے۔

( اور کہا گیا ہے کہ ان شخصیات میں سے جنہوں نے اس مذکورہ رائے کو اختیار کیا، سیّد البروجردی (قدّس سرّه) بھی شامل ہیں )

اور اس کا رد یہ ہے:

اولاً: جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ اس صورت میں کامل و درست ہوگا جب یہ مفروضہ تسلیم کیا جائے کہ صدوق ؒ نے جس بھی راوی کا نام سند کے آغاز میں ذکر کیا ہے، اس سے حدیث اس کی کتاب ہی سے اخذ کی ہے۔ لیکن یہ امر ثابت نہیں ہے، کیونکہ نہ تو انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اور نہ ہی مشیخہ میں اس بات کی تصریح کی ہے۔

ہاں، شیخ طوسی ؒ نے " تھذیبین" کے مشیخہ کے مقدمے میں اس کی صراحت کی ہے، صدوق ؒ نے نہیں کی ہے۔

اور اس بات کی مزید تصدیق کہ صدوق ؒ اس طریقے کے پابند نہیں تھے، یہ ہے کہ انہوں نے مشیخہ میں ابراہیم بن سفیان، اسماعیل بن عیسیٰ، انس بن محمد، جعفر بن قاسم اور دیگر تک کا سلسلہ سند کا ذکر کیا ہے، جبکہ ان افراد کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے اس قرینے سے کہ نجاشی ؒ اور شیخ ؒ نے اپنی فہرستوں میں جو صاحبانِ کتب کے بیان کے لیے تشکیل دی ہیں، ان افراد کا ذکر نہیں کیا ہے۔

بلکہ صدوق ؒ نے اسماء بنت عمیس (س) تک ایک سلسلہ سند ذکر کیا ہے، جبکہ ان کی کوئی کتاب موجود ہونا بعید ہے۔

اور اس سے بھی بڑھ کر، صدوق ؒ کبھی مشیخہ میں ایک خاص معین روایت تک سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں، جیسے وہ روایت جو یہودیوں کے ایک گروہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس آنے کو نقل کرتی ہے۔

اگر آپ کہے: اگر صدوق ؒ نے جس شخص سے سند کا آغاز کیا ہے اس کی کوئی کتاب نہیں ہے تو پھر انہوں نے کیسے کہا کہ : اس میں جو کچھ بھی ہے وہ مشہور کتابوں سے ماخوذ ہے؟

تو میں کہوں گا: مذکورہ عبارت میں کوئی خامی نہیں ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ہم فرض کریں کہ ابان بن تغلب جن سے صدوق ؒ نے سند کا آغاز کیا ہے جبکہ ان کی کوئی کتاب نہیں ہے، ان کی حدیث کو شیخ صدوق ؒ نے فقط اپنے شیخ و استاد محمد بن حسن بن ولید کی کتاب سے لی ہے۔ اور ان کے شیخ کی کتاب اگرچہ مشہور ہے لیکن اس کا زیادہ سے زیادہ لازمہ یہ ہے کہ ان کے اور ان کے شیخ کی کتاب کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت نہیں ہے، نہ کہ ان کے اور جس شخص سے انہوں نے سند کا آغاز کیا ہے، یعنی ابان، کے درمیان۔

اور دوسری بات: کسی کتاب کی شہرت اور اس پر اعتماد کرنا معتبر طریقے کی ضرورت کو ختم نہیں کرتا، کیونکہ ممکن ہے کہ اس کتاب کے متعدد نسخے ہوں جن میں بعض میں اضافہ، کمی یا تحریف ہو۔ لہذا کسی کتاب کی شہرت اور اس پر اعتماد کرنا مذکورہ احتمالات کے ختم ہونے کے مترادف نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، " الکافی" ہمارے زمانے میں ان مشہور کتابوں میں شمار ہوتی ہے جن پر اعتماد کیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے تمام نسخے صحیح ہیں اور اضافہ یا کمی سے محفوظ ہیں۔

اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اسے تسلیم کرتے ہوئے، ہمیں ایک معتبر سلسلہ سند کی ضرورت ہے جس کے ذریعے نسخے کی صحت ثابت ہو، اس طرح کہ صدوق ؒ یہ کہے کہ میرے شیخ نے مجھے حریز کی کتاب کے ایک مخصوص نسخے کی روایت کی اجازت دی ہے، مثلاً، اور ان کے شیخ کو بھی ان کے دور میں ان کے شیخ نے اجازت دی ہو یہاں تک کہ ثقہ راویوں کی اجازتوں کا سلسلہ خود حریز تک پہنچ جائے۔ پھر ضروری ہے کہ حریز نے خود اپنی کتاب کا ایک مخصوص نسخہ کسی ثقہ کو دیا ہو اور اسے روایت کرنے کی اجازت دی ہو، اور اس نے اپنے دور میں اسے کسی تیسرے کو دیا ہو اور اسے روایت کرنے کی اجازت دی ہو، اور اسی طرح یہ سلسلہ صدوق ؒ تک پہنچا ہو۔

اور تیسری بات: کتاب کی شہرت اور اس پر اعتماد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تمام احادیث پر بلا استثناء اعتماد کیا جائے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر اعتماد کرنا اس کی عمومی خصوصیت ہے، چنانچہ مثال کے طور پر، کتاب الکافی کو شیعوں کے نزدیک مشہور اور قابلِ اعتماد کتابوں میں سے شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی تمام احادیث صحیح ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر عمل کیا جائےگا۔

چوتھا نکتہ

کتاب الفقيه کہا جاتا ہے کہ ۵۹۶۳ احادیث پر مشتمل ہے۔ لیکن ان میں سے ایک بڑا حصہ جو مبلغ ۲۰۵۰ حدیثوں پر مشتمل ہے وہ مرسل احادیث ہیں۔

اور اسی وجہ سے مذکورہ مرسل احادیث کو صحیح قرار دینے کے طریقے پر غور کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔

اور بعض نے ان کی حجیت اور اس بات کے قائل ہیں کہ " الفقيه" میں صدوق ؒ کی مراسیل، حجیت اور اعتبار میں ابن ابی عمیر کی مراسیل کی طرح ہیں۔

اور ان مراسیل کی حجیت کی اس طرح بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ صدوق ؒ نے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف وہی چیزیں ذکر کرتے ہیں جن کی صحت پر وہ خود حکم دیتے ہیں اور جن پر فتویٰ دیتے ہیں، اور جو ان کے اور ان کے ربّ کے درمیان حجت ہیں، یا اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے مقدمہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس کتاب میں موجود تمام مواد ایسی مشہور اور معتبر کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے، جن پر اعتماد اور انحصار کیا جاتا ہے۔

اور مذکورہ دونوں بیانات پر اشکال کی طرف اشارہ پہلے گزر چکا ہے۔

اور ایک رائے جس کے متعدد علماء قائل ہیں جو اس بات میں تفریق کرتی ہے کہ آیا صدوق ؒ نے " قال" (فرمایا) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، مثلاً یوں ذکر کیا: قال الصادق علیہ السلام: ہر پانی پاک ہے جب تک کہ تمہیں معلوم نہ ہو کہ وہ نجس ہے، اور اس کے درمیان کہ جب انہوں نے " روی " (روایت کیا گیا) کے لفظ سے تعبیر کیا ہو، اس طرح کہ انہوں نے کہا ہو: " روی عن الصادق علیہ السلام: ہر پانی ۔۔۔ تو پہلی مرسل روایت حجت ہے دوسری نہیں۔

اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے مذکورہ تفریق اختیار کی ہے سید خوئی قدس سرہ ہیں اپنی بعض پرانی اصولی ابحاثی نشستوں میں اس توضیح کے ساتھ کہ صدوق ؒ جب " قال" کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں تو یہ حدیث کی صحت اور حجیت پر ان کے پختہ یقین پر دلالت ہے، ورنہ وہ اس " قال" کے لفظ سے تعبیر نہ کرتے جو روایت کے مضمون کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے پر ان کے پختہ یقین پر دلالت کرتا ہے(۱)۔

اور اس میں غور و تأمّل واضح ہے، کیونکہ صدوق ؒ کا " قال" کے لفظ سے تعبیر کرنا اگرچہ روایت کی صحت اور حجیت پر ان کے پختہ یقین پر دلالت کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب سند کے راویوں کی وثاقت کی گواہی نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس روایت کے ساتھ ایسے قرائن متصل ہوں جو ان کی نگاہ میں اس روایت کی سچائی پر یقین کا باعث ہو، جبکہ ہماری نگاہ میں نہ ہو۔

اور اسی وجہ سے سید خوئی قدّس سرّه نے بعد کی درسی نشستوں میں اس سے رجوع کر لیا تھا (یعنی اپنا نظریہ تبدیل کر لیا تھا) (۲) ۔

حوالے (۱)-۔ رجوع کریں الدراسات: ص ۳۲۲.

(۲)- رجوع کریں مصباح الاصول ۲: ۵۲۰.

۸۳

تمرینات

س۱: مشیخہ سے کیا مراد ہے؟ اور شیخ صدوق ؒ کو اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ ذکر کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟

س۲: ایک اسلوب ہے جو صدوق ؒ سے مخصوص ہے جس کا ہم نے دوسرے نکتہ کے عنوان کے تحت اشارہ کیا ہے۔ اس کی وضاحت کریں۔

س۳: پہلی وجہ بیان کریں جس سے " الفقيه" کی تمام احادیث کی حجیت ثابت کرنے کے لیے تمسّک کیا جا سکتا ہے بغیر ان کی سند میں دقیق تحقیق کو ضروری قرار دیئے۔ اور اس پر اشکال بھی ذکر کریں۔

س۴: اس کی دوسری وجہ کو اس پر ہونے والے پہلے اشکال کے ساتھ بیان کریں۔

س۵: دوسری وجہ پر دوسرے اشکال کو بیان کریں۔

س۶: دوسری وجہ پر تیسرے اشکال کو بیان کریں۔

س۷: صدوق ؒ نے اپنی کتاب میں مرسل روایات کثرت سے ذکر کی ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ تمام مراسیل حجت ہیں دو بیانات کی وجہ۔ آپ ان دونوں کو بیان کریں۔

س۸: صدوق ؒ کی مراسیل کی حجیت میں ایک تفریق ہے۔ اسے اس کی تشریح کے ساتھ بیان کریں۔

س۹: مذکورہ تفریق پر ہم کس طرح سے اشکال کریں گے؟

س۱۰: وسائل الشیعہ باب ۱۴، ابواب الخلل الواقع فی الصلاۃ ، حدیث ۱ کا جائزہ لیں۔ اور اس کی سند کی حالت واضح کریں۔

۸۴

"التھذیبین" کے بارے میں نظریات

التھذیب اور الاستبصار شیخ طوسی قدس سرہ کی دو کتابیں ہیں۔

جہاں تک کتاب تھذیب الاحکام کا تعلق ہے تو اسے شیخ الطائفہ ؒ نے اپنے استاد شیخ مفید ؒ کی کتاب " المقنعہ " کی شرح کے طور پر تالیف کیا ہے۔

اور انہوں نے کتاب کے اوائل میں شرح و استدلال کا عمل شروع کیا، چنانچہ وہ پہلے اپنے استاد کی عبارت قوسین میں ذکر کرتے ہیں اور پھر اس کی شرح کرتے ہیں اور اس میں موجود احکام پر استدلال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے صرف احادیث بیان کرنے پر اکتفا کیا۔ اور انہوں نے خود مشیخہ کے آغاز میں اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ انہیں یہ ڈر تھا کہ زیادہ تفصیل مقصد سے انحراف اور کتاب کو نامکمل اور غیر جامع بنا دےگی۔

چنانچہ کتاب تہذیب محض حدیثی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک فقہی استدلالی حدیثی کتاب ہے۔

اور کہا گیا ہے کہ یہ جلیل القدر کتاب شیخ الطائفہ ؒ کی پہلی تالیف ہے جسے انہوں نے اس وقت تالیف کیا جب ان کی عمر پچیس یا چھبیس سال تھی۔

اور اس کتاب کو دیکھنے والا اس بات سے مستفید ہوتا ہے کہ اس کا ایک حصہ شیخ ؒ نے اپنے استاد مفید ؒ کی زندگی میں تالیف کیا تھا اور باقی حصہ انہوں نے اپنے استاد کی وفات کے بعد تالیف کیا۔ چنانچہ کتاب کے آغاز سے لے کر کتاب الصلاۃ کے آخر تک جب وہ اپنے شیخ ؒ کی عبارت ذکر کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں: " قال الشیخ ایدہ اللہ تعالیٰ" (کہا استاد نے اللہ ان کی تائید فرمائے) لیکن اس کے بعد سے وہ کہتے ہیں: " قال الشیخ رحمہ اللہ " (کہا استاد نے اللہ ان پر رحمت فرمائے)۔

اور یہ کتاب کی حال ہی میں نجفِ اشرف میں دس جلدوں میں طباعت ہوئی ہے۔

اور اس کتاب کی مجموع احادیث کو شمار کیا گیا تو شیخ نوری کے بیان کے مطابق یہ ۱۳۵۹۰ احادیث بنتی ہیں۔

اور صاحب حدائق قدس سرہ کا تھذیب کے بارے میں ایک قول ہے جو کسی حد تک سخت یا مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، جہاں انہوں نے اپنی حدائق( الحدائق الناظرة ۴: ۲۰۹ )میں ذکر کیا ہے: "تہذیب کی احادیث میں سے شاذ و نادر ہی کوئی حدیث تحریف یا تصحیف یا متن یا سند میں زیادتی و کمی سے خالی ہو " ۔

جہاں تک کتاب " الاستبصار" کا تعلق ہے تو شیخ طوسی ؒ نے اسے اس وجہ سے تالیف کیا کہ جماعتِ شیعہ کو ان کی احادیث کے اختلاف اور تعارض (ٹکراؤ) کے سبب ملامت کا سامنا تھا چنانچہ انہوں نے یہ کتاب تالیف کی اور کوشش کی کہ ہر ایسی روایت کے درمیان جو بظاہر ایک دوسرے سے متعارض نظر آتی ہیں، تعارض کو دور کریں، چنانچہ یہ کتاب متعارض روایات کے ذکر اور ان کے درمیان جمع کرنے کی روش بیان کرنے کے لیے لکھی اور ترتیب دی گئی ہے۔ اور اسی وجہ سے کتاب کا نام " الاستبصار فیما اختلف من الاخبار" رکھا گیا۔

اور اس کتاب کی حال ہی میں نجفِ اشرف میں چار جلدوں میں طباعت ہوئی ہے۔

اور شیخ ؒ نے خود مذکورہ کتاب کی احادیث کو ۵۵۱۱ حدیثوں میں محدود کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کے آخر میں یہ بیان کیا ہے اور کہا کہ میں نے انہیں محدود کیا ہے تاکہ ان میں کوئی زیادتی یا کمی واقع نہ ہو۔

اور ہمارا کلام ان دونوں کتابوں کے بارے میں چند نکات پر مشتمل ہے۔

۸۵

شیخ ؒ کا سلسلہ سند بیان کرنے کا طریقہ

۱۔ ان دونوں کتابوں میں حدیث نقل کرنے کا شیخ ؒ کا طریقہ مختلف ہے، چنانچہ کبھی وہ مکمل سند نقل کرتے ہیں اور کبھی سند کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں، اور ان پر نہ ہی مکمل سند نقل کرنے کا رجحان غالب ہے جیسا کہ الکافی میں ہے اور نہ ہی سند کا کچھ حصہ نقل کرنے کا جیسا کہ الفقيه میں ہے۔

اور اسی وجہ سے انہیں مشیخہ کی تالیف کی ضرورت پیش آئی تاکہ وہ ان لوگوں تک اپنے سلسلہ اسناد درج کر سکیں جن سے وہ احادیث نقل کرتے ہیں تاکہ وہ اس طرح ارسال سے نکل کر اسناد کی طرف منتقل ہو جائیں۔

اور تہذیب کے آخر میں مذکورہ مشیخہ اکثر مقامات میں استبصار کے مشیخہ کے مطابق ہے۔

۸۶

دونوں کتابوں کی تمام احادیث کی صحت

۲۔بعض افراد تھذیبین کی تمام احادیث کی صحت کے قائل ہیں۔ اور اس کی تشریح دو بیانات میں سے کسی ایک سے کی جا سکتی ہے:-

الف۔ فیض کاشانی ؒ سے الوافی میں شیخ ؒ کی عدۃ الاصول کے حوالے سے جو کچھ حکایت کیا گیا ہے است بنیاد بنایا جائے کہ انہوں نے کہا: " جو کچھ میں نے اپنی دونوں روایتی کتابوں میں درج کیا ہے وہ میں نے معتبر اصول سے لیا ہے " ۔ اور جب روایات معتبر کتابوں سے لی گئی ہوں تو شیخ ؒ اور صاحب کتاب کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ مذکورہ عبارت کا " العدۃ" میں ثابت ہونا واضح نہیں ہے۔ اور اگر اس کے ثابت ہونے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ اصل کے معتمد علیہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی تمام احادیث پر بلا استثناء اعتماد کیا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس کی ایک عمومی خصوصیت ہے۔

اور یہی مقصود ہے اس بات کی تائید اس چیز سے ہوتی ہے کہ شیخ ؒ نے خود اپنی کتاب میں درج شدہ احادیث کے ایک مجموعے کی سند پر اشکال کیا ہے۔ اور جب وہ احادیث خود شیخ ؒ کی نظر میں صحیح نہیں تھیں تو ہم سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے نزدیک صحیح ہوں گی؟

ب۔ سید مصطفی تفریشی ؒ نے جو بات بیان کی ہے جیسا کہ صاحبِ "جامع الرواۃ"

(رجوع کریں جامع الرواة ۲: ۴۸ ۹)

نے ان کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ شیخ طوسی ؒ نے مشیخہ کے آغاز میں صراحت کی ہے کہ وہ احادیث کو اصحاب کی اصل کتابوں اور اصول سے نقل کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے اس میں ایک دوسرے مقدمہ کا اضافہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کتابیں اور اصول معروف تھے اور ان کی ان کے مؤلفین کی طرف نسبت معلوم تھی اور اس میں کوئی شک نہیں تھا جیسے آج کل کتب اربعہ کی ان کے مؤلفین کی طرف نسبت کی کیفیت ہے۔ اور ایسی صورت میں ہمیں شیخ ؒ اور ان کتابوں کے مؤلفین کے درمیان صحیح سلسلہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: جو بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ شیخ ؒ کے مشیخہ کے آغاز میں موجود کلام میں ایک قرینہ موجود ہے جو اس دعوے کو باطل کرتا ہے کہ یہ کتابیں اس قدر مشہور تھی کہ ان سے روایت کرنے کے لیے صحیح سند کی ضرورت نہیں رہتی۔

اور یہ قرینہ ان کا یہ قول ہے کہ میں کتابوں کے مؤلفین تک سلسلہ ذکر کرتا ہوں تاکہ جو احادیث میں نقل کر رہا ہوں وہ ارسال سے نکل کر اسناد کی طرف منتقل ہو جائیں۔

یہ اس کے علاوہ ہے جو پہلے بیان ہوا کہ کسی کتاب کی شہرت سے اس کے تمام نسخوں کی شہرت لازم نہیں آتی۔ اور ممکن ہے کہ بعض نسخے غلطیوں پر مشتمل ہوں، اس لیے ایک معتبر سند و طریق کا ہونا ضروری ہے تاکہ غلطی سے بچا جا سکے۔

علاوہ ازیں، مذکورہ دعوے کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ کا مشیخہ لکھنا اور اس میں اپنی عمر کا ایک حصہ صرف کرنا لغو و بیکار تھا، سوائے اس کے کہ ان کا مقصد اپنی سند کو امام علیہ السلام تک پہنچا کر برکت حاصل کرنا ہو، لیکن یہ ضعیف ہے اس بنا پر کہ برکت کے لیے کثرت سے سلسلہ اسناد ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کسی کتابی شکل میں درج کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے دل میں یا ایک خاص کاغذ پر محفوظ رکھنا کافی ہے۔

ضعیف سلسلہ سند کا تدارک

۳۔ شیخ ؒ نے مشیخہ کے آغاز میں ذکر کیا ہے کہ جس شخص کے نام سے انہوں نے سند کا آغاز کیا ہے انہوں نے حدیث اس کی کتاب سے لی ہے۔

اور اگر ہم مشیخہ کی طرف رجوع کریں تاکہ صاحب کتاب تک سلسلہ سند معلوم کر سکیں تو ہو سکتا ہے کہ شیخ ؒ نے ان تک کوئی سلسلہ سند ذکر نہ کیا ہو یا ان تک ان کا سلسلہ سند ضعیف ہو۔

اور ایسی صورت حال میں، اس " الفھرست" کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے جسے انہوں نے شیعوں کے صاحبانِ کتب کے نام جمع کرنے اور ان تک اپنے سلسلہ اسناد بیان کرنے کے لیے تالیف کیا ہے۔

اور اس کتاب میں وہ مشیخہ میں جو ذکر کیا ہے اس سے زیادہ سلسلہ اسناد ذکر کرتے ہیں، چنانچہ کبھی وہ مشیخہ میں صاحب کتاب تک ایک سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں جبکہ فہرست میں دو یا تین بلکہ وہ کبھی مشیخہ میں کسی شخص تک کوئی سلسلہ سند ذکر نہیں کرتے اور " الفھرست" میں ان تک سلسلہ سند ذکر کرتے ہیں۔

چنانچہ اگر مشیخہ میں سلسلہ سند ضعیف ہو اور " الفھرست" میں ذکر کردہ بعض سلسلۂ اسناد صحیح ہوں تو تدارک کیا جا سکتا ہے اور " الفھرست" میں ذکر کردہ صحیح سلسلہ سند سے مدد لی جا سکتی ہے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ ؒ " الفھرست" میں عموماً جب کسی شخص اور اس کی کتابوں کا ذکر مکمل کر لیتے ہیں تو اس طرح تعبیر کرتے ہیں: ہمیں اس کی تمام کتابوں اور روایات کی خبر دی فلاں نے، فلاں سے، فلاں سے۔۔۔ اور اس تعبیر سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ان سلسلۂ اسناد میں سے کسی ایک کے ذریعے روایت کرتے ہیں، تو وہی سب کچھ دوسرے سلسلہ سند سے بھی روایت کرتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخص کی بعض روایات کو کسی ایک سلسلہ سند سے اور باقی روایات کو دوسرے سلسلہ سند سے روایت کرتے ہیں۔

جو ہم نے بیان کیا اس کی روشنی میں " الفھرست" کے سلسلہ اسناد کے ذریعہ تدارک کا پہلو واضح ہے۔ ہاں، مشکل اس صورت میں باقی رہتی ہے جب " الفھرست" کے سلسلہ اسناد بھی ضعیف ہوں، تو کیا کچھ دیگر طریقے ہیں جن سے مدد لی جا سکے تاکہ اس مشکل پر قابو پایا جا سکے؟

اور ذیل میں ہم جدید طریقوں کا ایک حصہ بیان کرتے ہیں۔

شیخ اردبیلی ؒ کا طریقہ

شیخ محمد اردبیلی ؒ - جو شیخ مجلسی ؒ کے شاگردوں میں سے ہیں اور " جامع الرواۃ" نامی معروف کتاب کے مؤلف ہیں - کا ایک غیر مطبوعہ رسالہ ہے جس کا نام انہوں نے " رسالة تصحیح الاسانید" رکھا ہے۔

اور انہوں نے مذکورہ رسالے کے مقدمے میں بعض اسانید کے ضعف پر قابو پانے (یعنی اس کا تدارک کرنے) کا ایک طریقہ بیان کیا ہے۔

اور انہوں نے اس طریقے کا خلاصہ اپنی کتاب " جامع الرواۃ" کے آخر میں ذکر کردہ فوائد میں سے ساتویں فائدے میں درج کیا ہے۔

اور انہوں نے جو طریقہ ذکر کیا ہے اس میں کچھ ابہام ہے، جسے سید بروجردی ؒ نے اچھے انداز سے واضح کیا ہے۔

اور اس کی وضاحت کے لیے ہم درج ذیل مثال ذکر کرتے ہیں: شیخ ؒ نے " التھذیب" میں علی بن حسن طاطری سے متعدد روایات نقل کی ہیں جو اجلہ و معزز ثقات میں سے ہیں۔

چنانچہ " التھذیب" ج ۲ حدیث ۵۴۹ میں انہوں نے یہ نص ذکر کی ہے: " علی بن حسن طاطری نے کہا: مجھے حدیث بیان کی عبد اللہ بن وضاح نے، انہوں نے سماعہ بن مہران سے، انہوں نے کہا: مجھ سے ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خبردار! تم زوال سے پہلے نماز نہ پڑھو، کیونکہ تمہارے لیے زوال سے پہلے نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ تم عصر کے وقت میں نماز پڑھو۔

اور جب ہم شیخ ؒ کے طاطری تک کے سلسلہ سند کو جاننے کے لیے مشیخہ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ان کا یہ قول ملتا ہے: " اور جو کچھ میں نے علی بن حسن طاطری سے ذکر کیا ہے تو مجھے خبر دی ہے اس کی احمد بن عبدون نے، انہوں نے علی بن محمد بن زبیر سے، انہوں نے ابو الملک احمد بن عمر بن کیسہ سے، انہوں نے علی بن حسن طاطری سے " ۔

یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طاطری تک شیخ ؒ کا سلسلہ سند تین واسطوں پر مشتمل ہے: احمد بن عبدون، علی بن محمد بن زبیر، ابو الملک۔

اور ان تینوں واسطوں کے حق میں توثیق وارد نہیں ہوئی ہے، چنانچہ سلسلہ سند ضعیف ہو جائےگا اور نتیجۃً طاطری سے شروع ہونے والی تمام روایات - جن کی تعداد ۳۴ روایات تک پہنچتی ہیں - ضعیف اور ناقابل قبول ہوں گی۔

اور اردبیلی ؒ ان روایات کی سند کو صحیح قرار دینے کے مقام پر کہتے ہیں: میں نے " التھذیب" کے مختلف ابواب کا جائزہ لیا تو میں نے باب الطواف میں دیکھا کہ شیخ ؒ چار روایات اس صورت میں ذکر کرتے ہیں: موسیٰ بن القاسم، انہوں نے علی بن حسن طاطری سے، انہوں نے درست بن ابو منصور سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔

اور یہ چاروں افراد ثقہ ہیں۔

پھر انہوں نے ایک دوسرا کام کیا اور وہ یہ کہ انہوں نے " الفھرست" یا " مشیخہ" میں موسیٰ بن القاسم تک شیخ کے سلسلہ سند جائزہ لیا تو اسے صحیح پایا کیونکہ وہ اس طرح ہے: المفید، انہوں نے ابن بابویہ سے، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے صفار سے، انہوں نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے موسیٰ بن القاسم سے۔

اور اس طرح ہمیں طاطری تک ایک نیا سلسلہ سند حاصل ہوتا ہے جو پہلی بات کو دوسری سے ملانے کا نتیجہ ہے، اور وہ اس صورت میں ہے: المفید، انہوں نے ابن بابویہ سے، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے صفار سے، انہوں نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے موسیٰ بن قاسم سے، انہوں نے علی بن حسن طاطری سے۔ اور یہ ایک معتبر سلسلہ سند ہے۔

اور مذکورہ طریقے پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ اس فرض پر تکمیل پاتا ہے جب موسیٰ بن قاسم کے پاس طاطری کی کتاب موجود تھی جب انہوں نے اس سے مذکورہ چار روایات نقل کی تھیں۔ کیونکہ اگر یہ بنیاد مان لی جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طاطری کی تمام روایات موسیٰ بن قاسم تک پہنچی تھیں، اور چونکہ شیخ کو موسیٰ بن قاسم تک ایک معتبر سند حاصل ہے، لہٰذا یہ نتیجہ نکلےگا کہ طاطری کی تمام روایات ہم تک ایک معتبر سند کے ذریعے پہنچی ہیں۔البتہ یہ ممکن ہے کہ موسیٰ بن قاسم کے پاس طاطری کی کتاب نہ ہو بلکہ ان کے پاس صرف طاطری سے پہلے کے راوی، جیسے درست یا ابن مسکان، کی کتاب ہو۔ تو مثال کے طور پر درست کے پاس ایک کتاب تھی جس میں بہت سی روایات تھیں جن میں سابقہ چار روایات بھی شامل تھیں، اور درست نے طاطری سے کہا: میں تمہیں اپنی اس کتاب کو روایت کرنے کی اجازت دیتا ہوں، اور طاطری نے اپنے دور میں موسیٰ بن القاسم سے کہا: میں تمہیں درست کی کتاب روایت کرنے کی اجازت دیتا ہوں " ، اور موسیٰ بن قاسم نے درست کی کتاب سے سابقہ چار روایات لی اور انہیں اپنی اس کتاب میں درج کیا جس میں وہ احادیث جمع کرتے تھے۔اس بنا پر موسیٰ بن قاسم، طاطری کی تمام روایات کے راوی نہیں ہوں گے بلکہ وہ درست کی کتاب کے راوی ہوں گے جو ان تک طاطری کے واسطے سے پہنچی ہے، اور موسیٰ کے لیے اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مجھے طاطری نے درست کے حوالے سے یہ چار روایات بیان کی۔

شیخ مجلسی ؒ کا طریقہ

شیخ مجلسی ؒ کی طرف ان کی کتاب " الاربعین" میں درج ذیل طریقہ منسوب کیا جاتا ہے: اگر شیخ طوسی ؒ کی صاحب کتاب تک سند ضعیف ہو تو جب بھی شیخ صدوق ؒ کی اس کتاب کے مؤلّف تک کی سند صحیح ہو تو شیخ صدوق ؒ کی سند پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعہ شیخ طوسی ؒ کی سند کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے: کہ شیخ طوسی ؒ کا شیخ صدوق ؒ کی تمام روایات تک سلسلہ سند صحیح ہے کیونکہ وہ شیخ صدوق ؒ کی تمام روایات شیخ مفید ؒ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔

چنانچہ اگر شیخ طوسی ؒ کا شیخ صدوق ؒ کی تمام روایات تک سلسلہ سند صحیح ہو اور یہ فرض کیا جائے کہ شیخ صدوق ؒ کا بھی اس صاحبِ کتاب کی روایات تک سلسلہ سند صحیح ہے جس سے شیخ طوسی ؒ روایت کرتے ہیں تو اس طرح شیخ طوسی ؒ کا صاحبِ کتاب تک صحیح سلسلہ سند کا وجود ثابت ہو جائےگا۔

تو جب بھی شیخ طوسی ؒ کسی اصل کے مؤلف سے کوئی روایت نقل کریں اور شیخ صدوق ؒ نے وہ روایت ذکر نہ کی ہو لیکن ان کے پاس صاحبِ کتاب تک کا صحیح سلسلہ سند موجود ہو تو مذکورہ تدارک اور اس روایت تک ایک صحیح سلسلہ سند کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ یہ بات اس فرض پر تکمیل پائےگی جب ہم یہ امکان نہ رکھے کہ کتاب کے دو مختلف نسخے موجود تھے جن میں سے ایک کو شیخ ؒ نے ضعیف سلسلہ سند سے روایت کیا ہے اور دوسرے کو صدوق ؒ نے اپنے صحیح سلسلہ سند سے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ امکان - جو ثابت ہے اور جس کی نفی ممکن نہیں ہے - کے ہوتے ہوئے مذکورہ طریقے سے مدد نہیں لی جا سکتی کیونکہ یہ امکان ہے کہ جو حدیث شیخ طوسی ؒ روایت کرتے ہیں وہ ان کے نسخے میں موجود ہو نہ کہ شیخ صدوق ؒ کے نسخے میں۔

اور اس بات کی تائید کہ نسخے متعدد ہونے کا احتمال ہے، یہ ہے کہ شیخ طوسی ؒ نے اپنی " الفھرست" ص ۱۱۲ میں علاء بن رزین کے حالات میں بیان کیا ہے کہ ان کی ایک کتاب ہے جس کے چار نسخے ہیں اور ان کا ہر نسخے تک کا ایک خاص سلسلہ سند ہے جو دوسرے نسخے تک کے سلسلہ سند سے مختلف ہے۔

تیسرا طریقہ

جب ہمارے پاس ایک ہی روایت دو مختلف اسناد سے پہنچی ہو، اور دونوں میں کسی خاص لحاظ سے ضعف موجود ہو تو دونوں اسناد کو ملا کر ایک تیسرا سلسلہ سند حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اس کی مثال: شیخ طوسی ؒ نے ایک روایت اس سند کے ساتھ روایت کی ہے: المفید، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے زرعہ سے، انہوں نے سماعہ سے، انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے ۔۔۔(۱)

اور یہی روایت کلینی ؒ نے اس طرح روایت کی ہے: محمد بن یحییٰ، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے علی بن اسماعیل سے، انہوں نے عثمان بن عیسیٰ سے، انہوں نے زرعہ سے، انہوں نے سماعہ سے، انہوں نے امام علیہ السلام سے(۲)۔

حوالے:

(۱)- اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے احمد بن محمد، شیخ مفید کے اُستاد کے، جو کہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں۔ اس بنا پر کہ صرف "شیخوختہ الاجازۃ" ہونا اثباتِ وثاقت کے لیے کافی نہیں ہے۔

اور جہاں تک محمد بن یحییٰ، سعد، احمد بن محمد — یعنی احمد بن محمد بن عیسیٰ — اور حسین بن سعید اھوازی، حسن بن سعید اھوازی، زرعہ اور سماعہ کا تعلق ہے، تو یہ سب کے سب ثقہ ہیں۔

(۲)- اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے علی بن اسماعیل کے، کیونکہ محمد بن یحییٰ عطار کلینی کے معروف شیخ ہیں جو وثاقت اور جلالت کے حامل ہیں۔ اور جہاں تک احمد بن محمد بن عیسیٰ اور باقیوں کا تعلق ہے تو وہ ثقہ ہیں۔

۸۷

پہلی سند میں احمد بن محمد کی وجہ سے ضعف ہے جن کے حوالے سے مفید ؒ روایت کرتے ہیں کیونکہ وہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں جو مشائخ اجازہ میں سے ہیں،لیکن ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

اور جہاں تک دوسری سند کا تعلق ہے تو اس کا ضعف علی بن اسماعیل کی وجہ سے ہے۔

جہاں تک پہلی سند میں موجود ضعف کا تعلق ہے تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اس اعتبار سے کہ احمد بن محمد بن الحسن کی موجودگی سے پیدا ہونے والا خدشہ یہ ہے کہ کیا احمد کے والد نے واقعی اپنے بیٹے احمد کو مذکورہ حدیث سنائی تھی یا احمد نے اس حدیث کو ان کی طرف جھوٹ اور بہتان کے طور پر منسوب کیا، کیونکہ اگر احمد ثقہ ہوتے تو ان کی وثاقت کے واسطے سے یہ یقین کیا جا سکتا تھا کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی تھی اور انہوں نے اپنے والد پر بہتان نہیں باندھا تھا، اور لیکن چونکہ ہمیں ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے اس لیے ہم اس کے اپنے والد پر جھوٹ باندھنے کا احتمال رکھتے ہیں۔

اور اس جہت کی یہ مشکل دوسری سند کے ذریعے حل کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ فرض کیا گیا ہے کہ کلینی ؒ دوسری سند میں کہتے ہیں کہ محمد بن یحییٰ نے مجھے مذکورہ حدیث بیان کی ہے بغیر احمد کو درمیان میں لائے۔

اور جہاں تک دوسری سند میں موجود ضعف کا تعلق ہے جو علی بن اسماعیل کی وجہ سے ہے تو اس پر پہلی سند کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمد بن یحییٰ نے کلینی ؒ کو روایت بیان کی ہے تو ہم پہلی سند کو قبول کر لیں گے اور اس طرح علی بن اسماعیل کی وجہ سے پیدا ہونے والے خدشے پر قابو پا لیا جائےگا۔ اور ان دونوں سندوں کو ملانے کے بعد روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ ہم یہ احتمال رکھتے ہیں کہ احمد بن محمد بن حسن نے سند کے رجال کو اپنے اور امام علیہ السلام کے درمیان گھڑ لیا ہو۔ اور ہم اس کے ذریعہ یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہتے کہ انہوں نے روایت گھڑی ہے بلکہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سند گھڑنے کا امکان ہے، اور ایسی صورت میں ہمارے ہاتھ میں صرف دوسری سند رہ جاتی ہے، اور اس میں علی بن اسماعیل کا وجود فرض کیا گیا ہے جس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

میرزا محمد استرآبادی ؒ کا طریقہ

میرزا محمد استرآبادی ؒ - جو " منهج المقال" نامی معروف رجالی کتاب کے مؤلف ہیں - نے بعض ضعیف اسانید کو صحیح قرار دینے کا ایک طریقہ بیان کیا ہے۔

اور اس کا خلاصہ یہ ہے: کہ صدوق ؒ کا سلسلہ سند عبید بن زرارہ تک، مثلاً، حکم بن مسکین(۱)کے وجود کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اور دو امور پر توجہ دینے کے بعد صدوق ؒ کے لیے عبید تک ایک صحیح سند نکالی جا سکتی ہے:-

حوالہ:

(۱)-رجوع کریں مشيخة الفقيه: ص ۳۱

۸۸

ان میں سے ایک: نجاشی ؒ کے پاس عبید تک صحیح سند موجود ہے جہاں انہوں نے عبید کے حالات میں یہ عبارت بیان کی ہے: " ان کی ایک کتاب ہے جس کے حوالے سے ایک جماعت روایت کرتی ہے۔ ہمیں خبر دی ہمارے چند اصحاب نے، انہوں نے احمد بن محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے عبد اللہ بن جعفر سے، انہوں نے ابو الخطاب اور محمد بن عبد الجبار اور احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے محمد بن اسماعیل بن بزیع سے، انہوں نے حماد بن عثمان سے، انہوں نے عبید سے اس کی کتاب کے ذریعہ " ۔

ان میں سے دوسرا: یہ کہ عبید تک کی نجاشی ؒ کی سند کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوا کہ نجاشی ؒ کی سند میں موجود راویوں میں سے ایک عبد اللہ بن جعفر(۱)ہیں۔ اور جب ہم شیخ طوسی ؒ کی فہرست کا جائزہ لیں تو ہمیں ان کی عبد اللہ بن جعفر تک کی ایک سند اس طرح ملتی ہے: " ہمیں ان کی تمام کتابوں اور روایات کی خبر شیخ مفید رحمہ اللہ نے، انہوں نے ابو جعفر ابن بابویہ ؒ سے، انہوں نے اپنے والد اور محمد بن الحسن سے، انہوں نے ان سے۔

حوالہ:(۱)- اور یہ عبداللہ بن جعفر حميری ہیں، جو کہ ثقہ اور جلیل القدر شخصیت ہیں۔

اس سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ صدوق ؒ حمیری کی تمام روایات کو صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

اور ان دو امور کے واضح ہونے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عبید تک صدوق ؒ کا سلسلہ سند حاصل کرنا ممکن ہے کیونکہ دوسرے امر سے ہمیں معلوم ہوا تھا کہ صدوق ؒحمیری کی تمام روایات کو صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں اور فرض یہ ہے کہ ہم نے پہلے امر میں جانا تھا کہ حمیری عبید کی روایات کو صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صدوق ؒ، نتیجتاً، عبید تک اپنی تمام روایات ایک صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

اور نئی سند اس طرح ہے: صدوق، انہوں نے اپنے والد اور محمد بن حسن سے، انہوں نے حمیری سے، انہوں نے ابو الخطاب اور محمد بن عبد الجبار اور احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے محمد بن اسماعیل بن بزیع سے، انہوں نے حماد بن عثمان سے، انہوں نے عبید سے۔

یہ مذکورہ طریقہ کا خلاصہ ہے۔

اور اس کا رد یہ ہے: کہ اس طریقے سے ہر اس روایت کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے جس کا عبید کی کتاب میں موجود ہونا ثابت ہو اور وہ اس کی جملہ روایات میں سے ہو، لیکن یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ صدوق ؒ نے اپنی کتاب " الفقيه" میں جو روایت نقل کی ہے اور جس کی سند میں حکم بن مسکین واقع ہوا ہے وہ روایت عبید کی کتاب میں موجود ہے اور اس کی جملہ روایات میں سے ہے، کیونکہ یہ فرض کیا گیا ہے کہ صدوق ؒ نے اسے حکم بن مسکین کے واسطے سے نقل کیا ہے، اور یہ ممکن ہے کہ حکم - اس کی وثاقت ثابت نہ ہونے کی بنا پر - نے اس روایت کو گھڑ لیا ہو یا اس میں اضافہ کیا ہو۔

ہاں، اگر یہ فرض کیا جائے کہ صدوق ؒ نے روایت حمیری کی کتاب سے لی ہے نہ کہ عبید کی کتاب سے تو مذکورہ طریقہ کامل و درست ہوگا، لیکن ہم یہ احتمال رکھتے ہیں کہ صدوق ؒ نے اسے عبید کی کتاب سے لیا ہے جو ان تک حکم بن مسکین کے واسطے سے پہنچی ہے۔

۸۹

سید خوئی ؒ کا طریقہ

شیخ طوسی قدس سرہ نے علی بن حسن بن فضال سے کئی روایات نقل کی ہیں۔

اور جب ہم " الفھرست" کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو ہم پاتے ہیں کہ شیخ ؒ یوں کہتے ہیں: " ہمیں ان کی تمام کتابوں کی خبر، اس حالت می کہ اکثر ان پر قرائت کی گئی تھی اور باقی اجازت کی صورت میں تھی، احمد بن عبدون نے دی، انہوں نے علی بن محمد بن زبیر سے ان سے سماعت اور اجازت کی صورت میں " ۔

اگرچہ شیخ ؒ اور نجاشی ؒ نے احمد بن عبدون کی صراحت کے ساتھ توثیق نہیں کی ہے، لیکن ان کی توثیق اس جہت سے کی جا سکتی ہے کہ وہ نجاشی ؒ کے مشائخ میں سے ہیں۔ اور سابقہ ابحاث میں نجاشی ؒ کے تمام مشائخ کی توثیق کا امکان بیان ہو چکا ہے۔

اور مشکل صرف علی بن محمد بن زبیر کی جہت سے ہے کیونکہ ان کی توثیق نہیں کی گئی۔

اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ نے ابن فضال کی کتاب سے جو بھی روایات ابن زبیر کے واسطے سے روایت کی ہیں وہ سب ساقط ہو جاتی ہیں۔

اور سید خوئی قدس سرہ(۱)نے ابن زبیر کے مسئلہ پر درج ذیل بیان سے قابو پانے کی کوشش کی ہے : اگر ہم نجاشی ؒ کے رجال میں علی بن حسن بن فضال کے حالات کی طرف رجوع کریں تو ہم پاتے ہیں کہ نجاشی ؒ ابن فضال کی تمام روایات کو اس سند سے روایت کرتے ہیں جس کی ابتداء ابن عبدون سے ہوتی ہے اور اس میں ابن الزبیر واسطہ نہیں ہے، یعنی یہ ایک صحیح سند ہے۔

اس سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ شیخ طوسی ؒ اور نجاشی ؒ کے استاد جن کے حوالے سے یہ دونوں بزرگوار ابن فضال کی روایات نقل کرتے ہیں وہ ابن عبدون ہیں۔

حوالہ:

(۱)-معجم رجال الحديث ۱: ۸۲

۹۰

اور جب نجاشی ؒ کی سند صحیح ثابت ہو جائےگی تو اس طرح شیخ ؒ نے ابن فضال سے جو بھی روایات نقل کی ہیں وہ سب صحیح ثابت ہو جائےگی کیونکہ ان دونوں کا استاد ایک ہی ہے - اور یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ ثقہ ہیں - تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ اپنے دو شاگردوں - شیخ ؒ اور نجاشی ؒ - کو نقل کیا ہے وہ ایک ہی ہوگا، کیونکہ اگر نقل شدہ بات ایک نہ ہو تو اس کا لازمہ یہ ہوتا کہ وہ اپنے دو نقلوں میں سے ایک میں جھوٹے ہیں، اور یہ اس کی وثاقت کے فرض کے خلاف ہے۔

اور جب نقل کی وحدت اور عدم اختلاف ثابت ہو جائے تو چونکہ یہ ایک نقل ابن عبدون تک صحیح سند سے پہنچا ہے - اور وہ دوسری سند ہے جو نجاشی ؒ نقل کرتے ہیں - تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ نے ابن فضال سے جو روایات نقل کی ہیں وہ صحیح ہیں۔

اور مختصراً: ابن فضال کی کتاب چونکہ ابن عبدون تک دو سلسلہ سند سے پہنچی ہے جن میں سے ایک صحیح ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ شیخ ؒ ابن فضال کی جو بھی روایات ابن عبدون کے واسطے سے نقل کریں گے وہ حجت ہوگی۔

اور اس طریقے کا عمومی ضابطہ یہ ہے: کہ اگر شیخ ؒ کا کسی خاص راوی کی کتاب تک سند " الفھرست" اور "المشيخة" دونوں میں ضعیف ہو تو جب بھی نجاشی ؒ کی اس کتاب تک سند صحیح ہو اور ان دونوں کے شیخ و استاد جن سے وہ کتاب روایت کرتے ہیں ایک ہی ہو تو نجاشی ؒ کی صحیح سند کی مدد سے شیخ ؒ کی ضعیف سند کا تدارک کا جا سکتا ہے۔

اور سید خوئی ؒ سے پہلے سید بحر العلوم ؒ نے اپنے رجال میں اس طریقے کو اپنایا تھا جہاں انہوں نے یہ کہا تھا: " اور کبھی اس (۱) کا علم نجاشی ؒ کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ شیخ ؒ کے ہم عصر تھے اور ان کے اکثر مشائخ میں شریک تھے جیسے مفید، حسین بن عبید اللہ، احمد بن عبدون اور دیگر، چنانچہ جب ان کی اصل یا کتاب کی روایت ان میں سے کسی ایک کے واسطے سے معلوم ہو جائے تو وہ شیخ ؒ کے لیے سند ہوگی " (۲) ۔

حوالے:

(۱)- یعنی شیخ طوسی کی سند۔

(۲)- رجال السيد بحر العلوم ۴: ۷۵

اور مذکورہ طریقے پر دو لحاظ سے سے غور و تأمّل ممکن ہے:-

الف۔ یہ ممکن ہے کہ ابن عبدون کے پاس ابن فضال کی کتاب کے دو مختلف نسخے ہوں جن میں سے ایک دوسرے سے مختلف ہو، اور انہوں نے ایک نسخہ شیخ طوسی ؒ کو ابن زبیر کے واسطے سے نقل کیا ہو اور دوسرا نسخہ نجاشی ؒ کو کسی اور کے واسطے سے نقل کیا ہو۔ اور اس احتمال کی موجودگی میں یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ابن عبدون نے نجاشی کو جو کچھ بھی حدیث بیان کی ہے وہ انہوں نے شیخ طوسی کو بھی بیان کی ہے۔ اور ان کے نقل کے اختلاف سے ان پر جھوٹ لازم نہیں آتا چونکہ نسخے مختلف ہیں۔

اور اگر آپ کہے: کہ ابن فضال کی احادیث جو انہوں نے امام علیہ السلام سے سنی تھیں جب ایک ہی ہیں تو پھر دونوں نسخوں کا اختلاف کہاں سے آیا؟

تو میں کہوں گا: اس کے کئی اسباب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ابن زبیر نے – اس اعتبار سے کہ ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے - اپنے اس نسخے میں جو انہیں ابن فضال سے ملا تھا اس میں اضافہ کیا ہو یا اس میں تحریف کی ہو۔

ب۔ اگر مذکورہ طریقہ کبریٰ و کلی قاعدے کے لحاظ سے مکمل ہو تب بھی وہ صغریٰ و ذیلی قاعدے کے لحاظ سے مکمل نہیں ہے، یعنی مذکورہ مثال کے ذریعہ اس کے لیے ثبوت پیش کرنا کامل و درست نہیں ہے کیونکہ ابن فضال کی روایات میں شیخ (اور) نجاشی کے استاد ایک نہیں ہے، چنانچہ شیخ ؒ کی سند ابن فضال تک اگرچہ اس شکل میں ہے: ابن عبدون، انہوں نے علی بن محمد بن زبیر سے، انہوں نے ابن فضال سے، لیکن نجاشی ؒ کی سند کسی اور شکل میں ہے اور اس طرح ہے: " احمد بن حسین (۱) نے کتاب الصلاۃ ، کتاب الزکاۃ ، کتاب مناسکِ حج وغیرہ احمد بن عبد الواحد (۲) پر اس مدت میں پڑھی، جس میں نے بھی اس کے ساتھ سنا تھا۔ اور میں نے خود کتاب الصیام ان پر مشہدِ عقیقہ میں پڑھی، ابن الزبیر (۳) کے واسطے سے، انہوں نے علی بن حسن کے حوالے سے۔ اور ہمیں ابن فضال کی دیگر کتابوں کی اس سند کے ذریعہ خبر دی گئی۔ اور ہمیں خبر دی محمد بن جعفر نے " آخرین "(۴) میں، انہوں نے احمد بن محمد بن سعید سے، انہوں نے علی بن حسن سے ان کی کتابوں کے بارے میں " ۔

۹۱

حوالہ جات:

(۱)-اور وہ معروف ہیں بطور ابن الغضائیری، اور وہ نجاشی اور شیخ طوسی کے ہم عصر (ساتھی) تھے۔

(۲)-اور یہ ابن عبدون ہیں۔

(۳)۔ اور یہ علی بن محمد بن زبیر ہیں۔

(۴)-یہ ایک خاص جگہ کا نام ہے۔

۹۲

ان جملوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ نجاشی ؒ کے ابن فضال تک دو سلسلہ سند ہیں :

۱۔ابن عبدون، انہوں نے ابن زبیر سے، انہوں نے علی بن الحسن سے۔

۲۔ محمد بن جعفر، انہوں نے احمد بن محمد بن سعید سے، انہوں نے علی بن الحسن۔

اور پہلا سلسلہ سند فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ اگرچہ وہ ابن عبدون سے شروع ہوتا ہے لیکن اس میں ابن زبیر شامل ہے جیسا کہ شیخ ؒ کی سند میں بھی شامل ہے۔

اور دوسرے سلسلہ سند اگرچہ ابن زبیر پر مشتمل نہیں ہے لیکن یہ ابن عبدون سے شروع نہیں ہوتا۔

لہذا اس صورت میں دونوں طریقے مفید نہیں ہیں، مفید وہی طریقہ ہے جو ابن عبدون سے شروع ہو اور اس کے درمیان ابن الزبیر شامل نہ ہو، کیونکہ اگر ابن عبدون سے آغاز نہ کیا جائے تو نجاشی ؒ اور شیخ طوسی ؒ کے شیخ ایک نہیں ہوں گے۔ اور اگر اس کے درمیان ابن الزبیر شامل ہو جائے تو اس اشکال کا ازالہ نہیں ہوگا جو شیخ ؒ کے اس سلسلہ سند میں موجود ہے جس سے ہم چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

سید خوئی ؒ کا ایک اور طریقہ

سید خوئی قدس سرہ کا ایک اور طریقہ ہے جس سے انہوں نے احمد بن محمد بن یحییٰ اور دیگر لوگوں کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی ہے جن کی وثاقت ثابت نہیں ہوئی تھی۔

اور اس کی وضاحت کے لیے ہم درج ذیل مثال بیان کرتے ہیں: شیخ طوسی ؒ نے الاستبصار ج ۱ ص ۲۳ میں ایک روایت اس سند کے ساتھ بیان کی ہے: حسین بن عبید اللہ، انہوں نے احمد بن محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے محمد بن احمد بن یحییٰ سے ،انہوں نے عمرکی سے، انہوں نے علی بن جعفر سے۔

مذکورہ سند میں کوئی خامی نہیں ہے سوائے احمد بن محمد بن یحییٰ کے لحاظ سے جہاں وثاقت ثابت کرنے کے لیے شیخوخیت الاجازہ ہونا کافی نہ ہونے کی بنا پر ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

اور ان کے مسئلے کے حل کے لیے ہم احمد اور امام علیہ السلام کے درمیان سے کسی بھی دوسرے راوی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اور فرض کریں کہ ہم نے محمد بن احمد بن یحییٰ کا انتخاب کیا۔ اور اس کے بعد ہم شیخ ؒ کی کتاب " الفھرست" کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو جب ہم پاتے ہیں کہ شیخ ؒ کا محمد بن احمد بن یحییٰ تک ایک صحیح سلسلہ سند ہے تو ہم اس صحیح سلسلہ سند سے سابقہ سند میں موجود اس ضعیف سلسلہ سند کا تدارک کریں گے(۱)۔

حوالہ:

(۱)-اور جب ہم 'الفہرست' کے صفحہ ۱۴۴ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ شیخ طوسی محمد بن احمد بن یحییٰ تک دو اسناد ذکر کرتے ہیں: ان میں سے ایک صحیح ہے اور دوسرا ضعیف۔ جہاں تک ضعیف سند کا تعلق ہے، تو وہی سابقہ سند ہے جس سے ہم نجات چاہتے ہیں، اور وہ اس طرح ہے: "حسین بن عبید اللہ، انہوں نے احمد بن محمد بن یحیییٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے محمد بن احمد بن یحیییٰ سے"۔ اور جو صحیح سند ہے، وہ اس طرح ہے: "ہمیں ایک جماعت نے خبر دی، انہوں نے محمد بن علی بن حسین سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن ادریس سے، انہوں نے محمد بن احمد بن یحیییٰ سے"۔

تدارک کے اس نظریہ کی فنی و علمی تشریح یہ ہے کہ شیخ طوسی ؒ جس کے حالات بیان کرتے ہے اس کا نام اور اس کی کتابوں کا جائزہ لینے کے بعد اس طرح کہتے ہیں: ہمیں خبر دی ان کی تمام کتابوں اور روایات کی فلاں نے، انہوں نے ۔۔۔ اور فلان سے، انہوں نے ۔۔۔

چونکہ ہم نے محمد بن احمد بن یحییٰ کو سند کے درمیان میں فرض کیا ہے لہذا یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ جس روایت کی سند زیر بحث ہے وہ ان کی جملہ روایات میں سے ہے۔ اور جب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ یہ ان کی جملہ روایات میں سے ہے تو اس پر پہلے بیان شدہ عمومی عبارت - ہمیں خبر دی ان کی تمام کتابوں اور روایات کی - کا اطلاق ہو جائےگا اور محمد بن احمد بن یحییٰ کے حالات میں " الفھرست" میں مذکور ان اسناد میں سے کسی ایک سے اسے صحیح قرار دینا ممکن ہو جائےگا، کیونکہ شیخ طوسی ؒ کی عبارت کا ظاہر جب وہ کہتے ہیں ہمیں خبر دی ان کی تمام کتابوں اور روایات کی۔۔۔

یہ ہے کہ جو کچھ بھی ان تک دونوں میں سے ایک سلسلہ سند سے پہنچا ہے وہ انہیں دوسرے سلسلہ سند سے بھی پہنچا ہے، چنانچہ محمد بن احمد بن یحییٰ سے ضعیف سند سے نقل کردہ روایت شیخ ؒ تک دوسری صحیح سند سے بھی پہنچی ہے۔

اور اس کے ذریعہ ہمیں ایک صحیح سند اس طرح حاصل ہو جائےگی: ایک جماعت نے محمد بن علی بن حسین سے،

انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن ادریس سے، انہوں نے محمد بن احمد بن یحییٰ سے، انہوں نے عمرکی سے، انہوں نے علی بن جعفر سے۔

ضروری ہے کہ اس بات کی طرف توجہ دی جائے کہ جس شخص کو ہم سند کے افراد میں سے منتخب کرنے کی کوشش کریں اسے احمد بن محمد بن یحییٰ سے پہلے واقع ہونا ضروری ہے،

یعنی اس کے اور امام علیہ السلام کے درمیان واقع ہونا چاہیے اور احمد کے بعد ہونے سے فائدہ نہیں ہوگا ورنہ ہم اس مشکل سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گے جیسا کہ واضح ہے۔

جیسا کہ یہ بھی ضروری ہے اس شخص کو جس کا انتخاب کیا گیا ہے اسے شیخ ؒ نے " الفھرست" میں ذکر کیا ہو اور اس تک بعض صحیح اسناد ذکر کیے ہوں (۱) ۔

اور سید الشہید قدس سرہ نے اپنی بعض عبارات میں اس طریقے کو پیش کیا ہے (۲)

اور اسے دو شرطوں کے ساتھ پسند کیا ہے:-

الف۔ ضعیف شخص - جس کی مشکل سے نجات مقصود ہے - سے پہلے کوئی ثقہ شخص ہو، اور شیخ طوسی ؒ کا اس تک صحیح سلسلہ سند ہو۔

اور ہماری سابقہ مثال میں احمد سے پہلے محمد بن احمد بن یحییٰ ایک ثقہ شخص ہے، اور شیخ ؒ کا ان تک صحیح سلسلہ سند ہے (۳) ۔

۹۳

حوالے:

(۱)- اس طریقے کا ذکر سید خوئی نے اپنے قدیم ابحاث میں متعدد مقامات پر کیا ہے، پس تنقیح جلد ۲ صفحہ ۴۶۳، اور جلد ۳ صفحہ ۴۸۶ کی طرف رجوع کریں۔ لیکن ہم نے اپنی تمام مدتِ شاگردی کے دوران ان سے یہ بات نہیں سنی، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سے عدول کر چکے تھے۔

(۲)- رجوع کریں كتاب بحوث في شرح العروة الوثقى ج ۳: ص ۱۲۵، ج ۴ ص ۵۱

(۳)- توجہ دینا چاہیے کہ یہ شرط کوئی نئی چیز نہیں ہے، اور نہ ہی سید خوئی کی مذکورہ بات پر کوئی اضافہ ہے۔

۹۴

ب۔ یہ کہ وہ ضعیف سند، جس سے نجات حاصل کرنا مقصود ہے، محمد بن احمد بن یحییٰ تک پہنچنے والے طرق و اسناد میں سے ایک کے طور پر ذکر کی گئی ہو۔

چنانچہ سابقہ مثال میں وہ ضعیف سند جس کا تدارک مقصود تھا – یعنی حسین بن عبید اللہ، انہوں نے احمد بن محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے – " الفھرست" میں محمد بن احمد بن یحییٰ کی روایات تک کے دو سلسلہ سند میں سے ایک کے طور پر مذکور ہو۔

اور مذکورہ شرط کے اعتبار کی وجہ یہ ہے: کہ اگر وہ سند جس کی مشکل سے نجات مقصود ہے وہ دو سلسلہ سند میں سے ایک نہ ہو بلکہ ایسی ایک یا دو سند مذکور ہو جس کا ضعیف سند سے کوئی تعلق نہ ہوں تو ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ شیخ ؒ نے جو روایت ضعیف سند سے بیان کی ہے وہ صحیح سند سے بھی روایت کی ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ انہوں نے اسے صرف ضعیف سند سے روایت کیا ہو۔ لیکن اگر انہوں نے اس کا دو اسناد میں سے ایک کے طور پر ذکر کیا ہو تو مذکورہ احتمال درپیش نہیں ہوگا، کیونکہ شیخ ؒ کی عبارت - ہمیں خبر دی ان کی تمام کتابوں اور روایات کی فلاں نے، انہوں نے ۔۔۔ اور فلان سے، انہوں نے ۔۔۔- کا ظاہر یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے ایک سند سے روایت کیا ہے وہ انہوں نے باقی اسناد سے بھی روایت کیا ہے اور اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ بعض روایات انہوں نے ان میں سے بعض اسناد سے روایت کی ہیں اور بعض دیگر روایات انہوں نے دوسرے سلسلہ اسناد سے روایت کی ہیں۔

یہ مذکورہ طریقے کا خلاصہ ہے۔ اگر یہ مکمل طور پر نافذ ہو جائے تو بہت سے مواقع پر مفید اور مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

اور ہو سکتا ہے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ: صرف محمد بن احمد بن یحییٰ کا سند میں آنا اس بات کے یقین کا باعث نہیں بنتا کہ یہ روایت ان کی جملہ روایات میں ہو، تاکہ شیخ طوسی ؒ کی یہ عبارت - ہمیں خبر دی ان کی تمام کتابوں اور روایات کی فلاں نے، انہوں نے ۔۔۔ اور فلان سے، انہوں نے ۔۔۔ - اس پر صادق آئے، کیونکہ یہ امکان ہے کہ احمد بن محمد بن یحییٰ نے مذکورہ سند کے ساتھ روایت گھڑ لی ہو اور اسے اپنے والد اور محمد بن احمد بن یحییٰ سے منسوب کیا ہو اور وہ دونوں اس سے بری ہوں۔

اور اگر آپ چاہے تو یوں کہے: کہ اس مذکورہ طریقے کا اطلاق اس بات کے یقین پر موقوف ہے کہ یہ روایت درحقیقت محمد بن احمد بن یحییٰ کی جملہ روایات میں سے ہے۔ اور اس بات کا یقین، اس پر یقین کرنے پر موقوف ہے کہ احمد نے اس سند کے ساتھ روایت گھڑ کر جھوٹ نہیں بولا۔ اور اگر ہم یہ یقین کر لیں کہ احمد نے جھوٹ نہیں بولا، تو پھر ہمیں اس طریقے اور تدارک کے تصور سے مدد لینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔

اس طرح مذکورہ طریقے پر اشکال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ اشکال سید شہید ؒ نے جس دوسری شرط کا اضافہ کیا ہے اس سے ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ ضعیف سند جس کے ضعف کی ہم تدارک چاہتے ہیں اگر وہ شیخ طوسی ؒ کے ذکر کردہ دو اسناد میں سے ایک ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہر وہ روایت جو ضعیف سند سے روایت کی گئی ہے وہ دوسرے صحیح سند سے بھی روایت کی گئی ہے، اور چونکہ ہمارے پاس موجود روایت جس کی ہم نئی سند حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ان میں سے ہے جسے پہلے ضعیف سند سے روایت کیا گیا تھا تو وہ یقیناً دوسرے صحیح طریق سے بھی روایت کی گئی ہے اور احمد کے جھوٹ کا احتمال بےوقعت ہو جاتا ہے، کیونکہ شیخ ؒ خود صراحت کرتے ہیں کہ میں اسے پہلے ضعیف سند سے روایت کرتا ہوں اور ہر وہ روایت جو میں ضعیف سند سے روایت کرتا ہوں وہ میں دوسری صحیح سند سے بھی روایت کرتا ہوں۔

اور اشکال میں صحیح یہ ہے کہ کہا جائے: ہم یہ احتمال رکھتے ہیں کہ جب شیخ طوسی ؒ نے کہا " اخبرنا بجميع رواياته و كتبه فلان۔۔۔" (ہمیں خبر دی ان کی تمام روایات اور کتابوں کی فلاں نے ۔۔۔) تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ محمد بن احمد بن یحییٰ جب بھی سند کی ابتدا میں آئے، تو میں ان سے ان مختلف طریقوں سے روایت کرتا ہوں، اور اس سے یہ مراد نہیں کہ میں ان طریقوں سے محمد بن احمد بن یحییٰ سے روایت کرتا ہوں چاہے وہ سند کے درمیان میں واقع ہو۔ یہ احتمال موجود ہے، اور اس کے ہوتے ہوئے مذکورہ طریقہ کو نافذ نہیں کیا جا سکتا (۱) ۔

(۱)-یہ اشکال ہمارے ذہن میں تھا یہاں تک کہ ہم نے اس اشکال کو خود سید شھید کے بیانات میں اسے دیکھا تو رجوع کریں : ان کے اصولی بحث کی تحریر ۵ : ۶۰۔ ۴۳۶۔

۹۵

عملی تطبیقات

۱۔ وسائل میں کتاب الصلاۃ کے ابواب القیام کے باب ۵ میں حدیث ۵ میں یہ نص وارد ہوئی ہے: " علی بن جعفر نے اپنی کتاب میں اپنے برادرِ محترم (ع) سے، انہوں نے کہا: میں نے آپ علیہ السلام سے اس مریض کے بارے میں سوال کیا ۔۔۔ " ۔

یہ روایت حر عاملی ؒ نے علی بن جعفر (رض) کی کتاب سے روایت کی ہے، کیونکہ علی بن جعفر (رض) کی کتاب حر عاملی ؒ کے پاس تھی، اور یہ کتاب وسائل الشیعہ کی احادیث کے مصادر میں سے ایک ہے۔

اور ان تک کا سلسلہ سند صحیح ہے، کیونکہ صاحب الوسائل نے اپنے تمام ان مصادر کو جن پر انہیں اعتماد تھا انہیں ایسے کثیر معتبر اسناد سے روایت کیا ہے جن کی انتہاء شیخ طوسی ؒ تک ہے، اور شیخ طوسی ؒ کا علی بن جعفر (رض) تک ایک معتبر سلسلہ سند ہے۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ حر عاملی ؒ کے پاس شیخ طوسی ؒ تک ختم ہونے والے معتبر سلسلۂ اسناد تھے تو یہ بات وسائل کے آخر میں رجوع کرنے سے واضح ہو جاتی ہے جہاں انہوں نے کچھ فوائد ذکر کیے ہیں، اور ان میں سے بعض (۱) کے ضمن میں انہوں نے ان مصادر تک اپنے سلسلہ اسناد کو ذکر کیا ہے، اور یہ کثیر اسناد ہیں جو ہمارے نیک علماء پر مشتمل ہیں۔

اور جہاں تک یہ بات ہے کہ شیخ طوسی ؒ کے علی بن جعفر (رض) تک کے سلسلہ اسناد کا تعلق ہے تو یہ صحیح ہے چونکہ مشیخہ میں ان کا سلسلہ سند اگرچہ ضعیف ہے جہاں انہوں نے کہا: " اور جو کچھ میں نے علی بن جعفر (رض) سے ذکر کیا ہے اس کی مجھے خبر دی حسین بن عبید اللہ نے، انہوں نے احمد بن محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے عمرکی نیسابوری بوفکی سے، انہوں نے علی بن جعفر (رض) سے " ۔ اور احمد بن محمد بن یحییٰ کی وثاقت ثابت نہیں ہے، وثاقت کے ثابت کرنے میں " شيخوخة الاجازة" ہونا کافی نہ ہونے کی بنا پر۔

حوالے:(۱)- اور یہ پانچواں فائدہ ہے۔

اور مختصراً، شیخ ؒ کا مشیخہ میں سلسلہ سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن " الفھرست" میں صحیح ہے جہاں انہوں نے کہا: " ہمیں اس کے بارے میں خبر دی ایک جماعت نے، انہوں نے محمد بن علی بن حسین سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے محمد بن یحییٰ سے، انہوں نے عمرکی خراسانی بوفکی سے، انہوں نے علی بن جعفر (رض) سے، انہوں نے اپنے برادر محترم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے۔ اور اسے روایت کیا ہے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن بابویہ نے اپنے والد سے، انہوں نے سعد، حمیری اور احمد بن ادریس اور علی بن موسیٰ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے موسیٰ بن قاسم بجلی سے، انہوں نے ان سے " ۔

اس عبارت میں شیخ ؒ علی بن جعفر (رض) تک دو سلسلہ اسناد ذکر کرتے ہیں، جو یہ ہیں:-

الف ۔ جماعة عن محمد بن علي بن الحسين عن ابيه عن محمد بن يحيى عن العمركي عن علي بن جعفر

اور یہ سلسلہ سند صحیح ہے۔

جہاں تک جماعت کا تعلق ہے تو یہ کم از کم تین ہیں، اور ہم شیخ طوسی ؒ کے تین مشائخ کا جھوٹ پر جمع ہونے کا احتمال نہیں رکھتے، خاص طور سے جب اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے کہ تینوں میں سے ایک شیخ مفید ؒ یا حسین بن عبد اللہ غضائری ؒ ہیں کیونکہ شیخ ؒ ان سے " الفھرست" میں کثرت سے نقل کرتے ہیں۔

اور جہاں تک تعلق محمد بن علی ؒ اور ان کے والد ؒ کا ہے تو وہ صدوق بیٹا اور صدوق باپ ہیں، اور دونوں توثیق سے بےنیاز ہیں۔

اور جہاں تک محمد بن یحییٰ کا تعلق ہے تو یہ کلینی ؒ کے شیخ عطار ؒ ہیں اور وہ اجلہ و معزز ثقات میں سے ہیں۔

اور جہاں تک عمرکی کا تعلق ہے تو یہ بھی ثقہ ہیں کیونکہ شیخ طوسی ؒ نے ان کی توثیق کی ہے۔

ب ۔ محمد بن علي عن ابيه عن سعد و الحميري و أحمد بن ادريس و علي بن موسى عن أحمد بن محمد عن موسى بن القاسم البجلي عنه

اور یہ سلسلہ سند بھی صحیح ہے۔ اور ہمیں پہلے سلسلہ سند کی صحت، اس سلسلہ سند کی صحت ثابت کرنے سے بےنیاز کر دیتی ہے۔

۲- حر عاملی ؒ نے اپنی وسائل کے کتاب الصلاۃ کے ابواب نافلہ شہر رمضان کے باب ۹ میں حدیث ۱ میں جو بیان کیا ہے اس کی عبارت یہ ہے: " محمد بن الحسن نے اپنی اسناد سے، انہوں نے حسین بن سعید سے، انہوں نے صفوان سے، انہوں نے ابن مسکان سے، انہوں نے الحلبی سے کہا ۔۔۔ " ۔

پھر انہوں نے روایت کا ذکر مکمل کرنے کے بعد یوں کہا: " اور اسے صدوق نے اپنی اسناد سے ابن مسکان سے روایت کیا ہے " ۔

حر عاملی ؒ کی یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث شیخ طوسی ؒ اور شیخ صدوق ؒ دونوں نے روایت کی ہے۔

اور روایت کی صحت کا حکم کرنے کے لیے دونوں سلسلہ اسناد میں سے ایک کی صحت کافی ہے، چنانچہ شیخ ؒ اور صدوق ؒ میں سے ہر ایک کے سلسلہ سند کی صحت ضروری نہیں بلکہ ان میں سے ایک کی صحت کافی ہے۔

اور چونکہ شیخ ؒ کا سلسلہ سند صحیح ہے تو صدوق ؒ کے سلسلہ سند کی حالت کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔

اور شیخ ؒ کے سلسلہ سند کی صحت ثابت کرنے کے لیے ہم کہتے ہیں:

جہاں تک حسین بن سعید اور امام علیہ السلام تک کے باقی راویوں کا تعلق ہے تو وہ سب ثقہ اجلاء ہیں۔

اور اہم شیخ ؒ کے حسین بن سعید تک کے سلسلہ سند کی حالت کی تحقیق ہے اور شیخ قدس سرہ نے مشیخہ(۱)میں اس شکل میں ایک پیچیدہ عبارت بیان کی ہے: " اور جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے اس کتاب میں حسین بن سعید سے اس کی مجھے خبر دی شیخ ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان اور حسین بن عبید اللہ اور احمد بن عبدون نے، ان سب نے احمد بن محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن حسن بن ولید سے۔

حوالہ:(۱)- رجوع کریں : "التھذیب" کے آخر میں مذکور مشیخہ کے ص ۶۳ کی طرف۔

اور مجھے اس کی خبر دی ابو الحسین بن ابی جید القمی نے بھی، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے حسین بن حسن بن ابان سے، انہوں نے حسین بن سعید سے۔

اور اس کی روایت کی ہے محمد بن حسن بن ولید نے بھی، انہوں نے محمد بن حسن صفار سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین بن سعید سے " (۱)

مذکورہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیخ ؒ، ابن سعید کی احادیث کو ایسے سلسلہ سند سے روایت کرتے ہیں جس میں محمد بن حسن بن ولید واسطہ ہیں۔

حوالہ:

(۱)- اور شیخ نے اُس سابقہ عبارت کے بعد یہ الفاظ نقل کیے: "اور جو میں نے ذکر کیا ہے حسین بن سعید سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے زرعہ سے، انہوں نے سماعہ اور فضالۃ سے ۔۔۔"۔۔ اور یہ عبارت کسی اور سند سے حسین بن سعید تک پہنچنے کی بات بیان نہیں کر رہی، جیسا کہ یہ بات مخفی نہیں ہے اس شخص پر جس نے اس کا جائزہ لیا ہے۔

جیسا کہ یہ عبارت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ شیخ کا ابن ولید تک دو سلسلہ سند ہیں، اور ابن ولید کے ابن سعید تک دو سلسلہ سند ہیں۔

جہاں تک شیخ سے ابن ولید تک کے دو سلسلہ سند کا تعلق ہے تو وہ یہ ہیں:-

الف- مفید اور ابن غضائری اور ابن عبدون، اور ان سب نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے۔

ب- ابن ابی جید، انہوں نے ابن الولید سے۔

اور جہاں تک ابن ولید سے ابن سعید تک کے دو سلسلہ سند کا تعلق ہے تو وہ یہ ہیں:-

الف- ابن ولید عن الحسین بن الحسن بن ابان عن ابن سعید ۔

ب- ابن ولید عن الصفار عن احمد بن محمد بن عیسیٰ عن ابن سعید ۔

اور اسے اس طرح واضح کیا جا سکتا ہے:-

شیخ طوسی ← تینوں (المفید، ابن الغضائري، ابن عبدون) احمد اور ابنِ ابی جید سے ← محمد بن حسن بن ولید سے ← حسین بن حسن بن ابان اور صفّار اور وہ ابن عیسی سے ← ابنِ سعید۔

اور شیخ کی ابن سعید تک کی سند کی صحت ثابت کرنے کے لیے، ابن ولید تک پہلے دو اسناد میں سے کسی ایک کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے، نیز ابن سعید تک آخری دو اسناد میں سے کسی ایک کی صحت ثابت کرنا بھی ضروری ہے۔

جہاں تک پہلے دو اسناد کا تعلق ہے تو ان میں سے پہلے میں ممکن ہے کہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید کے اعتبار سے غور و تأمّل کیا جائے اس ہر بنا رکھتے ہوئے کہ " شيخوخة الاجازة" ہونا وثاقت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اور جہاں تک دوسری سند کا تعلق ہے تو اسے صحیح قرار دیا جا سکتا ہے اس اعتبار سے کہ ابن ابی جید کی اگرچہ توثیق خاص واقع نہیں ہوئی ہے لیکن وہ نجاشی ؒ کے مشائخ میں سے ہیں، اور توثیقاتِ عامہ کے باب میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نجاشی ؒ کے تمام مشائخ کی توثیق ان کی بعض عبارات کو بنیاد بنا کر کی جا سکتی ہے۔

اور جہاں تک آخری دو اسناد کا تعلق ہے تو ان میں سے پہلے پر اگرچہ حسین بن حسن بن ابان کے اعتبار سے اشکال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے حق میں کوئی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے (۱) ، لیکن ان میں سے دوسری سند صحیح ہے کیونکہ صفار اور احمد بن محمد بن عیسیٰ جلیل القدر ثقہ ہیں۔

چنانچہ شیخ کا ابن سعید تک کا سلسلہ سند صحیح ہے کیونکہ پہلے دو اسناد میں سے ایک اور آخری دو اسناد میں سے ایک صحیح ہے۔

حوالہ:

(۱)-کبھی ان کی توثیق اس بیان سے کی جاتی ہے کہ جب حسین بن سعید قم آئے تو وہ حسین بن حسن بن ابان کے گھر میں اترے، اور وہیں بیمار ہو گئے۔ اور وفات سے قبل انہوں نے اپنی کتابیں حسین بن حسن کے سپرد کرنے کی وصیت کی۔ ان تک ان کی کتابوں کی وصیت، جو کہ ایک اہم شیعہ حدیثی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں، جنہیں انہوں نے بڑی محنت و مشقت سے حاصل کیا تھا، اور جنہیں نسل در نسل قیامت تک محفوظ رکھنا ان پر واجب ہے، یہ سب اس بات کو ظاہر و کشف کرتا ہے کہ حسین بن حسن ان کے نزدیک مکمل طور پر ثقہ تھے۔ ورنہ کیا کوئی عقلمند مؤمن یہ احتمال رکھ سکتا ہے کہ اتنے قیمتی سرمایہ کو کسی غیر ثقہ شخص کے سپرد کر دیا جائے۔

۹۶

تمرینات

س۱: شیخ طوسی ؒ نے کتاب " التھذیب" کو ۔۔۔ کی شرح کے طور پر تالیف کیا، عبارت مکمل کریں۔

س۲: صاحب حدائق ؒ کا " التھذیب" کے بارے میں سخت بیان کیا ہے؟

س۳: شیخ طوسی ؒ نے کس وجہ سے کتاب " الاستبصار" تالیف کی؟

س۴: شیخ طوسی ؒ کا اپنی دونوں کتابوں میں احادیث نقل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

س۵: " التھذیب ین " میں موجود تمام احادیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے پہلا بیان اور اس پر اشکال بیان کریں۔

س۶: اس کے لیے دوسرا بیان اور اس پر اشکال بیان کریں۔

س۷: ضعیف سند کے تدارک کے نظریہ سے کیا مراد ہے؟

س۸: اگر ہم حدیث کے راوی تک شیخ ؒ کا سلسلہ سند معلوم کرنے لیے " التھذیب" یا " الاستبصار" کے مشیخہ کی طرف رجوع کریں اور وہ ضعیف ہو تو ہم کیا کریں گے؟

س۹: تدارک کے باب میں شیخ اردبیلی ؒ کے طریقے کا خلاصہ بیان کریں۔

س۱۰: اس طریقے پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۱: تدارک کے باب میں شیخ مجلسی ؒ کا طریقہ کیا ہے؟

س۱۲: اس طریقے پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۳: تدارک کے باب میں تیسرا طریقہ واضح کریں؟

س۱۴: اس طریقے پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۵: تدارک کے باب میں استرآبادی ؒ کا طریقہ واضح کریں؟

س۱۶: اس طریقے پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۷: ابن فضال تک سند کو صحیح قرار دینے کے لیے سید خوئی ؒ کا طریقہ کیا ہے؟

س۱۸: مذکورہ طریقے پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۹: تدارک کے باب میں سید خوئی ؒ کا دوسرا طریقہ کیا ہے؟

س۲۰: مذکورہ طریقے پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۲۱: وہ دو شرطیں کیا ہیں جو سید شہید ؒ نے سید خوئی ؒ کے دوسرے طریقے کو قبول کرنے کے لیے بیان کیے ہیں؟

۹۷

وسائل الشیعہ کے بارے میں نظریات

کتاب وسائل الشیعہ شیخ محمد بن حسن حر عاملی ؒ کی تالیف ہے جو علامہ مجلسی ؒ کے ہم عصر تھے۔

شیخ حر عاملی ؒ نے اپنی کتاب الوسائل کو متعدد مصادر سے جمع کیا جن میں سب سے اہم کتب اربعہ ہیں۔

اور ان قدس سرہ نے اپنی کتاب کے مصادر کو مقدمہ اور خاتمہ میں ذکر کیا ہے، اور ان کی تعداد تقریباً ۱۸۰ مصادر پر مشتمل ہیں۔

اور انہوں نے کتاب کے خاتمہ میں متعدد فوائد ذکر کیے ہیں جن کی تعداد ۱۲ ہیں۔

اور یہ کتاب قدیم زمانے میں تین جلدوں پر مشتمل سنگی طباعت (لیتھو پرنٹنگ) میں شائع ہوئی تھی۔ اور اس کے بعد ایران میں ۲۰ جلدوں میں طبع ہوئی تھی۔ اور پھر حال ہی میں مؤسسہ آل البیت نے زیادہ تحقیق کے ساتھ ۳۰ جلدوں میں طبع کی ہے۔

اور حر عاملی ؒ نے ہر کتاب کو متعدد ابواب میں تقسیم کیا ہے، چنانچہ کتاب الطہارۃ کو متعدد ابواب میں تقسیم کیا ہے اور انہوں نے ہر حدیث کو اس باب میں رکھا جو ان قدّس سرہ کے نزدیک اس کے مفہوم کے لحاظ سے مناسب تھا۔

اور اس کتاب کی تالیف میں ۲۰ سال صرف ہوئے۔

اور ہم اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اگر معجزہ کا اطلاق ہمارے جیسے زمانے میں صحیح ہو تو اس کی ایک مثال حر عاملی ؒ کا الوسائل کی تالیف ہے، کیونکہ وہ ہر حدیث کو درج کرتے وقت کتب اربعہ کا مکمل جائزہ لیتے تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ آیا وہ حدیث ان میں موجود ہے یا نہیں، چنانچہ اگر وہ موجود ہو تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں: اور صدوق ؒ یا شیخ ؒ یا کلینی ؒ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔

بلکہ وہ ہر حدیث کو درج کرتے وقت صرف کتب اربعہ کے جائزے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ تمام مصادر کا جائزہ لیتے ہیں جن کی تعداد تقریباً ایک ۱۸۰ مصادر پر مشتمل ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہوا تھا۔

چنانچہ جب وہ طہارت کے ابواب میں سے کسی باب کے متعلق حدیث لکھتے ہیں تو وہ کتب اربعہ اور علی بن جعفر (رض) کی کتاب، الخصال، نہج البلاغہ، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، الاختصاص، ثواب الاعمال اور دیگر مصادر کا جائزہ لیتے ہیں۔

جیسا کہ وہ ہر حدیث کو درج کرتے وقت اس میں باریک بینی سے تحقیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس سے مستفید ہونے والے احکام کو معلوم کر سکیں۔

جیسا کہ احادیث کا کوئی بھی مجموعہ اگر کسی معین حکم پر دلالت کرنے میں مشترک ہو تو وہ اس حکم کے لیے ایک خاص باب بناتے ہیں اور اس کے تحت وہ احادیث ذکر کرتے ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔اور اس طرح کا مشکل کام سند یا متن کو نقل کرتے وقت بہت سی غلطیوں کا سبب بنتا ہے خاص طور سے جب اسانید میں نام متشابہ ہوتے ہیں جبکہ ہم الوسائل میں ایسا کچھ نہیں دیکھتے۔ اور اس سے ہمارا مقصد یہ دعویٰ کرنا نہیں ہے کہ اس میں بالکل غلطیاں نہیں ہیں بلکہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس میں ہونے والی غلطیاں اس طرح کے وسیع اور مشکل کام میں متوقع غلطوں سے بہت کم ہیں۔

وسائل الشیعہ پر ملاحظات

اور ہم جب حُرّ عاملی (رحمہ اللہ) کی ان عظیم اور قیمتی کوششوں کی قدر کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی عظیم کتاب کی تالیف میں صرف کیں، جس کے ذریعے انہوں نے مجتہدین کے لیے استنباط کا راستہ ہموار کیا اور اس راستے سے بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات کو دور کر دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس طرح کا زبردست کام کوئی شخص الٰہی تائید اور عنایت کے بغیر انجام نہیں دے سکتا۔

ہم ساتھ میں اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ وسائل جیسی کتاب پر جو ربّانی عنایات سایہ فگن ہوئیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے زمانے اور اس سے پہلے کے ہر طالب علم کی لائبریری اس کتاب پر مشتمل ہوتی ہے، اور روزانہ ہزاروں دینی طلبہ اس کا بارہا مطالعہ کرتے ہیں۔ نیز مؤلفِ وسائل کا نام ہمیشہ رحمت، رضا اور مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

ہم ان تمام باتوں کے باوجود بعض ضمنی نکات و ملاحظات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے، جن سے عام طور پر کوئی بھی کتاب خالی نہیں ہوتی۔ ہم انہیں درج ذیل طور پر پیش کرتے ہیں :

۱۔ ان قدس سرہ نے احادیث کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے، یعنی اگر ایک ہی حدیث میں متعدد جملے ہوں تو وہ تمام جملوں کو ایک ہی باب میں ذکر نہیں کرتے بلکہ ہر جملے کو اس کے مناسب باب میں ذکر کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی وہ اس بات کا اشارہ بھی نہیں کرتے کہ یہ جملہ مکمل حدیث نہیں ہے بلکہ یہ ایک حدیث کے جملوں میں سے ایک جملہ ہے۔

اور کبھی کبھی اس کا منفی اثر بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اگر جملوں کو جمع کیا جائے اور ایک دوسرے سے ملایا جائے تو ہو سکتا ہے اس سے ایسا نتیجہ حاصل کیا جائے جو ان کے متفرق ہونے کے صورت میں حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

۲۔ کبھی کبھی رجوع کرنے والے کے لیے روایت کی سند نکالنا مشکل ہو جاتا ہے، مثلاً جب وہ متعدد احادیث نقل کرتے ہیں تو پہلی حدیث میں یوں کہتے ہیں: محمد بن حسن نے اپنی اسناد سے حسین بن سعید سے، انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے ۔۔۔ اور جب وہ دوسری سند نقل کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: " و عنه عن صفوان عن منصور " (اور ان سے، انہوں نے صفوان سے، انہوں نے منصور سے ۔۔۔)

اور رجوع کرنے والے پر پر کبھی " عنه " (ان سے) کی ضمیر سے کون مراد ہے یہ مخفی ہو جاتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہیں کہ یہ ضمیر شیخ طوسی (محمد بن حسن) کی طرف پلٹ رہی ہے جبکہ وہ حسین بن سعید کی طرف پلٹ رہی ہے اور مراد یوں ہے: محمد بن حسن طوسی نے اپنی اسناد سے حسین بن سعید سے، انہوں نے صفوان سے، انہوں نے منصور سے۔

یہ اور اس جیسی چیزیں وسائل میں کثیر ہیں۔ اور ممکن ہے کہ اصل ماخذ کی طرف رجوع کیے بغیر مقصود پوشیدہ رہ جائے۔

۳۔ جب وہ شیخ طوسی ؒ سے کوئی حدیث نقل کرتے ہیں تو اگر شیخ کلینی ؒ نے اس کے قریب قریب کچھ نقل کیا ہو تو حدیث کے آخر میں کہتے ہیں: اور کلینی ؒ نے بھی اسی کی مثل نقل کیا ہے، حالانکہ کلینی ؒ جو روایت نقل کرتے ہیں وہ کبھی کبھی اس روایت سے کچھ مختلف ہوتی ہے جو شیخ طوسی ؒ نقل کرتے ہیں، لیکن (صاحب وسائل ق) اس اختلاف اور اس کی نوعیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے۔

۴۔ سند یا متن کے لحاظ سے احادیث کو نقل کرتے وقت ان کے ضبط و پختگی کا نہ ہونا، چنانچہ اگر کوئی شخص اصلی مأخذ کی طرف رجوع کرے تو وہ حر عاملی ؒ کی نقل کردہ اور اصلی مأخذ میں موجود چیزوں کے درمیان اختلاف پاتا ہے۔ اور یہ ایسی بات ہے جو اس امر کی ضرورت کو لازم کرتی ہے کہ فقیہ کو اصل ماخذ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور صرف " وسائل " پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

۵۔جب وہ کسی خاص مأخذ سے نقل کرتے ہیں تو اگر اس مأخذ میں کوئی اختلاف ہو تو اس مأخذ کے اختلاف کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ اور اسی وجہ سے استنباط کے مقام پر فقيه کے لیے اصلی مأخذ کا جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔

۶۔ان کا صفحہ نمبر یا باب نمبر یا حدیث نمبر کے لحاظ سے مأخذ کی تشخیص نہ کرنا، چنانچہ رجوع کرنے والے کو کبھی اس جہت سے نقل کے مأخذ کی تشخیص کرنے میں طویل وقت صرف کرنا پڑتا ہے، بلکہ جب وہ شیخ طوسی ؒ سے نقل کرتے ہیں تو نقل کے مأخذ کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ یہ مأخذ الطہارۃ ہے یا " الاستبصار" ۔

۷۔کبھی کبھی حر عاملی ؒ باب سے مربوط بعض احادیث کو حذف کر دیتے ہیں اور ان کی طرف یہ کہتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں: اور باب سے مربوط بعض احادیث پہلے گزر چکی ہیں یا بعد میں آئیں گی بغیر ان پہلے گزر چکی یا بعد میں آنے والی احادیث کی وضاحت کیے۔ اور اسی لیے بعض بزرگ علماء(۱)نے ان احادیث کی تشخیص کا کام انجام دیا ہے اور " الاشارات و الدلائل إلى ما تقدم و يأتي في الوسائل " کے نام سے ایک کتاب لکھی۔

۸۔حر عاملی ؒ نے ہر باب کے لیے اس سے مناسبت رکھنے والی قرآنی آیات کا موجودگی کے باوجود ذکر نہیں کیا ہے اور وہ صرف روایات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔

حوالہ: (۱)- اور یہ شيخ عبد الصاحب الجواهري رحمه اللّه تعالى ہیں۔

اور ان ملاحظات و اشکالات سے بچنے کے لیے سید بروجردی قدس سرہ نے اپنے شاگردوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور ان سے ایک حدیثی کتاب " جامع احادیث الشیعہ" کے نام سے تالیف کرنے کی درخواست کی جو سابقہ ملاحظات سے محفوظ ہوں بلکہ اس میں دیگر خصوصیات بھی ہوں جیسے دیگر ان احادیث کا ذکر جن کو صاحبِ وسائل نے بیان نہیں کیا ہے، اور یہ وہ احادیث ہیں جن کی نشاندہی بعد میں شیخ نوری ؒ نے اپنی کتاب " مستدرک الوسائل " میں کی تھی۔

اور سید بروجردی ؒ نے خود اس کمیٹی کی نگرانی کی اور ان کی زندگی میں کتاب کی تالیف مکمل ہوئی اور اس کا پہلا حصہ طبع ہوا، اور ان کی وفات کے بعد باقی حصوں کی طباعت جاری رہی، اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے، جیسی جزا وہ نیکوکاروں کو عطا فرماتا ہے۔

۹۸

مستدرک الوسائل

کچھ حدیثی مصادر ایسے ہیں جن سے حر عاملی ؒ نے نقل نہیں کیا ہے جیسے دعائم الاسلام اور الاشعثیات وغیرہ۔ چنانچہ میرزا حسین نوری طبرسی قدس سرہ نے ان میں چھوٹ جانے والی چیز کا تدارک کیا اور مستدرک الوسائل کے نام سے ایک کتاب تالیف کی اور ان ابواب کا ذکر بغیر کسی تبدیلی کے کیا جن کا حر عاملی ؒ نے اشارہ کیا تھا اور ہر باب کے تحت وہ احادیث ذکر کیں جو صاحب الوسائل ؒ نے ذکر نہیں کی تھیں اور وہ ان احادیث کو دوبارہ ذکر نہیں کیا ہے جن کی طرف حر عاملی ؒ نے اشارہ کیا ہے۔

اور اگرچہ نوری ؒ کا ان کے اس عظیم کام پر شکریہ ادا کیا جاتا ہے، لیکن انہوں نے جن مصادر پر اعتماد کیا ہے ان میں سے اکثر، اصحاب کے نزدیک معتبر نہیں ہیں۔ اور شاید اسی وجہ سے حر عاملی ؒ نے انہیں اپنی کتاب میں مصادر کے طور پر استعمال نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ بعید ہے کہ صاحب وسائل ؒ کو ان مصادر تک رسائی حاصل نہ ہوئی ہو یا ان سے غفلت برتی ہو بلکہ انہیں ترک کرنا ان کے نزدیک ان مصادر کی کمزوری کی وجہ سے تھا۔

اور نوری ؒ نے اپنی کتاب میں ایک اہم کام کیا ہے اور وہ اہم رجالی فوائد کی طرف اشارہ ہے جو متلاشی و محقق کے لیے ناگزیر ہیں، جسے انہوں نے کتاب کے آخر میں ملحق کیا ہے۔ اور شاید مستدرک الوسائل کی اہمیت مذکورہ فوائد میں ہی مضمر ہے۔

اور یہ کتاب قدیم زمانے میں سنگی طباعت (لیتھو پرنٹنگ) کے ذریعے تین بڑی جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اور تیسری جلد کا زیادہ تر حصہ ان رجالی فوائد پر مشتمل تھا۔

اور یہ نئی طباعت میں متعدد جلدوں میں تحقیق کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔

الوافی

کتاب الوافی ایک حدیثی کتاب ہے جسے فیض کاشانی ؒ نے تالیف کیا ہے جو محمد بن محسن کے نام سے معروف ہیں اور کتاب " المحجۃ البیضاء" اور " تفسیر صافی" کے نام سے معروف تفسیر کے مؤلف ہیں۔

حوالہ: وہ معروف فلسفی صدرالدین شیرازی، مؤلفِ 'الأسفار الأربعة'، کے داماد تھے۔

اور انہوں نے اس میں کتب اربعہ کی احادیث جمع کی ہیں اور اس میں ان کے علاوہ کوئی احادیث شامل نہیں ہیں۔

اور اس کتاب کو جس خصوصیت نے اہم بنایا ہے وہ اس کے بیانات ہیں، چنانچہ جب وہ کوئی حدیث ذکر کرتے ہیں جس میں معنی کے لحاظ سے یا اس کے بعض لغوی مفردات کے لحاظ سے یا دیگر جہات سے کچھ ابہام ہو تو وہ اس کے آخر میں " بیان " کا لفظ ذکر کرتے ہیں اور پھر ان ابہامات کی وضاحت شروع کر دیتے ہیں، یہ وہ چیز ہے جو فیض قدس سرہ کے وسیع علم اور ان کی گہرائی کی نشاندہی کرتی ہے۔

اور انہوں نے اپنی کتاب کو ایک مقدمہ اور چودہ کتابوں اور ایک خاتمہ پر ترتیب دیا ہے۔ اور ہر کتاب کا ایک مقدمہ اور ایک خاتمہ ہے۔

اور یہ قدیم زمانے میں تین ضخیم جلدوں میں طبع ہوئی تھی۔ اور حال ہی میں متعدد جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔

بحار الانوار

کتاب بحار الانوار شیخ محمد باقر مجلسی ؒ کی تالیف ہے جن کی وفات ۱۱۱۱ ہجری میں ہوئی تھی۔

یہ جلیل القدر شیخ، شیخ حر عاملی صاحب الوسائل ؒ کے ہم عصر تھے۔ ان میں سے ایک نے الوسائل تالیف کی اور دوسرے نے البحار۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی نوعیت میں ایک معجزہ ہے۔ اور بحار کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک اسلامی دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) ہے، کیونکہ یہ فقہ و اصول، تفسیر، تاریخ، فلکیات، فلسفہ اور دیگر بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہے۔

اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علامہ مجلسی ؒ کا کارنامہ محض مختلف مصادر سے مواد جمع کرنے تک محدود ہے، مگر یہ رائے انصاف کے خلاف ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کو پچیس قدیمی ضخیم جلدوں(۱)میں تالیف کیا جن میں سے آٹھ جلدیں اہلِ بیت علیہم السلام کی تاریخ کے لیے مختص کی ہیں اور پانچ جلدیں مختلف شرعی احکام کے لیے اور باقی جلدیں مختلف دیگر علوم کے لیے ہیں۔

حوالہ: (۱)- اور حال ہی میں اس کی ایک نئی محقق شدہ اشاعت شائع ہوئی ہے جو سو سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے۔

اور جب وہ ہر باب کا ذکر کرتے ہیں تو اس باب سے متعلق آیات کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی تفسیر کرتے ہیں پھر ہر حدیث میں پیچیدہ مسائل کی وضاحت شروع کر دیتے ہیں، یہ وہ چیز ہے جو مختلف اسلامی فنون میں ان کی مکمل مہارت کی نشاندہی کرتی ہے۔

اور وہ قاری کو حیران کر دیتے ہیں جب وہ کتاب کی جلدوں کا مطالعہ کرتا ہے کہ انہیں اس عظیم ورثے کو جمع کرنے کے لیے وقت کیسے ملا اور وہ ہر حدیث میں کیسے غور و فکر کر سکے اور اس میں جو ابہام تھا اسے کیسے واضح کر سکے اور وہ ہر فن میں اس انداز سے داخل ہوئے جیسے وہی اس فن کے اصل ماہر ہے کوئی اور نہیں۔ وہ حقیقت میں اپنے دور بلکہ تمام ادوار کا معجزہ ہیں۔

اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس طرح کا زبردست کام کوئی شخص انجام نہیں دے سکتا جب تک کہ اسے الٰہی عنایات حاصل نہ ہوں اور ہمارے مولا و امام زمانہ حجت بن الحسن العسکری - میری روح اور تمام جہانوں کی ارواح ان پر فدا ہوں - کی دعاؤں میں شامل نہ ہو۔

اور اس عظیم شخص کا اس کتاب کو تالیف کرنے کا مقصد صرف اہلِ بیت علیہم السلام کے ورثے کو جمع کرنا اور اسے ضائع ہونے سے بچانا تھا اور رجوع کرنے والے پر اس ورثے کی حالت کی تحقیق کرنا، اور اس میں سے جو صحیح ہے اسے لینا اور ضعیف کو چھوڑنے کی ذمہ داری برقرار ہے۔ وہ اپنی کتاب کے مقدمے میں جن مصادر پر انہوں نے اعتماد کیا ہے ان کا جائزہ لیتے وقت ان میں سے بہت سے مصادر کی کمزوری کی صراحت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے انہیں اپنی کتاب میں محفوظ رکھا ہے جیسا کہ سمندر موتی اور غیر موتی (دونوں) کو محفوظ رکھتا ہے اور غوطہ خور کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمیز کرے اور پہلے کو لے اور دوسرے کو چھوڑ دے۔

چنانچہ ان کی وہ عبارتیں جن سے ہمیں تمام مصادر پر ان کے اعتماد نہ ہونے کا سمجھ میں آتا ہے، ان کا جلد اول کے صفحہ ۱۴ پر یہ قول ہے: " اور کتاب مصباح الشریعۃ و مفتاح الحقیقۃ جو ہمارے مولا صادق علیہ السلام کی طرف منسوب ہے " ۔

ان کا " المنسوب" کے لفظ سے تعبیر کرنا کتاب کی صحت پر ان کے مکمل اعتقاد نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

اور ان کا قول صفحہ ۱۶ پر: " اور وہ قدیم کتاب جسے ہم نے غَری ( نجفِ اشرف ) میں پایا - اللہ کی رحمت ہو اس سرزمین کو شرف بخشنے والے پر - وہ دعاؤں کے بارے میں بعض قدیم محدثین کی تالیف ہے۔ اور ہم نے اسے " کتابِ غَرَوی" کا نام دیا ہے " ۔

اور ان کا قول صفحہ ۱۷ پر: " کتاب التمحیص ہمارے ایک قدیم عالم کی تصنیف ہے " ۔

اس کے علاوہ دیگر مقامات بھی ہیں۔

اور اس بنا پر البحار میں جو کچھ بھی ذکر ہے اس کی کلی طور پر صحت کا حکم کرنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ کلی طور پر عدم صحت کا حکم بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ہاں، چونکہ مجلسی ؒ نے جن معتبر مصادر پر اعتماد کیا ہے جیسے کتب اربعہ اور دیگر جو ہمارے پاس موجود ہیں تو ہمارے لیے ان کا جائزہ لینا کافی ہے بغیر البحار کا جائزہ لینے کی ضرورت کے سوائے ان وضاحتوں اور بیانات کے جو ان قدس سرہ نے بیان کیے ہیں۔ اور باقی وہ مصادر جو ہمارے پاس نہیں ہیں چونکہ وہ ضعیف ہیں تو ہمیں ان کی جہت سے البحار کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

۹۹

فصل چہارم

ہماری رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات

حدیث کی کتابوں پر بات کرتے ہوئے ہم نے بیان کیا تھا کہ ائمہ علیہم السلام کے اصحاب نے ائمہ علیہم السلام سے جو کچھ سنا اسے ۴۰۰ مسودات میں جمع کیا جنہیں بعد میں اصول اربع مائة (چار سو اصول) کا نام دیا گیا۔ اور اس کے بعد تینوں محمدوں رضوان اللہ علیہم نے ان اصولوں کو جمع کیا اور ان کی ترتیب و تدوین کی جس کے نتیجے میں کتب اربعہ وجود میں آئیں۔

رجال کے باب میں بھی ایسی ہی صورت حال پیش آئی۔ چونکہ ائمہ علیہم السلام کے بعض اصحاب نے رجال پر کتابیں تالیف کیں۔ اور بعض کا کتاب تالیف کرنے کا طریقہ دوسروں سے مختلف تھا۔ چنانچہ بعض نے ایسی کتاب تالیف کی جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان اصحاب کے نام شمار کیے گئے جنہوں نے امام امیر المؤمنین علیہم السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کی جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ اور بعض نے احادیث کے راویوں کے عیوب و فضائل بیان کرنے کے لیے کتابیں لکھیں۔ اور بعض نے ایسی کتاب تالیف کی جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لے کر آخری معصوم علیہ السلام تک معصومین علیہم السلام کے اصحاب کے طبقات کا ذکر تھا۔

اور شاید رجال پر سب سے پہلے لکھنے والے عبید اللہ بن ابی رافع ہیں جو امیر المؤمنین علیہم السلام کے کاتب تھے، انہوں نے ایک کتاب تالیف کی جس میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان صحابہ کے نام ذکر کیے جو امیر المؤمنین علیہم السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کی جنگوں میں شامل تھے۔

اور اس کے بعد نجاشی ؒ، کشی ؒ اور شیخ طوسی ؒ نے ان کتابوں کو جمع کیا اور نئی رجالی کتابیں تالیف کیں جو چار معروف رجالی کتابیں ہیں۔

اور ہم ہر ایک کے بارے میں مختصر طور پر بات کریں گے۔

۱۰۰