اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 72279
ڈاؤنلوڈ: 2587

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72279 / ڈاؤنلوڈ: 2587
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

چنانچہ اس مطلب کو جابر بن عبد اللہ (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے یوں نقل کیا ہے:

'' خطبنا رسول الله فقال:من ابغضنا اهل البیت حشره الله یوم القیامة یهودیاً وان صام و صلیٰ ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اگر کوئی شخص ہم اہل بیت سے بغض اور عداوت رکھے تو روز قیامت خدا اس کو یہودی بنا کر محشور کرے گا اگرچہ اس نے نماز پڑھی ہو اور روزہ رکھا ہو۔

نیز حافظ نور الدین علی بن ابی بکر،کتاب مجمع الزوائد میں روایت کرتے ہیں:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: .... وان صام و صلی و زعم انه مسلم ،( ۲ )

اگر کوئی ہم اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھے تو اس کے اعمال قابل قبول نہیں،اگرچہ وہ روزہ رکھے ،نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔

تیسری روایت میں فرمایا:

''ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم،قال:والذی

____________________

( ۱ ) ۔میزان الاعتدال ج ۱ ص۲٦ ۹ ۔

( ۲ ) ۔مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱ ۸ ۔

۱۰۱

نفسی بیده لا ینفع عبد عمله الا بمعرفته حقنا ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اللہ کی قسم،کسی بھی انسان کا عمل خیراسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک ہم اہل بیت کے حقوق کی رعایت اور شناخت نہ کرے۔

تحلیل اور اہم نکات:

مذکورہ احادیث میں ،جو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے نقل کی گئیں،واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ نماز، روزہ اور دیگر اعمال کی قبولیت کی جو شرط رکھی گئی ہے وہ اہل بیت کی محبت اور ان کی ولایت و معرفت ہے۔یعنی اگرہم اہل بیت کی محبت، معرفت، ولایت اور ان کے حقوق کی رعایت کئے بغیر دیگر اصول و فروع کے پابند بھی ہوں تو ان روایات و احادیث کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان اعمال کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔

اگر کوئی شخص کہدے کہ فقہی کتابوں میں اعمال صالحہ کی قبولیت کے شرائط میں سے محبت و ولایت اہل بیت کے ہونے کو شیعہ و سنی فقہاء میں سے کسی ایک مجتہد یا مفتی نے بھی ذکر نہیں کیا ہے۔لہٰذا س قسم کی روایات کو کسی اور معنیٰ پر محمول کرنا ہوگا۔

____________________

( ۱ ) ۔،مجمع الزوائد ج ۹ ،ص۱ ۷ ۲

۱۰۲

اس کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ ولایت ومحبت اہل بیت کا مسئلہ،مسائل فقہی میں سے نہیںتاکہ علماء اس کو فقہی مسائل میں بیان کریں ۔بلکہ بنیادی عقیدتی مسائل میں سے ہے۔جیسا کہ اگر کوئی شخص خدا اور رسول (ص)یا معاد اور دیگر اصولوں کے معتقد ہوئے بغیر نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو اس کی نماز کیا نماز کہلائے گی؟اس کا روزہ کیا قابل قبول ہوگا؟

خدا کی مخلوقات میں سے عابد ترین مخلوق فرشتے ہیں۔جب فرشتوں نے اپنے اعمال کی قبولیت کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص)سے سوال کیا تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس وقت تمہارے اعمال خدا کی نظر میں قابل قبول ہیں جب تم ولایت علی ابن ابی طالب (ع)کے قائل ہوں۔

۷) اہل بیت سے محبت کے بغیر جنت ملنامحال ہے

اگرچہ بہت سارے انسان ملحد ہیں جو جنت اور جہنم کے قائل نہیں بلکہ اسی دنیوی زندگی کو آخری زندگی سمجھتے ہیں۔جبکہ تمام الہٰی ادیان کے پیروکار بہشت و جہنم کے معتقد ہیں اور جنت و جہنم کو برحق سمجھتے ہیں۔عقلی اورلفظی دلیلوںکے ذریعے ملحدین کو قائل کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ،کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو جنتی بننے کےلئے صرف صوم و صلاۃ اور دیگر فروع دین کے پابند ہونے کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ فروع دین کے مسائل کا انجام دینا اس وقت کارساز اور مفید ہے جب ہم پہلے بنیادی مسائل کو ٹھیک کریں۔اور اصول دین کا صحیح طریقہ سے معتقد ہوں ۔

۱۰۳

لہٰذا اگر کوئی شخص توحید ،نبوت اور معاد کے معتقد ہوئے بغیر مسائل فرعی کو انجام دے تو یقیناً وہ جنت کا حقدار نہیں بن سکتا۔اسی طرح اگرتوحید ،نبوت اور معاد کا معتقد ہو،لیکن محبت اہل بیت دل میں نہ ہو پھر بھی وہ جنتی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خدا نے محبت اہل بیت کو توحید نبوت اور معاد کے بعد بنیادی شرط قرار دیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف محبت اہل بیت دلوں میں رکھیں باقی دستورات الہٰی کو انجام نہ دیں۔ بلکہ محبت اہل بیت دلوں میں ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کی سیرت پر چلیں۔ان کی سیرت پر عمل کرنے کا مطلب دستورات الہٰی کو انجام دینا ہے۔اسی لئے اہل بیت کی محبت کے بغیر جنت کا ملنا نا ممکن ہے۔

چنانچہ اس مطلب کو نافع بن عمر نے یوں نقل کیا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:من اراد التوکل علیٰ الله فلیحب اهل بیتی و من اراد ان ینجوامن عذاب القبر فلیحب اهل بیتی ومن اراد الحکمة فلیحب اهل بیتی ومن اراد دخول الجنة بغیر حساب فلیحب اهل بیتی'' ۔( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔مقتل الخوارزمی ص۵ ۹ ۔

۱۰۴

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اگر کوئی خدا پر بھروسہ،عذاب قبر سے نجات،حکمت اور بغیر حساب کے جنت میں جانے کا خواہاں ہو تو اسے چاہے کہ میرے اہل بیت سے محبت و دوستی رکھیں-

نیز جابر بن عبد اللہ(ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے:

''قال توسلوا بمحبتنا الی الله تعالی- واستشفعوا بنا فانّ بنا تکرمون و بنا تحبون و بنا ترزقون و محبونا وامثالنا غدا فهم فی الجن -( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:(لوگو!) خدا سے ہم اہل بیت کی محبت اور دوستی کے ذریعہ متوسل ہوجاؤ-اور ہماری محبت کے وسیلہ سے شفاعت مانگو کیونکہ ہم اہل بیت کے صدقے میں تمہارا اکرام ہوتا ہے اور تمہیں روزی دی جارہی ہے اور ہم سے محبت کرنے والے روز قیامت جنت میں داخل ہونگے-

نیز شیخ سعود السجستانی نے اپنی کتاب میں ابن زیاد مطرف سے روایت کی ہے:

''قال سمعت النبی(ص) یقول:من احبّ ان یحیی حیاتی و یموت مماتی و یدخل الجن- التی وعدنی ربی بها وهی جن- الخلد

فلیتول علی بن ابی طالب و ذریته من بعده''-(۲)

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود-ج-۲ ص۶۸

( ۲ ) -کنز العمال ج ۱۱ ص۶۱۱-

۱۰۵

ابن زیاد مطرف نے کہا:کہ میں نے پیغمبر خدا (ع)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:جو شخص ہماری مانند جینا اور مرنا چاہتا ہے اور اس جنت خلد میں جانے کا خواہشمند ہو جس کامیرے پروردگار نے وعدہ دیا ہے تو اسے چاہے کہ حضرت علی (ع)اور ان کی ذریت کی ولایت و سرپرستی کو مان لے-

اسی طرح اور روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

''من سرّه ان یحیی حیاتی و یموت مماتی و یسکن جن- عدن التی غرسها ربی فلیتول علیاً بعدی'' -( ۱ )

جناب ابوذر (ع)نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اگر کوئی شخص میری طرح جینا اور مرنا چاہتا ہے اور جنات عدن کہ جس کو خدا تبارک وتعالی- نے تیار رکھا ہے،میں رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہے کہ وہ میرے بعد حضرت علی –کی ولایت کو قبول کرلے-

توضیح:

ان احادیث سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جنت عدن یا جنت خلد میں داخل ہونے کی شرط محبت اہل بیت ہے،ان کی سرپرستی اور ولایت کو قبول کرنا ہے-

مندرجہ بالا روایات کا خلاصہ :

____________________

( ۱ ) -ترجمہ امام علی (ع)ج ۲ ص۹۸-

۱۰۶

۱-محبت اہل بیت کے بغیر مرنا اور جینا محبت کے ساتھ جینے اور مرنے کے ساتھ فرق کرتا ہے-

۲-محبت اور سرپرستی اہل بیت کے بغیر جنت میں داخل ہونے کا تصور صحیح نہیں ہے-

۳-محبت اور ولایت اہل بیت کے بغیرخدا پر توکل کا دعوی- کرنا یا حکمت اور شفاعت کا دعویدار ہونا اشتباہ ہے-

۴-شفاعت ،اہل بیت کی محبت کے بغیر نا ممکن ہے،نیز اہل بیت کی محبت اور سرپرستی کے بغیر گناہوں کی معافی کا خیال کرنا فضول ہے-

۵-اہل بیت کی محبت کے نتیجے میں پیغمبروں کی شفاعت حاصل ہوگی اگرچہ قرآن کریم کے مسلّم مسائل میں سے ایک مسئلہ شفاعت ہے مگر اس بارے میںمسلمانوں کے درمیان اختلاف نظرا (ع)تا ہے (ع)لیکن اگر ہم احادیث نبوی کا صحیح مطالعہ کریں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی شفاعت روز قیامت ان لوگوں کےلئے ہے جنہوں نے دنیا میں اہل بیت سے محبت اور دوستی رکھی ہو-چنانچہ علامہ بغدادی اس طرح نقل کرتے ہیں:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: شفاعتی لامتی من احب اهل بیتی و هم شیعتی'' -( ۱ )

____________________

( ۱ ) تاریخ بغدادی ج ۳ ص۱۴۶

۱۰۷

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: میری شفاعت میری امت میں سے صرف ان کو نصیب ہوگی جو میرے اہل بیت سے محبت رکھے-کیونکہ وہی میرے سچے پیروکار ہیں-

نیز پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

''عاهدنی ربی ان لا یقبل ایمان عبد الا بمحبته لاهل بیتی'' -( ۲ )

آنحضرت (ص) نے فرمایا:میرے پروردگار نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ کسی بھی بندے کا ایمان اور عقیدہ اہل بیت کی محبت اور دوستی کے بغیر قبول نہیں ہوگ-

تحلیل:

اگرچہ محبت اہل بیت کے بغیر پیغمبر اکرم (ص)کی شفاعت نصیب نہ ہونے کے حوالہ سے احقاق الحق اور کنز العمال جیسی کتابوںمیں بہت زیادہ احادیث ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف مذکورہ حدیث پر اکتفاء کر یں گے- آج کل کچھ ایسے دانشمند اور علماء نظر آتے ہیں جو اپنے حریف اور مقابل کو ناکام بنانے اور اسے غلط فہمی میں ڈالنے کی خاطر فوراً حدیث کی سند پر حملہ کردیتے

____________________

( ۲ ) المناقب ا لمرتضویہ ص۹۹

۱۰۸

ہیں کہ یہ حدیث آپ کے موضوع پر دلیل نہیں بن سکتی (ع)

کیونکہ سند ضعیف ہے لیکن کسی مسئلہ پر کسی حدیث کو دلیل کے طور پر قبول کرنے کے لئے صرف سند کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بہت ساری احادیث سند کے حوالہ سے ضعیف ہے لیکن حدیث کی عبارت یا دوسرے قرینوںسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث ،صحیح ہے اگرچہ سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو-کیونکہ ایسی حدیث کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ غیر معصوم سے ایسی فصاحت و بلاغت پر مشتمل کلام کا صادر ہونا ناممکن ہے-

ہم نے بہت ساری روایات کو اپنے مدعی- کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے-اگرچہ سند ضعیف ہے لیکن اس کے الفاظ ہی حدیث نبوی ہونے کی شہادت دیتے ہیں-کیونکہ معصوم کے کلام اور دوسرے لوگوں کے کلام میں فصاحت و بلاغت کے علاوہ بنیادی فرق یہ ہے کہ معصوم کے کلام کا سرچشمہ قرآن مجید ہونے کی وجہ سے فطرت اور عقل سے ہمآہنگ ہوا کرتا ہے جبکہ دوسرے انسانوں کا کلام یا قرآن کا مخالف ہوگا یا اگر قرآن کے موافق ہے تو فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس میں نقص ہوگ-لہ-ذا غیر معصوم کے کلام میں بہت سارے اشتباہات کا مشاہدہ ہوتا ہے جبکہ معصوم کے کلام میں نہ صرف اشتباہ نظر نہیں آتا بلکہ زمانے کی ترقی اور تکامل کے ساتھ ساتھ ان کی حقانیت زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوجاتی ہے-

۱۰۹

لہ-ذا اگر کوئی اہل سنت کی کتابوں سے فضائل اہل بیت اور ان کی حقانیت پر کوئی روایت اورحدیث بیان کرے تو اس کو ضعیف السند قرار دینا کافی نہیں ہے-بلکہ روایات اور احادیث سے استدلال اس وقت غلط ہے جب وہ حدیث ضعیف- السند ہواور اس کے معصوم سے صادر ہونے پر کوئی قرینہ نہ ہومتواترہ نہ ہو مضمون حدیث کا شر چشمہ قرآن اور عقل نہ ہو لیکن اگر ان قرینوں میں سے کوئی ایک قرینہ بھی کسی حدیث کے ساتھ ہوتو اسے ضعیف السند قرار دے کر ردکرناجہالت اورنافہمی کی علامت ہے (ع)فرقین کے علم رجال کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کہاں حدیث سے استدلال غلط ہے کہاں استدلال صحیح ہے پس اگر کوئی اندھی تقلید اورجاہلانہ تعصب سے ہٹ کر پیغمبر اکرم (ص)کے ان ارشادات پر اور خدا کی طرف سے محبت اہل بیت کو اجر رسالت قرار دئیے جانے پر غور کرے تو نتیجہ یہ ملتاہے کہ پیغمبر اکرم (ص) دشمن اہل بیت کی شفاعت نہیںفرمائیں گے، کیونکہ شفاعت پیغمبر اکرم (ص)نصیب ہونے میں خدا نے اہل بیت کی محبت کو شرط قرار دی ہے اور شرط کے بغیرمشروط کا پانا عقل کے خلاف ہے-لہ-ذااہل بیت کی محبت کے بغیر کوئی عمل اورکام خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں اگرچہ ایمان کے دعوی- کے ساتھ زبان پر شہادتین کا اقرار بھی کرے (ع)

۱۱۰

۸) اہل بیت اہل زمین کے محافظ ہیں

امامیہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کا حدوث وبقاء ہی اہل بیت کے صدقے میں ہے ،جیساکہ ہمارے برادران اہل سنت کی کتابوں میں بھی کچھ اس طرح کی حدیثیں نظر آتی ہیں کہ اہل بیت اہل زمین کے محافظ ہیں یعنی جس طرح آسمانی مخلوقات چاہے نوری ہو یاخاکی جاندار ہو یابے جان ،خدا نے ان کی حفاظت کے لئے ستاروں کو خلق فرمایا ہے اسی طرح اہل زمین کی حفاظت کی خاطر اہل بیت کو خلق فرمایا ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم (ص)نے یوں بیان فرمایاہے :

''النجوم امان لاهل السماء فاذا ذهبت النجوم ذهبت السماء واهل بیتی امان لاهل الارض فاذا ذهبت اهل بیتی ذهبت الارض -''( ۱ )

ستارے آسمانی مخلوقات کی نجات اور حفاظت کاذریعہ ہیں لہ-ذا اگر ستارے

ختم ہوجائے تو آسمانی مخلوقات نابود ہوںگی اورمیرے اہل بیت انسانوں اوراہل زمین کی نجات اور امان کا ذریعہ ہیںلہذا اگر زمین میرے اہل بیت سے خالی ہوجائے تواہل زمین نابود ہونگے (ع)

نیز حموینی نے اپنی سند کے ساتھ اعمش سے وہ امام جعفر صادق(ع)سے اور آپ- اپنے آباء واجداد میں سے حضرت علی بن حسین(ع)سے روایت کرتے ہے:

____________________

( ۱ ) -ینابع المود-ج۱،ص،۱۹،-

۱۱۱

''قال :نحن ائم- المسلمین وحجج اللّه علی العالمین وساد- المؤمنین قاد- الغر المحجلین وموال المسلمین ونحن امان لاهل الارض کماان النّجوم امان لاهل السماء ونحن الذین بناء تمسک السماء ان تقع علی الارض الاباذن الله وبناینزل الغیث وتنزل الرحم- ، وتخرج برکات الارض ولولاماعلی الارض منّا لانساخت باهلها ثم قال ولم تخل الارض منذ خلق اللّه آدم علیه السلام من حج- اللّه فیها ظاهر ومشهود او غائب مستور ولاتخلوا الی ان تقوم الساع- من حج- فیها ولولا ذالک لم یعبداللّه '' -( ۱ )

حضرت امام سجاد (ع)نے فرمایا: ہم (اہل بیت ) مسلمانوں کے پیشوا اور کائنات پر خدا کی طرف سے حجت ،مومنین کے مولی- وآقا اورمسلمانوں کے سردار ہیں اور جس طرح ستارے آسمانی مخلوقات کے محافظ ہیں اس طرح ہم اہل زمین کے محافظ ہیں ہماری وجہ سے خدا نے آسمان کو زمین پر گر کرتباہی مچانے سے روک رکھا ہے اور ہمارے صدقے میں بارشیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور زمین کی برکتیں نکالی جاتی ہے- اگر کرہ ارض ایک لحظہ کے لئے اہل بیت سے خالی ہوجائے تو

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود-، ج۱،ص۲۰،

۱۱۲

زمین اہل زمین سمیت نابود ہوجائے گی (ع)اسی لئے خدا نے جب سے آدم(ع)کو خلق کیا ہے زمین کوحجت خدا سے خالی نہیں رکھا (ع)چاہے حجت خدا کھلم کھلا لوگوں کے درمیان موجود ہوںیالوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی ہوںاوریہ سلسلہ تاروز قیامت جاری رہے گا (ع)اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی خدا کی عبادت اور پرشتش نہ ہوتی (ع)

اہم نکات:

مذکورہ حدیث سے ستاروں اور کہکشانوں کی خلقت اور اہل بیت کی خلقت کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے ، یعنی ستاروں کو خدا نے آسمانی مخلوقات کےلئے امان بنا کرخلق کیاہے جبکہ اہل بیت کو بشر اوراہل زمین کےلئے امان بنا کر خلق کیاہے لہ-ذا ستاروں سے آسمانی مخلوقات کی حفاظت ہوتی ہے اور اہل بیت کے اہل زمین کی حفاظت ہوتی ہے-

خلاصہ کلام یہ کہ اگر بشر ایسی انسان سازاحادیث کا غور سے مطالعہ کرے تو کئی مطالب واضح ہوجاتے ہیں ، کائنات کے تمام مسائل میں اہل بیت کی نمایندگی اور رہنمائی ضروری ہے اوران کی ہدایت کے بغیر انحراف اور مفاسد کے علاوہ کچھ نہیں ہے(ع)چاہے اعتقادی مسائل ہوں یافقہی ، سیاسی ہوںیاسماجی ، اخلاقی ہوںیافلسفی ہرمسئلہ کا سرچشمہ اہل بیت کوقرار نہ دینے کی صورت میں ہماری ہدایت اور تکامل ناممکن ہے(ع)کیونکہ اہل بیت کے وجود کافلسفہ ہماری قیادت اور ہدایت ہے انکی سیرت کو ہمیشہ کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دینے کی صورت میں پشیمانی اورندامت سے دوچار ہوگ-

۱۱۳

نیز پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے ،آنحضرت (ص)نے فرمایا: آسمانی مخلوقات کے محافظ ستارے ہیں جبکہ اہل بیت ،اہل زمین کےلئے امان کا ذریعہ ہیں:

''النجوم امان لاهل السماء واهل بیتی(ع)امان لاهل الارض'' ( ۱ )

تب ہی تو قرآن مجید میں خدا نے اہل بیت کو وسیلہ نجات اور ان کے اقوال وافعال کو نمونہ عمل قرار دیا ہے لہذا ان کے بغیرروز قیامت نجات ملنے کا تصور کرنا یادنیا میںکامیاب انسان ہونے کا سوچ فضول ہے (ع)

پیغمبر اکرم (ص)نے صاف لفظوں میں فرمایا: میری رسالت کاصلہ صرف میری اہل بیت کی محبت ہے میری شفاعت صرف میرے اہل بیت سے دوستی اور محبت رکھنے کی صورت میں نصیب ہوگی جس سے واضح ہو جاتاہے حقیقی مسلمان وہ ہے جواہل بیت کو اپنے کاموں میں اسوہ اور نمونہ قرار دے(ع)لہذا ابوذر (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ جس طرح نوح (ع)کی امت کے لئے نوح (ع)کی کشتی نجات کاذریعہ تھا ، اسی طرح امت محمدی- کی نجات کاذریعہ اہل بیت ہیں-

____________________

( ۱ ) -فرائدالسمطین ، ج۲،ص،۲۵۲حدیث۵۲۱-

۱۱۴

فرمایا:ان مثل اهل بیتی فیکم مثل سفین- نوح من رکبها نجا ومن تخلف عنها هلک (ع) ( ۱ )

میرے اہل بیت ،حضرت نوح(ع)کی کشتی کی مانند ہے جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا جس نے اس سے منہ پھیرا وہ ہلاک ہوگی-

اہم نکات:

اس حدیث سے بخوبی درک کرسکتے ہیں کہ حضرت نوح (ع)کی امت کو جب نوح(ع)نے ہزار بار سمجھایا مگر ایمان نہ لائے تو آخر خدا سے دعا کی پالنے والے یہ امت قابل ہدایت نہیں ہے میں کیا کروں؟ خدا کی طرف سے حکم ہوا کشتی بناو(ع)کشتی تیار کی ،جو اس پر سوار ہوا وہ زندہ رہا (ع)جس نے اس سے منہ پھیرا وہ ہلاک اور نابود ہوگی- اس طر ح اگر ہم اہل بیت کو مانیں اور ان کی معرفت اور شناخت حاصل کرلیں تو قیامت کے دن ہم بھی نجات پاسکتے ہیں لیکن اگر ان سے منہ پھیرا

تو یقینا نابود ی ہی ہمارا مقدر ہوگا (ع)

جیساکہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

'' یاعلی سعد من اطاعک وشقی من عصاک وربح من تولاک وخسر من عاداک فاز من رکبها نجی--ومن تخلف عنها

____________________

( ۱ ) - ینا بیع المود-ج۱،ص۲۶ ،

۱۱۵

غرق مثلک کمثل النجوم کلما غاب النجوم طلع نجم الی یوم القیام - (ع)''( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:(یاعلی (ع)!) تیری اطاعت کرنے والا سعادتمند اورنافرمانی کرنے والا بد بخت ہے(ع)جس نے تیری سرپرستی اور ولایت کو قبول کیا اس نے نفع پایا ،جس نے تجھ سے دشمنی کی اس نے نقصان اٹھای-جو تجھ سے متمسک رہا وہ کامیاب ہے اورجس نے تیری مخالفت کی وہ ہلاک ہو- اے علی (ع)تو اور تیرے جانشین حضرت نوح(ع)کی کشتی کی مانند ہیں جواس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا جس نے منہ پھیرا وہ غرق ہوگی- اے علی (ع)! تو ستاروں کی مانندہے کہ روز قیامت تک ایک ستارہ غروب کرجائے تو دوسرا طلوع کرتا رہے گ-

نیز ابو ہریرہ نے پیغمبراکرم (ص)سے روایت کی ہے :

قال رسول الله : اناا للّه المحمود وهذا محمد وانا العالی وهذا علی واناالفاطروهذه فاطم- واناالاحسان وهذا الحسن وانا المحسن وهذا الحسین آلیت بعزتی انّه لایأتیی احد بمثقال حب- من خردل من بغض احدهم الا ادخله ناری ولاابالی یاآدم ه-ولآء صفوتی بهم انجّیهم وبهم اُهْلِکُهم فاذا کان لک اليّ حاج- فبه-و

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود- ج۱،ص ۱۳۰-

۱۱۶

ئل-اء توسل فقال النبی(ص) نحن سفین- النج- من تعلق بها نجاومن عاد عنها هلک فمن کان له الی الله حاج- فلیسال عن اهل بیت ( ۱ )

حضرت پیغمبراکرم (ص)نے فرمایاکہ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت آدم-کو ان پانچ نوروں کا نام بتایا کہ جن کاحضرت آدم (ع)نے مشاہدہ کیا تھا اے آدم (ع)ان پانچ کانام میرے نام سے مشتق ہے یعنی میں محمود ہوں یہ محمد(ص) ہے میں عالی ہوںیہ علی (ع)ہے میں فاطر ہوں یہ فاطمہ (س) ہے میں احسان ہوں یہ حسن (ع)-ہے میں محسن ہوں یہ حسین(ع)ہے پھر فرمایا اپنی ذات کی قسم ایک ذرہ بھی جس کے دل میں ان کی دشمنی اور کینہ ہو اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے ایسا کرنے پر کوئی پروا نہ ہوگی (ع)اے آدم (ع)! یہ میرے برگزیدہ بندے ہیں ان کے صدقے میں لوگ نجات پائےںگے (یعنی ان سے محبت اور دوستی کرنے کے نتیجے

میں نجات ملے گی اور ان سے دشمنی اوربغض رکھنے کانتیجہ ہلاکت اور نابودی ہوگا) جب تجھے مجھ سے کوئی حاجت ہو توان کے وسیلہ سے مانگو پھر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ہم نجات کی کشتی ہیں جو اس سے منسلک رہا وہ نجات پاگیااور جو اس سے جدا رہا وہ نابود اور ہلاک ہو- لہذا جس کو خدا سے کوئی حاجت ہو توہم اہل بیت کے وسیلہ سے مانگیں-

____________________

( ۱ ) -فرائدالسمطین ، ج۲،ص،۲۵۲حدیث۵۲۱-

۱۱۷

تحلیل :

مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے اہل بیت کو وسیلہ بنا کر خدا سے مانگنے کو بدعت قرار دینا غلط ہے کیونکہ خدا نے ہی اہل بیت کواپنے اور بندوںکے درمیان وسیلہ قرار دیاہے، اہل بیت کے وسیلہ کے بغیر حاجت روائی نہیں ہوسکتی- لہذا اہل بیت کے وسیلہ سے خدا سے طلب حاجت کرنا نہ صرف بدعت نہیں ہے بلکہ اہل بیت کو وسیلہ قرار دینا خدا اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت ہے اوراہل بیت کو وسیلہ قرار دینا حاجت روائی کی شرط ہے (ع)

علامہ قندوزی نے روایت کی ہے :

قال علی (ع): قال رسول اللّه: من احب ان یرکب سفین- النج- ویتمسک بالعرو- الوثقی ویعتصم بحبل اللّه المتین فیوال علیاً ویعاد عدوه ولیأتم بالائم- الهد- من ولده فانّهم خلفائی واوصیائی وحجج الله علی خلقه من بعدی وسادات امتی وقواد الاتقیاء الی- الجن- حزبهم حزبی وحزب الله وحزب اعدائهم حزب الشیطان (ع)( ۱ )

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود- ، ص۴۴۵

۱۱۸

حضرت علی (ع)فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:جونجات کی کشتی پر سوار ہونا اور اللہ تبارک وتعالی کی مضبوط رسی سے متمسک رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ علی بن ابی طالب (ع)سے محبت اور دوستی رکھے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھے اور ان کی نسل سے آنے والے اماموں کی پیروی کرے (ع)کیونکہ وہ میرے بعد حجت خدااور خلیفہ الہی اور میرے وصی وجانشین ہیںاور یہی لوگ میری امت کے سردار اور بہشت کی طرف دعوت دینے والے پیشوا ہیں ان کی جماعت میری جماعت ہے، میری جماعت، اللہ کی جماعت ہے اور ان کے دشمنوںکی جماعت شیطان کی جماعت ہے (ع)

تحلیل :

اس حدیث سے درج ذیل مطالب واضح ہوجاتے ہیں :

اہل بیت ، پیغمبراکرم (ص)کے جانشین ہیں(ع)اہل بیت ، خلیفہ الہی ہیں- اہل بیت سے تمسک، خدا اور رسول (ص)سے تمسک ہے- جو اہل بیت سے بغض رکھے وہ شیطان کی جماعت کا رکن ہے-

۱۱۹

۹)اہل بیت کی محبت، دین کی بنیادہے

احادیث نبوی میں دین اسلام کو شجرہ طیبہ، نور، پہاڑ، خزانہ اور کبھی دریااور سمندر وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے (ع)اگر ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان الفاظ او تشبیہات کا معنی صحیح طور پر سمجھ لیںتو مسلمانوںکے بہت سارے اختلافی مسائل چاہے اعتقادی ہویافقہی یااخلاقی ،کاحل بخوبی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اسلام اور قرآن وسنت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم حقیقی مسلمان بن جائےں اورہمارے درمیان یک جہتی اور اتفاق ہواگرچہ صوم اور صلو- یادیگر فقہی مسائل میں اختلاف ہی کیوں نہ ہوں (ع)کیونکہ اسلام اور دین صرف مسائل فقہی کے مجموعہ کانام نہیں بلکہ اسلام ایک ایسا ضابطہ ئحیات ہے جو مادی اور معنوی تمام دستورات پر مشتمل ہونے کے ساتھ عقل اور فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اگر ہم احادیث نبوی(ص)کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل اسلام میں نہ ہو (ع)ہاں کچھ مسائل اس طرح کے ہیں کہ جن کو قبول نہ کرنے کی صورت میں باقی سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے اورخدا کی نظر میں قابل قبول نہیں رہتا ان بنیادی مسائل میں سے ایک محبت اہل بیت ہے،کیونکہ محبت اہل بیت کے بغیر کوئی بھی عمل اور عقیدہ خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں (ع)چنانچہ اس مطلب کو علامہ ابن حجرمکی نے یوں نقل کیا ہے :

قال سمعت رسول اللّه یقول لکل شیءٍ اساس واساس الدین حبنّا اهل البیت - ( ۱)

جناب جابر (ع)نے کہا کہ : میں نے پیغمبر اکرم (ص)کو یہ فرماتے

____________________

( ۱ ) -مناقب المرتضویہ ص۳۱۴-

۱۲۰