اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 72280
ڈاؤنلوڈ: 2587

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72280 / ڈاؤنلوڈ: 2587
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

ہوئے سنا کہ:ہر چیز کی ایک بنیاد اور جڑ ہوا کرتی ہے اور اسلام کی جڑ اور بنیاد ہم اہل بیت کی محبت ہے (ع)

نیز صاحب کنز العمال نے امام علی (ع)سے روایت کی ہے:

قال :قال رسول (ص) اللّه: یاعلی ان الاسلام عریان لباسه التقوی وریاسته الهدی وزینته الحیا وعماده الورع وملاکه العمل الصالح، اساس الاسلام حبی وحب اهل بیتی -(ع)( ۱ )

'' پیغمبر اکرم (ص)نے (مجھ سے )فرمایا:اے علی (ع)اسلام عریان ہے اور اس کا لباس تقوی اور اس کی ریاست ہدایت، اس کی زینت حیا،اس کا ستون پرہیزگاری ، اس کامعیار و ملاک عمل صالح اور اس کی جڑ اور بنیاد ہم اہل بیت کی محبت ہے (ع)

تحلیل:

لسان المیزان اورکنزل العمال جیسی اہل سنت کی معتبر کتابوں میں ایسی بہت ساری روایات ہیں کہ جن سے یہ بات مسلم اور واضح ہوجاتی ہے کہ

دین اسلام کی جڑ اور بنیاد اہل بیت کی محبت ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت کی محبت کے بغیر کوئی بھی عمل خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے (ع)

____________________

( ۱ ) -کنزالعمال ، ج۱۲،ص۱۵-

۱۲۱

۱۰) اہل بیت اورپیغمبر اسلام (ص)کے درمیان کیا جدائی ممکن ہے ؟

بہت ہی جسارت کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ مسلمانوں میں سے بعض کے عمل میں تضاد روی نظر آتی ہے- یعنی ایک طرف وہ قرآن وسنت اور پیغمبر اکرم (ص) کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف علی (ع)اور اہل بیت رسول سے دشمنی اوربغض رکھتے ہیں (ع)تعجب یہ ہے کہ ان کی نظر میں اہل بیت پیغمبر اور علی (ع)کی دشمنی اور بغض کے ساتھ پیغمبراکرم (ص)سے محبت اور دوستی ہوسکتی ہے اوراہل بیت سے محبت کئے بغیر قرآن وسنت کا قائل ہوتو مسلمان رہ سکتے ہیں جب کہ اگر ہم سنت نبوی اور قرآن کریم کی آیات کا صحیح مطالعہ کریں تو یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اہل بیت کے ساتھ بغض اور دشمنی رکھنا قرآن و سنت نبوی کی کھلی مخالفت ہے نہ متابعت کیونکہ قرآن نے واشگاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ اہل بیت کی محبت رسالت کاصلہ ہے اور احادیث نبوی کے رو سے یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اہل بیت وسیلہ نجات ہیں ، اہل بیت مخلوقات الہی کے محافظ ہیں اور روز قیامت انہی کی شفاعت سے خدا مسلمانوں کو نجات دیں گے- حدیث ثقلین،حدیث سفینہ اور دوسری بیسیوں روایات سے جنہیں فریقین کے بزرگ محدثین نے نقل کی ہیں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ علی (ع)اور دیگر اہل بیت کی محبت کے بغیر پیغمبر اکرم (ص)سے محبت اور دوستی کا دعوی کرنا فضول اورغلط ہے (ع)عمار یاسر نے روایت کی ہے :

۱۲۲

انّ النبی (ص) قال :اوصی من آمن بی وصدّقنی من جمیع الناس بولای- علی بن ابی طالب من تولاه فقد تولانی ومن تولانی فقد تولی الله ومن احبه فقد احبنی ومن احبنی فقد احب اللّه ومن ابغضه فقد ابغضنی ومن ابغضنی فقد ابغض الله ( ۱ ) -

بے شک پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: مجھ پر ایمان لانے والے اور میری رسالت کی تصدیق کرنے والے تمام لوگوں کو علی بن ابی طالب(ع)کی ولایت کی وصیت کرتا ہوں، جوان کی ولایت کو مانے بتحقیق اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے خدا کی ولایت کو مان- اورجس نے علی (ع)سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی ہے جوعلی (ع)سے بغض رکھے اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے،اور جو مجھ سے بغض رکھے اس نے خدا سے دشمنی کی ہے (ع)

اہم نکات:

اس حدیث میں خدا ، پیغمبراکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کی سرپرستی اور

____________________

( ۱ ) -کنز العمال ج۱۱ ص۴۰۱-

۱۲۳

ولایت کو ایک جیسا قرار دیا ہے اگر کوئی علی (ع)کی ولایت کو قبول نہ کرے تواس نے ا للہ اور رسول (ص)کی ولایت کوبھی قبول نہیں کی ہے ،اور جو علی (ع)سے دوستی نہ رکھے اس نے خدا اور پیغمبر اکرم (ص)سے بھی دوستی نہیں کی ہے اگرچہ زبان سے خدا اور رسول (ص)کی محبت کے دعویدارہی کیوں نہ ہوں-اس مضمون کی احادیث اہل سنت کی کتابوں میں بہت زیادہ ہیں جیسا کہ ابن عباس (رض)سے روایت ہے :

خرج رسول الله(ص) قابضاعلی ید علی (ع) ذات یوم فقال الامن ابغض هذا فقد ابغض الله ورسوله ومن احب هذا فقد احب الله ورسوله -( ۱ )

ایک دن پیغمبراکرم (ص)حضرت علی (ع)کے دست مبارک کو تھام کر باہر نکلے اور فرمایا (اے لوگو) آگاہ ہو کہ جس نے علی (ع)کے ساتھ دشمنی کی بتحقیق اس نے خدا اور اس کے رسول (ص)سے دشمنی کی ہے اور جو علی (ع)کے ساتھ دوستی رکھے یقیناً اس نے خدا اور اس کے رسول (ص)سے محبت کی ہے- اسی طرح خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب مناقب میں روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے علی (ع)سے خطاب کرکے فرمایا:

من احبک فقد احبنی وحبیک حبیب الله (ع)( ۲ )

____________________

( ۱ ) کنزالعمال، ج۱۳،ص۹۰۱

( ۲ ) مناقب ص ۲۱۳

۱۲۴

جو تجھ سے محبت اور دوستی رکھے اس نے مجھ سے محبت کی ہے جو تمہارا دوست ہے وہ خدا کا دوست ہے (ع)

اہم نکات:

تاریخ بغدادی، ینابیع المود-، مجمع الزوائد، لسان المیزان، مناقب مرتضویہ، فرائدالسمطین جیسی اہل سنت کی معتبرکتابیں اہل بیت کی فضیلت اور مقام و منزلت بیان کرنے والی احادیث سے بھری ہوئی ہیں لیکن مضحکہ آمیز بات یہ ہے کہ ایک طرف سے قرآ ن مجید اور پیغمبر اکرم (ص)کے معتقد ہونے کا دعویدار ہیں جبکہ دوسری طرف اہل بیت بالخصوص حضرت علی (ع)کی محبت اور ولایت کا معتقد نہیں ہے(ع)کیا حضرت علی (ع)اور دیگراہل بیت سے محبت اور ان کے معتقد ہوئے بغیر خدا اور اس کے رسول (ص)سے محبت ہوسکتی ہے؟ جبکہ مذکورہ روایات اور احادیث میں صاف لفظوں میں فرمایا: خدا اوراس کے رسول (ص)کی ولایت کو ماننا اور ان سے محبت اور دوستی اس وقت ہوسکتی ہے جب حضرت علی (ع)اور اہل بیت سے محبت ودوستی رکھے اور ان کی ولایت کو مانے-

چنانچہ سعید ابن جبیر (ع)نے ابن عباس (رض)سے روایت کی ہے:

قال رسول الله (ص):یا علی لا یحبک الا طاهر الولاد- ولا یبغضک الا خبیث الولاد- وماا خبرنی ربی عز و جلّ الی- السماء وکلمنی ربی الا قال یا محمد تقراء علیاً منی السلام انّه امام اولیائی و نور اهل طاعتی و هنیأاً لک ه-ذه الکرام

۱۲۵

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اے علی (ع)! تم سے سوائے حلال زادہ کے اور کوئی محبت نہیں کرتا اور سوائے حرام زادہ کے اور کوئی دشمنی نہیں رکھتا اور خدا نے مجھ سے معراج پر لے جاتے وقت کوئی گفتگو نہیں کی مگر فرمایا:اے محمد(ص)! میری طرف سے علی (ع)کو سلام کہنا کیونکہ وہ میرے دوستوںکا پیشوا ، اور میری اطاعت کرنے والوں کا نورہے اور یہ عزت و احترام اور اعزاز تجھے مبارک ہو-( ۱ )

عجیب بات ہے کہ اس حدیث میں علی (ع)سے محبت رکھنے والوں کو طیب الولاد- اور بغض رکھنے والوں کو خبیث الولاد-سے تعبیر کیا گیا ہے-جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حلال زادہ کبھی بھی علی (ع)سے بغض نہیں رکھت-لہ-ذا علی (ع)سے دشمنی اور بغض کا سبب یہ بتایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کی ولادت ناپاک ہو تو وہ علی (ع)سے دشمنی اور بغض رکھتا ہے،جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے-

۱۱)اہل بیت ،پیغمبر (ص)کے مدد گارہیں

ابو نعیم الحافظ نے ابو ہریرہ ، ابو صالح ، ابن عباس اور حضرت امام جعفر صادق(ع)سے روایت کی ہے :

فی قوله تعالی-:: ( هو الذی ایدک بنصره و بالمومنین ) قال

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود- ج۱ص۱۳۲-

۱۲۶

نزلت فی علی و ان رسول الله قال رایت مکتوباً علی العرش لا ال-ه الا الله وحده لا شریک له محمد(ص)عبدی و رسولی ایدته و نصرته بعلی (ع) بن ابی طالب ( ۱ )

امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا کہ: خدا کا یہ قول'' ایدک ....''حضرت علی (ع)کی شان میں نازل ہواہے اور پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا :''میں نے عرش پر یہ لکھا ہوا دیکھا کہ للہ کے سوا کوئی اور معبودنہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے محمد(ص)میرا بندہ اور رسول ہے ، میں نے علی بن ابی طالب (ع)کے ذریعہ اس کی مدد کی (ع)''

نیز القاضی نے ابی الحمراء سے روایت کی ہے :

قال رسول الله(ص) لما اسری بی الی السماء اذا علی العرش مکتوب ٌ لااله الاّ اللّه محمد(ص) رسول اللّه ایدته ب علی (ع) (ع)( ۲ )

ابو الحمراء نے کہا کہ : پیغمبر (ص)نے فرمایا:جب مجھے معراج کے سفرپر لے جایا گیا تو عرش پر یہ جملہ لکھا دیکھا کہ خدا کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، محمد(ص)اس کا رسول ہے اور میں نے علی ابن ابی طالب (ع)کے ذریعہ اس کی مدد کی (ع)

____________________

( ۱ ) -ینابیع المودہ ج ۱ص۹۳-

( ۲ ) -مجمع الزوائدج۹ص۱۲۱

۱۲۷

تحلیل:

اگرچہ اہل سنت کی کتابوں میں حضرت علی (ع)کے پیغمبراکرم (ص)کے مددگار ہونے سے متعلق متعدداحادیث اور تاریخی کتابوں میں بہت سار ے واقعات موجود ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف مذکورہ دو حدیثوں پر اکتفا کروں گاکیونکہ مذکورہ روایتوں میں پیغمبراکرم (ص)نے صریحاً فرمایا کہ حضرت علی (ع)کو خدا نے پیغمبر اکر م (ع)کی مدد اور نصرت کے لئے خلق فرمایاہے(ع)جب خدا نے حضرت علی (ع)کو خلق ہی اسلام اور پیغمبراکرم (ص)کی مدد اور نصرت کے لئے کیا ہو تو کیا پیغمبراکرم حضرت علی (ع)سے یاعلی (ع)مدد یااس طرح کے دوسرے الفاظ کہکر مدد مانگیں تو نعوذ باللہ کیا آپدین سے خارج ہوگئے؟ کیونکہ خدا نے خود فرمایا: ''ایدک بنصرہ وبالمومنین ''لیکن ہم یا علی (ع)مدد کہنے کو بدعت قراردیتے ہیں یہ نہ صرف بدعت نہیں ہے بلکہ ا (ع)ی- شریفہ کے عین مطابق ہے لہذا بدعت کافتوی- دینا حقیقت میں استنبا ط اور تفکر کی کمزوری اور سیرت اہل بیت سے نا آشنائی کا نتیجہ ہے- کئی احادیث میںحضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: میں اور علی (ع)خدا کے نور سے خلق ہوئے ہیں- ہم ہدایت کے چراغ ہیں ، ہم لوگوں کو ضلالت اور گمراہی سے نجات دیتے ہیں ایسے مطالب اور احادیث سے برادران اہل سنت کی معتبر حدیث کی کتابیں پُر ہیں-جیسے در منثور(طبع قدیم) شواہدالتزیل،تفسیر بیضاوی ، صواعق المحرقہ، ینابیع المود- ، مناقب مر تضویہ یاکنزالعمال وغیرہ-

لہذا اگر ہم اہل بیت کی سیرت کو تمام امور میں نمونہ عمل قرار دے تو بہت سارے مسائل کا حل مل سکتاہے،

۱۲۸

۱۲)اہل بیت امت میں سب سے زیادہ دانا ہیں

ہر معاشرے میں علم وعمل کے پابند افراد کو بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے- چاہے مسلم ہو یاکافر ہر ایک کی نظر میں علم اور فہم رکھنے والے افراد قابل احترام ہے (ع)ان کامقام ومنزلت دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہے دین مقدس اسلام اور اسلامی معاشرے کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے ماننے والے مسلمانوں میں سب سے بڑا عالم اور جاننے والاکون تھا ؟جس کا جواب قرآن وسنت سے یوں ملتا ہے:

فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لاتعلمون

اہل سنت کے مفسرین میں سے بہت سارے مفسرین نے اہل الذکر سے اہل بیت مراد لیاہے(ع)جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہل بیت سے سوال کرووہ جانتے ہیں اس آیت سے اہل بیت کاعالم ہونا ثابت ہوتاہے کیونکہ خدا نے سوال کرنے کا حکم دیاہے (ع)اگر اہل بیت ہر مسئلہ سے آگاہ اور باخبر نہ ہوتے تو خدا کانہ جاننے والوں کو ان سے پوچھنے کا حکم دینا لغو ہوجاتا ہے جبکہ رب حکیم کا حکم لغو نہیں ہوسکت- نیز آی- میں خدا نے'' لاتعلمون'' کے متعلق کو ذکر نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ کوئی

۱۲۹

بھی بات یا مشکل مسئلہ خواہ اعتقادی ہو یا فقہی، اقتصادی ہو یا اخلاقی ،نظری ہو یابدیہی ،عقلی ہویا فطری ،سماجی ہو یاسیاسی جنہیںتم نہیں جانتے اہل بیت سے پوچھو-کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد اہل بیت کا سب سے دانا ہونا آیت سے بخوبی واضح ہوجاتاہے(ع)نیز اہل بیت سے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسئلہ کا مرجع اہل بیت ہیں (ع)اسی طرح وہ احادیث جن میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کہ اہل بیت میرے بعد امت کے پیشوا ہیں اورحجت الہی ہیں ، امت کے ہادی ہیں- ان تمام روایات سے بھی اہل بیت کا سب سے زیادہ عالم ہونا ثابت ہوجاتا ہے-نیز بعض احادیث میںہر ایک اہل بیت کی علمی برتری کو الگ لگ بھی بیان کیاگیاہے ،جیسے:

انّه قال: اعلم امتی من بعدی علی بن ابی طالب ( ۱ )

آنحضرت (ص)نے فرمایا: کہ میرے بعد میری امت میں دانا ترین ہستی علی بن ابی طالب- ہیں-

اس حدیث کی تائید کے لئے دانشمند حضرات حضرت علی (ع)کے ان نوارنی کلمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ جن میں پوری کائنات کے حقائق سے لوگوں کو باخبر کردیاہے نہج البلاغہ میں کئی ایسے خطبے ہیں کہ جن کو سمجھنا عام انسانوں کی بس سے

____________________

( ۱ ) -۱-ہندی متّقی:کنزالعمال:ج۶ص۱وج۱۱ص۶۱۴ح۳۲۹۷۷و

۲- ابن بطریق:فتح الملک العلی ص۷۰ط:مکتب- الامیرالمومنین اصفہان

۱۳۰

باہر ہے(ع)آپ (ع)نے چودہ سو سال پہلے آج کل کے ترقی یافتہ دور کے ایجادات و انکشافات اور ٹکنالوجی کی پیش گوئی کی تھی-جس سے آپ (ع)کے علم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے (ع)تبھی تو پیغمبر (ص)نے فرمایا:

'' علی بن ابی طالب خلیف- الله وخلیفتی وخلیل الله وخلیلی وحج- الله وحجّتی وباب الله وبابی وصفی الله وصفیی وحبیب الله وحبیبی وسیف الله وسیفی وهو اخی وصاحبی ووزیری وحبّه حبی وبغضه بغضی ووليّه وليّ وعدوّه عدوّی وزوجته ابنتی وولده ولدی وحزبه حزبی وقوله قولی وامره امری وهو سید الوصيّن وخیر امتی-'' (۱ )

آنحضرت (ص)نے فرمایا:علی (ع)خدا کا خلیفہ اور میراجانشین ہے علی (ع)خدا کا اور میرادوست ہے اور علی (ع)خدا اورمیری جانب سے حجت ہے علی (ع)خدا کا اورمیرا دروازہ ہے اور علی (ع)خدا کی اور میری برگزیدہ ہستی ہے علی (ع)خدا کا اور میرا دوستدار ہے علی (ع)خدا کی اور میری تلوار ہے ، علی (ع)میرا بھائی ، ساتھی اوروزیر ہے، اس سے دوستی مجھ سے دوستی ہے اس سے بغض اور دشمنی مجھ سے بغض اور دشمنی ہے، اس کا دوست میرا دوست اور اس کا دشمن میرا دشمن ہے ان کی شریک

____________________

( ۱ ) -۱-ہندی متّقی:کنزالعمال:ج۱۱ص۶۳۴حدیث۳۲۰۸۹

(۲)الحاکم الحسکانی:شواہد التنزیل:ص۴۸۹

۱۳۱

حیات میری بیٹی ہے ان کا فرزند میرا فرزند ہے اس کی جماعت میری جماعت ہے اس کا قول میرا قول اور اس کا حکم میرا حکم ہے وہ تمام اوصیا کا پیشوا اور میری امت میں سب سے بہتر و افضل ہے (ع)

اسی طرح ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

لو یعلم الناس متی- سمی علی امیرالمؤمنین ماانکروا فضله سمّی بذالک وآدم بین الروح والجسد قال الله الست بربّکم قالوابلی فقال تعالی انا ربّکم ومحمد نبيّکم وعلی امیرکم (ع)( ۱ )

اگر لوگ علی (ع)کو امیر المؤمنین کا لقب ملنے کا زمانہ جانتے تو ہرگز اس کی فضیلت اوربرتری سے کوئی انکار نہ کرتا ( لوگو آگاہ رہو) علی (ع)کو امیرا لمؤمنین کا لقب اس وقت دیا گیا ہے جب حضرت آدم(ع)کی روح اور بدن باہم ترکیب نہ ہواتھا اس وقت خدا نے فرمایا : کیا میں تمہارا پرور دگار نہیں ہوں کہنے لگے آپ ہمارے پرور دگار ہے پھر خدا نے فرمایا: میں تمہاراپروردگار ہوں محمد تمہارا بنی ہے علی (ع)تمہارا امیرہے (ع)

اس حدیث کی مانند بہت ساری احادیث اہل سنت کی کتابوں میں موجودہیں جن کا مطالعہ کرنا دور حاضر کے حالات اور حوادث کے پیش نظر ضروری

____________________

( ۱ ) -مناقب المرتضویہ ، ص۱۰۲ (ع)

۱۳۲

ہے کیونکہ آج وہ دور دوبارہ لوٹ کر آیا ہے جس میں احادیث نبوی(ص)کی نشرو اشاعت پر پابندی تھی ،صرف یہ فرق ہے کہ اس وقت حدیث کا بیان کرنا ممنوع تھا جبکہ اس دور میں کتابوں سے فضائل اہل بیت اور ان کے مناقب پر مشتمل روایات اور احادیث نبوی(ص)کو حذف کیا جاتا ہے (ع)نیز ابو ہریرہ نے روایت کی ہے :

قال: قیل یارسول الله متی وجبت لک النبو- قال النبی (ص) قبل ان یخلق الله آدم ونفخ الروح فیه وقال واذا اخذ ربک من بنی آدم من ظهور هم ذریتهم واشهدوا هم علی- انفسهم الست بربکم قالوا بلی فقال انا ربّکم الاعلی ومحمدنبيّکم وعلی امیرکم (ع)( ۱ )

ابو ہریرہ نے کہاکہ: پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا کب آپ کو نبوت کا منصب ملا ہے ؟ آنحضرت (ص)نے فرمایا: مجھے نبوت کا منصب اس وقت ملا جب خدا نے حضرت آدم- کو خلق نہیں کیا تھا اور ان کے ڈھانچہ میں روح نہ پھونکی گئی تھی پھر جب خدا نے بنی آدم(ع)کا سلسلہ حضرت آدم (ع)کی پشت اور ان کے نسلوں سے برقرار کیا اور ان کو اپنے نفسوں پر گواہ بنایا تو اس وقت خدا نے فرمایا: کیا

____________________

( ۱ ) -۱-ینابیع المود-ج۲ص۲۴۸ح۵۳ط:دار الاسو-ایران۱۴۱۶ق و

(۲)ج۲ ص ۲۸۰ ح ۸۰۳

(۳)الحلی حسن بن سلیمان:المحتضر ص۱۰۶ط؛مکتب-الحیدری-النجف العراق ۱۳۷۰ق

۱۳۳

میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں سب کہنے لگے آپ ہمارے پروردگار ہے پھر فرمایا: میں تمہارا عظیم پروردگار ہوں اور محمد تمہارا نبی ہے اور علی (ع)تمہارا امیر اور سردار ہے

نیز شیخ ابراہیم بن محمد صاحب فرائد السمطین اپنی سند کے ساتھ سعید بن جبیر (ع)سے وہ ابن عباس (رض)سے روایت کرتے ہیں :

قال رسول الله(ص) : لعلی بن ابی طالب ی علی (ع) انا مدین- الحکم- وانت بابها ولن توتی المدین- الا من قبل الباب وکذب من زعم انّه یحبنی ویبغضک لانّک منی وانا منک لحمک من لحمی ودمک من دمی وروحک من روحی وسریرتک من سریرتی وعلانیتک من علانیتی وانت امام امتی وخلیفتی علیها بعدی سعد من اطاعک وشقی من عصاک (ع)( ۱ )

ابن عباس (رض)نے کہاکہ پیغمبر (ص)نے فرمایا: اے علی (ع)میں حکمت کا شہر ہوں تو اس کا دروازہ ہے اور ہر گز حکمت کے شہر میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا مگر اس کے دروازہ سے اوروہ شخص جھوٹا ہے جومجھ سے محبت کا گمان رکھے جبکہ تم سے بغض اور دشمنی رکھتا ہو کیونکہ میں تجھ سے ہوں اور تومجھ سے ہو تیر اگوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے تیری روح میری روح ہے تیرا ظاہر اور باطن میرا ظاہر اور باطن ہے تومیری امت کا پیشوی- ہو تو ان کے درمیان میرے بعد میرا جانشین

____________________

( ۱ ) -فرائد السمطین ،ج ۲ ص۲۴۳حدیث ۵۱۷

۱۳۴

ہو جو تیری اطاعت کرے وہ سعادتمند اور جوتیری نافرمانی کرے وہ بدبخت ہے-

اہم نکات:

مذکورہ احادیث میںپیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی (ع)کی عظمت ا ور شخصیت کو اس طرح بیان فرمایاہے کہ اگر کوئی میری شخصیت اور عظمت کا معتقد ہے تو ا سے چاہے علی (ع)کی عظمت اور شخصیت کا بھی معتقد ہوکیونکہ میں اور علی (ع)اگرچہ ظاہری طورپر دو انسان ہیں لیکن حقیقت میں ہم دونوں کی خلقت ایک نور سے ہے

اوردونوں کے وجود کاہدف بھی امت کی نجات اور انہیں گمراہی سے بچانا ہے لہذا حقیقی مسلمان وہی ہے جو توحید اور نبوت ومعاد پر ایمان کے ساتھ ساتھ امامت علی (ع)کا بھی اقرار کرے (ع)لہ-ذا ہر مسلمان پر یہ فرض بنتا ہے کہ حضرت علی (ع)اور اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھ کر اپنی ابدی زندگی کو برباد نہ کرے(ع)کیونکہ علی (ع)اور اولاد علی (ع)نہ ہوتے تو آج قرآن وسنت اور اسلام کا نام و نشان بھی باقی نہ رہت-

ان احادیث سے بخوبی اندازہ لگا یاجاسکتا ہے کہ حضرت علی (ع)اور دیگر اہل بیت کی عظمت خدا کی نظر میں کیا ہے؟ ان کو اتنی عظمت ملنے کا فلسفہ کیا ہے؟ ان چیزوں کوسمجھنے کی ضرورت ہے

۱۳۵

۱۳)اہل بیت کی عصمت

گذشتہ آیات و روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر کس وناکس اہل بیت کا مصداق نہیں بن سکتا ۔ بلکہ اہل بیت (ع) جو امت محمدی کےلئے وسیلہ نجات ہیں کے کچھ شرائط اور خصوصیات پیغمبر اکرم (ص)نے بیان فرمایا ہے کہ جس میں یہ خصوصیتیں ہوں وہ اہل بیت کا مصداق بنے گا اورجو اس ضابطہ اور معیار پر پورانہ اتر ے وہ اہل بیت کا مصداق نہیں بن سکتا ۔

جس میں طہارت، صداقت، علم ،ہدایت اور عصمت جیسی خصوصیتیں ہوں وہی اہل بیت کا فرد بن سکتا ہے چنانچہ بہت سی احادیث اس بات پر شاہد ہیں جن میں پیغمبر اکرم (ص)کے بعد پوری بشریت پر اہل بیت کی برتری اور فوقیت اور ان کے اوصاف و خصوصیات کو بیان فرمایا ہے۔

چنانچہ عامر بن وائلہ نے حضرت علی (ع)سے روایت کی ہے:

۱۳۶

قال: قال رسول الله(ص) یاعلی انت وصّی حربک حربی وسلمک سلمی وانت الامام وابوالائمة الاحد عشر الذین هم المطهرون المعصومون ومنهم المهدی الذی یملاء الارض قسطاً وعدلاً فویل لمبغضهم یاعلی لوانّ رجلاً احبّک واولادک فی الله لحشره الله معک ومع اولادک وانتم معی فی الدرجات العلی وانت قسیم الجنّة والنار تدخل بحبک الجنّة وببغضک النار ۔( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا : یاعلی (ع)تو میرا جانشین ہے جو تم سے جنگ کرے اس نے مجھ سے جنگ کی ہے جوتم سے صلح وصفا ئی سے پیش آئے اس نے مجھ سے صلح کی ہے (اے علی (ع))تو (لوگوں کے) امام اور ان گیارہ اماموںکے باپ ہو جو پاک وپاکیزہ اور معصوم ہیں ان گیارہ اماموں میں سے ایک مہدی ؑہوگا جو زمین کو عدل وقسط سے بھر دے گا پس غضب ہو تیرے اور ان اماموں کے ساتھ بغض رکھنے والوں پراے علی (ع)اگر کوئی تجھ سے اور تیری ذریت سے اللہ تبارک وتعالی کی خاطر دوستی رکھے توخدا اس کو روز قیامت تمہارے ساتھ محشور کرے گااور تو میرے ساتھ ہوگا، تو جنت اور جہنم کاقسیم ہے اپنے دوستوں کو جنت اور دشمنوں کوجہنم میںداخل کروگے۔

تحلیل :

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت کے تمام افراد میں عصمت

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج ۱ص ۸ ۳۔

۱۳۷

کا ہونا شرط ہے۔ چنانچہ فرمایا:''المطہرون ''، جس کا سرچشمہ آیت تطہیر ہے ، ''المعصومون ''جس کا سرچشمہ آیت صادقین ہے ۔ تومیرا جانشین ہے جس کا سرچشمہ آیت ولایت ہے ۔

پس اہل بیت کا ملاک اورمیزان یہ ہے کہ وہ معصوم ہو۔ جیساکہ بہت سارے علماء اور دانشمندوںنے آیات اور احادیث سے انبیائ اور ان کے جانشینوں کے معصوم ہونے کو ثابت کیاہے ۔جیساکہ علامہ فخررازی نے آیت ابتلا کے بارے میں فرمایا:

( انی جاعلک للناس اماما ) سے حضرت ابراہیم(ع)کی امامت کے علاوہ ان کا معصوم ہونا بھی ثابت ہوجاتاہے( ۱ ) نیز انہوں نے فرمایا:

آیت اولی الامر سے اولی الامر کی عصمت ثابت ہوجاتی ہے ۔اسی طرح کچھ اوراحادیث اور آیات سے بھی سنی علماء نے اولی الامر اور امام کی عصمت کو ثابت کیا ہے۔ لہذا آیات اور احادیث کی روسے اہل بیت کا مصداق بخوبی واضح اور روشن ہے جس میں اختلاف کرنا شاید مسلمانوں کی بدقسمتی کے علاوہ کچھ نہ ہو تب بھی تو آج دشمنوںنے ہماری اس بری سیرت کی بناء پر اتنی جرأت کے ساتھ تسلط جمایا ہے اگر مسلمانوں کو اپنے گھروں،شہروں اورممالک سے نکال باہر کردے اور

____________________

( ۱ ) ۔ مفاتیح الغیب ،ج۴،ص۴ ۰ ۔

۱۳۸

روز مرہ زندگی کی ضروریات اور تعلیم وغیرہ سے محروم بھی کردے ،پھر بھی ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے نظر آتے ہیں جبکہ انکی پوری طاقت مسلمانوں کے سرمایے سے ہے۔

لہذا آج مسلمانوں کا آپس میں اختلاف کرکے ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنا حقیقت میں قرآن وسنت اور نظام اسلام کی پامالی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔لہٰذامحققین کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور استعمار کے اشارے پر چلنے والے ایجنٹوں کی مخالفت کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہمارے آپس میں اختلاف اور تفرقہ پیدا نہ ہو۔

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

من سره ان یحی حیاتی ویموت مماتی ویسکن جنّة عدن التی غرسها ربی فیوال علیاً من بعدی ویوال ولیّه ویقتد باالائمة من بعدی فانّهم عترتّی خلقوا من طینتی ورزقوا فهماًو علماً وویل للمکذبین بفضلهم من امتی القاطعین فیهم صلتی لاانالهم الله شفاعتی ( ۱ )

''جو شخص میری طرح جینا اور میری طرح مرنا چاہے اور جنت عدن

____________________

( ۱ ) ینابیع المودۃص ۳۱۱

۱۳۹

(جسے میرے پروردگار نے مؤمنین کے لئے تیارکیاہے) میں رہنا چاہتا ہے تو میرے بعدعلی (ع)اور اس کے جانشینوں کی سرپرستی کو قبول کرےں نیز میرے بعد ان پیشواؤں کی اقتداء کرےں ۔کیونکہ وہی میرے اہل بیت وعترت ہیں اور میری طینت سے خلق کیاگیا ہے اور یہ فہم ودرک اور علم کی نعمت سے نوازے گئے ہیں اورمیری امت میں سے جوان کے فضائل کے منکر ہو ان پرغضب ہو کیونکہ خدا نے میری رسالت کا صلہ ان سے دوستی اور محبت رکھنے کو قرار دیا ہے ۔ لہذا جوان کے فضائل اور منزلت کا منکر ہوگا اسے میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔

تحلیل:

اس حدیث میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے بشر کی ہدایت اور ہلاکت و گمراہی سے نجات کاذریعہ واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے یعنی بشر یا محب اہل بیت ہے یادشمن اہل بیت ۔ اگر دنیا میں عزت ،شرف اور ابدی زندگی میں آسائش و راحت کا خواہاں ہے تو اہل بیت سے محبت کرنی ہوگی اور ان کی سیرتکو اپنی روزمرہ زندگی کے لئے نمونہ ومعیار قرار دےنا ہوگا،کیونکہ زندگی کے اصول وضوابط کاملاک اور معیار اہل بیت ہے ان کی سیرت طیبہ سے ہٹ کر کوئی شخص جتنی بھی زحمت اور مشقت اٹھائے بے فائدہ اورفضول ہے ۔ پس اس حدیث سے بھی اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کا اندازہ لگاسکتے ہیں یعنی حضور کی طرح جینا اور مرنا، جنت کا حصول حضور کی شفاعت اور عذاب جہنم سے نجات سب اہل بیت کی محبت اور اطاعت سے وابستہ ہے۔

۱۴۰