٣۔ شان نزول
وہ واقعات کہ جو عصر نزولِ قرآن کے لوگوں کی زندگی اور ثقافت کے کچھ حصے کا اس کتاب میں ذکر ہونے کا باعث بنے ہیں، اسباب نزول یا شان نزول کہلاتے ہیں، ان کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
قرآن کریم کی تقریباً دو سو آیات شان نزول رکھتی ہیں۔ پس واقعات، سوالات، مختلف جنگیں، دشمنوں کی سازشیں، یہاں تک کہ امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی مانی گئی منت سورہ دہر میں باعث بنی کہ ان کی مناسبت سے قرآن کی کوئی آیت یا چند آیات نازل ہوں۔
( ایضا ص٩٢ و٩٣/ رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١۴١ )
۴۔ لسانی و ادبی اسلوب اور اظہار کے طریقے
قرآن کریم میں عصر نزول کے بعض زبانی اسلوب اور لب و لہجے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً سجع یا عربوں کے جیسا تاکید کا طریقہ یعنی قسم، بعض ان کے جیسے لعنت و ملامت کرنے کے الفاظ سے استفادہ۔ مثال کے طور پر:
قُتِلَ ٱلإِنسَٰنُ مَا أَكفَرَهُۥ(سوره عبس ١٧)
انسان اس بات سے مارا گیا کہ کس قدر ناشکر ہوگیا ہے۔
تَبَّتۡ يَدَآ أَبِي لَهَب وَتَبَّ(سوره لهَب ١)
ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے۔
عُتُلِّۭ بَعۡدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ(سوره قلم ۱۳)
بد مزاج اور اس کے بعد بد نسل کی اطاعت نہ کریں۔
قرآن نے عرب میں جاری تعبیروں اور استعاروں سے ہی استفادہ کیا ہے۔ عربوں کے غلبہ اور نفوذ کی وجہ سے خطاب مذکر سے ہوتا تھا اسی وجہ سے زیادہ تر فقہی آیات میں مردوں سے خطاب کیا گیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسائل خواتین کے شامل حال نہیں۔
( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧ و ٩۴/رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٢، ١۴١ و ١۴٢/عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور" )
۵۔ لوگوں میں رائج تشبہیوں اور قوم کی زبان سے استفادہ
بعض مقامات پر قرآن نے لوگوں میں رائج زبان اور لب و لہجے سے استفادہ کیا ہے یعنی قوم ابراہیمؑ کی زبان کے مطابق کلام کیا ہے۔ مثلاً:
طَلۡعُهَا كَأَنَّهُۥ رُءُوسُ ٱلشَّيَٰطِينِ(سور ہ صافات ٦۵)
اس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔
( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧ و ٩۴/رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٢، ١۴١ و ١۴٢/عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور" )
٦۔ صدر اسلام کی عربی زبان میں استعمال ہونے والے غیر عربی الفاظ سے استفادہ
قرآن کریم میں دو سو سے زیادہ غیرعربی یعنی عربی میں عاریتاً استعمال ہونے والے الفاظ
( آرتور جفری، واژہھای دخیل در قرآن مجید، ترجمہ فریدون بدرہای )
اور تقریباً پچاس فارسی کے الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
( بھاالدین خرمشاھی، قرآن پژوھی، کلمات فارس در قرآن کریم )
مثلاً ہندی زبان کا لفظ "زنجبیل" فارسی کے ذریعے اور یونانی یا لاطینی الفاظ "بلد" و "قلم" سریانی زبان سے عربی میں داخل ہوئے اور پھر قرآن میں آئے ہیں۔
( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵ )
٧۔ اس زمانے کے علمی نظریات
اگر قرآن میں نظام بطلیموس یا طب جالینوس کا عکس نظر آتا ہے، تو اسکا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر سائنس کی ترقی نے نظام بطلیموس اور طب جالینوس کو رد کردیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ قرآن کے بعض احکامات کو باطل یا رد قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ قرآن نے اس وقت کے فرہنگ کا تذکرہ کیا ہے؛ حتمی اور ازلی و ابدی حقائق کا نہیں۔( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵ )
ایک اور مقام پر سات آسمان کے مسئلہ کو بھی اسی کے ذیل میں جانا گیا ہے۔(
رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٢، ١۴١ و ١۴٢/عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور")
حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے تنازعہ میں آپؑ کا نمرود سے فرمانا: میرا پروردگار سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تو سچا ہے تو اسے مغرب سے نکال۔
( سورہ بقرہ ٢۵٧ )
اس بیان میں سورج کی حرکت اور زمین کا ساکن ہونا ایک فرضیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
(
دیکھیے: رسالہ کیان، ش٢٣/ رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧)
٨۔ جن
قرآن کریم میں جنات کے وجود کے بارے میں بیان آیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں جن کے نام سے ایک مستقل سورہ پایا جاتا ہے۔
( سورہ جن قرآن کی بہترویں سورہ ہے۔ )
جس میں بعض جنات کے ایمان لانے اور آیات قرآنی سننے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ آج کے زمانہ کا یا علمِ سائنس کا جن کے وجود کا قائل ہونا بعید ہے۔
(
رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦، ٩۵ و ٩٧/عبدالکریم سروش، ایضا)
٩۔ پاگل پن
پاگل پن اور دیوانگی ایک طرح کی بیماری ہے لیکن قرآن اسے اوائل اسلام کی ثقافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے شخص کے احوال کے ذیل میں بیان کرتا ہے "جو شیطان کے چھونے کی وجہ سے دیوانہ ہوجائے" ارشاد ہوتا ہے:
ٱلَّذِينَ يَأكُلُونَ ٱلرِّبَوٰاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِي يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيطَٰنُ مِنَ ٱلمَسِّ(
سورہ بقرہ ٢٧۵)
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنادیا ہو۔
(
دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر" و خط "طوطی و زنبور")
١٠۔ حوریں
قرآن میں حورالعین کی تعبیر استعمال کی گئی ہے کیونکہ اوائل اسلام کے عرب معاشرے میں عورت کا حسن اس کی بڑی بڑی اور کالی آنکھیں ہونا سمجھا جاتا تھا، لیکن اگر قرآن یورپ میں نازل ہوتا تو کہا جاتا ریون آنکھوں والی اور سنہرے بالوں والی خواتین۔ یہاں تک کہ بعض حوروں نے عربوں کے خیام میں ان سے بات چیت بھی کی ہے۔
(
دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر" و خط "طوطی و زنبور")
۱۱۔ نظرِ بد
قرآن میں تقریباً دو مرتبہ نظرِ بد کے بارے میں کلام آیا ہے۔ ایک بار غیر مستقیم طور پر(
سورہ یوسف ٦٧ و ٦٨)
اور دوسری بار واضح طور پر، ارشاد ہوتا ہے:
وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزلِقُونَكَ بِأَبصَٰرِهِم لَمَّا سَمِعُواْ ٱلذِّكرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ ۥ لَمَجۡنُون"(
سورہ قلم ۵١)
اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلادیں گے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانے ہیں۔
بعض مفسرین جیسے میبدی، ابوالفتوح رازی اور قرطبی لکھتے ہیں: اس آیت میں نظرِ بد کی طرف اشارہ ہے کہ جس کا تصور عرب قبیلوں بالخصوص قبیلہ بنی اسد میں رائج تھا۔
دین کے انسائیکلو پیڈیا میں آیا ہے: نظرِ بد کی بُری تاثیر پر یقین ایک کلی نظریہ ہے۔
اگر آج سائنس کی بنا پر یا مستقبل میں جدید علم کے ذریعے یقینی طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ نظرِ بد محض ایک وہم ہے، تو ممکن ہے کہ بعض مخالفین اور دعویدار نکتہ چینی کریں کہ "قرآن اور سائنس کے اختلافات کا یہ ایک اور مورد ملاحظہ فرمائیں"۔
( رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵۔٩٧ )
١٢۔ جنت کی توصیف
قرآن بہت سی آیات میں جنت کو درختوں، نہروں اور ان جیسی دیگر نعمتوں سے تعبیر کرتا ہے جو جزیرہ عرب کے خشک صحرا میں رہنے والے عربوں کے لیے جذاب اور قابل توجہ تھا۔ چنانچہ قرآن میں مخاطب اور مکان کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ جب کہ یہی درختوں اور نہروں والی تعبیریں شمال ایران یا یورپ وغیرہ کے لوگوں کے لیے زیادہ مورد توجہ نہیں ہیں۔ حتی بعض لوگوں نے تو ان تعبیروں کو عربوں کی جنت قرار دیا ہے۔
(
دیکھیے: ایضا / عبدالکریم سروش، خط "بشر و بشیر" و خط "طوطی و زنبور")
١٣۔ جادو
قرآن میں کئی مرتبہ سحر و جادو کا بھی ذکر آیا ہے، کہیں اجمالی طور پر
(
سورہ بقرہ ١٠٢)
اور کہیں بلکل واضح طریقہ سے:
قُل أ َعُوذُ بِرَبِّ ٱلفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِن شَرِّ ٱلنَّفَّـٰثَٰتِ فِي ٱلۡعُقَدِ
(
سورہ فلق ١۔۴)
کہہ دیجئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ چاہتا ہوں۔ تمام مخلوقات کے شر سے۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب اسکا اندھیرا چھا جائے۔ اور گنڈوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے۔
اب اگر آج یا مستقبل میں علم سائنس جادو ٹونے کے وہم ہونے کو قطعی، تجربی اور منطقی لحاظ سے ثابت کردے، مخالفین قرآن کہیں گے: "یہ قرآن اور سائنس کے اختلاف کا ایک اور مورد ہے"۔(
رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵۔٩٧)
چنانچہ بہتر ہے کہ جن، نظرِ بد اور جادو جیسے موارد میں کہا جائے کہ قرآن دور حاضر کے مظاہر پرستوں(
Phenomenalist)
کی طرح اندھیری رات کے ڈھلنے، رشک یا حسد، خواتین کی آنکھوں، وہم و بدگمانی، نظامِ بطلیموس اور طب جالینوس وغیرہ کی حقیقت و واقعیت کے بارے میں خاموش ہے۔ لیکن کیونکہ عصر نزول کے زمانے کی ثقافت میں ان چیزوں کے پائے جانے کا قائل ہے، ان کے مطابق برتاؤ اور ردِّعمل ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی حیثیت اور مقام میں کوئی نقص یا بطلان نہیں ہے۔(
رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٦ و ٩۵۔٩٧)
١۴۔ روح
ایک صاحب قلم یوں لکھتے ہیں:
عامیانہ عربی زبان میں روح جزیرہ عرب کے خشک اور گرم جغرافیا میں ریح : یعنی ٹھنڈی ہوا‘کے مادہ سے اخذ شدہ ہے۔ اور اس خاکی دنیا سے برتر جوہر کے پھونکے جانے کے لیے ایک انتہائی موزوں علامت ہے…
اس کے بعد آیت
فَإِذَا سَوَّيتُهُ ۥ وَنَفَختُ فِيهِ مِن رُّوحِي" ( سورہ حجر ٢٩ )
کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:
اس ترتیب سے یہ نتیجہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ حقیقت میں روح جسم انسان سے جدا اور مستقل موجود نہیں ہے، بلکہ یہاں فقظ تشبیہ اور تمثیل کے عنوان سے کنایتاً ذکر ہوئی ہے۔
(
رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٠، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و ١۴٢)
١۵۔ اسلام کے تائید کردہ احکام
وہ احکام جو اسلام سے قبل دور جاہلیت میں کسی اور شکل میں تھے شارع مقدسِ اسلام نے انہیں کچھ تبدیلیوں و ارتقاء کے ساتھ قرآن میں بیان کیا ہے۔ جیسے حج کہ جو دین حنیف کا ایک رکن تھا، بعض کمی بیشیوں کے ساتھ اسلام میں مورد تائید قرار پایا ہے۔ اسی طرح ایلاء، ظہار اور لعان بھی قرآن میں ذکر ہیں۔
(
ایضا، ص١۴١ و ١۴٢/رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧ و ٩۴/ ڈاکٹر سروش کا میشل ھوبینگ کو دیئے گئے انٹرویو/ نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)
چنانچہ قرآن کے احکام کو نظر انداز کرنا ان نظریوں کا نتیجہ ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں میں سے ایک لکھتے ہیں:
ممکن ہے قرآن کے تائید کردہ احکام کہ جو عربوں کے نزولِ قرآن سے قبل رائج طور طریقوں پر مہر تائید تھے، ماحول اور صورتحال کے تقاضے کے مطابق نیز زمان و مکان کی شرائط وغیرہ بدلنے کی صورت میں یہ بعض فقہی احکامات جیسے مجرموں و گناہ گاروں کو سنگسار کرنا اور کوڑے لگانا، مردوں کا خواتین کا سرپرست ہونا، چار شادیوں کی اجازت، حجاب کا خاص طریقہ اور قرض پر سود حاصل کرنے کو حرام کرنا وغیرہ حتی قرآن پر ایمان رکھنے والوں کی نظر میں بھی کہ جو جان و دل سے اس کے تقدس اور احترام کے قائل ہیں، عملی طور پر پیادہ ہونے کا اعتبار کھودیں۔
اگر بالفرض قرآن آج کے زمانے میں نازل ہوتا تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اس معاشرے کے رائج مفید و کارآمد آداب و رسوم اور قوانین کی تائید و تصدیق کرتا…
( رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی )
اس کے بعد یہ ہدایت کرتے ہوئے کہ قرآن کے پیروکار قرآنی احکام کی ظاہری شکل و صورت کو زبردستی موجودہ دنیا پر مسلط نہ کریں، مزید لکھتے ہیں:
اس لیے مناسب یہی ہے کہ قرآن کے پیروکار اپنی زندگی کے مسائل کو عقل و حکمت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں اور کتاب و شریعت کے اوراق، جِلدوں اور عبارات سے نکل کر دین کے لب لباب تک پہنچیں اور الٰہی روشنی کی طرف مائل ہوں۔
(
رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)
وہ مزید یہ تاکید کرتے ہوئے کہ آسمانی کتابیں سائنسی مطالب جیسے فزکس اور کیمسٹری کے مسائل بیان کرنے نہیں نازل ہوئیں، رقم کرتے ہیں:
معقول نہیں ہے کہ مقدس کتابوں خواہ قرآن ہو یا دیگر کتب اُن سے یہ توقع رکھی جائے کہ ان کا مقصد آسمان اور اس کائنات کی کیفیت کی تشریح بیان کرنا یا حتی اس پر اشارہ کرنا ہے۔
(
رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)
وہ اس موقف میں اسقدر آگے بڑھتے ہیں کہ قرآن کے علمی مطالب کی یوں تشریح کرتے ہیں:
آج کے علم و جدید معلومات سے مالا مال لوگوں کے لیے قرآنی فقروں کا سیاق و سباق واضح و قابل فہم نہیں ہے۔ اور نہ ہی دور جدید کے عام سائنسی علم سے مناسبت رکھتا ہے بلکہ اکثر عجیب و غریب ہیں۔
(
رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص١٣٣، ١٣۵، ١٣٧، ١۴١ و١۴٢/نصر حامد ابوزید، مفھوم النص و نقد الخطاب الدینی)
١٦۔ چند اور قابل تنقید موارد
بعض افراد نے قمری مہینوں، توحید سے مربوط آیات میں اونٹ کی جانب اشارے، قریش کے انس و الفت اور پیغمبر(ص)کی ازواج کے اسلوب اور انداز کہ جو قرآن میں ذکر ہوئے ہیں ان سب کو مورد تنقید قرار دیا ہے۔
(
دیکھیے: عبدالکریم سروش، خط "طوطی و زنبور")
اس نظریے کے دلائل
بعض وہ افراد جنہوں نے اس نظریے کو پیش کیا ہے اپنے نظریہ پر دلیل پیش کرنے کی بھی زحمت نہ کرسکے بلکہ فقط قرآنی آیات کے ذکر پر اکتفا کیا ہے اور تمام موارد کو بدو عربوں کی غلط ثقافت کے مطابق جانا ہے۔ البتہ بعض افراد نے اپنے نظریے پر دلائل پیش کیے ہیں، جیسے:
١ ۔ لَقَد أَنزَلنَا إِلَيكُم كِتَٰبا فِيهِ ذِكۡرُكُمۡ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ" (
سورہ انبیاء ١٠)
بیشک ہم نے تمھاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمھارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو!؟
اس نظریے کے بعض مدعیان اس آیت کو اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے عمدہ ترین آیت قرار دیتے ہیں اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔
(
رسالہ بیّنات، ش۵، ص٩٧۔٩۵)
٢ ۔ وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ" ( سورہ ابراہیم ۴ )
اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا اسی کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں پر باتوں کو واضح کرسکے۔
ایک نظریہ پرداز استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قوم کی زبان ہونے کا دوسرا مطلب اس قوم کے فرہنگ و ثقافت کے مطابق ہونا ہے۔ یہ اس معنی پر مبتنی ہے کہ ہر قوم کی زبان اس کی ثقافت، رسوم و رواج، اعتقادات اور نظریات کا مظہرہوتی ہے۔
(
دیکھیے: رسالہ کیان، ش٢٣/رسالہ بیّنات، ش۵، ص٧٧)
٣۔ بعض نے دعوی کیا ہے کہ الٰہی پیغمبر علیہم السلام لوگوں سے ان کی عقل و فہم کے مطابق ہم کلام ہوتے تھے۔
(
دیکھیے: رسالہ دانشگاہ انقلاب، ش١١٠، ص ١٣٦)