تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 785
مشاہدے: 163348
ڈاؤنلوڈ: 4436


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163348 / ڈاؤنلوڈ: 4436
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 1

مؤلف:
اردو

أ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۱

تفسير راہنما

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

پہلى جلد

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني

اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر:نور مطاف

جلد: اول

اشاعت:اول

تاريخ اشاعت: رجب ۱۴۲۳ھ _ق

Web : www.maaref-foundation.com

Email: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۲

كتاب انزلناه اليك لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربهم الى صراط العزيز الحميد (ابراہيم ۲)

ہم نے كتاب كو آپ كى طرف نازل كيا تا كہ آپ انسانوں كو ظلمتوں سےنور كى طرف نكال كے لے جائيں ، ان كے پروردگار كے حكم سے، صاحب عزت و قابل تعريف پروردگار كے راستے كى طرف_اس صحيفے يا كتاب كے بارے ميں جو سرور كائنات، الہى سفيروں ميں سب سے اشرف و برترين شخصيت، خاتم الانبياءعليه‌السلام محمد مصطفى (ص) كا عظيم ترين معجزہ ہے كيا تحرير كيا جاسكتاہے ؟ قرآن كريم ايسى كتاب ہے جو زندگى كے تمام ميدانوں ميں بے مثل و بے نظير ہے_ اس كى عمل دارى اور حكومت كى حديں لا محدود ہيں _ اس كى فصاحت و بلاغت كا كوئي مقابلہ نہيں اور نہ ہى اس كے معانى و معارف كے بے كراں سمندر كے لئے كسى خاتمے يا اتمام كا كوئي نقطہ متعين كيا جاسكتاہے _ اس كا مقابلے كى دعوت دينا _ ''فاتوا بسورة من مثله و ادعوا من استطعتم من دون الله '' (يونس ۳۸)(۱)

يہ دعوت بہت وسيع اور ہمہ گير ہے جو زمان و مكان كى حدود سے ماوراء ہے _ بتوں كے فريب كى دنيا كا رہنے والا بشر اور توہم پرست انسان اس كے مقابلے كى سكت نہيں ركھتا _ جديد تہذيب كے علمى غرور كا فريفتہ شخص بھى اس كے مقابلے ميں كمزور و ناتواں اور بے بس ہے _

قرآن نے جس طرح زمانہ جاہليت كے انسانوں كو دعوت دى اور اپنا مجذوب قرار ديا اسى طرح آج ستاروں پر كمنديں ڈالنے والے اور نيلگوں آسمان پر اپنى فتح كے جھنڈے گاڑنے والے انسان كو اپنى طرف تفكر و تدبر كى دعوت دے رہاہے_ اُس زمانے ميں لوگ فوج در فوج آئے اور قرآن كے دلدادہ و گرويدہ ہوگئے _ آج بھى محققين ، دانشمند اور صاحبان بصيرت كى ايك كثير تعداد قرآن حكيم كے مطالعات اور اس ميں غور و فكر سے اس كى عاشق و شيدائي ہوتى جارہى ہے _ اگر اس دور كے انسانوں نے قرآن كے لئے اپنى زندگياں صرف كيں تو آج بھى منصف مزاج لوگ قرآنى معارف و حقائق كے سامنے سر تسليم ہوئے جاتے ہيں _ اگر چہ آج اسلام و قرآن كے خلاف پر اپيگنڈے كا وسيع جال بچھايا گيا ہے _ دھمكياں ، دھونس، دھاندلى ، زر ، زور اور مكر و فريب كا بازار خوب گرم ہے ليكن اس كے باوجود پورى دنيا ميں قرآنى معارف كے ادراك و معرفت كے لئے لوگوں كا ايك سيلاب ہے جو دينى اور علمى مراكز كى طرف عشق و شيفتگى كے ساتھ امڈا چلا آرہا ہے _ قرآن كريم كى بارگاہ ميں يہ فريفتگى اور اظہار محبت در حقيقت امام صادقعليه‌السلام كے اس فرمان كى تصديق ہے _

___________________

۱) پس اس كى ايك سورة كى ہى مثل لے آؤ اور جس جس كو اللہ كے علاوہ مدد كے ليئے بلانا چاہتے ہو دعوت دو_

۳

''ان الله تبارك و تعالى لم يجعله لزمان دون زمان و لناس دون ناس فهو فى كل زمان جديد و عند كل قوم غض الى يوم القيامه '' (كافى ج/۲ص ۱۸۰)(۱) اس صحيفہ الہى كى جاذبيت، دلربائي ، استحكام، پائيدارى اور بقا كى حقيقى دليل و سبب كيا ہے ؟ بالاجمال يہ كہا جاسكتاہے كہ قرآن وہ واحد كتاب ہے جو مطلق ، لا محدود عصمت كى مالك ہے_ وہ كتاب ہے جو ہر طرح كى تحريف اور انحراف سے محفوظ ہے _ البتہ اس امر كى دليل اس كتاب كامعجز نما كلام ہے_ ارشاد ہوتاہے :_ ''انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون (حجر۹)(۲) اگر تورات اور انجيل كا سرسرى جائزہ لينے كے لئے ان كى ورق گردانى كى جائے تو واضح ہوجاتاہے كہ بہت كم معارف اور حقائق ہيں جن ميں تحريف نہيں كى گئي ورنہ اكثر موضوعا ت ميں دست برد كركے انہيں آلودہ كرديا گيا ہے_ ان ميں موجود بہت سارے سست، غير صحيح ، خلاف عقل اور خلاف فطرت مطالب آنكھوں كو حيرانى و پريشانى ميں مبتلا كرديتے ہيں _ اسى طرح علمائے اہل كتاب كى طرف سے ہونے والى جرح و تنقيد كو اگر ملاحظہ كيا جائے تو معلوم ہوتاہے كہ يہ تنقيدات اور كتاب مقدس كے متون كى عدم حجيت پر دلالت كرنے والے مطالب اصل كتاب سے كئي گنا زيادہ ہيں _ اس كے برخلاف گزشتہ صديوں ميں كئي افراد اور مراكز ايسے رہے ہيں جنہوں نے قرآن كريم ميں شك و ترديد اور جرح و تنقيد كى راہيں ہموار كرنے كى كوشش كى ليكن اس كے باوجود آج تك كوئي ايك بات بھى قرآن ميں خلاف عقل و فطرت تلاش نہيں كرسكے_ يہى سبب ہے كہ قرآن حكيم اپنے قديم و جديد مخاطبين كو ايك اعتماد بخشتا ہے _ اس طرح ہر روز اس كے لفظى اور معنوى معجزات آشكارتر ہوتے جاتے ہيں _ آج انسانى معاشروں كے لئے ايك چيز درد و رنج كا باعث ہے _ اس كے باعث ہر روز بشر كى خفت و خوارى اور حيرت ميں اضافہ ہورہاہے _ يہ چيز دنيا كے قانون ساز اداروں پر قائم دردناك اور پريشان كن حالت ہے _ اسى طرح وہ دساتير ہيں جو ان مراكز سے بن سنور كے نكلتے ہيں _ يہ دساتير نہ فقط انسان كے اضطراب كو كم نہيں كرتے بلكہ اغراض و خواہشات كا مجموعہ ہونے كى وجہ سے ہاتھ كى ہتھكڑياں اور پاؤں كى بيڑياں بن چكے ہيں _ انہوں نے كرہ ارض كے باسيوں كو سختيوں اور اسارت ميں مبتلا كر ركھا ہے _ اس امر كى زندہ دليل يہ ہے كہ انسان كے بنائے ہوئے ايسے قوانين ميں ترميم و تغيير كے لئے روزانہ كميٹياں تشكيل دى جاتى ہيں _

____________________

۱) اللہ تبارك و تعالى نے قرآن كريم كو نہ تو كسى خاص زمانے كے لئے قرار ديا ہے اور نہ ہى كسى خاص قوم كے لئے پس يہ قيامت تك كے لئے ہر زمانے ميں جديد ہے اور ہر قوم كے نزديك تر و تازہ رہے گا _

۲)يقيناً ہم ہى اس كتاب كو نازل كرنے والے ہيں اور ہم ہى يقينا اس كے محافظ ہيں _

۴

انسان كے بنائے ہوئے آئين ميں جو كمزورى و اضمحلال پايا جاتاہے اسى بناپر ان كو حرف آخر تصور نہيں كيا جاسكتا _ انسانى كى بنيادى ضروريات كے عظيم خلا كو ايسے كارآمد اور جاوداں قوانين كا مجموعہ پرُكرسكتاہے جو مادى اور معنوى ضروريات كى تكميل اور نشو ونما كرسكتاہو_ قرآن حكيم ايك كامل اور جامع صحيفہ ہونے كى وجہ سے بہت پر اميد اور بااطمينان لہجے ميں ارشاد فرماتاہے: ''لا رطب و لا يابس الا فى كتاب مبين '' (انعام ۶)(۱) ''وما فرطنا فى الكتاب من شيئ '' (انعام ۳۸)(۲) بالكل اسى تناظرميں رسول گرامى اسلام (ص) كا يہ ارشاد ہے :'' فاذا التبست عليكم الفتن كقطع الليل المظلم فعليكم بالقرآن فانه شافع مشفع و ما حل مصدّق و من جعله امامه قاده الى الجنة و من جعله خلفه ساقه الى النار'' (كافى ج/۲ ص۵۹۹)(۳) پس كوئي راستہ ہى نہيں مگر يہ كہ قرآن كى پناہ لى جائے اوراسى كو تھام ليا جائے_ پس اگر دنيا قرآن كا رخ كرے اور مسلمان اس كى طرف لوٹ آئيں تو اُس وقت بدنظميوں ميں انسجام پيدا ہوجائے گا اورپريشانياں برطرف ہوجائيں گى _ قرآن حكيم پر اس توجہ اور راہ بازگشت كى طرف امام علىعليه‌السلام اس طرح اشارہ فرماتے ہيں _'' ذلك القرآن فاستنطقوه'' (كافى ج/۲ ص ۵۹۹)(۱) اس كا معنى يہ ہے كہ وہ ذمہ دار علماء جو استعداد ركھتے اور تحقيقى و تخليقى صلاحيتوں كے مالك ہيں روزمرہ كى مشكلات ،مسائل اور تقاضوں كى بنياد پر قرآن حكيم كى تشريح و تفسير بيان كريں _ ان علماء كو چاہيئے كہ اس بحر بيكراں ميں غوطہ زني كريں اور اسلامى و انسانى معاشروں كے دردوں كا مداوا تلاش كريں _ يہ امر اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ علم تفسير اور فقہى ابحاث ميں اجتہاد ايك دائمى اور پرثمرجد و جہد كى شكل اختيار كرجائے _ اگر ايسا ہوجائے تو اس الہى دستر خوان كى عظيم ، بھرپور اور لايزال نعمتوں كے ذريعے عصر حاضر كى مشكلات كا وافى و شافى حل تلاش كيا جاسكتاہے _ تفسير راہنما كے عظيم مؤلف كى شخصيت اگرچہ محتاج تعريف و تعارف نہيں ہے تا ہم مندرجہ ذيل دو عناوين كے تحت بعض اہم مطالب كا ذكر كيئے ديتے ہيں _

الف: مؤلف

۱ _ تفسير راہنما كے بزرگوار اور نكتہ شناس و نكتہ سنج مؤلف حضرت آيت الله ہاشمى رفسنجانى (دام ظلہ) ہيں _

____________________

۱) كوئي خشك و تر ايسا نہيں جس كا بيان كتاب مبين ميں نہ ہو_ ۲) ہم نے كوئي بھى چيز كتاب ميں اٹھا نہيں ركھي_

۳) جب فتنے سياہ راتوں كى مانند تم پر ٹوٹ پڑيں تو ضرورى ہے قرآن كى پناہ لو كيونكہ اس كى شفاعت قبول كى جانے والى ہے اور اس كى شكايت تصديق شدہ ہے جس نے اس كو اپنا امام قرار ديا تو اسے جنت كى طرف راہنمائي كرے گا اور جو (اسكا امام بنايعني) اسے پس پشت ڈال دے تو اسے جہنم كى طرف دھكيل دے گا_

۴) يہ قرآن ہے پس اس سے گفتگو كرو_

۵

آپ تقريباً گزشتہ ساٹھ سال سے اپنى اعلى صلاحيتوں ، روشن ذہنيت و ذكاوت كے ہمراہ بلافاصلہ اسلامى و قرآنى علوم كى تحقيق و تاليف ميں مشغول ہيں _آپ نے اپنے زمانے كى شہرہ آفاق شخصيات اور اساتذہ مثلاً آيت الله العظمى بروجردي ، حضرت امام خميني ، صاحب تفسير الميزان علامہ طباطبائي و غيرہم سے كسب فيض كيا _ آپ كے دوستوں كى فہرست ميں شہيد مطہري ، شہيد بہشتى ، شہيد باہنر اور رہبر معظم حضرت آيت الله خامنہ اى (دام ظلہ العالي) جيسى باكمال شخصيات ہيں _ ان دو خصوصيات كے علاوہ انتھك جد و جہد، اعلى انتظامى صلاحيت، طاقت فرسا ليكن منظم و منسجم كوششيں اور بالخصوص توفيقات پروردگار نے آپ كى شخصيت كو نابغہ روزگار ہستى ميں تبديل كرديا ہے _

۲ _ آپ كى ايك دوسرى خصوصيت جو اس كتاب كى تاليف او رتدوين ميں بہت مؤثر رہى وہ آپ كى مختلف عملى ميدانوں ميں اسلامى انقلاب سے پہلے اور بعد ميں دنيا كے مختلف ممالك كے سفر ہيں _ اسى طرح مملكت اسلامى كے مختلف اعلى سياسى ، معاشرتى ، ثقافتى اور اقتصادى عہدوں پر فائز ہونا ہے اس كا فائدہ اور نتيجہ يہ نكلا كہ آپ عالم اسلام بالخصوص ايران اسلامى كى مشكلات سے واقفيت حاصل كريں _ دوسرى اہم چيز يہ كہ آپ نے اسلام كى عملى صورت اور احكام قرآن كو نافذ كرنے كا عملى تجربہ حاصل كيا _ اس طرح اس راہ ميں حائل مشكلات كو نزديك سے لمس كيا _ ان تجربات نے كمك كى كہ كس طرح عالم اسلام كى جديد اور موجود مشكلات كا حل قرآن حكيم سے تلاش كريں _ پس يوں قرآن كريم كو فكرى اور عملى ميدان ميں ظاہر كرنے كا موقع ميسر آيا_

ب: تفسير راہنما

تفسير راہنما پر ايك سرسرى نظر اس بات كو واضح كرتى ہے كہ موتيوں بھرا يہ خزانہ مختلف امتيازات اور خوبيوں سے معمور ہے _ البتہ يہاں ہم مختصر طور پر چند موارد كى طرف اشارہ كررہے ہيں _

تفسير ترتيبى موضوعي:

تفسير ترتيبى كى قديم الايام سے ايك مقبوليت اور مقام رہاہے _ علمائے اسلام نے زيادہ تر اسى روش اور انداز كو اپنايا_ غالباً جب تفسير كہا جائے تو فورى طور پر اسى روش كى تصوير ذہن ميں ابھرتى ہے _البتہ گزشتہ چند عشروں سے تفسير موضوعى علماء و محققين كى توجہ كا مركز بنى ہوئي ہے _ اس كے ابھى تك بہت زيادہ ثمرات و نتائج سامنے آئے ہيں جو قابل تعريف ہيں _ تفسير راہنما پر پہلى نظر جو توجہ كا باعث بنتى ہے وہ يہ كہ مؤلف نے تفسير ترتيبى كى روش كو اپنايا ہے

۶

اور عملى طور پر اسى پہ كاربند نظر آتے ہيں ليكن يہ بھى كہا جاسكتاہے كہ انہوں نے صرف اسى انداز پر اكتفا نہيں كيا اور نہ ہى تفسير ترتيبى كو تفسير موضوعى كى راہ ميں ركاوٹ تصور كيا ہے _ پس اس كتاب پر دوسرى نظر دوڑائي جائے تو اسے تفسير موضوعى بھى كہا جاسكتاہے كيونكہ اس اعتبار سے بھى كوئي كمى نظر نہيں آتي_

تفسير مأثور عقلي:

تفسير مأثور جس كى بنياد سنت نبوى (ص) اور اہل بيتعليه‌السلام كى احاديث ہيں يہ بھى اسلام كى ابتدائي صديوں كا ايك قابل قدر ورثہ ہے _يہ سرمايہ اپنى جگہ عظيم المرتبت ہے_ بعض محققين كا يہ نكتہ نظر رہاہے كہ مصحف شريف كے اصلى مخاطبين سركار دو جہاں پيامبر گرامى اسلام (ص) اور آئمہ معصومين (عليہم السلام ) ہيں _ پس ان محققين نے قرآن كريم كے ہم وزن كلمات يا احاديث سے آنكھيں نہ چرائيں بلكہ اپنا تمام تر ہم و غم اس طرح كى روايات كى تلاش كو قرار ديا _ يہى وجہ ہے كہ اس طرح كى تفاسير قاريان قرآن كو اطمينان بخش لگتى ہيں _ اس تفسير كے وسيع النظر مفسر نے دوسرے علماء كى طرح روايات پر انحصار كے ساتھ ساتھ عقل سے استفادہ كو يہاں قابل اجتماع سمجھا ہے_ پس روش نگارش كو يوں منظم كيا ہے كہ عقل و نقل دونوں كہيں عدم التفا ت كا شكار نہ ہوجائيں _ اس تفسير ميں ايك اور تخليقى نوعيت كا كام كيا گيا ہے وہ يہ كہ مفسر نے ہر آيت سے مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ماقبل اور مابعد كى آيات بلكہ تمام آيات كے تمام پہلوؤں پر بھى گہرى نظر ركھى ہے _ پس جزوى مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ان كو كلى مفاہيم كے ساتھ مرتبط كيا ہے _ گويا قرآنى آيات كے جہاں باطن كى طرف نظر دوڑائي ہے وہاں ظاہر كو نظر انداز نہيں كيا _

چند اہم نكات:

۱)واضح رہے كہ آيات كا ترجمہ ہم نے حجة الاسلا م والمسلمين جناب سيد ذيشان حيدر جوادى صاحب كے قرآن حكيم كے ترجمہ سے انتخاب كيا ہے _ لہذا اگر كہيں آيات كے تفسيرى مطالب ميں اختلاف رائے موجود ہو تو يہ تفاوت فطرى نوعيت ہوگا_

۲)ہر آيت كے آخر ميں اور كتاب كے آخر ميں اشاريوں كا نظام اردو حروف تہجى كى ترتيب سے مرتب كيا گيا ہے _ مذكورہ انڈكسز ميں عناوين دو طرح كے ہيں ايك اصلى عنوان اور پھر ہر اصلى عنوان كے ذيل ميں فرعى عناوين ہيں _ پورى كتاب ميں فرعى عناوين كو البتہ حروف تہجى كى ترتيب سے تحرير نہيں كيا گيا _

۷

۳)بعض تفسيرى نكات ايسے بھى ہيں جن كى سند و دليل آيات كے مذكورہ موارد ميں نہيں ہے اور نہ ہى انہيں كلام كے لفظى مدلولات سے اخذ كيا جاسكتاہے كہ انہيں موضوعاتى ادبى نكات سے ماخوذ قرار ديا سكے_ البتہ يہ نكات غير لفظى عوامل جيسے خارجى و تاريخى قرا ت ، عقلى قرائن، الغاء خصوصيت كا احتمال، آيات كے مابين ارتباط و غيرہ سے ماخوذ ہيں _ پس ايسى صورت ميں اس احتمالى نكتہ سے نہ تو چشم پوشى كى جاسكتى ہے اور نہ ہى اسے قرآن كريم كى طرف واضح اور قاطع نسبت دے سكتے ہيں _ لہذا ايسے احتمالى نكتہ كے سامنے(*) كى علامت لگادى گئي ہے جو آيت سمجھنے كے لئے زيادہ تعقل و تفكر كى زمين فراہم كرتاہے_

۴)تفسير راہنما كا اردو ترجمہ آپ قارئين كے پيش خدمت ہے _ اس ترجمہ كو محققين اور عالم و فاضل افراد كے ايك گروہ نے انتہائي گہرى نظر اور عميق غور و تدبر سے انجام ديا ہے_ محققين كى يہ ٹيم اردو زبان سے آشنائي ركھنے كے علاوہ عربي، فارسى پر بھى تسلط ركھتى ہے _ علاوہ بر اين ان افراد نے پورى ديانت اور سعى و كوشش كے ساتھ كتاب كے مفاہيم و مطالب كو اردو زبان كے قالب ميں ڈھالا ہے _ انشاء الله يہ كتاب اميد ہے كہ شريعت مقدسہ اسلام كے پيروكاروں كے ہاں مقبول و منظور نظر واقع ہوگى _ تا ہم يہ ادارہ اہل فكر و نظر كى اصلاحى و تعميرى آراء كا خندہ پيشانى سے استقبال كرے گا _ معارف اسلام پبلشرز كى جانب سے ابھى تك جو قلمى خدمات انجام دى گئي ہيں يہ اسلامى معارف كے علمى و ثقافتى مركز سے مربوط ہيں _يہ مركز حضرت آيت الله طاہرى خرم آبادي(مدظلہ) كے زير نظر كام كر رہاہے_ مذكورہ تفسير كى اہميت كے پيش نظر اسے ترجمہ كے لائق سمجھاگيا _ لہذا ہم نے اسے اردو كے قالب ميں ڈھالنے كى سعى كى ہے اور اس پر خدائے رحيم و متعال كى بارگاہ اقدس ميں شكر گزار ہيں _ آخر ميں ہم '' مركز فرہنگ و معارف قرآن'' كے محققين اور فاضل شخصيات كے شكر گزار ہيں جنہوں نے اس تفسير كى ترتيب و تنظيم اور تدوين ميں بنيادى كام كيا _ اسى طرح مترجمين اور مصححين كا شكريہ ادا كرتے ہيں جنہوں نے تہہ دل سے اس مسئلے ميں ہمارى معاونت فرمائي _ خصوصاً جناب حجةالاسلام سيد نجم الحسن نقوى جنہوں نے اس پہلى جلد كے ترجمہ و تصحيح كے امور انجام ديئے_ يہاں سے ہم آپ كى توجہ مبذول كروانا چاہيں گے تا كہ آپ اس تفسير كے مفسر اور اس تأليف كے مراحل سے زيادہ آشنائي حاصل كريں _ اس كے لئے اس '' پيش لفظ'' كى طرف رجوع كريں جو خود مؤلف محترم نے تحرير فرماياہے_

الحمدلله اولاً و آخراً

معارف اسلام پبلشرز

۸

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اس پہلى جلد كى اشاعت كے ساتھ ہى جو قرآنى مفاہيم تك پہنچے كے ليئے كليدى كتاب تدوين كرنے كا راستہ ہموار كرے گى مجھے اپنى ديرينہ آرزوئيں پايہ تكميل تك پہنچتى نظر آرہى ہيں يہ آرزوئيں عرصہ دراز( يعنى معارف اسلامى كے حصول و تحقيق كے زمانہ سے ميرے افكار و روح ميں سرايت كئے ہوئے تھيں _

ميں نے اسى زمانے ميں محسوس كيا كہ قرآن كريم جولوگوں كے ليئے خدا كى تجليات كا مقام ، ميزان قسط و عدالت اور ہدايت كا محور ہے معاشرے ميں متروك و اجنبى ہے_ امت مسلمہ كے انفرادى و معاشرتى دردوں كا مداوا كرنے كے ليئے شفا بخش شہد كے متلاشى افراد،اسى طرح محققين كے ليئے اس سے استفادہ كرنے ميں مشكل و دشوارى ہوتى ہے تو اس سے مجھے بہت دكھ پہنچتا اور ميں اندر ہى اندر كڑھتا رہتا _ بعض اوقات ايسا بھى ہوتا كہ كسى ايك موضوع كے بارے ميں قرآن كريم كى رائے معلوم كرنے كے ليئے مجھے چار و ناچار تمام قرآن كا مطالعہ كرنا پڑتا پھر كسى اور موضوع پر تحقيق كرتے وقت يہى كام دوبارہ انجام دينے پر مجبور ہوتا _ اس كے نتيجے ميں ہر موضوع كے متعلق تحقيقى كام انتہائي طويل فرصت كا طالب ہوتا اور يوں تحقيق كى رفتار بہت سست پڑجاتى _

مجھے اس پر بہت افسوس تھا كہ بالآخر امت مسلمہ نے صدياں گذر جانے كے باوجود كما حقہ اس كتاب كو جو لوگوں كے ساتھ خدا كا عہد اور انسانى معاشرے كے جسمانى و روحانى امرا ض كا حقيقى و با بركت علاج ہے اس كى حكمت و عظمت كے مطابق ايك شائستہ اہميت كيوں نہيں دى گئي؟ اس طولانى مدت كے دوران ايك قرآنى انسائيكلوپيڈيا تدوين كيوں نہيں ہوا تاكہ معرفت و حكمت كے متلاشى ، نور و ہدايت كے طالب اس سے باآسانى استفادہ ، روح كى تسكين ، قلب كى شفا اور اطمينان خاطر پيدا كر سكيں _ البتہ جو كچھ بيان كيا ہے اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں كہ اس دوران كوئي كام ہى نہيں ہوا بلكہ مقصد يہ ہے كہ جو كچھ انجام پاچكا ہے اور تا بحال سامنے آيا ہے اور جو كچھ ہونا چاہيئے تھا اس ميں بہت زيادہ فاصلہ ہے _

ہر عصر كے مسلمان محققين اور دانشمندوں نے اسى زمانے كے علوم و معارف كى سطح كے مطابق جو تفاسير تدوين كى ہيں ہمارے پاس موجود گراں بہا خزانہ ہيں _ ليكن ان منابع سے استفادہ كے ليئے بہت زياد وقت دركار ہوتاہے اور طاقت فرساكام_ پھر محقق كے ذہن ميں ہميشہ يہ كھٹكا موجود رہتا ہے كہ وہ تمام پہلوؤں سے قرآن كے نظريہ تك نہيں پہنچ سكا _

۹

اسى طرح تفصيل الآيات ، المعجم المفہرس اور الجامع لمواضيع الآيات و غيرہ جيسى موضوعى تفسيريں اور الفاظ و معانى كى راہنمائي والى كتب محققين كى تمام ضرورتوں كو پورا نہيں كرتيں _

احساس ذمہ دارى :

اسى زمانے ميں ميرے ايك فاضل دوست جنہوں نے چند موضوعات پر قرآنى تحقيق انجام دى اور برسوں اس پر محنت كى تھى ايك سفر كے دوران تدوين شدہ تمام تحقيقى يادداشتيں گم كر بيٹھے _ يہ چيز ميرے اورباقى دوستوں كے ليئے بہت رنج كا باعث بنى _ اس طرح ميں نے قرآن كريم ميں تحقيق كى راہ ہموار كرنے ، قرآن سے دريافت شدہ مطالب و مفاہيم اور نظريات ميں مزيد تيزى و استحكام پيدا كرنے اورايك مذہبى و علمى ماحول يا سماج سے يہ كمى پورا كرنے كے ليئے اقدام كرنا اپنے اوپر فرض سمجھا _ يہ شديد ظلم و استبداد كا دور دورہ تھا _ ہمارى بہت سارى محنتيں اور وقت اس كے خلاف جد و جہد ميں گذر جاتا لہذا اس مقدس احساس اورعظيم آرزو كو عملى جامہ پہنانے كا مناسب موقع نصيب نہيں ہوتا تھا _ اس دوران جب بھى جيل ميں ڈالا جاتا تو پوچھ گچھ اور تفتيش كى مدت گذارنے كے بعد ہميشہ اس نہايت اہم كام كے انجام دينے كى فكر ميں رہتا عام طور پر ہيجان ، جوش و جذبہ اور اضطراب انسان سے غور و فكر اور تحقيق كا امكان چھين ليتاہے اور ميں تو اكثر قيد تنہائي ميں ہوتا جہاں تحقيق كے وسائل بالكل ميسر نہ ہوتے تھے پس اس كم مدت كے دوران اتنى فرصت نہ ہوتى كہ يہ خواہش پايہ تكميل تك پہنچا سكوں _ ميں نے چند مرتبہ تفتيش اور قيد تنہائي كے دوران اپنے پاس موجود قرآن كريم سے استفادہ كرتے ہوئے مختلف موضوعات منجملہ اشرافيہ، صبر اور جہاد پر تحقيقى كام كيا _ ان دنوں ميرا اكثر وقت قرآن حفظ كرنے ميں صرف ہوتا _ ميں چار دفعہ گرفتار ہوا ليكن قيد كى مدت كم تھي_ بہر حال جتنى مدت (۱۶ مہينے ) جيل ميں رہا مجموعى طور پر ۲۵ پارے حفظ كيئے_ البتہ افسوس ہے كہ اب وہ منظم و مرتب صورت ميں ميرے ذ ہن ميں محفوظ نہيں رہے _ يہ يادداشتيں بيان كرنے كا مقصد قرآن سے اپنے عشق لگاؤ اور وہ احساس ذمہ دارى تھى جو قرآن حكيم كى نسبت ميرے وجود ميں تھى _ وہ كتاب جو تمام اہل قبلہ كى نظر ميں اسلامى بلكہ انسانى معارف كا بنيادى ترين ، غنى ترين اور معتبر ترين منبع ہے _ جو كتاب عدل و انصاف، كتاب حكومت و نظم فيصلہ كرنے والى اور كتاب حكمت ہے _

۱۰

وہ كتاب كہ جس كے بارے ميں ارشاد ہے ''لا ياتيه الباطل من بين يديه و لامن خلفه تنزيل من حكيم حميد '' حم السجدہ _۴۲(۱) ليكن افسوس كہ اسلامى معاشروں ميں اس قدر عزت و احترام كے باوجود يہ اجنبى و ناشناختہ ہے_ بالآخر ميرى دعا قبول ہوئي اس منصوبہ كو عملى جامہ پہنانے اور ديرينہ آرزو كو پايہ تكميل تك پہنچانے كے ليئے بہترين موقع اور كافى فرصت نصيب ہوئي _ ۱۳۵۴ ھ _ ش( ايرانى كيلنڈر كے مطابق )ميں انقلابى جد و جہدكے دوران ايك سفر سے واپسى پر مجھے ساواك كے گماشتوں نے گرفتار كر ليا _ پوچھ گچھ كے ابتدائي مراحل ميں ہى اس وقت كے خاص حالات اور بعض دستاويزى ثبوت ايسے تھے جن كے پيش نظر مجھے اندازہ ہوگيا تھا كہ اس دفعہ قيد كى مدت خاصى طولانى ہوگى _ لہذا ميں نے ( كليد قرآن ) كے عنوان سے تحقيق انجام دينے كا مصمم ارادہ كرليا _ اگر چہ شكنجوں كى وجہ سے ميں برى طرح زخمى تھا اور ميرى بدنى قوت مضمحل ہوچكى تھى _ ليكن يہ كام شروع كرنے كے ليئے ميرا حوصلہ بلند اور كافى حد تك پُر نشاط تھا _

ميں نے '' مشتركہ كميٹي'' ميں ساواك كے كارندوں سے ايك قرآن مانگا ليكن انہوں نے ايسا كرنے سے انكار كرديا_ كيوں كہ انہيں علم تھا كہ قيد تنہائي ميں قرآن بہترين انيس وساتھى ہے اور مختلف رنج و الم ، مشكلا ت اور تنہائيوں كى تلافى كرنے كا بہترين ذريعہ ہے _

ميرے اختيار ميں قرآن كا نہ ہونا اس بابركت عمل كو شروع كرنے كے ليئے ميرے ارادہ ميں كسى قسم كى ركاوٹ كھڑى نہ كرسكا ميں نے اپنى يادداشت سے مدد لى كيونكہ ان دنوں اكثر و بيشتر آيات لفظ و ترتيب كے ساتھ ميرے ذہن ميں محفوظ تھيں _ توقيق الہى بھى شامل حال ہوئي اور اچھے نتائج حاصل ہوئے _ اگرچہ ميرے پاس لكھنے كا كوئي وسيلہ نہيں تھا تا ہم ميں نے اپنے ذہن كے صفحات پر قرآنى مطالب و مضامين كا اچھا خاصہ ذخيرہ منظم طريقے سے محفوظ كرليا تھا _

مورد نظر اہداف سے ہم آہنگ اس كام كا ايك كلى منصوبہ مكمل طور پر ميرے ذہن ميں نقش ہوچكا تھا _ سپيشل پوليس كى حراست ميں ايك ماہ تك يہ كام اسى طرح انجام پاتا رہا جبكہ ميں ايك سطر بھى تحرير نہ كرسكا_ بہرحال تفتيش كى مدت ختم ہوئي مجھے حوالات سے'' اوين'' جيل ميں منتقل كرديا گيا _جہاں مجھے ركھا كيا گيا وہاں جناب طالقانى ، جناب منتظرى ، جناب مھدوى كنى ، جناب لاہوتى ، جناب انوارى ، جناب ربانى شيرازى ، جيسے بہترين دوست اور انقلابى جد و جہد ميں شريك افراد پہلے سے موجود تھے جبكہ چند دنوں بعد جناب كروبى ، جناب موحدى ساوجى ، جناب عراقى شھيد ، جناب عسكر اولادى اور كچھ دوسرے لوگ ہمارے ساتھ آن ملے _

____________________

۱) باطل اس كے نہ تو سامنے سے آسكتاہے اور نہ ہى عقب سے ( يہ كتاب) حكيم و حميد ذات كى جانب سے نازل ہوئي ہے_

۱۱

يہ انتہائي اہم شخصيات كا اكٹھ تھا _ تفتيش كا زمانہ گذر چكا تھا لہذا ہميں كسى قسم كا اضطراب يا پريشانى لاحق نہيں تھى _ چند كتابيں اور لكھنے كے وسائل بھى كہيں نہ كہيں سے مل گئے _ قيد تنہائي كے مقابلے ميں بيرق كا ماحول تحقيق اور غور و فكر كے ليئے انتہائي مناسب تھا الغرض قرآن سے جس چيز كى تلاش ميں تھا اسكى تكميل كے ليئے ہر چيز ميسر تھى _ خدا كى نعمت اور حجت مجھ پر تمام تھى اس كے مقابلے ميں اس فرصت كو غنيمت سمجھتے ہوئے ميں نے خوب استفادہ كيا اور بہترين تحقيقى نتائج حاصل كيئے _ ميں نے اپنا بيشتر وقت اس كام كے ليئے وقف كرديا _ ميں قارئين كرام كے سامنے صحيح تصوير پيش نہيں كر سكتا ہوں كہ ( خدا كى طرف سے) نصيب ہونے والى اس توفيق پر كس قدر خوش اورشكر گذار تھا_ اس جيل ميں تمام مشكلات كے باوجود جو انس و محبت اور وابستگى قرآن سے پيدا ہوئي اور ميں اپنے وجود ميں جو نشاط ، جوش و جذبہ محسوس كرتا تھا اس پر دن ميں كئي مرتبہ يہ الفاظ ( اين الملوك و ابناء الملوك ) ترجمہ: (كہاں ہيں شہنشاہ اور ان كى آل اولاد)اپنے دل ميں يا زبان پر دہراتا_ كام كى ابتدا ميں ميرے پاس تفسير كى كتب نہ تھيں تا ہم كچھ عرصہ بعد يہ كتابيں بھى مل گئيں _

كام كى روش

نماز صبح اول وقت ادا كرنے كے بعد شروع ہو جاتا تھا اور تقريباً ظہر تك يہى كام انجام ديتا البتہ صرف ناشتہ، صبح كى مختصر ورزش اور ديگر ضرورى امور كى انجام دہى كے ليئے اپنے كام سے جدا ہوتا _( تا ہم جيل ميں جن دنوں صفائي، برتن دھونا و غيرہ ميرے ذمہ ہوتا تو وہ سارا وقت ہاتھ سے نكل جاتا جس كى بعد ميں تلافى كرتا) سب جانتے تھے كہ ان اوقات ميں مجھے كسى اور كام ميں مشغول نہيں كرنا _ كبھى كبھار كسى مطلب كو سمجھنے كى خاطر دوسروں سے بحث مباحثے كى ضرورت پيش آجاتى تو الحمد للہ اس لحاظ سے بھى جيل ميں كوئي كمى نہ تھى _ صرف آٹھويں پارے تك تفسير مجمع البيان ميرے پاس تھى اور سورہ انفال كے بعد تفسير الميزان بھى مجھے مل گئي _ قرآن و تفسير كے علاوہ تحريرى وسائل ميں سے صرف ايك قلم اور / ۲۰۰ اوراق پر مشتمل كاپى تھى بالآخر انتہائي ، مختصر اور ٹيلى گرافى صورت ميں آمادہ كيئے گيئے انڈكسز سے ايسى بائيس ( ۲۲ ) كاپياں مكمل طور پر بھرگئيں _ اگرچہ ميرے پاس نہ فائل تھى اور نہ ہى كام كو سہل و آسان بنانے كے ديگر وسائل ;البتہ جو كچھ تھا وہ بھى كافى ثابت ہوا_ كم وقت اور جيل كے محدود وسائل سے زيادہ سے زيادہ استفادہ كرنے اور تحرير شدہ نوٹس كو آسانى كے ساتھ باہر منتقل كرنے كے ليئے ان كا حجم كم تھا جس سے يہ انڈكس انتہائي چھوٹے ، مختصر ، ٹيلى گرافى صورت ميں مرتب ہوتے تھے_

۱۲

مثلاًايك آيت يا اس كے بعض حصے سے جو مطالب اخذ كرتا انہيں عنوانات كے ساتھ ايك جملہ ميں لكھ ليتا _ پہلے پہل تو كافى مشكل پيش آئي ليكن آہستہ آہستہ يہ عمل كافى آسان و رواں ہوگيا _ كام كى روش مندرجہ ذيل تھي: انسان :تاريخ ( گذشتہ تاريخ ميں انسانى معاشرہ متحد اور ہر قسم كے اختلافات سے خالى تھا )

وحدت:كان الناس امة واحد

معاشرہ : اختلاف :يا مثال كے طور پر ۔انبياء ۔تبليغ

بشارت : ( انبياء كى تبليغ ميں جزا و سزا اور بشارت و ڈرانے كا كردار )

ڈرانا :فبعث الله مبشرين و منذرين

پاداش (جزا)

كيفر ( سزا )

جيساكہ آپ نے ملاحظہ فرمايا ان دو تين سطروں ميں گيارہ نكات لكھے گئے ہيں اور ايك جملہ جو كئي ايك عنوانات كے ساتھ مربوط ہے اسكے ساتھ ہى متعدد نكات بھى تيار ہوگئے يوں عام طور پر كاپى كے ہر صفحہ پر تقريباً بيس نكات سماجاتے تھے _ چونكہ ہر ورق كے دونوں طرف لكھتا تھا لہذا ہر دوسو اوراق كى كاپى ہزاروں نكات پر مشتمل ہوتى تھى _

البتہ يہ بات مسلم ہے كہ مضمون كے ليئے آخرى متن ميں اصلاح شدہ ، آسان فہم اورمناسب عبارتيں منتخب كى گئي ہيں _لہذا خدا كے كرم و احسانات اور قرآن كى نورانيت كى بدولت ميرا ذہن و قلم ايسا ہوگيا تھا كہ ايك آيت كا مطالعہ كرتے ہى اس ميں موجود مطالب و مضامين كا سائن بورڈ ميرے ذہن ميں روشن ہوجاتا اور ميں فوراً انہيں كاپى ميں درج كرليتا _ كچھ عرصہ كام كرنے كے بعدآقا فاكر بھى ميرا ہاتھ بٹانے لگے _ ہوا يوں كہ وہ ايك الگ كاپى ميں آيات كے نكات اور حوالے فہرست وار لكھتے تھے ليكن افسوس كہ قيد خانے سے گھر منتقل ہوتے وقت وہ كاپى اور كاغذات كہيں كھو گئے _ رفقاء اور دوستوں سے توقع ہے كے وہ اس كا كھوج لگا كے شائع كريں گے _

۱۳

عبا اور چادر :

ابتداء ميں عدالت نے مجھے چھ سال كى قيد سنائي _ ميں نے سوچا اس مرتبہ جيل ميں اپنا كام مكمل كرلوں گا _ ليكن جناب آيت اللہ خوانسارى كى سفارش پر نظرثانى كرتے ہوئے ميرى سزا ميں تين سال كى تخفيف كر دى گئي _ مجھے اندازہ ہوگيا كہ ميں اپنا كام پايہ تكمل تك نہيں پہنچا سكوں گا _ لہذا ميں نے ان كاپيوں كو جيل سے باہر منتقل كرنے كا فيصلہ كرليا _ ہميشہ اس بات كى پريشانى رہتى تھى كہ كہيں ميرى تمام محنت و زحمت كا ما حصل ساواكيوں كے ہتھے نہ چڑھ جائے اور وہ اسے ضبط نہ كرليں _ كيوں كہ اس طرح كى تكاليف ، ركاوٹيں اور كمينگى ہم نے بہت ديكھى تھى دوست احباب بھى اسطرح كے خدشات كا اظہار كرتے رہتے تھے_ ادھر خدا نے بھى راہ نجات پيدا كر دى جيل كى ملاقات كے دوران عام طور پر ہم شيشہ كے پيچھے سے انٹركام پر بات كيا كرتے تھے _ ليكن آہستہ آہستہ يہ پابندياں نرم پڑتى گئيں اور ہم خلاف معمول ملنے كے ليئے آنے والوں كے ساتھ آمنے سامنے بيٹھ كر ملاقات كرنے لگے _ ميں ہر ملاقات ميں پريشانى واضطراب كے ساتھ اپنى عبا كے نيچے سے ايك آدھ يا چند ايك كاپياں اپنى بيگم كے ہاتھ ميں تھما ديتا وہ بھى اپنى مخصوص شجاعت كے ساتھ تمام خطرات مول ليتے ہوئے انہيں اپنى چادر ميں چھپاليتى _ ميرى بيگم جانتى تھى كے ميرے كام كا ماحصل ميرے ليئے اور ہمارے اسلامى معاشرے كے ليئے كس قدر اہميت ركھتا ہے لہذا وہ اسے جيل سے باہر لے جاتيں اور خدا كا شكر ہے كہ اس كے لطف و كرم سے كوئي خطرہ پيش نہ آيا _

قيد خانے سے باہر :

قيد كے آخرى سال اسلامى انقلاب كى تحريك اپنے عروج پر تھى انتہائي واضح طور پرنظر آرہا تھا كہ پہلوى حكومت كا منحوس نظام اب نابود ہونے والا ہے قيديوں كو معاف كيا جارہا تھا _ آخرى دنوں ميں بہت سارے قيدى ايسے بھى تھے جن كى مدت قيد ختم ہوچكى تھى ليكن انہيں اس آمرانہ حكومت نے خلاف قانون زبر دستى جيل ميں روكا ہوا تھا _ ايسے قيديوں كو '' ملت كے قاتل'' كہا جاتا تھا_ ميرى اس تين سالہ قيد كے آخرى دس دن معاف كرديئے گئے _ اسطرح انقلاب كى كاميابى سے پہلے ہى آزاد ہوگيا اب كوئي زيادہ بازپرس بھى نہيں تھى لہذا تمام تحريريں اپنے ساتھ گھر لے آيا _ ارادہ تھا كہ گھر ميں قرآن پر يہ كام

۱۴

جارى ركھوں گا _ شروع ميں تو كچھ دن چند گھنٹے اس پر صرف كرتا رہا ليكن جلد ہى يہ احساس ہوا كہ ان امور كى نسبت انقلاب كے حوالے سے ميرى ذمہ دارياں اس سے كہيں زيادہ ہيں _

انقلاب كى كاميابى كے بعد ريڈيوٹيلى ون كارپوريشن نے مجھ سے انقلاب كى مناسبت سے دينى اور سماجى عناوين پر كچھ مطالب كے ليئے مدد مانگى اس زمانے ميں ان كا اسٹاك روم اسطرح كے مطالب سے خالى تھا _ جناب آقا معاديخواہ نے مطالب كى جمع آورى ميں ميرى مدد كى تھى اس مقصد كے لئے انہوں نے بعض علماء اور طالب علموں كو بھى ساتھ ملايا تھا يہ لوگ ميرے كام سے آگاہ تھے انہوں نے مجھ سے درخواست كى كہ دينى و معاشرتى پروگراموں كے ليئے يہ يادداشتيں ان كے حوالے كردوں _ ميں نے بھى اسے قبول كرتے ہوئے ان سے اس چيز كى خواہشں كى كہ ان مطالب كو جدا جدا ترتيب كے ساتھ جمع كريں _ انہوں نے يہ كام بخوبى انجام ديا اس كے نتيجے ميں الف ، ب كى ترتيب سے مستقل -بہت سارى فائليں تيار ہوگئيں _ اس فہرست كا ايك نسخہ انہوں نے مجھے بھى ديا تہران اور قم ميں زمانہ گرفتارى سے پہلے آئمہ( عليہم السلام) كى زندگى كے بارے ميں بعض دوستوں كى مدد سے تحقيقى كام انجام ديا تھا جس كے انتہائي قيمتى نوٹس جمع ہو چكے تھے وہ بھى ريڈيو ٹيلى ون كو دے ديئے گئے غالباً يہ كام بھى دفتر تبليغات كے توسط سے تكميل كے مراحل طے كر رہا ہے _ اس كے بعد كے مرحلے ميں حزب جمہورى اسلامى كے ثقافتى شعبہ كے سربراہ جناب آقا دعا گو نے '' كليد قرآن '' كى تكميل كا كام اپنے ذمے لے ليا اور كچھ پيشرفت بھى كى _ ليكن افسوس كہ يہ كام نا مكمل رہا اس مرحلہ ميں ميرى بڑى بيٹى فاطمہ ہاشمى نے بہت زيادہ مدد كى _ اس دوران بعض اشاعتى ادارے اس كام كى تكميل كے ليئے ميرى طرف رجوع كرتے رہے ايك آدھ كاپى بھى لے جاتے ليكن عام طور پركام كى وسعت اور اسكا بھارى بھر كم ہونا انہيں اس كے انجام دينے سے عاجز ہونے پر مجبور كرديتا_ ليكن اس تمام عرصے ميں كام كو جارى ركھنے كے بارے ميں ميرے ارادہ ميں كبھى لغزش نہيں آئي امت مسلمہ كى ضرورتوں كا مشاہدہ وہ بھى انقلاب كى كاميابى كے بعد جب كہ قرآن كى شناخت كے ليئے مختلف تقاضوں كا ايك سيلاب امڈ آيا تھا اس كام كو جارى ركھنے كے متعلق ميرے ايمان ميں اور زيادہ قوت پيدا كرتا تھا _

دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم كا شعبہ ثقافت و معارف قرآن :

مختلف ضرورتوں اور احتياجات نے دينى مدارس كو اسلامى تعليمات و معارف كے مختلف پہلوؤں كے متعلق بيشتر تحقيق پر مجبور كيا _اسطرح كئي ايك تحقيقى گروہوں نے متعدد شعبوں ميں از خود يا بعض اہم شخصيات كى راہنمائي ميں كام شروع كرديا_

۱۵

دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم نے اس كام كو جارى ركھنے اور اس منصوبہ كو پايہ تكميل تك پہنچانے كے ليئے مجھ سے رابطہ كيا ميں نے بڑى خوشى سے اسے قبول كر ليا كچھ عرصہ بعد اس دفتر سے مربوط علماء ميرے كام كے ہدف و مقصد اور طريقہ كار سے آشنا ہوگئے _ ايك طرف تو اس كام كى ضرورت بہت زيادہ تھى دوسرى طرف عملى اور زود رس علمى كاموں كى زيادتي، جبكہ فاضل دانشمندوں كى تعداد كم تھى ، اسى طرح ايسے پر ثمر تحقيقاتى كاموں كے لئے بہت حوصلے اور ہمت كى ضرورت ہوتى ہے_ ان حالات ميں دفتر تبليغات كے شعبہ ثقافت و معارف قرآن ميں موجود بعض فاضل علماء اور ان كا اس مقدس ہدف كے حصول ميں انتہائي شوق و اشتياق كا مظاہرہ بڑى ہى غنيمت اور اللہ رب العزت كى مجھ پر غيبى امداد ہے_ جب ديكھتا ہوں كہ حوزہ علميہ قم كے بعض فاضل دوست اس كام كى اہميت كو بھانپ گئے ہيں اور انتہائي لگن و قلبى لگاؤ كے ساتھ اپنا وقت و توانائي صرف كر رہے ہيں اور خود مجھ سے بہتر اس كام كو چلارہے ہيں تو خدا كے حضور شكر و سپاس كى وہى حالت اور گہرائي اپنے اندر محسوس كرنے لگا جو اوائل ميں ميرے دل ميں تھى _ اب كام ميں ٹھہراؤ سے پيدا ہونے والى مايوسى كو دور ہوتے ہوئے ديكھ رہا ہوں _ يہاں پر يہ اعتراف كرنا ضرورى سمجھتا ہوں كہ مل جل كر ، ايك دوسرے كى مشاورت اور حوزہ علميہ قم كے فاضل علماء كى ہم آہنگى سے كام كى كيفيت ميرے منصوبے اور عمل سے كہيں بہتر ہے _ اس كى ظاہرى شكل و شباہت زيادہ روشن و اميد افزا ہوگئي ہے _

ہدف اور مقصد :

جيسا كہ پہلے بھى اشارہ كيا ہے كہ قرآن سے اخذ شدہ ان مطالب كو منظم اور مدوّن كرنے كا مقصد ايسا مجموعہ تيار كرنا تھا جو قرآنى مفاہيم و معارف كى كليد شمار ہو _ جب يہ كام دفتر تبليغات اسلامى قم كے سپرد كيا گيا تو انہوں نے قرآنى معارف ميں تحقيق كے ميدان كو بہت زيادہ وسعت دى اور مذكورہ پروگرام كے علاوہ بعض اور مقاصد كو بھى اپنے مدنظر ركھا ان كے ليئے با قاعدہ منصوبہ بندى كي_ كلى طور پر چار پروگرام سامنے آئے كہ '' كليد قرآن '' ان ميں دوسرے نمبر پر تھا مذكورہ اہداف بالترتيب يوں ہيں :

۱ _ تفسير ترتيبى موضوعى :

قرآن كريم سے حاصل شدہ تمام مفاہيم اور مرتب شدہ اشاريئے سورتوں كى ترتيب كے لحاظ سے سورہ حمد سے آخر تك بالكل اسى طرح جيسے آپ اس جلد ميں ملاحظہ فرمائيں گے آراستہ كيئے جائيں _ يعنى ہر آيت كے ذيل ميں

۱۶

اس سے استفادہ كيئے گئے مطالب كو منطقى ترتيب اور منظم شكل ميں ڈھالا جائے _

اس روش كے چند ايك فوائد ہيں :

الف : آسان فہم و سادہ زبان ميں غير تفسيرى مطالب كو چھوڑتے ہوئے اور غير ضرورى ابحاث سے اجتناب كرتے ہوئے ايك مكمل تفسير سامنے آئے گي_

ب : قرآنى آيات سے ا خذ شدہ ان مرتب و منظم معانى و مفا ہيم سے تعليمى و تحقيقى مراكز ميں استفادہ كيا جاسكے گا_

ج : تحقيقى كاموں كے ليئے ايك آيت سے مربوط موضوعات پيش كرنا _

د : قرآن حكيم كى موضوعاتى ابحاث كو وسعت ،تكامل دينا اور ان پر بحث و مباحثہ كى راہ ہموار كرنا_

۲ _ قرآن حكيم كى موضوعاتى لغت كى تيارى ( كليد قرآن ) :

ترتيبى تفسير تيار كرنے كے ساتھ ساتھ مختلف عناوين اور مطالب كى حروف تہجى كے لحاظ سے ايك موضوعى فہرست مرتب كى جائے يہ عناوين كس سورہ يا آيت سے مربوط ہيں مثال كے طور پر جہاد سے مربوط وہ تمام آيات فہرست وار ذكر كى جائيں جن ميں اس بارے ميں كوئي مطلب بيان ہوا ہے _

۳ _قرآن كريم كے معارف سے متعلق معلومات كا منبع :

اس معلومات كے مجموعے ميں قرآنى معارف كے تمام منابع ، مآخذ اور اسناد و مدارك كا كھوج لگا كر انہيں جمع كيا جائے پھر ان ميں موجود مطالب كو منطقى طريقہ پر منظم ، آراستہ و پيوستہ اور ايك لڑى ميں پروئے ہوئے موتيوں كى مانند درجہ بندى كى جائے _ اس طرح جمع شدہ اسناد و معلومات ، محققين اور تحقيقاتى مراكز كے ليئے بہت زيادہ قابل استفادہ ہونے كے علاوہ ايسا پر ثمر سرمايہ ہوں گے جو قرآن حكيم كى موضوعى تفسير كى تدوين ميں كار آمد ثابت ہوگا _

۴ _ قرآن پاك كى موضوعاتى تفسير :

قرآنى مفاہيم جمع كرنے ، مختلف موضوعات كى تقسيم بندى اور قرآن كريم كے متعلق معلومات فراہم كرنے والا منبع آمادہ كرنے كے بعد آخرى اور بنيادى ترين ہدف و مقصد '' موضوعاتى تفسير '' تيار كرنا ہے _

يہاں پر اس نكتہ كى طرف توجہ دلانا ضرورى ہے كہ ان تمام كوششوں كے ساتھ ساتھ جمع شدہ معارف و معلومات كمپيوٹر ميں منتقل كى جائيں گى يہ عمل خود قرآن كے وسيع و عميق معارف و مفاہيم كو سرعت كے ساتھ مرتب كرنے، ان

۱۷

معارف كے ايك دوسرے كے ساتھ ربط و تعلق كو نماياں كرنے ميں انتہائي مؤثر و كليدى كردار كا حامل ہے _ اسطرح قرآنى معلومات و مفاہيم پر سوچ بچار اور غور و فكر كرنے كا راستہ ہموارہو گا _ وہ بحر بے كراں كہ جس كے بارے ميں ارشاد رب العزت ہے : 'لو ان ما فى الاَرض من شجرة: اقلام و البحر يمده من بعده سبعة ابحر مانفدت كلمات الله ' ( سورہ لقمان آيت / ۲۷ ) كمپيوٹر جيسى عظيم ، حيرت انگيز ايجاد اور قرآن حكيم جيسى كتاب سے استفادہ نہ كرنا اسلامى معارف و تعليمات پر بہت بڑا ظلم ہوگا _ جبكہ انسانيت كو اسكى اشد ضرورت ہے _ ہميں اميد ہے كہ دينى مدارس اس طرح كے نئے ، ترقى يافتہ اور انتہائي مفيد وسائل سے زيادہ سے زيادہ استفادہ كريں گے تا كہ گذشتہ دور ميں اسلامى تمدن و معارف پر ہونے والے ظلم كى تلافى كى جاسكے_ مذكورہ اہداف كى تكميل كے ساتھ قرآن اور اسلام كے غنى و بے نياز تمدن پر تحقيقى كام كا خاتمہ نہيں ہوجائے گا بلكہ اس سے اور زيادہ بہتر و گہرى تحقيقات كا راستہ ہموار ہوجائے گا اس ميں ہميشہ اضافہ ہى ہوگا مستقبل ميں اس دائرة المعارف ( انسائيكلو پيڈيا ) كے ذريعہ انجام پانے والے علمى امور خود كتاب سے كئي درجہ بہتر ، عميق اور جامع ہونگے _ ميں نے اپنے كم مدت كام كے دوران اس باليدگى كا بخوبى مشاہدہ كيا ہے _ شروع سے آخر تك ميں نے جو مطالب يادداشت كيئے تھے ديگر مصروف عمل، قابل احترام برادران كى طرف سے ان ميں بھارى مقدار ميں اضافہ كيے جانے والے اشاريوں كے درميان تقابل كرنے سے اس دعوى كى تصديق ہو جاتى ہے _ ابھى سے يہ بات واضح و روشن ہے كہ اگر اس كتاب ميں موجود موضوعات كو كسى ماہر محقق كے سپرد كيا جائے تو وہ اس ميں نئے نئے سوالات و جوابات كا اضافہ كر سكتا ہے _ ہر علم و فن ميں مہارت ركھنے والا دانشمند ايك آيت ، جملہ يا حتى ايك كلمہ پر اپنے خاص نكتہ نظر سے توجہ كرے تو وہ ايسے مطالب درك كرے گا جو كسى غير ماہر شخص كے ذہن ميں نہيں آسكتے _ اس كا راز يہ ہے كہ قرآن حكيم كے مفاہيم زندہ ، جاوداں اور ہميشہ رہنے والے ہيں جو وحى كے لازوال سرچشمے سے پھوٹے ہيں يہ تعبير بالكل اميرالمؤمنين حضرت على (عليہ السلام) كے عظيم كلام كے مطابق ہے كہ : '' نوراً لاتطفا مصابيحہ و سراجا َلا يخبؤ توقدہ و بحراً لاَ يدرك قعرہ''(۲) قرآن ايسانور ہے جس كے چراغ كبھى خاموش نہيں ہوں گے اور ايك ايسا چراغ ہے جس كے شعلے كبھى نہ بجھيں گے اور ايك ايسا سمندر ہے جس كى گہرائي كو چھوا نہيں جاسكتا_

اكبرہاشمى رفسنجانى

____________________

۱) اگر روئے زمين كے درخت قلم بن جائيں اور سمندر كو سہارا دينے كے لئے سات مزيد سمندر آجائيں تو بھى كلمات الہى تمام ہونے والے نہيں ہيں _

۲) نہج البلاغہ صبحى صالحي، خطبہ ۱۹۸_

۱۸

سورہ حمد

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_ قرآن ايسى كتاب ہے جو اسم''اللہ''سے تحقق پذير ہوئي يا وجود ميں آئي_بسم الله قرآن كريم كے آغاز ميں بسم اللہ كے ذكر كو دو اعتبار سے ديكھا جاسكتاہے ۱_ ايسا كلام جو پروردگار متعال نے انسانوں كے لئے بيان فرماياہے_ اس اعتبار سے ''بسم اللہ'' لوگوں كے لئے ايك حكم ہے كہ كس طرح اپنے كاموں كا آغاز كرو ۲_ اسكا متكلم خود خداوند متعال ہو_ اس صورت ميں قرآن كريم كے آغاز ميں ''بسم اللہ '' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى نے اسم ''اللہ'' كے ساتھ قرآن كريم كو ظہور بخشاہے گويا قرآن اسم '' اللہ'' كا مظہر ہے_

۲_ قرآن كريم ايسى كتاب ہے جس كا آغاز اللہ كے نام اور بندگان خدا پر رحمت كے اعلان سے ہوا_بسم الله الرحمن الرحيم

۳_ كاموں كا آغاز اللہ كے نام سے كرنا چاہيئے اور ''بسم اللہ''كہنا ضرورى ہے_بسم الله

۴_قرآن كريم چونكہ كتاب ہدايت ہے اور قرآن نے اپنى گفتگو كا آغاز''بسم الله'' سے كياہے لہذا يہ نكتہ اپنے مخاطبوں كو القا فرماتاہے كہ اپنے كاموں كا آغاز'' بسم الله'' سے كرو _ ۴ _ اللہ تعالى رحمان ( انتہائي وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے _بسم الله الرحمن الرحيم

۵ _ تمام تر موجودات اور مخلوقات اللہ تعالى كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _بسم الله الرحمن الرحيم ''رحمان'' صيغہ مبالغہ ہے جو رحمت كى شدت اور وسعت پر دلالت كرتاہے_

۶_ اللہ تعالى اپنے بندوں پر مہربان ہے_بسم الله الرحيم رحمانيت اور رحيميت كى صفت آگے پيچھے كيوں آئي ہيں جبكہ دونوں ہى اللہ كى رحمت ہيں ؟ اس سوال كے جواب ميں نكتہ نظريہ ہے_ قرآن كريم كا دو صفات كا استعمال كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ رحمانيت كى صفت تمام تر مخلوقات كے لئے ہے جبكہ رحيميت كى صفت صرف انسان اور ديگر مكلف مخلوق كے لئے ہے_

۷_بندوں پر اللہ تعالى كى وسيع رحمت و مہربانى اس بات كى دليل ہے كہ سب كاموں كو اسكے نام سے انجام دينا چاہيئے_بسم الله الرحمن الرحيم

۱۹

''اللہ''كى رحمان و رحيم سے توصيف و ثنا كرنا اشارہ ہے اس بات كى طرف كہ تمام كام اللہ كے نام سے كئے جائيں بالفاظ ديگر اس حكم كى حكمت يہ ہے_ يعنى چونكہ اللہ رحمان و رحيم ہے اسى لئے اسكے نام سے امور كا آغاز كرو_

۸ _ امور كى انجام دہى اللہ كے نام سے كرنا اسكى رحمت كا باعث ہے _بسم الله الرحمن الرحيم امور كو اللہ كے نام سے انجام دينے كى نصيحت كرنا اور اسكى حكمت كے طور پر رحمانيت اور رحيميت كا ذكر اس مطلب كا بيان ہے كہ كاموں ميں اللہ كا نام رحمت الہى كا موجب ہوتاہے جبكہ اس طرح كام پايہ تكميل كو پہنچتے ہيں _

۹_قرآن كريم اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كا ايك جلوہ ہے _بسم الله الرحمن الرحيم عمومى طور پر متكلم آغاز سخن ميں اپنے پروگرام كے كلى اہداف بيان كرتاہے يہ كہا جاسكتاہے كہ قرآن كے آغاز ميں ان دو صفات كا انتخاب در حقيقت اسيلئے كيا گيا ہے كہ قرآن كريم بشريت كے لئے اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

۱۰_ عبداللہ بن سنان كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے''بسم الله الرحمن الرحيم'' كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''الباء بهاء الله و السين سناء الله و الميم مجد الله و روى بعضهم ملك الله و الله اله كل شيء (و) الرحمن لجميع العالم و الرحيم بالمؤمنين خاصة'' (۱) بسم اللہ كى باء سے مراد اللہ كا حسن و جمال اور خوبياں ہيں سين سے مراد رفعت و بلندى ہے اور ميم اللہ كى عظمت و بزرگى كى طرف اشارہ ہے _ بعض نے روايت كى ہے كہ ميم اللہ كے ملك و سلطنت كى طرف اشارہ ہے_ اور اللہ ہر چيز كا معبود ہے_ رحمان كا مطلب يہ ہے كہ اس كى رحمت سارى كائنات كيلئے ہے _اور رحيم يعنى مومنين كےلئے اسكى خصوصى رحمت ہے_

۱۱_ اسماعيل بن مہران كہتے ہيں :امام رضاعليه‌السلام نے فرمايا :ان بسم الله الرحمن الرحيم اقرب الى اسم الله الاعظم من سواد العين الى بياضها (۲) آنكھ كى سياہى سے اسكى سفيدى جتنى نزديك ہے اس سے كہيں زيادہ بسم اللہ الرحمن الرحيم،اللہ تعالى كے اسم اعظم كے نزديك ہے_

۱۲_ حسن بن فضال كہتے ہيں ميں نے امام على ابن موسى الرضا سے بسم اللہ كے بارے سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا''معنى قول القائل ''بسم الله'' اسم على نفسى سمة من سمات الله عزوجل و هى العباد (۳) جب كوئي كہتاہے بسم اللہ تو اسكا مطلب يہ ہے كہ اللہ عزوجل كى بندگى و عبادت كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اپنے لئے قرار ديتاہوں _

____________________

۱) معانى الاخبارص۳ح۱،نورالثقلين ج/۱ ص۱۲ح۴۶_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ ص۲۱ ح ۱۳ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸ ح۲۳ ، ۲۵_ ۳) معانى الاخبارص۳ ح۱،نورالثقلين ج/۱ص۱۱ح۴۱_

۲۰