نوٹ:
بہبودی صاحب نے بیان نہیں کیا کہ مرکری اور زہرہ کو کیوں اس فہرست سے خارج کیا ہے!؟
اور چاند کو کہ جو ہمارے سروں پر سے گزرتا ہے کیوں شامل نہیں کیا نیز یہ بھی بیان نہیں کیا کس طرح سے زمین کی تقدیر نظام شمسی کے باہر(سورج، اس سے ملحق نظاموں اور ستاروں کی حرکت کے لحاظ سے) بے ربط ہے۔
١۴۔ علامہ طباطبائی
بعض آیات( سورہ سجدہ ٥، فصلت ١٢، مؤمنون ١٧، نوح ١۵ ) کے ذیل میں علامہ طباطبائی کے نظریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ قرآن میں لفظ آسمان کےلئےایک الگ معنی بیان کرتے ہیں اور اسے معنوی امر یعنی قرب و حضور کا مقام، احکامات کے آنے، عالم کے تدبیر کی راہ اور ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ جانتے ہیں کہ خدا کے دستورات اس راہ سے تحقق پاتے ہیں۔
( سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٦، ص٢۴٧ و ج١٩، ص٣٢٧ نیز سات آسمان والی آیات کے ذیل میں )
تذکر:
آسمان مقام قرب و حضور یعنی معنوی معنی میں ہر جگہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ بعض آیات میں آسمان سے بارش برسنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے یعنی زمین کی فضا اور بادلوں کا مقام کے معنی میں ہے۔ مثلاً
"وَنَزَّلنَا مِنَ ٱلسَّمَاءِ مَاء مُّبَرَكا "۔ (
سورہ ق ٩)
البتہ علامہ کا نظریہ بعض موارد میں بلکل درست ہے اور بحث کو اس مورد میں ڈھالا جاسکتا ہے، لہذا آگے جاکر اس پر بھی بحث کی جائے گی۔
۱۵۔چند اور مصنف
بعض مصنفین کے نظریات کے مطابق سورہ بقرہ کی ٢٩ اور سورہ نوح کی ١٥ و ١٦ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آسمان سے مراد زمینی آسمان ہیں کہ جس پر چاند روشن ہے اور اس کے ساتھ سورج جمکتا ہے؛ چاہے زمین کی فضا ہو کہ جو ہوا کے گاڑھے پن کی وجہ سے سات حصوں میں منقسم ہے یا چاہے نظام شمسی کے سات ستارے ہوں کہ جنہیں سورج چراغ کی طرح گرم و روشن رکھتا ہے۔
(
عباسعلی محمودی، ساکنان آسمان از نظر قرآن، ص ۴٦)
تذکر:
اس نظریہ کا اشکال کہ "سات آسمان وہی سات نظام شمسی کے سیارے ہیں" بیان ہوچکا ہے۔
١٦۔ ڈاکٹر جمال الدین الفندی
ڈاکٹر جمال الدین قرآن کے سات آسمان کو یوں تقسیم کرتے ہیں:
پہلا آسمان: نظام شمسی۔
دوسرا آسمان: کہکشاں راہ شیری( milkyway )۔
تیسرا آسمان: کہکشاؤں کا مجموعہ کے جس کا نام " المجموعة المحلیه " ہے۔
چوتھا آسمان: فلک " عناقید الدرجة الاولی " ہے کہ جو تقریباً ٥٠ ـ٦٠ ملین نوری سال ہم سے فاصلہ پر ہے۔
پانچواں آسمان: فلک " عناقید الدرجة الثانیة " ہے کہ جو تقریباً ١٠٥ـ ١٠٠ ملین نوری سال ہم سے فاصلہ پر ہے۔
چھٹا آسمان: فلک " عناقید الدرجة الثالثة " ہے کہ جو تقریباً ٢۔٣ ارب نوری سال ہم سے فاصلہ پر ہے۔
ساتواں آسمان: وہ آسمان ہے جس کے بارے میں ہم ریڈیو کی امواج کے ذریعہ جانتے ہیں۔
(
مع القرآن فی الکون، ص١٨٩ ـ ١٩٣)
تذکر: ان کے نظریہ پر کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ " سماء " کا لفظ لغت اور اصطلاح میں خاص کہکشاؤں پر اطلاق نہیں ہوتا اور ان کا اس طرح استعمال قرآن سے ثابت نہیں ہے۔
١٧۔ طنطاوی
طنطاوی کا نظریہ یہ ہے کہ آیات میں سات کا عدد سات واقعی آسمان کے لئے نہیں ہے ممکن ہے آسمانوں کی تعداد اور زیادہ ہو جبکہ سات کا عدد معین کرنے کی وجہ وہی یونانی افکار ہیں کہ جو سکندریہ کے علماء سے وراثت میں منتقل ہوئے ہیں کہ جو ٩ فلک کے قائل تھے کہ جن میں سے سات(چاند، مرکری، زہرہ، سورج، مریخ، مشتری اور زحل) زمین کے گرد گھومتے ہیں اور آٹھواں مستقل اور نواں حرکت کا مبدأ ہے۔ یہ نظریات کہ جو فارابی اور بوعلی سے ہم تک پہنچے ہیں " سموات سبع " کو قرآن، عرش اور کرسی پر حمل کرنے کے باعث بنے ہیں۔ جبکہ جدید علم میں مریخ اور مشتری کے درمیان تقریباً چھ سو چھوٹے چھوٹے سیارچہ کشف کیا جاچکے ہیں کہ جن میں سب سے بڑا "سیرس" نام کا ہے جس کا قطر ٥٠٠ میل ہے۔
بس اگر خداوند فرمارہا ہے کہ سات آسمان ہیں اس میں کوئی منافات نہیں کہ اس سے زیادہ آسمان موجود ہوں اور معین عدد کوئی قید نہیں ہے چنانچہ یہ سات کا عدد قرآن میں آسمانوں کی تعداد منحصر و معین ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
( دیکھیے: طنطاوی جوھری، الجوھر فی تفسیر القرآن، ج١، ص٤٦ )
نوٹ: عصر حاضر کے بعض مصنفین نے طنطاوی پر بڑی شدت سے تنقید کی ہے کہ ان کا مذکورہ بالا نظریہ قرآن کی آیات کے ظاہر کے خلاف ہے کیونکہ ظاہرِ آیات قرآن سات کے عدد کو معین کررہی ہیں۔
( دیکھیے: محمد صادقی، زمین و آسمان و ستارگان از نظر قرآن، ص٢٢٦ )
١٨۔ ڈاکٹر محمد صادقی
ڈاکٹر محمد صادقی آسمانوں کی تعداد کو حقیقی سات عدد میں منحصر کرتے ہیں اور آسمان کو خالی فضا کے بجائے اجرام فلکی پر منطبق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق نظام شمسی کے سارے سیارے پہلے آسمان سے ہیں اور باقی آسمان ان پر احاطہ رکھتے ہیں البتہ ہم نہیں جانتے کہ ان میں کیا موجود ہے نیز یہ کائنات کی پہلی گیس کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔
(
ایضا: ص٢٢٧، ٢٣٢ و ٢٤٢)
١٩۔ بعض صاحب نظر افراد
بعض صاحب نظر افراد قرآن کریم کے سات آسمان کے مسئلہ کو بیان کرتے ہوئےدعویٰ کرتےہیں کہ علم کاسمولوجی کی کہکشاؤں کے بارے میں جدید کشفیات کی بنیاد پر قرآن کا یہ بیان ایک طرح کا قرآن کے علمی معجزہ کو بیان کرتا ہے۔
( سید رضا پاک نژاد، اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر، ج١، ص١١١ )
نوٹ:ان دو آخری نظریات کے بارے میں آگے چل کر بحث کی جائے گی۔
تفسیری نکات
اب جبکہ سات آسمان و زمین سے قرآن کا مقصود روشن ہوگیا۔ ضروری ہے کہ چند بنیادی سوالوں کا جواب دیا جائے اور اہل لغت و مفسرین کے نظریات کا جائزہ لیا جائے:
ایک : آسمان (سماء) سے مراد
لفظ سماء اور اس کے ملحقات قرآن کریم میں ۳۱۰ مرتبہ آئے ہیں۔ یہ ایک جامع و کامل مفہوم ہے کہ جس کے کئی معانی و مصادیق ذکر ہوئے ہیں۔ چنانچہ لغت، علم سائنس اورقرآن میں مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے:
۱۔ لغت میں آسمان
لغت میں " سماء " " سمو " یعنی بلندی سے لیا گیا ہے۔ اس کی اصل آرامی زبان سے ہے اور عبرانی(کیسمٹری)
( حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۵،ص۲۴۵ )
میں اونچائی اور برتری کے معنی میں ہے۔ کسی بھی شے کا آسمان اس شے کی چھت اور اونچائی کو کہتے ہیں۔ حتی بعض لغت دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر اونچائی اپنے نچلے حصے کی نسبت اس کا آسمان اور ہر نچلا حصہ اپنے بالائی حصے کی نسبت زمین ہے۔
( راغب اصفھانی، المفردات فی غریب القرآن الکریم ج۵، ص۲۴۵ )
۲۔ جدید علم طبیعیات physics میں آسمان
جدید علم طبیعیات میں اس طرح آسمان کی تعریف کی گئی ہے: ایک معدوم و گنبد نما وجود جو کہ سیاروں اور ستاروں کو دیکھے جانے کا سبب ہے۔
( بیانات، سال دوم، شمارہ۸،ص۸۶ و ۸۷ )
۳۔ قرآن میں آسمان
" س ماء " (آسمان) کا لفظ قرآن میں مفرد کی صورت میں السماء۔ سماء اور جمع سموات ۔ السموات تین سو سے زیادہ مرتبہ آیا ہے لیکن تمام موارد میں ایک معنی و مصداق کے لیےاستعمال نہیں ہوا۔ کلی طور پر آسمان قرآن میں دو مفاہیم مادی (حسی) اور معنوی میں استعمال ہوا ہے۔ جس کے بعض موارد یہ ہیں:
الف) اوپر (اوپر کی طرف): یہ معنی آسمان کے لغوی معنی کے مطابق ہے۔ مثلاً:
"مَثَلا كَلِمَة طَيِّبَة كَشَجَرَة طَيِّبَةٍ أَصلُهَا ثَابِت وَفَرعُهَا فِي ٱلسَّمَاءِ"( سورہ ابراہیم ۲۴ )
کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچتی ہے۔
بعض معاصر مفسرین نے اس معنی کو بیان کیا ہے
(
ناصر مکارم شیرازی، ج۱،ص۱۶۷۔۱۶۵)
جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ معنی اس وقت درست ہیں کہ جب کہیں کہ قرآن کریم نے اس لفظ کو مجازی اور تقریب ذہن کےلئےاستعمال کیا ہے
( محمد تقی مصباح یزدی، معارف قرآن، ص۲۳۴ )
کیونکہ لفظ: فوق یعنی اوپر کی طرف کی جمع نہیں ہوتی ہے لہذا " سبع سموات " اس معنی میں نہیں ہوسکتا۔
ب) زمین کے اطراف کی فضا: وہ جگہ جہاں بادل موجود ہوتے ہیں اور ان میں ہوا ہوتی ہے۔ جیسے
"وَنَزَّلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآء مُّبَٰرَكا "
اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا ہے۔
ج) ستاروں اور سیاروں کی جگہ: مثلاً
"تَبَارَكَ ٱلَّذِي جَعَلَ فِي ٱلسَّمَاءِ بُرُوجا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَٰجا وَقَمَرا مُّنِيرا "(
سورہ فرقان ۶۱)
بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند قرار دیا ہے۔
د) قربت اور حضور کا مقام: بعض مفسرین جیسے علامہ طباطبائی نے کئی جگہ " سماء " کو قربت اور حضور کے مقام سے تعبیر کیا ہے کہ جو عالم غیب کے امور کی تدبیر کی جگہ ہے
( سید محمد طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۶،ص۲۴۷ و ج ۱۹ص ۲۳۷ )
جیسے
"يُدَبِّرُ ٱلأَمرَ مِنَ ٱلسَّمَاءِ إِلَى ٱلأَرضِ"( سورہ سجدہ ٥ )
وہ خدا آسمان سے زمین تک کے امور کی تدبیر کرتا ہے۔
ھ) عالی اور حقیقی موجود: بعض ماہرین یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن میں آسمان جس طرح مادی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے سموات سبع ؛ سات آسمان۔ اسی طرح وجود اور موجودات کے عالی ترین مرتبہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے کہ جو وہی سماء معنوی اور ماوراء مادہ عالم ہے کہ تمام عالم ہستی جس مرتبے سے نازل ہوئی ہے
( محمد تقی مصباح یزدی، معارف قرآن،ص ۲۳۴۔۲۳۶ )
مثلاً
"وَفِي ٱلسَّمَاءِ رِزقُكُم وَمَا تُوعَدُونَ"(
سورہ ذاریات ٢٢)
اور آسمان میں تمھارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب کچھ موجود ہے۔
نتیجہ
لفظ سماء قرآن، لغت اور علم سائنس میں مختلف معنی اور مصادیق میں استعمال ہوا ہے اور مشترک لفظی
ہے۔
( مشترک لفظی:اس لفظ کو کہاجاتا ہےجو ایک وسیع معنی کے لئے قرار دنہ یا گیا ہو ،بلکہ وہ لفظ چند معنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہو )
البتہ ممکن ہے ان میں سے بعض معنی و مصادیق کو ایک مفہوم میں جمع کیا جائے۔ مثال کے طور پر چوتھا اور پانچواں قرآنی معنی یعنی قربت اور حضور کا مقام اور عالی و حقیقی موجود کو آسمان معنوی کے معنی میں یکجا کیا جاسکتا ہے۔
دو: زمین (ارض) سے مراد
لفظ ارض قرآن میں ۴٦١ مرتبہ آیا ہے لیکن کبھی بھی جمع کی صورت میں نہیں آیا۔ یہ لفظ لغت اور قرآن میں مختلف معنی و مصادیق رکھتا ہے:
١۔ لغت میں ارض
ارض جنس ہے جس کی جمع " ارضون " یا " اراضی " ہے جو کہ اس خاکی کُرہ کہ معنی میں ہے جس پر انسان بستے ہیں کے ۔ بعض اوقات سماء کے مد مقابل ہر پست اور نچلی چیز کے معنی میں بھی آتا ہے۔
( راغب اصفھانی، المفردات فی غریب القرآن الکریم، مادہ سماء اور ارض )
یہ لفظ جِرم کے معنی میں بھی آیا ہے۔ لیکن اس کے حقیقی معنی نیچے، بلندی و اونچائی کے مقابل ہے اور جب مطلق استعمال ہوتا ہے تو خاکی کرہ کے معنی میں ہے۔
(
دیکھیے: حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ١، ص ٥٦)
٢۔ قرآن میں ارض
قرآن کریم میں لفظ ارض کئی معنی میں استعمال ہوا ہے:
الف) کرہ زمین:
ایک معین و مشخص اسم و نام کے عنوان سے استعمال ہوا ہے، جس کی مثالیں بہت سی آیات میں موجود ہیں۔
ب) زمین کے مختلف قطعے و حصے:
مثلاً قرآن میں جنگجوؤں کی جلاوطنی کے بارے میں آیا ہے:
"أَو يُنفَواْ مِنَ ٱلأَرضِ "(
سورہ مائدہ ٣٣)
یا انھیں ارض وطن سے باہر نکال دیا جائے۔
بلکل واضح ہے کہ یہاں "ارض" سے مراد مخصوص سرزمین ہے۔
ج) عالم مادہ:
بعض موارد میں ارض سے مراد عالم مادہ لیا گیا ہے کہ جو "سماء" ماوراء طبیعت عالم کے مد مقابل معنی میں ہے مثلاً
"وَلَٰكِنَّهُۥ أَخلَدَ إِلَى ٱلأَرضِ وَٱتَّبَعَ ھ وا ہ۔۔ "(
سورہ اعراف ١٧٦)
لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کرلی۔
" اخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ "سے یہاں مراد زمین اوردنیا کادلدادہ وگرویدہ ہوجاناہے۔ اس معنی اوراطلاق کی بنا پر آسمان مادی بھی ارض میں شامل ہوا ہے۔
(
محمد تقی مصباح یزدی، معارف قرآن، ص٢٣٨ و ٢٣٩)
یعنی آسمان اور زمین دونوں دنیا کا حصہ ہیں۔
د) زمین کے مختلف طبقات یا تہیں:
لفظ ارض جب جمع بنتا ہے " ارضون " زمین کے داخلی طبقوں کے معنی میں آتا ہے۔
ھ) زمین کے آباد خطے یا ان کی آب و ہوا:
لفظ ارض جب جمع کی صورت میں آتا ہے " ارضون " زمین کے آباد حصوں کے معنی میں آتا ہے۔
پچھلے زمانے میں سات براعظم تھے اور آج بھی زمین کو سات حصوں (دو قطبی علاقے شمالی اور جنوبی، دو معتدل، دو گرم اور ایک استوائی یا گیلے اور خشک علاقے میں) تقسیم کیا جاتا ہے۔
بعض مفسرین نے چوتھے اور پانچویں معنی یعنی طبقات زمین و زمین کے آباد حصوں کو احتمالی صورت میں سورہ طلاق کی بارہیویں آیت کی توضیح میں بیان کیا ہے۔
( دیکھیے: محمد حسین طباطبائی، المیزان ، ج١٩، ص٣٢٦؛ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ذیل آیہ ١٢ طلاق )
نتیجہ
یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لفظ "ارض" بھی "سماء" کی طرح مادی اور معنوی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ زمین حسی اور معمولی زمین کے مختلف حصوں، براعظموں اور داخلی طبقوں اور خاکی کرہ کے معنی میں آتا ہے جبکہ معنوی اور غیرمعمولی زمین عالم طبیعت اور عالم فرش کے معنی میں ہے۔
تین: سبع (سات) سے مراد
لفظ سبع (سات) عربی میں دو صورتوں میں استعمال ہوا ہے:
١۔ مشخص و معین عدد
یہ ریاضی میں استعمال ہوتا ہے۔
٢۔ کثرت کی علامت
بعض اوقات عربی میں لفظ سبع استعمال کیا ہے جبکہ مراد اس کا کنایہ یعنی کثرت یا کثیر تعداد ہوتی ہے۔ مثلاً
"وَلَوۡ أَنَّمَا فِي ٱلۡأَرۡضِ مِن شَجَرَةٍ أَقۡلَٰم وَٱلۡبَحۡرُ يَمُدُّهُۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦ سَبۡعَةُ أَبۡحُر مَّا نَفِدَتۡ كَلِمَٰتُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيم " سور ہ لقمان ٣٧)
اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کو سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہی تمام ہونے والے نہیں ہیں بیشک اللہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ " سبعة ابحر " سات دریاؤں سے یہاں مراد کثرت کا بیان کرنا ہے اور اگر سینکڑوں دریا بھی ہوں خدا کی مخلوقات کو لکھنے کےلئےکافی نہیں ہیں۔ بعض مفسرین نے آیات میں سبع سموات میں دوسرے احتمال کو ذکر کیا ہے
( ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج١، ص١٦٥ ـ ١٦٧ + ذیل آیت ١٢ سورہ طلاق )
جبکہ بعض نے پہلے احتمال کو قوی جانا ہے۔
(
محمد تقی مصباح یزدی، معارف قرآن، ص٢٣٩ و ٢٤٠)
لیکن سبع سموات میں دونوں احتمالات بعید ہیں۔ اگر پہلے احتمال کو قبول کیا جائے سوره طلاق آیت ١٢ میں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ سات آسمان وجود رکھتے ہیں اور اگر دوسرے احتمال کو قبول کیا جائے تو آیت کی مراد یہ ہوگی کہ آسمان کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ "ارض" اور "سماء" کے مختلف بیان شدہ معنی کے مطابق دیگر متناسب اور مختلف معنی بھی پائے جاسکتے ہیں، جیسے:
ایک: ستاروں و سیاروں سے بھرے سات آسمان خلق کیے گئے۔
دو: سات عدد کرہ زمین خلق کیے گئے۔
تین: زمین کی فضا کے سات طبقے و مرحلے بنائے گئے۔
چار: زمین کے سات داخلی طبقات بنائے گئے۔
پانج: مقام قرب اور وجود عالی کے سات مراتب بنائے گئے۔
چھ: عالم مادہ سے نیچے سات مراتب بنائے گئے۔
چار۔ ایک جیسا ہونے (مثلھن)سے مراد
ایک جیسے ہونے (مثلیت) کے بارے میں سورہ طلاق کی آیت ١٢ میں چند احتمالات و امکانات موجود ہیں:
١۔ زمین اور آسمان کا تعداد(سات عدد) میں ایک جیسا ہونا
( دیکھیے: سید عبدالحسین طیب، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، ذیل آیہ ١٢ سورہ طلاق )
یعنی خداوند عالم نے سات آسمان خلق کیے اور اس کی طرح سات زمین بنائیں۔ اس صورت میں "مِن" من الارض مثلھن میں جنس بیان کرنے کےلئےہے۔ یعنی جنس زمین سے مزید سات عدد خلق کیے۔
اگر اس احتمال کو "مثل" کے مورد میں قبول کریں وہی ارض و سماء(زمین و آسمان) میں بیان کیے گئے پچھلے احتمالات پیش آئیں گے کہ جنہیں نسبت کے لحاظ سے مدِنظر رکھا جائے گا مثلاً آسمان کے سات طبقے زمین کے داخلی سات طبقوں کے ساتھ ، سات عالم اور ستاروں سے بھرا جہان سات عدد کرہ زمین کے ساتھ، مقام قرب اور وجود عالی کے سات مرتبہ سات نچلے و پست مراتب کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔
٢۔ فضا میں معلق یا تیرتا ہوا ہونا:
یعنی جس طرح خدا نے سیاروں اور ستاروں کو بغیر کسی سہارے و تکیہ گاہ کے فضا میں تیرتا ہوا خلق کیا ہے زمین کو بھی اسی طرح بنایا ہے۔( فخزرازی نے تفسیر کبیر میں اسی احتمال کو مثل کے معنی میں قبول کیا ہے؛ اگرچہ کہ سات سیاروں کو سات براعظم کے برابر قرار دیا ہے۔ دیکھیے: فخررازی، تفسیر کبیر، ج٣٠ ذیل آیہ ١٢ سورہ طلاق )
اس صورت میں آسمان سیاروں و ستاروں کا مجموعہ اور زمین کرہ خاکی کے معنی میں ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے سات کا عدد زمین کے مورد میں نہ ہو۔
٣۔ ملکوتی ہونے میں مماثلت: یعنی خداوند عالم نے آسمان کو خلق کیا؛ قرب و حضور اور ملکوت کے مقام میں اور زمین سے بھی آسمان کی جیسی چیز خلق کی یعنی انسان کو خلق کیا کہ جو زمینی مادہ اور ملکوتی روح سے مل کر بنا ہے۔
(
دیکھیے: محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٩، ص٣٢٦)
اس صورت میں " مِن " من الارض مثلھن میں نشوونما کے معنی میں ہے یعنی زمین سے ملکوتی انسان نے ملکوتی آسمان کی طرح نشوونما پائی اور خلق ہوا۔ اس صورت میں ارض اور سماء کے کئی معنی نہیں ہونگے، بلکہ آسمان قرب، حضور و ملکوت کے معنی میں اور زمین خاکی کرہ یا عالم مادہ کے پست مرتبہ کے معنی میں ہے۔
پانچ: سات آسمان سے مراد
گذشتہ تمہید اور ارض، سماء، سبع، مثلھن کے بیان شدہ معنی کے ذیل میں یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ "سات آسمان" کے بارے میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں:
١۔ سات حقیقی عدد کے معنی میں
اس صورت میں چند احتمالات قابل تصور ہیں:
الف) ستاروں و سیاروں سے بھرے سات آسمان سات زمین کے خاکی کروں کی طرح۔ یہ مطلب علمی نکتہ نظر سے بھی ممکن ہے کیونکہ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کڑوڑوں سورج اور زمین کے جیسے سیارے اس جہان کی کہکشاؤں میں موجود ہیں؛ جس طرح سے اس ستاروں سے بھرے آسمان جیسےکئی جہانوں کے موجود ہونے کا احتمال ہے۔ کیونکہ علم نجوم و علم کاسمولوجی کے ماہرین اپنی مختلف دوربینوں اور ٹیلی سکوپوں کے ذریعے سینکڑوں ستاروں و سیاروں کا مشاہدہ کرچکے ہیں جبکہ اس کے باوجود بھی کہتے ہیں کہ ابھی نامعلوم فضا و خلا موجود ہے کہ جو ہماری دید کے دائرہ سے باہر ہے۔
(
دیکھیے: ناصر مارم شیرازی، تفسیر نمونہ، کے ص١٦٥۔ ١٦٧+ ذیل آیت ١٢ سورہ طلاق)
بس ایک جیسے چھ جہان اور چھ اور آسمان کہ جو اب تک کشف نہیں ہوئے ہیں انکے پائے جانے کا احتمال ہے نیز یہ نظریہ بعض قرآنی آیات کے ظاہر سے بھی سازگار ہے۔(
دیکھیں:سورہ صفات ٦ و سورہ ملک ٣)
ب) قرب و حضور اور عالی و معنوی مرتبے کے سات مقامات (یعنی سات آسمان) اور اس کے مدِمقابل سات مادہ اور عالم طبیعت کے پست مقامات(یعنی سات زمین)۔
ان دو صورتوں میں آسمان اور زمین کا ایک جیسا ہونا ان کی تعداد یعنی سات ہونے میں ہے۔
٢۔ عدد سات کثرت کے معنی میں
اس صورت میں بھی چند احتمالات متصور ہیں:
الف) خدا نے بہت سے آسمان (کروں و سیاروں کے مجموعے وغیرہ کی صورت میں) خلق کیے اور زمین بھی بہت سی خلق کیں (زمین کے مشابہ دیگر زمینوں کی صورت میں) اور یہ سب فضا میں تیر رہے ہیں۔
ب) زمین کے طبقات کی بہت سی تہیں خلق کیں اور اسی طرح زمین کے داخلی طبقات و خطے بنائے۔ آج کل علم ارضیاتی اور ہواشناسی میں زمین و ہوا کی مختلف تہوں اور طبقات کو اُن کی کثافت کی مقدار یاا جزاء کے لحاظ سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس صورت میں آیت ان طبقوں کی جانب اشارہ کررہی ہے یا پھر زمین کے سات خِطوں کی جانب۔
ج) خداوند نے معنوی مرتبے، قرب و حضور کے مقامات اور بہت سی عالی ترین موجودات خلق کیں نیز طبیعت کے بھی بہت سے پست مرتبے خلق کیے۔
اس بات کی طرف توجہ رکھنی بھی ضروری ہے کہ یہاں دیگر احتمالات بھی پائے جاتے ہیں جیسا کہ بعض افراد نے ان کی جانب اشارہ کیا ہے لیکن کیونکہ وہ بہت ضعیف ہیں اور آیت کے ظاہر سے بعید دکھائی دے رہیں ہیں جیسے مثلاً نظام شمسی کے سات ستارے مراد ہوسکتے ہیں وغیرہ اسلئےان کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا۔ البتہ وہ احتمالات بھی جو یہاں ذکر کیے گئے ہیں بعض ظاہر آیت سے مناسب تر ہیں اور بعض ظاہر آیت سے دور ہیں جس کی قضاوت اور اختیار کا فیصلہ پڑھنے والے صاحب نظر افراد پر چھوڑا گیا ہے کیونکہ اس مورد میں قطعی اور حتمی ایک رائے دینا بہت دشوار ہے۔
چھ : سات زمین سے مراد
قرآن کریم میں کوئی صریح آیت نہیں پائی جاتی جو سات زمین کے موجود ہونے پر دلالت کرے ۔صرف ایک آیت جو سات زمین پر اشارہ کرسکتی ہے سورہ طلاق کی آیت نمبر ١٢ ہے وہ بھی اس صورت میں جب اس آیت میں مثلیت سے مراد سات کے عدد میں ہم مثل اور ایک جیسا ہونا جانا جائے جبکہ اس مشارکت و مثلیت میں دو دیگر احتمال بھی ذکر ہوچکے ہیں؛ مختلف کروں کے فضا میں معلق ہونے میں مثلیت اور ملکوتی ہونے میں مثلیت۔لیکن
"الارضین السبع "
(
محمد بن حسن حر عاملی، وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، ج٤، ص٩٠٧)
سات زمینیں؛ روایات میں آیا ہے نیز نہج البلاغہ میں بھی کلمہ " الارضین "
ذکر ہوا ہے:
و رکوبها اعناق سهول الارضین و جراثیمها (سید رضی، نهج البلاغه، ج١، ص١٧٤)
اور زمین کی پست سطحوں پر(پہاڑ) سوار ہوجانے کی وجہ سے اس کی تھرتھراہٹ جاتی رہی۔
الم یکونوا ارباباً في اقطار الارضین
( سید رضی، نہج البلاغہ، ج٢، ص١٧٧ )
کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا نہ تھے ۔
فهم حکام علی العالمین و ملوک في اطراف الارضین
(
ایضا، ص١٧٩+ خطبہ١٩٩)
وہ تمام جہان پر حکمران اور زمین کی پہنائیوں میں تخت و تاج کے مالک بن گئے۔(
مزید تفصیلات جاننے کے لئے رجوع کریں: محمد علی رضایی اصفھانی، پژوھشی در اعجاز علمی قرآن، ج١)
کلام حضرت امیرالمؤمنینؑ میں پائے جانے والے قرینوں سے معلوم ہوتا ہے "ارضین" تمام موارد میں زمین کے خشک خطوں کے معنی میں ہے ۔
( ترجمہ نہج البلاغہ ، علامہ مفتی جعفر حسین )
بس سات قسم کی زمینوں کو اگر قرآن سے سمجھ سکیں تو پچھلے معنی میں سے ایک یعنی زمین کے سات خطے یا براعظم ہے جو کہ شیعہ روایات میں بھی آیا ہے۔ یا پھر سات خاکی کروں یا زمین کے سات داخلی طبقوں کے معنی پر حمل ہوگا۔
نتیجہ
١۔ آسمان، زمین، ان کی آپس کی مماثلت، سات اور سات آسمانوں کے مختلف معنی کو مدنظر رکھنے اور ان آیات کی تفاسیر میں کئی احتمالات کی بنا پر یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ قرآن کا مقصود تمام موارد میں آسمان کا ایک خاص معنی ہے نیز تمام سات آسمان کے موارد کے لئے ایک خاص معنی بھی قرآن پر حمل نہیں کیا جاسکتا۔
بس معلوم ہوتا ہے وہ تمام افراد کہ جو قطعی و حتمی ایک معنی کو قرآن کی جانب نسبت دیتے ہیں اور اسی پر مسر ہیں وہ درست راہ پر نہیں چلے ؛ اس کے علاوہ ان نظریات پر واضح اشکالات بھی ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے۔
٢۔ قرآن کے سات آسمان کا معنی مبہم ہونے، سائنسی نکتے نظر سے آسمان اور کہکشاؤں کے معنی میں ابہام ہونے نیز طرح طرح کے جدید نظریات کہ جو روز بروز دیئے جاتے ہیں ان سب کی بنا پر نہیں کیا کہا سکتا کہ قرآن کی قطعی نظر کونسے نظریے کے مطابق ہے۔ ان تمام چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے قرآن کے علمی معجزے کا دعوی ٰسات آسمانوں سے مربوط آیات میں درست نہیں ہے حتی اگر سات آسمان کے مورد میں ایک سائنسی نظریہ بھی ثابت ہوجائے تب بھی قرآن کا علمی معجزہ ثابت نہیں ہوگا، کیونکہ جس طرح پہلے بھی بیان ہوا کہ سات آسمان کا نظریہ اسلام سے پہلے قوم نوح(علیہ السلام) میں اور یہودیوں کے درمیان بھی رائج تھا۔
٣۔ جس طرح سے قرآن اور سائنسی اصطلاح میں لفظ آسمان سے مراد ایک جیسی نہیں ہے مثلاً ایک کا مقصود آسمان معنوی ہے اور دوسرے کا خالی فضا یا آسمانی کُرے ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ قرآن کے سات آسمان کے نظریے اور علم کاسمولوجی کے اس بارے میں نظریے میں تعارض اور ٹکراؤ ہے۔ کیونکہ علم کاسمولوجی کا دعوی ٰہے کہ "ابھی سات آسمان کشف نہیں کیے گئے اور قرآن دعوی ٰکرتا ہے کہ سات آسمان موجود ہیں۔"
لفظ آسمان کے مشترک لفظی ہونے کی وجہ سے نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ دو نظریات ایک دوسرے سے ٹکراؤ رکھتے ہیں۔ اگر دونوں سائنس اور دین آسمان سے ایک ہی معنی لیں، تب بھی سائنس سات آسمان کے وجود کی نفی نہیں کرتا بلکہ ابھی انہیں ثابت نہیں کیا گیا ہے جبکہ قرآن وحی کے ذریعے ان کے موجود ہونے کی خبر دے رہا ہے لہذا ممکن ہے مستقبل میں مزید آسمان کشف کیے جائیں اور دین کا نظریہ سائنسی لحاظ سے بھی ثابت ہوجائے۔
٤۔ گزشتہ مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سات آسمان کے باب میں نظامِ بطلیموس ptolemaic system سے کہ جو نوافلاک کو بیان کرتا ہے مخالفت رکھتا ہے۔ البتہ بعض مسلمان دانشوروں نے کوشش کی کہ ان دو نظریوں کو عرش اور کرسی کے اضافے سے سات آسمان میں فٹ کردیں اور ان دو نظریات میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ بس ان تمام وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر سروش کے مطالب (آیت کے ظاہر کا نظامِ بطلیموس پر دلالت کرنا) صحیح نہیں ہیں۔
وہ لکھتے ہیں:
"سات آسمانوں کا قصہ اس سے بھی زیادہ واضح ہے بلا استثناء تمام پچھلے مفسرین نے اسے بآسانی نظریہ نظامِ بطلیموس یا ptolemaic system پر منطبق کیا ہے اور کیوں نہ کیا جائے؟ ظاہر قرآن مکمل طور پر اس پر دلالت کرتا ہے۔ البتہ فقط انیسویں اور بیسویں صدی میں قرآن کے(عرب و غیر عرب) جدید مفسرین مذکورہ آیات کی جدید علوم و معارف کی بنیاد پر نئی تفسیر کرنے کی کوششوں میں لگے"۔(
عبدالکریم سروش، "بشر و بشیر"، روزنامہ کارگزاران، ١٩ و ٢٠ اسفند٨٦)
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سروش نے سات آسمان کو نظامِ بطلیموس ptolemaic system پر منطبق کرنے کی نسبت تمام قدیمی مفسرین کی جانب دی ہے جبکہ اگر کوئی تفاسیر عیاشی، قمی، مجمع البیان، تبیان وغیرہ پر ایک سرسری نگاہ بھی کرے تو متوجہ ہوجائے گا یہ نسبت بہت سے مفسرین کےلئےدینا درست نہیں ہے۔
حرف آخر یہ کہ یہ جو ڈاکٹر سروش سات آسمان کے مسئلہ کو " پیغمبر (ص) کے زمانے کا ناقص علم" کا حصہ کہتے ہیں
( عبدالکریم سروش، نامہ "طوطی و زنبور" اردبھشت ١٣٨٧، ص١٤ )
صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن نے ان مطالب کو حضرت نوح (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے یعنی یہ مسئلہ گزشتہ انبیاء کے زمانے سے ہے؛ نہ کہ عربوں کی ثقافت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ناقص علم سے! نیز اس جہان کی انتہا کشف نہ ہونے کی بنا پر "قرآنی مسائل کو ناقص علم" قرار دینا ایک طرح کی علمی دلیل کے بغیر قبل از وقت قضاوت ہے۔
ب) اسپرمیٹازوئڈ کے خروج کی جگہ (صلب و ترائب)
پروردگار انسان کی پانی سے خلقت کے بارے میں ایک آیت میں فرماتا ہے:
" فَليَنظُرِ ٱلإِنسَٰنُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّآء دَافِق يَخۡرُجُ مِنۢ بَيۡنِ ٱلصُّلۡبِ وَٱلتَّرَآئِبِ " ( سورہ طارق ٥ ـ ٧ )
پھر انسان دیکھے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
بعض مفسرین، مترجمین اور علمِ طب کے ماہرین نے اس آیت کے بارے میں بہت سے نظریات بیان کیے ہیں کہ جو آیت کے مبہم ہونے اور علم طب کی دریافتوں سے مخالف و ناسازگار ہونے کا باعث بنے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں: صلب اور ترائب سے مراد "مرد کی پیٹھ اور عورت کا سینہ ہے
(
محمد مھدی دولادوند، ترجمہ قرآن، ترجمہ آیت ٥و٦ سورہ طارق)
چنانچہ بعض افراد جیسے ڈاکٹر موریس بوکائی برملا لکھتے ہیں: "اس طرح کے ترجمے ایک خاص قسم کی تعبیر ہیں اور بہت کم قابل فہم ہیں"۔
(
موریس بوکائی، مقایسہ میان تورات، انجیل، قرآن و علم، ص٢٧٩)
جبکہ اگر آیت پر دقیق نظر ثانی کی جائے تو متوجہ ہوسکتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہاں ناصرف سائنس کے برخلاف مطالب بیان نہیں کیے، بلکہ انتہائی ادب کے ساتھ علمی نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہاں لازمی ہے کہ چند علمی و تفسیری نکات کو واضح کیا جائے تاکہ آیت کا مقصود معلوم ہوسکے۔
علمی اور تفسیر نکات
١۔ ماء دافق سے مراد
اس مورد میں مفسرین کے دو طرح کے نظریات ہیں؛ البتہ خود اس مسئلہ میں تین احتمالات موجود ہیں:
الف) ماء دافق سے مراد مرد کی منی ہے کہ جو اچھل کر خارج ہوتی ہے۔ دافق " مدفوق " یا " ذو دفق " کے معنی میں آیا ہے۔
( سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج٢٠، ص٣٧٩ )
ب) عورت و مرد دونوں کا مشترک پانی مراد ہے کہ جو رحم میں مخلوط mix ہوکر ایک ہوجاتا ہے۔ یہ نظریہ بہت سے مفسروں کے کلام میں نظر آتا ہے۔
( محمود زمخشری، تفسیر الکشاف، ج٤، ص٧٣٥، درجہ بالا آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: " و لم یقل ماءین متزاجھما فی الرحم … )
ج) مراد ایک شے بنام " oval " یا بیضہ ہے جو عورت سے خارج ہوتی ہے اور اس کے اسپرمز سے ملنے سے بچہ کا ابتدائی نطفہ تشکیل پاتا ہے۔
جائزہ:
انسانی بچہ ایک انڈے کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔ ہر انڈہ دو حصے "اسپرمیٹازوئڈ" اور "بیضہ" رکھتا ہے۔ ملاپ کے دوران مرد سے منی کے قطرے خارج ہوتے ہیں کہ جس میں سینکڑوں اسپرمیٹازوئڈ موجود ہوتے ہیں
( جماع کے عمل میں سپرم کی تعداد دو سے تین کڑوڑ تک جانی گئی ہے؛دیکھیے: توماس سادلر، رویان شناسی پزشکی لانگمین، ص۳۰/ بھداشت ازدواج از نظر اسلام، ص ۴۲ / مصطفی زمانی، پیشگوئی ھای علمی قرآن، ص۱۱۸ )
کہ عموماً ان میں سے ایک خود کو عورت کے بیضہ تک پہنچاتا ہے اور اس کے ساتھ ملحق ہوجاتا ہے اور انڈہ تشکیل دیتا ہے۔ اس کے بعد یہ انڈہ آہستہ آستہ حرکت کرتا ہے کہ عورت کے رحم میں ٹھہر جائے اور دھیرے دھیرے بڑھتا رہے یہاں تک کہ بچہ دنیا میں آجائے۔
ان علمی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے احتمال کو قبول کیا جاسکتا ہے کہ ماء دافق سے مراد مرد کی منی ہے کہ جو اچھل کر اور جھٹکے سے باہر آتی ہے اور یہ احتمال آیت کے ظاہر سے بھی مطابقت رکھتا ہے کیونکہ بیضہ جو عورت سے خارج ہوتا ہے تیزی و جہش نہیں رکھتا اور رحم کی جانب حرکت کے وقت بھی آہستگی سے حرکت کرتا ہے۔
چنانچہ ماء دافق کے بارے میں دوسرا نظریہ عورت و مرد کا مشترک پانی صحیح دکھائی نہیں دیتا۔ اور تیسرے احتمال کے بارے میں بھی کسی نے رائے نہیں دی ہے اسی وجہ سے ابتداء سے ہی کلعدم ہے۔
٢۔ صلب سے مراد
اس مورد میں بھی چند احتمالات پائے جاتے ہیں:
الف) راغب لکھتے ہیں: سخت اور محکم چیز کو صلب کہا جاتا ہے اور اسی وجہ سے مرد پر یہ لفظ اطلاق ہوتا ہے۔
(
راغب اصفہانی، المفرادات فی غریب القرآن، مادہ صلب)
ب) بعض نے احتمال دیا ہے کہ مرد کی پچھلی ہڈی(ستون فقرات) مراد ہے۔
(
فخررازی، تفسیر الکبیر، ذیل آیت ٥ ـ ٧ طارق/ دیکھیے:حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج٦، ٣١)
اسی معنی کے مطابق ڈاکٹر قرقوز اور ڈاکٹر دیاب لفظ صلب کے معنی کے ذیل میں لکھتے ہیں: صلب میں ریڑھ کی ہڈی اور سیکرم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اعصابی طور پر اس میں جنسی رویے کے ضابطے کا مرکز شامل ہے۔ ریڑھ کی ہڈی سے نکلنے والے اعصاب، جنسی اعضاء( جننانگ نظام) کو متحرک کرتے ہیں۔ ان اعصاب کو سولر نیٹ ورک، سیکرل عصبی نیٹ ورک، اور جینیٹل عصبی کنکشن کہا جاسکتا ہے۔
یہ عصبی ڈور خون کی نالیوں کے سکڑنے اور جڑنے اور عضو تناسل کی نرمی اور جنسی سرگرمیوں سے متعلق تمام امور کےلئےذمہ دار عصبی رشتوں سے جڑتا ہے۔ اور اگر صلب کی جگہ کی وضاحت کرنا چاہیں جو اس اعصاب کے لئے ذمہ دار ہے، تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ خطہ بارہویں ڈورسل vertebra ، پہلے اور دوسرے lumbar vertebra ، اور تیسرے اور چوتھے sacral vertebra کے درمیان کی جگہ واقع ہے۔
(
عبدالحمید دیاب و احمد قرقوز، طب در قرآن، ص٣١)
ج) کچھ لوگوں نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ انسان کا تمام بدن کہ جو سینے اور کمر کی ہڈیوں کے درمیان واقع ہے وہ مراد ہے۔
(
سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیات ٥ ـ ٧ طارق)
د) کچھ کا کہنا ہے کہ مرد کی منی خارج ہونے کی جگہ مراد ہے۔
( رستگاری جوبیاری، تفسیر البصائر، ذیل آیات ٥ ـ ٧ طارق )
ڈاکٹر پاک نژاد اسی معنی کی تائید میں صلب کو مرد کے نطفہ پیدا کرنے کا سسٹم جانتے ہیں۔
( سید رضا پاک نژاد، اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر، ج١، ص٢٤٠ )
ھ) بعض اہل لغت نے احتمال دیا ہے کہ مرد کی ہڈیاں مراد ہیں۔
و) بعض دیگر اہل لغت کا کہنا ہے کہ کلی طور پر قوت اور شدت مراد ہے۔
ز) کچھ اور اہل لغت کا کہنا ہے منی بننے کا مبدا یعنی نظام انہضام مراد ہے۔
(
حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم،ج٦، ص٢٦٣)
تمام معانی کا جائزہ
اس چیز کے پیش نظر کہ تمام اقوال مرد یا اس کے بدن کے خاص حصے (جیسے کمر یا ریڑھ کی ہڈی) کے بارے میں ہیں، اجمالی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صلب سے مراد عورت یا اس کے بدن کا کوئی عضو نہیں ہے۔
البتہ ترائب کے معنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ جو آگے بیان کیے جائیں گے یوں معلوم ہوتا ہے کہ صلب سے مراد "مرد کی پشت و کمر" زیادہ بہتر ہے۔ جبکہ لغوی معنی "شدت" کسی بھی صورت مراد نہیں ہوسکتا کیونکہ منی صرف شدت سے باہر نہیں نکلتی؛ بلکہ اس کے مصداق میں شدید و محکم چیزیں ہیں نیز مرد کے بدن میں اس کی پشت کو صلب کہا جاتا ہے کیونکہ انتہائی محکم اور قوی ہے۔
تیسرامعنی کہ جو مرد کا تمام بدن ہے اس کےلئےکہا جاسکتا ہے کہ اس معنی سے صلب اور ترائب دونوں کا مجموعہ مراد ہے، اس کے بارے میں بحث کے آخر میں اشارہ کیا گیا ہے اور اسے مرد کی کمر کی ہڈی کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک "صلب کا معنی مرد کا پورا بدن" دوسرے معنی؛ کی بات ہے یہ قابل قبول نہیں، کیونکہ اس کا لازمہ یہ نکلے گا کہ ترائب سے مراد بھی عورت لی جائے جبکہ منی ان دونوں سے خارج نہیں ہوتی بلکہ فقط مرد کے داخل سے خارج ہوتی ہے۔
چوتھا معنی کہ جس سے مراد مرد کا نطفہ پیدا کرنے کا سسٹم ہےیہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ منی اس سے اور ترائب سے خارج نہیں ہوتی بلکہ نطفہ پیدا کرنے کے سسٹم کے داخل سے نکلتی ہے، مگر یہ کہ کہا جائے لفظ "بین" سے مراد داخل ہے البتہ اس صورت میں لفظ کے خلاف ظاہر معنی لئے گئے ہیں۔
پانچویں معنی یعنی مرد کی ہڈیاں کہ اگر اس سے مرد کی کمر اور پشت کی ہڈیاں ہوں تو اس میں کوئی مشکل نہیں، لیکن کلی طور پر تمام ہڈئیوں کے لئے لفظ صلب استعمال نہیں ہوتا۔
ساتویں معنی یعنی نظام انہضام اگر مراد ہو پورا جملہ " ما بین الصلب و الترائب " ہو تو ممکن ہے کنایتاً بعض موارد میں احتمال دیا جاسکے لیکن اگر صرف لفظ صلب سے یہ معنی لیا جائے صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ معنی اور لفظ صلب کے لئے اس کا استعمال نہیں پایا جاتا۔
٣۔ ترائب سے مراد
ترائب کے لئے بہت سے معنی ذکر ہوئے ہیں جن کی جانب مختصراً اشارہ ہے:
الف) عورت کی گردن کی جگہ کی ہڈی ترائب لفظ تراب سے ہے اور کیونکہ عورت کے سینہ کی ہڈی نرم ہے اور بآسانی حرکت کرتی ہے اسے ترائب کہا جاتا ہے۔
(
طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیت/ ابن منظور، لسان العرب/ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ)
ب) عورت کے دونوں سینوں کا درمیان
ج) دونوں کندھوں اور سر کا درمیان
د) سینے کی اور گردن کی ہڈیاں
(
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج٤، ص٥٣٢/ طبرسی، مجمع البیان، اسی آیت کے ذیل میں)
ھ) دل کا نچوڑ یا عصارہ
(
رستگاری جوبیاری، تفسیر البصائر، ذیل آیت /ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم)
و) ہاتھ، پیر، آنکھیں وغیرہ (تمام بدن)
(
طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیت)
ز) عورت کی بیضہ کے خارج ہونے کی جگہ
(
رستگاری جویباری، تفسیر البصائر، ذیل آیت)
ڈاکٹر پاک نژاد لکھتے ہیں:
اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ صلب کو مرد کے نطفے تشکیل دینے کا سسٹم اور ترائب کوعورت کا نطفے تشکیل دینے کا سسٹم قرار دیا جائے۔
(
سید رضا پاک نژاد، اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر، ج١، ص٢٤٠)
اور پھر ان مطالب کو آیت کے ظاہر کے ساتھ یوں توجیح کرتے ہیں:
لغت کی کتب اس کا مقام ریڑھ کی ہڈی کے پیچھے کی جگہ یعنی وہ بنیادی جگہ جہاں خصیہ اور بچہ دانی قرار پاتے ہیں بتاتی ہیں۔ یاد رہے جنین کو چھ ماہ ہونے تک انڈہ اور بچہ دان دونوں پشت پر ہوتے ہیں۔
جنس نر میں چھ ماہ کے بعد دونوں نیچے کی طرف کھینچتے ہیں اور اسکروٹم میں آجاتے ہیں پھر عادی شکل اختیار کرنے لگتے ہیں اور جنس مادہ میں بھی معمولی سی رد و بدل ہوتی ہے اور پہلو کے دونوں طرف رحم کی نالی آجاتی ہے۔
چنانچہ اس آیت قرآن کو مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق خلقت انسان کے مراحل بیان کرنے والا قرار دیا جاسکتا ہے:
ریڑھ کی ہڈی کے آس پاس آب دافق سے بنایا گیا۔
صلب اور ترائب میں خصیوں اور رحم سے وابستہ دو حصوں میں رکھا گیا۔
پھر یہ خصیوں اور تخمدانی کے راستے سے گزرا...یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ کیونکہ خصیوں کے کینسر کے میٹاسٹیسیس پہلے ریڑھ کی ہڈی کے گرد ظاہر ہوتے ہیں، اس لئے ممکن ہے جلد ہی انکشاف کیا جائے کہ ریڑھ کی ہڈی اور خصیے کی سیمینیفرس نالیوں میں موجود سیال کے درمیان ایک واضح اوریقینی تعلق ہے۔
(
سید رضا پاک نژاد، اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر، ج١، ص٢٤٠)
ح) ہر شخص کی ریڑھ کی ہڈی اور سینے کا درمیان۔
(
رستگاری جویباری، تفسیر البصائر، ذیل آیت)
ط) ترائب بدن انسان میں جوڑی دار اور برابر کے اعضاء کو کہا جاتا ہے چنانچہ ہاتھ کی انگلیوں اور انسان کے پیر کی دونوں رانوں کو بھی ترائب کہا جاتا ہے (وہ جگہ کہ جہاں مرد کا آلہ تناسل واقع ہے)۔
(
ابن کثیر، ضحاک سے(کہ جو تفسیر میں تابعین کے تابعین تھے) معنی نقل کرتے ہیں، تفسیر قرآن العظیم، ذیل آیت)
اسی بارے میں ڈاکٹر دیاب اور ڈاکٹر قرقوز بھی مفسرین کے بیان کردہ معنی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اب جبکہ معنی کا میدان اس حد تک وسیع ہے ہم ان معنی کو انتخاب کرتے ہیں کہ جو سائنسی حقائق کے بھی مطابق ہو یعنی ترائب کو دونوں پیروں کے درمیان کی ہڈی فرض کریں گے۔
(
عبدالحمید دیاب و احمد قرقوز، طب در قرآن، ص٣٢)
آیت اللہ محمد ہادی معرفت نے بھی اس معنی کو قبول کیا ہے۔
(
دیکھیے: محمد ہادی معرفت، التمھید فی علوم القرآن، ج٦، ص٦٢۔ ٦٤)
جائزہ
لغت میں ترائب دو معنی "خضوع و تسلیم" اور "بدن میں تمام دو مساوی چیزیں" کے معنی میں ہے۔ اکثر معنی اور احتمالات کہ جو اس آیت کے ذیل میں بیان ہوئے ہیں ان کا مصداق و استعمال انہی دو معنی میں ہے۔ البتہ "ترائب" کے معنی اور موجودہ احتمالات پر توجہ کرتے ہوئے ممکن ہے آیت
"يَخرُجُ مِن بَيۡنِ ٱلصُّلۡبِ وَٱلتَّرَآئِبِ "
کےلئےچندمعنی بیان ہوسکیں:
ایک: وہ پانی کہ جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلے:
یہ معنی ترائب کے اکثر معنی سے مطابقت رکھتا ہے کہ جن میں عورت کے سینے و سینے کی ہڈی جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔ اسی کے ذیل میں قرآن کے ایک مترجم نے سورہ طارق کی آیت ٦ اور ٧ کا یوں معنی کیا ہے:
اچھلتے ہوئے پانی سے خلق ہوا ہے کہ جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
بعض مفسروں نے اسی معنی کو قبول کیا ہے اور اس کی علمی توجیہی پیش کرنے کی کوششوں میں ہیں
( سید قطب، تفسیر فی ظلال القرآن، ج ٦، ص٣٨٧٧ )
لیکن کیونکہ جملہ
"یخروج من بین الصلب و الترائب" "ماء دافق"
کی صفت ہے اور عورت کا بیضہ اچھلنے کی حالت اور تیزی نہیں رکھاتا لہذا یہ احتمال قوی شمار نہیں ہوسکتا۔ صاحب التحقیق بھی اسی بنا پر اسے نادرست سمجھتے ہیں۔ کیونکہ منی مرد کی پشت اور عورت کے سینے کے درمیان سے نہیں خارج ہوتی بلکہ مرد کے داخل سے نکلتی ہے۔
(
حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج١، ص٣٨٤)
دو: وہ پانی کہ جو مرد کی پشت اور سینے سے خارج ہو:
فخررازی اس مطلب کو احتمال کی صورت میں ذکر کرتے ہیں لیکن اس کے لئے ان کے پاس کوئی علمی اور معقول توجیح نہیں ہے مگر یہ کہ کہا جائے مرد کا پورا وجود مراد ہے کہ جو سینے کی ہڈیوں اور کمر کے درمیان واقع ہے۔
تین:بچہ عورت کے رحم سے خارج ہوتا ہے اور اس کی پیٹھ اور بدن کے آگے کے حصے میں ٹھہرجاتا ہے۔
(
ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج٢٦، ص٣٦٥)
یہ احتمال ضعیف ہے کیونکہ لفظ صلب کے معنی میں عورت کی پشت و کمر کا معنی بیان نہیں کیا گیا۔
چار:صلب مرد کے محکم، سخت اور بارعب ہونے اور ترائب عورت کے لطیف ہونے کا مظہر ہے۔ بس مراد مرد کا سپرم اور عورت کا بیضہ ہے۔
( ایضا /حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج٦، ص٢٦٣ )
یہ احتمال بھی ضعیف ہے کیونکہ آیت کا معنی غیر حقیقی و مجازی ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ جیسے کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے عورت کے بیضہ کی حرکت سست ہے۔
پانچ: وہ پانی جو مرد و عورت کے نطفے تشکیل دینے کے نظام کے درمیان سے خارج ہوتا ہے۔
اس معنی کا مفہوم وہی ہے جو ڈاکٹر پاک نژاد نے صلب و ترائب کے موارد میں قبول کیا ہے۔ بہرحال یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ منی مرد کے نطفہ تشکیل دینے کے نظام کے داخل سے خارج ہوتی ہے؛ نہ کہ مرد و خواتین کے دو نظاموں کے درمیان سے۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر پاک نژاد کوبھی مجبوراً اس معنی کے لئے توجیہات لانی پڑیں جو اصل مطلب سے دور ہیں۔
چھ:مرد کی منی اس کی پشت اور آگے حصے کے درمیان سے خارج ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس معنی کو قبول کیا ہے
( دیکھیے: ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج٢٦، ص٣٦٧ )
اور اس پر دلائل بھی بیان کیے ہیں۔ جیسے منی کے پیدا ہونے کا سب سے اہم عامل ریڑھ کی ہڈی کا جھٹکا ہے کہ جو مرد کی پشت پر موجود ہے۔ اور اس کے بعد دل اور جگر ہیں کہ جن میں سے ایک سینے کی ہڈیوں کے نیچے اور دوسرا ان دونوں کے درمیان موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ
"یخروج من بین الصلب و الترائب"
کی تعبیر اس کے لئے منتخت ہوئی ہے،بس کہا جاسکتا ہے مرد کا نطفہ اسکی پشت اور اگلے حصے کے درمیان سے خارج ہوتا ہے۔
( دیکھیے: ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج٢٦، ص٣٦٧ )
دوسری جانب منی نکلتے وقت پورے بدن پر سنسنی طاری ہوتی ہے، اس کے بعد پورا بدن سست ہوجاتا ہے چنانچہ بعض کا کہنا ہے منی پورے بدن سے نکلتی ہے۔
(
دیکھیے: ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج٢٦، ص٣۶۶)
سات:منی پیٹھ اور پیروں کی دو ہڈیوں(آلہ تناسل کے مقام) کے درمیان سے خارج ہوتی ہے۔ یہ معنی لفظ ترائب کے آخری معنی کے مطابق ہے۔ لغت اور تفسیر میں بھی اس کی بہت تائید ملتی ہے نیز بہت سے علوم طب کے ماہرین اور ڈاکٹروں کا بھی یہی نظریہ ہے کیونکہ یہ طب کے علمی مطالب کے مطابق ہے۔
آیت اللہ معرفت بھی اس معنی کو ڈاکٹر کنعان الجائی سے نقل کرتے اور قبول کرتے ہیں ۔
( دیکھیے: محمد ھادی معرفت، التمھید فی علوم القرآن، ج٦، ص٦٤ )
ڈاکٹر دیاب اور قرقوز لکھتے ہیں:
ماء دافق وہی مرد کا پانی یعنی منی ہے کہ جو اس کے صلب اور ترائب(پیروں کی ہڈیوں) سے خارج ہوتا ہے… پوسٹ مارٹم کے لحاظ سے منی کے عبور کی تمام نالیاں صلب و ترائب کی حدود میں واقع ہیں اس کے علاوہ پیٹھ اور پروسٹیٹ(کہ جس کی رطوبتیں منی کا کچھ حصے تشکیل دیتی ہیں) کے سیکرل غدود بھی صلب و ترائب کی حدود میں واقع ہیں۔
اس کے بعد سیمینل ویسیکل غدود ( Seminal vesicle Gland. ) اور اس کے عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ دو غدود وہ رطوبتیں بناتے ہیں کہ جو منی کے پانی کی ایک خاص مقدار تشکیل دیتی ہیں۔
ان غدود کی رطوبت زرد رنگ کی ہوتی ہے اور فرکٹوز سے مالامال ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ غدود پٹھوں کے سکڑنے کی وجہ سے منی کے تسلسل سے باہر نکلنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بس کہا جاسکتا ہے:
منی مرد کے صلب سے کمانڈنگ عصبی کنکشن کے؛ اور ترائب اعصابی کنکشن کے طور پر نکلتی ہے۔ درحقیقت منی کا نکلنا امر کرنے والے اور مامور کی کامل مطابقت و مشارکت سے انجام پاتا ہے۔ یہ مسئلہ علمی نکتہ نظر سے بھی ثابت ہے۔
مذکورہ بالا توضیحات کے پیش نظر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ قرآن نے اس مسئلہ کو معجز نما اور انتہائی نصیحت آمیز طریقے سے بیان کیا ہے۔
( عبدالحمید دیاب و احمد قرقوز، طب در قرآن، ص٣٢ ـ ٣٣ )
نتیجہ:
چھٹے اور ساتویں معنی کو ایک ساتھ جمع کیا جاسکتا ہے۔ یہ معنی علامہ طباطبائی کے کلام "انسان کا پورا بدن" سے بھی مناسبت رکھتا ہے۔ اور سائنسی مبنا سے بھی ناسازگار نہیں ہے بلکہ علم سائنس اس کی تائید کرتا ہے۔ کیونکہ قرآن فرماتا ہے: مرد کی منی اس کے بدن سے (کہ جو اسکی پشت اور آگے کا حصہ ہے یعنی آلہ تناسل کی جگہ) سے خارج ہوتی ہے۔ یہ مطلب آیت مبارکہ کے ظاہر یعنی ماء دافق کی صفت اس سے بھی سازگارترین ہے۔ بس یہ آیت خواتین سے مربوط نہیں ہے کہ کہا جائے آیت منی خارج ہونے کے سائنسی مبنا اوربیضہ کے چست و جہندہ نہ ہونے کے برخلاف ہے۔
نکات
١۔ قرآن کریم پروردگار حکیم اور علیم کا کلام ہے کہ جو فصاحت، بلاغت اور ادب کے اوج کا مرکز ہے۔ جنسی مطالب بیان کرتے وقت بھی قرآن کا ادب نمایاں ہے۔ یوں لگتا ہے یہاں بھی اس لئے کہ قرآن میں انسانی آلہ تناسل کا کھل کر نام نہ لیا جائے اس لئے " ما بین الصلب و الترائب ؛ مرد کی پشت اور پیر کی دو ہڈیوں کے درمیان کا جہندہ پانی" کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔
٢۔ قرآن کی یہ تعبیر اگرچہ علمی مسائل کی جانب ایک لطیف اشارہ ہے اور آسمانی کتاب کی عظمت کو مزید روشن کرنے کا باعث ہے۔ لیکن یہ مطلب قرآن کے علمی معجزہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کیونکہ منی کا انسان کے بدن اور نظام تناسلی سے نکلنا اجمالی طور پر انسان کے لئے قابل درک و فہم ہے۔ بس قرآن کریم نے اس مورد میں کوئی غیبی خبر بیان نہیں کی۔ نیز ڈاکٹر پاک نژاد کے علمی مطالب کے مطابق ریڑھ کی ہڈی کے اطرافی مائع کا منی میں داخل ہونا بھی فقط ایک احتمال ہے جو کسی خاص نتیجہ تک نہیں پہنچتا۔
۴۔ منی کا منشاء (صلب
ـ
ظہور)
قرآن کریم انسانی نسل کے بیان کے لئے پشت اور کمر جیسی تعبیروں سے اشارہ کرتا ہے۔ چنانچہ اس مورد میں قرآن میں دو خاص تعبیریں استعمال کی گئی ہیں جو کہ بعض ماہرین طب کی توجہ کا مرکز قرار پائیں نیز وہ اسے ایک طرح کا علمی معجزہ قرار دیتے ہیں۔
"وَإِذ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِيٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَأَشۡهَدَهُمۡ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ أَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡۖ قَالُواْ بَلَىٰ شَهِدنا" (
سورہ اعراف ١٧٢)
اور جب تمھارے پروردگار نے فرزندان آدم کی پشتوں سے انکی ذریت کو لے کر انھیں خود ان کے اوپر گواہ بنا کر سوال کیا کہ کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نے کہا بے شک ہم اس کے گواہ ہیں۔
"خُلِقَ مِن مَّآء دَافِق يَخۡرُجُ مِنۢ بَيۡنِ ٱلصُّلۡبِ وَٱلتَّرَآئِبِ " ( سورہ طارق ٦و٧ )
وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
تفسیری نکات
دوسری آیت یعنی آیت " صلب و ترائب " کے بارے میں تفصیلی بحث ہوچکی ہے اور بیان کیا جاچکا ہے کہ صلب اور ترائب سے مراد وہی مرد کی کمر اور ران کی دو ہڈیوں کا احاطہ ہے کہ جو مرد کے تناسلی نظام کا کنایہ ہے، چنانچہ ابھی اصلی محور فقط پہلی آیت ہے۔ مفسرین و ارباب علم نے اس بارے میں چھ امکانات و نظریے ذکر کیے ہیں جو کہ ترتیب سے مذکور ہیں:
الف) محدث اورظاہرگرا افراد: قیامت تک کی اولاد آدم چھوٹے چھوٹے ذروں کی شکل میں آدم علیہ السلام کی پشت سے خارج ہوئی اور فضا میں پھیل گئی۔ اس حال میں کہ شعور اور گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔(
محمد باقر مجلسی، مرآة العقول، ج٧، ص٣٨)
ب) اس سے مراد وہ استعداد اور صلاحیت ہے کہ جو خدا نے انسان کے نطفے سے جنین تک کے اولین ذارت میں قرار دی تاکہ وہ حقیقت توحید کو درک کرسکے۔( سیدرضا، المنار، ج٩، ص٣٨٧/سید قطب، تفسیر فی ظلال القرآن، ج٣، ص٦٧١ )
ج) مراد عالم ارواح ہے یعنی خدا نے انسان کے جسموں کی خلقت سے پہلے ان کی روحوں کو خلق کیا اور ان سے مخاطب ہوا۔ یہ تفسیر بعض روایات سے لی گئی ہے البتہ آیت اللہ مکارم شیرازی نے اسے صاحب قول کی جانب اشارہ کیے بغیر نقل کیا ہے۔ ( ناصر مکارم شیرازی، پیام قرآن، ج٣، ص١١٠ )
د) انبیاء( علیہم السلام) کی بعض افراد سے گفتگو مراد ہے کہ جس کے ذیل میں لوگ انبیاء سے توحید کے دلائل سنتے اور اس پر حامی بھرتے تھے
(
ابوفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ج۵، ص٣٢٦)
(زبان قال)عقلی بلوغت کے بعد تمام انسانوں کی زبان حال مراد ہے کہ جو خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اسکی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔ اس تفسیر کو بلخی اور رمانی سے نقل کیا جاتا ہے۔(
دیکھیے طوسی التبیان فی تفسیر القرآن، ج٨، ص٢٧)
و) علامہ طباطبائی:عالم ملکوت اور تمام موجودات کے وجود کا خدا کے قریب ہونا مراد ہے جو خدا کا باطنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے اور اسکی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔(
سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج٨، ص٣٣۴)
یہاں مختصراً آیت کے علمی مطالب کا جائزہ لیا جائے گا
(
یہ چھ قول تفسیر موضوعی پیام قرآن میں تفصیل سے لائے گئے اور نقد و بررسی ہوئے ہیں (مکارم شیرازی، پیام قرآن، ج٣، ص١٠٨)
لفظ " ذرّیة " کہ جو سورہ اعراف کی ١٧٢ آیت میں آیا ہے کم سن اولادوں اور چھوٹے بچوں کے معنی میں ہے۔ اس لفظ کی اصل اور لغت کے بارے میں چند احتمال دیئے گئے ہیں:
١۔ " ذرء " سے ہے " زرع " کے وزن پر خلقت کے معنی میں ہے۔ اسی وجہ سے " ذریة " کا اصلی مفہوم مخلوق اور خلق شدہ کے مساوی ہے۔
٢۔ بعض نے اسے " ذرّ " شر کے وزن پر جانا ہے کہ جو انتہائی چھوٹی موجودات جیسے گرد و غبار کے ذرہ اور بہت ہی چھوٹی چیونٹیوں کے معنی میں ہے۔ اس مناسبت سے کہ اولاد آدم کی زندگی بھی انتہائی معمولی نطفے سے شروع ہوتی ہے۔
٣۔ ممکن ہے یہ مادہ " ذرو " سے مرو کے وزن پر بکھیر دینے کے معنی میں ہو۔ انسان کی اولاد کو ذریت اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کثرت کے سبب زمین پر ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔
(
دیکھیے: راغب اصفہانی، المفرادات فی غریب القرآن، مادہ ذرو /ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج٧، ص۴ و ۵)
جملہ " من ظھورھم " جملہ "من بنی آدم" کا بدل ہے اور لفظ " ظھر " بھی انسان کی پشت کے معنی میں ہے۔ البتہ یہ قوت اور شدت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
(
راغب اصفہانی، المفرادات فی غریب القرآن/ حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم)
علمی اسرار
بعض ماہرینِ طب مذکورہ بالا آیت کے مورد میں یوں رائے دیتے ہیں:
١۔ ڈاکٹر دیاب اور ڈاکٹر قرقوز سورہ اعراف کی آیت نمبر ١٧٢ کے بارے میں لکھتے ہیں:
اس وقت سے کہ جب انسان گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تب notochord کے دو کنارے وجود میں آتے ہیں کہ جو بعد میں ریڑھ کی ہڈی بناتے ہیں ان دو کناروں کو جننانگ ٹیوبیں(تناسلی ٹیوب) یا Genital tilge کا نام دیا جاتا ہے۔ بچے کی جنسیت اسی جننانگ ٹیوب کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔ اگر ماں کے پیٹ میں موجود بچہ لڑکا ہوتا ہے تو یہ دو ٹیوبیں بچے کی عمر کے چھٹے ہفتے سے انڈے کی طرح کی شے بنانا شروع کردیتی ہیں اور اگر لڑکی پیدا ہونے والی ہوتی ہے تو یہ جننانگ ٹیوبیں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں تاکہ دسویں ہفتے میں تخمدان کی طرح کی شے تشکیل دیں ۔
اس طرح بیضے اور تخمدان کہ جو ایک ہی منبع یعنی انسان کی کمر سے نشوونما پاتے ہیں۔ ازدواج کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں تاکہ میاں بیوی کے باہمی رابطے سے انسان کی نسل آگے بڑھتی رہے۔ اور یوں قرآن کے چودہ صدی پہلے دیئے گئے معجزنما بیان کے ذریعے توجہ کی جاسکتی ہے کہ کس طرح انسان کی نسل اس کی پشت سے اس جہان میں بھیجی جاتی ہے۔
(
عبدالحمید دیاب و احمد قرقوز، طب در قرآن، ص٧٧ و٧٨ (خلاصہ))
اس کے بعد وہ سورہ طارق کی آیت نمبر ٧ میں لفظ "صلب" کی وضاحت کے لئے یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ریڑھ کی ہڈی اور سیکرل ہڈیاں عصبی لحاظ سے جنسی رفتار کے مرکز کے نظام کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ نیز صلب کے مخصوص مقام کو کہ جو اس اختراع کا ذمہ دار ہے؛ بارہواں ڈورسل ورٹیبرا، پہلا اور دوسرا lumbar vertebra اور تیسرا و چوتھا سیکرل vertebrae جانا جاتا ہے۔
( عبدالحمید دیاب و احمد قرقوز، طب در قرآن، ص،۳۱(خلاصہ) )
٢۔ ڈاکٹر پاک نژاد بھی سورہ اعراف کی ١٧٢ آیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
بیضہ اور تخمدان دونوں اول خلقت سے انسان کی پشت میں موجود ہیں۔ کچھ عرصے میں یعنی جب بچہ پیٹ میں تقریباً چھ مہینے کا ہوتا ہے، مردانہ جنس میں دونوں نیچے کھینچے گئے سکروٹم میں ٹہر جاتے ہیں اور اپنی نارمل حالت میں آجاتے ہیں۔ اسی طرح زنانہ جنس میں معمولی رد و بدل ہوتی ہے اور سامنے کی طرف یوٹیرن ٹیوبوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ نسل اور ذریت کے آغاز کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ یہ آغاز مردانہ و زنانہ جنس کے دو اجزاء میں سے ایک کے نزدیک ہونے اور بالآخر ایک ہوجانے سے یعنی ماں اور باپ کے نطفے سے ہوتا ہے۔
یہ دو اجزاء ماں باپ کی پیدائش کے وقت ہی سے ان میں رکھے گئے ہیں جو کہ بالآخر تولید کے دو اجزاء جیسے نر گیمیٹ اور مادہ گیمیٹ بنتے ہیں اور ایک ساتھ مل کر جنین تشکیل دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مادہ اور نر گیمیٹس میں سے ایک تخمدان اور دوسرا بیضہ سے مربوط ہے۔ چنانچہ جب قرآن فرماتا ہے: اور جب تمھارے پروردگار نے فرزندان آدم کی پشتوں سے انکی ذریت کو لے کر انھیں خود ان پر گواہ بناکر سوال کیا…( سورہ اعراف ١٧٢ )
ممکن ہے یہاں اسی مطلب یعنی تخم اور تخمدان کی پہلی جگہ پر اشارہ ہو۔
( سید رضا پاک نژاد، اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر، ج١، ص٢٣٧ و ٢٣٨ )
اسکے بعد اشارہ کرتے ہیں کہ اس آیت کی کئی تفاسیر موجود ہیں۔ پاک نژاد ایک اور جگہ پر اسی مطلب کے لئے سورہ طارق کی ساتویں آیت سے استفادہ کرتے ہیں کہ جس کی عین عبارت پچھلی بحث میں ذکر کی گئی ہے۔
( سید رضا پاک نژاد، اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر، ج١، ص٢۴۰ و ٢۴۱ )
٣۔ آیت اللہ مکارم شیرازی مفسروں کے چھ اقوال نقل کرنے کے بعد، دوسرے نظریے "خداوند نے انسان کے ابتدائی ذرات یعنی نطفے پھر بچے میں صلاحیت رکھی ہے کہ توحید کی حقیقت کو درک کرسکے" اور پانچویں نظریے "انسان کی زبان حال کہ جو عقل و بلوغ کے بعد سے خدا کی وحدانیت کا اعتراف کرتی ہے" کو مورد تائید قرار دیتے ہیں اور باقی نظریات کو رد کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نظریہ کی توضیح میں لکھتے ہیں:
اس لحاظ سے عالم ذر وہی عالم جنین ہے اور سوال و جواب درحقیقت زبان حال کے ذریعے ہوئے ہیں؛ قولی زبان سے نہیں نیز یہ نظریہ عربوں اور غیرعرب کے کلام میں بہت سی تائیدیں اور قرینے رکھتا ہے۔
( ناصر مکارم شیرازی، پیام قرآن، ج٣، ص١٠٩ )
جائزہ
یہاں چند نکات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:
١۔ " من ظھورھم " کی دلالت بچے کی notochord کے دو کناروں یعنی مرد اور عورت کی جننانگ ٹیوبیوں کے مبدا پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اگر آیت کے ظاہر کو نظر میں رکھیں تو آیت کہتی ہے: "انسان کی نسل اسکی پشت و کمر سے نکلتی ہے" یعنی آیت کے ظاہر کے مطابق پشت انسان سے اس کی ذریت کا نکالنا direct اور بالفعل ہے، نہ یہ کہ فقط صلاحیت رکھتا ہے اور منشاء ہے۔ جبکہ انسان کی ذریت سپرم اور اووم سے ہے کہ جو درحقیقت بیضوں اور عورت کے تخمدان سے خارج ہوتے ہیں نہ کہ ان کی پشت سے چنانچہ یہ ظہور آیت قابل قبول نہیں ہے۔ بس ضروری ہے یا تو " من ظھورھم " کی عبارت کو کنائی معنی پر حمل کیا جائے اور کہا جائے کہ آیت کا مقصد ہے "انسان کی نسل سے"جس طرح عرف میں کہا جاتا ہے: "یہ لوگ سات پشتوں تک فلان صفت والے ہیں" جس سے مراد نسل در نسل ہوتا ہے۔ لیکن یہ عرفی تعبیرات اردو یا فارسی میں تو پائی جاتی ہیں لیکن عربی لغت میں "ظھر" کے بارے میں اس طرح کی تعبیرات نہیں ملتیں۔
یا کہا جائے کہ "مِن" نشویہ ہے اور یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ انسان کی ذریت کا مادہ اس کی پشت میں ہے اگرچہ مستقیم اور بالفعل ایسا نہ ہو۔ اس بناپر ڈاکٹر پاک نژاد، ڈاکٹر قرقوز اور ڈاکٹر دیاب کے نظریات بھی مورد تائید قرار دیئے جاسکتے ہیں۔
٢۔ اگر سورہ اعراف آیت نمبر ١٧٢ کی ذریّتِ انسان کے منشاء و منبع کے بارے میں اس احتمال کی بنا پر معنی کیے جائیں جو ڈاکٹر پاک نژاد، ڈاکٹر دیاب اور ڈاکٹر قرقوز نے بیان کیے ہیں تو اسے ایک طرح کی قرآن کے علمی رازوں سے پردہ اٹھانے پر حمل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں یہ قرآن کے علمی معجزہ پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ:
اولاً: اس آیت کے چھ تفسیری احتمالات ہیں کہ جن میں سے ان مذکورہ بالا ماہرین کا نظریہ صرف دوسرے احتمال کے مطابق صحیح ہے۔
ثانیاً: کلمہ " ذر " کے لئے کئی لغوی اصل و ریشہ ذکر ہوئے ہیں۔ جن میں سے بھی صرف ایک احتمال کے مطابق ان ماہرین کے علمی نکات صحیح مانے جاسکتے ہیں۔
ثالثاً: اسی طرح کلمہ " ظھر " کے لئے بھی چند احتمالات ذکر ہوئے ہیں جبکہ آیت کی علمی و سائنسی تفسیر بھی اس کے صرف ایک ہی احتمال کے مطابق صحیح ہے۔
بس سورہ اعراف کی آیت ١٧٢ میں مذکورہ بالا احتمالات کے مطابق ایک تفسیر کو آیت سے قطعی و حتمی نسبت دے کر اسے آیت کا سائنسی و علمی معجزہ نہیں کہا جاسکتا۔
٣۔ لفظ "صلب" بھی انسان کی پیدائش کے سرچشمے کا لوگوں کی پشت میں ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ کیونکہ سورہ طارق کی ساتوں آیت میں ملاحظہ کرتے ہیں
"مِن بَيۡنِ ٱلصُّلۡبِ وَٱلتَّرَآئِبِ؛
صلب و ترائب کے درمیان سے" یعنی منی مرد کی پشت اور ران کی دو ہڈیوں کے درمیان(تناسلی نظام) سے خارج ہوتی ہے۔ نیز " من بین " کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پانی کا سرچشمہ مرد کی فقط پشت نہیں ہے۔
( مزید تفصیلات جاننے کےلئےملاحظہ فرمائیں: محمد علی رضایی اصفھانی، پژوھشی دع اعجاز علمی قرآن، ج٢/ حسن رضا رضایی، شگفتی ھای پزشکی قرآن )
نتیجہ
گزشتہ مطالب کے پیش نظر آیت صلب و ترائب میں قرآن اور میڈیکل سائنس کے درمیان کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے۔ اس بنا پر ڈاکٹر سروش کا سات آسمان والی یا اس آیت کے بارے میں نظریہ کہ یہ آیات پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے زمانے کے ادہورے علم سے مربوط ہیں
( عبدالکریم سروش، نامه "طوطی و زنبور" (آیت ا.. سبحانی کو جواب نمبر ٢) )
درست نہیں ہے بلکہ درحقیقت اس طرح کے مطالب ایک عامیانہ تصور اور آیت کی غیر صحیح تفاسیر و ترجموں کی بنا پر وجود میں آتے ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سروش نے اس مورد میں تفسیر المیزان اور اس طرح کی دیگر تفاسیر کی جانب رجوع نہیں کیا بلکہ عرفی غلطی اور بعض عامیانہ ترجموں کی بنیاد پر فیصلہ و قضاوت کرلی کہ " ترائب " کو "سینہ" معنی کیا جاتا ہے۔ جبکہ اگر کوئی چند مطالب کو قرآن کی جانب نسبت دینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ نقلی، عقلی اور علمی قرینوں کی طرف رجوع کرے اور مطالب کو لغوی و اصطلاحی معنی پر توجہ رکھتے ہوئے نیز مفسرین و اہل لغت کے نظریات کی تحلیل کرتے ہوئے بیان کرے نہ یہ کہ صرف ان کی تقلید میں قرآن کی جانب نسبت دیدے۔ غیر علمی و غیر واقعی مطالب کو خداوند متعال کی جانب نسبت دینا تفسیر بہ رائے کا ایک مصداق ہے اور روایات کی بنیاد پر حرام ہے۔ اس کا مرتکب جہنم کی آگ کا حقدار ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
"من فسّر القرآن برأیه فلیتبوأ مقعد ہ من النار ۔ "
( دیکھیے: بحرانی، تفسیر برھان، ج١، مقدمہ/سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج٣، ص٧۵/عیون اخبار الرضاؑ، ج١، ص١٦ وغیرہ )
ج) شہابِ ثاقب
قرآن کریم سورہ حجر کی سولہ سے اٹھاریوں آیات میں آسمان پر الہی نعمات جیسے جاسوسوں سے ان کی حفاظت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَلَقَد جَعَلنَا فِي ٱلسَّمَاءِ بُرُوجا وَزَيَّنَّـٰهَا لِلنَّـٰظِرِينَ وَحَفِظۡنَٰهَا مِن كُلِّ شَيۡطَٰن رَّجِيمٍ إِلَّا مَنِ ٱسۡتَرَقَ ٱلسَّمۡعَ فَأَتۡبَعَهُۥ شِهَاب مُّبِین"(سور ہ حجر ١٦ - ١٨)
اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انھیں دیکھنے والوں کے لئے ستاروں سے آراستہ کردیا۔ اور ہر شیطان رجیم سے محفوظ بنادیا۔ مگر یہ کہ کوئی شیطان وہاں کی بات چرانا چاہے تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگادیا گیا ہے۔
نکات اور اشارے:
١۔ کلمہ " بروج " اصل میں ظہور کے معنی میں ہے اور اسی وجہ سے بلند و بالا عمارتوں کو جو اچھی خاصی نمایاں اور بلند ہوتی ہیں برج کہا جاتا ہے۔ ستارہ شناس بھی سورج اور چاند کے خاص مقام کو بُرج کہتے ہیں کہ جو سورج اور چاند کے فلکی صورتوں یا ستاروں کے جھرمٹ سے عبور کرنے کی جگہ ہے۔
( فلکی صورتیں، وہی ستاروں کا جھرمٹ کہ جو ایک خاص شکل رکھتا ہے اور بعض دفعہ عقرب، قوس یا میزان کی شکل میں ہوتا ہے یہی سورج کے عبور کرنے کا مقام ہے… )
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ " بروج " عالیشان محلّات کو کہا جاتا ہے۔ نیز ستاروں کو بھی برج کہا جاتا ہے کیونکہ ستارے سیاروں کے لئے گھر کے مکینوں کے گھر کی طرح ہیں۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے یہاں " بروج " الہی رہبر اور اپنے زمانے کے علماء و دانشوروں کے لئے کنایہ ہو۔
٢۔ اس آیت میں اشارہ ہوا ہے کہ آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے سجایا۔ یقیناً! آسمان کا دلنشین منظر رات کی تاریکی میں ہر دیکھنے والے کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے؛ جگمگاتے ستارے اور بعض وہ تارے جو ہمیں خیرہ خیرہ تک رہے ہوتے ہیں جن کا جھرمٹ یوں لگتا ہے جیسے کوئی انجمن بنالی ہو اور کبھی ستاروں کا مختلف حیران کن صورتیں بنانا واقعاً آسمان دنیا کی زینت ہے۔
سب سے اہم آسمان کی علمی و سائنسی خوبصورتی اور اس کے بے تہاشا راز ہیں کہ جس نے ہزاروں سال بعد بھی کوسمولوجی کے ماہرین کو خود میں مشغول کر رکھا ہے۔
٣۔ کلمہ " سماء " آسمان کے معنی میں ہے۔ بہت سی آیات میں سماء سے یہی قابل حس اور مادی یعنی زمین کی فضا، ستاروں، سیاروں، نظام شمسی اور کہکشاؤں کی جگہ مراد ہے۔ لیکن قرآن میں یہ لفظ بعض دفعہ معنوی آسمان کے معنی میں بھی آیا ہے کہ جس سے مقام قدسی اور عالم وجود کا بالا ترین مقام مراد ہے۔(
دیکھیے: ذیل سورہ اعراف ۴٠ / سورہ ابراہیم ٢۴)
یہاں بھی ممکن ہے یہی معنوی معنی مقصود ہوں۔
۴۔ لفظ " شھاب " آگ سے نکلنے والے شعلوں اور ان شعلوں کو کہا جاتا ہے کہ جو آسمان میں سرگردان ہیں اور بعض اوقات زمین کی قوتِ جاذبہ سے متاثر ہوکر زمین کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور ہوا کی موجوں سے تیزی سے ٹکرانے کی وجہ سے شعلہ ور ہوجاتے ہیں۔ یہ شعلے بعض اوقات خاک ہوجاتے ہیں اور زمین تک نہیں پہنچ پاتے، جبکہ بعض دفعہ ان کا ایک معمولی سا حصہ زمین پر آگرتا ہے۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے اس آیت میں شہاب علماء و ماہرین کے علم و تقوی کی قوی موجوں کے لئے کنایہ ہو۔
۵۔ لفظ شیطان اصل میں ہر بری، فتنہ انگیز اور سرکش مخلوق کے معنی میں ہے۔ البتہ بعض اوقات ابلیس کے معنی میں آتا ہے یعنی وہ خبیث مخلوق کہ جو حضرت آدم علیہ السلام کے انحراف کا باعث بنی۔ یہاں ممکن ہے دونوں معنی مراد ہوں۔
٦۔ مذکورہ تین آیتوں کا مضمون سورہ صافات کی آیات ٦ سے ١٠ میں تکرار ہوا ہے
( سورہ جن کے شروع (٦ ـ ٩)میں بھی یہی مضمون ذکر ہوا ہے، لیکن وہ خود جنات کے بارے میں ہے چنانچہ ممکن ہے سورہ حجر و صافات کے مطالب سے مختلف ہو۔ )
اور مفسرین نے اس کے بارے میں چند تفاسیر بیان کی ہیں
( بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت متشابہات قرآن مکں سے ہے اور ہم اس کی حقیقت سے آشنا نہیں نیز اس کا فہم بھی ہم سے مرتبط نہیں ہے۔ یہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ قرآن کتاب نور و ہدایت ہے کہ جو تمام بشریت کی ہدایت کے لئے آیا ہے )
کہ جو درجہ ذیل ہیں:
الف) بعض مفسروں نے آیت کا ظاہری معنی قبول کیا ہے یعنی مراد یہی قابل حس آسمان اور آسمان کے دہکتے ہوئے شعلے ہیں جو رات میں نظر آتے ہیں۔ اور شیاطین وہ خبیث مخلوق ہیں جو آسمان پر جاکر غیبی خبروں سے آگاہ ہوکر اپنے زمینی ساتھیوں کے لئے جاسوسی کرنا چاہتی ہے لیکن شہاب ثاقب ایک ایسے تیر کی طرح ہے کہ جو ان کی جانب پھینکا جارہا ہو انہیں اپنے عزائم و اہداف تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔
بعض مفسر اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قدیمی فلکی نظریات کی بنیاد پر قائم ہے۔
( دیکھیے رازی، تفسیر کبیر؛ آلوسی، روح المعانی / سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٧، ص١٣٠ )
کیونکہ آج انسان زمین کی فضا عبور کرکے چاند تک پہنچ چکا ہے جبکہ شہاب زمین کی فضا سے مخصوص ہیں۔ البتہ ممکن ہے مادی دہکتے ہوئے شعلوں اور شیطانوں کے درمیان کوئی مخصوص رابطہ ہو کہ جو سائنس اب تک کشف نہ کرسکی ہو اگرچہ یہ رابطہ قدیمی فلکیات سے مربوط نہ بھی ہو۔
ب) بعض مفسروں نے ان تعبیروں کو غیر حسی حقائق کو روشن کرنے کے لئے اشارہ، کنایہ، تشبیہ یا مثال جانا ہے۔ اس بنا پر آسمان سے مراد فرشتوں کا مقام، ماوراء طبیعت اور ملکوتی عالم ہے اور شیاطین اس عظیم الشان آسمان کے قریب ہونا چاہتے ہیں تاکہ خلقت کے رازوں اور مستقبل کے واقعات کی معلومات حاصل کرسکیں لیکن وہ ملکوتی موجوں کے ذریعے وہاں سے بے دخل کردیئے جاتے ہیں۔(
سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٧، ص١٣٠)
ج) مفسروں کا ایک اور گروہ ان آیات کو اُن لوگوں سے مربوط جانتا ہے کہ جو مادی اور زمینی زندگی کے اسیر ہوچکے ہیں لہذاکائنات کی جانب متوجہ نہیں ہوتے اور اُس کی صداؤں پر توجہ نہیں کرتے ہیں۔ خود غرضی، ہوس، لالچ اور تباہ کن جنگوں کے شعلوں نے انہیں حقیقی اور بالا ترین معنی درک کرنے سے محروم کردیا ہے۔
(
طنطاوی، الجواھر فی تفسیر القرآن، ج ٨، ص ١١ +ج١٨، ص ١٠ (طنطاوی کا اس بارے میں ایک اور نظریہ بھی ہے کہ جس کے تحت ان آیتوں کو روح کی حالت احضار اور زندوں کا مردوں کی ارواح سے رابطہ نیز دوسرے جہاںوں کی اطلاعات ے استفادہ کرنے میں روحوں کی محدودیت جانتے ہیں۔)
د) بعض مفسر اس آسمان کو حق، ایمان اور معنویت کا آسمان جانتے ہیں کہ شیطان اور فتنہ انگیز ہمیشہ اس خاص دائرہ میں جگہ بنانا چاہتے ہیں اور وسوسوں کے ذریعے سچے مؤمنوں اور حق کے طرفداروں کے دل میں نفوذ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آسمان حقیقت کے ستارے یعنی الہی رہبر جیسے انبیاء، آئمہ اور ہر دور کے علمائے حق علم و تقوی اور قلم و زبان کی طاقتور موجوں کے ذریعے ان پر غلبہ پالیتے ہیں اور انہیں آسمان معنویت کے قریب بھٹکنے سے روک دیتے ہیں۔
(
ناصر، مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج١١، ص۴٩ ـ ۵١ (بعض صاحب نظر جیسے عبدالرزاق نوفل ان آیات کو کروں پر کی جدید موجودات جانتے ہیں جیسےریڈیو کی طاقتور موج فضا کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے جبکہ بعض افراد کی کوشش ہوتی ہے ان امواج کو دریافت کرلیں لیکن حفاظتی نظام انہیں دور کردیتا ہے (در قرآن بر فراز اعصار، ص ٢۵٨))
ممکن ہے اس آیت کے کئی مختلف معنی اور باطن ہوں کہ جن میں سے بعض کنایہ اور مثال کی شکل میں بیان ہوئے ہیں۔ لہذا ہوسکتا ہے آخر کی چند تفاسیرمقصود ہوں؛ البتہ دوسری اور چوتھی تفسیر زیادہ مناسب ہے۔
٧۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کی آسمانوں تک عدم رسائی اور انہیں شہاب کے ذریعے نکالا جانا حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے شروع ہوا اور پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر اپنے عروج پر پہنچا۔
(
حویزی عروسی، نورالثقلین، ج٣، ص۵/قرطبی، تفسیر قرطبی، ج۵، ص٣٦٢٦ /فیض کاشانی، صافی، ج٣، ص١٠٣)
اس طرح کی احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت میں شیاطین کا آسمان سے نکالے جانے کا رابطہ ہے؛ یعنی دین مسیحت اور اسلام کے ظاہر ہونے و پھیلنے کے بعد شیطان کی بہت سی سازشیں ناکام ہوئیں۔ دنیا کے بہت سے مقامات پر بت پرستی و شیطان پرستی کی ساکھ بیٹھ گئی اور انسانیت معنویت اور حقیقت کی جانب گامزن ہوئی۔
٨۔ قرآن کریم میں آسمان کے ستاروں کے لئے کئی طرح کی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔ کبھی انہیں بروج کے عنوان سے اور کبھی نجم و کوکب کے عناوین سے یاد کیا گیا ہے۔( سورہ صافات ٦ و سورہ انعام ٩٧ )
لیکن ستارہ مادی اور حسی مفہوم رکھتا ہے اور ان سے مراد یہی آسمان کے تارے ہیں کہ جو رات میں دکھائی دیتے ہیں اور کشتی و بیابانوں کے مسافروں کے لئے راستہ ڈھونڈنے کا وسیلہ ہیں۔
اگرچہ ستارے ایک معنوی مفہوم بھی رکھتے ہیں کہ جس سے مراد الہی رہبر اور علماء ہیں۔ اس بنا پر وہ معاشرے میں ستاروں کا کردار ادا کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے نور کے ذریعے جہالت اور خرافات کی تاریکیوں سے علم اور حق کی جانب ہدایت کرتے ہیں اور کامیابی کا راستہ دکھاتے ہیں۔ پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی احادیث میں نقل ہوا ہے: "آل محمد ہی ستارے ہیں"
(وَهُوَ ٱلَّذِي جَعَلَ لَكُمُ ٱلنُّجُومَ لِتَهتَدُواْ بِهَا فِي ظُلُمَٰتِ ٱلبَرِّ وَٱلبَحرِ قَد فَصَّلنَا ٱلأيَٰتِ لِقَوم يَعلَمُونَ
وہی وہ ہے جس نے تمھارے لئے ستارے مقرر کئے ہیں کہ ان کے ذریعہ خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرسکو۔ سورہ انعام ٩٧)
نتیجہ
١۔ " شہاب " کے لئے متعدد تفاسیر ہونے کی بنا پر ایک نظریہ کو قطعی بنا کر قرآن سے نسبت نہیں دی جاسکتی۔ یعنی یہ آیت متشابہ آیات میں سے ہے اور اس کی کوئی ایک یقینی و حتمی تفسیر اب تک واضح نہیں ہوئی۔
٢۔ آیات شہاب کی کئی تفاسیر ہونے کی بنا پر قرآن اور سائنس میں حقیقی تعارض نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ شہاب سے مراد آسمان میں ادھر اُدھر سرگرداں یہی شعلے ہیں۔ علم کاسمولوجی بھی شہاب ثاقب کے وجود اور اس کی حرکت کے بارے میں تفصیل بیان کرتا ہے۔ لیکن اس کے ماوراء طبیعت موجودات جیسے شیطان سے رابطہ کو رد یا ثابت نہیں کرتا کیونکہ یہ امور سائنس کے دائرہ سے سرے سے خارج ہیں۔ الغرض یہ کہ اگر کبھی مستقبل میں ثابت ہوجائے کہ شہاب ثاقب شیطانوں سے رابطہ نہیں رکھتے تب بھی فقط سائنس کا ظاہر آیت کے ظاہر کے برخلاف ہوگا اور مفسرین کی جانب سے پیش کردہ تاویلوں کی بنا پر یہ آیت تاویل ہوجائے گی اور ظاہری تعارض بھی حل ہوجائے گا؛ البتہ جب تک علم کاسمولوجی اس مورد میں قطعی طور پر کسی مطلب کو ثابت یا رد نہیں کردیتا؛ ظاہر قرآن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
٣۔ بعض قدیمی مفسرین نے شہاب ثاقب کی تفسیر اور اسے سائنسی مطالب پر حمل کرکے غلطی کی ہے۔ لیکن اس سے قرآن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ نظریہ پردازی اور علمی غلطیاں تمام علوم بشری کا حصہ ہیں یہ مسئلہ فقط تفسیر سے مربوط نہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر سروش جیسے افراد کی جانب سے علامہ طباطبائیؒ وغیرہ جیسے برجستہ مفسرین کو کہ جنہوں نے آیت شہاب کے ذیل میں تفسیری احتمال بیان کیا ہے مورد تنقید ٹھہرانا شائستہ نہیں ہے! کیا علم فلسفہ اور مغرب و مشرق کے فلسفوں میں جسکا ڈاکٹر سروش علم و ذوق رکھتے ہیں اس طرح کا اختلافِ نظر موجود نہیں؟ کیا مختلف نظریات کا ہونا بشری علوم کی ترقی کا باعث نہیں بنتا؟ کیا فلسفے میں اصالت وجود اور ماہیت وغیرہ کے نظریات میں تبدیلی علم فلسفہ کے باطل ہوجانے اور فلسفیوں کی توبیخ و توہین کا باعث بنی ہے؟
( دیکھیے: عبدالکریم سروش، نامہ "بشر و بشیر" آیت اللہ سبحانی کو پہلا جواب، روزنامہ کارگزاران ١٩ و ٢٠ اسفند ٨٦ )
۴۔ سروش صاحب اس بات کے معتقد ہیں کہ کوئی بھی مفسرِ قرآن آیات شہاب کی تفسیر اور اس کے شیاطین سے رابطہ کا باب بند نہیں کرسکتا نیز یہ نزول قرآن کے زمانے کے ادہورے علم میں سے ہے۔
( دیکھیے: ایضا / نامہ "طوطی و زنبور" )
ان کا دوسرا اشکال بے دلیل و بے بنیاد ہے جبکہ پہلا بھی مذکورہ آیات کے اعتراف کردہ فوائد و جہان بینی کی بنا پر قابل برطرف ہے۔
د) پودوں کی فرٹیلائیزیشن:
پودوں کی فرٹیلازیشن اور قرآن میں پولینیشن کے ذریعہ ان کی زرخیزی کا ذکر نیز پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مسئلہ کا علم رکھنے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ لہذا ان تینوں مطالب کا ایک ساتھ جائزہ لیا جائے گا۔
١۔ قرآن میں پودوں کی فرٹیلازیشن
زوجیت دو ہونے یا نر و مادہ کے معنی میں آتا ہے اور قرآن کریم نے بہت سی آیات میں پودوں کی فرٹیلازیشن بلکہ ہر چیز کے پیداوار اور فرٹیلازیشن کی جانب اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہوتا ہے:
وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ( سورہ رعد ٣؛ + رحمن ۵۲، طہ ۵۳ )
اور ہر پھل کا جوڑا قرار دیا وہ رات کے پردے سے دن کو ڈھانک دیتا ہے اور اس میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
(سوره شعراء ۷ و ۸+ حج ۵، لقمان ۱۰، ط ہ ۵۳)
کیا ان لوگوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح عمدہ عمدہ چیزیں اُگائی ہیں۔ اس میں ہماری نشانی ہے…
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ( سوره یس ۳٦ )
پاک و بے نیازہے وہ خدا جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ان چیزوں میں سے جنہیں زمین اُگاتی ہے اور ان کے نفوس میں سے اور ان چیزوں میں سے جن کا انھیں علم بھی نہیں ہے۔
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ( سورہ ذاریات ۴٩ )
اور ہر شے میں سے ہم نے جوڑا بنایا ہے کہ شاید تم نصیحت حاصل کرسکو۔
بعض افراد
( عبدالرزاق نوفل، القرآن و العلم البتہ، ص١۵٦ و ١۵٧ )
نے اس آیت سے ایٹم یعنی الیکٹران و پروٹون کی زوجیت کا استدلال قائم کیا ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا(سور ہ اعراف ١٨٩)
وہی خدا ہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل ہو۔
تفسیری نکات
اس بحث سے مربوط بعض نکات یوں ہیں:
١۔ مذکورہ بالا آیتوں کی یوں درجہ بندی کی جاسکتی ہے:
۔ قرآن کریم پھلوں کے جوڑے کی بات کرتا ہے
ـ اس کے بعد پودوں کے جوڑے کی بات کرتا ہے
ـ تیسرے مرحلے میں ان اشیاء کی زوجیت اور جوڑے کی بات کرتا ہے جن کے بارے میں انسان علم نہیں رکھتا۔
ـ آخری مرحلے اس جہان کی تمام اشیاء کی زوجیت کی بات کرتا ہے۔
٢۔ تمام اشیاء کی زوجیت بیان کرنے کا حقیقی مقصد خدا کی نشانیوں کی یاددہانی کرانا اور انسان کو دعوت فکر دینا ہے:
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأيَة " (سور ہ شعراء ٨)
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأيَٰت لِّقَوم يَتَفَكَّرُونَ (سور ہ رعد ٣)
٣۔ لفظ زوج لغت میں مندرجہ ذیل چار معنی میں آتا ہے:
الف) حیوانوں میں نر اور مادہ کہ جو ایک دوسرے کا قرینہ ہیں ان کو زوج کہا جاتا ہے۔
ب) حیوانات کے علاوہ دیگر چیزوں میں دو چیزیں کہ جو ایک دوسرے کا قرینہ ہوں انہیں زوج کہا جاتا ہے۔ جیسے جوتے کا ایک پیر دوسرے کیلئے۔
ج) وہ شے جو دوسری شے سے ملتی جلتی ہو اسے اسے زوج کہتے ہیں۔
د) ہر وہ چیز جو دوسری چیز کی قریبی یا متضاد ہو۔
(
دیکھیے: راغب اصفہانی، المفرادات فی غریب القرآن، مادہ زوج)
تاریخی پس منظر
انسان صدیوں سے یوں سمجھتا آرہا ہے کہ زوجیت کا مسئلہ اور نر و مادہ کا وجود صرف انسانوں، جانوروں اور بعض پودوں جیسے کھجور میں ہے۔ لیکن سویڈن کے مشہور ماہر نباتات کارل لینہ(١٧٠٧ ـ ١٧٨٧)نےسال ١٧٣١ء میں نظریہ پیش کیا کہ تمام پیڑ پودوں میں نر و مادہ کا وجودپایاجاتاہے۔
( دیکھیے: پی یر روسو، تاریخ علوم، ص٣۵۴ و ۴٠٨/گودرز نجفی، مطالب شگفت انگیز قرآن، ص۵٧ /ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج١٨، ص٣٧٧ و٣٧٨ )
البتہ چرچ نے کچھ عرصے بعد اس پر پابندی لگادی اور اس کی کتابوں کو گمراہ کن قرار دے دیا۔
(
ذکر اللہ احمدی، ارمغان روشنفکران، ص٧٣/ ک،م۔ حقیقی، فروغ دانش جدید در قرآن و حدیث، ج٢، ص٢٢/گودرز نجفی، مطالب شگفت انگیز قرآن، ص۵٧)
مدتوں بعد مختلف سائسندانوں نے کشف کیا کہ مادہ توانائی کی کثافت
( energy density ) کی وجہ سے انتہائی چھوٹے ذرات یعنی "ایٹم" سے بنتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد ہر شے کی زوجیت کا مسئلہ پھیلنے لگا۔ کیونکہ سائنسدانوں نے کشف کرلیا تھا کہ ہر شے کو بنانے والا موجود یعنی ایٹم، الیکٹران(ـ) اور پروٹون(+)سے مل کربنتا ہے۔ بیسویں صدی کا مشہور ماہر طبیعات میکس پلانک کہتا ہے: "ہر مادی جسم الیکڑون اور پروٹون کا مجموعہ ہے"(
ماکس پلانک، تصویر جھان در فیزیک جدید، ص٩۵)
ہر الیکٹران انتہائی تیز رفتار (۵۰ ہزار چکر فی سیکنڈ) سے ایٹم کے مرکز کے گرد یعنی پروٹون میں گھومتا ہے۔ البتہ ایٹم میں تیسرے قسم کے ذرے بھی ہیں کہ جنہیں نیوٹران کہا جاتا ہے اور یہ برقی بار (الیکٹرک بار) کے لحاظ سے غیر جانندار +/- ہے۔(
دیکھیے: محمد علی سادات، زندہ جاوید و اعجاز جاویدان، ص۴٠ ـ ۴٢)
دور حاضر کے ماہرین طبیعات ایٹم کے اندر کچھ مزید بنیادی ذرے دریافت کرچکے ہیں کہ جنہیں "کوارک" ( quark ) کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ذرات الیکٹران، نیوٹران اور پروٹون کو تشکیل دیتے ہیں اور ان میں بار مثبت+ ، منفی - اور غیر جانبداری وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں۔
اب تک چھ طرح کے کوارک منظر عام پر آچکے ہیں کہ جن کی دو اقسام ( U_D ) معمولی پایدار مواد بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہے۔ کوارک U ٢٣ اور کوارک D ١٣ الیکٹرانکی بار رکھتا ہے۔ پروٹون کہ جو مثبت بار رکھتا ہے U کے دو اور D کے ایک کوارک سے مل کر بنتا ہے اور اس طرح سے اس کا حاصل شدہ بار مثبت ہوجاتا ہے؛ یوں (۲۳+۲۳ -۱۳= +۱)۔ جبکہ نیٹرون اس کے برخلاف، دو کوارک D اور U کا ایک کورک رکھتا ہے اس وجہ سے اس کا بار غیرجانبدار ہے۔ اس ترتیب سے (۰۱=۲۳+۱۳-۱۳-) [۲]