شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی0%

شبہات جدید قرآنی مؤلف:
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: فلسفہ

شبہات جدید قرآنی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی_ مترجم : ندا زہراء رضوی
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: مشاہدے: 32
ڈاؤنلوڈ: 2

شبہات جدید قرآنی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32 / ڈاؤنلوڈ: 2
سائز سائز سائز
شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com

تین۔ مثالوں کا جائزہ

١۔ قرآن کا عربوں کی کاروباری ثقافت سے استفادہ

اس تعبیر میں لکھنے والے مصنف کی مراد یا تو یہ ہے کہ قرآن نے عربوں کی تجارت میں رائج کی اصطلاحات و الفاظ سے استفادہ کیا ہے، جو کہ موصوف کی عبارت کے ظاہر سے بھی قابل اخذ ہے۔ یا پھر یہ مراد ہے کہ قرآن نے ان الفاظ و اصطلاحات کے مفہوم کی پیروی بھی کی ہے۔

پہلی صورت میں قرآن پر کوئی اشکال نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ہر آسمانی یا عام کتاب وحی یا لکھے جانے کے وقت لامحالہ اپنے مخاطبین میں رائج الفاظ سے استفادہ کرتی ہے۔ ورنہ متکلم کی مراد سمجھی نہ جاسکے گی نیز اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبانی اسلوب کا سہارا لینا ایک فطری امر ہے۔

دوسری صورت کا دعوے کرنا ہرگز درست نہیں؛ کیونکہ قرآن نے اگرچہ ان الفاظ اور مفاہیم سے استفادہ کیا ہے لیکن خدا کی جانب سے اپنا خاص محتوا و مواد، شرائط اور خصوصی احکامات بیان کیے ہیں۔ یعنی فقط عرب کے کاروباری مفاہیم کا پیروکار نہیں ہوا۔ مثلاً قرآن نے سود کو حرام اور لین دین کے معاملے کو حلال قرار دیا ہے حتی اس کی بعض شرائط بھی پیغمبر گرامی(ص)اور اہل بیتؑ کی روایات میں نقل ہیں۔ جبکہ سود دور جاہلیت کے عربوں میں عام تھا لیکن قرآن نے اس کی نفی کی اور عرب ثقافت کا پیروکار نہیں بنا۔

٢۔ پیغمبر(ص)کی آرزوئیں

اس مورد میں مندرجہ ذیل تین مطالب کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے:

ایک: کسی قوم کی آرزوئیں اور خواہشیں جنت میں پائی جانے والی نعمات کے مطابق ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن نے یہ آرزوئیں اور جنت میں موجود نعمات لوگوں سے لے کر بیان کی ہیں۔ بلکہ یہ مطالب اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ کلی طور پر مذکورہ آرزؤں کا اشتیاق ایک فطری بات ہے اور کسی خاص قوم و ملت سے مخصوص نہیں۔

دو: بعض اوقات یہ الفاظ ان بلندترین اور دائمی حقائق کی جانب اشارہ ہوتے ہیں جو جنت میں موجود ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض جیسے رضایتِ خدا قابل بیان نہیں ہیں۔

تین: اگر پیغمبر(ص)ان چیزوں (باغ، چشمے، پھل وغیرہ) کی آرزو رکھتے تو ان تک بآسانی پہنچ سکتے تھے؛ کیونکہ مشرکوں نے کئی مرتبہ آپ(ص)کو پیشکش کی کہ تبلیغ اور دعوت اسلام سے رک جائیں اور اس کے بدلے میں جو کچھ بھی پیسہ، خوبصورت عورتیں یا ہر چیز جو آپ چاہیں آپ کو دی جائے گی۔

( دیکھیے: طبری، تاریخ طبری، ج٢، ص٦٢۔ ٦٧/ ابن ھشام، سیرہ، ج١، ص٢٩۵ و ٢٩٦/جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، ج١، ص٢٣٣ و ٢٣۴)

لیکن آنحضرت(ص)نے قبول نہیں کیا اور حق و حق پرستی کے لیے اپنی جنگ جاری رکھی۔ لہذا یہ دعویٰ بے دلیل اور حقیقت کے خلاف ہے۔

٣۔ آیات کاشان نزول

یہاں چند نکات کی جانب اشارہ کرنا لازمی ہے:

ایک: جناب مصنف کے نظریہ کے برخلاف وہ آیات جو شان نزول رکھتی ہیں ہزار سے زیادہ ہیں نیز خود شان نزول کے بھی سات سو سے زیادہ موارد ہیں۔

( دیکھیے: محمد باقر محقق، نمونہ بینات در شان نزول آیات۔

مصنف نے جو شان نزول والی آیات کی تعداد دو سو ذکر کی ہے، یہ ممکن ہے لکھنے میں غلطی ہو یا شاید ان منابع کی جانب کے جو خود انہوں نے اپنے مقالے میں ذکر کیے ہیں رجوع کرنے کی فرصت نہ ملی ہو۔)

دو: قرآن کریم پیغمبر(ص)کی دعوت کے ٢٣ سال کے دوران تھوڑا تھوڑا کر کے پیغمبر(ص)پر نازل ہوا اور اس کا نزول خدا کی مصلحت و منشاء کے مطابق تھا؛ کبھی جنگوں میں مسلمانوں کے فرائض واضح کیے، کبھی ان سوالوں اور ابہاموں کے جواب واضح کیے کہ جو انہیں پیش آتے تھے اور کبھی ان کے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ معین کیا گیا۔ کلی طور پر قرآن کریم نے اوائل اسلام کے لوگوں کی بہترین طریقے سے ہدایت کی اور مسلمانوں کے اس نوزائیدہ معاشرے کو رشد و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ یہ بات قرآن کی عرب کے جاہلانہ فرہنگ اور غلط ثقافت کی پیروی اور اس سے تاثیر لینے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ قرآن نے کئی دفعہ آیات اور شان نزول میں عربوں کی بہت سی غلط عادتوں اور طور طریقوں کا انکار اور رد کیا ہے۔ جیسے اس دور کے جاہل عربوں کی عبادت کی نفی،

( سورہ انفال ٣۵)

البتہ بعض جگہ ان کی پسندیدہ صفات کو سراہا ہے۔ جیسے اہل بیتؑ کی نذر و منت کا واقعہ۔( سورہ دھر )

تین:

قرآن کی آیات کا نزول خاص مکان و زمان میں ہوتا تھا اور قرآن کا اسباب نزول ان زمانی و مکانی صورتحال جیسے واقعات، سوالات اور مختلف افراد وغیرہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ متکلم ایک خاص مکان و زمان یا کسی خاص مناسبت کے ذیل میں کلام کرتا ہے۔ لیکن قرآن کے مورد میں معاملہ اس سے بالاتر ہے۔ قرآنی آیات کے شان نزول اکثر موارد میں مطلب کو کسی ایک مورد یا ایک شخص سے مخصوص کرنے کا باعث نہیں بنتے، بلکہ قرآن کی آیات کے مفاہیم و مطالب کلی ہیں اور وہ واقعہ کہ جو آیت نازل ہونے کا سبب بنا ہے، صرف اسکا ایک مصداق ہے۔

( مزید معلومات کے لیے رجوع کریں: سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن/ محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم قرآن)

۴۔ لسانی و ادبی اسلوب

اس میں دو باتوں کی جانب توجہ ضروری ہے:

ایک: کسی بھی قوم سے ہم کلام ہونے یا ان کے لیے کتاب لکھنے کے لیے ان کے خاص لب و لہجہ، اسلوبوں اور تاکیدی حروف کا استعمال ایک عام و فطری بلکہ ضروری امر ہے۔

دو: ضروری ہے کہ بدگوئی و گالی گلوچ اور لعنت کرنے کے درمیان فرق کو جانا جائے ہوں۔ کیونکہ قرآن کریم، روایات اور منقول دعاؤں میں عام طور پر لعنت آئی ہے۔ لعنت یا نفرین ایک طرح سے کسی شخص کے لیے بد دعا ہے۔ لیکن کہیں بھی قرآن، دعاؤں اور روایتوں میں گالی گلوچ یا بدگوئی ذکر نہیں ہوئی، بلکہ گالی بکنے والے کی مذمت کی گئی ہے۔ قرآن تو اسقدر مؤدب ہے کہ یہاں تک کہ مسلمان کو بتوں کے لیے بدگوئی کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

وَلَا تَسُبُّواْ ٱلَّذِينَ يَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّواْ ٱللَّهَ عَدۡوَۢا بِغَيۡرِ عِلۡم" ( سورہ انعام ١٠٨ )

تعجب یہ ہے کہ کیسے ایک مسلمان مصنف قرآن کی لعنتوں کو گالیوں وغیرہ کا نام دے سکتا ہے!

۵۔ قوم کی زبان اور مانوس تشبہیوں سے استفاده

اس بارے میں بھی چند نکات کی جانب اشارہ کرنا انتہائی ضروری ہے:

ایک: قوم کی زبان سے استفادے سے مراد اس کی لغت کے الفاظ سے استفادہ ہے۔

دو: کسی بھی قوم میں رائج تشبیہات اور محاوروں سے کسی ایسی کتاب یا کلام میں استفادہ کرنا کہ جو خود ان کے لیے پیش کی جارہی ہو، درست اور مطلوب ہے۔ بعض اوقات کوئی ایک محاورہ اپنے اندر انتہائی گہرے مطالب رکھتا ہے، لیکن کلام میں اس محاورے کے ذکر کا مطلب اس کے علمی اور عقیدتی لوازمات کو قبول کرنا نہیں ہوتا۔ مثلاً جیسے آیت

"طَلعُهَا كَأَنَّهُ ۥ رُءُوسُ ٱلشَّيَٰطِينِ"( سورہ صافات ٦۵)

کے بارے میں مفسروں نے تین احتمالات پیش کیے ہیں:

١۔ مقصود بد صورت سانپ ہے کہ جسے "شیطان" کہا گیا ہے۔ اور جہنم کے زقوم درخت کے پھل اور پھلوں کو اس سے تشبیہ دی گئی ہے۔

(لفظ شیطان کا ایک استعمال سانپ کے معنی میں ہے۔)

٢۔ مقصود بدنما پودے ہیں کہ جو "شیاطین" کے نام سے پکارے گئے ہیں۔

٣۔ مقصود ایک ایسی بد صورت شکل ہے کہ جو ہر شخص اپنے ذہن میں شیطان کے لیے ایک خبیث مخلوق کے عنوان سے تصور کرے۔

( دیکھیے: ناصر مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، آیت ٦۵ صافات)

اسی بنا پر قرآن ا پنے نزول کے زمانے کے فرہنگ و ثقافت کے زیر اثر نہیں ہے، بلکہ اس نے صرف عرب میں رائج محاورے سے استفادہ کیا ہے۔ قرآن ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ شیطان کا سر ہے یا اس کا سر کس طرح کا ہے، بلکہ زقوم کے بد صورت ہونے کو بیان کرنا چاہتا ہے۔

تین: مرد و عورت دونوں کے لیے مذکر کے صیغوں و ضمیروں سے استفادہ نیز مشترک(مذکر و مونث) مخاطب کو مذکر سے مخاطب کرنا عربی ادب کے قاعدوں میں سے ایک قاعدہ ہے۔ جہاں قرآن نے عام و مخلوط فاعل یا مخاطب کے لیے مذکر کے صیغوں سے استفادہ کیا ہے، وہ صیغے مردوں سے مخصوص نہیں ہیں۔ با الفاظ دیگر اس میں الغای خصوصیت ہوئی ہے۔ بس یہ مطلب رواداری اور سہل انگاری سے مرتبط نہیں کہ جس کی مصنف نے قرآن کی جانب نسبت دی ہے۔

٦۔ غیر عربی شامل شدہ الفاظ

کسی بھی مخصوص قوم کے لیے کتاب لکھنے یا ان سے ہم کلام ہونے کے لیے ان الفاظ سے استفادہ بہت ضروری ہے جو ان کی لغت و زبان میں کسی اور زبان سے شامل ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہر زبان میں بہت سے دخیل اور شامل شدہ الفاظ موجود ہوتے ہیں کہ جن کا بعض اوقات اس زبان میں کوئی متبادل نہیں ہوتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو اصلی لغت میں وہ لفظ زیادہ رساں اور واضح ہوتا ہے۔ جیسے لفظ "کمپیوٹر" فارسی میں استعمال ہوتا ہے بہ عنوان "کامپیوتر" جبکہ اس کا متبادل "رایانہ" موجود ہے لیکن پھر بھی لفظ رایانہ لفظ کمپیوٹرکی جگہ نہ لے سکا یا اسی طرح خود اردو زبان میں لفظ" کچن " استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کا متبادل" باورچی خانہ "موجود ہے لیکن پھر بھی انگریزی زبان کا لفظ کچن ہی مستعمل و رائج ہے۔ دخیل الفاظ سے استفادہ نہ صرف یہ کہ مذموم نہیں بلکہ بعض اوقات اپنی بات پہنچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ قرآن نے بھی یہ عقلی طریقہ استعمال کیا ہے۔ اگر اس بات کا مطلب زمانے کے فرہنگ سے اثر لینا ہے، تو دنیا کی تمام کتابیں اور تمام سخنور افراد اپنے زمانے کی ثقافت اور فرہنگ کے زیر اثر ہیں۔ نیز ہر قوم کی زبان میں شامل شدہ الفاظ موجود ہیں۔

٧۔ اس زمانے کے علمی نظریات

مندرجہ ذیل چار مطالب اس مورد کو برطرف کرنے میں خاطر خواہ مدد کریں گے:ایک: قرآن کریم نے بعض مقامات پر لوگوں کی ہدایت کی غرض سے نجوم، طب اور حفظان صحت سے مربوط مسائل پر بھی اشارہ کیا ہے۔ اور جیسے جیسے علم سائنس اور آگے بڑھے گا، قرآن کے علمی معجزات مزید واضح تر ہوتے جائیں گے۔ اس بارے میں زوجیت،( سورہ ذاریات ۴٩)

سورج کی حرکت( سورہ یس ٣٨)

اور پہاڑوں اور زمین کی حرکت( سورہ نمل ٨٨ )

کے موارد میں مثالیں موجود ہیں۔ اس میں یہ توجہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ سائنسی نظریات کو قرآن پر مسلط نہ کیا جائے اور تفسیر کے حقیقی و صحیح معیارات کی رعایت کی جائے۔( دیکھیے: محمد علی رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن / ھمو، پژوھشی در اعجاز علمی قرآن/ محمد تقی مصباح یزدی،معارف قرآن۔)

دو: قرآن کریم میں ایسے مطالب موجود نہیں ہیں کہ جو سائنسی یقینی مطالب کے برخلاف ہوں۔

( دیکھیے: محمد علی رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن / ھمو، پژوھشی در اعجاز علمی قرآن/ محمد تقی مصباح یزدی،معارف قرآن )

ممکن ہے بعض مفسر غلطی کا شکار ہوئے ہوں اور قرآن کی آیات کو نظام بطلمیوسی یا جالینوس کے طب پر مسلط کیا ہو، لیکن یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ قرآن کا نظریہ یہی تھا اور قرآن نے عربوں کے دقیانوسی عقائد کے مطابق مطالب بیان کیے ہیں اور اس قوم کی غلطیوں کو قابل قبول قرار دیا ہے، بلکہ یہ چند مفسروں کی فکری غلطی سے مربوط ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نظام بطلیموس(متولد: تقریباً١۵٠م) پیغمبر(ص)کی بعثت(تقریباً٦١٠م) کے زمانے میں دنیا کے افکار پر چھایا ہوا تھا، لیکن قرآن نے اس نظام کے قبول شدہ اور یقینی مطالب جیسے پہاڑوں اور زمین کی حرکت کی مخالفت کی ہے۔

تین: کلمہ "سموات" قرآن میں مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے؛ من جملہ زمین کی سطح، ستاروں اور سیاروں کا مقام، اوپر کی سمت، نیز وجود کے عالی ترین مرتبے اور قرب الٰہی (معنوی آسمان)۔ اسی طرح کلمہ "سبع" سے بھی ممکن ہے سات کا عدد یا کثرت یعنی بہت سارے آسمان مراد ہوں۔

( ناصر مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، ج١، ص١٦۵۔ ١٦٧/سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن،ج١٦، ص٣٢٧)

بس اول یہ کہ ہر اس آیت میں جس میں یہ تعبیر استعمال کی گئی ہو توجہ کی جائے کہ کونسا معنی اور مصداق مراد ہے۔ کلی طور یہ نہیں کہا جاسکتا ہر جگہ ایک ہی مصداق مراد ہے اور قرآن نے بدو عربوں کے سات آسمان والے عقیدے کو قبول کیا ہے۔

دوسرا یہ کہ سائنسی نظریات کی رو سے اب بھی سات آسمان کا وجود ثابت یا رد نہیں ہو پایا ہے کہ کہا جائے قرآن کا نظریہ قطعی سائنسی نظریوں سے ثابت یا رد ہوا ہے۔

چار: حضرت ابراہیمؑ نمرود سے بحث و تنازعہ میں خود ان لوگوں(نمرود اور اس کے پیروکار) کے عقائد کے مطابق کلام فرما ہیں۔ وہ لوگ اپنے غلط نقطہ نظر کی بنیاد پ ر سمجھتے تھے کہ سورج مشرق سے مغرب کی طرف جاتا ہے۔ اس وجہ سے حضرتؑ نے فرمایا: اگر قادر ہو تو اس حرکت کو برعکس کر کے دکھاؤ!( سورہ بقرہ ٢۵٨)

درحقیقت جدال احسن میں اس میں کوئی اشکال نہیں کہ انسان اپنے مقابل کے نظریے کے مطابق کلام کرے اور پھر اس کے نظریے کا رد پیش کرے۔

با الفاظ دیگر، یہاں قرآن کریم اس مناظرے کو حضرت ابراہیمؑ سے نقل کررہا ہے۔ جبکہ خود آپؑ اس کے علمی اور عقیدتی عناصر کو ظاہر کرنے اور قبول کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ جس طرح تمام دانشور اور ڈاکٹر جب ذہنی مریضوں سے بات کرتے ہیں تو فارسی میں لفظ "دیوانہ" کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ دیوانہ "دیو" سے ہے اور دیو محض ایک خیالی موجود ہے۔ دوسری جانب، قرآن پاک ایک مقام پر پہاڑوں اور زمین کی حرکت( سورہ نمل ٨٨ )

کے بارے میں بیان کرتا ہے۔ بس معلوم ہوتا ہے زمین کا ساکن ہونا قرآن کا نظریہ نہیں ہے اور یہ مصنف کے دعوے کے خلاف ہے۔

٨۔ جن، جادو، نظربد اور روح

ان ابحاث کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل مطالب بیان کرنا ضروری ہیں:

اول: قرآن کریم نے عربوں کے فرہنگ و ثقافت کے بارے میں چناؤ سے کام لیا ہے یعنی جو کچھ بھی درست و حق اور واقعیت کے مطابق تھا اسے قبول کیا ہے۔ اسی وجہ سے کئی آیات میں جن، جادو، نظر بد اور روح کی وضاحت یا ان کی طرف اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ زمانے کی ثقافت کی پیروی کرنے کے معنی میں ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ ان صحیح مطالب کی تائید ہے کہ جو زیادہ تر پچھلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ان کی ثقافت میں شامل ہوئے تھے یا بعض افراد کے ذاتی تجربات اور عقلی دلیلوں کے ذریعے ان تک پہنچے تھے۔

دو: دور حاضر میں جن، جادو، روح اور نظرِ بد کے وجود کی "پیرا سائیکولوجیکل"( parapsychology) سائنسز میں بہت سے تجرباتی شواہد کے ساتھ تحقیق کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر بعض اوقات یہ حقیقت لوگوں کو ہپناٹائز اور روح کے انخلاء کے ذریعے دکھائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ روح کے وجود کے اثبات کے لیے انتہائی محکم عقلی دلائل بھی موجود ہیں۔

نیز ایک کلمہ کے لغوی ریشہ کو مدِ نظر رکھنا اس کے اصطلاحی معنی کے رد و باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا۔

تین: ضروری تھا کہ اشکال کرنے والے محترم مصنفین روح، جن، جادو، اور نظرِ بد کے عدم ہونے کے دلائل پیش کرتے۔

کیا صرف اس بنیاد پر کہ "بعید ہے کہ دور حاضر کا سائنس ان مطالب کی تائید کرے" یا اس امکان پر کہ "ممکن ہے مستقبل میں سائنس کی رو سے ثابت ہوجائے کہ نظر بد یا جن کا وجود وہم و خام خیالی ہے" یا یہ کہ "لفظ روح ریشہ ریح سے ہے" قرآن کے حقائق کا انکار کیا جاسکتا ہے، جبکہ ان میں سے بعض قرآن میں کئی مرتبہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں؟!

سائنسی یقینی معلومات کو قبول کرنا بہت عمدہ ہے نیز تفسیر آیات قرآن کا ایک قرینہ عقلی اور حتمی سائنسی دلائل ہیں، لیکن سائنس کا بخار یا سائنس زدگی( scientism) پسندیدہ اور اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس بنیاد پر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دن قرآن کے مطالب سائنس کے ذریعے رد ہوجائیں، ابھی سے قرآن کی آیات کی تاویل اور تفسیر بہ رای کرنا شروع کردی جائے۔ اور بغیر کسی عقلی، نقلی یا یقینی سائنسی دلیل کہ کہیں: "بہتر ہے کہ کہا جائے جن اور جادو سے مراد وہی اندھیری رات کے ڈھلنے پر رشک یا حسد ہے، نیز نظرِ بد سے مراد خواتین کی آنکھو ں کا وہم و بدبینی ہے"!

یہ نقطہ نظر غیرمسلم دانشمندوں کے علمی کے مقام کے شایان شان نہیں، چہ جائیکہ مسلمان ارباب علم جو کہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اس قسم کے غیر موزوں اشکالات و اعتراضات پیش کریں!

٩۔ پاگل پن

آیت:" ٱلَّذِي يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيۡطَٰنُ مِنَ ٱلۡمَسِّۚ"( سور ہ بقر ہ ٢٧۵)

کے بارے میں چند مطالب کی جانب اشارہ ہے:

ایک: اسلامی اصطلاح میں لفظ "شیطان" ہر باغی اور شریر مخلوق من جملہ جن، انسان اور دوسرے جاندار کے معنی میں ہے۔ اسی وجہ سے یہ لفظ اکثر اوقات "ابلیس" اور کبھی دیگر شریر موجودات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ جراثیموں کو بھی شیطان کہا جاتا ہے۔

( راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مادہ "شطن"/ سید علی اکبر قریشی، قاموس قرآن، ج ۴، ص ٣٣/ احمد اھتمام، فلسفہ احکام، ص٢١٦ و ٢١٧ )

بس ممکن ہے " مسّ شیطان " سے مراد خبیث اور شریر مادی و دنیوی عوامل ہوں۔ اس بنا پر لغوی اور تفسیری احتمالات میں کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں، کیونکہ قرآن پاگل پن اور دیوانگی کی نسبت ابلیس سے نہیں دے رہا بلکہ اسے مادی اور طبیعی عوامل سے مربوط جانتا ہے۔

دو: ممکن ہے پاگل پن کے مرض میں عوامل مادی اور غیر مادی(جیسے شیطان) شامل ہوں۔ نیز ان عوامل کی نفی پر کوئی دلیل بھی موجود نہیں۔ بس اتنا ممکن ہے کہ کہا جائے غیر مادی عوامل ابھی علوم تجربی و سائنس کے ماہرین نے کشف نہ کیے۔ یعنی ممکن ہے پاگل پن کی کئی اقسام ہوں کہ جن میں سے بعض میں مادی عوامل اور بعض میں غیر مادی عوامل اثر رکھتے ہوں۔ لہذا اس مسئلے میں شیطان جیسے عامل کی نفی نہیں کی جاسکتی۔

تین: زیر بحث مورد میں قرآن کا مقصد پاگل پن اور مجنونیت کی تعریف بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصود یہ ہے کہ سودخور وں کو ایسے افراد سے تشبیہ دی جائے جو شیطان کے تحتِ تاثیر آچکے ہیں نیز اس بات کی نفی میں کوئی دلیل موجود نہیں۔ فقط اتنا کہا جاسکتا ہے: یہ فرہنگ عرب میں رائج ایک مشہور مثال ہے۔ درحقیقت یہ ایک اشارہ اور منطقیوں کے بقول "عنوان مشیر" ہے، جیسے مثلاً فارسی زبان میں ذہنی مریضوں کو دیوانہ کہا جاتا ہے یہاں تک کہ ماہر نفسیات ڈاکٹر بھی ان کے لیے اسی تعبیر کو استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ذہنی مریض افراد ایک خیالی موجود "دیو" کے زیر اثر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔

چار: ممکن ہے مذکورہ آیت میں "یتخبطه" کی تعبیر ٹھوکریں کھانا اور مست ملنگوں کی طرح آڑا ٹیڑھا چلنا یا کسی چیز کو بری طرح چاہنے کے معنی میں ہو۔ بعض لغت دانوں نے اس آیت کے لیے دونوں معنی کو قبول کیا ہے۔

( دیکھیے: راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مادہ "خبط")

لہذا ممکن ہے آیت کی مراد پاگل نہ ہو، بلکہ سود خور کو ایسے شخص سے تشبیہ دی جارہی ہو کہ جسے شیطان بری طرح اپنی جانب کھینچ رہا ہو۔

پانچ: اس آیت کے لیے مفسروں نے مندرجہ ذیل نظریات پیش کیے ہیں:

الف) آیت کی مراد انسان کے اعصابی مراکز میں جرثوموں کا داخل ہونا ہے جو دماغ کی سوزش اور نفسیاتی امراض کا باعث بنتے ہیں۔

( دیکھیے: طالقانی، تفسیر پرتوی از قرآن، ذیل آیت ٢٧۵ سورہ بقرہ)

ب) آیت کی مراد مختلف وہموں میں ڈالنے کے لیے شیطان کے وسوسے ہیں، یعنی مثلاً لالچ و حرص جیسے مادی عوامل کا اثر جو انسان کو پاگل کردیتا ہے۔ یہ عوامل مادی عوامل کی عرض ( دیکھیے: ایضا /ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج٢، ص٢٠١ )

یا طول میں ہیں۔( سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن،ج٢، ص۵٧٦ )

ج) شیطان کی طرف پاگل پن کی نسبت دینا مجاز و کنایہ ہے، ورنہ پاگل پن کے عوامل مادی ہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے قاتل یا چور کے لیے کہا جاتا ہے پاگل ہوگیا ہے۔( طبرسی، مجمع البیان، ج ٣، ص ١٧٩ )

اسی وجہ سے یقینی طور پر آیت کی جانب یہ نسبت نہیں دی جاسکتی کہ آیت پاگل پن کو جن چڑھنے کا اثر متعارف کروا رہی ہے۔ نیز مفسرین قرآن نے بھی اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے، اور اگر بالفرض کوئی مفسر اس مورد میں غلطی کا شکار ہو تو یہ قرآن کی علمی خطا کی دلیل نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دلیل بھی موجود نہیں ہے جو پاگل پن میں غیرمادی عوامل جسے شیطان کے وسوسوں کا اثر ہونے کو رد کرے۔

١٠۔ حوروں اور جنت کے اوصاف

حوروں اور جنت کے اوصاف کے جائزہ میں چند نکات پیش خدمت ہیں:

ایک: اس مورد میں قرآن نے انسانی فطرت کے مطابق کلام کیا ہے؛ یعنی انسان چاہے ایران کے شمال کا ہو، یورپ کا ہو یا عربستان کا درختوں کی سرسبزی، باغوں اور خوبصورت و حسین ہمسفر کو پسند کرتا ہے۔ ممکن ہے یہ پسندیدگی مختلف علاقوں کے لوگوں میں کم و زیادہ ہو لیکن اس کا پایا جانا تمام انسانوں میں ہے۔ چنانچہ قرآن کی بیان کی گئی جنت "عربوں کی جنت" نہیں ہے اور قرآن نے ہرگز "عربوں کے خیام میں حوریں" جیسی تعبیر کا ذکر نہیں کیا ہے۔

دو: "حورالعین" کی تعبیر آنکھوں کے بے انتہا سفید اور خوبصورت ہونے کے معنی میں ہے۔ کالی آنکھوں کے معنی میں نہیں ہے۔

( دیکھیے: حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن کریم، ج٨، ص٢٨۴)

تین: بعض اوقات یہ تعبیریں ان حقائق کی لذت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جو جنت میں موجود ہیں۔

١١۔ تائید کردہ احکام

قرآن پاک میں پچھلی اقوام کے تائید کردہ احکام کی موجودگی کی نفی نہیں کی جاسکتی، اسی طرح اس میں جدید احکام بھی موجود ہیں۔ لیکن یہ بات ہرگز عربوں کے خرافاتی عقائد قبول کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔

بلکہ یہ عربوں کے فرہنگ سے مثبت و صحیح عناصر کا انتخاب اور چناؤ ہے جو کہ غالباً پچھلے انبیاء اور الٰہی ادیان کی وراثت سے ان تک پہنچے تھے، جیسے حج۔

احکام کے موضوعات اور مصداقوں میں زمانی و مکانی شرائط کی تاثیر کو آیت اللہ خمینی نے بھی بیان کیا ہے، یعنی یہ ایک حقیقت ہے۔ اس بارے میں کانفرنس اور سیمنار بھی برپا ہوچکا ہے نیز بہت سی کتابیں اور مضامین لکھے جاچکے ہیں۔

( دیکھیے: محمد علی رضایی اصفہانی، "دیدگاہ دربارہ تاثیر عنصر زمان و مکان در اجتھاد"، مجموعه مقالات کنگره زمان و مکان، دوم )

لیکن یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ ہر کوئی بغیر کسی قائل کنندہ دلیل کے قرآن کے احکام کے بارے میں دعویٰ کرے کہ یہ اپنی عملی حیثیت کھوچکے ہیں، بلکہ اس مسئلہ کی تشخیص ماہرین(فقہاء کرام) پر ہے اور محکم اور قائل کنندہ دلیلوں کی محتاج ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے دور میں جب تمام مسائل مہارت پر مبنی ہیں، ہر شخص خود کو قرآن و اسلام کے مسائل کے بارے میں اظہار خیال کی اجازت دیتا ہے اوراپنی مرضی کے مطابق دلچسپ نتائج بھی اخذ کرلیتا ہے۔

مثال کے طور پرجناب معترض "مجرموں کو سنگسار کرنے" کو قرآن کے تائیدی احکام کی صف میں بیان کرتے ہیں جبکہ یہ مطلب قرآن میں نہیں ہے۔

( رجم(شادی شدہ زانیہ کو سنگسار کرنا) کا مسئلہ شیعہ روایات میں بیان ہوا ہے۔ دیکھیے: حر عاملی، وسائل الشیعہ، ابواب حد الزنا، باب اول، ج١)

وہ ابتداء میں محتاط طریقے سے یعنی "ممکن ہے" یا "یوں تصور کیا جاسکتا ہے" سے بات شروع کرتے ہیں، لیکن اپنے مضمون کے آخر میں، انہی امکانات اور تصور سے ایک یقینی و قطعی نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں اور سب کو عقل سے کام لینے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ کتاب و شریعت کے سرورق، جِلدوں اور عبارت سے نکل کر دین کے لب لباب تک پہنچیں اور الٰہی روشنی کی طرف مائل ہوں، لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ دین و شریعت کے سرورق، جِلدوں اور عبارت سے ان کی کیا مراد ہے۔ آیا انہی ظاہری احکام جیسے حجاب، رجم اور سود وغیرہ کی بات کررہے ہیں؟ بظاہر ان کا کلام انہی مسائل کے باب میں ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ ہدایت اور دین کے لب لباب سے ان کی کیا مراد ہے۔ کیا ہدایت الٰہی اسی قرآن کے ذریعے نہیں ہے اور کیا وہ فردی، اجتماعی اور گھریلو قوانین کہ جو پانچ سو سے زیادہ موارد "آیات الاحکام" میں بیان ہوئے ہیں الٰہی ہدایت کا حصہ نہیں ہیں ؟!

یوں لگتا ہے بعض افراد انتہائی ہوشیاری سے قرآن کو اجتماعی منظر سے ہٹا کر فقط مسجد کے طاقچوں تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔

وہ قرآن کہ جو اپنی علمی حیثیت کھو چکا ہو سیاست، معیشت، اجتماع یا حتی گھریلو قوانین کے میدانوں میں مداخلت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر(ص)قیامت کے دن اس کی تنہائی کے بارے میں ایسے شکایت کریں گے:

يَٰرَبِّ إِنَّ قَوۡمِي ٱتَّخَذُواْ هَٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ مَهۡجُورا" ( سورہ فرقان ٣٠ )

دوسری بات یہ کہ قرآن میں بہت سے علمی مطالب موجود ہیں کہ جو اس کے علمی معجزہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ نہیں معلوم اس حقیقت کے منکر افراد قرآن کی ان دو ہزار سے زیادہ آیات کہ جو طبیعت پر اشارہ کرتی ہیں؛

( دیکھیے: مھدی گلشنی، قرآن ا علوم طبیعت/کتابهای بنیاد پژوھش‌ھای قرآنی حوزہ و دانشگاہ)

نیز ان مقامات کی جہاں سورج( سورہ یس ٣٨) اور پہاڑوں( نمل ٨٨) کی حرکت کا ذکر ہے کیا توجیح پیش کریں گے۔

١٢۔ قمری‌ و‌ شمسی کیلنڈر، قریش کی انس و الفت وغیرہ

قرآن مجید نے کہیں قمری‌ مہینوں کی جانب اشارہ کیا ہے اور کہیں شمسی پر۔( یوسف ۴٧ و ۴٨)

(جب زرعی سالوں کا ذکر کرتا ہے تو لازمی طور پر شمسی سال کا حوالہ دیتا ہے)۔ نہ صرف یہ کہ مخصوص عدد استعمال کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ قمری کیلنڈر سب سے زیادہ قدرتی ماہانہ کیلنڈر ہے کہ جس سے ہر کوئی بہرمند ہوسکتا ہے۔

سورہ قریش میں سردیوں اور گرمیوں میں قریش کی سفر کرنے سے انس و الفت کی یاد دہانی اور انہیں الٰہی نعمتیں یاد دلانا نیز ان نعمتوں پر عبادت اور شکرگزاری کا لازم ہونا خصوصیات کے الغا کے ساتھ تمام اقوام اور نعمات کے شامل حال ہے، اورانتہائی مفید اور سبق آموز ہے۔

اسی طرح پیغمبر(ص)کی ازواج مطہرات کے حالات پر اشارہ کلی ہونے اور خصوصیت کے الغا کے ساتھ طول تاریخ میں تمام الٰہی رہبروں کے شامل حال ہے اور الٰہی رہبروں اور ان کی زوجاٍ ؤں کے لیے سبق ہے۔

توحیدی موضوعات کے بارے میں جیسے اونٹ کو دیکھنا کہ جو آسمان اور پہاڑوں کے مشاہدے کے ذکر کے ساتھ آیا ہے حیاتیات، کاسمولوجی اور ارضیات پر اشارہ ہے کہ جو خداشناسی کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اونٹ کا وجود اور اس کی تخلیق کے عجائب خدا کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ جو ساری دنیا کے لیے قابل مطالعہ غور و فکر طلب ہے۔

دوسرا نظریہ: عرب ثقافت کے درست عناصر کی تائید اور منفی عناصر کا رد

درست یہ ہے کہ کہا جائے قرآن کریم نے اپنے زمانے کے فرہنگی و ثقافتی عناصر کے ساتھ تین طرح کا ردعمل کیا ہے:

الف) قرآن نے عرب ثقافت کے مثبت عناصر کو، کہ جن کی اصل ابراہیمی ادیان سے تھی اور صحیح بنیاد رکھتے تھے قبول کیا ہے۔ نیز انہیں بہتر بنایا اور ارتقاء دیا ہے۔ اس کی مثالیں فقہی مسائل میں حج ابراہیمی اور لعان، نیز عقائد میں جن و جادو وغیرہ پر اعتقاد میں بیان ہوتی ہیں۔

شایانِ ذکر ہے کہ موجودہ سائنس یا بعض علماء کا ماورائے طبیعت موجودات(جن میں خدا، جن اور فرشتے وغیرہ شامل ہیں) پر یقین نہ رکھنا، ان عقیدوں کے باطل ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مطالب دینی حقائق ہیں کہ جو اپنے مقام پر خاص طریقوں سے ثابت ہیں۔ اس دعوے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے کیونکہ آج کی دنیا میں "پیرا سائیکولوجیکل" سائنسز انہی مسائل سے نبردآزما ہیں اور نہ صرف ان کی نفی نہیں کرتے بلکہ انہیں مطالعہ و تحقیق کا موضوع بھی بناتے ہیں۔( دیکھیے: مصطفی ملکیان، مسائل جدید کلام)

اسی طرح صرف یہ امکان کہ مستقبل میں سائنس ان مطالب کے باطل ہونے کو ثابت کردے گی اور انہیں سائنس اور قرآن کے ٹکراؤ کے مصادیق میں سے قرار دے گی، قرآن کے ظاہر اور مسلم نظریات سے ہاتھ اٹھانے کی دلیل نہیں بنتا۔ یوں لگتا ہے بعض افراد کی سائنس اور دین میں ظاہری ٹکراؤ کے حل کی جواب دہی میں نااہلی ان ابحاث کے وجود میں آنے کا سبب بنی ہے۔ اس طرح کہ جو ابھی ہوا ہی نہیں اور جو چیز ثابت نہیں ہوئی اس سے بچنے کے لیے جلد ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہیں اور حاضر ہیں کہ کہیں قرآن ان معاملات میں اس وقت کے فرہنگ و ثقافت اور لوگوں کی زبان کے تابع تھا۔

ب) قرآن منفی عناصر اور بدو عربوں کے خرافات کو قبول نہیں کرتا، بلکہ انہیں رد کرتا ہے یا ان کی جانب بلکل بھی توجہ نہیں کرتا۔ قرآن کریم نزول قرآن سے پہلے کے زمانے کو

"الجا ھ یلة الاولی " ( سور ہ احزاب ٣٣)

کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے:

أَفَحُكۡمَ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِ يَبۡغُونَۚ وَمَنۡ أَحۡسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكۡما( سورہ مائدہ ۵٠ )

کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں جب کہ صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔

مثالیں:ان موارد کی فہرست کہ جو جاہلانہ نظریات و احکام کی بنیاد پر نزول قرآن کے وقت فرہنگ عرب میں شامل تھے اور قرآن نے ان سے مقابلے کے لیے پرچم بلند کیا، مندرجہ ذیل ہے:( مصطفی حسینی طباطبائی، "زبان قوم، نه فرھنگ ایشان"، رسالہ بینّات،بین ش٦، ص١٢۵ و ١٢٦)

١۔ بدو عربوں کی عبادت

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِندَ ٱلۡبَيۡتِ إِلَّا مُكَآء وَتَصۡدِيَةۚ فَذُوقُواْ ٱلۡعَذَابَ بِمَا كُنتُمۡ تَكۡفُرُونَ" (انفال ٣۵)

ان کی تو نماز بھی مسجد الحرام کے پاس صرف تالی اور سیٹی ہے لہذا اب تم لوگ اپنے کفر کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھو۔

٢۔ فضول قوانین کا رد

دور جہالت میں جو کوئی بھی اپنی بیوی سے " ظھرك عليّ کظھر امی " تمھاری پشت میرے لیے میری ماں کی پشت جیسی ہے" اس کی بیوی اس کے لیے حرام ہوجاتی تھی، قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

مَا جَعَلَ أَزۡوَٰجَكُمُ ٱلَّـٰٓـِٔي تُظَٰهِرُونَ مِنۡهُنَّ أُمَّهَٰتِكُمۡۚ وَمَا جَعَلَ أَدۡعِيَآءَكُمۡ أَبۡنَآءَكُمۡ( سور ہ احزاب ۴ )

اور تمھاری وہ بیویاں جن سے تم ظہار کرتے ہو انہیں تمھاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے اور نہ تمھاری منہ بولی اولاد کو اولاد قرار دیا ہے۔

٣۔ جنات کو خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دینے کے جاہلانہ عقائد کا رد

قرآن عربوں کے جنات کے بارے میں مشرکانہ و جاہلانہ عقائد مسترد کرتا ہے اور فرماتا ہے:

وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلۡجِنَّ وَخَلَقَهُمۡۖ وَخَرَقُواْ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَٰتِۭ بِغَيۡرِ عِلۡمۚ سُبۡحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ"( سور ہ انعام ١٠٠)

اور ان لوگوں نے جنات کو خدا کا شریک بنادیا ہے حالانکہ خدا نے انہیں پیدا کیا ہے پھر اس کے لئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کردی ہیں۔ جب کہ وہ بے نیاز اور ان کے بیان کردہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔

۴۔ جاہلانہ احکام اور رسوم کی خلاف ورزی

قرآن کریم عربوں میں رائج بتوں کے نام پر نذرانہ چڑھانے کی رسومات جیسے بحیرہ، سائبہ، وسیلہ اور حام کو رد کرتا ہے،( سورہ مائدہ ١٠٣) اپنے جانوروں اور فصلوں میں سے خدا کے لیے حصہ قرار دینے کو ایک باطل نظریہ قرار دیتا ہے( سورہ انعام ١٣٦ )کنیزوں کو فحاشی کی سمت لے جانے سے روکتا ہے( سورہ نور٣٣ )

سودخوری خاص طور پر دوگنا منافع لینے کو رد کرتا ہے( سورہ آل عمران ١٣٠ )

اور نوزائیدہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کو مسترد کرتاہے۔

(سورہ انعام ١ ۵ ١/ اسراء٣١/تکویر٨و٩ ،نیز دیکھیے: مجلہ بینّات، ش ۵ ، ص٩ ۴)

۵۔ فرشتوں کے بارے میں خرافاتی عقائد کا رد

قرآن عربوں کے فرشتوں کے خدا کی بیٹیاں ہونے کے عقیدہ کو مسترد کرتا ہے۔( سورہ نجم٢١۔٢٧ )

اس پر تعجب آور بات یہ ہے کہ بعض مصنفوں نے قرآن میں خدا کی بیٹیوں کے ذکر کو، قرآن پر اشکلات کی صف میں ذکر کیا ہے۔

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور")

٦۔ دور جہالت کی پست اخلاقیات کی مذمت

مثلاً بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا۔( سورہ تکویر ٩)

ج) قرآن نے اپنے بلند مطالب کو سمجھانے کے لیے قوم کی زبان، ان کی تشبیہوں اور لغات سے استفادہ کیا ہے۔

انبیاء اپنے بلند مطالب اور عالی، معنوی و عقلانی مفاہیم کو سمجھانے کے لیے، اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ لوگ انپڑھ اور علمی مسائل سے ناآشنا تھے اپنے مقصد کی جانب متوجہ کرانے کے لیے معاشرے میں رائج تشبیہوں، محاوروں، کنایوں، عام زبان اور معمولی الفاظ سے استفادہ کرتے تھے۔ با الفاظ دیگر لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بول چال کرتے تھے۔ قرآن بھی اس طریقے کو جاری رکھتا ہے۔ اور یہ وہی چیز ہے جسے قوم اور زمانے کے فرہنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر حضرت ابراہیمؑ کے نمرود سے مناظرے نیز ذہنی مریضوں، زقوم کے پھل کی شیطانوں کے سروں سے تشبیہ، مختلف قسموں اور لفظی توبیخ کی تعبیروں اور داخل شدہ الفاظ سے استفادہ اسی گروہ سے ہے۔

یہاں اس نکتے کی جانب توجہ کرنا ضروری ہے کہ کسی بھی شخص کا ایک زبان کی رائج تعبیروں، کنایوں اور عناوین سے استفادہ اس قوم کے عقیدتی اور علمی نظریات کو قبول کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔

مثال کے طور پر لفظ "دیوانہ" کہ جو فارسی میں رائج ہے ذہنی مریض افراد پر دیو کے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے کہ کہا جائے قرآن نے سائنس کے برخلاف مطالب بیان کیے ہیں اور اس زمانے کے علمی نظریوں جیسے نظام بطلیموس یا جالینوس کی طب کے مطابق کلام کیا ہے۔

نتیجہ

پہلے نظریے کے اثبات پر کوئی دلیل نہیں ہے اور بیان شدہ مثالیں و نمونے نامکمل اور ناکافی ہیں۔ اس نظریہ کی انتہا قرآن کا مؤدبانہ انکار ہے اور لوگوں کی علمی و عملی زندگی سے قرآن کو باہر نکالنا ہے۔

دوسرا نظریہ اعتدال کی راہ پر ہے اور درست ہے۔ یعنی قرآن مجید نے فرہنگ عرب کے ان مثبت عناصر کو کہ جن کی اصل ابراہیمی ادیان سے ملتی تھی زندہ کیا ہے اور انہیں تکامل و رشد و نمو بخشا ہے۔ البتہ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ قرآن نے تاثیر لی ہے یا عرب معاشرے سے مطالب قرض لیے ہیں، بلکہ اس کا مقصد سنت الٰہی جیسے حج کا احیاء ہے۔

اسی طرح قرآن نے فرہنگ عرب کے بعض عناصر کہ جو غیر معقول، غیرعادلانہ اور شریعت کے مخالف تھے ان سے مقابلہ اور ان کا انکار کرتا ہے۔

بعض کنایوں، استعاروں، محاوروں اور رائج لغات سے بھی مقصد پہنچانے کے لیے کام لیا جاتا ہے۔ البتہ یہ تیسرا حصہ اپنا مقصد بیان کرنے کے لیے فرہنگ سے کام لینے کا ہے اور اس معنی میں نہیں ہے کہ غلط عناصر، نظریات اور سائنسی و علمی غلطیوں کی تائید کی ہے۔ بلکہ ان سے صرف اشارہ کرنے کی حد تک فائدہ اٹھایا ہے۔ یعنی یہ مطلب اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ قرآن کسی خاص فرہنگ، قوم یا سرزمین سے وابستہ ہے۔

بلکہ یہ جہانی اور جاویدان ہے اور اگر آیات میں سرزمین حجاز کے فرہنگ اور قوم کی طرف اشارہ ہے تو یہ الغا خصوصیت کے قابل ہے۔