تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 785
مشاہدے: 160474
ڈاؤنلوڈ: 4309


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 160474 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 1

مؤلف:
اردو

۲۱ _ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى توبہ كا واقعہ اور اللہ تعالى كے اس فرمان كا اجراء كہ ايك دوسرے كو قتل كريں ايك بہت ہى سبق آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے_و اذ قال موسى لقومه فتاب عليكم '' اذ قال ...'' آيت ۴۷ ميں نعمتى پر عطف ہے يعنى '' اذكروا اذ قال ...''

۲۲_ فقط خداوند عالم توّاب ( بہت زيادہ بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے _انه هوالتواب الرحيم

احكام: سزاؤں كے احكام كا خير ہونا ۱۷; فلسفہ احكام ۱۸

اديان: اديان كى تعليمات۱۳

اسماء و صفات: توّاب ۲۲; رحيم ۲۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى خالقيت ۱۶; اللہ تعالى اور ضرر و نقصان ۴; خدائي سزاؤں كا مفيد اور بہتر ہونا ۱۵; اللہ تعالى سے دورى كے اسباب ۵; الہى نعمتيں ۲۰

الوہيت: الوہيت كے معيارات ۱۲

انسان: انسان كا خالق ۱۶; انسانى مصلحتيں ۱۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور ايك دوسرے كا قتل ۷،۹،۱۴، ۱۹، ۲۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۷،۸،۱۹،۲۱; بنى اسرائيل كى توبہ ۲ ، ۷ ،۱۴; بچھڑے كى پوجا كرنے والوں كى توبہ ۷،۲۰; بنى اسرائيل كى خودكشى ۷،۹، ۱۴ ، ۱۹،۲۱; بنى اسرائيل كى سعادت مندى كى شرائط ۱۴; بنى اسرائيل كا ظلم ۱،۲; بنى اسرائيل كى توبہ كى قبوليت ۲۰;بنى اسرائيل كى سزا۱;گوسالہ پرستوں كى سزا ۱۵; بنى اسرائيل كے گوسالہ پرست ۱۹; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۷; بنى اسرائيل كے مرتد ۹،۱۹، ۲۱; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۲۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۲۱

تقرب: تقرب كے موانع ۵

توبہ: توبہ كى اہميت ۶،۱۴; توبہ كى مناسبت گناہ كے ساتھ۸; گناہ سے توبہ ۶; توبہ كى كيفيت ۸

حدود الہي: حدود الہى كى قبوليت كى زمين ہموار كرنا ۱۰

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسى كے اوامر ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى

۱۸۱

شريعت كى تعليمات ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى خيرخواہى ۱۱۴; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۹،۱۵

حقيقى معبود: معبود حقيقى كى خالقيت۱۲

خدا كى طرف بازگشت : ۶

خود: خود پر ظلم ۱،۳

دين: دين كا فلسفہ ۱۸

ذكر: تاريخ كے ذكر كى اہميت ۲۱; اللہ تعالى كى خالقيت كا ذكر ۱۵

سزا : سزاؤں كے قوانين كے اجراء كے نتائج ۱۷; سزاؤں كے قوانين كا فلسفہ ۱۷; سزاؤں كے موجبات ۱

سعادت: سعادت كے اسباب ۱۴،۱۷

شرك: شرك كا نقصان ۴; شرك كا ظلم ۳

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى كے اجراء كى زمين ہموار كرنا ۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱،۳

عبادت: غير خدا كى عبادت ۳،۴

عبرت: عبرت كے عوامل ۲۱

عمل: پسنديدہ عمل ۱۰،۱۱

گناہ : گناہ كے نتائج ۵

گناہگار: گناہگاروں كى سعادت كى شرائط ۱۷; گناہگاروں كى ذمہ دارى ۶

مرتد: اديان ميں مرتد كا قتل ۱۳

معبوديت: معبوديت كے معيارات ۱۲

وعظ و نصيحت: وعظ و نصيحت كى شرائط ۱۱; وعظ و نصيحت ميں مہرباني۱۱

يہوديت: يہوديت ميں ارتداد كى سزا ۱۳

۱۸۲

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۵ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب تم نے موسى سے كہا كہ ہم اس وقت تك ايمان نہ لائيں گے جب تك الله كو علانيہ نہ ديكھ ليں جس كے بعد بجلى نے تم كو لے ڈالا او رتم ديكھتے ہى رہ گئے _

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آپعليه‌السلام كى رسالت كى تصديق كرنے سے انكار كيا اور آپعليه‌السلام پر ايمان نہ لانے پر تاكيد كى _و اذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك '' لن نؤمن لك_ ہم تيرى ہرگز تصديق نہيں كريں گے ''آمن'' لام كے ساتھ استعمال ہو (آمن لہ) يا حرف باء كے ساتھ (آمن بہ ) ايك ہى معنى ركھتاہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اللہ تعالى كو ديكھنے كى خواہش كى _لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة

۳ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى تصديق كے لئے يہ شرط ركھى كہ اللہ تعالى كو واضح طور پر ديكھيں گے(تب ايمان لائيں گے)_لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة

۴ _ بنى اسرائيل محسوسات كے رجحانات ركھتے تھے_حتى نرى الله جهرة

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم آپعليه‌السلام كا انكار كرنے اور ايك بے جا مطالبہ ( اللہ كو ديكھنا ) كرنے كى وجہ سے ہلاك ہوگئي_لن نؤمن لك فاخذتكم الصاعقة '' اخذت '' كا مصدر '' اخذ'' ہے جسكا معنى ہے پكڑنا، لے لينا اور ما بعد كى آيت كے قرينے سے يہ قتل سے كنايہ ہے_

۶ _ آسمانى بجلى حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ہلاكت كا موجب بنى _فاخذتكم الصاعقة صاعقہ وہ آسمانى آگ ہے جو شد يد گرج و چمك كے وقت نمودار ہوتى ہے_

۷_ اللہ تعالى كو آنكھوں سے ديكھنا ممكن نہيں ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۱۸۳

باوجود اس كے كہ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو مختلف طرح كے معجزات دكھائے ، ان كو مخصوص نعمات سے نوازا اور ان كے مختلف مطالبات پورے كيئے ليكن ان كے اللہ كو ديكھنے كى خواہش كو پورا نہ فرمايا بلكہ يہ خواہش انكى سزا كا باعث بنى _ معلوم ہوتاہے كہ يہ خواہش بے جاتھي_

۸ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كى خواہش ايك بے جا مطالبہ ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۹ _ خداوند متعال كو ديكھنے كى خواہش كا نتيجہ سزائے الہى ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۱۰_ انبيائے الہى كى رسالت كى تصديق نہ كرنا گناہ اور سزائے الہى كا موجب ہے _لن نؤمن لك فاخذتكم الصاعقة

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' اخذتكم ...'' كا ارتباط ''نرى اللہ جھرة'' كے علاوہ '' لن نومن لك'' سے بھى ہو_

۱۱_ گناہ كا عذاب و عقاب دنيا ميں متحقق ہونے كا احتمال پايا جاتاہے_فاخذتكم الصاعقة

۱۲ _ گناہگار دنياوى عقاب ميں مبتلا ہونے سے امن و امان ميں نہيں ہيں اور نہ ہى انہيں اس امان كا احساس كرنا چاہيئے_فاخذتكم الصاعقة

۱۳ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كے مطالبے سے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم پر بجلى ( صاعقة) گري_فاخذتكم الصاعقة و انتم تنظرون '' تنظرون_ ديكھتے تھے'' كا مفعول بجلى كا گرنا ہے_

۱۴ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كا مطالبہ كرنا ، بنى اسرائيل كا حضرت موسىعليه‌السلام كى باتوں پر يقين كا اظہار نہ كرنا اور ان پر بجلى كا گرنا يہ نہايت سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل و اقعہ ہے_اذ قلتم يا موسى لن نومن لك ...وانتم تنظرون '' اذ قلتم'' آيت نمبر ۴۷ ميں نعمتى پر عطف ہے يعنى مطلب يوں ہے ''اذكروا اذ قلتم ''

۱۵ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا:''ان كليم الله موسى بن عمران لما كلمه الله عزوجل رجع الى قومه فقالوا لن نؤمن لك حتى نسمع كلامه ثم اختار منهم سبعين رجلاً فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه فقالوا لن نؤمن لك بان هذا الذى سمعناه كلام الله حتى نرى الله جهرة ...'' (۱) جناب موسى ابن عمرانعليه‌السلام سے جب اللہ تعالى نے كلام فرمايا وہ اپنى قوم كى طرف پلٹ كے گئے قوم نے كہا ہم تجھ پر ہرگز ايمان نہ لائيں

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/۱ ص ۲۰۰ ح/۱ باب ۱۵ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۲۰۰ ح ۲_

۱۸۴

گے مگر يہ كہ اللہ كا كلام سنيں اس كے بعد حضرت مو سىعليه‌السلام نے اپنى قوم سے ستر ۷۰ افراد كا انتخاب فرمايا ( اور كوہ طور كى طرف روانہ ہوئے) وہاں حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى سے ہم كلام ہوئے تو انہوں نے اس كلام كو سنا اور كہنے لگے ہم ہرگز اس بات پر ايمان نہ لائيں گے كہ يہ كلام جو ہم نے سنا ہے اللہ كا ہے مگر يہ كہ ہم اسے آشكارا ديكھيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا ديدار محال ہے ۷; اللہ تعالى كا تكلم ۱۵; اللہ تعالى كے ديدار كى درخواست ۲،۸،۱۵; اللہ تعالى كے ديكھنے كى خواہش كى سزا ۹; اللہ تعالى كى سزائيں ۹،۱۰

انبياءعليه‌السلام : انبياء كو جھٹلانے كے نتائج ۱۰; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كى سزا ۱۰; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كا گناہ ۱۰

بنى اسرائيل: حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل ۲; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام كى تصديق ۳; بنى اسرائيل اور اللہ تعالى كا ديدار ۳،۵،۱۳،۱۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۵،۶،۱۳،۱۴; بنى اسرائيل كا محسوسات كى طرف رجحان ۴; بنى اسرائيل كى خواہشات ۲،۳،۵،۱۳; بنى اسرائيل پر عذاب ۱۴; بنى اسرائيل پر دنياوى عذاب ۱۳; بنى اسرائيل كا كفر ۱،۵; بنى اسرائيل كى ہلاكت ۵،۶

بے جا توقعات : ۸

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسى كى تكذيب ۱۴; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱۵; حضرت موسىعليه‌السلام كا اللہ تعالى سے كلام ۱۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۴

روايت: ۱۵

سزا: سزا كے موجبات ۹،۱۰

عذاب: بجلى كا عذاب ۶،۱۳،۱۴; دنياوى عذاب ۱۱

كفر: حضرت موسىعليه‌السلام كا كفر ۱،۵

گناہ: گناہ كى دنياوى سزا ۱۱; گناہ كے موارد۱۰

گناہ گار: گناہگاروں كى دنياوى سزا ۱۲; گناہگاروں كو تنبيہ ۱۲

۱۸۵

ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۶ )

پھر ہم نے تمھيں موت كے بعد زندہ كرديا كہ شايد اب شكر گزار بن جاؤ _

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو بجلى كے ذريعے ہلاك كرنے كے بعد دوبارہ حيات بخشى _ثم بعثناكم من بعد موتكم

۲ _ دنيا ميں مردوں كے زندہ ہونے كا امكان ہے اور دنياوى زندگى كى طرف دوبارہ رجعت ممكن ہے _ثم بعثناكم من بعد موتكم

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا بجلى سے ہلاك ہونے كے بعد زندہ ہونا ان پر اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ايك نعمت تھي_اذكروا نعمتى التى انعمت ثم بعثناكم من بعد موتكم

۴ _ شاكرين كے مقام و درجے پر پہنچنا انسان كے بنيادى فرائض اور اسكى خلقت كے اہداف ميں سے ہے _

ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون شكر و سپا س گزارى كو جو '' بعثناكم'' كے ہدف كے طور پر بيان كيا گيا ہے _ ظاہراً يہ دوبارہ زندگى ملنے سے مخصوص نہيں ہے _ بلكہ خود زندگى كے ہدف كے طور پر بيان ہوا ہے يعنى يہ كہ اللہ تعالى

نے ان لوگوں كو جو بجلى سے ہلاك ہوگئے تھے دوبارہ جو حيات بخشى تو اس لئے تھى كہ دنياوى زندگى ميں شكر گزار بنيں اور شا كرين كے درجے تك پہنچيں _

۵ _ بنى اسرائيل اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل ناشكرى قوم تھي_لعلكم تشكرون

۶ _ بنى اسرائيل كا ہلاك ہونے كے بعد دوبارہ زندہ ہونا ان ميں شكر و سپاس گزارى كى روح پيدا كرنے اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كيلئے راہ ہموار كرنے كا باعث بنا _ثم بعثناكم لعلكم تشكرون

''لعلكم تشكرون _ ہوسكتاہے تم شكر گزار بن جاؤ '' اس جملے ميں '' لعل'' بنى اسرائيل كے بجلى زدہ افراد كو زندہ كرنے كے ہدف كو بيان كرنے كے علاوہ اس معنى پر بھى دلالت كرتاہے كہ دوبارہ زندہ ہونا ان كى شكر گزارى كا موجب نہيں تھابلكہ اس امر نے ان ميں شكر و سپاسگزارى كى زمين فراہم كى _

۱۸۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۳

انسان: انسان كى تخليق كا فلسفہ ۴; انسان كى ذمہ دارى ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا دوبارہ زندہ ہونا ۱،۳،۶; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين فراہم ہونا ۶; بنى اسرائيل كا كفران نعمت ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳; بنى اسرائيل كى ہلاكت ۱،۳

رجعت: رجعت كا امكان ۲

شاكرين: شاكرين كے درجات ۴

شكر: شكر كى زمين فراہم ہونا ۶

عذاب: بجلى كا عذاب۱،۳

كفران: كفران نعمت ۵

مردے: دنيا ميں مردوں كا زندہ ہونا ۱،۲

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ( ۵۷ )

اور ہم نے تمھارے سروں پر ابر كا سايہ كيا _ تم پر من و سلوى نازل كيا كہ پاكيزہ رزق اطمينان سے كھاؤ _ ان لوگوں نے ہمارا كچھ نہيں بگاڑا بلكہ خود اپنے نفس پر ظلم كيا ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم فرعون اور اسكے لشكر سے نجات پيدا كرنے اور دريا سے گزرنے كے بعد بيابانوں ميں سورج كى شديد گرمى ميں مبتلا ہوگئي_و ظللنا عليكم الغمام

''ظللنا'' كا مصدر '' تظليل '' ہے جسكا معنى ہے سايہ كرنا يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے دريا عبور كرنے كے بعد كسى چھت والى يا سايہ دار جگہ پر قيام نہ كيا پس بيابانوں كا مفہوم يہاں موجود ہے _

۱۸۷

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم پر بادلوں كے ذريعے وسيع سطح پر سايہ كركے انہيں سورج كى جلادينے والى شعاؤں سے بچايا_و ظللنا عليكم الغمام ''غمامة'' كا معنى ہے باد ل اور اسكى جمع ''غمام '' ہے ( لسان العرب) بعض اہل لغت كے نزديك غمامہ كا معنى سفيد بادل ہيں _

۳ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو صحرا عبور كرتے ہوئے ان كى غذا كے لئے ' من و سلوي'' نازل فرمايا_

و أنزلنا عليكم المن والسلوي لغت ميں ''من '' كے معانى ميں سے ايك معنى ميٹھا شربت يا ايك طرح كا ميٹھا گوند ہے _ سلوى كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس سے مراد بٹيريا سفيد رنگ كا ايك پرندہ ہے_

۴ _ عالم طبيعات اور جہان ہستى كا اختيار اور اسكے تغيرات و تحولات كا اختيار خداوند قدوس كے دست قدرت ميں ہے _و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن و السلوى

۵ _ بجلى گرنے اور دوبارہ زندہ كئے جانے كے واقعہ كے بعد بنى اسرائيل پر ''من'' و ''سلوى '' نازل ہوا اور انہيں سورج كى گرمى كى حدّت و شدّت سے بادلوں كے وسيع سايہ كے ذريعے نجات دى گئي _ثم بعثناكم و ظللنا عليكم الغمام

جملہ'' ظللنا ...'' كا جملہ '' بعثناكم ...'' پر عطف اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ بادلوں كے سايہ كيئے جانے اور '' من و سلوى '' كا واقعہ بجلى گرنے كے واقعہ كے بعد ہوا _

۶ _ بادلوں كا وسيع سايہ اور من و سلوى كا نازل كرنا حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو دكھائے گئے معجزات ميں سے تھا_

و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوي

۷ _ '' من'' اور ''سلوى '' حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو عطا كى گئي دو پاكيزہ غذائيں تھيں _و أنزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبات ما رزقناكم

۸_ ''من اور سلوى '' اور پاكيزہ و حلال غذاؤں سے استفادہ كرنے كى اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نصيحت فرمائي_

كلوا من طيبات ما رزقناكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' كلوا'' فعل امر ہے

۹_ اللہ تعالى اپنے بندوں كو روزى عنايت كرنے والا ہے_ما رزقناكم

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو دريا عبور كرتے ہوئے اور صحرانوردى كرتے وقت پاكيزہ اور ناپاك ( حلال اور حرام ) غذائيں ميسر تھيں _كلوا من طيبات ما رزقناكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ لفظ طيبات استعمال ہوا اور اس كو '' ما رزقناكم'' كى طرف اضافت دى گئي ہے_

۱۸۸

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ناپاك اور حرام غذاؤں كے استعمال سے اللہ تعالى كے حكم كى نافرمانى كى _

كلوا من طيبات ما رزقناكم و ما ظلمونا و لكن كا نوا أنفسهم يظلمون حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ظالم كہنا اس جملہ '' كلوا من طيبات ...'' كے اعتبار سے ہوسكتاہے_ اس صورت ميں يہاں ظلم سے مراد ناپاك اور حرام غذاؤں سے استفادہ ہے _ نيز يہ بھى ممكن ہے ان كو ظالم كہنا ان تمام نعمتوں كے اعتبارسے ہو جن كا ذكر اس آيت اور ماقبل كى آيات ميں ہوا ہے _ پس اس بناپر ان كے ظلم سے مراد اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل ان كى ناسپاسى اور ناشكرى ہے_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنياد پر ہے _

۱۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے '' من و سلوي'' سے حرام اور ناجائز فائدہ اٹھاكر گناہ كا ارتكاب كيا اور خود پر ظلم كيا _ *كلوا من طيبات ما رزقناكم و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون يہ جملہ ''و لكن كانوا ...'' اس معنى پر دلالت كرتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے حرام خورى كا ارتكاب كيا _ يہ جملہ چونكہ '' من و سلوى '' كے نزول كے بيان كے بعد ذكر ہوا ہے لہذا يہ اس امر پر قرينہ ہے كہ ان كى حرام خورى كا ايك مصداق '' من و سلوى '' سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہوسكتاہے جيسے مثلاً دوسروں كے حصے پر تجاوز كرنا_

۱۳ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ناشكرى تھي_ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اگر جملہ '' ما ظلمونا و لكن ...'' كا ارتباط آيات ميں بيان شدہ نعمات الہى سے ہو_

۱۴ _ اللہ تعالى كى اپنے بندوں كو نصيحت ہے كہ حلال و پاكيزہ نعمتوں اور غذاؤں سے استفادہ كريں _كلوا من طيبات ما رزقناكم

۱۵ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كا شكر ادا كرنا بندوں كے ذمے ايك اہم فريضہ ہے_و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ناشكرى اور احكام الہى كى نافرمانى بارگاہ اقدس الہى ميں كسى طرح كا كوئي بھى ضرر و نقصان نہ پہنچا سكي_ و ما ظلمونا

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ناشكرى اور فرامين الہى كى نافرمانى ايك ايسا ظلم تھا جو انہوں نے خود پر رَوا ركھا_

و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۸_ نافرمانى كے نقصان كى بازگشت گناہ گار كى طرف ہے نہ كہ بارگاہ مقدس رب الارباب كى طرف _و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۸۹

۱۹_ اللہ تعالى كے فرامين كى مخالفت اور اسكى نعمتوں كى ناشكرى و ناسپاسى ايك ايسا ظلم ہے جو انسان خود اپنے اوپر كرتا _و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۲۰_ ناپاك غذاؤں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبات و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۲۱_''عن امير المومنين عليه‌السلام قد اخبر الله فى كتابه حيث يقول و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوى '' فهذا بعد الموت اذ بعثهم (۱) اس آيہ مجيدہ ''وظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوى '' كے بارے ميں امير المومنينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ نعمتيں اسوقت تھيں جب اللہ تعالى نے ان كے مرنے كے بعد ان كو دوبارہ زندہ كيا _

۲۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''كان ينزل المن على بنى اسرائيل من بعد الفجر الى طلوع الشمس (۲) بنى اسرائيل پر ''من'' طلوع فجر سے لے كر طلوع خورشيد تك نازل ہوتا تھا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۴; اللہ تعالى كو نقصان

پہنچانا ۱۶،۱۸; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۸،۱۴; اللہ تعالى كى رزاقيت ۹; اللہ تعالى كى عنايات ۷

انسان: انسان كى ذمہ دارى ۱۵

بادل: بادلوں كا سايہ ۲

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا گرمى ميں مبتلا ہونا ۱; بنى اسرائيل كا زندہ ہونا ۵،۲۱; بنى اسرائيل صحرا ميں ۳،۱۰; بنى اسرائيل اور سلوى كا كھانا ۱۲; بنى اسرائيل اور منّ كا كھانا ۱۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۵، ۸،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كى حرام خورى ۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى غذائيں ۳; بنى اسرائيل كا رزق ۷; بنى اسرائيل پر سايہ ۲،۵،۶; بنى اسرائيل پر بجلى كا گرنا ۵; بنى اسرائيل كا طعام ۱۰; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۲ ، ۱۷; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱۱،۱۲،۱۶،۱۷; بنى اسرائيل كا كفران ۱۳،۱۶،۱۷; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۲،۵; بنى اسرائيل پر بٹيروں كا نزول ۳; بنى اسرائيل پر ميٹھے شربت كا نزول ۳; بنى اسرائيل پر سلوى كا نزول ۳،۵،۶; بنى اسرائيل پر ''من'' كا نزول ۳،۵،۶،۲۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳،۱۰،۲۱،۲۲

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا معجزہ۶

خود: خود پر ظلم ۱۲،۱۷،۱۹

____________________

۱) بحارالانوار ج/۳ ص ۵۳ ح ۷۳ ، تفسير برہان ج/۱ ص ۱۰۱ ح ۳_ ۲) مجمع البيان ج/۱ ص ۲۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸۲ ح ۲۰۷_

۱۹۰

رزق : پاكيزہ رزق سے استفادہ ۸; حلال رزق سے استفادہ ۱۴; رزق كا سرچشمہ ۹

روايت: ۲۱، ۲۲

شكر : نعمت كے شكر كى اہميت ۱۵

طيبات: طيبات سے استفادہ ۸،۱۴

عالم آفرينش : عالم آفرينش كے تغيرات كا منبع۴

غذائيں : حرام غذاؤں سے اجتنا ب۲۰

كفران: كفران نعمت كے نتائج ۱۹; كفران نعمت ۱۳

گناہ : گناہ كے نتائج ۱۹; گناہ كا نقصان ۱۸

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۱

نعمت : نعمت سے استفادہ ۱۴

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ( ۵۸ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب ہم نے كہا كہ اس قريہ ميں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمينان سے كھاؤ اور دروازہ سے سجدہ كرتے ہوئے اور حطہ كہتے ہوئے داخل ہو كہ ہم تمھارى خطائيں معاف كرديں گے اور ہم نيك عمل والوں كى جزا ميں اضافہ بھى كرديتے ہيں _

۱_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ بيت المقدس كو آباد كرنے كے لئے وہاں داخل ہوجائيں _و إذ قلنا ادخلوا هذه القرية

لغت ميں '' قرية'' كا معنى ديہات اور شہر بھى آياہے قرآن كريم ميں بھى دونوں معانى ميں استعمال ہوا ہے _ اب چونكہ كوئي قرينہ نہيں ہے كہ كس معنى ميں استعمال ہوا ہے لہذا '' آبادي'' كا مفہوم لياگياہے اور'' القرية'' ميں الف لام عہد حضورى ہے لہذا ايك خاص خطے كى طرف اشارہ ہے _ بہت سے مفسرين كى رائے يہ ہے كہ اس سے مراد بيت المقدس ہے _

۱۹۱

۲ _ بنى اسرائيل كى صحرائي زندگى كے بعد انہيں بيت المقدس كو اپنے تصرف ميں لانے كا حكم ديا گيا _و ظللنا عليكم الغمام و إذ قلنا ادخلوا هذه القرية

۳_ جب بنى اسرائيل كو بيت المقدس پر تصرف كا حكم ديا گيا تو وہ اس كے نزديك كسى مقام پر تھے_وإذ قلنا ادخلوا هذه القرية يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اسم اشارہ ''ہذہ'' نزديك كے لئے آتاہے_

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بيت المقدس ايك آباد، نعمتوں سے پرُ اور غذاؤں سے بھر پور سرزمين تھي_

فكلوا منها حيث شئتم رغداً '' رغداً _ پاك ، آسائش سے بھر پور اور خير و بركت سے معمور'' يہ لفظ منہا كى ضمير كے لئے حال واقع ہوا ہے اسكى دليل '' كلوا'' ہے كہ اس سے مراد نعمتوں اور غذاؤں كى فراوانى ہے_

۵_ بيت المقدس كے تمام نقاط سے غذاؤں كا آمادہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے حلال اور مباح تھا_فكلوا منها حيث شئتم '' حيث _ جہاں سے چاہو'' يہ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ نعمتوں سے استفادہ كے لئے بيت المقدس كے كسى خاص مقام كو معين نہيں كيا گيا _

۶ _ بيت المقدس كے تصرف اور قبضے كے لئے اسكا دروازہ اللہ تعالى كى جانب سے معين كيا گيا راستہ تھا_ادخلوا هذه القرية و ادخلوا الباب

۷_ بيت المقدس پر قبضے كے وقت اللہ تعالى كے حضور خشوع و خضوع كا اظہار بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے فرامين ميں سے تھا_وادخلوا الباب سجّدا ''ساجد'' كى جمع '' سجدا'' ہے اور ''ادخلوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے _ داخل ہوتے ہوئے سجدہ كى حالت ميں ہونا يہ اصطلاحى معنى ( خاك پر پيشانى ركھنا ) سے مناسبت نہيں ركھتا پس كہا جاسكتاہے كہ يہاں اس سے مراد اسكا لغوى معنى ہے يعنى خشوع و خضوع_

۸_ بيت المقدس كو تصرف ميں لاتے وقت گناہوں سے توبہ كرنا بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى جانب سے حكم تھا_ادخلوا و قولوا حطة

''حطة'' مبتدائے محذوف مثلاً ''مسألتنا '' كى خبر ہے يہ اسم مصدر ہے اور اسكا معنى ہے ركھنا يا نيچے اتارنا _ جملہ ''نغفر لكم ...'' كے قرينے سے اس سے مراد گناہوں كا اٹھنا يا بخشش ہے _ بنابريں '' قولوا حطة'' يعنى كہو اے اللہ ہمارى درخواست ہمارے گناہوں كى معافى ہے_

۱۹۲

۹ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ان كے گناہوں كى بخشش كى خوشخبرى دى اس صورت ميں كہ وہ بيت المقدس ميں آداب كا خيال ركھتے ہوئے داخل ہوں _ادخلوا هذه القرية و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم ظاہراً ايسا ہے كہ '' نغفر لكم'' آيہ مجيدہ ميں پيش ہونے والے سارے امور كا جواب ہے_ پس اسكى تقدير يوں بنتى ہے ''ان تدخلوا و تاكلوا و تدخلوا الباب سجداً و تقولوا حطة نغفر لكم''

۱۰ _ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے بنى اسرائيل پر بہت سارے گناہوں كا بوجھ تھا_نغفر لكم خطاياكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''خطاياكم'' جمع استعمال ہوا ہے_

۱۱_ انسان كے گناہوں كى بخشش كا اختيار اللہ تعالى كے پاس ہے _نغفر لكم خطاياكم

۱۲ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں استغفار گناہوں كى بخشش كا موجب بنتى ہے _و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم

۱۳ _ اللہ تعالى كے فرامين كا اجراء گناہوں كى بخشش كى زمين فراہم كرتاہے_و ادخلوا الباب سجدا نغفر لكم خطاياكم

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ و استغفار كے لئے ضرورى ہے كہ پروردگار كى جانب سے ديئے گئے احكام و آداب پر عمل كيا جائے_و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم

۱۵_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ميں پاك دامن اور اچھے كردار كے لوگ موجود تھے_و سنزيد المحسنين

'' المحسنين _ نيك لوگ'' ،ہوسكتاہے كہ يہ لفظ بنى اسرائيل كے دوسرے گروہ كے بارے ميں ہو اور يہ مطلب جملہ '' نغفر لكم خطاياكم'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كے دو گروہ تھے ايك گروہ گناہگاروں كا تھا جس كى طرف ''نغفر لكم خطاياكم'' كے ذريعے اشارہ كيا گيا ہے اور دوسرا گروہ پاك دامن افراد كا تھا اور ''المحسنين'' اسى كو بيان كررہاہے_

۱۶ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے پاك دامن اور نيك افراد كو اگر انہوں نے بيت المقدس ميں داخل ہونے كے آداب كا خيال ركھا تو ايك عظيم اجر عنايت كرنے كى خوشخبرى دى ہے _قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم و سنزيد المحسنين

۱۷_ اللہ تعالى كے احكامات كى اطاعت كرنے والے لوگ اگر نيك ہوئے تو انہيں دوسروں كى نسبت زيادہ اجر ملے گا _

و سنزيد المحسنين

۱۸ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل كا بيت

۱۹۳

المقدس ميں وارد ہونے والا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل ہے _إذ قلنا ادخلوا و سنزيد المحسنين

جملہ ''اذ قلنا ...'' ، نعمتي( آيت ۴۷) پر عطف ہے يعنى ''اذكروا إذ قلنا ...'' اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے حكم ديا ...''

۱۹ _عن الباقر عليه‌السلام قال فى قوله تعالى '' و ادخلوا الباب سجّدا '' ان ذلك حين فصل موسى من أرض التيّه فدخلوا العمران .. .(۱) اللہ تعالى كے اس فرمان '' و ادخلوا كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ حكم اس وقت ہوا جب حضرت موسىعليه‌السلام نے سرزمين ''تيہ'' سے نجات حاصل كى اور ايك آباد سرزمين ميں وارد ہوئے_

اجر: اجر كے زيادہ ہونے كى شرائط ۱۶،۱۷

استغفار: استغفار كے نتائج ۱۲; استغفار كے آداب ۱۴; استغفار كى اہميت ۸

اطاعت گزار لوگ: اطاعت گزاروں كا اجر ۱۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۱۱; اللہ تعالى سے مختص امور ۱۱; اوامر الہى ۱،۲،۷،۸; الہى بشارتيں ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كو بشارت ۹; بنى اسرائيل بيابان ميں ۲; بنى اسرائيل اور بيت المقدس كا تصرف ۲،۳،۶،۷،۸،۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۶،۱۸; بنى اسرائيل كى غذائيں ۵; بنى اسرائيل كى سرگردانى ۱۹;بنى اسرائيل كى بخشش كى شرائط ۹; بنى اسرائيل كا گناہ ۱۰; بنى اسرائيل كے نيك لوگ۱۵،۱۶; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۷،۸; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۵; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخلہ ۱،۹،۱۶،۱۸

بيت المقدس: بيت المقدس كا آباد ہونا ۱،۴; بيت المقدس حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں ۴; بيت المقدس كى تاريخ ۴،۶; بيت المقدس كا تصرف ۳،۷،۸; بيت المقدس كى غذائيں ۵; بيت المقدس كا دروازہ ۶; بيت المقدس كے تصرف كا راستہ ۶; سرزمين بيت المقدس ۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر عمل كے نتائج ۱۳

توبہ: توبہ كے آداب ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱۹

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۵ ح ۴۸ ، بحار الانوار ج/۱۳ ص ۱۷۸ ح ۸_

۱۹۴

خشوع: خشوع كى اہميت ۷

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۸

روايت:۱۹

عمل: اوامر الہى پر عمل ۱۳،۱۴،۱۷

گناہ : گناہ كى معافى كى زمين ہموار ہونا ۱۳; گناہ كى بخشش كے عوامل ۱۲; گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۱۱

محسنين ( نيك لوگ): محسنين كا اجر ۱۶; محسنين كے درجات ۱۷

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ ( ۵۹ )

مگر ظالموں نے جو بات ان سے كہى گئي تھى اسے بدل ديا تو ہم نے ان ظالموں پر ان كى نافرمانى كى بناپر آسمان سے عذاب نازل كرديا _

۱_ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے قبل حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے بعض لوگ ظالم اور گناہ سے آلودہ تھے_

فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے حرام خوروں نے بيت المقدس ميں داخل ہوتے ہوئے اپنے گناہوں كى معافى مانگنے اور ''حطة'' كہنے كى بجائے كچھ اور كہنا شروع كيا _فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم ايسا معلوم ہوتاہے كہ''الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جن كو آيت ۵۷ ميں ان كى ناشكرى اور ناپاك غذاؤں سے استفادہ كى وجہ سے ظالم كہا گيا ہے_

۳ _ حرام خورى اللہ تعالى كے فرامين سے بغاوت اور ديگر گناہوں كے ارتكاب كى زمين فراہم كرتى ہے_فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم

۴ _ ستم گرى اللہ تعالى كے احكامات سے انحراف كى بنياد

۱۹۵

فراہم كرتى ہے _فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے منحرف اور ستم گر افراد آسمانى عذاب ميں مبتلا ہوئے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء

۶_ اللہ تعالى كے اوامر كو تبديل و تغيير كرنا ظلم ہے اور عذاب كا باعث ہے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء يہاں '' الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جنہوں نے '' حطة '' خدايا تجھ سے گناہوں كى معافى چاہتے ہيں كى جگہ كچھ اور اپنى زبانوں پر جارى كيا _

۷_ بنى اسرائيل كے گناہگاروں پر آسمانى عذاب كا نازل ہونا ان كے پرانے فسق و فجور اور فرمان الہى كو تبديل كرنے كے گناہ كى وجہ سے تھا_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون ''بما كانوا يفسقون'' ميں باء سببيت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آسمانى عذاب كے نزول كا سبب بنى اسرائيل كا ديرينہ فسق تھا_ ان كو ظالم، ستمگر''الذين ظلموا'' كہنا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ عذاب ان كے ظلم كى وجہ سے ہوا اور يہ ظلم فرمان الہى كى تبديلى تھا بنابريں كہا جاسكتاہے كہ بنى اسرائيل كے ظلم و ستمگرى كے ساتھ ساتھ ان كا پرانا فسق ان پر عذاب كا باعث بنا _

۸ _ اللہ تعالى كى طرف سے متعين شدہ اذكار اور متون كو تبديل كرنے سے اجتناب كرنا چاہيئے_فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۹_ فسق كا گناہ كرنے والوں كے لئے دنياوى عذابوں ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون

۱۰_ الہى فرامين سے بغاوت اور انحراف ظلم ہے _فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم

۱۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے كچھ لوگ بڑے عرصے سے فاسق اور فسادى افراد تھے_بما كانوا يفسقون

'' بما كانوا ...'' ميں باء سببية كى ہے اور '' ما'' مصدرية ہے _ فعل مضارع پر جب ''كان'' آجائے تو زمانہ ماضى ميں استمرار پر دلالت كرتاہے_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے ''و اما الذين ظلموا'' فزعموا حنطة حمراء فبدلوا ...(۱) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم كيا '' انہوں نے جان بوجھ كر لفظ ''حطة' ' كو ''حنطة حمراء سرخ گندم ''ميں تبديل كرديا_

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۱۳ ص ۱۷۸ ح ۸ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۱۷۳_

۱۹۶

اذكار: اذكار ميں تحريف سے اجتناب ۸

استغفار: استغفار كى اہميت ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۶

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۵; بنى اسرائيل كى تحريف ۷; بنى اسرائيل كے حرام خور ۲; بنى اسرائيل كو استغفار كا حكم ۲; بنى اسرائيل كے ظالم ۱،۱۲; بنى اسرائيل كے فاسقين ۱۱; بنى اسرائيل كا فسق ۷،۱۱; بنى اسرائيل كا انجام ''سزا'' ۷; بنى اسرائيل كے ظالموں كا انجام ۵; بنى اسرائيل كے معصيت كاروں كا انجام ۵; بنى اسرائيل كے گناہ گار ۱،۷; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخل ہونا ۲

تحريف: تحريف سے اجتناب ۸; اوامر الہى كى تحريف ۶; تحريف كا ظلم ۶; تحريف كى سزا ۶،۷

حرام خوري: حرام خورى كے نتائج ۳

روايت: ۱۲

ظلم : ظلم كے نتائج ۴; ظلم كے موارد ۶،۱۰

عذاب: آسمانى عذاب ۵،۷; دنياوى عذاب ۵،۹; عذاب كے موجبات ۶

فاسقين : فاسقين كو دنياوى عذاب ۹

فسق: فسق كى سزا ۷

گناہ: گناہ كى بنياد۳

گناہ گار لوگ: گناہگاروں كو دنياوى عذاب ۹گناہگاروں كو تنبيہ ۹

نافرمان لوگ: ۵

نافرماني: نافرمانى كى بنياد۳،۴; نافرمانى كا ظلم ۱۰; اللہ تعالى كى نافرمانى ۳،۴،۱۰

۱۹۷

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ ( ۶۰ )

اور اس موقع كو ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم كے لئے پانى كا مطالبہ كيا تو ہم نے كہا كہ اپنا عصا پتھر پر مارو جس كے نتيجہ ميں بارہ چشمے جارى ہوگئے اور سب نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان ليا اب ہم نے كہا كہ من و سلوى كھاؤ اور چشمہ كا پانى پيئو اور روئے زمين ميں فساد نہ پھيلاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم فرعون كے تسلط سے نجات پيدا كرنے اور دريا سے عبور كرنے كے بعد ايسى سرزمين ميں گھومتى پھرتى رہى جس ميں پانى كى شديد قلت تھي_و اذ استسقى موسى لقومه

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے درخواست كى كہ ان كى قوم كو پانى كى قلت سے نجات دلائے_و إذ استسقى موسى لقومه لغت ميں '' استسقائ'' كا معنى ہے پانى طلب كرنا اور شرعى اصطلاح ميں ايك خاص انداز سے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں بارش كے لئے دعا كرنا ہے_

۳ _ اللہ تعالى نے پانى كے حصول كے لئے حضرت موسىعليه‌السلام كو حكم ديا كہ اپنا عصا پتھر پر ماريں _فقلنا اضرب بعصاك الحجر '' الحجر'' ميں الف لام ممكن ہے جنس كے لئے ہو پس اس سے مراد ديگر اشياء كے مقابل پتھر ہيں _يہ بھى ممكن ہے كہ الف لام عہد حضورى يا عہد ذہنى كا ہو _ اس صورت ميں اس سے مراد خاص پتھر ہے_

۴_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى پانى كى درخواست كو بہت جلد قبول فرمايا _فقلنا اضرب بعصاك الحجر

''فقلنا'' كى '' فائ'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا اور اسكى قبوليت ميں زمانى فاصلہ نہ تھا_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اللہ تعالى كے فرمان كے بعد

۱۹۸

بلافاصلہ پانى كى دستيابى كے لئے اپنا عصا پتھر پردے مارا _فقلنا اضرب بعصاك الحجر فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا

'' فانفجرت ''كى فاء فصيحہ ہے يعنى ايك مقدر معطوف عليہ كو بيان كررہى ہے _ پس جملے كى تقدير يوں بنتى ہے _ '' فضرب بعصاہ الحجر فانفجرت'' اس جملے كا حذف ہونا گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ فرمان الہى و ہى مارنا ہے _

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كا عصا پتھر پر پڑنے سے بارہ ۱۲) چشمے پانى كے پھوٹ پڑے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے بارہ ۱۲) قبائل تھے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً قد علم كل اناس مشربهم انس كى جمع '' اناس'' ہے اور اس سے مراد بنى اسرائيل كے قبائل ہيں '' اثنتا عشرة عيناً'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ قبائل بارہ تھے_

۸_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك بنى اسرائيل كے ايك مخصوص قبيلے كے لئے تھاقد علم كل اناس مشربهم '' مشرب ' ' پانى پينے نيز اس جگہ كو بھى كہتے ہيں جہاں سے پانى ليا جائے _ البتہ آيہء مجيدہ ميں اس سے مراد پتھر سے پھوٹنے والے چشمے ہيں _

۹_ بنى اسرائيل كا ہر قبيلہ اپنے مخصوص چشمہ سے آگاہ تھا_قد علم كل اناس مشربهم

۱۰_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك پر ايك خاص علامت تھى جس سے ہر چشمہ بنى اسرائيل كے ايك خاص قبيلے سے مربوط تھا_قد علم كل اناس مشربهم اگرخود چشموں پر علامت نہ ہوتى بلكہ چشمہ پھوٹنے كے بعد علامت لگائي جاتى تا كہ ہر ايك چشمہ ايك خاص قبيلے سے مخصوص ہوجائے تو پھر''قد علم كل اناس مشربهم _ ہر قبيلہ نے اپنا چشمہ پہچان ليا'' اسكى جگہ جملہ يوں ہوتا ''علّم بتايا گيا كہ ...''

۱۱ _ قلت كى صورت ميں رزق كى تقسيم اور كوٹہ سسٹم كرنے كى ضرورت ہوتى ہے _فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم

۱۲ _ معاشرتى اختلافات كى بنيادوں كو جڑ سے اكھاڑنے كى ضرورت ہے*قد علم كل اناس مشربهم ظاہراً ايسا معلوم ہوتاہے كہ پانى كى تقسيم كرنا اور ہر چشمہ كو بنى اسرائيل كے ايك قبيلہ سے مخصوص كرنا اس لئے تھا تا كہ اختلافات اور تنازعات كوروكا جاسكے_

۱۳ _ پتھر سے متعدد چشموں كا پھوٹنا اور ان كى خاص

۱۹۹

خصوصيات حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے لئے پيش كيئے گئے معجزات ميں سے تھے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم

۱۴ _ پانى كى قلت كو دور كرنے كے لئے خداوند قدوس كى بارگاہ ميں دعا و مناجات كرنا ايك اچھا اور لائق تحسين عمل ہے اور دينى قائدين كى ذمہ دارى بھى ہے_و إذ استسقى موسى لقومه

۱۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے استسقاء اور پتھر سے چشموں كے پھوٹنے كا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے لائق ہے_

و اذاستسقى موسى لقومه قد علم كل اناس مشربهم '' اذاستسقى '' آيہ مجيدہ ۴۷ ميں '' نعمتي'' پر عطف ہے يعنى''اذكروا إذ استسقى موسى لقومه''

۱۶_ اللہ تعالى كے ديئے ہوئے رزق و روزى سے كھانا پينا حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو اللہ تعالى كى نصيحت تھي_

كلوا و اشربوا من رزق الله

۱۷_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو اس زمين كى تمام تر وسعتوں ميں فساد و بربادى پھيلانے سے منع فرمايا_و لاتعثوا فى الأرض مفسدين '' لا تعثوا'' كا مصدر'' عثو'' ہے جسكا معنى ہے فساد پھيلانا _

۱۸_ زمين ميں فساد و تباہى پھيلانا ان محرمات ميں سے ہے جن پر بہت تاكيد كى گئي ہے_و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

'' مفسدين'' ، '' لاتعثوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے '' لا تعثوا'' چونكہ خود فساد و تباہى كى حرمت پر دلالت كررہاہے اس لئے ''مفسدين'' مؤكد حال ہوگا اور اس تكليف شرعى كى تاكيد پردلالت كرتاہے_

۱۹_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے ہر قبيلہ كو دوسرے قبيلہ كے كھانے اور پينے والى اشياء كى طرف تجاوز سے منع فرمايا_قد علم كل اناس مشربهم كلوا واشربوا و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

ہر چشمے كو بنى اسرائيل كے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص كرنا اور پھر انہيں فساد و تباہى پھيلانے سے منع كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ہر قبيلے كا دوسرے قبيلے كے حقوق پر تجاوز فساد و تباہى پھيلاناہے پس بنى اسرائيل اس سے اجتناب كريں _

۲۰ _ دوسروں كے حقوق پر ڈاكے ڈالنا اور تجاوز كرنا فساد و تباہى كے مصاديق ميں سے ہے _كلوا وا شربوا و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

۲۱ _ اللہ تعالى ہى اپنے بندوں كو رزق و روزى عنايت

۲۰۰