شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی0%

شبہات جدید قرآنی مؤلف:
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: فلسفہ

شبہات جدید قرآنی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی_ مترجم : ندا زہراء رضوی
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: مشاہدے: 29
ڈاؤنلوڈ: 2

شبہات جدید قرآنی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29 / ڈاؤنلوڈ: 2
سائز سائز سائز
شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com

نتیجہ

ع قلی و نقلی دلائل کی بنا پر قرآن کے معنی اور الفاظ پیغمبر گرامی(ص)کی جانب سے نہیں ہیں۔ لہذا ڈاکٹر سروش کی تعبیریں جیسے "قرآن کا محمدی ہونا"، پیغمبر اور قرآن کے بارے میں "باغبان اور درخت کا تصور"، "وحی اور حضرت جبرئیلؑ کا پیغمبر(ص)کی شخصیت کے تابع ہونا"، "پیغمبر(ص)کی قوت خیال وحی کے آنے میں دخالت رکھتی ہے"

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر"، روزنامہ کارگزاران، ١٩ و ٢٠ اسفند ٨٦ )

اور "سارا کا سارا قرآن مبعوث، مؤید اور نابغہ روزگار انسان کا کشف اور تجربہ ہے" وغیرہ مسترد ہیں۔

( عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور"، ص ۵ )

شایانِ ذکر ہے کہ عرب و غیر عرب کے بات کرنے کا ایک خاص انداز ہے کہ جس میں بعض اوقات انسان خود اپنے آپ کو مخاطب کرتا ہے، اس کا قرآن سے کوئی ربط نہیں ہے۔ قرآن خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے تاکہ پیغمبر(ص)کے ذریعے لوگوں تک لفظ "قل: کہہ دیجیئے" سے پیغام پہنچایا جائے۔ با الفاظ دیگر جیسے مثلاً مولانا رومی اکثر خود اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں؛ جبکہ کسی اور کا کلام نقل نہیں کررہے ہوتے لیکن پیغمبر کسی دوسرے کا کلام نقل کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا کلام کرنا شخصی کشف وشہود نہیں ہے۔ اور قرآن میں کہیں بھی نہیں آیا کہ قرآن محمد(ص)کی جانب سے ہے، خود محمد(ص)سے یا آپ کی قوت خیال کا محصول و ثمرہ ہے بلکہ آیات کی رو سے قرآن کے الفاظ اور عبارت کو پیغمبر(ص)کی طرف نسبت دینا صحیح نہیں۔

ب) حجیت تفسیر

زبان قرآن کی ایک خصوصیت اس کی حق گوئی ہے کیونکہ باطل جیسے جھوٹ، غیر واقع اور بے مقصد امور کی قرآن میں کوئی گنجائش نہیں،

( لَّا يَأۡتِيهِ ٱلۡبَٰطِلُ مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهِۦۖ تَنزِيل مِّنۡ حَكِيمٍ حَمِيد ) (سورہ فصلت۴٢) )

بلکہ قرآن کلامِ حق ہے

(وَبِٱلحَقِّ أَنزَلۡنَٰهُ وَبِٱلۡحَقِّ نَزَلَۗ وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا مُبَشِّرا وَنَذِيرا(سور ہ اسراء١٠۵)

اور واقعیت و حقیقت کے عین مطابق ہے۔ لیکن مفسرین قرآن جو تفسیر استنباط و استخراج کرتے ہیں کیا وہ بھی ہمیشہ حق اور واقعیت کے مطابق ہے؟ آیا آیات متشابہ، ناسخ اور دیگر پیچیدہ ابحاث کہ جو قرآن میں ہیں ان کی بنیاد پر مفسرین کی تفسیر معتبر اور حجت ہے؟

جواب واضح ہے، کیونکہ طول تاریخ میں ہم مفسروں کے فہم اور تفسیر قرآن میں خطا کے پے در پے موارد ملاحظہ کرچکے ہیں اور آج بھی اس سے دوچار ہیں۔ کیونکہ درحقیقت خطا کرنا انسانی فکر کا لازمہ ہے جو کہ صرف علم تفسیر سے مربوط نہیں بلکہ تمام بشری علوم میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

معصومینؑ کے علاوہ تمام انسان خطا اور لغزش کا شکار ہوسکتے ہیں، پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک مفسر کے تمام نظریات، واقعیت و حقیقت کے عین مطابق اور ہر قسم کی غلطی سے پاک ہیں۔

( دور حاضر کے بعض صاحب نظر شخصیات نے بھی اس مطلب پر زور دیا ہے۔ دیکھیے: بابایی و دیگران، روش شناسی تفسیر قرآن، ص۴١ )

لیکن اس کے باوجود بھی ان ماخذ اور استنباط کو جو کہ علمی قوانین کے مطابق حاصل شدہ ہیں؛ بغیر کسی دلیل کے مورد خطا قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ انسان کا ذہن خود فطری طور پر حقیقت تک پہنچتا ہے مگر یہ کہ ان کی غلطی ثابت ہوجائے۔ یہ قائدہ تفسیر اور اس کے علاوہ دیگر علوم میں جاری اور قابل عمل ہے۔

مفسروں کی تفاسیر کو کئی زاویوں سے پرکھا جاسکتا ہے:

الف۔ تفسیر کی حجیت خود مفسر کے لیے

جب با شرائط اور حقیقی مفسرین قرآن کریم کے گہرے مطالعہ کے بعد قوانین اور قرینوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تفسیر کرتے ہیں، انہیں بغیر کسی دلیل کے غلطی کا شکار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ جیسے کہ تمام بشری علوم میں غلطی کا امکان موجود ہے چنانچہ تفسیر کے مورد میں بھی کیونکہ عام بشری علم لایا جارہا ہوتا ہے لہذا عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ ماہرین اور دانشور اپنے علمی ماخذات پر جس حد تک ہوسکے اطمینان حاصل کریں۔ بس با شرائط مفسر کے ماخذات و نظریات کہ جن پر اسے درستگی کا اطمینان ہو اس کے لیے معتبر بلکہ حجت ہیں۔ اور یہ حجیت ظہورِ قرآن کا کبریٰ ہے کہ جس کی جانچ اور جائزہ علم اصول فقہ میں لیا جاتا ہے۔ یعنی اگر آیت کی تفسیر سے کوئی شرعی مسئلہ سامنے آرہا ہے تو ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے اور اگر اس کی خلاف ورزی کرے گا تو سزا کا حق دار ہے۔ البتہ اگر بعد میں مفسر کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو وہ صاحب عذر ہے اور اس کی گردن پر کوئی گناہ نہیں، ( اصطلاحی طور پر ہم محض خطا کار ہونگے اور جیسے عربی مقولہ ہے " للمصیب اجران و للمخطي اجر واحد " صحیح اجتہاد کرنے والے کے دوگنا ثواب غلطی کا شکار ہوجانے والے کے لیے ایک اجر" ۔دیکھیے: اصول فقہ کی کتابیں رجوع کریں جیسے فرائد الاصول، شیخ انصاری )

لیکن یہ مفسر کے نظریات کے واقعیت کے مطابقت اور حق ہونے کو ثابت نہیں کرے گا۔

متشابہ اور ناسخ آیات نیز قرآن کے پیچیدہ مسائل کے لیے مناسب راہ حل پیش کیے جاچکے ہیں اور مفسرین غور و فکر اور اس مورد میں مطالعہ سے انہیں حل کرسکتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ مختلف مفسروں کے فہم اور مطالب کے استنباط و استخراج کی صلاحیت الگ الگ مرتبے کی ہوتی ہے اور اسی طرح آیات کی مشکلات بھی ایک جیسی نہیں ہیں لیکن بہرحال مفسر کا تسلی بخش استنباط اس کے اجہتاد اور کوشش کے بعد اس کے اپنے لیے معتبر ہے۔

ب۔ تفسیر کی حجیت دیگر افراد کے لیے

اگر کوئی مفسر قائدہ اور قانون کی رعایت کے ساتھ معتبر تفسیر پیش کرے تو یہ دوسرے مفسروں کے لیے بھی مطالعے، استفادہ اور نقد و جائزے کے لیے ایک بہترین منبع قرار پائے گی۔ لیکن دیگر مفسروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس مفسر کی تقلید و پیروی کریں کیونکہ تفسیر میں تقلید حرام ہے۔ تفسیر میں علم کے بغیر کچھ اخذ کرنا اور اسے قرآن کی جانب نسبت دینا ایک طرح سے خدا پر بہتان باندھنا ہے۔ بس غیر معصوم مفسروں کی تفسیر دوسروں پر حجت نہیں۔

شیانے ذکر ہے کہ یہ مباحث مبانی تفسیر قرآن میں تفصیل سے بیان ہوتی ہیں۔( دیکھیے: محمد علی رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن ١ و مبانی و قواعد تفسیر/ سید رضا مؤدب، مبانی تفسیر قرآن )

یہاں صرف مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔

نتیجہ

جدید تفسیری نظریات کا منظر عام پر آنا اور تفسیری نظریوں میں اختلاف یا خطا کا پایا جانا فطری و طبیعی ہے۔ اور یہ علم تفسیر کے ارتقاء کا باعث ہے نیز یہ تمام علوم میں پایا جاتا ہے۔ اور اگر تفسیر قرآن کی منطق اور قواعد کی رعایت کی جائے تو مفسروں کے ماخذات پر ایک حد تک اطمینان حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ پھر بھی ان کی اندھی تقلید و پیروی جائز نہیں۔ چنانچہ اس بنا پر ڈاکٹر سروش کی قرآنی موضوعات میں تفاسیر اور مفسرین کے اختلاف پر تنقید اور انہیں محققوں کی پیروی کی دعوت دینے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر"، روزنامہ کارگزاران، ١٩ و ٢٠ اسفند ٨٦ )

بلکہ تفسیر قرآن اور عقائد اسلامی میں کسی کو بھی تقلید کی دعوت نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ اس امر کی مذمت کی گئی ہے نیز تقلید صرف احکام کے باب سے مختص ہے۔

ج) فہم قرآن کے مراتب

قرآن کریم علمی اور فلسفی کتابوں کی طرح مختلف مراتب اور سطحیں رکھتا ہے۔ جیسا کہ بہت سی روایات کے مطابق قرآن کا ظاہر و باطن ہے۔

( دیکھیے: عیاشی، تفسیر، ج١، ص٢٢ کے بعد )

ہر مفسر اس کے ظاہر کو سمجھنے کے لیے منابع، ذرائع اور شرائط کا محتاج ہے۔ مثلاً قرآنی آیات کے ظاہر کو ایک لغت سے رجوع کیے بغیر ایک حد تک سمجھا جاسکتا ہے لیکن جب لغت، تاریخ، شان نزول، روایات اور عقلی و سائنسی دلائل کی جانب رجوع کریں گے تو آیت کا واضح تر فہم اور تفسیر حاصل کرسکیں گے۔ دوسری جانب قرآن جری و تطبیق قاعدے

(عن الباقر: ظهره تنزیله و بطنه تأويله منه ما قد معني و منه و مالم يكن بعد يجري كما تجري الشمس و القمر ( ایضا، ص٢٢))

کی بنیاد پر ہر زمانے میں نئے نئے مصادیق پیدا کرتا ہے اور روایت کے مطابق یہ ہر زمانے میں تازہ اور ہر قوم کے پاس جدید ہے۔

( عن الرضا: فهو في كل زمان جديد و عند كل قوم غض الي يوم القيامة (محمدباقرمجلسى، بحارالانوار، ج٩٢، ص١۵) )

قرآن کیمسٹری یا فزکس کی کتاب نہیں کہ جس کا ظاہر ایک بار پڑھنے سے سمٹ جائے بلکہ انتہائی گہری اور مختلف معرفتی سطحوں پر مشتمل کتاب ہے۔ کیونکہ اس میں روز قیامت تک کہ تمام انسانوں کی ہدایت کا سامان ہے۔ پھر ظاہر سی بات ہے یہ تمام مطالب اس کے ان ظاہری چھ سو چار صفحوں میں نہیں سما سکتے، اسی وجہ سے ہر زمانے میں لوگوں کے لیے جدید سطوحات اور نئے قرآنی مطالب و مقاصد روشن ہوتے ہیں یا مفسروں کے ذریعے کشف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نظریہ پرداز اس خصوصیت کو قرآن کے معجزہ کا ایک پہلو قرار دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کا ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن ہر نسل کے لیے جدید اور غیر کشف شدہ مطالب رکھتا ہے۔

چنانچہ یہ جو ڈاکٹر سروش اس موضوع میں لکھتے ہیں: اگر قرآن کی حقیقی و اصلی مراد چودہ سو سال بعد بھی معلوم نہ ہوسکی تو یہ حقیقی و اصلی مراد کب اور کس کے لیے ہے؟

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور"، ص ١٧)

ان کا یہ اشکال و اعتراض بھی مذکورہ بیان شدہ مطالب کی بنیاد پر بے جا ہے۔

د) قرآن اور توریت و انجیل کے مابین مماثلت اور اختلافات

الف۔ مماثلت

١۔ قرآن اور تحریف سے پاک اصلی توریت و انجیل سب کا سرچشمہ الہی ہے۔ اور یہ کتابیں خدا کی جانب سے اس کے پیغمبروں حضرت محمد(ص)، حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ پر نازل ہوئی ہیں۔

٢۔ تینوں کتابیں انسانیت کی ہدایت کے لیے ہیں۔

٣۔ تینوں کتابوں میں اعتقادی، اخلاقی اور فقہی مباحث ذکر ہیں۔ البتہ آج جو انجیل عیسائیوں کے پاس موجود ہے اس میں کوئی خاص فقہی مسائل ذکر نہیں۔

۴۔ یہ تینوں کتابیں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم اصلی توریت اور انجیل کو تسلیم کرتا ہے اور آسمانی کتابوں پر ایمان کو لازم قرار دیتا ہے۔

( سورہ بقرہ٢٨۵/ آل عمران ۴ )

نیز اصلی توریت اورانجیل میں پیغمبر اسلام(ص)کے آنے کی بشارت بھی دی گئی ہے۔( سورہ صف٦/ فتح٢٩ )

پس پیغمبر کی تعلیمات کہ جو قرآن کے مطابق ہیں ان مقدس کتابوں کی تائید شدہ ہیں۔

ب۔ اختلافات

١۔ عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔

( دیکھیے: محمد ھادی معرفت، صیانة القرآن عن تحریف/فتح اللہ نجارزادگان، سلالة القرآن من التحریف)

لیکن موجودہ توریت اور انجیل تحریف شدہ ہیں۔ بعض مغربی مصنّفین جیسے ایان باربور کتاب "علم و دین" میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ توریت کا ایک حصہ حضرت موسیؑ کی وفات کے ٨٠ سال بعد لکھا گیا ہے۔

( ایان باربور، علم و دین، ص١٣٠)

انجیل بھی تقریباً چار مصنفوں لوقا، متی، مرقس اور یوحنا کے توسط سے حضرت عیسیؑ کے روپوش ہونے کے سالوں بعد لکھی گئی ہے۔ اور حقیقی توریت و انجیل کے بعض مطالب بھلائے جاچکے ہیں جبکہ ان میں بعض مطالب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نیز موجودہ انجیل حضرت عیسیؑ کی سوانح حیات ہے ۔

٢۔ قرآن ایک معجزہ ہے جو چودہ صدیوں سے زیادہ عرصے سے تمام انسانوں کو چیلنج کے لیے طلب کررہا ہے کہ کوئی اس کے جیسا کلام لا کر دکھائے(سورہ بقرہ ٢٣ و ٢۴) لیکن تمام مخلوق یہ کام انجام دینے سے ناتوان رہی۔ جبکہ موجودہ توریت اور انجیل کا ایسا کوئی دعوی نہیں ہے۔

٣۔ پروردگار عالم نے قران کے الفاظ اور معنی دونوں کو پیغمبر گرامی(ص)پر نازل کیا اور آنحضرت(ص)اس میں تصرف کا حق نہیں رکھتے۔

( وَلَوۡ تَقَوَّلَ عَلَيۡنَا بَعۡضَ ٱلۡأَقَاوِيلِ لَأَخَذۡنَا مِنۡهُ بِٱلۡيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡهُ ٱلۡوَتِينَ…(سور ہ حاق ہ ۴۴ ۔ ۴٦))

جبکہ موجودہ انجیل جناب عیسیؑ کی سوانح حیات ہے کہ جو کئی افراد نے بیان کی ہے۔ اور اس میں حضرت عیسیؑ یا فرشتہ وحی سے نقل شدہ مطالب انتہائی کم ہیں۔

( انجیل میں وہ واحد جملہ جس پر وحی کی اصطلاح منطبق ہوسکتی ہے، وہ انجیل متی کے تیسرے باب میں مذکور کہ زکریا پر آسمان سے خطاب ہوا "یہ ہے میرے حبیب کا بیٹا کہ جس سے میں راضی ہوں" )

البتہ توریت میں وحیانہ کلمات پائے جاتے ہیں جیسے "دس فرامین"؛ لیکن ان میں سے اکثر مطالب حضرت موسیؑ کے بجائے دیگر افراد نے جمع کیے اور لکھے ہیں۔ یہاں تک کہ اس میں حضرت موسیؑ کی وفات کا قصہ اور عزاداری کی رسومات بھی ذکر ہوئی ہیں۔

( دیکھیے: کتاب مقدس، سفر تثنیہ، باب ٣۴)

۴۔ قرآن میں سائنس اور عقل کے برخلاف مطالب نہیں پائے جاتے بلکہ یہ سائنس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور سائنسدانوں و دانشمندوں کو اس کام کی مزید ترغیب دلاتا ہے نیز قرآن بہت سے سائنسی نکات اور معجزات بیان کرتا ہے۔ لیکن موجودہ تحریف یافتہ توریت اور انجیل میں بعض سائنس کے برخلاف مطالب پائے جاتے ہیں کہ جنہیں بعض مغربی مصنفین جیسے ڈاکٹر موریس بوکائی نے اکھٹا بھی کیا ہے۔( دیکھیے: موریس بوکای، مقایسہ ای میان تورات، انجیل، قرآن، علم )

چنانچہ سائنس اور قرآن میں حقیقی تعارض محال ہے جبکہ ظاہری تعارض(جو تقریباً تمام کتابوں میں شروع میں دکھائی دیتا ہے)، تھوڑی دقت کرنے سے قابل حل ہے اور مختلف راہ حل رکھتا ہے۔

اس بنا بر قرون وسطیٰ میں عیسائیت اور سائنسدانوں کے درمیان جو خوفناک تنازعات پیش آئے وہ قرآن کے معاملے میں نہیں دہرائے جائیں گے، لہذا اس معاملے میں ڈاکٹر سروش کی گھبراہٹ اور انتباہ غیر ضروری ہے۔

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور"، ص ١٧)

ھ) قرآن اور عرب زمانے کی ثقافت و تہذیب

قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے کہ جو انسان پر نازل ہوئی ہے اور ایسے ماحول میں آئی ہے کہ جب لوگ جہالت اور تعصب کی وادی میں سرگردان و پریشان تھے اور ان کی ثقافت درست اور نادرست عناصر کا ملاپ تھی۔ کیونکہ ایک طرف سے جزیرہ عرب کے باسی حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ اور دین حنیف کے وارث تھے اور اسی وجہ سے بعض الٰہی اور مفید عناصر جیسے حج ان کی تہذیب و ثقافت کا حصہ تھے؛ جبکہ دوسری طرف مختلف زمانوں میں انبیاء الٰہی سے دوری کی وجہ سے خرافات اور باطل عناصر آہستہ آہستہ ان کی ثقافت کا حصہ بن چکے تھے۔

یہاں قرآن کریم کے اسکے نزول کے وقت عربوں کی ثقافت و تہذیب سے رابطہ کا جائزہ لیتے ہوئے دو اہم نظریات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

پہلا نظریہ: عصر نزول کی ثقافت کا قرآن پر مکمل اثر

بعض مصنفین اور مستشرقین( Orientalists )

( دیکھیے:عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر"، روزنامہ کارگزاران+ خط "طوطی و زنبور" )

کے نظریات کے مطابق قرآن مکمل طور پر عصر نزول کے زمانے کی ثقافت کے آگے تسلیم خم تھا اور اپنے زمانے کی رائج ثقافت کہ جو بدو اور انپڑھ عربوں کے خرافات اور علم وسائنس کے مخالف تھا اسے قبول کرتا ہے۔ نیز خدا نے اسے قرآن کی عبارتوں میں شامل کیا ہے۔ یہ نظریہ کسی حد تک اس نظریہ جیسا ہے جو توریت اور انجیل کے لکھاریوں کی اپنے زمانے کی ثقافت کی تاثیر کی تاکید کرتا ہے۔

( توریت و انجیل اور ان کے لکھاریوں کی اپنے زمانے کی ثقافت و خرافات سے اثرپذیری کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اہل مغرب نے اس نظریہ کو مسلماً تسلیم کرلیا ہے۔ (دیکھیے: ایان باربور، علم و دین) البتہ یہ نظریہ توریت و انجیل میں حد سے زیادہ خرافات اور سائنس کے مخالف مطالب کے پیش نظر ثابت و درست ہوسکتا ہے، لیکن قرآن کے بارے میں ناقابل قبول امر ہے۔)

قرآن کے بارے میں بھی بعض اہل قلم نے مکمل طور پر اسے قبول کیا ہے۔

( مقصود فراستخواہ، "قرآن، آراء و انتظارات گوناگون"، رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٢٧/عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر"+ خط "طوطی و زنبور" )

اور بعض نے فقط مثالیں ذکر کرکے اس بارے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے تاثیرگذاری کو تفصیل سے ذکر نہیں کیا۔

(دیکھیے: علیرضا ذکاوتی قراگزلو، "زبان قرآن" رسالہ بینات، ش۵، ص٧۴/ بہادالدین خرمشاهی، "بازتاب فرھنگ زمانہ در قرآن کریم" رسالہ کیان، ش٢٣، ص٩٠/ مقصود فراستخواہ، "قرآن آراء و انتظارات گوناگون" رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٢٧۔

ان سب میں سے خرمشاہی نے بہت زیادہ احتیاط برتے ہوئے بات کی ہے گویا کہا جائے کہ ان کا مقصود منفی نہ تھا بلکہ قرآن کا دفاع مقصد تھا۔)

مثالیں

١۔ ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں کاروباری ثقافت کا بول بالا:

اس ثقافت کی جھلک قرآن کریم میں بھی دکھائی دیتی ہے اور اس کے الفاظ اور اصلی مفاہیم جیسے ربح، ضرر، تجارت، بیع، شرا، اشترا، کنز، وزن، ترازو وغیرہ اس دور کے فرہنگ سے قرآن میں ماخوذ ہیں۔

( دیکھیے: رسالہ بیّنات، ش۵، ص٩١ )

٢۔ پیغمبر گرامی(ص)کی آرزوئیں

کچھ مستشرقین جو فرائیڈ کے مکتبِ نفسیات کے معتقد ہیں، ان کا نظریہ ہے کہ جنت کے تصور اور اس کی نعمات جیسے پانی کے چشمے، سر سبز درخت اور ان کا سایہ نیز کھجور، انگور اور انار جیسے پھلوں سے بھرے باغات محض اُس وقت کے لوگوں کی خواہشمند سوچ( wishful thinking) و خام خیالی ہے اور (نعوذباللہ) پیغمبر اکرم(ص)بھی ان سب کے آرزومند تھے۔( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٩١)

٣۔ شان نزول

وہ واقعات کہ جو عصر نزولِ قرآن کے لوگوں کی زندگی اور ثقافت کے کچھ حصے کا اس کتاب میں ذکر ہونے کا باعث بنے ہیں، اسباب نزول یا شان نزول کہلاتے ہیں، ان کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

قرآن کریم کی تقریباً دو سو آیات شان نزول رکھتی ہیں۔ پس واقعات، سوالات، مختلف جنگیں، دشمنوں کی سازشیں، یہاں تک کہ امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی مانی گئی منت سورہ دہر میں باعث بنی کہ ان کی مناسبت سے قرآن کی کوئی آیت یا چند آیات نازل ہوں۔

( ایضا ص٩٢ و٩٣/ رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١۴١ )

۴۔ لسانی و ادبی اسلوب اور اظہار کے طریقے

قرآن کریم میں عصر نزول کے بعض زبانی اسلوب اور لب و لہجے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً سجع یا عربوں کے جیسا تاکید کا طریقہ یعنی قسم، بعض ان کے جیسے لعنت و ملامت کرنے کے الفاظ سے استفادہ۔ مثال کے طور پر:

قُتِلَ ٱلإِنسَٰنُ مَا أَكفَرَهُۥ(سوره عبس ١٧)

انسان اس بات سے مارا گیا کہ کس قدر ناشکر ہوگیا ہے۔

تَبَّتۡ يَدَآ أَبِي لَهَب وَتَبَّ(سوره لهَب ١)

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے۔

عُتُلِّۭ بَعۡدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ(سوره قلم ۱۳)

بد مزاج اور اس کے بعد بد نسل کی اطاعت نہ کریں۔

قرآن نے عرب میں جاری تعبیروں اور استعاروں سے ہی استفادہ کیا ہے۔ عربوں کے غلبہ اور نفوذ کی وجہ سے خطاب مذکر سے ہوتا تھا اسی وجہ سے زیادہ تر فقہی آیات میں مردوں سے خطاب کیا گیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسائل خواتین کے شامل حال نہیں۔

( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧ و ٩۴/رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٢، ١۴١ و ١۴٢/عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور" )

۵۔ لوگوں میں رائج تشبہیوں اور قوم کی زبان سے استفادہ

بعض مقامات پر قرآن نے لوگوں میں رائج زبان اور لب و لہجے سے استفادہ کیا ہے یعنی قوم ابراہیمؑ کی زبان کے مطابق کلام کیا ہے۔ مثلاً:

طَلۡعُهَا كَأَنَّهُۥ رُءُوسُ ٱلشَّيَٰطِينِ(سور ہ صافات ٦۵)

اس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔

( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧ و ٩۴/رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٢، ١۴١ و ١۴٢/عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور" )

٦۔ صدر اسلام کی عربی زبان میں استعمال ہونے والے غیر عربی الفاظ سے استفادہ

قرآن کریم میں دو سو سے زیادہ غیرعربی یعنی عربی میں عاریتاً استعمال ہونے والے الفاظ

( آرتور جفری، واژہ‌ھای دخیل در قرآن مجید، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای )

اور تقریباً پچاس فارسی کے الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

( بھاالدین خرمشاھی، قرآن پژوھی، کلمات فارس در قرآن کریم )

مثلاً ہندی زبان کا لفظ "زنجبیل" فارسی کے ذریعے اور یونانی یا لاطینی الفاظ "بلد" و "قلم" سریانی زبان سے عربی میں داخل ہوئے اور پھر قرآن میں آئے ہیں۔

( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵ )

٧۔ اس زمانے کے علمی نظریات

اگر قرآن میں نظام بطلیموس یا طب جالینوس کا عکس نظر آتا ہے، تو اسکا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر سائنس کی ترقی نے نظام بطلیموس اور طب جالینوس کو رد کردیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ قرآن کے بعض احکامات کو باطل یا رد قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ قرآن نے اس وقت کے فرہنگ کا تذکرہ کیا ہے؛ حتمی اور ازلی و ابدی حقائق کا نہیں۔( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵ )

ایک اور مقام پر سات آسمان کے مسئلہ کو بھی اسی کے ذیل میں جانا گیا ہے۔( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٢، ١۴١ و ١۴٢/عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور")

حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے تنازعہ میں آپؑ کا نمرود سے فرمانا: میرا پروردگار سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تو سچا ہے تو اسے مغرب سے نکال۔

( سورہ بقرہ ٢۵٧ )

اس بیان میں سورج کی حرکت اور زمین کا ساکن ہونا ایک فرضیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

( دیکھیے: رسالہ کیان، ش٢٣/ رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧)

٨۔ جن

قرآن کریم میں جنات کے وجود کے بارے میں بیان آیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں جن کے نام سے ایک مستقل سورہ پایا جاتا ہے۔

( سورہ جن قرآن کی بہترویں سورہ ہے۔ )

جس میں بعض جنات کے ایمان لانے اور آیات قرآنی سننے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ آج کے زمانہ کا یا علمِ سائنس کا جن کے وجود کا قائل ہونا بعید ہے۔

( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦، ٩۵ و ٩٧/عبدالکریم سروش، ایضا)

٩۔ پاگل پن

پاگل پن اور دیوانگی ایک طرح کی بیماری ہے لیکن قرآن اسے اوائل اسلام کی ثقافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے شخص کے احوال کے ذیل میں بیان کرتا ہے "جو شیطان کے چھونے کی وجہ سے دیوانہ ہوجائے" ارشاد ہوتا ہے:

ٱلَّذِينَ يَأكُلُونَ ٱلرِّبَوٰاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِي يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيطَٰنُ مِنَ ٱلمَسِّ( سورہ بقرہ ٢٧۵)

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنادیا ہو۔

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر" و خط "طوطی و زنبور")

١٠۔ حوریں

قرآن میں حورالعین کی تعبیر استعمال کی گئی ہے کیونکہ اوائل اسلام کے عرب معاشرے میں عورت کا حسن اس کی بڑی بڑی اور کالی آنکھیں ہونا سمجھا جاتا تھا، لیکن اگر قرآن یورپ میں نازل ہوتا تو کہا جاتا ریون آنکھوں والی اور سنہرے بالوں والی خواتین۔ یہاں تک کہ بعض حوروں نے عربوں کے خیام میں ان سے بات چیت بھی کی ہے۔

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر" و خط "طوطی و زنبور")

۱۱۔ نظرِ بد

قرآن میں تقریباً دو مرتبہ نظرِ بد کے بارے میں کلام آیا ہے۔ ایک بار غیر مستقیم طور پر( سورہ یوسف ٦٧ و ٦٨)

اور دوسری بار واضح طور پر، ارشاد ہوتا ہے:

وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزلِقُونَكَ بِأَبصَٰرِهِم لَمَّا سَمِعُواْ ٱلذِّكرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ ۥ لَمَجۡنُون"( سورہ قلم ۵١)

اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلادیں گے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانے ہیں۔

بعض مفسرین جیسے میبدی، ابوالفتوح رازی اور قرطبی لکھتے ہیں: اس آیت میں نظرِ بد کی طرف اشارہ ہے کہ جس کا تصور عرب قبیلوں بالخصوص قبیلہ بنی اسد میں رائج تھا۔

دین کے انسائیکلو پیڈیا میں آیا ہے: نظرِ بد کی بُری تاثیر پر یقین ایک کلی نظریہ ہے۔

اگر آج سائنس کی بنا پر یا مستقبل میں جدید علم کے ذریعے یقینی طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ نظرِ بد محض ایک وہم ہے، تو ممکن ہے کہ بعض مخالفین اور دعویدار نکتہ چینی کریں کہ "قرآن اور سائنس کے اختلافات کا یہ ایک اور مورد ملاحظہ فرمائیں"۔

( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵۔٩٧ )

١٢۔ جنت کی توصیف

قرآن بہت سی آیات میں جنت کو درختوں، نہروں اور ان جیسی دیگر نعمتوں سے تعبیر کرتا ہے جو جزیرہ عرب کے خشک صحرا میں رہنے والے عربوں کے لیے جذاب اور قابل توجہ تھا۔ چنانچہ قرآن میں مخاطب اور مکان کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ جب کہ یہی درختوں اور نہروں والی تعبیریں شمال ایران یا یورپ وغیرہ کے لوگوں کے لیے زیادہ مورد توجہ نہیں ہیں۔ حتی بعض لوگوں نے تو ان تعبیروں کو عربوں کی جنت قرار دیا ہے۔

( دیکھیے: ایضا / عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر" و خط "طوطی و زنبور")

١٣۔ جادو

قرآن میں کئی مرتبہ سحر و جادو کا بھی ذکر آیا ہے، کہیں اجمالی طور پر

( سورہ بقرہ ١٠٢)

اور کہیں بلکل واضح طریقہ سے:

قُل أ َعُوذُ بِرَبِّ ٱلفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِن شَرِّ ٱلنَّفَّـٰثَٰتِ فِي ٱلۡعُقَدِ

( سورہ فلق ١۔۴)

کہہ دیجئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ چاہتا ہوں۔ تمام مخلوقات کے شر سے۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب اسکا اندھیرا چھا جائے۔ اور گنڈوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے۔

اب اگر آج یا مستقبل میں علم سائنس جادو ٹونے کے وہم ہونے کو قطعی، تجربی اور منطقی لحاظ سے ثابت کردے، مخالفین قرآن کہیں گے: "یہ قرآن اور سائنس کے اختلاف کا ایک اور مورد ہے"۔( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵۔٩٧)

چنانچہ بہتر ہے کہ جن، نظرِ بد اور جادو جیسے موارد میں کہا جائے کہ قرآن دور حاضر کے مظاہر پرستوں( Phenomenalist) کی طرح اندھیری رات کے ڈھلنے، رشک یا حسد، خواتین کی آنکھوں، وہم و بدگمانی، نظامِ بطلیموس اور طب جالینوس وغیرہ کی حقیقت و واقعیت کے بارے میں خاموش ہے۔ لیکن کیونکہ عصر نزول کے زمانے کی ثقافت میں ان چیزوں کے پائے جانے کا قائل ہے، ان کے مطابق برتاؤ اور ردِّعمل ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی حیثیت اور مقام میں کوئی نقص یا بطلان نہیں ہے۔( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵۔٩٧)

١۴۔ روح

ایک صاحب قلم یوں لکھتے ہیں:

عامیانہ عربی زبان میں روح جزیرہ عرب کے خشک اور گرم جغرافیا میں ریح : یعنی ٹھنڈی ہوا‘کے مادہ سے اخذ شدہ ہے۔ اور اس خاکی دنیا سے برتر جوہر کے پھونکے جانے کے لیے ایک انتہائی موزوں علامت ہے…

اس کے بعد آیت

فَإِذَا سَوَّيتُهُ ۥ وَنَفَختُ فِيهِ مِن رُّوحِي" ( سورہ حجر ٢٩ )

کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

اس ترتیب سے یہ نتیجہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ حقیقت میں روح جسم انسان سے جدا اور مستقل موجود نہیں ہے، بلکہ یہاں فقظ تشبیہ اور تمثیل کے عنوان سے کنایتاً ذکر ہوئی ہے۔

( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٠، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و ١۴٢)

١۵۔ اسلام کے تائید کردہ احکام

وہ احکام جو اسلام سے قبل دور جاہلیت میں کسی اور شکل میں تھے شارع مقدسِ اسلام نے انہیں کچھ تبدیلیوں و ارتقاء کے ساتھ قرآن میں بیان کیا ہے۔ جیسے حج کہ جو دین حنیف کا ایک رکن تھا، بعض کمی بیشیوں کے ساتھ اسلام میں مورد تائید قرار پایا ہے۔ اسی طرح ایلاء، ظہار اور لعان بھی قرآن میں ذکر ہیں۔

( ایضا، ص١۴١ و ١۴٢/رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧ و ٩۴/ ڈاکٹر سروش کا میشل ھوبینگ کو دیئے گئے انٹرویو/ نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)

چنانچہ قرآن کے احکام کو نظر انداز کرنا ان نظریوں کا نتیجہ ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں میں سے ایک لکھتے ہیں:

ممکن ہے قرآن کے تائید کردہ احکام کہ جو عربوں کے نزولِ قرآن سے قبل رائج طور طریقوں پر مہر تائید تھے، ماحول اور صورتحال کے تقاضے کے مطابق نیز زمان و مکان کی شرائط وغیرہ بدلنے کی صورت میں یہ بعض فقہی احکامات جیسے مجرموں و گناہ گاروں کو سنگسار کرنا اور کوڑے لگانا، مردوں کا خواتین کا سرپرست ہونا، چار شادیوں کی اجازت، حجاب کا خاص طریقہ اور قرض پر سود حاصل کرنے کو حرام کرنا وغیرہ حتی قرآن پر ایمان رکھنے والوں کی نظر میں بھی کہ جو جان و دل سے اس کے تقدس اور احترام کے قائل ہیں، عملی طور پر پیادہ ہونے کا اعتبار کھودیں۔

اگر بالفرض قرآن آج کے زمانے میں نازل ہوتا تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اس معاشرے کے رائج مفید و کارآمد آداب و رسوم اور قوانین کی تائید و تصدیق کرتا…

( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی )

اس کے بعد یہ ہدایت کرتے ہوئے کہ قرآن کے پیروکار قرآنی احکام کی ظاہری شکل و صورت کو زبردستی موجودہ دنیا پر مسلط نہ کریں، مزید لکھتے ہیں:

اس لیے مناسب یہی ہے کہ قرآن کے پیروکار اپنی زندگی کے مسائل کو عقل و حکمت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں اور کتاب و شریعت کے اوراق، جِلدوں اور عبارات سے نکل کر دین کے لب لباب تک پہنچیں اور الٰہی روشنی کی طرف مائل ہوں۔

( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)

وہ مزید یہ تاکید کرتے ہوئے کہ آسمانی کتابیں سائنسی مطالب جیسے فزکس اور کیمسٹری کے مسائل بیان کرنے نہیں نازل ہوئیں، رقم کرتے ہیں:

معقول نہیں ہے کہ مقدس کتابوں خواہ قرآن ہو یا دیگر کتب اُن سے یہ توقع رکھی جائے کہ ان کا مقصد آسمان اور اس کائنات کی کیفیت کی تشریح بیان کرنا یا حتی اس پر اشارہ کرنا ہے۔

( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)

وہ اس موقف میں اسقدر آگے بڑھتے ہیں کہ قرآن کے علمی مطالب کی یوں تشریح کرتے ہیں:

آج کے علم و جدید معلومات سے مالا مال لوگوں کے لیے قرآنی فقروں کا سیاق و سباق واضح و قابل فہم نہیں ہے۔ اور نہ ہی دور جدید کے عام سائنسی علم سے مناسبت رکھتا ہے بلکہ اکثر عجیب و غریب ہیں۔

( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)

١٦۔ چند اور قابل تنقید موارد

بعض افراد نے قمری مہینوں، توحید سے مربوط آیات میں اونٹ کی جانب اشارے، قریش کے انس و الفت اور پیغمبر(ص)کی ازواج کے اسلوب اور انداز کہ جو قرآن میں ذکر ہوئے ہیں ان سب کو مورد تنقید قرار دیا ہے۔

( دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور")

اس نظریے کے دلائل

بعض وہ افراد جنہوں نے اس نظریے کو پیش کیا ہے اپنے نظریہ پر دلیل پیش کرنے کی بھی زحمت نہ کرسکے بلکہ فقط قرآنی آیات کے ذکر پر اکتفا کیا ہے اور تمام موارد کو بدو عربوں کی غلط ثقافت کے مطابق جانا ہے۔ البتہ بعض افراد نے اپنے نظریے پر دلائل پیش کیے ہیں، جیسے:

١ ۔ لَقَد أَنزَلنَا إِلَيكُم كِتَٰبا فِيهِ ذِكۡرُكُمۡ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ" ( سورہ انبیاء ١٠)

بیشک ہم نے تمھاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمھارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو!؟

اس نظریے کے بعض مدعیان اس آیت کو اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے عمدہ ترین آیت قرار دیتے ہیں اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔

( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٩٧۔٩۵)

٢ ۔ وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ" ( سورہ ابراہیم ۴ )

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا اسی کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں پر باتوں کو واضح کرسکے۔

ایک نظریہ پرداز استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قوم کی زبان ہونے کا دوسرا مطلب اس قوم کے فرہنگ و ثقافت کے مطابق ہونا ہے۔ یہ اس معنی پر مبتنی ہے کہ ہر قوم کی زبان اس کی ثقافت، رسوم و رواج، اعتقادات اور نظریات کا مظہرہوتی ہے۔

( دیکھیے: رسالہ کیان، ش٢٣/رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧)

٣۔ بعض نے دعوی کیا ہے کہ الٰہی پیغمبر علیہم السلام لوگوں سے ان کی عقل و فہم کے مطابق ہم کلام ہوتے تھے۔

( دیکھیے: رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص ١٣٦)