آثار
ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی نے علوم قرآن اور مختلف شبہات قرآن کے موضوعات کی خاص اہمیت کی وجہ سے ان موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ڈاکٹر رضائی اصفہانی کی اب تک علومِ اسلامی کے مختلف موضوعات پر تقریباً ۷۰ کتابیں اور ۱۳۰ مقالہ چھپ کر مختلف مقامات پر نشر ہوچکے ہیں۔ آپ کی چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
● پژوهشی در اعجاز علمی قرآن
● درآمدی بر تفسیر علمی قرآن
● سیمای سورہهای قرآن
● درسنامه روشها و گرایشهای تفسیری قرآن
● القرآن الکریم (ترجمہ رضایی)
● علوم قرآن ۲( اعجاز قرآن در علوم طبیعی و انسانی)
● پرسش و پاسخ های قرآنی
● پرسش های قرآنی جوانان
علمی سرگرمیاں
١۔ ڈاکٹر رضائی اصفہانی جامعه المصطفی العالمیه کے علمی بورڈ کے منبر ہیں۔ نیز حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز میں تفسير و علوم قرآن کے جانے مانے استاد ہیں. نیز آپ نے ۱۳۹۰ش میں ایران کے بہترین استاد اور مثالی استاد کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔
٢۔ سال ۱۳۸۴ش میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کی مدد سے میں قرآن کریم کا پہلا گروہی ترجمہ کر کے نشر کروایا۔ جو کہ ملک بھر کے قرآنی علمائے کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔
۳۔ سال ۱۳۸۲ش میں حوزہ اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کی مدد سے حوزہ علمیہ قم میں قرآنی تحقیقات کی پہلی علمی کمیٹی تشکیل دی۔
۴۔ ٹی وی پر بہت سے قرآنی پروگرام جاری کیے جیسے سورہ لقمان، سورہ حدید، سورہ یوسف وغیرہ کی تفسیر کے ۱۱۴ پروگرام نیز ریڈیو پر پچھلے چار سال سے "شمیم رحمت" کے نام سے تفسیری پروگرام منعقد کرنا، دو سال ریڈیو معارف پر قرآنی سوالات کے جوابات کا ،سلسلہ اس کے علاوہ قرآن اور سائنس کے مباحث پر ریڈیو معارف کے تبیان پروگرام کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔
۱۳۸۶ش میں آپ نے میڈیا کے سب سے موثر و رتبہ اول کے مبلغ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
۵ ۔ملک بھر کے پہلے قرآنی تحقیقی مرکز کی بنیاد ڈالی۔ یہ مرکز "مركز پژوهشی قرآن كريم المهدي" کے نام سے دو گرہوں "قرآن و علم" اور "قرآن و مستشرقين" میں قائم ہوا۔
اس مرکز کی طرف سے اب تک ۱۲۰ جلد کتابیں اور کئی میگزین، ایپلیکیشنز اور CD منظر عام پر آچکی ہیں۔
٦۔ جامعہ المصطفی العالميہ میں كارشناسی کی سطح پر "علوم قرآن و حديث" ، كارشناسی ارشد کی سطح پر "تفسير و علوم قرآن" ، "علوم حديث" ، "علوم و فنون قرائات" اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر چند جدید فیلڈز جیسے "تفسير تطبيقی"، "علوم حديث تطبيقی"، "قرآن و مستشرقان" اور "قرآن و علوم" کی تقسیم بندی انجام دی۔
٧۔ قرآن اور سائنس کی مباحث پر خاص توجہ۔
٨۔ بہت سے علمی میگزین کا آغاز۔
٩۔ قرآنی تحقیقات کی ویب سائٹ کا آغاز ۔
(quransc.com)
نیز قرآن، سائنس اور مستشرقان کے موضوع پر ایک اور علمی ویب سائٹ بنائی (quran-journal.com)
١٠۔ تفسیری مباحث، قرآنی سوال جواب اور قرآنی آثار وغیرہ پر کئی CD بنا کر منظر عام پر پہنچائیں۔
١١۔ ۱۳۸۶ش میں قم میں "تربيت مدرس" اور "تربيت محقق تفسير و علوم قرآن" کے دوروں اور شارٹ کورسز کا آغاز گیا۔
۱٢۔ قرآن کریم کے المھدی دورہ کا آغاز کیا۔
١٣۔ المصطفی اوپن یونیورسٹی میں گروہ مطالعات قرآنی کا آغاز کہ جو اب کارشناسی اور کارشناسی ارشد کی سطح پر چار زبانوں فارسی، عربی، اردو و انگلیسی میں جاری ہے۔
ڈاکٹر سروش
حسین حاجی فرج الله دبّاغ معروف بہ عبدالکریم سروش، ۲۵ آذر ۱۳۲۴ ش کو تہران میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر سروش ایک ایرانی مصنف، مترجم، فلسفی اور روشنفکر ہیں۔ ڈاکٹر سروش نے تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں فارمیسی اور لندن یونیورسٹی میں تجزیاتی کیمسٹری اور فلسفہ سائنس کی تعلیم حاصل کی۔
ڈاکٹر سروش جان ڈبلیو کلوج سینٹر (John W. Kluge Center ) کی لائبریری میں مدعو محقق اور پرنسٹن، ییل، ہارورڈ اور ایمسٹرڈیم یونیورسٹیوں کے وزیٹنگ پروفیسر، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سینٹر فار ریلیجن، پیس اینڈ گلوبل ایکٹیویٹیز کے وزٹنگ ریسرچر رہے ہیں۔ انہوں نے ان یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ اور مولانا رومی شناسی کے دروس پڑھائے ہیں۔ ۲۰۰۴ میں انہوں نے دو دیگر مفکرین کے ساتھ مل کر ایراسمس ایوارڈ اپنے نام کیا۔ ۲۰۰۵ میں عبدالکریم سروش کو ٹائم میگزین نے دنیا کے ۱۰۰ بااثر افراد میں سے ایک کے طور پر منتخب کیا۔
ڈاکٹر سروش اپنے نظریات کو کلام جدید کا نام دیتے ہیں اور اپنے اسلامی فلسفہ کو نو معتزلی کہتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں، بی بی سی فارسی ویب سائٹ نے انہیں سب سے زیادہ متنازعہ مذہبی دانشور اور گزشتہ تین دہائیوں کے سب سے زیادہ بااثر شیعہ فقیہوں میں سے ایک اور اصلاح پسند روشن خیال تحریک کا رہنما قرار دیا ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر سروش نے فارسی ادب کے میدان میں بھی بہت زیادہ کام اور تحقیقات کی ہیں۔ اور ان کا شمار موجودہ مولانا رومی شانسوں میں ہوتا ہے۔ سروش نے کونیہ ورژن پر مبنی مولانا رومی کی روحانی مثنوی کی تصحیح بھی کی ہے جس کو بے حد سراہا گیا۔
عبدالکریم سروش کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام کی نت نئی تاویلیں اور تعبیرات پیش کریں۔ ان کے نظریات نے ہمیشہ سے علماء و طالب علم اور حوزہ علمیہ کی نمایاں شخصیتوں کی مخالفت کی ہے۔
ڈاکٹر سروش مذہبی تکثیریت اور قرآن اور وحی وغیرہ کے بارے میں نئے نظریات اور جدید تاویلات کے قائل ہیں۔ جس پر مراجعین تقلید اور فقہاء کرام کے اعتراضات ہائے جاتے ہیں۔ ( ۔ drsoroush.com )
وحی و قرآن
ڈاکٹر سروش کے روشن فکرانہ نظریات میں سے ایک وحی اور قرآن ہے جس کے بارے میں ان کے تصورات کچھ اس طرح ہیں :
ان کا دعویٰ ہے کہ مذہب سے متعلق تمام انسانی علم اور انسانی قیاسات تاریخی ہیں اور غلطی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن نہ صرف بعض تاریخی حالات کی پیداوار ہے جن میں اس کی تشکیل ہوئی ہے بلکہ یہ "پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن" اور ان کی تمام انسانی حدود کے مطابق ہے۔ وہ وحی کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقدس کشفیات و خیالات قرار دیتے ہیں۔ اور اس مورد میں "باغبان اور درخت کا تصور"، "قرآن کا محمدی ہونا" ، وحی اور حضرت جبرئیلؑ کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تابع ہونا" قرآن کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کشف اور مذہبی تجربہ ہونا" وغیرہ جیسی تعبیرات استعمال کرتے ہیں۔ الغرض ڈاکٹر سروش قرآن مجید کے وجود میں آنے میں پیغمبر اسلام کے کردار کو اصلی محور گردانتے ہیں۔ ( عبدالکریم سروش، خط طوطی و زنبور، ص ۵ )
ضرورت
ممکن ہے بعض افراد کے اذہان میں سوال اٹھے کہ پاکستانی معاشرے کا اس کتاب سے کیا کام، یہ کتاب اردو زبان معاشرے کے لیے کیوں انتخاب کی گئی ہے، یعنی ڈاکٹر سروش ایرانی ہیں اور ان کی ان باتوں اور شبہات کا پاکستانی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں! پھر یہ مطالب کس کام کے اور کتاب ہماری عوام کے کس کام آئے گی!؟
پاکستان میں شبہات قرآنی سے مربوط موضوعات پر کام کرنے اور قرآن کی حقانیت کے اثبات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان میں مختلف مذاہب اور فرقے موجود ہیں مثلاً اہل تسنن کے کئی فرقے جیسے وہابیت وغیرہ۔ یہ پائے جانے والے مختلف مکاتب فکر قرآن کے بارے میں مختلف نظریات اور شبہات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکِ پاکستان میں آج کل الحاد کی فکر بھی بہت زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور ملحدوں کی اپنے موقف پر ایک دلیل قرآن کا بشری ہونا ہے۔
شاید آپ کے علم میں نہ ہو پاکستان کے ایک "حارث سلطان" نامی مصنف کہ جو ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور چند سالوں پہلے تک مسلمان تھے ابھی مرتد اور ملحد ہوچکے ہیں اور اسٹرلیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھتے ہیں "The curse of God - Why I left Islam "
اور پھر خود ہی اپنی اس کتاب کا ترجمہ "خدا کی مصیبت" کے نام سے اردو زبان میں بھی کرتے ہیں۔ حارث سلطان اس کتاب میں اپنی خام خیالی کے مطابق ثابت کرتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، کوئی خدا وجود نہیں رکھتا! اور تمام مسلمان بالخصوص پاکستان کے مسلمان اس معاملے میں توہم پرست اور خرافاتی ہیں۔ نیز بیان کرتے ہیں کہ وہ خود کن وجوہات کی بناء پر اور کیسے مرتد ہوئے۔ ان کی کتاب ٢٠٢٠ میں چھپی ہے اور لوگوں بالخصوص جوان طبقے میں بہت مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ نیز وہ سوشل میڈیا وغیرہ پر بھی ایک اچھی خاصی تعداد کو اسلام سے متنفر کرنے اور الحاد کی جانب دعوت دینے میں سرگرم ہیں۔ حارث سلطان کا اہم ترین دعویٰ بھی قرآن کے محمدی ہونے یعنی پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایجاد ہونے اور قرآن اور سائنس کے ٹکراؤ کے بارے میں ہے۔ انہوں نے بھی تقریباً انہی موارد کی جانب اشارہ کیا ہے جن کی جانب ڈاکٹر سروش نے اشارہ کیا تھا۔ جیسے قرآن کا سات آسمان کا نظریہ، زمین اور آسمان کی خلقت، تمام موجودات میں قانون زوجیت کا دعویٰ، خلقتِ انسان، حضرت جبرئیلؑ کے وجود کا خیالی ہونا، قرآن کااپنے زمانے کےعربوں کی ثقافت سے تاثیر لینا، طب قرآن کا طب جالینوس سے ماخوذ ہونا وغیرہ۔
جب پاکستانی معاشرے میں روشن فکر اور آزاد خیال افراد یا حارث سلطان جیسے ملحد اور مرتد قرآن کریم کے خلاف مطالب پیش کرتے ہیں عوام کا ایک خاص طبقہ اسے بہت آسانی سے قبول کرلیتا ہے اور اس سے متاثر ہونا شروع کردیتا ہے کیونکہ وہاں اسطرح کے شبہات کی رد میں زیادہ کام نہیں ہوا ہے اوراسطرح کے قرآنی شبہات کی رد میں کوئی مستقل کتاب موجود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہ شبہات کہ جو ڈاکٹر سروش نے قرآن کریم پر وارد کیے ہیں اور استاد رضائی اصفہانی نے جو علمی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ قانع کرنے والے جوابات پیش کیے ہیں وہ کلی ہیں اور ہر اس شخص کے لیے ہیں جو قرآن کی حقانیت میں شک کرتا ہے یا اس میں شبہات وارد کرتا ہے۔
اس بنیاد پر کہ اردو زبان میں قرآن پر اٹھائے جانے والے جدید شبہات کی رد میں کوئی متقن کتاب نہیں پائی جاتی۔ ضروری سمجھا گیا کہ یہ کتاب "شبھات جدید قرآنی" لوگوں کے اختیار میں دی جائے تاکہ لوگ مکمل طور پر یقین رکھ سکیں اور مطمئن ہوسکیں کہ قرآن مجید سو فیصد الہامی و خدا کی آخری جاویدان کتاب ہے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے۔
ترجمہ ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں علمی ثقافت و میراث منتقل کرنے کا بہترین علمی طریقہ ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ علمی مراکز میں معتبر کتب کے ترجموں کو ترجیح دی جائے تاکہ دوسرے معاشروں کو بھی انحرافات سے بچایا جاسکے۔ اور چونکہ یہ کتاب ایک جامع اور قائل کرنے والی کتاب ہے اس لیے اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے تھا تاکہ دنیا کے تمام مسلمان ملحدوں، مرتدوں اور آزاد خیال مسلمانوں کے فتنوں اور شکوک و شبہات سے محفوظ رہیں۔
نیز ان شاء اللہ جلد ہی اس کتاب کو زیورِ طبع سے آراستہ کرکے طالب علوموں کے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور پاکستان کے مدارس میں علوم قرآن کی ایک کتاب کے عنوان سے تدریس بھی کروایا جاسکتا ہے۔