شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی0%

شبہات جدید قرآنی مؤلف:
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: فلسفہ

شبہات جدید قرآنی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی_ مترجم : ندا زہراء رضوی
: ندا زہراء رضوی
زمرہ جات: مشاہدے: 26
ڈاؤنلوڈ: 2

شبہات جدید قرآنی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26 / ڈاؤنلوڈ: 2
سائز سائز سائز
شبہات جدید قرآنی

شبہات جدید قرآنی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=485&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com

تحلیل اور جائزہ

اس نظریہ کا جائزہ تین حصوں میں لیا جائے گا:

١۔ دلائل

٢۔ لفظ فرہنگ (ثقافت)

٣۔ مثالیں

ایک: دلائل کا جائزہ

پہلا: سورہ انبیاء کی دسویں آیت میں کلمہ "ذکر کم" لغوی لحاظ سے کسی چیز کی یاد دہانی اور حفاظت کے معنی میں ہے؛ اگرچہ عزت و کرامت کے معنی میں بھی آیا ہے۔

( دیکھیے: ابن فارس، معجم مقاییس اللغة/حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج٣، ص٢٩٦ و ٢٩٧، مادہ "ذکر")

اصطلاحی لحاظ سے مفسرین نے اس لفظ کو ان معنی میں ذکر کیا ہے:

١۔ طبرسی: عزت و کرامت(شرف)،

فیه شرفكم أن تمسكتم به ۔

( فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان، ج۴، ص٣٩)

٢۔ علامہ طباطبائی: وہ شے کہ جو ان کے لیے مخصوص ہے اور ان کی شایان شان ہے، یعنی معارف الہیہ کا وہ آخری درجہ کہ جو انسان کے لیے قابل فہم ہے۔( سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١۴، ص٢٧٧ )

٣۔ بعض مفسرین: "ساری امت کے لیے ایسا وعظ و نصیحت کہ جو ان کی بیداری کا باعث بنے"۔( سید عبدالحسین طیب، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، ج٩، ص١۴٢)

یا "خود انکے یا ان کے نظریات کے لیے تذکّر اور بیداری کا سامان ہو"۔

( ناصر مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، ج١٣، ص٣٦٠)

قرآن کریم تمام موارد میں کرامت و شرافت کا وسیلہ، بلند معارف کا بیانگر اور نظریات بیدار کرنا والے کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔

۴۔ کچھ دیگر مفسرین: "قرآن انسان کی دینی و دنیوی ضروریات کی یاد دہانی کرنے والا ہے"۔( ناصر مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، ج١٣، ص٣٦٠)

کلمہ " ذکر کم " نہ لغت میں "عرب معاشرے کی عام ثقافت" کے معنی ہے اور نہ ہی مفسروں کی اصطلاح میں، کہ اس کو شاہد مثال بنایا جائے کہ قرآن میں عربوں کی فرہنگ و ثقافت شامل ہے۔

دوسرا: لفظ " لسان " لغت میں منہ کے اندر ایک خاص عضو اور بول چال کے وسیلہ کے معنی میں ہے۔ البتہ یہ لفظ " لغت " یا مختلف زبانوں کے معنی میں بھی آیا ہے۔

( دیکھیے: ابن فارس، معجم مقاییس اللغة مادہ لسن/حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج١٠، ص١٩١)

مفسروں کی اصطلاح میں یہ لفظ " لغت " یعنی ہر پیغمبر کی مخاطب قوم کی اصلی و پہلی زبان کے معنی میں ہے۔ یعنی تمام پیغمبر اپنی قوم کی زبان میں ان سے مخاطب ہوتے تھے تاکہ کسی مترجم کی یا توضیح دینے والے کی ضرورت نہ پیش آئے اور لوگ ان کے پیغامات کو درک کرسکیں اور پیغمبر بھی بغیر کسی واسطہ کے ان کے لیے پیغام الٰہی بیان کرسکیں۔

"لیبین لهم "

( دیکھیے: ناصر مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، ج١٠، ص٢٦٦/سید عبدالحسین طیب، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، ج٧، ص٣۵٩ )

اس بنا پر علامہ طبرسی لکھتے ہیں:

اي لم يرسل مضي من الأزمان رسولا الا بلغة قومه حتي إذا بين لهم فهموا عنه و لا يحتاجون الي من يترجمه عنه

( فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان، سورہ ابراہیم کی چوتھی آیت کے ذیل میں )

علامہ طباطبائی لکھتے ہیں: " اللّسان ھو اللغة " اس کے بعد توضیح دیتے ہیں کہ قوم سے مراد، وہ افراد ہیں جن کے درمیان پیغمبر الٰہی زندگی گزارتے ہیں؛ نہ وہ قوم کہ جس تک اس پیغمبرکی نسبت پہنچ رہی ہو۔

اسی لئے حضرت لوطؑ جو کہ کلدہ( ۔ کلدہ کے افراد کی زبان سریانی تھی۔) سے تھے اور بعد میں مؤتفکات( مؤتفکات کی زبان عبرانی تھی۔) ہجرت کرگئے مؤتفکات کے لوگوں کو "قوم لوط" کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے، جبکہ یہ لوگ صرف حضرت لوطؑ کی عوام اور مخاطبین تھے آنحضرتؑ ان کی نسل سے نہ تھے۔

( سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٢، ص١٢)

تفاسیر روائی بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں اور آئمہ علیہم السلام کی روایات بھی یہ امر واضح ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ تمام پیغمبروں کی زبان ان کے مخاطبوں کی زبان و بول چال جیسی تھی لیکن پھر بھی یہ امر پیغمبروں کی رسالت خاص قوم تک منحصر ہونے کا باعث نہیں بنتا۔

اور اسی دلیل کی بنیاد پر پیغمبر گرامی(ص)کی رسالت بھی تمام لوگوں کے لیے "کافَّةُ لِنَّاس" ہے۔

( دیکھیے: ہاشم بحرانی، نور الثقلین، ج٢، ص۵٢۵)

" لسان قوم " کے لغوی و اصطلاحی معنی کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے کہ جن میں سے ایک بھی لوگوں کی ثقافت یعنی آغاز اسلام کے عربوں کی ثقافت کے معنی میں نہیں ہے، توجہ کی جاسکتی ہے کہ اس آیت کے ذریعے قرآن کریم پر آغاز اسلام کے زمانے کی ثقافت و فرہنگ کی تاثیر ہونے کا استدلال قائم کرنا بے وجہ عمل ہے۔

شاید مذکورہ استدلال کرنے والے اس نکتہ کی وجہ سے اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں کہ کلمہ "زبانِ قوم یا لوگوں کی زبان" فارسی زبان میں دو طرح سے استعمال ہوتا ہے: بعض اوقات لوگوں کی زبان کے معنی میں اور کبھی لوگوں کی ثقافت اور رسم و رواج کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ عربی زبان میں کلمہ " لسان قوم " فقط ایک استعمال رکھتا ہے، اور وہ لوگوں کی زبان " لغة " ہے۔ لہذا یہ افراد گمان کرتے ہیں کہ یہ دو استعمالات کہ جو فارسی میں موجود ہیں، عربی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور پھر اس وجہ سے اس آیت کا قوم کی ثقافت و فرہنگ کے معنی میں ترجمہ کرتے ہیں، جبکہ لفظ فرہنگ یا ثقافت عربی میں " الثقافة " کا متبادل ہے نہ کہ لسان کا۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگر " لسان قوم " کو تمام اعتقادات حتی فاسد اعتقادات کے معنی میں لیا جائے، تو تمام چیزیں پیغمبر(ص)اور قرآن کے مورد تائید پائیں گی اور اس صورت میں جاہل اور مفادپرست افراد کا پیغمبر(ص)سے دشمنی اور مقابلہ کرنا بے معنی ہوگا۔ اس کے علاوہ قرآن نے عرب معاشرے کے بعض خرافات کو جو کہ ان کی ثقافت کا حصہ تھے کالعدم قرار دیا ہے اور ان کی نفی کی ہے۔

تیسرا: یہ

"کلم الناس علي قدر عقولهم"

انبیاء علیہم السلام لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کیا کرتے تھے؛ اس معنی میں نہیں ہے کہ انبیاءؑ لوگوں سے عقل اور علم کے خلاف بات کیا کرتے اور ہر واقعیت سے دور مطلب کی تائید کرتے تھے نیز ہر حال میں یہ طریقہ قرآن میں بھی آئے!

مخاطب کی عقلی اور علمی ظرفیت کے لحاظ سے اس سے ہم کلام ہونا، تبلیغ کے لیے ضروری اور انتہائی موثر ہے۔ اور ہر عاقل و حکیم شخص اپنے بیان میں اس کی رعایت کرتا ہے نیز بلند و عالی مطالب کو مثالوں کے ذریعے ذہن سے قریب کرتا ہے تاکہ سننے والا بہتر طریقے سے متوجہ ہوسکے۔ قرآن نے بھی کئی مرتبہ اس طریقے کار سے استفادہ کیا ہے اور مختلف مثالیں بیان کی ہیں۔

مگر یہ کہ کہا جائے قرآن نے جہالت کی تاریکیوں میں گم بدو عربوں کے خرافاتی مطالب کی تائید کی ہے اور عقل و علم کے برخلاف مطالب لے کر آیا ہے؛ یہ ایک الگ بات ہے جو پیچھے دی گئی دلیل(حدیث) کی رو سے ثابت نہیں ہوتی۔

دو: لفظ "فرہنگ" (ثقافت) کا جائزہ

جیسا کہ اس بحث کا اصلی محور "زمانے کے فرہنگ و ثقافت کی قرآن کریم پر تاثیر" ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ اس لفظ کا علمی جائزہ لیا جائے۔ "لفظ فرہنگ" لغت میں ان معنی میں استعمال ہوا ہے: کھینچنا، تعلیم و تربیت، علم و دانش و ادب، لغت کی کتاب، آداب اور رسومات، ایک قوم کا علمی اور ہنری مجموعہ۔

( دیکھیے: علی اکبر دھخدا، لغت نامہ دھخدا/ محمد معین، فرھنگ معین، مادہ فرھنگ)

دہخدا اپنے لغت نامے میں لکھتے ہیں:

لفظ فرہنگ "فر" یعنی پچھلی و سابقہ اور "ہنگ" یعنی چیزیں ،سے مل کر بنا ہے۔ لفظ اوستا نقش و نگاری کرنے کے معنی میں، لفظ فرہیختن یعنی اگانا کرنا یا بونا اور لفظ فرہنگ انگریزی کے لفظ educate کے مطابق اور ہم معنی ہیں؛ کہ جو تعلیم و تربیت کے معنی میں ہے۔( حاشیہ برھان، بہ تصحیح ڈاکٹر معین )

نیز فرہنگ "فرہنج" کے معنی میں بھی آتا ہے کہ جو علم و دانش، ادب، دلائل، پڑھانا و پرورش کرنا، تعلیم و تربیت، سکولوں سے مربوط امور، فارسی کی لغت کی کتاب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اصطلاحی لحاظ سے لفظ "فرہنگ" کے لیے کئی مختلف تعریفیں بیان ہوئی ہیں کہ جن میں سے بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

١۔ فرہنگ مختلف آراء و نظریات، فکری موقف، فن، ادب، فلسفہ، آداب، رسم و رواج اور سماجی حکمرانی کے تعلقات کا مجموعہ ہے۔

( محمد جواد با ھنر، فرھنگ انقلاب اسلامی، ص١٠۴)

٢۔ بلاشبہ وہ بالاترین عنصر کہ جو ایک معاشرے میں بنیادی کردار کرتا ہے اس معاشرے کی فرہنگ و ثقافت ہے۔ درحقیقت ہر معاشرے کی فرہنگ اس معاشرے کی شناخت کو تشکیل دیتی ہے۔( امام خمینی، صحیفہ نور، ج ١۵، ص ١٦٠)

٣۔ فرہنگ یعنی تعلیم و تربیت، عقل و دانش، حکمت اور مختلف فنون۔ نیز ایک انسان یا ایک معاشرے کی معرفت کہ جو ان کے طور طریقوں اور زندگی گزارنے کے سلیقوں و طرز حیات میں ظاہر ہو اور ان کی ذات میں رچ بس گئی ہو اور ان کے تمام اعمال و رفتار پر اپنا اثر ڈالے۔ بس درحقیقت فرہنگ ایک قوم کے نظریات، رجحانات اور اقدار کا مجموعہ ہے۔

( حسن علی اکبری، تھاجم فرھنگی از دیدگاہ آیات و روایات و فقہ، ص ١٨)

اب جبکہ لفظ فرہنگ (جو اردو میں ثقافت کے معنی میں ہے)کے لغوی اور اصطلاحی معنی ایک حد تک واضح ہوگئے لازم ہے کہ کہا جائے:

١۔ اگر عربوں کے فرہنگ سے مراد ادبیات جیسے عناصر ہیں۔ تو لامحالہ یہ فرہنگی و ثقافتی عناصر ہر اس کتاب یا کلام میں نظر آتے ہیں جو کسی قوم کے لیے پیش کی جاتی ہے کیونکہ ان کا استعمال مطالب سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے چنانچہ قرآن بھی اس مسئلے سے مستثنی ٰنہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے عربوں کے الفاظ اور محاورے استعمال کیے ہیں۔

٢۔ اگر عربوں کے فرہنگ و ثقافت سے مراد فکری موقف، فن و ہنر اور اجتماعی آداب و رسم و رواج ہو تو اس میں خرافات اور باطل مطالب بھی شامل ہونگے۔ تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ قرآن کریم نے ہرگز اس فرہنگ و ثقافت کی تاثیر نہیں لی ہے، کیونکہ قرآن میں کسی بھی صورت باطل نہیں آسکتا:

لَّا يَأۡتِيهِ ٱلۡبَٰطِلُ مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهِۦۖ تَنزِيل مِّنۡ حَكِيمٍ حَمِيد ۔ ( سورہ فصلت ۴٢ )

بلکہ قرآن نے مختلف موارد میں ان فرہنگی و ثقافتی عناصر کا رد کیا ہے۔ جیسے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا،( سورہ تکویر ٨)

بت پرستی اور شرکیہ عقیدے، مردار کھانا، خون پینا، شراب نوشی و جوا کھیلنا، حرام مہینوں کی تبدیلی( سورہ توبہ ٣٧ )

زنا کاری، فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھنا، حضرت عیسیؑ کو خدا کا بیٹا جاننا، سود خوری اور سیٹیاں و تالیاں بجا کر عبادت کرنا( سورہ انفال ٣۵ )

قرآن نے ان سب موارد کی شدید مذمت کی ہے۔