شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی0%

شبہات جدید قرآنی مؤلف:
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: فلسفہ

شبہات جدید قرآنی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی_ مترجم : ندا زہراء رضوی
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: مشاہدے: 22
ڈاؤنلوڈ: 2

شبہات جدید قرآنی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22 / ڈاؤنلوڈ: 2
سائز سائز سائز
شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com

پہلا باب :

قرآن اور سائنس کا باہمی رابطہ

مقدمہ

اس باب میں ہم قرآن اور سائنس کے درمیان باہمی تعلق اور اس کے امکانات، قرآن و سائنس کے درمیان مبینہ تعارض اور اس کے راہ حل کے بارے میں گفتکو کریں گے۔

الف) سائنس اور دین کے تعلق کی کیفیت

ہماری بحث اگرچہ قرآن اور سائنس کے بارے میں ہے لیکن یہاں ابحاث کو کلی طور پر پیش کیا جائے گا تاکہ تمام دینی موضوعات اس میں شامل رہیں نیز مطالب کو دین یا قرآن کریم کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جائے گا۔ البتہ آخر میں قرآن و سائنس کے رابطہ کے مطابق نتیجے تک پہنچیں گے۔

اگرچہ یہ ایک مفصل موضوع ہے لیکن ہم مختصراً اور جہاں تک ہماری بحث کےلئےمفید ہے اس پر بات کریں گے۔

پچھلے مختلف ادوار اور گذشتہ صدیوں میں دینی علماء اور سائنسدان جدا جدا نہیں ہوتے تھے بلکہ بعض اوقات ایک ہی شخص فلسفی، متکلم، شاعر، ادیب، فقیہ اور ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ اور اس طریقہ کار کا علمی نتیجہ مختلف علوم اور موضوعات کا ملاپ تھا اور ان ماہرین میں سے ہر ایک مختلف جگہوں پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا کرتا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور سائنس، دین سے جدا ہوگئے لیکن ان کے مشترک اور مخصوص میدان معین نہ ہوسکے نیز ان کا باہمی رابطہ مبہم ہوگیا۔ چنانچہ مختلف علوم کے ماہرین، فلسفیوں، علمائے کلام،مفسرین اور سائنسدانوں نے سائنس اور دین کے درمیان واضح فرق بیان کیے۔ انہوں نے اس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں اور مختلف نظریات دیئے۔ جبکہ بعض افراد فلسفہ کو دین اور سائنس سے نجات دینے کی غرض سے بھی اس میدان میں اترے۔ ہم مختصراً ان کی آراء کا جائزہ لیں گے؛ اس نکتہ کی یاد دہانی کے ساتھ کہ سائنس اور دین کے رابطہ میں ضروری ہے کہ دو ابحاث کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے:

١۔ رابطہ کی حقیقت و نوعیت (نظری بحث)

٢۔ سائنس اور دین کا ایک دوسرے پر تاثر اور تاثیر(عملی بحث)۔

ب) سائنس اور دین کے رابطے کے بارے میں امکانات و احتمالات

آغاز میں نظری بحث بیان کی جائے گی اور اس کے بعد سائنس اور دین کا ایک دوسرے پر تاثر اور تاثیر کا اسی باب میں جائزہ لیا جائے گا۔

اگر ایک صحیح تقسیم یعنی حصر عقلی کی بنیاد پر بات کی جائے تو اس طریقے سے بحث کی جائے گی:

سائنس اور دین کے رابطے کے بارے میں چار امکانات پائے جاتے ہیں:

سائنس اور دین کا رابطہ

● کوئی رابطہ نہیں = کاملاً جدائی

● رابطہ ہے:

الف)دشمنی و رقابت کا = سائنس و دین میں تعارض وٹکراؤ

ب)دشمنی و رقابت کا نہیں:

● سائنس و دین میں تداخل یا

● سائنس اور دین میں مطابقت

ایک: سائنس اور دین میں مکمل جدائی: یہ وہ نظریہ ہے جومشہور سائنسدان کانٹ سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔

دو: سائنس اور دین میں تعارض و ٹکراؤ: یہ وہ نظریہ ہے، جو یورپ میں قرون وسطیٰ کے اواخر سے آج تک حاکم ہے۔

تین: سائنس اور دین میں تداخل: قدیمی مسلمان متکلموں اور مفسروں نیز مسیحوں کا نظریہ۔

چار: سائنس اور دین میں سازگاری و مطابقت: مطلوب نظریہ؛ جو کہ ہماری نظر میں صحیح ہے۔

١۔ سائنس اور دین میں تداخل

بعض افراد کا نظریہ یہ ہے کہ سائنس درحقیقت دین کے موضوعات ہی میں سے ایک موضوع ہے کیونکہ دین خدا کی طرف سے ہے اور خداوند ہر مورد حتی سائنس کے مسائل میں بھی اظہار نظر کا حق رکھتا ہے۔ بس سائنسدان افراد دین کی کامل پیروی کریں اور اپنی تحقیقات کا موضوع دین سے اخذ کریں اور اسی کے دائرہ و احاطے میں تجربات اور ترقی کریں۔ اور اگر ان کی تحقیقات دین سے مخالف نتیجہ دیں تو انہیں قبول نہ کریں؛ کیونکہ انسان کا تجربہ ظنی اور ممکن الخطا ہے جبکہ وحی الہی میں خطا کا امکان نہیں ہے۔

مثلاً: اگر ماہرین حیاتیات انسان اور اس کے تکامل کے باب میں تحقیق کرنے کا ارادہ کریں تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے دین کے نظریے کو مدنظر رکھیں اور اگر دین کہے کہ انسان کسی مقدمہ اور تکامل کے مرحلوں کے بغیر خلق ہوا ہے تو وہ انسان کے تکاملی مرحلوں کو پچھلے جانداروں میں تلاش نہ کریں۔ بلکہ صرف نظریہ ثبات انواع ( fixism theory ) کے دائرہ کار میں تحقیقات کریں۔

یہ نظریہ قرون وسطی میں دنیائے مسیحیت میں رائج ہوا۔ مسیحی اس پر عمل پیرا تھے اور اگر کوئی سائنسدان کتاب مقدس کے خلاف نظریہ یا علمی قانون بیان کرتا تو اس پر اپنے قوانین کی حد جاری کرتے۔ اسی وجہ سے "زمین حرکت کرتی ہے" کہنے کے جرم میں گلیلیو پر کافی سختی کی گئی۔ آج بھی کتاب مقدس کی نص کے خلاف اُس کا نظریہ موجود ہے۔( عباس علی سرفرازی، رابطہ علم و دین، ص ١٧ )

جی ہاں! وہ مسلمان بھی کہ جن کا عقیدہ ہے کہ تمام بشری علوم ظاہر آیات قرآن سے استخراج کے قابل ہیں آخرکار اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سائنسدان حضرات تجربہ و تحقیق کے بجائے اپنے علمی مسائل کو قرآن سے اخد کرسکتے ہیں؛ کیونکہ سب کچھ قرآن میں موجود ہے اور قرآن معین کرتا ہے کہ سائنسی مسائل کا نتیجہ کس نہج پر پہنچے گا۔ نیز بعض معاصرین کی رائے ہے کہ سائنس دین کا ذیلی مجموعہ ہے کیونکہ سائنس عقل کا ثمرہ ہے اور عقل دین کا منبع ہے۔ اسی طرح کچھ افراد کا نظریہ یہ بھی ہے کہ سائنس دین کا ایک حصہ ہے کیونکہ دین سائنسی تجربات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔( مراجع: مهدی گلشنی، از علم سکولار تا علم دینی )

نظریے کا جائزہ:

یہ نظریہ بے اساس و بے بنیاد ہے کیونکہ قرآن کا ظاہر؛ علم کے اصول اور ہدایت بشر سے مربوط معارف دینی پر منحصر ہے۔ اگرچہ قرآن طبیعی علوم کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے لیکن سائنسی مسائل کو تمام جزئیات کے ساتھ بیان نہیں کرتا اور اُسے بیان کرنا قرآن کا ہدف بھی نہیں ہے۔

دنیائے مسیحیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نتیجے پر پہنچی کہ کتاب مقدس وحی الہی نہیں ہے تاکہ یہ دعویٰ نہ کیا جاسکے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے، بلکہ اب ان کے مطابق یہ کتاب مختلف لکھاریوں کی خیال پردازی کا نتیجہ اور ان کا نظریہ ہے۔ دوسری جانب سے، سائنس کو صرف موضوعات اور احکام دینی کے سانچہ میں منحصر نہیں کرسکتے ورنہ علم کی ترقی رک جائے گی یا سست پڑ جائے گی۔

اس کے علاوہ عقل کا منبع ہونا اس معنی میں نہیں ہے کہ ہر چیز جو عقل یا اس کے نتیجہ مثلاً علم سے حاصل ہو وہ عین دین ہے۔ یہ بات صرف عقل کے کلی و قطعی احکامات میں جاری ہے " کلّما حکم به عقل حکم به الشرع " ہر وہ چیز جس کا عقل حکم کرتی ہے شریعت بھی حکم کرتی ہے۔ لیکن جزئیات میں بالخصوص وہ جزئیات جو عقل تجربی کی ما حاصل ہیں، ان میں عقل قطعی حکم نہیں دے سکتی۔ ہمارے زمانے میں فلسفہ علم کی ابحاث میں نظریہ "سائنسی علوم کی ابطال پذیری " یعنی سائنسی علوم کا باطل پذیر ہونا حکم فرما ہے، نہ اثبات پذیری یعنی ثابت ہونے کا نظریہ۔ بس تمام سائنسی جزئیات کو قطعی و ثابت اور احکام کلی نہیں جانا جاسکتا کہ یہ دین کا ایک جزء شمار ہوں ۔

قرآن اور دین کی علمی امور میں کوششوں کی حوصلہ افزائی کا بھی لازمہ یہ نہیں ہے کہ تمام علم ِسائنس دین کا حصہ ہو۔ دراصل کسی شے کے دین کا جزء ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ، یا عقائد جیسے توحید، نبوت اور قیامت میں سے ہو، یا پھر عبادات واجب و مستحب اور امور اخلاقی میں سے شمار ہو۔ لیکن ہر وہ موضوع کہ جس کی دین نے تائید کی ہے ضروری نہیں ہے دین کا حصہ ہو۔ مثال کے طور پر قرآن انسان کو اونٹ کو دیکھنے کی ترغیب دلاتا ہے:

أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى ٱلإِبِلِ كَيفَ خُلِقَت ( سورہ غاشیه: ١٧ )

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اونٹ کا عنوان، جانور شناسی اور حیاتیات دین کا حصہ ہے۔ ہاں! اس آیت سے یہ سمجھ آتا ہے کہ قدرتی چیزوں میں تفکر دین کا مطلوب ہے؛ وہ تفکر کہ جو خداشناسی کی راہ میں مفید ثابت ہو۔ لیکن قدرت و طبیعت اور حیاتیات میں بغیر کسی مقصد کے تفکر کرنا یا حتی ایسا تفکر کرنا جس کا نتیجہ انسانوں کا قتل عام ہوجیسے ایٹم بم وغیرہ بنانا دین کا حصہ نہیں ہوگا۔

٢۔ سائنس و دین کے درمیان مکمل تعارض و ٹکراؤ

اس نظریے کے مطابق سائنس اور دین میں کوئی ہم آھنگی اور مطابقت نہیں پائی جاتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر کوئی ان میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ کیونکہ سائنس جتنا بھی آگے بڑھتا جارہا ہے؛ الہامی کتابوں کے مزید خلاف ہوتا جارہا ہے اور دین کے یقینی قضیوں کو باطل کرتا جارہا ہے، بس دین اور سائنس کے درمیان حقیقی تعارض و اختلاف ہے۔

مثلاً: گلیلیو ( Galileo )کے نظریات نے زمین کے ثابت و عدم متحرک ہونے کے نظریہ کو کہ جو مسیحیوں میں قطعی و مسلم تھا باطل کردیا اور ڈارون کے تکامل کے نظریہ نے خلقت حضرت آدمؑ کو بے وقعت کردیا۔ ساتھ ہی تاریخی تحقیقیں باعث بنیں کہ کتاب مقدس کے وحی ہونے میں شک پیدا ہوگیا اور ان کی تاریخ کا غلط ہونا ثابت ہوگیا۔

( موریس بوکای، مقایسه‌ای میان تورات، انجیل و‌علم، ص ۳۹؛ (با تصرف و تلخیص) )

مذکورہ نظریہ نے اسقدر رسوخ پیدا کیا کہ دین کو انسانی فہم و فطور کا نتیجہ سمجھا جانے لگا یہاں تک کہ مختلف فکری و نظریاتی مکاتب جیسے مارکسیزم ( Marxixm )روس میں مسلط ہوگئے اور دین کو پامال کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوششیں کرنے لگے۔ اس تعارض کی ایک مثال یورپی قرون وسطیٰ اور عقائد کی تفتیشی عدالتوں میں سامنے آئی۔

۱۵

نظریے کا جائزہ:

اس تعارض کی داغ بیل یورپ کے عیسائیوں اور مختلف سائنسدانوں کے باہمی روابط میں پڑی ہے۔ دوسرے لفظوں میں؛ اس مسئلہ کی بنیاد ان تحریفوں میں ہے کہ جو کتاب مقدس میں ہوئی ہیں اور علم و حکمت کے خلاف مطالب توریت اور انجیل میں شامل ہوئے یا خود افسانوں کو وحی جانا گیا جبکہ کچھ صدیاں گزرنے اور نئی ایجادات کے بعد ان کا باطل ہونا ثابت ہوگیا۔ لہذا مسیحی دانشوروں نے اپنا اور کلیسا کا معیار و تشخص بچانے کی خاطر کوشش کی کہ ہر اس علمی مطلب کا انکار کریں یا ایسے نظریات دینے والوں کو زد و کوب کریں؛ جو کتاب مقدس کے مطالب کے مطابق نہ ہو۔ یہ مسئلہ قرآن اور اسلام سے مرتبط نہیں ہے؛ کیونکہ اسلام نہ صرف سائنسی ایجادات و کشفیات اور علمی مطالب سے تضاد نہیں رکھتا بلکہ جتنا بھی علم بشری آگے بڑھ رہا ہے قرآن کے حقائق آشکارتر ہوتے جارہے ہیں۔

سائنس اور دین کے تعارض کی قسمیں:

سائنس اور دین کا تعارض دو معنی میں ہے

ایک: حقیقی تعارض

دو: ظاہری تعارض

ایک: سائنس اور دین کے درمیان حقیقی تعارض

یہ تعارض اس معنی میں ہے کہ سائنس اور دین آپس میں بلکل بھی مطابقت نہیں رکھتے نیز سائنس اور دین اکھٹے جمع نہیں ہوسکتے۔ بس ایسا نہیں ہوسکتا ایک انسان دیندار بھی ہو اور سائنسدان بھی، مجبوراً ان دونوں میں سے کسی ایک راہ کو انتخاب کرنا پڑے گا۔ بالفاظ دیگر حقیقی تعارض سے یہ مراد ہے کہ دو دینی و سائنسی تجاویز (نظریات) میں سے دونوں قطعی و یقینی ہوں؛ یعنی اسطرح ہوں کہ دینی تجویز کی دلیل ایک قرآنی نص ہو اور سائنسی تجویز کی دلیل ایک عقلی دلیل سے ثابت شدہ مطلب ہو، بس ان دونوں کے درمیان سو فیصد تعارض ہو اسطرح سے کہ کسی بھی صورت قابل حل نہ ہو۔

سائنس اور دین میں ناصرف حقیقی تعارض نہیں ہے بلکہ محال ہے کہ ان دونوں کے درمیان اس طرح کا کوئی تعار ض ہو ؛ کیونکہ یہ تناقض کا لازمہ ہے۔ مثلاً جیسے سائنس اور قرآن دونوں کے قطعی و یقینی ماخوذات واقعیت پر مبنی ہیں جبکہ واقعیت ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ بس ایسا نہیں ہوسکتا "الف" اور "ب" ہوں اور "الف" اور "ب" نہ بھی ہوں۔

دو: سائنس اور دین کے درمیان ظاہری تعارض

یہ تعارض اس معنی میں ہے کہ سائنس کی اصل اور دین، حقیقی اور واقعی تعارض نہیں رکھتے۔ لیکن کبھی کبھار ظاہر دین سائنسی نظریات سے متعارض دکھائی دیتا ہے کیونکہ بعض سائنسدان سائنس کے غیر ثابت شدہ نظریوں کو قطعی و یقینی سمجھتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں مثلاً ایک سائنسی نظریہ قرآنی آیت سے ناسازگار و برخلاف ہے تو گمان کرتے ہیں کہ سائنس اور دین تعارض رکھتے ہیں۔

دوسری جانب سے کبھی کبھار بعض مفسرین و دینی متکلمین بھی دینی مطالب سمجھنے میں اشتباہ کردیتے ہیں اور اپنے فہم کو قطعی و صحیح سجھتے ہیں اور بعض دفعہ یہ دینی تصورات سائنسی نظریات و مطالب سے تعارض رکھتے ہیں لہذا سائنس و دین کو آپس میں متعارض سمجھتے ہیں۔ تعارض کی یہ قسم قابل قبول ہے۔ ادیان الہی میں اس تعارض کی بہت سے مثالیں اور مناسب راہ حل موجود ہیں۔

مطلب کی مزید تفصیلات کےلئےسائنس اور دین کے رابطے کے احتمالات وامکانات کا جائزہ لیا جائے گا [۱] ۔ کیونکہ احکام دینی اور سائنسی نتائج کے رابطہ کے امکانات کا جائزہ سائنس اور دین کے تعارض و ٹکراؤ کے وہم کو دور کرے گا۔

اس سلسلہ میں تین امکانات پائے جاتے ہیں:

الف) سائنس کے موافق احکام دینی

اس سے مراد وہ مطالب ہیں جو قرآن و روایت میں ہیں اور سائنس نے بھی انہیں ثابت کیا ہے۔ مثلاً وہ چیزیں جو اسلام میں نجس ہیں اور جن کا کھانا حرام ہے عام طور پر وہ حفظان صحت کے اصول کے اعتبار سے بھی انسان کےلئےمضر جانی جاتی ہیں، ڈاکٹر اور ماہرین صحت بھی ان سے اجتناب کی نصیحت کرتے ہیں۔( دیکھیے: احمد اهتمام، فلسفہ احکام )

بس اس مورد میں دینی و سائنسی احکام میں مکمل طور پر مطابقت ہے۔ اسلام کے زیادہ تر احکام اس قسم کے ہی ہیں۔

ب) سائنس سے معارض احکام دینی

قرآن میں کچھ ایسے مطالب ہیں جو سائنسی نظریات و بدیہات سے ٹکراؤ رکھتے ہیں بلکہ ان سے متضاد ہیں۔

مثلاً قرآن فرماتا ہے ہمارے پاس سات آسمان ہیں۔( سورہ بقرہ: ٢٩ )

لیکن بالفرض علم کاسمولوجی ثابت کرتا ہے کہ کائنات میں ہزاروں کہکشائیں ہیں کہ ان میں سے ایک کہکشاں ملکی وے(راہ شیر)( Milky way ) ہے اور یہ کہکشاں خود سینکڑوں نظام رکھتی ہے کہ جن میں سے ایک ہمارے سورج کا نظام ہے؛ بس ظاہر آیت اس علمی مطلب کے برخلاف ہے کیونکہ اگر آسمان کو ایک کہکشاں کے عنوان سے دیکھا جائے تو آسمانوں کی تعداد سات عدد سے زیاہ ہے اور اگر تمام کہکشاؤں کو ایک آسمان فرض کریں تو سات کے عدد سے کم ہے۔

خود اس مورد میں چند امکانات ہیں:

اول:علم سائنس ہمیں واقع کے عین مطابق قطع و یقین نہیں دیتا اور خود اس کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے۔ یہ ممکن الخطا ہے بلکہ بعض ماہرین کے بقول سائنس مفید افسانہ ہے۔ اسی بنا پر عقل ہمیں حکم دیتی ہے کہ دلیل قطعی یعنی ظاہر قرآن کو دلیل ظنی یعنی قانون علمی پر فوقیت دی جائے۔ تاریخی تجربہ نے بھی ثابت کیا کہ یہی راہ درست ہے؛ کیونکہ بہت سے موارد میں علمی نظریات کہ جو صدیوں علمی دنیا اور دانشوروں کی فکروں پر چھائے ہوئے تھے، نئے آلات اور جدید ایجادات کے ظاہر ہونے سے باطل ہوگئے ہیں کہ جس کی مثال Ptolemaic بطلیموس نظام یا سورج کے ثابت ہونے کے نظریہ میں قابل مشاہدہ ہے جو کہ صدیوں بعد بے وقعت ثابت ہوگئے۔ لیکن قرآن دونوں نظریات کے برخلاف صدیوں سے مستحکم ہے اور واضح طور پر سورج اور زمین کی حرکت کے بارے میں خبر دے رہا ہے۔

( وَ ٱ لشَّمسُ تَجرِي لِمُستَقَرّ لَّهَا :یس۳۸ )

دوئم: اگر ایک علمی نظریہ کسی دوسری دلیل جیسے حکم عقل کے ساتھ ملحق ہونے کے بعد یقین کے مرحلے تک پہنچے، تو یہ مسئلہ عقل اور دین کے تعارض سے دوچار ہوگا جبکہ سائنس و دین کے تعارض سے خارج ہوگا ایسی صورتحال میں احکام عقلی احکام دینی سے تعارض نہیں رکھتے۔ جبکہ اگر ایک حکم عقلی اور ایک حکم دینی کے درمیان تعارض ہو تو اس میں بھی دو امکانات ہیں:

١۔ دلیل عقلی کے مقدمات میں غلطی آیت کے ظاہر سے تعارض کا سبب بنی ہے۔

٢۔ آیات کا ظاہر یا حکم شرعی مراد نہ ہو اسی وجہ سے حکم عقل کے قرینے سے آیت کے ظاہر میں تصرف ہوگا۔

مثلاً: وہ آیات کے جن میں فرمایا جارہا ہے سات آسمان ہیں؛ اگر ہم ایک علمی قطعی دلیل (استقرا تجربی دلیل عقلی کے ساتھ) لے آئیں کہ سینکڑوں آسمان ہیں یا برعکس کہا جائے کہ ایک سے زیادہ آسمان نہیں ہے تو یہاں عقلی دلیل اور شرع آپس میں متعارض ہوگئے ہیں بس یہاں دلیل شرعی کے ظاہر میں قرینہ عقلی کی مدد سے تصرف کریں گے اور کہا جائے گا آیت مبارکہ میں سات سے مراد آسمان کا عدد معین کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد کثرت بیان کرنا ہے۔ جیسا کہ عوام کے عرفی محاوروں میں بھی سات، ستر، سو، ہزار وغیرہ کا عدد کثرت بیان کرنے کےلئےاستعمال کیا جاتا ہے اور یہ طریقہ کار تفسیر عقلی کی بنیاد پر ہے۔

دوسرے الفاظ میں سائنس اور دین کا تعارض عقل اور دین کے تعارض کی جانب پلٹتا ہے۔ اور عقل و دین کا تعارض درجہ ذیل تین دلیلوں کی بنا پر محال ہے:

١۔ خداوند حکیم اور عادل ہے اور عقل کے خلاف حکم نہیں دیتا۔

٢۔ عقل انسان کےلئےحجت باطنی ہے اور یہ حجت ظاہری یعنی پیغمبر گرامی (ص)سے تعارض نہیں رکھتی۔

٣۔ دین کی حقیقت عقل کے ذریعے ثابت ہوتی ہے بس اگر عقل کا حکم نقل کے ذریعے باطل ہوگا، دین کی حقیقت باطل ہوجائے گی۔

( علم قطعی اور وحی معرفت بشری کی دو راہیں ہیں اور دنوں انسان کو حقیقت تک پہنچاتی ہیں۔ اگر یہ دو متعارض ہوجائیں، دونوں صحیح نہیں ہوسکتیں؛ کیونکہ ایک چیز سے دو متناقض واقعیتیں ایک وقت میں قابل وجود نہیں ہیں۔ )

سائنس اور دین کے ظاہری تعارض کا راہ حل

ہمارے پاس چند طرح کے عقلی و شرعی احکام موجود ہیں:

الف) احکام دینی:

ظنی: اس پر سائنس کا قطعی و یقینی حکم مقدم ہے

قطعی:یہاں حکم دین مقدم ہے

ب) سائنسی احکام:

ظنی(صرف تجربہ ہو): یہاں حکم دین مقدم ہے

قطعی(تجربہ اور عمل): تعارض عقل و دین

تعارض میں دو امکانات:

١۔ دلیل عقلی کے مقدمات اشتباہ ہوں

٢۔ فہم دین میں غلطی کی گئی ہو کہ جو ظاہر دین کی مراد نہیں ہو۔

اس مورد میں نمونہ کے طور پر بعض اکابرین اور حوزہ علمیہ کے استادوں کے اقوال نقل کرتے ہیں:

آیت اللہ مشکینی:

قرآن میں کوئی بھی ایسی چیز جو عقل و منطق اور سائنسی یقینی ماخوذات سے (مشاہدہ و تجربہ کے لحاظ سے) مخالف ہو موجود نہیں ہے اور اگر کوئی موضوع اس طرح قطعی طور پر ثابت ہوجائے، تو درحقیقت قرآن نہ اس سے متفق ہے نہ اس کی مخالفت کرتا ہے ۔ البتہ اگر معاملہ کی حقیقت کے خلاف قدم اٹھائے جائیں تو بالآخر تحقیق کا نتیجہ اور نظریے کا اشتباہ ہونا معلوم ہوجائے گا اور اس طرح کے ماخوذات میں اپنی غلطی کی جانب متوجہ ہوجائیں گے نیزاس میں قرآن سے استفادہ کرنا بھی غلط ثابت ہوجائے گا جیسا کہ فلکیات کی قدیم و جدید کیفیات میں ہوا۔

( علی مشکینی، تکامل در قرآن، ص۲۵ )

آیت اللہ صافی گلپایگانی:

اگر عقلی قطعی دلیل؛ ظاہری نقلی دلیل کے خلاف ہو، تو یہ دلیل قرینہ عقلی کی جگہ ہے اس طرح سے کہ اس کا ظاہر مراد نہیں ہے اور جو کچھ بظاہر اورنظر اولی نیز قرائن پر توجہ کیے بغیر کلام سے اخذ ہووہ مقصود نہیں ہوگا۔

( لطف اللہ صافی گلپاگانی،ص۷۴ )

آیت اللہ جعفرسبحانی:

سائنس اور دین کے تعارض کا مسئلہ اگر حل نہ کیا جائے تو یہ دین اور دینداری کو زیر سوال لے آئے گا اور اسے متزلزل کردے گا۔ عیسائیوں کے علم کلام کے علماء و ماہرین کہ جو مجبور ہیں کہ اپنی کتاب مقدس کے تثلیث کے نظریہ کا دفاع کریں اس تعارض کو قبول کرتے ہیں اور اس کے حل کو مختلف دائرہ کار کا اختلاف قرار دیتے ہیں۔

جبکہ مسلمان علمائے کلام و الہیات کی نظر میں حقیقت اس کے برخلاف ہے اور سائنس و دین کا تعارض کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔چناچہ ایسی صورت حال میں قضیوں کے دونوں اطراف میں سے ایک سست اور بے بنیاد ہے، یا جسے دین کا نام دیا جارہا ہے دین نہیں ہے یا پھر یہ کہ سائنسی حکم؛ قطعی و یقینی حالت نہیں رکھتا۔( رسالہ کلام اسلامی، بھار،ش۱،ص۷ )

ج) احکام دینی میں علم سائنس سے اجتناب

اس امکان سے مرادوہ تعبدی مطالب و احکام دینی ہیں کہ جو آیات اور روایات میں آئے ہیں لیکن سائنس سے بالاتر ہیں۔ یعنی علم سائنس کے پاس ان کو ثابت یا نفی کرنے کی دلیل نہیں ہے۔ ان موارد میں مجبور ہیں کہ احکام شرعی کو قبول کریں اور ان پر سر تسلیم خم کریں کیونکہ انسانی علم و معارف کمال اور رشد کے مرحلہ میں ہے اور اب تک اپنے کمال کی انتہا تک نہیں پہنچا، اسی وجہ سے صرف سائنسی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ایک شرعی حکم کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔

ادیانِ آسمانی کی تاریخ میں اس مورد کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جیسے مثلاً جب ایک شرعی حکم صادر ہوتا تھا اس وقت کے بہت سے ماہرین اور دانشور اسے سمجھنے سے قاصرہو تے تھے جبکہ اس حکم کی حکمت اور دلیل کئی صدیوں بعد ظاہر ہوجاتی تھی۔

مثال کے طور پر اسلام کا شراب کو حرام قرار دینے یا حفظان صحت کےمختلف اصولوں کا نام لیا جاسکتا ہےکہ جن کی وجہ کئی صدیوں تک نامعلوم تھی لیکن آج تمام ماہرین اس کے نقصاندہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کے پینے سے منع کرتے ہیں۔

ابھی بھی بہت سے تعبدی احکام موجود ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی حکمت و دلیلیں سامنے آرہی ہیں اور دنیا اسلام اور قرآن کی حقانیت کا اقرارکر رہی ہے ۔

٣۔ سائنس اور دین میں مکمل جدائی

بعض افراد کا خیال ہے کہ دین اور سائنس مختلف طریقہ کار، ہدف و مقصد، دائرہ کار اور موضوعات رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے آپس میں کچھ مماثلت نہیں رکھتے۔ اگرچہ اس نظریےکے تمام معتقد افراد جیسے کانٹ ، وجودیت پسندی اور نظریہ تحلیل زبانی کے طرفدار لوگ اپنا الگ نظریہ رکھتے ہیں لیکن سب دین اور سائنس کے دائزہ کار کے جدا ہونے نیز ان کے آپس میں تداخل و تعارض نہ رکھنے پر متفق ہیں۔

یہ نظریہ قرون وسطی کے ہنگاموں کے بعد اور سائنسی علوم کی ترقی کے نتیجہ میں سترہیوں صدی عیسوی کے بعد یورپ میں وجود میں آیا۔ بلکہ اصل میں یہ قرون وسطی کے آخر میں سائنس اور دین کے تعارض و ٹکراؤ کے نظریہ کا ایک جواب تھا کہ جو علمائے دین اور سائنسی ماہرین کے تنازعہ کا سبب بنا۔

واضح ہے کہ سائنس اور دین میں مکمل جدائی اسلامی تعلیمات بالخصوص آیات قرآن کے برخلاف ہے؛ کیونکہ قرآن کریم سائنسی تعلیمات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مختلف علمی شعبوں جیسے کاسمولوجی ، سیاست، اقتصاد وغیرہ کے بارے میں علمی مطالب بیان کرتا ہے۔

۴۔ سائنس اور دین میں ہم آہنگی اور مطابقت

یہ نظریہ اسلامی تعلیمات و معارف کی روح سے اخذ ہوتا ہے کہ جس کی تائید قرآن اور روایات میں بھی ملتی ہے۔ اس نظریہ کو چند مقدموں کے ذریعے ثابت کیا جائے گا۔

١۔ اسلام نے بہت سے موارد میں علم سائنس اور اس کے کشف کرنے والوں پر توجہ کی اور ان کی تائید و حوصلہ افزائی کی ہے، یہاں تک کہ بہت ساری آیات سائنسی مطالب کو بیان کرتی ہیں اور جیسے جیسے علم سائنس آگے بڑھ رہا ہے ان مطالب کی حقیقت مزید کشف ہوتی جارہی ہے۔

قرآن میں کاسمولوجی ، میڈیکل(جیسے شہد کا شفا ہونا)، سیاست اور اقتصادیات کے بارے میں بہت سے علمی مطالب موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک جدید علمی نظریہ بیان کرسکتا ہے یا علوم انسانی کوایک نئی سمت دے سکتا ہے نیز سائنس کے قطعی نظریات بھی اعجازِ قرآن کی تائید کررہے ہیں۔

٢۔ دوسری طرف سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ سائنس کا دین میں تداخل یا اسکا ضمیمہ ہونا صحیح نہیں ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کا ظاہر تمام انسانی علوم کو احاطہ کیے ہوئے ہے درست نہیں ہے۔

٣۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کیا جاچکا ہے کہ خود علم سائنس قرآن کے علمی مطالب سے تعارض و ٹکراؤ نہیں رکھتا۔ بلکہ تمام موارد قابل جمع ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ علم سائنس قرآن سے ہم آہنگی رکھتا ہے۔ لیکن ان کے موضوعات ایک دوسرے میں داخل نہیں ہیں۔ اور جن موارد میں پہلی و سرسری نظر میں ٹکراؤ دکھائی دیتا ہے وہ بآسانی قابل حل ہے۔

یہاں دو نکات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے:

١۔ وہ تمام مطالب جو سائنس اور دین کے رابطہ اور ان کے ٹکراؤ کے راہ حل کے بارے میں بیان ہوئے ہیں وہ "قرآن اور سائنس" کے رابطہ پر بھی صدق کرتے ہیں کیونکہ قرآن دین اسلام کا بنیادی حصہ ہے۔

٢۔ سائنس اور دین کے ظاہری ٹکراؤ کےلئےمختلف راہ حل بیان ہوئے ہیں ؛ جو کہ اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں ذکر نہیں کیے جارہے۔

نتیجہ

١۔ قرآن اور سائنس کا رابطہ آپس میں ہم آہنگ اور ایک دوسرے کی تائید کرنے والا ہے۔ قرآن بھی علم سائنس کی طرف رغبت دلاتا ہے اور علم سائنس بھی قرآن کی علمی حیرت انگیزیوں اور معجزات کی تائید کرتا ہے اور روز بہ روز قرآن کے علمی حقائق کو کشف کررہا ہے۔

٢۔ قرآن اور انسانی علوم میں حقیقی ٹکراؤ نہیں ہے نیز ظاہری ٹکراؤ بھی تھوڑی دقت سے قابل حل ہے۔

٣۔ ڈاکٹر سروش کا قرآن اور علم سائنس کے ٹکراؤ میں تعطل کا نظریہ درست نہیں دکھائی دیتا۔ وہ لکھتے ہیں:سائنس اور قرآن میں ناقابلِ حل تعارض پایا جاتا ہے ۔( عبدالکریم سروش، خط، بشر بشیر، روزنامہ کارگزاران ، ۱۹ و ۲۰ اسفند،۱۳۸۶ )

کیونکہ قرآن اور علم سائنس میں حقیقی ٹکراؤ نہیں ہے اور تمام موارد جن کا دعویٰ کیا گیا ہے ظاہری ٹکراؤکے ہیں کہ جو تھوڑی دقت کرنے پر قابل حل ہیں اور ختم ہوسکتے ہیں اسی وجہ سے تعطیل و بن بست کا کوئی وجود نہیں ہے۔

دوسرا باب: سائنس اور قرآن و حدیث میں ٹکراؤ کا دعوی ٰ

مقدمہ

پچھلے باب میں قرآن اور سائنس کے رابطہ اور ٹکراؤ کے بارے میں نظری مطالب اور ان کا حل پیش کیا گیا۔ اس باب میں ان مصادیق کا جائزہ لیا جائے گا جن میں بعض معاصرین کے دعوے کے مطابق قرآن اور سائنس کے درمیان تعارض و ٹکراؤ پایا جاتا ہے۔

الف) سات آسمان

قرآن کریم میں سات مرتبہ بلکل واضح اور دو مرتبہ کنایتاً سات آسمانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جگہ بظاہر سات زمینوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں ان میں سے چند آیات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

" اللَّهُ ٱلَّذِي خَلَقَ سَبعَ سَمَوَت وَمِنَ ٱلأَرضِ مِثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ ٱلأَمرُ بَينَهُنَّ "( سورہ طلاق ١٢ )

اللہ ہی وہ ہے جس نے ساتوں آسمانوں کو پیدا کیا اور زمینوں میں بھی ویسی ہی زمینیں بنائی ہیں اسی کے احکام ان کے درمیان نازل ہوتے رہتے ہیں…

سورہ بقرہ آیت نمبر ٢٩،سورہ اسراءآیت نمبر ۴۴،سورہ مؤمنون آیت نمبر ٨٦،سورہ فصلت آیت نمبر ١٢، سورہ ملک آیت نمبر٣ اور سورہ نوح آیت نمبر١۵میں بھی سات آسمان کا ذکر ہے۔ اسی طرح سورہ مؤمنون کی آیت نمبر١٧ میں بھی سات آسمانوں کا تذکرہ ہے

"وَلَقَد خَلَقنَا فَوقَكُم سَبعَ طَرَائِقَ " ( سور ہ مؤمنون ١٧)

لیکن یہ تذکرہ واضح طریقہ سے نہیں ہوا، اسی کی طرح سورہ نبا کی آیت ١٢

"وَبَنَينَا فَوقَكُم سَبعا شِدَادا" (سور ہ نبا ١٢)

میں کنایتاً آیا ہے۔ نیز سورہ طلاق کی آیت ١٢

"وَمِنَ ٱلأَرضِ مِثلَهُنَّ"

میں بظاہرسات زمینوں کا بھی ذکرہے لیکن یہ بھی واضح طور پر نہیں کیا گیا ہے۔

تاریخی پس منظر اور نظریات

قرآن کریم سات آسمانوں کو حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی نقل کرتا ہے۔( سورہ نوح ١۵)

علامہ طباطبائی اس آیت کے ذیل میں نتیجہ لیتے ہیں کہ مشرکین بھی سات آسمانوں پر عقیدہ رکھتے تھے اسی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام اس مطلب کے وسیلہ سے استدلال کرتے ہیں۔ بس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سات آسمان کا معمہ اسلام بلکہ ادیان یہود و نصارا کی پیدائش سے بھی پہلےسے ہے۔

عیسائیوں کی مذہبی کتاب انجیل یا کتاب مقدس میں بھی مختلف طریقوں سے آسمان کی بات کی گئی ہے؛ کبھی مادی آسمان اور کبھی روحانی آسمان کہ جو اس دنیا کے احاطے سے باہر ہے اور وہاں تقدس و سعادت رکھتا ہے۔ نیز ان کے مطا بق آسمان حضرت حق خداوندﷻ کامخصوص مقام ہے اورحضرت مسیح یاانسان کابیٹابھی وہیں سے نزول کرتے ہیں۔

یہودیوں کے علماء بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ سات آسمان ہیں؛ جن میں سے تین مادی و جسمانی اور چار روحانی ہیں کہ جہاں ملائکہ اور مقدس ہستیاں موجود ہیں۔( دیکھیے: جیمزھاکس، قاموس کتاب مقودس، مادہ آسمان )

قرآن کریم کے سات آسمان کے ذکر کے مدتوں بعد یونانی کاسمولوجی کے نظریات اسلامی معاشرہ میں داخل ہوئے اور مسلمان عباسی حکمرانوں کے زمانے میں نظام بطلیموس یا Ptolemaic system

( بطلمیوس سے مراد نظام بطلمیوس؛ یونان کا مشہور نجومی اور جغرافی دان صاحب کتب مجسطی و آثار البلاد معتقد تھا: زمین دنیا کا ساکن ہے اور اس جیاں کا مرکز ہے اور سات فلک اس کے گرد گھومتے ہیں؛ یعنی چاند، مرکری، زہرہ، سورج، مریخ، مشتری، زحل۔آٹھواں فلک ثابت ستارے ہیں اور نواں فلک یا فلک الافلاک وہ فلک ہے کہ تمام فلاک جس میں موجود ہیں ) ۔

سے آشنا ہوئے۔ اور یہیں اشکالات و ابہامات وجود میں آئے؛ Ptolemaic system میں افلاک کی تعداد ٩ عدد تھی جبکہ قرآن میں آسمان کی تعداد سات عدد تھی، اس وجہ سے مسلمان دانشور اپنے زمانے کی جدید علمی و سائنسی کشفیات کو قرآنی آیات سے سازگار ثابت کرنےلئےتوجیہات پیش کرنے لگے چنانچہ اس بارےمیں چند راہ حل تک پہنچے:

١۔ بوعلی سینا (۴٢٨ـ ٣٧٠ق)

قرآن کریم میں عرش

"وَيَحمِلُ عَرشَ رَبِّكَ فَوقَهُم يَومَئِذ ثَمَنِيَة " ( سورہ حاقہ ١٧ )

وہی نظامِ بطلیموس کا نواں آسمان یا فلک الافلاک ہے۔ ابن سینا آٹھویں آسمان کو حاملان عرش ملائکہ قرار دیتے ہیں۔( ابن سینا،سیع رسائل، ص ١٢٨ و١٢٩ )

انہوں نے اس طرح سے نظامِ بطلیموس اور کلام الہی کو جمع کرنے کی کوشش کی۔

٢۔ شیخ طوسی (٦٧٢ ـ ٥٩٧ق)

مسمانوں کے مشہور ماہرِ علم کلام و علمِ نجوم خواجہ نصیرالدین نے کوشش کی کہ افلاک کے عدد کو نو سے سات قرار دیا جائے۔ لیکن ان کا نظریہ ماہرین کے مورد تائید نہ رہا۔( محمد باقر بھبودی، ھفت آسمان، ص٨)

٣۔ علامہ مجلسی (م۔١١١١ق)

شیعوں کے مشہور محدث سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٢٩

" ثُمَّ ٱستَوَى إِلَى ٱلسَّمَاءِ فَسَوَّهُنَّ سَبعَ سَمَوَت ٖ"

کے ذیل میں لکھتے ہیں:

سات آسمان کا ہونا، علم نجوم میں نُو آسمان کے ثابت ہوجانے سے منافات نہیں رکھتا کیونکہ دینی اصطلاح میں آٹھواں اور نواں آسمان کرسی اور عرش سے تعبیر ہوا ہے۔( محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، ج۵٧، ص۵)

۴. ملا ہادی سبزواری

جناب سبزواری سال ١٢٦١ق میں اپنی کتاب شرح منظومہ میں آٹھویں فلک کو کرسی اور نویں کو عرش لکھتے ہیں اور اس کی دلیل عقل اور شریعت کے مابین جمع کو قرار دیتے ہیں۔

تذکر

بوعلی سینا، علامہ مجلسی اور ملا ہادی سبزواری اپنے نظریوں اور تطبیقوں پر اطمینان بخش دلائل پیش نہیں کرسکے۔ اسی وجہ سے ان کے اقوال قابل قبول قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ نیز بطور کلی عرش اور کرسی کا لغوی و اصطلاحی معنی آٹھویں اور نویں آسمان سے مناسبت نہیں رکھتا۔

کرسی تخت کے معنی میں ہے اور خدا کے تسلط، تدبیر اور حاکمیت و قیومیتِ خدا سے کنایہ ہے

( سید علی اکبر قریشی،قریشی، قاموس قرآن، ج٦، لفظ کرسی؛ ناصر مکارم شیرازی، تفسیرنمونہ ج٢ ذیل آیت ١۵۵ بقرہ )

عرش بھی درحقیقت لغت میں چھت دار مکان کے معنی میں ہے نیز حکومتی تخت کے معنی میں بھی آیا ہے، کیونکہ بلند ہے۔ قرآن اور روایات میں لفظ کرسی دنیا کے حکم صادر کرنے کے مرکز کے معنی میں آیا ہے کہ جس تک دنیا کے معاملات پہنچتے ہیں۔( سید علی اکبر قریشی،قریشی، قاموس قرآن، ج٦، لفظ عرش )

مفسرین نے اسے " مظہرِ حکومت" کے معنی میں بھی جانا ہے جس سے مراد حکومت اور تسلط الہی ہے۔( سید محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٠، ص١۵۵)

٥۔ نیازمند شیرازی

آپ اس بارے میں لکھتے ہیں: عرش سے مراد لامحدود کائنات ہے اور سات آسمانی کُرے ہیں جو زمین اور سورج کے گرد حرکت میں ہیں اور سات کے عدد پر مشتمل ہیں۔( ید اللہ نیازمند شیرازی، اعجاز قرآن از نظر علوم امروز، ص ١٤٥ و ١٦٧)

تذکر: درجہ بالا کتاب کے چھپنے یعنی (١٣٣٥) تک نظام شمسی کے سیاروں کے کشف ہونے کی تعداد ٩ عدد تھی جن سے مؤلف جناب شیرازی مطلع تھے۔ لیکن ان میں سے ٦ چاند کے ساتھ زمین کے گرد گھومتے تھے چنانچہ انہوں نے دو مورد یعنی سیارہ مرکری اور زہرہ کو نہیں گنا اور باقی چھ کو سات آسمان میں شمار کیا ہے چونکہ اب تعداد مکمل ہونے میں ایک کی کمی تھی لہذا چاند کا اضافہ کردیا۔

٦۔ فخرالدین رازی

امام فخررازی نے سات آسمانوں کو وہی سات افلاک (چاند، مرکری، زہرہ، سورج، مریخ، مشتری، اور زحل) سے تعبیر کرتے ہیں اور انہیں نظام بطلیموس یا Ptolemaic system سے مطابقت دیتے ہیں

( فخرالدین رازی، تفسیر الکبیر، ج١، ص١۵٦)