شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی0%

شبہات جدید قرآنی مؤلف:
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: فلسفہ

شبہات جدید قرآنی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی_ مترجم : ندا زہراء رضوی
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: مشاہدے: 31
ڈاؤنلوڈ: 2

شبہات جدید قرآنی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31 / ڈاؤنلوڈ: 2
سائز سائز سائز
شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com

علمی رموز

بہت سے مفسرین اور صاحب نظر افراد نے مذکورہ بالا آیات سے پودوں کی فرٹیلازیشن بلکہ تمام اشیاء کی زوجیت پر استدلال کیا ہے جن میں سے بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

١۔ مرحوم طبرسی؛ نے تقریباً٩ صدی پہلے قرآنی دلائل کی بنیاد پر تفسیر مجمع البیان میں پودوں، حیوانوں حتی باقی دیگر اشیاء کی فرٹیلازیشن و پیداروار کو بیان کیا اور اسے قبول کیا ہے۔( طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص۴٢۴)

٢۔ تفسیر نمونہ کے مولفین: سورہ یس کی آیت نمبر٣٦ کے ذیل میں لکھتے ہیں: یہ بات یقینی ہے کہ لفظ ازواج زوج کی جمع ہے جو کہ معمولاً دو جنس مذکر اور مونث پر دلالت کرتا ہے؛ خواہ انسانوں اور جانوروں میں ہو یا ان کے علاوہ دیگر موجودات میں۔ بعد میں اس لفظ کو وسعت دے دی گئی اوریہ ہر دو موجود کہ جو ایک دوسرے کے ساتھی ہوں یا حتی ایک دوسرے کے متضاد ہوں ان پر اطلاق کرنے لگا۔ پودوں میں بھی مسئلہ زوجیت پایا جاتا ہے البتہ نزول قرآن کے زمانے میں یہ بات نامعلوم تھی اور صرف خاص موارد جیسے کھجور کے درخت وغیرہ میں زوجیت جانی جاتی تھی چنانچہ قرآن نے لوگوں کو اس سے آشنا کیا۔ حالیہ صدیوں میں سائنسی لحاظ سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ پودوں میں زوجیت کا مسئلہ ایک عمومی اور کلی مسئلہ ہے۔

( مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج١٨، ص٣٧٧ و ٣٧٨)

تفسیر نمونہ میں سورہ ذاریات کی آیت ۴٩ کے ذیل میں اس تذکرہ کے بعد کہ بہت سے مفسروں نے لفظ زوج کو ایک جیسی اشیاء کی صنفوں جیسے دن و رات وغیرہ کے معنی میں جانا ہے، یوں لکھتے ہیں:لفظ زوج معمولاً دو جنس نر اور مادہ کو کہتے ہیں چاہے عالم حیوانات میں ہو یا پودوں میں اور اگر اس کے مفہوم کو تھوڑا وسیع کیا جائے تو تمام مثبت اور منفی قوتوں کو شامل کرے گا۔ اور یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ قرآن مذکورہ بالا آیت میں کہتا ہے " من کل شيء ؛ تمام موجودات سے" نہ صرف زندہ موجودات۔ اس حقیقت پر اشارہ کرتا ہے کہ دنیا کی تمام موجودات کو مثبت اور منفی ذروں سے بنایا گیا ہے اور آج سائنسی لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ ایٹم مختلف اجزاء سے وجود میں آتے ہیں من ؎جملہ وہ اجزاء کہ جو منفی الیکٹرانک بار رکھتے ہیں اور الیکٹران کہلائے جاتے ہیں نیز وہ اجزاء کہ جو مثبت الیکٹرانک بار رکھتے ہیں پروٹون نام رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ضروری نہیں ہے کہ شے کو حیوان یا پودوں سے ہی تعبیر کیا جائے اور زوج کو صنف کے معنی میں تسلیم کیا جائے۔( ایضا، ج٢٢، ص٣٧٦)

٣۔ علامہ طباطبائی کی کتاب اعجاز قرآن کے مقدمہ میں آیا ہے:

جب دنیا جہالت کی تاریکیوں میں غرق تھی، قرآن دس سے زیادہ آیات

( سورہ رعد ٣ / سورہ شعراء ٧ وغیرہ)

میں پودوں کی فرٹیلازیشن کے بارے میں بحث کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ خدا نے تمام پودوں کا جوڑا خلق کیا ہے۔

( سید محمد حسین طباطبائی، اعجاز قرآن، ص١۵)

۴. ایک اہل قلم سورہ یس کی آیت ٣٦

"سُب ۡ حَٰنَ ٱلَّذِي خَلَقَ ٱلأَزوَٰجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ ٱلۡأَرۡضُ وَمِنۡ أَنفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُونَ"

سے یوں استفادہ کرتے ہیں:

بلکل واضح ہے کہ یہ آیت پودوں کے جوڑے پر دلالت کررہی ہے نیز آیت میں معلوم نہ ہونے والی چیزوں کے جوڑے سے بجلی کی مثبت و منفی انرجی، جراثیم اور وائرس کا احاطہ یا ایٹم کے اجزاء مراد لئے جاسکتے ہیں۔

( عباسعلی سرفرازی، رابطہ علم و دین، ص ٣٥ و ٣٦)

۵۔ اسی طرح ایک اور صاحبِ قلم بھی مذکورہ آیت کے ذیل میں پودوں کی فرٹیلازیشن بلکہ ایٹم کے اندر الیکٹران اور پروٹون کی زوجیت کا استدلال کرتے ہیں۔( گودرز نجفی، مطالب شگفت انگیز قرآن، ص٥٧۔٦٠)

٦۔ احمد محمد سلیمان ایک بحث میں کہ جو سوال و جواب کی شکل میں ہے، مادے کی زوجیت کو سورہ ذاریات کی آیت ٤٩ سے ثابت کرتے ہیں۔

( احمد محمد سلیمان، القرآن و الطب، ص٢٨ و٢٨)

٧۔ محمد علی سادات بھی ایک طولانی مقدمے کے ساتھ ایٹم کے اس ساخت کی توضیح دیتے ہیں اور ایٹم کے تاریخچہ پر اشارہ کرتے ہوئے سورہ ذاریات کی ٤٩ آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:

پس لہذا "ایٹم" کو جوڑی دار موجود کہا جاسکتا ہے اور زوجیت کو ایٹم کے اندر عمومی قرار دیتے ہوئے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ دراصل عالم مادہ زوجیت کی بنیاد پر قائم ہے اور کوئی بھی موجود اس قاعدہ کلی سے خارج نہیں۔

( محمد علی سادات، زندہ جاوید و اعجاز جاویدان، ص ٣٩ ـ ٤٣)

٨۔ عصر حاضر کے ایک مصنف مادے کی زوجیت بیان کرنے کے بعد ( puality of matter ) سورہ ذاریات کی آیت ٤٩، الرحمن کی ٥٢ اور طہ کی ٥٣ کے ذریعے اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔( دیکھیے: لطیف راشدی، نگرشی بہ علوم طبیعی در قرآن، ص٢٤)

٩۔ تفسرنوین کے مفسر بھی مذکورہ آیات کا ذکر کرتے ہوئے زوجیت کے تذکرہ کو قرآن کا علمی اعجاز قرار دیتے ہیں اور اس بارے میں تفصیلی توضیحات پیش کرتے ہیں۔( محمد تقی شریعتی، تفسیر نوین، ص١١)

١٠۔ عبدالرزاق نوفل سورہ اعراف کی آیت ١٨٩

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَجَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا لِيَسۡكُنَ إِلَيۡهَا

وہی خدا ہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل ہو" موجودات میں "وحدت خلق" کی مقدمہ چینی اور اس بیان کے بعد کہ تمام موجودات کے بنیادی ذرّے ایک جیسے ہیں، مزید لکھتے ہیں:

یہ سائنسی حقیقت کہ جسے دور حاضر میں کشف کیا گیا ہے اسے قرآن ١٤٠٠ سال پہلے انتہائی واضح طریقے سے بیان کرچکا ہے کہ تمام مخلوقات خدا ایک نفس سے ہیں۔

اس کے بعد مذکورہ آیت کو لاتے ہیں اور کہتے ہیں:

کیا یہ "نفس واحد" پروٹون اور الیکٹران… ایک انرجی کہ جو مثبت اور منفی دونوں طرح کی ہے… یعنی نفس واحد نہیں…!؟

یہاں تک کہ وہ " لیسکن الیھا " کے بارے میں لکھتے ہیں:

سکون کا سبب نفس واحد اور یہی زوج ہے اور یہ وہ مطلب ہے جو سائنس نے کشف کیا ہے کہ الیکٹران اور پروٹون کا سکون ان کے انرجی سے مساوی اور مختلف ہونے کے وجہ سے ہے…

( دیکھیے: عبدالرزاق نوفل، القرآن و العلم الحدیث، ص١٥٤ ـ ١٥٧ )

١١۔ طنطاوی نے تفسیر الجواھر میں سورہ ذاریات کی آیت ٤٩ کے ذیل میں زوجیت کے بارے میں تفصیلی بحث کی اور پودوں اور حیوانات وغیرہ کی قسموں اور گروہوں کے جائزہ کے بعد ان کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ہے کہ جو آیت کی تفسیر سے مرتبط نہیں بلکہ صرف سائنسی مطالب ہیں جو مناسبت کی وجہ سے ذکر کیے گئے ہیں۔

( طنطاوی، الجواھر فی تفسیر القرآن، ج١٢، ص١٧٠۔ ٢٠١)

علمی جائزہ

یہاں کچھ نکات کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے:

١۔ عبدالرزاق نوفل کے سورہ اعراف کی آیت ١٨٩ کے ذیل میں بیان کیے گئے مطالب پر چند اشکالات وارد ہیں:

پہلا: لفظ "نفس" اور "زوج" لغوی اور اصطلاحی لحاظ سے الیکٹران و پروٹون پر دلالت نہیں کرتے اور نوفل خود بھی اس مورد میں کوئی قرینہ پیش نہ کرسکے۔

دوسرا: سائنسی لحاظ سے یہ کہنا کہ پروٹون الیکٹران سے وجود میں آیا ہے درست نہیں " جعل منھا زوجھا " بلکہ جیسا کہ پیچھے عرض ہوا الیکٹران اور پروٹون دونوں چند D اور U کوارک سے مل کر بنے ہیں۔

تیسرا: مورد نظر آیت کا سیاق ان کی تفسیر سے مناسبت نہیں رکھتا، کیونکہ آیت میں ہے:

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَجَعَلَ مِنهَا زَوجَهَا لِيَسكُنَ إِلَيهَاۖ فَلَمَّا تَغَشَّىٰهَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِيفا فَمَرَّتۡ بِهِۦۖ فَلَمَّآ أَثۡقَلَت دَّعَوَا ٱللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنۡ ءَاتَيۡتَنَا صَٰلِحا لَّنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ( سورہ اعراف ١٨٩ )

وہی خدا ہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل ہواس کے بعد شوہر نے زوجہ سے مقاربت کی تو ہلکا سا حمل پیدا ہوا جسے وہ لئے پھرتی رہی پھر حمل بھاری ہوا اور وقت ولادت قریب آیا تو دونوں نے پروردگار سے دعا کی کہ اگر ہم کو صالح اولاد دیدے گا تو ہم تیرے شکرگذار بندوں میں ہوں گے۔

سیاق: آیت عورت کے مرد(جناب حوا، آدم علیہما السلام) سے حاملہ ہونے اور اولاد کی پیدائش کے بارے میں ہے۔ چنانچہ آیت کے شروع میں نفس واحد اور زوج اسی معنی میں ہے کہ مرد اور عورت مراد ہیں نہ کہ الیکٹران اور پروٹون۔

٢۔ اس بارے میں دیگر آیات ( سورہ رعد ٣، شعراء٧، یس٣٦ ) بھی پائی جاتی ہیں کہ جو پھلوں اور پودوں کی پیداوار پر دلالت کرتی ہیں۔

اور جیسا کہ عرض ہوا کہ یہ مسئلہ اٹھارویں صدی میں کشف ہوا ہے اس سے پہلے کھجور کے علاوہ دیگر نباتات میں جوڑے یا زوجیت کا تصور مشخص نہ تھا۔ بس یہ آیات ایک طرح کی سائنسی پیشن گو اور قرآن کا علمی معجزہ ہیں۔

٣۔ سورہ ذاریات کی آیت ٤٩ سے تمام موجودات کی عمومی زوجیت پر استناد کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں صرف الیکٹران و پروٹون سے نسبت دینا یقینی نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ پیچھے بیان ہوا دور حاضر میں کوارک نامی کچھ مزید بنیادی ذرّے کشف کیے جاچکے ہیں کہ جو مثبت و منفی بار رکھتے ہیں۔

البتہ پھر بھی یقینی طور پر دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ آیت میں ذکر "زوجین" یہی کورک D اور U ہیں۔ بلکہ جیسا کہ کہا گیا ممکن ہے الیکٹران، پروٹون اور کوارک وغیرہ سب زوجین کے مصادیق میں شمار کیے جائیں، اسی طرح موجودات کی اصناف جیسے دن اور رات بھی اس کے مصداقوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔

٤۔ اگرچہ "زوجین" کا یقینی مصداق سورہ ذاریات کی آیت ٤٩ میں میں مشخص نہیں ہے لیکن تمام موجودات میں زوجیت کا بیان قرآن کے علمی و سائنسی نکات اور پیشن گوئیوں میں سے ایک ہے کہ اوائل اسلام میں کوئی بھی اس سے آگاہی نہیں رکھتا تھا بس یہ مطلب بھی قرآن کا علمی معجزہ شمار کیا جاسکتا ہے۔

٥۔ ممکن ہے کوئی دعویٰ کرے تمام موجوادت میں زوجیت کا پایا جانا بکرزایی یا asexual reproduction سے تضاد رکھتا ہے۔

چنانچہ یہاں اس مسئلہ کا علمی جائزہ لیا جائے گا اور ثابت کریں گے کہ ان دوطریقوں میں کوئی تضاد و ٹکراؤ نہیں پایا جاتا۔

ایک: تمام موجودات میں زوجیت اور بکرزایی

(بکرزایی: سے مراد جنس مخالف کے بغیر تولید ہے جو بعض کیڑوں اور اکثر پودوں میں ہوتی ہے۔ biology میں اسے parthenogenesis یا asexual reproduction کہتے ہیں) میں ٹکراؤ

ایک صاحب نظر لکھتے ہیں: جو بھی قرآن کی آیت زوج سے یہ معنی لیتے ہیں کہ تمام تر جاندار موجوادت میں نر و مادہ ہے یعنی کوئی بھی جاندار موجود بشمول حیوان اور نباتات ایسا نہیں کہ جو نر و مادہ نہ رکھتا ہو۔ تو ممکن ہے کوئی کہے آج کاعلم حیاتیات ( biology ) اسے قبول نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے برخلاف وہ کہتا ہے کہ جاندار موجودات کی کچھ اقسام ہیں جو نر و مادہ نہیں رکھتیں۔

( مصطفی ملکیان، فصلنامہ مصباح، ش١٠، ص۶۶)

اشکال کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے دو مطالب کی طرف اشارہ کیا جائے: ۱۔ زوجیت سے مربوط آیات میں بعض آیات پھلوں کی زوجیت،

( سورہ رعد ٣ )

بعض پیڑ پودوں کی زوجیت اور اکثر تمام موجودات میں زوجیت پائے جانے کی طرف اشارہ کرتی ہیں:

وَمِن كُلِّ شَيءٍ خَلَقنَا زَوجَينِ( سورہ شعراء ٧)

اور ہر شے میں سے ہم نے جوڑا بنایا ہے۔

٢۔ پروٹوزو ا unicellular میں بکرزایی پائی جاتی ہے لہذا مناسب ہے کہ پہلے پروٹوزوا کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے کہ وہ کیسے اپنی پیداوار بڑھاتے ہیں۔

پروٹوزوا unicellular اور واحد خلیہ رکھنے والے جانداروں کو کہا جاتا ہے۔ یہ حیوانوں کے سلسلہ کا سب سے پست طبقہ ہے کیونکہ یہ صرف ایک سیل (خلیے) سے وجود میں آتے ہیں۔ ان کا ایک مخصوص اور کامل نیوکلیس ہوتا ہے جو ایک جھلی سے گھرا ہوا ہوتا ہے۔ اب تک تیس ہزار سے زیادہ مختلف پروٹوزوا تشخیص دیے جاچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر پانی اور مٹی پر آزادانہ طور پر رہتے ہیں جبکہ کچھ کی زندگی گروہی ہے۔

ان کا سائز ١سے ١٥٠مائکرون تک ہے جن میں سے اکثر عام آنکھ سے قابل مشاہدہ ہیں۔ پروٹوزوا کی species و انواع جیسے امیبا، سیلیا( ciliates ) اور فلاجیلا کی افزائش تین طرح سے ہوتی ہے :

الف) غیر جنسی تولید( asexual reproduction )

اس کی مختلف صورتیں ہیں:

١۔ بائنری فشن( binary fission ):

پروٹوزوا اپنے سائز کو دوگنا پھیلاتا ہے اور پھر دو ایک جیسے خلیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ یہ تقسیم سیلیا میں عرضی لحاظ سے ہے۔

٢۔ شیزوگونی ( Schizogony ) یا افرائش کثیر: پیرنٹل سیل کا نیوکلئس کئی بار چند دختر نیوکلئس میں تقسیم ہوتا ہے۔ اور پھر سائٹوپلازم تقسیم ہوتا ہے اور تمام نیوکلیسوں کے اطراف کو گھیر لیتا ہے۔

٣۔ ابھرتے ہوئے پنروتپادن budding : خلئے کی مکمل نشوونما کے بعد، خلئے کی جھلی کی مزاحمت ایک نچلے مقام اور ایک کلی پر بنتی ہے اور پیرنٹل سیل کا کچھ نیوکلئس اور سائٹوپلازم اس میں داخل ہو کر بڑھتا ہے، یہاں تک کہ یہ اصل یعنی پیرنٹل سیل سے الگ ہوجاتا ہے اور اپنی آزاد زندگی شروع کر دیتا ہے۔

ان تینوں تقسیمات کو بکرزایی کہا جاسکتا ہے۔

ب) جنسی تولید( sexual reproduction)

اس کی بھی کئی صورتیں ہیں؛ البتہ سیلیا میں اس طرح پائی جاتی ہے:

١۔ امتزاج:( Coniugdion) اس طریقہ میں دو پرٹوزوا ایک ساتھ مل جاتے ہیں اور ان کے نیوکلئر کا مواد آپس میں رد و دل ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ ایسے پروٹوزوا کی شکل میں کہ جنکا نیوکلئر دوبارہ منظم ہوا ہو ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔

٢۔ باروری( Syngamy ): گیمیٹ نامی دو جنسی خلیہ نر اور مادہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور تخم تشکیل دیتے ہیں۔

٣۔ سپوروگونی( Sporogony ): سب سے پہلے پروٹوزوا کے oocyst میں بڑی تعداد میں sporozoites بنتے ہیں جو بعد میں چند مراحل کے دوران، جنسی خلئے بن جاتے ہیں اور باروری کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

( ھرمز داورمزدی، انگل شناسی پزشکی، ص٣٧ ـ ٤٦)

علمی جائزہ:

یہاں چند نکات کا تذکر دینا لازمی ہے:

١۔ لفظ " زوج " لغت میں ان دو اشیاء کو کہا جاتا ہے کہ جو ایک دوسرے کا قرینہ، قریبی، مشابہ یا متضاد ہوں۔

( دیکھیے: راغب اصفہانی، المفرادات فی غریب القرآن، مادہ زوج۔ )

لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ زوج کے لغوی معنی نر و مادہ پر منحصر ہیں۔ اسی وجہ سے پروٹوزوا کہ جو خلیوں کی تقسیم کی بنیاد پر دو ہوتے ہیں دو خلق شدہ زوج ہیں اور لفظ زوج میں شامل ہیں کیونکہ ان دونوں سے دو قریبی اور مشابہ چیزیں جنم لیتی ہیں۔

٢۔ ہر شے میں زوجیت کے پائے جانے کے مسئلہ میں ضروری نہیں ہے کہ دو زوج ہمیشہ ہم زمان یا ہم مکان ہوں۔ لہذا ممکن ہے دو زوج دو الگ الگ مکان میں ہوں مثلاً: الیکٹران اور پروٹون کہ جن میں سے ایک ایٹم کے نیوکلئس میں جبکہ دوسرا اس کے اطراف میں ہوتا ہے۔ اسی طرح زوج دو الگ الگ وقت میں بھی پائے جاسکتے ہیں۔

٣۔ بنیادی ترین اشکال کہ جو قرآن کے تمام موجودات میں زوجیت پائے جانے کے قانون اور بکرزایی میں ٹکراؤ کا باعث بنا وہ یہ گمان کیا جانا ہے کہ لفظ زوج ہمیشہ نر و مادہ کے لئے ہے۔ جبکہ لفظ زوج کا معنی عام ہے کہ جو ہر ان دو اشیاء پر دلالت کرتا ہے جو ایک دوسرے کے قریبی، مشابہ یا متضاد ہوں۔ لہذا قرآن کے تمام موجودات میں زوجیت پائے جانے کے قانون اور مسئلہ بکرزایی میں کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں پایا جاتا۔

( مزید اطلاعات کےلئےرجوع کریں: محمد علی رضایی اصفہانی، پژوھشی در اعجاز علمی قرآن۔ )

٢۔ قرآن میں پودوں کا ملاپ و زیرگی

ہر نر و مادہ موجود اس وقت ثمر دیتے ہیں جب ان میں زیرگی کا عمل انجام پائے اور یہ زیرگی کا عمل دو جنس کے ملاپ سے ہوتا ہے، لیکن ہرگروہ کا یہ ملاپ دوسرے گروہوں سے مختلف ہے۔ پودوں کا ملاپ پولینیشن کے ذریعے، بادلوں کا ملاپ مثبت اور منفی بار والے بادلوں سے ملنے سے اور جانوروں و انسانوں کا ملاپ ایک خاص طریقہ سے سپرم منتقل کرنے سے ہوتا ہے۔

قرآن کریم بادلوں اور پودوں کے ملاپ اور ان کے زیرگی کے عمل کی جانب اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے:

وَأَر ۡ سَل ۡ نَا ٱلرِّيَٰحَ لَوَٰقِحَ فَأَنزَلنَا مِنَ ٱلسَّمَاءِ مَاء فَأَسقَينَٰكُمُوهُ وَمَا أَنتُم لَهُ ۥ بِخَٰزِنِينَ( سورہ حجر٢٢)

اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھانے والا بناکر چلایا ہے پھر آسمان سے برسایا ہے جس نے تم کو سیراب کیا ہے اور تم اس کے خزانہ دار نہیں تھے۔

ایک اور مقام پر بادلوں کی تشکیل میں ہوا کے کردار کی طرف اشارہ ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

ٱللَّهُ ٱلَّذِي يُرسِلُ ٱلرِّيَٰحَ فَتُثِيرُ سَحَابا فَيَبسُطُهُ ۥ فِي ٱلسَّمَآءِ كَيۡفَ يَشَآءُ وَيَجۡعَلُهُ ۥ كِسَفا فَتَرَى ٱلۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلَٰلِهِۦۖ فَإِذَآ أَصَابَ بِهِۦ مَن يَشَآءُ مِنۡ عِبَادِهِۦٓ إِذَا هُمۡ يَسۡتَبۡشِرُونَ( سورہ روم ٤٨)

اللہ ہی وہ ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادلوں کو اڑاتی ہیں پھر وہ ان بادلوں کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اسے ٹکڑے کردیتا ہے اور اس کے درمیان سے پانی برساتا ہے پھر یہ پانی ان بندوں تک پہنچ جاتا ہے جن تک وہ پہنچانا چاہتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔

تفسیری نکات

١۔ آیات کے سیاق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں آیات خدا کی نشانیوں اور نعمتوں کی طرف توجہ دلارہی ہیں۔

نیز پہلی آیت میں قیامت کی جانب بھی اشارہ ہے۔

٢۔عربی لغت میں دودھ دینے والی اوٹنی کو " اللقحة " ، اس کے بچے کو جو پیٹ میں ہو " ملاقیح " اور جنس نر کی منی کو " لقاح " کہا جاتا ہے۔

( دیکھیے: راغب اصفہانی، المفرادات فی غریب القرآن، مادہ لقح)

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے: لفظ لَقاح اور لِقاح نتیجہ و ثمر دینے ، زرخیز کرنے یا زیرگی کےعمل کے معنی میں ہے۔ اور " لواقح " لاقح کی جمع ہے۔

تاریخی پس منظر

عرصہ دراز حتی اسلام سے بھی پہلے سے انسان کے علم میں یہ بات ہے کہ اگر پودوں کے دانوں کو پولینیشن کے عمل کے لئے پھل دار درختوں کی شاخوں پر نہ رکھا جائے تو پودوں کی پیداوار بہت کم ہوجاتی ہے۔

مثلاً جیسے عرب میں رواج تھا کھجور کے نر گچھوں کو پولینیشن کے لئے اس کی پھول دار شاخوں پر چھڑکا جاتا تھا۔ لیکن اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسویں کے آغاز میں نئے تحقیقی آلات جیسے مائکروسکوپ وغیرہ کی ایجاد اور نابغہ روزگار سائنسدانوں کے آنے سے انکشاف ہوا کہ پودوں اور حیوانون میں جنسی تولید یا sexual reproduction دو اشیاء کے ملاپ اور امتزاج کے بغیر ممکن نہیں؛ سوائے بعض پودوں اور جانوروں کے کہ جن کی افزائش خلیوں کے تقسیم ہونے یا بعض دوسری راہ سے ہوتی ہے۔

کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ پودوں کی جنسی تولید عام طور پر پالن( Polin) نامی انتہائی چھوٹے ذرات کے آپس میں ملنے سے ہوتی ہے۔ اور کیڑے یا تیز ہوا کے جھروکے وغیرہ ان پالن کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا باعث بنتے ہیں۔

( دیکھیے: احمد محمد سلیمان، القرآن و الطب، ص ٢٣۔ ٢٦/ محمد علی سادات، زندہ جاوید و اعجاز جاویدان، ص ٣١)

انسان صدیوں تک بادلوں سے بارش برسنے کی کیفیت سے ناآشنا تھا لیکن حالیہ برسوں میں، علمِ طبیعیات میں ہونے والی ترقی اور جدید شعبہ جات جیسے موسمیات وغیرہ کے قائم ہونے کے بعد سائنسدان بادل کے ملاپ کے مسئلے سے آشنا ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ مصنوعی بارش تک بات پہنچ گئی اور پھر متوجہ ہوئے کہ بادلوں کے بنانے میں ہوا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی ہوا جہاں بارش کے قطرے اور برف کی تشکیل کا باعث ہے وہیں بجلی کے ذریعے بادلوں کی افزائش اور ان کے بجلی کے اس بار سے ڈسچارج ہونے میں کردار ادا کرتی ہے۔

( دیکھیے: مھدی بازرگان، باد و باران در قرآن ص٥٩ / محمد علی سادات، زندہ جاوید و اعجاز جاویدان، ص٣٥)

(آگے اس بارے میں مزید تفصیل پیش کی جائے گی)

علمی رموز:

مفسرین اور صاحب نظر افراد نے مورد بحث آیات بالخصوص سورہ حجر کی آیت ٢٢ میں لفظ " لقاح " کے بارے میں تفصیلی نکات بیان کیے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے بارے میں تین مختلف نظریات دیئے گئے ہیں جو کہ اپنے اپنے طریقوں سے لقاح کو سائنسی مسائل سے ربط دے رہے ہیں۔

پہلا نظریہ: لقاح سے مراد پودوں کا ایک ہونا

دور حاضر کے ایک صاحبِ قلم لکھتے ہیں:

"ہم نے ہواؤں کو بھیجا تاکہ پودوں میں زیرگی ہو۔" مذکورہ آیت میں ہواؤں کے ذریعے پودوں کی زیرگی کا عمل ( تلقیح ) انتہائی وضاحت سے بیان ہواہے۔ نیز اس سے پودوں میں نر و مادہ کا وجود بھی واضح ہوتا ہے۔

( عباسعلی سرفرازی، رابطہ علم و دین، ص٣٦)

ملا فتح اللہ کاشانی (م۔٩٨٨ق) تفسیر الصادقین میں پودوں میں زیرگی کے عمل کو آیت کے معنی میں موجود دو امکانات میں سے ایک جانتے ہیں اور لکھتے ہیں: ہواؤں کو بادلوں کو حاملہ کرنے کے لئے بھیجا یعنی بادلوں کا بھرا ہوا ہونا یا درختوں کا پھلدار ہونا۔( ملا فتح اللہ کاشانی، منھج الصادقین، ج٥، ص١٥٨)

بعض دیگر مصنف آیت کو پودوں ہی کے بارے میں جانتے ہیں اور لکھتے ہیں:

کیونکہ پودے اور مٹی ایک دوسرے سے ملحق ہونے کے لئے حرکت نہیں کرسکتے، لہذا کچھ کیڑے اور ہوا ان کے ملنے کی اصلی وجہ ہیں۔

( عبدالکریم ھاشمی نژاد، رھبران راستین، ص٢٥٩۔ ٢٦٣/ م۔حقیقی، فروغ دانش جدید در قرآن و حدیث، ج٢، ص٢٣)

آیت اللہ خوئی بھی آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں: قرآن نے قانون زوجیت کو انسان و حیوانات سے مخصوص نہیں کیا۔( ابوقاسم خوئی، مرزھای اعجاز، ص ١١٨)

اسی طرح احمد محمد سلیمان کتاب القرآن و الطب میں اس آیت( سورہ حجر ٢٢) کو پودوں کے لقاح و ملاپ کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد اس ملاپ کے عوامل کو عامل اصلی جیسے کیڑے اور غیراصلی جیسے پانی اور انسان میں تقسیم کرتے ہیں۔ جبکہ ہوا کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: سائنس نے کشف کیا ہے کہ خشکی اور پانی کے اہم ترین پودے ہوا کے ذریعے ایک ہوتے ہیں اسی وجہ سے قرآن نے اس ملاپ کے عوامل میں ہوا کا ذکر کیا ہے۔

اس کے بعد اس مطلب کو قرآن کا معجزہ قرار دیتے ہیں کیونکہ انسان نے اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں کے آغاز میں پودوں کے لقاح کے اس عامل کو جانا ہے۔ جبکہ قرآن نے صدیوں پہلے اس کا تذکرہ کیا ہے۔

( احمد محمد سلیمان، القرآن و الطب، ص ٢٤۔ ٢٦)

بعض دیگر عرب صاحب نظر بھی سورہ حجر آیت ٢٢ کو بغیر کسی تفصیل کے درختوں کے لقاح پر قرار دیا ہے۔

( الشیخ خالد عبدالرحمن العک، الفرقان و القرآن، ص ٥١١)