اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں0%

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 69

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات: صفحے: 69
مشاہدے: 21439
ڈاؤنلوڈ: 2958

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 69 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21439 / ڈاؤنلوڈ: 2958
سائز سائز سائز
اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

مؤلف :

حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری

اردو ترجمہ :

قبلہ السید ذیشان حیدر جوادی صاحب

۲

پیش لفظ

عرض تنظیم

عظمت اہلبیت (ع) عالم اسلام کا ایک مسلم مسئلہ ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت آج تک اہلبیت (ع) کی صحیح حیثیت اور ان کے واقعی مقام سے ناآشنا ہے ورنہ نہ اس طرح کی مہمل اختلافات ہوتے جن میں بلاوجہ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور ان کی اجتماعی طاقت برباد ہورہی ہے اور نہ اس طرح کے بیجا سوالات اٹھتے کہ اہلبیت (ع) اور اصحاب میں افضل کون ہے؟ اور اہلبیت (ع) کا ماننا ضروری بھی ہے یا نہیں ؟

یہ سارے سوالات عالم اسلام کی جہالت اور ناواقفیت کی علامت ہیں، ورنہ اہلبیت(ع) عظمت و جلالت کی اس منزل پر فائز ہیں جہاں انسان ان سے آشنا ہونے کے بعد کسی بھی قیمت پر ان سے الگ نہیں رہ سکتاہے، تاریخ کے جس دور میں بھی اور جس موڑ پر بھی کسی شخص نے ان کی معرفت حاصل کرلی ہے ان کا کلمہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکاہے۔

حجر اسود سے لیکر سرزمین حل و حرم تک سب ان کی عظمت و جلالت سے باخبر ہیں اور اس کے معترف رہے ہیں، محروم و معرفت رہا ہے تو صرف نادان انسان جس نے سیاسی مفادات کے لئے دین و مذہب کو بھی قربان کردیا ہے اور عیش و عشرت کی خاطر ضمیر کے تقاضوں کو بھی پامال کردیا ہے۔

۳

اہلبیت (ع) کی عظمت و جلالت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہر دور میں لکھا گیا ہے، لیکن اس طرح کا کام کبھی منظر عام پر نہیں آسکاہے جس طرح کا کام سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری نے انجام دیا ہے اور یہ آپ کا کمال توفیق ہے کہ قضاوت کے سب سے بڑے عہد ہ پر فائز ہونے کے باوجوداپنی مصروفیات سے اتنا وقت نکال لیا کہ ” میزان الحکمہ“ جیسی مفصل کتاب تیار کردی اور پھر اس تسلسل میں تعارف اہلبیت (ع) کے حوالہ سے زیر نظر کتاب کو مرتب کردیا۔

اس کتاب میں عظمت اہلبیت (ع) سے متعلق ہزار سے زیادہ اقوال و ارشادات کا ذکر کیا گیا ہے اور نہایت ہی سلیقہ سے کیا گیا ہے کہ انسان زندگی کے جس شعبہ میں بھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے نہایت آسانی سے حاصل کرسکتاہے اور اس معرفت کے درجہ پر فائز ہوسکتاہے جس کے بغیر سرکار دو عالم کے الفاظ میں انسان کی موت جاہلیت کی موت بن جاتی ہے۔

کتاب کی تبویت و تصنیف بے مثال ولا جواب ہے اور اس سے مولف کے کمال فن کا بھی اندازہ کیا جاسکتاہے۔

سیکڑوں کتابوں کا خلاصہ ایک کتاب میں جمع کردیا ہے اور بیشمار دریاؤں کو ایک کوزہ میں بند کردیا ہے۔

کتاب واقعاً اس بات کی حقدار تھی کہ اردو دال طبقہ اس کے معلومات سے بے خبر نہ رہے لیکن افسوس کہ ”ماہریں ترجمہ“ کو نہ کتاب کی ہوا لگی اور نہ ان کے توفیقات نے ساتھ دیا اور یہ شرف بھی بالآخر سرکار علامہ جوادی دام ظلہ ہی کے حصہ میں آیا اور آپ نے ایام عزا کی بے پنا ہ مصروفیات کے باوجود جہاں امریکہ جیسے ملک میں ایک ایک دن میں متعدد مجالس سے خطاب کرنا ہوتاہے، امریکہ و یورپ کے قیام کے دوران ایام عزا میں اس کا ترجمہ مکمل کرلیا اور ملک واپس آنے سے پہلے اس کی فہرست بھی مکمل کرلی کہ ”بقول سرکار موصوف لندن سے واپسی پر جہاز سے اس وقت تک ایرپورٹ پر نہیں اترے جب تک کہ کتاب کی آخری سطر مکمل نہیں کرلی، اگر چہ سارے مسافر اترچکے تھے اور عملہ کا اصرار اترنے کے لئے جاری تھا، اس لئے کہ آپ نے فرمائش کرنے والوں سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ انشاء اللہ یہ کام دوران سفر امریکہ و یورپ مکمل کردیا جائے گا۔

۴

بہر حال اب دو ماہ کی یہ کاوش آپ حضرات کے سامنے ہے۔ ادارہ اس کی اشاعت کے سلسلہ میں اپنے قدیم کرم فرما ڈاکٹر حسن رضوی (ڈیڑائٹ) کا شکر گذار ہے کہ انھوں نے گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی ایک کتاب کی اشاعت کا ذمہ لے لیا اور اپنے مخصوص تعاون سے اسے مرحلہ اشاعت تک پہنچا دیا جس کا ثواب جناب ریاض حسین مرحوم، محترمہ طیبہ خاتون اور جناب عشرت حسین مرحوم کے لئے ہدیہ کیا جارہاہے۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ پروردگار علامہ جوادی( دام ظلہ) کے سایہ کو برقرار رکھے اور ہم کو ان کے ہدایات سے مستفید ہونے کی توفیق کرامت فرماتارہے۔

ذاتی طور پر میں اپنے محترم بزرگ حضرت پیام اعظمی اور اپنے فعال ساتھی ضیغم زیدی کے بارے میں بھی دست بدعاہوں کہ اول الذکر کی رہنمائی اور ثانی الذکر کی دوڑ دھوپ ہی میرے لئے طباعت و اشاعت کے سارے مراحل کو آسان بنادیتی ہے۔

والسلام

سید صفی حیدر

۵

حرف آغاز

دنیا کا کونسا باشعور مسلمان ہے جو لفظ اہلبیت(ع) یا اس کے مصادیق کی عظمت سے باخبر نہ ہو، قرآن مجید نے اس لفظ کو متعدد بار استعمال کیا ہے اور ہر مرتبہ کسی نہ کسی عظمت و جلالت کے اظہار ہی کے لئے استعمال کیا ہے۔

جناب ابراہیم (ع) کے تذکرہ میں یہ لفظ آیاہے تو رحمت و برکت کا پیغام لے کر آیاہے اور جناب موسیٰ (ع) کے حالات کے ذیل میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اسے محافظ حیات نبوت و رسالت کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔

اس کے بعد یہ لفظ سرکاردو عالم کے مخصوص اہل خاندان کے بارے میں استعمال ہوا ہے جس کا مقصد اعلان تطہیر و طہارت ہے اس کے باوجود اس میں جملہ خصوصیات و امتیازات جمع کردیئے گئے ہیں۔ اہلبیت (ع) مرکز تطہیر و طہارت بھی ہیں اور محافظ حیات رسالت و نبوت بھی اہلبیت(ع) کی زندگی میں رحمت و برکت بھی ہے اور انہیں مالک کائنات نے مستحق صلوات بھی قرار دیا ہے۔

عصمت و عظمت کا ہر عنوان لفظ اہلبیت (ع) کے اندر پایا جاتاہے اور پروردگار نے کسی بھی غلط اور ناقص انسان کو اس عظیم لقب سے نہیں نوازا ہے اور جب کسی انسان کے کردار پر تنقید کی ہے تو اسے اس کے گھر کا قرار دیا ہے نہ اپنے بیت کا اہل قرار دیا ہے اور نہ پیغمبر کے اہلبیت (ع) میں شامل کیا ہے۔

بیت کی عظمت خود اس بات کا اشارہ ہے کہ اہلبیت (ع) کن افراد کو ہونا چاہیئے اور انہیں کن فضائل و کمالات کا مالک ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے بعد بھی مالک کائنات نے آیت تطہیر کے ذریعہ ان کی عظمت و طہارت کا اعلان کردیا تا کہ ہر کس و ناکس کو اس بیت کے حدود میں قدم رکھنے کی ہمت نہ ہو اور ہر ایک کو یہ محسوس ہوجائے کہ اس میں قدم رکھنے کے لئے ہر طرح کے رجس سے دور رہنا پڑے گا اور گناہ و معصیت کے ساتھ شک و ریب کی کثافت سے بھی پاک و پاکیزہ رہنا پڑے گا اور اس کے بعد اس منزل طہارت پر رہنا ہوگا جسے حق طہارت سے تعبیر کیا جاتاہے اور جس سے بالاتر کسی منزل طہارت کا امکان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ تطہیر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دوبارہ اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی ہے کہ نبوت کے اہلبیت (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے حق طہارت کی منزل پر فائز کیا جاسکے اور یہ ان کی بلندی کردار اور انفرادیت حیات کی بہترین علامت ہے

۶

جس میں خدائے وحدہ لا شریک نے کسی کو بھی شریک نہیں بنایا ہے اور رسول اکرم نے بھی شرکت کی خواہش کرنے والوں کی خواہش کو صفات لفظیوں میں مسترد کردیا ہے اور گوشہ چادر کو بھی کھینچ لیا ہے، اگر چہ جناب ام سلمہ کو انجام بخیر ہونے کی سند بھی دیدی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کردیا ہے کہ جب انجام بخیر ہونے کی سند بھی دیدی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کردیا ہے کہ جب انجام بخیر رکھنے والی خاتون اس منزل طہارت میں قدم نہیں رکھ سکتی ہے تو دوسری کسی عورت یا دوسرے کسی مرد کا کیا امکان رہ جاتاہے۔

یہ عالم اسلام کی بد ذوقی کی انتہا ء ہے کہ منزل تطہیر میں ان افراد کو بھی رکھنا چاہتے ہیں جن کا سابقہ عالم کفر سے رہ چکاہے اور جن کی زندگی کا ایک حصہ کفر کے عالم میں گذرچکاہے ، کیا ایسا کوئی انسان اس ارادہ الہی کا مقصود ہوسکتاہے جس میں ہر رجس کو دور رکھنا بھی شامل ہے اور کمالِ طہارت و عصمت بھی شامل ہے۔

اہلبیت(ع) رسالت سے مراد صرف پنجتن پاک اور ان کی اولاد ہے جن کی عظمت عالم اسلام میں مسلم ہے اور ان کے عہدہ و منصب کا انکار کرنے والوں نے بھی ان کی عظمت و جلالت اور ان کی عصمت و طہارت کا انکار نہیں کیا ہے اور انھیں ہر دور میں خمسہ نجباء یا پنچتن پاک کے نام سے یاد کیا گیاہے اور اسی بنیاد پر بعض اہل نظر کا عقیدہ ہے کہ اہلبیت(ع) رسالت کے منصب کا انکار کرنے والا تو مسلمان رہ سکتاہے کہ یہ عالم اسلام کا ایک اختلافی مسئلہ بن گیا ہے لیکن ان کی عظمت و جلالت کا انکار کرنے والا مسلمان بھی نہیں رہ سکتاہے کہ یہ قرآن و حدیث کا مسلمہ ہے اور اس پر عالم اسلام کے تمام باشعور اور باضمیر افراد کا ہر دور میں اتفاق رہاہے۔

۷

اور یہ انداز فکر بھی معصومہ عالم جناب فاطمہ زہرا (ع) کی ایک مزید عظمت کا اشارہ ہے کہ باقی افراد ہیں تو جہتِ اختلاف موجود بھی ہے کہ وہ صاحبان منصب ہیں اور منصب کا انکار ممکن ہوسکتاہے، لیکن جناب فاطمہ(ع) کو مالک کائنات نے منصب و عہدہ سے بھی الگ رکھاہے اور اس طرح آپ سے اختلاف کرنے کے ہر راستہ کو بند کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مباہلہ میں رسالت کو گواہی کی ضرورت پیش آئی تو آپ کو مکمل حجاب کے ساتھ میدان میں لے آئی اور خلافت میں امامت کو ضرورت پڑی تو آپ کو فدک کا مدعی بناکر پیش کردیا گیا تا کہ آپ کے بیان کو مسترد کردینے والا اور آپ کی عصمت و طہارت کا انکار کرنے والا خود اپنے اسلام و ایمان کے بارے میں فیصلہ کرے۔

اسلامی روایات میں عظمت اہلبیت(ع) کے حوالہ سے بے شمار اقوال و ارشادات پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت بڑی حد تک منتشر تھی اور اہلبیت(ع) کے مکمل کردار اور ہمہ جہت کمالات کا اندازہ کرنے والے کو متعدد کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی تھی۔

خدا کا شکر ہے کہ سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری (دام ظلہ) کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور انھوں نے اس سلسلہ کی ہزاروں احادیث و روایات اور اس موضوع سے متعلق سینکڑوں بیانات و اعترافات کو ایک مرکز پر جمع کردیا اور اب قرآن و سنت سے اہلبیت(ع) کی عظمت کے پہچاننے والے کو طویل مشقت کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے، اور صرف ایک کتاب ہی اس ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔

رب کریم سرکار موصوف کے توفیقات میں اضافہ فرمائے اور حقیر کو بھی ان خدمات کو اپنے ہمزبانوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت عطا فرماتارہے۔ و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

جوادی

13 / جمادی الاولیٰ 1418ء ھ روز وفات معصومہ عالم (ع)

۸

مقدّمہ

ساری تعریف خدائے رب العالمین کے لئے اور صلوات و سلام اس کے بندہ منتخب حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کی آل طاہرین (ع) اور ان کے نیک کردار اصحاب کرام کے لئے۔

اما بعد، یہ کتاب جو آپ حضرات کے سامنے ہے، یہ سیکڑوں کتابوں اور ہزاروں حدیثوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جسے ایک نئے انداز سے عالم حدیث اور دنیائے معارف اسلامیہ کے سامنے پیش کیا جارہاہے۔

یہ کتاب در حقیقت برسہا برس کی تحقیق ، تلاش اور جستجو کا نتیجہ ہے جو ” میزان الحکمة“ سے الگ مستقل شکل میں پیش کی جارہی ہے، اس کے مآخذ کی فہرست پر اجمالی نظر ڈالنے والا بھی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ اس کی تالیف میں کس قدر زحمت برداشت کی گئی ہے اور کتنی عرقریزی سے کام لیا گیا ہے۔

ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ 366ء1 ہجری شمسی میں ” میزان الحکمة“ کی مقبولیت نے بھی یہ خیال پیدا کردیا تھا کہ اس انداز کی ایک جامع پیشکش عالم اسلام کے سامنے پیش کی جائے اور اس کام کے لئے مختلف فضلاء حوزہ علمیہ قم کی امداد سے 1374ء ھ میں ایک ” مؤسسہ دار الحدیث“ قائم بھی ہوگیا تھا جس کے ذریعہ اس مفصل کتاب کا ایک بڑا حصہ منظر عام پر آچکاہے اور امید ہے کہ فضل و کرم خداوندی سے بہت جلد یہ سلسلہ مکمل ہوجائے گا۔

اس وقت چونکہ عالم اسلام کو اس جامع کتاب کے بہت سے موضوعات کی شدیدترین ضرورت ہے اور ان کی مستقل اشاعت ضروری ہے اس لئے ہم نے مناسب خیال کیا کہ تدریجی طور پر ان موضوعات کو مستقل کتابوں کی شکل میں بھی پیش کردیا جائے۔

۹

چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی کتاب ” دارالحدیث“ کی طرف سے معرفت اہلبیت(ع) کے عنوان سے پیش کی جارہی ہے اور اس حقیر ہدیہ کو معصومہ عالم جناب فاطمہ(ع) کی بارگاہ میں پیش کیا جارہاہے تا کہ ان کی دعاؤں کی برکت سے یہ ہدیہ بارگاہ الہی میں قابل قبول ہوجائے اور بعد موت کے منازل اور آخرت کے مراحل کیلئے ذخیرہ بن جائے اور دنیا میں بھی اس کے اثرات اہلبیت(ع) کے تعارف اور امت اسلامیہ کے اتحاد کے سلسلہ میں ہماری توقعات سے زیادہ ہوں۔

آخر کلام میں ہمارا فرض ہے کہ ان تمام عزیزوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں ہماری امداد کی ہے ، خصوصیت کے ساتھ فاضل عزیز السید رسول الموسوی جنھوں نے اس میدان میں اپنی تمام کوششیں صرف کردی ہیں اور بیحد مشقت برداشت کی ہے۔

رب کریم انھیں اہلبیت (ع) طاہرین علیہم السلام کی طرف سے دنیا و آخرت میں بہترین جزا عنایت فرمائے۔

محمدی الری شہری

شعبان المظعم 1417ء ھ

۱۰

اِنَّمَا یُرِیدُ اللِ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ بَیتِ وَ یُطَهَّرَکُم تَطهِیرَا (احزاب 23)

کچھ آیت تطہیر سے متعلق

یہ آیت کریمہ سرکار دو عالم (ع) کے آخر دور حیات میں اس دقت نازل ہوئی ہے جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر میں تھے اور اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع)و حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری چادر اوڑھادی اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، خدایا یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، تو ام سلمہ نے گذارش کی کہ حضو ر میری جگہ کہاں ہے؟ فرمایا تم منزل خیر پر ہو یا تمہارا انجام بخیر ہے۔

دوسری روایت کے مطابق ام سلمہ نے عرض کی کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟

تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

ایک دوسری روایت کی بناپر ام سلمہ نے گوشہ چادراٹھاکر داخل ہونا چاہا تو حضور نے اسے کھینچ لیا اور فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

مسلمان محدثین اورمورخین نے اس تاریخی عظیم الشان واقع کو اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے اور بقول علامہ طباطبائی طاب ثراہ اس سلسلہ کی احادیث ستر سے زیادہ ہیں، جن میں سے اہلسنت کی حدیثیں شیعوں کی حدیثوں کے مقابلہ میں اکثریت میں ہیں ان حضرات نے حضرت ام سلمہ ، عائشہ ، ابوسعید خدری، واثلہ بن الاسقع، ابوالحمراء ، ابن عباس، ثوبان ( غلام پیغمبرِ اکرم) عبداللہ بن جعفر، حسن بن علی (ع) سے تقریباً چالیس طریقوں سے نقل کی ہے جبکہ شیعہ حضرات نے امام علی (ع) ، امام سجاد (ع) ، امام باقر (ع) ، امام صادق (ع) ، امام رضا (ع) ، ام سلمہ ، ابوذر، ابولیلیٰ ، ابواسود دئلی ، عمر ابن میمون اور دی اور سعد بن ابی وقاص سے تیس سے کچھ زیادہ طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن 16 / 311)

۱۱

مؤلف، عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ان تمام احادیث کو فریقین نے امام علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، حضرت ام سلمہ ، عائشہ، ابوسعید خدری ابولیلیٰ انصاری، جابر بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ اہلسنت(ع) نے امام حسین (ع) ابوبرندہ، ابوالحمراء، انس بن مالک ، براء بن عازب، ثوبان ، زینب بنت ابی سلمہ ، صبیح، عبداللہ بن جعفر، عمر بن ابی سلمہ اور واثلہ بن الامسقع سے نقل کیا ہے جس طرح کہ اہل تشیع سے امام باقر (ع) امام صادق (ع)، امام رضا (ع)سے نقل کیا ہے اور ان روایات کو بھی نقل کیا ہے جن سے اہلبیت (ع) کے مفہوم کی وضاحت ہوجاتی ہے چاہے آیت تطہیر کے نزول کا ذکر ہو۔

مختصر یہ ہے کہ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے یقینی ہے اور دلالت کے اعتبار سے بالکل واضح بالخصوص اسلام نے اہلبیت(ع) کے موارد کی تعیین بھی کردی ہے کہ اب اس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اور نہ عنوان اہلبیت (ع) میں کوئی زوجہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اسے مشکوک بنایا جاسکتاہے۔

اس واقعہ کے بعد سرکار دو عالم (ع) مسلسل مختلف مواقع اور مناسبات پر لفظ اہلبیت (ع) کو انھیں قرابتداروں کے لئے استعمال کرتے رہے جن کا کوئی خاص دخل ہدایت امت میں تھا اور اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں نظر آئیں گی۔

اس کے علاوہ سورہ احزاب کی آیت 33 کا مضمون بھی ان تمام روایات کی تائید کرتاہے جو شان نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور ان سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اہلبیت (ع) کے مصداق کے بارے میں شک و شبہہ کسی طرح کی علمی قدر و قیمت کے مالک نہیں ہے۔

۱۲

رمز عظمت مسلمین

زیر نظر کتاب میں اہلبیت (ع) کی معرفت، ان کے خصائص و امتیازات، ان کے علوم وحقوق اور ان کی محبت و عداوت سے متعلق جن احادیث کا ذکر کیا گیاہے ان سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرم نے انتہائی واضح اور بلیغ انداز سے اپنے بعض قرابتدار حضرات کو امت کا سیاسی ،علمی اور اخلاقی قائد بنادیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ حقیقی اسلام سے وابستہ رہنے اور ہر طرح کے انحراف و ضلال سے بچنے کے لئے انھیں اہلبیت (ع) سے وابستہ رہیں تا کہ واقعی توحید کی حکومت قائم کی جاسکے اور اپنی عزت و عظمت کو حاصل کیا جاسکے کہ اس عظیم منزل و منزلت تک پہنچنا قرآن و اہلبیت (ع) سے تمسک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

واضح رہے کہ آیت تطہیر کے اہلبیت (ع) کی شان میں نازل ہونے اور اس سلسلہ میں اٹھائے جانے والے والے شکوک و شبہات کی تفصیل جناب سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی کتاب ” اہل البیت (ع) کی آیہ تطہیر“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث درج کردی ہے۔

غالیوں سے برائت

واضح رہے کہ حقیقی شیعہ کسی دور میں بھی اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو کا شکار نہیں رہے ہیں اور انھوں نے ہر دور میں غالیوں سے برائت اور بیزاری کا اعلان کیا ہے۔

اہلبیت (ع) علیہم السلام کی تقدیس و تمجید اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ان کا عمل تمامتر آیات قرآنی اور معتبر احادیث کی بنیاد پر رہاہے جس کے بارے میں ایک مستقل باب اس کتاب میں بھی درج کیا گیاہے۔

۱۳

داستان مصائب اہلبیت (ع)

عالم اسلام کا سب سے زیادہ المناک باب یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشادات اور سرکار دو عالم (ع) کے مسلسل تاکیدات کے باوجود اہلبیت علیہم السلام ہر دور میں ایسے ظلم و ستم کا نشانہ رہے ہیں جن کے بیان سے زبان عاجز اور جن کے تحریر کرنے سے قلم درماندہ ہیں بلکہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر سرکار دو عالم نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہوتا تو امت اس سے زیادہ ظلم نہیں کرسکتی تھی اور مختصر منظوم میں یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر غم و الم ، رنج و اندوہ کو مجسم کردیا جائے تو اہلبیت علیہم السلام کی زندگی کا مرقع دیکھا جاسکتاہے۔

یہ مصائب اس قابل ہیں کہ ان پر خون کے انسو بہائے جائیں اور اگر ان کی مکمل وضاحت کردی جائے تو صاف طور پر واضح ہوجائے گا کہ قرآن مجید کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ اور مسلمانوں کے انحطاط کا سبب اور راز کیا ہے۔

اور حقیقت امریہ ہے کہ یہ داستان مصائب اہلبیت (ع) کی داستان نہیں ہے بلکہ ترک قرآن کی داستان ہے اور دستور اسلامی کو نظر انداز کردینے کی حکایت ہے۔

امت اسلامیہ کی بیدارمغزی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور حاضر میں امت اسلامیہ کے تمام گذشتہ ادوار سے زیادہ بڑھتے ہوئے اسلامی شعور اور اسلامی انقلاب کے زیر اثر اسلامیات سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے وہ موقع فراہم کردیا ہے کہ امت علوم اہلبیت علیہم السلام کے چشموں سے سیراب ہو اور مسلمان کتاب و سنت اور تمسک بالثقلین کے زیر سایہ اپنے کلمہ کو متحد بنالیں۔

قرآن و اہلبیت (ع) کے نظر انداز کرنے کی داستان تمام ہو اور امت رنج و الم، غم و اندوہ کے بجائے سکون و اطمینان کی طرف قدم آگے بڑھائے جس کے لئے زیر نظر کتاب ایک پہلا قدم ہے، اس کے بعد باقی ذمہ داری امت اسلامیہ اور اسلامیہ اور اس کے علماء و زعماء کرام پر ہے!۔

۱۴

حکومت اہلبیت (ع)

بشارات حکومت اہلبیت (ع)

” ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ان بندوں پر احسان کریں جنھیں اس زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے اورانھیں قائد و امام بناکر زمین کا وارث بنادیں“ ۔( سورہ قصص آیت 5)۔

” اس پروردگار نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب بنادے چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیون نہ ہو“ ( سورہ صف آیت 9)۔

” پروردگار نے تم میں سے ایمان و کردار والوں سے وعدہ کیاہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا جانشین بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنادے گا جسے ان کیلئے پسندیدہ قرار دیاہے اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کردے گا اور یہ سب ہماری عبادت کریں گے اور کسی شے کو ہمارا شریک نہ قرار دیں گے اور اگر کوطی شخص اس کے بعد بھی انکار کرے تو اس کا شمار فاسقین میں ہوگا“۔( سورہ نور نمبر 55)۔

۱۵

1169۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک میرے اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص حاکم نہ ہوجائے جس کا نام میرا نام ہوگا ۔( مسندابن حنبل 2 ص 10 / 3571 از عبداللہ بن مسعود)۔

1170۔ رسول اکرم ! یہ دنیا اس وقت تک فنانہ ہوگی جب تک عرب کا حاکم میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص نہ ہوجائے جس کا نام میرا نام ہوگا ۔( سنن ترمذی 4 ص 505 / 2230 ، سنن ابی داؤد 3 ص 107 / 4282 ، مسند ابن حنبل 2 ص 11 / 3573 ، المعجم الکبیر 10 ص 131 /10208 ، الملاحم والفتن نمبر 148 ، بشارة المصطفیٰ ص 281)۔

1171۔ ابولیلیٰ ! رسول اکرم نے علی (ع) سے فرمایا کہ تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں میں ، تم ، حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) ہوں گے۔

یا علی (ع) ! ان کینوں سے ہوشیار رہنا جو لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کا اظہار میری موت کے بعد ہوگا، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی بھی لعنت ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ہے۔

یہ کہہ کر آپ نے گریہ فرمایا اور فرمایا کہ جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ لوگ علی (ع) پر ظلم کریں گے اور یہ سلسلہ ظلم قیام قائم (ع) تک جاری رہیگا اس کے بعد ان کا کلمہ بلند ہوگا اور لوگ ان کی محبت پر جمع ہوجائیں گے اور دشمن بہت کم رہ جائیں گے اور انھیں برا سمجھنے والے ذلیل ہوجائیں گے اور ان کی مدح کرنے والوں کی کثرت ہوگی اور یہ سب اس وقت ہوگا جب زمانہ کے حالات بالکل بدل جائیں گے، بندگان خدا کمزور ہوجائیں گے لوگ راحت و آرام سے مایوس ہوجائیں گے اور پھر ہمارا قائم مہدی قیام کرے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ جن کے ذریعہ پروردگار حق کو غالب بنادے گا ، باطل کی آگ کوان کی تلوار کے پانی سے بجھادے گا اور لوگ رغبت یا خوف سے بہر حال ان کا اتباع کرنے لگیں گے۔

۱۶

اس کے بعد فرمایا، ایہا الناس ! کشائش حال کی خوشخبری مبارک ہو کہ اللہ کا وعدہ بہر حال سچاہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاہے اور اس کا فیصلہ رد نہیں ہوسکتاہے، وہ حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے اور خدا کی فتح بہت جلد آنے والی ہے۔

خدایا یہ سب میرے اہل ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا، خدایا ان کی حفاظت و رعایت فرمانا اور تو ان کا ہوجانا اور ان کی مدد کرنا، انھیں عزت دینا اورذلت سے دوچار نہ ہونے دینا اور مجھے انھیں کے ذریعہ باقی رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ (ینابیع المودہ 3 ص 279 / 72 ، مناقب خوارزمی 62 / 31 ، امالی طوسی (ر) 351 / 726)۔

1172۔ رسول اکرم ! لوگو مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو، میری امت کی مثال اس بارش کے جیسی ہے جس کے بار ے میں نہیں معلوم ہے کہ اس کی ابتدا زیادہ بہتر ہے یا انتہا۔

میری امت کی مثال اس باغ جیسی ہے جس سے اس سال ایک جما عت کو سیر کیا جائے اور دوسرے سال دوسری جماعت کو سیر کیا جائے اور شائد آخر میں وہ جماعت ہو جو وسعت میں سمندر، طول میں عمیق تر اور محبت میں حسین تر اہواور بھلا وہ امت کس طرح تباہ ہوسکتی ہے جس کی ابتدا میں میں ہوں اور میرے بعد بارہ صاحبان بخت اور ارباب عقل ہوں اور مسیح عیسی بن مریم بھی ہوں ، ہاں ان کے درمیان وہ افراد ہلاک ہوجائیں گے جو ہرح و مرج کی پیداوار ہوں گے کہ نہ وہ مجھ سے ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1/52 / 18 ، خصال 476 / 39 ، کمال الدین 269 / 14 روایت حسین بن زید، کفایتہ الاثر ص 231 ، روایت یحییٰ بن جعدہ بن ہبیرہ ، العمدة 432 / 906 روایت مسعدہ عن الصادق (ع))۔

1173۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اس امت کے لئے باعث افسوس ہے کہ اس کے حکام جابر و ظالم ہوں گے اور لوگوں کو قتل کریں گے ، اطاعت گذاروں کو خوفزدہ کریں گے علاوہ اس کے کہ کوئی انھیں کی اطاعت کا اظہار کردے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ مومن متقی بھی زبان سے ان کے ساتھ دے گا اور آل سے دور بھاگے گا ، اس کے بعد جب پروردگار چاہے گا کہ اسلام کو دوبارہ عزت عنایت کرے تو تمام جابروں کی کمر توڑ دے گا کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتاہے اور کسی بھی امت کو تباہی کے بعد اس کی اصلاح کرسکتاہے۔

۱۷

اس کے بعد فرمایا ۔ حذیفہ ! اگر اس دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول د ے گا یہاں تک کہ میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حاکم ہو جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہو اور وہ اسلام کو غالب بنادے کہ خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاہے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔( عقد الدرر ص 62 ، کشف الغمہ 3 ص 262 ، حلیة الابرار 2 ص 704 ، ینابیع المودہ 3 ص 298 / 10)۔

1174۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک بر پا نہ ہوگی جب تک ہمارا قائم حق کے ساتھ قیام نہ کرے اور یہ اس وقت ہوگا جب خدا اسے اجازت دے دے گا اس کے بعد جو اس کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ ہوجائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا ، بندگان خدا، اللہ کو یاد رکھنا اور اس کی بارگاہ میں پہنچ جانا، چاہے برف پر چلنا پڑے کہ وہ خدائے عزوجل کا اور میرا جانشین ہوگا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص 59 / 230 ، دلائل الامامة ص 452 / 428 روایت حسن بن عبداللہ بن محمد الرازی ، کفایتہ الاثر ص 106 روایت ابوامامہ)۔

1175۔ سلمان ! جب رسول اکرم پر مرض کا غلبہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ باہر جاؤ میں گھر والوں کے ساتھ تخلیہ چاہتاہوں، سب لوگ باہر نکل گئے ، میں نے بھی جانا چاہا تو فرمایا کہ تم میرے اہلبیت(ع) میں ہو۔

اس کے بعد حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ، دیکھو میری عترت اور میرے اہلبیت(ع) کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا کہ دنیا نہ پہلے کسی کے لئے باقی رہی ہے، نہ بعد میں رہے گی اور نہ ہمارے لئے رہنے والی ہے۔

۱۸

اس کے بعد علی (ع) سے فرمایا کہ سب سے اچھی حکومت حق کی حکومت ہے اور دیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت ہے اوردیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت کرو گے ایک دن کے بدلے دو دن، ایک مہینہ کے بدلے دو مہینے اور ایک سال کے بدلے دو سال، (مناقب امیر المومنین (ع) کوفی 2 ص 171 / 250)۔

1176۔ امام علی (ع)! آل محمد ہی کے ذریعہ حق اپنے مرکز پر واپس آنے والا ہے اور باطل اپنی جگہ سے زائل ہونے والا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 239)۔

1177۔ امام علی (ع) ! میں بار بار حملہ کرنے والا اور صاحب حکومت حق ہوں ، میرے پاس عصا بھی ہے اور مہر بھی ہے، میں وہ زمین پر چلنے والا ہوں جو لوگوں سے روز محشر کلام کروں گا۔( کافی 1 ص 198 / 3 روایت ابوالصامت الحلوانی عن الباقر (ع))۔

1178۔ امام علی (ع) !نرید ان نمّن علی الذین استضعفوا کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار سامنے لائے گا، اور اس کے ذریعہ انھیں عزت اور دشمنوں کو ذلت نصب فرمائے گا۔( الغیبتہ الطوسی (ر) ص 184 / 143 روایت محمد بن الحسین )۔

1179۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا بیزاری کے بعد ہم پر ویسے ہی مہربان ہوگی جیسے کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ پر مہربان ہوتی ہے اور اس کے ذیل میں آپ نے آیت” نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی ہے ۔( خصائص الائمہ ذیل میں آپ نے آیت ”نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی ہے۔( خصائص الائمہ ص 70 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 407 ، شواہد التنزیل 1ص 556 / 590 روایات ربیعہ بن ناجذ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 209 ، تفسیر فرات کوفی 314 / 420)۔

۱۹

1180۔ امام علی (ع)! ” نرید ان نمن“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار مشقتوں کے بعد اقتدار دے گا اور وہ آل محمد کی عزت اور دشمنوں کی ذلت کا سامان فراہم کرے گا، ( الغیبتہ الطوسی (ر) 184 / 143 روایت محمد بن الحسین بن علی )۔

نوٹ! یہ روایت بعینہ نمبر1178 میں بیان ہوچکی ہے، اس مقام پر مولف محترم سے اعداد و شمار میں اشتباہ ہوگیا ہے، جوادی

1181۔ محمد بن سیرین ! میں نے بصرہ کے متعدد شیوخ سے یہ بات سنی ہے کہ حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) جنگ جمل کے بعد بیمار ہوگئے اور جمعہ کا دن آگیا تو آپ نے اپنے فرزند حسن (ع) سے کہا کہ تم جاکر نماز جمعہ پڑھادو۔

وہ مسجد میں آئے اور منبر پر جاکر حمد و ثنائے پروردگار اور شہادت و صلوات کے بعد فرمایا۔

ایہا الناس ! پروردگار نے ہمیں نبوت کے ساتھ منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں مصطفیٰ قرار دیاہے، ہمارے گھر میں کتاب اور وحی نازل کی ہے اور خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی ہمارے حق میں ذرا کمی کرے گا پروردگار اس کی دنیا و آخرت دونوں کم کردے گا اور ہمارے سر پر جو حکومت چاہے قائم ہوجائے، آخر کا ہماری ہی حکومت ہوگی ” اور یہ بات تمھیں ایک عرصہ کے بعد معلوم ہوجائے گی “ ۔ سورہ ص آیت 88)۔

اس کے بعد نماز پڑھائی اور اس واقعہ کی خبر حضرت علی (ع) تک پہنچا دی گئی ، نماز کے بعد جب حضرت حسن (ع) باپ کے پاس پہنچے تو حضرت دیکھ کر بیساختہ رونے لگے اور فرزند کو کلیجہ سے لگار کر پیشانی کا بوسہ دیا، فرمایا ” یہ ایک ذریت ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ملا ہواہے اور پروردگار بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔“ آل عمران آیت 34 ( امالی طوسی (ر) 82 /121 / 104 / 159 ، بشارة المصطفیٰ ص 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 11)۔

۲۰