شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی0%

شبہات جدید قرآنی مؤلف:
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: فلسفہ

شبہات جدید قرآنی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی_ مترجم : ندا زہراء رضوی
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: مشاہدے: 23
ڈاؤنلوڈ: 2

شبہات جدید قرآنی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23 / ڈاؤنلوڈ: 2
سائز سائز سائز
شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com

آثار

ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی نے علوم قرآن اور مختلف شبہات قرآن کے موضوعات کی خاص اہمیت کی وجہ سے ان موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ڈاکٹر رضائی اصفہانی کی اب تک علومِ اسلامی کے مختلف موضوعات پر تقریباً ۷۰ کتابیں اور ۱۳۰ مقالہ چھپ کر مختلف مقامات پر نشر ہوچکے ہیں۔‌‌ آپ کی چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

● پژوهشی در اعجاز علمی قرآن

● درآمدی بر تفسیر علمی قرآن

● سیمای سورہ‌های قرآن

● درسنامه روش‌ها‌ و‌ گرایش‌های تفسیری قرآن

● القرآن الکریم (ترجمہ رضایی)

● علوم قرآن ۲( اعجاز قرآن در علوم طبیعی و انسانی)

● پرسش و پاسخ های قرآنی

● پرسش های قرآنی جوانان

علمی سرگرمیاں

١۔ ڈاکٹر رضائی اصفہانی جامعه المصطفی العالمیه کے علمی بورڈ کے منبر ہیں۔ نیز حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز میں تفسير و علوم قرآن کے جانے مانے استاد ہیں. نیز آپ نے ۱۳۹۰ش میں ایران کے بہترین استاد اور مثالی استاد کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔

٢۔ سال ۱۳۸۴ش میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کی مدد سے میں قرآن کریم کا پہلا گروہی ترجمہ کر کے نشر کروایا۔ جو کہ ملک بھر کے قرآنی علمائے کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔

۳۔ سال ۱۳۸۲ش میں حوزہ اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کی مدد سے حوزہ علمیہ قم میں قرآنی تحقیقات کی پہلی علمی کمیٹی تشکیل دی۔

۴۔ ٹی وی پر بہت سے قرآنی پروگرام جاری کیے جیسے سورہ لقمان، سورہ حدید، سورہ یوسف وغیرہ کی تفسیر کے ۱۱۴ پروگرام نیز ریڈیو پر پچھلے چار سال سے "شمیم رحمت" کے نام سے تفسیری پروگرام منعقد کرنا، دو سال ریڈیو معارف پر قرآنی سوالات کے جوابات کا ،سلسلہ اس کے علاوہ قرآن اور سائنس کے مباحث پر ریڈیو معارف کے تبیان پروگرام کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔

۱۳۸۶ش میں آپ نے میڈیا کے سب سے موثر و رتبہ اول کے مبلغ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

۵ ۔ملک بھر کے پہلے قرآنی تحقیقی مرکز کی بنیاد ڈالی۔ یہ مرکز "مركز پژوهشی قرآن كريم المهدي" کے نام سے دو گرہوں "قرآن و علم" اور "قرآن و مستشرقين" میں قائم ہوا۔

اس مرکز کی طرف سے اب تک ۱۲۰ جلد کتابیں اور کئی میگزین، ایپلیکیشنز اور CD منظر عام پر آچکی ہیں۔

٦۔ جامعہ المصطفی العالميہ میں كارشناسی‌ کی سطح پر "علوم قرآن و حديث" ، كارشناسی ارشد کی سطح پر "تفسير و علوم قرآن" ، "علوم حديث" ، "علوم و فنون قرائات" اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر چند جدید فیلڈز جیسے "تفسير تطبيقی"، "علوم حديث تطبيقی"، "قرآن و مستشرقان" اور "قرآن و علوم" کی تقسیم بندی انجام دی۔

٧۔ قرآن اور سائنس کی مباحث پر خاص توجہ۔

٨۔ بہت سے علمی میگزین کا آغاز۔

٩۔ قرآنی تحقیقات کی ویب سائٹ کا آغاز ۔

(quransc.com)

نیز قرآن، سائنس اور مستشرقان کے موضوع پر ایک اور علمی ویب سائٹ بنائی (quran-journal.com)

١٠۔ تفسیری مباحث، قرآنی سوال جواب اور قرآنی آثار وغیرہ پر کئی CD بنا کر منظر عام پر پہنچائیں۔

١١۔ ۱۳۸۶ش میں قم میں "تربيت مدرس" اور "تربيت محقق تفسير و علوم قرآن" کے دوروں اور شارٹ کورسز کا آغاز گیا۔

۱٢۔ قرآن کریم کے المھدی دورہ کا آغاز کیا۔

١٣۔ المصطفی اوپن یونیورسٹی میں گروہ مطالعات قرآنی کا آغاز کہ جو اب کارشناسی اور کارشناسی ارشد کی سطح پر چار زبانوں فارسی، عربی، اردو و انگلیسی میں جاری ہے۔

ڈاکٹر سروش

حسین حاجی فرج‌ الله دبّاغ معروف بہ عبدالکریم سروش، ۲۵ آذر ۱۳۲۴ ش کو تہران میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر سروش ایک ایرانی مصنف، مترجم، فلسفی اور روشنفکر ہیں۔ ڈاکٹر سروش نے تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں فارمیسی اور لندن یونیورسٹی میں تجزیاتی کیمسٹری اور فلسفہ سائنس کی تعلیم حاصل کی۔

ڈاکٹر سروش جان ڈبلیو کلوج سینٹر (John W. Kluge Center ) کی لائبریری میں مدعو محقق اور پرنسٹن، ییل، ہارورڈ اور ایمسٹرڈیم یونیورسٹیوں کے وزیٹنگ پروفیسر، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سینٹر فار ریلیجن، پیس اینڈ گلوبل ایکٹیویٹیز کے وزٹنگ ریسرچر رہے ہیں۔ انہوں نے ان یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ اور مولانا رومی شناسی کے دروس پڑھائے ہیں۔ ۲۰۰۴ میں انہوں نے دو دیگر مفکرین کے ساتھ مل کر ایراسمس ایوارڈ اپنے نام کیا۔ ۲۰۰۵ میں عبدالکریم سروش کو ٹائم میگزین نے دنیا کے ۱۰۰ بااثر افراد میں سے ایک کے طور پر منتخب کیا۔

ڈاکٹر سروش اپنے نظریات کو کلام جدید کا نام دیتے ہیں اور اپنے اسلامی فلسفہ کو نو معتزلی کہتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں، بی بی سی فارسی ویب سائٹ نے انہیں سب سے زیادہ متنازعہ مذہبی دانشور اور گزشتہ تین دہائیوں کے سب سے زیادہ بااثر شیعہ فقیہوں میں سے ایک اور اصلاح پسند روشن خیال تحریک کا رہنما قرار دیا ہے۔

بلاشبہ ڈاکٹر سروش نے فارسی ادب کے میدان میں بھی بہت زیادہ کام اور تحقیقات کی ہیں۔ اور ان کا شمار موجودہ مولانا رومی شانسوں میں ہوتا ہے۔ سروش نے کونیہ ورژن پر مبنی مولانا رومی کی روحانی مثنوی کی تصحیح بھی کی ہے جس کو بے حد سراہا گیا۔

عبدالکریم سروش کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام کی نت نئی تاویلیں اور تعبیرات پیش کریں۔ ان کے نظریات نے ہمیشہ سے علماء و طالب علم اور حوزہ علمیہ کی نمایاں شخصیتوں کی مخالفت کی ہے۔

ڈاکٹر سروش مذہبی تکثیریت اور قرآن اور وحی وغیرہ کے بارے میں نئے نظریات اور جدید تاویلات کے قائل ہیں۔ جس پر مراجعین تقلید اور فقہاء کرام کے اعتراضات ہائے جاتے ہیں۔ ( ۔ drsoroush.com )

وحی و قرآن

ڈاکٹر سروش کے روشن فکرانہ نظریات میں سے ایک وحی اور قرآن ہے جس کے بارے میں ان کے تصورات کچھ اس طرح ہیں :

ان کا دعویٰ ہے کہ مذہب سے متعلق تمام انسانی علم اور انسانی قیاسات تاریخی ہیں اور غلطی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن نہ صرف بعض تاریخی حالات کی پیداوار ہے جن میں اس کی تشکیل ہوئی ہے بلکہ یہ "پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن" اور ان کی تمام انسانی حدود کے مطابق ہے۔ وہ وحی کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقدس کشفیات و خیالات قرار دیتے ہیں۔ اور اس مورد میں "باغبان اور درخت کا تصور"، "قرآن کا محمدی ہونا" ، وحی اور حضرت جبرئیلؑ کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تابع ہونا" قرآن کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کشف اور مذہبی تجربہ ہونا" وغیرہ جیسی تعبیرات استعمال کرتے ہیں۔ الغرض ڈاکٹر سروش قرآن مجید کے وجود میں آنے میں پیغمبر اسلام کے کردار کو اصلی محور گردانتے ہیں۔ ( عبدالکریم سروش،‌ خط طوطی و زنبور، ص ۵ )

ضرورت

ممکن ہے بعض افراد کے اذہان میں سوال اٹھے کہ پاکستانی معاشرے کا اس کتاب سے کیا کام، یہ کتاب اردو زبان معاشرے کے لیے کیوں انتخاب کی گئی ہے، یعنی ڈاکٹر سروش ایرانی ہیں اور ان کی ان باتوں اور شبہات کا پاکستانی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں! پھر یہ مطالب کس کام کے اور کتاب ہماری عوام کے کس کام آئے گی!؟

پاکستان میں شبہات قرآنی سے مربوط موضوعات پر کام کرنے اور قرآن کی حقانیت کے اثبات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان میں مختلف مذاہب اور فرقے موجود ہیں مثلاً اہل تسنن کے کئی فرقے جیسے وہابیت وغیرہ۔ یہ پائے جانے والے مختلف مکاتب فکر قرآن کے بارے میں مختلف نظریات اور شبہات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکِ پاکستان میں آج کل الحاد کی فکر بھی بہت زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور ملحدوں کی اپنے موقف پر ایک دلیل قرآن کا بشری ہونا ہے۔

شاید آپ کے علم میں نہ ہو پاکستان کے ایک "حارث سلطان" نامی مصنف کہ جو ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور چند سالوں پہلے تک مسلمان تھے ابھی مرتد اور ملحد ہوچکے ہیں اور اسٹرلیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھتے ہیں "The curse of God - Why I left Islam " اور پھر خود ہی اپنی اس کتاب کا ترجمہ "خدا کی مصیبت" کے نام سے اردو زبان میں بھی کرتے ہیں۔ حارث سلطان اس کتاب میں اپنی خام خیالی کے مطابق ثابت کرتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، کوئی خدا وجود نہیں رکھتا! اور تمام مسلمان بالخصوص پاکستان کے مسلمان اس معاملے میں توہم پرست اور خرافاتی ہیں۔ نیز بیان کرتے ہیں کہ وہ خود کن وجوہات کی بناء پر اور کیسے مرتد ہوئے۔ ان کی کتاب ٢٠٢٠ میں چھپی ہے اور لوگوں بالخصوص جوان طبقے میں بہت مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ نیز وہ سوشل میڈیا وغیرہ پر بھی ایک اچھی خاصی تعداد کو اسلام سے متنفر کرنے اور الحاد کی جانب دعوت دینے میں سرگرم ہیں۔ حارث سلطان کا اہم ترین دعویٰ بھی قرآن کے محمدی ہونے یعنی پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایجاد ہونے اور قرآن اور سائنس کے ٹکراؤ کے بارے میں ہے۔ انہوں نے بھی تقریباً انہی موارد کی جانب اشارہ کیا ہے جن کی جانب ڈاکٹر سروش نے اشارہ کیا تھا۔ جیسے قرآن کا سات آسمان کا نظریہ، زمین اور آسمان کی خلقت، تمام موجودات میں قانون زوجیت کا دعویٰ، خلقتِ انسان، حضرت جبرئیلؑ کے وجود کا خیالی ہونا، قرآن کااپنے زمانے کےعربوں کی ثقافت سے تاثیر لینا، طب قرآن کا طب جالینوس سے ماخوذ ہونا وغیرہ۔

جب پاکستانی معاشرے میں روشن فکر اور آزاد خیال افراد یا حارث سلطان جیسے ملحد اور مرتد قرآن کریم کے خلاف مطالب پیش کرتے ہیں عوام کا ایک خاص طبقہ اسے بہت آسانی سے قبول کرلیتا ہے اور اس سے متاثر ہونا شروع کردیتا ہے کیونکہ وہاں اسطرح کے شبہات کی رد میں زیادہ کام نہیں ہوا ہے اوراسطرح کے قرآنی شبہات کی رد میں کوئی مستقل کتاب موجود نہیں ہے۔

اس کے علاوہ یہ شبہات کہ جو ڈاکٹر سروش نے قرآن کریم پر وارد کیے ہیں اور استاد رضائی اصفہانی نے جو علمی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ قانع کرنے والے جوابات پیش کیے ہیں وہ کلی ہیں اور ہر اس شخص کے لیے ہیں جو قرآن کی حقانیت میں شک کرتا ہے یا اس میں شبہات وارد کرتا ہے۔

اس بنیاد پر کہ اردو زبان میں قرآن پر اٹھائے جانے والے جدید شبہات کی رد میں کوئی متقن کتاب نہیں پائی جاتی۔ ضروری سمجھا گیا کہ یہ کتاب "شبھات جدید قرآنی" لوگوں کے اختیار میں دی جائے تاکہ لوگ مکمل طور پر یقین رکھ سکیں اور مطمئن ہوسکیں کہ قرآن مجید سو فیصد الہامی و خدا کی آخری جاویدان کتاب ہے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے۔

ترجمہ ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں علمی ثقافت و میراث منتقل کرنے کا بہترین علمی طریقہ ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ علمی مراکز میں معتبر کتب کے ترجموں کو ترجیح دی جائے تاکہ دوسرے معاشروں کو بھی انحرافات سے بچایا جاسکے۔ اور چونکہ یہ کتاب ایک جامع اور قائل کرنے والی کتاب ہے اس لیے اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے تھا تاکہ دنیا کے تمام مسلمان ملحدوں، مرتدوں اور آزاد خیال مسلمانوں کے فتنوں اور شکوک و شبہات سے محفوظ رہیں۔

نیز ان شاء اللہ جلد ہی اس کتاب کو زیورِ طبع سے آراستہ کرکے طالب علوموں کے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور پاکستان کے مدارس میں علوم قرآن کی ایک کتاب کے عنوان سے تدریس بھی کروایا جاسکتا ہے۔

موضوع کا تاریخی پس منظر

فارسی زبان میں

قرآن اور سائنس کے موضوع پر فارسی زبان میں بہت زیادہ مطالب موجود ہیں۔ نیز بعض تفاسیر میں سائنس سے مربوط آیات کے ذیل میں بھی سائنسی مطالب پیش کیے گئے ہیں یہاں تک کہ چند شیعہ و اہل سنت سائنسی اور علمی تفسریں بھی لکھی جاچکی ہیں (شیعہ:تفسیر‌ التبیان و المیزان‌- سنی: الجواهر فی تفسیر القرآن و جامع البیان)

جو کہ فارسی میں ہیں یا بعض عربی سے ترجمہ شدہ ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر رضائی اصفہانی کی طرح بعض دیگر مصنفوں نے بھی اس موضوع پر کتابیں تالیف کی ہیں۔اس موضوع سے متعلق چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں :

● موریس بوکایل، مترجم محمد رضا طیب زاده «قرآن و علم»، بعثت، ۱۳۸۳ ش؛ اس کتاب میں مصنف قرآن کے سائنسی معارف بیان کرتے ہیں من جملہ خلقت آسمان و زمین، ستاره شناسی وغیرہ۔

● سید شمس الدین اطهاری و مهدی تقوی ملائی و دنیا نیک آئین، «تبلور علم در قرآن»، انتشارات آوای نور،‌ ۱۳۹۵ ش؛ اس کتاب میں سائنس سے متعلق آیات اور روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مراد یوسفی، «قرآن و علم تضاد یا تطابق»، نشر احسان ۱۴۰۰ ش؛ اس کتاب میں مصنف اسلام دشمن افراد کی جانب سے کیے جانے والے ۴۳ شبہات اور سائنس اور قرآن میں ٹکراؤ کے دعوے کے علمی اور عقلی جوابات بیان کرتے ہیں۔

اردو زبان میں

● ڈاک ٹ ر طاہر القادری، اسلام‌‌ اور جدید سائنس، منہاج القرآن پبلیکیشنز ؛ ۲۰۰۱ م؛ اس کتاب میں علامہ طاہر القادری صاحب نے قرآن میں موجود سائنسی حقائق بیان کیے ہیں۔

● عبدالعلی و ظفر الاسلام ،قرآن اور سائنس، علوم‌ اسلامیہ علی گڑھ ؛مسلم یونیورسٹی انڈیا، ۲۰۰۳ م؛ یہ کتاب سائنس اور قرآن کے موضوعات پر مبنی علمی مقالوں کا مجوموعہ ہے۔

● ڈاکٹر ذاکر نائیک، مترجم ڈاکٹر تصدیق حسین راجا ، قرآن اور سائنسی دریافتیں، بی چا، ۲۰۰۹ م؛ اس کتاب میں ذاکر نائیک نے قرآن اور سائنس میں ہم آہنگی بیان کی ہے اور قرآن میں موجود سائنسی نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔

طرہ امتیاز

ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی کی کتاب "شبهات جدید قرآنی" کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ نے دور حاضر کے آزاد خیال لوگوں اور ملحدوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سائنسی قرآنی شبہات کا رد پیش کیا ہے۔ اور انہی مصداقوں کا علمی جائزہ پیش کیا ہے جو دور حاضر کے آزاد خیالوں اور ملحدوں و مرتدوں کی جانب سے قرآن پر اٹھائے جاتے ہیں۔ نیز ڈاکٹر رضائی نے خود آیات قرآنی سے استدلال کر کے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم اور موجودہ دور کے علمی و سائنسی معارف میں کسی قسم کا حقیقی ٹکراؤ نہیں پایا جاتا۔

ترجمہ کی روش

یہ ترجمہ "مولانا ڈاکٹر بہادر علی زیدی صاحب" کی سرپرستی میں کیا گیا ہے۔ جو کہ زبان فارسی اور اردو دونوں پر تسلط رکھتے ہیں۔ اور تفسیری و علوم قرآنی مباحث میں تخصص اور مہارت کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات اور اصطلاحات سے بھی مکمل طور پر آشنا ہیں۔ اس کتاب کے ترجمے میں کوشش کی گئی ہے کہ حق مطلب ادا کیا جاسکے اور وہ مطالب جو کتاب کے مصنف نے بیان کرنے چاہے ہیں انکو سلیل اور اردو زبان معاشرے تک ان کے لئے قابلِ فہم زبان میں ذمہ داری سے پہنچایا جاسکے۔اس ترجمے میں برابر کے ترجمے کا طریقہ کار اپنا گیا ہے۔ اور بعض مقامات پر جہاں مطالب کو پہنچانے میں اضافی توضیح کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں تھوڑی بہت توضیح بھی دی گئی ہے۔ نیز وہ سائنسی اصطلاحات جن کا اردو زبان میں زیادہ اچھا یا رائج متبادل موجود نہ تھا انکے انگریزی متبادل کو حاشیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔تمام قرآنی آیات کا ترجمہ پاکستان میں رائج "علامہ ذیشان حیدر جوادی صاحب" کے قرآن کے ترجمے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اور وہ ایک دو موارد جہاں نہج البلاغہ سے اقوال امیرالمؤمنینؑ کا ترجمہ ذکر ہے وہ "علامہ مفتی جعفر حسین صاحب" کا ہے۔ الحمدللہ خداوند کے فضل و کرم سے نیز استاد راہمنا کی بروقت اور بہترین راہنمائی کے ذریعے اس کتاب کا ایک حد تک رواں اور سلیل ترجمے کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

ندا زہراء رضوی