اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 72409
ڈاؤنلوڈ: 2591

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72409 / ڈاؤنلوڈ: 2591
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

بسمہ تعالی

نام کتاب:.............اہل بیت ،نجات کی کشتی (اہل سنت کی نظر میں)

مولف................محمد باقر مقدسی

کمپوزنگ وترتیب:.............محمدحسن جوہری

تصحیح و نظر ثانی:.............سید محمد رضوی

۳

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

انتساب

اپنے شفیق اور مہربان والدین کے نام

۴

حرف آغاز

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ذات باری تعالیٰ کا صدق دل سے سپاس گزار ہوں کہ جس نے عاصی کو اہل بیت کی شان میں قلم اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی۔

صرف وہی ذات ہے جس نے بشر کی خلقت کے ساتھ، بشر ہی کی ہدایت کےلئے ایک معصوم ہستی کو ایک مکمل ضابطہ حیات پر مشتمل دستور العمل کے ساتھ خلق فرمایا تاکہ بشر کی مادی اور معنوی زندگی مفلوج ہونے نہ پائے،اور اس سلسلے کو کائنات کی خلقت سے لے کر قیامت تک باقی رکھا تاکہ بشر سعادت مادی ومعنوی اور تکامل و ترقی کی منازل طے کرکے معبود حقیقی کی معرفت اور شناخت حاصل کرسکے،وہ خالق یکتا،وہ رازق منان ہے کہ جس نے بشر کی فلاح و بہبود ی کےلئے ہر قسم کی نعمتوں کو خلق فرمایا،وہ ذات ایسی ذات ہے کہ جس نے اپنی رحمت کو( انّ رحمتی وسعت کلّ شیئ ) کی شکل میں پوری مخلوقات خواہ انسان ہوں یا غیر انسان،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان سب کےلئے مہیا کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ہدایت اور تکامل و ترقی کے راستوں کو بھی بخوبی روشن فرمایا( انّا هدیناه السبیل امّا شاکراً و امّا کفوراً ) ۔

نیز اسی ذات ہی نے ہدایت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ہدایت تکوینی کو ہر شے کی طبیعت میں ودیعہ فرمایا،جبکہ ہدایت تشریعی کی ذمہ داری کو بشر میں سے انبیاء و اوصیاء کے کندھوں پر رکھی۔یہ انسان کی عظمت اور فوقیت کی بہترین دلیل ہے۔اور اسی ہدایت تشریعی کا نتیجہ ہے جو آج بشر انفرادی و اجتماعی،ثقافتی،سیاسی، علمی اور اعتقادی امور میں دیگر حیوانات کی مانند نظرنہیں آتا،بلکہ انسان احساس کرتاہے کہ اس کی زندگی کے پورے لمحات کو مکمل اصول و ضوابط سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔

۵

لہٰذا ہر انسان فطرتاً اصول و ضوابط اور قانون کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتاہے اور اصول و ضوابط کے بغیر زندگی مفلوج ہونے کا اعتراف،ہر بشر کی فطرت اور انسانیت واضح الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔تب ہی تو آج اس مادی عالم میں ہر انسان کسی نہ کسی نظام کے پابند رہنے کوضروری سمجھتا ہے۔اگرچہ تاریخ بشریت میں ایسے بہت سارے افراد کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے نظام اسلام کے مقابلے میں طرح طرح کے قوانین اور نظاموں کو ایجاد کرکے بزور بازو بشر پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کبھی مارکسزم کی شکل میں،کبھی سوشلزم اور کبھی کمیونزم وغیرہ کی شکل میں اسلام کے مقابلے میں بشر کے ہاتھوں ایجاد کردہ نظاموں کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو صرف انسانی خواہشات پر مشتمل ہے ، اسی لئے بہت ساری جانی و مالی قربانیوںاوربرسوں کوشش و تلاش کے باوجود ایسے نظاموں کو فروغ نہیں ملا ۔جبکہ نظام اسلام وہ واحد نظام ہے جس کے اصول و ضوابط میںنہ آج تک کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی تبدیلی آئے گی،کیونکہ نظام اسلام میںدو ایسی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں جو دوسرے نظاموں میں نہیں ہے:

۱)نظام اسلام کا بانی وہ ذات ہے جو بشر کے مفادات و مفاسد سے بخوبی آگاہ ہے اور یہ نظام انسان کی فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے،جبکہ باقی نظریات صرف چند افراد کے خواہشات اور طبیعت کے مطابق ہیں۔

۲) نظام اسلام کے مبلّغین اور ترویج کرنے والے بھی ایسی ہستیاں ہیں جو مکمل طور پر اس نظام سے آگاہی رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے عامل بھی تھے جبکہ دوسرے نظاموں کے مبلّغین نہ صرف نظام کے خدوخال سے واقف نہیں تھے بلکہ اکثراپنے نظام کے قوانین توڑنے والے ہوتے تھے۔

۶

لہٰذا ہزاروں نظریات و قوانین ایجاد کرنے کے باوجود آج تک کسی نظام کو نظام اسلام کی مانند استقرار اور دوا م حاصل نہیں ہوا۔اسی لئے بشر پر دوبڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:

۱)اللہ کی معرفت اور شناخت،جس نے ہماری سعادت کےلئے ہماری خلقت کے ساتھ نظام کو بھی تیار فرمایا۔

۲)اس نظام کی تبلیغ و ترویج کرنے والی ہستیوں کی معرفت،جنہوں نے قسم قسم کی تکلیفیں اٹھا کر ہم تک اس نظام کو پہونچادیا،یعنی پیغمبر اکرم (ص)اور ان کے اہل بیت ۔جس طرح اللہ کی معرفت ہم پر فرض ہے اسی طرح اہل بیت کی معرفت اور شناخت بھی ہم پر فرض ہے،اگرچہ عاصی کی زبان ایسی ہستیوں کی توصیف و تعریف کرنے سے قاصر ہے،عاصی کس زبان سے ان کی تعریف کرسکتاہے جبکہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی شان میں کبھی:( انّک لعلیٰ خلق عظیم کبهیانما ولیکم الله و رسوله.... ) کبھی( وما ینطق عن الهویٰ.... ) کبھی( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس... ) میںاہل بیت کی عظمت بیان فرمایاہے،نیزجب خدا ان کی سچائی کا اعلان کرنا چاہتا ہے تو''کونوا مع الصادقین'' اور جب مادی دنیا سے الفت نہ ہونے کی گواہی دینا چاہتاہے تو( قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربیٰ ) کی سند دے کر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے افراد ہی ہمارے اصول اور قوانین کے پابند ہیں۔

۷

لہٰذا فرشتے اور ملائکہ بھی ان کی توصیف اور تعریف کرنے سے اظہار عجز و ناتوانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لہٰذاایک ناقص انسان،انسان کامل کی تعریف و توصیف کیسے کرسکتا ہے اور کیسے معقول ہے کہ جس کا وجود ہر حوالے سے کامل ہو اس کی تعریف وہ انسان کرے جس کا وجود علم و آگاہی۔شرافت و عظمت کے حوالے سے ایک دم عاری ہو۔ان حضرات کے حقائق تک رسائی پیدا کرنا چاہے جن کی شان میں رحمۃ للعالمین کبھی'' مثل اهل بیتی کمثل سفینة نوح'' اور کبھی ''مصباح الہدیٰ'' اور کبھی''لو اجتمع الناس علیٰ حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار ''سے تعبیر کرتے ہیں۔لہٰذا بشر کواہل بیت کی عظمت اور حقانیت کے متعلق غور اور ان کی ولایت و سرپرستی کوتہہ دل سے تسلیم کرنا چاہے۔

فضائل اہل بیت بیان کرنا ایک عادی اور عام انسان کی قدرت سے بالا تر ہے۔ لیکن محبت ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے محبوب کی تعریف کرنے سے قاصر انسان کی بھی زبان کھل جاتی ہے،بقول شاعر:

رحمت نے تری یارب رتبہ یہ مجھے بخشا

پھولوں میں تُل رہے ہیں کانٹے مری زباں کے

۸

اولاً:مداحان محمد(ص)و آل محمد کی صف میں شاید عاصی کا نام بھی درج ہو۔

ثانیاً: دور حاضر کے مختلف توہمات اور اعتراضات کے پیش نظر اہل بیت کی شان میں ایک کتاب قارئین محترم کی خدمت میں'' اہل بیت نجات کی کشتی (اہل سنّت کی نظرمیں)''کے عنوان سے پیش کرنااپنی شرعی ذمہ داری سمجھتا ہوں تاکہ مسلمانوں کے مابین یکجہتی اور اتحاد قائم ہو۔اگرچہ کما حقہ ان کے فضائل کو بیان کرنا عاصی کی گنجائش سے خارج ہے لیکن اس دور میں اسلامی افکار اور معارف اسلامی سے معاشرے کی آبیاری کرنا علماء اور ہر طالب علموں پر فرض ہے لھذا عاصی نے کسی غرض مادی ومقام ومنزلت دنیوی کے بغیر آنے والے عناوین کی وضاحت اہل بیت کی شان میں اھل سنت کی کتابوں سے آیات اور احادیث کی روشنی میں کی ہے تاکہ یہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی روز قیامت کی ہولناک سختیوں سے نجات اور دنیا وآخرت کی سعادت کا باعث بنے۔

رب العزت سے اہل بیت کے صدقے میںاس ناچیز خدمت کو قبول اور اس کو ہماری دنیا و آخرت کےلئے باعث سعادت قرار دینے کی دعا ہے۔ اللہ ہم سب کو اہل بیت کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے،اہل بیت کی معرفت اور شناخت سے محروم نہ فرمائے اورہمیشہ ان سے متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے

۔(آمین)

الاحقر

محمد باقر مقدسی ہلال آبادی

حوزہ علمیہ قم

۹

پہلی فصل

اہل بیت کی عظمت قرآن کی روشنی میں

بہت ہی اختصار کے ساتھ اہل بیت کی شان میں کچھ آیات کریمہ کو اہل سنت کی معتبر تفاسیر سے نقل کرتاہوں،امید ہے کہ قارئین محترم مذکورہ آیات کے متعلق سنی مفسرین کی نظر اور کتب کی طرف مراجعہ کرکے آل محمد کی سیرت اور حقانیت کو پورے عالم میں پھیلانا اپنی ذمہ داری سمجھیںگے،تاکہ اس صدی کے لوگ زیادہ سے زیادہ ان کی حقانیت پر ایمان اور یقین پیدا کرسکیں۔

تفصیلی گفتگو نہ سہی،لیکن اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی خاطر ایک اجمالی خاکہ اور تصور اہل بیت کے بارے میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔

اہل بیت کے بارے میں اہل سنت کے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں دو قسم کی آیات بیان کی ہیں:

۱)بعض آیات میں تمام اہل بیت کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔

۲)بعض آیات میں اہل بیت میں سے ہر ایک کی فضیلت کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔لہٰذا ہم سب سے پہلے ان آیات کی طرف اشارہ کریں گے جن میں تمام اہل بیت و عترت کی فضیلت بیان ہوئی ہے:

۱۰

۱)اہل بیت کی دوستی میں نیکیوں کا دس گنا ثواب

خدا نے فرمایا:( من جاء بالحسنة فله عشرامثالها ومن جاء بالسیئة فلا یجزی الّا مثلها وهم لا یظلمون ) (۱)

جو شخص خدا کے پاس ایک نیکی لے کر آیااسے اس کا دس گنا ثواب عطا ہوگا اور جو شخص بدی لے کر آئے گا تو اس کی سزا اس کو بس اتنی دی جائے گی اوران پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر آیہ:

اگرچہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے متعلق شیعہ و سنی کی کتابوں میںکئی روایات کو ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کے بارے میں مرحوم علامہ سیّدمحمّدحسین طبا طبائی (رح) مفسر قرآن اور عارف زمان نے فرمایا:

''هناک روایات کثیرة فی معنی قوله:من جاء بالحسنة.....رواها الفریقان واوردوها فی تفسیر الآیة غیر انها

____________________

( ۱ ) .انعام/۱٦ ۰

۱۱

واردة فی تشخیص المصادیق من صلوة.........'' ( ۱ ) یعنی اس آیت کریمہ کی تفسیر کے بارے میں فریقین نے کئی روایات نقل کی ہیں لیکن ساری روایات آیت کے مصادیق کی تشخیص جو صوم و صلوۃ وغیرہ

ہیں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

لیکن جناب فرمان علی نے اپنے ترجمہ قرآن میں ایک روایت نقل کی ہے جس کایہاں ذکر کرنا زیادہ مناسب ہے:

''حضرت علی (ع)نے فرمایا:الحسنة حبّنا اهل البیت و السیئة بغضنا من جاء بهااکبّ الله علی وجهه فی النار ( ۲ )

نیکی سے مراد ہم اہل بیت کی دوستی اور بدی سے ہم سے کی جانے والی دشمنی ہے،لہٰذا جو شخص ہم سے دشمنی رکھے گا خدا اسے منہ کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔

مذکورہ روایت کی بنا پرآیت سے اہل بیت کی عظمت اور فضیلت واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی محبت اور دوستی میں انجام دی ہوئی نیکیوں کا اجر و ثواب ان کی دوستی اور محبت کے بغیر انجام دی ہوئی نیکیوں کے اجر و ثواب سے کافی فرق رکھتا

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج ۷ ص۳ ۹ ۲

( ۲ ) ۔ترجمہ فرمان علی ( رح ) حاشیہ ۳ ص٦ ۰ ۵

۱۲

ہے،اگرچہ نیکیوں کی نوعیت کمیت و کیفیت کے حوالے سے ایک ہی کیوں نہ ہواسی لئے کچھ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت کی محبت و دوستی کے بغیر کوئی بھی نیکی خدا کے یہاں قابل قبول نہیں ہے لیکن اگر کسی کا عقیدہ یہ ہو کہ اہل بیت کی محبت و دوستی کے بغیر بھی خدا ہر نیکی کو قبول فرماتا ہے تواس کا ثواب یقیناکم ہے۔

۲)اہل بیت کے واسطے خدا،عذاب نازل نہیں کرتا

( وما کان اللّٰه لیعذّبهم وانت فیهم وما کان اللّٰه معذّبهم وهم یستغفرون ) ( ۱ )

خدا ان پر اس وقت تک عذاب (نازل)نہ کرے گا جب تک پیغمبر (ص)ان کے درمیان ہیں اورخدا ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوں اور وہ ان پر عذاب نازل کرے۔

تفسیر آیہ:

علامہ ابن حجر مکّی نے صواعق محرقہ نامی کتاب کواہل تشیع اور امامیہ مذہب کے عقائد کوباطل قرار دینے اور ان کی رد میں لکھی ہے۔لیکن اس کے باوجود علامہ فرمان علی (رح) نے اس آیت کی تفسیر میں صواعق محرقہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

____________________

( ۱ ) ۔انفال/۳۳

۱۳

ابن حجر مکّی نے اس آیت کو فضائل اہل بیت بیان کرنے والی آیات میں شمارہ کیا ہے،چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا ؐنے اس مطلب کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح میں اہل زمین کی پناہ کا باعث ہوں اسی طرح میرے اہل بیت بھی ان کے امان اور عذاب الہٰی سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہیں( ۱ )

ایسے متعصب دانشوروں کے ہاتھوں اہل بیت کی حقانیت بیان کرنے والی روایت کا درج ہونا ایک معجزہ ہے۔چنانچہ اس مطلب کو استاد محترم حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ وحید خراسانی مد ظلہ العالی نے دوران درس حضرت امیر المومنین(ع)کی ولادت کی مناسبت سے ان کے فضائل کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہا کہ معجزہ اس کو کہا جاتا ہے جو ہمارے مذہب کی ردّ میں لکھی ہوئی کتاب میں ہی ہماری حقانیت ثابت کرنے والی روایات منقول ہوں۔( ۲ )

۳)اہل بیت درخت طوبیٰ کے مصداق ہیں

( الذین آمنوا وعملوالصٰلحٰت طوبی لهم و حسن مآب ) ( ۳ )

''جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کام انجام دیئے ان کے واسطے

____________________

( ۱ ) ۔صواعق محرقہ نقل از ترجمہ قرآن،فرمان علی ( رح ) حاشیہ۳،ص۲۴۵

( ۲ ) ۔مسجد اعظم ،سال۱۳ ۸۰ ھ ش ( ۲ ۰۰ ۱ئ ) ۔

( ۳ ) ۔الرعد /۲ ۹ ۔

۱۴

(بہشت میں)طوبی، خوشحالی اور اچھا انجام ہے۔''

تفسیر آیہ:

ثعالبی نے جو اہل سنت کے معروف ومشہور علماء میں شمار کئے جاتے ہیں اپنی سند کے ساتھ کلبی سے، کلبی نے ابی صالح سے وہ ابن عباس (رض)سے روایت کرتے ہیں:

طوبیٰ شجرة اصلها فی دار علی فی الجنة و فی دار کل مومن فیها غصن ( ۱ )

طوبی جنت میں ایک درخت کا نام ہے جس کی جڑیں جنت میں حضرت علی (ع)کے گھر میں ہیں اور اس کی شاخیں جنت میں ہر مومن کے گھروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

ابن خاتم نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ طوبی ایک جنت کے درخت کا نام ہے جس کی جڑیں علی ابن ابی طالب (ع)کے گھر میں ہیں اور جنت میں کوئی ایسا گھر نہیں ہے جس میں اس درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ نہ ہو۔( ۲ ) نیز ابن ابی خاتم نے فرقد سنجی سے روایت کی ہے کہ خدا نے انجیل میں

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج ۱۱ ص۳٦ ۹ ،در منثورج ۴ص۳۱۳

( ۲ ) ۔در منثور ج ۴ص۳۲۱

۱۵

حضرت عیسیٰ (ع)کے پاس وحی بھیجی کہ اے عیسیٰ (ع)میرے امور میں سعی کرو اور لغو نہ سمجھو اور میری بات سنو،میرا کہنا مانو،اے فرزندبتول میں نے تم کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور تم کو اور تمہاری ماں کو سارے جہاں کےلئے اپنی قدرت کی نشانی بنائی ،تم میری عبادت کرو اور مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لو،اس وقت حضرت عیسیٰ (ع)نے عرض کیا :خدایا میں کون سی کتاب کو مضبوطی سے تھام لوں،حکم ہوا انجیل کو مضبوطی سے تھام لو،اورسر یانیہ والوں کے سامنے بیان کرو اور ان کو خبر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے،میں حیّ ہوں ،قیوم ہوں، بدیع ودائم ہوں،کبھی فنا نہیں ہوں گا،مجھ پراورمیرے حبیب پر جومیرے آخری رسو ل اور امّی ہیں، ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو اور اس نبی (ص)کی متابعت اور پیروی کرو جو اونٹ پر سوار ہوگا،بدن پر بال کے کپڑے،ہاتھ میں عصا اور سر پر تاج ہو گا اور اس کی آنکھیں بڑی بڑی ہونگی اور دونوں بھنویں ملی ہوئی ہونگی،صاحب کساء ہوگا،اس کی نسل اس مبارک خاتون سے پھیلے گی جس کا نام خدیجہ(س) ہوگا،اس خاتون کے واسطے خدا نے موتیوں کا محل بنوایا ہے جس میں سونے کا کام کیا ہوا ہے، اس میں نہ کوئی تکلیف ہوگی اور نہ رنج،ا(بہشت میں)طوبی، خوشحالی اور اچھا انجام ہے۔''

۱۶

تفسیر آیہ:

ثعالبی نے جو اہل سنت کے معروف ومشہور علماء میں شمار کئے جاتے ہیں اپنی سند کے ساتھ کلبی سے، کلبی نے ابی صالح سے وہ ابن عباس (رض)سے روایت کرتے ہیں:

طوبیٰ شجرة اصلها فی دار علی فی الجنة و فی دار کل مومن فیها غصن ( ۱ )

طوبی جنت میں ایک درخت کا نام ہے جس کی جڑیں جنت میں حضرت علی (ع)کے گھر میں ہیں اور اس کی شاخیں جنت میں ہر مومن کے گھروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

ابن خاتم نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ طوبی ایک جنت کے درخت کا نام ہے جس کی جڑیں علی ابن ابی طالب (ع)کے گھر میں ہیں اور جنت میں کوئی ایسا گھر نہیں ہے جس میں اس درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ نہ ہو۔( ۲ ) نیز ابن ابی خاتم نے فرقد سنجی سے روایت کی ہے کہ خدا نے انجیل میں

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج ۱۱ ص۳٦ ۹ ،در منثورج ۴ص۳۱۳

( ۲ ) ۔در منثور ج ۴ص۳۲۱

۱۷

حضرت عیسیٰ (ع)کے پاس وحی بھیجی کہ اے عیسیٰ (ع)میرے امور میں سعی کرو اور لغو نہ سمجھو اور میری بات سنو،میرا کہنا مانو،اے فرزندبتول میں نے تم کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور تم کو اور تمہاری ماں کو سارے جہاں کےلئے اپنی قدرت کی نشانی بنائی ،تم میری عبادت کرو اور مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لو،اس وقت حضرت عیسیٰ (ع)نے عرض کیا :خدایا میں کون سی کتاب کو مضبوطی سے تھام لوں،حکم ہوا انجیل کو مضبوطی سے تھام لو،اورسر یانیہ والوں کے سامنے بیان کرو اور ان کو خبر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے،میں حیّ ہوں ،قیوم ہوں، بدیع ودائم ہوں،کبھی فنا نہیں ہوں گا،مجھ پراورمیرے حبیب پر جومیرے آخری رسو ل اور امّی ہیں، ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو اور اس نبی (ص)کی متابعت اور پیروی کرو جو اونٹ پر سوار ہوگا،بدن پر بال کے کپڑے،ہاتھ میں عصا اور سر پر تاج ہو گا اور اس کی آنکھیں بڑی بڑی ہونگی اور دونوں بھنویں ملی ہوئی ہونگی،صاحب کساء ہوگا،اس کی نسل اس مبارک خاتون سے پھیلے گی جس کا نام خدیجہ(س) ہوگا،اس خاتون کے واسطے خدا نے موتیوں کا محل بنوایا ہے جس میں سونے کا کام کیا ہوا ہے، اس میں نہ کوئی تکلیف ہوگی اور نہ رنج،اس کی ایک بیٹی ہوگی جس کا نام فاطمہ (س)ہوگا اور اس کے دو بیٹے ہونگے(حسن و حسین (ع))جو شہید کردیئے جاینگے۔جو شخص اس نبی (ص)کے زمانے میں موجود ہو اوراس کی باتیں سنے اس کےلئے طوبیٰ ہے۔

۱۸

حضرت عیسیٰ (ع)نے عرض کیا کہ طوبی ٰکیا ہے؟حکم ہوا :طوبیٰ بہشت کا ایک درخت ہے جس کو میں نے اپنی قدرت واسعہ سے بویا ہے اور میرے فرشتوں نے اسے قائم رکھا ہے، اس کی جڑیںرضوان میںہے اور اس کا پانی تسنیم ہے ۔( ۱ )

در منثور( ۲) میں تفسیر ثعالبی سے بہت ساری روایات کواس آیت کی تفسیر میں نقل کیا گیا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ طوبیٰ سے جنت کا ایک درخت مراد ہے جو خدا نے اہل بیت کےلئے بویا ہے جس کی برکت سے قیامت کے دن مومنین کی شفاعت ہوگی ور ان کے گناہوں کو معاف کیا جائے گا ،جس کی نگہداری کےلئے خدا نے اپنی مخلوقات میں سے امین ترین مخلوق کو جو فرشتے ہیں مقرر کیا ہے اور قیامت کے دن ہر مومن کےلئے اس درخت کی ضرورت ہوگی۔

۴) اہل بیت حقانیت ثابت کرنے کےلئے بہترین وسیلہہیں

چاہے نبی(ص) اور امام(ع) کی حقانیت کا اثبات ہو یا کسی اور مسئلہ کی حقانیت کا ثبوت اس کے لئے بہترین دلیل اہل بیت ہیں چنانچہ خدا نے حضر ت رسول اکرم (ص) کی حقانیت ثابت کرتے ہوئے فرمایا:

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج۴ ص۳۴۵

( ۲ ) ج۴ ص٦۴۵

۱۹

( فَمَنْ حَآجَّكَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ ) (۱)

پھرجب تمھارے پاس علم(قرآن)آیااس کے بعدبھی اگر تم سے کوئی نصرانی عیسی(ع)کے بارے میں لجاجت کرے تو کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلائں گے تم اپنے بیٹوۂبلاو ہم اپنی عورتوں کو بلائں گے تم اپنی عورتوں کو بلاو ہم اپنی جانوں کو بلائںگے تم اپنی جانوں کو بلاو پھر ہم سب مل کر(خدا کی بارگاہ میں )ھم دعا کرتے ہیں پھر جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو

تفسیر آیہ

آیہ کی شان نزول کے بارے میں فریقین کا اجماع ہے

کہ یہ آیہ پنجتن پاک(ع)کی شان میں نازل ہوئی ہے (ع)جیسا کی علامہ سیوطی نے اس آیہ کی شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:جب عاقب اور سید اوردیگر نجران کے بزرگو ں پر مشتمل ایک وفد کو پیغمبر اکرم(ص)نے کئی دفعہ حضرت عیسی (ت) کے بارے میں سمجھایا لیکن ایک بھی نہیں سنا آخر کار رسول اکرم(ص) نے ان سے مباہلہ کرنے کاوعدہ فرمایاجس کے

____________________

(۱)آل عمران ۶۱

۲۰